مارچ کا مہینہ پاکستان کی تاریخ میں ایک منفرد مقام رکھتا ہے۔ ۲۳ مارچ ۱۹۴۰ء وہ تاریخی دن ہے جب برعظیم پاک و ہند کے مسلمانوں نے قرارداد پاکستان کی شکل میں اپنی سیاسی منزل کا تعین کیا اور قائداعظمؒ کی قیادت میں ۷سالہ جدوجہد کے نتیجے میں ۱۴ اگست ۱۹۴۷ء کو پاکستان کی آزاد ریاست وجود میں آئی۔ دستور ساز اسمبلی نے ۱۲ مارچ ۱۹۴۹ء کو قرارداد مقاصد کی شکل میں اس ریاست کا نظریاتی اور سیاسی کردارطے کردیا جو اَب پاکستان کے دستور کا صرف دیباچہ ہی نہیں بلکہ اس کی ایک قابلِ عمل (operational ) شق (دفعہ ۲-الف) کی حیثیت رکھتی ہے۔
قیامِ پاکستان کے فوراً ہی بعد مفاد پرست طبقات نے وطنِ عزیز کو ایک ایسی جاں گسل کش مکش میں مبتلا کردیا جس کے نتیجے میں پہلے دستور کے بننے میں ۹ سال لگ گئے۔ پھر دستوروں کے بننے اور بگڑنے کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوگیا جس کی گرفت سے ملک آج تک نہیں نکل سکا۔ ۱۹۵۴ء میں ایک سول سرونٹ غلام محمد نے فوج کے سربراہ کی مدد سے ملک کی جمہوری بساط کو لپیٹ دیا اور اس وقت کی عدالتِ عظمیٰ کے ذریعے، جس کے سربراہ جسٹس محمدمنیر تھے، جمہوری عمل کو درہم برہم کر کے اسے حکمرانوں کے ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کیے جانے کا راستہ کھول دیا اور ملک کو قانون کی حکمرانی سے محروم کردیا۔
۱۹۵۳ء میں منتخب وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کو معزول کیا گیا، ۱۹۵۴ء میں دستور ساز اسمبلی ہی کو ختم کردیا گیا، پھر ۱۹۵۶ء کے دستور کو اکتوبر ۱۹۵۸ء میں پارہ پارہ کردیا گیا اور یہ سلسلہ کسی نہ کسی شکل میں ۱۹۵۴ء سے لے کر نومبر ۲۰۰۷ء تک جاری رہا۔ سیاسی شاطر، فوجی طالع آزما اور نظریۂ ضرورت کے علَم بردار ججوں کے ایک ٹولے کی ملی بھگت سے بار بار دستوری نظام کی بساط کو لپیٹنے اور اداروں کی تباہی کا خطرناک کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ ۱۹۶۹ء-۱۹۶۸ء اور ۱۹۷۷ء میں آمرانہ نظام کے خلاف عوامی تحریکات چلیں لیکن وہ اپنی منزل تک نہ پہنچ سکیں اور جرنیلوں اور ججوں کے گٹھ جوڑ سے ہربار جمہوری عمل کا گلا گھونٹ دیا گیا۔ اگر کچھ ججوں نے جرنیلوں کے نافذ کردہ پی سی او (Provisional Constitution Order) سے اختلاف کیا تو انھیں زبردستی عدالتوں سے فارغ کردیا گیا اور کچھ دوسرے ججوں نے فوجی آمروں کے اقدام کو نہ صرف سندِجواز عطا کی بلکہ ان کو دستور میں من مانی ترامیم کرنے کے حق تک سے سرفراز فرما دیا۔
۶۰ سال پر پھیلا ہوا یہ خطرناک کھیل ۹ مارچ ۲۰۰۷ء کو ایک نئے دور میں داخل ہوا جب اس وقت کے چیف جسٹس نے فوجی حکمران کے عدلیہ پر شب خون مارنے کے اقدام کو چیلنج کیا اور وکلا برادری، سول سوسائٹی اور سیاسی کارکنوں کی معتدبہ تعداد نے ان کا ساتھ دیا اور ایک ایسی اصولی عوامی جمہوری تحریک وجود میں آئی جس نے قانون کی حکمرانی، عدلیہ کی آزادی اور دستور کی بالادستی کو اپنا ہدف بنایا۔ ۹ مارچ ۲۰۰۷ء کو شروع ہونے والی یہ تحریک دو سال کی جاں گسل کش مکش کے بعد ۱۶مارچ ۲۰۰۹ء کو کامیابی کی پہلی منزل سے ہم کنار ہوئی اور اس اعتبار سے مارچ کی ۱۶تاریخ، ملک کی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس تحریک اور اس کی اولیں کامیابی کی اصل حقیقت اور اہمیت کو سمجھنا اس لیے ضروری ہے کہ جمہوریت کے فروغ اور پاکستان کے حقیقی تصور کے حصول کا انحصار، اس تحریک کے اگلے مراحل کی کامیابی پر ہے۔
جنرل پرویز مشرف کے آمرانہ نظام کے خلاف عوامی جذبات کا لاوا تو اُسی وقت سے پک رہا تھا جب اس نے قوم سے وعدے کے باوجود، صریح وعدہ شکنی کرتے ہوئے یکم جنوری ۲۰۰۴ء کو فوجی عہدہ چھوڑنے سے انکار کر دیا اور جو جمہوری عمل ۲۰۰۲ء کے انتخابات سے شروع ہوا تھا، وہ یک دم پٹڑی سے اُتر گیا۔ چونکہ جنرل پرویز مشرف نے پاکستان کو عوام کے جذبات و احساسات کے خلاف نائن الیون کے بعد امریکا کی نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جھونک دیا تھا اسی لیے اسے امریکا اور مغربی اقوام کی مکمل تائید حاصل رہی اور امریکا، فوجی حکمران اور اس کے ساتھیوں کی ملی بھگت سے ملک میں جمہوری عمل کو ناکام کردیا گیا۔ اپنے اقتدار کو دوام دینے کے لیے جنرل پرویز مشرف نے عدلیہ کو موم کی ناک بنا دیا تھا اور اپنے حسبِ منشا جدھر چاہتا تھا، اسے موڑ دیتا تھا۔ ان حالات میں اللہ تعالیٰ نے سپریم کورٹ اور اس وقت کے چیف جسٹس کو، جو ماضی میں کوئی بڑا کارنامہ انجام نہ دے سکے تھے، یہ توفیق بخشی کہ انھوں نے پاکستان کے مفادات کے تحفظ اور عوام کے حقوق کی حفاظت کے لیے آمرِوقت کے اقدامات پر گرفت شروع کی۔ اسٹیل مِل کی نج کاری اور لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے عدالت کی کوششوں نے فوجی آمر کو زچ کر دیا اور اس نے ۹ مارچ کو چیف جسٹس کی معزولی کی شکل میں نظامِ عدل پر ایک کاری ضرب لگائی۔ اسے یقین تھا کہ اس کے اِس اقدام سے سرتابی کی جرأت کوئی بھی نہیں کرسکے گا لیکن چیف جسٹس نے طاقت کے نشے میں دھت جرنیل کا حکم ماننے سے انکار کردیا اور پوری وکلا برادری اور عوامی قوتوں نے اس کا ساتھ دیا۔ وکلا کی تحریک نے جلد ایک حقیقی اور ملک گیر عوامی تحریک کی شکل اختیار کر کے حکمرانوں کے استبدادی ہتھکنڈوں کا بھرپور مقابلہ کیا۔
جماعت اسلامی نے ۱۲ مارچ ۲۰۰۷ء کو اسلام آباد میں کُل جماعتی کانفرنس کا انعقاد کیا اور جنرل پرویز مشرف کی مٹھی میں بند پارٹیوں کو چھوڑ کر سب سیاسی اور دینی قوتوں کو جمع کرکے انھیں وکلا کی تحریک میں شرکت کی دعوت دی۔ معاشرے کی ان تین قوتوں___ وکلا برادری ، سول سوسائٹی اور سیاسی و دینی جماعتوں کے اشتراک سے، وکلا کی قیادت میں برپا ہونے والی اس تحریک کے نتیجے میں ۲۰ جولائی ۲۰۰۷ء کو عدالتِ عالیہ کے فیصلے کے ذریعے چیف جسٹس بحال ہوئے مگر ان کی بحالی حکمرانوں کی آنکھوں میں کانٹا بن کر کھٹکنے لگی۔ پرویز مشرف نے جب یہ محسوس کرلیا کہ عدالت اس کے فوجی وردی میں دوبارہ صدارتی انتخاب کا ڈھونگ رچانے کی راہ میں حائل ہوگی تو اس نے ایک آخری وار ۳نومبر ۲۰۰۷ء کو کیا اور ایمرجنسی کے نام پر ایک نیا مارشل لا مسلط کردیا۔ یہ بڑا نازک مرحلہ تھا لیکن پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ اعلیٰ عدالتوں کے ۶۰ ججوں نے اس اقدام کو جائز تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ سپریم کورٹ کے ۱۸ میں سے ۱۳ ججوں نے حلف لینے سے انکار کردیا اور ۷ججوں پر مشتمل فل کورٹ نے ۳ نومبر کے اقدام کو خلافِ دستور قرار دے کر اس کو قانونی جواز سے محروم کر دیا۔ نیز عدلیہ کے تمام ججوں کو ہدایت کی کہ اس غیرقانونی اقدام کو تسلیم نہ کریں۔ اس فیصلے پر دستور کی دفعہ ۱۹۰ کے تحت تمام سرکاری اداروں اور عمال کو بھی یہ ہدایت دی گئی کہ وہ اس پر عمل درآمد نہ کریں اور سپریم کورٹ کے حکم کی اطاعت کریں۔
یہ ایک ایسا تاریخی فیصلہ تھا جس کی کوئی نظیر اس سے پہلے موجود نہ تھی۔ جرنیلی صدر نے طیش میں آکر سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے ۶۰ ججوں کو معزول کر دیا اور اپنی پسند کے نئے ججوں کا تقرر کر کے ان سے اپنے غیرقانونی اقدام کے لیے جواز حاصل کرنے کا ڈھونگ رچایا جسے قوم نے ایک لمحے کے لیے بھی قبول نہیں کیا۔ اس طرح اصولی، نظریاتی اور اخلاقی بنیادوں پر استوار ایک عوامی تحریک نے جنم لیا۔ جماعت اسلامی اور اے پی ڈی ایم کی تمام جماعتوں نے اس اصولی موقف کی بنیاد پر فروری ۲۰۰۸ء کے انتخابات کا بائیکاٹ کیا جب کہ انتخابات میں حصہ لینے والی جماعتوں نے بھی جس مسئلے کو انتخابات کے لیے مرکزی سیاسی مسئلہ بنایا وہ عدلیہ اور دستور کی اپنی اصل شکل میں بحالی اور پارلیمنٹ کی بالادستی تھا۔
عوام نے ۱۸ فروری کے انتخابات میں ان جماعتوں کو رد کر دیا جو پرویز مشرف کی ہم نوا تھیں اور اسے وردی سمیت ایک بار نہیں دس بار تک منتخب کرنے کے لیے میدان میں اُتری تھیں۔ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) بڑی پارٹیوں کی حیثیت سے کامیاب ہوئیں اور دونوں نے مل کر اس مشترک ایجنڈے پر عمل کرنے کا عہد کیا جسے عوام نے منظور کیا تھا۔ مگر جلد ہی پیپلزپارٹی کی قیادت نے اس عہدوپیمان سے انحراف شروع کر دیا اور بالآخر بے وفائی کی راہ اختیار کرلی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس نے تقریباً ہر میدان میں عملاً جنرل مشرف ہی کی پالیسیوں کو جاری رکھا بلکہ زرداری صاحب نے تو کھل کر عدلیہ کی بحالی کے وعدے سے انحراف کیا اور وکیلوں کی تحریک کو سبوتاژ کرنے، ججوں کو تقسیم کرنے اور جن کو توڑنے میں کامیاب ہوئے ان کو نئی تقرری (re-instate) کے نام پر پی سی او عدلیہ کا حصہ بنانے کا وطیرہ اپنا لیا۔ ۶۰ میں سے ۴۵ ججوں کو نئی تقرری کے ذریعے رام کرلیا گیا۔ معزول ججوں میں سے ۴ ریٹائر ہوگئے۔ تاہم ۱۱ ججوں نے بشمول چیف جسٹس قابلِ تحسین استقامت سے کام لیا اور آخری وقت تک اپنے اصولی اور اخلاقی موقف پر ڈٹے رہے جن کی پشت پر (پیپلزپارٹی کے ہم نوا وکیلوں کی ایک تعداد کے سوا) وکلا برادری کی اکثریت، سول سوسائٹی کے تمام عناصر اور حزبِ اختلاف کی تمام ہی جماعتیں خصوصیت سے جماعت اسلامی، تحریکِ انصاف، مسلم لیگ (ن) اور اے پی ڈی ایم کی دوسری جماعتیں سرگرم رہیں۔ بالآخر یہ جدوجہد ۱۲ مارچ ۲۰۰۹ء سے لانگ مارچ اور ۱۶مارچ کے دھرنے کے لیے ایک فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوگئی۔
۱۶ مارچ کی صبح اس طرح طلوع ہوئی کہ وزیراعظم کو ججوںکی بحالی کا اعلان کرنا پڑا، دفعہ ۱۴۴ واپس لی گئی، تمام سیاسی قیدیوں کی رہائی کے احکام جاری کیے گئے اور شریف برادران کی نااہلی کے عدالتی فیصلے پر حکومت کی طرف سے نظرثانی کی درخواست کا اعلان کیا گیا۔ اس طرح عدلیہ کی بحالی کی تاریخی جدوجہد اپنی پہلی کامیابی سے ہم کنار ہوئی، الحمدللّٰہ علٰی ذٰلِکَ۔
اب اس امر کی ضرورت ہے کہ اس تحریک کی نوعیت، اس کے حقیقی اہداف اور اس کی قوت کے اصل عوامل کا ٹھیک ٹھیک ادراک کیا جائے اور جو کچھ حاصل ہوا ہے اس کے پورے اعتراف کے ساتھ ان تقاضوں پر توجہ مرکوز کرائی جائے جن کے حصول کی جدوجہد جاری رہنا چاہیے۔ جس انقلابی منزل کی طرف یہ پہلا قیمتی قدم بڑھایا گیا ہے، اس سمت میں اس قوم کا سفر جاری رہے تاکہ یہ جدوجہد اپنے تمام اہداف کو حاصل کرسکے اور مطلوبہ نتائج رونما ہوں۔
سب سے پہلے اس بات کو اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ تحریک کسی فرد کی بحالی، کچھ لوگوں کی ملازمت کو پکا کرنے، یا کچھ وقتی مفادات کے حصول کی جدوجہد نہیں تھی بلکہ یہ ایک اصولی تحریک تھی جو واضح اخلاقی اہداف کے حصول کے لیے برپاکی گئی تھی۔ یہ جدوجہد ایک اصولی جدوجہد تھی اور اس کی طاقت کا راز اس کے نظریاتی اور اخلاقی مقاصد میں مضمر ہے۔ اس تحریک میں ملک کے ہر طبقے اور ہر مکتب فکر کے لوگوں نے شرکت کی اوریہ پوری قوم کو متحرک کرنے، ایک اصول کی خاطر منظم کرنے اور مشترک اہداف کے لیے اجتماعی جدوجہد میں مربوط کرنے کا ذریعہ بنی۔ اور وہ اصول یہ ہے کہ ظلم کے آگے سپر ڈالنا، جرم میں شریک ہونے کے مترادف ہے اور ظلم اور استبداد کی مزاحمت ایک اخلاقی قدر ہی نہیں، اجتماعی زندگی کو ظلم اور ناانصافی سے پاک کرنے کا واحد راستہ ہے۔ بلاشبہہ چیف جسٹس افتخار چودھری اور عدلیہ کی بحالی اس تحریک کا عنوان تھے لیکن اس کی حقیقت اور اس کی قوت اس کا اصولی موقف تھا جس نے قوم کو متحد اور متحرک کیا۔ جو کچھ حاصل ہوا ہے وہ اسی اصولی موقف کی بنا پر ہوا ہے اور اس کی حیثیت اس منزل کی طرف صرف پہلے قدم کی ہے۔ ہماری جدوجہد ختم نہیں ہوئی، ایک دوسرے مرحلے میں داخل ہوئی ہے۔
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ خود چیف جسٹس کے الفاظ میں اس مقصد اور منزل کا اظہار اور تجدید کی جائے۔ موصوف نے ۳۰ جنوری ۲۰۰۸ء کو دنیا کے اہم قائدین سے خطاب کرتے ہوئے اپنے ایک خط میں اس جدوجہد کے مرکزی نکتے اور اصل ہدف کو اس طرح پیش کیا ہے:
میں پاکستان کا دستوری چیف جسٹس ہوں اور فیصلہ دے چکا ہوں کہ مشرف کے ۳ نومبر ۲۰۰۷ء کے اقدامات غیردستوری تھے۔
اور پھر اصل ہدف کو صاف الفاظ میں اس طرح بیان کیا:
آزاد عدلیہ کے بغیر کوئی جمہوریت نہیں ہوسکتی، اور جب تک ۳ نومبر ۲۰۰۷ء کے اقدام کو کالعدم نہ کیا جائے، پاکستان میں کوئی آزاد جج نہیں ہوسکتا۔ کچھ شکست خوردہ لوگوں کی مرضی کچھ بھی ہو، بہادر وکلا اور پاکستان کی سول سوسائٹی کی جدوجہد نتیجہ خیز ہوگی، وہ جدوجہد ترک نہیں کریں گے۔
اس خط کے ۷ مہینے کے بعد ۳ نومبر ۲۰۰۸ء کو راولپنڈی ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کو خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس نے اعادہ کیا کہ:
سپریم کورٹ کے ۷ رکنی بنچ کا ۳ نومبر کا یہ فیصلہ کہ جنرل مشرف کے ۳ نومبر ۲۰۰۷ء کے اقدامات غیردستوری اور غیرقانونی ہیں، اب بھی قائم ہے۔
اس خطاب میں چیف جسٹس نے کھل کر کہا کہ اس وقت عدالت عالیہ پر قابض ’چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر‘ کی حقیقت یہ ہے کہ وہ:
ایک خودساختہ فیصلہ کرنے والا شخص ہے جس نے مشرف کے ۳ نومبر کے ہنگامی حالت کے اعلان اور عارضی دستوری بل (پی سی او) کو جائز قرار دیا۔
واضح رہے کہ ۳نومبر ۲۰۰۷ء کو سپریم کورٹ کے ۷ رکنی بنچ نے ۳ نومبر کے اس اقدام کو خلافِ آئین قرار دیا تھا اور عدالت نے آرمی چیف ’کورکمانڈر‘ تمام فوجی اور سول افسران کو ہدایت دی تھی کہ ۳نومبر کے خلاف آئین احکام کی پابندی نہ کریں، اصل دستور پر عمل کریںاور پروویژنل دستور کی پروا نہ کریں نیز کوئی جج اس ناجائز فرمان کے تحت حلف نہ لے۔
عدالت عالیہ کے ججوں کی بحالی کا مسئلہ عدالت کی آزادی ، دستور کی بالادستی، قانون کی حکمرانی اور ۳ نومبر ۲۰۰۷ء کے غیرقانونی اقدام کی تنسیخ اور اس کو مسلط کرنے والوں پر گرفت اور دستور اور قانون کے مطابق ان کے اس جرم کی قرارواقعی سزا پر محیط ہے۔
عدلیہ کی آزادی اور بحالی کی تحریک اپنی اس اصولی اور اخلاقی نوعیت کے ساتھ ساتھ کئی اور پہلوئوں سے بھی اہم ہے۔ ہم ان میں سے چند پہلوئوں کی طرف صرف اشارہ کرنے پر اکتفا کرتے ہیں:
۱- یہ صحیح معنی میں ایک عوامی تحریک تھی۔ اس کی قیادت وکلا برادری کر رہی تھی۔ اس کی تائید سول سوسائٹی کے تمام ہی اداروں نے کی۔ اس کی تقویت کا باعث سیاسی کارکنان اور ان کی قیادت کی شرکت تھی، لیکن اس کا سب سے نمایاں پہلو عوام کی بیداری اور علاقے، زبان اور سیاسی وابستگی سے بالاتر ہوکر عوام کے سب ہی طبقات کی والہانہ شرکت ہے۔ اس تحریک نے ایک بار پھر یہ بات ثابت کر دی کہ محض مفادات کے حصول کے لیے ہی نہیں بلکہ ایک اصولی اور اخلاقی مقصد کے حصول کے لیے بھی عوامی تحریک برپا کی جاسکتی ہے اور وہ عوام کی قوت سے اپنے اہداف حاصل کرسکتی ہے۔
۲- دوسری خصوصیت اس تحریک کا تسلسل اور اس میں غیرمعمولی جان اور توانائی ہونے کی ہے۔ سیاسی تحریکیں چشم زدن میں اپنے اہداف حاصل نہیں کرلیتیں بلکہ اس کے لیے صبر اور استقامت سے جدوجہد کرنا ہوتی ہے۔ دبائو کا مقابلہ کیا جاتا ہے، اور ہمت نہیں ہاری جاتی۔ اس تحریک میں وکلابرادری، تاجروں، طالب علموں، سیاسی کارکنوں کا کردار قابلِ تعریف ہے۔ دو سال تک تحریک کو جاری و ساری رکھنا ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔ حقوق کی جدوجہد اس وقت کامیاب ہوتی ہے جب نظریاتی شعور کے ساتھ اَن تھک محنت اور استقامت سے جدوجہد کو جاری رکھا جائے۔
۳- اس تحریک کا تیسرا پہلو اس کا ہر دور اور ہر حال میں، حتیٰ کہ ریاستی تشدد کے علی الرغم پُرامن رہنا ہے۔ جوش کے ساتھ ہوش بھی ضروری ہے اور ذرا سی غلطی پوری تحریک کو پٹڑی سے اتار سکتی ہے۔
۴- تحریک میں نوجوانوں کی شرکت، نوجوان وکلا کی قربانیاں، اور اس کے ساتھ میڈیا کا بے مثال تعاون بھی اس کی کامیابی کا ایک اہم سبب ہے۔ سیاسی جماعتوں اور حکومت دونوں کو عوام اور میڈیا کی قوت کے صحیح ادراک کی ضرورت ہے۔
۵- اس تحریک کا ایک اور پہلو بڑا اہم ہے اور وہ یہ کہ آمریت کے جبر کے نظام میں جو خاموشی ہوتی ہے اور عوام میں جو بددلی اور مایوسی گھر کر لیتی ہے وہ عارضی اور پُرفریب ہوتی ہے۔ ۹مارچ ۲۰۰۷ء سے پہلے کسے توقع تھی کہ مزاحمت کی ایک چنگاری سے آمریت کے استبدادی نظام کو خاکستر بنانے والی تحریک جنم لے سکتی ہے۔ پاکستان کو ایک ناکام ریاست قرار دینے والے یہ توقع نہیں رکھتے تھے کہ ایک اصول کی خاطر عوام اس طرح بیدار اور متحرک ہوجائیں گے۔ لیکن دیکھتے ہی دیکھتے اسی مایوس قوم کے بطن سے ایک ملک گیر تحریک جنم لیتی ہے اور آمریت کی چولیں ہلادیتی ہے۔ مشرف کا سورج غروب ہوجاتا ہے اور زرداری بھی اپنے سارے کرّوفر اور حیلوں اور سازشوں کے باوجود گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ آمریت اور مایوسیوں کی تاریکیوں میں ایسی تحریک کا رونما ہونا اور کامیاب ہونا اس امر کی دلیل ہے کہ ع
ایسی بھی کوئی شب ہے کہ جس کی سحر نہ ہو!
اس تحریک کو ناکام کرنے اور اس کو کچل دینے کے لیے جو ہتھکنڈے پرویز مشرف کے آمرانہ نظام اور زرداری صاحب کے جمہوری تماشے نے کیے ان کا ذکر اور بالآخر ان کی ناکامی اور بے مایگی کا اظہارو اعتراف بھی ضروری ہے۔ مشرف کے اقتدار کا زوال ۹ مارچ ۲۰۰۷ء سے شروع ہوگیا اور ۱۲ مئی ۲۰۰۷ء کو کراچی کی خونیں ہولی اور وکلا، عوام، سیاسی کارکنوں اور خود میڈیا کو جبرواستبداد کے ہتھکنڈوں سے زیر کرنے کی ساری کوششوں کے باوجود ۱۸ فروری کو عوام نے پوری قوت سے آمرانہ نظام کو رد کردیا اور زرداری صاحب کی ساری وعدہ خلافیوں اور کہہ مکرنیوں، پنجاب کی عوامی مینڈیٹ کے بل پر وجود میں آنے والی حکومت کی معطلی، گورنرراج، قیدوبند، تشدد اور جبر، راستوں کی بندش اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو قانون کی حکمرانی کی تحریک چلانے والوں پر لاٹھی چارج اور گیس کے شیلوں کی بارش کے لیے استعمال کرنے کے علی الرغم اور ۱۵ مارچ کی دوپہر تک مطالبات تسلیم کرنے سے انکار اور قوت اور جبر سے تحریک کو ختم کردینے کے دعووں کے باوجود تحریک کے مرکزی مطالبے کو تسلیم کرلینا، جہاں عوامی تحریک کی قوت کا ثبوت ہے،وہیں جمہوریت کے دعوے داروںکے اصل چہرے سے نقاب اُٹھانے کا بھی ذریعہ ہے۔
جو زبان زرداری صاحب نے استعمال کی، ان کی وزارتِ داخلہ کے مشیر نے جس طرح بغاوت کا ڈھول پیٹا اور جس طرح حاکمانہ قوت سے تحریک کو دبانے کے لیے مذموم ہتھکنڈوں کا استعمال کیا، اس نے پیپلزپارٹی کے جمہوری دعوئوں کی قلعی کھول دی۔ بلاشبہہ پیپلزپارٹی میں ایسے افراد بھی تھے جنھوں نے اس پالیسی کو ناپسند کیا، کچھ نے استعفے تک دیے اور بہت سوں نے عوامی تحریک کا ساتھ دیا لیکن ایک بڑی تعداد نے زرداری صاحب کے مقاصد کی خدمت کر کے اپنا اصل چہرہ قوم کے سامنے بے نقاب کردیا اور اس کی قیمت انھیں آیندہ ادا کرنا ہوگی۔ وزیراعظم نے آخری وقت میں حالات کو سنبھالنے اور زرداری صاحب سے کچھ فاصلہ اختیار کرنے کا رویہ اختیار کیا اور مسئلے کا کچھ حل نکالنے کی کوشش کی، تاہم بحیثیت مجموعی پیپلزپارٹی اور اس کی قیادت نے قوم کو بری طرح مایوس کیا اور اس تحریک کا ایک نتیجہ یہ بھی نکلا کہ ع
لیکن اتنا تو ہوا، کچھ لوگ پہچانے گئے
اس سلسلے میں پیپلزپارٹی اور اس کی قیادت کے ساتھ ایم کیو ایم اور خود اے این پی اور جے یو آئی کی بھی جو تصویر قوم کے سامنے آئی ہے وہ کسی حیثیت سے بھی قابلِ رشک نہیں۔ رہے مشرف اور زرداری صاحب تو ان کے بارے میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ ؎
خودی کا نشہ چڑھا ، آپ میں رہا نہ گیا
خدا بنے تھے یگانہ ، مگر بنا نہ گیا
تحریک کے نتیجے میں چیف جسٹس سمیت ۱۱ ججوں کی ۲ نومبر ۲۰۰۷ء کی پوزیشن میں بحالی ایک اہم کامیابی ہے اور اسے صحیح سمت میں ایک مناسب اور خوش آیند قدم قرار دیا جاسکتا ہے۔یہ بلاشبہہ ایک بڑی کامیابی ہے لیکن اس سے بھی زیادہ ایک بہت بڑی آزمایش ہے کہ عوام نے جن مقاصد کے لیے تحریک چلائی، قربانیاں دیں اور نتیجتاً اُن کی جو توقعات عدلیہ سے وابستہ ہیں، وہ کہاں تک پوری ہوتی ہیں۔ وزیراعظم صاحب نے جو انتظامی حکم نامہ جاری کیا ہے وہ کئی لحاظ سے بڑا اہم ہے، جب کہ کچھ دیگر حیثیتوں سے مبہم اور غیرتسلی بخش بھی ہے۔ جس عجلت میں وکلا کی قیادت اور مسلم لیگ (ن) کے قائدین نے مارچ اور دھرنے کو ختم کرنے کا اعلان کیا اس کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے۔ اعلان کا یہ حصہ اہم ہے:
جیساکہ وزیراعظم پاکستان نے ۱۶ مارچ ۲۰۰۹ء کو اعلان کیا کہ عدالتِ عظمیٰ اور مختلف عدالت ہاے عدلیہ کے معزول شدہ جج صاحبان بشمول مسٹر جسٹس افتخار محمد چودھری، معزول چیف جسٹس آف پاکستان کو اسی پوزیشن پر بحال کیا جائے گا جو کہ ۳ نومبر ۲۰۰۷ء سے پہلے انھیں حاصل تھی۔
لہٰذا صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان نے جسٹس افتخارمحمد چودھری، معزول چیف جسٹس آف پاکستان کو ان کو اسی پوزیشن پر بحال کردیا ہے جس پر وہ ۳ نومبر ۲۰۰۷ء سے پہلے تھے۔ مسٹر جسٹس افتخارمحمد چودھری، مسٹر جسٹس عبدالحمید ڈوگر چیف جسٹس آف پاکستان کی ۲۱ مارچ ۲۰۰۹ء کو ریٹائرمنٹ کے بعد ۲۲ مارچ ۲۰۰۹ء سے چیف جسٹس آف پاکستان کا اختیار سنبھال لیں گے۔
ججوں کی ۲ نومبر ۲۰۰۷ء کی پوزیشن پر بحالی کے معنی یہ ہیں کہ ان کی ۳ نومبر کی معطلی ایک غلط اقدام تھا لیکن ۳ نومبر کے پرویز مشرف کے اعلان کی تنسیخ کا کوئی ذکر اس اعلامیے میں نہیں ہے۔ نیز دوسرے تمام ججوں کو فوری طور پر بحال کردیا گیا ہے لیکن چیف جسٹس افتخار چودھری کو جسٹس ڈوگر کی میعادِ ملازمت کے ختم ہونے کے بعد بحال کیا جا رہا ہے جس سے بجاطور پر یہ شبہہ پیدا ہوتا ہے کہ ڈوگرصاحب کے چیف جسٹس ہونے کو جواز دیا جا رہا ہے حالانکہ ان کے چیف جسٹس ہونے کا پورا دور قانون کی نگاہ میں جائز نہیں۔ وہ بالفعل (de facto) تو چیف جسٹس تھے لیکن ان کے دور کو de jure یعنی قانون کے تحت جائز قرار نہیں دیا جاسکتا۔ یہی وہ ابہام ہے جس کا دُور کیا جانا ضروری تھا اور ہے۔ اب اس کے دو راستے ہیں اور ان دونوں پر فی الفور عمل ہونا چاہیے۔ وکلا برادری اور سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری ہے کہ کمر کھول کر آرام کا تصور بھی نہ کریں بلکہ تحریک کو اس کے منطقی نتائج تک پہنچانے کے لیے نئے عزم سے سرگرم ہوجائیں۔
ایک کام اب پارلیمنٹ کے کرنے کا ہے کہ وہ ۳ نومبر کے اقدام کے بارے میں کھل کر یہ اعلان کرے کہ وہ اقدام خلافِ آئین تھا جسے کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔ یہ اس لیے ضروری ہے کہ اس کے بغیر نظریۂ ضرورت کی عفریت سے نجات ناممکن ہے۔ جس طرح پرویز مشرف نے دستور کی پابندی کا حلف لینے کے باوجود، چیف آف اسٹاف کی حیثیت سے پی سی او نافذ کیا، اگر اس کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند نہیں کیا جاتا تو خدانخواستہ کل کوئی دوسرا طالع آزما بھی یہ کھیل کھیل سکتا ہے اور اسے بھی تحفظ کی توقع ہوسکتی ہے۔ یہ درست ہے کہ پارلیمنٹ نے آج تک ۳نومبر کے اقدام کو جائز (validate) قرار نہیں دیا اور AAA۲۷۰ کا دستور میں اندراج غیرقانونی ہے لیکن چونکہ ڈوگر عدالت نے اسے تحفظ دینے کی جسارت کی ہے اس لیے اس دروازے کو بند کرنے کے لیے ضروری ہے کہ:
۱- ۳ نومبر ۲۰۰۷ء کے اقدام کو صاف لفظوں میں خلافِ آئین اقدام قرار دے کر منسوخ کیا جائے۔
۲- اس اقدام کا ارتکاب کرنے والے شخص پر قانون کے تحت مقدمہ چلایا جائے اور اسے دستور کی دفعہ ۶ کے تحت سزا دی جائے۔
۳- اس کے ساتھ تعاون کرنے والے چیدہ چیدہ افراد کو ان کے جرم کی مناسبت سے سزا دی جائے یا مذمت کی جائے۔
۴- جسٹس حمود الرحمن کے جنرل یحییٰ کے خلاف تاریخی فیصلے کی روشنی میں جن اقدامات کو past and closed transaction(قصۂ ماضی)قرار دینا ضروری ہے، ان کو قبول کرلیا جائے اور جن کی تنسیخ ضروری ہے ان کو منسوخ کیا جائے۔ اس طرح ان تمام دستوری ترامیم پر نظرثانی کر لی جائے جو ایک آمر نے دستور اور ملک پر مسلط کی تھیں۔ مشرف نے بی بی سی کو ۱۷ اکتوبر ۲۰۰۷ء کو دیے گئے ایک انٹرویو میں اپنے احکامات کو ماوراے آئین (beyond constitution) تسلیم کر کے ان کے غیرقانونی ہونے کا اعتراف بھی کرلیا تھا۔
نظریۂ ضرورت کو ہمیشہ کے لیے ختم کیے بغیر اس ملک میں دستور اور قانون کی حکمرانی، عدلیہ کی آزادی اور انتظامیہ کی قانون کے سامنے جواب دہی کا خواب شرمندئہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔
دوسرا کام خود چیف جسٹس اور عدالت عظمیٰ کے کرنے کا ہے۔ ۳نومبر کے اقدام کے نتیجے میں اعلیٰ عدالتوں کا حلیہ بگاڑ دیا گیا ہے اور ان میں پی سی او ججوں اور پھر زرداری صاحب کے جیالوں کی غیرقانونی تقرری ہوئی ہے، اولین موقع پر ان سب کا ، ۱۹۹۶ء کے الجہاد ٹرسٹ کے کیس میں سپریم کورٹ کے اُس فیصلے کی روشنی میں جسے Judges Case کہا جاتا ہے، ازسرِنو بے لاگ جائزہ لیا جائے۔ جو حضرات اہلیت، دیانت اور حسنِ کردار کے معیار پر پورے اُترتے ہوں ان کا ضابطے کے مطابق تقرر کیا جائے اور باقی سب کو فارغ کردیا جائے۔ آیندہ دستور اور ججز کیس میں طے شدہ ضابطے کے تحت ججوں کا تقرر کیا جائے۔ نیز میثاقِ جمہوریت میں جو نیا طریقہ تجویز کیا گیا ہے، اسے سنجیدہ مشورے کے بعد دستوری ترمیم کے ذریعے مزید بہتر بناکر اختیار کیا جائے تاکہ یہ مسئلہ ہمیشہ کے لیے حل ہوجائے اور عدلیہ میں دراندازی کا دروازہ بند ہوجائے۔
یہ دونوں اصلاحات عدلیہ کی ۲ نومبر ۲۰۰۷ء کی پوزیشن میں بحالی کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے ضروری ہیں اور ان پر فوری عمل ہونا چاہیے۔ اس کے لیے مؤثر عوامی اور پارلیمانی دبائو کی ضرورت ہے۔
اس کے ساتھ ہم تین امور کی طرف مزید توجہ دلانا چاہتے ہیں۔ پہلے کا تعلق تحریک کے ذمہ داروں سے ہے کہ جہاں عوام نے اس تحریک میں اپنا حق ادا کر دیا وہاں تحریک کے ذمہ داروں نے اپنے فرض کی ادایگی میں بڑی کوتاہیاں کی ہیں اور ان کا احتساب اور آیندہ کے لیے اصلاح ضروری ہے۔
پہلی چیز تحریک کے اہداف کے واضح تعین اور تمام اہداف کے حصول کو مساوی اہمیت دینے کے بارے میں ہے۔ ججوں کی بحالی اور عدلیہ کی بحالی مترادف نہیں۔ عدلیہ کی آزادی اس سے بھی وسیع تصور ہے۔ ججوں کی ناجائز برطرفی کا عمل خود اپنی جگہ ایک ایسا مذموم کام ہے جس پر مؤثر گرفت کیے بغیر عدلیہ کی آزادی کا مقصد حاصل نہیں ہوسکتا۔ قیادت نے صرف ایک مطالبے کے جزوی حصول کے اعلان پر پوری تحریک کو ختم کردیا جسے دانش مندی نہیں کہا جاسکتا۔ تحریک ایک فیصلہ کن مرحلے میں تھی اور جس طرح چند ماہ قبل ریلی کے بعد دھرنے کی کال واپس لے لی گئی، اس طرح اس بار بھی پورے اہداف حاصل کیے بغیر عجلت میں تحریک کو ختم کردیا گیا جس میں بڑے خطرات مضمر ہیں۔ دوسری سیاسی جماعتوں اور عوام نے قیادت کے فیصلے کو تسلیم کرلیا، جب کہ قیادت اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرسکی اور اس کی ایک اہم وجہ تمام شرکا کی معتبر قیادتوں کا آپس میں مشورے کے ذریعے فیصلہ کرنے کے نظام کا نہ ہونا ہے۔ جتنی عظیم یہ تحریک تھی، قیادت نے اس کے مطابق فیصلہ کرنے اور مشاورت کے نظام کو مؤثر بنانے کی کوشش نہیں کی۔ اپنے موجودہ مرحلے میں یہ صرف وکیلوں کی یا کسی ایک جماعت کی تحریک نہیں تھی۔ سب کا اپنا اپنا کردار تھا اور سب کی مشاورت ہی سے معاملات کو طے کیا جانا چاہیے تھا۔
دوسری بات سیاسی تحریک میں فوجی قیادت کے کردار سے متعلق ہے۔ زرداری صاحب نے فوج کو استعمال کرنے کے راستے (option) کو ٹٹولا اور شکر ہے کہ انھیں اس میں کامیابی نہیں ہوئی۔ لیکن آخری ایام میں چیف آف اسٹاف کی جو سرگرمیاں رہیں، ان کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ شکر ہے کہ انھوں نے نہ خود کسی سیاسی کردار کا راستہ اختیار کیا اور نہ کسی دوسرے کو اسے سیاسی طور پر استعمال کرنے کا موقع دیا لیکن ہمارا مطمحِ نظر یہ ہونا چاہیے کہ فوج اپنے کو صرف دفاعی ذمہ داریوں تک محدود رکھے۔ نہ تو سیاسی قیادت اسے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرے اورنہ فوج خود ہی کسی سیاسی کردار میں ملوث ہو۔ امریکی جوائنٹ چیف ایڈمرل مولن نے ہمارے چیف آف اسٹاف سے جن دس ملاقاتوں کا ذکر کیا ہے اور بین السطور جن راستوں (options) کی بات کی ہے وہ اصولی طور پر قابلِ قبول نہیں ہیں۔ سیاسی مسائل کا حل بھی سیاسی ہی ہونا چاہیے اور اس میں فیصلے کا مرکز و محور پارلیمنٹ اور سیاسی قوتوں کو ہونا چاہیے۔ کسی فریق کی طرف سے بھی فوج کو ملوث کرنا، دستور، قانون، سیاسی آداب اور اجتماعی اخلاقیات کے منافی ہے۔
تیسرا مسئلہ اس پورے معاملے میں بیرونی حکومتوں کے کردار سے متعلق ہے۔ ہماری سیاسی زندگی میں امریکی مداخلت کی تاریخ خاصی پرانی اور بڑی تشویش ناک ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے زمانے میں اس میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے۔ محترمہ بے نظیرصاحبہ سے مصالحت کے سلسلے میں پرویز مشرف نے برطانیہ اور امریکا کو بلاواسطہ شریک کیا اور خود این آر او، اس بین الاقوامی کھیل کا ثمرہ ہے۔
زرداری صاحب نے اس کھیل کو اور آگے بڑھا دیا ہے اور حالیہ تحریک کے دوران جس طرح برطانوی وزیرخارجہ، امریکا کی سیکرٹری آف اسٹیٹ اور صدر کے نمایندے ہال بروک، ملک میں برطانوی، امریکی، سعودی اور امارات کے سفیروں کی بھاگ دوڑ دیکھنے میں آتی رہی وہ نہایت افسوس ناک ہے، بلکہ دی وال اسٹریٹ جنرل نے تو صاف الفاظ میں لکھا ہے کہ:
غضب ناک احتجاج کرنے والوں کے مقابلے میں پولیس کی پسپائی اور امریکا کے دبائو کے بعد مسٹر زرداری نے تسلیم کیا۔ (۱۷ مارچ ۲۰۰۹ء)
یہ سب عوامل ہمارے داخلی معاملات میں بیرونی حکومتوں کے ملوث ہونے کی جو تصویر پیش کر رہے ہیں وہ بڑی تشویش ناک ہے اور ہماری آزادی اور حاکمیت کے لیے بڑا خطرہ ہے۔ ایک طرف امریکا قوم کے احتجاج کے باوجود پوری بے باکی سے ڈرون حملوں میں مصروف ہے اور دوسری طرف مصالحت کے نام پر سیاسی اور سفارتی ڈرون بھی داغے جارہے ہیں۔ قوم اس صورت حال میں دل گرفتہ اور اپنی آزادی اور حاکمیت کی بردگی (erosion) پر سخت تشویش کا اظہار کر رہی ہے۔ پہلے بیرونی اثرات بڑے معاملات تک محدود تھے مگر اب یہ معمولی امور میں بھی مداخلت کی صورت اختیار کرتے جارہے ہیں اور جس نئی غلامی کی طرف قوم کو دھکیلا جا رہا ہے، وہ ناقابلِ برداشت ہے۔
ہم مجبور ہیں کہ قوم کے اس اضطراب اور تشویش کا بھی اظہار کریں کہ کیا بات صرف ان اعلانات تک محدود ہے جو وزیراعظم نے کیے ہیں یا ان کے پیچھے کوئی اور ڈیل بھی چھپی ہوئی ہے جو تحریک کے کچھ عناصر، حکومت اور بیرونی کھلاڑیوں کے درمیان ہوئی ہے اور ابھی تک پردہ خِفا میں ہے۔ اس تشویش کا اظہار مختلف حلقوں سے ہو رہا ہے اور اسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ دی نیوز اخبار اپنے ادارتی کالموں میں اس خدشے کا اظہار یوں کرتا ہے:
ہمیں نہیں معلوم کہ بند دروازوں کے پیچھے اس پر کوئی ڈیل ہوئی ہے یا نہیں۔ ججوں کو بحال کرنے کے ڈرامائی اعلان کے پس منظر میں کسی راضی نامے کی تفصیلات ابھی تک معلوم نہیں ۔ (اداریہ، دی نیوز، ۱۷ مارچ ۲۰۰۷ء)
بلاشبہہ عدلیہ کی بحالی کی تحریک اپنے مرکزی ہدف کی حد تک کامیاب رہی لیکن جیساکہ ہم نے عرض کیا: عدلیہ، پارلیمنٹ اور تحریک کے شرکا سب کا امتحان اب شروع ہوا ہے۔ سیاسی ہدف کے حصول کے لیے عوامی تحریک چلانا ضروری نہیں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اگر سیاسی اہداف معروف سیاسی عمل کے ذریعے حاصل نہیں ہوتے تو عوام کو مزاحمت اور عوامی دبائو کا راستہ اختیار کرنا پڑتا ہے، اس لیے ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ عدلیہ، پارلیمنٹ اور خصوصیت سے حکومت، حزبِ اختلاف اور میڈیا کو اس طرف متوجہ کریں کہ جس تبدیلی کا آغاز ۱۶ مارچ کو حکومت کی طرف سے عوامی مطالبات کے احترام کے عندیے کے اظہار سے ہوا ہے، اسے اس کے فطری انجام تک پہنچانے کی جدوجہد کریں۔ اس وقت جو بڑے بڑے چیلنج قوم کے سامنے ہیں وہ سب مثبت ردعمل کا تقاضا کرتے ہیں۔ ہم چند نکات کی طرف اشارہ ضروری سمجھتے ہیں:
۱- ججوں کی بحالی ہو گئی لیکن ابھی عدلیہ کی ۲ نومبر ۲۰۰۷ء والی صورت میں مکمل بحالی اور ۳نومبر کے تباہ کن اقدام کی تنسیخ اور اس کے تحت رونما ہونے والے بگاڑ کی اصلاح ہونا باقی ہے۔ یہ کام، جیساکہ ہم نے اُوپر عرض کیا ہے، بلاتاخیر ہونا چاہیے لیکن عدلیہ اور وکلا کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ عوام عدل کے قیام اور قانون کی بالادستی اور قانون کی نگاہ میں سب کی برابری کے نظام کے متمنی ہیں۔ اس ہدف کے حصول کے بغیر وہ اپنی تحریک کو کامیاب نہیں سمجھیں گے۔ اس کے لیے عدلیہ کی تنظیم نو کے ساتھ اس بات کی ضرورت ہے کہ عدلیہ عدالتی فعالیت (judicial activism) اور عدالتی ضبط (judicial restraint) کی بحثوں میں پڑے بغیر کم از کم مندرجہ ذیل امور کا اہتمام کرے:
ا- عدلیہ سے بدعنوانی کا خاتمہ، خصوصیت سے نیچے کی سطح پر جہاں عوام کو نظامِ عدل کے کارپردازوں سے روزمرہ سابقہ پیش آتا ہے اور وہ بے انصافی، بدعنوانی، تاخیر اور تعویق کے چکروں سے بے زار ہیں۔ عوام کو انصاف چاہیے، انصاف ہوتا نظر آنا چاہیے،انصاف تاخیر کے بغیر حاصل ہو اور عوام کی دہلیز پر آسکے۔ اس کے لیے اعلیٰ عدالتوں کو بڑا مؤثر کردار ادا کرنا ہوگا۔
ب- عدالتیں دستور اور قانون کے مطابق انصاف کی فراہمی کے لیے کمربستہ ہوجائیں اور سیاسی اور دوسرے اثرورسوخ کے سایے سے بھی اپنے کو محفوظ رکھیں۔ اس سلسلے میں جو بُری روایات گذشتہ ادوار میں راہ پا گئی ہیں ان کو شعوری جدوجہد کے ذریعے ختم کرنا اور انصاف فراہم کرنے والے افراد اور اداروں پر عوام کے اعتماد کو بحال کرنا وقت کی بہت اہم ضرورت ہے۔
ج- عدالت عالیہ کے ازخود (suo moto) اختیارات پر قینچی چلانے کی ہرکوشش کو سختی سے ناکام بنانا ہم سب کا فرض ہے لیکن عدالت کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ دستور کی حفاظت اور عوام کے حقوق کی پاسداری کے لیے تو سرگرم ہو مگر دستور میں جو تقسیمِ اختیارات اور توازن (check & balance) کا نظام ہے اس کا احترام کرے۔
د- چند بنیادی ایشو ایسے ہیں جن کا اعلیٰ عدالتوں کو جرأت اور دیانت کے ساتھ سامنا کرنا پڑے گا۔ ان میں پی سی او کا مسئلہ، این آر او کا جواز (legitimacy) اور اس کی معقولیت (propriety) اِسی طرح ہزاروں لاپتا افراد کی بازیافت کے مسائل کلیدی حیثیت رکھتے ہیں اور عدالت کی آزادی کا امتحان بھی ان امور پر اس کے کردار سے ہو گا۔
ھ- وکلا کی تحریک نے وکیلوں پر عوام کے اعتماد کو ایک نئی زندگی دی ہے۔ لیکن اس کا تقاضا ہے کہ وکلا بھی محض پیسہ کمانے اور اپنے موکلوں کے استحصال کا راستہ اختیار نہ کریں بلکہ خدمت اور مظلوم کی مدد اور انصاف کے حصول میں ان کی معاونت کو اپنا شعار بنائیں اور جو کاروباری رنگ اس معزز پیشے نے اختیار کرلیا ہے، اس سے نجات کی فکر کریں۔ کسب حلال آپ کا حق ہے لیکن یہ بھی آپ کا فرض ہے کہ محنت اور دیانت سے اپنے موکل کی خدمت کریں اور اس کا حق ادا کریں۔ انصاف سے محرومی آج ایک عام آدمی کا سب سے بڑا مسئلہ ہے اور تھانے کچہری کے کلچر نے اس کی زندگی کو عذاب بنا دیا ہے۔ عدلیہ سے متعلق تمام افراد کا خواہ ان کا تعلق بار سے ہو یا بنچ سے، ایک ہی ہدف ہونا چاہیے اور وہ عوام کو پورا پورا انصاف فراہم کرانا ہے جو دیانت، حق و صداقت اور عام آدمی کی دسترس کے اندر حاصل ہوسکے۔ اس لیے انصاف، جلد انصاف اور سستا انصاف ہمارا شعار (موٹو) ہونا چاہیے۔
۲- دوسرا مسئلہ دستور کی بحالی کا ہے۔ اس سلسلے میں بھی سارے دعوئوں کے باوجود برسرِاقتدار جماعتوں نے مجرمانہ غفلت کا ارتکاب کیا ہے۔ دستور کو ۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹ء کی حالت میں بحال کرنے کا ہر ایک نے وعدہ کیا ہے۔ میثاق جمہوریت (۲۰۰۶ء) کا یہ مرکزی نکتہ ہے اور جولائی ۲۰۰۷ء میں لندن میں منعقدہ کُل جماعتی کانفرنس نے اس کا عہد کیا تھا لیکن اس طرف کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔ زرداری صاحب نے صدارت سنبھالنے کے بعد اختیارات پارلیمنٹ کو تحفہ میں دینے کا عہد کیا تھا مگر اپنے دوسرے تمام عہدوپیمان کی طرح اسے بھی وہ بھول گئے ہیں۔ دستور کی اصل شکل میں بحالی کے بغیر، نہ پارلیمنٹ کی بالادستی قائم ہوسکتی ہے اور نہ جمہوریت اور ملک کے تمام ادارے تقویت حاصل کرسکتے ہیں، اس لیے تمام جماعتوں کو اس کی طرف بلاتاخیر متوجہ ہونا چاہیے اور پارلیمنٹ کا اجلاس خواہ اسے کتنے ہی دن چلانا پڑے بلایا جائے اور جلد از جلد دستور کو، جس پر ضربیں لگا کر اس کا حلیہ بگاڑ دیا گیا ہے، بگاڑ اور خرابیوں سے پاک کیا جائے تاکہ آمریت کے دور میں اس کے جسم پر لگے زخم مندمل ہوسکیں۔
۳- تیسرا بنیادی مسئلہ ملک میں امن و امان کے قیام کا ہے جس کا گہرا تعلق ’دہشت گردی‘ کے خلاف امریکی جنگ میں پاکستان کی شمولیت اور اس کے نتیجے میں صرف فاٹا اور قبائلی علاقوں ہی میں نہیں، پورے ملک میں حکومت، فوج اور عوام کے درمیان شدید کش مکش اور پیکار کی کیفیت ہے۔ ہزاروں افراد اس آگ میں لقمۂ اجل بن گئے ہیں، لاکھوں بے گھر ہوئے ہیں، دہشت گردی، اور جرائم میں اضافہ ہوا ہے، معیشت پر اس کے اثرات تباہ کن ہوئے ہیں اور محتاط اندازوں کے مطابق گذشتہ ۸ سال میں معیشت ۳ کھرب روپے (۳۵ بلین ڈالر) سے زیادہ کا خسارہ برداشت کرچکی ہے۔ اس دلدل سے نکلنے کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی۔ سب سے بڑھ کریہ کہ ملک کی آزادی خطرے میں پڑ گئی ہے، اور حاکمیت مجروح ہوئی ہے اور قومی عزت و وقار خاک میں مل گیا ہے۔
۴- چوتھے مسئلے کا تعلق مرکز اور صوبوں کے تعلقات کو انصاف اور وفاق کے مسلّمہ اصولوں کی بنیاد پر استوار کرنے اور صوبوں کو ان کے سیاسی اور معاشی حقوق پورے کے پورے ادا کرنے کا ہے۔ اس سلسلے میں دستور میں بھی ضروری ترامیم کی ضرورت ہے اور اس سے زیادہ عملی طور پر صوبوں کے معاملات میں مرکز کی مداخلت اور صوبوں کے وسائل پر مرکز کی گرفت دونوں کی فوری اصلاح کی ضرورت ہے۔ بلوچستان کے حالات خصوصی توجہ کے مستحق ہیں لیکن بات صرف بلوچستان کی نہیں بلکہ تمام صوبوں کی ہے۔ ستم ہے زرداری صاحب نے پنجاب تک کو اپنے معاملات خود نمٹانے کے حق سے محروم کر دیا ہے اور گورنر راج کی لعنت اس پر مسلط کردی ہے۔ صوبائی خودمختاری اور صوبے کے اپنے وسائل پر تصرف کے اختیارات کا احترام وقت کی بڑی ضرورت ہے۔
۵- پانچواں مسئلہ ملک کی بگڑی ہوئی معیشت اور خصوصیت سے پیداواری نظام کا جھول، بے روزگاری میںاضافہ، غربت اور افلاس میں اضافہ، قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ، بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ، پانی کی قلت اور تعلیم اور علاج کی سہولتوں کا فقدان ہے۔ قوم، اشرافیہ اور مفلوک الحال طبقوں میں بٹ گئی ہے اور عام آدمی کے لیے زندگی گزارنا مشکل ہوگیا ہے۔ موجودہ حکومت ایک سال میں بھی کوئی مربوط اور حقیقت پسندانہ معاشی پالیسی تشکیل دینے میں ناکام رہی ہے اور ملک ایک فلاحی اور خوش حال معاشرے کی جگہ ایک استحصالی نظام کی گرفت میں آگیا ہے جس کے نتیجے میں معاشی بگاڑ کے ساتھ ساتھ اخلاقی اور معاشرتی خلفشار بھی بڑھ رہا ہے۔ معاشی مسائل روز بروز بگڑ رہے ہیں اور اربابِ اقتدار کا حال یہ ہے کہ انھیں اپنی عیش پرستیوں کے سوا کسی بات میں دل چسپی نہیں۔ یہ حالات انقلاب کی طرف لے جانے والے ہیں اور فوری توجہ کا تقاضا کر رہے ہیں۔
۶- چھٹی اور آخری چیز قوم میں مقصدیت کا فقدان اور قومی مقاصد کے باب میں ذہنی انتشار اور خلفشار کو ہوا دینے کی تباہ کن پالیسی ہے جس پر حکام اور بااثر طبقات کاربند ہیں۔ وہی قومیںترقی کرتی ہیں جن کے سامنے کوئی مقصد ہو، جو اپنی شناخت کی حفاظت کر سکیں، جن کا تعلیمی نظام فکری اور نظریاتی یکسوئی کے ساتھ اعلیٰ صلاحیتوں سے نئی نسلوں کو آراستہ کرے، جن کے سامنے اعلیٰ مقاصد کا حصول اور صرف ذات کی پوجا کے مقابلے میں قومی زندگی کے استحکام و ترقی اور انسانیت کے لیے کسی اعلیٰ آدرش کے حصول کا جذبہ اور صلاحیت ہو۔ اسلام نے ہمیں زندگی کا اعلیٰ ترین تصور دیا ہے جو ہمارے لیے ہی نہیں پوری انسانیت کے لیے رحمت اور نعمت ہے لیکن ہمارا حال یہ ہے کہ ہم اپنے مقصد حیات اور تہذیبی اہداف کو بھولے ہوئے ہیں اور جاہلانہ عصبیتوں کا شکار ہیں اور ہمارا حال یہ ہے کہ ؎
رہے نہ روح میں پاکیزگی تو ہے ناپید
ضمیرِ پاک و خیالِ بلند و ذوقِ لطیف
حالانکہ زندگی نام ہے تخلیق کے مقاصد کے حصول کی جدوجہد کا اور آرزو کو زندہ و بیدار رکھنے کا۔ بقول اقبال ؎
ما ز تخلیقِ مقاصد زندہ ایم
از شعاع آرزو تابندہ ایم
(حالات کیسے ہی دگرگوں ہوں، اگر دلوں میں حصولِ منزل کی آرزو ہے اور ہم تخلیقِ مقاصد سے دست کش نہیں ہوئے تو ہمیں یقین رکھنا چاہیے کہ سرنگ کے اُس پار نظر آنے والی روشنی، ہمارا استقبال کرنے کے لیے بے تاب ہے۔)
بقول عرفی ؎
کسیکہ محرم بادِ صباست ، مے داند
کہ باوجودِ خزاں، بوئے یاسمن باقیست
(جو شخص بھی بادِ صبا کے لطف و خوش بو سے واقف ہے، خوب جانتا ہے، کہ موسمِ خزاں کے باوجود، یاسمین کی خوش بو اور مہک (کہیں نہ کہیں) موجود ہے۔)