اسلامی فکروثقافت کی سب سے نمایاں اور مرکزی پہچان اور خصوصیت اس کا مبنی بر وحی ہونا ہے۔ یہ وہ جوہری پہلو ہے جو اس ثقافت کو انفرادیت بخشتا ہے۔ دنیا کی اکثر ثقافتیں اور افکار اپنے آپ کو کسی فرد، خطے یا دَور سے وابستہ و منسلک کرتے ہیں چنانچہ نوافلاطونیت ہو یا یونانی فکر، بازنطینی فنِ تعمیر ہو یا ویدائوں اور مہابھارت کا دور، ساسانی ثقافت ہو یا نوبیائی قبائل کے رسوم ورواج، یہ سب اپنی فکر وثقافت کو خطۂ زمین یافرد اور تاریخ کے ایک مخصوص دور سے اپنی وابستگی کی بناپر پہچانی اور پکاری جاتی ہیں۔ انسانی فکر کو مطلق اور حقیقی ماننے والی تمام تہذیبوں میں خطّے اور وقت کو بنیادی حیثیت حاصل رہی ہے۔ چنانچہ تہذیب و ثقافت کی پیدایش کسی صحرا میں ہوئی ہو یا کسی شہری آبادی میں، اس کی جڑیں ہمیشہ مقامی رسوم و رواج، فکر اور بودوباش میں پائی جاتی ہیں چنانچہ کسی بھی قوم یا گروہ کے رسوم و رواج عرصۂ دراز تک عمل کرنے کے نتیجے میں ایک قدر (vaule) اور ایک اصول (norm) کا مرتبہ حاصل کرلیتے ہیں۔ اسی بنا پر ہم جس ثقافت و تہذیب کو مغربی کہتے ہیں وہ یورپی اقوام کے بودوباش، لباس، غذا اور طرزِحیات کے نتیجے میں رواج پاجانے والے طرزِعمل کا نام ہے۔ اسی طرح ہندستانی کلچر اُن رسوم و رواج کے جو مقامی طور پر ہندستان میں بسنے والے دراوڑ، برہمن اور دیگر ذاتوں کے افراد نے اختیار کیے اور ایک عرصے تک ان پر عمل کے نتیجے میں وجود میں آیا اوران رسوم و رواج نے آہستہ آہستہ ایک قدر اور اصول کا مقام حاصل کرلیا۔ مغرب ہو یا مشرق، اقدار و قانون کو ہمیشہ زمان و مکان کی پیداوار اور ’انسانی ارتقا‘ ہی سے وابستہ کیا جاتاہے اور اس بنا پر یہ بات بطور ایک کلیہ کے تسلیم کرلی گئی ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ اقدار (value) اور ثقافت بھی تبدیل ہونی چاہیے۔ اس تصور کو اتنے وثوق سے بیان کیا جاتا ہے کہ بعض بظاہر معقول افراد بھی اس پر ایمان بالغیب لے آتے ہیں اور جدیدیت کے نعرے کی لَے میں لَے ملاتے ہوئے اسلامی فکروثقافت کو یا تو قدامت قرار دے کر رد کرنا چاہتے ہیں یا اسلامی فکروثقافت کو بنیادی طور پر عربی ثقافت قرار دینے کے بعد یہ کوشش کرتے ہیں کہ اس کی ’عربیت‘ سے نجات حاصل کرنے کے لیے قرآن و سنت میں موجود قوانین و ضوابط کو عرب قبائلی معاشرہ کا ثمر قرار دیتے ہوئے اور ان کی ’روح‘ کو برقرار رکھتے ہوئے اپنی پسند کی ایسی شریعت وضع کرلیں جس میں حدود کے قرآنی قوانین اور وراثت اورمناکحت کے احکام کو ساتویں صدی کے قوانین قرار دے کر ’دورِ جدید‘ کے مغربی قوانین و ضوابط کی روشنی میں نظرثانی کرنے کے بعد جدید شکل دی جائے اور اس طرح اپنے خیال میں اسلام کے جدید (modern) اور بے ضرر ہونے کو ثابت کیا جاسکے۔
اس جذبے کے قابلِ احترام ہونے اور ایسے افراد کی تمام نیک نیتی کے باوجود فکر کی یہ غلطی مغرب کی ذہنی غلامی اور مغرب کو اپنا قبلہ سمجھنے کا پتا دیتی ہے کیونکہ اصولی طور پر اسلامی فکروثقافت کی جڑیں نہ عرب قبائل کی تہذیب میں پائی جاتی ہیں نہ ایرانی، افریقی یا ترک یا پاکستانی رسوم و رواج میں۔ اسلام کسی وطن یا قوم کو اپنا ماخذ نہیں مانتا۔ اسلامی فکروثقافت زمان و مکان اور وطنیت اور علاقائیت کی قید سے آزاد ہوکر اپنی جڑیں بجاے زمین میں پیوست کرنے کے وحیِ الٰہی کو اپنا ماخذ قرار دیتی ہے۔ چنانچہ اس کی جڑیں فضا کی گہرائیوں میں مستحکم ہیں اور تنا، شاخیں اور پھل زمین پر پھیلے ہوئے ہیں۔
ایک سادہ نقشہ اسلامی فکروثقافت اور دیگر فکروثقافت کے نشوونما کے فرق کو زیادہ آسانی سے واضح کرسکتا ہے۔ غیر اسلامی فکر وہ اخلاق میں ہو، معیشت و معاشرت میں ہو یا سیاست و قانون میں اس کی ارتقائی شکل یوں نظر آتی ہے:
اس نقشے میں غیراسلامی ماڈل میں اخلاقی اقدار ایک معاشرتی ارتقائی عمل کے نتیجے میں وجود میں آتی ہیں اور عقلی طور پر وقت کے ساتھ تبدیل ہوتی رہتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یورپ میں جو اخلاقی اقدار اٹھارہویں صدی میں باعث ِ فخر سمجھی جاتی ہے، وہ ۲۰ویں صدی میں متروک اور ناقابلِ عمل سمجھی جانے لگیں۔ اخلاق کو ارتقائی عمل کے تابع کرنے کے نتیجے میں اخلاق ایک اضافی قدر بن گیا اور موقع اور محل کے لحاظ سے اس میں رد و بدل اور تبدیلی کو فطری سمجھ لیا گیا۔ اسلامی ماڈل اس تصور کی ضد ہے اور وہ وحیِ الٰہی کی بنیاد پر نازل کردہ اخلاقی اقدار کو ابدی، فطری اور مطلق قرار دیتا ہے۔
گویا علومِ عمران، نفسیات، معیشت، سیاست و قانون کے مطالعے میں جو معاشرتی و ثقافتی ارتقا مشرق و مغرب کی درس گاہوں میں ذہن نشین کیا جاتا ہے اور جس کی بنا پر لادینی ذہن کے دانش ور ہوں یا دینی ہمدردی رکھنے والے ’عوامی علامہ‘ اس بنیادی فرق کو نہ سمجھنے کی وجہ سے ہمیشہ اس فکر میں رہتے ہیں کہ دوسروں کو مطمئن اور خوش کرنے کے لیے کسی طرح اسلامی شریعت کے ان احکام کو جو ان کی دانست میں عربوں کے قبائلی رسوم و رواج کا حصہ تھے اور خالقِ کائنات نے شاید ’مروتاً‘ قرآن کی محکم آیات میں شامل کر دیے تھے، ان پر نظرثانی کر کے انھیں کسی نہ کسی طرح اقوامِ متحدہ کی کسی ذیلی کمیٹی کے مجوزہ معیار کے مطابق کردیا جائے۔
اگر قرآن کریم غیرمحرف، مطلق ، کلامِ الٰہی منزل من اللہ اور اللہ تعالیٰ کی اپنی ضمانت پر دنیا میں اور لوحِ محفوظ پر اپنی اصل شکل میں محفوظ ہے اور اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ عزیزو علیم ہے تو کیا جس معاشرتی ارتقا، تکنیکی ترقی کی بنا پر یہ حضرات یہ سمجھتے ہیں کہ حدود، وراثت، تعدّد ازواج وغیرہ کے قرآنی نظام پر نظرثانی ہونی چاہیے، یہ ترقی اور تبدیلیِ زمانہ و حالات اُس علیم ہستی کے احاطۂ علم میں نہ تھا جس نے اس قرآن کریم اور صاحب ِ قرآن کو قیامت تک کے لیے آخری شریعت قرار دیا؟ اس جملۂ معترضہ سے قطع نظر، اصل بات جو یہاں بیان کرنا مطلوب ہے یہ ہے کہ اسلامی فکر و ثقافت وحی کی بنا پر وجود میں آتی ہے نہ کہ معاشرتی ارتقا کے نتیجے میں۔ وحی اس کی بنیاد ہے، وحی اس کا ماخذ ہے اور وحی اس کا مصدر ہے۔
وحی کے مصدر مطلق ہونے کو قرآن کریم نے مختلف مثالوں سے سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہم بعض بدیہات پر سے بھی سرسری طور پر گزر جائیں۔ قرآن کریم میں شہد کی مکھی کے حوالے سے فرمایا گیا ’’اور دیکھو تمھارے رب نے شہد کی مکھی پر یہ بات وحی کردی کہ پہاڑوں میں اوردرختوں میں اور ٹیلوں پر چڑھائی ہوئی بیلوں میں اپنے چھتے بنا اور ہر طرح کے پھلوں کا رس چوس اور اپنے رب کی ہموار کی ہوئی راہوں پر چلتی رہ۔ اس مکھی کے اندر سے رنگ برنگ کا شربت نکلتا ہے جس میں شفا ہے لوگوں کے لیے۔ یقینا اس میں بھی ایک نشانی ہے ان لوگوں کے لیے جو غوروفکر کرتے ہیں‘‘۔(النحل ۱۶: ۶۸-۶۹)
شہد کی مکھی کو جو کام وحی کے ذریعے کرنے کا حکم دیا گیا وہ اس پر کاربند ہے۔ اسے جو شریعت دی گئی اور ’’جسے رب کی ہموار کی ہوئی راہ‘‘ کہا گیا وہ اس پر استقامت سے کام کر رہی ہے۔ حضرت آدم ؑسے لے کر آج تک دنیا کے ہرخطے میں منوں ٹنوں شہد جس شریعت پر عمل کرنے کے نتیجے میں انسانوں کو شفا دینے اور لذت کام و دہن کے لیے مل رہا ہے۔ جدید ترین ٹکنالوجی کے میسر آجانے کے بعد بھی اُس شریعت میں کوئی تبدیلی نہ واقع ہوئی نہ واقع کی جاسکی۔ حالات بدلتے رہے۔ سنگلاخ پہاڑ ہوں یا لہلہاتے کھیت، میدانی علاقے ہوں یا شہر، شہد کی مکھی ایک ماہر سول انجینیر کی طرح موم کے چھتے یکساں پیمایش اور یکساں زاویوں کی شکل میں ہزارہا سال سے بنارہی ہے۔ کسی مکان کی چھت کا اندرونی حصہ ہو یا کسی درخت کی شاخ یا پہاڑی کا غار، وہ فنی جائزے کے بعد طے کرتی ہے کہ کہاں پر شہد زیادہ محفوظ رہے گا۔ بعض اوقات وہ صرف ایک قسم کے پھولوں سے رس لے کر آتی ہے اور بعض اوقات مختلف رنگوں کے پھولوں سے اور یہ سب کچھ ایک شریعت اور ضابطے کے تحت کر رہی ہے۔ شہد کی اِس ثقافت کی بنیاد صرف وحی پر ہے۔ شہد کی مکھی کی اپنی اپج، ارتقائی فکر یا ماحول سے سیکھنے کے بعد ایک فنی صلاحیت پیدا کرنے پر نہیں ہے۔
اسی طرح دیگر مخلوقات اپنے اپنے دائرۂ کار میں وحیِ الٰہی کی بنیاد پر مقرر کردہ نظام پر عمل پیرا ہیں۔ آسٹریلیا میں پائے جانے والے بعض پرندے انڈے دینے کے بعد آسٹریلیا سے امریکا کا رُخ کرتے ہیں۔ ان کے نومولود بچے جیسے ہی اڑنے کے قابل ہوتے ہیں فطری طور پر اپنے ماں باپ کی طرح کسی رہنما اور گائیڈ کی مدد کے بغیر وحی کی بنا پر امریکا کا رُخ کرتے ہیں۔ انسانوں کے لیے وحی کلامِ الٰہی کی صورت میںکتاب میں تحریری صورت میں آتی ہے۔
اسلامی فکروثقافت کے وحی پر مبنی ہونے کی وجہ سے اس کی چار بنیادی خصوصیات اُبھر کر سامنے آتی ہیں جو براہِ راست وحی سے وابستہ ہیں۔ پہلی خصوصیت یہ کہ یہ فکروثقافت کسی دیومالائی ماضی (mythological past) کی مرہونِ منت نہیں بلکہ روشن تاریخی سیاق میں وجود میں آئی ہے کیونکہ خود الکتاب اپنے بارے میں یہ بتاتی ہے کہ اسے ایک مبارک قوت و قدرت رکھنے والی رات (لیلۃ القدر) میں نازل کیا گیا جس کی تقویم یہ بتاتی ہے کہ یہ رمضان کی آخری ۱۰راتوں میں سے ایک طاق رات تھی۔ محدثین کا غالب گمان یہی ہے کہ یہ ستائیسویں شب تھی لیکن بعض حکمتوں کی بنا پر قرآن کریم اور صاحب ِ قرآن نے اس کے نزول کو کسی ایک رات میں محدود کرنے کی جگہ ۲۱،۲۳، ۲۵، ۲۷ یا ۲۹ویں شب میں سے کسی ایک میں قرار دیا تاکہ آخری عشرے میں تمام طاق راتوں میں اہلِ ایمان قرآن کریم سے اپنے رشتے کو تازہ اور مستحکم کرسکیں۔
اسی بات کو عموم کے ساتھ سورۃ الدخان میں ’مبارک رات‘ کے حوالے سے کہا گیا اور اس کو البقرہ میں رمضان کے روزے کی فرضیت کے سیاق میں بیان کیا گیا۔ وحیِ الٰہی اور دیگر معروف صحفِ سماوی کا تقابلی مطالعہ کیا جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ وہ ہندوازم کی مقدس کتابیں ہوں یا انجیل و تورات، اوسیتا یابدھ ازم میں بدھا سے منسوب کلمات،ان کی تدوین و تسوید ان مذاہب کے بانیان کے وصال کے بہت عرصہ بعد اکثر ان افراد نے کی جو کم از کم دوسری نسل سے تعلق رکھتے تھے وگرنہ صدیوں بعد ان تعلیمات کو قید تحریر میں لایا گیا۔ بدھا کی تعلیمات ان کی وفات کے ۴۰۰ سال بعد پہلی مرتبہ پالی زبان میں مرتب ہوئیں اور پھر ترجمہ در ترجمہ دیگر زبانوں میں منتقل ہوئیں۔ ہندوازم کی مقدس کتب صدیوں تک گردش کرنے کے بعد تحریر میں محفوظ کی گئیں۔ قطعیت کے ساتھ یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ ان کا صحیح سنہ نزول کون سا ہے۔ اس کے مقابلے میں وحی جس لمحے سے نازل ہوئی قرآن کریم کی شکل میں نہ صرف تحریر بلکہ حافظوں میں اس کا ایک ایک حرف و صوت صحابہ کرامؓ اور خود شارعِ اعظمؐ کے سینۂ اقدس میں محفوظ ہوگیا اور ہر سال رمضان المبارک میں ہزاروں لاکھوں افراد کے مجمع میں مسلسل پندرہ سو سال سے اس کی اجتماعی تلاوت، اس کی حفاظت اور نشرواشاعت کا ایک فطری عمل بن گئی۔گویا اسلامی فکروثقافت کی یہ بنیاد ایک تاریخی حقیقت ہے۔ یہ فضول دیومالائی کہانیوں کی طرح غیرمعتبر نہیں۔ یہ فکروثقافت اپنی جوہری شکل میں اسی وقت وجود میں آگئی جب وحیِ الٰہی نے پڑھنے اور قرأت کرنے کے حکم کے ساتھ انسانیت کی ہدایت، تعلیم اور تربیت کے لیے ایک جامع اور مکمل ہدایت نامہ انسانوں کے حوالے کیا۔
اسلامی فکروثقافت کی دوسری اہم خصوصیت اس کی عالم گیریت ہے۔ انسانوں کے ساختہ نظام، فلسفے اور قوانین وقت اور مکان کی قید سے آزاد نہیں ہوسکتے۔ یہی وجہ ہے کہ یونانی فلسفہ ہو یا جدیدیت پر مبنی فکر، وقت گزرنے کے ساتھ اس میں تبدیلی، نظرثانی، حذف و اضافے کی ضرورت پیش آجاتی ہے۔ وحی الٰہی وقت و مکان کی قید سے آزاد وہ جامع اصول اور محکم ہدایات دیتی ہے جو وقت کے گزرنے اور معاشرتی تبدیلیوں کے باوجود انسان کے مسائل کا حل پیش کرتی ہیں۔ یہ عالم گیریت جو وحی کی پہچان ہے، یہی عالم گیریت اسلامی فکروثقافت کو قوم و وطن، جغرافیائی خطے اور وقت کی قید سے نکال کر ایک عالمی ثقافت کا مقام دیتی ہے۔ چنانچہ مراکش سے انڈونیشیا اور ویانا سے سڈنی تک جہاں کہیں بھی مسلمان پہنچے ان کے بودوباش، لباس، غذا، معاشرتی تعلقات، تجارتی معاملات، ہر پہلو سے ان کی سرگرمیوں میں مماثلت پائی جاتی ہے۔ ایک مسلمان دنیا کے کسی بھی خطے میں چلا جائے اس کا تعارف اسلامی ثقافت ہی ہوتی ہے۔ چنانچہ چاہے وہ تاجک زبان نہ جانتا ہو، اس کا پہلا تعارفی کلمہ ’السلام علیکم ورحمۃ اللہ‘ ایک تاجک کو بتا دیتا ہے کہ یہ اس کا دینی بھائی ہے اور جواباً اہلاً وسہلاً یا خوش آمدید سے اس بات کی تصدیق ہوجاتی ہے۔ عالم گیر اسلامی فکروثقافت کے اثرات، وقت اور مکان کی قید سے بلند دنیا کے ہرخطے میں یکساں پائے جاتے ہیں۔
اسلامی فکروثقافت کی تیسری اہم خصوصیت اس کی جامعیت ہے۔ یہ کوئی نمایشی ثقافت نہیں ہے جو چہروں پر رنگ برنگے غازے مل کر اور مخصوص لباس پہن کر اپنی انفرادیت کا اعلان کرے جیساکہ بالعموم افریقی قبائل کی ثقافت کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے۔ یہ ثقافت ایک مسلمان کو مہد سے لحد تک زندگی گزارنے کا طریقہ سکھاتی ہے۔ مالی معاملات ہوں یا تعمیراتی منصوبے، اس کا لباس ہو یا کاشت کاری اور صنعت و حرفت، شادی بیاہ کی تقریبات ہوں یا مراسمِ عبودیت حتیٰ کہ شوہر اور بیوی کے انتہائی ذاتی معاملات ہوں یا سیاست اور عالمی تناظر میں کیے گئے معاہدے، ہر سرگرمی کے لیے ایک فکر، ایک طریقہ اور ایک طرزِعمل کی تعلیم دیتی ہے۔ یہ ہمہ گیر ثقافت زندگی کے تمام معاملات کا احاطہ کرتی ہے اور اسی ثقافت کی جھلک اس کے فن تعمیر، ادب و شعر، تعلیمی اور رفاہی سرگرمیوں میں نظر آتی ہے۔
یہ فکروثقافت مختلف ثقافتوں کا ملغوبا نہیں ہے لیکن ہر وہ انسانی عمل جو اس فکروثقافت کے بنیادی مقاصد اور اصولوں سے مطابقت رکھتا ہے، یہ ثقافت اسے جذب کرنے اور جذب کرنے کے عمل میں اس میں (qualitative) تبدیلی یا ماہیت ِقلبی کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک مسجد کا مینارہ کہیں سنگِ مرمر سے مزین ہوتا ہے، کہیں کاشی ٹائلوں سے، کہیں سرخ پتھر سے، کہیں glazed اینٹوں سے، کہیں اس کی بنیاد چوکور ہوتی ہیں، کہیں ہشت پہلو اور کہیں گول لیکن دنیا کے ہر گوشے میں اس کا مقصد فضائوں میں اللہ تعالیٰ کی عظمت و کبریائی کا اعلان ہی رہتا ہے۔
اسلامی فکر اور ثقافت کی چوتھی پہچان اس کا زندگی کے معاملات میں آسانی پیدا کرنا (یسر) ہے۔ یہ انسانوں کو غیرضروری رسوم و رواج، عبادات کے پیچیدہ اور پُراسرار طریقوں سے نجات دلاکر سادگی اور آسانی کے ساتھ اپنے رب کی بندگی کی تعلیم دیتی ہے اور زندگی کے معاملات میں زینت اختیار کرنے کے ساتھ اسراف و تبذیر سے بچانے کی کوشش کرتی ہے۔ مسلم معاشرے کی پندرہ سو سال کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ جب اہلِ ایمان نے وحیِ الٰہی پر مبنی فکروثقافت سے اپنا رشتہ توڑا، وہ نمایشی زندگی، اسراف وتعیش کا شکار ہوئے اور جب ان کا رشتہ وحیِ الٰہی پر مبنی فکروثقافت سے جڑا، ان کی زندگی عملیت، ترقی اور حقیقت پسندی کی مثال بنی۔
وحی پر مبنی اسلامی فکروثقافت درحقیقت مقاصدِ شریعت کے حصول اور مصلحت عامہ کے پیشِ نظر معاشرتی، معاشی، سیاسی، قانونی اور تعلیمی سرگرمیوں کی تہذیب کرتی ہے۔ اسلامی فکروثقافت کا یہ پہلو نگاہوں سے اوجھل رہے تو اسلامی ثقافت کو محض چند علاماتی افعال سے تعبیر کردیا جاتا ہے یا یہ تصور کرلیاجاتا ہے کہ چونکہ یہ ایک ’مذہبی‘ ثقافت ہے اس لیے اس کے اصل مخاطب جماعتِ علما و صوفیہ کے افراد ہیں اور یہ انھی کے لیے مناسب ہے۔ دیگر افراد نہ ان کی طرح ’مذہبیت‘ اور ’روحانیت‘ اختیار کرسکتے ہیں اور نہ اس ثقافت پر عمل کرسکتے ہیں۔ ایک عام مسلمان جو یہ سمجھتا ہے کہ اس کا ’مذہب‘ نماز، روزے، حج اور زکوٰۃ کی حد تک ہے، جب اُس سے کہا جائے کہ اسلامی فکروثقافت میں مخلوط تعلیم، مخلوط کاروباری ادارے جہاں پر بنک میں، انجینیرنگ کمپنی میں اور عدالت میں ایک ہی نشست پر شانہ بہ شانہ مرد اور عورتیں بیٹھی ہوں یہ اسلامی فکروثقافت کے منافی ہے تو اسے حیرت ہوتی ہے کہ دنیا کے معاملات میں مذہب کے دخل کی کیا ضرورت؟ یہی وجہ ہے کہ ایک بظاہر دینی رجحان اور شخصیت رکھنے والے فرد کے گھر میں بھی جب شادی کی تقریب ہوتی ہے تو مردوزن بنائوسنگھار کرنے کے بعد بلاتکلف خلط ملط ہوتے رہتے ہیں اور ایسے افراد کی ’مذہبیت‘ کو اس سے کوئی تکلیف نہیں پہنچتی۔
حقیقت یہ ہے کہ اسلامی فکروثقافت کو جب تاریخ کا ایک باب سمجھتے ہوئے ماضی کے واقعات میں دفن کردیا جاتا ہے تونظامِ تعلیم میں بھی اسلامی فکروثقافت کی بنیادوں پر گفتگو بند ہوجاتی ہے۔ اُمت مسلمہ نے اپنے دورِ زوال میں عیسائیوں اور ہندوئوں کی طرح مذہب اور ثقافت میں ایک خیالی خطِ فاصل کھینچ دیا۔ چنانچہ مذہبی مراسم کے پورے اہتمام کے ساتھ شام کے اوقات میں کسی محفل موسیقی یا شامِ غزل میں مخلوط محفلوں میں بیٹھ کر فن کاروں کی زبانی کلاسیکل شعرا کا کلام کلاسیکل گائکوں سے سننا ثقافت ٹھیرا اور اس عمل اور اسلامی عقیدے میں انھیں کوئی تضاد نظر نہیں آیا۔
وحی پر مبنی اسلامی فکروثقافت انسان کو ہرہر دائرے میں تخلیق و ایجاد کی دعوت دیتی ہے لیکن ہرشعبۂ حیات کو قرآن کریم کے دیے ہوئے مقاصد ِ شریعت کی روشنی میں جو مقاصدِ حیات سے آگاہ کرتے ہیں، سرگرمیوں کی دعوت دیتی ہے۔ یہ ثقافت اپنے ماننے والوں کو ندرت، حصولِ کمال اور انفرادیت کے ساتھ زندگی کے تعمیری سفر میں آگے بڑھنے کی طرف اُبھارتی ہے۔ ایک عملی ثقافت ہونے کے سبب یہ اُمت کے ہر دور کے مسائل کو مقاصدِ شریعت کی روشنی میں حل کرنے کی کوشش کرتی ہے۔(جاری)