اس حدیث میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے گویا حساب لگا کر بتا دیا ہے کہ باجماعت نماز کا اجر انفرادی نماز سے ۲۵ گنا کیوں ہوتا ہے۔ سب سے پہلے نمازی نے وضو کیا پھر مسجد کی طرف روانہ ہوا، تو چونکہ یہ سارا اہتمام اس نے نماز کی خاطر کیا، اس لیے گویا اس کا حساب کھل گیا۔ اب اس کے ہر قدم پر جو نیکی کی جانب اُٹھ رہا ہے اس کا ایک گناہ معاف ہوتا ہے، اور ایک درجہ اس کا بلند کردیا جاتا ہے۔ مسجد میں آیا، ابھی جماعت میں دیر ہے تو جتنی دیر وہ نماز کے انتظار میں بیٹھا رہے گا اس کا یہ سارا وقت بھی نماز کے حساب میں لکھا جائے گا۔ پھر جب نماز پڑھے گا تو فرشتے اس پر رحمت بھیجیں گے۔ اس طرح یہ ساری چیزیں مل کر نماز باجماعت کے اجر کو بڑھا دیتی ہیں، بہ نسبت اس نماز کے جو گھر میں ادا کی جائے۔
اس روایت میں یہ الفاظ مروی ہیں کہ ’’جب تک وہ کسی کو مسجد میں ایذا نہ دے اور جب تک اس کا وضو نہ ٹوٹے‘‘ یعنی اگر مسجد میں جاتا ہے اور وہاں جھگڑتا ہے، دوسرے نمازیوں کو اذیت پہنچاتا ہے،دھکے مار کر اور دوسروں پر سے پھلانگ کر اپنا رستہ بناتا ہے تو وہ اپنے اجر کو ضائع کرتا ہے۔ اسی طرح اگر ایک آدمی نے وضو توڑ دیا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ نماز میں نہیں۔ وضو کے ساتھ ہونا ہی اس بات کا ثبوت ہے کہ نماز کے لیے تیار ہے۔
مطلب یہ ہے کہ ہر گروہ یہ چاہے گا کہ میری مسجد زیادہ شان دار اور زیادہ اُونچی ہو اور اس سلسلے میں لوگوں کے درمیان باہم مقابلہ شروع ہوجائے گا۔ آپؐ نے فرمایا کہ یہ بھی قربِ قیامت کی ایک علامت ہے۔ جب ایسا ہو تو دوسرے لفظوں میں اس کا مطلب یہ ہوگا کہ خیر کم ہورہی ہے اور مسجدوں کو بھی لوگوں نے ایک دوسرے پر تکبر کرنے کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ تکبر کا اظہار محلات بنانے میں ہو تو یہ بھی گناہ ہے لیکن اس سے کہیں زیادہ بڑا گناہ یہ ہے کہ لوگ مسجدوں کے ذریعے اپنے تکبر کا اظہار کریں۔
عام طور پر لوگ اس حدیث کا جو مطلب لیتے ہیں وہ اس حکمتِ مطلوب کے خلاف ہے جسے اسلامی احکام پر عمل کرتے ہوئے ملحوظِ خاطر رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ کون سا حکم کس موقع پر عمل میں آنا چاہیے، اگر آدمی اس کو نہ سمجھے تو عموماً غلطی کا شکار ہوجاتا ہے۔ اسی مسئلے کو لے لیجیے۔ جب یہ حکم دیا جارہا تھا تو عہدِ رسالتؐ میں لوگوں کا نقطۂ نظر یہ تھا کہ کوئی شخص نماز پڑھے بغیر مسلمانوں میں سے نہیں ہوسکتا۔ ترکِ صلوٰۃ کا عمل اسلامی نظام جماعت سے علیحدہ ہوجانے کی علامت تھی۔ یہی وجہ ہے کہ منافقین تک کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں نماز ادا کرنی پڑتی تھی۔ یہ بات کسی مسلمان کے ذہن میں آ ہی نہیں سکتی تھی کہ نماز کے بغیر بھی آدمی کا ایمان و اسلام سلامت رہتا ہے۔ ایک مسلمان بچہ اس معاشرے میں اپنے گھر والوں اور اہلِ محلہ کو نماز پڑھتے دیکھ کر ۷ سال کی عمر سے پہلے ہی نمازی ہوچکا ہوتا تھا۔ نماز نہ پڑھنے پر اگر ۱۰ سال کی عمر میں اسے سزا دی جاتی وہ اسے ایک امر معقول تصور کرتا تھا، وہ جانتا تھا کہ نماز نہ پڑھنا ایک جرم ہے۔جس طرح چوری کرنے والے کو سزا دی جاتی ہے اسی طرح جو شخص نماز نہ پڑھتا ہو اسے بھی سزا ملنی چاہیے۔ مگر آج صورت حال بالکل مختلف ہے۔
آج ایک مسلمان بچہ آنکھ کھولتا ہے تو مسلمانوں میں سے بمشکل ۵ فی صد افراد کو نمازی پاتا ہے۔ وہ دیکھتا ہے کہ مسلمانوں کی سوسائٹی میں ایک شخص نماز پڑھے بغیر بڑی سے بڑی اعلیٰ پوزیشن بھی حاصل کرسکتا ہے۔ مسلمان ہی نہیں کہلاتا مسلمانوں کا رہنما اور حکمران بھی بن سکتا ہے۔ اس کے گھر کے حالات یہ ہوتے ہیں کہ اگر اس کی ماں نماز پڑھتی ہے تو باپ نہیں پڑھتا، اور اگر باپ پڑھتا ہے تو بڑا بھائی نہیں پڑھتا۔ یہ منظر دیکھ دیکھ کر اس کی ذہنیت ہی کچھ اور ہوجاتی ہے۔ ۱۰ برس کی عمر تک پہنچتا ہے تو تین چار جماعتیں بھی پڑھ چکا ہوتا ہے۔ اسکول میں وہ دیکھتا ہے کہ اس کے استاد نماز نہیں پڑھتے۔ اس سلسلۂ واقعات میں سے گزرنے کے بعد اگر آپ اسے نماز نہ پڑھنے پر سزا دینی شروع کردیں تو وہ اسے زیادتی تصور کرے گا اور اس کے ذہن میں بغاوت پیدا ہوجائے گی۔ مار کے ڈر سے اس کا جسم نماز پڑھ بھی لے مگر دل نمازی نہیں بنے گا، اور بڑا ہوجانے پر اسے جب بھی باپ سے جدا ہونے کا موقع ملے گا وہ پہلا کام یہی کرے گا کہ نماز چھوڑ دے گا۔
آپ کا فرض یہ ہے کہ بچے کے دل میں نماز اُتارنے کی کوشش کریں۔ مارنے سے پہلے اسے دل سے نمازی بنائیں اور اس کا سینہ نورِ ایمان سے منور کریں۔ احساسِ فرض پیدا کرنے کے بعد آپ اسے جو نماز پڑھائیں گے وہ اسے عمر بھر جاری رکھے گا۔ اور اگر آپ چاہیں کہ یہ سب کچھ کیے بغیر انھی بگڑے ہوئے حالات میں اسے نماز نہ پڑھنے پر سزا دیں تو یہ نسخے کا غلط استعمال ہوگا۔ یہ کام اناڑی کیا کرتے ہیں کہ نسخہ پڑھ لیا اور اس کے بعد نہ موسم کو دیکھا نہ مریض کے خصوصی حالات کو، بلا سوچے سمجھے اس کا استعمال شروع کردیا۔
نماز کی محافظت سے مراد یہ ہے کہ دائماً اوقات کی پابندی اور اس کی جملہ شرائط کے ساتھ اس کی ادایگی۔ نماز کا ضائع کرنا یہ ہے کہ وقت آیا اور جانے کو ہے مگر آپ کو اس کی کوئی فکر نہیں۔ آپ نے دیکھا کہ لوگ نماز پڑھ رہے ہیں تو وضو بے وضو ہی ٹرخا دی۔ صلوٰۃ کی محافظت یہ ہے: کپڑوں کا پاک صاف ہونا، کامل احتیاط کے ساتھ وضو کرنا اور نماز کے وقت پر اسے ادا کرنا، یہ ساری باتیں اس میں شامل ہیں۔ حضوؐر فرما یہ رہے ہیں کہ جو شخص نماز کو اوقات و شرائط کے ساتھ ادا کرے گا تو یہ نماز اس کے لیے نور بن جائے گی۔ دنیا میں اسے روشنی نظر آئے گی اور وہ صاف دیکھ لے گا کہ سیدھا راستہ کون سا ہے اور غلط کون سا؟ اس دنیا کی روشنی پر قیامت کے دن کی روشنی کا انحصار ہے۔ وہاں نماز ادا کرنے والے خلقِ خدا میں الگ چمکتے ہوئے نظر آئیں گے۔ یہ نور اس کا پتا دے گا کہ نیک کون ہے؟ پھر آپؐ نے فرمایا کہ نماز برہان ہوگی، یعنی اس بات کی دلیل کہ نماز ادا کرنے والا نجات کا مستحق ہے۔ نماز کی پابندی اس کے لیے معافی کے مستحق ہونے کی دلیل ہوگی اور اس کے نتیجے میں وہ قیامت کے دن نجات سے ہم کنار ہوگا۔ اور جو لوگ نماز کی محافظت نہیں کریں گے تو آخرکار ان کا انجام ان لوگوں کے ساتھ ہوگا جن کا ذکر حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ جس طرح یہ لوگ غافل ہوکر زندگی گزارتے رہے اور انجامِ کار اللہ کے عذاب سے دوچار ہوئے، اس طرح وہ شخص جو غفلت سے زندگی گزارے گا اس کی عاقبت بھی بالآخر انھی جیسی ہوگی۔
قرآن حکیم سے ثابت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں منافقین تک نماز پڑھنے پر مجبور تھے۔ قرآن یہ نہیں کہتا کہ منافقین نماز نہیں پڑھتے، بلکہ یہ ہے کہ شوق و رغبت سے نہیں پڑھتے: وَ اِذَا قَامُوْٓا اِلَی الصَّلٰوۃِ قَامُوْا کُسَالٰی (النساء ۴:۱۴۲) ۔ گویا وہ مجبوراً نماز اس لیے ادا کرتے تھے کہ ان کو مسلمان سمجھا جاتا رہے۔ صحابہؓ کی راے یہ تھی کہ نماز کا ترک، کفر ہے۔ جو شخص نماز ادا نہیں کرتا یا تو اس کا تعلق دین سے ٹوٹ گیا یا ٹوٹنے کے قریب ہے۔ دنیا میں یہ بھی دیکھ لیجیے کہ ایسی جماعتیں موجود ہیں جو کہتی ہیں کہ اگر ان کا کوئی رکن چار اجلاسوں میں شریک نہ ہو تو اسے رکنیت سے خارج کردیا جائے گا۔ یہ اخراج کیوں ہوتا ہے؟ اس لیے کہ غیرحاضر رکن نے مسلسل غیرحاضر ہوکر جماعت سے اپنی عدم دل چسپی کا ثبوت فراہم کردیا۔ اسی طرح اللہ تبارک و تعالیٰ نے پانچ وقت کی نماز مقرر کی ہے تاکہ یہ معلوم ہوتا رہے کہ دین سے آپ کا سرگرم تعلق ہے یا نہیں۔ اگر آپ نماز ادا نہیں کرتے تو یہ گویا اس کا ثبوت ہے کہ یا تو دین کے ساتھ آپ کا تعلق ٹوٹ گیا یا پھر ٹوٹنے کے قریب پہنچ چکا ہے۔
المرء مع من احب، جس کو جس سے محبت ہوتی ہے، اس کے ساتھ ہوتا ہے۔ ہم اگر دو آدمیوں کو ہروقت ساتھ دیکھتے ہیں تو یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ ان دونوں کو ایک دوسرے سے محبت ہے۔ اسی طرح حضور نبی کریمؐ پر زیادہ سے زیادہ درود بھیجنا اس بات کی علامت ہے کہ درود بھیجنے والے کو آپؐ سے محبت ہے۔ وہ یہ سمجھتا ہے کہ آپؐ میرے سب سے بڑے محسن ہیں اور خدا کے بعد آپ ہی کے حقوق مجھ پر سب سے زیادہ ہیں۔ میرا سب سے زیادہ تعلق حضوؐر کے ساتھ ہے۔ حضور نبی کریمؐ فرماتے ہیں کہ جس طرح درود بھیج بھیج کر دنیا میں اس نے مجھے سے قریب ہونے کا ثبوت دیا ہے، اسی طرح آخرت میں بھی وہ مجھ سے قریب ہوگا۔ یہاں یہ سمجھ لیجیے کہ آپؐ سے حقیقت میں تعلق ہو اور زبان سے درود بھیجا جائے، یہ نتیجہ تب برآمد ہوگا۔ محض زبان سے درود بھیجنے کا یہ نتیجہ نہیں نکل سکتا۔
حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص ہر نماز کے بعد ۳۳مرتبہ سبحان اللہ، ۳۳مرتبہ الحمدللہ اور ۳۳ مرتبہ اللہ اکبر کہے، یعنی کُل ۹۹ مرتبہ اور ۱۰۰ کی تعداد پوری کرنے کے لیے یہ کلمہ لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَاشَرِیْکَ لَہٗ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ پڑھے تو اس کی خطائیں بخشی جائیں گی، اگرچہ وہ سمندر کے جھاگ کے برابر ہوں‘‘۔ (مسلم)
خطائوں کو سمندر کے جھاگ سے اس لیے تشبیہہ دی کہ یہ کوئی ٹھوس اور مستقل چیز نہیں۔ بتانا یہ مقصود ہے کہ جس طرح جھاگ اُڑ جاتا ہے اسی طرح اس آدمی کی خطائیں معاف کردی جاتی ہیں، جو ہر نماز کے بعد یہ ذکر کرتا ہے۔
بعض لوگوں کو اس طرح کی روایات سن کر طرح طرح کے شکوک لاحق ہونے لگتے ہیں۔ وہ سوچتے ہیں کہ زبان میں چند مرتبہ حرکت ہو، اس سے فضا میں لہریں پیدا ہوجائیں، تواس کا یہ نتیجہ کیسے نکل سکتا ہے؟ اصل میں یہ نتیجہ محض زبان سے چند الفاظ نکال دینے سے ظاہر نہیں ہوتا، دل سے تسبیح و تحمید و تکبیر کرنے سے حاصل ہوتا ہے۔ جو آدمی ان کلمات کا مفہوم دماغ میں بٹھا لے، ذہن میں پیوست کرلے، اس سے خطائیں ہی کہاں سرزد ہوں گی؟ ہوں گی تو اس کا امکان نہیں کہ وہ خطا پر مصر ہو اور اللہ کے ہاں آدمی وہی پکڑا جاتا ہے جو اپنی غلطی پر اصرار کرے، لیکن اگر خطا کے بعد نادم ہو تو اسے معاف کردیا جاتا ہے۔ جو آدمی دل سے یہ کلمات کہتا ہے وہ ہیکڑی نہیں دکھا سکتا، کبھی نہ کبھی ضرور اسے توبہ کی توفیق ہوگی، اور توبہ سے ہر خطا معاف ہوجاتی ہے، حتیٰ کہ شرک بھی جو سب سے بڑا جرم ہے۔
یعنی نماز میں شیطان پوری کوشش کرتا ہے کہ بندہ نماز نہ پڑھنے پائے۔ دوسری چیزیں تو وہ پھر بھی کسی طرح برداشت کرلیتا ہے، لیکن اس کے لیے نماز سے بڑھ کر ناگوار کوئی چیز نہیں۔ پہلے تو اس کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ وہ سرے سے نماز ہی نہ پڑھے، لیکن اگر وہ باز نہ آئے تو پھر نماز میں خلل ڈالتا ہے۔ مختلف شبہات پیدا کرتا ہے تاکہ بددل ہوجائے، اسے یہ یاد ہی نہ رہے کہ میں اب تک کتنی رکعتیں پڑھ چکا ہوں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تمھیں بھول لاحق ہوجائے تو نماز سے بددل ہونے کے بجاے دو سجدے کرلو۔ یہ اس کے لیے کافی ہے کہ شیطان جو تم پر غالب آگیا تھا اس کا اثر ختم ہوجائے۔ یہ سجدے ان وسوسوں کا علاج ہیں جو تمھارے دل میں پیدا ہوگئے تھے۔ یہ سجدے ایک طرف اللہ کے حضور معافی چاہنا ہے، دوسری طرف شیطان کو یہ بتانا ہے کہ تو نے سارا زور لگا دیا، مگر کچھ نہیں کرسکا۔ یہ دو سجدے اور کر رہا ہوں۔ یہ دو سجدے گویا ارشاد رسولؐ کے مطابق شیطان کے چہرے پر دو دھپ یا دو چانٹے ہیں۔ (انتخاب: افاداتِ مودودیؒ، نماز کے متعلق احادیث، مشکوٰۃ کی تشریح، مؤلف: میاں خورشید انور)