بے نظیر بھٹو کی زیرتبصرہ کتاب میں سید قطب شہید، مولانا مودودی اور جماعت اسلامی کو ہدفِ تنقید بنایا گیا ہے۔ اس حصے میں ایسے چند مقامات پر روشنی ڈالی جارہی ہے۔
یوں دکھائی دیتا ہے کہ یہ کتاب مسلمانوں کو مطعون کرنے، انھی کو تمام خرابیوں کی جڑ قرار دینے اور امریکا بہادر کو عظمت کا دیوتا ثابت کرنے کا ایسا استعارہ ہے، جس میں تاریخ کو مسخ اورحقائق کو کچلا گیا ہے۔ جن دو شخصیتوں کو خاص طور پر نشانے پر رکھا گیا ہے، ان میں سید قطب شہید (۶۶-۱۹۰۶ء) اور سید ابوالاعلیٰ مودودی (۷۹-۱۹۰۳ء) نمایاں ہیں۔ ذرا یہ سطور دیکھیے:
اسلامی انتہا پسندی کے پس پردہ کارفرما مضبوط ترین قوتوں میں ایک سید قطب تھے، جن کا تعلق مصر کی اخوان المسلمون سے تھا۔ انھوں نے موجودہ دور کے لیے ’جاہلیہ‘ کی اصطلاح (درحقیقت یہ اصطلاح اسلام سے پہلے کی دنیا کے دورِ جاہلیت کو بیان کرنے کے لیے قرآنی اصطلاح ہے) استعمال کی۔ قطب کو مغربی ثقافت اور اسلامی دنیا کی آمرانہ حکومتوں سے نفرت تھی۔ وہ مغرب کو اسلام کے تاریخی دشمن کے طور پر دیکھتے تھے، اور مسلمانوں کی حکمران اشرافیہ کو بدعنوان بھی سمجھتے تھے۔ اسلامی دنیا میں زیادہ تر حکومتیں آمرانہ تھیں… انھوں [قطب] نے اسلامی دنیا میں چھوٹی تبدیلیوں کے بجاے ایک جارح، متشدد جہاد کو نئی عالمی اسلامی اُمت کے اپنے نظریے کے اطلاق کا واحد ذریعہ سمجھا اور اسے دنیا کے سامنے پیش کیا (ص ۲۸، ۲۹)--- سید قطب کو کئی جدید دہشت گرد تنظیموں کا نظریاتی باپ سمجھا جاتا ہے۔ مصر کی عوامی سیاست میں ایک بڑی قوت رکھنے والے سید قطب کو مصری حکومت اپنے لیے ایک خطرہ تصور کرتی تھی،اس لیے مذکورہ نظریات کے باعث انھیں پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔ وہ [یعنی قطب] لکھتے ہیں: ’’مغربی فرد کے ہاتھوں انسانیت کی قیادت اب زوال پذیر ہے… مغربی نظام کا دور بنیادی طور پر اس لیے اختتام کو آپہنچا ہے کہ یہ حیات بخش اقدار و اوصاف سے محروم ہوگیا ہے‘‘۔ (ص ۲۴۶، ۲۴۷)
معلوم نہیں کیوں مصنفہ نے اس بات کو نظرانداز کردیا ہے کہ قرآن نے سابقہ اقوام کے حوالے سے جس جاہلیت کا ذکر کیا ہے، ویسی ہی جاہلیت عصرِحاضر کی تہذیب و معاشرت بلکہ پوری زندگی اور اس کی بنیادی فکر میں موجود ہے۔ وہ جاہلیت، حق اور باطل کی تفریق سے ظاہر ہے۔ وہ جاہلیت، قافلہ حسین ؓ اور افواجِ یزید کی معرکہ آرائی سے ظاہر ہے۔ وہ جاہلیت چہارسو ظلم و ستم ڈھاکر اور عدل و انصاف کی پامالی سے اپنا لوہا منوا رہی ہے۔ قرآن کریم صرف دو راستوں کی نشان دہی کرتا ہے: حق اور باطل، باطل اس کے نزدیک جاہلیت ہے اور ’غیر جانب دار‘ بھی دراصل باطل ہی کا طرف دار ہے۔ ’جاہلیت‘ صرف اس چیز کا نام نہیں کہ پہلے انسان جھونپڑی میں گزر بسر کرتا تھا اور آج آراستہ و پیراستہ کوٹھیوں میں رہ رہا ہے۔ پھر جاہلیت یہ بھی نہیں کہ پہلے وہ اُونٹ اور گھوڑے پر سفر کرتا تھا، آج کیڈلک کاروں اور طیاروں میں فراٹے بھرتا ہے۔ اس لیے آج کی جاہلیت کے لیے سید قطب اور مولانا مودودی نے کوئی خاص یا نیا اصول وضع نہیں کیا ہے،یہ تو قانونِ قدرت کا برملا اعلان اور اعادہ ہے۔
’مغربی ثقافت‘ کس چڑیا کا نام ہے؟ یہی کہ کمزور اقوام کے وسائل ہڑپ کرو، ان کی تاریخ کو مسخ کرو اور تہذیب کو تاراج کرو، ان کے ہاں اقتدار اور دولت کو بلاواسطہ یا بالواسطہ اپنے قبضے میں رکھو اور ان کے نظامِ اقدار کو پامال کرو۔ کیا کوئی غیرت مند شخص، اپنے دین، اپنی ثقافت، اپنی تاریخ اور اپنے اقتدارِاعلیٰ کو چند ہزار ڈالروں کے عوض فروخت کر کے یہ تسلیم کرسکتا ہے کہ بھائی تم ہی ٹھیک اور اعلیٰ و ارفع ہو، ہم تو غلام ابن غلام ابن غلام، تمھارے عطا کردہ زخم دھونے کے لیے تمھارے دَر پر دست بستہ کھڑے ہیں۔ سید قطب شہید یہ نہیں کہہ سکتے تھے، اس لیے انھوں نے مغرب کی باج گزار مسلم اشرافیہ کی آمریت کے اس ’حق‘ کو قبول کرنے سے انکار کیا۔ کیا ان غلام حکمرانوں کی غلامی قبول کرنے سے ان کا یہ انکار گناہ ہے؟انھوں نے باطل کی غلامی قبول کرنے سے انکار کی پاداش میں تختہ دار پر چڑھ جانا گوارا کیا، مگر باطل کے سامنے جھکنے سے انکار کردیا۔ اب اگر پوری دنیا میں اقتدار کے سرچشموں پر گورے یا کالے انگریزوں کا قبضہ ہے تو بتایا جائے کہ اسے چیلنج کرنا کس قانون کے تحت جرم قرار پاتا ہے؟ ہر ظالم نے اپنے ظلم کے لیے کوئی نہ کوئی جواز اور اپنی کھال بچانے کے لیے کوئی نہ کوئی پناہ گاہ بنا رکھی ہے۔ کیا موجودہ اور آنے والی نسلوں پر لازم ہے کہ ظلم کے ان ضابطوں کو من و عن تسلیم کریں؟ اگر ایسا ہے توپھر جدید تاریخ میں ’روشن خیال‘ طبقہ آزادی و حریت کے رہنمائوں کے بارے میں کیا فتویٰ پیش کرتا ہے؟
’جدید روشن خیالی‘ ایک ظالم اور سخت بے رحم رویے کا نام ہے، جو زندگی میں سانس نہیں لینے دیتی اور مرنے کے بعد بھی کسی خوبی کو نمایاں نہیں ہونے دیتی۔ یہی معاملہ شہید مظلوم سید قطب کے ساتھ بھی برتا جا رہا ہے۔ ۲۰ویں صدی کے اس عظیم ادیب، دانش ور اور مفسرِقرآن کو قوم پرست آمر مطلق صدر جمال ناصر (م: ۱۹۷۰ء) نے برسوں جیل میں ڈالے رکھا۔ انھوں نے جیل ہی میں اپنی معرکہ آرا تفسیر فی ظلال القرآن تحریر کی، اور پھر ناصر نے خانہ زاد عدالت سے انھیں سزاے موت دلوا کر ۲۹ اگست ۱۹۶۶ء کو تختۂ دار پر کھینچ دیا۔
گذشتہ برسوں سے مغرب کے استعماری اداروں نے بالخصوص سیدقطب شہید کو اپنے منفی پروپیگنڈے کا ہدف بنایا ہے۔ مصنفہ نے اس کتاب میں سیدقطب شہید کو جس زبان میں تنقید کا نشانہ بنایا ہے، یہی زبان ڈینیل پائپس، برنارڈ لیوس،فوکویاما، ہن ٹنگٹن اور ان کے حواریوں نے استعمال کی ہے۔
سید قطب کو ’انتہاپسند‘ کہہ کر مصنفہ نے علمی دیانت کا قتل اور عدل کا خون کیا ہے۔ اس مقدمے کے لیے کوئی دلیل پیش کرنے کے بجاے ’جنگ جُو‘ استعماریوں کے پروپیگنڈے پر انحصار کیا ہے۔ سید قطب نے دعوت، تنظیم اور تقویٰ کے ذریعے ظلم و آمریت اور مسلم اُمہ سے غداری کے مرتکب صاحبانِ اقتدار کو تبدیل کرنے کی بات کر کے اپنا فرض ادا کیا۔ انھوں نے مسلح اور پُرتشدد تحریک اٹھانے کے لیے لوگوں کو نہیں اُبھارا۔ چونکہ ان کی اپیل میں ایمان کی طاقت اور عزم و یقین کی حرارت موجود ہے، اس لیے آج جبر اور ظلم کے شکار مسلمانوں کے بعض پُرتشدد گروہوں سے منسوب کر کے سید قطب شہید کی فکری پکار کو مطعون کیا جا رہا ہے۔ مغرب اور مغربی تہذیب کے بارے میں جو بات انھوں نے آج سے ۵۵ برس پہلے کہی ہے، یہی بات ۹۰سال پیش تر علامہ محمد اقبال اپنے آتش نوا اشعار اور فکر سے بھرپور اقوال میں کہہ چکے ہیں___ مزید ارشاد ہوتا ہے:
یہ تین رجعت پسند [یعنی سید قطب، سید مودودی، اسامہ بن لادن ] ردعمل کی اس سوچ کی نمایندگی کرتے ہیں، جو اس وقت اسلامی دنیا کے چند حصوں میں مقبول ہے۔ ان کے نزدیک: ’’مغرب، مسلم اشرافیہ کے ساتھ ملی بھگت کرکے اسلامی ملکوں کو بگاڑ رہا ہے‘‘۔ قرآن کی غلط تشریحات کا سہارا لے کر وہ سمجھتے ہیں کہ ہم اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے معصوموں، اہلِ کتاب [یعنی عیسائیوں اور یہودیوں] اور یہاں تک کہ مسلمانوں کے خلاف پُرتشدد کارروائیوں کا جواز حاصل کرسکتے ہیں۔ حالانکہ قرآن ان رجعت پسند مذہبی رہنمائوں کی تعلیمات کی تائید نہیں کرتا۔ یہ [محض] دہشت گردی کی تحریک کے لیے بنیادی ڈھانچا فراہم کرتے ہیں۔ (ص ۲۹)
اسامہ بن لادن کی حکمت عملی کیا ہے؟ نہ ہمیں اس سے اتفاق ہے اور نہ اس کے بارے میں کوئی بات کرنے کے مکلف ہیں، تاہم مصنفہ کا سید مودودی اور سیدقطب کو اسی صف میں کھڑا کرنا سخت ناانصافی اور تعصب پر مبنی واویلاہے۔ سید قطب شہید،سید مودودی اور حسن البنا شہید کے رفقا نے مسلسل جدوجہد کرکے دین کی حقیقی شکل مسلمانوں کے سامنے پیش کی، اور مغربی نوآبادیاتی حکمرانوں کے مددگاروں کی سازشوں کو دلیل، تحریر،تنظیم اور تسلسل کے ساتھ مسلم دنیا کے سامنے یوں وضاحت سے پیش کیا کہ اُمہ میں اس کی اپنی نظریاتی اور تہذیبی شناخت پر مبنی، اور استعماری طاقتوں کی گرفت سے آزاد ریاست کے قیام کا عزم پیدا ہونے لگا۔ اس پُرامن اور مؤثر حکمت عملی کی تاثیر سے بوکھلا کر، مغرب نے دوطرفہ تشدد کو درمیان میں لانے کی حکمت عملی اختیار کی ہے، تاکہ وہ ساری کاوش دھندلا دی جائے۔ کچھ ایسے عناصر کی غیرمعتدل اور اسلامی تعلیمات سے سراسر ٹکراتی کارروائیوں سے بے جا طور پر اخوان المسلمون اور جماعت اسلامی یا سیدقطب اور مولانا مودودی کو منسوب کر کے اس پُرامن جدوجہد کو نشانہ بنایا جائے کہ جس جدوجہد کو ان عظیم رہنمائوں کی حکمت و دانش نے وقار اور قبولیت بخشی ہے۔
۲۹ اگست ۲۰۰۸ء کے پاکستانی اخبارات یہ روح فرسا خبریں شائع کر رہے تھے کہ صوبہ بلوچستان میں پیپلزپارٹی کے وزیر ہائوسنگ و تعمیرات مسٹرصادق عمرانی کے بھائی اور پیپلزپارٹی کے لیڈر عبدالستار عمرانی، ضلع جعفرآباد میں پانچ عورتوں کو زندہ دفن کرنے کا حکم دینے والوں میں شامل ہیں۔ (ان کے پشت پناہ سینیٹر میراسرار اللہ زہری اور اب وفاقی وزیر پوسٹل سروسز نے سینیٹ کے اجلاس میں کہا تھا کہ اخلاقی الزام میں ملوث عورتوں کو زندہ دفن کرنا ہماری روایات کا حصہ ہے)، جب کہ ۲۰۰۶ء میں صوبہ سندھ سے پیپلزپارٹی کے مرکزی رہنما، اوکسفرڈ کے گریجوایٹ اور وفاقی وزیرتعلیم میرہزار خاں بجارانی نے بطور سربراہِ قبیلہ ۲ سے ۵ سال کی کم سن بچیوں کو ’سانگ چٹی‘ (خون بہا کے طور پر مقتول کے پس ماندگان کی غلامی میں دینے) کی بھینٹ چڑھا دیا۔ باوجود یہ کہ، یہ دونوں بلکہ تینوں حضرات پیپلزپارٹی کے لیڈروں میں شامل ہیں۔ مگر جماعت اسلامی یا کسی انصاف پسند شخص نے یہ نہیں کہا کہ: ’’پیپلزپارٹی ایسے قابلِ نفرت اقدام کرنے والی پارٹی ہے، اس لیے اس کو نفرت کا نشان بنا دو‘‘___ اب ہم دوسری جانب دیکھتے ہیں۔
جماعت اسلامی اگرچہ ۲۴ ہزار ارکان پر مشتمل تنظیم ہے، مگر اس کی حمایت کرنے اور ووٹ دینے والے لاکھوں لوگ ہیں۔ فطری سی بات ہے کہ ان میں ہر ذوق، مذاق اور طبیعت کا فرد ہوسکتا ہے۔ لیکن کیا جماعت اسلامی اپنے ان لاکھوں حامیوں اور ووٹروں کے تمام افعال و اقدامات کی بھی ذمہ دار یا جواب دہ ہے؟ اگر اس کے کسی حامی نے جماعت کی پالیسی، عقیدے اور حکمت عملی کے برعکس کوئی فعل انجام دیا ہے تو کیا اُس فرد کے اقدام پر پوری جماعت اسلامی اور اس کی قیادت کو نشانہ بنانا کوئی شریفانہ اور منصفانہ قدم ہوسکتا ہے؟ اب دیکھیے، مصنفہ لکھتی ہیں:
۲۰۰۱ء کے حملوں کے بعد ہر بڑا مطلوبہ دہشت گرد، مودودی کی جماعت کے کسی نہ کسی رکن کے گھر سے گرفتار کیا گیا ہے۔ (ص ۶۹)... [مطلوبہ ماسٹرمائنڈ] خالد شیخ محمد، جماعت اسلامی کے ایک حامی (سپورٹر) کے گھر سے گرفتار کیا گیا۔۱؎ (ص ۲۰۵)
ان عبارتوں کے اندر شرارت کا پورا سامان چھپا ہوا ہے۔ وہ طریقہ کہ جس سے جماعت اسلامی، اصولی اور عملی اعتبار سے ۱۰۰ فی صد اختلاف رکھتی ہے، اس طرزِ بیان سے اس کو اُسی گروہ سے جوڑا جا رہا ہے، جب کہ جماعت نے تو پیپلزپارٹی کے لیڈروں کے ایسے ’تذلیل نسواں، پر مبنی اقدامات‘ کا سزاوار پیپلزپارٹی کو قرار نہیں دیا، مگر دوسری جانب غیرمتعلق امور کو بھی مولانا مودودی مرحوم اور پوری جماعت اسلامی کے سرمنڈھا جا رہا ہے۔ پھر یہ بھی کہا گیا ہے:
مودودی نے مسلمانوں کو ایک ایسی بین الاقوامی جماعت کے طور پر دیکھا ہے، جسے اسلام کا انقلابی پروگرام بروے کار لانے کے لیے منظم کیا گیا ہے، اور جہاد کو ایک ایسی اصطلاح کے طور پر اسلامی انقلاب لانے کے لیے ضروری انتہائی کوشش اور جدوجہد کے طور پر بیان کیا ہے۔ (ص ۲۸)
مسلمانوں کو ایک بین الاقوامی کمیونٹی (کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ) مولانا مودودی نے نہیں، خود قرآن مجید اور رسول کریمؐ نے قرار دیا ہے۔ انھیں جسدِواحد اور رنگ و نسل کی تفریق سے بالاتر اُمہ قرار دیا ہے۔ اس لیے مولانا مودودی مسلم اُمہ کو بین الاقوامی کمیونٹی قرار دیتے ہیں اور علامہ محمد اقبال بھی ’ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے‘ جیسا نغمۂ جاں فزا بلند کرتے ہیں۔ مولانا مودودی نے اس اُمت میں زندگی کی لہر دوڑانے کے لیے ہتھیار بکف نکلنے کا درس نہیں دیا، بلکہ حق کی دعوت، فریضۂ اقامت ِدین، منظم نیکی، اور پوری زندگی میں پھیلے تزکیۂ نفس کا سبق دیا ہے۔ وہ دعوت اور جمہوریت کے ذریعے اس منزل کو حاصل کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ افسوس کہ اس افسانے میں رنگ بھرتے ہوئے کہا ہے:
[مغربی اور اسلامی تہذیبوں کے] تصادم کاروں کی اس دوڑ میں صرف مغرب کے انقلاب پسند دانش ور [مراد ہن ٹنگٹن ہے] ہی نہیں ہیں، بلکہ جماعت اسلامی کے بانی مولانا مودودی بھی شامل ہیں۔ مودودی کا بھی یہی یقین ہے کہ اسلامی شریعت کی حکمرانی کی راہ میں حائل تمام اقوام کو، بہ شمول مغرب ’پُرتشدد جہاد‘ کے ذریعے ختم کردیا جانا چاہیے۔ مغرب کے متعلق ان کا نقطۂ نظر اتنا ہی یک طرفہ اور مسخ شدہ ہے، جتنا کہ تصادم کا نقطۂ نظر اسلام کے متعلق۔ (ص ۲۴۶)
اس بیان میں شرانگیزی کا مظاہرہ کرتے ہوئے، مصنفہ نے مولانا مودودی کے واضح طور پر منصفانہ اور پُرامن نقطۂ نظر کو ’پُرتشدد جہاد‘ اور ’اقوام کے خاتمے‘ میں تبدیل کردیا ہے۔ مصنفہ کے ذہن میں برطانوی نوبل انعام یافتہ ادیب رڈیارڈ کپلنگ (۱۸۶۵ء- ۱۹۳۶ء) کا وہ قول نہیں آیا، جس میں وہ کہتا ہے: ’’مغرب، مغرب ہے اور مشرق، مشرق۔ یہ دونوں آپس میں کبھی نہیں مل سکتے‘‘۔ بلکہ اس نسل پرست نے تو ۱۸۹۹ء میں اپنی نظم The White Man's Burden لکھ کر غیرمغربی ’جاہلوں‘ کو درسِ انسانیت دینے کی ذمہ داری کو اس انداز سے پیش کیا تھا کہ ان گوروں کے علاوہ باقی سب انسان دھرتی کا بوجھ ہیں۔ لیکن مولانا مودودی مغرب کو کسی جغرافیائی علاقے یا گوری اقوام کے طور پر نہیں دیکھتے، بلکہ وہ مغرب کو اس کے فکری، سیاسی، اقداری، اخلاقی، ثقافتی اور عسکری پس منظر میں دیکھتے ہیں۔ اور خود مغرب، دنیا کو جس نظر سے دیکھتا اور جس سطح سے اس کے ساتھ معاملہ کرتا ہے، اسی کو بنیاد بناکر، مولانا مودودی وہاں کے انسانوں کو حق کی راہ پر چلنے کی دعوت دیتے ہیں، ہتھیاروں سے خوف زدہ نہیں کرتے۔
مصنفہ نے اپنے مذکورہ اقتباس (ص۲۴۶) کے لیے مولانا مودودی کی جس تحریر سے دلیل فراہم کی ہے، اس میں ایسا کوئی تاثر موجود نہیں ہے، بلکہ اس کے برعکس یہ تحریر تو مولانا مودودی کے متوازن اندازِ فکر کی دلیل پیش کرتی ہے۔ یہ تحریر ستمبر ۱۹۳۴ء کے ماہنامہ ترجمان القرآن ، حیدرآباد، دکن میں شائع ہوئی تھی اور اب مضمون ’ہماری ذہنی غلامی اور اس کے اسباب‘ کی صورت میں تنقیحات میں شامل ہے۔ مصنفہ نے بطور دلیل مولانا مودودی کی یہ تحریر پیش کی ہے:
یہ [مغربی تہذیب] خالص مادی تہذیب ہے۔ اس کا پورا نظام خداترسی، راست روی، صداقت پسندی، حق جوئی، اخلاق، دیانت، امانت، نیکی، حیا، پرہیزگاری اور پاکیزگی کے اُن تصورات سے خالی ہے، جن پر اسلامی تہذیب کی بنیاد رکھی گئی ہے۔ اس کا نظریہ [حیات]، اسلام کے نظریے کی بالکل ضد ہے۔ اس کا راستہ اس راستے کی عین مخالف سمت میں ہے، جو اسلام نے اختیار کیا ہے۔ اسلام جن چیزوں پر انسانی اخلاق اور تمدن کی بنیاد رکھتا ہے، ان کو یہ تہذیب بیخ و بُن سے اُکھاڑ دینا چاہتی ہے، اور یہ تہذیب جن بنیادوں پر انفرادی سیرت اور اجتماعی نظام کی عمارت قائم کرتی ہے، ان پر اسلام کی عمارت ایک لمحے کے لیے بھی نہیں ٹھیرسکتی۔ گویا اسلام اور مغربی تہذیب، دوایسی کشتیاں ہیں، جو بالکل مخالف سمتوں میں سفر کر رہی ہیں۔
اس بیان میں مولانا مودودی روحانی،فکری، عمرانی اور سماجی سطح پر مغربی تہذیب کے بنیادی رویے کی نشان دہی کر رہے ہیں، مگر مصنفہ ان سطروں میں آج کی ’دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ‘ کا جواز نکال کر دکھا رہی ہیں۔ مولانا مودودی نے اس بیان میں اُس حقیقت کو صاف صاف لفظوں میں بیان کیا ہے، جو ایک کھلی سچائی ہے۔ ۲۰ویں صدی کی دو عالم گیر جنگوں، ۱۹۴۵ء میں جاپان پر ایٹمی بم باری اور گذشتہ ڈیڑھ سو برسوں میں مظلوم انسانوں کے ساتھ کھیلی جانے والی خون کی ہولی کو کون نظرانداز کرسکتا ہے۔ کیا وہ یہ کہتے کہ: ’’اسلام، مغربی تہذیب کا ضمیمہ ہے، یااسلام ایک ایسی مومی تہذیب ہے جسے مغرب جب چاہے جس سانچے میں ڈھال دے، اس کو تو بس ڈھلنا اور ہوا کے رُخ پر اڑنا ہی ہے‘‘۔ کیا ایسی بات قرآن اور سنت کا فرمان ہے یا مغرب کے بھوکے شیر کے سامنے ممیاتی بھیڑ بکریوں کے جرمِ ضعیفی کی التجا ہے یا حکمرانی کی بھیک مانگنے والوں کی ملّت دشمنی کا ثبوت؟___ مصنفہ آگے چل کر مولانا مودودی کے رفیق کے بارے میں لکھتی ہیں:
خورشیداحمد ایک ممتاز پاکستانی پروفیسر اور اسکالر تھے (was)، جو اسلامی دنیا پر اپنی اقدار، ثقافت اور نظام ہاے حکومت مسلط کرنے کے مغربی عزم کا ناگزیر نتیجہ تہذیبوں کے تصادم کو قرار دیتے تھے: [خورشیداحمد کے بقول] ’’اگرمسلم ذہن میں اور مسلم نقطۂ نظر میں، مغربی طاقتیں مغربی ماڈل کو مسلم معاشرے پر ٹھونسنے کی قومی اور بین الاقوامی سطح پر، مسلمانوں کو مغربی غلبے کے نظام سے باندھے رکھنے کی اور اس طرح مسلم ثقافت اور معاشرے کو بالواسطہ یابلاواسطہ غیرمستحکم کرنے کی کوششوں سے وابستہ رہتی ہیں تو یقینا کشیدگی میں اضافہ ہوگا، یوں اختلافات کا بڑھنا ناگزیر ہے‘‘۔ (ص ۲۴۷)
پروفیسر خورشیداحمد (پ: ۱۹۳۲ء)، اللہ کے فضل سے مغرب کی اس جارحانہ اورانسانیت کُش یلغار کا فکری، قومی اور ملّی سطح پر بلاخوف و خطر مقابلہ کر رہے ہیں۔ ۱۹۹۵ء میں ان کی محولہ بالا تحریر ’امریکی نیوورلڈ آرڈر‘ کے تجزیے پر مشتمل تھی۔ جس کی بنیاد پر مصنفہ نے انھیں مغرب سے تصادم کی آگ بھڑکانے کا ایک ذمہ دار قرار دینے کی کوشش کی ہے، حالانکہ اس بیان میں توازن، بُردباری، احساسِ عدل اور ملّی و قومی شعور بدرجۂ اتم موجود ہے۔ پروفیسر صاحب نے مغرب کی جانب سے مسلم دنیا پر استعماری یا استعماریوں کے گماشتہ ماڈل کو مسلط کرنے اور مسلم اقوام کو غلامی میں باندھنے کی مذمت کی ہے، اور کہا ہے کہ مغربی حکمران تاریخ سے سبق سیکھیں اور ان مسلم معاشروں کو اپنے معاملات خود چلانے دیں۔ کیا ان کا یہ کہنا ’وار آن ٹیرر‘ کے شعلے بھڑکانے کا سبب ہے یا اپنے ملّی اور جمہوری حق کو منوانے کے لیے کلمۂ حق؟___ پھر یہ اقتباس پڑھنے کو ملتا ہے:
جنوبی ایشیا میں انتہاپسند گروہ جماعت اسلامی کے بانی، مولانا مودودی کو یقین تھا کہ جنوبی ایشیا میں قوم پرستی کے اُبھرنے سے مسلم پہچان کو خطرہ لاحق ہے۔ ان کے نزدیک قوم پرستی ایک ایسا مغربی نظریہ تھا، جو یک طرفہ طور پر مسلمانوں پر ٹھونس دیا گیا ہے، تاکہ عالمی اُمت مسلمہ کی جگہ زبان، نسل اور علاقے کی بنیاد پر استوار کی جانے والی انفرادی قوم پرستی کو ہوا دے کر انھیں کمزور اور تقسیم در تقسیم کیا جاسکے۔ (ص ۲۸)
ان سطور میں مصنفہ نے یہ ناانصافی اور ظلم کرتے ہوئے مولانا مودودی کو انتہاپسند اور انتہاپسند گروہ کا بانی قرار دے کر اپنی بے خبری بلکہ انتہاپسندانہ سوچ کا بھی ثبوت دیا ہے۔ مولانا مودودی کے ہاں توازن، بُردباری، تہذیب و شائستگی اور قانون پسندی ضرب المثل ہے۔ انھوں نے تشدد اور انتہاپسندی سے نہ صرف دامن بچائے رکھا، بلکہ اپنے رفقا کو بھی اس سے بچنے کی مسلسل تلقین کی۔ انھوں نے یہ پیغام طالب علموں کو، عرب نوجوانوں کو اور تمام دنیا کے مسلمانوں کو دیا کہ وہ زیرزمین اور قانون شکنی پر مبنی سرگرمیوں سے اپنے آپ کو بچائیں اور کھلے عام کام کرنے میں انھیں جو بڑی سے بڑی قربانی دینی پڑے اسے برداشت کرلیں، مگر تشدد اور خفیہ طبع آزمائی کا راستہ اختیار نہ کریں۔ اس ضمن میں مولانا مودودی کی تحریروں سے بے شمار مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔ مثال کے طور پر جماعت اسلامی، نظامِ زندگی کو تبدیل کرنے کے لیے کس حکمت عملی پر عمل پیرا ہے، اس کے لیے سب سے پہلے دیکھیے: دستور جماعت اسلامی پاکستان کی دفعہ ۵:
جماعت اسلامی کا مستقل طریق کار یہ ہوگا کہ:
۲- اپنے مقصد اور نصب العین کے حصول کے لیے جماعت کبھی ایسے ذرائع اور طریقوں کو استعمال نہیں کرے گی، جو صداقت اور دیانت کے خلاف ہوں، یا جن سے فساد فی الارض رونما ہو۔
۳- جماعت اپنے پیش نظر، اصلاح اور انقلاب کے لیے جمہوری اور آئینی طریقوں سے کام کرے گی…
۴- جماعت اپنے نصب العین کے حصول کی جدوجہد خفیہ تحریکوں کے طرز پر نہیں کرے گی، بلکہ کھلم کھلا اور علانیہ کرے گی۔
اسی طرح مولانا مودودی نے ۱۶ ذوالحج ۱۳۸۲ھ (۱۰ فروری ۱۹۶۳ء)کو مسجد دہلوی مکہ معظمہ میں عرب نوجوانوں سے خطاب کرتے ہوئے تلقین کی تھی:
اسلامی تحریک کے کارکنوں کو میری آخری نصیحت یہ ہے کہ انھیں خفیہ تحریکیں چلانے اور اسلحے کے ذریعے سے انقلاب برپا کرنے کی کوشش نہ کرنی چاہیے۔ یہ بھی دراصل بے صبری اور جلدبازی ہی کی ایک صورت ہے، اور نتائج کے اعتبار سے دوسری صورتوں کی بہ نسبت زیادہ خراب ہے۔ ایک صحیح انقلاب ہمیشہ عوامی تحریک ہی کے ذریعے سے برپا ہوتا ہے۔ کھلے بندوں عام دعوت پھیلایئے، بڑے پیمانے پر اذہان اور افکار کی اصلاح کیجیے، لوگوں کے خیالات بدلیے، اخلاق کے ہتھیاروں سے دلوں کو مسخر کیجیے اور اس کوشش میں جو خطرات اور مصائب بھی پیش آئیں ان کا مردانہ وار مقابلہ کیجیے۔ اس طرح بتدریج جو انقلاب برپا ہوگا،وہ ایسا پایدار اور مستحکم ہوگا جسے مخالف طاقتوں کے ہوائی طوفان محو نہ کرسکیں گے۔ جلدبازی سے کام لے کر مصنوعی طریقوں سے اگر کوئی انقلاب رونما ہو بھی جائے تو جس راستے سے وہ آئے گا، اسی راستے سے مٹایا بھی جاسکے گا۔ (ماہ نامہ ترجمان القرآن، جون ۱۹۶۳ء،ص ۲۸، تفہیمات، سوم، ص ۳۶۲-۳۶۳)
اپنی زندگی میں جماعت اسلامی کے آخری کُل پاکستان اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے، ۳۱ مارچ ۱۹۷۴ء کو سید مودودی نے کہا:
جماعت اسلامی کیوں جمہوری ذرائع سے ہی انقلاب برپا کرنا چاہتی ہے اور کسی غیر جمہوری ذریعے کے استعمال کی مخالف ہے، اس کو میں چند الفاظ میں بیان کیے دیتا ہوں:
خدا کی قسم ہے، اور قسم میں بہت کم کھایاکرتا ہوں، کہ جماعت اسلامی نے جو یہ مسلک اختیار کیا ہے کہ وہ: کسی قسم کے تشدد کے ذریعے سے، یا کسی قسم کی خفیہ تحریک کے ذریعے سے، یا کسی قسم کی سازشوں کے ذریعے سے انقلاب برپا نہیں کرنا چاہتی، یہ قطعاً کسی کے خوف کی وجہ سے نہیں ہے۔ یہ قطعاً اس لیے نہیں ہے کہ ہم اپنی صفائی پیش کرسکیں کہ ہم دہشت پسند نہیں ہیں، اور ہمارے اُوپر یہ الزام نہ لگنے پائے۔
اصل بات یہ ہے کہ اسلامی انقلاب اس وقت تک مضبوط جڑوں سے قائم نہیں ہوسکتا، جب تک کہ لوگوں کے خیالات تبدیل نہ کردیے جائیں، جب تک کہ لوگوں کے افکار، لوگوں کے اخلاق اور لوگوں کی عادات کو تبدیل نہ کردیا جائے۔ اگر کسی قسم کے تشدد کے ساتھ، یا کسی قسم کی سازشوں کے ساتھ، یا کسی قسم کی دھوکے بازیوں اور جھوٹ کے ساتھ، انتخابات جیت لیے جائیں، یا کسی طریقے سے انقلاب برپا کردیا جائے، توچاہے یہ انقلاب کتنی دیر تک رہے، یہ اسی طرح اکھڑتا ہے جیسے اس کی کوئی جڑ ہی نہ ہو۔ (ہفت روزہ ایشیا، لاہور، ۷ اپریل ۱۹۷۴ء)
جہاں تک یہ کہنا ہے کہ مولانا مودودی نے قوم پرستی کو ایک مغربی نظریہ قرار دے کر اس کی مذمت کی تھی تو یہ انھوں نے بالکل درست بات لکھی تھی۔ مسلم اُمت کو ان چھوٹی چھوٹی قومیتوں میں بانٹنے اور ٹکڑوں میں تقسیم کرکے ’راجواڑوں‘ کے سپرد کرنے اور اقتدار کے سرچشموں پر اپنے منظورنظر دیسی وفاداروں کو مسلط کرنے کا کام ۱۹ویں اور ۲۰ویں صدی میں مغربی استعمار نے کیا تھا۔ ان کے قومی اور قدرتی وسائل ہڑپ کیے، باہمی تعلقات میں تصادم کی فضا کو پیدا کرکے انھیں مسلسل جنگ و جدل کی دلدل میں پھنسادیا اور قومی دولت کا بڑا حصہ اسلحے کی خریدوفروخت میں جھونک دینے کا بندوبست کیا۔مولانا مودودی نے، مغربی استعمار کی اس شیطانی چال کو ۱۹۳۷ء سے ۱۹۳۹ء کے دوران اپنی مشہور کتب مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش (تین حصوں) اور مسئلۂ قومیت میں پوری وضاحت کے ساتھ بے نقاب کیا، تو کچھ غلط نہ کیا تھا___ اب مصنفہ کے سوقیانہ پن کا یہ رنگ دیکھیے:
موجودہ دور میں وہابی پیسے کی خصوصی وصول کنندہ جماعت اسلامی رہی ہے۔ یہ ایک سیاسی اور سماجی تحریک ہے جس کی بنیاد مولانا مودودی نے رکھی ہے۔ زیادہ تر وہابی سرمایہ اب بھی ان اسکولوں کو جاتا ہے جو جماعت اسلامی کے زیرانتظام کام کر رہے ہیں۔ اپنے بچپن کے دور میں، مَیں جماعت اسلامی کو بالواسطہ طور پر امداد فراہم کرنے کی کہانیاں اکثر سنا کرتی تھی کہ: سعودی مذہبی رہنما، مولانا مودودی کی کتابیں ہزاروں کی تعداد میں خریدتے، ان کی قیمت ادا کرتے اور پھر ان کتابوں کو سمندر میں پھینک دیتے، کیونکہ دراصل انھیں پڑھنے والوں کی تعداد بہت کم تھی۔ پھر جنرل ضیا الحق کے اقتدار میں آنے کے بعد صورت حال تبدیل ہوگئی۔ (ص ۵۲)
پاکستانی فوج کے عناصر اور مذہبی سیاسی پارٹی [یعنی جماعت] کے درمیان اتحاد [جنرل] ضیا کے دور سے پہلے شروع ہوا۔ ۱۹۶۰ء کے عشرے میں جماعت اسلامی کو سعودی عرب سے معقول امداد ملنا شروع ہوئی۔ (ص ۱۹۴)
۱۹۶۴ء میں صدر ایوب خان کے دورِ حکومت میں جماعت اسلامی پر پابندی عائد کی گئی، دفاتر سربمہر، ریکارڈ ضبط اور قیادت کو قید کرلیا گیا۔ اس کے حسابات کی جانچ پڑتال ہوتی رہی، اس کے ذرائع آمدن کا کھوج لگایا جاتا رہا، مگر کوئی قابلِ گرفت بات ہاتھ نہ آئی۔ اس کے بعد جنرل یحییٰ خان، بھٹو صاحب، خود بے نظیر اور جنرل پرویز مشرف بھی اپنے پورے ریاستی کرّوفر اور اقتدار کے باوجود ایسے کسی مفروضے کو طشت ازبام نہیں کرسکے۔ آج آصف علی زرداری کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ’وہابی‘ اور ’سعودی‘ سرمایے سے چلنے والے ’جماعت اسلامی کے اسکولوں‘ کی مع رقم نشان دہی کریں۔ اپنے بچپن کی جس پروپیگنڈا کہانی کا ذکر مصنفہ نے کیا ہے، اس افسانے کو انھوں نے بے جا طور پر مسخ بھی کیا ہے۔ اُن کے بچپن میں کہانی یہ نہیں تراشی گئی تھی کہ: ’’سعودی عرب، مولانا مودودی کی کتب خرید کر سمندر میں پھینکتا ہے‘‘، بلکہ یہ جھوٹا افسانہ تراشا گیا تھا:’’امریکا، مولانا مودودی کی کتب خرید کر سمندر میں پھینکتا ہے‘‘۔ چونکہ وہ کہانی آج کل ’آئوٹ آف فیشن‘ ہوگئی ہے اس لیے ’امریکا‘ کا لفظ نکال کر ’سعودی عرب‘ کا نام ڈال کر اسے ’حسبِ حال ‘بنا دیا گیا ہے ___ ’ارشاد‘ ہوتا ہے:
جماعت اسلامی کے رہنما مولانا مودودی، آمر ضیاء الحق کے روحانی باپ تھے۔ سعودی مذہبی رہنمائوں سے ان کا تعلق بڑا گہرا تھا۔ افغانستان پر سوویت یونین کے حملے کے بعد، ضیاء الحق نے افغان مجاہدین کے لیے پیسہ اکٹھا کرنے اور ان کے لیے جنگ جُو بھرتی کرنے کے کام میں ان [یعنی مولانا مودودی] کی مدد طلب کی۔ (ص ۶۸)
مولانا مودودی مرحوم، جنرل ضیا کے تو کبھی روحانی سرپرست نہیں رہے، مگر معلوم نہیں کس بنیاد پر یہ کہانی تصنیف کی گئی ہے۔ دنیا بھر کے دینی اسلامی بھائیوں سے مولانا مودودی کا گہرا قلبی تعلق تھا۔ جن میں افریقہ، امریکا،یورپ، وسطی ایشیا، انڈونیشیا، بھارت، ایران، ترکی اور افغانستان وغیرہ سبھی شامل تھے۔ مولانا مودودی کی رحلت ۲۲ستمبر ۱۹۷۹ء کو ہوئی اور افغانستان پر کمیونسٹ روس نے حملہ ۲۹دسمبر ۱۹۷۹ء کو کیا۔ گویا مصنفہ کہنا یہ چاہتی ہیں کہ اپنے انتقال کے تین ماہ بعد رونما ہونے والے المیے میں کردار ادا کرنے کے لیے مولانا مودودی جنگ جُو بھرتی کرنے کے لیے رابطے کر رہے تھے، جو چاہے آپ کا حُسنِ کرشمہ ساز کرے۔ اب یہ حوالہ بھی دیکھیے:
مولانامودودی نے میرے والد [بھٹوصاحب] کے انتخاب کی مخالفت کی۔ اسلام کے نقاب تلے پوشیدہ سیاسی نظام جسے [جنرل] ضیا نے ترتیب دیا تھا، یہ مودودی، آئی ایس آئی، پاکستانی فوج اور ریاست کا پُراسرار اتحاد تھا، جس نے میرے وطن اور پوری دنیا کی سیاسیات پر دور رس اثرات مرتب کیے۔ (ص ۶۸)
مصنفہ کو شاید علم نہیں کہ بھٹو صاحب نے اور ان کے حواریوں نے مولانا مودودی کی مخالفت میں کون سی زبان استعمال کی تھی اور کس نوعیت کی اخلاق باختہ اخباری مہم چلائی تھی؟ ظاہر ہے مولانا مودودی نے اپنی مدمقابل سیاسی پارٹیوں کے پروگرام پر نقد کرتے ہوئے اپنا پروگرام تو پیش کرنا تھا۔ البتہ مولانا مودودی کو دوسری جانب سے جس لچر پروپیگنڈے کا سامنا کرنا پڑا اس کو بیان کرنے سے یہ قلم عاجز ہے۔ ۱۹۷۰ء میں پورے سال پر پھیلی انتخابی مہم میں مولانا مودودی نے کُل ۸ تقاریر کیں۔ ان میں ایک لفظ بھی ایسا نہیں ہے کہ جسے اخلاق و تہذیب سے ٹکراتا ہوا کہا جاسکے۔ اس کے مقابلے میں بھٹوصاحب کی تقریروں سے مرصع اخبارات و جرائد: شھاب، نصرت، مساوات، آزاد اور الفتح کے اوراق ابتذال کی حدوں کو چھوتے ہوئے نظر آئیں گے۔ خود پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی کو تو بھٹوصاحب نے بلوچستان پر فوجی یلغار اور سیاسی قیادت کو کچلنے کے لیے استعمال کیا تھا۔ یہی جنرل ضیاء الحق، بھٹو صاحب کی دھاندلی زدہ حکومت کو تحفظ دیتے ہوئے، ۲۰اپریل ۱۹۷۷ء سے تین شہروں میں مارشل لگاکر حکومت مخالف مظاہرین کو کچلتے رہے، مگر آخرکار جولائی ۱۹۷۷ء میں ایک وقت ایسا آیا کہ ان دونوں میں دُوری ہوگئی، لیکن اس وصل و فصل میں مولانا مودودی کا کردار کہاں سے آگیا؟
آیئے سنیے: ۱۹۷۷ء میں بھٹو حکومت کی انتخابی دھاندلی کے خلاف جب ۱۴ مارچ سے احتجاجی تحریک شروع ہوئی تو ۲۹ مارچ کو مولانا مودودی سے مجیدنظامی صاحب نے ملاقات کی۔ مولانا نے بحران سے نکلنے کے لیے نظامی صاحب کے ذریعے بھٹوصاحب کو تجاویز بھیجیں کہ وہ اصرار نہ کریں اور الیکشن دوبارہ کروا دیں، مگر وہ نہیں مانے۔ جب ۹ اپریل کو بھٹوحکومت کی جانب سے لاہور میں قتل عام کے بعد حالات خراب ہوگئے تو بھٹوصاحب، مولانا مودودی سے ملنے کے لیے ۱۴اپریل کو مولانا مودودی کے گھر پر آئے، تب بھی مولانا نے انھیں مشورہ دیاکہ وہ قوت کے بے جا استعمال سے حالات کو خراب نہ کریں۔ مگر وہ اس کے لیے تیار نہیں ہوئے۔ ۲۰ اپریل ۱۹۷۷ء کو بھٹوصاحب نے کراچی، حیدرآباد اور لاہور میں مارشل لا نافذ کردیا۔ ۲۴اپریل کو مولانا مودودی نے قومی اور عالمی اخباری نمایندوں کی پریس کانفرنس سے خطاب کیا، جس میں بی بی سی کے نمایندے اینڈریو وٹلے نے مولانا سے سوال کیا:
Would you kindly consider the take of Army as a peaceful revolution?
[فوج اگر اقتدار پر قبضہ کرلے تو کیا آپ اسے پُرامن انقلاب قرار دیں گے؟]
مولانا مودودی نے ایک لمحے کا توقف کیے بغیر، مضبوط لہجے میں جواب دیا:
Army has no right to take over. Army is the servant of the people, not their master.
[فوج کو اقتدار پر قابض ہونے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔ فوج قوم کی ملازم ہے، آقا نہیں۔]
صفدر علی چودھری صاحب کی ہدایت پر راقم نے اس پریس کانفرنس کو ریکارڈ کیا تھا۔ دوسرے روز یہ الفاظ قومی پریس میں شائع ہوئے اور عالمی نشریاتی اداروں نے انھیں نمایاں طور پر پیش کیا۔ مراد یہ ہے کہ مولانا نے انفرادی سطح پر اور عوام کے سامنے بھی مارشل لا سے بچنے کے لیے بار بار اپیل کی۔ بعدازاں بھٹوصاحب نے ۲۷ اپریل کو مسلح افواج پاکستان کے اعلیٰ افسران کا مشترکہ بیان نشر کرایا کہ وہ بھٹو کی حکومت کے پشتی بان ہیں۔
ایک اور شرمناک الزامی افسانے کو ان الفاظ میں پڑھیے:
مولانا مودودی نے قائداعظم کو کافر قرار دیا تھا، مگر ہندستان کے مسلمانوں نے مودودی کو مسترد کردیا اور ان کے بجاے محمدعلی جناح، اور مذہب و سیاست کے متعلق ان کے زیادہ سیکولر نقطۂ نظر کی حمایت کی۔ (ص ۶۸، ۶۹)
کتاب میں بیان کردہ یہ ایک ایسا اذیت ناک بہتان ہے کہ جس کی تائید میں کوئی فرد ایک سطر بھی پیش نہیں کرسکتا۔ ماسوا اس اخلاق باختہ مہم کے ایندھن کے، جسے خود ہی اکٹھا کرکے وقفے وقفے سے سلگایا جاتا ہے۔ قائداعظم تو ایک طرف، مولانا مودودی نے زندگی بھر کسی ایک فرد پر بھی کفر کا فتویٰ صادر نہیں کیا، بلکہ کفر سازی کے کلچر کی بھرپور مخالفت کی۔۲؎ یہ کام احرار کے لیڈر مظہرعلی اظہر ایڈووکیٹ [۱۳ مارچ ۱۸۹۵ء-۲نومبر ۱۹۷۴ء] نے کیا تھا، اور جو مسلک کے اعتبار سے شیعہ اور ایک شعلہ نوا مقرر تھے۔ لیکن کچھ گروہوں نے کمالِ بددیانتی سے اور وہ بھی پاکستان بننے کے ۱۰برس بعد، مظہر علی کے الفاظ مولانا مودودی سے منسوب کرکے وقفے وقفے سے دہرانا شروع کردیے۔ مولانا مودودی کے ساتھ اس بدترین زیادتی کا ارتکاب کرنے والے خود کو ’روشن خیال‘ اور ’معروضیت‘ کا علَم بردار قرار دیتے ہیں، جب کہ دوسری جانب خود قائداعظم کو کفر کی گالی دینے کا بھی گاہے گاہے ارتکاب کرتے ہیں___ ریکارڈ کو درست رکھنے کے لیے جسٹس محمدمنیر اور جسٹس ایم آر کیانی پر مشتمل انکوائری کمیٹی رپورٹ ۱۹۵۳ء (انگریزی میں صفحہ ۱۱)دیکھیے:
The authorship of the couplet:
اک کافرہ کے واسطے اسلام کو چھوڑا
یہ قائداعظم ہے کہ ، ہے […]
is attributed to Maulana Mazhar Ali Azhar, a leading personality in the Ahrar Organization. Who had the sudacity to assert before us that he still held the view.
[یہ شعر مولانا مظہر علی اظہر سے منسوب ہے جو تنظیم احرار میں ایک ممتاز شخصیت ہیں۔ انھوں نے ہمارے سامنے نہایت ڈھٹائی سے یہ اظہار کیا کہ [قائداعظم کے متعلق] وہ اب تک اسی خیال پر قائم ہیں۔ (انکوائری کمیٹی رپورٹ، اُردو، ص ۱۱)]
مولانا مودودی پر یہ بہتان لگانے کے بعد مصنفہ لکھتی ہیں:
مولانا مودودی نے میرے والد [بھٹوصاحب] کی سیاست کو انتہا پسندوں کے ایجنڈے سے ہم آہنگ نہ پاکر ۱۹۷۰ء میں انھیں بھی کافر قرار دے دیا۔ (ص ۶۹)
اب یہ مصنفہ کے ساتھیوں پر لازم ہے کہ وہ مولانا مودودی کی تحریروں سے کوئی ایک سطر بھی ایسی نکال کر پیش کریں جس میں انھوں نے مسٹربھٹو کو کافر قرار دیا ہو۔ عجیب بات ہے کہ ’مفاہمت‘ کے نام پر لکھی جانے والی اس کتاب میں عمومی اور سماجی سطح پر رواداری ہی کو تہس نہس کرنے کی بنیاد ڈالی جارہی ہے۔ دوسری طرف مارچ ۱۹۶۹ء میں یہ بھٹوصاحب ہی تھے، جنھوں نے عبدالمجید بھاشانی کے ساتھ مل کر انتہاپسندی،گھیرائو، جلائو اور توڑ پھوڑ کی مہم چلاکر ’پاکستان تحریک جمہوریت‘ (PDM) اور ’جمہوری مجلس عمل‘ (DAC) کی قومی جمہوری تحریک کو پٹڑی سے اُتارا، اور جنرل آغا یحییٰ خاں کے مارشل لا کا راستہ صاف کیا تھا۔ تب مولانا مودودی قومی قیادت کے ساتھ مل کر آئینی جدوجہد کر رہے تھے۔ ایوب خان کے ساتھ گول میز کانفرنس کامیاب بھی ہوگئی تھی کہ آئینی ترامیم کے ذریعے انتقالِ اقتدار اور عام انتخاب ہوجاتا، مگر انتہاپسندوں کی سربراہی کرتے ہوئے بھٹوصاحب اور بھاشانی صاحب نے اس پُرامن حل کو ناکام ہی نہیں بنایا، بلکہ جنرل آغا یحییٰ خاں کے مارشل لا کا سب سے پہلے خیرمقدم بھی کیا۔ بالکل ویسا ہی خیرمقدم کیا جس طرح کہ خود بے نظیر بھٹو نے ۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹ء کو نوازشریف کی حکومت کی برطرفی اور جنرل مشرف کی آمد کا خیرمقدم کیا تھا___ مصنفہ نے اگلی سطور میں یہ بھی لکھ دیا ہے:
۱۹۸۸ء میں جب میں نے وزیراعظم کا انتخاب لڑا تو مودودی کی جماعت نے مجھے بھی کافر قرار دے دیا، بالکل ویسے جس طرح کہ انھوں نے مجھ سے پہلے میرے والد کو قرار دیا تھا۔ (ص ۶۹)
۱۹۸۸ء تو ابھی کل کی بات ہے۔ جماعت اسلامی کے کسی لیڈر، جماعت کی کسی قرارداد اور جماعت کے کسی اخبار سے اس نوعیت کی بات پیش نہیں کی جاسکتی تو پھر سوال یہ ہے کہ مصنفہ نے اس کتاب میں کیوں کافر، کافر کی تکرار کی ہے؟ دراصل مغرب کی جنگ جُو اور متعصب قیادت کے سامنے موجود نظریاتی چیلنج کو ایک خوف ناک ثبوت بناکر پیش کرنا مطلوب ہے ___آگے بڑھیں:
مودودی نے فاطمہ جناح کی حمایت کی، جو ۱۹۶۰ء کے عشرے میں صدر پاکستان کے عہدے کی خاتون امیدوار تھیں (لیکن بعدازاں میرے وزیراعظم بننے کے خلاف ان کا مخالفانہ انکشافِ حق مذہبی سے زیادہ سیاسی تھا)۔ (ص ۶۹)
۱۹۶۵ء میں قائداعظم کی ہمشیرہ فاطمہ جناح نے صدارتی انتخاب میں ایوب خاں کو چیلنج کیا۔ اگرچہ انھیں شکست ہوئی، لیکن انھوں نے ایوب اقتدار کی کمزوری کو واضح کردیا۔ میرے والد، فاطمہ جناح کے قریبی حلقے میں شامل تھے۔ (ص ۱۷۱، ۱۷۲)
یہ بھی ایک ہوش ربا داستان ہے۔ مصنفہ نے یہاں پر وہ سارا قصہ ہی دھندلا دیا ہے کہ جس میں ان کے والدگرامی بھٹوصاحب، آمرمطلق جنرل ایوب خاں کی حکمران پارٹی کنونشن مسلم لیگ کے جنرل سیکرٹری تھے، اور انھوں نے صدارتی امیدوار فاطمہ جناح کو شکست دینے اور انتخاب کو اغوا کرنے کا ’کارنامہ‘ انجام دیا تھا۔ یہ بھی عجب تر بات ہے کہ ’قریبی حلقے میں شامل‘ بھٹوصاحب انھی فاطمہ جناح کو شکست دلوانے اور نتائج کو ’ترقی پسند‘ بنانے میں پیش پیش تھے۔ انھی دھاندلی زدہ انتخابات نے مشرقی پاکستان کے عوام کو پاکستان کے فوجی حکمرانوں اور ان کے جاگیردار رفیقوں کی آمریت سے بے زار اور وفاقِ پاکستان سے مایوس کردیا تھا۔ اسی نوعیت کی’جمہوری روایت‘ کی وارث لکھتی ہیں:
جب جنرل ضیا کی آمریت، حزبِ اختلاف کو کچل رہی تھی، مودودی کی جماعت کے قائدین ضیا کی کابینہ کے ارکان تھے۔ (ص ۷۰)
جماعت اسلامی کبھی خود جنرل ضیا حکومت کا حصہ نہیں بنی، بلکہ یہ پاکستان قومی اتحاد (PNA) کی ۲۴ رکنی وزارت تھی، (ان میں چار وزرا کا تعلق جماعت سے تھا)۔ جنرل ضیاء الحق نے عام انتخابات کے انعقاد، سول اقتدار کی جانب بڑھنے کی غرض سے پاکستان قومی اتحاد کی قیادت سے تعاون کے لیے کہا تھا۔ تب اُس وزارت میں مسلم لیگ، پاکستان جمہوری پارٹی، جماعت اسلامی اور جمعیت علماے اسلام کے نمایندے شامل تھے۔۲۳ اگست ۱۹۷۸ء سے ۱۵ اپریل ۱۹۷۹ء، یعنی ۸ ماہ کی مدت پر محیط اس وزارت نے جنرل ضیا سے عام انتخابات کے انعقاد کا اعلان کروایا اور اعلان کے اگلے ہفتے وزارتوں کو چھوڑ کر عوام میں آگئے (جب کہ بھٹوصاحب اکتوبر ۱۹۵۸ء سے جون ۱۹۶۶ء، یعنی ۷ سال اور ۸ ماہ تک آمرمطلق ایوب خان کی کابینہ کا حصہ بنے رہے)۔ اس اقتباس میں دیگر سیاسی جماعتوں کا ذکر چھوڑ کر صرف جماعت اسلامی کو تنقید کا ہدف بنانا سیاسی تعصب کے شاخسانے کے سوا اور کیا ہے؟
جنرل محمد ضیاء الحق سے مصنفہ کی نفرت کئی حوالوں سے کتاب میں جھلکتی ہے، جس کا ایک سبب یہ تھا کہ انھوں نے قتل کے ایک مقدمے میں، مرحومہ کے والد کوسپریم کورٹ کی جانب سے سنائی گئی سزاے موت کو معاف نہیں کیا تھا۔ مگر اس نفرت کا نتیجہ یہ نہیں ہونا چاہیے کہ ناکردہ کاموں کا بوجھ بھی اپنے ہدف کے پلڑے میں ڈال دیا جائے۔ اب یہ سطریں ملاحظہ ہوں:
میرے والد [یعنی بھٹوصاحب]، جماعت اسلامی کے مولانا مودودی کے ساتھ جنرل ضیا کے رابطوں سے واقف نہ تھے۔ بعدازاں جنرل ضیا نے مسلح افواج میں مولانا مودودی کی کتابوں کو پڑھنا لازمی قرار دے دیا۔ یوں پیشہ ورانہ افواج، مذہب کی سیاست کے حلقے میں داخل ہوگئیں۔(ص ۱۸۷)… جنرل ضیا نے جلد ہی فوج کا ماٹو بدل کر: ’’ایمان، تقویٰ، جہاد فی سبیل اللہ‘‘ کردیا۔ (ص ۱۸۸)… ضیاء الحق نے دعویٰ کیا کہ پاکستان، اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا۔ (ص ۱۸۸)
آخر کوئی تو خوبی ہوگی جنرل ضیاء الحق میں، کہ جس کی بنا پر ۸سینیر جرنیلوں پر ترجیح دیتے ہوئے، وزیراعظم پاکستان جناب ذوالفقار علی بھٹو نے یکم مارچ ۱۹۷۶ء کو انھیں چیف آف آرمی اسٹاف مقرر کیا تھا۔ یہ جانچ پرکھ تو انھی کی ذمہ داری تھی، اس میں مولانا مودودی کا کیا قصور ہے؟ پھر جولائی ۱۹۷۷ء میں مارشل لا لگانے سے قبل جنرل محمد ضیاء الحق کی مولانا مودودی سے نہ کبھی کوئی ملاقات ہوئی اور نہ کسی قسم کا رابطہ ہی قائم ہوا۔ ظاہر ہے مولانا مودودی اسی معاشرے میں ایک اسلامی فکری تحریک کے قائد اور راہنما تھے۔ لوگ ان کے خیالات اور کتب سے ناواقف تو نہیں ہوسکتے تھے۔ مگر کسی کتاب کو پڑھنے کا لازمی نتیجہ یہ نہیں نکلتا کہ وہ فرد کسی گہرے رابطے کا حصہ بن گیا ہے۔
جہاں تک مولانا مودودی کی کتب اور پاکستانی فوج کے مابین تعلق جوڑنے کا معاملہ ہے تو یہ کام سروسز بُک کلب نے کیا ہے، جو افسروں کی ضرورت اور طلب کے مطابق دنیا بھر کے مصنفین کی کتابیں چھاپ کر، انھیں لاگت پر فراہم کرتا ہے۔ کیا دنیا بھر کے مسلم اور غیرمسلم مصنفین میں مولانا مودودی ہی ایسی شخصیت ہیں کہ ان کی کوئی کتاب سروسز بُک کلب چھاپ دے، تو اس پر بلاول ہائوس سے لے کر وہائٹ ہائوس تک لرزہ طاری ہوجائے۔ آزادیِ اظہار کی باتیں کرتے ہوئے نہ تھکنے والے ’جدیدیت پسندوں‘ میں اتنی وسعت ِ نظر ہونی چاہیے کہ وہ اپنی نفرت کا نشان بننے والی شخصیت کی کتاب کو پڑھ سکیں، یا دوسرا جو اسے پڑھے، وہ اس کے حق مطالعہ کو تسلیم کریں۔ افسوس کہ یہ ساری ’روشن خیالی‘ دوچار قدم چل کر تنگ نظری کی دلدل پہ ڈھیر ہوجاتی ہے۔
پاکستانی فوج کے ماٹو کو بدل کر: ’’ایمان، تقویٰ، جہاد فی سبیل اللہ‘‘ کرنے کے سلسلے میں یاد رکھنا چاہیے کہ جنرل محمد ضیاء الحق سے قبل چیف آف آرمی اسٹاف [۷۶-۱۹۷۲ء] جنرل ٹکاخاں [جو بعدازاں پیپلزپارٹی کے سیکرٹری جنرل بھی رہے، ایک پابند صوم و صلوٰۃ انسان تھے] نے فوجی چھائونیوں، میس اور پارٹیوں میں شراب پر پابندی عائد کر دی تھی، حالانکہ ملک میں شراب پر کوئی پابندی نہیں تھی۔ پھر یکم مارچ ۱۹۷۶ء کو جنرل ٹکاخان کے بعد فوج کی قیادت سنبھالنے کے ایک ہی ماہ بعد جنرل محمد ضیاء الحق نے پاکستان بھر کی چھائونیوں میں: ’’ایمان، تقویٰ، جہاد فی سبیل اللہ‘‘ کا ماٹو لکھوا دیا تھا۔ اس لیے جس طرح قادیانیوں کو اقلیت قرار دینا اور ایٹمی پروگرام کا آغاز کرنا، مئی ۱۹۷۷ء میں جمعے کی چھٹی اور ملک میں شراب پر پابندی عائد کرنا جناب بھٹو ہی کے کارنامے ہیں، اسی طرح مسلح افواج کے ماٹو میں یہ مثبت تبدیلی بھی ذوالفقار علی بھٹو کے عہدِ حکومت کا مبارک قدم ہے، جو اس وقت مسلح افواج پاکستان کے سپریم کمانڈر تھے۔
جہاں تک ’پاکستان اسلام کے لیے حاصل کیا گیا تھا، کے انکشاف کا تعلق جنرل ضیا سے جوڑنے کا معاملہ ہے، تو اس ضمن میں تحریکِ پاکستان میں اور قیامِ پاکستان کے بعد قائداعظم مرحوم کی تقریروں کو دیکھ لیا جائے تو بہتر ہوگا۔ مثال کے طور پر یہاں صرف ایک تقریر کا اقتباس پیش ہے۔ یہ تقریر قائداعظم نے ۲۵ جنوری ۱۹۴۸ء کو، کراچی بار ایسوسی ایشن کے سامنے کی تھی:
میں ان لوگوں کے عزائم نہیں سمجھ سکا جو یہ پروپیگنڈا کررہے ہیں کہ پاکستان کے آئین کی بنیاد شریعت نہیں ہوگی۔ اسلامی اصولوں کا اطلاق آج بھی ہم پر اسی طرح ہوتا ہے، جس طرح ۱۳۰۰ صدیوں پہلے ہوتا تھا۔ اس سے کسی کو بھی خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ پروپیگنڈا کرنے والے حضرات ’شرارتی‘ اور ’منافق‘ ہیں۔ (قائداعظم کی تقاریر، مرتبہ: ڈاکٹر رفیق افضل، ص ۴۵۵)
پھر بانیانِ پاکستان کے ہاتھوں مارچ ۱۹۴۹ء میں قرارداد مقاصد کی منظوری کا عمل بھی پرکھ لیا جائے، آم اپنی خوشبو اور مٹھاس کی خبر دے دیں گے، پیڑ گننے کی ضرورت نہ رہے گی۔
اب دیکھیے، یہ ۲ مارچ ۱۹۸۱ء کی بات ہے۔ کراچی سے پشاور جاتے ہوئے پی آئی اے کی پرواز پی کے۳۲۶ بوئنگ ۷۲۰ کو الذوالفقار نامی تنظیم نے اغوا کیا۔ الذوالفقار: پیپلزاسٹوڈنٹس فیڈریشن اور سوشلسٹ نوجوانوں پر مشتمل ایک دہشت گرد تنظیم تھی۔ جس کی سربراہی بے نظیر بھٹو کے بھائی مرتضیٰ بھٹو اور شاہ نواز بھٹو کر رہے تھے۔ مسافر طیارہ اغوا کر کے کابل پہنچایا گیا، اس کے فضائی قزاق سلام اللہ ٹیپو نے بی بی سی لندن کو انٹرویو دیتے ہوئے اعلان کیا: ’’[۲۶ فروری ۱۹۸۱ء کو] ہم ہی نے کراچی یونی ورسٹی میں اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم حافظ اسلم کو گولی مار کر قتل کیا تھا‘‘۔ اس تنظیم کے خدوخال کو دیکھنا ہو تو وعدہ معاف گواہ راجا انور کی کتاب The Terrorist Prince(دہشت گرد شہزادہ) دیکھ لی جائے۔ اب زیرتبصرہ کتاب کا یہ حصہ پڑھیے:
ضیا نے جماعت اسلامی کے غنڈوں کو [پاکستانی] یونی ورسٹیوں میں ترقی پسند طالب علموں کو گولی سے اڑانے کے لیے استعمال کیا۔ جماعت اسلامی کو اپنے طلبہ ونگ [یعنی جمعیت] سے یونی ورسٹی پروفیسروں اور انٹیلی جنس افسروں کی تقرری کرنے کی کھلی چھوٹ دے دی گئی… کالجوں اور اعلیٰ تعلیمی اداروں سے ضیا نے سیکولر پروفیسروں کو نکال باہر پھینکا، اور ان کی جگہ جماعت اسلامی کے حمایتی ارکان بٹھا دیے گئے۔ (ص ۱۸۹)
اس اقتباس کا مطالعہ کرتے ہوئے الذوالفقار تنظیم کا حوالہ ذہن میں رکھا جائے، کیونکہ یہ ضیاء الحق کے دور کی بات ہو رہی ہے۔ یہاں بھٹو صاحب کے اس دور (۷۷-۱۹۷۱ء) کی بات نہیں کی جارہی کہ جس میں پیپلزگارڈز، پیپلزاسٹوڈنٹس فیڈریشن، اور فیڈرل سیکورٹی فورس کے ہاتھوں عوام، بلوچستان، طالب علموں اور حزب مخالف کو کس کس انداز سے اپنے خون میں نہانا پڑا تھا۔ یہاں اس تاریخ کا اعادہ بھی نہیں کیا جا رہا کہ جس میں پیپلزاسٹوڈنٹس فیڈریشن وغیرہ کے جیالوں نے یک طرفہ طور پر ایک خونیں جنگ کا آغاز کیا تھا۔ یہ بتانا ان لوگوں کی ذمہ داری ہے جنھوں نے یہ الزام لگایا ہے کہ جمعیت نے اس زمانے میں ترقی پسند طالب علموں کو گولی سے اُڑایا۔ اور یہ بتانا بھی انھی کی ذمہ داری ہے کہ کس کس اعلیٰ تعلیمی ادارے سے کتنے پروفیسر صاحبان، جمعیت نے نکلوائے تھے۔ اگر ایسے چار پانچ پروفیسر صاحبان نکالے بھی گئے تو وہ مارشل لا حکام نے نکالے تھے، ان میں جمعیت کا کوئی کردار نہیں تھا۔ اسی طرح یہ گوشوارہ پیش کرنا بھی پیپلزپارٹی کی ذمہ داری ہے کہ کتنی تعداد میں جماعت کے’حمایتی‘ پروفیسر بھرتی ہوئے۔ سچی بات ہے کہ کتاب کے اس اقتباس کو پڑھ کر یوں لگ رہا ہے کہ یہاں طالب علموں کے قتل و غارت کا ایک طوفان، ترقی پسند اساتذہ سے تعلیمی اداروں کا صفایا اور ان کی جگہ من پسند پروفیسروںکی فوج کو بھرتی کرنے کا ہنگامہ برپا تھا۔ کیا واقعی ایسا تھا؟ یا یہ سب تخیل کے زور پر ایسا واویلا ہے، جس کی نہ کوئی جڑ ہے اور نہ کوئی بنیاد! اور جمعیت کے کارکنوں کو جتنی بڑی تعداد میں قوم پرست، سوشلسٹ اور غنڈہ عناصر نے اس زمانے میں قتل کیا ، اس کی مثال کسی دوسرے عشرے میں نہیں ملتی۔
کتاب کا سب سے تکلیف دہ حصہ وہ ہے، جس میں مصنفہ نے یہ کہا ہے:
۱۹۴۷ء میں مذہبی تقسیم کی پیداوار ہونے کے ناتے سے جنوبی ایشیا اور فلسطین کے حالات کے درمیان پائی جانے والی مماثلتوں نے مجھے ہمیشہ حیران کیا ہے۔ ہرتقسیم نے دو اقوام کو جنم دیا، یعنی فلسطین اور اسرائیل___ بھارت اور پاکستان۔ برعظیم کی تقسیم کو قبول کرلیا گیا، مگر شرق اوسط میں ایک فریق نے اسے رد کردیا۔ یہ استرداد دانش مندانہ تھا یا نہیں، ایک غیرمتعلق سی بات ہے۔ متعلقہ بات یہ ہے کہ آج کے فساد کے تمام معقول فریقوں نے دو ریاستی حل کو قبول کرکے دونوں طرف کے انتہا پسندوں کو ایک طرف دھکیل دیا ہے۔ (ص ۳۱۶)
اس نثرپارے میں متعدد مغالطے دَر آئے ہیں۔ فلسطین پر یہودیوں کے ناجائز قبضے (اسرائیل) کی بنیاد ۱۹۱۷ء کے شرم ناک اعلان بالفور میں رکھی گئی، جس کی رُو سے سیکڑوں برسوں سے وہاں آباد مسلمانوں کی بے دخلی شروع ہوئی اور ۱۹۴۸ء میں زبردستی اسرائیل کی ریاست کا ناجائز قیام عمل میں لایا گیا۔ کیا اس ظالمانہ عمل کو قیامِ پاکستان کے ایک پُرامن آئینی حل کے مماثل قرار دیا جاسکتا ہے؟ پھر کیا واقعی بھارت نے قیامِ پاکستان کو دل سے (نہ کہ زبان سے) تسلیم کرلیا ہے؟ اگر واقعی صدقِ دل سے تسلیم کیا ہوتا تو کشمیر کا مسئلہ پیدا ہی نہ ہوتا اور پہلے روز سے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے پودے کو دہلی سرکار یوں نہ سینچتی۔ اور کیا بے چارے مظلوم فلسطینیوں نے نادانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس ’تقسیم‘ کو رَد کرنے کا جرم کیا ہے کہ جس پر یوں ان لاکھوں خانماں بربادوں کی دانش پرمصنفہ کو حیرت ہورہی ہے؟ کیا فلسطین اور مقبوضہ فلسطین کا مسئلہ ایسا ہی حل تھا، جیسا کہ پاکستان اور بھارت___ تو پھر بے نظیر بھٹو کے ممدوحین قائداعظم، علامہ محمد اقبال، ذوالفقار علی بھٹو، فیض احمد فیض وغیرہ کیوں کر اس ظلم پر تڑپتے رہے۔ انھوں نے کیوں نہ فلسطینیوں سے کہا کہ اسرائیل کو تسلیم کرلو؟ پاکستان تو بے خانماں، نہتے اور لٹے پٹے مہاجروں کا ملک تھا، مگر اسرائیل کو تو یورپ و امریکا کی مالی، فوجی اور سیاسی پشت پناہی کے آہنی ہاتھوں کے ذریعے تشکیل دیا گیا اور لاکھوں انسانوں کی لاشوں کا ڈھیر لگاکر انسانیت کو ہر روز قتل کیا گیا۔ کیا واقعی پاکستان اور اسرائیل کے مابین کوئی مماثلت موجود ہے؟ اور کیا فلسطینیوں نے اسرائیل کو تسلیم نہ کر کے فساد کا بیج بویا ہے؟ یہ استدلال خود مذمتی اور بے بنیاد ’روشن خیالی‘ کا عبرت ناک نمونہ ہے جس نے مغربیوں کے ظلم کو سہارا اور تباہ حال فلسطینیوں کے زخموں پر نمک پاشی کی ہے اور ساتھ ہی ساتھ اہلِ پاکستان کو ایک ذلت آمیز مماثلت کا طعنہ دے کر دکھ پہنچایا ہے۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں پر قائداعظم کے نام علامہ محمد اقبال کے خط مورخہ ۷ اکتوبر ۱۹۳۷ء کا آخری ٹکڑا پیش کیا جائے:
مسئلہ فلسطین مسلمانوں کے ذہنوں میں بہت اضطراب پیدا کر رہا ہے… مجھے قوی امید ہے کہ لیگ اس مسئلے (فلسطین) پر ایک بہت ہی سخت قرارداد منظور کرے گی… ذاتی طور پر میں کسی ایسے امر کی خاطر جیل جانے کو بھی تیار ہوں جس سے اسلام اور ہندستان متاثر ہوتے ہوں۔ مشرق کے دروازے پر مغرب کا ایک اڈا بننا اسلام اور ہندستان دونوں کے لیے پُرخطر ہے۔ (پروفیسر احمدسعید، اقبال اور قائداعظم، اقبال اکادمی ، لاہور، ص ۱۱۰)
اسی طرح بے نظیر کے نقطۂ نظر کے برعکس مولانا مودودی کا موقف جاننا متعدد حوالوں سے اشد ضروری ہے۔ جنھوں نے اسرائیل اور پاکستان میں مماثلت پیدا کرنے والے ایسے ہی ایک روشن خیال کو جواب دیتے ہوئے، ماہنامہ ترجمان القرآن جولائی ۱۹۴۴ء میں لکھا تھا:
میرے نزدیک پاکستان کے مطالبے پر یہودیوں کے قومی وطن کی تشبیہ چسپاں نہیں ہوتی۔ فلسطین فی الواقع یہودیوں کا قومی وطن نہیں ہے۔ ان کو وہاں سے نکلے ہوئے ۲ہزار برس گزر چکے ہیں۔ اسے اگر ان کا قومی وطن کہا جاسکتا ہے تو اسی معنی میں جس معنی میں جرمنی کی آریہ نسل کے لوگ وسط ایشیا کو اپنا قومی وطن کہہ سکتے ہیں۔ یہودیوں کی اصل پوزیشن یہ نہیں ہے کہ ایک ملک واقعی ان کا قومی وطن ہے اور وہ اسے تسلیم کرانا چاہتے ہیں، بلکہ ان کی اصل پوزیشن یہ ہے کہ ایک ملک ان کا قومی وطن نہیں ہے اور ان کا مطالبہ یہ ہے کہ ہم کو دنیا کے مختلف گوشوں سے سمیٹ کروہاں لابسایا جائے، اور اسے بزور ہمارا قومی وطن بنا دیا جائے۔ بخلاف اس کے مطالبہ پاکستان کی بنیاد یہ ہے کہ جس علاقے میں مسلمانوں کی اکثریت آباد ہے، وہ بالفعل مسلمانوں کا قومی وطن ہے۔ مسلمانوں کا کہنا صرف یہ ہے کہ موجودہ جمہوری نظام میں ہندستان کے دوسرے حصوں کے ساتھ لگے رہنے سے ان کے قومی وطن کی سیاسی حیثیت کو جو نقصان پہنچتا ہے، اس سے اس کو محفوظ رکھا جائے، اور متحدہ ہندستان کے بجاے ہندو ہندستان اور مسلم ہندستان کی دو آزاد حکومتیں قائم ہوں۔ (دیکھیے: سید ابوالاعلیٰ مودودی، تحریکِ آزادیِ ہند اور مسلمان، دوم، ص ۲۱۸، ۱۹۷۳ء، اور رسائل و مسائل، اوّل، ص ۲۷۹، ۲۸۰)
بے نظیر بھٹو کی زیرنظر کتاب کے مطالعے سے جو تاثر سامنے آتا ہے، اسے حسبِ ذیل نکات کی صورت میں بیان کیا جاسکتا ہے:
جیساکہ ابتدا میں بتایا تھا، کہ ۲۷دسمبر ۲۰۰۷ء کی شام بے نظیر بھٹو کا بہیمانہ قتل ہوا، دوسرے روز ۲۸دسمبر کو مارک اے سیگل نے اس کتاب کا دیباچہ تحریر فرمایا اور ۳ جنوری ۲۰۰۸ء یعنی ساتویں روز جناب آصف زرداری، بیٹے بلاول اور بیٹیوں بختاور اور آصفہ نے اس کتاب کا اختتامیہ سپردِقلم کیا۔ رہ رہ کر یہ سوال کاٹنے کو دوڑتا ہے کہ بے نظیر صاحبہ کے قتل کے سانحے کے دوسرے روز (جب کہ تعزیت کنندگان ہجوم در ہجوم آرہے تھے اور) ابھی تدفین بھی نہیں ہوئی تھی، تو کس طرح دیباچہ لکھا گیا اور تدفین کے پانچویں روز ان کے غم زدہ شوہر اور دکھ میں نڈھال بیٹے بیٹیوں کو کس طرح وہ ذہنی کیفیت نصیب ہوگئی کہ جس میں وہ اختتامیہ قلم بند کرپاتے۔ یہ سب باتیں کتاب کے متن کے بارے میں بجاطور پر شک پیدا کرتی ہیں، کہ جس طرح خود مرحومہ کی وصیت کے بارے میں بھی شک پایا جاتا ہے۔
مصنفہ کی قومی خدمات کا اعتراف کرنے کے باوجود، یہ باتیں بادل ناخواستہ تحریر کرنا پڑی ہیں۔ اب دوسری جانب دیکھیے: مغرب میں پلی بڑھی، نومسلمہ اے وان رِڈلی کو یہ کیسا شعور نصیب ہوا ہے کہ جو مسلم دنیا میں مغربی آقائوں کے کاسہ لیس اور اقتدار کے بھوکے امیدواروں اور حکمرانوں کو بے نقاب کرتی اور ان کی خواہشاتِ اقتدار پر تازیانے برساتی چلی جارہی ہے۔ یہ چند روزہ زندگی ہی سب کچھ نہیں، اور نہ چند برسوں کی حکومت انسانی زندگی کا حاصل ہے۔ اس لیے مناسب یہی ہے کہ قومی قیادت کے مقام پر فائز افراد اپنی داخلی جنگ کو بڑھانے اور پھیلانے کے بجاے داخلی یک جہتی ، بہتر تعلیم و تربیت اور قومی و ملّی موقف میں مضبوطی کی راہوں پر چلیں۔ ملامتیہ رنگ چھوڑیں، ایک دوسرے پر تیراندازی کرکے جگ ہنسائی کا کھیل ترک کریں، اور عظمت ِ دانش کا پرچم تھام کر قوم کی قیادت کریں۔