علامہ محمد اسد کا مضمون سنت کی اہمیت (مارچ ۲۰۰۹ء) لاجواب ہے۔ علامہ صاحب کا یہ مضمون پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ہم مسلمانوں کی یہ خوش بختی ہے کہ ربِ کائنات کیسے کیسے قابل اور ذہین افراد کو اُمت مسلمہ میں بیداری پیدا کرنے کے لیے کہاں کہاں سے ڈھونڈ کر لاتا ہے۔ اشارات (ص ۴) میں انتخابات فروری ۲۰۰۸ء کے بجاے ۲۰۰۷ء لکھا ہوا ہے۔
ترجمان القرآن جہاں اہلِ علم کی ذہنی تشفی کا سبب ہے وہیں ہمارے تحریکی ساتھیوں اور ذمہ داران کی فکری و سیاسی شعور کی آبیاری کا باعث بھی ہے۔ البتہ بعض اوقات اُمتِ مسلمہ کے مسائل پر تازہ ترین صورت حال قدرے تاخیر سے قارئین تک پہنچتی ہے۔
مارچ کے شمارے میں آسی ضیائی مرحوم و مغفور کا جو تذکرہ حفیظ الرحمن احسن صاحب نے سپردِ قلم کیا ہے وہ تشنگی بڑھانے کا سبب ہے نہ کہ بجھانے کا۔ یہ دوسری بات ہے کہ موصوف تشنگی بڑھانا ہی چاہتے ہوں۔
’مفاہمت کے نام پر‘ (مارچ ۲۰۰۹ء) کسی عالمانہ تجزیے کے بجاے ایک سیاسی کارکن کے جذبات کا اظہار ہے۔ ترجمان القرآن کو علمی اور دانش ورانہ سطح کا جریدہ بننا چاہیے۔
اگرچہ مطالعہ کتاب (مارچ ۲۰۰۹ء) ایک مفید تحریر ہے، تاہم اس امر کا خیال رہے کہ سیاسی شخصیات سے وابستہ لوگوں کے جذبات بڑے نازک ہوتے ہیں۔ اس لیے اجتماعی اور انفرادی سطح پر ان کے مضمرات کو نظروں سے اوجھل نہیں ہونا چاہیے۔
آپ شاید یقین نہ کریں میں بڑی شدت سے ترجمان کا منتظر رہتا ہوں۔ اس میں رشد و ہدایت کی جو تحریریں ہوتی ہیں، بس وہی میری تربیت کا حصہ ہیں۔ ان سے سکون ملتا ہے، ورنہ تو اس قید کی زندگی میں سواے بے سکونی کے کچھ نہیں۔ فروری کے شمارے میں ڈاکٹر انیس احمد کی تحریر ’وحی‘ شائع ہوئی ہے۔ کیا یہ تحریر انگریزی میں مجھے مل سکتی ہے؟
میں اپنی کم علمی کے ساتھ اذان دے رہا ہوں اور کچھ کالے گورے توجہ سے سنتے ہیں۔ یہ تحریریں ہی میرا کُل علم ہیں۔ اگر یہ مجھے انگریزی میں ملیں تو میں اِن کو بہتر طریقے سے استعمال کرسکتا ہوں۔ جب میں خود سے اِن کا ترجمہ کرتا ہوں تو بہت کچھ رہ جاتا ہے۔ انگریزی میںکتابیں تو بہت آرہی ہیں، لیکن ان میں اسلام کی اصل روح نظر نہیں آتی سواے فتووں کے۔ یہاں قید میں وسائل سے محروم ہوں۔ سواے اللہ کے اور آپ کے ادارے کے کوئی وسیلہ نہیں کہ چند گورے کالوں کی تربیت کرسکوں۔ مولانا مودودیؒ کا اصل پیغام پہنچا سکوں۔ اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کا اصل مقصد واضح کرسکوں۔ آپ سے دعائوں کی التجا ہے۔
گذشتہ دنوں (۶ مارچ ۲۰۰۹ء) اُردو کے ایک بلندپایہ اسلامی شاعر ابوالمجاہد زاہد قضاے الٰہی سے انتقال کرگئے___ انا للّٰہ وانا الیہ رٰجعون۔ مرحوم کی عمر لگ بھگ ۸۱ سال تھی۔ اس وقت وہ اُردو کے استاذ شعرا میں بچے کھچے ان چند افراد میں سے رہ گئے تھے جو حضرت سیماب اکبرآبادی کے شاگرد تھے۔ ۱۹۶۰ء میں ان کا پہلا مجموعۂ کلام سوزوساز شائع ہوا، پھر دو اور مجموعے منظرعام پر آئے۔ مرحوم نے بچوں کے لیے بہت سی نظمیں لکھیں۔ وہ ایک مدت تک درس گاہ اسلامی، رام پور میں استاد رہے، اس سے پہلے اپنے وطن لکھیم پور کھیری یوپی میں مقیم تھے، پھر کئی سال لکھنؤ میں قیام رہا، جہاں وہ مشہور ادبی جریدہ نئی نسلیں کے معاون مدیر ۱۹۶۰ء تک رہے۔ آخری دور میں مرکز جماعت اسلامی ہند کے شعبہ تعلیمات سے منسلک ہوگئے تھے اور جماعت کی تیار کردہ نصابی کتب پر نظرثانی کر رہے تھے۔ وہ مشہور ادبی تنظیم ادارۂ ادب اسلامی ہند کے تاسیسی ارکان میں سے تھے اور زندگی بھر شعروادب میں صالح و تعمیری اقدار کے فروغ کے لیے کوشاں رہے۔ انھوں نے ترقی پسند اور ملحد شعرا کے جواب میں نہایت دل کش و شگفتہ نظمیں اور قطعات اسلامی عقائد اور ثقافت کی حمایت میں لکھے۔ وہ نہایت قادرالکلام، پختہ مشق اور زبان و بیان پر غیرمعمولی قدرت رکھنے والے شاعر تھے۔ مرحوم نہایت مرنجاں مرنج، منکسرالمزاج، سادگی پسند، خوش مزاج انسان تھے جنھیں اُردو ادب کی تاریخ اور اسلامی تہذیب کے حلقے فراموش نہ کرسکیں گے۔