سوڈان کے بارے میں مغرب کے عزائم کوئی خفیہ راز نہیں۔ وہی مغرب جسے غزہ میں انسانی حقوق کی پامالی، جارحیت، قتل و غارت، سفاکی و بے رحمی کچھ نظر نہیں آتا، دارفور میں ایسا کچھ نہ ہونے پر بھی، تمام عالمی اداروں کو حکومتِ سوڈان کے خلاف صف آرا کردیتا ہے۔ اقوامِ متحدہ نے ۲۰۰۴ء سے لے کر اب تک پوری ۱۱قراردادیں منظورکرڈالیں کہ حقوقِ انسانی کی صورت حال خراب ہے۔ سیکورٹی کونسل نے ۲۰۰۵ء میں اپنی قرارداد نمبر ۱۵۹۳ کے ذریعے یہ معاملہ عالمی عدالتِ جرائم میں بھیج دیا۔ ۱۴ جولائی ۲۰۰۸ء کو اٹارنی جنرل اوکامبو نے یہ الزام لگاتے ہوئے کہ ’’سوڈانی باشندے وزیر انسانی امور احمد محمد ہارون اور جنجا وید ملیشیا کے سربراہ علی قشیب دارفور میں قتلِ عام کے اصل ذمہ دار ہیں اور سوڈانی صدر انھیں ہمارے حوالے نہیں کر رہے، مطالبہ کیا کہ خود صدر کے خلاف وارنٹ گرفتاری جاری کیے جائیں۔ ۴ مارچ ۲۰۰۹ء کو عدالت نے خود صدرعمرالبشیر ہی کو اس قتلِ عام کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے باقاعدہ وارنٹ گرفتاری جاری کردیے۔ اب اوکامبو کا کہنا ہے کہ جیسے ہی سوڈانی صدر ملک سے باہر نکلے گا انھیں گرفتار کرلیا جائے گا۔ امریکا اور فرانس نے بھی اس بارے میں بڑھ چڑھ کر دھمکیاں دی ہیں۔
دارفور کا بحران آخر ہے کیا؟عرب اور افریقی قبائل کے درمیان چراگاہوں کے مسئلے پر جھگڑا ہوا جسے فتنہ جو طاقتوں نے ہوا دے کر حکومت کے خلاف بغاوت کی شکل دی۔ تحریکِ آزادیِ سوڈان قائم کی جسے ہر طرح کی پشت پناہی اور مدد فراہم کی گئی۔ اس کے اسرائیل سے باقاعدہ روابط قائم ہیں۔ عالمی سطح پر بے بنیاد پروپیگنڈے کے ذریعے عمرالبشیر کو مجرم قرار دلوانے کی کوشش کی گئی۔
سوڈان کے دوست اور دشمن سب جانتے ہیں کہ یہ کوئی عدالتی نہیں، سراسر سیاسی مسئلہ ہے اور اصل ہدف سوڈانی صدر نہیں، سوڈان کی ریاست ہے۔ جس عدالت سے وارنٹ جاری کیے گئے ہیں اس کی تشکیل کے وقت دو باتیں طے کی گئیں: ایک تو یہ کہ یہ عدالت اپنی تاریخِ تشکیل (یکم جولائی ۲۰۰۲ء) سے پہلے کے واقعات کے بارے میں خاموش رہے گی۔ دوسرے یہ کہ جو ممالک اس عدالت کی تشکیل کی دستاویز پر دستخط اور ان دستخطوں کی توثیق نہیں کریں گے، عدالت ان ممالک کے بارے میں بھی کوئی مقدمہ نہیں سن سکے گی۔ یہی وجہ تھی کہ حال ہی میں ۴۰ سے زائد عراقی درخواست گزاروں نے عراق میں ہونے والے قتلِ عام اور ابوغُرَیب کے واقعات کے بارے میں مقدمہ درج کروانے کی کوشش کی تو اٹارنی جنرل اوکامبو نے یہ کہہ کر درخواستیں مسترد کردیں کہ عراق نے عدالت کو تسلیم ہی نہیں کیا اس لیے وہاں کا کوئی مقدمہ نہیں سن سکتے۔ یہی جواب غزہ کے بارے میں دی جانے والی درخواستوں کا بھی دیا گیا کہ اسرائیل نے عدالت کو تسلیم نہیں کیا۔ لیکن جب پوچھا گیا کہ سوڈان نے بھی تو اس عدالت کو تسلیم نہیں کیا…؟ (No comments) ،اس پر کوئی تبصرہ نہیں۔
یہ ہے عالمی عدالت کے انصاف اور انسان دوستی کی حقیقت! اس کے اٹارنی جنرل لوئیس مورینو اوکامبو نے یہ سارا بحران کھڑا کرنے اور ایک مسلمان حکمران کے خلاف مقدمہ قائم کرنے کے لیے اتنی زحمت بھی گوارا نہیں کی کہ خود دارفور جاکر حقائق و شواہد کا جائزہ لیتا۔ اس نے صرف بعض غیرسرکاری تنظیموں این جی اوز اور کچھ برسرِپیکار عناصر کی گواہیوں پر ہی مقدمے کی پوری عمارت کھڑی کر دی۔ ان ’عناصر‘ کی قلعی بھی خود صہیونی اخبارات کھول رہے ہیں۔
اس وارنٹ گرفتاری اور عالمی عدالت جرائم کے دائرۂ کار اور طریق کار کے بارے میں مزید کئی قانونی و اخلاقی پہلو بہت اہم ہیں، لیکن بنیادی طور پر چونکہ یہ ایک سیاسی مسئلہ ہے اس لیے حکومت سوڈان بھی اسے سیاسی انداز ہی سے حل کر رہی ہے۔ ابھی تک سوڈان کی طرف سے اس عدالت میں نہ کوئی پیش ہوا، نہ کسی طرح مقدمے کی پیروی ہی کی گئی ہے۔ ہاں دارفور کی صورت حال کا سنجیدگی سے جائزہ لیتے ہوئے اصلاح احوال کی متعدد اہم کوششیں کی گئی ہیں۔ دارفور میں تعمیروترقی کے کئی منصوبے مکمل ہوچکے ہیں، مزید کئی پر کام جاری ہے۔ دارفور کے مختلف دھڑوں اور حکومت کے درمیان مذاکرات کے کئی ادوار ہوچکے ہیں۔ مختلف قبائل کے درمیان بھی مصالحت کروائی گئی ہے اور بعض اہم قبائل اور حکومت کے مابین بھی۔ اس ضمن میں اہم ترین کامیابی قطر کے دارالحکومت دوحہ میں حکومت سوڈان اور دارفور کے بعض نمایاں متحارب دھڑوں کے درمیان بین الاقوامی گارنٹی کے ساتھ طے پانے والا معاہدہ ہے۔ ۴ مارچ کو وارنٹ گرفتاری آنے کے چار روز بعد ہی سوڈانی صدر شمالی دارفور کے دارالحکومت فاشر پہنچ گئے۔ لاکھوں کی تعداد میں اہلِ دارفور نے ان کا استقبال کیا۔ اگلے ہفتے وہ جنوبی دارفور کے شہر سبدو پہنچ گئے یہاں بھی ایسا ہی منظر تھا۔ عمرالبشیر نے ان اجتماعات میں اس عدالت اور اس کی پسِ پشت قوتوں کو مخاطب کرتے ہوئے اعلان کیا کہ ’’آپ کے وارنٹ کو جوتے کی نوک پر رکھتا ہوں اور ان شاء اللہ اپنے عوام کے تعاون سے تعمیروترقی کا سفر جاری رکھوں گا‘‘۔ سوڈانی صدر نے ان اجتماعات ہی میں اعلان کرتے ہوئے ایسی کئی عالمی تنظیموں کو سوڈان سے نکل جانے کا حکم دیا جو ان کے بقول امدادی سرگرمیوں کے لیے نہیں، جاسوسی کے لیے آئی ہوئی تھیں۔ ان کے اس اعلان پر سب سے زیادہ ہنگامہ ہیلری کلنٹن نے برپا کیا‘‘۔
اسرائیلی داخلی سلامتی کے وزیر ’آفی ڈیخٹر‘ بغیر کسی لاگ لپٹ کے واضح طور پر کہہ چکے ہیں: ’’ہمارا ہدف سوڈان کے حصے بخرے کرنا اور وہاں خانہ جنگی کی آگ بھڑکائے رکھنا ہے، کیونکہ سوڈان اپنی وسیع و عریض سرزمین، بے تحاشا معدنی و زرعی وسائل اور بڑی آبادی کے ذریعے ایک طاقت ور علاقائی قوت بن سکتا ہے۔ سوڈان کے ہم سے دُور دراز ہونے کے باوجود عالمِ عرب کی قوت میں اضافے کا سبب نہیں بننے دینا چاہیے۔ اگر سوڈان میں استحکام رہا تو وہ اپنے وسائل کے ذریعے ایسی قوت بن جائے گا جس کا مقابلہ ممکن نہیں رہے گا۔ سوڈان سے اس کی یہ صلاحیت سلب کرلینا اسرائیلی قومی سلامتی کی ایک ناگزیر ضرورت ہے‘‘۔(۱۰ اکتوبر ۲۰۰۸ء کے اسرائیلی اخبارات)
اسرائیلی وزیر نے تاریخ سے ایک حوالہ دیتے ہوئے کہا: ’’۱۹۶۸ء سے ۱۹۷۰ء کے دوران جب مصر اور اسرائیل حالت ِ جنگ میں تھے تو سوڈان نے مصری فضائیہ کی اصل قوت اور بری افواج کے تربیتی مراکز کے لیے اپنی سرزمین فراہم کی تھی۔ اس صورت حال کے اعادے سے بچنے کے لیے اسرائیلی ذمہ داران کا فرض تھا کہ وہ سوڈان کے لیے ایسی مشکلات کھڑی کریں جن سے نکلنا اس کے لیے ممکن نہ رہے‘‘۔ وزیرداخلی سلامتی کا مزید کہنا تھا کہ ہم نے سوڈان کے پڑوسی ممالک ایتھوپیا، یوگنڈا، کینیا اور زائیر میں سوڈان مخالف مراکز قائم کیے، اور اسرائیل کی تمام حکومتوں نے ان مراکز کو فعال رکھا ہے تاکہ سوڈان عالمِ عرب اور عالمِ افریقہ میں کوئی مرکزی حیثیت نہ حاصل کرسکے۔
اسی ترنگ میں دارفور کا ذکر کرتے ہوئے آفی ڈیخٹر کہتا ہے: ’’دارفور میں ہماری موجودگی ناگزیر تھی۔ یہ سابق اسرائیلی وزیراعظم شیرون کی دوربینی اور افریقی معاملات پر دسترس تھی کہ اس نے دارفور میں بحران کھڑا کرنے کی تجویز دی۔ ان کی تجویز پر عمل کیا گیا، عالمی برادری خاص طور پر امریکا و یورپ نے ساتھ دیا اور بالکل انھی وسائل، ذرائع اور اہداف کے مطابق دارفور میں ’کام شروع ہوگیا‘ جو ہم نے تجویز کیے تھے۔ آج یہ امر ہمارے لیے باعث ِ تشفی ہے کہ دارفور کے بارے میں ہمارے طے شدہ اہداف و مقاصد اب تکمیل کے آخری مراحل میں ہیں‘‘۔
دھمکیوں اور سازشوں کے سامنے ہتھیار ڈال دینا تباہی کا سفر تیز کردیتا ہے۔ اپنے حق پر ڈٹ جانا اور اپنی آزادی و وحدت کا ہر ممکن قوت سے دفاع کرنا ہی راہِ نجات ہے۔ سوڈانی صدر اور عوام نے یہی راستہ اختیار کیا ہے۔ وارنٹ جاری ہونے کے بعد اوکامبو نے دھمکی دی تھی کہ سوڈانی صدر بیرون ملک گئے تو گرفتار کرلیے جائیں گے۔ ۲۸مارچ کو دوحہ میں عرب لیگ کا سربراہی اجلاس ہو رہا ہے۔ سوڈانی صدر نے سب سے پہلے اعلان کیا ہے کہ میںوہاں ضرور جائوں گا۔ اس اعلان پر خود سوڈان میں بھی ایک راے یہ پائی جاتی ہے کہ وہاں نہ جایا جائے۔ علماکی ایک تنظیم نے فتویٰ جاری کر دیا ہے کہ اس وقت سفر خلافِ مصلحت ہے لیکن سوڈانی صدر ۲۸ مارچ کا انتظار کیے بغیر ۲۳مارچ ہی کو اریٹریا کی دعوت قبول کرتے ہوئے وہاں کے دارالحکومت اسمرہ پہنچ گئے تاکہ دنیا کو بھی ایک پیغام دیں اور اپنے عوام کو بھی نفسیاتی مخمصے سے نجات دلائیں۔
ابھی اس بحران کی بوتل سے صہیونی اشاروں پر بہت کچھ برآمد ہونے کی توقع ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ مسلمان ممالک اور اُمت ِ مسلمہ اس عالمی توہین کا کیا بدلہ لیتی ہے۔ اگر مسلمان ممالک نے افغانستان و عراق کی تذلیل کی طرح یہ اہانت بھی برداشت کر لی تو پھر یقینا ایک ایک کرکے سب کی باری آئے گی۔