مضامین کی فہرست


جولائی ۲۰۲۰

 امریکا میں نسل پرستی کے تناظر میں ہونے والے حالیہ واقعات ، احتجاج اور فسادات نے عالمی سطح پر بعض ایسے مباحث اور عملی مسائل کو مزید تازہ کر دیا ہے جن پر وقتی، معاشی ،معاشرتی اور صحت سے وابستہ مسائل کی بنا پر ہمارے اذہان کم توجہ دیتے ہیں۔

ان مسائل میں سب سے نمایاں مسئلہ اس نظریاتی اور اصولی تقابل کا ابھر کر آنا ہے، جو اُمت مسلمہ اور تحریکات اسلامی کی اساس ہے۔ قرآن کریم نے اسلام کو بطور دینِ حق پیش کیا ہے  جس کا ہدف شہادتِ حق ، قیامِ عدل و توازن اورحقوقِ انسانی کا تحفظ ہے ۔وہ نسل پرستی، اوہام پرستی، وطن پرستی، مادیت اور مالی منفعت کے بتوں کو پاش پاش کر کےایک اعلیٰ اور جامع ا خلاقی تصورِ حیات فراہم کرتا ہے جس میں افراد کی زندگی کا محور اصول اور اقدار ہیں نہ کہ شخصیات،گروہ یا محض مادی و سماجی مفادات۔ وہ کسی شخصیت کو تذلیل کا نشانہ نہیں بناتا، حتیٰ کہ مشرکین کے بتوں کو بھی بُرے ناموں سے پکارنے کی ممانعت کرتا ہے لیکن شرک، ظلم ، طغیان، فساد ، حقوقِ انسانی کی پامالی کے خلاف اعلان جہاد کرتا ہے اور اس جدوجہد کے لیے مال اور جان کی قربانی کو عبادت قرار دیتا ہے۔ اس ضمن میں وہ ایک جانب شرک اور استحصالی نظام کی بنیادی فکر پر کاری ضرب لگاتا ہے، اور دوسری جانب مثبت اور تعمیری رویہ اختیار کرتے ہوئے انسانی فوز و فلاح اور کامیابی کے لیے عدل و توازن پر مبنی معاشرتی، معاشی، سیاسی، دفاعی، ثقافتی اور تعلیمی انقلاب کے لیے بنیادی ہدایات اور رہنما اصول فراہم کرتا ہے۔

اُمت مسلمہ اور اسلامی تحریکات کا اصل کام یہی ہے کہ وہ ایک تہذیبی، اصولی اور نظریاتی پس منظر میں قرآن و سنت کے موقف کو عصری زبان میں پیش کریں تاکہ اُمت مسلمہ اجتماعی طور پر زندگی کے اس متبادل نظام کو قائم کرسکے۔ یہ تحریکات اسلامی معروف سیاسی اور مذہبی جماعتوں سے مختلف ایک ایسے نظم کا نام ہے، جو جزوی اور وقتی مسائل کے مقابلے میں نظام کی اصلاح اور تبدیلیِ نظام کو اوّلیت دیتا ہے ۔اس کا مقصد اقتدار پر کسی نہ کسی طرح قابض ہونا نہیں بلکہ پورے معاشرے اور پورے انسان کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ نظام میں اخلاقی انقلاب برپا کرنا ہے، تاکہ ریاستی اعضا، ریاستی تصور کے ساتھ ہم آہنگ ہو جائیں اور زندگی کے ہر شعبے میں توازن پیدا ہو سکے۔

اس حوالے سے اگر آج کی دنیا پر ایک نگاہ ڈالی جائے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ یکے بعد دیگرے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسی واضح نشانیاں اور آیات آنکھوں کے سامنے آرہی ہیں، جو دین اسلام کی سچائی ،انسانوں کے لیے اس کی ضرورت، اور اسلام کے دیے ہوئے انسانی حقوق کے تصور اور تعلیمات کی صداقت میں مزید اضافہ کر دیتی ہیں ۔ اب ابلاغ عامہ کے ذرائع کے لیے ممکن نہیں ہے کہ وہ اپنی پس پردہ نسل پرستی اور منافرت کو مکمل طور پر چھپا سکیں۔ کسی کے لیے یہ بھی ممکن نہیں کہ امریکا اور یورپ میں ہونے والے حالیہ واقعات سے صرفِ نظر کر سکے۔ امریکا میں افریقی النسل امریکیوں اور اقلیتی طبقات کے ساتھ جو تعصب معاشرے میں پایا جاتا ہے، اس کی ایک تازہ مثال ۴۶ سالہ جارج فلوئیڈکا سفیدفام امریکی پولیس افسر کے ہاتھوں سفاکانہ قتل ہے، جو پورے امریکا میں نسلی ٹکراؤ اور نسل پرستی کے خلاف ایک مہم کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ واشنگٹن میں سرمایہ دارانہ نظام جس کی تعمیر میں افریقی مسلم ممالک سے لائے ہوئے مظلوم انسانوں کا کردار سفیدفام افراد سے کہیں زیادہ ہے، وہ نظام آج سیّد مودودیؒ کی پیش گوئی کے مطابق لرزہ براندام ہے۔

 امریکی صدر کی شخصیت انتہائی متنازعہ بن چکی ہے اور اس پر سفید نسل کی حمایت حاصل کرنے اور ان کے ووٹ کی قوت کی بنا پر نسل پرستی اختیارکرنے کے الزامات زبان زدِ خاص و عام ہیں ۔ اس نسلی منافرت نے سفید نسل پرستی کے بت کی بنیادوں کو متزلزل کر دیا ہے اور خود سفید نسل کے افراد کی ایک بڑھتی ہوئی تعداد امریکا اور یورپ کی یونی ورسٹیوں، تجارتی مراکز اور سیاسی محاذوں پر اپنے ضمیر کی آواز پر کھلم کھلا موجودہ سرمایہ دارانہ اور نسل پرستی پر مبنی نظام کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں۔

یورپ میں تازہ ترین واقعہ برطانیہ کی ۹۰۰سالہ پرانی یونی ورسٹی اوکسفرڈ کے احاطے میں نصب سیسل رہوڈس کے مجسمے کے خلاف مظاہرہ اور مطالبہ ہے کہ اسے یونی ورسٹی کی حدود سے اکھاڑ کر کہیں اور لے جایا جائے۔ اس سے قبل بھی بعض ایسے مجسموں کو، جو نوآبادیاتی غلامانہ نظام سے وابستہ قائدین کے تھے، عوام نے اپنی قوت استعمال کرتے ہوئے اکھاڑ کر سمندر برد کر دیا تھا۔

واضح رہے کہ سیسل رہوڈس وہ شخص تھا، جس نےجنوبی افریقہ میں برطانوی سامراجیت کو نسل پرستی کی بنیاد پر قائم کیا اور جسے اس کی اس خدمت کے نتیجے میں قومی ہیرو قرار دیا گیا ۔اس کے نام سے تعلیمی وظیفہ جاری کیا گیا اور اس کے مجسمے کو اوکسفرڈ یونی ورسٹی میں نمایاں مقام پر نصب کیا گیا ۔اس دانش گاہ میں تعلیم پا نے والے طلبہ و طالبات دو سو سال سے اس بت کو تقدس کی نگاہ سے دیکھتے چلے آرہے تھے، لیکن آج وہ ’مقدس‘ بت، انھی کے ہاتھوں اپنے انجام کو پہنچ رہا ہے۔ یونی ورسٹی کےبورڈ آف گورنرز نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اسے یونی ورسٹی کی حدود سے بے دخل کر دیا جائے۔ تاہم، اس کو کون سی جگہ فراہم کی جائے، یہ ابھی تک فیصلہ نہیں ہوسکا۔ اس پر یونی ورسٹی کی اعلیٰ انتظامیہ میں اختلاف پایا جاتا ہے ۔ بعض کاخیال ہے کہ یہ بت ان کی تاریخ کا حصہ ہے، اسے چھپانے سے تاریخ نہیں بدل جائے گی۔ ماضی کے تذکرۂ عبرت کے طور پر اسے نظروں سے محو نہ کیا جائے تاکہ یہ زندہ عبرت کا نمونہ بنارہے۔ دوسرا موقف یہ ہے کہ ایسے بت جو نسلی منافرت کی علامت ہوں، اس قابل نہیں کہ ان کے وجود تک کو برداشت کیا جائے ۔

 اس تناظر میں اوکسفرڈ یونی ورسٹی کی وائس چانسلر کا بی بی سی کے ساتھ انٹرویو لمحۂ فکریہ  فراہم کرتا ہے۔ لوئیس رچرڈ سن بت کو ہٹانے کے حق میں نہیں تھیں ، ان کا کہنا تھا کہ: ’’اپنی تاریخ کو چھپانا روشن خیالی کے لیے صحیح راہ نہیں ہے‘‘۔ ان کی دلیل یہ تھی کہ :’’آٹھ سو سال تک جن لوگوں نے یونی ورسٹی کو چلایا، وہ عورتوں کو تعلیم دینے کے قابل نہیں سمجھتے تھے۔ کیا ہمیں ان لوگوں کی کھلے عام مذمت کرنی چاہیے؟ میرا خیال ہے کہ وہ غلط تھے، لیکن ان کے بارے میں کوئی راے قائم کرتے ہوئے ان کے زمانے کو پیش نظررکھنا چاہیے‘‘۔

گویا یونی ورسٹی کی سربراہ کی حیثیت سے ان کی ذاتی راے یہ تھی کہ مجسمے کو ہٹانے سے فرق نہیں پڑے گا، جب تک ماضی کے حالات کے تناظر میں کیے گئے اقدامات کا تنقیدی جائزہ لے کر یہ طے نہ کیا جائے کہ رہوڈس کا سامراجیت کو قائم کرنا درست تھا یا غلط؟معروضی طور پر خاتون وائس چانسلر کی بات میں وزن ہے کہ بجائے تاریخ کے تاریک واقعات کو کتب و مصادر سے خارج کردیا جائے،ان پر تاریخی تناظر میں غور کرنے کے بعد ان کے خلاف یا حق میں فیصلہ کرنا زیادہ دانش مندانہ رویہ ہوگا۔شاید یہی سبب ہو کہ اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ نے فرعون کی لاش کو پانی میں  گم کرنے کے بجائے اسے قیامت تک کے لیے ہر ظالم و جابر کے لیے نشانۂ عبرت بنا دیا۔

اُدھر امریکا کے بعض شہروں میں، جہاں سیکڑوں برس سے کولمبس کے مجسّمے نصب تھے، انھیں توڑدیایا گرا دیا گیا ہے، کیوں کہ کولمبس، افریقہ سے مظلوم حبشیوں کو پکڑ پکڑ کرلایا اور اس نے غلاموں کی تجارت کو فروغ دیا۔ اس کا کردار غیراخلاقی ، غیرانسانی اور قابلِ نفرت تھا۔

اسلامی تحریک کے لیے لائحہ عمل

بہرصورت حالیہ منافرت کے خلاف احتجاج نے مغربی تہذیب و ثقافت اور مغربی سامراجی سرمایہ دارانہ نظام کے اصلی چہرے کو اقوام عالم کے سامنے بے نقاب کر دیا ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اُمت مسلمہ اور خصوصیت سے تحریک اسلامی اس کے مضمرات پر غور کرے اور دعوتی نقطۂ نظر سے راہِ عمل کو واضح اور مدلل انداز میں پیش کرے ۔

l پہلی بات یہ ہے کہ شاخِ نازک پر بننے والے اس سرمایہ د ارانہ نظام اور سامراجیت کی ناپایداری کا ثبوت اس سے زیادہ کیا ہو گا کہ وہ اپنے خنجر سے اپنے ہاتھوں خود کشی پر آمادہ ہوجائے!یہی وہ دعوتی مرحلہ ہے جس میں اسلامی نظامِ حیات کے خدوخال عصری زبان میں اور براہِ راست    پیش کرنے کے لیے قائدانہ کردار کی ضرورت ہے ۔ علمی سطح پر اعدادو شمار اور زمینی حقائق کے تجزیے کے ساتھ یہ بات نوجوانوں کے ذہنوں میں بٹھانے کی ضرورت ہے کہ امریکا ہو یا یورپ، ان کا استحصالی نظام ان کے اپنے عوام کو جن میں سفید و سیاہ، سب شامل ہیں، عدل، عزّت، وقار، تحفظ اور سکون و اطمینان فراہم کرنے میں ناکام رہا ہے ۔اس نظام کےامریکی علَم برداران اپنے مفادات کے پیش نظر ’انفرادی آزادی‘ کے نعرے کا استعمال مستقل طور پر اڑھائی دوسو سال سے کر رہے ہیں کہ شہریوں کو اپنے تحفظ کے لیے ذاتی طور پر اسلحہ رکھنے اور استعمال کرنے کے حق کو اسلحہ بنانے والوں اور فروخت کرنے والوں کا بازارگرم رکھنے کے لیے برقرار رکھا جائے۔ جس کا ایک مفہوم یہ ہوگا کہ عوام کو تحفظ فراہم کرنے کی ریاستی ذمہ داری محض کاغذ پر ہو اور لوگ ڈاکو ، چور ، قاتلوں سے بچنے کے لیے اپنا دفاع اپنے ذاتی اسلحے سے کریں۔ یہ اس لیے کہ امریکا میں اسلحہ سازی اور بندوق کلب سیاسی طور پر اتنے طاقت ور ہیں کہ قانون ساز ادارے ان کے سامنے بے بس ہیں۔

l دوسری بات یہ واضح ہوکر سامنے آتی ہے کہ انسانوں میں بعض فطری بنیادی رجحانات دنیا میں ہر جگہ پائے جاتے ہیں اور ایک متعفن معاشرے میں پیدا ہونے ،پلنے بڑھنے کے باوجود بہت سے کھلے ذہن ایسے موجود ہیں، جو کھلے ظلم کے خلاف اپنے جذبات کے اظہار کے لیے سڑکوں پر آنے میں تردد نہیں کرتے ۔ یہی وہ ارواح ہیں جن تک تحریک کی دعوت اگر اس حوالے سے پیش کی جائے کہ اسلام کس طرح منافرت اور نسل پرستی کے بت کو، جو چاہے پتھر کے مجسموں کی شکل میں ہر چوک پر نصب ہو ں یا جو انسانوں کے ذہن ، قلب بلکہ خون میں گردش کر رہے ہوں، انھیں چُن چُن کر پاش پاش کرتا ہے اور تمام انسانوں کو ان کے حقیقی خالق و مالک کی بندگی کی طرف دعوت دیتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی سامراجیت و نوآبادیت کی تاریخ اور اس کے اصل چہرے کو اس کے اپنے مآخذ کی بنیاد پر پیش کرتے ہوئے اسلام کی حیثیت وکردار کو واضح کیا جائے ۔

lتیسری بات یہ ہے کہ اگر مغرب میں ہونے والے اس ردعمل کا تجزیہ کیا جائے تو دو الفاظ کثرت سے استعمال کیے جارہے ہیں، ایک ’افریقی سیاہ نسل کے ساتھ تفریق‘ اور دوسری  Diversity  یا’تنوع کو خطرہ‘ ۔ ان دونوں اصطلاحات کے استعمال کے اندر خود ایسا زہر چھپا ہوا ہے، جو ان کی ظاہری معصومیت سے بالکل واضح نہیں ہوتا۔ یورپ و امریکا کے معاشرے میںتعلیم، معیشت اور مذہب کی جڑیں آج تک نسلی تعصب سے آزاد نہیں ہو سکیں ۔ مغرب کے لادینی جمہوری نظام میں افریقی النسل امریکیوں کو دستوری طور پر تو ووٹ کا حق حاصل ہے کہ وہ اپنا ووٹ جسے چاہے دے سکیں، لیکن دو سو سال کی تاریخ میں کانگریس اور سینیٹ میں ہی نہیں عدلیہ اور انتظامیہ میں بھی افریقی امریکیوں کا تناسب اس اصول کے منافی نظر آتا ہے۔

اگرچہ Diversity یا تنوع بظاہر ایک معقول اصطلاح ہے، لیکن اس کے مضمرات میں یہ بات شامل ہے کہ انفرادیت پرستی کو بطور حق تسلیم کیا جائے ۔ چنانچہ ہم جنس پسندی کو ملازمت ، مذہبی قیادت ، قومی اور ریاستی معاملات میں اعلیٰ ترین منصب پر فائز ہونے میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔امریکی سپریم کورٹ نے حال میں تیسری جنس کے افراد کے حق میں فیصلہ دے کر اس اصول کی توثیق کی ہے۔اس Diversity کی اصطلاح کو MDG’sملینیم ڈویلپمنٹ گولزاور پایدار ترقی (Sustainable Development) کے ’سترہ سنہری‘ اصولوں میں اسی غرض سے شامل کیا گیا ہے کہ اس کی آڑ میں وہ سارے اقدامات کیے جا سکیں، جو بنیادی انسانی اخلاقیات اور خصوصاًالہامی ہدایات کے منافی ہیں اور معاشرے میں اباحیت ، فحاشی اور بد اخلاقی کو پھیلانے کا کام قانون کے تحفظ کے نام پر کیا جاسکے۔ جہاں اس گفتگو کا مقصد منافرت اور نسل پرستی کو شدت کے ساتھ ردکرنا ہے، وہیں یہ بات بھی واضح کرنا ہے کہ مغرب کی طرف سے اس کے لیے جو دلیل پیش کی جاتی ہے وہ دلیل اخلاق کی کسوٹی پر پوری نہیں اترتی اور تحریکا ت اسلامی کو ایسے تصورات سے آگاہ ہوکر اپنی حکمت عملی وضع کرنے کی ضرورت ہے۔

مولانا مودودیؒ نے سرمایہ دارانہ نظام اور لادینیت کے خلاف ایمان، دلیل اور دانش سے جس جدوجہد کا آغاز کیا تھا، آج اس سے بھی زیادہ شدت کے ساتھ اس پروگرام اور دعوت کو پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ افکار ونظریات وقت گزرنے کے ساتھ فرسودہ نہیں ہو جاتے ۔ یونان کے فلاسفہ نے جس ’جمہوریت‘ کو ’حق‘ قرار دیا تھا، جو دراصل ایک محدود طبقے کی حکومت (Oligarchy) ہے اور جس کی بنا پر عالمی طور پر لادینی جمہوریت، سرمایہ دارانہ افراد کی اجارہ داری بن گئی ہے۔ آج تک کسی نے یہ نہیں کہا کہ افلاطون اور ارسطو کے خیالات فرسودہ ہو چکے ہیں اور اب ہمیں کسی نئی جمہوریت کی ضرورت ہے یا جو تصورِاخلاق ارسطو اور افلاطون نے پیش کیے، اسے آج تک یہ کہہ کر رد نہیں کیا گیا کہ وہ پرانا ہوگیا ہے بلکہ وہ لذت کا حصول ہو یا خوشی کا حصول یا قوت کا حصول، ان تصورات کو نئے ناموں کے ساتھ جوں کا توں مغربی فکر میں مقدس انداز میں برقرار رکھا گیا ہے۔

ضرورت ہے کہ آج کے فکری معرکے میں مولانا مودودیؒ کی پیش کردہ حکمت عملی کو پورے اعتماد کے ساتھ اجاگر کیا جائے۔ تحریکات کا وجود ہی ان کی نظری بنیادکی بنا پر ہوتا ہے۔ اگر وہ اپنی فکری بنیاد سے انحراف کریں یا ہٹ جائیں تو پھر وہ ’مرغ بادنما‘ بن جاتی ہیں، وقتی مسائل کی رو میں بہہ جاتی ہیں، اس طرح وہ مستقبل میں پیش آنے والے خطرات سے بھی غافل ہوجاتی ہیں۔

کرونا وائرس کا چیلنج اور تحریک اسلامی

کرونا وائرس کے اثرات سامنے آنے شروع ہو گئے ہیں اور یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ اپنی جانب سے تمام تر صحت عامہ کی تدبیروں اور انتظامات کے دعوؤں کے باوجود، وقت کی بڑی بڑی حکومتیں بھی اس وبا کے سامنے بے بس اور ناکام نظر آتی ہیں ۔اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس آزمایش میں تحریک اسلامی کا کردارغیر معمولی اہمیت اختیار کر جاتا ہے ۔ ’سماجی فاصلہ‘ رکھنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ دعوتی توسیع کو عارضی رخصت دے دی جائے، بلکہ ان حالات میں مزید  جوش اور ولولے کے ساتھ روایتی دعوتی طریقوں کو حفاظتی اقدامات اور جدید ٹکنالوجی کی مدد سے دعوتی کام کو وسیع کرنے کا غیبی موقع حاصل ہوا ہے۔

اس وقت عالمی سطح پر اکثر جامعات آن لائن تعلیم دے رہی ہیں۔ ان حالات میں دعوت کے نئے انداز اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ غالباً ان افراد کو جو اپنی دفتری یا تجارتی مصروفیات کے بعدوقت کا بڑا حصہ دعوتی سر گرمیوں میں دیا کرتے تھے، اب یہ چیلنج درپیش ہے کہ وہ کس طرح اپنے طرزِ عمل اور خیالات کے ذریعے تحریکی اور دعوتی فکر اور تعمیر سیرت کے اصولوں کو عملاً فروغ دے سکیں ؟ ان حالات میں خدمت عامہ کے دعوتی کردار کی اہمیت میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے اور تحریکی کارکنوں نے جس خلوص اور قربانی کے ساتھ اپنی زندگی کو داؤ پر لگا کر خدمت خلق کا فریضہ انجام دیا ہے ، وہ عبادت کی ایک اعلیٰ شکل ہے۔

تحریک کو اس صورتِ حال میں نئے ذرائع سے دعوتی حکمت عملی وضع کرنے کی ضرورت ہے۔ آئی ٹی جو بہر صورت جدید تہذیب کا ایک لازمی جزو ہے، اپنی بعض کمزوریوں کے باوجود انسانی روابط، دعوت کی تو سیع ،افراد کی تنظیم اور دیگر ہرطرح کے مقاصد کے لیے ایک لازمی عنصر بن چکی ہے ۔ اس صورتِ حال میں عوامی رابطہ ، تربیت کردار وفکر، اور فروغِ دین کے لیے برقی ذرائع کا استعمال نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ صورتِ حال وہی ہے جس کی طرف قرآن کریم اشارہ کرتا ہے کہ بعض بظاہر شر، پُرخطر اور نقصان دہ چیزیں ایسی ہیں، جن میں اللہ خیر کا پہلو نکال دیتا ہے۔  اس وقت ابلاغی خیر کو استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ آن لائن دروس قرآن،  آن لائن تربیت ، آن لائن رسائل و جرائد و کتب، غرض ہر وہ کام جو کل تک روایتی ذرائع سے ہورہے تھے، اب وہ برقی ذرائع سے ہو سکتے ہیں اورا س میں کسی تاخیر کی گنجایش نہیں ہونی چاہیے۔

اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ عوام کی صحت اور طبی امداد کے حوالے سے جو کام جماعت اسلامی شعبہ ہائے خدمت نے انجام دیا ہے، اسے زیادہ سے زیادہ مستحکم کیا جائے اور ملک کے گوشے گوشے میں ایسے طبی امدادی مراکز قائم ہوں، جن میں مقامی افراد کو اپنی مدد آپ کے رضاکارانہ جذبے پر ابھارا جائے ،چاہے یہ افراد تحریک سے وابستہ نہ ہوں۔ کسی فرد سے اس کے مکان کا صرف وہ ایک کمرہ جس کا دروازہ باہر نکلتا ہواور گھر والوں کی ذاتی آزادی میں فرق نہ پڑتا ہو، اس کے تعاون کے طور پر لیا جائے۔ کسی ڈاکٹر سے ہفتے میں ایک دن بغیر کسی معاوضے کے مفلس افراد کی خدمت ، اللہ سے اجر کی بنیاد پر دینے کے لیے کہا جائے۔کسی فرد سے کم قیمت پر ادویات فراہم کرنے کی درخواست کرکے، انھیں عوام تک پہنچانے کا اہتمام کیا جائے۔اس کام کے لیے کسی بڑے سرمایے یا کسی بیرونی امداد کی ضرورت نہیں بلکہ نیکی کے جذبے سے سرشار سلیم الفطرت افراد سے اچھائی اور بھلائی میں تعاون کی اپیل کرکے حکمت اور دانائی سے محض رابطہ کاری کی ضرورت ہے۔

 عوام کو اس کام میں شامل کرنا اور انھیں اس خیر کی وسیع مہم کا حصہ بنانا ہی توسیع دعوت ہے۔ لیکن یہ سارا کام صرف اور صرف رضاے الٰہی کے حصول اور خدمت خلق کے بے لوث جذبے کی بنیاد پر کیا جائےتو تحریک مخالف بھی خواہش کرے گا کہ وہ اس نیک کام میں اپنا حصہ ڈالے،  لیکن اگر اس کاوش میں کسی قسم کا سیاسی رنگ شامل ہوگا تو پھر اس کے نتائج مختلف ہوں گے ۔

اقامت ِ دین کے لیے ، سیاسی زمامِ کار کی تبدیلی دعوت کے بنیادی مقاصد میں سے ہے لیکن دعوت کی حکمت عملی اور ترجیحات کا درست اور بروقت تعین ہی دعوت کے مقاصد کے حصول کو آسان بنا سکتے ہیں۔

آفاتِ سماوی، وبائیں ، سیلاب، طوفان ، زلزلے یہ سب عذاب ہیں، آزمایش ہیں، تنبیہ وعبرت یا یہ محض ایک کائناتی اور فطری عوامل کے تحت رونما ہونے والے واقعات وحوادث؟ منکرینِ مذہب ان حادثات کی محض واقعاتی توجیہہ کو اہمیت دیتے ہیں لیکن ایک بندۂ مومن کا نقطۂ نظر اس سے کہیں زیادہ وسیع تر ہے۔ وہ حوادث کے واقعاتی عوامل کے ساتھ ان کے پس منظر میں اللہ کی مرضی کو دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مومن کو جب بیماری لاحق ہوتی ہے اور پھر اللہ اسے صحت یاب کر دیتا ہے تو اس کی بیماری اس کے پچھلے گناہوں کے لیے کفارہ اور آیندہ کے لیے نصیحت بن جاتی ہے، جب کہ منافق جب بیمار پڑتا ہے اور صحت یاب ہوتا ہے تو اس کی حالت اس اونٹ کی سی ہوتی ہے جسے نہیں معلوم کہ اس کے مالک نے اسے کیوں باندھا اور کیوں کھولا؟ (ابو داؤد:۳۰۸۹)۔

حضرت جابرؓ بن عبداللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’مومن کی مثال گندم کی بال (خوشے) کی طرح ہے کہ ہوا چلنے سے کبھی نیچے ہوتی ہے تو کبھی سیدھی ، جب کہ کافر کی مثال صنوبر کے درخت کی ہے، جو ہمیشہ اکڑا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ جڑ سے اکھڑ جاتا ہے اور اسے اس کا شعور بھی نہیں ہوتا‘‘۔ (مسنداحمد)

بخاری ومسلم کی متفق علیہ روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مومن کی مثال کھیتی کے نرم پودے کی طرح ہے۔ ہوا چلتی ہے تو اسے ایک جانب جھکا دیتی ہے ، ہوا رُکتی ہے تو وہ سیدھا ہو جاتا ہے، یعنی بلا سے محفوظ ہو جاتا ہے۔ اور فاسق وبدکار کی مثال صنوبر کے درخت کی سی ہے جو اکڑ کر سیدھا کھڑا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ جب اللہ چاہتا ہے ، اسے بیخ و بُن سے اکھیڑ پھینک دیتا ہے (بخاری :۵۶۴۴)

قرآن کے مطابق انسان کے لیے اس کی ناگوار چیزیں ہی نہیں پسندیدہ چیزیں بھی ذریعۂ آزمایش ہیں:

كُلُّ نَفْسٍ ذَاۗىِٕقَۃُ الْمَوْتِ۝۰ۭ وَنَبْلُوْكُمْ بِالشَّـرِّ وَالْخَيْرِ فِتْنَۃً۝۰ۭ وَاِلَيْنَا تُرْجَعُوْنَ۝۳۵ (الانبیاء ۲۱:۳۵) ہر جان دار کو موت کا مزہ چکھنا ہے، اور ہم اچھے اور بُرے حالات میں ڈال کر تم سب کی آزمایش کر رہے ہیں۔ اور آخر کار تمھیں ہماری طرف لوٹنا ہے۔

مراد یہ کہ جب انسان کو موت کے بعد ہماری طرف پلٹنا ہی ہے تو خیر وشر کی اس آزمایش میں دورانِ زندگی ہی رب کی طرف رجوع کیوں نہیں کر لیتے۔دوسرے مقام پر فرمایا :

وَبَلَوْنٰہُمْ بِالْحَسَنٰتِ وَالسَّـيِّاٰتِ لَعَلَّہُمْ يَرْجِعُوْنَ۝۱۶۸ (الاعراف ۷:۱۶۸)اورہم آسایشوں اور تکلیفوں سے ان کی آزمایش کرتے رہے تاکہ وہ (ہماری طرف) رجوع کریں۔

آسایش وآرام کی آزمایش ہو یا تکلیف اور مصیبت کی، سب کا مقصد بندوں کو ان کے رب کی طرف پلٹنے اور رجوع کرنے پر آمادہ وتیار کرنا ہے ۔ اللہ کی طرف رجوع کا اظہار یہ ہے کہ انسان اپنی زندگی میں حسنِ عمل اختیار کر لے:

اِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَي الْاَرْضِ زِيْنَۃً لَّہَا لِنَبْلُوَہُمْ اَيُّہُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا۝۷ (الکھف ۱۸:۷)زمین میں جو کچھ بھی سروسامان ہے، اسے ہم نے زمین کی زینت بنا یا ہے تاکہ ان لوگوں کو آزمائیں کہ ان میں سے کون بہتر عمل کرنے والا ہے۔

آزمایش :اللہ کی طرف پلٹنے کا موقع

یہ خوب صورت سرزمین، جسے اللہ نے ندی نالوں ، دریاؤں، آبشاروں، پہاڑوں، میدانوں، سمندروں، شجروحجر اور چرند پرند سے زینت بخشی تھی، انسان کی ملک گیری کی ہوس اور سرمایہ پرستی نے اس کی فطری زینت کو تباہ وبرباد کر کے رکھ دیا ہے ۔ سرمایہ پرستی کے زیرتسلط سائنسی ترقی نے جنگلی حیات برباد کردی ، آبی جانوروں کی ہلاکت کا سامان کر دیا۔ ہوا اور فضا کو اس قدر آلودہ کر دیا کہ تیزی سے موسمیاتی تبدیلیاں واقع ہو رہی ہیں۔ حُب ِعاجلہ اور جلد ملنے والے نفع کے لالچ میں کاربن ڈائی اکسائیڈ گیس کا اخراج اتنا زیادہ ہو چکا ہے کہ انسانی زندگی کے لیے صاف ہوا کا حصول بھی شاید سرمایہ داروں کے رحم وکرم پر ہو گا۔ زمینی پانی کے سوتے خشک ہوتے جا رہے ہیں اور جو پانی باقی بچا ہے وہ زہر آلود ہوتا جا رہا ہے ۔ قرآن حکیم کے مطابق یہ تمام فساد انسانی ہاتھوں کی کمائی ہے لیکن اس کے نتیجے میں انسان جو کچھ بھگت رہا ہے ،اس میں رجوع الی اللہ کا بھی امکان موجود ہے:

ظَہَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ اَيْدِي النَّاسِ لِيُذِيْقَہُمْ بَعْضَ الَّذِيْ عَمِلُوْا لَعَلَّہُمْ يَرْجِعُوْنَ۝۴۱ (الروم۳۰:۴۱) خشکی اور تری میں فساد برپا ہو گیا ہے لوگوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے تا کہ مزا چکھائے اُن کو اِن کے بعض اعمال کا ، شاید کہ وہ باز آجائیں۔

انسان پر جتنی آفتیں وباؤں ، امراض، طوفانوں اور زلزلوں کی صورت میں آتی ہیں، وہ بڑے عذاب کے مقابلے میں بہت چھوٹی سزائیں ہیں کیونکہ ان سزاؤں کا مقصود تو انسان کو رجوع الی اللہ کی طرف متوجہ کرنا ہے اور اگر وہ ایسا کرے تو آنے والے بڑے عذاب سے بچ سکتا ہے:

وَلَنُذِيْـقَنَّہُمْ مِّنَ الْعَذَابِ الْاَدْنٰى دُوْنَ الْعَذَابِ الْاَكْبَرِ لَعَلَّہُمْ يَرْجِعُوْنَ۝۲۱ (السجدہ ۳۲:۲۱) اُس بڑے عذاب سے پہلے ہم اسی دنیا میں (کسی نہ کسی چھوٹے) عذاب کا مزا انھیں چکھاتے رہیں گے، شاید کہ یہ (اپنی باغیانہ روش)سے باز آجائیں۔

قوم فرعون کو بھی بڑی تباہی سے پہلے چھوٹے چھوٹے عذابوں کا شکار کیا گیا۔ کبھی کھٹمل کا عذاب، کبھی خون کا اور دیگر عذاب، تا کہ وہ پلٹ آئیں :

وَمَا نُرِيْہِمْ مِّنْ اٰيَۃٍ اِلَّا ہِىَ اَكْبَرُ مِنْ اُخْتِہَا۝۰ۡوَاَخَذْنٰہُمْ بِالْعَذَابِ لَعَلَّہُمْ يَرْجِعُوْنَ۝۴۸  (الزخرف ۴۳:۴۸) ہم ایک پر ایک ایسی نشانی اُن کو دکھاتے چلے گئے جو پہلی سے بڑھ چڑھ کر تھی، اور ہم نے ان کو عذاب میں دھر لیا کہ وہ اپنی روش سے باز آئیں۔

لیکن جو قومیں رب کی طرف پلٹنے کی بات کو نشانۂ تضحیک بنائیں ، ان کے نفس کا غرور اور تکبر انھیں وہیں پہنچا دیتا ہے جہاں فرعون اور اس کے لشکر پہنچ گئے:

وَاسْـتَكْبَرَ ہُوَ وَجُنُوْدُہٗ فِي الْاَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَظَنُّوْٓا اَنَّہُمْ اِلَيْنَا لَا يُرْجَعُوْنَ۝۳۹ فَاَخَذْنٰہُ وَجُنُوْدَہٗ  فَنَبَذْنٰہُمْ فِي الْيَمِّ۝۰ۚ فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَۃُ الظّٰلِــمِيْنَ۝۴۰ (القصص ۲۸:۳۹-۴۰) اس [فرعون] نے اور اس کے لشکروں نے زمین میں بغیر کسی حق کے اپنی بڑائی کا گھمنڈ کیا اور سمجھے کہ انھیں کبھی ہماری طرف پلٹنا نہیں ہے۔آخرکار ہم نے اسے اور اس کے لشکروں کو پکڑا اور سمندر میں پھینک دیا۔ اب دیکھ لو کہ ان ظالموں کا کیسا انجام ہوا۔

تباہ شدہ اقوام کی غلطی یہ تھی کہ انھوں نے رجوع کے مواقع کو گنوا دیا:

وَلَقَدْ اَہْلَكْنَا مَا حَوْلَكُمْ مِّنَ الْقُرٰى وَصَرَّفْنَا الْاٰيٰتِ لَعَلَّہُمْ يَرْجِعُوْنَ۝۲۷ (الاحقاف  ۴۶:۲۷) تمھارے گردوپیش کے علاقوں میں بہت سی بستیوں کو ہم ہلاک کر چکے ہیں ۔ ہم نے اپنی نشانیاں بھیج کر بار بار طرح طرح سے ان کو سمجھایا، شاید کہ وہ باز آجائیں۔

اللہ کی گرفت کا قانون

وہ عذاب کہ جس کے نتیجے میں پوری کی پوری سرکش قومیں صفحۂ ہستی سے مٹا دی گئیں اور اہل ایمان کو ان میں سے چھانٹ کر مامون ومحفوظ نکال لیا گیا ، انبیا ؑ کی مخاطب اقوام پر واقع ہوا۔ اس لیے کہ وہ اپنی قوم پر نہ صرف دعوت وتبلیغ اور اپنے عمل کی شہادت سے ان پر اتمام حجت کر چکے ہوتے ہیں بلکہ وہ عقل کو اپیل کرنے والے دلائل کے ساتھ ساتھ عقل کو عاجز کرنے والے معجزات  اور کھلی کھلی نشانیاں دکھا کر بھی حق کا حق ہونا اور اپنے نبی ہونے کو واضح کر چکے ہوتے ہیں ۔ اس لیے قوم نوح ہو یا عادوثمود ، قوم مدین ہو یا آلِ فرعون ، ان میں سے اہل حق کو نکال کر اہل باطل کو نیست ونابود کر دیا گیا ،یا اہلِ حق کو باطل پر فتح دے دی گئی۔ انبیاؑ کے علاوہ اہلِ حق چونکہ انبیاؑ کی طرح دعوتِ دین کے ابلاغ کا حق ادا نہیں کر سکتے، اس لیے ان کی مخاطب اقوام پر اللہ بھی وہ سخت فیصلہ نافذ نہیں کرتا کہ پوری کی پوری قوم صفحۂ ہستی سے مٹا دی جائے، البتہ انسانیت کی رہنمائی اور بالا دستی سے متعلق استبدال قوم اور قوموں کے عروج و زوال کا عمل جاری رہتا ہے۔ کوئی قوم یا فرد  ظلم و سرکشی اور تکبر میں حد سے بڑھ جائے تو اللہ اس پر گرفت ضرور کرتا ہے، البتہ ایک ایک جرم پر سزا دینا سنت الٰہی نہیں ہے:

وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللہُ النَّاسَ بِمَا كَسَبُوْا مَا تَرَكَ عَلٰي ظَہْرِہَا مِنْ دَاۗبَّۃٍ وَّلٰكِنْ يُّؤَخِّرُہُمْ اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى۝۰ۚ (فاطر ۳۵:۴۵) اگر کہیں وہ لوگوں کو ان کے کیےکرتوتوں پر پکڑتا تو زمین پر کسی متفنس کو جیتا نہ چھوڑتا۔ مگر وہ انھیں ایک مقرر وقت تک کے لیے مہلت دے رہا ہے۔

اللہ انسان کو غلطی پر سنبھلنے کا موقع دیتا ہے ۔ اگر ایک ایک عمل پر فوری سزا ملتی تو انسان کی آزمایش بھی ممکن نہیں تھی۔ آزمایش ہی یہ ہے کہ انسان اللہ اور اس کی گرفت کو دیکھے بغیر مانتا ہے کہ نہیں؟

رجوع الی اللہ کا مفہوم اور تقاضے

یہ معلوم ہونے کے بعد کہ اللہ کی طرف سے جتنی سختیاں آتی ہیں، وہ درحقیقت رجوع الی اللہ کی طرف مائل ومتوجہ کرنے کے لیے ہیں، یہ معلوم ہونا بھی ضروری ہے کہ رجوع الی اللہ کس رویے کا نام ہے ؟کیا محض اللہ اللہ کرنے ، دعائیں مانگنے اور کانوں کو ہاتھ لگانے کا یا کہ اس سے کچھ زیادہ؟

l توبہ و استغفار: رجوع الی اللہ کی اہم صورت ظالمانہ رویے سے استغفار ہے ۔ارشادِ الٰہی ہے :

وَلَوْ اَنَّھُمْ اِذْ ظَّلَمُوْٓا اَنْفُسَھُمْ جَاۗءُوْكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللہَ وَاسْتَغْفَرَ لَھُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللہَ تَوَّابًا رَّحِـيْمًا۝۶۴ (النساء ۴:۶۴) جب یہ اپنے نفس پر ظلم کر بیٹھے تھے تو تمھارے پاس آ جاتے اور اللہ سے معافی مانگتے، اور رسولؐ بھی ان کے لیے معافی کی درخواست کرتا، تو یقینا اللہ کو بخشنے والا اور رحم کرنے والا پاتے۔

کسی چیز کو اس کے اصل مقام سے ہٹا کر اسے کسی دوسری جگہ رکھنا ظلم کہلاتا ہے ، وضع شی فی غیر محلّہ ۔ عبادت اللہ کا حق ہے۔ اس کی بجائے کسی اور کے لیے مراسم عبودیت ادا کرنا شرک اور اللہ نے اسے ظلم عظیم قرار دیا ہے۔ اِنَّ الشِّـرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيْمٌ۝۱۳  (لقمان ۳۱:۱۳) ’’حق یہ ہے کہ شرک بہت بڑا ظلم ہے‘‘۔

نماز ،روزہ ، زکوٰۃ اور حج کو اللہ نے بندوں پر فرض کیا ہے۔، اللہ کے اس حق کو ادا نہ کرنا ظلم ہے۔ اسی طرح اللہ نے والدین اور اولاد کے ، میاں بیوی اور رشتہ داروں کے ،پڑوسی ،استاد، شاگرد، حاکم ورعایا کے حقوق مقرر کیے ہیں۔حکومت اور معاشرے نے انسانوں کے انسانوں پر کچھ حقوق وفرائض مقرر کیے ہیں۔ اب جو ان حقوق کو پامال کرتا ہے،وہ ظالم ہے ۔ حتیٰ کہ غیبت، طعنہ زنی ،عیبوں کی ٹوہ لگانا ، بدگمانی کرنا، نام بگاڑنا ، ان سب کو اللہ نے ظلم قرار دیا ہے اور ان سے توبہ کرنے کا حکم دیا ہے۔ وَمَنْ لَّمْ يَتُبْ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الظّٰلِمُوْنَ۝۱۱(الحجرات ۴۹:۱۱) ’’جو لوگ اس روش سے باز نہ آئیں وہ ظالم ہیں‘‘۔ ہمارے ہاں قتل ، چوری، ڈاکا زنی ، بدکاری کو تو ظلم سمجھا جاتا ہے لیکن مذکورہ معاشرتی برائیوں کو ظلم سمجھا ہی نہیں جاتا کہ جن سے بڑے بڑے فتنے برپا ہوتے ہیں ، اور جب انھیں ظلم سمجھا نہیں جائے گا تو ان سے توبہ کرنے کا خیال کیسے آئے گا؟ کسی بھی قوم کی تباہی کا بڑا سبب اس کا ظالمانہ رویہ ہے:

وَمَا كُنَّا مُہْلِــكِي الْقُرٰٓى اِلَّا وَاَہْلُہَا ظٰلِمُوْنَ۝۵۹ (القصص۲۸:۵۹)اور ہم بستیوں کو ہلاک کرنے والے نہ تھے جب تک کہ ان کے رہنے والے ظالم نہ ہوجاتے۔

ایک روایت کے مطابق حضرت عمر ؓ کے دور میں زلزلہ آیا تو انھوں نے زمین پر پاؤں مارا اور فرمایا:’’ اے زمین تو کیوں ہلتی ہے ؟کیا عمر نے تیرے اوپر انصاف سے حکومت نہیں کی ‘‘؟

انسان ظلم کر بیٹھے تو استغفار کا حکم ہے ، یعنی غلطی کی اصلاح کرنا ، غلط راے ، غلط تدبیر،  غلط فیصلے پر نظرثانی کرنا ۔ افراد بھی استغفار کریں اور قوم بھی ۔ تمام گناہوں اور زیادتیوں سے احساسِ ندامت کے ساتھ توبہ کرنا ۔آیندہ ظلم نہ کرنے کا عزم ، جس سے زیادتی کی ہے، اس سے معافی چاہنا ، جس کا حق دبایا ہے اس کا حق ادا کرنا ___ یہ ہے استغفار ۔ اگر ہم ایسا کر لیں تو آفات ومصائب کا ٹلنا یقینی ہے:

وَمَا كَانَ اللہُ مُعَذِّبَہُمْ وَہُمْ يَسْتَغْفِرُوْنَ۝۳۳ (الانفال ۸:۳۳)اور نہ اللہ کا یہ قاعدہ ہے کہ لوگ استغفار کر رہے ہوں اور وہ ان کو عذاب دے دے۔

انسان سے غلطی کا ہونا اتنی بڑی غلط بات نہیں جتنا کہ غلطی پر اڑ جانا غلط ہے۔ افراد سے بھی غلطیاں ہوتی ہیں اور تنظیموں ، اداروں اور حکومتوں سے بھی۔ ان پر نظر ثانی کرتے رہنا بھی استغفار کی ایک شکل ہے۔ یہ استغفار زبان سے بھی ہوگا اور عمل سے بھی ۔ اللہ کے رسولؐ دن میں سوسو مرتبہ استغفار فرماتے تھے۔ حضرت نوح ؑ نے اپنی قوم کو عذاب سے بچنے کے لیے یہی دعوت دی تھی:

فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ۝۰ۭ اِنَّہٗ كَانَ غَفَّارًا۝۱۰ۙ (نوح ۷۱:۱۰)میں نے کہا: ’’اپنے رب سے معافی مانگو، بے شک وہ بڑا معاف کرنے والا ہے ‘‘۔

l شکرگزاری: عذاب ٹلنے کا یقینی ذریعہ شکر گزاری ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

مَا يَفْعَلُ اللہُ بِعَذَابِكُمْ اِنْ شَكَرْتُمْ وَاٰمَنْتُمْ۝۰ۭ وَكَانَ اللہُ شَاكِرًا عَلِــيْمًا۝۱۴۷ (النساء ۴:۱۴۷) آخر اللہ کو کیا پڑی ہے کہ تمھیں خواہ مخواہ سزا دے ،اگر تم شکر گزار بندے بنے رہو اور ایمان کی روش پر چلو ۔ اللہ بڑا قدر دان اور سب کے حال سے واقف ہے۔

ایسا جانور جو تھوڑا چارہ کھا کر موٹا تازہ نظر آئے اور دودھ بھی زیادہ دے عربی میں اسے دَابۃً  شَکورًا کہتے ہیں ۔گویا انسان کا اللہ کی چھوٹی سی نعمت پر بھی احسان مند ہونا، ملی ہوئی نعمت کی قدر کرنا شکر ہے۔ انسان پر اللہ کی نعمتیں تھوڑی نہیں بلکہ اتنی زیادہ ہیں کہ وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَۃَ اللہِ   لَا تُحْصُوْہَا۝۰ۭ (النحل ۱۶:۱۸) ’’اگر تم اللہ کی نعمتوں کا شمار کرنے لگو تو نہ کر سکو گے ‘‘۔ لیکن انسان دوسرے کے مقابلے میں خود کو ملی ہوئی نعمتوں کو حقیر سمجھتا ہے اور یہ ناشکری ہے ۔ قرآن نے قومِ سبا کی خوش حالی کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا:

كُلُوْا مِنْ رِّزْقِ رَبِّكُمْ وَاشْكُرُوْا لَہٗ۝۰ۭ (السباء ۳۴:۱۵) کھاؤ اپنے رب کا رزق اور شکر بجا لاؤ اُس کا ۔

لیکن انھوں نے اس ہدایت سے منہ موڑا تو بند توڑ سیلاب کے نتیجے میں ان کے باغات جھاڑ جھنکار بن کر رہ گئے اور اللہ نے اس کی وجہ یہ بتائی:

ذٰلِكَ جَزَيْنٰہُمْ بِمَا كَفَرُوْا۝۰ۭ وَہَلْ نُجٰزِيْٓ اِلَّا الْكَفُوْرَ۝۱۷  (السبا۳۴:۱۷) یہ تھا ان کے کفر کا بدلہ جو ہم نے ان کو دیا، اور نا شکرے انسان کے سوا ایسا بدلہ ہم اور کسی کو نہیں دیتے۔

 آج زرعی ومعدنی وسائل اور موسموں کی ساز گار ی کے اعتبار سے اسلامی ممالک جتنی نعمتوں سے مالا مال ہیں، شاید ہی کوئی دوسری قوم اتنی خوش قسمت ہو لیکن یہ نا شکری کا رویہ ہے کہ ذات سے لے کر خاندان تک ، معاشرے سے لے کر بین الاقوامی ایوانوں تک، ہم اپنے وسائل کو ضائع کر رہے ہیں۔ یہ بھی نعمتوں کی ناشکری ہے۔ دوسری طرف حقوق اور ترقی کی جنگ کے مغربی تصور نے بحیثیت مجموعی انسانی مزاج میں ناشکر گزاری کی پرداخت کی ہے ۔ اور اس کے نتیجے میں پوری انسانیت زرعی اور معدنی وسائل اور خوراک کے وافر ذخائر ہونے کے باوجود بھوک اور خوف کا شکار ہے۔ قرآن کے مطابق یہ سزا ہے اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کی:

وَضَرَبَ اللہُ مَثَلًا قَرْيَۃً كَانَتْ اٰمِنَۃً مُّطْمَىِٕنَّۃً يَّاْتِيْہَا رِزْقُہَا رَغَدًا مِّنْ كُلِّ مَكَانٍ فَكَفَرَتْ بِاَنْعُمِ اللہِ فَاَذَاقَہَا اللہُ لِبَاسَ الْجُوْعِ وَالْخَوْفِ بِمَا كَانُوْا يَصْنَعُوْنَ۝۱۱۲ (النحل ۱۶:۱۱۲) اللہ ایک بستی کی مثال دیتا ہے۔ وہ امن واطمینان کی زندگی بسر کررہی تھی اور ہر طرف سے اس کو بافراغت رزق پہنچ رہا تھا کہ اس نے اللہ کی نعمتوں کا کفر ان شروع کر دیا۔ تب اللہ نے اس کے باشندوں کو ان کے کرتوتوں کا یہ مزا چکھا یا کہ بھوک اور خوف کی مصیبتیں ان پر چھا گئیں ۔

شکر گزاری کے جذبات دل میں بھی موجزن ہوں اور حاصل شدہ نعمتوں کا اعتراف زبان پر بھی آنا چاہیے۔ اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت کی گئی:وَاَمَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ۝۱۱ۧ (الضحٰی ۹۳:۱۱) ’’اور اپنے رب کی نعمت کا اظہار کرو‘‘۔ اس آیت کی رُو سے نعمتوں کا صحیح استعمال اپنی ذات پر بھی ہو اور اس میں محروم لوگوں کو بھی شامل کیا جائے کہ ملی ہوئی نعمتوں میں سائل اور محروم کا ایک متعین حق ہے: وَالَّذِيْنَ فِيْٓ اَمْوَالِہِمْ حَقٌّ مَّعْلُوْمٌ۝۲۴۠ۙ لِّلسَّاۗىِٕلِ وَالْمَحْرُوْمِ۝۲۵ (المعارج ۷۰:۲۴-۲۵)۔شکرگزاری نعمتوں میں اضافے کا ذریعہ بنتی ہے، جب کہ ناشکری اللہ کے عذاب کا باعث بنتی ہے: لَىِٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِيْدَنَّكُمْ وَلَىِٕنْ كَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِيْ لَشَدِيْدٌ۝۷ (ابراہیم ۱۴:۷) ’’اگر شکرگزار بنو گے تو میں تم کو اور زیادہ نوازوں گا اور اگر کفرانِ نعمت کرو گے تو میری سزا بہت سخت ہے‘‘۔

l تجدیدِ ایمان:عذاب سے بچنے کے لیے تجدید ایمان کو لازم قرار دیا گیا ہے۔ سورئہ نساء میں نجات کے لیے شکرگزاری کے ساتھ ساتھ ایمان کی روش کو نجات کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے:

مَا يَفْعَلُ اللہُ بِعَذَابِكُمْ اِنْ شَكَرْتُمْ وَاٰمَنْتُمْ۝۰ۭ وَكَانَ اللہُ شَاكِرًا عَلِــيْمًا۝۱۴۷ (النساء ۴:۱۴۷) آخر اللہ کو کیا پڑی ہے کہ تمھیں خواہ مخواہ سزا دے ،اگر تم شکر گزار بندے بنے رہو اور ایمان کی روش پر چلو ۔ اللہ بڑا قدر دان اور سب کے حال سے واقف ہے۔

لہٰذا جو ایمان نہیں لائے، وہ ایمان لائیں جیسے حضرت یونس ؑ کی قوم عذاب کو دیکھ کر بحیثیت قوم ایمان لے آئی اور عذاب ان سے ٹل گیا، اور جو پہلے سے مومن ہوں، وہ اپنے ایمان کی تجدید کریں۔ آثار صحابہؓ کے مطابق صحابہؓ ایک دوسرے کو تجدید ایمان کی یاد دہانی کروایا کرتے تھے۔

مغربی تہذیب نے نفوسِ انسانی میں کہیں سائنس کی خدائی کا سکّہ جما دیا ہے تو کہیں قومیت کو خدائی کے مقام پر بٹھا دیا ہے۔ انسانیت پرستی (Humanism)کے نام پر انسانی خواہش نفس کو ’الٰہ ‘ کا درجہ دے دیا ہے۔ معیشت وسرمایہ کے دیوتا کی پرستش بھی اس تہذیب کا خاصّہ ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ انسانی فطرت خدا کے بغیر گزارا نہیں کر سکتی۔ جب اصل خدا کو معاشرت ومعیشت اور تمدن و سیاست سے بے دخل کر دیا گیا تو کسی کو تو ’خدا‘ کے مقام پر بٹھا نا تھا، سو مغرب نے کئی طرح کے بت تراشے لیکن افسوس کہ مسلمانوں کے ماہر ین معیشت وسیاست کی اکثریت بھی انھی بتوں کے سامنے سجدہ ریز دکھائی دیتی ہے ۔

l اصلاحِ معاشرہ کے لیے جدوجہد:عذابِ الٰہی سے بچنے کا ناگزیر تقاضا یہ ہے کہ معاشرے میں اصلاح کی کوشش کرنے والے افراد، مؤثر طورپر موجود ہوں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَمَا كَانَ رَبُّكَ لِـيُہْلِكَ الْقُرٰي بِظُلْمٍ وَّاَہْلُہَا مُصْلِحُوْنَ۝۱۱۷  (ھود ۱۱:۱۱۷) تیرا رب ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کو ناحق تباہ کردے حالانکہ ان کے باشندے اصلاح کرنے والے ہوں۔

قوموں کا بگاڑ جب بگاڑ اور سرکشی چاہنے والوں کی وجہ سے بڑھتا ہے تو ان کے مقابلے میں خیروصلاح چاہنے والوں کا سرگرم ہونا بھی ضروری ہے:

فَلَوْلَا كَانَ مِنَ الْقُرُوْنِ مِنْ قَبْلِكُمْ اُولُوْا بَقِيَّۃٍ يَّنْہَوْنَ عَنِ الْفَسَادِ فِي الْاَرْضِ اِلَّا قَلِيْلًا (ھود ۱۱:۱۱۶)  پھر کیوں نہ ان قوموں میں جو تم سے پہلے گزر چکی ہیں، ایسے اہلِ خیر موجود رہے جو لوگوں کو زمین میں فساد برپا کرنے سے روکتے؟ ایسے لوگ نکلے بھی تو بہت کم۔

ان دونوں آیات کی تفسیر میں سیّد مودودی لکھتے ہیں:’’پچھلی انسانی تاریخ میں جتنی قومیں بھی تباہ ہوئی ہیں، ان سب کو جس چیز نے گرایا، وہ یہ تھی کہ جب اللہ تعالیٰ نے انھیں اپنی نعمتوں سے سرفراز کیا تو خوش حالی کے نشے میں مست ہوکر زمین میں فساد برپا کرنے لگیں اور ان کا اجتماعی ضمیر اس درجہ بگڑ گیا کہ یا تو ان کے اندر ایسے نیک لوگ باقی رہے ہی نہیں جو ان کو بُرائیوں سے روکتے، یا اگر کچھ لوگ ایسے نکلے بھی تو وہ اتنے کم تھے اور ان کی آواز اتنی کمزور تھی کہ ان کے روکنے سے فساد نہ رُک سکا۔یہی چیز ہے جس کی بدولت آخرکار یہ قومیں اللہ تعالیٰ کے غضب کی مستحق ہوئیں، ورنہ اللہ کو اپنے بندوں سے کوئی دشمنی نہیں ہے کہ وہ تو بھلے کام کر رہے ہوں اور اللہ ان کو خواہ مخواہ عذاب میں مبتلا کردے۔ اس ارشاد سے یہاں تین باتیں ذہن نشین کرنی مقصود ہیں:

’’ایک یہ کہ ہراجتماعی نظام میں ایسے نیک لوگوں کا موجود رہنا ضروری ہے جو خیر کی دعوت دینے والے اور شر سے روکنے والے ہوں۔ اس لیے کہ خیر ہی وہ چیز ہے جو اصل میں اللہ کو مطلوب ہے، اور لوگوں کے شرور کو اگر اللہ برداشت کرتا بھی ہے تو اس خیر کی خاطر کرتا ہے جو ان کے اندر موجود ہو، اور اُسی وقت تک کرتا ہے جب تک ان کے اندر خیر کا کچھ امکان باقی رہے۔ مگر جب کوئی انسانی گروہ اہلِ خیر سے خالی ہوجائے اور اس میں صرف شریر لوگ ہی باقی رہ جائیں، یااہلِ خیر موجود ہوں بھی توکوئی ان کی سن کر نہ دے اور پوری قوم کی قوم اخلاقی فساد کی راہ پر بڑھتی چلی جائے، تو پھر خدا کا عذاب اس کے سر پر اس طرح منڈلانے لگتا ہے جیسے پورے دنوں کی حاملہ کہ کچھ نہیں کہہ سکتے کب اس کا وضع حمل ہوجائے۔

’’دوسرے یہ کہ جو قوم اپنے درمیان سب کچھ برداشت کرتی ہو مگر صرف اُنھی چند گنے چُنے لوگوں کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہ ہو جو اُسے بُرائیوں سے روکتے اور بھلائیوں کی دعوت دیتے ہوں، تو سمجھ لو کہ اس کے بُرے دن قریب آگئے ہیں، کیونکہ اب وہ خود ہی اپنی جان کی دشمن ہوگئی ہے۔ اسے وہ سب چیزیں تو محبوب ہیں جو اس کی ہلاکت کی موجب ہیں اور صرف وہی ایک چیز گوارا نہیں ہے جو اس کی زندگی کی ضامن ہے۔

’’تیسرے یہ کہ ایک قوم کے مبتلاے عذاب ہونے یا نہ ہونے کا آخری فیصلہ جس چیز پر ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ اس میں دعوتِ خیر پرلبیک کہنےوالے عناصر کس حد تک موجود ہیں۔ اگر اس کے اندر ایسے افراد اتنی تعداد میں نکل آئیں جوفساد کو مٹانے اور نظامِ صالح کو قائم کرنے کے لیے کافی ہو تو اس پر عذابِ عام نہیں بھیجا جاتا بلکہ ان صالح عناصر کو اصلاحِ حال کا موقع دیا جاتا ہے۔ لیکن اگر پیہم سعی و جہد کے باوجود اس میں سے اتنے آدمی نہیں نکلتے جو اصلاح کے لیےکافی ہوسکیں، اور وہ قوم اپنی گود سے چند ہیرے پھینک دینے کے بعد اپنے طرزِعمل سے ثابت کردیتی ہے کہ اب اس کے پاس کوئلے ہی کوئلے باقی رہ گئے ہیں، تو پھر کچھ زیادہ دیر نہیں لگتی کہ وہ بھٹی سلگا دجاتی ہے جوان کوئلوں کو پھونک کر رکھ دے‘‘۔ (تفہیم القرآن، جلد۲،ص ۳۷۲-۳۷۳)

رجوع الی اللہ کی فکر کیجیے!

آزمایش کی اس گھڑی میں اسوئہ رسول ؐ کی روشنی میں رجوع الی اللہ وقت کا تقاضا ہے۔ ایک مسلمان کی حیثیت سے ہمارا فرض ہے کہ اللہ کی بندگی اختیار کریں۔ نافرمانی اور غفلت اور دورنگی اور منافقت کی روش کو ترک کر دیں۔اللہ کے رنگ میں اپنے آپ کو رنگ لیں اور اسلام میں پورے کے پورے داخل ہو جائیں۔ دوسری طرف حکومتِ وقت کا فرض ہے کہ وہ اسلامی نظامِ حکومت کو قائم کرے اور اللہ سے بغاوت کی روش کو ترک کردے۔ رجوع الی اللہ کے نتیجے میں ہی ہم اللہ کی رحمت کے حق دار ٹھیر سکیں گے اور اس وبا اور آزمایش سے بچ سکیں گے:

وَّاَنِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوْبُوْٓا اِلَيْہِ يُمَتِّعْكُمْ مَّتَاعًا حَسَـنًا اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى وَّيُؤْتِ كُلَّ ذِيْ فَضْلٍ فَضْلَہٗ۝۰ۭ (ھود ۱۱:۳) اور تم اپنے رب سے معافی چاہو اور اس کی طرف پلٹ آؤ تو وہ ایک مدتِ خاص تک تم کو اچھا سامانِ زندگی دے گا اور ہر صاحب ِ فضل کو اُس کا فضل عطا کرے گا۔

کورونا وائرس اور لاک ڈاؤن کے خوف کی وجہ سے بہت سے لوگوں نے ضرورت سے بہت زیادہ چیزیں بازار سے خرید کر رکھ لی ہیں۔اس کی وجہ سے بہت سے لوگ ضرورت کی چیزیں خریدنے سے محروم رہ گئے۔ کچھ کاروباری حضرات نے اپنی دکانوں پر اشیاء کی قیمتوں کو بڑھا دیا ہے۔ اس مصیبت کے وقت اس طرح کی حرکت کرنے والوں میں رحم کا کوئی مادہ نہیں ہے۔ اسلام اس رویے کی شدید مذمت کرتا ہے۔ مسلم تاجروں کو اس قبیح عمل سے بچنا چاہیے۔ یاد رہے ایمان دار تاجر کا اسلام میں بڑا مقام ہے۔ افسو س کہ ہمارے مسلم معاشرے میں اس بے ضابطگی کو ایک فطری عمل تصور کیا جارہا ہے اور اسے انجام دینے میں کوئی شرمندگی یا گناہ کا احساس نہیں پایا جارہا، بلکہ ایسا کام کرنے والے لوگوں کو اسمارٹ اور ذہین تصور کیا جاتا ہے۔

بعض اوقات یہ صاف نظر آتا ہے کہ کچھ نیم مسلمان حضرات صرف سور کے گوشت اورشراب ہی کو حرام سمجھتے ہیں،بقیہ ساری چیزیں ان کے لیے حلال ہیں۔ اور اس امید پر گناہ کرتے چلے جاتے ہیں کہ رمضان میں افطاری کرانے سے سارے گناہ معاف ہوجائیں گے۔ ایسا سوچنا بھی گناہ ہے۔ اس لیے کہ اس نیت سے گنا ہ کر نا کہ اللہ معاف کردےگا دوگنا گناہ ہے۔ اس سے ہر مسلمان کو بچنا چاہیے۔

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ذخیرہ اندوزی اور کثرت نفع خوری سے منع فرمایا ہے۔ اس کے متعلق بہت سی احادیث مبارکہ ہیں،جو احتکار اور نفع خوری سے منع کرتی ہیں:

عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنِ احْتَکَرَ عَلَی الْمُسْلِمِیْنَ  طَعَامَھُمْ ضَرَبَہُ اللہُ  بِالْجُذَامَ وَالْاِفْلَاسِ (سنن ابن ماجہ، باب التجارات باب الحكرۃ  والجلب:۲۱۵۵)

  حضرت عمر بن خطاب ؓسے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جوکوئی مسلمانوں کے درمیان ذخیرہ اندوزی کرے گا اللہ تعالیٰ اسے برص کی بیماری اور غربت میں مبتلا کردےگا۔

اس حدیث کو امام ابن حجر عسقلانی نے حسن قرار دیا ہے، یعنی اس حدیث سے احکامی مسئلہ اخذ کیا جاسکتا ہے۔اسی طرح سے ایک اور حدیث کاتذکرہ امام مسلم نے صحیح مسلم میں کیا ہے:  جو لوگ گرانی اور مہنگائی کی غرض سے غلہ اور دیگر اشیاء کو روکتے ہیں وہ گنہگار ہیں۔ اﷲ کی نظر میں ذخیرہ اندوزی کرنے والا بدترین شخص ہے۔

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ذخیراندوزی کرنے والے تاجر کی نفسیات کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

بِئْسَ الْعَبْدُ  اِنْ  سَمِعَ  بِرُخْصٍ  سَاءَہُ وَ  اِذَا  سَمِعَ  بِغَلَاء  فَرِحَ (مجمع الزوائد: ۱۰۴/۴)
بہت بُرا ہے وہ شخص جو خود ذخیرہ اندوزی کرتا ہے۔جب قیمت گرنے لگتی ہے تو بہت برا محسوس کرتا ہے اور جب قیمت بڑھتی ہے تو بہت خوش ہوتا ہے۔

حالانکہ ایک مسلم تاجر کا معاملہ ایسا ہونا چاہیے کہ جب نقصان ہونے لگے تو صبر کرے اور جب فائدہ ہونے لگے تو اللہ کا شکر ادا کرے۔ اسی طرح اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

الْجَالِبُ مرزوقٌ وَالمحتَكِرُ ملعونٌ (سنن ابن ماجہ: ۳۴۸/۱) بازار میں مال لانے والے کو رزق دیا جاتا ہےاور ذخیرہ اندوزی کرنے والے پر لعنت بھیجی جاتی ہے۔

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی ذخیرہ اندوزی اور کثرت نفع خوری کا چلن تھا۔ آپؐ اس کو روکنے کے لیے بازار بھی جاتے تھے اور متعدد مرتبہ بازار میںخردبرد اور دھوکادہی کے معاملے میں تاجروں کی گرفت بھی کرتے تھے۔

اسلام اشیا ء کی قیمت میں اُتارچڑھاؤ کے فطری عمل سے منع نہیں کرتاہے، لیکن جان بوجھ کر چیزوں کی قیمت بڑھانے پر سخت وعید سناتا ہے۔ ایک دفعہ ایک صحابیؓ نے آپؐ سے چیزوں کی قیمت متعین کرنے کے لیے کہا توآپؐ نے جواب میں فرمایا:

 اللہ ہی ہے جو قیمت کا تعین کرنے والا ہے ، وہی چیزوں کو سستا اور مہنگا کرتا ہے،وہی روزی دینے والا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملاقات کروں کہ کوئی شخص تم میں سے مجھ سے خون میں اور مال میں ظلم و ناانصافی کا مطالبہ کرنے والا نہ ہو۔(غایۃ المرام : ۳۲۳)

اسلام نے تاجروں کو ایک اہم مقام دیا ہے۔ یقینا کسی ملک کی ترقی میں اس کے تاجروں کا بھی اہم کردار ہوتا ہے۔ اسی مناسبت سے اسلام نے ایمان دار تاجروں کی پذیرائی کی ہے اور یہ بشارت دی ہے کہ ایمان دار اور امانت دار تاجر قیامت کے دن شہدا، صدیقین اور انبیاء کے ساتھ اٹھائے جائیں گے۔ یہ مسلم تاجروں کے لیے بہت بڑے شرف کی بات ہے۔ ایک حدیث میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

اَلتَّاجِرُ الصَّدُوْقُ الْاَمِیْنُ مَعَ النَّبِیّٖنَ  وَالصِّدیْقِیْنَ وَالشُہَدَآءِ (ترمذی) ایمان دار کاروباری لوگ قیامت کے دن نبیوں، صدیقین اور شہدا کے ساتھ اٹھائے جائیں گے۔

مسلم تاجر حضرات اس ذمہ داری سے آنکھ نہ چُرائیں، ورنہ اس کا انجام قیامت کے روز بڑا دردناک ہوگا۔قرآن مجید میں تقریباً ایک درجن سےز ائد آیات ہیں، جو تجارتی معاملات سے بحث کرتی ہیں۔ اس موقعے پر ان آیات کو پیش نظر رکھتے ہوئے لوگوں کو ترغیب دی جانی چاہیے۔

ایک مرتبہ جب جاپان میں سونامی آیا تو ساحل سمندر سے متصل ایک صوبے میں کافی لوگ متاثر ہوئے۔ اس علاقے میں ایک بڑھیا الیکٹرانک کی اشیاء کو بہت ہی کم قیمت پر فروخت کررہی تھی۔ایک خریدار نے پوچھا: آپ کیسے اتنے سستے دام پر اپنی چیزوں کی فروخت کررہی ہیں؟ بڑھیا نے جواب دیا: میں یہ سامان بازار سے ہول سیل قیمت پر خریدتی ہوں، جو سستا پڑتا ہے اور بغیر منافع کے ان اشیاء کو فروخت کرتی ہوں۔ اس کے اس جواب پر خریدار نے سوال کیا: ’’اس طرح کے کاروبار سے آپ کو کیا فائدہ؟آپ کو تو کوئی نفع نہیں ملے گا‘‘۔ بڑھیا نے جواب دیا کہ مَیں فائدے کے لیے یہ اشیاء نہیں فروخت کررہی ،بلکہ اس طرح سے اپنی قوم کے لوگوں کی مدد کرنا چاہتی ہوں۔

اگر مصیبت کے ان دنوں میں ہم اس بڑھیا کی طرح نہیں بن سکتے تو کم سے کم معقول قیمت پر چیزوں کو فروخت کریں۔ یقین مانیے بہت جلدی میں کمایا ہوا پیسہ بہت زیادہ دیر تک انسان کی جیب میں نہیں رہتا اور اس میں کوئی برکت نہیں ہوتی ہے۔ہم جن کے لیے ناجائز طور پر کماتے ہیں وہ ہمارے مرنے کے کچھ برسوں بعد ہمارا نام بھی صحیح طور پر یاد نہیں رکھ سکتے۔

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے مختلف مقامات پر ذکر کیا ہے کہ اس نے انسان کو آزمائے جانے کے لیے پیدا کیا۔چنانچہ سورۂ ملک میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:’’جس نےموت اور زندگی اس لیے پیدا کی تاکہ وہ تمھیں آزمائےکہ تم میں سے عمل میں زیادہ بہتر کون ہے‘‘(الملک ۶۷:۳)۔ اسی طرح سورۂ انعام آیت۱۶۵ ،سورۂ ہود آیت ۷،سورہ کہف آیت ۷، اور دیگر سورتوں میں بھی اس بات کودوہرایا گیا ہے۔ لیکن آگے بڑھنے سے پہلے ہم یہ سمجھ لیں کہ آزمایشوں کا مقصد کیا ہے؟

lآزمایشوں کی حقیقت:دنیا میں آگے بڑھنے کے لیے ہم بے شمار امتحان دیتےہیں، اس لیے کہ امتحانات دیے بغیر کبھی بھی ترقی نہیں ہوسکتی۔ کوئی بھی اسکول ایسے بچے کوقبول نہیں کرے گا جس کے والدین یہ شرط لگائیں کہ یہ بہت لاڈلا ہے، لہٰذا اس کا امتحان مت لیجیے گا۔ پس، ہر قابل قدر چیز کی طرح جنت کی بھی ایک قیمت ہے۔ آپؐ کا ارشاد ہے:’’بےشک اللہ کا سودا مہنگا سودا ہے۔ سن لو، بےشک اللہ کا سودا جنت ہے‘‘ (ترمذی) ۔ اگر اسکول والے امتحان نہ لیں تو ہم پریشان ہوجاتے ہیں، لیکن اگر اللہ کی طرف سے امتحان آجائے تو انسان کبھی سوچتا ہے کہ کیا میں ہی رہ گیا تھا؟ ہم اللہ سے آسان امتحان مانگتے ہیں، لیکن جنت کی قیمت چکانےکے لیے امتحان ہوگا ضرور۔

امتحان کے ذریعے ہی کھوٹے اور کھرے کا فرق پتا چلتا ہے۔ ایک صحابیؓ جن کو کافروں نے ظلم وتشدد کا نشانہ بنایا ہوا تھا۔ کافر چلّاکر پوچھتے کہ کہاں ہے تمھارا رب؟ وہ تمھیں کیوں نہیں بچاتا؟ وہ جواب دیتے تھے کہ جب تم مٹکا بھی خریدتے ہو تو اس کو بجا کر دیکھتے ہو کہ یہ مضبوط ہے یاکھوکھلا۔ میرا رب بھی مجھے آزمارہا ہے کہ میں جنت کے قابل ہوں یا نہیں؟

اس امتحان میں ممتحن اللہ تعالیٰ ہیں اور اسی نے امتحان کی کتاب (textbook) یعنی  قرآن کریم ہمارے لیے اتارا ہے۔ بلاشبہہ تلاوتِ قرآن پر بھی اجر ہے،لیکن قرآن دراصل عمل کی کتاب ہے:’’یہ کتاب ہم نے نازل کی ہے ایک برکت والی کتاب۔ پس تم اس کی پیروی کرو اور تقویٰ کی روش اختیار کرو، بعید نہیں کہ تم پر رحم کیا جائے‘‘(انعام۶:۱۵۵)۔ اگر اس کو سمجھ کر اس کو اپنے عمل میں ڈھالا جائے تو دنیا اور آخرت کے مراحل خیر اور آسانی سے طے ہو پائیں گے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے معلّم ہیں۔ آپؐ نے بھی فرمایا: ’’میں معلم بنا کر بھیجاگیا ہوں‘‘ (ابن ماجہ)۔ اسی لیے آپؐ قرآن کی زندہ مثال تھے (بخاری)۔ آپ علیہ الصلاۃ والسلام سے محبت کرنا تو ہمارے ایمان کاحصہ ہے، لیکن جب تک آپؐ سےسیکھ کر ان کے نقش قدم پر نہ چلاجائے تو امتحان کا پرچہ صحیح حل نہیں ہوپائے گا: ’’جو کچھ رسول ؐتمھیں دے وہ لے لو، اور جس چیز سے وہ تم کو روک دے اس سے رُک جاؤ‘‘۔ (الحشر۵۹:۷ )

امتحان کس چیز کا ہے؟ گھروں اور گاڑیوں کا؟ بہترین گریڈوں اور نمبروں کا؟ نہیں، بلکہ یہ دیکھنا ہے کہ کون بہترین عمل کرنے والا ہے؟ (الملک ۶۷:۲) ۔ نیک اعمال ہی آخرت کی کرنسی ہیں اور اسی کے لیے ہماری تگ و دو ہونی چاہیے: ’’پس تم نیک کاموں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو‘‘ (البقرہ۲:۱۴۸)۔

نتیجہ کب آئے گا؟ نتیجہ آخرت میں آئے گا:’’کامیاب دراصل وہ ہے جو آتشِ دوزخ سے بچ جائے اور جنّت میں داخل کردیا جائے‘‘ (اٰل عمرٰن۳:۱۸۵)۔ جیسے بئر معونہ کے واقعہ میں ایک شخص نے حضرت حرام بن ملحانؓ کو پیچھے سے نیزہ مار کرشہید کیا۔ جب انھوں نے اپنے سینے سے نیزے کی نوک نکلتی دیکھی تو پکار اٹھے: ’’رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہوگیا!‘‘ (بخاری)۔ قاتل یہ بات سن کر حیرت میں ڈوب گیا کہ میں نے اس کو قتل کیا اور اس نے کہا کہ میں کامیاب ہوگیا؟ پھر جب اس کو پتا چلا کہ اسلام میں کامیابی اور ناکامی کے تصورات نے آخرت کی وسعتوں کو سمیٹا ہوا ہے اور وہ محض اس دنیاے فانی تک محدود نہیں ہیں، تو اس نے رب العالمین کے آگے اپنا سر جھکالیا اور مشرف بہ اسلام ہوا۔

یہ دنیا کمرۂ امتحان ہے:’’جو کچھ سروسامان بھی زمین پر ہے، اِس کو ہم نے زمین کی زینت بنایا ہے تاکہ ان لوگوں کو آزمائیں کہ ان میں کون بہتر عمل کرنے والا ہے‘‘ (الکہف۱۸:۷)۔ امتحان کے ختم ہونے کےساتھ یہ سب بھی ختم ہوجائے گا: ’’آخرکار اس سب کوہم ایک چٹیل میدان بنادینے والے ہیں‘‘ (الکہف۱۸:۸)۔ اس دنیا میں جو کچھ ہے وہ ہمارے پرچے اور اسباب امتحان ہیں، بہن بھائی سے لے کر گاڑی اور گھرتک: ’’تمھارے مال اور تمھاری اولاد تو ایک آزمایش ہیں‘‘(التغابن۶۴:۱۵)۔ ان پرچوں کو ہم نےبحسن وخوبی ادا کرکے اپنا مقصد، یعنی رضاے الٰہی اور  جنت حاصل کرنا ہے نہ کہ انھی کو اپنا مقصدبنائیں۔

دنیا کے امتحانات میں ہر تھوڑی دیر بعد ایک نئی نسل(batch ) آتی ہے اور اس کا اَز سرِ نو امتحان لیا جاتاہے۔ اسی طرح جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو عرب میں ارتداد کی لہر دوڑ گئی اور ہرطرف سے مشکلات نے گھیر لیا۔ انسان سوچ سکتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا غم ہی اتنا بڑا تھا، اس کے باوجود اتنی زیادہ مشکلات کیوں؟ دراصل صحابہؓ تو مختلف آزمایشوں سے گزر کر اعلیٰ درجات حاصل کرچکے تھے۔ لیکن اب مسلمانوں کی ایک نئی کھیپ آگئ تھی اور ان کا امتحان بھی ضروری تھا (جب کہ، صحابہؓ مزید بلند درجات حاصل کرتے گئے)۔

پچھلے امتحانات (past papers ) سے بھی سیکھاجاتا ہے، اس لیے کہ سوال اور طرزِ سوال دُہرائے جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ابراہیمؑ اور نمرود، موسٰی اور فرعون کے قصے ہمیں اتنی مرتبہ اسی لیے سنائے ہیں کیونکہ ہم ہر دور میںان سے ملتے جلتے کرداروں کو پائیں گے۔

 واقعات دُہرانے کا یہی مقصد ہے کہ ہم ان کرداروں کی پہچان، ان کے انجام سے واقفیت، نیکوکاروں سےحوصلہ اور بدکاروں سے عبرت کے اسباق حاصل کریں۔

جن لوگ نے اس زندگی کو آزمایش جان کر گزارا ان کی بلندیاں ہی اور تھیں۔ اگر یہ ایک تصور درست ہوجائے تو سوچ اور عمل کی بہت ساری کجیاں دورہوجاتی ہیں۔ آج دنیا میں مسلمانوں کے جوحالات ہیں، اللہ چاہے تو ایک لمحے میں ان کو درست کرسکتا ہے۔ لیکن دراصل وہ ہمیں آزما رہا ہے اور دیکھ رہا ہے کہ حق اور باطل کی کش مکش میں ہم میں سے کون اپنا حصہ ادا کررہا ہے اور کون محض تماشائی بنابیٹھا ہے: ’’اگرچہ تمھارا خدا چاہتا تو تم سب کو ایک امت بھی بناسکتا تھا، لیکن (اس نے ایسا نہیں کیا) تاکہ جوکچھ اس نے تم لوگوں کو دیا ہے، اس میں وہ تمھاری آزمایش کرے‘‘۔ (المائدہ ۵:۴۸)

جب امتحانات گزر جائیں گے اور پورا انعام اور ثواب وصول ہوجائے گا تو انسان ان تمام سختیوں کو بھول جائے گا جو اس نے جھیلیں تھیں۔ صحیح مسلم  کی حدیث ہے کہ قیامت کے دن اہل جنت میں سے ایک شخص کو لایا جائے گا جس نے دنیا میں انتہائی تکلیف دہ زندگی گزاری تھی۔ اس کو جنت میں ایک بار ڈبکی دی جائے گی، پھر اللہ تعالیٰ اس سے پوچھیں گے: ’’اے ابن آدم، کیا تم نے کبھی کوئی تکلیف دیکھی؟ کیا تم کبھی کسی پریشانی سے گزرے؟‘‘ وہ جواب دے گا کہ نہیں اللہ کی قسم!میں نے کبھی کسی قسم کی تکلیف نہیں دیکھی۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو امتحانِ زندگی میں کامیاب کرے۔ آمین!

lمقصد زندگی: قرآن میں اللہ تعالیٰ ہم سے سوال کرتا ہے: ’’بھلا کیا تم یہ سمجھے بیٹھے تھے کہ ہم نے تمھیں یوں ہی بےمقصد پیدا کردیا، اور تمھیںواپس ہمارے پاس نہیں لایا جائے گا؟ تو اللہ جو سچا بادشاہ ہے، اس کی شان اس سے اونچی ہے (کہ وہ بےمقصد کچھ بنائے)، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہی عرشِ بزرگ کا مالک ہے‘‘۔ (المومنون۲۳:۱۱۵)

ایسی زندگی جس کا کوئی مقصد نہ ہو یوں ہی ہے جیسے ایک جسم ہو جس میں روح نہ ہو، یا  ایک قافلہ ہو جس کی کوئی منزل نہ ہو۔ لیکن اللہ نے تو ہمیں بھٹکنے کے لیے پیدا نہیں کیا۔ ہماری زندگیاں ایک خوب صورت معنی خیز مقصد کی حامل ہیں جوجب ایک مرتبہ واضح ہوجائے تو بہت ساری الجھنیں دور ہوجاتی ہیں۔

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں بارہا ذکر کرتا ہے کہ اس کی کوئی بھی مخلوق بے مقصد پیدا نہیں کی گئی: ’’ہم نے اس آسمان اور زمین کو اور جو کچھ ان میں ہے کچھ کھیل کے طور پر نہیں بنایا ہے۔   اگر ہم کوئی کھلونا بنانا چاہتے اور بس یہی کچھ ہمیں کرنا ہوتا تو اپنے ہی پاس سے کرلیتے‘‘(الانبیاء ۲۱: ۱۶-۱۷)۔ یہی مضمون سورة حجر ۱۵: ۸۵-۸۶، سورة یونس ۱۰:۵ اور سورة دخان۴۴: ۳۸-۳۹ میں بھی بیان ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ تو ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ ہمارے ارد گرد جوکچھ ہے، سب ایک نہایت گہرا اور پاکیزہ مقصد رکھتےہیں:’’ہم نے زمین اور آسمانوں کو اور ان ساری چیزوں کو جو ان کے درمیان ہیں برحق، اور ایک مدتِ خاص کے تعین کے ساتھ پیدا کیا ہے‘‘ (الاحقاف ۴۶:۳)۔

پس، وہ مقصد کیا ہے اور انسانی زندگی پر کیسے اثرات چھوڑتا ہے؟

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ: ’’اُس نے موت اور زندگی کو ایجاد کیا تاکہ تم لوگوں کو آزما کر دیکھے تم میں سے کون بہتر عمل کرنے والا ہے‘‘ (الملک۶۷:۲)۔ہم اس دنیا میں اس لیے آئے ہیں تاکہ ہم آزمائے جائیں۔ کیوں؟ اس لیےکہ اس دنیا میں آنے سے پہلے ہم نے اللہ تعالیٰ سے عہدکیا تھا کہ وہی ہمارا رب ہے۔ لہٰذا اللہ ہمیں آزما کر دیکھتے ہیں کہ ہم کس حد تک اپنے رب کے وفادار ہیں؟ پھر ہماری وفاداری کے بدلے میں بطور انعام ہمیں جنت ملےگی۔ یہ دراصل ایک سودا ہے: دنیا کی فانی زندگی اللہ کی مرضی کے مطابق، پھر آخرت کی ہمیشگی کی زندگی ہماری مرضی کے مطابق۔

اب امتحان میں کامیابی کی کیا صورت ہے؟

انفرادی سطح پر کامیابی ا للہ کی عبادت سے حاصل ہوگی۔ اللہ کاارشاد ہے:’’میں نے جنوں اور انسانوں کو اس کے سوا کسی کام کے لیے پیدا نہیں کیا کہ وہ میری عبادت کریں‘‘ (الذاریات ۵۱:۵۶)۔مگر اللہ کی عبادت کس چیز کو کہتے ہیں؟

حقیقت یہ ہے کہ مسلمان کا ہر کام عبادت ہے،بشرطیکہ وہ اللہ کی خوشنودی کے لیے ہو اور اس کےپسندیدہ طریقے کے مطابق ہو۔ بلاشبہہ جو روحانی عبادات اللہ نے ہم پر فرض کی ہیں وہ نہایت اہم پیغامات اور یاد دہانیوں کی حامل ہیں اور ان کی ادائیگی ہم پر لازم ہے۔ البتہ اس کے علاوہ اگر ایک مسلمان دیانت داری کے ساتھ اللہ کے احکام پر چلتےہوئے اپنا کاروبار کررہا ہو، اور اس کی نیت یہ ہو کہ وہ اپنے لیے اور اپنے گھر والوں کے لیے رزق حلال کمارہاہے، تو اس کا کمانا عبادت ہے۔ اگر وہ پڑھائی کررہا ہواس نیت سے کہ آگے جاکر وہ اس کے اور دوسروں کے کام آئے اور اس سلسلے میں وہ ا للہ کے احکام کی خلاف ورزی سے بھی بچا رہے، تو وہ اللہ کی عبادت کررہا ہے۔ اگر وہ اپنے گھر میں ہو اور اپنےگھروالوں کے حقوق کی ادایگی کررہا ہو، تو وہ اللہ کی عبادت کررہا ہے۔ اگر وہ میدان جنگ میں ہو اوراپنے دین اور بھائی بہنوں کی حفاظت کے لیے لڑ رہا ہو  تو وہ ا للہ کی عبادت میں ہے۔

البتہ چونکہ ہم پر پہلا اور آخری حق اللہ کا ہے ،لہٰذا اگر ہمیں کبھی ایسی صورتِ حال پیش آئے جس میںایک طرف اللہ کی خوش نودی ہو اور دوسری طرف اس کی ناراضی، تو ہم ہمیشہ اللہ کی خوش نودی پرہی چلیں گے۔

دوسری طرف اجتماعی سطح پر ہمارے بارے میں یہ فرمایا گیا: ’’اب دُنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو،   بدی سے روکتے ہو اور اللہ پرایمان رکھتے ہو‘‘ ( اٰل عمرٰن۳:۱۱۰)۔

بحیثیت امت ہمارافرض ہے کہ ہم حق کو قائم کریں اور باطل کو مٹائیں۔اس کے لیے ہم سب سے پہلے اپنی ذات سے شروع کرتے ہیں، پھر اپنے گھر کی طرف بڑھتے ہیں اوراس کے بعد جہاں تک ہمارا دائرہ اثر جاسکے۔ ایک مسلمان کی زندگی دنیائے فانی کی اشیاء کےساتھ بندھی نہیں ہوتی ہے، بلکہ وہ اپنے رب کی محبت میں اور جنت پانے کے لیے جیتا ہے۔ پھر جب اس دنیا میں اپنی مدت پوری کرکے وہ آخرت کی طرف منتقل ہوجائے گا تو وہ جنت میں بیٹھ کر اپنی پچھلی زندگی کو اس کے تمام راحت اور غم سمیت یاد کرکے کہے گا: "ہم پہلے جب اپنے گھر والوں (یعنی دنیا) میں تھے تو ڈرے سہمے رہتے تھے۔ آخر اللہ نے ہم پر بڑا احسان فرمایا اور ہمیں جھلسانے والی ہوا کے عذاب سے بچالیا۔ ہم اس سے پہلے اس سے دعائیں مانگا کرتے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہی ہے جو بڑامحسن، بڑا مہربان ہے‘‘۔ (الطور۵۲:۲۶-۲۸)

lقرآن کا تصورِ خدا :جب انسان کو اللہ تعالیٰ کا درست تصور حاصل ہوجائے اس کو بےحد سکون اور اطمینان ملتا ہے۔ ایسامحسوس ہوتا ہے جیسے کوئی کھویا ہوا جگری دوست دوبارہ مل گیا ہو۔ مختلف مذاہب کے الگ تصورِ خدارہے ہیں جو فرق رکھنے کے باوجود کچھ باتوں میں مماثلت بھی رکھتے ہیں۔ آیئے دیکھتے ہیں کہ قرآن نے خدا کے بارے میں کس طرح کا تصور پیش کیا ہے؟

قرآن ہمارا تعارف اللہ تعالیٰ سے کرواتا ہے، ایک ایسی ذات جو اپنی ہر مخلوق سے گہری دل چسپی رکھتی ہے۔ وہ محض ہمارا خالق نہیں ہے، بلکہ وہ ہمیں پرورش اور ہدایت دینے والا بھی ہے: ’’جس نے سب کچھ بنایااور ٹھیک ٹھیک بنایا۔ اور جس نے ہر چیز کو ایک خاص انداز دیا پھر راستہ بتایا‘‘ (الاعلٰی ۸۷:۲-۳)۔ جب اس نے اپنی مخلوق کو اس دنیا میں بھیجا تو انھیں مختلف صلاحیتوں اور قابلیتوں سے نواز کر بھیجا۔البتہ اس کے ساتھ ان کو تسلی بھی دی کہ وہ انھیںکبھی بے یار و مددگار بھٹکنے کے لیے نہیں چھوڑے گابلکہ وہ ان کی رہنمائی کے لیے اپنے پیغمبروں اورکتابوں کو بھیجتا رہے گا تاکہ وہ انھیں سکھائیں کہ جو قوتیں اور صلاحیتیں ان کے پاس ہیں انھیں کس طرح استعمال کیا جائے: ’’پھر جو میری طرف سے کوئی ہدایت تمھارے پاس پہنچے، تو جو لوگ میری اُس ہدایت کی پیروی کریں گے، اُن کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہ ہوگا‘‘(البقرہ۲:۳۸)۔ وہ چاہتا ہے کہ ہم دنیا اور آخرت میں سکون اور سلامتی کے ساتھ رہیں:’’اوراللہ انھیں سلامتی کے گھر کی طرف بلاتا ہے‘‘ (یونس۱۰: ۲۵)۔

چاہے ہمارے انفرادی درجے کے معاملات ہوں یااجتماعی، اللہ تعالیٰ سب میں دل چسپی رکھتے ہیں اورپوری محبت کے ساتھ اپنے بندوں کی رہنمائی کرتےہیں۔ پس قرآن میں ہم اللہ تعالیٰ کو تمام شعبہ ہائے زندگی سے متعلق مسائل کو حل کرتے دیکھتے ہیںجیسے حکومت، عدالت، صلح اور جنگ، میراث(النساء۴:۱۱-۱۲)، رضاعی رشتے، محفل کے آداب(المجادلہ ۵۸: ۸-۱۱)، معاشی معاملات کے اصول، اورشوہر اور بیوی کی آپس کی محبت کو قائم رکھنے کےطریقے: ’’اور ان کے ساتھ بھلے طریقے سے زندگی بسر کرو۔ اگروہ تمھیں ناپسند ہوں تو ہوسکتا ہے کہ ایک چیز تمھیں پسند نہ ہو مگر اللہ نے اُسی میں بہت کچھ بھلائی رکھ دی ہو‘‘ (النساء۴:۱۹)۔قرآن پڑھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے گویا کوئی بےلوث دوست، کوئی شفیق استاد یا ایک مشفق والدہم سے مخاطب ہے۔

قرآن میں ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو متحد رہنے پر ابھارتا ہے اور تفرقہ میں پڑنے سے منع کرتا ہے (اٰل عمرٰن۳: ۱۰۳)۔ اس کو یہ فکر رہتی ہے کہ کہیں اس کے بندوں میں ظلم اورفحاشی نہ پھیل جائے ۔ وہ ہمارے ازلی دشمن شیطان سے ہمیں متنبہ کرتا ہے اور اس سے، اس کے ساتھیوںسے اور ان کی چالوں سے بچنے کی تاکید کرتا ہے۔اللہ ہم سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کے واقعات بھی ہمیںسناتا ہے تاکہ ہمارے دل مضبوط ہوں اور ہماری ہمت افزائی ہو: ’’اور اے نبیؐ! یہ پیغمبروں کے قصّے جو ہم تمھیں سناتے ہیں، یہ وہ چیزیں ہیں جن کے ذریعے سے ہم تمھارے دل کو مضبوط کرتے ہیں‘‘ (ھود: ۱۱:۱۲۰) ۔ بعض اوقات وہ پیار بھرے انداز میں ٹوکتا اورسرزنش بھی کرتا ہے: ’’جس وقت تم لوگوں نے اسے سنا تھا اُسی وقت کیوں نہ مومن مردوں اور مومن عورتوں نے اپنے آپ سے نیک گمان کیا اور کیوں نہ کہہ دیا کہ یہ صریح بہتان ہے؟‘‘ (النور۲۴:۱۲)۔وہ ہماری کوتاہیوں کا تجزیہ کرتا ہےاور جہاں ضرورت ہو ہماری اصلاح کرتا ہے (اٰل عمرٰن۳:۱۵۲)۔

قرآن کریم ایسے ربِّ جلیل سے ہمارا تعارف کرواتا ہے جو ہر چیزپر قدرت رکھتا ہے اور جس کے لیے کچھ ناممکن نہیں۔ زمین اور آسمان کے خزانے اس کے ہاتھ میں ہیں۔ مگرسب سے زیادہ طاقت ور ہونے کے ساتھ وہ سب سے زیادہ حکمت اور دانائی والا بھی ہے:’’اللہ زبردست اور حکیم ہے‘‘ (النساء۴:۱۵۸)۔ ہم دنیا میں اپنے اردگرد مستقل تبدیلیاں ہوتے دیکھتے ہیں، جس کی وجہ سے ہمیں کبھی خوف اور پریشانی بھی لاحق ہوجاتی ہے۔ لیکن قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ اول تو ہر چیز اس کی اجازت سے ہی ہوتی ہے، اور دوم یہ کہ حالات کبھی ایک جیسے نہیں رہتے ہیں:’’یہ تو زمانے کے نشیب و فراز ہیں جنھیں ہم لوگوں کے درمیان گردش دیتےرہتے ہیں‘‘ (اٰل عمرٰن۳:۱۴۰ )۔ پس اللہ جس کو چاہتا ہے عزت اورطاقت دیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے چھین لیتا ہے۔ وہ اندھیروں میں سے روشنی اور روشنی میں سے اندھیرا نکالتا ہے۔ وہ زندوں کو موت اور مردوں کوزندگی بخشتا ہے۔ مگر اس کا کوئی بھی فعل چاہے جس بھی پیمانے پر ہو بے مقصد نہیں ہوتا ہے، بلکہ ’’تیرے ہی لیے سراسر خیر ہی خیر ہوتا ہے، اس لیے کہ: ’’بھلائی تیرےاختیار میں ہے۔ بے شک تُو ہرچیز پر قادر ہے‘‘(آل عمرٰن۳:۲۶)۔

قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ اللہ اپنی محبت اور حکمت میںاپنی بعض مخلوق کو دیگر مخلوقات کے فائدہ اورحفاظت کے لیے متعین کرتا ہے۔ اس کی باریک اوربےعیب تدبیروں کی ایک جھلک ہمیں حضرت موسیٰ اور خضرعلیہم السلام کے واقعے میں ملتی ہے۔ غریب ملاح اپنی کشتی میں سوراخ دیکھ کر حیران و پریشان رہ گئے ہوں گے۔ والدین اپنے بیٹے کی موت پر غم سے نڈھال ہوگئے ہوں گے۔ یتیم بچوں کی سمجھ میں نہیں آرہا ہوگا کہ یہ پردیسی دیوار کیوں تعمیر کررہے ہیں؟ مگر درحقیقت  اللہ ملاحوں کے وسیلۂ روزگار کو چھن جانے سے بچا رہے تھے، والدین کو بڑھاپے میں ذلت اٹھانے سے محفوظ رکھ رہے تھے، اور یتیم بچوں کے لیے باپ کی میراث کی حفاظت کا انتظام کررہے تھے۔ جب انسان کا ایسے پیارے رب پر ایمان ہو تو وہ کیوں نہ پکار اٹھے:’’کیا وجہ ہے کہ ہم اللہ پر بھروسا نہ رکھیں،جب کہ اس نے ہمیں ہماری راہیں سمجھائی ہیں!‘‘ (ابراہیم۱۴:۱۲)

قرآن میں اللہ اپنے بندوں کو ترغیب دلاتا ہے کہ وہ ہمیشہ حق کے لیے کھڑے ہوں اور باطل کا کبھی ساتھ نہ دیں۔ پھر جب اس کے بندے واقعی حق اور باطل کی کش مکش میں اترتے ہیں تو وہ محض تماشائی نہیں بنا رہتا ہے بلکہ وہ اپنے بندوں کو حوصلہ دلاتا ہے کہ وہ ان کے ساتھ ہے: ’’ڈرو نہیں، میں تمھارے ساتھ ہوں، سن بھی رہا ہوں، دیکھ بھی رہا ہوں‘‘ (طٰہٰ ۲۰: ۴۶)۔

وہ ان کو تسلی دیتا ہے: ’’اگر تمھیں ایک زخم لگا ہے، تو ان لوگوں کو بھی اسی جیسا زخم پہلے لگ چکاہے‘‘ (اٰل عمرٰن ۳: ۱۴۰)۔ وہ ان کی ہمت کو بڑھاتا ہے:’’دل شکستہ نہ ہو، غم نہ کرو، تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو‘‘ (اٰل عمرٰن ۳: ۱۳۹)،بلکہ بعض اوقات حق کوباطل سے ممیز کرنے کے لیے وہ دونوں کو آپس میں ٹکراتا ہے۔ پھر جیسے ہی باطل کا کمزور ڈھانچا زمین بوس ہوجاتا ہے،  حق ہر ایک کے لیے واضح ہوکر سامنے آجاتا ہے:’’ سو جھاگ تو سوکھ کر زائل ہوجاتا ہے، اورجو لوگوں کو فائدہ پہنچاتا ہے وہ زمین میں ٹھیرا رہتاہے۔ اسی طرح اللہ مثالیں بیان فرماتا ہے‘‘ (الرعد۱۳:۱۷)۔ قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ باوجود اس کے کہ اللہ بے نیازہے اور اس کو کسی کی ضرورت نہیں ہے، وہ اپنی مخلوق کی کوششوں کی بےحد قدر کرتا ہے:’’اللہ بڑا قدردان ہے، اور سب کے حالات کا پوری طرح علم رکھنے والا ہے‘‘(النساء۴:۱۴۷)۔ وہ کسی کی ادنیٰ سی نیکی کرنے کوشش کو بھی ضائع ہونے نہیں دیتا:’’اللہ نیکی کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتا‘‘ (ھود۱۱:۱۱۵)۔ وہ ہر ایک کو انصاف دلاتا ہے، پس اسی لیے اس نے آخرت کی زندگی بھی رکھی کیونکہ اس محدود دنیا میں اکثرانسان عادلانہ جزا اور سزا سے محروم رہ جاتا ہے: ’’روز جزا کا مالک‘‘(الفاتحہ ۱: ۴)۔

قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ اللہ کی ذات سب سے عظیم ہے،مگر اس کی کوئی بھی مخلوق، چاہے کتنی ہی چھوٹی اور غیر معروف ہو، کبھی اس کی نظر سےاوجھل نہیں رہتی ہے۔ وہ ہمیشہ ہر ایک کی بات کو سننے کے لیے موجود ہوتا ہے: ’’بے شک میرا رب قریب ہے اور وہ دُعاؤں کا جواب دینے والا ہے‘‘ (ھود۱۱: ۶۱)۔ ’’بے شک میرا رب دعاؤں کا سننے والا ہے‘‘ (ابراھیم۱۴:۳۹ )۔یہ خدشہ کبھی نہیں ہوتا کہ کہیں وہ تھک کر غفلت میں پڑجائے۔ اس لیے کہ: ’’اس کو نہ اُونگھ آتی ہے نہ نیند‘‘ (البقرہ ۲:۲۵۵)۔

یہ ہے وہ تصورِ خدا جو انسان کو اپنے رب کی محبت اور اس پر مان اور فخر دلاتا ہے۔ ایسا تصورِ خدامسلمان کو وہ ہمت اور عزم دیتا ہے کہ وہ اپنے رب کےلیے سینہ تان کر کھڑا ہو، اس کی خاطر قربانیاں دے اور پورے اعتماد کے ساتھ کہے: ’’اور ہم اللہ پر اور جو حق ہمارے پاس آگیا ہے اس پر آخر کیوں نہ ایمان لائیں؟ اور ہم امید رکھتے ہیں کہ ہمارا رب ہمیں نیک لوگوں کے ساتھ جنت میں داخل کردے گا‘‘ (المائدہ۵:۸۴) ۔

اللہ کو جاننا، اس کو چاہنا اور اس سے قریب ہونے سےہی دل پُرسکون اور مضبوط ہوتے ہیں۔ ابن القیم رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’بے شک دل میں ایک ویرانی ہے جوصرف اللہ کی معیت سے آباد ہوتی ہے۔ اور اس میںایک غم ہے جو صرف اس کو جاننے کی خوشی سےدور ہوتا ہے۔ اور اس میں ایک بےچینی ہے جو صرف اس کی طرف لپکنے سے قرار پاسکتی ہے۔ اور اس میںحسرتوں کی ایک آگ ہے جو صرف اس کے فیصلوںاور احکامات پر راضی ہونے اور صبر کرنے سے بجھ سکتی ہے۔ اور اس میں ایک خلا ہے جو صرف اس کی محبت، اس کی یاد اور اس کے ساتھ مخلص ہونے سے پُر ہوتی ہے۔ اور اگر انسان کو (اس کے بجائے) پوری دنیا بھی مل جائے تو وہ خلا کبھی پر نہیں ہوگا ۔

۲۲جولائی ۲۰۱۵ء کا دن اس اعتبار سے تاریخی اہمیت کا حامل ہے جب برمنگھم یونی ورسٹی کا یہ اعلان دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ کی زینت بنا کہ وہاں پر موجود دو ورقی پارچہ (parchment) قرآنِ عظیم کے قدیم ترین نسخوں میں سے ایک ہے۔ بتایا گیا کہ جس جانور کی کھال پر یہ مخطوطہ لکھا گیا وہ جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ میں زندہ رہا ہوگا [1]۔ برمنگھم یونی ورسٹی میں اسلامی اور مسیحی علوم کے پروفیسر ایمریطس ڈیوڈ تھامس (David Thomas) کے خیال میں تو ان آیات کے کاتب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ پایا ہوگا ۔قرآنِ پاک کے اس قدیم نسخہ کی دریافت کی خبر بڑی تیزی سے پھیلی جس نے مسلم دنیا میں خوشی کی لہر دوڑا دی [2]۔ اس کے ساتھ ہی دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ ___ —پرنٹ اور الیکٹرانک ___ —میں تجزیوں، تبصروں اور انٹرویوز کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا جس میں نمایاں علمی شخصیات نے بھی حصہ لیا۔

اس دریافت کی روحِ رواں برمنگھم یونی ورسٹی کی پی ایچ ڈی کی تحقیق کار البا فیڈیلی (Alba Fedeli) ہیں، جو بہت مسرت سے کہتی ہیں کہ اس قسم کے واقعات کامیڈیا تک پہنچنا میرے لیے ایک انوکھا تجربہ تھا [3]۔

یہ نسخہ یونی ورسٹی آف برمنگھم کی کیڈبری ریسرچ لائبریری (Cadbury Research Library) میں گوشۂ مِنگانا برائے نُسَخِ شرقِ اوسط (Mingana Collection of Middle Eastern Manuscripts)میں ۱۹۳۶ء سے موجودتھا۔1 یہ ایک مصحف کا حصہ ہے، جس کا ۱۶؍اوراق پر مشتمل دوسرا جز پیرس میں فرانس کی قومی لائبریری (Bibliotheque  nationale de France—BnF) میں ۱۸۳۳ء سے محفوظ ہے[4]۔ اسی وجہ سے قرآنِ مجید کے اس قدیم ترین مصحف کے طویل نام میں پیرس اور برمنگھم شہروں کا ذکر ہے یعنی: ’’پیریسینو برمنگھم یانسس‘‘۔   علمِ تحاریرِ قدیمہ (Paleography)، علمِ تاریخِ فن (art history)، علمِ مصاحف (Codicology) اور علمِ تاریخِ لسانیات (Philology) کے ماہرین ان اوراق سے واقف رہے ہیں۔ لیکن صحیح معنوں میں اس مصحف کو بڑے پیمانے پر شہرت ۲۲ جولائی ۲۰۱۵ء کے بعد سے ملنا شروع ہوئی ۔ اس مصحف کومختصراً MS PaB کہتے ہیں ۔

جامع عمروؓبن العاص

قاہرہ کے جنوب میں واقع فسطاط (Fustat) کی جامع عمروؓبن العاص، ۲۱ھ / ۶۴۲ء میں فاتح مصر حضرت عمرو ؓبن العاص [م:۶ جنوری ۶۶۴ء] نے تعمیر کرائی تھی۔ اس مسجد میں قدیم قرآنی مصاحف کا ذخیرہ صدیوں سے موجود تھا جس کی کچھ تفصیل اسلامی روایات کے لٹریچر میں ملتی ہے۔ جرمن سیاح اور محقق اُولرِخ یاسپر زیٹسن (Ulrich Jasper Seetzen :م۱۸۱۱ء)نے جنوری ۱۸۰۹ء میں اس مسجد کی زیارت کی تھی۔ اس کو شمالی جانب ایک چھوٹا کمرہ دیکھنے کا اتفاق ہوا جہاں کثیر تعداد میں قدیم و نادرقرآنی نُسَخ تہ بر تہ رکھے ہوئے تھے۔ اس نے منتظمین سے ان نوادرات کو خریدنے کی خواہش ظاہر کی، جس پر اس کو بتایا گیا کہ یہ اشیاء وقف للہ تعالیٰ ہیں اور ان کی خرید و فروخت جائز نہیں۔ اس پر زیٹسن نے اس وقت کے فرانس اور اٹلی کے مصر میں مشترکہ قنصل ژاں لوئی اسیلاں دوشیرفيل (Jean-Louis Asselin de Cherville، م:۱۸۲۲ء )کو اس علمی خزانے کی اطلاع دی ا ور اس کے حصول کی طرف توجہ دلائی۔ دو شرفيل خود بھی ایک مستشرق تھا۔ اس نے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرکے ۱۸۰۶ء سے ۱۸۱۶ء کے دوران جامع عمروؓ سے کثیر تعداد میں نُسَخِ قدیمہ حاصل کرلیے اور ان کو اپنے ساتھ پیرس لے گیا۔ اس کے کچھ عرصے بعد وہ فوت ہوگیا،چنانچہ اس کو خود تو ان کے مطالعہ کا موقع نہیں ملا ہوگا،البتہ۱۸۳۳ء میں جب یہ اوراق فرانس کی قومی لائبریری (Bibliotheque nationale de France—BnF) نے خرید لیے [4] تب سے یہ قیمتی دستاویزات بہت سی تحقیقات کا موضوع رہی ہیں۔

 جامع عمروؓ سے حاصل ہونے والے نوادرات میں اور بھی کئی ایسے اہم قرآنی نُسَخ ہیں جن کے بارے میں جاننا ضروری ہے۔ ان شاء اللہ آئندہ مضامین میں اس سلسلے میں ہم مزید کچھ عرض کریں گے۔ زیرِ نظر مضمون میں ہمارا موضوع مصحف MS PaB ہے، جس کے پیرس والے اوراق کو BnF Arabe 328c (مختصراً BnF328c) اور برمنگھم میں پائے جانے والے دو ورقی نسخہ کو Mingana Islamic Arabic 1572a  (مختصراً Min1572a ) کے نام سے جانا جاتا ہے [5]۔

یہ جان لینا شاید فائدہ سے خالی نہ ہو کہ فسطاط کے خزائن، نو آبادیاتی نظام کے طفیل نہ صرف پیرس اور برمنگھم بلکہ برلن، کیمبرج، شکاگو، ڈبلن، گوتھا، کوپن ہیگن، لیڈن، اورسینٹ پیٹرز برگ تک پھیلے ہوئے ہیں [6] ۔ اس لیے عین ممکن ہے کہ مصحف MS PaB کے مزید اوراق دوسرے مراکزِ علم میں موجود ہوں اور جو کسی وقت منظرِ عام پر آسکتے ہیں۔     

 نسخۂ برمنگھم (Min1572a)

۱۹۳۶ء سے مذکورہ دو ورقی نسخہ برمنگھم یونی ورسٹی کی کیڈبری لائبریری کے گوشۂ مِنگانا میں موجود ہے ۔ یہ فولیو نمبر f.1  اور f.7 تھے۔سات (7) دوسرے اوراق ___—جن کو Min1572b کہا جاتا ہے___کے ساتھ یہ مجلد تھے اور پورے مجموعہ کو MS Mingana 1572 کا نام دیا گیا تھا۔ اس مجلد کے ساتھ  ہاتھ سے لکھے ایک نوٹ پر اس کا زمانہ آٹھویں صدی شمسی لکھا ہوا تھا ۔

 ۲۰۱۱ء میں اطالوی سکالر البا فیڈیلی (Alba Fedeli) نے پی ایچ ڈی تحقیق کے لیے خاص طور پر برمنگھم یونی ورسٹی کا انتخاب کیا کہ وہاں پر قرآنی مخطوطات کا ایک بڑا ذخیرہ تھا اور  ساتھ میں قدیم متون پر کام کرنے کے لیے انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکسچول سکالرشپ اینڈ الیکٹرانک ایڈیٹنگ (Institute of Textual Scholarship and Electronic Editing)کی شکل میں ضروری تحقیقی اورتکنیکی مہارت بھی میسر تھیں۔ فیڈیلی مشہور مستشرق سرجو نو یا نوزادہ (Sergio Noja Noseda ) کی شاگرد رہی تھیں اور ان کے ساتھ نُسَخِ قدیمہ پر دس سال تک تحقیق کا تجربہ رکھتی تھیں۔

البافیڈیلی نے جب برمنگھم میں ان دو اوراق کا تفصیلی مطالعہ کیا تو معلوم ہوا کہ یہ مخطوطہ  خط حجازی2  میں لکھا گیا ہے، جو بہت قدیم نُسَخ ہی میں دیکھا گیا ہے ۔ اور یہ کہ اس میں ہم شکل حروفِ صحیحہ (consonants) جیسے '’ب‘، ’ت‘، ’ث‘ ' کو ممیز کرنے والےنقاط (diacritics) بہت  کم پائے جاتے ہیں،جب کہ حَرکات یا اعراب (vocalization) تو سرے سے موجود ہی نہیں۔ اسی سے اندازہ لگایاکہ یہ پارچے ساتویں صدی شمسی کے نصف اول میں لکھے گئے ہوں گے۔ فیڈیلی نے ان اوراق کی عمر معلوم کرنے کے لیے ریڈیو کاربن طریقہ استعمال کرنا چاہا لیکن وسائل آڑے آگئے۔ پھر انھی دنوں برلن اور پیرس کی اکادیمیوں نے بھی ان مخطوطات کی تاریخ جاننے میں دل چسپی کا اظہار کیا کہ یہ ادارے مشہور پراجیکٹ ’قرآنیکا‘ (Coranica) 3 کے تحت قدیم قرآنی نُسَخ پر تحقیق کررہے تھے ۔ چنانچہ کیڈبری لائبریری نے اوکسفرڈ یونی ورسٹی کی آثارِ قدیمہ اور تاریخِ فن کی ریسرچ لیبارٹری (Archeology and Art History Research Laboratory) میں واقع ’ریڈیو کاربن ایکسیلیریٹر یونٹ‘ (Radiocarbon Accelerator Research Unit) کی خدمات حاصل کیں، تاکہ اس پارچے کی تاریخ کا تخمینہ لگایا جائے۔

 ۲۲جولائی ۲۰۱۵ء کو برمنگھم یونی ورسٹی نے اعلان جاری کیا کہ دو اوراق پر مشتمل چرمی نسخہ  ۹۵ء۴ فی صد امکانیت (Probability)کے ساتھ ۵۶۸ء سے ۶۴۵ء کے درمیانی عرصے میں لکھا گیا تھا ۔4  یونی ورسٹی کے محققین کے نزدیک یہ نسخہ جنا بِ محمدؐ زندگی کے بہت قریب زمانے میں  لکھا ہوا معلوم ہوتا ہے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا زمانہ ۵۷۰ء تا ۶۳۲ء معروف ہے ۔ پروفیسر ڈیوڈ تھامس کے خیال میں ’برمنگھم مخطوطے‘ کی انشاء ۶۵۰ء سے ۶۵۶ء کے درمیان ہونا عین ممکن ہے، گویا تیسرے خلیفہ عثمانؓ کا زمانہ ۔ متحدہ عرب امارات کی محمدبن راشد المکتوم نالج فاؤنڈیشن کے سربراہ جمال بن حویریب کے خیال میں یہ پہلے خلیفہ ابوبکر صدیقؓ کا جمع کردہ قرآن ہے [8]۔

دُنبہ یا بکرے کی کھال سے بنے پارچہ پر لکھا گیا یہ مخطوطہ دو جڑے ہوئے اوراق (Bifolio) پر مشتمل ہے یعنی چار صفحات۔ اس کی پیمایش تقریباً۳۳ء۳ س مx   ۲۴ء۴ س م ہے، اور ۲۳ سے ۲۵ سطور فی صفحہ ہیں۔ پارچہ پر روشنائی سے ’خطِ حجازی‘ میں سورہ الکہف کی آیات ۱۷-۲۲ فولیو نمبر7r، الکہف۲۳-۳۱  فولیو نمبر7v ، سورہ مریم کی آیات۹۱-۹۸  اور سورہ طٰہٰ کی آیات ۱-۱۲ فولیو نمبر1r اور طٰہ ۱۳-۴۰ فولیو نمبر 1v پرلکھی ہوئی ہیں ۔5  اس طرح کل ۶۳ آیات ہیں، جو ۹۳سطور پر رقم ہیں [9]۔ ان اوراق کی تصاویر اشارہ [12] میں دیکھی جاسکتی ہیں۔

نسخۂ پیرس (BnF328c)

فانسوا دیراش (François Déroche: پ ۱۹۵۲ء) عالمِ مصاحف (Codicologist) ہیں، جن کی علمی خدمات کے باعث ان کو فرانس کا اعلیٰ ترین سول اعزاز ’لیجن آف آنر‘ دیا گیا تھا۔ ان کی تحقیق کے مطابق نسخۂ BnF328c اواخر پہلی صدی ہجر ی یااوائل دوسری صدی میں لکھا گیا ہوگا [13] (ص 74)۔ لیکن جیسا کہ ابتدا میں ذکر ہوا، یہ مصحف پہلی صدی ہجری کے نصف اول میں لکھا گیا تھا اور اس اعتبار سے قرآنِ پاک کا قدیم ترین نسخہ کہا جاسکتا ہے ۔ فولیو ۷۱سے ۷۸ میں جو سات (۷)اوراق ہیں، ان میں سورہ یونس کی آیت ۳۵ سے سورہ ہود کی آیت ۱۱۰تک لکھی ہوئی ہیں۔ پھر فولیو ۷۸ سے ۸۶ تک نو(۹) اوراق میں سورہ طٰہ کی آیت ۹۹ سے لے کر سورۂ مومنون کی آیت ۲۷ تک مرقوم ہیں۔ نسخۂ BnF328c کے ان اوراق کی تصاویر جامع عمروؓ کے دوسرے نُسَخ کے ساتھ ایک ہی جلد بعنوان ۳۲۸ میں دیکھی اور وہاں سے ڈاؤنلوڈ کی جاسکتی ہیں [14] ۔(جاری)

 حوالہ جات

1.         "Birmnigham Quran manuscript dated among the oldest in the World", University of Birmingham Press Release, 22  July 2015, https://www.birmingham.ac.uk/news/latest/2015/07/quran-manuscript

            -22-07-15.aspx.

2.         "Oldest Koran fragments found in Birmingham University" July 22, 2015  in https://www.bbc.com/news/business-33436021.

3.         مخطوطات القرآن والفيلولوجيا الرقمية: حوار مع الدكتورة البا فيديلي ،أحمد وسام شاكر,  21 Nov 2016, https://iqsaweb.wordpress.com/2016/11/21.

4.         أحمد وسام شاكر, "' مصحف عثمان' بدارالكتب المصرية: الأصول والتاريخ",

            https://www.quranmss.com.

5.         Codex Arabe 328c – -A Qur'anic Manuscript From 1st Century of Hijra, https://www.islamic-awareness.org/quran/text/mss/m1572.

6.         Paleocoran: Studying variant readings and spellings in Egyptian Quranic Manuscripts (7th to 10th century AD) for a better understanding of the history of the Quran, DFG-ANR Project # 264680664, https://paleocoran.eu./

7.         FAQs, https://www.birmingham.ac.uk/facilities/cadbury/birmingham-

            quran-mingana-collection/birmingham-quran/faqs.aspx.

8.         Birmingham's ancient Koran history revealed, Sean Coughlan Education correspondent (https://www.bbc.com/news/business-35151643,  23 December 2015.

9.         Alba Fedeli, Early Qur’ānic Manuscripts, Their Text, and The Alphonse Mingana Papers Held in the Department of Special Collections of The University of Birmingham, PhD thesis, Institute for Textual Scholarship and Electronic Editing, Department of Theology and Religion, College of Arts and Law, University of Birmingham, November 2014.

10.       Coranica—Context for the Text, Research Project

            Berlin-Brandenburg Academy of Science and Humanities

             https://www.coranica.de/front-page-en.

11.       François Déroche, Quran's of the Umayyads, A Preliminary Overview, copyright 2014 by Koninklijke Brill NV, Leiden, The Netherlands.

12.       https://epapers.bham.ac.uk/116.

13.       François Déroche, Islamic Codicology: An Introduction to the Study of Manuscripts in Arabic Script; Translated by Deke Dusinberre and David Radzinowicz; Edited by Muhammad Isa Waley. London: Al-Furqan Islamic Heritage Foundation, 1427 AH/2006AD.

14.       https://gallica.bnf.fr/ark:/12148/btv1b8415207g/f150.image.

حواشی

1          ا لفانسو مِنگانا  (Alphonso Mingana) عراقی نژاد اشوری النسل سابق کالڈیَن پادری تھا جو برمنگھم  کا رہایشی تھا اور انگلستان آنے کے بعد عیسائیوں کے فرقہ کویکر (Quaker)میں شامل ہوچکا  تھا۔ اس کی ملاقات چاکلیٹ کے مشہور برانڈ کیڈبری کے مالک ایڈورڈ کیڈ بری (Edward Cadbury) سے ہوئی جو خود بھی ایک کویکر تھا اور خدمتِ خلق کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا تھا۔ کیڈبری اپنے شہر میں قدیم و نایاب مخطوطات و نوادر پر مشتمل ایک عالمی معیار کا مرکز بنانا چاہتا تھا ۔ اس نے مِنگاناکی مالی طور پر سرپرستی کی کہ وہ مشرقِ وسطیٰ جا کر اس کی لائبریری کے لیے نایاب مخطوطات حاصل کرے۔ چنانچہ مِنگانا نے مشرقِ وسطیٰ کے تین اسفار کیے اور کیڈ بری لائبریری کے لیے ۳ہزار عربی/سریانی نسخے حاصل کیے۔ بقولِ بعض اس نے مذکورہ نسخہ اپنے سفرِ مصر کے دوران حاصل کیا تھا [5]جبکہ البا فیڈیلی نےصراحت کی ہے کہ مِنگانا نے ۱۹۳۶ء میں اثریات کے ایک تاجر (antiquarian) فان شرلنگ (von Scherling) سے یہ مخطوطات خریدے تھے۔ مِنگانا علمی معاملات میں اگرچہ ایک متنازعہ شخصیت رہا تھا تاہم اس میں کلام نہیں کہ وہ ایک محقق اور کیوریٹر بھی تھا۔ کیڈبری اُس کے کام سے اتنا متاثر تھا کہ اپنے مرکز کا نام اس کے پہلے کیوریٹر کے نام پرمِنگانا کلیکشن رکھا۔ یہ کلیکشن ۱۹۹۰ء کے اواخر میں یونی ورسٹی آف برمنگھم کے سیلی اوک کالجز (Selly Oak Colleges)  کا حصہ بن گیا ۔ مِنگانا نے ۱۹۳۷ء میں اپنی وفات تک مشرقِ وسطیٰ سے خریدے گئے ۳ہزار نسخوں کے کیٹلاگ تین جلدوں میں مکمل کرلیے تھے۔ چوتھا کیٹلاگ اس کے جانشینوں نے ۱۹۶۳ء میں شائع کیا، جس کا نظر ثانی ایڈیشن ۱۹۸۵ء میں شائع ہوا تھا  [9-7]۔

2          ’خط حجازی‘ کسی معیاری خط کا نام نہیں ہے بلکہ یہ اصطلاح  اطالوی عالم میکیلی اماری (Michele Amari، م: ۱۸۸۹ء )نے فرانس کی قومی لائبریری میں قدیم مخطوطاتِ قرآنیہ پر کام کے دوران وضع کی تھی۔ اس نے ابن الندیم کی ’الفہرست‘ سے مکہ و مدینہ کی قدیم خطاطی کے اوصاف کا جائزہ لیا، تو دیکھا کہ وہاں کے خطاط مستطیلی عمودی خط دائیں طرف ترچھا کرکے لکھتے ہیں ، اسی طرح حرف ’الف‘ بھی اپنے قاعدہ کی جانب یعنی دائیں جانب مائل ہوتا ہے۔ اس طرح ، اماری نےاس قسم کی خطاطی کے لیے حجازی اور    آسٹرین عالم جوزف فان کاراباشیک (Joseph von Karabashik، م:۱۹۱۸ء)نے مائل کی اصطلاحات استعمال کیں[3]۔ ضروری نہیں کہ ہر نسخہ جو اس خط میں لکھا ہوا ملے وہ حجاز کا ہی لکھا ہوا ہو۔

3          یہ جرمن -فرانسیسی مشترکہ تحقیقی منصوبہ تھا (۲۰۱۱ء-۲۰۱۴ء) ، جس کے ایک جز کا مقصدقرآنی متن کی تاریخ معلوم کرنے کے لیے دستاویزی شہادتوں کی جمع و تدوین و اشاعت تھا۔ دوسرا جزء جزیرۃ العرب کے مذاہب اور السنہ کی تحقیق ، تدوین اور قرآنی زبان پر ان کے مبینہ اثرات سے متعلق تھا[10]۔

  4        ’ریڈیو کاربن ڈیٹنگ‘ قدیم تحریروں کی عمر جاننے کا ایک طریقہ ہے۔ یہ طریقہ اصل میں اس مویشی کی موت کا زمانہ بتاتا ہے جس کی چرم یا کھال سے پارچہ بنایا گیا۔ کچھ علما، بالخصوص فانسوا دیراش، کہتے ہیں کہ اس طریقے کی افادیت کے باوجود فیصلہ کن راے ماہرِ تحاریرِ قدیمہ، ماہرِ تاریخی لسانیات اور مؤرخِ فن ہی کی ہونا چاہیے۔ ریڈیو کاربن سے حاصل کردہ نتائج عموماً تخمینی عمر سے کم کی طرف رجحان رکھتے ہیں۔ جن دستاویزات میں کولوفون (colophon) کے ذریعے قطعی تاریخ معلوم ہوتی ہے، ان کی ریڈیو کاربن ڈیٹنگ بھی اصل سے کم کی طرف مائل تھی۔ شاید یہ کہنا صحیح ہو کہ اس کے نتائج کی حدود (range) میں سے زیریں نصف کو ترک کردینا چاہیے۔ بالائی حد کے بارے میں کہہ سکتے ہیں کہ اصل تاریخ میں کچھ برسوں کا اضافہ ممکن ہے۔ مزید معلومات کے لیے دیکھیے دیراش کی کتاب  [11] ص ۳  اور ص۱۱-۱۴

5          ’ r‘ سے مراد ہے ریکٹو (recto) یعنی ورق کا بایاں یا طاق صفحہ ۔ ’و‘ سے مراد فرسو (verso) ہے یعنی دایاں یا جفت صفحہ۔ وہ زبانیں جو بائیں سے دائیں لکھی جاتی ہیں ان کے اوراق کے ریکٹو اور فرسو صفحات اس کا عکس ہوں گے۔ بعض علماء صفحہ کی علامت کے لیے ' r/v 'کے بجائے ' a/b 'بھی لکھتے ہیں۔

ظفر اسحاق صاحب کے والد گرامی مولانا ظفر احمد انصاری [۱۹۰۸ء-۱۹۹۱ء] الٰہ آباد یوپی کے ان معتبر عمائدین میں سے تھے ،جنھوں نے پاکستان کے قیام کے لیے تن من دھن سے حصہ لیا، اور وہ تقسیم ہند سے قبل ہی کراچی منتقل ہوگئے۔ مولانا انصاری تقسیم ملک کے بعد پاکستان کے سنٹرل پارلیمانی بورڈ کے سکریٹری اور آل انڈیا مسلم لیگ کے اسسٹنٹ سکریٹری تھے۔

ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری کی پیدایش الٰہ آباد میں ۲۷دسمبر ۱۹۳۲ء کو ہوئی۔ انھوں نے ۱۹۵۰ء میں سندھ یونی ورسٹی سے گریجویشن اور ۱۹۵۲ء میں کراچی یونی ورسٹی سے ایم اے (اکنامکس)  کیا۔ کراچی یونی ورسٹی، پرنسٹن یونی ورسٹی، کنگ عبدالعزیز یونی ورسٹی، جدہ، کنگ فہد یونی ورسٹی آف پٹرولیم ، ظہران میں تدریسی فرائض انجام دیے۔ میلبورن یونی ورسٹی، میک گل اور شکاگو یونی ورسٹی میں وزیٹنگ پروفیسر کی حیثیت سے وابستہ رہے۔ معروف اسکالر چارلس جے آرم [م: ۲۰۱۱ء] اور ڈاکٹر فضل الرحمٰن [م: ۱۹۸۸ء]، ڈاکٹر انصاری کے سپروائزر تھے۔ قاہرہ کے زمانۂ تحقیق میں انھوں نے شیخ محمد ابوزہرہ [م:۱۹۷۴ء]سےعلمی استفادہ کیا۔

ظفراسحاق انصاری نے معروف مستشرق جوزف شاخت [م: ۱۹۶۹ء]کی انگریزی کتاب کے ایک باب: Pre-Islamic Background and Early Development of Jurispruedence کو عربی میں منتقل کرکے شیخ ابوزہرہ کی خدمت میں پیش کیا تاکہ وہ اس کی غلطیوں کا تعاقب کریں۔   شیخ نے تعلیقات علی اوہام شاخت لکھ کر پروفیسر ظفراسحاق انصاری کی خواہش کی تکمیل کی۔ پروفیسر انصاری نے فقہ اسلامی پر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ ان کے تھیسس کا عنوان تھا:

 The Early Development of Islamic Jurispruedence in Kufa: A Study of the Works of A Yusuf and  Al-Shabar

پروفیسر ظفر اسحاق انصاری کے قیمتی تحقیقی مقالات انسائیکلوپیڈیا اور انسائیکلوپیڈیا آف ریلیجن میں شامل کیے گئے۔ بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی، اسلام آباد میں اپنے عہد ِ صدارت کے دوران کئی بین الاقوامی سیمی نار منعقد کرائے۔ان کی ایک معروف تصنیف کا عنوان ہے: Muslims and the West-Encounter and Dialogueجس میں دنیا کے چوٹی کے مسلمانوں اور مستشرقین کے مقالات شامل ہیں۔ اس مجموعے کو جان ایس پوزیٹو کے ساتھ پروفیسر ظفر اسحاق نے ترتیب و تبویب دیا ہے۔ بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی کے انگریزی جرنل Islamic Studies کو انھوں نے عالمی تحقیقی معیارفراہم کیا۔ اسلامک فاؤنڈیشن لسٹر ۲۰۱۰ء میں پروفیسر خورشیداحمد کی مشارکت سے ایک اہم پراجیکٹ مکمل کیا جس کا عنوان ہے: Islamic Perspective: Studies in Honour of Sayyid Abul Ala Mawdudi۔

پروفیسر ظفر اسحاق انصاری کو ورثے میں  قرآن، حدیث اور فقہ سے آگہی ملی۔ وہ اقبال اور رومی شناس تھے۔ وہ وسیع القلب، شیریں مقال، مخیرالاوقات ، گرم جوش، محبت و اُلفت کا پیکر اور دوسروں کے اندر خوبیوں کے متلاشی و معترف تھے۔ انھیں سیّدابوالاعلیٰ مودودی کے افکار و خیالات سے بے پناہ عقیدت تھی۔ ترجمۂ قرآن مع مختصر حواشی اور تفہیم القرآن  کا معیاری انگریزی ترجمہ ان کے خاص حسنات میں سے ہیں۔ ان کا انتقال ۲۴؍اپریل ۲۰۱۶ء کو اسلام آباد میں ہوا۔۱

قرآنی خدمات

تفہیم القرآن تفسیر کی دنیا کا وہ شاہکار ہے، جس کے اندر ساڑھے چودہ سوسالہ علماے اُمت کی قرآنی بصیرت کا عطر آگیا ہے۔ بیسویں صدی میں اسلامی دنیا نے جو معیاری ادب تیار کیا ہے اس میں اسے اعلیٰ مقام حاصل ہے۔ پروفیسر خورشیداحمد تحریر کرتے ہیں:

تفسیر تفہیم القرآن جب سے اُردو میں معرضِ وجود میں آئی، اس وقت سے انگریزی زبان میں اسے ترجمہ کرنے کی ضرورت کا احساس رہا ہے۔ چنانچہ اس ضرورت کی تکمیل تفہیم کا انگریزی ترجمہ کروا کر اسلامک پبلی کیشنز لاہور نے بھی پورا کر دیا۔ اگرچہ یہ عمدہ پہل تھی لیکن عمومی طور پر یہ احساس کیا گیا کہ اس کے ذریعے تفہیم القرآن کی عظمت اور قوت کو منتقل نہیں کیا جاسکا ہے، جو نہ صرف ایک شاہکار تصنیف ہے بلکہ ایک بے نظیر ادبی کارنامہ ہے۔ سیّد مودودی نے قرآن کے متن کو جس بلند آہنگ کے ساتھ اُردو میں تحریر کیا ہے، وہ انگریزی میں منتقل نہیں ہوسکا تھا، اور اس میں متعدد مقامات پر حواشی کو بھی مختصر کردیا گیا تھا۔ تصنیفی زبان اور کتاب کی ظاہری ترتیب معیار سے مطابقت نہیں رکھتی تھی۔ سیّدابوالاعلیٰ مودودی نے خود ان کمیوں کو محسوس کیا اور انھوں نے خواہش کی کہ جدید انگریزی زبان و بیان کے اندر ایک مؤثر ترجمہ تیار کیا جائے۔ چنانچہ اس جذبے کے تحت مرحوم چودھری غلام محمد اور راقم السطور (خورشیداحمد) نے سیّد مودودی سے ایک نئے ترجمے کی بابت مشورہ کیا۔ ہم تمام کی راے میں ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری اس ذمہ داری کے لیے سب سے مناسب فرد محسوس ہوئے۔ ان کی عربی ،اُردو اور انگریزی زبانوں پر یکساں قدرت اور سیّد مودودی کے افکار اور منہاج میں گہری بصیرت نے ڈاکٹر انصاری کو اس خدمت کے لیے قابلِ ترجیح بنا دیا۔ سیّد مودودی کی خواہش کی تکمیل کے لیے چودھری غلام محمد اور میں نے ڈاکٹر ظفر اسحاق کو اس خدمت کو قبول کرنے پر آمادہ کرلیا۔ اس عظیم خدمت کو کچھ تذبذب کے ساتھ انھوں نے پایۂ تکمیل تک پہنچانے کی ذمہ داری قبول کرلی۔ سوئے قسمت کہ ڈاکٹر انصاری کے اس جدید پیراہن کو نظرنواز کرنے کے لیے سیّدمودودی اور چودھری غلام محمد میں سے کوئی زندہ نہ رہا۔ تاہم، ان کی مقدس اَرواح ضرورشادمانی محسوس کریں گی کہ ان کی دیرینہ خواہش کی اب تکمیل ہورہی ہے۔۲

ترجمۂ قرآن کی خصوصیات اور مترجم کے اضافے

پروفیسر ظفر اسحاق انصاری نے ۱۷جولائی ۱۹۸۷ء کو تفہیم کے انگریزی ترجمے کی پہلی جلد کی طباعت کے موقعے پر ادارتی نوٹ میں اپنی خوش بختی کا اعتراف کیا کہ خود مصنف سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ نے ان کے ذریعے انگریزی ترجمہ تفہیم القرآن پر اطمینان کا اظہار فرمایا تھا۔ پروفیسر انصاری نے تفصیل کے ساتھ تفہیم القرآن کو انگریزی زبان میں منتقل کرنے کی بابت تحریر کیا ہے۔ سطورذیل میں اختصار کے ساتھ اس کی وضاحت کی جاتی ہے:

میں نے دو متضاد رویوں کو ایک ہی اسلوب میں سمونے کی کوشش کی ہے۔ ایک کوشش یہ کی کہ اصلی ترتیب الفاظ و معانی کو برقرار رکھ سکوں، تاکہ مروجہ قابلِ ستایش انگریزی اسلوب میں تفہیم منتقل ہوسکے۔ وہیں دوسری کوشش یہ رہی کہ اُردو نثری ادب اور سیّدمودودی کی ادبی خصوصیات کو بھی باقی رکھ سکوں۔ اُردو ادب کی اس شاہکار تصنیف کو میں نے انگریزی داں طبقہ کے لیے قابلِ استفادہ ومطالعہ بنانے کی خاطر اس کی اصلیت کو باقی رکھتے ہوئے چند اقدامات کیے ہیں، مثلاً:

            ۱-         متعدد اقوالِ مصنف اس بات کے مقتضی تھے کہ ا نھیں حوالوں کے ساتھ پیش کیا جائے۔ حُسنِ ظن کی بنیاد پر تفہیم القرآن  میں انھیں بلاحوالہ پیش کیا گیا تھا۔ انگریزی ترجمہ تفہیم میں بقدرِ ضرورت حوالے فراہم کردیے گئے ہیں۔ پھر یہ کہ تفہیم  میں جہاں جہاں انگریزی مصادر کے حوالے ہیں، وہ بلاشبہہ انگریزی سے ترجمہ کرکے پیش کیے گئے ہیں۔ ان انگریزی حوالوں کو اصل انگریزی مصادر سے پیش کر دیا ہے۔

            ۲-         احادیث کے حوالوں کی تحقیق میں بہت زیادہ وقت صرف ہوگیا، مثلاً اس کام میں ارنٹ جان ونسنک [م: ۱۹۳۹ء] کا حوالہ جاتی طریقہ اختیار کیا ہے، جس کا اظہار انھوں نے A  Hand book of Early Muhammadan Tradition میں کیا ہے۔ یہ کتاب لیڈن سے ۱۹۲۷ء میں شائع ہوچکی ہے۔ اور ان کی دوسری کتابConcordance   میں بھی حوالوں کا اعلیٰ اسلوب اختیار کیا گیا ہے، اس سے بھی استفادہ کیا گیا ہے۔ تفسیری مآخذ کے حوالوں میں سیّدمودودی نے سورتوں اور آیات کے نمبر رقم کیے ہیں، لیکن  ان مآخذ کی جلدوں اور صفحات کا ذکر نہیں ہے۔ ان مصادرکے اجزا اور صفحات کا اندراج مکمل کرلیا گیا ہے۔ بائبل کے تمام حوالوں کو تصحیح شدہ ایڈیشن کے مطابق کردیا گیا ہے۔

            ۳-         اُردو قارئین کے بالمقابل انگریزی قاری کی ضرورت کے پیش نظر چند اضافے مزید کیے گئے ہیں۔ اوّل یہ کہ ایک موضوعاتی فہرست تیارکی گئی ہے، جس کے ذریعے قرآنی اصطلاحات کا تعارف پیش کر دیا گیا ہے۔ دوم یہ کہ ایک سوانحی اشاریہ میں متذکرہ اشخاص کی حیات سے متعلق تفصیلات فراہم کی گئی ہیں، جن کا ذکر حواشی کے اندر آیا ہے۔ سوم یہ کہ موضوعاتی اشاریہ (جو کہ سیّدمودودی نے تیار کر دیا ہے) کے علاوہ ایک عمومی اشاریہ بھی تیار کیا ہے۔ چہارم یہ کہ فہرست کتابیات کے ذریعے متذکرہ کتابوں کی تفصیل پیش کر دی گئی ہے۔ پنجم یہ کہ انتہائی ضروری نوٹس بھی جگہ جگہ لگا دیے گئے ہیں اور آخری بات یہ کہ انگریزی مترجم کے نوٹس جہاں بھی ہیں، انھیں محترم مصنف کی توضیحات سے الگ اور نمایاں کر دیا گیا ہے۔۳

اس طرح یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ پروفیسر ظفر اسحاق انصاری نے متعدد اشاریے یا انڈکس تیار کرنے میں بے پناہ محنت صرف کی ہے اور تفہیم القرآن کے انگریزی قالب کو عصری تحقیقی پیراہن عطا کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ تفہیم القرآن میں سیّدمودودی نے صرف ایک اشاریہ تیار کیا ہے اور وہ ہے حروفِ ابجد کے مطابق موضوعاتی فہرست۔ سیّدمودودی کے ایک ایک موضوعاتی اجزاء کو ظفر اسحاق صاحب نے موجودہ انگریزی تصانیف کے مطابق صفحات کے تعیین کے ساتھ شامل کیا ہے، مثلاً تفہیم القرآن،جلداوّل (۲۴x۱۶ سائز) میں سورۃ الفاتحہ تا سورۃ الانعام شامل ہے اور ان تمام سورتوں کے اعتبار سے موضوعاتی فہرست اس جلد میں تیار کی گئی ہے، جب کہ ظفر اسحاق صاحب کا انگریزی قالب جو ۲۱.۵x۱۳ کے سائز میں ہے، ان سورتوں کی تشریح تین جلدوں میں سماسکی ہے، اور اس طرح تفہیم، جلداوّل کی تمام موضوعاتی فہرست کو شامل کرلیا گیا ہے۔

فرہنگ مصطلحات (Glossary of Terms)

فرہنگ اصطلاحات کو بطورِ خاص جدید تحقیقی دنیا میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ آج اس کا چلن انگریزی کے علاوہ بعض دیگر زبانوں میں بھی عام ہوچکا ہے۔ پروفیسر ظفر اسحاق انصاری نے ہرجلد کے آخر میں اس ٹائٹل کے تحت اس جلد میں آئے ہوئے مشکل الفاظ اور اصطلاحات کی دل نشین تشریح کی ہے۔ اس گلوسری کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ ایک مسلمان کے مقابلے میں ایک غیرمسلم: عیسائی، یہودی، ہندو کے لیے زیادہ مفید ہے۔ ان اصطلاحات کا دین اسلام میں کیا مفہوم و مقام ہے؟ان کے لغوی اور اصطلاحی معانی کیا ہیں؟ ایک لفظ کن کن معانی میں معتبر و مستعمل ہے؟ الفاظ کے واحد جمع کی تفصیل کیا ہے؟ اور یہ الفاظ کس سورہ میں آئے ہیں؟ وغیرہ، اس تشریح کے مباحث ہیں۔مثلاً الآخرہ کی بابت کہتے ہیں کہ یہ چارمفہوم میں بولا جاتا ہے۔۴  قرآن میں کفر متعدد مفہومات میں استعمال ہوا ہے،چار کا ذکر کرتے ہیں۔۵

’ابلیس‘ کی لغوی تعریف کرتے ہیں کہ وہ جو مکمل ’مایوسی کا پتلا‘ ہو۔ اسلامی اصطلاح میں اس کا اطلاق اس پر ہوتا ہے جس نے آدم کو سجدہ کرنے کے خدائی حکم سے انحراف کیا تھا اور جس نے انسان کو گمراہ کرنے کی خداسے اجازت طلب کی تھی۔ اسے شیطان بھی کہا جاتا ہے۔ وہ ایک خاص حیثیت کا مالک ہے۔ اسے مادہ کے رُوپ میں نہیں دیکھا جاسکتا ہے۔۶

چند اصطلاحات ملاحظہ کریں، جن کی تشریح جلداوّل میں مترجم نے کی ہے:عرش،  اصحاب الصفہ، آیت، اہلِ الذمہ، حدیث، حج، حروفِ مقطعات، عدت، احرام، احسان، انجیل، اعتکاف، خلیفہ، خُلع، کرسی، مہر، رب، رحمٰن، رحیم،رکعات، رکوع، سبت، شیطان ، شکر، تابعون، طاغوت، تقدیس ، تسبیح ، ایام التشریق، توبہ، ثواب،عمرہ۔ یہ وہ چند اصطلاحات ہیں، جو سیّد مودودی نے تفہیم القرآن کی جلداوّل کے ایک حصے میں استعمال کی ہیں، لیکن ان میں سے اکثر اصطلاحات چونکہ تفہیم کے قاری کے لیے معروف تھیں، لہٰذا سیّد مودودی نے الگ سے تعارف نہیں کرایا ہے اور فہرست موضوعات میں بھی سواے چند کے اکثر کی تشریح نہیں کی گئی ہے۔ لیکن چونکہ انگریزی قاری کے لیے یہ ضروری تھیں۔ اس لیے انگریزی ترجمہ کی تمام جلدوں کے اندر سیکڑوں اضافی اصطلاحات کی تشریح خدمت ِ قرآن کے باب میں ڈاکٹر انصاری کی جانب سے ایک اہم اضافہ ہے۔

سوانحی اشاریے (Biographical Notes)

 تفہیم القرآن کےانگریزی ترجمے کی ہرجلد کے آخر میں یہ دوسری تحقیقی سرخی ہے، جو پروفیسر انصاری کی خدمت قرآنی کا اہم حصہ ہے۔ تفہیم القرآن کی متعلقہ جلدوں/سورتوں میں مذکوراسماے گرامی: صحابہ، تابعین، تبع تابعین، مفسرین، محدثین، فقہا، پورے القاب و آداب کے ساتھ تیار کیے گئے ہیں۔ ان تمام ناموں کے ساتھ ہی سنین وفات کو شمسی و قمری دونوں طریقوں سے واضح کرکے ان کے زمانوں کی وضاحت کی گئی ہے۔ تمام ترجموں کے اندر مذکور اسماے گرامی کی تعداد سیکڑوں سے متجاوز ہے۔ اس سوانحی خاکے میں جو نام اس جِلد میں مکرر آگیا ہے تو اشارہ کردیا گیا ہے کہ فلاں جلد میں اس کی تفصیل ملاحظہ کریں، مثلاً جلدسوم میں عبداللہ ابن مسعود، عبداللہ ابن ابی، عبداللہ ابن عمر کی بابت اشارہ کیا گیا کہ ’’جلداوّل و دوم میں ان کی تفصیل ملاحظہ کریں‘‘۔

اختصار و ایجاز ان اشاریوں کی اہم خوبی ہے، چند مثالیں ملاحظہ کریں:

            ۱-         عبداللہ ابن عمرو ابن العاص (م: ۶۵ھ/۶۸۴ء) ایک صحابی تھے، جو مصر کے فاتح کے بیٹے تھے، جنھوں نے اپنے والد سے پہلے اسلام قبول کیا۔ وہ لگن، محنت اور حصولِ علم کے لیے معروف تھے۔ انھوں نے احادیث کا ایک مجموعہ تیار کیا تھا۔۷

            ۲-         الزہری، محمد ابن مسلم ابن شہاب (م:۱۲۴ھ/۷۲۱ء) دوسری صدی ہجری میں مدینہ کے غیرمعمولی اسکالر تھے جنھوں نے حدیث اور سیرت پر غیرمعمولی خدمت انجام دی۔۸

            ۳-         الطبری محمد ابن جعفر (م: ۳۱۰ھ/۹۲۳ء) ایک معروف مؤرخ، فقیہ اور مفسرقرآن۔ ان کی باقیات میں جو قابلِ حصول ہیں: جامع البیان فی تفسیر القرآن اور ان کے وقائع: تاریخ الرسل والملوک، بطور خاص قابلِ ذکر ہیں۔۹

کتابیات(Bibliography )

مغربی دنیا کے محققین نے علم و تحقیق کا معیار کافی بلند کیا ہے۔ مصادرو مراجع کا استعمال تو مسلم محققین بھی عہد وسطیٰ سے آج تک کرتے آرہے ہیں، لیکن کسی کتاب کے اندر مذکور مصادر/مآخذ کو کتاب کے آخر میں حروفِ ابجدیہ کے اعتبار سے ترتیب دینا بطورِ خاص مستشرقین کا تحقیقی کارنامہ ہے۔ مترجم گرامی پروفیسر ظفر اسحاق انصاری کی تمام تحریریں تحقیق کی اس اعلیٰ قدر کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہیں۔ چنانچہ تفہیم القرآن کے ترجموں کو بھی تحقیق کی یہ شان عطا کی گئی ہے۔ انگریزی ترجموں کی تمام جلدیں کتابیات کی جملہ معلومات سےبھرپور ہیں۔ چنانچہ جلداوّل میں ۲۷کتابوں کا ذکر ہے، جب کہ جلد سوم میں ۱۲مصادر کے مصنّفین،مؤلّفین، مترجمین، اجزا، مطابع، سنینِ طباعت، ایڈیشن، مقامِ طباعت کی متعین معلومات فراہم ہوجاتی ہیں۔ اس اشاریے کا اہم پہلو یہ ہے کہ جن انگریزی مصادر کو مصنف علام سیّد مودودی نے اُردو میں رقم کیا تھا، ظفراسحاق صاحب نے اصل انگریزی نسخوں کی نشان دہی ترجمہ کرتے وقت بھی کی ہے اور انھی کو اس اشاریہ کا جزو بھی بنایا ہے، مثلاً:

The Holy Bible, Revised Standard Edition, NewYork, 1952 A.J. Wensinck, Cocordance et Indices de Tradition Musalmane 7Vols, Leiden, 1939-19

فہرست موضوعات (Subject Index )

تفہیم القرآن کی چھے جلدوں کے اندر سیکڑوں صفحات میں پھیلے ہوئے ہزاروں عنوانات پر مشتمل فہرست موضوعات محققین کو کتب و مآخذ کی عدم دستیابی کے وقت سکون و راحت بخشی کا سامان فراہم کرتی ہیں۔ پروفیسر ظفر اسحاق انصاری نے لاطینی حروفِ ابجدیہ کے اعتبار سے انھیں اسی جلد میں شامل کیا ہے، جہاں ان کا تذکرہ آیا ہے اور تمام ہی مندرجات کو ریکارڈ کیا ہے۔ ڈاکٹر انصاری نے جوفہرست مصطلحات تیار کی ہے اور سیّد مودودی کی فہرست موضوعات، دونوں کو ملا کر اگر استفادہ کیا جائے تو طالب علم کو معلومات کا وقیع و نادر خزانہ ہاتھ لگتا ہے۔

اس فہرست موضوعات کا خاص وصف یہ ہے کہ انگریزی تحقیقی منہج کی رعایت کے نتیجے میں اکثر مقامات پر اصل عربی الفاظ و مصطلحات کو قوسین میں رکھا گیا ہے، مثلاً: (Ibrahim) Abraham, (Harun) Aaron (Kufr) Disbelief, (Talaq) Divorce (Dhikr) Admonisk  وغیرہ۔ اسی طرح کچھ دوسرے قوسین، مثلاً: بنواسرائیل کے لیے اشارہ کرتے ہیں (See Children of Israelities)۔ اس طرح اس اشاریے میں دوطرح کے قوسین ہیں: ایک میں انگریزی ترجمہ کی اصل عربی کو قوسین میں بند کرتے ہیں، جب کہ دوسری طرح کے قوسین میں ترجمہ شدہ لفظ کو دوسرے مقام پر ملاحظہ کرنے کی ہدایت کرتے ہیں اور ایسا کرکے مترجم نے خود کو اور قاری کو تکرار سے بچایا ہے۔

عمومی اشاریہ (General Index)

اشاریہ سازی کی اس قسم کے اندر پوری کتاب پر ایک طائرانہ نظر پڑ جاتی ہے۔ اس اشاریہ کے ذریعے صفحہ صفحہ کے لعل و گہر کو ایک بار پھر یک جا کردیا جاتاہے۔ اس اشاریے کے ذریعے مصطلحات، مآخذ، اماکن ، شخصیات اور افکار، الغرض جس نوعیت کی کتاب تیار کی جاتی ہے، اس کے جملہ اجزاے ترکیبی کا خلاصہ کر دیا جاتا ہے۔ ہر زبان کے حروف اصلیہ کے ذریعے معارف کے اس گنجینہ سے استفادہ کیا جاتا ہے۔ ترجمہ تفہیم کی ہرجلد میں A تا Z یہ عمومی اشاریہ ایک طرف تفہیم القرآن کو قدآور بناتا ہے اور دوسری طرف خود ترجمہ پرغیرترجمہ ہونے بلکہ اصلی تحقیقی کتاب ہونے کا گمان کراتا ہے

متن تفہیم القرآن کے ترجمے میں اضافے

قرآن کے اُردوترجمہ کو انگریزی زبان کی جدید خوبیوں سے مالا مال کردینا انگریزی دُنیا میں پروفیسر ظفر اسحاق انصاری کابے مثال اور نادر کارنامہ ہے۔ قاری کو اگرمعلوم نہ ہوکہ یہ سیّدمودودی کی تفہیم کا ترجمہ ہے، تو وہ آخر تک اسے عربی متن قرآن کا ان کا ذاتی ترجمہ تصورکرے گا۔

طریقۂ کار یہ اختیار کرتے ہیں کہ ہر سورہ کے نام کے نیچے اس کے مکی یا مدنی ہونے کی تاکید کرتے ہیں۔ سورہ نمبر واضح کرتے ہیں اور ہر صفحہ کی پیشانی پر ان سورتوں کے انگریزی نام کو قوسین میں بھی درج کرتے ہیں، مثلاً آل عمران (The House of Imran)، البقرہ (The Cow) ، المائدہ (The Table)،النساء (Women)، الانعام (live stock) وغیرہ۔ تفہیم القرآن  کے اندر پاروں، رکوع، منزل، جزء، وغیرہ کا اہتمام کیا گیا ہے۔ چونکہ یہ علامات صرف قرآن کی تلاوت کی خاطر ہیں اور توقیفی بھی نہیں ہے۔ غالباً اسی وجہ سے مترجم موصوف نے انگریزی ترجمہ میں ان کی رعایت نہیں رکھی اور تذکرہ نہیں کیا ہے۔

دیباچے میں نام اور وجہ تسمیہ کے لیے Title، زمانۂ نزول کے لیے Period of Revelation یا History of Revelation شانِ نزول کے لیے Background ، موضوع اور مباحث کے لیے Subject and Central Theme کے الفاظ سے ترجمہ کرتے ہیں۔

حواشی کے اندر جابجا سیّد مودودی نے سورتوں کے نام اور آیات کے حوالوں کی نشان دہی کی ہے اور رجوع کرنے کی ہدایت کی ہے۔ مترجم موصوف نے سورتوں کے نام کے بجاے سورہ نمبر اور آیات نمبر کااسلوب اختیار کیا ہے، کیونکہ انگریزی تراجم قرآن میں یہی اسلوب رائج و راجح تصور کیا گیا ہے، مثلاً البقرہ حاشیہ ۲۴، حاشیہ ۳۱، حاشیہ۴۶، آل عمران حاشیہ ۱،۲، ۸، ۱۱ بطورِ مثال ملاحظہ کریں۔

دوسری نوعیت کا اضافہ چند حواشی کی مدد سے پیش کیا جاتا ہے، مثلاً البقرہ حاشیہ ۱۳۲ میں ’دین‘ کی اصطلاح کی وضاحت کی گئی ہے۔ مترجم اس مقام پر کہتے ہیں کہ ’’سیّد مودودی کی اصطلاح کو ان کی کتاب Four Basic Quranic Terms میں ملاحظہ کریں، جس کا ترجمہ ابواسعد نے انگریزی میں کیا ہے اور جو لاہور سے ۱۹۷۹ء میں شائع ہوئی ہے‘‘ اور صفحات کی بھی رہنمائی کرتے ہیں۔ اصل کتاب کا عنوان ہے: قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں۔

دوسری مثال، البقرہ حاشیہ ۱۳۳ کی ہے۔ اس حاشیہ میں تلمود میں حضرت یعقوبؑ کے جملے نقل کیے گئے ہیں۔ مترجم موصوف ان اُردو جملوں کا ترجمہ کرنے کے بجاے تلمود کے انگریزی جملوں کا حوالہ پیش کرتے ہیں اور تفہیم  کے لیے اصل حوالہ دے کر اسے تحقیقی وقار عطا کرتے ہیں۔۱۰

تیسری مثال: البقرہ حاشیہ ۱۴۶ کی یہ ہے کہ سیّد مودودی نے طبقاتِ ابن سعد کی ایک روایت پیش کی ہے لیکن حوالہ نہیں دیا ہے۔ مترجم گرامی نے ابن سعد، طبقات، جلد۱، ص۲۴۱ کا حوالہ دے کر اضافہ کیا ہے۔

چوتھی مثال، البقرہ آیت نمبر۱۴۶ کی یہ ہے کہ اس میں یَعْرِفُوْنَہ کی ضمیر (ہ) سے سیّدمودودی نے قبلہ مراد لیا ہے۔۱۱مترجم موصوف نے یہاں وضاحتی نوٹ لگایا ہے، جس کا حاصل یہ ہے کہ دیگر مفسرین نے اس کا مرجع پیغمبر یا قرآن کو قرار دیا ہےنہ کہ قبلہ کو۔۱۲

پانچویں مثال ، آل عمران حاشیہ ۲۲ کی یہ ہے کہ سیّد مودودی نے بجاطور پر تورات و انجیل کو خدا کی کتاب قرار دیا۔ مترجم گرامی نے کہا کہ تورات اور انجیل کے قرآنی انداز بیان کے لیے خود تفہیم القرآن، آل عمران کا حاشیہ ۲ دیکھیں، جہاں سیّد مودودی نے قیمتی حاشیہ تحریر کیا ہے۔ اس طرح ترجمہ کے اندر بھی رجوع کرنے کی ہدایت دراصل مترجم گرامی کا اضافہ ہے، جس سے قاری کو فیض پہنچتا ہے۔ اس طرح ان چند مثالوں کے ذریعے ترجمہ اور حاشیہ دونوں کے اندر ظفراسحاق صاحب کے عطایا نہایت بروقت اور علم و تحقیق میں اضافے کا باعث ہیں۔

قابلِ ذکر پہلو یہ ہے کہ ترجمہ کے اندر زبان و بیان کا حُسن اور جلوہ اپنی مثال آپ ہے۔ قرآنی اصطلاحات کے لیے قریب الفہم انگریزی مترادف کا انتخاب، جملوں کے درمیان گرامر کی باریکیوں کا خیال، کومہ، علاماتِ استفہام و حیرت، اقتباسات، وقفہ، عطف وغیرہ کی علامات کے ذریعے پروفیسر انصاری سیّد مودودی کے اردوے مبین کوعصرجدید کے معیاری انگریزی ادب میں پیش کرنے کی کامیاب کوشش کرتے ہیں۔

مترجم گرامی پروفیسر ظفر اسحاق انصاری کی یہ دوسری قرآنی خدمت ہے اور اس خدمت کے طفیل ان کا نام نامی ہر اس مقام پر، اسی احترام کے ساتھ لیا جائے گا جہاں سیّدابوالاعلیٰ مودودی کی قرآنی خدمات کا اعتراف کیا جائے گا۔ ظفر اسحاق انصاری نے ’ترجمۂ قرآن مع مختصر حواشی‘ کو ’تفہیم القرآن کی تلخیص‘ کا عنوان دیا ہے جیساکہ اس کے اصلی نام سے ظاہر ہے۔ پروفیسر خورشیداحمد، جو اس ترجمے کے اصل محرک ہیں، اس کتاب کے پیش لفظ میں تحریر کرتے ہیں:

سیّد مودودی کی تفہیم القرآن جو چھے جلدوں میں ہے، اس کا خلاصہ ایک جلد میں پیش کیا جارہا ہے تاکہ دنیابھرکے انگریزی جاننے والے حضرات تک یہ ترجمہ پہنچ سکے۔ یہ ترجمہ اسلامک فاؤنڈیشن لسٹر برطانیہ سے شائع کیا جارہا ہے۔ اسی وقت یہ ضرورت محسوس کی گئی کہ جن کے پاس وقت اور فرصت نہیں ہے، ان کی خاطر ایک جلد میں انھوں نے اُردو ترجمے کو مکمل کیا اور اس کا نام: ترجمۂ قرآن مع مختصر حواشی رکھا۔۱۳

پروفیسر ظفر اسحاق انصاری تفہیم القرآن کو انگریزی میں منتقل کرنے کو اپنی سعادت اور خوش بختی قراردیتے ہیں۔ وہ ایک جگہ تحریر فرماتے ہیں:

جب میں تفہیم القرآن کو انگریزی کی آٹھویں جلد میں منتقل کرچکا تو فاؤنڈیشن میں میرے بعض دوستوں نے اس کام کو روک دینے کا مشورہ دیا اور کہا کہ اس وقفے کو پورے قرآن کو ترجمہ کرنے میں پہلے استعمال کرلوں اور ان ’مختصر حواشی‘ کو بھی انگریزی کا جامہ پہنا دوں، جسے سیّد مودودی نے تیار کیا ہے اور جسے انھوں نے ۱۹۷۶ء میں طبع کرایا تھا۔ قارئین کو معلوم ہوگا کہ مَیں سورۃ القصص (۲۸) مکمل کرچکا تھا، جو انگریزی کی ساتویں جلد میں شائع ہوا تھا۔ میں نے اس نئے ترجمہ پر پوری توجہ کے ساتھ نگاہ ڈالی اور بعض مقامات کی اصلاح کی اور ۲۹ تا ۱۱۴ سورتوں کے ترجموں کو بالکل نئے سرے سے انگریزی کا قالب پہنا دیا۔ میرے پاس اللہ کا شکر ادا کرنے کو الفاظ نہیں ہیں۔ خواہش صرف یہ ہے کہ خداوند قدوس مجھےقرآن کے مترجمین کے درمیان جگہ مرحمت فرما دے۔۱۴

ترجمہ مع مختصر حواشی کے آخر میں تفہیم کے ترجموں کی مانند چار اشاریے تیار کیے گئے ہیں جو نسبتاً مختصر ہیں، مثلاً اصطلاحات کا اشاریہ ایک سو تین (۱۰۳) اصطلاحات کی تشریح کررہا ہے۔ سوانحی اشاریہ کے اندر ساٹھ (۶۰) شخصیات کے مختصر کوائف کا ذکر آگیا ہے۔ موضوعاتی اشاریہ اور عمومی اشاریہ، تفہیم القرآن کے ترجموں کی مانند تیار کیے گئے ہیں۔ دونوں میں فرق یہ ہے کہ تفہیم القرآن میں سیّدمودودی نے صرف فہرست موضوعات تیار کی تھی۔ تین اشاریے مترجم گرامی کے اضافے تھے، جب کہ یہاں ترجمہ مع مختصر حواشی میں چاروں اشاریے مترجم گرامی کی ذاتی کاوش کا مظہر ہیں۔ دونوں تصنیفات کی اصطلاحات کے اشاریوں کے تجزیے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مترجم گرامی کے یہ دونوں اشاریے الگ الگ قرآنی الفاظ و اصطلاحات کی وضاحت کرتے ہیں۔ چند الفاظ ملاحظہ کریں جو تفہیم کے مصطلحات کے اشاریے میں نہیں آئے ہیں: احقاب، اولیا، ایام، آذر، بحیرہ، بُرہان، چادر، خوشی، فقیر، فسخ، فتنہ، حبل اللہ، حام، لیلۃالقدر، مؤلفۃ القلوب، خوف، کتاب، حواشی، لوحِ محفوظ، میزان وغیرہ۔

ان الفاظ پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض اُردو کے الفاظ کو بھی انگریز ی کاجامہ پہنایاہے، مثلاً : چادر، خوشی وغیرہ اور بعض الفاظ کی دونوں فہرستوں میں تشریح تو ہے، لیکن بالکل الگ انداز اوراسلوب میں ، مثلاً میزان، حبل اللہ وغیرہ۔ دوسری بات یہ کہ عربی اصطلاحات کے  فوراً سامنےقوسین میں پہلے ان کا انگریزی متبادل اور واحد جمع کی تشریح کرتے ہیں۔ اس کے معاً بعد اس کی وضاحت۔سوانحی حواشی میں بے شمار اضافے ہیں، البتہ جہاں وہی اسماء آئے ہیں، مثلاً عبداللہ ابن مسعود، یاعبداللہ ابن ابی، تو ہرجگہ ایک ہی انداز میں تعارف کرایا گیا ہے۔ اس اشاریے کے ذریعے چند مزید اسماء کا علم ہوجاتا ہے، جن کا تذکرہ تفہیم کے اشاریہ میں نہیں آسکا تھا۔ موضوعاتی اشاریے میں عربی کے الفاظ کی رعایت سے حروفِ ہجا کی ترتیب میں الفاظ رکھے گئے ہیں اور ساتھ میں انگریزی ترجموں کا بھی خیال کیا گیا ہے، مثلاً خمرومیسر کے بجائے اشاریے میں Gambling اور Games of Chance کے الفاظ کا سہارا لیا گیا ہے اور ایسا بکثرت ہے۔     اسی طرح عربی کے الفاظ کو Italic میں ظاہر کرکے صفحات کا تعیین کردیا گیا، مثلاً: مہاجرین، کلالہ، محکم، راعنا، تشریق، زکوٰۃ، ظہار ،اولوالامر وغیرہ۔

انگریز ی قالب کی ان دونوں خدمات کے سلسلے میں ایک جزوی وضاحت یہ ہے کہ تفہیم میں ترجمہ کرتے وقت سورتوں کے ناموں کو Latin میں تبدیل کرکے اس کامعنی دیتے ہیں، مثلاً Al-Maidah (Table) جب کہ ترجمہ مع مختصر حواشی میں ایک خوب صورت اضافہ مذکورہ تفصیل دے کر یہ کرتے ہیں کہ سورہ کا عربی نام بھی منقش کر دیتے ہیں، مثلاً ’سورہ المائدہ‘ لکھتے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ ترجمۂ قرآن مع مختصر حواشی میں مترجم گرامی نے شاذونادر حواشی کے اندرکسی قسم کے نوٹس کا اضافہ کیا ہے۔ لیکن بعض بڑے قیمتی اضافے نوٹ کی شکل میں کیے ہیں اور وہ ترجمہ نگاری میں ان کی بصیرت کا اظہار ہیں،مثلاً النساء، آیت ۹۴ میں ہے: يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا ضَرَبْتُمْ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ فَتَبَيَّنُوْا  ’’اےلوگو جو ایمان لائے ہو، جب تم اللہ کی راہ میں جہاد کے لیے نکلو تو دوست دشمن میں تمیز کرلو‘‘۔

پروفیسر ظفر اسحاق ، اس کا ترجمہ یوں کرتے ہیں:

Belivers! When you go forth in the way of Allah ascertain and distinguish (between  friend foe).

واضح رہے کہ اس مقام پر کمالِ دیانت داری سے سیّد مودودی کے ترجمے کو انگریزی کا قالب پہناتے ہیں لیکن ’دوست اور دشمن‘ کے الفاظ کو قوسین میں رکھتے ہیں، کیونکہ ترجمہ نگاری کا یہی تقاضا ہے کہ کلامِ الٰہی کا من و عن ترجمہ کیا جائے۔ درحقیقت سیّد مودودی نے ترجمانی کا اسلوب اختیار کیا ہے، جب کہ ظفراسحاق صاحب نے ترجمانی اور ترجمہ دونوں اسالیب سے کام لیا ہے۔

بعض جگہوں پر اصل اُردو میں سیّدمودودی نے درمیانِ ترجمہ قوسین سے کام لیا ہے۔ پروفیسر ظفراسحاق نے انگریزی ترجمہ میں اس طرح کے قوسین کو چھوڑ دیا ہے، مثلاً النساء آیت ۷۴ دیکھیے۔ اسی طرح بعض جگہوں پر قوسین کا اضافہ کرتے ہیں، مثلاً المائدہ، آیت ۱۰۴ میں سیّد مودودی نے ترجمہ میں قوسین کا استعمال نہیں کیا ہے، جب کہ مترجم گرامی بریکٹ میں لکھتے ہیں: Will  they continue to follow their forefathers? ۔ اس طرح کی کچھ اور مثالیں بھی پیش کی جاسکتی ہیں۔

خلاصہ بحث

پروفیسر ظفر اسحاق انصاری مشرقی و مغربی علوم کے پارکھ تھے۔ عصرجدید میں مغربی دنیا کے نامور مستشرقین کے ساتھ ان کے دوستانہ مراسم تھے۔ قرآن، حدیث اور فقہ ان کے مطالعات کی جولان گاہ تھی۔ ان علوم سہ گانہ کے تعلق سے غیرو ں کے شکوک و شبہات کا ازالہ کرنے کی انھوں نے کامیاب کوشش کی ہے۔ پروفیسر خورشیداحمد کی مانند،پروفیسر ظفر اسحاق انصاری نے بھی سیّدمودودی کے افکار و خیالات کو مغربی دنیا کےسامنے پیش کرنے کی عالمانہ کوشش کی ہے۔ سیّدمودودی، چودھری غلام محمد اور پروفیسرخورشید احمد کے ذریعے تفہیم القرآناور پھر ’ترجمۂ قرآن مع مختصر حواشی‘ کو انگریزی کا قالب پہنانے کی تجویز کو پروفیسر ظفراسحاق انصاری اپنے لیے باعث اجروسعادت سمجھتے تھے، جس کا اعتراف و اظہار انھوں نے واضح لفظوں میں کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ڈاکٹر انصاری کی ترجمہ نگاری اور انتہائی دیانت داری کے ساتھ سیّد مودودی کے مفاہیم کی انگریزی زبان میں منتقلی کا اعتراف اہلِ علم نے کیا۔ ان کی ترجمہ نگاری کے خصائص کا اگر الگ سے مطالعہ کیا جائے تو اس مطالعے کے ذریعے متعدد اسالیب نکھر کر سامنے آسکیں گے جو ان مختصر صفحات کی قید میں نہیں لائے جاسکے ہیں۔

مصادر و مراجع

۱-         Muzaffar Iqbal, Zafar Ishaq Ansari (December, 27 1932 - April 24, 2016) Obituar Glimpses in Memoriam, Islamic Science Vol.1, Summer, 2016, No. 1.P. 101-11.

۲-         پیش لفظ، پروفیسر خورشیداحمد، Towards Understanding the Quran مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، نئی دہلی، اکتوبر ۲۰۰۴ء، ص xviii

۳-         Towards Understanding the Quran محولہ بالا، ادارتی نوٹ،ص xxiii

۴-         ایضاً ، جلد۱، محولہ بالا، ص ۳۱۱             ۵- ایضاً ، جلد۱، محولہ بالا، ص ۳۱۴

۶-         ایضاً ، جلد۱، محولہ بالا، ص ۳۱۳

۷-         ایضاً ، جلدسوم میں یہ نام آیا ہے لیکن اوّل اور دوم کی طرف رجوع کا مشورہ ہے۔ دیکھیے: ج۱، ۲، محولہ بالا، ص ۳۰۹-۳۲۹

۸-         Towards Understanding the Quran جلد۱، ۲، ص ۳۱۵-۳۲۵، جلد سوم میں نام ہے لیکن اوّل دوم کی طرف رجوع کا مشورہ ہے۔

۹-         Towards Understanding the Quran جلد۱، ۲، ص ۳۱۴-۳۲۴، جلد سوم میں ان کا تذکرہ نہیں ہے۔

۱۰-       Towards Understanding the Quran جلد۱، البقرہ، حاشیہ ۱۳۳،ص ۱۱۵۔ اس طرح البقرۃ، حاشیہ ۳۰۲ میں بخاری، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ کے ابواب اور صفحات کا حوالہ پیش کرتے ہیں۔

۱۱-       Towards Understanding the Quran جلد۱، ص ۱۲۵                   ۱۲- ایضاً

۱۳-       Towards Understanding the Quran ، Foreword، محولہ بالا، جلد۱، اسلامک فاؤنڈیشن، یوکے، ص xvii ، xvi

۱۴-       Towards Understanding the Quran جلد۱، محولہ بالا ،عرض مترجم

گذشتہ دنوں بنگلہ دیش نے نام نہاد ’انٹرنیشنل وار کرائمز ٹریبونل ایکٹ‘ کے تحت مزید ۱۳؍افراد کو ۱۹۷۱ء میں مبینہ جنگی جرائم کے الزامات کے تحت حراست میں لیا ہے۔ یادرہے اپنے قیام سے ہی یہ ٹریبونل سنگین نوعیت کی بے ضابطگیوں اور عدالتی عمل کے ذریعے سیاسی انتقام کی وجہ سے بین الاقوامی برادری خصوصاً انسانی حقوق کی تنظیمات کی طرف سے تنقید کی زد میں ہے۔ اس ضمن میں بنگلہ دیشی حکومت کا یہ دعویٰ رہا ہے کہ مبینہ ’’جنگی جرائم کی عدالت،آج ۴۰سال گزرجانے کے بعد ۱۹۷۱ء کی جنگ کے متاثرین کو انصاف مہیا کررہی ہے‘‘۔ اس تناظر میں یہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ ٹریبونل کے تاریخی پس منظر پر کچھ روشنی ڈالی جائے، جس سے یہ واضح ہوگا کہ مذکورہ ٹریبونل اور اس کا خصوصی قانون بنگلہ دیش کی تاریخ کے مختلف ادوار میں ایک سیاسی اور سفارتی ہتھیار کے طور پر استعمال ہوتے رہے ہیں اور مذکورہ عدالت بھی اسی سیاسی عمل کی ایک کڑی ہے، جس کا حقیقی انصاف اور اصول قانون سے دُور دُور تک واسطہ نہیں۔

جنگی جرائم کی عدالتیں قائم کرنے کی سب سے پہلی کوشش سقوط ڈھاکہ کے فوراً بعد شیخ مجیب الرحمان نے اقتدار میں آتے ہی کی تھی اور ابتدائی طور پر دو سطح کی عدالتیں قائم کی گئی تھیں۔ پہلی سطح کی عدالت مقامی افراد کے خلاف مقدمات کے لیے،جب کہ دوسری سطح کی عدالت کا مقصدپاکستانی قیدیوں کے خلاف جنگی جرائم کے مقدمات قائم کرنا تھا۔لہٰذا، ۲۴ جنوری ۱۹۷۲ء کو پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر ایک صدارتی حکم نامے کے ذریعے بنگلہ دیش کولیبوریٹرز آرڈر ۱۹۷۲ء کے قانون کا اجرا کیا گیا۔ اس قانون کا واحد مقصد مقامی (غیر فوجی) افراد کے خلاف جنگی جرائم کے مقدمات قائم کرنا تھا۔ اس ضمن میں ۷۳ خصوصی عدالتیں قائم کی گئیں، جن کا مقصد پاکستانی انتظامیہ کی معاونت کرنے والے افراد کو سزائیں سنانا تھا۔ اس قانون کے تحت ۴۰ہزار افراد کو جنگی جرائم میں ملوث ہونے کے الزام میں گرفتار کیا گیا، جن میں سے ۲۰ ہزار کے خلاف باقاعدہ چالان پیش کرکے انھیں حراست میں لیا گیا اور ان۲۰ ہزار میں سے ۷۵۲ کو مجرم قرار دیا گیا، لیکن ۳۰نومبر ۱۹۷۳ء کو شیخ مجیب الرحمان کی جانب سے عام معافی کے اعلان کے بعد ان کو بغیر کسی سزا کے رہا کردیا گیا۔ بعد ازاں ۳۱دسمبر ۱۹۷۵ کو جنرل ضیاءالرحمان نے کولیبوریٹرز آرڈ قانون کو ہی منسوخ کردیا۔ یہاں ایک نکتہ خصوصی توجہ کا متقاضی ہے کہ آج سنہ ۲۰۱۰ء سے ۲۰۲۰ء کے دوران شیخ حسینہ واجد کے اقتدار میں چلنے والی عدالت سے سزایافتہ یا گرفتار افراد میں سے ،ایک فرد بھی ۱۹۷۲ء میں گرفتار کیے گئے ۲۰ہزار مشتبہ افراد میں شامل نہیں تھا۔

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت کی نوزائیدہ بنگلہ دیشی حکومت کو جنگی جرائم کے مقدمات چلانے کے لیے درکار خصوصی مہارت اور بین الاقوامی قانون کی پیچیدگیوں پر اپنی کم مائیگی کا احساس تھا۔ اس تناظر میں اس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ شیخ مجیب الرحمان بذات خود جنگی جرائم کے مقدمات چلانے میں دل چسپی نہیں رکھتے تھے بلکہ وہ ان خصوصی عدالتوں اور قوانین کو پاکستان سے بنگلہ دیش کو علیحدہ ملک تسلیم کروانے کے لیے صرف ایک سفارتی حربے کے طور پر استعمال کررہے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ہندستان، پاکستان اور بنگلہ دیش کےدرمیان ہونے والے سہ فریقی معاہدے کے فوراً بعد انھوں نے بنگلہ دیش میں عام معافی کا اعلان کردیا۔

عام معافی کے اعلان سے قبل ہی، بنگلہ دیشی حکومت نے مکتی باہنی کے تحت لڑنے والوں کے لیے خصوصی استثنا کا قانون بنگلہ دیش نیشنل لبریشن سٹرگل انڈیمنٹی آرڈر ۱۹۷۳ء پاس کردیا تھا۔ انڈیمنٹی آرڈر کے آرٹیکل ۲ کے تحت، ۱۹۷۱ء کے دوران مکتی باہنی کی طرف سے کیے جانے والے تمام جنگی جرائم اور بہیمانہ تشدد کو آزادی کی جدوجہد کا عنوان دے کر خصوصی استثنا دیتے ہوئے مکمل جائز قرار دیا گیا۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ جن جن جنگی جرائم کو انڈیمنٹی آرڈر کے تحت مکتی باہنی کے لیے جائز قرار دیا گیا بعینہ انھی جرائم کے الزامات لگا کر آج اپنے سیاسی مخالفین کو سزائیں سنائی جارہی ہیں۔ اس کھلے تضاد پر ممتاز برطانوی انسانی حقوق کے کارکن مسٹر جیفری رابرٹسن نے بالکل صحیح تبصرہ کیا ہے:

یہ دوہری قانونی بنیادوں پر مبنی ہے، جو حالیہ مقدمات کی کارروائی میں پوری طرح نمایاں ہیں، یعنی ’فاتح کا انصاف‘۔ جو تاریخ کے دائیں جانب ہیں ان کے جنگی جرائم کو معاف کر دیا جائے گا، جب کہ وہ جنھوں نے ایک متحدہ پاکستان کے لیے لڑائی لڑی ان کے ساتھ غداروں کی طرح سلوک کیا جائے گا۔

۷۰ کے عشرے کے اوائل میں بنگلہ دیش میں جنگی جرائم کے حوالے سے قانون سازی اور منسوخی کا کھیل جاری رہا، حتیٰ کہ ۲۰ جولائی ۱۹۷۳ کو بنگلہ دیشی پارلیمنٹ کے ذریعے پہلی دفعہ انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل ایکٹ ۱۹۷۳ء کا اجرا عمل میں آیا۔ اس قانون کا مقصد ۱۹۵ پاکستانی فوجیوں پر باقاعدہ مقدمات قائم کرنا تھا۔ اس قانون پر فوجداری قانون اور قانون شہادت کے اصول و ضوابط کا اطلاق ممکن نہیں تھا ۔

 ۱۹۷۴ء میں ہونے والے سہ فریقی معاہدے (شملہ معاہدے) کے تحت طرفین نے ایک سیاسی و قانونی سمجھوتا کیا۔ لہٰذا ایک طرف تو پاکستان نے مذکورہ معاہدے کے بعد بنگلہ دیش کو باقاعدہ علیحدہ آزاد ریاست تسلیم کیا تو دوسری طرف بنگلہ دیش نے بھی ان ۱۹۵قیدیوں کے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہیں کی اور بعد ازاں جنگی قیدیوں کا تبادلہ عمل میں آیا۔

چار عشروں کے بعد ۲۰۰۹ء میں عوامی لیگ کی حکومت نے ایک دفعہ پھر سے عوامی جذبات پر سیاست کرتے ہوئے جنگی جرائم کی عدالتوں کا احیا کیا، جن کے تحت سزائیں اور گرفتاریاں ابھی تک جاری ہیں۔ ان عدالتوں کا قیام روزِ اول سے ہی سیاسی اور سفارتی دباؤ  ڈالنے کے لیے عمل میں لایا گیا تھا۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ۱۹۷۳ء میں یہ دباؤ خارجی سطح پر ایک سفارتی حربے کے طور پر استعمال کیا گیا اور آج حسینہ واجد داخلی سیاسی محاذ پر اس کا استعمال کررہی ہیں۔

جموں و کشمیر کا دور افتادوہ اور پس ماندہ خِطّۂ لداخ، جہاں اس وقت چینی اور بھارتی فوج برسرِپیکار ہے، ایک صدی قبل تک خاصا متمول علاقہ تھا۔ متحدہ ہندستان ، تبت، چین ، ترکستان و وسط ایشیا کی ایک اہم گزرگاہ ہوا کرتا تھا۔ خوب صورت ارضیاتی خدو خال، حد نگاہ تک بلندوبالا پہاڑ، کھلے میدان۔ یہ خطہ بہت حد تک پاکستانی صوبہ بلوچستان سے مماثلت رکھتا ہے۔ اگست ۲۰۱۹ء میں بھارت نے اس خطے کو جموں و کشمیرسے الگ کرکے مرکز کے زیر انتظام ایک علاقہ قرار دے ڈالا۔

دو ضلعوں لہیہ اور کرگل پر مشتمل اس خطے کا رقبہ ۸۷ہزار ۲سو ۹۷ مربع کلومیٹر ہے۔ اکسائی چن علاقہ کے چین کے زیر انتظام ہونے کی وجہ سے اصل رقبہ صرف ۳۲ ہزار ایک سو ۸۵ مربع کلومیٹر ہی ہے۔ یہ عجیب بات ہے کہ پاکستان کے بھی اکثر صحافی اور دانش ور اس خطے کو بودھ مت کے ماننے والوں کا علاقہ قرار دیتے ہیں، حالانکہ ۲۰۱۱ء میں بھارتی حکومت کی مردم شماری کے مطابق اس خطے کی ۲لاکھ ۷۴ہزار ۲سو ۸۹ کی آبادی میں ۴۶ء۴۰ فی صد مسلمان اور ۳۶ء۶۵ فی صد بودھ مت کے پیروکار ہیں۔لہیہ ضلع میں بودھ آبادی ۶۶ء۳۹ فی صد ہے،مگر اس ضلعے میں بھی ۲۵مسلم اکثریتی گاؤں ہیں۔یعنی خطّۂ لداخ میں مجموعی طورپر مسلمان ۴۶ فی صد اور بودھ ۳۹ فی صد ہیں۔ ۲۰۱۱ء کی

اس خطے کے نام وَر تاریخ دان عبدالغنی شیخ کے مطابق، یہ علاقہ ایک صدی قبل تک دنیا سے اس قدر جڑا تھا کہ ترکی یہاں کی دوسری زبان تھی۔ ۱۹ویں صدی میں اور ۲۰ویں صدی کے اوائل تک یہ علاقہ برطانیہ، چین اور روس کی چپقلش کا مرکز رہا۔ تاجروں، سیاحوں، جاسوسوں اور سپاہیوں کے لیے ترکستان، یعنی سنکیانگ کے شہروں یارقند، خوتان اور کاشغر کے سفر کے لیے لداخ ایک اہم زمینی رابطہ تھا۔ لیہہ شہر میں بودھ خانقاہ نمگیال سیموگمپا، یا تاریخی جامع مسجد کی سیڑھیوں پر بیٹھے معمر افراد ترکستان کو یاد کرتے ہیں، اور یارقند، کاشغر یا تبت کے دارالحکومت لہاسہ، گلگت، بلتستان، ہنزہ و چترال کی بہت سی کہانیاں سنائے بغیر نہیں جانے دیتے۔ لہیہ کے بازار میں ایک معمر لداخی نے مجھے بتایا تھا کہ ہم عذابِ الٰہی کے شکار ہیں،کیونکہ ہمارے بزرگوں نے نعمتوں کی قدر نہیں کی۔

لداخی محقق ریچن ڈولما کے مطابق: ’’کشمیر کی طرح لداخ بھی ۲۰ویں صدی میں وقوع پذیر سیاسی واقعات کی وجہ سے دنیا سے الگ تھلگ ہو کر رہ گیا ہے۔ اس خطے کی بقا ، ترقی ، اور عظمت رفتہ کی بحالی کا دارومدار قراقرم کے بند درّوں کو دوبارہ تجارت اور راہداری کے لیے کھولنے میں ہی مضمر ہے‘‘۔ قدیم شاہراہ ریشم کی ایک شاخ اس خطے سے ہوکر گزرتی تھی۔ چین کے ہاتھوں ۱۹۴۹ء میں مشرقی ترکستان، یعنی سنکیانگ اور پھر ۱۹۵۰ءمیں  تبت پر قبضے کے بعد آہنی دیوار کھڑی کرنے سے یہ راہداریاں بند ہوگئیں۔ مگر سب سے زیادہ نقصان ۱۹۴۷ء میں تقسیم ہند اور تنازع کشمیر کی وجہ سے اس خطے میں پیدا ہوئی کشیدگی کی وجہ سے ہوا۔

۱۹۶۲ءکی بھارت چین جنگ سمیت، یہ خِطّہ پانچ جنگوں کے زخم کھا چکا ہے۔۔بھارت کی پاکستان اور چین کے ساتھ چپقلش نے اس پورے خطے کے تاریخی رابطے منقطع کرکے اس کو غربت اور افلاس کی گہرائی میں دھکیل دیا ہے۔ جمو ں و کشمیر کے ایک محقق سلیم بیگ کا کہنا ہے کہ: کشیدگی اور سیاسی واقعات نے اس خطے کو دنیا سے کاٹ کر رکھ دیا۔ اس خطے میں سرکاری ملازم اپنے تقرر کو سزا تصور کرتے ہیں۔ نویں صدی کی ا یک فارسی قلمی دستاویز حدود عالم کے مطابق وسط ایشیا کے حاجی لداخ کے راستے مقدس سفر پر جاتے تھے۔  ان روابط کی وجہ سے ترک زبان رابطے کے ایک ذریعے کے طور پر رائج ہوگئی تھی۔ خود لداخی زبان میں کئی ترک الفاظ داخل ہوگئے ۔ ترک تاجروں نے لداخ میں سکونت اختیار کرکے کشمیری اور لداخی عورتوں سے شادیا ں کی۔ ان کی نسل کو ’آرغون‘ کہتے ہیں۔ دیگر نسلوں میں یہاں مون، منگول اور درد (Dardic)قابلِ ذکر ہیں۔

گذشتہ صدی کے آخری عشرے تک لداخ میں مسلم اور بودھ آبادی میں خاصا باہمی میل جول تھا۔ مذہبی نفرت کا کوئی نام و نشان نہیں تھا۔مسلمان نام بھی مقامی رنگ لیے ہوتے تھے۔ مغل دور میں لداخ کے باج گزار نمگیال خاندان کے فرماں روا خطوط و سکوں پر محمود شاہ یا اسی طرح کے مسلمان ناموں سے اپنے آپ کو کہلوانا پسند کرتے تھے۔ لداخی بودھ البتہ ڈوگرہ ہندوؤں سے خلش رکھتے تھے۔ وہ یہ بھول نہیں سکتے تھے کہ جب ۱۸۴۱ءمیں ڈوگرہ جنرل زور آور سنگھ نے لداخ پر فوج کشی کی، تو ان کی عبادت گاہوں کو اصطبل بناکر ان کی بے حرمتی کی گئی۔ مگر جو ں جوں بھارتی سیاست کے عناصر لداخ میں جڑ پکڑتے گئے، دونوں مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان محاذ آرائی بھی شروع ہوگئی۔ بودھوں کو بتایا گیا کہ ان کی پس ماندگی کی وجہ سرینگر کے حکمران ہیں۔ چونکہ پوری ریاست میں ان کی آبادی سکھوں سے بھی کم تھی، تو ان کا مجموعی سیاسی وزن بھی کم تھا۔

۱۹۹۰ء کے اوائل میں یہاں کی بودھ آبادی نے اس خطے کو کشمیر سے الگ کرکے نئی دہلی کا زیر انتظام علاقہ بنانے کے لیے احتجاج بھی شروع کیا تھا، اور مسلمانوں نے اس کی جم کر مخالفت کی تھی۔ اس کے رد عمل میں بودھ تنظیموں نے مسلمانوں کے سوشل بائیکاٹ کی کال دی ، جو ۱۹۹۴ءتک جاری رہا۔ ۱۹۹۴ءمیں جب کشمیر میں گور نر راج نافذ تھا، تو گفت و شنید کے بعد لداخ پہاڑی ترقیاتی کونسل تشکیل دی گئی۔ اس کو بجٹ بنانے کا اختیار دے کر مقامی انتظامیہ کو اس کے ماتحت کردیا گیا۔ بعدازاں ۲۰۰۳ء میں بھارتی کنٹرول میں جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ مفتی محمد سعید نے قریب کے مسلم اکثریتی کرگل ضلع کے لیے بھی اسی طرح کی کونسل کی منظوری دے دی۔ ۲۰۱۲ء میں اس ضلع کے بودھ اکثریتی تحصیل زنسکار میں بودھ آبادی نے مسلمانوں کے مکانوں و دکانوں پر دھاوا بول دیا۔ وجہ یہ تھی کہ بودھ فرقہ کے ۲۲؍افراد مشرف بہ اسلام ہوگئے تھے۔ ہندو مت کی طرح لداخی بودھوں میں بھی ذات پات کا عنصر سرایت کر گیا ہے۔ اس لیے نچلی ذات کے بودھ خاصے نالاں رہتے ہیں۔ زنسکار بودھ ایسوسی ایشن نے اس واقعے کے بعد عرصے تک مسلمانوں کا سماجی بائیکاٹ کردیا۔ اگر کوئی بودھ کسی مسلم تاجر سے کوئی بھی چیز خریدتا ہو ا پایا جاتا تو اس پر باقاعدہ جرمانہ عائد ہوجاتا تھا۔

لداخ کا خِطہ کئی عجیب و غریب رسم و رواج کی وجہ سے بھی خاصا مشہور ہے، مگر آہستہ آہستہ وہ اب معدوم ہوتے جارہے ہیں۔ کئی مؤرخوں نے درد نسل کو اصل اور مستند ’ہندآرین نسل‘ قرار دیا ہے۔ ۱۹۷۹ءمیں دو جرمن خواتین کو اس خطے میں چند ممنوعہ علاقوں میں گھومنے کی پاداش میں گرفتار کیا گیا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ یہ خواتین مرد ساتھیوں کی تلاش میں تھیں، تاکہ اصیل آرین نسل پیدا کر سکیں۔ اس علاقے میں کئی دیہاتوں میں آج تک ایک عورت کے کئی شوہر ہوتے ہیں، اگرچہ اس رسم پر ۱۹۵۰ءسے قانونی طور پر پابندی لگائی جا چکی ہے۔ اکثر ایک خاندان میں دو بھائیوں کی مشترکہ بیوی ہوتی ہے، تاکہ زرعی زمین کی تقسیم روکی جاسکے۔ پورے خطے میں زرعی زمین کا رقبہ محض ۶۲۰مربع کلومیٹر ہے۔کئی دیگر رسوم بودھ کلچر کا حصہ ہیں۔ نوبرہ تحصیل کے نمبردار زیرنگ نمگیال کے مطابق: ’’اکثر خاندان سب سے چھوٹے بیٹے کو لاما بنانے کے لیے خانقاہ بھیجتے ہیں۔ لاما، لداخیوںکی زندگی کا اہم جز ہوتا ہے۔ تقریباً سبھی دیہاتوں میں ایک یا دو بودھ خانقاہیں موجود ہیں، جن کا انتظام و انصرام لاماؤں کے سپرد ہوتا ہے‘‘۔

خطے کے روابط منقطع ہونے کا سب سے زیادہ نقصان مسلم اکثریتی کرگل ضلع کو اٹھانا پڑا۔ اس کے علاوہ بھارت اورپاکستان جنگوں میں اس ضلع کے کئی دیہات کبھی ادھر تو کبھی ادھر چلے آتے تھے۔ ۱۹۹۹ءکی کرگل جنگ کے بعد جب لداخ کے پہلے کور کمانڈر جنرل ارجن رائے کی ایما پر دیہات کی سرکاری طور پر پیمایش وغیرہ کی گئی، تو معلوم ہوا کہ ترتک علاقے کے کئی دیہات تو سرکاری ریکارڈ ہی میں نہیں ہیں۔ اس لیے ۲۰۰۱ءکی مردم شماری میں پہلی بار معلوم ہوا کہ لداخ خطے میں مسلم آبادی کا تناسب ۴۷ فی صد ہے اور بودھ آبادی سے زیاد ہ ہے۔ ورنہ اس سے قبل اس خطے کو بودھ اکثریتی علاقہ مانا جاتا تھا اور اکثر لکھنے والے ابھی تک پرانے اعداد شمار کو ہی استعمال کرتے ہیں۔ کرگل اسکردو تحصیل کا حصہ ہوتا تھا۔ اس لیے یہاں کی زمینوں و جایداد کے ریکارڈ ابھی بھی اسکردو کے محافظ خانے میں موجود ہیں۔ کسی عدالتی مقدمے یا تنازع کی صورت میں ابھی بھی ریکارڈ اسکردو سے ہی منگوایا جاتا ہے۔

لداخ کو زمینی طور پر باقی دنیا سے ملانے والے دو راستے، سرینگر کی طرف زوجیلا درہ اور ہماچل پردیش کی طرف روہتانگ درہ چھے ماہ کے لیے بند ہوجاتے ہیں۔ کرگل اور اسکردو کے درمیان ۱۹۲کلومیٹر کا فاصلہ ہے اور یہ پورا سال کھلا رہتا تھا۔ نوبرہ میں کھردنگلہ کے مقام سے کاشغر ، خوتان اور یارقند کو جانے والے راستے بھی مسافروںاور قافلوں کا پچھلے کئی عشروں سے انتظار کر رہے ہیں۔ مقامی دانش ور حاجی عبدالرزاق کا کہنا ہے: ’’ان کے والد اکثر یارقند اور کاشغر تجارت کی غرض سے جاتے تھے۔ نوبرا وادی میں وسط ایشیا اور دشت گوبی کی پہچان، یعنی دو اُونٹ کوہان والے ملتے ہیں، گو کہ ان کی آبادی اب خاصی کم ہو گئی ہے‘‘۔ چند برس قبل سلیم بیگ ، عبدالغنی شیخ اور لیہہ میں مقیم کئی احباب نے تاریخی سا سوما مسجد کی تجدید و تزوین کرکے اس سے متصل تین منزلہ میوزیم بنایا۔ یہ میوزیم اس خطے کے ترکستان اور وسط ایشیا کے درمیان تاریخی روابط کا امین ہے۔ ترک آرغون خاندانوں نے نوادرات و مخطوطات کا ایک خاصا بڑا ذخیرہ اس میوزیم کی نذر کیا۔ قدیمی یارقندی قالین، اور کئی مخطوطات جامع مسجد سے یہاں منتقل کیے گئے۔ ۱۷ویں صدی میں جب اس مسجد کی تعمیر کی گئی تھی، تب بودھو ں کی سب سے مقدس خانقاہ ہمپس خانقاہ کے ہیڈ لاما ستساگ راسپا نے لکڑی کی ایک چھڑی مسجد کے امام صاحب کی نذر کی، جو مسجد کے اندر ہی ایک فریم میں رکھی گئی تھی۔ مسجد کا فرش ترک تاجروں نے فراہم کیاتھا۔

فی الوقت چینی اور بھارتی فوجوں کے درمیان کش مکش کا مرکز گلوان وادی بھی ایک   ترک آرغون غلام رسول گلوان [م: ۱۳مارچ ۱۹۲۵ء] کے نام سے موسوم ہے، جو ۱۸۹۲ءمیں ایرل آف ڈیمور [مصنّف:  The Pamir] کی قیادت میں سیاحوں کے قافلے کی رہنمائی کررہے تھے ،مگر یہ قافلہ برفانی طوفان میں بھٹک گیا تھا۔ اپنی کتاب لداخ: تہذیب و ثقافت [ناشر: کریسنٹ ہاؤس پبلی کیشنز، جموں، ۲۰۰۵ء، ضخامت:۵۱۴] میں عبدالغنی شیخ لکھتے ہیں کہ: گلوان نے متبادل راستے کو دریافت کرکے اس قافلہ کو صحیح وسلامت منزل تک پہنچایا۔ ایرل آف ڈیمور نے اس وادی کو گلوان کے نام سے موسوم کیا۔ اسی طرح دولت بیگ الدائی کا وسیع و عریض میدان ترک سردار سلطا ن سعید خان المعروف دولت بیگ کے نام سے موسوم ہے۔ ۱۶ویں صدی میں لداخ اور کشمیرپر فوج کشی کے بعد سعید خان کا قافلہ واپس یارقند جا رہا تھا، تو وہ برفانی طوفان میں گھر کر ہلاک ہوگیا۔ تین صدی بعد جب برطانوی زمین پیما اور نقشہ ساز جنرل والٹر رویر لارنس [م:۱۹۴۰ء] اس علاقے میں پہنچا ، تو وہا ں انسانی اور جانوروں کی ہڈیاں بکھری ہوئی دیکھیں۔ اس کو بتایا گیا کہ یہ اولدی قبیلہ کے دولت بیگ اور اس کے قافلہ کی باقیات ہیں، تو اس نے ریکارڈ میں اس میدان کا نام ’دولت بیگ اولدی‘ درج کردیا۔

افغانستان کی طرح یہ خطّہ بھی عالمی طاقتوں کی کش مکش یعنی ’گریٹ گیم‘ کا شکار رہا ہے۔ مغلوں اور پھر برطانوی حکومت نے لداخ پر بر اہِ راست عمل داری کے بجائے اس کو ایک بفرعلاقہ کے طور پر استعمال کیا۔ ۱۸۷۲ءکو ڈوگرہ مہاراجا رنبیر سنگھ نے گوالیار اور نیپال کے حکمرانوں کو ساتھ ملاکر زار روس الیگزنڈر دوم کو خط لکھ کر ہندستان پر حملہ کرنے کی دعوت دی، اور زار روس کو یقین دلایا کہ اس حملے کی صورت میں سبھی ریاستیں برطانوی راج کے خلاف روسی فوج کا ساتھ دیں گی۔ یہ خط فرغانہ کے روسی گورنر کے ذریعے سے زار روس کو بھیجا گیا تھا، مگر فرغانہ میں اس خط کی تفصیلات برطانوی جاسوسوں کے ہتھے چڑھ گئیں ۔ برطانوی حکومت نے مہاراجا رنبیر سنگھ کو سبق سکھاتے ہوئے، لداخ میں اپنا ایک مستقل نمایندہ مقرر کردیا۔ ساتھ ہی ریاستوں کے حکمرانوں پر بھی غیرممالک کے ساتھ سفارتی تعلقات پر پابندی عائد کردی گئی۔ عبدالغنی شیخ کے بقول زار روس نے اپنے جواب میں لکھا تھا کہ وہ فی الحال ابھی ترکی کے ساتھ بر سر پیکار ہونے کی تیاری کر رہا ہے۔ استنبول فتح کرنے کے بعد وہ ہندستان کا رخ کرے گا۔ ۱۸۷۷ءمیں روس نے ترکی سے جنگ چھیڑدی،  جس کے نتیجے میں بلغاریہ، رومانیہ، سربیا اور مونٹی نیگرو، عثمانی ترک سلطنت کے ہاتھ سے نکل گئے۔تاہم، زار کا استنبول پہنچنا خواب ہی رہا۔

 خطے میں مسلمانوں اور بودھ مت کے پیروکاروں کے درمیان وہ اب پہلی سی اُلفت نہیں رہی، مگر ماضی اور عظمت رفتہ کی یادیں قدرے مشترک ہیں۔ یہاں کی پوری آبادی الگ تھلگ اور ایک کونے میں زندگی گزارنے سے عاجز آچکی ہے۔ چند ماہ قبل جب لداخ کو کشمیر سے بھارت نے الگ کیا ، تو سرکاری ملازمت اور پولیس میں لداخ کے مکینوں کو لیہہ اور کرگل پوسٹنگ کے لیے بھیجا گیا،لیکن تقریباً سبھی نے جانے سے انکار کردیا۔ انتظامیہ نے زبردستی کرکے انھیں مرکز کے زیرانتظام علاقے کے ملازمین میں شامل کیا ہے۔ لداخی محقق ڈولما کے مطابق بھارت، چین اور پاکستان لداخ کی تزویراتی افادیت کو تسلیم تو کرتے ہیں، مگر فوجی نقطۂ نظر سے آگے نہیں دیکھ پاتے۔ اللہ کرے کہ مسئلہ کشمیر کا کوئی پُرامن حل تلاش کیا جائے، تاکہ اس خطے کو کشیدگی سے نجات حاصل ہو اور یہ ایک بار پھر مسکراہٹوں اور آسودگی کا گہوارہ بنے۔

۷۰ سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے کہ اہلِ کشمیر بھارتی حکومت کے زیر انتظام کشمیر میں اپنی آبادی اور خصوصی حیثیت کی تبدیلی کے خوف کے تحت زندگی بسر کر رہے ہیں۔ وہی جموں اور کشمیر جو چند سال پہلے تک خصوصی درجہ رکھنے والی ریاست تھی، اور کشمیری جو مدت تک متعصبانہ خوف کے تحت زندگی گزار رہے تھے، ان کے لیے یہ اضطراب اب اور بھی گہرا ہوچکا ہے۔

۵؍اگست ، ۲۰۱۹ء کو ، بھارتی دستور کی دفعہ ۳۷۰، جس نے ریاست کو خصوصی حیثیت دی تھی، اسے مختلف آئینی شقوں کے اطلاق سے خارج کر کے منسوخ کردیا گیا ، جب کہ دفعہ ۳۵- اے، جس نے مقامی آبادی کے لیے رہایش کے کچھ مخصوص حقوق محفوظ کر رکھے تھے، اس تحفظ اور بقا کے سارے انتظامات کو بھی ملیامیٹ کردیا گیا ہے۔

ان دونوں دفعات نے اس بات کی ضمانت دی تھی کہ زمین خریدنے اور اس کے مالکانہ حقوق لینے یا سرکاری ملازمتوں کے لیے درخواست دینے کا حق صرف ان لوگوں کا ہے، جو مستقل طور پر نسل در نسل یہاں پر مستقل رہایش پذیر چلے آرہے تھے۔ ان قوانین کا مطلب یہ بھی تھا کہ جموں و کشمیر سے باہر لوگوں پر کاروباری سرمایہ کاری پر پابندی لگائی جائے یا جموں و کشمیر کی اراضی اور معیشت پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے بڑی اجارہ دار کمپنیوں کی کوششوں پر پابندی لگائی جائے۔ یہ سب کشمیریوں کے حقوق کے تحفظ ،اور انھیں ایک مخصوص سطح کی سیاسی اور معاشی خودمختاری کا حق دار بنانے کے لیے کیا گیا تھا۔

اکتوبر۲۰۱۹ء میں ، جموں و کشمیر کی ریاست کو عملی طور پر تحلیل کردیا گیا ، جس کا مطلب یہ تھا کہ اب اس کی ریاستی اسمبلی سے قانون سازی کا اختیار ختم کر دیا گیا ہے ،اسے نئی دہلی حکومت کے تحت براہِ راست جموں اور کشمیر اور لداخ میں تقسیم کردیا گیا ہے۔اس فیصلے کے نفاذ سے پہلے تک جموں و کشمیر، بھارت سے وابستہ واحد مسلم اکثریتی ریاست تھی۔

۳۷۰ اور ۳۵-اے دفعات کو منسوخ کرنے اور ریاست کے طور پر اس کی حیثیت کے خاتمے سے قبل، یہ خطہ مکمل طور پر متحد تھا ۔مگر اب یہاں بسنے والوں کی حقیقی بے اختیاری جلد ہی محسوس ہونا شروع ہوگئی ہے، جو خصوصی مقامی شناخت کے ضائع ہونے سے کہیں زیادہ بڑا اور گہرا صدمہ ہے۔ ریاستی مقننہ میں شمولیت کے آئینی تقاضے کو پورا کیے بغیر ، چوری اور دھوکا دہی کے ذریعے دفعہ ۳۷۰ کو منسوخ کرنا اور سابقہ ریاست کا خاتمہ، ماہرین قانون کی نظر میں یک سر ناجائز عمل ہے۔ بھارتی عدالت عظمیٰ میں ۵؍اگست ۲۰۱۹ء کے اس اقدام کو چیلنج کرنے والی درخواستیں زیرسماعت ہیں، اور سپریم کورٹ ان کی سماعت متعدد بار ملتوی کرتا چلا آرہا ہے۔

 ہم دیکھتے ہیں کہ۳۱مارچ ۲۰۲۰ءکو رات گئے، بھارتی حکومت نے جموں و کشمیر کے لیے باضابطہ طور پر ایک ’نئے ڈومیسائل کی حکمرانی‘ کا اعلان کیا تو جان لینا چاہیے کہ اس کے نتیجے میں مستقبل میں کیا ہوگا؟مختصر لفظوں میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ یہ ایسی تفصیلات ہیں جن کا تعلق ’شیطان‘ سے ہے۔

جموں و کشمیر کی ’تنظیم نو‘ کے نام پر ریاستی قوانین اور احکامات نامی نوٹیفکیشن کے مطابق، کوئی بھی فرد جو ۱۵ سال تک جموں و کشمیر میں کسی بھی حوالے سے مقیم رہا ہے یا اس علاقے میں سات سال تک تعلیم حاصل کرچکا ہے ، اور کلاس ۱۰ یا کلاس ۱۲ کے امتحان میں حاضر ہوا ہے ، اسے یہاں پر رہایشی حقوق حاصل ہوں گے، اور وہ مختلف سرکاری ملازمتوں کے لیے اہل ہوگا۔

اس نوٹیفکیشن کا وقت ، بھارت نے کورونا (COVID-19 ) پر قابو پانے کے لیے ملک بھر میں لاک ڈاؤن کا اعلان کرنے کے صرف ایک ہفتے کے اندر کیا، جو وقت، طریق کار ، مقصد کے اعتبار سے بہت ہی عجیب حرکت ہے۔ اگرچہ بھارت کے دیگر حصوں میں یہ لاک ڈاؤن وائرس کے خلاف جنگ میں حفاظتی اقدام ہے ، لیکن کشمیر میں اس نے بالکل ہی مختلف معنی اختیار کرلیے ہیں، جو درحقیقت لاک ڈاؤن کے اندر ایک بھیانک لاک ڈاؤن تھا۔ ایسا لاک ڈاؤن جو ۵؍ اگست ۲۰۱۹ء سے پہلے ہی موجود تھا۔

ریاست جموں و کشمیر کے نظامِ مواصلات کی مکمل طور پر ناکہ بندی سمیت فوج کے تحت، جموں و کشمیر پر ایک سخت جبری کنٹرول میں بھارتی حکومت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے اور مزید ذیلی یونٹوں میں تقسیم کرنے کی کارروائی کی۔ کشمیر میں اب تک تاریخ کی طویل ترین شہری بندشوں کا مقصد، عوامی غم و غصے کو ختم کرنے کے مقاصد حاصل کرنا ہے اور اس بات کو بھی یقینی بنانا ہے کہ یہاں پر رہنے والے مظلوموں کے یہ دُکھ درد کسی گہرے اندھے سیاہ کنویں میں دفن ہوجائیں، اور ان لوگوں کی کوئی چیخ پکارباہر سنائی نہ دے۔

’نئے رہایشی‘ اور ’مالکانہ قوانین‘ کا نفاذ اگست ۲۰۱۹ء کے جموں و کشمیر میں لاک ڈاؤن کے غیرآئینی ، غیرجمہوری اور اخلاقی طور پر غلط لاک ڈاؤن کا تسلسل ہے۔ لیکن اب وہی جبری اقدام کشمیر میں بھارت کی حکمت عملی کا بنیادی اصول بن گیا ہے، جس میں دکھاوے کی بھی کوئی پابندی نہیں رہی۔ اگر کشمیر میں پہلا لاک ڈاؤن اس کی خصوصی حیثیت اور تحفظ سے محروم ہونے پر عوامی شور و غل کو روکنے میں کامیاب رہا، تو دوسرے لاک ڈاؤن سے بھارتی حکومت اپنے بڑے ایجنڈے کے تحت  جو کچھ کرنا چاہتی ہے ،اس کا نقشہ بچھانے کے لیے یہ ایک بڑا قدم ہے۔

نئے رہایشی اور مالکانہ قوانین کے نفاذ نے، خاص طور پر جموں و کشمیر کے نوجوانوں میں ، ان کی نسلی اور مذہبی شناخت کو بے وزن اور بے وقعت بنانے کا جو پیغام دیا ہے، اس کے نتیجے میں وہاں ہر مذہب اور قوم میں بے چینی پیدا ہوگئی ہے، کیونکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ مستقبل میں وہ سرکاری ملازمتوں سے محروم ہوجائیں گے۔ اس دوران میں یہاں متعدد بھرتیوں کا عمل روک دیا گیا ہے، جس نے بہت سے شکوک و شبہات کو جنم دیا ہے۔ گویا کہ یہ کام نئے قواعد کے تحت ڈومیسائل پر جموں و کشمیر سے باہر کے افراد کو بھی درخواست دینے کی اجازت دینے کے لیے جان بوجھ کر کیا گیا تھا۔

۲۷ فروری کو ،[بھارتی] حکام نے جموں اینڈ کشمیر بنک کی ڈیڑھ ہزار سے زائد ملازمتوں کے لیے بھرتی کے اس عمل کو ختم کردیا ، جو ۲۰۱۸ءسے جاری تھا ۔ اس طرح ان ہزاروں مقامی نوجوانوں کے معاشی مستقبل کو خطرے میں ڈال دیا گیا، جو اپنے ابتدائی امتحانات میں کامیابی کے بعد ملازمت ملنے کا انتظار کر رہے تھے۔ ۲جون ۲۰۲۰ء کو ، بنک نے ایک ہزار ۸سو ۵۰ ملازمتوں کے لیے اشتہارات دیے، جس میں نئے ڈومیسائلوں کی بنیاد پر بھی درخواستیں طلب کی گئی ہیں۔

وبائی امراض کے طوفان بیچ ، جب اسپتالوں کو بنیادی ڈھانچے کی تباہی اور عملے کی کمی کا سامنا ہے۔ حکومت نے ہندو اکثریتی خطے جموں، سری نگر اور کٹھوعہ ضلع میں سیکڑوں طبّی ملازمتوں کا  راستہ کھولا ہے۔ جو عارضی اور مستقل معاہدے کی پیش کش کرتا ہے۔

انتظامیہ ، تعلیم اور صحت کی دیکھ بھال کے مختلف شعبوں میں بھی بھرتی ، تقرر اور ترقی کے عمل کو بھی روک دیا گیا ہے، جس کے بعد جموں و کشمیر پبلک سروس کمیشن ، جو سول سروس میں بھرتیوں کا ذمہ دار ہے ، اسے ختم کردیا گیا ہے اور ایک نیا ضابطہ تشکیل دیا گیا ہے۔ریاست سے باہر کے لوگوں کے ہاتھوں ملازمت سے محروم ہونے کا خطرہ موجودہ سرکاری ملازمین کی بےچینیوں میں اضافے کے ساتھ ان کی تنخواہ ، ترقیوں ، وغیرہ سے متعلق قانونی چارہ جوئی کا ایک سلسلہ دراز کرتا ہے، جس کے دائرے میں ۳۰ہزار سے زیادہ مقدمات سامنے آ چکے ہیں۔

اس سال ۲۹؍اپریل کو جموں وکشمیر نے اپنا ریاستی وجود کھو دیا ہے، انجامِ کار ’انتظامی ٹریبونل ایکٹ ، ۱۹۸۵ء‘ کو جموں و کشمیر اور لداخ پر لاگو کر دیا گیا ہے۔ جون میں ، سنٹرل ایڈمنسٹریٹو ٹربیونل کے جموں بنچ کے قیام کا اعلان کیا گیا تھا جس میں جموں و کشمیر اور لداخ کے مرکزی علاقوں کا احاطہ کیا جائے گا۔ انتظامی بیوروکریسی میں مقامی لوگوں کو بُر ی طرح نظرانداز کیا گیا ہے یا انھیں ڈیپوٹیشن پر بھیج دیا گیا ہے۔ اس عمل نے لوگوں کے صدمے کو مزید بڑھا دیا ہے۔  دفعہ ۳۷۰ کی منسوخی کے بعد ،آج صورتِ حال یہ ہے کہ جموں و کشمیر انتظامیہ میں اعلیٰ بیوروکریٹک عہدوں کی اکثریت، ریاست جموں و کشمیرسے باہر کے لوگوں کے پاس ہے۔

ان نئے ’رہایشی حقوق‘ (ڈومیسائل)سے فوری طور پر فائدہ اٹھانے والے وہ ہزاروں ہندو اور سکھ مہاجرین بہت فائدے میں رہیں گے، جو ۱۹۴۷ء میں پاکستانی علاقوں سے آکر جموں شہر کے نواح میں آباد ہوگئے ہیں۔ ڈومیسائل سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کے قواعد چونکہ بہت حد تک نرم کردیے گئے ہیں ، لہٰذا ایسے لوگوں کی صحیح تعداد کا اندازہ لگانے کا کوئی معیار نہیں ہے جو اس سے بھرپور فائدہ اُٹھانے کی کوشش کریں۔

بھارت سے آنے والے ہزاروں بیوروکریٹوں اور نجی شعبے میں کام کرنے والوں نے گذشتہ ۷۰ سالوں میں جموں و کشمیر میں مطلوبہ ۱۵ سال سے زیادہ مدت گزاری ہے۔ اسی طرح بھارتی مسلح افواج کا ایک قابل ذکر حصہ جموں و کشمیر میں مرکوز چلا آرہا ہے اور بہت سے لوگوں نے سابقہ ریاست میں متعدد اوقات میں ملازمانہ خدمات انجام دے رکھی ہیں۔ ان حوالوں سے بہت سارے افراد بڑی آسانی سے ڈومیسائل کے نئے معیار کے تحت یہاں سکونتی حق حاصل کرنے کے اہل بن گئے ہیں۔

یہ صورتِ حال دیکھتے ہوئے امکان ہے کہ ایسے افراد کی تعداد میں ہر سال اضافہ ہوجائے گا۔ پھر تباہ شدہ نظام اور احتساب کی کمی کے پیش نظر ، باہر سے آکر فائدہ اٹھانے والوں کی جانچ پڑتال کا نظام بھی دریابرد ہے۔ اس طرح یہ معاملہ صرف ملازمتوں تک نہیں رُکے گا، بلکہ یہاں زمین کی ملکیت اور کاروباری سرمایہ کاری پوری قوت سے خراج حاصل کرے گی۔ اور ’شہری حق‘ (ڈومیسائل) اس خلا میں ایسے لوگوں کو بھرپور فائدہ دے گا جس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی بھی بھارتی، اب جموں و کشمیر میں زمین خرید سکتا ہے ، آباد ہوسکتا ہے، اور کاروبار شروع کرسکتا ہے۔

اکتوبر ۲۰۱۹ء میں نافذ ہونے والے ’جموں و کشمیر تنظیم نو ایکٹ‘ کے تحت ، نجی جایداد کی ملکیت کو مستقل رہایشیوں تک محدود رکھنے والی قانونی دفعات کو ختم کردیا گیا۔ یوں ماضی میں ، زمینی اصلاحات کی مقامی قانون سازی نے یہاں کے کسانوں کو معاشرتی طور پر مظلوم طبقوں سمیت بااختیار بنایا تھا، جس سے انھیں وقار کا احساس ملا تھا اور جموں و کشمیر ملک کی ان چند ریاستوں میں شامل تھا، جہاں کوئی بھی بھوک سے نہیں مرتا تھا۔ مگرزمین سے متعلق ان ترمیم شدہ قوانین سے مقامی آبادی نہ صرف اپنی مراعات سے محروم ہوگئی ہے بلکہ بیرونی لوگوں کی ممکنہ معاشی و سیاسی اجارہ داری کے خدشات پیدا ہوگئے ہیں۔

یاد رہے اس سے قبل ریاست جموں و کشمیر نے اپنا ریزرویشن ایکٹ بھی نافذ کیا تھا،  جس کے تحت تعلیمی اداروں میں کوٹہ فراہم کیا گیا تھا اور پس ماندہ پس منظر کے لوگوں کے لیے نوکریاں مہیا کی گئی تھیں۔ ان میں دلت اور دوسرے پس ماندہ قبائل بھی شامل تھے۔ خواتین پیشہ ور کالجوں میں ۵۰فی صد ریزرویشن سے استفادہ کر رہی تھیں۔ ۱۹۵۰ء کے عشرے سے ، سرکاری اداروں میں اسکول اور کالج کی سطح پر تعلیم مفت تھی، لیکن اب ان سب کو اُلٹ کر دیا گیا ہے۔

ابھی تو وبائی حالت کو بہانہ بناکر، حکومت نے گرمیوں میں دارالحکومت جموں سے سری نگر منتقل کرنے کی ۱۵۰ سالہ قدیم سالانہ مشق کو بھی روک دیا ہے۔ اگرچہ ہندو اکثریتی جموں اور   مسلم اکثریتی کشمیر میں دو دارالحکومتوں کا عمل مثالی طور پر بڑی خوبی سے چل رہا تھا۔

پھر انتخابی حلقوں کی حد بندی کو اَزسرِ نو شروع کرنے کے حکومتی فیصلے سے ہندو اکثریتی جموں کو زیادہ نشستیں ملنے کا امکان ہے ۔اس سلسلے میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے متعدد رہنماؤں نے ان خیالات کا اظہار کیا ہے کہ: ’’نشستوں کا تعین ملک کے دوسرے حصوں کی طرح آبادی کی بنیاد پر نہیں ہوگا۔ اس کے لیے پاکستان کے زیرانتظام کشمیر اور چین کے زیرانتظام اکسائی چین کی مناسبت سے ایسی نشستوں کو وضع کیا جائے گا جن سے ۱۹۴۷ء کے ہندواورسکھ استفادہ کریں گے‘‘۔

جموں و کشمیر کا سیاسی ڈھانچا مکمل طور پر ختم کیا جاچکا ہے، جب کہ متعدد اعلیٰ قائدین حراست میں ہیں۔ ان میں سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی بھی شامل ہیں ۔ خاموش رہنے کی شرائط پر  کئی افراد کو چھوڑ بھی دیا گیا ہے یا انھیں نظربند رکھا گیا ہے۔مختلف پارٹیوں سے بدلہ لینے کے لیے حال ہی میں ’اپنی پارٹی‘ کے نام سے ایک نئی سیاسی تنظیم تشکیل دی گئی ہے، جس کے بارے میں یہ عام خیال پایا جاتا ہے کہ یہ نئی دہلی حکومت کی سرپرستی میں پر پُرزے نکال رہی ہے، مگریہ حرکت بھی برف پگھلانے میں ناکام رہی ہے۔

نئے انتظامات کے تحت ، لداخ کے دُور دراز علاقوں کو قانون ساز اسمبلی کے نام پر لوٹ  لیا جائے گا اور جموں و کشمیر کو محدود اختیارات ملیں گے ، جس سے ان اداروں کو عملی طور پر دوریموٹ کنٹرول میونسپلٹیوں میں تبدیل کردیا جائے گا۔ جس سے ایک مرکزی اتھارٹی کے  زیرانتظام، اس کے وسیع رقبے ، یہاں کی پیچیدگی ، اس کے سماجی و سیاسی تنوع اور نزاکت سے منسوب، انتظام کی عملی صلاحیت پر سوالیہ نشان کھڑا ہے۔

یوں دکھائی دیتا ہے کہ نقصان کے گہرے احساس نے ایک عجیب مزاج کو جنم دیا ہے، جس نے مسلم اکثریتی کشمیر اور ہندو اکثریتی جموں میں روایتی طور پر تفرقہ انگیز داستانوں کو کچھ حد تک محدود کردیا ہے۔ جموں میں عوامی عدم اطمینان، روزگار ، اراضی ، تجارت اور اجتماعی تعلیم پر بھارت سے اُمڈتے اجارہ داری سیلاب نے لوگوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔یہ سب کچھ دفعہ ۳۷۰ اور ۳۵-اے کے خاتمے اور نئے ڈومیسائل قانون کا نتیجہ ہے جس سے مقامی آبادی خوف میں مبتلا ہے۔

ہندو قوم پرست جماعت اور حکمران پارٹی تو پہلے ہی تسلسل سے کشمیریوں کی آبادی میں تبدیلی اور ریاست جموں و کشمیر کو بھارت میں مکمل طور پر ضم کرنے کا مطالبہ کر رہی تھی۔ دوسری طرف جموں و کشمیر میں کئی عشروں سے آبادی میں تبدیلی کے سوال پر بے چینی پائی جارہی تھی۔  آج ، مقبوضہ کشمیر میں اُردن کے مغربی کنارے کے اسرائیلی ماڈل کے قبضے اور نوآبادیات کی نقل مکانی اور مقامی باشندوں خصوصاً کشمیری مسلمانوں کو گھٹا کر نئی آبادکاری کی راہ ہموار کی جارہی ہے، تاکہ ان نئے آباد کاروں کے ذریعے اکثریت کی اجارہ داری کو ریموٹ کے ذریعے کنٹرول کیا جاسکے۔

نومبر۲۰۱۹ء کے آخر میں ، امریکا میں تعینات ایک بھارتی سفارت کار نے، کشمیری ہندوؤں کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کھل کر اس بات کا اظہار کیا تھا کہ ’’کشمیری ثقافت اور بھارتی ثقافت اصل میں ایک ہندو ثقافت ہے‘‘ اور ساتھ نوآبادیاتی عمل کی تحسین کرتے ہوئے، دریاے اُردن کے مغربی کنارے بستیوں کے اسرائیلی ماڈل کی حمایت کی تھی۔

اگر ان خیالات کی سنجیدگی کے بارے میں کوئی شبہات تھے، تو ان کو مسترد کیا جاسکتا تھا۔ لیکن کشمیر میں نئی دہلی حکومت کے حالیہ اقدامات ’اسرائیلی ماڈل‘ کو بھارت کی کشمیر پالیسی کا مرکز بنانے کا ایک انتظامی نمونہ ظاہر کرتے ہیں، جنھیں موجودہ لاک ڈاؤن کے زمانے کو استعمال کرکے عوامی سطح پر کسی بھی اشتعال انگیزی سے بچنے کا وسیلہ بنایا گیا ہے۔ لیکن ایسی خوش فہمی کسی بھی وقت بڑے حادثے سے دوچار کرسکتی ہے۔ بھارتی حکومت عوام کے صبر اور خاموشی اور کشمیری عوام کی اُمنگوں اور انسانی حقوق کی بے حد زیادتیوں میں اضافے کو اپنی کامیابی تصور کر رہی ہے۔

اگرچہ یہ سب کچھ بھارتی جمہوریت کو پامال کرنے کے مترادف ہے ، لیکن اس نے جنوبی ایشیا میں امن کو بھی انتہائی غیر محفوظ بنادیا ہے۔ جس سے کشمیر کے اندر مقامی باشندوں کا اپنے حقوق کے لیے سخت جدوجہد کرنا، بھارت اور پاکستان کے مابین کشیدگی کی شدت سے دو جوہری طاقتوں کا آمنے سامنے ہونا، ایک دھماکا خیز صورت حال پیدا کردے گا۔ ہندستان اور چین کے مابین موجودہ تنازعے میں اس آگ کو بڑھانے اور ایندھن میں اضافے کا بھی امکان ہے۔(’الجزیرہ‘، انگریزی، ۲۱ جون ۲۰۲۰ء، ترجمہ: ادارہ)

ہم تمام قومی تعلیمی اداروں کے لیے ’یکساں قومی نصاب‘ کے نہ صرف حامی ہیں بلکہ اسلامی نظریے پر مبنی پاکستانی قوم کی تشکیل اور یک جہتی کے لیے پورے ملک کے تمام تعلیمی اداروں میں یکساں اور متفقہ نصاب تعلیم کا نفاذ ضروری سمجھتے ہیں۔ ایسے مطلوبہ قومی نصابِ تعلیم کو ہرصورت میں قومی نظریاتی اُمنگوں کا آئینہ دار اور قومی ضروریات سے ہم آہنگ ہونا چاہیے۔ اس پس منظر میں ہم موجودہ حکومت کے اس عزم کی تائید کرتے ہیں کہ پورے ملک میں ’یکساں قومی نصاب تعلیم‘ نافذ ہونا چاہیے، جسے حکومت ’سنگل نیشنل کریکولم‘ کے نام سے موسوم کررہی ہے۔ اس مناسبت سے جو نصابی رپورٹیں شائع کی گئی ہیں، ان کے سرورق پر یہ دل کش نعرہ لکھا ہے:One Curriculum, One Nation  یعنی ’ایک نصاب، ایک قوم‘۔

دیکھنا ہوگا کہ وفاقی حکومت نے ’سنگل نیشنل کریکولم‘ کو کس طرح مدون کیا ہے؟ کن لوگوں کو اس کی تدوین وترتیب میں شامل کیا گیا ہے؟ کس نظریے اور فلسفے کو نصابِ تعلیم کی بنیاد بنایا گیا ہے؟ اور اس قومی اہمیت کے کام میں کتنی شفافیت کا اہتمام کیا گیا ہے؟ اسی طرح نصابِ تعلیم کی پاکستان میں جو اساسیات ہونی چاہییں، اُن کا کہاں تک خیال رکھا گیا ہے اور کیا حکومت کے اس مجوزہ نصاب کو متفقہ قومی نصابِ تعلیم کہا جاسکتا ہے؟

ہم افسوس سے یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ ایک نہایت بنیادی قومی مسئلے پر حکومت کا رویہ عدم شفافیت اور بے جا رازداری میں اُلجھا رہا ہے، جس نے ان خدشات کو تقویت دی ہے کہ یکساں قومی نصاب تعلیم کے نام پہ حکومت اور اس کی وزارتِ تعلیم بیرونی قوتوں اور ان کے مقامی ایجنٹوں کا ایجنڈا اس ملک کی آیندہ نسلوں پر نافذ کرنا چاہتی ہے۔ مزید وضاحت کے لیے ان بنیادوں کا تذکرہ ضروری ہے جنھیں ’سنگل نیشنل کریکولم‘ کی ترتیب وتدوین کی بنیاد بنایا گیا ہے:

1-         Constitutional Guidelines. (دستوری رہنمائی)

2-         National Policies-National Standards. (قومی معیارات کی قومی پالیسیاں)

3-         Emerging International Trends. (ظہور پذیر عالمی رجحانات)

4-         Outcome Based Approach. (نتیجہ خیز تعلیمی بنیاد)

5-         Focus on Values, Life Skills and Inclusive Education.

            (اقدار اور مہارتوں کی فراہمی پر مبنی تعلیم پر توجہ)

6-         Promotion of intellectual, Emotional, Spiritual, Aesthetic, Social, Physical Development of Children. ( بچوں کی فکری، جذباتی، روحانی، جمالیاتی، سماجی اور جسمانی نشوونما )

7-         Move away from Rote Learning , Focus of Project Approach, Inquiry and Activity Based Learning. (رٹا لگانے کے بجائے عملی بنیادوں پر حصولِ تعلیم کا رواج)

8-         Application of Knowledge with real life. (علم کا عملی زندگی پر انطباق)

9-         Use of ICT. (انفارمیشن کمیونی کیشن ٹکنالوجی کا استعمال)

10-       Inclusion of Modern Assessment and Teaching Methods. (جدید آزمایشی اور تدریسی طریقوں کی شمولیت)

11-       Allignment with TIMSS.(ریاضی اور سائنس کے عالمی رجحانات سے مطابقت)

امرواقعہ ہے کہ اُوپر دی گئی فہرست میں جتنے بلند آہنگ (High Sounding)دعوے کیے گئے ہیں، وہ سب کے سب ہوائی قلعے ہیں۔ کیوںکہ پیش کردہ ’سنگل نیشنل کریکولم‘ بنیادی طور پر ۲۰۰۶ء کا کریکولم ہے، جو جنرل پرویز مشرف کے دور ِ استبداد میں جرمنی کی ایجنسی جی آئی زیڈ (GIZ) کے مالی، فکری اور عملی تعاون سے تیار کیا گیا تھا اور جس کی سربراہ ایک پاکستانی خاتون تھیں۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ اب بھی وہی محترمہ اس این جی او کے پلیٹ فارم سے ’سنگل نیشنل کریکولم‘ کی تشکیلی سرگرمیوں میں شامل ہیں۔ ۲۰۰۶ء میں بھی قومی اور اسلامی حلقوں نے ’۲۰۰۶ء کے نصابِ تعلیم‘ پرسخت نقدوجرح کی تھی۔ اب نئی انقلابی حکومت کے کارپردازوں نے صرف یہ کیا ہے کہ ۲۰۰۶ء کے کریکولم کو ’ویلیوز ایجوکیشن‘ (اقداری تعلیم)کے نام سے ایک سیکولر لبرل نظریاتی اساس فراہم کردی ہے۔ اگرچہ نصابِ تو پہلے ہی سیکولر لبرل تھا، لیکن بین الاقوامی سطح پر سیکولر لبرل قوتیں جن اقدار کو پھیلا رہی ہیں، خصوصاً مسلم دنیا میں جن نظریات کو راسخ کررہی ہیں، انھی کو سرایت کردہ موضوعات (Cross Cutting Themes) کی شکل میں آگے بڑھایا گیا ہے۔ سنگل نیشنل کریکولم بنانے والی ٹیم نے ہاتھ کی صفائی یہ دکھائی ہے کہ ابتدائی مسودے میں ’ہیومنزم‘ کا صراحت کے ساتھ ذکر کیا گیا تھا، جس کی ذیلی اقدار کو پورے نصاب میں پھیلا دیا گیا تھا۔ لیکن اب نظرثانی شدہ مسودے میں صرف یہ عظیم الشان کارنامہ کیا ہے کہ ’ہیومنزم‘ کی اصطلاح اُڑا دی گئی ہے، جب کہ اس کی تمام ذیلی اقدار میں ’ہیومنزم‘ کی روح جوں کی توں موجود ہے۔

پاکستان کے دستور کے  رہنما خطوط

بیان کردہ گیارہ دعوؤں میں سب سے پہلا دعویٰ ’دستوری رہنما خطوط‘ کے متعلق ہے، اور سب سے زیادہ انحراف اس نصاب میں اسی چیز کا کیا گیا ہے۔ دیگر شقوں کے علاوہ دستورمیں شامل ’قرار داد مقاصد‘ اور دفعہ ۳۱ تعلیم اور نصاب تعلیم کے لیے رہنما خطوط فراہم کرتا ہے۔ اس کے مطابق ۵ سال سے ۱۶ سال کی عمر کے طلبہ (جو کہ لازمی تعلیم کا دورانیہ ہے) کے لیے قرآن وسنت کی روشنی میں اسلام کی وہ تمام تعلیمات مہیا کی جانی چاہییں کہ وہ طالب علم جب عملی زندگی میں   قدم رکھے تو اسے اسلامی تعلیمات کے مطابق گزارے۔ اس کے برعکس دیکھیے:

۱- اسلامیات کے نصاب میں پہلی سے بارھویں جماعت تک بیان کردہ مقاصد کسی طرح بھی مذکورہ بالا ضرورت کو پورا کرتے نظر نہیں آتے۔ ہونا یہ چاہیے تھا کہ قرآن وحدیث اور اسوئہ حسنہ کی روشنی میں ایمانیات، عبادات، اخلاقیات اور معاملات کے تحت ان تمام امور کی فہرست بنائی جاتی، جن پر عمل کرنا ہر مسلمان کے لیے فرض عین ہے اور پھر ان امور کو پہلی سے دسویں جماعت (۵ سال سے ۱۶ سال کی عمر) کے نصاب میں عمر اور بلوغت کے تقاضوں کے مطابق تقسیم کردیا جاتا۔ لیکن ایسا نہیں کیا گیا محض اندازوں سے بعض معلومات اور تصورات پہلی سے پانچویں جماعت تک بکھیر دیے گئے ہیں۔ نصاب سازی ایک سائنس ہے اور اس کا ایک طریق کار ہے جب تک وہ طریق کار اختیار نہ کیا جائے تب تک علمی بنیادوں پر مطلوبہ نصاب ترتیب نہیں دیا جاسکتا۔

۲-  دوسری بات یہ کہ ’دستوری رہنما خطوط‘ پورے نصاب تعلیم کے لیے ہوتے ہیں۔ چلیے اسلامیات کا نصاب تو جیسا تیسا ہے ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس میں بہتری کی گنجایش ہے، لیکن اسلامیات کے نصاب کے ساتھ جنرل نالج اور معاشرتی علوم کا جو نصاب دیا گیا ہے، وہ مکمل طور پر سیکولر ہے۔ ان دونوں مضامین کے نصاب میں لفظ ’اسلام‘ کے استعمال سے مکمل پرہیز کیا گیا ہے۔  وژن، مشن اور مقاصدِ نصاب پوری طرح سیکولر، لبرل اور ہیومنسٹ نظریۂ حیات کے آئینہ دار ہیں۔ معاشرتی علوم تو کسی معاشرے کے نظریات، اور اس کی تہذیب وثقافت کے آئینہ دار ہوتے ہیں، مگر یہاں پر اسلامی جمہوریہ پاکستان سے اس نصاب کو منسوب کرنے کا کوئی ’خطرہ‘ مول نہیں لیا گیا۔

انگلش ، ریاضی اور سائنس کے نصابات

’سنگل نیشنل کریکولم‘ میں انگلش، ریاضی اور سائنس کے نصاب سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کسی اور ملک یا ملکوں کا نصاب ہے۔ شاید سنگاپور ، آسٹریلیا، یا پھر کسی ایسے ہی ملک کا نصاب ہے۔ ہمارا چونکہ زیادہ زور اس بات پر ہے کہ زیر غور نصاب تعلیم کی نظریاتی اور پاکستانی جہت صحیح ہونی چاہیے، اس لیے ہم انگریزی، ریاضی اور سائنس کے نصابات کی ٹیکنیکل بنیادوں پر زیادہ بات نہیں کررہے۔ تاہم، ایک عمومی جائزہ ظاہر کرتا ہے کہ ہماری قومی ضروریات، بچوں کی ذہنی بلوغت، ماحول، اساتذہ اور اسکولوں کی مشکلات کا خیال نہیں رکھا گیا۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ نصاب کی کوئی مقامی تحقیقی بنیاد نہیں ہے ۔ نہ ماضی کی مشکلات کا مطالعہ کیا گیا اور نہ مستقبل کی ضروریات کا تعین کیا گیا۔ محض ۲۰۰۶ء کے نصاب کو سطحی طور پر نظرثانی کرکے اور بیرونی سرپرستوں کی ویلیوز ایجوکیشن کی رہنمائی کو شاملِ نصاب کرنے کے لیے ایک دستاویز جاری کردی گئی، یہ دیکھے بغیر کہ اس میں اُفقی (horizontal)اور عمودی (vertical) رابطہ اور توازن کہاں تک قائم رہا ہے؟

کچھ ہوائی دعوؤں کی حقیقت

l  کہا گیا کہ نصاب کو TIMSSکے ساتھ مربوط کیاگیا ہے۔ TIMSS سے مراد ہے  ٹرینڈ ان انٹرنیشنل میتھ اینڈ سائنس سٹڈی (ریاضی اور سائنس کے عالمی رجحانات) ۔یہ پراجیکٹ بنیادی طور پر بین الاقومی سطح پر سائنس اور ریاضی میں تحصیل علم کے مطالعے کا پراجیکٹ ہے اور اس کا نصاب سازی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ لیکن فرمایا جارہا ہے کہ نصاب کو TIMSS سے مربوط کیا گیا ہے۔

l  یہ بھی کہا جارہا ہے کہ تعلیم میں رٹے بازی کو ختم کیا جائے گا نیز جائزے اور تدریس کے جدید طریقے نصاب میں اختیار کیے گئے ہیں۔ مگر اس نصاب کی تدوین میں ایسے کارنامے کا کوئی عکس نظر نہیں آتا۔ البتہ ٹیچر ٹریننگ اور امتحانات کے انعقاد سے اس دعوے کا پتا چلے گا۔

l  یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہICTیعنی انفارمیشن کمیونی کیشن ٹکنالوجی بھی استعمال میں لائی جائے گی۔ ایک تو نصابی مضامین میں اس کا کہیں ذکر نہیں ، دوسرا ICT کا مضمون کم از کم پرائمری سطح پر تو غائب ہے۔ تیسرا یہ کہ مہنگے نجی اسکولوں کے علاوہ، جہاں اس نصاب کے نفاذ کا سوال ابھی بڑا سوالیہ نشان ہے، سرکاری سکولوں، دینی مدارس اور گلی محلے میں کھلے پرائیویٹ اسکولوں میں ICT کا چلن کیسے ہوگا؟ اور حکومت اس کے لیے کیا سہولتیں مہیا کرے گی؟کچھ وضاحت نہیں۔

l ’ نتیجہ خیز تعلیمی بنیاد‘ جیسے دعوے بھی زیادہ تر کسی بروشر سے اُٹھائے ہوئے دعوے معلوم ہوتے ہیں، جن کے کوئی آثار نصابی کتابچوں میں عیاں نہیں ہیں۔ جب نصاب کلاس روم میں استاد کے ہاتھ آئے گا تو دعوے کی حقیقت معلوم ہوگی۔

l  یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ نصاب میں شمولیاتی تعلیم (Inclusive Education) کا خیال رکھا گیا ہے۔ نصابی بیانات میں تو شمولیاتی تعلیم کا کوئی عکس نظر نہیں آتا کہ کس طرح معذور بچوں (Special Children)کو جو بصری، سمعی یا دیگر مشکلات کا شکار ہوں گے ، اس نصاب سے استفادے کا موقع فراہم کیا جائے گا؟ نصاب کی ترتیب سے ظاہر ہوتا ہے کہ بلوچستان ، سندھ، خیبرپختونخوا اور پنجاب کے دیہی علاقوں کے اسکول، نیز دینی مدارس شمولیاتی استفادے سے محروم رہیں گے۔ اور اس طرح قومی یک جہتی ، اور ہموار ترقی میں مزید کمی اور طبقاتی خلیج میں وسعت آئے گی۔

نصاب سازی اور قومی تقاضے

اس تحریر کے آغاز میں کچھ سوالات اٹھائے گئے تھے، ایک نظر اُن پر:

m  یہ کہ قومی سطح اور قومی اہمیت کے اس کام میں شفافیت کس طرح قائم رکھی گئی ہے؟

قومی اہمیت کا یہ کام بدقسمتی سے انتہائی خفیہ طریقے سے اور چھپ چھپا کر کیا گیا۔ اس نصاب کا جو پہلا مسودہ سامنے آیا وہ بھی پبلک نہیں کیا گیا۔ محدود سطح پر بعض پسندیدہ افراد سے راے لی گئی۔ بعد ازاں غالباً فروری۲۰۲۰ء میں تین روزہ ورکشاپ کی گئی، جس میں صوبوں کے نصاب و درسی کتب کے اداروں کے بعض اہل کار بلائے گئے۔ اس تعلیمی میلے میں بھی کسی کو پورا نصاب نہیں دکھایا گیا۔ بس کمیٹیاں بنا کر ان کو ایک مضمون کا مسودہ تھما دیا گیا اور ان سے تبصرے کے لیے کہا گیا۔ حد یہ ہے کہ ان کمیٹیوں نے جو تجاویز وسفارشات دیں، انھیں بھی حتمی مسودے میں جگہ نہیں دی گئی۔

مذکورہ تین روزہ ورکشاپ کے بعد عجلت میںوزیر اعظم عمران خان سے منظوری بھی لے لی گئی اور پھر قومی نصاب کے طور پر اپریل ۲۰۲۱ء سے اسے نافذ کرنے کا اعلان کردیا گیا۔ وزیر اعظم سے منظوری مارچ ۲۰۲۰ء کے شروع میں لی گئی اور اب جون جارہا ہے لیکن حتمی مسودہ قوم کے علم میں نہیں لایا گیا۔ ہم جس مسودے کو دیکھ کر تبصرہ کررہے ہیں یہ وہ حتمی مسودہ ہے، جو ہم نے اپنے ذرائع سے حاصل کیا ہے۔ نیشنل کریکولم کونسل نے سرکاری طور پر اسے جاری نہیں کیا ۔ جب بھی پوچھا جاتا ہے تو اہل کار کہتے ہیں کہ ’سنگل نیشنل کریکولم‘ جاری کرنے کی ایک ٹائم لائن ہے جس کے مطابق اسے پبلک کیا جائے گا۔ وقت سے پہلے پبلک کرنے سے نقصان یہ ہوگا کہ اس کی مخالف قوتیں اس پر تنقید کی بوچھاڑ کردیں گی اور اس طرح یہ منصوبہ ناکام ہوجائے گا‘‘۔ یہ ہے پوری کہانی اس قومی نصابِ تعلیم کی شفافیت کی، حالانکہ تمام اقوام عالم کا یہ دستور ہے کہ نصابِ تعلیم عوام کے سامنے پورے شفاف طریقے سے تیار کیا جاتا ہے تاکہ پوری قوم اس کی وارث بنے۔

m ’سنگل نیشنل کریکولم‘ کس طرح تیار کیا گیا؟ فی الحقیقت یہ جنرل پرویز مشرف کی این جی اوزدہ آمرانہ حکومت میں تیار کیا گیا ۲۰۰۶ء کا متنازعہ نصاب ہے۔اس نصاب کی نظرثانی، تدوین اور اسے حتمی شکل دینے کا کام آغا خان یونی ورسٹی ، برطانیہ کی واٹرایڈ ، امریکا کے کمیشن براے بین الاقوامی مذہبی آزادی کے مقامی ایجنٹوں، بیکن ہاؤس اور کیمبرج کے ماہرین اور بعض دیگرسیکولر این جی اوز کی شمولیت سے سرانجام دیا گیا ۔ حد یہ ہے کہ قومی اداروں، یعنی بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی اسلام آباد، پنجاب یونی ورسٹی ، علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی، پشاور یونی ورسٹی، یونی ورسٹی آف ایجوکیشن، بلوچستان یونی ورسٹی، سندھ یونی ورسٹی اور کراچی یونی ورسٹی کے ادارہ ہاے تعلیم وتحقیق اور شعبہ ہاے ایجوکیشن کے اعلیٰ درجے کے ماہرین میں سے کسی کو شامل نہیں کیا گیا۔ صوبوں کے نصابات اور درسی کتب کے اداروں کے تجربہ کار ماہرین کو نظر انداز کیا گیا اور پرائیویٹ سیکٹر کے اعلیٰ درجے کے اسکول سلسلوں (Chains)کے علاوہ تعلیم کے شعبے میں مہارت رکھنے والی محب وطن اور محب اسلام تنظیموں کو مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا اور محض سیکولر لبرل قسم کی آرگنائز یشنز کو ہی اس کام کا اہل سمجھا گیا۔ دینی مدارس کی تنظیمات کے کچھ نمایندوں کو محض اشک شوئی اور آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے بلایا گیا اور وہ بھی صرف اسلامیات کے نصاب کے سلسلہ میں ، باقی نصاب میں ان کی شمولیت نہیں کرائی گئی۔

m  نصاب تعلیم تیار کرنے کے معیاری طریقۂ کار کو مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا۔ پاکستان میں قومی تعلیمی نصاب کی اساسیات کیا ہوتی ہیں اور انھیں کس طرح نصابی خاکے میں ڈھالا جاتا ہے؟ افسوس یہ ہے کہ ان تمام امور کو نظر انداز کیا گیا ہے۔

m   سطور بالا میں ہم نے اجمالاً جن باتوں کا ذکر کیا ہے، ان کے پیش نظر کسی طرح بھی ’سنگل نیشنل کریکولم‘ کو ایک متفقہ قومی نصاب نہیں کہا جاسکتا۔

m  مختلف مضامین کا نصاب چونکہ اساسیات کے لحاظ سے مربوط نہیں ہے، اس لیے اس کے پڑھنے کے بعد مستقبل کی نسل کی مربوط اسلامی قومی شخصیت کا تیار ہونا ممکن نہیں ہے۔

m   نصابی کتابچے مشکل اور گنجلک انگریزی زبان میں ہیں، جب کہ اس نصاب کو پڑھانے والے پرائمری کے اساتذہ اگر گریجوایٹ بھی ہوں تو اس کو سمجھ نہیں پائیں گے۔ اسی طرح اسکولوں کے نگران حضرات وخواتین بھی نصاب جیسا تیسا بھی ہے، اس کے مندرجات اور اس کے مقاصد سے نابلد رہیں گے۔ والدین اور قوم کے دیگر افراد سے بھی اس نصاب کی کیفیت پوشیدہ رہے گی اور یوں وزارتِ تعلیم کے ذمہ دار اپنی من مانی کرنے میں آزاد ہوں گے۔

m  آخر میں ہم استدعا کریں گے کہ بجائے قوم کو ایک غلط راستے پر ڈالنے اور سیکولر لبرل تعلیم دے کر آیندہ نسلوں کو اپنی تہذیب وتمدن سے دُور کرنے سے بہتریہی ہے کہ اس متنازعہ نصاب کو واپس لیا جائے۔ محب وطن ، محب اسلام ماہرین تعلیم کے ساتھ قومی دانش کو وسیع پیمانے پر کام میں لاکر نصاب تعلیم کو قومی تقاضوں ، قومی امنگوں اور اسلامی نظریۂ حیات کی روشنی میں ترتیب دے کر صحیح معنوں میں قومی نصاب تعلیم بنایا جائے، تاکہ ’ایک قوم، ایک نصاب‘ کا نعرہ پایۂ تکمیل کو پہنچے۔

m  اگر قومی نصاب تعلیم پر پوری قوم کا اتفاق راے حاصل نہ کیا گیا تو محض چند لوگوں کی سیکولر اور لبرل اَنا پرستی اور ان کے بیرونی آقاؤں کی خوشنودی حاصل کرنے کی آرزوسے قومی تعلیم کے حوالے سے موجودہ حکومت کے مثبت عزائم ناکام ہوں گے، جو افسوس ناک امر ہوگا۔

چند بنیادی سوالات

آخر میں ہم ڈاکٹر محمد سلیم صاحب(سابق سربراہ شعبۂ نصابات، وفاقی وزارتِ تعلیم، اسلام آباد) کے چند بنیادی سوالات پیش کر رہے ہیں، جو انھوں نے نیشنل کریکولم کونسل کے ذمہ داروں سے پوچھے ہیں۔ ان سوالات کی روشنی میں ’سنگل نیشنل کریکولم‘ کا بہتر محاسبہ ہوسکتا ہے۔

q   دنیا میں کوئی ملک ایسا نہیں جہاں قومی نصابِ تعلیم کی بنیاد ان متعدد ریسرچ رپورٹوں پر نہ رکھی جاتی ہو جن میں پہلے سے رائج نصاب کی کمزوریوں ، خامیوں اور نفاذ کے مرحلے میں آنے والی مشکلات اور قومی مقاصد کی تکمیل میں ناکامیوں کا تفصیل سے ذکر ہوتا ہے۔ ہماری معلومات کے مطابق نیشنل کریکولم کونسل نے ایسے کسی تکلف کا اہتمام نہیں کیا۔ اگر کیا ہے تو وزارت کے ذمہ داران کیا، ان ریسرچ سٹڈیز کی فہرست سے قوم کو آگاہ کرنا پسند کریں گے؟

q   نصابِ تعلیم ان مقاصد اور ضروریات کے حصول کے لیے بنایا جاتا ہے، جو مقاصد تعلیمی پالیسی سے اخذ کیے جاتے ہیں اور ضروریات کا تعلق (Need Assessment) کی بنیاد وہ ریسرچ سٹڈیز ہوتی ہیں، جو اس مقصد کے لیے سرانجام دی جاتی ہیں۔ وزارتِ تعلیم کے ذمہ داران کیا بتانا پسند فرمائیں گے کہ کون سی تعلیمی پالیسی کو مقاصد کے تعین کے لیے بنیاد بنایا گیا اور وہ کون سی ریسرچ اسٹڈیز ہیں، جو نصاب سازی کی بنیاد بنیں؟ جہاں تک نظر آتا ہے کوئی قومی تعلیمی پالیسی تو رہی ایک طرف، خود تحریک انصاف کی تعلیمی پالیسی اور انتخابی منشور کو بھی پیش نظر نہیں رکھا گیا۔

q  زیر غور دستاویز براے سنگل نیشنل کریکولم بتاتی ہے کہ ۲۰۰۶ء کے نصاب کو کاپی پیسٹ کے ذریعےریویو کرکے ’سنگل نیشنل کریکولم‘ کے طور پر پیش کردیا گیا۔ کیا ۲۰۰۶ء کا نصاب جو پہلے ہی تنقید کی زد میں رہا ہے مزید بگاڑ کے ساتھ قومی نصاب کا درجہ حاصل کرسکتا ہے؟

q  پوری دنیا میں ایسا ہی ہوتا ہے کہ نصاب سازی کے لیے ایک وسیع البنیاد قومی کمیٹی بنائی جاتی ہے، جس میں عالم ، سائنس دان، صنعتی ماہرین، مضامین کے اعلیٰ ماہرین، دانشور، شاعر، ادیب،  ماہرین قانون اور مختلف علاقوں اور پس منظر کے حامل اساتذہ کرام شامل کیے جاتے ہیں۔ وزارتِ تعلیم کے ذمہ داران کیا بتانا پسند کریں گے کہ کیا ایسی کوئی وسیع البنیاد قومی نصابی کمیٹی بنائی گئی اور اگر بنائی گئی تو کیا قوم کو اُن کے ناموں سے آگاہ کرنا پسند کریں گے؟

q ڈرافٹ کریکولم میں شامل مقاصد، اسٹوڈنٹس لرننگ ابجیکٹوز ، معیارات ، صلاحیتوں (Competencies)اور ان کی تکمیل یا حصول کے لیے لوازمہ (Content)کے انتخاب کو دیکھ کر سنگل نیشنل کریکولم تشکیل دینے والے خواتین وحضرات کے مبلغ علم اور تجربے کا بھانڈا پھوٹ جاتا ہے۔ کیا وزارتِ تعلیم کے ذمہ داران اس خدشے پر تبصرہ کرنا پسند کریں گے؟

q  ملک کے تعلیمی ادارے جن میں متوقع طور پر ’سنگل نیشنل کریکولم‘ نافذ ہونا ہے۔ ان میں ۳۰ہزار دینی مدارس، ایک لاکھ کے قریب پرائیویٹ تعلیمی ادارے، لاکھوں سرکاری سکولز، ۳۰ہزار غیررسمی اسکولز ہیں۔ اسی طرح بلوچستان کے دُور دراز غیر ترقی یافتہ علاقوں سے لے کر کراچی، لاہور، اسلام آباد کے پوش علاقوں تک اسکولز ہیں، جن کے بچوں کی لسانی، سماجی، ثقافتی، معاشی بوقلمونی (Diversities) نہایت گہری ہے۔ کیا ان حقائق اور مشکلات کا نصاب سازی میں خیال رکھا گیا ہے؟ ’سنگل نیشنل کریکولم‘ کے نام پر کیا اس سے طبقاتی تفریق اور نہیں بڑھ جائے گی؟

qکیا دینی مدارس جو ’سنگل نیشنل کریکولم‘ کا اصل ہدف ہیں، ان کے اساتذہ اور منتظمین کو شامل مشاورت کیا گیا؟ ہماری معلومات کے مطابق اس طرح کی کوئی باہمی مشاورت نہیں کی گئی۔ ایسی مشاورت صرف پوش اسکول سلسلوں (Chains)سے کی گئی جو اس کریکولم کو اپنے ہاں قطعاً نافذ نہیں کریں گے۔ کیا دینی مدارس کے ساتھ یہ سلوک ظالمانہ نہیں ہے؟

q نصاب سازی کا ایک رائج طریقہ اب یہ ہے کہ پہلے نیشنل کریکولم پالیسی فریم ورک تیار کیا جاتا ہے اور پھر نصاب اس فریم ورک کی حدود وقیود میں تیار کیا جاتا ہے۔ ۲۰۱۸ء میں جو نیشنل کریکولم فریم ورک تیار کرکے وزارتِ تعلیم نے منظور کیا ہے، اس کا کوئی عکس ’سنگل نیشنل کریکولم‘ میں نظر نہیں آتا۔ مذکورہ فریم ورک میں قرار دادِ مقاصد اور آئین کی اسلامی دفعات کو بنیاد بنایا گیا تھا اور نظریۂ پاکستان کو فوکس کیا گیا تھا، لیکن ’سنگل نیشنل کریکولم‘ میں لبرل سیکولر فلاسفی سے اقدار (Values) کو   اخذ کرکے نصاب کی بنیاد بنایا گیا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اسلامی اقدار میں کوئی کمی اور خلاہے کہ ’ہیومنزم‘ کی اقدار کو پسند کیا گیا ہے؟ اور یہ بھی بتایا جائے کہ اسلام کی کون سی اقدار ایسی ہیں   جو غیرمسلموں کے لیے تکلیف دہ ہوں گی، حالانکہ ہمیں تو اسلامی اقدار کی رحمت اور حکمت سے غیرمسلموں کو بھی مستفید کرنا چاہیے۔

q  آئی سی ٹی (ICT)اس دور کی اہم تعلیمی ضرورت ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا نیشنل کریکولم کونسل نے ’سنگل نیشنل کریکولم‘ میں آئی سی ٹی کو تعلیم میں ایک بنیادی عنصر کے طور پر لے کر کوئی اہمیت دی ہے اور اس ٹکنالوجی کے استعمال سے تعلیم کی فراہمی مؤثر بنانے کی کوئی سبیل کی ہے؟

qتعلیم کے ساتھ تربیت اور تزکیہ پاکستانی معاشرے کی ایک اہم ضرورت ہے۔ نیشنل کریکولم کو نسل نے اسلامی تعلیمات ، آئین کی دفعہ  ۳۱، اور قرآن وحدیث کی اقدار کو یکسر نظرانداز کرکے، سیکولر اور لبرل معاشروں، مثلاً آسٹریلیا اور بھارت وغیرہ کی نصابی اقدار کو ویلیوز ایجوکیشن میں بنیاد بناکر جو نصابی ڈھانچا دیا ہے، کیا اس سے تربیت اور تزکیہ کی ضروریات اور مقاصد پورے ہوں گے ؟ تربیت اور تزکیہ پاکستانی معاشرے کی ضرورت ہے اور اس کو پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے نے مؤثر انداز میں آگے بڑھایا ہے ۔ کیا نیشنل کریکولم کونسل نے پشاور ہائی کورٹ کے اس فیصلے اور ہدایات کو مکمل نظر انداز نہیں کیا اور کیا یہ توہین عدالت کے زمرے میں نہیں آتا؟

q   Sustainable Development Goals-5(SDG-5)کا ایک اہم مطالبہ WASH  یعنی پانی ، سینی ٹیشن اور ہائی جین ہے جس کا پاکستان دستخط کنندہ ہے۔ کیا نصاب میں ان معاملات کے متعلق طلبہ کو حساس اور عادی بنانے کے لیے کوئی تدابیر دی گئی ہیں؟

q قومی نصابِ تعلیم ایک کھلی قومی سرگرمی ہوتی ہے، جس کے ذریعے سے قوم کی آیندہ نسل کا مستقبل طے ہوتا ہے۔ کیا یہ بھی کوئی راز داری کا کام اور خفیہ کاری کی کوئی سرگرمی ہے کہ اعلانات کے ڈھنڈورے پیٹنے کے باوجود ابھی تک پوری قوم ’سنگل نیشنل کریکولم‘ کی حتمی شکل سے لاعلم ہے، جب کہ وزیر اعظم سے تین ماہ پہلے اس کی منظوری لی گئی اور پورے میڈیا میں اس کا پروپیگنڈا کیا گیا۔

q آخری سوال یہ کہ کیا کوئی قوم قومی نصابِ تعلیم تشکیل دینے کے لیے قومی تنظیمات اور قومی شخصیات کو نظر انداز کرکے غیر ملکی تنظیمات اور ان کے مقامی گماشتوں کی خدمات سے استفادہ کرکے کوئی ایسا قومی نصاب تشکیل دے سکتی ہے، جو قومی اُمنگوں ، نظریاتی ضروریات اور مستقبل کے اہداف کا آئینہ دار ہو؟

زیرنظر مطالعے سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مغربی فکر و عالمی اداراتی یلغار، مسلم اورعرب دنیا کی کن خطوط پر نقشہ گری کرنا چاہتی ہے۔ان معلومات کا مقصد معاشرتی تخریب پر نظر رکھنا اور تعمیروتہذیب کو فروغ دینے کے لیے فرضِ منصبی ادا کرنا ہے۔ یہ مقالہ ڈیوک یونی ورسٹی کے تحقیقی مجلّے Public Culture میں شائع ہوا ہے۔ ادارہ

ہم جنسیت زدوں کی کوکھ سے کوئی جنم لے یا نہ لے ،لیکن پچھلے دو عشروں میں ان کی تحریک سے جن اہم مباحث اور سماجی معرکوں نے جنم لیا ہے، وہ ہے ’ہم جنسیت زدگان کے حقوق‘ کے لیے بلند آہنگ۔ اس تحریک اور پروجیکٹ نے پوری دنیا میں اپنا لوہا منوانے کے لیے ’امریکی حقوق انسانی کے نعروں‘ کو خاص طور پر استعمال کیا ہے۔پھر سفید فام مغربی خواتین کی تحریک کے نقش قدم پر چلتے ہوئے، ایسا مشنری کردار اپنایا اور ایسی صورتِ حال پیدا کر دی، جس سے دنیا بھر میں متضاد خیالات پر بحث مباحثے اُٹھ کھڑے ہوئے۔

سفید فام مغربی خواتین کی تحریک نے جوں ہی غیر مغربی دنیا کی خواتین کی تحریکوں پر اپنا ’نو آبادیاتی نسائیت‘ (Colonial Feminism) پر مبنی نظریہ مسلط کرنے کی کوشش کا آغاز کیا ، تو اپنے اہداف و مطالبات کو عالم گیر بنانے کے لیے یہی حربے استعمال کیے تھے۔اس سلسلے میں سفید فام مردوں کی تنظیمیں مثلاً ’ہم جنس زدہ مردوزن کی عالمی تنظیم‘ ،’الگا‘(International Lesbian and Gay Association ILGA)، ہم جنس پسند مردوزن کے شہری حقوق کا کمیشن ’اگلہرچ‘ (International Gay and Lesbian Human Rights Commission) بھی ان تحریکوں سے پیچھے نہیں ہے، اور ’ہم جنسی حقوق‘ کی وکالت کے لیے ہر جگہ موجود ہیں۔

تنظیم’الگا‘ ، ۱۹۷۸ء میں، امریکی صدر جمی کارٹر کےدورِحکومت میں قائم کی گئی تھی، تاکہ اشتراکی ریاستوں اور تیسری دنیا میں انسانی حقوق کی خلاف ورزوں کا ڈھنڈورا پیٹا جا سکے۔   اس تنظیم کا مقصد بین الاقوامی سطح پر ’ہم جنس زدہ مردوں، عورتوں، اور خواجہ سراؤں‘ کی شناخت اور آزادی کے لیے، کانفرنسوں کے ذریعے پرچار اور تحفظ کرنا ہے۔

جہاں تک ’اگلہرچ‘ کا تعلق ہے، اس کا قیام ۱۹۹۱ء میں عمل میں آیا، اور اس کا مشن ’جنسی رجحان، صنفی شناخت، اور ’ایڈز‘ کی بنیاد پر پائے جانے والے تعصب اور بدسلوکی کے رجحانات کو کنٹرول کرنا اور اس حوالے سے انسانی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانا ہے۔

پس، یہ ادارے، تنظیمیں اور ان کے اہداف، منصوبے اور لائحہ عمل اور موقف سب مل کر ایک ایسے خیالی اور موہوم انسانی گروہ کو حقیقت کا رنگ دے کر پیش کرتے ہیں، جسے ان کی زبان میں ’عالمی ہم جنس تحریک‘ (Gay International ) کہا جا تاہے۔

امریکی سرزمین پر انسانی حقوق کے بڑے ادارے( ہیومن رائٹس واچ، ایمنسٹی انٹرنیشنل)، اور بہت سی سفید فام مغربی حقوق نسواں کی تنظیموں، اور عالمی ہم جنس پسندوں نے اپنے اس موقف اور ایجنڈے کی وکالت کے لیے مسلم دنیا میں ایک خاص مقام اور جگہ کا حصول طے کر رکھا ہے، جو اپنی اصل میں ’مستشرقین‘ کا تسلسل ہے۔ اس کے لیے امریکا اور یورپ میں مقیم، مسلم دنیا کے پڑھے لکھے اذہان کو چُنا جا رہا ہے، تاکہ وہ مغرب میں مقیم مسلمانوں کو خاص طور پر اور غیر مغرب میں مقیم مسلمانوں کو عام طور پر ’انسانی حقوق کے جدیدفلسفے‘ کی تعلیم و تفہیم کراسکیں۔

اس سارے عمل میں ’عالمی ہم جنس تحریک‘ قدرے دیر سے شامل ہوئی۔ اس لیے دوسری تنظیموں کے قدم کے ساتھ قدم ملانے کے لیے اس تنظیم کے مشنری کاموں کے حامیوں نے مسلم دنیا کو متاثر کرنے کے لیے دوطرح کا لٹریچر تیار کیا ہے۔ ایک تو امریکن یا یورپین سفید فام ہم جنس پسند مرد دانش وروں (Gay Scholars) کا لکھا ہوا ہے، جو زیادہ تر نصابی، تاریخی، ادبی اور  سماجی نظریات پر مشتمل فکری لوازمہ ہے۔ یہ گروہ عرب اور مسلم دنیا کے ماضی اور حال میں ’ہم جنس پسندی‘ کے واقعات اور مثالیں تلاش کرکے لاتا ہے۔ مسلم دنیا کے موجود ہم جنس پسندوں کی زندگی کے احوال صحافتی رپورٹوں اور تحقیق کے ذریعے پیش کیا جاتا ہے، اور پھر ہم جنس پسندی کو مزید آگے بڑھانے کی تاکید بھی کسی نہ کسی انداز سے کی جاتی ہے۔ اس لٹریچر کا ایک اور مقصد مغرب کے ہم جنسیت پسند سفید فام سیاحوں کو اس امر سے آگاہ کرنا ہوتا ہے کہ مسلم اور عرب دنیا میں سیر کے دوران کہاں کہاں انھیں یہ ذرائع اور مواقع دستیاب ہیں۔

مسلم دنیا کے حوالے سے اس تنظیم کا ایک اور مشن یہ بھی ہے کہ عرب ا ور مسلم دنیا میں ’مرد و زن ہم جنسیت پسندوں‘ کی الگ شناخت اور حیثیت کو تسلیم کروایا جائے کیونکہ ان کا خیال ہے کہ الگ شناخت تسلیم نہ ہونے کی وجہ سے ان کے حقوق محفوظ نہیں ہیں اور وہ جبر کا شکار ہیں، نہ چاہتے ہوئے بھی اپنے آپ کو مرد یا عورت ظاہر کرنا پڑتا ہے___ حالانکہ یہ اپنے آپ کو ان دونوں مسلّمہ اصناف سے الگ رکھتے ہوئے ایک تیسری صنف کے طور پر رہنا چاہتے ہیں۔ ILGA کی شریک سیکرٹری لزاپاور کا کہنا ہے کہ ’’بیش تر مسلم ممالک کی ثقافتیں ہم جنس زدگان کے منظم گروہوں کو سماجی اور قانونی طور پر تسلیم نہیں کرتیں، اس لیے یہاں ہم جنسیت پسندوں کے منظم ہونے سے یہ لوگ بہت گھبراتے ہیں ،حالانکہ ان ممالک کی ثقافتوں میں مردانہ ہم جنس پسندی کی جڑیں بہت گہری ہیں‘‘۔

’نیشنل گے اینڈ لیزبین ٹاسک فورس‘ (NGLTF)کے انفارمیشن ڈائریکٹر اور تنظیم ’الگا‘ (ILGA ) کے ایک افسر رابرٹ بَرے کے مطابق: ’’ثقافتی اختلافات، لوگوں میں ہم جنس زدگی کے مختلف تعارفوں اور اقسام کی وجہ بنتے ہیں، لیکن اصل سوال تو جنسی آزادی کا ہے اور جنسی آزادی وہ منہ زور جذبہ ہے، جو فتی بندشوں سے بالاتر ہے‘‘۔ مراکش اور جنوبی اسپین میں، ہم جنس پروری کے حوالے سے موصوف نے لکھا ہے کہ ’’کم سے کم ایک لڑکے نے ہم جنس پسندی کی کھلے عام خواہش کا اظہار کیا تھا اور کسی متعین جنس (مرد، عورت) کے زمرے میں نہیں رہنا چاہتا تھا۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ مجھ جیسے اور لوگ بھی یہی چاہتے ہیں‘‘۔ اس طرح ایک فرد کی گفتگو پر انحصار کرتے ہوئے رابرٹ بَرے نے ایک قطرے میں دجلہ دیکھتے ہوئے اعلان کیاکہ ’’یہ آرزو آفاقی اور عالمی ہے‘‘۔

ہم جنس پسندوں کو الگ شناخت دلانے کے، ’عالمی ہم جنس پسندوں‘ کے دعوؤں کے برعکس میری راے یہ ہے کہ دراصل ہم جنس پسند مردوزن کے پروپیگنڈا لٹریچر کی پیداوار ہیں کیونکہ جہاں جہاں اس موقف یا ان تنظیموں کا وجود نہیں ہے، وہاں ایسے لوگوں کا نہ ہونے کے برابر وجود بھی  عام مردم شماری میں ضم رہتا ہے۔ ہم یہ بتائیں گے کہ کس طرح یہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت یہ باور کرانا پیش نظر ہے کہ ہم جنس پسند مردوزن، جو دنیا میں ہر جگہ پائے جاتے ہیں، انھیں بطور  ’ہم جنس پسند‘ الگ صنف کے تمام حقوق ملنے چاہییں، اور دوسری اصناف کے برابر عزت نفس ملنی چاہیے۔تاہم، اس حوالے سے ’ہم جنسوں کی عالمی تنظیم‘ کی طرف سے کی جانے والی جدوجہد کا اثر مسلم ممالک میں ویسا اثرانگیز نہیں ہے، جیساکہ ’آزادی کی جدوجہد‘ کے دوران تھا۔

ہم جنس پسندوں کی عالمی تنظیم نے ۱۹۹۴ء میں اسٹون وال بغاوت کی بیسویں برسی کے موقع پر ، اپنی ایک تنظیم ’الگا‘ کے توسط سے ایک نئی جارحانہ عالم گیر مہم کا آغاز کیا ۔۱۹۹۳ء میں ’الگا‘ کو اقوام متحدہ میں ’سرکاری این جی او کا درجہ ملنے کے بعد (جو بعد میں واپس لے لیا گیا) اس کی بین الاقوامی سرگرمیوں میں شدت آگئی، جن میں ’ایران میں ہم جنس پسندوں کو لگنے والی پھانسیوں‘ کو روکنے کی مہم بھی شامل تھی۔ اسی طرح اقوام متحدہ کے سامنے ’ہم جنس پسندوں‘ کے حقوق کے لیے مارچ کا انعقاد، ۱۹۹۹ءکے سال کو ’ہم جنس پسندوں کا سال‘ کے طور پر منانے کا مطالبہ اور ’انسانی حقوق کے عالمی اعلامیہ‘ کا ہم جنس پسندوںپر اطلاق کا مطالبہ بھی اس مہم میں شامل تھا۔

عرب دنیا اور ایران میں ’ہم جنسیت‘ پر تحقیقی مقالے کا مصنف ریکس ووکنر، اس وقت حیرت کے مارے سر پکڑ کر بیٹھ گیا، جب اسے معلوم ہوا کہ ایرانی اور عرب نسل کے بدن فروش مرد، اپنی صنف اور مخالف صنف سے جنسی تعلقات رکھنے میں تو کوئی عار محسوس نہیں کرتے، لیکن انھوں نے مغربی ہم جنس پسندوں کی طرح پر الگ شناخت سے بالکل انکار کر دیا۔   ریکس ووکنر شدید حیرت اور غصے کے ملے جلے جذبات میں تلملا کر کہتا ہے کہ ’’یہ منافقت ہے یا کوئی الگ دنیا کا معاملہ ہے کہ چار پیسے کمانے کے لیے تو ہم جنسی پر راضی ہوجانے والے یہ مرد بھی اندر سے پکے مرد کے بچے ہیں، جو روزگار کی خاطر ہم جنسیت پر تیار ہیں، لیکن اپنی شناخت بدلنے کو قطعاً تیار نہیں۔ کیا انسان فطری طور پر ہی ہر دو جنسوں کی طرف مائل ہوتا ہے یا یہ چکّر چلانا صرف ایرانی اور عرب مردوں کو آتا ہے اور مغرب کے لوگ اس حقیقت سے واقف نہیں؟‘‘

 عرب اور مسلم دنیا کے ایسے مردوں کی جنسی کج روی میں پائے جانے والے اس بنیادی فرق سے ہم جنسیت پسندوں کی عالمی تنظیم کوسخت تشویش لاحق ہے۔ کیونکہ مغرب میں پائے جانے والے کثیر الجہتی اور کثیر الاشکال ہم جنس پسند ایک جھنڈے تلے جمع ہونے کو تیار ہیں، لیکن عرب اور مسلم دنیا میں پائے جانے والے ایسے مرد و زن اس فعلِ بد کے لیے تیار ہونے کے باوجود ان کے جھنڈے تلے ایک عالمی ریوڑ کی شناخت اپنانے کو تیار نہیں ہیں۔ اس لیے ہم جنس پسندوں کے عالمی مشن کا مطالبہ ہے کہ عرب اور مسلم دنیا میں پائی جانےوالے اس مزاحمتی کردار کو کسی نہ کسی طرح تعلیم و تربیت سے مغربیایا جائے اور روشن خیالی کی طرف مائل کرتے ہوئے استشراقِ نو کی خواہش کے مطابق ڈھالا جائے۔

مسلم دنیا اور عرب دنیا میں ہم جنسیت کے فروغ کے پیچھے وہ مالی مفادات بھی کارفرما ہیں، جو مغربی ہم جنسیت پسندوں کو یہ امور سرانجام دینے کے لیے ملتے ہیں۔ اسی سلسلے میں ایک محقق جیفری ویکس کا کہنا ہے کہ ان وظائف کا حق دار بننے کے لیے ’’اب بہت سے مغربی ہم جنسیت پسندوں نے، ایک عرصے سے مسلم دنیا کا سفر و سیاحت اس توقع کے ساتھ شروع کر رکھا ہے کہ وہ یہاں بھی ’جنس کدوں‘ کو تلاش کر سکیں‘‘۔

جیفری ویکس نے مسلم دنیا میں آنے والی حالیہ تبدیلیوں کا گہرا مطالعہ کرتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ’’آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ کیا یہ ثقافت سیکولر مغربی ماڈل کو اپنائے گی یا تیزی سے مذہبی عسکریت پسندی کے زیراثر آجائے گی؟‘‘۔ ایک محقق ایوریٹ روسن اور ایڈورڈ لاسی عربوں کے نویں صدی سے گیارھویں صدی کے درمیان لکھے لٹریچر کی بنیاد پر کہتے ہیں کہ ’’اسلام مجموعی طور پر دیگر الہامی مذاہب کی نسبت زیادہ روادار، زیادہ آزادیاں دینے والا ،زیادہ اجازتیں اور زیادہ معاف کرنے والا مذہب ہے‘‘۔

لبنانی نژاد امریکی ابو خلیل عربی کتابوں سے ہم جنس پسندوں کے بارے میں اشعار اور قصّے کہانیاں کو پیش کرتا ہے، جن کا اسلامی تہذیب سے دُور دُور کا بھی واسطہ نہیں۔

مغرب میں عام طور پر یہ رجحان پایا جاتا ہے کہ وہ دانستہ طور پر اسلامی تہذیب سے غلط سیاق و سباق کی مثالیں نکال کر من مانی تشریحات پیش کرتے ہیں۔ مثلاً قرون وسطیٰ میں جب مغرب میں غلاموں اور خواجہ سراؤں کو انسان ہی نہیں سمجھا جاتا تھا اور اس وقت بعض غلام اور خواجہ سرا، مسلم ممالک میں رُتبوں پر فائز تھے۔ اس مثال کو ہم جنس پسندی کی دلیل کے طور پر پیش کرنا کہاں کی علمی دیانت ہے اور انصاف ہے۔

عرب اور مسلم دنیا میں ’جدیدیت‘ یورپی سامراجیت کے ان معاشروں پر سیاسی غلبے سے شروع ہوئی۔ نوآبادیات میں بسنے والے بھولے اور سیدھے سادے مسلمانوں نے مانع حمل اور اسقاطِ حمل کی مصنوعات اور تشہیر کو بہت عمومی انداز میں تصور کیا ۔انیسویں صدی کے وسط میں  فقہ اسلامی کے کچھ مکاتب فکر نے، اسقاط حمل (اور بعدازاں خاندانی منصوبہ بندی) کے حوالے سے تقریباً وہی موقف اپنایا جو مغرب میں جڑپکڑ رہا تھا۔

اگرچہ عرب دنیا میں نوآبادیاتی تسلط نے، پھر ماضی قریب میں عرب ممالک اور مغربی حکومتوں کے درمیان من مانی شرائط پر قائم تعلقات نے، عرب دنیا کی روزمرہ زندگی کے بیش تر تہذیبی اور ثقافتی پہلوؤں کو متاثر کیا ہے۔ مغرب میں پائی جانے والی جنسی آزاد روی سے متاثر ہوکر سفیدفام عورتوں کے اسیر بننے والوں میں ابھی تک عربوں کے صرف امیر طبقات شامل ہیں۔ ہم جنسیت پسندوں کی عالمی تنظیم نے ان دولت مند طبقات کے اندر اپنے بہت سے ہم پیالہ اور  ہم نوالہ دلال تلاش کر لیے ہیں، جن میں سے ایک چھوٹی سی اقلیت ان امیر زادوں کی ہے جو ہم جنس تعلقات میں بھی مشغول ہیں۔تاہم وہ نہ تو ہم جنس پسندانہ شناخت کے متمنی ہیں اور نہ اس مسئلے پر ہم جنس پسندوں کے لیے کسی قسم کے مطالبات کے خواہاں ہیں۔ یہی بات ’ہم جنس پسندوں کی عالمی تنظیم‘ کے لیے تشویش کا باعث ہے کہ وہ اپنے لٹریچر میں جس دجلہ کو مسلسل دکھا رہے ہیں، اس کا نشان قاہرہ اور بیروت جیسے میٹرو پولیٹن شہروں کے اندر موجود ہم جنسیت پسندوں کے چھوٹے موٹے گروہوں کے اندر بھی کہیں نمایاں ہوتا نظر نہیں آتا۔

واشنگٹن ،ڈی سی میں کچھ عربوں نے ایک تنظیم ضرور بنا دی ہے، جس کا نام ہے: ’گے اینڈلزبین عریبک سوسائٹی‘ (GLAS: ’گلاس‘) ۔ تاکہ عرب دنیا میں ہم جنسیت کو مقبول بنانے کی خواہش اور شناخت کو کسی نہ کسی شکل میں ضرور دکھایا جا سکے۔ اس کے بانی اور ڈائریکٹر رمزی زکریا کے مطابق: ’’عرب دنیا میں کسی ہم جنس کے ساتھ تعلقات کا مطلب: ’ہم جنسیت کا فروغ‘ نہیں لیا جاتا بلکہ اس کا مطلب محض اپنے ہم جنس سے عارضی جنسی تعلقات لیا جاتا ہے۔ یہ سرگرمی ہم جنس پسندی اس وقت کہلا تی ہے جب یہ تعلقات اس سے آگے بڑھ کر محبت وغیرہ میں تبدیل ہو جائیں، اور وہ ساتھ رہنے کو ترجیح دیتے ہوں‘‘۔’گلاس‘ کو اُمید ہے کہ عرب دنیا میں آنے والی تبدیلی وہی رُخ اختیار کرے گی، جو اس ضمن میں یورپ اور امریکا میں روزافزوں ہے۔ اس لیے عرب ہم جنس زدگان کی تنظیم کا دعویٰ ہے کہ ’’اگرچہ عرب مرد ہم جنس پسندی کی واضح شناخت کے متمنی نہیں ہیں، لیکن کسی نہ کسی شکل میں اس خواہش کا اظہار تو ہو رہا ہے۔ اس لیے ’گلاس‘ ان کی نمایندگی کا دعویٰ رکھتی ہے‘‘۔

ہم جنسیت پسندوں کی عالمی تنظیم کو ،عالمی سطح پر دو اور حوالوں سے تعاون حاصل ہے: پہلا یہ کہ ’دنیا بھر میں ایڈز کے پھیلاؤ کا مسئلہ‘ اور دوسرا عرب اور مسلم دنیا میں ریڈیکل اسلامک عناصر کے پھیلاؤ کا مسئلہ۔ ایڈز کے مرض کو عام طور پر چونکہ ہم جنسیت سے جوڑا جاتا ہے اس لیے مذکورہ عالمی تنظیم اس مسئلے کو اپنے حق میں استعمال کرتی، اور مغربی سیاسی و سماجی اداروں کی حمایت حاصل کرتی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ پچھلے بیس برسوں میں مغرب میں عرب اور مسلم دنیا میں ریڈیکل تنظیموں کے حوالے سے ، اس قدر خوف پھیلایا گیا ہے کہ عام لوگ اس کی روک تھام کے کسی بھی قدم کی حمایت کو تیار ہوجاتے ہیں اور یوں ہم جنس زدگان کی عالمی تنظیم مغرب میں یہ تاثر دیتی آرہی ہے کہ وہ کم از کم عرب امیر زادوں کو ’اس راستے‘ پر ڈال کر عرب دنیا میں اسلامی انقلاب کا راستہ روک رہی ہے۔

امریکا میں مقیم ایک پاکستانی فیصل عالم ’ہم جنس زدہ ٹاسک فورس‘ کا ایک اہم کارندہ ہے۔ اس نے ۱۹۹۷ء میں ’الفاتحہ فاؤنڈیشن‘ کے نام سے ایک تنظیم بنائی، جو مسلمان ’ہم جنس پسندوں‘ کی ’نمایندگی‘ کی دعوے دار ہے۔ موصوف کے بقول: ’’ہم جنسیت پسندی کے معاملات پر پیش رفت میں’اسلام’، ’عیسائیت‘ سے دو سو سال پیچھے ہے‘‘۔ یہ کوئی حیرت ناک بیان نہیں ہے کیونکہ ہم جنسیت پسندی کے فروغ پر مسلمانوں کی نمایندگی کا دعویٰ کرنا اس وقت مغرب میں ایک بڑا منافع بخش کاروبار ہے۔ ایسی بیان بازی کے بعد راتوں رات جس قسم کی مراعات اور سہولتیں میسر آجاتی ہیں، وہ عام حالات میں حاصل کرنا بہت مشکل ہے۔

مراکش کے ایک ماہرسماجیات خالد دورن نے اور ہی سمت تبصرہ لڑھکا دیا ہے کہ ’’اس طرح کے لوگوں (ہم جنس پسندوں) کو اسلام کی طرف راغب کرنے کے لیے یہ بات پھیلائی جاتی ہے کہ مسلمان بڑے روادار ہوتے ہیں، یہی وجہ ہے مراکش ہم جنس پسندوں کے کھیل کا میدان  بن چکا ہے، لیکن روایتی مذہبی حلقے ان غیر ملکی سیاحوں کے ہاتھوں بڑھتی ہوئی مردانہ جسم فروشی پر سخت تشویش میں مبتلا ہیں‘‘۔ پھر چونکہ گورے ایک عرصے تک افریقی ممالک پر قابض رہے اور افریقی عوام ان کے لیے سخت نفرت کے جذبات رکھتے ہیں، اس لیے جب کسی افریقی مرد کو کوئی  گورا پیشکش کرتا ہے تو وہ فوراً تیار ہوجاتا ہے تاکہ ماضی کی زیادتوں کا بدلہ لے اور ساتھ ہی معقول معاوضہ بھی حاصل کرے‘‘۔ ابو خلیل کا خیال ہے کہ عرب اور مسلم دنیا میں پائی جانے والی ہم جنس پسندی کی نوعیت مغرب سے بالکل الگ نوعیت کی ہے‘‘۔

۱۹۹۴ء میں قاہرہ میں اقوام متحدہ کے زیر اہتمام ’آبادی اور ترقی‘ سے متعلق ہونے والی کانفرنس‘اور۱۹۹۵ء میں بیجنگ میں ہونے والی ’خواتین کی عالمی کانفرنس‘ میں ہم جنسیت پسندوں کی عالمی تنظیم کے ایجنڈے کو زبردستی فروغ دیا گیا اور بہت سے عرب کالم نگاروں نے بھی اس پر بڑھ چڑھ کر لکھا۔ تاہم، ۲۰۰۰ء کے عشرے میں، مصری حکام نے قاہرہ کے ان اڈوں کو توڑنا شروع کردیا ہے، جہاں مصری ہم جنس پسند اور ان کے یورپی اور امریکی سیاحوں ہم جولی جمع ہوتے تھے۔۱۱ مئی ۲۰۰۱ء کو پولیس نے دریاے نیل میں گھومنے والی ایک کشتی پر چھاپہ مار کر ۵۵؍افراد کو رنگے ہاتھوں گرفتار کیا، لیکن جب پتا چلا کہ ان میں چند نوجوان بااثر گھرانوں سے تعلق رکھتے تھے تو انھیں چھوڑ کر معاملہ دبا دیا گیا۔ مگر جب عوامی دباؤ بہت بڑھا تو ان لوگوں پر بدکاری اور اسلام دشمنی کی دفعات لگوائیں۔ جن لوگوں پر بدکاری کے واضح ثبوت مہیا ہو گئے ، ان کو صرف ایک سال قید کی سزا سنائی گئی،کیونکہ مصری حکومت عالمی مقتدر حلقوں کے ہاتھوں مزید مشکلات بڑھانا نہیں چاہتی تھی۔ اس کریک ڈاؤن میں مغربی قاہرہ سے تعلق رکھنے والے اعلیٰ اور متوسط طبقے کے مصری مرد بے نقاب ہوئے جو یورپی اور امریکی سیاحوں کے ساتھ ہم جنسی تعلقات رکھتے تھے یا ان کے سہولت کار تھے ۔پولیس ان لوگوں کے انٹرنیٹ پر تمام رابطوں اور نیٹ ورک کا تعاقب کرنے میں کامیاب رہی ۔

مصری پولیس اگر ان میں سے کسی کو گرفتار کرتی بھی ہے تو ہم جنس پسندوں کی عالمی تنظیم، ’اگلہرچ‘ ہیومن رائٹس واچ ، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور مقامی ایجنٹوں کے ذریعے میڈیا میں حکومت کے خلاف مذمتی بیانات کی بوچھاڑ اور مظاہرے کرواتی ہے۔اور مصری حکومت کو دھمکیاں دی جاتی ہیں کہ اگر ان لوگوں کو رہا نہ کیا گیا تو امریکی امداد بند کروا دی جائے گی۔ اس طرح حکومت دہری مشکلات کا شکار ہو جاتی ہے، یعنی ان لوگوں یا ان کے حمایتیوں کو گرفتار کرتی ہے تو امریکا اور مغرب سے دباؤ میں اضافہ ہوتا ہے اور اگر ان کے ساتھ نرمی برتتی ہے تو ملک کے اسلام پسند عناصر دباؤ ڈالتے ہیں۔

اس حوالے سے ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ بیش تر عرب اور مسلم ممالک میں ہم جنسی تعلقات کے خلاف مدون قوانین کا فقدان ہے،جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہم جنس پسندوں کی عالمی تنظیم جب عرب اور مسلم دنیامیں موجود اپنے ہم نوالہ ایجنٹوں کو ہم جنس پسندی کے لیے اُکساتی ہے تو یہاں کی پولیس  ان کے خلاف کوئی باقاعدہ کاروائی کرنے کے بجائے انھیں صرف ڈراتی، دھمکاتی یا ان سے بھاری رشوت اینٹھتی ہے ۔

اس پس منظر میں مسلم دنیا اور عرب ممالک، زیربحث جنسی کج روی کے فروغ اور قانونی تحفظ کے دباؤ میں ہیں۔ اگرچہ دوسری تہذیبوں کے مقابلے میں یہاں پر مزاحمت زیادہ پائی جاتی ہے، لیکن اس کے باوجود، ’الگا‘، ’اگلہرچ‘ اور ’گلاس‘ کا ایجنڈا آگے بڑھ رہا ہے۔

کیا جماعت اسلامی ہسپتال بنانے کے لیے قائم کی گئی تھی؟

دوستوں کی محفل میں ایک تحریکی ساتھی نے یہ سوال کیا تو اس امر کا جائزہ لینا شروع کیا کہ کیا فلاحی اداروں کی کوئی افادیت تحریک اسلامی کے لیے ہے؟

فلاحی اداروں کی حیثیت اسلامی معاشرت میں وقف کی ہوتی ہے، یعنی کسی ادارےکے لیے اللہ کے نام پر جو اثاثہ دے دیا جائے اس کو کسی اور مقصد کے لیے استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ یہ صدقۂ جاریہ کی بہترین صورت ہے، جس کا اجر طویل عرصے تک ملتا رہتا ہے۔اثاثہ جات کے حساب سے وقف کی دوقسمیں بیان کی جاتی ہیں۔ پہلی صورت میں دیے گئے عطیے سے مسجد، مدرسہ، اسکول، ہسپتال یا کوئی اور فلاحی ادارہ قائم کیا جاتا ہے، جب کہ دوسری صورت یہ ہے کہ زمین، باغ، عمارت یا تجارت اس غرض سے وقف کی جائے کہ اس کی آمدنی سے فلاحی ادارے کے جاری اخراجات پورے کیے جائیں۔ فقہا نے دونوں مقاصد کے لیے وقف کرنے کی اجازت دی ہے۔ حضرت عثمانؓ نے مدینہ میں ہجرت کے ابتدائی دنوں میں مسلمانوں کے لیے کنواں بئرروما عطیہ کیا تھا، جو مزرعہ بئرعثمان کے اندر آج بھی موجود ہے۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو جنّت کی بشارت دی تھی۔

l وقف کی اسلامی تاریخ: اسلامی تاریخ کے پہلے وقف کے بارے میں دو آرا پائی جاتی ہیں: بعض سیرت نگاروں کا خیال ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد کی تعمیر کے لیے اوّلین زمین وقف کی تھی، جب کہ بعض دوسرے مؤرخین نے حضرت عمرؓ کی خیبرکی زمینوں کو اسلام کا پہلا وقف قرار دیا ہے۔۱ تاریخ کے مطالعے سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ تیسرے سنہ ہجری میں ایک نومسلم بنی نادر مخیرک نے رسولؐ اللہ کو سات باغات مدینہ میں عطا کیے تھے، جو آپؐ نے فلاحِ عامہ کے لیے وقف کر دیے تھے۔۲

حضرت عمرؓ نے ساتویں سنہ ہجری میں خیبر کی زمینوں کو وقف کرتے وقت باقاعدہ شرائط عائد کی تھیں: ’’یہ زمین فروخت نہیں کی جائے گی اور کسی نام پر حوالے نہیں کی جائے گی، نہ کسی کی میراث بن سکے گی بلکہ اس کی آمدنی سے غریبوں، مسکینوں اور ضرورت مندوں کی مدد کی جائے گی۔ اللہ کے راستے میں خرچ کیا جائے گا۔ مسافروں اور مہمانوں کی خدمت کی جائے گی۔ اگر اس کی دیکھ بھال کرنے والے اس میں سے اپنی ضروریات پر خرچ کرلیں گے تو اس میں کوئی حرج نہیں لیکن وہ اپنے لیے اس میں سے کوئی چیز ذخیرہ نہیں کرسکتے‘‘ (بخاری، مسلم)۔

اسلامی تاریخ میں خلفاے راشدین، بنواُمیہ، بنوعباس، ممالیک اور عثمانی سلطنت کے دور میں ہزارہا وقف قائم ہوئے اور ان کی آمدنی سے تعلیمی ادارے، لائبریریاں، ہسپتال اور دیگر فلاحی ادارے بنائے گئے۔ اساتذہ، ملازمین اور منتظمین کی تنخواہیں ادا کی گئیں۔ مستحق طلبہ کو وظائف دیے گئے۔ عباسی دور میں ہسپتال تعمیر کیے گئے اور مریضوں کے علاج کے اخراجات ادا ہوئے۔ مسافروں اور غربا کے لیے عارضی رہایش گاہیں تعمیر کی گئیں۔ اسلامی دنیا کی ایک ہزار سال پرانی یونی ورسٹی الازہر بھی مصر میں فاطمی دور میں ایک وقف کے طور پر قائم کی گئی۔ دنیا میں سب سے زیادہ وقف زمین انڈونیشیا میں ہے، جس کا کُل رقبہ ۳۸کروڑ ۹۳ لاکھ مربع کلومیٹر ہے۔۳

اسلامی حکومتوں نے وقف کی گئی زمینوں، عمارات اور اداروں کو چلانے کے لیے وقتاً فوقتاً قوانین جاری کیے۔ اس کا مقصد ان کی کارکردگی کو بہتر بنانا، اور ان کی خدمات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانا تھا۔ عثمانی دور میں ان اداروں کی خاص سرپرستی کی گئی۔ سعودی عرب میں خانہ کعبہ اور مسجدنبویؐ کے اطراف میں بے شمار وقف موجود ہیں۔ گویا دین اسلام ضرورت مندوں کی خوراک، رہایش، معاشی امداد، تعلیم، صحت، امن و امان اور مفادِ عامہ کی غرض سے وقف قائم کرنے کی اجازت دیتا ہے۔

l خدمت اور دعوت کا  تعلق: جان لینا چاہیے کہ خدمت اور دعوت ایک ہی سکّے کے دو رُخ ہیں۔ دعوت کے تین ذرائع: قولی دعوت، تحریری دعوت اور عملی دعوت ہیں اور عملی دعوت کا بہترین ذریعہ خدمت خلق ہے۔ عامۃ الناس کی خدمت کے ذریعے ہی آپ ان کے دلوں پر دستک دے سکتے ہیں۔ سنت ِ رسولؐ یہی ہے اور اُمت نے بھی اسی راستے کو دعوت کے لیے کارآمد پایا ہے۔

عامۃ الناس کی خدمت کرنے کے تین درجے ہیں۔ پہلا طریقہ یہ ہے کہ ضرورت مندوں کی ذاتی طور پر براہِ راست مدد کی جائے اور مشکل اوقات میں ان کے لیے آسانیاں مہیا کی جائیں۔ دوسرا درجہ فلاحی اداروں کے قیام کا ہے جن کے ذریعے بڑے پیمانے پر غریبوں، مسکینوں، یتیموں اور بیواؤں کی مدد کی جاتی ہے۔ کسی بڑی آفت کی صورت میں منظم طریقے سے ان کی ضروریات کو پورا کیا جاتا ہے اور اعلیٰ درجے کی سہولیات ان کو مہیا کی جاتی ہیں جو کہ انفرادی مدد کے ذریعے ممکن نہیں۔ خدمت ِ خلق کا سب سے اعلیٰ درجہ یہ ہے کہ اسلامی فلاحی مملکت قائم کرکے ہرفرد کو اس کی دہلیز پر بنیادی ضروریات فراہم کی جائیں تاکہ اس کو کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کی ضرورت نہ رہے۔

جماعت اسلامی کے پیش نظر ان تینوں ذرائع سے عوام کی خدمت کرنا ہے اور اس کی جدوجہد کا اصل مقصد فلاحی حکومت کا قیام ہے۔ اس وقت تک انفرادی مدد اور اداروں کے ذریعے خدمت ِ خلق کا کام جاری ہے۔ یہ دعوت کو پھیلانے کا بہترین ذریعہ ہے۔

l تحریک کے لیے اہمیت:سوال یہ ہے کہ تحریک اسلامی کے لیے عہدحاضر میں فلاحی اداروں کی کس قدر ضرورت اور اہمیت ہے؟ جماعت اسلامی نے اپنے قیام سے ہی فلاحی کاموں کا آغاز کردیاتھا۔ قیامِ پاکستان کے بعد مہاجرین کو درپیش مسائل کے حل کے لیے داعی تحریک سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ اور ان کے رفقا نے سرگرم کردار ادا کیا۔ قربانی کی کھالوں کو جمع کرکے اس سے عوام کی خدمت کا تصور جماعت اسلامی نے ہی پیش کیا (جس پر اب ملک کی ہرفلاحی تنظیم عمل پیرا ہے)۔

مولانا مودودیؒ نے خدمت خلق کے کاموں کی سرپرستی فرمائی۔ آپ کی ہدایت پر  خدمت ِ خلق کی انجام دہی کے لیے مختلف اوقات میں مختلف ناموں سے تنظیموں کا قیام عمل میں لایا گیا اور منظم انداز میں فلاحی کاموں کا آغاز کیا گیا۔ الحمدللہ، موجودہ دور میں الخدمت فاؤنڈیشن  ایک الگ، رجسٹرڈ اور خودمختار تنظیم کے طور پر پورے ملک میں مستحکم ہوکر مسلسل آگے بڑھ رہی ہے، اور بسااوقات عالمی سطح پر بھی فلاحی منصوبوں میں اپنا کردار ادا کرتی رہی ہے۔

معاصر اسلامی تحریکوں کا جائزہ لیا جائے تو اخوان المسلمون نے ۱۹۴۰ء میں منافع بخش تجارت اور اس کی آمدنی سے فلاحی کاموں میں مدد کرنے کے لیے سات کمپنیاں قائم کیں، جن میں اسلامی فنانس کمپنی، پرنٹنگ ہاؤس، معدنیات کی کمپنی، کپڑا بنانے کی فیکٹری، انجینیرنگ کمپنی ، عام تجارت کا ادارہ اور میڈیا کمپنی شامل تھیں۔ ان اداروں نے اخوان کے فلاحی اور تنظیمی کام کو مستحکم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اخوان کے ساتھیوں نے مصر میں بڑے تجارتی منصوبے کامیابی سے چلائے۔۴  زمانے کے نشیب و فراز کے باوجود ان کاموں کا نتیجہ بالآخر مصر کے عام انتخابات میں اخوان کی کامیابی کی صورت میں نکلا۔ ترکی، تیونس، مراکش اور دیگر ملکوں میں اسلامی تحریکیں خدمت ِ عام کے بے شمار رفاہی ادارے کامیابی سے چلارہی ہیں۔

l حکومت چلانے کی تربیت: فلاحی اداروں کی اہمیت پاکستان میں اس لیے اور بھی بڑھ جاتی ہے کہ ڈیڑھ سو سالہ عہدِ غلامی میں غیر مسلم حکمرانوں کی جانب سے یہ بات بڑے زوروشور سے پھیلائی گئی کہ اسلامی عناصر حکمرانی کے کام کے لیے موزوں نہیں۔ اس پروپیگنڈے کے اثرات آج بھی ہمارے عوام میں بڑی حد تک پائے جاتے ہیں۔ جماعت اسلامی کے پاس اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کی بڑی ٹیم موجود ہے۔ یہ لوگ مختلف اداروں کو کامیابی سے چلا کر جماعت کی صفِ اوّل کا کردار ادا کر رہے ہیں اور عوام کو اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھا کر متاثر کر رہے ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا پر جماعت اسلامی کے حامی فلاحی اداروں کے سربراہان عوام الناس کو اپنی کارکردگی سے آگاہ کرتے ہیں تو لوگوں کے ذہن اَزخود جماعت کی خدمات کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں۔

l صحت عامہ کے اداروں کی ضرورت:اب آیئے اس سوال کی طرف کہ فلاحی کاموں کے لیے ہسپتالوں اور میڈیکل اداروں کی کیا ضرورت اور اہمیت ہے؟ اس کا اندازہ ’کورونا‘کی وبا کے دوران جماعت اسلامی کے ہسپتالوں، اداروں اور اس کے ہم خیال ڈاکٹروں کی کارکردگی سے کیا جاسکتا ہے۔ کورونا کی وبا کے آغاز سے ہی نظمِ جماعت نے اپنے تمام ہسپتالوں کو جدید آلات سے مزین کرکے حکومت کو پیش کر دیا۔ اس دوران جماعت سے وابستہ تنظیموں نے کروڑوں روپے کا طبی سامان ضرورت مندوں میں تقسیم کیا۔ ایسے بھی کئی مقامات تھے جہاں پر حکومت حفاظتی سامان نہیں پہنچاسکی وہاں پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (پیما )نے یہ سامان مہیا کیا۔ یوں الخدمت، پیما اور جماعت اسلامی کے حلقۂ خواتین نے دوماہ میں دو ارب روپے فلاحی کاموں پر خرچ کیے۔ کورونا کا ٹیسٹ کرنے کے لیے ۵کروڑ روپے کی لاگت سے جدید مشینری لگائی گئی، جس کے ذریعے پرائیویٹ ہسپتالوں میں آٹھ، نوہزار روپے میں کیا جانے والا ٹیسٹ الخدمت لیب میں ۳ہزار روپے میں کیا گیا۔ تھر میں الخدمت ہسپتال کا دورہ، اعلیٰ حکام نے مہم کے ابتدائی دنوں میں کیا اور اس کو حکومت نے کورونا سنٹر کا درجہ دے دیا۔ صفائی اور جراثیم سے بچاؤ کا سامان (سینی ٹائزر) ہزاروں لیٹر تقسیم کیا گیا۔ الغرض اس کثیرالجہتی مہم سے تحریک کو جہاں پاکستانی عوام کی خدمت کا موقع ملا وہاں عوام کو یہ پیغام بھی ملا کہ جماعت کے افراد اعلیٰ درجے کے ادارے کامیابی سے چلا سکتے ہیں۔

l مستقبل کا لائحہ عمل: اسلامی تحریکوں کے لیے خدمت خلق کے اداروں کی حیثیت مسلّمہ ہے۔جدید ٹکنالوجی سے مزین اعلیٰ معیار کے اداروں کی خدمات کو ہرایک اچھی نظرسے دیکھتا ہے اور تعریف پر مجبور ہوجاتا ہے۔ بہترین انتظامی صلاحیتوں کے حامل افراد ان اداروں کو چلانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اس تناظر میں فوری ضرورت اس امر کی ہے کہ بیرونِ ملک مقیم ہم خیال پروفیشنل حضرات کی خدمات سے فائدہ اُٹھا کر بین الاقوامی سطح کے مختلف النوع منصوبے ملک میں شروع کیے جائیں تاکہ آنے والے برسوں میں تحریک کا تشخص اور زیادہ بہتر بنایا جاسکے۔ اس کا ایک اور بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ماہرین کی بڑی تعداد اس دعوت کے قریب آسکتی ہے  جن کو مناسب حکمت عملی کے ذریعے اپنی تنظیم کے اندر سمویا جاسکتا ہے۔نیز یہ مراکز اسلامی فکر اور لٹریچر کے فروغ کا ذریعہ بھی بنیں گے۔

حواشی

۱-         عبداللہ بن عبدالرحمٰن ، توحید الاحکام من بلوغ المرام، جلد ۴ (۱۹۹۷ء)، مکتبہ النہضۃ الحدیثہ

۲-         جرنل آف اسلامک اکنامک سائنسز، جلد۱، شمارہ ۱ (۲۰۱۵ء)، ص ۸

۳-         رپورٹ وزارت مذہبی اوقاف، انڈونیشیا، ۲۰۱۶ء

۴-         عبدالحلیم علی، Methodology of Education Adopted by Muslim Brotherhood، قاہرہ، ص ۵۹

اگرچہ ماحول کے متعلق اسلام کا نظریہ قابلِ عمل اور اخلاقی اصولوں کے مطابق ہے، لیکن پھر بھی جہاں تک جنگلات کی بربادی، زمین کے کٹاؤ، پانی کی آلودگی، جنگلی حیات کی تباہی اور مضرصحت گندگی کا تعلق ہے، مسلم ممالک دنیا کے دوسرے صنعتی ممالک سے بہتر نہیں ہیں۔ نامناسب ٹکنالوجی کی درآمد اور استعمال سے وہ نہ صرف صحت بخش ماحول کے اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہیں بلکہ ماحول کو ایسا زہرآلود بنادیتے ہیں کہ انسانی بقا کو خطرات لاحق ہوجاتے ہیں۔ بہت سے مسلم ممالک ماحولیاتی خطرات کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں۔

اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم ماحول کے متعلق اسلام کے احکامات سے ناواقف ہیں۔ بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ کائنات، فطرت اور قدرتی ماحول کے متعلق قرآنی آیات کی تعداد ان آیات سے زیادہ ہے جن کا تعلق احکامِ ربانی اور مذہبی عقائد سے ہے۔ درحقیقت قرآنی آیات میں سے ۷۵۰ آیات (یعنی قرآن کا آٹھواں حصہ) ایمان والوں کو ترغیب و تلقین کرتی ہیں کہ   وہ اللہ کی قدرت پر غور کریں، تمام جان داروں کا ان کے گردونواح کے ماحول سے تعلق کا مطالعہ کریں، اور اللہ کی تخلیق کے درمیان توازن اور تناسب کو برقرار رکھنے کے لیے عقل و دماغ سے کام لیں۔

اللہ تعالیٰ نے ارضی وسائل، یعنی زمین، پانی، ہوا، معدنیات اور جنگلات انسانوں کے لیے پیدا کیے ہیں تاکہ ہم اخلاقی دائرے میں رہتے ہوئے ان سے مستفید ہوں۔ ہم انھیں اپنے مقاصد اور مفاد کے لیےان تعلیمات کے غلط معانی لیتے ہوئے جرائم کے مرتکب ہوتے ہیں۔   اس کی مثال ان مسلم ممالک میں ملتی ہے جہاں ماحول کی اہمیت سے آشنا رہنماؤں کا فقدان ہے۔

انسان کرہ ٔ   ارض کا منتظم

بہت سے مسلمانوں کو تو ماحول کے تحفظ کے متعلق قرآن کی تاکید پرحیرت ہوگی کہ ماحول کے متعلق اسلام کا نظریہ کس قدر تقدس اور پاکیزگی کا حامل ہے۔ کائنات کی ہرتخلیق کا کسی نہ کسی طرح ایک دوسرے سے تعلق ہے۔ اگر ان میں سے کوئی بھی چیز متاثر ہوتی ہے تو اس کا اثردوسرے پر بھی پڑتا ہے۔ انسان قدرت کی بہترین تخلیق ہے۔ اس کا قدرت سے رشتہ کسی بھی حال میں منقطع نہیں ہوسکتا۔

انسان چونکہ غوروفکر کی صلاحیت رکھتا ہے، اس لیے اس کوروئے زمین پر اللہ کا نائب بنایا گیا ہے۔ قدرت کی تخلیق میں اللہ تعالیٰ نے توازن رکھا ہے اور ایک مہتمم کی حیثیت سے انسان پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اس کے کسی بھی عمل سے قدرت کے توازن میں کوئی خلل نہ پڑے۔ روے زمین پر ناظم کی حیثیت حاصل ہونے کے معنی یہ نہیں کہ انسان کو ہر ذی روح پر فوقیت حاصل ہے۔ دراصل حاکمیت تو صرف اور صرف اللہ کی ہے۔ ایک ناظم کی حیثیت سے انسان پر اللہ کی تخلیق کے تحفظ کے سلسلے میں اخلاقی ذمہ داریاں عائد ہیں۔ لہٰذا انسان کے طرزِ زندگی اورقانونِ قدرت میں تضاد اور مخاصمت نہیں بلکہ ہم آہنگی اور مطابقت ہونی چاہیے۔ اسلام میں قدرت کی تخلیق پر غوروفکر اور اس کی پنہاں کارکردگی کے سمجھنے کو علم کا بنیادی اصول قرار دیا گیا ہے۔ انسان کو اپنے اردگرد قدرت کی تخلیق اور مظہرکائنات میں اللہ کی قدرتِ کاملہ کا پر تو نظر آسکتا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کو، جس کو قرآن کی اصطلاح میں قانونِ قدرت کہا جاسکتا ہے، بہتر سمجھ سکتا ہے۔

اللہ تعالیٰ قرآنِ پاک میں فرماتا ہے:

اِنَّ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّہَارِ وَالْفُلْكِ الَّتِىْ تَجْرِيْ فِي الْبَحْرِ بِمَا يَنْفَعُ النَّاسَ  وَمَآ اَنْزَلَ اللہُ مِنَ السَّمَاۗءِ مِنْ مَّاۗءٍ فَاَحْيَا بِہِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِہَا وَبَثَّ فِيْہَا مِنْ كُلِّ دَاۗبَّۃٍ۝۰۠ وَّتَصْرِيْفِ الرِّيٰحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَيْنَ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يَّعْقِلُوْنَ۝۱۶۴ (البقرہ ۲:۱۶۴)جو لوگ عقل سے کام لیتے ہیں اُن کے لیے آسمانوں  اور زمین کی ساخت میں، رات اور دن کے پیہم ایک دوسرے کے بعد آنے میں، اُن کشتیوں میں جو انسان کے نفع کی چیزیں لیے ہوئے دریاؤں اور سمندروں میں چلتی پھرتی ہیں، بارش کے اُس پانی میں جسے اللہ اُوپر سے برساتا ہے پھر اس کے ذریعے سے مُردہ زمین کو زندگی بخشتا ہے اور (اپنے اِسی انتظام کی بدولت) زمین میں ہرقسم کی جان دار مخلوق کو پھیلاتا ہے، ہواؤں کی گردش میں، اور اُن بادلوں میں جو آسمان اور زمین کے درمیان تابع فرمان بنا کر رکھے گئے ہیں، بے شمار نشانیاں ہیں۔

پانی کا بنیادی کردار

زمین پر زندگی کی بقا کے سلسلے میں پانی کی بنیادی اہمیت اور کردار کے متعلق قرآن میں کئی آیات نازل ہوئی ہیں۔ زمین کی زرخیزی، میٹھے پانی اور کھارے پانی کے خواص، دریاؤں، چشموں اور زیرزمین آبی ذخائر کا حوالہ دیتے ہوئے قرآن، زندگی کے قیام اوربقا کے سلسلے میں قدرت کی ہرشے پرپانی کو سب سے زیادہ اہمیت دیتا ہے۔ قرآن پاک کی ایک آیت میں اللہ تعالیٰ پانی کے معجزے کا ذکر کرتا ہے۔ جو لوگ روزِ حشر کو نہیں مانتے اور انھیں یقین نہیں ہوتا کہ مرنے کے بعد بھی انسان زندہ ہوگا، ان کو اللہ تعالیٰ مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ کس طرح بطن مادر میں ناقص اور نامکمل بچہ بالیدگی کی منزل طے کرتا ہے اور پھر عالمِ وجود میں آتا ہے۔ خالق کائنات منکرینِ حشر سے کہتا ہے : اگر تم کو اب بھی موت کے بعد دوبارہ زندہ ہونے پر شبہہ ہے تو دیکھو اور غور کرو:

وَاٰيَۃٌ لَّہُمُ الْاَرْضُ الْمَيْتَۃُ ۝۰ۚۖ اَحْيَيْنٰہَا وَاَخْرَجْنَا مِنْہَا حَبًّا فَمِنْہُ يَاْكُلُوْنَ۝۳۳ وَجَعَلْنَا فِيْہَا جَنّٰتٍ مِّنْ نَّخِيْلٍ وَّاَعْنَابٍ وَّفَجَّــرْنَا فِيْہَا مِنَ الْعُيُوْنِ۝۳۴ۙ  (یٰسٓ ۳۶: ۳۳-۳۴)  اِن لوگوں کے لیے بے جان زمین ایک نشانی ہے۔ ہم نے اُس کو زندگی بخشی اور اس سے غلّہ نکالا جسے یہ کھاتے ہیں۔ ہم نے اس میں کھجوروں اور انگوروں کے باغ پیدا کیے اور اس کے اندر سے چشمے پھوڑ نکالے۔

ماحولیات کی سائنس کا اہم مقصد روئے زمین کو مختلف قسم کی حیاتیات کے لیے موزوں اور قابلِ رہایش بنانا ہے۔ مختلف اقسام کی جماداتی، حیوانی اور نباتاتی حیاتیات کے بغیر ہماری زندگی جیسی کہ ابھی ہے، ممکن نہ ہوتی۔ ہرجان دار کو زمین پر زندہ رہنے اور پھلنے پھولنے کا حق حاصل ہے کیونکہ ان کی موجودگی سے اللہ تعالیٰ کی تخلیق میں ایک تناسب اور حُسن ہے۔ اس کا ذکر اللہ تعالیٰ قرآنِ پاک میں یوں فرماتا ہے:

وَالْاَرْضَ بَعْدَ ذٰلِكَ دَحٰىہَا۝۳۰ۭ اَخْرَجَ مِنْہَا مَاۗءَہَا وَمَرْعٰىہَا۝۳۱۠ وَالْجِبَالَ اَرْسٰىہَا۝۳۲ۙ  مَتَاعًا لَّكُمْ وَلِاَنْعَامِكُمْ۝۳۳ۭ  (النزعٰت ۷۹: ۳۰-۳۳) اِس کے بعد زمین کو اس نے بچھایا، اُس کے اندر سے اُس کا پانی اور چارہ نکالا اور پہاڑ اس میں گاڑدیے سامانِ زیست کےطورپر تمھارے لیے اور تمھارے مویشیوں کے لیے۔

منتظمِ ارض کی اخلاقی ذمہ داریاں

انسان اللہ کی مخلوق ہے اور وہ اس کی دوسری مخلوقات کے ساتھ رہتا ہے۔ ایک دوسرے سے وابستہ اس عالمی نظام میں جس کا انسان ایک حصہ ہے، اس کی زندگی کا انحصار دوسرے جان داروں پرہے۔ کہیں ایسا نہ ہوکہ انسان اس غلط فہمی کا شکار بنا رہے کہ وہی اللہ کی تخلیق کا بہترین نمونہ ہے، لہٰذا قرآن انسان کو یاد دلاتا ہے کہ اس سے بھی بڑی تخلیق آسمان اور زمین کی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

ءَ اَنْتُمْ اَشَدُّ خَلْقًا اَمِ السَّمَاۗءُ۝۰ۭ بَنٰىہَا۝۲۷۪ (النزعٰت ۷۹: ۲۷ ) کیا تم لوگوں کی تخلیق زیادہ سخت کام ہے یا آسمان کی جسے اللہ نے بنایا؟

انسان کو اس کی حقیقت بتاتے ہوئے کہ وہ کائنات کا محض ایک چھوٹا جز ہے ، دراصل قرآن اس کی کم مائیگی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

انسانی طرزِ زندگی میں تغیرات سے انسان کے کردار میں بھی تبدیلیاں ہوتی ہیں اور اب انسان منتظم اور محافظ کی بجاے ایک تخریب کار اور غارت گر کا کردار ادا کر رہا ہے۔ اس خطرناک تبدیلی سے انسانی ذہنیت، تصور اور تخیل میں بھی ایک بڑا فرق پڑا ہے۔ انسان کے مادی اورروحانی، دُنیاوی اور دینی تقاضے بدل گئے ہیں۔

اگر مادی اور روحانی تبدیلیوں کے نتیجے میںانسان اپنے ہاتھوں لائی ہوئی تباہ کاریوں سے بالکل بے حس ہوجائے اور پھر بھی اس کی روح رحمت ِ باری کی تمنا کرے تو عجیب سا محسوس ہوتا ہے۔ ایسا بے حس انسان اس دنیا کو تباہ و برباد کرنے اور اللہ کی مخلوق کو نیست و نابود کرنے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کرے گا۔ اسلام کا نقطۂ نظر اس مسئلے میں بالکل واضح ہے۔ وہ روح اور جسم میں فرق تسلیم نہیں کرتا۔ اسلام میں روح اور جسم ایک ہی حقیقت، یعنی انسانی زندگی کے دو رُخ ہیں۔ کوئی بھی مسلمان جس کی زندگی اس عالمِ فانی میں حرص و ہوس اور جنگ و جدل میں گزری ہو وہ عالمِ جاوداں میں اپنی نجات کی اُمید نہیں کرسکتا، اور اگر وہ اللہ کی مخلوق سے نفرت کرتا ہے تو وہ خالقِ کائنات سے بھی محبت نہیں کرسکتا۔

ایک دو دھاری تلوار

کچھ ایسی قوتیں ہیں جو جسم اورروح میں خلیج پیدا کرنے میں مصروف اور معاون ہیں۔ ٹکنالوجی ان میں سے ایک ہے۔ ٹکنالوجی، مشین کو انسانی زندگی میں سب سے زیادہ اہمیت دیتی ہے اور رفتہ رفتہ اس کو قدرت اور یہاں تک کہ اسے خود اپنی ذات سے بھی بیگانہ کردیتی ہے۔ ٹکنالوجی ایک ایسی دو دھاری تلوار ہے کہ اگر یہ اخلاقی قیودو ضوابط کے تحت نہ ہو تو انسان کی روحانی حس و شعور کو سلب کردے۔ اس حقیقت کی نشان دہی کرتے ہوئے قرآن کہتا ہے:

وَاَنْزَلْنَا الْحَدِيْدَ فِيْہِ بَاْسٌ شَدِيْدٌ وَّمَنَافِعُ لِلنَّاسِ (الحدید ۵۷: ۲۵) اور لوہا اُتارا جس میں بڑا زور ہے اور لوگوں کے لیے منافع ہیں۔

یعنی یہ ایک دہشت ناک قوت کا حامل ہے اور ساتھ ساتھ تمھارے مفاد کا سرچشمہ بھی۔

اللہ تعالیٰ نے جو قوتیں لوہے ، یورینیم یا سلیکا جیسےقدرتی عناصر کو عطا کی ہیں جب انسان ان کو تخلیقی کی جگہ تخریبی کاموں کے لیے استعمال کرتا ہے، تو زندگی کی تباہی سے متعلق انسانی احساسات مُردہ ہوجاتے ہیں۔ اس سلسلے میں قرآن انسان کو متنبہ کرتا ہے کہ اگر لوہے کا غلط استعمال کیا جائے تو کس قدر بُرےاثرات روپذیر ہوں گے۔ جدید ٹکنالوجی کے دور میں جس میں مشینوں پر کُلی انحصار کیا جاتا ہے، انسان کی اہمیت گھٹ کر صفر کے برابر ہوجاتی ہے۔ اسلام میں اس علم کا کوئی اخلاقی جواز نہیں جس کی بناپر انسان کو اللہ کی مخلوق پر اقتدار اعلیٰ کے حاصل ہونے کا گمان ہو۔ اخلاقی دائرے میں رہتے ہوئے علم کے ذریعے اللہ کی تخلیقی عظمت کا انکشاف کرنا انسان کی ذمہ داری ہے۔

سرورِ عالم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کی ہدایات کے مطابق اپنے قول و فعل سےمسلمانوں کے لیے ایک اعلیٰ نمونہ پیش کیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ: ’’اگر کوئی مسلمان درخت لگاتا ہے یا کھیت بُوتا ہے ، جس سے انسان، چرند پرند روزی حاصل کرتے ہیں تو یہ اس کے لیے صدقہ ہے‘‘۔

آپؐ نے ایک جگہ اور ارشاد فرمایا کہ جو کوئی مُردہ، یعنی بنجر زمین کو قابلِ کاشت بناتا ہے اس کے لیے اس میں انعام ہے۔

قرآنِ پاک اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث، اسلامی آئین و قوانین کی بنیاد ہیں۔ صدیوں سے علماے اسلام نے جانوروں کے حقوق، پانی، جنگلات ، جنگلی حیات، زمین، چراگاہوں اور ارضی وسائل کے استعمال اور ان کے انتظام کے لیے قوانین وضع کیے ہیں۔ اسلامی قوانین نے کچھ ایسے حدود متعین کیے ہیں جہاں قدرتی وسائل کے تحفظ کے پیش نظر ترقیاتی کام ممنوع قرار دیے گئے ہیں۔ نہروں، کنوؤں اور دریاؤں کے کنارے کے علاقے حوائج ضروریہ کے لیے ممنوع قرار دیے گئے ہیں تاکہ پانی کو آلودگی سے بچایا جاسکے۔ جنگلات کو وسعت دینے کے لیے درختوں کی کٹائی پر پابندی لگادی گئی ہے۔ چراگاہوں میں جانوروں کو چرانے کے لیے قوانین بنائے گئے ہیں تاکہ چراگاہیں تباہ و برباد نہ ہوں۔ چراگاہوں، جنگلات اور جنگلی حیاتیات پر کسی کی اجارہ داری روکنے کے لیے انھیں نجی ملکیت میں نہیں دیا جاسکتا۔ یہ سب عوام کی ملکیت ہیں اور عوام کے مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کاا نتظام حکومت کے سپرد ہے۔

ماحول سےمتعلق اسلامی احکامات سے آگہی

۱۹۶۰ء میں ریسل کارسن کی کتاب Silent Spring کے شائع ہونے کے بعد ماحول کے متعلق لوگوں نے اوزون (Ozone ) میں سوراخ، گرین ہاؤس اور تیزابی بارش کے مضر اثرات کے بارے میں بہت ہی تشویش کا اظہار کرنا شروع کیا ہے۔ اس کے بعد زمین کو لاحق نقصانات سے بچانے کے لیے ماحول سے متعلق قواعد و ضوابط بنائے جارہے ہیں، مگر افسوس کا مقام ہے کہ اس سلسلے میں مسلمانوں کا کردار نہایت سُست اور نہ ہونے کے برابر ہے۔

اگر مسلمانوں کو ماحول کے تحفظ کے لیے بیدار کرنا ہے، تو دورِحاضر کےعلماے اسلام کو چاہیے کہ وہ لوگوں کو ان قرآنی احکامات سے آگاہ کریں جن کا تعلق ماحول کی اہمیت اور تحفظ سے ہے۔ اب دنیا کے مسائل ہزاروں سال پرانی دنیا کے مقابلے میں، جب کہ صنعتی انقلاب کا نام و نشان تک نہ تھا اور نہ زمین کے وسائل پر اس قدر بار تھا، بہت زیادہ پیچیدہ ہوگئے ہیں۔ ماحول سے متعلق کچھ اسلامی قوانین جو اسلامی تہذیب کے زمانۂ عروج میں مرتب کیے گئے تھے، موجودہ دور کے تقاضوں کے لیے ناکافی ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ انسان کے بنائے ہوئے قوانین صرف وقتی تقاضوں کے مطابق ہوتے ہیں مگر قانونِ قدرت ہر دور کے تقاضوں کو پورا کرتا ہے۔ قرآن کہتا ہے:

ظَہَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ اَيْدِي النَّاسِ لِيُذِيْقَہُمْ بَعْضَ الَّذِيْ عَمِلُوْا لَعَلَّہُمْ يَرْجِعُوْنَ۝۴۱ (الروم ۳۰:۴۱) خشکی اور تری میں فساد برپا ہوگیا ہے لوگوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے تاکہ مزہ چکھائے اُن کو اِن کے بعض اعمال کا، شاید کہ وہ باز آئیں۔

مفہوم یہ ہے کہ جب قدرتی وسائل کا غیراخلاقی اور ناجائز استعمال شروع ہوجاتا ہے تو قدرتی ماحول کی تباہ کاریاں شروع ہوجاتی ہیں۔

مسلم علما اور سائنس دانوں کے لیے ایک بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ قرآنی تعلیمات کی روشنی میں ایسے قوانین وضع کریں جو موجودہ دور کے ماحولیاتی تقاضوں کو پورا کریں اورجدید ٹکنالوجی کے استعمال کے سیلاب، خشک سالی اور غربت کے تدارک ، تہذیب و تمدن کے تحفظ اور گرین ہاؤس، تیزابی بارش اور نیوکلیائی تباہ کاریوں کو روکنے میں مؤثر اور کارگر ہوسکیں۔

قرآن کی تعلیم کو مدنظر رکھتے ہوئے انسان اپنی ضروریات کی تکمیل کے لیے دوسری مخلوقات کی جائز ضروریات کو پامال نہیں کرسکتا۔ اپنی حاجات کے حصول کے لیے انسان کا انحصار اس دنیا پر ہے جس کا خالق وہ نہیں، اللہ ہے۔ لہٰذا اس کو تباہ کرنے کا اسے کوئی حق نہیں ہے۔ دُنیاوی زندگی کی پیچیدہ راہ میں قدرت کی ایک معمولی شے بھی اہمیت رکھتی ہے۔ صرف اپنے ذاتی مفاد کے لیے قدرت کی چیزوں پر انسان کی ملکیت کا اسلام میں کوئی تصور اور جواز نہیں۔

قرآنی تعلیم کے حوالے سے ماحول سے متعلق سائنس کا تعلق اقتصادیات سےہے اور بادی النظر میں یہ مذہب سے منسلک ہے۔ اس نظریے کی تشریح دورِ جدید کے حالات کے مطابق ضروری ہے ، تاکہ مسلمانوں کے نظریہ اور عمل میں ہم آہنگی پیداکی جاسکے اور ماحول کی سائنس کو اسلامی اعتقاد کے سانچے میں ڈھالا جاسکے۔ اس وقت دورِ جدید کو ایسے علما اور اسکالرز کی ضرورت ہے جو مسلمانوں کو جدید تعلیم و حکمت کی تحصیل کی ترغیب دیں اور اپنے زورِقلم اور فصاحت سے دورِحاضر کے ماحولیاتی مسائل کو حل کرنے پر آمادہ کریں۔