اُمت مسلمہ کے اجتماعی شعور نے ظہورِ اسلام سے آج تک دو صداقتوں کو دل و جاں سے زیادہ عزیز رکھا ہے۔ اوّلاً: زمین پر توحید الٰہی کی علامت بیت اللہ کی مرکزیت اور قبلہ ہونا، اپنی سمت عبودیت، سمت معیشت ، سمت ثقافت اور اندرونی وبیرونی تعلقات کوبراہِ راست بیت اللہ کے مالک کی رضا کا پابند رکھتے ہوئے زندگی کے ہرمعاملے میں توحید خالص کو اختیار کرنا ہے۔ ثانیاً: اپنی زندگی کی تہذیب ، اسے سنوارنے اور بنانے کے لیے عملی نمونہ اور مثال کے لیے صرف اور صرف اللہ کے آخری رسولؐ اور مدینہ کی اسلامی ریاست کے سربراہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ اور فیصلوں کو قیامت تک کے لیے حتمی اور سند سمجھنا ہے۔
یہ ایک الگ معاملہ ہے کہ اجتماعی شعور کی موجودگی میں حادثاتِ زمانہ کی بناپر وقتی طور پر اُمت مسلمہ نے کسی بیرونی، فکری یا سیاسی تسلط کی بناپر یونانی فکر اور لادینی تصورات کواختیار کرلیا ہو اور ان بیرونی یا اندرونی گمراہ کن تصورات کی وجہ سے قومیت، لادینیت اور محض معاشی ترقی اس کا قومی ہدف بن جائے۔ لیکن ایسے حالات میں بھی وہ ترکی ہو یا تیونس یا مصر، اُمت مسلمہ کا اجتماعی شعور وقتی انحراف سے نکلنے اوردوبارہ اپنا قبلہ درست کرنے سے غافل نہیں رہا۔
مدینہ کی اسلامی ریاست کا ایک نمایاں پہلو اس کا عربوں کی قبائلی عصبیت اور رنگ و نسل کی بنیاد پر تفریق اور مالی وسائل کی بنیاد پر قیادت حاصل کرنے کے تصور کاابطال اور لا الٰہ الا اللہ کے مطالبات کو عملاً نافذ کرنا تھا ۔گویا مدینہ کی ریاست کا قیام عرب و عجم اور تاریکی میں ڈوبے ہوئے یورپ کی ’عوامی جمہوریہ‘ کے تصورکا متبادل ایک انقلابی فکر کا نفاذ تھا کہ ریاست کی بنیاد نسلی اور قبائلی اتحاد کی جگہ نظریہ ، عقیدہ اور اقدارِ حیات کو ہونا چاہیے۔چنانچہ ریاست مدینہ کا مقصد اقامت دین اور ایک ایسی امت کا قیام تھا جو رنگ ونسل اور زبان اور زمین کی کشش سے آزاد ہو اورصرف انسانوں اور کائنات کے خالق و مالک کی بندگی پر کاربند ہو۔ مدینہ کی اسلامی ریاست عربوں میں مروجہ قبائلی نظام اور پڑوس کے ممالک میں رائج بادشاہت (ایران و روم) سے بالکل مختلف ایک نئے تصور اورنئے سیاسی نظام کی نمایندہ تھی ۔اس ریاست کا مقصد کسی فرد کی موروثی ریاست کا قیام نہ تھا، نہ کسی خاص مذہبی گروہ کی اجارہ داری قائم کرنا تھا، بلکہ اللہ کی زمین پر اس کے دین کی اقامت تھا۔ قرآن کریم نے اقامت دین کے تصور کو ہماری آسانی کے لیے خود واضح کر دیا ہےکہ یہ دین میں مکمل داخل ہونے کا نام ہے۔یہ صرف مراسم عبودیت ، نماز، روزہ، کا نام نہیں ہے کہ مسجد اور گھر میں نماز ، روزہ ہو رہا ہو، جب کہ حاکمیت سرمایہ دارانہ ملوکیت زدہ ، اخلاق باختہ نظام کی ہو۔ اللہ کی بندگی محض مسجد میں نہیں بلکہ زندگی کے ہر شعبے میں ہو۔ ثقافت ہو یا فنون لطیفہ ، معیشت ہو یا معاشرت، غرض ان تمام شعبوں میں اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کو بلا شرکت غیر اپنا رب مانتے ہوئے اس کے نازل کردہ احکامات کا نفاذ ہو۔ جس طرح اسلام مکمل نظام حیات ہے ایسے ہی اسلامی ریاست بھی دین کی مکمل اقامت اور اللہ تعالیٰ کے احکامات کو انفرادی اور اجتماعی معاملات میں نافذ کرنے کا نام ہے۔
یہی وجہ ہے کہ انسانوں کی حاکمیت کی بنیاد پر قائم Nation State یا قومی ریاست کا تصور جسے یورپ نے کلیسا کے پاپائیت کے نظام سے نجات کے لیے اپنایا ۔ اسلام میں اس تصور کا کوئی مقام نہیں ہے ۔ اس کے علاوہ اسلامی تصورِ ریاست میں کسی مسلم پاپائیت کی بھی کوئی گنجا یش نہیں۔ چنانچہ کوئی خاص فرقہ اقتدار پر قابض ہو کر دوسروں کو اپنا محکوم نہیں بنا سکتا ۔ گویا تھیا کریسی (Theocracy )یا مذہبی پاپائیت اسلام کی ضد ہے اور اسلامی ریاست کسی مسلکی فرقے کی حاکمیت کی جگہ صرف اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کی حاکمیت کے قیام کا ذریعہ ہے ۔
۱-حاکمیت الٰہی: قرآن کریم نے ریاست کی اولین ذمہ داری اللہ کی زمین پر اللہ کی حاکمیت کو قائم کرنے کو قرار دیا ہے ۔ چنانچہ سورۂ یوسف میں واضح الفاظ میں ان تمام تصورات کو جن میں بادشاہ کو یا حاکم کو قانون سازی کے اختیارات دیے جاتے ہیں، اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کا تابع کردیا ۔اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِلہِ۰ۭ اَمَرَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِيَّاہُ۰ۭ ذٰلِكَ الدِّيْنُ الْقَيِّمُ (یوسف۱۲:۴۰) ’’حکومت سواے اللہ کے کسی کی نہیں ہے۔ اس نے حکم دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔ یہی سیدھا راستہ ہے ‘‘۔گویا حاکمیت اعلیٰ نہ پارلیمنٹ کی ہے ، نہ عوام کی ، نہ کسی صدر ، وزیر اعظم یا بادشاہ کی، بلکہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے فرمان کو یہ مقام حاصل ہے کہ وہ قانون کو جائز یا ناجائز قرار دے۔ پارلیمان صرف اس وقت تک قانون سازی کر سکتی ہے ، جب تک اس کا ہر قانون قرآن و سنت سے مطابقت رکھتا ہو۔
۲- مشاورت : ریاست ِمدینہ میں معاملات کے فیصلے شوریٰ کی بنیاد پر کیے جاتے تھے ۔قرآن کریم نے شوریٰ کے انعقاد اور شوریٰ کے نتیجے میں عزم الامور یا اجتماعی راے پر عمل کرنے کو فریضہ قرار دے کر انفرادی راے کو اجتماعی راے کا تابع کر دیا ۔شوریٰ کے دوران اختلاف کرنا اور اپنے موقف کو دلائل سے پیش کرنا ہر صاحب راے کا حق ہے لیکن شرکا ے مشورہ کے یکسو ہو جانے کے بعد کسی فرد کو چاہے وہ صاحب ِامر ہی کیوں نہ ہو اپنی راےاراکین شوریٰ پر مسلط کرنے کا حق نہیں ہے ۔اسے اپنی راے کو قربان کر کے اکثریت کی راے کی پیروی کرنی ہوگی۔ قرآن میں خود حضور اکرمؐ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا: وَشَاوِرْھُمْ فِي الْاَمْرِ۰ۚ فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَي اللہِ۰ۭ اِنَّ اللہَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِيْنَ۱۵۹ (ال عمرٰن۳:۱۵۹)’’اور دین کے کام میں ان کو بھی شریک مشورہ رکھو، پھر جب تمھارا عزم کسی راے پر مستحکم ہو جائے تو اللہ پر بھروسا کرو، اللہ کو وہ لوگ پسند ہیں جو اُسی کے بھروسے پر کام کرتے ہیں‘‘۔ مسلمانوں کے تمام معاملات کو انجام دینے کے لیے اس ابدی اصول کو حکم ہی نہیں، ملّت اسلامیہ کے عمل اور نمونے کے طورپر ان الفاظ میں بیان فرمایا: وَاَمْرُہُمْ شُوْرٰى بَيْنَہُمْ ،یعنی ان کے تمام معاملات باہمی مشاورت سے طے پاتے ہیں (الشوریٰ۴۲: ۳۸)۔
۳-شریعت کی بالا دستی :ریاست کا بنیادی فریضہ قرآن و سنت کے احکامات کا نفاذ اور ان احکامات کی روشنی میں جدید قانون سازی ہے ۔پارلیمان صرف وہ قانون سازی کر سکتی ہے جو شریعت کے اصولوں سے مطابقت رکھتی ہو۔وہ شریعت کے خلاف کوئی قانون نہیں بنا سکتی اور نہ کسی ایسے قانون کو نافذ کر سکتی ہے ۔
۴- نظام صلٰوۃ و نظامِ زکوٰۃ: ریاست نظامِ صلوٰۃ اور نظام زکوٰۃ کو قائم کرنے اور اس کے لیے تمام سہولیات فراہم کرنے کی ذمہ دار ہے ۔
۵-امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ: ریاست معاشرے کی اخلاقی، معاشرتی ، ثقافتی ، تعلیمی ضروریات کے پیش نظر ہر شعبۂ حیات میں معروف اخلاقی اقدار کو نافذ کرنے اور ہربُرائی کو وہ کسی بھی درجے کی کیوں نہ ہو روکنے کی ذمہ دار ہے۔
۶- فلاح و بہبود اور بنیادی حقوق کی فراہمی:ریاست اپنی حدود میں رعایا کی فلاح کے لیے تمام سہولیات فراہم کرنے کی ذمہ دار ہے۔وہ ان کی تعلیم، صحت ،غذا، تحفظ ، عزت و ناموس کی حفاظت جیسے بنیادی حقوق کو یقینی بنائے گی۔ وہ ایک رفاہی ریاست ہے ، جس کا بیت المال رعایا کی معاشی مشکلات کے حل کے لیے ہے ۔ وہ کسی فرماں روا کی ملکیت نہیں ہے۔
۷-قانون کی یکسانیت : اسلامی ریاست میں ہر شہری قانون کی نگاہ میں برابر ہے۔صدر مللکت ہو یا وزیر اعظم یا ایک یتیم بچہ، قانون ان میں کوئی تفریق نہیں کر سکتا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے واضح ارشادات ہیں کہ پچھلی اقوام اسی لیے تباہ ہوئیں کہ وہ اعلیٰ طبقاتِ معاشرہ کے لیے الگ اور عام شہری کے لیے الگ قانون استعمال کرتی تھیں۔ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں تمام انسان خواہ مرد ہو یا عورت، یکساں ہیں اور اگر کوئی فرق ہے تو اس کی بنیاد تقویٰ ہے: يٰٓاَيُّہَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّاُنْثٰى وَجَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَاۗىِٕلَ لِتَعَارَفُوْا۰ۭ اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللہِ اَتْقٰىكُمْ۰ۭ(الحجرات ۴۹:۱۳) ’’ لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمھاری قومیں اور برادریاں بنادیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔ درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزّت والا وہ ہے جو تمھارے اندر سب سے زیادہ پرہیزگار ہے‘‘۔
۸- مسؤلیت: اسلامی ریاست میں ہر ذمہ دار اپنی ذمہ داری کے لیے جواب دہ ہے: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا۔ آپؐ نے فرمایا کہ تم میں سے ہر ایک نگراں ہے اور اس کے ماتحتوں کے متعلق اس سے سوال ہو گا۔ امام نگراں ہے اور اس سے سوال اس کی رعایا کے بارے میں ہو گا۔ انسان اپنے گھر کا نگراں ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہو گا۔ عورت اپنے شوہر کے گھر کی نگراں ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہو گا۔ خادم اپنے آقا کے مال کا نگراں ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہو گا۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ میرا خیال ہے کہ آپؐ نے یہ بھی فرمایا کہ انسان اپنے باپ کے مال کا نگراں ہے اور اس کی رعیت کے بارے میں اس سے سوال ہو گا اور تم میں سے ہر شخص نگراں ہے اور سب سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا۔(بخاری، کتاب الا حکام، مسلم، کتاب الایمان )
۹- مناصب کا امانت ہونا :قرآن نے ریاست کو پابند کر دیا ہے کہ ذ مہ داری صرف ان کو دے جو اس کے اہل ہو ں، اور ایسے ہی عوام کو پابند کر دیا ہے کہ وہ صرف ان افراد کو منتخب کریں جو امانت دار اور اہل ہوں ۔ کسی قسم کی گروہی وابستگی کی بنا پر حمایت کی گنجایش نہیں ہے۔
۱۰- نظام احتساب : اسلامی ریاست نظام احتساب، یعنی حسبہ کے قائم کرنے کی ذ مہ دار ہے ۔ جس کا کام پیمانوں کا احتساب ، مال کا خالص ہونا ، قیمتوں کا مناسب ہونا ، راہ داری کا کھلا ہونا، بازاروں میںامن و عدل کا قیام ، صارف کے حقوق کا تحفظ اور ساہوکار پر نگاہ رکھنا اور ذخیرہ اندوزی کا خاتمہ کرنا ہے۔ یہ وہ اہم کام ہیں جو حسبہ کے تحت دور نبویؐ سے ریاست نے انجام دیا۔
۱۱- نظامِ عدل کا قیام :ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ عادلانہ فیصلوں کا اہتمام کرے۔ چنانچہ عدلیہ کا قیام، قاضی کا تقرر اور اس کے فیصلوں کا نفاذ ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے ۔
۱۲- مناصب کی طلب پر گرفت : ریاست کی ذمہ د اری ہے کہ وہ کسی ایسے فرد کو منصب پر فائز نہ ہونے دے جو اس منصب کا طلب گار ہو۔امانت اور للہیت کے اصولوں کو قائم کرنا اور منصب طلبی، حصولِ اقتدار کی خواہش کرنے کو ختم کرنے کا نظام قائم کرنا ہے۔
۱۳- آزادی راے اور آزادی اختلاف:مدینہ کی اسلامی ریاست میں ہر شہری کو ریاستی معاملات میں اپنی راے دینے اور خلیفہ کا احتساب کرنے کا حق حاصل تھا ۔ ایک عام خاتون سربراہ ریاست سے پوچھ سکتی تھی کہ وہ کس بنیاد پر یکساں مہر کا نفاذ کرنا چاہتا ہے ؟اس خاتون کا استدال یہ تھا کہ قرآن مہر کی رقم کے بارے میں یہ کہتا ہے کہ وہ ایک ڈھیر سا مال بھی ہو سکتا ہے اور حضرت عمرؓ سنت رسول ؐکی پیروی کرتے ہوئے وہ مہر جو نبی کریمؐ نے امہات المومنینؓ کے لیے پسند فرمایا، اسی مہر کی رقم کو سب کے لیے مقرر کرنا چاہتے تھے۔ لیکن ایک صحابیہؓ کے سر عام ان کو قرآن سے دلیل دینے پر وہ بغیر کسی حجت اور بحث کے اپنی راے سے دستبردار ہو گئے۔
مدینہ کی اسلامی ریاست کی ان چند خصوصیات کے ساتھ اب ہم ریاست مدینہ کے ایک اور اہم پہلو پر غور کرنا چاہتے ہیں ، جس پر عموماً توجہ نہیں دی جاتی اور وہ ہے تصورِ امانت ۔
ریاست مدینہ کا سب سے نمایاں پہلو تصورِامانت ہے ۔”ا م ن “سے ماخوذ اس قرآنی اصطلاح کا معنی قابل اعتبار ، اعتماد اور وفادار کے ہیں، اور ہم عام طور پر اس سے روز مرہ کے اقتصادی مالی معاملات مراد لیتے ہیں۔ اگر ایک شخص بددیانتی یا کمی بیشی نہیں کرتا تو ہم اسے امانت دار سمجھتے ہیں ۔قرآن کریم بھی اس جانب اشارہ کرتا ہے:
فَلْيُؤَدِّ الَّذِي اؤْتُمِنَ اَمَانَــتَہٗ وَلْيَتَّقِ اللہَ رَبَّہٗ ۰ۭ وَلَا تَكْتُمُوا الشَّہَادَۃَ ۰ۭ وَمَنْ يَّكْتُمْہَا فَاِنَّہٗٓ اٰثِمٌ قَلْبُہٗ۰ۭ (البقرہ ۲:۲۸۳) اگر تم میں سے کوئی شخص دوسرے پر بھروسا کر کے اس کے ساتھ کوئی معاملہ کرے، تو جس پر اعتماد کیا گیا ہے اسے چاہیے کہ امانت ادا کرے اور اللہ سے ڈرے۔ اور شہادت ہرگز نہ چھپاؤ۔ جو شہادت چھپاتا ہے اُس کا دل گناہ میں آلودہ ہے۔
اسی پہلو کو دیگر مقامات پر وضاحت سے سمجھایا گیا ہے کہ:
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَخُوْنُوا اللہَ وَالرَّسُوْلَ وَتَخُوْنُوْٓا اَمٰنٰتِكُمْ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۲۷ (الانفال۸:۲۷) اے لوگو جو ایمان لائے ہو جانتے بوجھتے اللہ اور رسول کے ساتھ خیانت نہ کرو ، اپنی امانتوں میں غداری کے مرتکب نہ ہو۔
امانت کے وسیع تر مفہوم کی طرف اشارہ کرتےہوئے قرآن کریم اہل ایمان کی صفات میں سے امانت کو ایک بنیادی صفت قرار دیتا ہے: وَالَّذِيْنَ ہُمْ لِاَمٰنٰتِہِمْ وَعَہْدِہِمْ رٰعُوْنَ۳۲۠ۙ (المومنون۲۳:۸)’’اپنی امانتوں اور عہد وپیمان کا پاس رکھتے ہیں‘‘۔ یہی مضمون المعارج (۷۰:۳۲) میں دُہرایا گیا ہے ۔ اگر غور کیا جائے تو امانت کی تشریح خود قرآن کریم سورۃ النساء میں یوں کرتا ہے: اِنَّ اللہَ يَاْمُرُكُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓى اَھْلِھَا۰ۙ……اِنَّ اللہَ كَانَ سَمِيْعًۢا بَصِيْرًا۵۸ (النساء۴:۵۷-۵۸) ’’مسلمانوں اللہ تمھیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہل امانت کے سپرد کرو… اللہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے ‘‘۔
دوسرے مقام پر یوں فرمایا گیا: يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللہَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ۰ۚ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْہُ اِلَى اللہِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ۰ۭ ذٰلِكَ خَيْرٌ وَاَحْسَنُ تَاْوِيْلًا۵۹ۧ (النساء ۴:۵۹) ’’اے لوگوجو ایمان لائے ہو، اطاعت کرو اللہ کی ، اطاعت کرو رسول کی اور ان لوگوں کی جو تم میں صاحب ِامر ہوں، پھر اگر تمھارے درمیان کسی معاملے میں نزاع ہو جائے تو اسے اللہ اور رسولؐ کی طرف پھیر دو، اگر تم واقعی اللہ اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتے ہو۔یہی ایک صحیح طریق کار ہے اور انجام کے اعتبار سے بھی بہتر ہے‘‘۔
یہاں یہ بات سمجھائی گئی ہے کہ امانت اس کے مستحق کے حوالے کرنا اللہ تعالیٰ کا حکم (امر)ہے ۔اس حکم کی پیروی کے لیے ضروری ہو گاکہ اولاً امانت داری کے معیار کو متعین کر لیا جائے اور پھر اس فرد کو جو اس پیمانے پر پورا اترے، وہ امانت حوالے کی جائے۔ سورۃ الاحزاب میں اللہ تعالیٰ نے کائنات، زمین اور پہاڑوں کے حوالے سے فرمایا ہے کہ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ ہدایت کا بوجھ اٹھا سکتے ہیں؟ تو انھوں نے اس کا انکار کر دیا ۔کیوں کہ پہاڑوں اور زمین کو علم تھا کہ ان میں ارادہ و اختیار کی صلاحیت کی کمی ہے اور اس بنا پر وہ ذمہ داری کو ادا نہیں کرسکیں گے (الاحزاب ۳۳:۷۲)۔ پہاڑوں کی معذرت سے یہ اصول واضح ہو گیا کہ اگر ایک شخص کو کوئی امانت سپرد کی جارہی ہو اور اسے معلوم ہو کہ وہ اس کے بارِ امانت کو صحیح طور پر نہیں اٹھا سکے گا، تو اسے وہ امانت قبول نہیں کرنی چاہیے۔اس تناظر میں حضرت انس بن مالکؓ سے مروی اس حدیث کے مفہوم پر غور کیا جائے جس میں فرمایا گیا ہے:’’اس کا ایمان نہیں جوامانت دارنہیں اور اس کا کوئی دین نہیں جوعہد کا پابند نہیں‘‘ (مسند امام احمد، حدیث:۱۲۳۲۴)۔
سورۃ النساء(۴:۵۶-۵۹)میں دی گئی ہدایت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ امانت اور عہد میں کتنا قریبی تعلق ہے اور دونوں ایمان کے مظاہر ہیں ۔ایمان کا اظہار ایک جانب دی گئی ذمہ داری کو جیساکہ اس کا حق ہے ادا کرنے سے ہوتا ہے، اور دوسری جانب جس کسی کو ذمہ دار بنایا جائے اگر وہ اپنے عہد کی خلاف ورزی کرتا ہے، تو ایمان کی دولت سے محروم ہو جاتا ہے۔ یقینا اس سے بڑھ کر اور کوئی محرومی نہیں ہو سکتی کہ ایک شخص دنیا اور آخرت دونوں کو کھو بیٹھے ۔
فقہاکا اس بات پر اتفاق ہے کہ ووٹ ایک امانت ہے اور ووٹ کا حق دار کو دیا جانا ہی اس امانت کا ادا کرنا ہے۔ دوسری طرف عام مشاہدہ ہے کہ ووٹ دینے اور ووٹ طلب کرنے والا دونوں ہی اس کے دینی اور شرعی تقاضوں سے بہت کم آگاہ ہوتے ہیں ۔
منصب چھوٹا ہو یا بڑا، ایک امانت ہے۔ اس کو ایک مثال سے یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ اگر ایک تعلیمی ادارے کی سربراہی کے لیے ایک ایسےشخص کو منتخب کیا جاتا ہے جس میں انتظامی ، مالی اور تادیبی امور کو سمجھنے اور یکسوئی اور اعتماد سے فیصلہ کرنے کی صلاحیت کا فقدان ہے، تو نہ صرف منتخب کرنے والے بلکہ وہ فرد خود بھی اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہ ہو گاکہ اس نےوہ ذمہ داری کیسے قبول کر لی جس کی صلاحیت اس میں نہیں پائی جاتی تھی ؟
امانت ،عہد اور عدل جن کی طرف مندرجہ بالا سورۂ نساء اور المؤمنون کی آیات نشان دہی کرتی ہیں، اپنی وسعت کے لحاظ سے حالیہ تناظر میں غیر معمولی اہمیت رکھتی ہیں ۔ اگر کسی تنظیم میں داخلے کے لیے یہ شرط ہے کہ ایک شخص حلال و حرام کے فرق کو سمجھتا ہے اور مالی معاملات میں جس حدتک ممکن ہو منکر کا ارتکاب نہیں کرتا، تو اپنی تعداد میں اضافے کی خواہش کے باوجود صرف ان کو تحریک میں شامل کیا جانا چاہیے جو حرام سے مکمل اجتناب ہی نہ کرتے ہوں بلکہ مشتبہ اُمور سے بھی اجتناب کرتے ہوں۔ گویا ان اُمور سے بھی جو حلال و حرام کی سرحد پر ہوں جنھیں ہم عموماً گرے ایریا (Gray Area)کہتے ہیں ، ان کے قریب بھی نہ جاتے ہوں ۔ حدیث نے اس بات کو واضح کر دیا ہے کہ یہ گرے ایریا ہی ہمیں حرام کی طرف لے جاتا ہے ۔ اس لیے نظامِ تربیت سے گزارنے کا مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ بجائےتعداد بڑھانے کے تطہیرِ فکر کے ساتھ تعمیرِ سیرت پر توجہ دی جائے، تاکہ ایک تربیت یافتہ فرد کا تحریک میں اضافہ دس غیر تربیت یافتہ افراد کے اضافے سے زیادہ اہمیت اختیار کر جائے۔یہی وجہ ہے کہ تحریک ہو یا حکومت، ہر ایک کے پاس ایک جامع نظام تربیت ہونا چاہیے، جس سے گزرے بغیر کوئی ایسا فرد ذمہ داری کے مناصب پر فائز نہ ہوسکے جس کی فکر اور سیرت میں کمزوری پائی جاتی اور جو دیانت اور صلاحیت ہردو اعتبار سے معیارِ مطلوب پر پورا نہ اُترتا ہو۔
اسی طرح کسی عہدے کی طلب یا کسی عہدے پر کسی کو لانے کے لیے راے عامہ ہموار کرنا بھی اسلامی ریاست مدینہ کی روایات و ضوابط سے کوئی مناسبت نہیں رکھتا ۔کسی عہدے کی خواہش کرنا اس سے بھی بڑھ کر ظلم ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ سے روایت ہے :’’اللہ کی قسم! ہم اس کام کی نگرانی پر کسی ایسے شخص کو مقرر نہیں کرسکتے، جو اسے مانگتا ہو اور نہ کسی ایسے شخص کو مقرر کریں گے جو اس کا لالچ کرتا ہو‘‘(صحیح ابن حبان، کتاب البر ، باب الخلافہ والامارہ)۔ یہی وجہ ہے کہ دور خلافت راشدہ میں لوگ ذمہ داری قبول کرنے سے بھاگتے تھے اور کسی عہدے کی طلب نہیں کرتے تھےاور اگر ان پر کوئی ذمہ داری اس کی خواہش اور طلب کے بغیر ڈال دی جاتی، تو اس کے مطالبات کو پوراکرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے تھے ۔ ان کا مقصد ذمہ داری کے حوالے سے سہولیات اور status کا حصول کبھی نہیں ہوتا تھا ۔اس احساس ذمہ داری اور احتساب و جواب دہی کی بنا پر اقربا پروری کا امکان تھا ، نہ دوست نوازی کا۔ مناصب کی طلب کی بجائے ان سے دُور رہنے کی خواہش ان میں بے لوثی پیدا کرتی تھی اور عہدے کی طلب اور ذاتی نمودونمایش کے جذبات کو قریب نہیں آنے دیتی تھی۔ امانت ، عہد اور عدل، وہ تین بنیادیں ہیں جو احساس ذمہ داری کو مستحکم کرتی ہیں۔ ان میں کمی تنظیم میں انتشار فکری اور گروہ بندی کو ہوا دیتی ہے۔
مدینہ کی اسلامی ریاست کے نمونے کے مطابق آج کے دور میں سوسائٹی اور ریاست کے قیام کے لیے فرد کی اصلاح، معاشرے کی اخلاقی تعمیر اور حکومت، ریاست اسلامی کے تمام اداروں اور پالیسیوں کی اصلاح کی ضرورت ہے۔ یہ اس وقت ممکن ہے جب فرد ، معاشرہ اور ریاست، ہرسطح پر اسلامی تعمیرنو کو ایک تحریک کی شکل میں انجام دیا جائے۔ اس اخلاقی تعمیر کے لیے جو چیز سب سے زیادہ ضروری ہے وہ انابت الیٰ اللہ ہے___ اللہ کی طرف پلٹنا، رجوع کرنا ، اس سے تعلق کو مضبوط کرنا اور اس کے سامنے حاضری کی تیاری کرنا!
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوئہ حسنہ کی ایک نمایاں خوبی انسانی صلاحیتوں کو فروغ دینا ہے۔ روز ِاول سے آپؐ نے وہ متنوع صلاحیتیں جن کی اسلام کو ضرورت تھی، کبھی پیدا کیں اور کبھی معاشرے میں میسر صلاحیتوں کو اپنے قریب کیا اور ان کے ذریعے اپنے مشن کی طرف پیش قدمی کو تیز تر کر دیا۔
آپؐ کی دعوت کا جب آغاز ہوا تو ایک ایسی شخصیت کی ضرورت تھی، جو آپؐ کے پرسنل سیکرٹری کی حیثیت سے خدمات انجام دے سکے۔ اس کے لیے حضرت علیؓ سے زیادہ موزوں کوئی نہیں تھا، جن کے ذریعے آپؐ مہمانوں کی ضیافت کا اہتمام فرماتے، لوگوں تک اپنی بات کو پہنچانے کا واسطہ بناتے۔ ہجرت کی رات مشرکین کو غلط فہمی میں مبتلا رکھنے کے لیے کسی شخص کا آپؐ کے بستر پر سونا ضروری تھا۔ اس صورت میں سونے والے پر حملہ ہونے کا قوی اندیشہ موجود تھا، اس لیے اس ذمہ داری کو سرانجام دینے کے لیے حضرت علیؓ جیسے بہادر اور سرفروش شخص کا انتخاب بہترین فیصلہ تھا۔
مدینہ پہنچنے کے بعد وقتاً فوقتاً دشمن قبیلوں کے لوگ رات میں مدینے پر حملہ آور ہوتے اور موقع پاکر مدینہ کے مویشیوں کو ہانک لے جاتے۔ صورت حال کی نزاکت کا تقاضا تھا کہ پورے شہر کے علاوہ کوئی خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کے اطراف رات بھر پہرہ دے۔ اس خدمت کے لیے حضرت علیؓ نے خود کو پیش کیا ،اور ہجرت کے بعد مسلسل ڈیڑھ سال تک یہ خدمت انجام دیتے رہے۔
حبشہ کی طرف ہجرت کے لیے ایک قافلہ روانہ ہوا۔ اس کے پیشِ نظر دو مقصد تھے: ایک یہ کہ ظلم وستم کا نشانہ بننے سے کچھ برسوں تک دُور رہا جائے اور دوسرا یہ کہ قریش تجارت پیشہ قبیلہ تھا، اس کے نئے ایمان لانے والے افراد نے تجارت کی غرض سے حبشہ کی طرف سفر کا ارادہ کیا۔ اس مہم میں آپؐ نے حضرت جعفرؓ بن ابی طالب کو مہاجرین کا امیر منتخب فرمایا ،اور حضرت جعفرؓ کے نجاشی کے ساتھ ہونے والے مکالمے نے اس انتخاب کی پیغمبرانہ دُور اندیشی کا عملی ثبوت پیش کردیا۔
پہلے دن سے آپؐکا ہدف مختلف طبقوں میں کام کرنا تھا اور اس کی عملی شکل یہی تھی کہ تاجر تاجروں میں ، قبیلے کے سردار سرداروں میں ، غلام غلاموں میں کام کریں۔ آپؐ نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کے ذریعے مکہ کے تاجروں میں کام کرنا شروع کیا، جس کے نتیجے میں حضرت عثمانؓ، حضرت عبدالرحمٰنؓ بن عوف اور ان جیسے مقام و مرتبے کے اور بہت سے صاحبِ ثروت تاجر اسلام کی دولت سے مالا مال ہوئے۔ اسی طرح آپؐ کی ہجرت میں رفاقت اور سفر میں مصاحبت کے لیے کسی ہستی کا انتخاب ہونا تھا۔ اس کے لیے حضرت ابوبکر صدیقؓ کا انتخاب فرمایا، جنھوں نے ہمیشہ آپؐ کے قائم مقام کی حیثیت سے کام کیا۔ آپؐ نے بالکل آغاز سے ہی حضرت ابوبکرؓ کو اس منصب پر فائز فرمایا اور وہ آخر تک اس پر فائز رہے۔
جب مدینہ پر عرب کا متحدہ لشکر اٹھ کر آیا اور حملہ آور ہونے کے لیے مدینے کا گھیراؤ کرلیا، تو اس وقت بنوقریظہ کی طرف سے جو مدینے میں آپؐ کے حلیف تھے، عہد شکنی کے آثار نظر آنے لگے۔ اسی دوران حضرت نعیم بن مسعودؓ اسلام لے آئے، اور آپؐ کے سامنے انھوں نے پیش کش رکھی کہ ان سے جو کام لینا چاہیں لے لیں۔ وہ قبیلہ بنو غطفان سے تعلق رکھتے تھے۔ اسلام کے خلاف متحدہ محاذ میں بنو غطفان قبیلہ بھی قریش کے ساتھ تھا۔ آپؐ نے حضرت نعیمؓ بن مسعود کو ذمہ داری دی کہ وہ دشمنوں کے درمیان پھوٹ ڈال دیں۔ آپؐ کا یہ انتخاب بالکل درست ثابت ہوا۔ آپؐ ہمیشہ اہل افراد کو ذمہ داریاں سونپنے کے اصول پر کاربند رہتے تھے۔ اسی جنگ میں آپؐ نے حضرت حذیفہؓ کو دشمنوں کی اس مجلس میں بھیجا جہاں جنگ کی اسٹرے ٹیجی زیر ِبحث تھی۔ جان جوکھم میں ڈال کر حضرت حذیفہؓدشمنوں کے لشکر میں پہنچے اور معلوم کرلیا کہ اب ان کے پاس لڑنے کی ہمت نہیں ہے اور ان میں سے بڑی تعداد کوچ کرچکی ہے۔
l صلاحیتوں کا ادراک اور فروغ: انسانی صلاحیتوں کے فروغ کے سلسلے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فارمولا اس طرح نظر آتا ہے کہ : bulid, buy and borrow ، یعنی صلاحیتوں کو نشوونما دینا، معاشرے کے باصلاحیت افراد کو متاثر کرنا، اور بعض مخصوص صلاحیتوں سے بوقت ضرورت استفادہ کرنا۔
انسانی ذہن اور خیالات کو بدلنا، معاشرے کی اقدار کو نئے پیمانوں میں ڈھالنا، فکر کے زاویے کو صحیح سمت دینا اور پوری زندگی کے اندر ایک صالح انقلاب برپا کرنا، گوناگوں صلاحیتوں کا مطالبہ کرتا ہے۔ آپؐ نے اس عظیم الشان اور ہمہ جہت تبدیلی کے عمل کے لیے اعلیٰ انسانی صلاحیتوں کو فروغ دیا۔ ہم اُوپر ذکر کیے گئے فارمولے کے تحت تینوں اپروچ کی مثالیں پیش کریں گے۔
انسانوں کے سلسلے میں آپؐ کا نظریہ یہ تھا کہ صاحب ِ ایمان اور مخلص لوگ سونے چاندی کی کانوں سے بڑھ کر قیمتی اثاثہ ہیں۔ لوگوں کی صلاحیتیں اور قابلیتیں وہ انسانی وسائل ہیں، جو مادی وسائل سے زیادہ قیمتی اور دور رس نتائج پیدا کرسکتے ہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ ’’سب سے معزز آدمی کون ہے؟ ‘‘
آپؐ نے فرمایا: ’’جو اللہ کا خوف زیادہ رکھتا ہو‘‘۔ صحابہؓ نے عرض کیا کہ ’’ہمارے سوال کا مقصد یہ نہیں ہے‘‘۔ آپؐ نے فرمایا کہ ’’پھر سب سے زیادہ معزز اللہ کے نبی یوسف ؑہیں ، جن کے باپ نبی، دادا نبی اور پردادا اللہ کے خلیل ہیں‘‘۔صحابہؓ نے عرض کیا کہ ’’ہمارے سوال کا مقصد یہ بھی نہیں ہے‘‘۔ آپؐ نے فرمایا کہ’’ تم لوگ عرب کے خانوادوں کے بارے میں پوچھنا چاہتے ہو۔ دیکھو، لوگوں کی مثال کانوں کی سی ہے ( کسی کان میں سے اچھا مال نکلتا ہے کسی میں سے بُرا)۔ جو لوگ تم میں سے زمانہ جاہلیت میں معزز اور بہتر اخلاق کے ہیں ، وہی قبولِ اسلام کے بعد بھی اچھے اور معزز ہیں، جب کہ وہ دین کی سمجھ حاصل کریں‘‘۔ (صحیح بخاری)
اس حدیث میں دو باتیں ارشاد فرمائی گئیں :
۱- انسانوں میں سب سے زیادہ قیمتی وہ لوگ ہیں جن کے پاس اعلیٰ صلاحیتیں ہوتی ہیں ، قطع نظر اس کے کہ وہ دائرۂ اسلام میں ہیں یا اس سے باہر ہیں۔
۲- صرف صلاحیتیں انسانیت کے لیے مفید نہیں ہوتیں ، اگر وہ ایمان اور تقویٰ سے عاری ہوں۔ سب سے زیادہ اچھے انسان وہ ہیں، جن میں سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کا خوف پایا جاتا ہو۔
ایک اور حدیث میں آپؐ نے فرمایا: ’’لوگ سونے چاندی کی کانوں کی طرح کانیں ہیں ، جو زمانہ جاہلیت میں اچھے تھے، وہ اگر دین کو سمجھ لیں تو زمانہ اسلام میں بھی اچھے ہیں۔ اور روحیں ایک ساتھ رہنے والی جماعتیں ہیں جو آپس میں ( ایک جیسی صفات کی بنا پر ) ایک دوسرے کو پہنچاننے لگیں تو ان میں الفت پیدا ہوجاتی ہے، اور جو (صفات کے اختلاف کی بنا پر) ایک دوسرے سے گریزاں رہیں ، وہ ایک دوسرے سے متنفرہوجاتی ہیں‘‘۔ (صحیح مسلم)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ باصلاحیت لوگ اگرچہ جاہلیت کے علم بردار ہی کیوں نہ ہوں اور ظالموں اور اسلام دشمنوں کی صفوں میں ہی کیوں نہ ہوں ، اگر وہ ایمان لے آئیں تو یہاں بھی وہ بہت قیمتی اثاثہ ثابت ہوں گے۔ اس کی بے شمار مثالیں اسلامی تاریخ میں ملتی ہیں ، جن میں سب سے نمایاں نام حضرت عمر بن الخطابؓ کا ہے۔
l دعاے رسالتؐ __ حضرت عمرفاروقؓ: حضرت عمرؓ دلیر اور بہادر انسان تھے، طبیعت کے جری اور ارادے کے قوی تھے۔ معاشرہ انھیں اسی حیثیت سے جانتا تھا۔ بہادری میں پورے مکہ مکرمہ میں ان کا اونچا مقام تھا۔ اسلام کو ایک ایسی ہی دلیر اور شجاع شخصیت کی ضرورت تھی جو کفار کے بیچ میں اسلام کا پرچم بلند کرسکے۔ اسی طرح حضرت عمرؓ کی دلیری کو ان کے شایان شان ایک ایسے میدان کی ضرورت تھی کہ جہاں وہ تاریخ میں اپنے انمٹ نقوش چھوڑ جائیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے خصوصی دعا کی اور اللہ تعالیٰ کے ہاں وہ دعا مقبول بھی ہوئی، اور اللہ کی توفیق نے دونوں میں ایک تاریخ ساز رشتہ قائم کردیا۔ جب حضرت عمرؓ اسلام لے آئے تو اپنی شجاعت اور دلیری ساتھ لائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی صلاحیتوں کی قدر کی اور انھیں استعمال کرنے کی صحیح جگہ بتائی۔ حضرت عمرؓ نے انھیں ٹھیک جگہ صرف کر کے ایران و روم کی شہنشاہیت کو اسلام کے قدموں پر لاجھکایا۔ وہ جاہلیت میں بھی شجاع اور دلیر تھے اور اسلام لانے کے بعد بھی ویسے ہی بلند عزم اور بہادر ثابت ہوئے۔
اس حدیث سے ایک لطیف بات کی طرف اشارہ ملتا ہے کہ روحوں میں آپس میں ایک غیرمرئی رشتہ اور غیر محسوس کشش ہوتی ہے۔ اس لیے سعید روحوں کے ساتھ سعادت مند وابستہ ہوتے ہیں اور ظالم لوگوں کے ساتھ بدبخت جڑ جاتے ہیں۔ اسی طرح ہر باصلاحیت فرد کے ارد گرد اسی قسم کی صلاحیتوں کے لوگوں کی موجودگی ہوتی ہے۔ مراد یہ ہے کہ متعلق میدان میں خواہ وہ علمی وادبی ہو یا تہذیبی وسائنسی، یہ تعلقات ان صلاحیتوں کے ارتقا اور ترقی کا ذریعہ بنتے ہیں۔
جس طرح سونے چاندی کی کانیں دنیا کے بہت سے ملکوں میں پائی جاتی ہیں اور انسانوں کے بس کی بات نہیں کہ ان کو اپنے محبوب وطن اور اپنے مقدس ملک کے ساتھ مخصوص کردیں ، اسی طرح جوہر انسانیت کی کانیں اور انسانی صفات وکمالات کے دفینے بہت سے ملکوں میں پائے جاتے ہیں: النَّاسُ مَعَادِنٌ كَمَعَادِنِ الذَّهَبِ وَالْفِضَّۃِ [مسلم:۲۶۳۸]۔
انسان بھی اعلیٰ صفات اور قابلیتوں کی کانیں ہیں، جو پورے پورے ملک اور انسانی حدبندیوں سے بے نیاز ہوتی ہیں۔ ویسی ہی مخفی جو بغیر خدمت ومحنت اور تہذیب وتنظیم کے نتیجے میں مٹی میں ملی ہوتی ہیں ،لیکن مٹی سے نکال لیا جائے تو کھری اور اصلی اپنی قیمت اپنے ساتھ اور ہر صرافہ بازار میں موتیوں کے تول تلیں اور سونے کے مول بکیں۔
اس بنیادی جوہر میں عقیدے کا اختلاف حارج نہیں ہوتا، نہ مذہب وملت کا فرق۔ سونا سونا ہے اگرچہ کافر کے ہاتھ میں ہو یا مومن کے ہاتھ میں۔ ہیرے کا دام ایک ہے، جوہری میلا کچیلا اور بداخلاق ہو یا صاف ستھرا اور مہذب۔ گوہر شب چراغ بڑھیا کے جھونپڑے اور بادشاہ کے محل دونوں کو روشن کرسکتا ہے:فَـخِیَارُهُمْ فِی الْجَاهِلِیَّۃِ خِیَارُهُمْ فِی الْاِسْلَامُ، جو جاہلیت میں اپنے ذہن و ذکاوت اور فہم و فراست میں ممتاز تھا، وہ اسلام میں بھی ان چیزوں میں ممتاز رہے گا۔
جاہلیت میں جو حمیت وغیرت اور قوت وشجاعت میں امتیاز رکھتا تھا، وہ اسلام میں بھی ان کمالات میں ممتاز رہے گا، عمل میں اور میدانِ جہاد میں دوسروں سے سبقت لے جائے گا، البتہ اس کی ضرورت ہے کہ جاہلیت کی ان صفات میں اسلام توازن واعتدال اور نظم وتہذیب پیدا کردے۔ سونا بہرحال سونا ہے، لیکن بازار میں جانے سے پہلے ضرورت ہے کہ اس کو مٹی سے صاف کرکے اور رگڑ کر اور چمکا کر زیور بنانے کے کام کا بنادیا جائے: فَـخِیَارُهُمْ فِی الْجَاهِلِیَّۃِ خِیَارُهُمْ فِی الْاِسْلَامُ اِذَا فَقَهُوا فِی الدِّیْنُ، جو ان میں سے جاہلیت میں سب سے بہتر تھے، اسلام میں بھی بہتر رہیں گے، بشرطیکہ انھیں دین میں درجۂ فقاہت (جس کا لازمی نتیجہ اعتدال، تہذیب اور اشیا کا صحیح تناسب معلوم ہونا ہے) حاصل ہوجائے۔ (نیا خون، مولانا سید ابوالفضل حسینیؒ)
حکمتِ دعوت و تزکیہ:انسانی صلاحیتوں کے فروغ کے ضمن میں سب سے پہلا ضروری کام یہ ہے کہ اپنی ہی صفوں میں جو مخلص کارکنان ہمہ دم دین کے لیے ہر کام کی انجام دہی کے لیے تیار رہتے ہیں اور اپنی زندگی اسی کاز کے لیے وقف کردینے کا تہیہ کیے ہوئے تحریک میں شامل ہوتے ہیں ، ان پر پہلی توجہ دی جائے۔ ان کا ’تزکیہ‘ ہو، ان کی صلاحیتیں پروان چڑھیں ، ان کی شخصیت سازی ہو اور وہ اپنی پوشیدہ صلاحیتوں کو پہچانیں ، تاکہ انھیں درجۂ کمال تک پہنچاسکیں۔ اسی کا نام ’تزکیہ‘ ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے دعوت کا یہ فن سکھایا کہ: اپنی صفوں میں وہ احباب جن کے بارے میں یہ خیال ہو کہ وہ سماجی لحاظ سے پس ماندہ ہیں، لیکن ان باطل پرستوں پر فوقیت رکھتے ہیں ، جو معاشرے کے سرکردہ مانے جاتے ہوں، اس سلسلے میں اسلام کا پیمانہ بہت انوکھا ہے۔ آخر وہ صلاحیت کیا فائدہ دے گی، جو انسانوں کے لیے نفع بخش بننے کے بجاے اللہ کے راستے سے لوگوں کو روکنے کے لیے کام آئے۔ ظالموں کو جن چیزوں نے گم راہ کیا، ان میں ان کا مال، اقتدار اور صلاحیتیں پہلی وجہ ہیں:
اچھا، جب صور میں پھونک ماری جائے گی، وہ دن بڑا ہی سخت دن ہوگا، کافروں کے لیے ہلکا نہ ہوگا۔ چھوڑ دو مجھے اور اس شخص کو جسے میں نے اکیلا پیدا کیا، بہت سا مال اس کو دیا، اس کے ساتھ حاضر رہنے والے بیٹے دیے، اور اس کے لیے ریاست کی راہ ہموار کی، پھر وہ طمع رکھتا ہے کہ میں اسے اور زیادہ دوں۔ ہرگز نہیں ، وہ ہماری آیات سے عناد رکھتا ہے۔ میں تو اسے عن قریب ایک کٹھن چڑھائی چڑھواؤں گا۔ (المدثر۷۴:۸- ۱۷)
اسی قسم کے سرداران قریش ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں بیٹھے تھے، اور آپس میں یہ باور کرا رہے تھے کہ انھیں بھی اسلام سے دل چسپی ہے اور وہ کچھ آپؐ سے سننا چاہتے ہیں ۔ اسی موقعے پر ایک نابینا صحابی حضرت عبداللہؓ بن ام مکتوم حاضر ہوکر آپؐ سے کچھ سوالات کررہے تھے۔ آپؐ نے ان کی طرف عدم التفات کیا تو اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو دعوت کا یہ سبق سکھایا کہ اسلام کی دعوت اور اس کی خدمت انتہائی بلندی وعظمت والا کام ہے، اور اس کام کو انجام دینے کے لیے ضروری نہیں ہے کہ معاشرے کے مغرور ومتکبر لوگوں کی رعایت کے لیے دعوت کے اونچے مقام سے نیچے اتر کر آئیں۔ یہ قرآن اور پیغام رسالت سے مناسبت نہیں رکھتا۔ رب کریم کا ارشاد ہے:
ترش رو ہوا اور بےرخی برتی اس بات پر کہ وہ اندھا اس کے پاس آگیا۔ تمھیں کیا خبر، شاید وہ سدھر جائے یا نصیحت پر دھیان دے اور نصیحت کرنا اس کے لیے نافع ہو؟ جو شخص بے پروائی برتتا ہے، اس کی طرف تو تم توجہ کرتے ہو، حالانکہ اگر وہ نہ سدھرے تو تم پر اس کی کیا ذمہ داری ہے؟ اور جو خود تمھارے پاس دوڑا آتا ہے، اور ڈر رہا ہوتا ہے، اس سے تم بے رخی برتتے ہو۔ ہرگز نہیں ، یہ تو ایک نصیحت ہے، جس کا جی چاہے اسے قبول کرے۔ (عبس۸۰:۱-۱۲)
ان آیات سے معلوم ہوا کہ اللہ کی طرف بلانے والا ہر داعی اپنی دعوت کے دوران اس نکتے کا گہرا شعور رکھے کہ کون تزکیہ کے لیے آمادہ ہے اور کون گناہوں کے دلدل سے نکلنے کے لیے دل میں خلش رکھتا ہے، اور کس کے اندر معنوی اور اخلاقی ارتقا کی پیاس اور تڑپ موجود ہے؟ یہی داعی کی گم شدہ پونجی ہے۔ یہی اس کا اصل مخاطب ہے کہ جس کسی میں غفلت کی نیند سے بیدار ہونے کی آرزو نظر آئے، جو چاہتا ہو کہ اپنے ضمیر کی سطح سے زنگ اور گرد وغبار کھرچ کر اپنی اصل اور سالم انسانی فطرت کی طرف رجوع کرے، تو داعی کا یہ فرض ہے کہ وہ اس پر پوری توجہ دے۔ یہ آیات ہر داعی اسلام کو سکھاتی ہیں کہ حضرت عبداللہؓ بن ام مکتوم جیسا حق کا پیاسا اپنے ظاہر ہی سے نظر آتا ہے، کہ وہ تزکیہ اور تذکیر کی تلاش میں آیا ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر توجہ دی اور ان کی شخصیت کو سنوارا اور ابھارا، یہاں تک کہ مدینہ میں حضرت بلالؓ کے ساتھ وہ بھی اذان دینے کے منصب پر فائز تھے۔ پھر جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم غزوات میں شرکت کے لیے مدینہ سے باہر تشریف لے جاتے تو کبھی ان کو اپنا جانشین بنا کر جاتے اور وہ وہاں موجود مسلمانوں کی نماز کی امامت کرتے۔
تعمیر شخصیت کی ایک درخشاں مثال:نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سے انسانی صلاحیتوں کے فروغ کی ایک اور درخشاں مثال ہمیں حضرت بلالؓ حبشی کی ذات والاصفات میں ملتی ہے۔ اسلام لاتے وقت وہ امیہ بن خلف کے غلام تھے۔ غلام نہ صرف عرب معاشرے میں بلکہ دنیا کے ہرمعاشرے میں سماجی پسماندگی کی آخری سطح پر ہوتا ہے۔ اس پر مزید یہ کہ سخت سزائیں شخصیت کے عزم وحوصلے کو توڑ دیتی ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال غلام کو حضرت ابوبکر صدیقؓ کے توسط سے آزاد فرمایا۔ پھر دھیرے دھیرے ان کی صلاحیتوں کو بڑھاتے چلے گئے، یہاں تک کہ مدینہ پہنچنے کے بعد حضرت بلالؓ کی تین نمایاں حیثیتیں ملتی ہیں: ایک یہ کہ مدینہ پہنچنے اور مسجدنبوی کے بنانے کے کچھ دنوں بعد جب اذان کا رواج شروع ہوا تو آپؐ کی نگاہ انتخاب حضرت بلالؓ پر پڑی۔ اور حضرت بلالؓ نے اس ذمہ داری کو بڑی خوبی کے ساتھ آپؐ کی رحلت تک نبھایا۔ آج کی سائنسی دنیا سے تھوڑی دیر کے لیے باہر نکل کر عرب کے اس وقت کا تصور کریں، جب وقت کو معلوم کرنے کے لیے آلات موجود نہیں تھے۔ ہمیں معلوم ہے کہ اسلام نے نماز کے اوقات کو کائنات کی بڑی تبدیلیوں کے ساتھ وابستہ کیا ہے۔ اس لیے عبادت کو اپنے وقت پر انجام دینے کے لیے لازم ہے کہ کائنات کی تبدیلیوں سے واقفیت ہو، یعنی اگر آج کی اصطلاح میں کہا جائے تو علم فلکیات سے ایک مؤذن کے لیے واقف ہونا از حد ضروری تھا۔ نماز کے تمام اوقات مختلف علامتوں سے وابستہ کیے گئے ہیں۔ ان علامتوں کی پہچان آسان نہیں ہے، کیوں کہ موسمیات میں تبدیلی ہوتی رہتی ہے، جس میں آثار کائنات کو دیکھ کر نمازوں کے اوقات پر اذان دینی ہوتی، اور اس کی صلاحیت حضرت بلالؓکے اندر پیدا کر دی گئی تھی۔
دوسری حیثیت یہ کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پرسنل اسسٹنٹ تھے۔ آپؐ کی مالیات کا وہ حساب رکھتے تھے، آمدنی اور خرچ آپ کے ہاتھوں سے ہوا کرتا تھا۔ کبھی کبھی آپؐ، حضرت بلالؓ سے پوچھتے کہ آپ کی کتنی رقم ان کے پاس ہے؟ اگر کچھ ہوتا تو بتا دیتے ورنہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے کہ کہیں سے قرض لے کر فلاں شخص کی ضرورت پوری کر دی جائے۔
تیسری حیثیت یہ کہ مسجد نبوی سے ملحق ایک کمرہ تھا اور وہ نو مولود اسلامی ریاست کے خزانے کا کمرہ تھا۔ مدینہ میں لوگ اپنی زکوۃ، ٹیکس، صدقات وغیرہ جمع کیا کرتے تھے اور جب جب کوئی بڑی ضرورت پیش آ جاتی، جیسے غزوات وغیرہ، تو انفاق فی سبیل اللہ کی ایک خصوصی اپیل جاری کر دی جاتی۔ جس کے جواب میں لوگ درہم و دینار اور اپنے پاس میسر سازو سامان لاکر اسلامی تحریک کے حوالے کر دیتے۔ ان سب کا حساب کتاب رکھنا، مجاہدوں میں تقسیم کرنا، مال غنیمت کا حساب رکھنا اور رسول اللہ کے بتائے ہوئے طریقے پر انھیں حق داروں میں تقسیم کرنا، یہ سب کام حضرت بلالؓ بڑی خوبی کے ساتھ انجام دیا کرتے تھے۔
واقعہ ٔ ہجرت میں ایک اہم مثال :ہجرت کے موقعے پر حضرت ابوبکرؓ نے غیر مسلم بدو، عبد اللہ بن اریقط کی خدمات حاصل کیں ، تاکہ وہ غیر معروف راستے سے یثرب [مدینہ]کی طرف لے جائیں۔ روانگی کے لیے مقررہ وقت پر، ابن اریقط اونٹوں کے ساتھ غار میں ان سے ملنے آیا، اور وہ سیدھے شمال کی سمت میں یثرب کی طرف جانے کے بجاے جنوب مغرب کی طرف روانہ ہوئے۔ یہ بہت ہی پرخطر سفر تھا، اور دوسری طرف قریش انھیں گرفتار کرنے کی ہر ممکن کوشش کررہے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے ساتھی نے خود کو خدا کے سپرد کردیا تھا، تاہم انھوں نے راستہ بتانے والے کی مدد حاصل کرنے میں دریغ نہیں کیا۔ حالانکہ وہ شخص دشمنوں کا ہم مذہب، یعنی مشرک تھا، لیکن وہ اسے اچھی طرح جانتے تھے، کہ وہ قابل اعتماد بھی ہے، اور راستوں کا غیرمعمولی واقف کار بھی ۔ اس لیے اس پر اعتماد کیا اور راستہ بتانے والے کی حیثیت سے اس کی صلاحیتوں سے استفادہ کیا گیا۔
رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رفقا کی صلاحیتوں کی قدر کرتے، انھیں استعمال میں لاتے اور ان کے فروغ میں رہنمائی عطا فرماتے۔اب ذیل میں کچھ مخصوص صلاحیتوں کا تذکرہ کیا جائے گا۔
۱- کاتبین وحی: قرآن مجید ۳۰ سال تک جستہ جستہ نازل ہوتا رہا، مختلف زمانوں میں سورتیں اور آیتیں نازل ہوئیں۔ جب بھی جبریلؑ آتے اور آپؐ تک پیغام پہنچاتے تو آپؐ انھیں لکھوانے کا انتظام فرماتے۔جب بھی رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن مجید کی آیتیں نازل ہوتیں، آپؐ سب سے پہلے مردوں کی جماعت میں تلاوت فرماتے تھے، پھر اس کے بعد عورتوں کوبھی سناتے تھے۔ جب بھی کوئی آیت نازل ہوتی تو اپنے صحابہؓ میں سے کسی ایسے شخص کو جسے لکھنا پڑھنا آتا ہو یاد فرماتے اور اس کو املا کراتے۔ اہم بات یہ ہے کہ لکھنے کے بعد اس سے کہتے کہ جو کچھ لکھا ہے اسے پڑھ کر سناؤ تاکہ اگر کوئی غلطی کی ہو تو اس کی اصلاح کرسکیں۔یاد رہے کہ قرآن کتاب کی صورت میں مرتب ہوکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تیار ہو گیا تھا اور اس کی مکمل کتابت ہو چکی تھی جس کی ترتیب وہی تھی جو آج ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدد افراد کو وحی لکھنے پر مقرر فرمایا تھا۔ جب وحی نازل ہوتی تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان کاتبین وحی کو یا ان میں سے بعض کو طلب فرماتے اور خود بول کر ان کو وحی لکھواتے تھے۔ حدیث میں ہے کہ جب وحی نازل ہوتی تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم کاتبوں میں سے کسی کو لکھنے کے لیے بلاتے۔ براء کہتے ہیں کہ جب آیت لَا يَسْتَوِي الْقٰعِدُوْنَ نازل ہوئی تو آپ ؐ نے زیدؓ کو بلایا اور انھوں نے آیت کو لکھ لیا (صحیح بخاری)۔
ایک حدیث میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ جو کاتبین وحی میں سے تھے، فرماتے ہیں کہ ہم کاتبین کی جماعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد کتابت میں مصروف تھے (سنن دارمی)۔ حضرت زیدؓ بن ثابت فرماتے ہیں کہ: ’’جب میں لکھتا تو آپ ؐ فرماتے کہ ’پڑھو‘، میں پڑھتا، اگر اس میں کوئی غلطی ہوتی تو آپؐ اس کو درست فرماتے‘‘(مجمع الزوائد)۔
۲- مبلغین و معلّمین کی تیاری :مکی ومدنی دونوں زمانوں میں اسلام کی تبلیغ وتعلیم کا سرچشمہ تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اَنور تھی۔ اسلام سے ناواقف لوگوں کے سامنے آپؐ اسلام کی تبلیغ فرماتے اور جو اسلام قبول کرلیتے، انھیں قرآن کی تعلیم دیتے۔ پھر رفتہ رفتہ آپؐ نے اس کام کے لیے بہت سے صحابۂ کرامؓ کو تیار فرمایا۔ اس طرح حضور اکرمؓ نے اپنی ذاتی حیثیت میں اور مرکزی سطح پر صحابہؓ کے ذریعے دعوتی کام اور تعلیم کا کام برابر جاری رکھا۔ مکی دور میں عبد الرحمٰنؓ بن عوف، علیؓ بن ابی طالب، اسامہ بن زیدؓ وغیرہ کے ذریعے چاروں طرف دعوتی وفود گشت کرتے تھے۔ خود حدود حرم میں بھی صحابۂ کرامؓ کی تبلیغی کوششیں جاری رہتیں۔ مکہ سے دُور دراز علاقوں میں تبلیغی مہمات کا اندازہ مصعبؓ بن عمیر، ابو موسی اشعریؓ ، طفیلؓ بن عمرو دوسی، ابوذرغفاریؓ وغیرہ جیسے متعدد صحابۂ کرامؓ کی دعوتی سرگرمیوں سے کیا جاسکتا ہے۔
بخاری میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبد اللہؓ بن مسعود، سالمؓ اور حضرت معاذؓ بن جبل کو قرآن مجید کی تعلیم دینے کے لیے مقرر فرمایا ۔ اسی طرح جب اسلام پھیلنے لگا تو آپؐ نے نومسلموں کی تعلیم کے لیے اور بہت سے احباب مقرر فرمائے۔ پھر انھوں نے بے شمار شاگردوں کو عہد نبویؐ ہی میں تیار کیا، جو آپؐ کے بعد مختلف مقامات پر قرآن مجید کی تعلیم دینے پر مامور ہوئے۔
مکی دور کی مانند مدنی دور میں بھی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدد دعوتی جماعتیں منظم کی تھیں اور ان جماعتوں یا انفرادی مبلغوں کو جزیرہ نماے عرب کے مختلف علاقوں بلکہ اس کے باہر دوسرے ملکوں میں بھی بھیجا تھا۔
۳- توسیع دعوت اور تنظیم مسلمین :نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ مکہ میں جب بازار لگتا تو باہر سے آنے والے قبیلوں کے درمیان آپؐ تشریف لےجاتے اور اسلام کی تبلیغ فرماتے۔ اسی طرح ایام حج میں آپؐ منیٰ کے میدان میں تشریف لے جاتے اور خیموں میں پہنچ کر دعوت و تبلیغ کا فریضہ انجام دیتے۔ دوسری طرف ابوجہل لوگوں کو ورغلاتا اور آپؐ کے خلاف بھڑکاتا، مگر آپؐ اپنا کام اس وقت تک جاری رکھتے، جب تک آخری خیمے میں پہنچ نہ جاتے۔
۱۰ نبوی میں ایسا ہی ہوا کہ آپؐ تبلیغ فرماتے ہوئے جب آخری خیمے میں پہنچے تو وہاں چھے آدمی ملے، جو مدینہ کے قبیلہ خزرج سے آئے ہوئے تھے۔ وہ لوگ سلیم الفطرت ثابت ہوئے۔ آپ ؐ نے جب ان کے سامنے اللہ کی وحدانیت اور عظمت بیان کی، تو بہت متاثر ہوئے اور جب آپ ؐ نے قرآن کریم کی چند آیات کی تلاوت فرمائی تو ان کے دل بالکل ہی پگھل گئے اور آپس میں ایک دوسرے کو دیکھنے لگے اور کہنے لگے کہ:’’ واللہ!یہ تو وہی نبی ہیں جن کا تذکرہ ہر وقت ہمارے ہاں مدینے میں یہود کی زبان پر ہوا کرتا ہے۔ دیکھنا یہود کہیں ہم سے قبولِ حق میں سبقت نہ لے جائیں‘‘۔ یہ کہہ کر سب اسی وقت کلمۂ شہادت پڑھ کر مشرف بہ اسلام ہوگئے۔ خزرج کا کیا اسلام قبول کرنا تھا، گویا مدینہ میں اسلام کا سورج طلوع ہوگیا۔
یثرب کا وفد جب واپس جانے لگا تو سرداران خزرج نے سرور کونینؐ سے التجا کی: ’’ہمیں قرآن پڑھانے اور اسلام سکھانے کے لیے ایک معلم ساتھ بھیج دیجیے‘‘۔نئے مسلمان ہونے والوں کی تربیت اور ملی تنظیم کے لیے ایک قابل و ہونہار ناظم کی ضرورت، آپؐ نے محسوس کی، تو آپؐ کی نگاہ انتخاب حضرت مصعبؓ بن عمیر پر پڑی اور آپؐ نے انھیں یثرب چلے جانے کا حکم دیا۔ حضرت مصعبؓ بن عمیر ایثار وخلوص کے پیکر جمیل تھے۔ رسولؐ اللہ کا حکم پاتے ہی کسی عذر و تامل کے بغیر، اسلام کے پہلے داعی اور مستقبل کے شہر مدینۃ النبی کے ناظم بن کر یثرب روانہ ہوگئے۔
حضرت مصعبؓ بن عمیر نے یثرب میں اپنی ذمہ داریاں نہایت احسن طریقے سے ادا کیں۔ فہم و فراست، شریں بیانی اور حکمت کے ساتھ جس طرح سے انھوں نے دعوت دی، اس کے نتیجے میں بڑے بڑے سردار بشمول سعدؓ بن معاذ اور اسیدؓ بن حضیر جیسے قائدین کو اسلام کے حق میں قائل کرلیا۔ دعوت وتبلیغ کے ساتھ حضرت مصعبؓ یثرب کے مسلمانوں کی تنظیم اور تعلیم سے بھی غافل نہ رہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت سے آپ نے باجماعت نماز کی شروعات کی اور نومسلم انصار کو بڑی محنت سے دین کی تعلیم دی۔ اس طرح چند ماہ کے اندر یثرب کی گلی گلی اور کوچے کوچے میں خداے واحد اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکرِ خیر ہونے لگا۔ اگلے سال ۱۳ نبوی میں دین حق کا یہ کامیاب داعی ۷۲ مردوں اور دو عورتوں کو ساتھ لے کر حج کے لیے مکہ پہنچا۔ آپ ؐ ان کی کوششوں سے بہت مسرور ہوئے اور انھیں دعاے خیر دی۔ حضرت مصعبؓنے اپنے ساتھیوں کو رات کی تاریکی میں منیٰ کی ایک گھاٹی میں جمع کیا۔ آپ ؐ ان کے پاس تشریف لائے اور ان سب کو اپنی بیعت سے مشرف فرمایا۔
۴- مفتیان کرام: رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک انتہائی دُوراندیشی پر مبنی عملی حکمت تھی کہ آپؐ نے اپنی موجودگی میں کتاب و سنت کے ایسے عالم اور مفتی پیدا کر دیے، جو آپؐؐ کے بعد بھی اسلام کی امامت وسیادت کا کام بخوبی کرسکتے تھے۔ اس لیے آپؐ نے اپنی تربیت میں صحابۂ کرامؓ کی ایک ایسی ٹیم کو منصب افتاء کے لیے تیار فرمایا، جو سب سے زیادہ وسیع علم والے، سب سے کم تکلف والے، سب سے اچھے بیان کرنے والے اور سب سے سچے ایمان والے، اور خدا ترس تھے۔ آپؐ اپنی موجودگی میں، بعض صحابۂ کرامؓ سے دینی امور اور مذہبی مسائل پر فیصلے کرایا کرتے تھے۔ اس وقت تک، زیر بحث معاملات کے حل کے لیے تین اصول پوری طرح ظہور اور عمل میں آچکے تھے۔ پہلے قرآن حکیم کی روشنی میں مسائل کو حل کیا جائے۔ پھر سنت کی روشنی میں فیصلہ کیا جائے۔ لیکن ان دونوں سے بھی اگر کسی خاص معاملے پر روشنی نہ مل سکے تو دینی فہم پر اعتماد کرکے فیصلہ کیا جائے۔
اسلامی ریاست جیسے جیسے پھیلتی گئی، ویسے ویسے مفتیان کرام کا کردار بھی بڑھتا گیا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت کے نتیجے میں جو ذہن سازی ہوئی تھی، اس کی بنیاد پر کسی بھی مسئلے میں جہاں قرآن وسنت کی واضح رہنمائی موجود نہ ہو، وہاں وہ اپنی راے سے فیصلہ اور فتویٰ دیتے۔
۵- ائمہ مساجد :نبیؐ کی حیثیت سے آپ ؐ ہی امت کے تنہا امام تھے اور آپؐ کی موجودگی میں کوئی اور نماز کی بھی امامت نہیں کرسکتا تھا۔ البتہ آپ ؐ کی غیر حاضری میں کوئی صالح مسلمان امامت کے فرائض انجام دے سکتا تھا، اور عموماً آپؐ خود ایسے اماموں کا تقرر فرما دیتے تھے۔
یاد رہے کہ اسلام میں مسجدیں محض عبادت گاہ نہیں ہیں، بلکہ مقامی مسلمانوں کے سیاسی، سماجی، تنظیمی و تہذیبی مراکز بھی ہوا کرتی ہیں اور وہاں کا امام صرف نمازوں کا امام نہیں بلکہ وہ مسلم امت کی زندگی کے تمام مسائل میں رہنمائی کرنے والا قائد ورہنما ہوا کرتا ہے۔ مدینہ منورہ میں جیسے جیسے آبادی بڑھتی گئی مسجدوں کی تعداد بھی بڑھتی چلی گئی۔ تواریخ کی کتب سے معلوم ہوتا ہے کہ ان تمام مسجدوں میں نماز کے اماموں کا تقرر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا۔
سنن ابو داؤد کی ایک روایت سے پتا چلتا ہے کہ مدینے میں کم از کم نو مسجدیں تھیں جن میں عہد نبوی میں باقاعدہ جماعت کے ساتھ نمازیں ہوا کرتی تھی اور ان کے اپنے امام مقرر تھے جن کی تربیت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود کی تھی۔
۶- مو ٔ ذنین رسولؐ:اذان نماز کو قائم کرنے کے لیے لازمی شرط ہے۔ جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے کہ نمازوں کے اوقات کائنات کی تبدیلیوں کے اوقات کے ساتھ وابستہ ہیں۔ اس لیے مؤذن کو ان کا ادراک و فہم ہونا ضروری تھا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس معاملے میں اپنے مؤذنین کو تربیت دی۔ مسجد نبوی سے متعلق تین مؤذنین کے نام ہمیں تاریخ میں ملتے ہیں جن میں حضرت بلالؓ کا نام سرفہرست ہے اور آپ کے علاوہ ابو محذورہؓ اور ابن ام مکتومؓ کا نام ملتا ہے۔ اسی طرح اوپر جتنی مسجدوں کا ذکر آیا ہے ان تمام کے لیے امامت کے علاوہ مؤذنین کا بھی تقرر کیا جاتا تھا۔
۷- سکریٹری (ڈاکومنٹ رائٹر): اس سے پہلے بیان کیا جاچکا ہے کہ عرب میں پڑھے لکھے لوگ بہت کم تھے اور جو پڑھے لکھے ہوتے تھے، عرب میں ہر لحاظ سے ان کی بڑی قدرومنزلت ہوتی تھی اور احتراماً ان کے نام کے ساتھ الکاتب، یعنی لکھنے والا لگایا جاتا تھا۔ اسلام کی آمد کے بعد کتابت کے فن کو عروج ملا اور دوسرے علوم وفنون کے ساتھ کاتبین کی تیاری پر پوری توجہ دی گئی۔ کتابت وحی کے علاوہ اور بہت سے امور میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے فرامین، خطوط، عہد وپیمان، امان وغیرہ دینے کا کام لکھ کر ہوا کرتا تھا۔
مدینہ منورہ میں اسلامی ریاست کے قیام کے بعد کاتبوں کے کام کی نوعیت مذہبی ہونے کے ساتھ سیاسی رنگ بھی اختیار کرگئی۔ اسلامی ریاست کے سربراہ کی حیثیت سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے فوجی افسروں، سپہ سالاروں، گورنروں، صوبائی اور مقامی منتظمین، قبائلی سرداروں، ملک و بیرون ملک کے حکمرانوں اور عوام کے نام خطوط اور فرامین لکھنا ہوتے تھے۔ اس کے علاوہ آپؐ نے متعدد عرب عیسائی اور یہودی قبیلوں سے صلح اور باہمی تعاون کے معاہدے کیے تھے۔ بعد کے زمانے میں غیرمسلم طبقات کے سرداروں کے نام فرامین صادر کیے تھے۔ آخری زمانے میں متعدد قبائل نے اسلامی ریاست کے ساتھ حلیفانہ تعلقات قائم کیے، ان کی دستاویزات لکھی جاتی تھیں۔ ان جیسے اور بھی متعدد مقاصد کے لیے کاتبوں کا ایک پورا شعبہ آپؐ نے قائم فرمایا۔
متعدد خطوط مختلف عرب حکمرانوں، قبائلی سرداروں اور غیرملکی بادشاہوں اور مسلم گورنروں اور افسروں کے نام ہیں، جو انھوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں بھیجے تھے۔ ان کے علاوہ کچھ ایسی دستاویزات بھی ہیں، جو آپؐ نے ان کے ساتھ معاہدات لکھوائے تھے یا انھیں خطوط لکھے تھے۔ بہرحال کم ازکم ۷۴دستاویزیں ایسی ہیں جو اپنے کاتبوں کے نام بھی رکھتی ہیں۔ ان کی پوری فہرست ڈاکٹر محمد حمید اللہ نے مرتب کرکے شائع کی ہے۔
معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے زیادہ تر معاہدوں کی کتابت حضرت علیؓ بن ابی طالب کیا کرتے تھے۔ اسی طرح عبداللہ ؓبن ارقم اور زیدؓ بن ثابت رسول اللہ کے خطوط و فرامین لکھا کرتے تھے، جو غیر ملکی حکمرانوں، اسلامی ریاست کے مختلف گورنروں اور اسلامی لشکروں کے سالاروں کے نام ہوتے تھے۔ عرب قبائل کے درمیان معاہدوں کی ایک بڑی تعداد کے کاتب امیرمعاویہؓ ہیں۔ ایک خاندان بنو قرہ، نجران کے عیسائی ، ربیعہ بن ذی المرجب اور حضر موت کے قبائلی حکمران کے نام تحریر کردہ تمام فرامین امیرمعاویہؓ کے ہاتھ کے لکھے ہوئے ہیں۔ یہ ذمہ داری حصینؓ بن نمیر اور مغیرہؓ بن شعبہ بھی ادا کرتے تھے۔ اسی طرح زبیرؓ بن عوام اور جہمؓ بن صلت صدقات و محاصل کی تحریر کے ذمہ دار تھے۔ حذیفہؓ بن یمان اراضی کی پیداوار کے معاملات تحریر کرتے تھے اور شرحبیلؓ بن حسنہ کندی بادشاہوں اور حکمرانوں کے نام خطوط نبوی تحریر کیا کرتے تھے۔ معلوم ہوتا ہے کہ مختلف کاتبوں کو مختلف کام ان کی صلاحیتوں اور فنی مہارتوں کے سبب عطا کیے گئے تھے۔
بعض مصنّفین نے بڑی عرق ریزی کے ساتھ ان سکریٹریوں کے نام اور قبائل کی فہرستیں تیار کی ہیں، جس سے پتا چلتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تیرہ قبیلوں سے چوالیس حضرات کو اس طرح کے کام کے لیے تیار کیا تھا۔
۸- سفیرانِ رسولؐ :زمانہ قدیم سے جزیرہ نما عرب اور بالخصوص مکہ میں سفارت کا ادارہ معروف تھا۔ قریشی اشرافیہ میں سفارت کی ذمہ داری نباہنے والا خاندان بنوعدی بہت مشہور تھا۔ اس عہدے پر حضرت عمرؓ بن خطاب بھی فائز تھے اور اپنے باپ سے یہ منصب انھوں نے پایا تھا۔ سفارت کے منصب پر آدمی قریش کے رؤسا اور شیوخ میں شمار ہوتا تھا۔ حضرت عمرؓ قبولِ اسلام سے قبل کے سیاسی نظامِ قریش میں اس کے آخری عہدے دار تھے۔
بہرحال، اسلامی ریاست کے بننے کے بعد سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا پیغام مختلف بادشاہوں اور قبیلوں تک پہنچانے کے لیے آپؐ نے سفیروں کا تقرر فرمایا اور ان کی تربیت کی۔ ایک بہترین سفیر بننے کے لیے لازم ہے کہ اس میں اعلی فراست، ذہانت، عمدہ زبان و طرز ادا ، جاذبِ نظر شخصیت ہو اور وہ متعلقہ علاقے کی زبان جانتا ہو اور اس زبان میں ادایگی فرائض پر قدرت رکھتا ہو۔ یہ وہ اوصاف تھے جو ایک اچھا سفیر بناتے تھے۔ اس کے علاوہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم موقع و محل کی مناسبت سے مخصوص اور موزوں شخص کا انتخاب کرتے تھے اور اس کی روانگی سے قبل حسب معمول اس کو ہدایت دیتے تھے کہ نرم لہجے میں گفتگو کریں، رحمت و نرم دلی کا مظاہرہ کریں، سختی اور سخت روی سے پرہیز کریں، آسانی پیدا کریں اور اختلاف و تصادم سے گریز کریں، خوش خبری سنائیں، نفرت وعداوت سے اجتناب کریں اور رحمت واتفاق کا رویہ اپنائیں۔
۹- شعرا :آج کے زمانے میں شعرا کو سرکاری یا ریاستی افسر میں شمار کرنا ایک عجیب سی بات سمجھا جائے گا، مگر پرانے زمانے میں ان کی بہت اہمیت ہوتی تھی، اور عرب میں ان کو ایک بڑا مقام حاصل تھا۔ عرب چونکہ اپنی زبان پر فخر کرتے تھے، اس لیے ان کو اپنے شاعروں اور خطیبوں پر بہت ناز تھا۔ یہ شاعر حضرات نہ صرف اپنے قبیلہ اور لوگوں کی آواز تھے اور ان کے جذبات و خیالات کی ترجمانی کرتے تھے بلکہ وہ آرا و خیالات کو بناتے اور بگاڑتے بھی تھے۔ اپنی قوم کو اکساتے، جنگوں میں ہیجان برپا کرتے اور جنگ کی آگ بھڑکاتے تھے۔ اس طرح معاشرے میں ان کا ایک اُونچا مقام تھا۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس کی اہمیت سے واقف تھے۔ آپؐ نے اپنے شعرا کی جب تربیت کی، تو شاعرانہ مبالغہ آرائی اور فحش گوئی کی سختی سے مخالفت کی، لیکن اس کے باوجود آپؐ نے شاعری کے خوب صورت ودل آویز پہلوؤں کو ہمیشہ بنظر تحسین دیکھا اور بہتر شاعری کی تعریف فرمائی اور پسند کیا۔ آپؐ اس کے غیر معمولی اثرات سے واقف تھے، لہٰذا اس کو اسلامی امت اور اسلامی ریاست کے مفاد میں بہتر سے بہتر طریقے پر استعمال بھی کیا۔ تاریخ میں ملتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تین اہم شاعروں کی خدمات حاصل کیں، جو آپؐ اور اسلامی ریاست کا دفاع کرتے تھے۔ ان میں سے حضرت حسانؓ بن ثابت دربار رسالت کے عظیم شاعر تھے۔ ان کے علاوہ حضرت کعبؓ بن مالک اور حضرت عبداللہؓ بن رواحہ تھے۔ یہ تینوں شاعر ناموس رسول کے محافظ اور اسلامی ریاست کے ترجمان تھے۔ سیرت نگاروں نے عہد نبوی کے دو سو شعرا کو شمار کیا ہے، ان میں کعبؓ بن زہیر، لبیدؓ، خنساءؓ، علیؓ بن ابی طالب، عامرؓ بن اکوع ، اور عباسؓ بن مرداس ممتاز ہیں۔
۱۰- مقررین :کسی بھی نظریہ اور سماج میں اپنے افکار و نظریات کو پھیلانے اور دشمن کے نظریات اور خیالات کی تردید کرنے کے لیے زورآور اور زبان دان خطیب اور مقررین کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سرکاری خطیبوں میں حضرت ثابتؓ بن قیس کا ذکر ملتا ہے، جو انصار کے قومی خطیب تھے۔ ان کی خدمات کا ذکر بنوتمیم کے کے وفد کی آمد کے موقع پر شاعروں اور خطیبوں کی مفاخرت کے ضمن میں ملتا ہے۔ ان کے علاوہ متعدد صحابۂ کرامؓ وقت کے شعلہ نوا خطیب تھے۔ ان میں ابوبکر صدیقؓ، عمر فاروقؓ، علیؓ بن ابی طالب، جعفر طیارؓ ممتاز مقام کے مالک تھے، اور ان کے جواہر پارے آج بھی دلوں کو گرماتے ہیں۔ اس زمانے کے سب سے بڑے اور پرشکوہ خطیب خود اللہ کے رسول ؐ تھے جن کے پاک اقوال عربی ادب کی شان ہیں۔ جعفر طیارؓ نے نجاشی کے دربار میں جس شاندار انداز سے تقریر کی انھیں آج بھی ہم پڑھتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ دربار نجاشی میں اس کی کیا گونج رہی ہوگی اور سامعین کے حواس پر کیا اثرات مرتب ہوئے ہوں گے۔
اس مختصر جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رفقا کو ایمان کی دولت عطا کرنے کے ساتھ، بہترین تنظیم میں پرویا۔ ان کی صلاحیتوں کو پروان چڑھایا اور اداراتی (Institutional)سطح پر انھیں اس شان سے ذمہ داریاں سونپیں کہ اشاعت ِ اسلام اور اقامت ِ دین کا یہ کام ایک ہمہ گیر سسٹم کی شکل میں قائم ہوا، اور پھلا پھولا۔ آج تحریک ِ اسلامی کے لیے بھی اسوئہ حسنہ کا یہی سبق ہے کہ وہ محض چند شعبوں میں نہیں بلکہ دینی، قومی اور بین الاقوامی سطح کے تمام چیلنجوں کو سامنے رکھ کر افرادی قوت کو تیار اور ذمہ داریوں پر مقرر کریں۔
ہمارا فرض ہے کہ حق و صداقت کی دعوتِ اسلام کو اپنے غیر مسلم بھائیوں کے سامنے بھی پیش کریں اور پوری دل سوزی اور برادرانہ ہمدردی سے انھیں سمجھائیں کہ ’’بھائی یہ اسلام، ہماری یا کسی کی بھی ذاتی میراث نہیں ہے۔ یہ تمام اولاد آدم کی مشترک متاع ہے۔ یہ بنی نوع انسان کی فلاح کے لیے ہم سب کے خالق و مالک اور ربّ کے بتائے ہوئے وہ اصول ہیں، جنھیں اختیار کرکے انسان دنیا و آخرت دونوں جگہ نجات سے ہم کنار ہوسکتا ہے۔ اس لیے انھیں قبول کرنا آپ کی اپنی بھلائی ہے۔ اور اگر انھیں قبول نہیں کرتے تو ان اصولوں کا یا کسی اور کا تو کچھ نہیں بگڑتا، خود اپنے آپ ہی کو خسران میں ڈالتے ہو۔ اپنے سامنے پھیلی ہوئی خدا کی اس کائنات کا کھلی آنکھوں اور کھلے دل سے مشاہدہ کیجیے۔ ہر شے اصل حقیقت کی نشان دہی کرتی چلی جائے گی‘‘۔
یہ سورج، چاند اور ستارے، یہ آگ، پانی اور ہوا، یہ پھل پھول اور نباتات، یہ لوہا، تانبا، سونا اور ساری کی ساری جمادات اور اس زمین و آسمان کی ایک ایک چیز ایک اٹل اور بے لچک قانون میں جکڑی ہوئی ہے، جس کے خلاف وہ بال برابر بھی جنبش نہیں کرسکتیں۔ چنانچہ آپ کے یہ دن رات اور ماہ و سال اور موسموں کی آمد و رفت اسی پر تو موقوف ہے کہ سورج، چاند اور زمین ایک قطعی اور اٹل قانون کے ماتحت بلا چون و چرا اپنے اپنے مقرر راستوں پر اپنی مقرر رفتار کے ساتھ مسلسل چلے جارہے ہیں۔ آپ کے پھل پھول اور باغات کی ساری رونق اسی کی تو مرہونِ منت ہے کہ زمین کی ہر پیداوار مختلف موسموں، اقسام زمین اور آب و ہوا کی اس طرح پابند بنا دی گئی ہے کہ ہر شے اپنے موسم، اپنے لیے مقرر قسم کی زمین اور آب و ہوا میں بے چون و چرا پیدا ہوتی، نشوونما پاتی اور پروان چڑھتی چلی جاتی ہے۔ آپ کی یہ ساری صنعتی ترقیاں اور کارخانے اسی وجہ سے توممکن ہوئے کہ ساری جمادات، آگ، پانی، بجلی اور دوسری سب اشیا اور قوتیں جو اس کام کے لیے درکار ہیں، اٹل اور بالکل معین قوانین طبیعی اور کیمیاوی کی بے عذر اطاعت پر مجبور کر دی گئی ہیں۔
اور پھر آپ یہ بھی دیکھتے ہیں کہ اس دنیا میں ان قوانین سے انحراف اور ان کی خلاف ورزی ہی کا دوسرا نام بگاڑ ہے۔ مثلاً آپ ذرا مشینی ضوابط (Laws of Mechanics) کی خلاف ورزی کیجیے، وہیں آپ کی مشین میں اس انحراف کے تناسب سے نقص پیدا ہو جائے گا۔ حفظانِ صحت کے اصولوں کو توڑئیے، آپ کی صحت و تندرستی رخصت ہو جائے گی۔ قوانین زراعت کی پابندی میں کوتاہی برتئے، آپ کے سب پھل پھول اور پودے برباد ہو جائیں گے، حتیٰ کہ زندگی کے کسی گوشے میں بھی قوانین فطرت کو نظر انداز کرکے دیکھیے وہیں خرابی و بگاڑ کی کوئی شکل سامنے آجائے گی۔ یہی نہیں بلکہ ہر مشین کی کارگزاری (efficiency)، صحت کی درستی، فصل کی افزونی اور دنیا کی ہر چیز کی ترقی اسی پر موقوف ہے کہ اس قانون قدرت کی زیادہ سے زیادہ پابندی کی جائے جو اس کے لیے خالق کی طرف سے مقرر کردیا گیا ہے۔ جو جس قدر زیادہ ان قوانین، ضوابط اور اصولوں کو جانے اور برتے گا اسی قدر اس کو اس دنیا میں کامیابی اور ترقی اور اس کے ذرائع و وسائل پر تسلط و تصرف حاصل ہوتا چلا جائے گا۔ اس صورت حال سے کم سے کم طبعی زندگی کی حد تک تو یہ بات تجربے سے ثابت ہو جاتی ہے کہ ترقی و ارتقا اور کامیابی اور غلبہ کا حصول قوانین قدرت کو ٹھیک ٹھیک جاننے اور ان پر عمل پیرا ہونے ہی کی صورت میں ہوتا اور ہوسکتا ہے۔ اور یہ قوانین و ضوابط سب اس خدا کے بنائے ہوئے اور جاری کردہ ہیں، جس نے اس کائنات کو بنایا ہے۔
جس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنی باقی کائنات اور اس کی ایک ایک چیز کے لیے اور خود انسان کی طبیعی اور تکوینی زندگی کے لیے اٹل قوانین فطرت (Laws of Nature) بنادیے ہیں جن کی پابندی اور پیروی ہی میں انسان کے لیے امن و فلاح اور ترقی و ارتقا ہے، عین اسی طرح سے انسان کی اخلاقی، سماجی اور اجتماعی زندگی کے لیے بھی اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ اٹل اور قطعی قوانین اور اصول و ضوابط موجود ہیں جن کی ٹھیک ٹھیک پیروی کرنے سے ہی انسانوں کو اس دنیا میں مکمل امن اور سکون کی زندگی اور مرنے کے بعد نجات اور سرخروئی حاصل ہوسکتی ہے، مگر اس دنیا میں طبیعیات و تکوین اور انسانیت کے لیے اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ قوانین قدرت (Laws of Nature) میں فرق یہ ہے کہ طبعی و تکوینی دائرے میں ان قوانین کو اللہ نے اپنی قوت قاہرہ سے بہ جبر نافذ کردیا ہے اور انسانیت (اخلاق، معاشرت، معیشت و سیاست وغیرہ) کے دائرے میں ان کو بہ جبر نافذ کرنے کے بجائے اولاد آدم کی مرضی پر چھوڑ دیا ہے کہ چاہے تو ان پر چلے اور نہ چاہے تو نہ چلے۔
چونکہ اس کائنات کا پورا طبعی نظام، خدا کے طبعی قوانین (Laws of Nature)کے تابع ہے۔ اس لیے ان قوانین کی خلاف ورزی کا نتیجہ تو فوراً سامنے آجاتا ہے۔ لیکن اخلاقی اور اجتماعی زندگی سے متعلق قوانین الٰہی کے خلاف ورزی کا بُرا انجام فوراً ظاہر نہیں ہوتا اور بعض اوقات برسوں اور صدیوں تک اور کبھی اس دنیا میں سرے سے ہی ظاہر نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں تک قوانین طبعی (سائنسی علوم) کا تعلق ہے، ان کو معلوم کرنے کاکام خود انسان ہی پر چھوڑ دیا گیا ہے کہ مشاہدہ و تحقیق اور تجربات کے ذریعے ان کا علم خود حاصل کرے۔ لیکن اخلاقی اور اجتماعی زندگی سے متعلق قوانین الٰہی کی تعلیم اور تبلیغ کے لیے اللہ تعالیٰ نے کمال مہربانی سے کام لیتے ہوئے ہر ملک اور ہر قوم میں اپنے نبی اور رسول مقرر فرمائے، جنھوں نے نہ صرف یہ کہ خدا کی ساری کی ساری تعلیمات من و عن اور بلاکم و کاست اپنی اپنی قوم تک پہنچا دیں، بلکہ ان میں سے ایک ایک چیز پر عمل کرکے بھی دکھا دیا۔ اور تاریخ عالم گواہ ہے کہ جب کبھی اور جہاں کہیں نظام زندگی ’’انبیا کے بتائے ہوئے اصولوں پر قائم ہوا، یہ زمین جنت کا نمونہ اور امن و سلامتی کا گہوارا بن گئی۔ چنانچہ کم و بیش ہر قوم اور ہر ملک کے لوگوں میں جس گذشتہ، ’سنہری زمانے‘کے قصے اور کہانیاں اب تک مشہور چلے آتے ہیں، یہ سب دراصل اسی زمانے سے متعلق ہیں، جب کہ اس قوم یا ملک کی زمام کار اور انتظام ملکی اللہ کے ان برگزیدہ بندوں یا ان کے ماننے والو ں کے ہاتھ میں تھے، یا پھر ان کے بتائے ہوئے اصولوں کے بیش تر حصے کو لوگ عملاً اختیار کیے ہوئے تھے۔
اللہ کے ان سب نمایندوں نے اپنے اپنے وقت میں ہر جگہ لوگوں کو غیر اللہ کی بندگی سے نکال کر ایک ہی دین (خالق کل اور معبود حقیقی کی اطاعت و بندگی کے طریقے) پر جمع کیا اور انھیں بتایا کہ ایک اللہ کو چھوڑ کر جن جن کی بھی تم اطاعت و بندگی کرتے ہو، وہ سب تمھاری طرح اس کے بندے اور غلام ہیں۔ زمان و مکان اور انسانی زندگی کے مختلف ادوار میں تمدن کے فرق کی بنا پر بعض تفصیلات کے سوا ان سب کی ایک ہی تعلیم تھی اور وہ یہ کہ، یہ چاند، یہ تارے، یہ زمین و آسمان کی ساری قوتیں ایک خدا کی مخلوق ہیں۔ وہی تمھارا پیدا کرنے والا ہے، وہی رزق دینے والا ہے، وہی مارنے والا اور جِلانے والا ہے۔ سب کو چھوڑ کر اسی کو پوجو، سب کو چھوڑ کر اسی سے اپنی حاجتیں طلب کرو۔ یہ چوری، یہ لُوٹ مار، یہ شراب خوری، یہ جوا، یہ بدکاریاں جو تم کرتے ہو، سب گناہ ہیں، انھیں چھوڑ دو۔ خدا انھیں پسند نہیں کرتا۔ سچ بولو، انصاف کرو، نہ کسی کی جان لو، نہ کسی کا مال چھینو، جو کچھ لو، حق کے ساتھ لو، جو کچھ دو، حق کے ساتھ دو۔ تم سب انسان ہو، انسان اور انسان سب برابر ہیں۔ بزرگی اور شرافت انسان کی نسل اور نسب میں نہیں، رنگ و روپ اور مال دولت میں نہیں، خداپرستی، نیکی اور پاکیزگی میں ہے۔ جو شخص خدا سے ڈرتا ہے اور نیک و پاک ہے، وہی اعلیٰ درجہ کا انسان ہے اور جو ایسا نہیں وہ کچھ بھی نہیں۔ مرنے کے بعد تم سب کو اپنے خدا کے پاس حاضر ہونا ہے۔ اس عادل حقیقی کے ہاں نہ کوئی سفارش کام آئے گی، نہ رشوت چلے گی، نہ کسی کا نسب پوچھا جائے گا، وہاں صرف ایمان اور نیک عمل کی پوچھ ہوگی، جس کے پاس یہ سامان ہوگا، وہ جنت میں جائے گا اور جس کے پاس ان میں سے کچھ نہ ہوگا، وہ نامراد دوزخ میں ڈالا جائے گا۔
اللہ کے سب نبیوںؑ نے اپنے اپنے زمانے کے لوگوں کو دین کی یہی تعلیم دی۔ دین کے جو اختلافات انبیا علیہم السلام کو ماننے والوں میں آپ پا رہے ہیں، یہ درحقیقت ان انبیا علیہم السلام کی تعلیمات کی پیروی و اتباع کی وجہ سے نہیں بلکہ ان سے انحراف و غفلت اور اپنی خواہشات نفس کی پیروی اور طلب دنیا کی دوڑ میں مجنونانہ مسابقت کی پیداوار ہیں۔ اس بات کی صحت کا اندازہ اس امر سے بآسانی کیا جاسکتا ہے کہ مختلف زمانوں اور اقوام میں آنے والے انبیا علیہم السلام کے نام لیوا تو رہے ایک طرف، خود اس وقت موجودہ امت مسلمہ کا حال دیکھ لیجیے کہ خدا کی شریعت (قرآن و سنت)، جن کے وہ ہر معاملے میں آخری سند ہونے پر متفق اور ایمان رکھتے ہیں، اور وہ دونوں ان کے درمیان اپنی اصل صورت میں موجود اور مکمل طور پر محفوظ ہیں، مگر اس کے باوجود مسلمان محض تاویل و تعبیر کے اختلافات کو طول دے کر مختلف فرقوں میں اس طرح بٹ گئے ہیں گویا کہ وہ مختلف مذاہب ہی نہیں، مختلف ادیان کے پیرو ہیں۔
پھر یہ بات بھی ساری دنیا کے مسلم و کافر تمام انسانوں کے سامنے بطور حقیقت موجود ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کی مختلف انواع و اجناس (خواہ وہ جان دار ہوں یا بے جان) کے لیے جو قوانین (Laws of Nature)مقرر فرمائے ہیں وہ ہر نوع اور ہر جنس کے تمام افراد و اجزا کے لیے بھی اور ان کے اجتماعی وجود و بقا اور نشوونما کے لیے بھی ایک ہی ہیں۔ زمان و مکان کے اختلاف کی بنا پر کسی نوع یا جنس کے افراد و اجزا کے درمیان ان کے متعلق قوانین قدرت میں یا ان کے ان پر اطلاق میں کوئی فرق نہیں کیا گیا۔ یعنی ہر نوع اور ہر جنس کے لیے جو ’دین‘ اور ضابطۂ حیات اللہ تعالیٰ نے اول روز تجویز اور مقرر فرما دیا وہی تاابد اس کا دین ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب تمام انسان گورے ہوں یا کالے اور گندمی ہوں یا زرد اور شرقی ہوں یا غربی، سب ایک ہی نوع سے تعلق رکھتے ہوں، ایک ہی فطرت کے مالک ہیں، تو ان کے لیے ان کے خالق کی طرف سے زمان و مکان کے فرق کی بنا پر مختلف دین کیسے آسکتے تھے؟ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک تمام انبیا علیہم السلام کا ایک ہی دین لے کر آنا عقل کا تقاضا اور نقل سے ثابت ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے یہ حقیقت ہم انسانوں پر واضح کرنے کے لیے اپنے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن مجید میں فرمایا کہ: تمھیں کوئی نیا دین دے کرنہیں بھیجا گیا بلکہ یہ وہی دین ہے جسے پہلے انبیا علیہم السلام لے کر آتے رہے ہیں:
شَرَعَ لَكُمْ مِّنَ الدِّيْنِ مَا وَصّٰى بِہٖ نُوْحًا وَّالَّذِيْٓ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِہٖٓ اِبْرٰہِيْمَ وَمُوْسٰى وَعِيْسٰٓى اَنْ اَقِيْمُوا الدِّيْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِيْہِ۰ۭ (الشوریٰ۴۲: ۱۳) اس (اللہ) نے تمھارے لیے دین کا وہی طریقہ مقرر کیا ہے جس کا حکم اس نے نوح علیہ السلام کو دیا تھا اور جسے (اے محمدؐ) اب تمھاری طرف ہم نے وحی کے ذریعے سے بھیجا ہے اور جس کی ہدایت ابراہیم ؑ اور موسٰی اورعیسٰیؑ کو دے چکے ہیں اس تاکید کے ساتھ کہ قائم کرو اس دین کو اور اس میں متفرق نہ ہو جاؤ۔
اِنَّ الدِّيْنَ عِنْدَ اللہِ الْاِسْلَامُ۰ۣ وَمَا اخْتَلَـفَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ اِلَّا مِنْۢ بَعْدِ مَا جَاۗءَھُمُ الْعِلْمُ بَغْيًۢا بَيْنَھُمْ۰ۭ (ال عمرٰن۳:۱۹) اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے۔ اس دین سے ہٹ کر جو مختلف طریقے ان لوگوں نے اختیار کیے جن کو کتاب دی گئی تھی، ان کے اس طرز عمل کی کوئی وجہ اس کے سوا نہ تھی کہ انھوں نے علم آجانے کے بعد آپس میں ایک دوسرے پر زیادتی کرنے کے لیے ایسا کیا۔
آسمانی مذاہب کے درمیان پائے جانے والے اختلافات کی اصل وجہ کو مذکورہ بالا آیت میں صاف طور پر بیان کر دیا گیا ہے۔
یہ امر بھی ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ آسمانی کتب میں سے صرف قرآن کریم اور اللہ تعالیٰ کے نمایندگان فی الارض (انبیا و رسل علیہم السلام) میں سے صرف محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی ایک ایسی ہستی ہیں جن کی سیرت و رہنمائی اس وقت دنیا میں بلا کم و کاست محفوظ ہے۔ اور تاریخ شاہد ہے کہ جہاں گذشتہ انبیا علیہم السلام کے اسوہ اور ان کی تعلیمات کا اس وقت صحیح صحیح موجود ہونا تو درکنار، ان کے دو چار سو سال بعد بھی ان کے ٹھیک ٹھیک دنیا میں موجود ہونے کا ثبوت نہیں ملتا، وہاں گذشتہ تیرہ چودہ سو سال کے نشیب و فراز اور’مسلمان قوم‘ کی ساری نالایقیوں اور گراوٹوں کے باوجود محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت آئی ہوئی پوری کی پوری تعلیمات آج بھی اسی طرح موجود و محفوظ ہیں جس طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں چھوڑا تھا اور یہ کوئی اتفاق زمانہ کی بات نہیں، قرآن کریم نے بتا دیا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے آخری رسولؐ ، قرآن اللہ کی آخری کتاب اور یہ دونوں آیندہ ہمیشہ کے لیے ہدایت کا واحد ذریعہ ہیں اور اس نور ہدایت کو متلاشیانِ حق کے لیے قیامت تک محفوظ رکھنے کا ذمہ اللہ تعالیٰ نے خود لے لیا ہے۔ فرمایا:
اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَo (الحجر۱۵:۹) اس ذکر (قرآن کریم) کو ہم نے نازل کیا ہے اور ہم خود اس کے محافظ ہیں۔
اس بات کا ثبوت کہ یہ بات برحق ہے، کہیں باہر سے تلاش کرنے کی ضرورت نہیں، کتاب و سنت کا ایک ایک شوشہ آپ کی آنکھوں کے سامنے موجود ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ’طالبان حق‘ کے لیے اب اس کے سوا چارہ نہیں کہ دوسرے تمام سرچشمہ ہاے ہدایت (جنھیں لوگوں نے اپنی تحریف و تصرف سے گدلا کر دیا ہے) کو چھوڑ کر صرف قرآن کریم اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کی طرف رجوع کریں، اور انھی سے رہنمائی حاصل کریں۔ ان اختلافات مذہب کو دور کرنے کے لیے ہی تو اللہ تعالیٰ نے سابقہ تعلیمات کو جو مختلف اقوام اور مختلف ممالک میں ابتدا سے وقتاً فوقتاً نازل کی جاتی رہی تھیں، یک جا کرکے قرآن کریم اور خاتم النبیین ؐ کی سیرتِ مقدسہ میں ہمیشہ کے لیے محفوظ کر دیا، اور بتا دیا کہ اللہ کی طرف سے آنے والے سب ہادیوں کی یہی تعلیم تھی۔ وہ سب اللہ کے سچے پیغامبر اور برگزیدہ بندے تھے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ان سب کو سچا تسلیم کرنا اور ان پر ایمان لانا مسلمان ہونے کے لیے لازمی شرط ہے، اور ان میں سے کسی ایک کا بھی انکار انسان کو دائرۂ حق پرستی (دین اسلام) سے خارج کر دیتا ہے۔ قرآن مجید میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا گیا:
قُلْ اٰمَنَّا بِاللہِ وَمَآ اُنْزِلَ عَلَيْنَا وَمَآ اُنْزِلَ عَلٰٓى اِبْرٰہِيْمَ وَاِسْمٰعِيْلَ وَاِسْحٰقَ وَيَعْقُوْبَ وَالْاَسْـبَاطِ وَمَآ اُوْتِيَ مُوْسٰى وَعِيْسٰى وَالنَّبِيُّوْنَ مِنْ رَّبِّہِمْ۰۠ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ اَحَدٍ مِّنْھُمْ۰ۡوَنَحْنُ لَہٗ مُسْلِمُوْنَ۸۴ وَمَنْ يَّبْتَـغِ غَيْرَ الْاِسْلَامِ دِيْنًا فَلَنْ يُّقْبَلَ مِنْہُ۰ۚ وَھُوَفِي الْاٰخِرَۃِ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ۸۵(اٰل عمرٰن۳:۸۴-۸۵) اے محمدؐ ، کہو، ہم اللہ کو مانتے ہیں، اس تعلیم کو مانتے ہیں جو ہم پر نازل کی گئی ہے، ان تعلیمات کو بھی مانتے ہیں جو ابراہیم ؑ ، اسماعیل ؑ ، اسحاق ؑ، یعقوب ؑ اور اولاد یعقوب علیہ السلام پر نازل ہوئی تھیں اور ان ہدایات پر بھی ایمان رکھتے ہیں جو موسٰی اور عیسٰیؑاور دوسرے پیغمبروں کو ان کے رب کی طرف سے دی گئیں۔ ہم ان کے درمیان فرق نہیں کرتے اور ہم اللہ کے تابع فرمان (مسلم) ہیں۔ اس فرماںبرداری (اسلام) کے سوا جو شخص کوئی اور طریقہ اختیار کرنا چاہے اس کا وہ طریقہ ہرگز قبول نہ کیا جائے گا اور آخرت میں وہ ناکام و نامراد رہے گا۔
پس ہم لوگ جو قرآن مجید اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات اور ان کے عمل کو اب واحد سرچشمۂ ہدایت کے طور پر پیش کرتے ہیں تو اس کی وجہ ہرگز یہ نہیں ہے کہ ہم خدانخواستہ خدا کی طرف سے بھیجے جانے والے پہلے رسولوں کے خلاف کسی تعصب یا ضد میں مبتلا ہیں۔ ایسی کسی بات کا ادنیٰ ارتکاب بھی خود اسلام کی رو سے کفر میں مبتلا ہونا ہے۔ ہم یہ بات اس لیے کہتے ہیں کہ مذکورہ چشمۂ ہدایت کے سوا کسی اور نبی اور رسول کی تعلیم اپنی اصل اور بے آمیز صورت میں کہیں موجود نہیں ہے۔ خدا کے دین اور اس کے تعلیم کردہ ضابطۂ حیات کو معلوم کرنے کی اب ایک ہی ممکن صورت ہے اور وہ یہ کہ قرآن مجید اور سنت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کیا جائے۔ جو لوگ اپنے گرد و پیش کائنات میں پھیلے ہوئے کھلے ہوئے حقائق سے آنکھیں بند کرکے قیاس، فلسفوں اور تقلید آبا کی راہ پر چل رہے ہیں، ہم ان سے پوچھتے ہیں کہ خدا کے رسول تو انسانوں کو بہت سے خداؤں سے چھڑا کر ایک خدا کی بندگی اور حق پرستی، عدل و انصاف، سچائی، امانت و دیانت، پاکیزہ عائلی زندگی اور امن و سلامتی کی راہ دکھانے اور ان کی تعلیم دینے آتے ہیں۔ وہ بتائیں کہ کیا ایک خالقِ کائنات کے بجائے بہت سے رب، خالص حق پرستی کے بجائے یہ تعصبات و تنگ نظری، سچائی کے بجائے مکر و فریب، عدل و انصاف کے بجائے ظلم و ستم، امانت و دیانت کے بجائے خیانت و بے ایمانی، نکاح و پاکیزگیِ اخلاق کے بجائے روز افزوں جنسی آوارگی، امن اور سلامتی اور صلۂ رحمی کے بجائے مردم آزاری اور برادر کشی، مختصراً یہ کہ کیا خدا اور اس کے رسولوں کی تعلیمات اور آخرت کی جواب دہی سے بے نیاز زندگی کو کسی طرح سے بھی مذہبی تو درکنار شریفانہ زندگی بھی قرار دیا جاسکتا ہے؟ اگر ایسا نہیں ہے اور یقیناً نہیں ہے تو کم سے کم ’دین حق‘ اور اس کے لانے والے کی سیرت سے واقف ہونے کی تو تکلیف فرمائیے۔
کسی بات یا طریقے کو قبول یا رد کرنے کا سوال تو بعد میں پیدا ہوتا ہے لیکن اس طرزِ عمل کو آپ کیسے صحیح کہہ سکتے ہیں کہ آدمی دوسرے سے ضد کی بنا پر اپنی آخرت کو خطرے میں ڈال دے اور بھلائی کو صرف اس لیے جاننے کی بھی کوشش نہ کرے کہ وہ دوسرا شخص بھی (جس سے اسے کسی بناپر نفرت ہوگئی ہے) اسے اختیار کیے ہوئے ہے؟ کیا آپ اس تعصب کی وجہ سے جو آپ کو اپنے ملک کی ’مسلم قوم‘ سے مادی مفادات کے لیے مدتوں کی کش مکش کے نتیجے ہی سے پیدا ہوگیا ہے، ان سب سچائیوں اور بھلائیوں کو چھوڑ دیں گے جنھیں ان مسلمانوں نے اختیار کر رکھا ہے یا جن کی نسبت انھوں نے اپنی طرف کر رکھی ہے؟ ظاہر ہے کہ اس کو تو کوئی دانشمند آدمی عاقلانہ رویہ نہیں کہہ سکتا۔ نیکی اور بھلائی اور فلاح کی راہ تو انسان کو دوست دشمن جہاں سے ملے، حاصل کرلینی چاہیے اور پھر جب مسلمانوں سے تعصب کی بنا پر آپ نے وہ پانی پینا نہیں چھوڑا جو مسلمان پیتے ہیں، وہ رزق کھانا نہیں چھوڑا جو مسلمان کھاتے ہیں۔ زراعت، حفظان صحت، سائنس اور دوسرے قوانین طبعی اور وہ کاروبار کے اصول نہیں چھوڑے جو مسلمان بھی استعمال کرتے ہیں، تو آخر انسانی فلاح کے لیے ان اصولوں کی جن کا نام عربی زبان میں ’اسلام‘ یعنی اللہ کی اطاعت و بندگی کی راہ ہے، صرف اس بنا پر کیوں چھوڑ رہے ہیں کہ مسلمان بھی اسے اپنا دین کہتے ہیں اور وہ بھی اسے اختیار کیے ہوئے ہیں؟
’اسلام‘ کسی کی آبائی جایداد نہیں، یہ تو اسی کا ہے جو اس پر چلے۔ پاکستان یا ہندستان کے لوگ اس پر چلیں تو ان کا ہے، عرب والے اس پر چلیں تو ان کا ہے، اور یورپ کے لوگ اسے اختیار کرلیں تو ان کا ہے۔ عبداللہ، رام داس، یا کرتارسنگھ کسی سے بھی ملک، قوم یا خاندان کی بنا پر اسے کوئی تعلق یا نفرت نہیں۔ اسے تو بس ان لوگوں کی ضرورت ہے جو اس کی راہ پر چلنے والے ہوں خواہ ان کا کوئی ملک، قوم، رنگ یا خاندان ہو۔ حد یہ ہے کہ کسی بت گر کافر کا بیٹا اسے اختیار کرلے تو خلیل اللہ اور خدا کا دوست بن جائے گا اور نبی کا بیٹا اس پر چلنا چھوڑ دے تو وہ کفار و مشرکین میں شمار ہوگا، اور طوفان نوح میں غرق ہونے والوں کے ساتھ ڈبو دیا جائے گا۔
اور پھر یہ دانش مندی تو نہیں ہے کہ انسانی فلاح کا ایک مکمل نظام جو خود خالق کل نے اپنے آخری رسولؐ کے ذریعے دیا، چودہ سو برس سے اپنی اصل صورت میں سرتاپا محفوظ ہے، اور تاریخ گواہ ہے کہ اس پر عملاً قائم ہونے والا نظام زندگی امن و سلامتی اور عدل و انصاف میں بس آپ ہی اپنی مثال تھا۔ اس نظام کا مطالعہ اور اس پر غور تک کرنے سے آدمی اس وجہ سے اجتناب کرے کہ اسے ایک ایسی قوم نے اپنی طرف منسوب کر رکھا ہے جس سے اس کی قوم کی سیاسی اور معاشی کش مکش ہے۔ حالانکہ اگر اس ملک کے مسلمانوں نے اس نظام زندگی کو فی الحقیقت اپنایا ہوتا اور اپنا طریقِ زندگی بنایا ہوتا تو یہاں کی پوری آبادی حق و صداقت اور فلاح انسانیت کی اس راہ پر متحد ہو کر شیر و شکر ہوگئی ہوتی۔ جن مسلمانوں سے ناراضی کی بنا پر ہمارے غیر مسلم بھائی اسلام سے تعصب برت رہے ہیں، ان کا بحیثیت مجموعی اسلام سے اس سے زائد کیا واسطہ ہے کہ اپنے جلسوں جلوسوں میں ’نعرہ تکبیر… اللہ اکبر… اور’اسلام زندہ باد‘ کے نعرے لگا لیتے ہیں اور جمعہ اور عیدین کے موقعوں پر کچھ لوگ رکوع و سجود کر لیتے ہیں، باقی معاملاتِ زندگی، ان کے کاروبار، لین دین، تجارتیں، سیاست، معیشت، قانون، حکومت اور دوسرے قومی اور اجتماعی امور اور طور طریقے سب اسلام سے آزاد و بے نیاز اور اسی ڈگر پر چل رہے ہیں جو دوسری اقوام کی ہے۔ اس لیے مسلمانوں سے ضد میں اس خدا کے مقرر کردہ نظام سے تعصب برتنا، جو صرف مسلمانوں کا خدا نہیں ہے بلکہ رب الناس، ملک الناس اور الٰہ الناس ہے، کسی اور کا نہیں، اپنا ہی سب کچھ بگاڑنا ہے۔
پھر جب آپ پانی تک اسی خداوند عالم کا پیتے ہیں، رزق اس کا کھاتے ہیں، سانس اس کی ہوا میں لیتے ہیں، اپنے کھیت، کارخانے اور ورکشاپ میں اسی کے قوانین قدرت (Laws of Nature)کے مطابق عمل کرتے ہیں، صحت و تندرستی، دیکھنے، سننے، سونگھنے، چھونے، گرمی و سردی سے استفادہ کرنے اور اپنے دل و دماغ اور اپنے گرد و پیش پھیلے ہوئے وسائل اور قوتوں کے سلسلے میں خدا ہی کے قوانین اور ضوابط قدرت پر چلتے ہیں اور یہ امر واقعہ بھی آپ کے سامنے ہے کہ طبعی و تکوینی دائرۂ زندگی میں انسانی کامیابی و ترقی کا سارا انحصار خالق کائنات کے مقرر کردہ قوانین قدرت کو جاننے اور ٹھیک ٹھیک ان کے مطابق کام کرنے پر ہے، تو یہ بات سمجھنے میں کیا اور کیوں دشواری پیش آرہی ہے کہ انسانی زندگی کے اخلاقی، معاشرتی، اقتصادی و سیاسی، یعنی اختیاری و تشریعی دائرے میں بھی انسانی فلاح و عافیت اور حقیقی و پایدار ترقی و کامیابی کی راہِ خدا کے مقرر کردہ قوانین قدرت (شریعت الٰہی) پر چلنے پر ہی منحصر ہے؟ لہٰذا طبعی و تکوینی زندگی کی طرح اپنے اختیاری دائرۂ زندگی میں بھی سرکشی اور دوسروں کی غلامی اور نقالی چھوڑ کر اس کے مقرر کردہ قوانین حیات پر چل کر ذرا دیکھ تو لو۔
خدا کے لیے ان بے اصل تعصبات اور عصبیتوں کو بالاے طاق رکھ کر کھلے دل سے خدا کی آخری کتاب اور اس کے آخری رسولؐ کی تعلیمات کا مطالعہ کیجیے۔ وقت بہت تیزی سے گزر رہا ہے اور زندگی گھڑی کی چابی کی طرح سے ختم ہوتی چلی جارہی ہے۔ کیا عجب ہے کہ اللہ کے دین کا پرچم از سر نو بلند کرنے کاکام اب اسی ملک کے بسنے والوں سے لیا جائے اورپوری انسانیت جو اس وقت انسان نما درندوں کے ہاتھوں جان بلب ہو رہی ہے، اس تک اب انھی کے ہاتھوں یہ آب حیات پہنچایا جانا مقدر ہو چکا ہو۔ دعوت حق کا اس منزہ شکل میں اس دیار سے اٹھنا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا پونے چودہ سو برس پہلے یہ مژدہ سنانا کہ مشرق سے مجھے ٹھنڈی ہوا آرہی ہے، کیا عجب کہ اس کے رنگ لانے کا وقت آگیا ہو اور یہ سعادت اللہ اسی دور کے لوگوں کو عطا فرما دے۔
انسانی تاریخ کے اس نازک ترین مرحلے پر اب مسلمانوں کو بھی متنبہ ہو جانا چاہیے کہ یا تو وہ اپنی ذمہ داری کو سمجھ کر اور شاہراہ اسلام پر سیدھی طرح قائم ہوکر اس کی طرف دنیا کی رہنمائی کریں اور انبیا علیہم السلام کے صحیح جانشین بن کر اپنے سپرد خدائی مشن کو سرانجام دینے کے لیے تیار ہو جائیں، یا پھر اپنے اعمال و اخلاق سے اسلام کے لیے بدنامی کا موجب نہ بنیں کہ دنیا ان کے اخلاق اور طرزِ عمل کو اسلامی اخلاق اور اسلامی طرز عمل کا نمونہ سمجھ کر اسلام سے بدظن ہو رہی ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ خدا کے دین کی اس غلط نمایندگی پر غضب الٰہی بھڑک اٹھے:
اللّٰھُمَّ مُصَرِّفَ الْقُلُوْبِ صَرِّفْ قُلُوْبَنَا عَلٰی طَاعَتِکَ یَا مُقَلِّبَ الْقُلُوبِ ثَبِّتْ قَلْبِي (وَ قُلُوْبِ قَوْمِنَا) عَلٰی دِیْنِکَ، اے اللہ دلوں کے پھیرنے والے! ہمارے دلوں کو اپنی اطاعت کی طرف پھیر دے۔ اے دلوں کے بدلنے والے! میرے (اور میری قوم کے) دل کو اپنے دین پر جما دے۔
رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ ھَدَيْتَنَا وَھَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَۃً۰ۚ اِنَّكَ اَنْتَ الْوَھَّابُ۸ (اٰل عمرن۳:۸) اے پروردگار! ہمیں راہ ہدایت دکھانے کے بعد ہمارے دلوں کو کجی میں مبتلا نہ ہونے دے، ہمیں اپنی رحمت سے نواز، تو ہی فیاضِ حقیقی ہے۔
یہ ۱۹۸۷ء کی بات ہے کہ امریکا کے سفر کے دوران میرا قیام کچھ عرصہ نیویارک میں رہا۔ وہاں مکی مسجد، بروک لین میں چند روز تک ’اسلام میں عقیدۂ ختم نبوت‘ پر درس دینےکی سعادت حاصل ہوئی۔ اسی دوران وہاں دوستوں نے ایک یہودی صحافی سے ملاقات کرائی، جو مسئلۂ ختم نبوت اور قادیانیت کا قضیہ سمجھنا چاہتا تھا۔ یہاں اسی گفتگو کے ایک حصے کا خلاصہ پیش ہے:
اس صحافی نے مجھ سے پہلا سوال یہ کیا کہ: ’احمدی‘ قرآن کو بھی مانتے ہیں اور حضرت محمد ؐ کو بھی مانتے ہیں۔ مسلمان وہ ہے، جو قرآن اور حضرت محمد ؐ کو مانے۔ پھر وہ مسلمان کیوں نہیں ہیں؟‘
میں نے کہا: ’میرے بھائی، مذہبی طور پر آپ کون ہیں؟‘
اس نے جواب دیا: ’یہودی‘۔
اس سے پوچھا: ’وجہ یہ ہے کہ آپ موسیٰ علیہ السلام کو مانتے ہیں، تورات کومانتے ہیں، اور ذرا یہ بتائیے کہ عیسائی، موسٰی کو مانتے ہیں یا نہیں مانتے؟‘
اس نے کہا: ’ہاں، مسیحی،موسٰی اور تورات کو بھی مانتے ہیں‘۔
میں نے کہا: ’عیسائی، موسیٰ علیہ السلام اورتورات کو ماننے کے بعد کیا یہودی ہیں؟ اگر وہ یہودی ہونے کا دعویٰ کریں گے تو کیا آپ مانیں گے؟‘
یہودی صحافی کہنے لگا:’ہم نہیں مان سکتے، کیونکہ وہ تورات اور موسٰی کو ماننے کے بعد ایک نئے نبی اورکتاب کو بھی مانتے ہیں۔ بے شک وہ مانتے پھریں تورات اور موسیٰ علیہ السلام کو، لیکن چونکہ وہ انجیل اور عیسیٰؑ کو بھی مانتے ہیں اس لیے وہ یہودی نہیں ہیں‘۔
میں نے کہا: ’مَیں مسلمان ہوں اور الحمدللہ ، تورات اور موسٰی کو بھی مانتا ہوں، عیسیٰؑ اور انجیل کو بھی مانتا ہوں۔ لیکن اگر میں یہ کہوں کہ میں یہودی ہوں تو کیا آپ اس دعوے کو تسلیم کریں گے؟‘
صحافی نے کہا: ’ہرگز نہیں، کیونکہ تم موسیٰؑ اور تورات کے بعد، محمد ؐ کو رسول اور قرآن کو مانتے ہو‘۔
میں نے اُن سے کہا: ’بھائی، میرا بھی یہی مسئلہ ہے۔ عیسائی، موسیٰ علیہ السلام اور تورات کو ماننے کے باوجود یہودی نہیں کہلا سکتے، اس لیے کہ وہ انھیں نبی تو مانتے ہیں، مگر بعد ازاں نئی الہامی کتاب انجیل کو بھی مانتے ہیں۔ مسلمان، موسیٰ علیہ السلام اور تورات ، عیسیٰ علیہ السلام اور انجیل کو ماننے کے باوجود نہ یہودی کہلا سکتے ہیں اور نہ عیسائی، کیوں کہ ان کے بعد وہ حضرت محمد ؐ کو مانتے ہیں اور قرآن کومانتے ہیں‘۔ ٹھیک ہے مانتے ہوں گے قادیانی قرآن کو، حضرت محمد ؐ کو بھی، میں سردست اس بحث میں نہیں پڑتا ،لیکن جس اصول کی بنیاد پر ہماری گفتگو ہورہی ہے، اسے آپ ذہن میں رکھیںکہ وہ حضرت محمدؐ اور قرآن کے بعد، مرزا غلام احمد کو نبی اور اس پر وحی و الہام مان کر مسلمانوں میں شامل نہیں ہیں۔ اگر حضرت عیسیٰ ؑ او ر انجیل کو ماننے والے یہودیوں سے الگ مذہب رکھتے ہیں، حضرت محمد ؐاور قرآن کو ماننے والے یہودیوں اور عیسائیوں سے الگ مذہب کے مالک ہیں، تو اسی اصول پر مرزا غلام احمد کو’نبی‘قرار دینے والے بھی یقینی طور پر الگ مذہب کے حامل ہیں‘۔
مہمان صحافی نے کہا: ’ٹھیک ہے یہ بات میری سمجھ میں آ گئی ہے۔ اچھا اب یہ بتائیں کہ آپ ان کے حقوق کیوں نہیں مانتے؟‘
میں نے کہا: ’کون سے حقوق؟ ان کا دعویٰ یہ ہے کہ: ’ہمارا ٹائٹل اور پہچان کا حوالہ اسلام ہی رہے گا‘۔ اب آپ بتائیں کہ ایک فرم یا کمپنی ایک سو سال سے ایک ٹریڈ مارک اور ایک ہی نام پر کام کر رہی ہے۔ ظاہر ہے اس کی ایک ساکھ، تاریخ اور ٹریڈ مارک ہے۔ اس میں سے ایک دو آدمی الگ ہو کر ایک نئی کمپنی بنا لیتے ہیں۔ آپ صرف یہ بتائیں کہ کیا اس نئی کمپنی کو پرانی کمپنی کا نام، اس کا مونو گرام اور اس کے ٹریڈ مارک کو استعمال کرنے کا حق حاصل ہوگا؟‘
صحافی نے جواب میں کہا: ’نہیں، ایسا نہیں ہو سکتا۔ وہ نئے نام سے کمپنی بنائے، کمپنی چلائے اور نیا مونوگرام بنائے‘۔
میں نے ان سے عرض کیا: ’جب دنیا کے کسی قانون اور رواج میں اس کی گنجایش نہیں ہے، تویہاں اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ ایسا فراڈ روا رکھنے پر کیوں زور دیا جا رہا ہے؟‘
یہ بات سن کر وہ خاموش ہوگیا تو میں نے کہا: ’بات یہ نہیں ہے کہ ہم ان کے حقوق نہیں مانتے، بلکہ آپ سے میرا ایک سوال ہے: میں پاکستان میں رہتا ہوں۔ پاکستان میں عیسائی رہتے ہیں۔ یہودی رہتے ہیں۔ سکھ اور ہندو رہتے ہیں۔ کیا کبھی کسی نے وقتاً فوقتاً عیسائیوں پر چڑھائی کی ہے کہ وہ جلسہ کیوں کر رہے ہیں، یا وہ کیوں اپنے اشاعتی ادارے چلا رہے ہیں؟ سال میں دو ایک بار تو اتنے زیادہ سکھ آجاتے ہیں کہ ہر طرف انھی کی پگڑیاں نظر آتی ہیں، مگر کیا کبھی کسی عالم دین نے ان کے آنے اور مذہبی معاملات ادا کرنے پر کوئی سوال یا اعتراض اٹھایا؟ اسی طرح عیسائیوں اور ان کے گرجا گھروں پر سوال کیوں نہیں اٹھتا؟ یہودیوں سے کیوں نہیں پوچھا جاتا؟ ہندوؤں کی دیوالی، ہولی اور پوجا پاٹھ پر کیوں کوئی اعتراض نہیں ہوتا؟ آخر قادیانیوں پر ہی کیوں اعتراض ہوتاہے؟‘‘
مہمان نے کہا: ’واقعی یہ دل چسپ سوال ہے، آپ خود ہی بتائیے اس کاکیا سبب ہے؟‘
ان سے عرض کیا: ’بات دراصل یہ ہے کہ ہندو اپنے آپ کو ہندو کہہ کر بات کرتے ہیں، اور اپنے حقوق کے دائرے میں رہتے ہیں اور سکھ اپنے حقوق کے دائرے میں رہتے اور ہم پر کوئی دعویٰ نہیں جماتے۔ مسئلہ وہاں پر شروع ہوتا ہے، جہاں قادیانی اپنا الگ وجود رکھنے کے باوجود اسے الگ تسلیم نہیں کرتے اور ہمارے حقوق اپنے نام الاٹ کرانا چاہتے ہیں۔ آپ بتائیں یہ کیسے ممکن ہے؟صحیح یا غلط کی بات الگ ہے، مگر تفریق کا اصول یہودیوں، عیسائیوں اور مسلمانوں کی طرح یہاں بھی ویسے ہی لاگو ہوگا کہ مرزاے قادیان کی نبوت اور وحی پر ایمان لانے والے الگ مذہب رکھتے ہیں، اور اس کا انکار کرنے والوں کا مذہب الگ ہے‘۔
میں نے سلسلۂ کلام کو آگے بڑھاتے ہوئے مزید کہا: ’اس لیے زیادتی ہم نہیں کر رہے ہیں، زیادتی تو خود قادیانی کر رہے ہیں۔ اور اس زیادتی پر بین الاقوامی راے عامہ کی لابیاں یا مخصوص این جی اوز قادیانیوں کی تائیدو حمایت کر کے ہمارے جذبات اور ہمارے عقائد، ہمارے مفادات اور ہمارے اسٹیٹس کو مجروح کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اسی طرح قادیانی مذہب کے حاملین کے بین الاقوامی سیاسی عزائم کی ایک تاریخ ہے، جسے یہاں پر زیر بحث نہیں لارہا۔ پیغمبروںؑ سے لے کر صحابہ کرامؓ تک کے بارے میں ان کے گرو (Guru) مرزا غلام احمد کی، معیارِ اخلاق اور عقل سے گری گفتگو کو دہراتے ہوئے طبیعت کراہت محسوس کرتی ہے۔ پھر ان کی طرف سے دین اسلام میں تحریف تو ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے۔ ان سب زیادتیوں کے باوجود یہ نام مسلمانوں جیسے رکھیں، اپنے مراکز کو ’مساجد‘ قرار دیں، اپنی پروپیگنڈا مہمات کو ’تبلیغ اسلام‘ قرار دیں اور سادہ لوح افراد کو مغالطہ انگیزی کا شکار کریں، تو کوئی انصاف پسند انسان ایسی تحریف اور جعل سازی کو بھلا کیسے قبول کرسکتا ہے؟ اسی لیے ستمبر۱۹۷۴ء میں پاکستان کی پا رلیمنٹ نے انھیں مسلمانوں سے الگ مذہب کا پیروکار قرار دیا تھا، جو مبنی بر حقیقت فیصلہ ہے۔ اب وہ دنیا کے تسلیم شدہ اصولوں اور پاکستان کے آئین و قانون کی خلاف ورزی کرکے خود اشتعال انگیزی کرتے ہیں۔ اگر وہ بھلے سُبھاؤں اپنے مذہب پر ہی چلیں، اپنی ہی نئی اصطلاحات، منفرد شناخت اور الگ نام برتیں، اور پاکستان کے قانون کو تسلیم کریں تو کسی کو کیا اعتراض ہوگا؟‘
پاکستان کے سابق وزیراعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو کے بہت سے کارناموں میں سب سے بڑا کارنامہ قادیانیوں کو اقلیت قرار دینا ہے۔ ان کی جگہ اگر کوئی دوسرا لیڈر حکمران ہوتا، تو وہ اتنا بڑا قدم شاید نہ اٹھا پاتا۔ یہ پہلو ذہن میں رہے کہ ۱۹۷۰ء کے عام انتخابات میں قادیانیوں نے پیپلزپارٹی کی حمایت کی تھی اور اسی لیے انھیں امیدیں بھی بہت زیادہ تھیں۔ وہ بھٹو کو اپنا ’خاص بندہ‘ سمجھتے اور باور کراتے اور عام طور پر یہ کہتے تھے: ’’ہم نے تن، من، دھن سے پیپلز پارٹی کی مدد کی تھی اور اب بھٹو صاحب کی جانب سے ادایگی واپس کرنے کا وقت آگیا ہے‘‘۔ لیکن بھٹو صاحب نے لیپاپوتی کرکے قوم کو چکر دینے کے بجاے، مسئلہ قومی اسمبلی میں پیش کر دیا۔ جولائی، اگست اور ستمبر۱۹۷۴ء کے دوران پوری قومی اسمبلی پر مشتمل اسپیشل کمیٹی کی کارروائی [۸؍اگست تا ۷ستمبر ۱۹۷۴ء] کے متفقہ فیصلے کے ذریعے قادیانیوں کو آئینی طور پر غیرمسلم قرار دینے کا اعلان کردیا۔
اس حوالے سے ایک اہم یادداشت کو قومی امانت جانتے ہوئے، قوم کے حوالے کرنا میری ذمہ داری ہے۔ تحریکِ پاکستان کے ممتاز رہنما، آل انڈیا مسلم لیگ کے پارلیمنٹری سیکرٹری اور دسمبر۱۹۷۴ء میں کراچی سے قومی اسمبلی کے منتخب رکن محترم مولانا ظفر احمد انصاری [۱۹۰۸ء- ۱۹۹۱ء] سے اسلام آباد میں میرا [۱۹۷۲ءتا۱۹۷۷ء] تقریباً روزانہ رابطہ رہتا تھا۔ ۱۹۷۴ء میں، مَیں قائداعظم یونی ورسٹی اسلام آباد کی اسٹوڈنٹس یونین کا صدر تھا۔ گورنمنٹ ہوسٹل اسلام آباد میں عصرسے مغرب تک انصاری صاحب کی رفاقت سے فیض یاب ہوتا تھا۔ اگر وہ سوئے ہوتے تھے، تو دروازہ کھٹکھٹا کر انھیں جگانا، چائے منگوانا اور پھر مولانا کی صحبت میں گفتگو سے استفادہ کرنا میرا معمول تھا۔ ہم اکثر مغرب کی نماز بھی اکٹھے پڑھتے تھے۔ اس زمانے میں وہ بہت کم کراچی جاتے۔ بھٹو صاحب کے ساتھ انصاری صاحب کی دوستی بہت گہری، اور باہمی احترام پر استوار تھی۔ بھٹوصاحب قومی، دستوری اور مذہبی معاملات میں ان پر بہت زیادہ اعتماد کرنے کے باوجود بعض سیاسی آرا پر اختلاف بھی رکھتے تھے۔ میرا حلقۂ احباب، انصاری صاحب کی بھٹو صاحب سے قربت پر ناراض رہتا تھا: ’’انھوں نے قومی اسمبلی میں آکر، بھٹو جیسے آدمی کے ساتھ دوستی کیوں رکھی ہے؟‘‘ اگست۱۹۷۴ء کے آخری ہفتے کی بات ہے کہ ایک دن حسب معمول جب میں مولانا ظفر احمد انصاری صاحب سے ملنے گیا، تو وہ میرے پہنچنے سے قبل ہی میرے لیے پیغام چھوڑ کر کہیں گئے ہوئے تھے کہ ان کا انتظار کروں۔ یاد رہے ان دنوں ۱۹۷۴ء کی تحریکِ ختم نبوت زوروں پر تھی{ FR 646 } اور قومی اسمبلی، قادیانیت کے مسئلے پر فریقین کے بیانات کی سماعت کر رہی تھی۔
جب انصاری صاحب واپس آئے تو انھیں کچھ پریشان پایا۔ میں یہ سمجھا کہ عمر کی وجہ سے تھکاوٹ ہوگی کہ آج دوپہر کو وہ سو نہ سکے تھے۔ مَیں انھیں سوالیہ نظروں سے دیکھ رہا تھا، جس پر جواباً انصاری صاحب کہنے لگے کہ: ’میرے اس وقت سے اوسان خطا ہیں اور عجیب وغریب صورتِ حال سے دوچار ہو کر آیا ہوں۔‘ میں نے پوچھا: ’جی! کیا ہوا ہے؟ یہ تو مجھے معلوم ہے کہ پرائم منسٹر ہاؤس سے ایک گاڑی آپ کو لینے آئی تھی۔ یقینا بھٹو صاحب نے کسی بات چیت کے لیے بلایا ہوگا۔‘
مولانا انصاری صاحب نے اثباتاً کہا: ’بھٹو صاحب کی طرف سے پیغام ملا تھا کہ قادیانیوں کا ایک بہت بڑا وفد انھیں (بھٹو صاحب سے) ملنے آ رہا ہے، اس لیے فوری طور پر وزیراعظم ہاؤس پہنچ جائیں‘‘۔ دراصل بھٹو صاحب، قادیانی وفد سے ملاقات کرنے سے پہلے متوقع امور پر انصاری صاحب سے مشورہ کرنا چاہتے تھے۔
مولاناانصاری صاحب نے بتایا: ’’میٹنگ ہال میں قادیانی وفد آچکا تھا اور بھٹو صاحب کی کرسی خالی پڑی تھی۔ بھٹو صاحب نے بیٹھتے ہی وفد کی طرف متوجہ ہو کر پوچھا: ’’جی، بتائیں کیا بات ہے؟‘‘
قادیانی وفد کے سربراہ نے گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے کہا: ’’بڑا کڑا وقت ہے۔ آپ پر بھی دباؤ ہے، ہمارا وقت آپ کے ساتھ بڑا اچھا گزرا ہے اور ہم آپ کو اس مشکل سے نکالنا چاہتے ہیں‘‘۔ ساتھ ہی وفد کے سربراہ نے ایک یادداشت کا مسودہ بھٹو صاحب کو پیش کرتے ہوئے کہاـ: ’’ہم ایک حل لے کر آئے ہیں۔ آپ پارلیمنٹ میں آئینی ترمیم کے بجاے ہماری تجویز کردہ سفارشات کسی طور اسمبلی سے منوالیں، اس طرح آپ بھی مشکل سے نکل آئیں گے اور یوں درمیانی راستے سے ہمارے لیے بھی بچت ہو جائے گی‘‘۔
بھٹو صاحب نے قادیانیوں کا پیش کردہ مسودہ لیا،پڑھا، اور پھر اس کاغذ کو ہاتھ میں موڑ توڑ کر کہا: ’’ Do you people realy believe, that bastard was a prophet? ? یہ کہہ کر بھٹو صاحب اٹھ کر میٹنگ ہال سے باہر چلے گئے‘‘۔ ۱
مولانا انصاری صاحب نے بتایا کہ: ’’اس قادیانی وفد میں بڑے اثرورسوخ والے افراد، جرنیل اور طاقت ور بیوروکریٹ شامل تھے، لیکن بھٹو صاحب نے ان کی ذرّہ برابر پروا نہیں کی اوراپنے دلی جذبات کا برملا اظہار کر دیا۔
مولانا ظفر احمد انصاری صاحب نے یہ سب کچھ اسی روز ملاقات کے تقریباً آدھ پون گھنٹے بعد مجھے بتا دیا تھا، جس سے ہمیں یقین ہو گیا تھا کہ بھٹو کے دل میں اب قادیانیوں کے لیے کوئی نرم گوشہ باقی نہیں رہا ہے اورآئینی ترمیم کے ذریعے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا جائے گا۔ اور جہاں تک مولانا انصاری صاحب کی پریشانی کا تعلق ہے، تو اس کا سبب یہ تھا کہ یہ گروہ حکومت کو اور خود ریاست ِ پاکستان کو کہیں نقصان پہنچانے کی مذموم کوشش نہ کرے۔
۱- ہم یہ مکالمہ ترجمان القرآن میں پیش نہ کرتے، لیکن جب سینہ زوری اور اس پرسخن سازی اور افسانہ طرازی کرکے ’بے چارگی‘ کا کھیل کھیلا جارہا ہو، تو آئینہ دکھانے کے سوا چارہ نہیں رہتا۔
مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی نے قادیانیت کے بانی کے بارے میں لکھا ہے: ’’مسیح موعود‘ [یعنی بقلم خود مرزا غلام احمد] کے نام سے جو کاروبار ہمارے ملک میں پھیلایا گیا ہے، وہ ایک جعل سازی سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے۔ اس جعل سازی کا سب سے زیادہ مضحکہ انگیز پہلو یہ ہے کہ جو صاحب اپنے آپ کو [مسیحِ موعود کے بارے میں] پیشین گوئیوں کا مصداق قرار دیتے ہیں، انھوں نے خود عیسیٰ ابن مریم بننے کے لیے یہ دل چسپ تاویل فرمائی ہے: ’اُس [یعنی اللہ تعالیٰ] نے میرا نام مریم رکھا۔ پھر دو برس تک صفتِ مریمیت میں مَیں نے پرورش پائی… پھر…مریمؑ کی طرح عیسیٰؑ کی روح مجھ میں نفخ کی گئی اور استعارے کے رنگ میں مجھے حاملہ ٹھیرایا گیا، اور آخر کئی مہینے کے بعد، جو دس مہینے سے زیادہ نہیں، بذریعہ الہام کے… مجھے مریمؑ سے عیسیٰؑ بنا دیا گیا۔ پس، اس طور سے میں ابنِ مریم ٹھیرا‘‘ (کشتیِ نوح، ۱۹۰۲ء،ص۸۷-۸۹)۔ [مرزا صاحب کی ] ان تاویلات کو جو شخص بھی کھلی آنکھوں سے دیکھے گا، اسے معلوم ہو جائے گا کہ جھوٹے بہروپ کا صریح ارتکاب ہے، جو علی الاعلان کیا گیا ہے‘‘ (تفہیم القرآن،چہارم، ص۱۶۶-۱۶۹) ۔
اسی طرح یہ حقیقت بھی ملحوظِ نظر رہے کہ مسلمانوں نے قادیانی گروہ کو کافر قرار دینے میں پہل نہیں کی تھی، بلکہ یہ اعلان خود مرزا صاحب ہی نے بار بار فرمایا: مثال کے طور پر وہ کہتے ہیں:
l ’’میرے مخالف، جنگلوں کے سور ہو گئے، اور ان کی عورتیں کتیوں سے بڑھ گئیں‘‘ (نجم الہدیٰ، ازمرزا غلام احمد، ص۱۵)-
l ’’جو شخص ہماری فتح کا قائل نہ ہوگا تو صاف سمجھا جائے گا کہ اس کو ولدالحرام [Bastard] بننے کا شوق ہے، اور [وہ] حلال زادہ نہیں‘‘(انوارِاسلام، از مرزا غلام احمد،ص۳۶) ۔
l ’’کُل مسلمانوں نے مجھے قبول کرلیا ہے، اور میری دعوت کی تصدیق کرلی ہے، مگر کنجریوںاور بدکاروں کی اولاد نے مجھے نہیں مانا‘‘ (آئینہ کمالاتِ اسلام، از مرزا غلام احمد، ص۵۴۷)۔
l ’’ایک شخص، جس کو میری دعوت پہنچی ہے، اور اس نے مجھے قبول نہیں کیا، وہ مسلمان نہیں ہے‘‘ (حقیقت الوحی، از مرزا غلام احمد،ص۱۶۳)۔
l ’’میرا انکار، میرا انکار نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کا انکار ہے‘‘ (فتاویٰ احمدیہ، از مرزا غلام احمد، ص۲۸۰)۔
l ’’جو شخص تیری [یعنی مرزا غلام احمد کی] پیروی نہیں کرے گا، اور تیری بیعت میں داخل نہیں ہوگا، اور تیرا مخالف رہے گا، وہ خدا اور رسول کی مخالفت کرنے والا جہنمی ہے‘‘ (تبلیغ رسالت، نہم، مرزا غلام احمد، ص۲۷)
l ’’سچا خدا وہی ہے، جس نے قادیان میں اپنا رسول بھیجا‘‘ (دافع البلا، از مرزا غلام احمد)۔
l ’’یسوع کی… تین دادیاں اور نانیاں زناکار اور کسبی عورتیں تھیں، جن کے خون سے آپ کا وجود ظہور پذیر ہوا‘‘ (ضمیمہ انجام آتھم، مرزا غلام احمد، ص ۷)
l مرزا غلام احمد کے بڑے بیٹے نے لکھا ہے: ’’کُل مسلمان جو حضرت مسیح موعود [مرزا غلام احمد] کی بیعت میں شامل نہیں ہوئے، خواہ انھوں نے حضرت مسیح موعود[مرزا صاحب] کا نام بھی نہیں سنا، وہ بھی کافراور دائرہ اسلام سے خارج ہیں‘‘ (آئینہ صداقت، از مرزا بشیرالدین محمود احمد، ص۳۵)۔
l ’’ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم غیراحمدیوں کو مسلمان نہ سمجھیں، کیونکہ وہ خدا تعالیٰ کے ایک نبی کے منکر ہیں‘‘ (انوارِ خلافت [مجموعہ تقاریر]، مرزا بشیرالدین محمود احمد، ص۹۰)۔
l پھرمرزا صاحب کے فرزند اور جانشین نے یہ بھی لکھا : ’’جو شخص موسیٰ کو مانتا ہے، لیکن عیسیٰ کو نہیں مانتا، یا عیسیٰ کو مانتا ہے مگر محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو نہیںمانتا، یا محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو مانتا ہے پر مسیح موعود [مرزا غلام احمد] کو نہیں مانتا، وہ نہ صرف کافر،بلکہ پکّا کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے‘‘ (کلمۃ الفضل، مرزا بشیرالدین محمود احمد، مارچ ۱۹۱۵ء،ص۱۱۶)۔
l انھی صاحبزادہ صاحب نےلکھا: ’’ہم چونکہ مرزا صاحب کو نبی مانتے ہیں، اور غیراحمدی آپ کو نہیں مانتے، اس لیے قرآن کی تعلیم کے مطابق کسی ایک نبی کا انکار بھی کفر ہے، غیراحمدی کافر ہیں‘‘ (سب جج عدالت میں، مرزا بشیرالدین محمود کا بیان، بحوالہ اخبار الفضل، ۲۶جون ۱۹۲۲ء)
l دوسری طرف خود جناب ذوالفقار علی بھٹو لکھتے ہیں: ’’اے زیڈ فاروقی، الیکشن کمیشن کے سیکرٹری ایک احمدی (لاہوری) ہونے کے ناطے سے میری اور میری حکومت کی اس وقت سے مخالفت کر رہے ہیں، جب سے پاکستان کی قومی اسمبلی نے ستمبر۱۹۷۴ء میں احمدیوں کے بارے میں اپنا فیصلہ دیا تھا‘‘( If I am Assassinated، ص۳۴)۔
l راولپنڈی جیل خانے میں بھٹو صاحب کے نگران کرنل رفیع الدین لکھتے ہیں:’’قادیانی مسئلے پر بھٹوصاحب ایک دفعہ کہنے لگے: ’’رفیع یہ لوگ (قادیانی) چاہتے تھے کہ ہم ان کو وہ مرتبہ [status] دیں، جو یہودیوں کو امریکا میں حاصل ہے، یعنی ہماری پالیسی ان کی مرضی کے مطابق چلے‘‘۔ ایک دن [بھٹوصاحب] کہنے لگے :’’میں تو بڑا گناہ کار ہوں، کیامعلوم کہ میرا اللہ میرے تمام گناہ اس عمل کی بدولت معاف کر دے‘‘۔ (بھٹو کے آخری ۳۲۳دن، ناشر:نگارشات، لاہور، ص۶۷)۔ [س م خ]
کورونا کی تباہ کاریاں دُنیا بھر میں موت کے سائے پھیلا رہی ہیں، لیکن بھارت کی نسل پرست فسطائی حکومت، جموں و کشمیر میں خون کی بارش اور ظلم و زیادتی کی جملہ کارروائیوں میں، پہلے سے بڑھ کر مصروف ہے۔ یہاں پر چار مختصر مضامین میں حالات کی تصویر پیش کی جارہی ہے۔ ادارہ
سلیم منصور خالد
یہ رمضان المبارک بھی مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی افواج کے ہاتھوں مظلوم عوام کے لیے تشدد، بے حُرمتی، ظلم، گھروں کی آتش زدگی اور گولیوں کی بوچھاڑ میں ۲۵شہادتوں اور ۲۴۹زخمیوں کا دُکھ دے کر گیا ہے۔ تاہم، یہاں پر دو مثالیں پیش ہیں:
۶مئی ۲۰۲۰ء (۱۲رمضان) کو حزب المجاہدین کےچیف آپریشنل کمانڈر ریاض نائیکو اپنے ایک ساتھی عادل کے ساتھ، اپنے ہی گاؤں میں بڑے خون ریز معرکے میں شہید کردیے گئے۔ موضع بیگ پورہ اونتی پورہ، ضلع پلوامہ (مقبوضہ جموں و کشمیر) میں پیدا ہونے والے ریاض شہید کی زندگی اپنے اندر عمل اور عزیمت کے پہاڑ سمیٹے ہوئے ہے۔ انھوں نے ڈگری کالج پلوامہ سے بی ایس سی کی تعلیم مکمل کرکے، ایک نجی اسکول میں بطور استاد پڑھانا شروع کیا۔ان کا ارادہ ریاضی میں ایم ایس سی اور پھر پی ایچ ڈی کا تھا کہ بھارتی سیکورٹی ایجنسیوں کے ہاتھوں ۲۰۱۰ء میں گرفتارکرکے جیلوں میں تشدد کا نشانہ بنائے گئے۔ اور پھر رہائی کے ۲۰ روز بعد ۲۰۱۲ء میں حزب کا حصہ بن کر جدوجہد کے لیے اسکول اور گھر چھوڑ کر گھنے جنگلوں میں نکل گئے۔
وہ بُرہان مظفروانی کے قریبی ساتھی تھے۔ بُرہانی وانی کی شہادت کے چند ہی روز بعد ۱۳؍اگست ۲۰۱۶ء کو جب حزب کے چیف آپریشنل کمانڈر منصور الاسلام شہید ہوگئے تو یہ ذمہ داری ریاض نائیکو کے سپرد کی گئی، جنھوں نے خاص طور پر جنوبی وادیِ کشمیر میں جاں بازوں کو منظم کرنے اور ان کی مزاحمتی صلاحیت کو مؤثر بنانے میں بڑا اہم کردار ادا کیا۔
ریاض شہید کے والد صاحب نے ایک بار بی بی سی کے نمایندے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’’میرے بیٹے نے جس راستے کا انتخاب کیاہے، وہ درست راستہ ہے،مجھے اپنے بیٹے پر فخرہے۔ ہم ہروقت اس کی شہادت کی خبرسننے کے لیے ذہنی طورپر تیارہیں‘‘۔
ریاض ایک سنجیدہ معلّم اور متوازن طبیعت کے حامل نوجوان تھے۔ وہ نمایاں ہونے کے بجاے پیچھے رہ کر اور خاموشی سے مصروفِ کار رہنے پر کاربند تھے۔ تاہم، دو سال قبل ’الجزیرہ‘ کے نمایندے نے بڑی کوشش کرکے ان سے رابطہ کیا، تو انھوں نے اس سے گفتگو میں یہ الفاظ کہے تھے: ’’غاصبوں کے خلاف آزادی کی تحریکوں میں نشیب وفراز آتےرہتے ہیں ، لیکن پورے خلوص کے ساتھ اگر نگاہیں منزل پر لگی رہیں اورقدم اُس سمت بڑھ رہے ہوں، تو اللہ تعالیٰ ضرور کامیابی عطا فرماتا ہے اور ہماری منزل دُور نہیں ہے، ان شاء اللہ‘‘۔
اپنی اس جدوجہد کے دوران وہ کئی مرتبہ بھارتی سیکورٹی فورسز کے گھیرے میں آئے، لیکن کامیابی سے گھیراتوڑ کر اگلی منزل کی طرف گامزن ہوئے۔ یہ ۲۰۱۸ء کی بات ہے کہ ان کے والدگرامی کو بھارتی انتظامیہ نے گرفتار کرلیا۔ تب اسی سال ستمبر میں ریاض نائیکو نے اتنے جبر اور بہت سارے ناکوں کے باوجود ایک پولیس افسر اور گیارہ اہل کاروں اور رشتے داروں کو اپنے کنٹرول میں لے لیا۔ جس پر قابض بھارتیوں نے ان کے والدصاحب کو رہا کردیا۔ ساتھ ہی ریاض شہید نے ان لوگوں کو رہا کر دیا اور رہائی کے بعد ان لوگوں نے بتایا کہ ’’ہمارے ساتھ مجاہدین نے کوئی بُرا سلوک نہیں کیا‘‘۔ اس دوران ریاض شہیدنے کئی ویڈیو اور آڈیو پیغام سوشل میڈیا پرنشر کیے، جن میں جموں و کشمیر پولیس اہل کاروں کو آزادی کی جدوجہد کی راہ میں رکاوٹ نہ ڈالنے کی باربار اپیل کی۔
یہ جدوجہد چونکہ ایک مسلسل عمل کا نام ہے، اس لیے اس دوران جہاں دشمن کے مسلح ادارے اور خفیہ ایجنسیاں ریاض شہید کا تعاقب کرتی رہیں وہاں بھارتیوں کا ایک دام ہم رنگ بھی برابر متحرک رہا۔ یاد رہے ۱۹۹۲ء میں بھارت نے مجاہدین کشمیر کو بدنام کرنے کے لیے’الاخوان‘ کے نام سے اپنے آلہ کاروں اور قاتلوں کا گروہ تیار کیا تھا، جنھوں نے ایک جانب مجاہدین کے بہت سے قیمتی افراد کو شہید کیا، تو دوسری جانب مجاہدین کی جدوجہد کوبدنام کرنے کے لیےکبھی صحافیوں کو اغوا کیا اور کبھی یورپی سیاحوں کو اُٹھا لیا اور پھر انھیں قتل کرکے مجاہدین کو بدنام کیا۔ اس امرکی سیّدعلی گیلانی اورمجاہدقیادت نے باربار مذمت کی اور بتایا کہ اخوان المسلمون کے نہایت محترم نام کو بدنام کرنے اور حُریت پسندوں میں پھوٹ ڈالنے اور بے اعتمادی پیدا کرنے کے لیے یہ گھناؤنی کارروائیاں کی جارہی ہیں اور یہ ایک بھارتی سازش ہے، جس سے حُریت پسندوں کا کوئی تعلق واسطہ نہیں ہے۔ افسوس کہ گذشتہ تین برسوں سے بالکل یہی کام’داعش‘ کےنام ، پرچم اور نشان کو استعمال کرکے کیا جارہا ہے، حالانکہ جموں و کشمیر میں برسرِ زمین کہیں داعش موجود نہیں ہے۔ لیکن بھارتی ایجنسیاں اپنی وضع کردہ تصاویر میں، خاص طور پر داعشی نشان دکھا کر،مجاہدین آزادی کو بدنام کرنے کی کوشش کرتی آرہی ہیں، جن سے خبردار رہنے کی ضرورت ہے۔
ریاض نائیکو گذشتہ آٹھ برسوں میں دوسری بار اپنی والدہ سے ملنےخفیہ طور پر اپنے گھر آئے، تو داعش کے رُوپ میں مخبروں نےبھارتی ایجنسیوں کو خبر دے دی۔ اس موقعے پر یہ چار مجاہد: ریاض احمد، جنیدصحرائی ، ڈاکٹرسیف اللہ اور محمد عادل بھٹ موضع بیگ پورہ (پلوامہ) میں موجود تھے۔ ریاض نےفیصلہ کیا کہ بھارتی فوجیوں کا مقابلہ اس طرح کیا جائے گا کہ دومجاہد جنیدصحرائی اورسیف اللہ اس گھیرے کو توڑ کر نکل جائیں ، جب کہ محمد عادل بھٹ ان کے ہمراہ مقابلہ کرکے غاصب فوجیوں کو مصروف رکھیں۔ جنید اور سیف اپنے کمانڈر کو چھوڑ کر جانا نہیں چاہتے تھے،لیکن ریاض نے سختی سے حکم دےکر انھیں نکل جانے کو کہا۔
ریاض نے گھرکےنچلے کمرے اورعادل نے مکان کے اُوپروالےکمرے سے مقابلہ شروع کیا۔ اسی دوران قصبے کے سیکڑوں نوجوان اپنے گھروں سے نکل آئے اور جارح فوجیوں کے خلاف احتجاج اور پتھراؤ کرنے لگے۔ جواب میں پیلٹ گن فائرنگ، آنسوگیس اورفائرنگ کے نتیجے میں احتجاجی دباؤ کم ہوا۔ اسی دوران میں چاروں طرف سے گھیرکر بے تحاشا فائرنگ کرکے ریاض اور عادل شہید کردیے گئے۔ بھارتی فوجیوں نے ان دونوں کی میتیں قبضے میں لے لیں۔ انھیں لواحقین کے سپرد نہیں کیا اور ضلع گاندربل میں سونہ مرگ کے مقام پردفن کردیا۔
پھر ۱۹مئی کو جنید صحرائی اور طارق احمد کو بھارتی فوجیوں نے سری نگر میں گھیرے میں لیتے ہوئے اس طرح شہید کردیا کہ اس کارروائی کے دوران ۱۵ گھروں کو نذرِ آتش کرتے ہوئے تباہی مچادی۔ یاد رہے جنید صحرائی ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ(ایم بی اے) ۲۹سالہ نوجوان تھے، جنھوں نے ۲۰۱۸ء میں عسکریت کا راستہ منتخب کیا۔ وہ تحریک حُریت کے نہایت محترم رہنما اشرف صحرائی کے بیٹے ہیں۔ یادرہے کہ صحرائی صاحب، محترم سیّد علی گیلانی کے دست ِ راست اور کئی عشروں سے رفیق کار ہیں۔
غازی سہیل خان
۱۱مارچ ۲۰۲۰ء میں جموں وکشمیر ہائی کورٹ کے ایک عدالتی فیصلے نے کشمیریوںاور انسانی حقوق کے کارکنوں میں شدید بے چینی پیدا کر دی ہے ۔ہائی کورٹ نے پیلٹ گن (Pellet Gun) پر پابندی لگانے کے لیے دائر کی گئی ایک اپیل کو مسترد کر دیا۔ پیلٹ گن پر پابندی لگانے کی اپیل پر سماعت کرتے ہوئے یہ واضح کیا کہ ’’بے قابو بھیڑ کو طاقت سے قابو کرنا نا گزیر ہوتا ہے ‘‘۔
جموں وکشمیر ہائی کورٹ میں وادیِ کشمیر میں مظاہرین کو قابو کرنے کے لیے فورسزاہل کاروں کی طرف سے پیلٹ گن استعمال کرنے کے خلاف یہ درخواست جموں وکشمیر ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے ذریعے ۲۰۱۶ء میں اس وقت دائر کی گئی تھی، جب وادی میںمعروف عسکری کمانڈر برہان مظفروانی کی ہلاکت کے بعد وادی میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا تھا، جس میں بھارتی فورسز اہل کاروں نے احتجاج کو قابو کرنے کے لیے پیلٹ گن کا استعمال کیا تھا، جس کے سبب بہت سے زخمیوں کو اپنی بینائی مکمل یا جزوی طور پر کھونا پڑی۔ عدالت کا کہنا تھا کہ ’’کس جگہ، کس طرح سے طاقت کا استعمال کرنا ہے، یہ اس جگہ کے انچارج پر منحصر ہے ،جو اس جگہ تعینات ہے جہاں ہنگامہ ہو رہا ہوتا ہے‘‘ ۔
’پیلٹ گن‘ کشمیر میں احتجاجی مظاہرین کے خلاف استعمال میں اُ س وقت لائی جانے لگی جب ۱۱ جون ۲۰۱۰ء کو طفیل متو، راجوری کدل، سرینگرمیں آنسوگیس شل لگنے سے جاں بحق ہوا۔ تب وہ کوچنگ کلاس میں جا رہا تھا۔اس سے قبل ۱۳ سالہ ایک اور طالب علم وامق فاروق جنوری ۲۰۱۰ء میں نزدیک سے ایک آنسو گیس شل کا شکار ہو کر جاں بحق ہوگیا تھا۔
ان اموات کے بعد نہ تھمنے والے احتجاج کو روکنے کے لیے بھارتی فورسز نے پیلٹ گن کا استعما ل کرنا شروع کیا تھا۔ پھر زخمیوں اور بینائی سے محروم نوجوانوںکی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی۔ پیلٹ بندوق ایک بار چلانے سے اس میں سے ۵۰۰ پیلٹ ایک بار آگے کی سمت میں نکل کربکھر جاتے ہیں۔ جو کوئی بھی ان چھرّوں کی زد میں آتا ہے وہ زخمی ہو جاتا ہے ۔پیلٹ کے چھرّے لگنے کے بعد انسان زخمی ہونے کے ساتھ ساتھ شدید قسم کا درد محسوس کرتاہے ۔پیلٹ چھرّے دُور سے انسان کو زیادہ نقصان نہیں پہنچا سکتے، لیکن جب یہ ۵۰۰میٹر کی دُوری سے چلائے جائیں توشدید نقصان پہنچاتے ہیں، خاص طور سے جب یہ انسان کے نازک حصوں پہ جا کے لگتے ہیں، جن میں آنکھیں سب سے زیادہ متاثر ہوتی ہیں۔
۲۰۱۰ء سے آج تک کشمیر میں ہزاروں نوجوان پیلٹ بندوق کی چھرّہ فائرنگ سے جزوی اور ایک سو سے زائد نوجوان کلی طور پر اپنی آنکھوں کی بینائی سے محروم ہو گئے ہیں اور ابھی تک پیلٹ گن کی وجہ سے ۱۴؍ افراد کی موت بھی واقع ہوچکی ہے ۔ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق: ’’حکومت ہند، اس ہتھیار کو پیلٹ گن کہتی ہے، لیکن اصل میںیہ پمپ ایکشن شاٹ گن Pump Action Shotgun)) ہے‘‘ ۔ایمنسٹی کا مزید کہنا ہے کہ:’ ’یہ اکثر جنگلی شکار کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ یہ ہتھیار احتجاج کو قابو کرنے کے لیے نہیں بنایا گیا ہے‘‘۔ انسانی حقوق کے عالمی اداروں نے بارہا حکومت ہند سے کہا ہے کہ اس مہلک ہتھیار پر پابندی عائدکریں ۔
وادیِ کشمیر میں پیلٹ گن کی وجہ سے خواتین ،بزرگ اور پیر و جواں سب متاثر ہوئے ہیں، تاہم متاثرین میں اکثریت نوجوانوں کی ہے ۔۲۰۱۸ء میں جنوبی کشمیر کے ضلع شوپیاں سے تعلق رکھنے والی کم عمر بچی حبہ نثار پیلٹ لگنے کی وجہ سے اپنی ایک آنکھ کی بینائی کھو بیٹھی۔اسی طرح سے ایک اور بچی انشاء مشتاق بھی ۲۰۱۶ء میں پیلٹ لگنے کی وجہ سے اپنی دونوں آنکھوں کی روشنی سے محروم ہوکر محتاج ہو گئی ہے۔ یوں درجنوں نوجوان بینائی سے محرومی کے سبب زندگی محتاجی کے عالم میں گزارنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔
شمالی کشمیر سے ایک پیلٹ متاثر ہ نوجوان نے ہائی کورٹ کے اس فیصلے پر انتہائی افسوس اور مایوسی کااظہار کیا ۔ان کا کہنا تھا کہ’’ یہ ایک اُمید تھی وہ بھی چلی گئی اور ہم چاہتے تھے کہ اب کوئی نوجوان کشمیر میں اندھا نہ ہو، کوئی نوجوان زندگی بھر کے لیے محتاج نہ ہو، مگر عدالتی فیصلے نے ہم کو مزید مایوسی کا شکار بنا دیا ہے‘‘۔متاثرہ نوجوان کی دونوں آنکھیں پیلٹ لگنے کی وجہ سے بینائی سے محروم ہو گئی ہیں۔ اس نے کہا کہ’’ جب کوئی نوجوان پیلٹ کی وجہ سے اپنی آنکھوں کی بینائی کھو دیتا ہے تو وہ لازماً ذہنی بیماری میں مبتلا ہو جاتا ہے،وہ محتاج ہوجاتا ہے اور چلنے پھرنے کے قابل نہیں رہتا، جس کی وجہ سے کبھی کبھی ایسے نوجوان خودکشی کی بھی کوشش کرتے ہیں‘‘۔
متاثرہ نوجوان نے بتایاکہ میرے ایک جاننے والے پیلٹ متاثر ہ نے گذشتہ سال خود کشی کرنے کی کوشش اس لیے کی کہ ان کے گھر میں دوپہر کا کھانا نہیں تھا اور یہ نوجوان اس گھر کا واحد کمانے والا فرد تھا، جس کی خود اپنی زندگی اب دوسروں کی محتاج ہو گئی ہے اور دیگر افراد خانہ بھی دو وقت کی روٹی کے لیے در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں ۔
اس کے ساتھ ہی ساتھ کشمیر میں ایک تحقیق کے مطابق: ’’پیلٹ متاثرین میں سے ۸۵ فی صد نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں ۔جس میں۲۵ء۷۹ فی صد معاشرے میں احساس تنہائی کا شکار،۱۵ء۷۹ فی صد پوسٹ ٹرامیٹک سٹرس ڈس آرڈر،۲۱ء۹ فی صد شدید پریشانی کی بیماریوں میں مبتلا ہو گئے ہیں‘‘۔ ڈاکٹروں نے ۳۸۰پیلٹ متاثرین کی تشخیص کے دوران نوٹ کیا: ’’۲۰۱۶ء کے بعد پیلٹ متاثرین مختلف قسم کی نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہو گئے ہیں۔
پیلٹ گن متاثرین میں سے ۹۳ فی صد افراد ذہنی پریشانیوں میں مبتلا ہیں۔ بہت سارے متاثرین نفسیاتی امراض کے ماہرین کے پاس جانے سے گریز کرتے ہیں‘‘۔تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ بے شمار متاثرین اپنے آپ کو ذہنی امراض کا شکار نہیں سمجھتے ۔تاہم، بہت سارے مریضوں کی کونسلنگ اور دیگر ادویات کے ذریعے ان کا علاج کیا جاتا ہے۔
مجموعی طور پر کشمیر میں ہائی کورٹ کے اس فیصلے پر عوام میںناراضی کا اظہارکیا جا رہا ہے۔ لوگوں کا ماننا ہے کہ عدالت ہی ایک ذریعہ ہے، جس کے ذریعے اس مہلک ہتھیار سے نوجوانوں کو بچایا جا سکتا تھا ،لیکن اب اس عدالتی فیصلے نے وادی میں مایوسی پھیلا دی ہے اور انتظامیہ کو من مانی کے لیے مزید کھلی اجازت مل گئی ہے۔
سہیل بشیر کار
چند دن قبل ایک معروف ٹی وی اینکر رویش کمار پروگرام میں کہہ رہے تھے کہ ’’ Covid 19 لاک ڈاؤن اور کشمیر کے لاک ڈاؤن کا موازنہ نہیں ہوسکتا۔ اصل میں کچھ لوگ غیر حقیقت پسندانہ طور پر ان دونوں لاک ڈاؤنز کوبرابر کی چیز قرار دے رہے ہیں‘‘۔ رویش نے کہا کہ ’’کشمیر کا لاک ڈاؤن کچھ اور ہی تھا، بے مثل تھا، یعنی کہ جبر اور ظلم کی بے مثال صورت‘‘۔ یہ سن کر جی چاہا کہ کیوں نہ کشمیر کے لاک ڈاؤن کا نقشہ کھینچوں اور کیوں نہ یہ پہلو بھی بیان ہو کہ کشمیریوں نے مصیبتوں کا مقابلہ کرنا سیکھا ہے اور وہ بڑے بھیانک اَدوار کو برداشت کرکے نہ صرف زندہ رہے بلکہ پہلے سے بھی زیادہ مضبوط ہوئے۔
یوں تو کشمیر میں ۹۰ کے عشرے سےہی ظلم و جبر کا سلسلہ چل رہا ہے، لیکن کشمیر نے کچھ ایسے اَدوار اور واقعات بھی دیکھے جن سے یوں لگا کہ شاید اس دور سے باہر آنا ناممکن ہے۔ چاہے وہ Catch and Kill آپریشن ہو، یا حکومت کی پشت پناہی میں اخوانی دہشت گردوں کا ظلم و قہر۔ چاہے ایک منصوبے کے تحت خواتین کی عصمت دری ہو یا ۱۰ ہزار سے زائد نوجوانوں کو اس طرح غائب کرنا کہ ان مظلوموں کا نام و نشان بھی نہ ملے۔
کئی برسوں تک بغیر کسی مقدمے کے لوگوں کو نظربند رکھنا، یا تفتیشی سنٹروں میں لوگوں کو ناقابلِ بیان اور شرم ناک اذیتیں دینا، یہ سب کشمیریوں نے دیکھا، بھگتا اور مسلسل برداشت کرتے آرہے ہیں، لیکن اس سب کے باوجود لوگ پُرعزم اور زندہ رہے ہیں۔ جس علاقے میں ہزاروں جواں بیٹوں کی میّتوں کو ان کے باپ کندھا دیں، اس علاقے کے لوگ کیسے جی رہے ہوں گے؟ یہ سوچ ہی اذیت ناک حدتک انسان کو مضطرب کر دیتی ہے، لیکن کشمیریوں نے یہ اندوہناک مناظر بھی انگیز کیے۔
گذشتہ برسوں میں بھارتی حکومت نے کچھ ایسے اقدامات کیے، جن سے نہ صرف ظلم کی ساری حدود پار ہوگئیں بلکہ کشمیریوں کو نہ ختم ہونے والے اندھیرے میں دھکیل دیا گیا۔ اگرچہ ۲۰۱۶ء سے ہی حکومت نے سخت اقدامات شروع کیے، جن میں حریت قائدین کو فرضی مقدمات میں پھنسانا وغیرہ وغیرہ، لیکن جولائی ۲۰۱۹ء کے آخری ہفتہ سے ہی وادیِ کشمیر میں بھارتی حکومت نے کچھ ایسی سرگرمیاں شروع کیں کہ ہر کشمیری کہنے لگا: ’’کچھ انہونی ہونے والی ہے‘‘۔ اگست کی پہلی تاریخ سے ان اقدامات میں اور شدت آئی تو ایسا محسوس ہونے لگا کہ بہت کچھ خراب ہونے والا ہے، خوف و دہشت کا ماحول چاروں طرف چھا گیا، ۱۰ لاکھ فوجیوں کے باوجود یہاں اضافی طور پر پیراملٹری فورسز منگوائی گئی۔
۵؍ اگست ۲۰۱۹ء کو سویرے ہر طرف کرفیو کا اعلان ہونے لگا۔ لینڈلائن، ٹیلی فون، انٹرنیٹ سب بند تھا، حتیٰ کہ کیبل نیٹ ورک بھی بند۔ جماعت اسلامی پر تو بہت پہلے ہی پابندی لگادی گئی تھی۔ جے کے ایل ایف پر بھی پابندی عائد کی گئی تھی اور اس کے اکثر کارکن گرفتار تھے۔ حریت کی چھوٹی اور بڑی قیادت کو نظر بند کیا گیا تھا۔ ۵؍اگست کو مختلف ذرائع سے معلوم ہونے لگا کہ کشمیر میں ۱۸ ہزار افراد کو گرفتار کرلیا گیا ہے، حتیٰ کہ دہلی نواز لوگوں کو بھی۔ تین سابق وزراےاعلیٰ فاروق عبداللہ، عمر عبداللہ، اور محبوبہ مفتی نظر بند کیے گئے۔ وہی محبوبہ مفتی جو کچھ ہی مہینوں پہلے بی جے پی کی حکومت میں ساتھی اور حلیف تھیں۔ شاہ فیصل جو کبھی ’نوجوان قیادت‘ کی حیثیت سے کُل ہند میں اُبھارے جارہے تھے، وہ بھی نظر بند کر دیے گئے ۔ انھوں نے کچھ مہینے قبل بھارتی سول سروس سے استعفا دیا تھا اور کشمیر کے مسئلے کے لیے اپنے انداز سے میدان میں اتر چکے تھے۔
ایسا ماحول پیدا کیا گیا کہ جس کسی فرد کی ۵۰ یا اس سے زیادہ افراد پر گرفت تھی وہ گرفتار کرلیا گیا ۔ایسا لاک ڈاؤن کہ کسی کو کسی کی خبر نہ تھی۔ لوگوں کو انتہائی مشکلات کا سامنا تھا۔ دکانیں، کاروباری ادارے آٹھ ماہ تک بند رہے۔ میرے ماموں حج پر تھے، ہمیں یا انھیں ہماری کوئی اطلاع نہ تھی۔ میرے انتہائی قریبی دوست اپنی اہلیہ جو کہ حاملہ تھی اور کافی بیمار بھی، کے ساتھ سری نگر میں تھے، ان کی کوئی اطلاع نہ تھی۔ ان کے نوزائیدہ بچے کا انتقال ہوگیا اور اس کی اطلاع دینے کے لیے انھیں خود میرے گھر آنا پڑا۔ ان واقعات سے اندازہ ہوگا کہ لوگوں کو کس قدر دشواری کا سامنا کرنا پڑا ہوگا۔ ۷۱ دن تک فون بند تھے۔ آج کے دور میں کوئی تصور کر سکتا ہے ایسی زندگی کا؟ اب بھی انٹرنیٹ محض 2G سپیڈ پر چل رہا ہے۔
اخبارات کے مالکان کو یہ حکم دیا گیا کہ ’’خبر وہی چھپے جو حکومت کے خلاف نہ ہو‘‘۔ کئی دنوں تک تو اخبارات کی اشاعت بھی روک دی گئی۔ پھر اخبارات میں اداریہ لکھنا اور شائع کرنا بھی بند کیا گیا۔ انھیں سخت ہدایت دی گئی کہ کوئی ایسا مضمون نہ چھپے، جس میں موجودہ حالات کا تذکرہ ہو۔ بی بی سی نے جب مقامی احتجاج کی رپورٹ کی، تو کشمیر کے گورنر نے کھلے عام انھیں دھمکی دی۔ ایسے حالات میں کشمیریوں نے نہایت ہی دانش مندانہ رویہ دکھایا۔ وہ کسی بڑے احتجاج کے لیے باہر نہیں نکلے۔ وہ جانتے تھے کہ ہندستان اپنی طاقت کا بے دریغ استعمال کرے گا۔ ہزاروں جانیں لے گا اور دنیا کو ذرائع ابلاغ پر اس شدید پابندی کے باعث کوئی خبر بھی نہ ہوگی۔
اگرچہ ہر کوئی دُکھی اور مجروح ہے، لیکن کشمیری جانتے ہیں کہ ہمیں جینا ہوگا، ہماری جدوجہد طویل ہوگی۔ ان مشکل حالات میں کشمیر کے لوگوں نے اگرچہ دکانیں بند رکھیں، لیکن سڑکوں پر نہیں آئے۔ انھوں نے معاشرے کے کمزور افراد کا خاص خیال رکھا۔ معمولات اگرچہ متاثر رہے لیکن زندگی کو برقرار رکھنے کی کوشش کی گئی۔ اسکول بند رہے، لیکن یہ قوم جانتی ہے کہ ترقی اور عروج کے لیے تعلیم کس قدر اہم ہے، لہٰذا اپنے اپنے علاقوں میں تعلیم یافتہ افراد نے مفت ٹیوشن سنٹر کھولے، جہاں بچوں اور بچیوں کو مفت تعلیم دی جانے لگی۔ انھیں معلوم ہے کہ انھیں طویل جدوجہد کرنی ہے، اور تازہ دم ہونے کے لیے کبھی پلٹنا بھی پڑتا ہے، غرض کشمیریوں نے جینا سیکھا۔
آج پوری دنیا میں لاک ڈاؤن ہے، لیکن گرفتاریاں نہیں ہیں، ظلم و جبر نہیں ہے، انٹرنیٹ چل رہا ہے، لوگ فون کے ذریعے اپنوں کے ساتھ رابطے میں ہیں، حکومتی امداد ہے۔ ایسا لاک ڈاؤن کشمیریوں کے لیے سخت ہولناک لاک ڈاؤن کے مقابلے میں کچھ بھی نسبت نہیں رکھتا۔ کشمیری تو سخت جاں آزمایش میں بھی جینا سیکھ چکا ہے۔کہاں وہ لاک ڈاؤن اور کہاں یہ والا کورونا لاک ڈاؤن!
عارف بہار
بھارتی حکومت نے کشمیر کی قومی، نسلی اورجغرافیائی شناخت کی تبدیلی اور خصوصی قوانین کے خاتمے کے آٹھ ماہ بعد اپنے اصل منصوبے پر عمل درآمد کا آغاز کردیا ہے۔ ’جموں وکشمیر ری آگنائزیشن آرڈر۲۰۲۰‘ کے نام سے جاری کردہ ایک حکم نامے کے ذریعے ریاستی ڈومیسائل کی نئی تشریح کی گئی، جس کے تحت کشمیر میں پندرہ سال تک مقیم رہنے والے، اور یہاں سات سال تک تعلیم حاصل کرنے، اور دسویں اور بارہویں جماعت کا امتحان دینے والے ملازمت کے حق دار ہوں گے۔
ماضی میں ۳۵-اے کے تحت ان تمام قوانین کی تدوین اور تیاری کا اختیار کشمیر اسمبلی کو حاصل تھا۔ ان دفعات کے خاتمے کے بعد اب بھارتی حکومت نے یہ سارے کام اپنے ذمے لے لیے ہیں۔ ڈومیسائل قانون کی نئی تشریح کے مطابق اب بھارتی حکومت کے کشمیر میں سات سال تک تعینات رہنے والے اعلیٰ افسروں، آل انڈیا سروس آفیسرز، بھارتی حکومت کے کشمیر میں نیم خودمختار اداروں، کارپوریشنوں، پبلک سیکٹر بنکوں، بھارتی یونی ورسٹیوں کے اہل کاروںکے بچے اور وہ خود یہاں کشمیر کے لیے مختص اسامیوں پر ملازمت کرنے کے اہل ہوں گے۔ فوری طور پر نافذالعمل اس قانون کے تحت بھارتی باشندے کشمیر میں مشتہر کردہ اور غیر مشتہر شدہ اسامیوں پر درخواست دینے کے اہل ہوں گے۔ اس قانون کے نفاذ کے لیے ایک ایسے وقت کا انتخاب کیا گیا، جب دنیا کی توجہ کورونا بحران کی طرف ہے۔
پاکستان کے وزیراعظم نے اپنے ٹویٹر پیغامات میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے اس فیصلے کی شدید مذمت کی ہے کہ ’’ نریندر مودی کورونا کی جانب دنیا کی توجہ مبذول ہونے کا فائدہ اُٹھاکر کشمیر میں اپنے فاشسٹ ’ہندوتوا‘ ایجنڈے پر عمل درآمد کررہا ہے، اور دنیا کو اس کا نوٹس لینا چاہیے‘‘۔
وزیراعظم پاکستان نے اس قانون کو’’ کشمیر میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کی کوشش اور عالمی قوانین کی صریح خلاف ورزی‘‘ قرار دیا۔ انھوں نے اسے ’’چوتھے جنیوا کنونشن کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا‘‘، اور ’’بھارت کے نئے قانون کو کلی طور پر مسترد کردیا ہے‘‘۔آزادکشمیر کے صدر مسعود خان، اور وزیراعظم فاروق حیدرنے بھی بھارت کے نئے قانون کی مذمت کی ہے۔
اس قانون کی زد چونکہ بلا تمیز مذہب اور علاقہ ریاست جموں وکشمیر کے تمام باشندوں پر پڑ رہی تھی، اس لیے کشمیری مسلمانوں سے زیادہ جموں کی ہندو آباد ی اور نوجوان نسل نے بھی اس فیصلے کے خلاف بے چینی ظاہر کرنا شروع کردی ہے۔ جموں کے ہندو نوجوانوں کو اس وقت وادی کے پریشان حال مسلمان طلبہ سے مسابقت درپیش ہے، اور وادی کی تین عشروں سے مخدوش صورتِ حال نے جموں کے ہندو طلبہ کے لیے مقابلے میں آسانی پیدا کردی ہے۔ مگر جب پورے بھارت سے ایک نئی کلاس یہاں مقابلے اور مسابقت میں اتر رہی ہے تو جموں کی ہندو آبادی اور نوجوان نسل کے لیے ایک نیا دردِ سر سامنے کھڑا نظر آیا۔
اس خطرے کو جموں میں پوری طرح محسوس کرتے ہوئے جموں کے علاقے کے ہندو طلبہ و طالبات نے مودی حکومت کو برسرِ عام ویڈیو پیغامات میں دھمکانا شروع کیا کہ ’کورونا وائرس‘ کا معاملہ ختم ہونے دو، پھر دیکھنا پورا جموں سڑکوں پر ہوگا۔ خود کشمیر کی تمام سیاسی جماعتوں نے بھی اس فیصلے کی یک زبان ہوکر مخالفت کی۔ اس طرح مخالفانہ ماحول کو اُبھرتا دیکھ کر بھارتی حکومت نے فوراً ہی اس قانون میں مزید ترمیم کرتے ہوئے یہ فیصلہ کیا کہ ’’گریڈ ایک سے ۱۷ تک تمام اسامیاں جموں وکشمیر کے پشتینی باشندوں کے لیے ہی مختص رہیں گی‘‘۔ اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ بھارتی حکومت کشمیر میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے احتجاج اور مفاد کو دو مختلف زاویوں سے دیکھتی اور عمل کرتی ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ اس قانون کی زد صرف وادی کے نوجوانوں کے مفاد پر پڑتی تو نریندر مودی حکومت احتجاج اور مطالبات کو پرکاہ کے برابر بھی اہمیت نہ دیتی۔
اس دوران بھارت میں آباد کشمیری پنڈت اور معروف اداکار انوپم کھیر نے کشمیری زبان میں کشمیری مسلمانوں کو ایک زہر آلود پیغام دیا ہے۔ یادرہے انوپم کھیر مسلمان دشمن بھارتیہ جنتا پارٹی کے انتہائی قریب ہے۔ اس نے کشمیری زبان کے تین الفاظ ’’رلو(ہم سے مل جاؤ)، گلیو (مرجاؤ)، ژلیو(بھاگ جاؤ)‘‘ پر مشتمل پیغام میں کشمیری مسلمانوں کو خبردار کیا ہے کہ ’’تمھیں بھارت میں گھل مل جانا چاہیے، بصورتِ دیگر تمھارے سامنے مرنے یا بھاگ جانے ہی کے دوراستے ہیں‘‘۔ انوپم کھیر کی یہ سوچ ایک فرد کے خیالات کی نہیں، بلکہ ایک پورے نسل پرست فسطائی نظام اور نفرت انگیز ذہنیت کی عکاس ہے، اور بھارتی حکومت کے تمام اقدامات کے پیچھے یہی سوچ کارفرما ہے۔ اس سوچ میں وہی ہٹلر، مسولینی اور راتگو ملادیچ جھلکتے اور جھانکتے نظر آرہے ہیں، جن کی جانب حکومت ِ پاکستان ۵؍ اگست کے بعد سے دنیا کی توجہ مبذول کراتی آئی ہے۔
بھارت کے نئے قانونِ کشمیر پر بھارت کا اصل اور طویل المیعاد ایجنڈا فلسطین اسٹائل پر عمل درآمد کا آغاز کرتے ہوئے کشمیر کی خصوصی اور مسلم شناخت کو آبادی کے تناسب کی تبدیلی کے ذریعے بدلنا تھا۔ بھارت ۷۱برس تک اس راستے پر کبھی کچھوے، تو کبھی خرگوش کی چال چلتا رہا۔ ۵؍اگست ۲۰۱۹ء کے بعد نریندر مودی نے اس سمت میں خرگوش کی چال سے پیش قدمی کرنا شروع کی ہے۔
بھارت جس طرح کشمیر میں اپنا ایجنڈا یک طرفہ طور پر نافذکرنا چاہتا ہے، یہ دنیا کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔ اس سے صاف لگتا ہے کہ امریکا اور کچھ دوسری طاقتیں ایف اے ٹی ایف میں پاکستان کے ہاتھ پاؤں باندھ کر، حقیقت میں بھارت کو کشمیر میں ہندوتوا ایجنڈے پر عمل درآمد کرواتے ہوئے اور آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کی ٹھوس بنیادیں رکھنے کا موقع فراہم کررہی ہیں۔ اب بھارت نے کورونا کا فائدہ اُٹھا کر اس جانب عملی پیش قدمی شروع کردی ہے۔ یہ کشمیری مسلمان آبادی کو اپنے علاقے میں اقلیت میں بدلنے کی جانب اُٹھایا جانے والا ایک ٹھوس قدم ہے۔ اس کے بعد بھارت کے بڑے کاروباری گروپ کشمیریوں سے اونے پونے داموں زمینوں کی خریداری کرکے اس منصوبے کو آگے بڑھانا شروع کردیں گے۔ یہ وہ خطرہ ہے جس کی مدتوں سے نشان دہی کی جاتی رہی۔ بھارت کی اس منظم کوشش کو حالات کی قید میں پھنسے صرف کشمیری ناکام نہیں بنا سکتے۔ اس کام کے لیے پاکستان کی بھرپور مدد کی ضرورت ہے۔ حکومتِ پاکستان کو اس سلسلے میں بیان بازی سے آگے بڑھ کر کوئی پالیسی تشکیل دینا ہوگی۔
۲۹فروری ۲۰۲۰ءکو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طالبان اور امریکا کے درمیان ہوئے معاہدے سے تقریباً دوہفتے قبل، بھارتی فضائیہ کا ایک طیارہ کابل ایئرپورٹ پر اُترا۔ اس طیارے میں بھارتی وزیر اعظم نریندرا مودی کا ایک دست راست، صدر اشرف غنی کے لیے خصوصی پیغام لے کر گیا تھا، جس نے اسی رات واپس دہلی پہنچ کر وزیر اعظم کو مشن کی کامیابی کی اطلا ع دے دی۔
امریکا و یورپ سمیت پڑوسی ممالک اور خود افغانستان کی سیاسی جماعتیں توقع کر رہی تھیں کہ طالبان اور امریکا کے درمیان امن معاہدے کے طے ہونے تک افغانستان کا الیکشن کمیشن انتخابات کے نتائج کا اعلان نہیں کرےگا۔ اس کو بھی ایک طرح سے پس پردہ معاملہ فہمی (Deal) کا حصہ سمجھا جا رہا تھا، تاکہ معاہدے کے بعد افغانستان میں ایک وسیع البنیاد حکومت قائم کرنے میں مدد مل سکے۔ نئی دہلی حکومت کو خدشہ تھا کہ دوحہ معاہدے کے بعد امریکا اور دیگر طاقتیں، یا تو افغانستان میں اَز سرنو انتخابات کروانے پر زور ڈالیں گی یا طالبان کو وسیع البنیاد حکومت میں حصہ لینے پر آمادہ کروالیں گی۔ لہٰذا، اس کو سبو تاژ کرنے کے لیے ضروری تھا کہ موجودہ صدر اشرف غنی کو قانونی حیثیت حاصل ہو۔ کیونکہ آثار بتارہے تھے کہ دوحہ معاہدے کے بعد کابل میں موجودہ حکومت، قانونی حیثیت کے بغیر عضو معطل اوربے معنی وجود بن کر رہ جائے گی۔
اس افسر کے کابل دورہ کے اگلے ہی دن، یعنی ۱۸فروری کو افغانستان کے الیکشن کمیشن نے پانچ ماہ کے بعد انتخابات کا اعلان کرکے اشرف غنی کو بطورصدر کامیاب قرار دے دیا۔ اس طرح ستمبر ۲۰۱۹ء میں ہوئے انتخابات میں اشرف غنی نے دوسری بار صدر کے عہدے پر قبضہ جمالیا۔
کابل میں سکھ گوردوارے پر بم دھماکا ، تشدد کے واقعات اور کابل انتظامیہ کی طرف سے طالبان قیدیوں کی رہائی میںٹال مٹول کرنے سے امریکا کو پیغام دینے کی کوشش کی گئی کہ افغانستان میں بھارتی مفادات کا خیال رکھے بغیر امن کی بحالی تقریباً ناممکن ہے اور بھارت اس وقت اشرف غنی کی حکومت اور اس کی انٹیلی جنس ایجنسی کے پیچھے پوری یکسوئی سے کھڑ ا ہے۔
بھارت نے بظاہر افغانستان کے سکیورٹی معاملات سے الگ رہ کر تعمیر و ترقی اور مالی امداد پر توجہ مرکوز کی ہے، تاکہ افغان عوام کی پذیرائی حاصل کرکے طالبان کو اقتدار سے دور رکھا جاسکے۔ ۲۰۰۱ء سے لے کر اب تک بھارت نے افغانستان میں تقریباً تین ارب ڈالر کی رقم صرف کی ہے۔ رواں مالی سال میں بھی بھارتی بجٹ میں افغانستان کے لیے بھارتی چار ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔ لہٰذا، یہ تقریباً ناممکن ہے کہ بھارتی ادارے اتنی جلدی کابل حکومت کو طالبان یا کسی بھی پاکستان دوست حکومت کے ہاتھوں میں جاتے دیکھ کر ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھ جائیں۔
اسی دوران امریکا کے ساتھ طالبان مذاکراتی ٹیم کے سربراہ شیرمحمد عباس استانگزئی نے بھارت کے حوالے سے طالبان کی پوزیشن کو ان الفاظ میں واضح کر دیا ہے: ’’افغانستان میں بھارت کا کردار ہمیشہ منفی رہا ہے۔ اس نے ہمیشہ غداروں کی مدد کی، گذشتہ ۴۰برسوں کے دوران افغانستان کے بدعنوان گروپ کے ساتھ بھارت نے تعلقات قائم رکھے ہیں۔ لیکن اگر بھارت، افغانستان میں مثبت کردار ادا کرنے کو تیار ہو تو افغان طالبان کو کوئی مسئلہ نہیں ہوگا‘‘ (روزنامہ The News ، ۱۸مئی ۲۰۲۰ء)
ان سبھی ایشوز پر امریکا کو بھی تشویش لاحق ہے۔ اسی لیے اس وقت جب پوری دنیا ’کرونا لاک ڈاؤن‘ کی زد میں ہے اور بین الاقوامی پروازیں معطل ہیں کہ ایک خصوصی امریکی چارٹرڈجہاز کے ذریعے صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے ایلچی زلمے خلیل زاد ، نئی دہلی آن پہنچے۔ جہاں انھوں نے بھارتی وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر اور سلامتی مشیر اجیت دوبال سے ملاقاتیں کیں۔ بتایا جاتا ہے کہ امریکی ایلچی نے بھارت کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ طالبان کے حوالے سے اپنے رویے میں نرمی لائےاور بتایا کہ ’’طالبان کا وجود، افغانستان کی ایک حقیقت ہے۔ ان سے بے زاری اور ان کو زبردستی کابل اقتدار سے دُور رکھناکوئی دانش مندی نہیں ہے‘‘۔ باوثوق ذرائع کے مطابق خلیل زاد نے مشورہ دیا کہ ’’پڑوسی ممالک روس، چین، ایران اور وسط ایشیائی ممالک کی طرح بھارت بھی طالبا ن کے ساتھ براہ راست تعلقات استوار کرکے اپنے خدشات براہِ راست ان کی قیادت کے گوش گزار کرے‘‘۔ ایک طرح سے خیل زاد نے طالبان اور بھارت کے مابین ثالثی اور ان کے درمیان سلسلۂ جنبانی شروع کرنے کی کوشش کی۔ نئی دہلی میں امریکی سفارت خانے نے کثیر الاشاعت روزنامہ دی ہندو کے ساتھ خلیل زاد کے انٹرویوکا بھی بندوبست کیا تھا۔ جس میں انھوں نے طالبان کے ساتھ معاہدے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ’’موجودہ حالات میں اس کا کوئی متبادل نہیں تھا‘‘۔
بھارت کو خدشہ ہے کہ دوحہ معاہدے کی وجہ سے خطے اور بین الاقوامی برادری میں پاکستان کا وقار بحال ہوا ہے، اور پاکستان کو الگ تھلگ کرنے کی بھارتی کوششوں کو بھاری دھچکا لگا ہے۔
علاوہ ازیں بھارت ہمیشہ افغانستان کے معاملات کو کشمیر میں جاری جدوجہد کے ساتھ منسلک کرتا آیا ہے۔ نئی دہلی میں افسران کہتے ہیں: ’’ افغانستان میں جب بھی پاکستان کے لیے نرم گوشہ رکھنے والی حکومت مسندِ اقتدار پر آئی ہے، تو کشمیر میں اس کا براہِ راست اثر دیکھنے کو ملا ہے‘‘۔ کشمیر کے ایک سابق گورنر جگ موہن ۱۹۸۹ء میں برپا عوامی بغاوت اور بعد میں عسکری جدوجہد کے آغاز کو افغانستان میں سوویت افواج کی شکست سے منسلک کرتے آئے ہیں۔ اسی طرح ۱۹۹۶ء سے ۲۰۰۱ء کے درمیان طالبان دورِحکومت میں کشمیر میں عسکری کارروائیوں میں تیزی آگئی تھی اور اسی زمانے میں کرگل جنگ بھی برپا ہوئی۔
ان سبھی خدشات کے ساتھ بھارت کی خفیہ ایجنسی ’را‘ کے سربراہ سامنت گوئل نے ۵جولائی ۲۰۱۹ء کو وزیراعظم نریندرا مودی سے ملاقا ت کی اور ان کو مشورہ دیا: ’’امریکا - طالبان معاہدے کے ظہور میں آنے سے قبل ہی جموں و کشمیر کے سلسلے میں سخت فیصلہ کرلیا جائے‘‘۔جس کے ایک ماہ بعد ہی بھارتی پارلیمنٹ نے جموں و کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کرکے نہ صرف اس کی آئینی خصوصی حیثیت ہی ختم کردی، بلکہ ریاست کو ہی تحلیل کرکے اسے مرکزی انتظام والا علاقہ بنادیا۔ ان ذرائع کے مطابق ’را‘ کے سربراہ نے یہ دلیل دی تھی کہ ’’طالبان کے ساتھ معاہدے کے بعد کشمیر میں حالات کنٹرول سے باہر ہوسکتے ہیں اور اس کے علاوہ امریکا ، پاکستان کی اقتصادی اور ملٹری امداد بحال کر دےگا‘‘۔اُن دنوں خیال تھا کہ دوحہ مذاکرات ستمبر ۲۰۱۹ء میں مکمل ہوجائیں گے۔
افغانستان کے حوالے سے نئی دہلی کی بے چینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ نئی دہلی میں کچھ بااثر حلقے اب طالبان کے ساتھ براہ راست مذاکرات اور تعلقات استوار کرنے پر زور دے رہے ہیں۔ مگر افغانستان میں بھارت کے سابق سفیر امر سنہا کے مطابق: ’’طالبان کے ساتھ تب تک گفت و شنید کا کوئی جواز نہیں بنتا ہے ، جب تک وہ پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کا اَزسر نو جائزہ نہیں لیتے‘ ‘۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’طالبان کا جھکاؤ پاکستان کی طرف کافی زیادہ ہے، جس کی وجہ سے بھارت کو ان کے ساتھ کوئی بھی سلسلہ کھولنے میں اندیشے ہیں۔ مزید یہ کہ طالبان کے ساتھ تحفظات اپنی جگہ، مگر جب انٹرا افغان ڈائیلاگ شروع ہوتا ہے، تو بھارت کو اس میں اپنی پوزیشن بناکر اس کو یقینی کرلینا چاہیے کہ یہ مذاکرات غیرجانب دار جگہ پر ہوں‘‘۔
سابق بھارتی سیکرٹری خارجہ شیام سرن کا کہنا ہے کہ’’ بھارتی پالیسی، طالبا ن کو کلی طور پر کابل اقتدار سے دُور رکھنے اور ایک وسیع البنیاد حکومت میں ان کے اثر و نفوذ کو کم کرنے پر مرکوز ہونی چاہیے۔ یعنی طالبان اگر اقتدار میں شرکت کریں تو بھی ان کی کوئی فیصلہ کن پوزیشن نہ ہو۔ افغانستان میں طالبان مخالف عناصر کو یک جا کرکے یہ ہدف حاصل کیا جاسکتا ہے‘‘۔ امر سنہا اور شیام سرن کے یہ خیالات بھارتی اسٹیبلشمنٹ کی پالیسی اور اقدامات کا نچوڑ ہیں۔
دوسری طرف دیگر سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ ’’۱۹۹۶ء کے برعکس پاکستان اپنے دگرگوں مالی حالات کی وجہ سے متوقع طالبان حکومت کی کوئی بامعنی اقتصادی مددنہیں کر پائے گا۔ اور یہی کچھ حالات سعودی عرب اور متحدہ امارات کے بھی ہیں۔ اس لیے اپنی مالی پوزیشن پر بھروسا کرکے بھارت کو چاہیے کہ وہ طالبان کو شیشے میں اتار کر انھیں پاکستان کے خیمے سے باہر نکالنے کے جتن کرے‘‘۔
بھارت کی اس سوچ اور حکمت عملی کے نتیجے میں افغانستان میں شاید ہی امن بحال ہوسکے گا۔ چونکہ بھارت خود ہی افغانستان کے معاملات کو کشمیر کے ساتھ منسلک کرتا آیا ہے، اس لیے بین الاقوامی برادری کو بھی باور کرانے کی ضرورت ہے کہ ’’اس خطے میں امن و سلامتی تبھی ممکن ہے، جب کشمیر میں بھی سیاسی عمل کا آغاز کرکے اس مسئلے کا بھی کوئی حتمی حل تلاش کیا جائے‘‘۔ اور یہ کہ ’’کشمیری عوام کے حقوق کی بحالی اور افغانستان میں ایک حقیقی عوامی نمایندہ حکومت ہی خطے کی سلامتی کی ضامن ہے‘‘۔
عوام کی توجہ جہاں ’کورونا تباہی‘ پر مرکوز ہے، وہاں ایک ہی وقت میں جموں و کشمیر کے عوام کو دوبار لاک ڈاؤن، بڑھتے ہوئے تشدد اور یک طرفہ طور پر دہلی حکومت کے پےدرپے اقدامات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ نریندر مودی حکومت کی دوسری مدت کے پہلے ۱۲مہینوں کی کشمیر پالیسی میں ایسے اقدامات شامل ہیں، جو وادیِ کشمیر میں تباہ کن سمجھے جاتے ہیں، جموں اور لداخ میں مخلوط ردعمل کا اظہار سامنے آرہا ہے،جب کہ باقی بھارت میں قدرے اطمینان کا مظاہرہ دیکھنے میں آتا ہے۔
مودی حکومت کی ان کارروائیوں میں تازہ ترین شاخسانہ نئے ڈومیسائل قواعد ہیں ، جنھیں ۱۸مئی ۲۰۲۰ء کو مشتہر کیا گیا ہے۔ دہلی وزارتِ داخلہ کے ۳۱مارچ کے حکم کے مطابق، یہ ضابطے جموں و کشمیر ریاست کے اس بنیادی قانون کو تبدیل کردیتے ہیں، جسے ہندستانی آئین کے آرٹیکل ۳۵ -اے کے تحت تسلیم کیا گیا تھا۔ جس میں ریاست کے مستقل باشندوں کو سرکای ملازمتوں کے ریزرویشن کے ساتھ ساتھ مفت تعلیم اور زمین کی ملکیت کے مکمل حقوق کا حق حاصل چلا آرہاتھا۔
ڈومیسائل کے یہ نئے قواعد کسی ایسے شخص کو جو: ریاست میں۱۵سال تک کام کرتا رہا ہے یا رہایش پذیر ہے، یا سات سال تک وہاں تعلیم حاصل کی ہے، وہ کشمیر کا ڈومیسائل سرٹیفکیٹ حاصل کرسکے گا اور کشمیر کے مستقل رہایشیوں کے لیے محفوظ کردہ تمام فوائد کا مستحق ہوگا۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ یہ ترمیم ان سرکاری عہدے داروں کو بھی ڈومیسائل کا مستحق ٹھیراتی ہے، جنھوں نے اپنے غیررہایشی بچوں کے ساتھ، ریاست میں ۱۰ سال تک مختلف سطحوں پر نوکری کی۔ اس رعایت کا فائدہ اُٹھانے والے اہل کاروں کی اقسام کی فہرست کے مطابق: ہندستانی انتظامی خدمات کے ممبر، قانون ساز اداروں میں کام کرنے والے) ، عوامی شعبے کی اکائیوں اور بنکوں ، مرکزی یونی ورسٹیوں اور 'مرکزی حکومت کے تسلیم شدہ تحقیقی اداروں وغیرہ میں خدمات انجام دینے والے شامل ہیں۔
صرف سرکاری عہدے داروں اور ان کے بچوں کی حمایت کرتے ہوئے مراعات دینے کا مطلب ایک واضح تعصب ہے۔ یاد رہے ۲۰۰۰کے عشرے کے اوائل میں سول سروس کی تنخواہوں میں اضافے کے بعد ، بھارت کی بہت سی ریاستوں اور حکومتوں نے ان مراعات کو ختم کرنا شروع کیا، تاکہ بڑے شہروں پر ملک کے مختلف حصوں سے آبادی کا دباؤ ختم کیا جائے۔ مگر یہ تعصب کی انتہا ہے کہ دوسرے حصوں میں تو بھارت کی دیگر ریاستوں کے لوگوں کو روکا جارہا ہے، مگر جموں وکشمیر پر اسے نافذ کیا جارہا ہے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کا موقف ہے کہ ’’نئے ڈومیسائل قواعد ضروری تھے کیونکہ بہت سے پس ماندہ گروہوں کو ریاست میں بہتر معاشی مستقبل دینا ضروری ہوگیا ہے، جیسے مغربی پاکستان سے آنے والے مہاجرین وغیرہ‘‘۔ مگر یہ دلیل فی الحقیقت بے بنیاد ہے۔ مودی حکومت یا دہلی کی حکومتوں کو ان گروپوں میں شامل لوگوں کی مدد اور مستقل رہایشی زمرے میں توسیع سے کسی نے کبھی نہیںروکا تھا۔ پہلے اس سوال نے چند لاکھ لوگوں کا مسئلہ کھڑا کیا تھا، مگر مودی سرکار نے ایک کروڑ ۲۰ لاکھ لوگوں کو رجسٹریشن اور ریکارڈ کی دلدل میں کیوں دھکیل دیا ہے؟ اس سوال کا کوئی جواب نہیں دیتا۔
بی جے پی پارٹی کے ترجمان کہتے ہیں:’’ہمارے فیصلوں پر ہنگامہ آرائی کیوں ہے؟ جب کہ پارٹی منشور میں ہم نے اپنا ارادہ بیان کیا تھا اور ہندستان کے صدر اور پارلیمنٹ نے اسی کی پیروی کی ہے‘‘۔ یہاں پر وہ اس حقیقت کو نظر انداز کر دیتے ہیں کہ اگست ۲۰۱۹ء کے صدارتی احکامات اور تنظیم نو ایکٹ بشمول ان تمام اقدامات کے، سپریم کورٹ میں آئینی سطح پر چیلنج کردیے گئے ہیں۔ ایک جمہوری حکومت جو قانون کی حکمرانی کو برقرار رکھنے کا دعویٰ کرتی ہے، وہ عدالتی فیصلے تک زیرسماعت چیزوں پر عمل درآمد کو منجمد کرنے کی پابند ہے، لیکن مودی حکومت بے جھجک حیرت انگیز تیزی کے ساتھ قدم آگے بڑھاتی جارہی ہے۔
اگست کے اعلانات کے چند مہینوں کے اندر ، جموں و کشمیر کے اثاثوں کو دو نئے مرکزی خطوں میں تقسیم کرنے کے لیے بھارتی حکومت کی طرف سے علیحدہ کمیٹیاں تشکیل دی گئیں۔ ریاستی پولیس کو مرکزی وزارت داخلہ نے براہِ راست اپنی حکمرانی میں لے لیا۔ صنعتی فروغ کے لیے کشمیر میں اراضی کے حصول کا کھلا حق دے دیا گیا، بھارتی سیاحتی کمپنیوں کو ترقی پذیر مقامی صنعت کی ذمہ داری سنبھالنے کے لیے مدعو کیا گیا ، اور کان کنی کے حقوق غیر کشمیری ٹھیکے داروں کو فروخت کردیے گئے۔ اسٹیٹ ہیومن رائٹس کمیشن سمیت ریاست کے سابقہ تمام قانونی اداروں کو تحلیل کردیا گیا۔ اقتدار لیفٹیننٹ گورنر اور اس کے مشیروں کے ہاتھوں میں مرکوز کردیا گیا۔ اس طرح حکمرانی کے اس نئے نظام میں متحرک اور مقتدر لوگوں میں ایک کے علاوہ تمام افراد کا تعلق ریاست سے باہر ہے۔
جموں وکشمیر کی قانون ساز اسمبلی تحلیل چلی آرہی ہے۔ یہاں کے بہت سارے سیاسی رہنما نظربند ہیں، انھیں بولنے سے روک دیا گیا ہے اور میڈیا کو ان موضوعات پر بات کرنے پر دھمکایا جاتا ہے۔ اس تمام تر جبر کے باوجود ، جموں و کشمیر میں واحد بی جے پی کے علاوہ ، تمام سیاسی جماعتوں کے نئے ڈومیسائل قواعد کے خلاف احتجاج کو بڑی بے دردی سے نظرانداز کیا جارہا ہے۔ بی جے پی کے جنرل سکریٹری رام مادھاؤ نے نئے ڈومیسائل قواعد کو ’ایک معاہدہ‘ قرار دیا ہے ، جس کا مطلب ہے کہ مودی انتظامیہ ان پر نظرثانی نہیں کرے گی (انڈین ایکسپریس، ۲۱مئی ۲۰۲۰ء)۔
جموں وکشمیر کے بیش تر افراد نے دستوری کی دفعہ ۳۵-اے کے خاتمے کو ریاست کی داخلی خودمختاری کے تابوت پر آخری کیل قرار دیا ہے، اور درست کہا ہے۔ یاد رہے ۳۵-اے کے نتیجے میں تحفظات کی ضمانت کوئی نئی چیز نہیں تھی بلکہ اس کی ضمانت مہاراجا ہری سنگھ کے دستخط کے تحت دی گئی تھی۔ گذشتہ ۷۰برسوں کے دوران یکے بعد دیگرے حکومتوں نے سابقہ ریاست کے اختیارات رفتہ رفتہ ختم کردیے ، لیکن ان میں سے کسی نے بھی آرٹیکل ۳۵-اے یا ریاست کے تابع قانون سازی پر ہاتھ نہیں ڈالا تھا، اور آہستہ آہستہ یہ چیز کشمیریوں کی شناخت سے جڑ گئی تھی۔ پھر اہم تر بات یہ ہے کہ تعلیم اور روزگار کے ذریعے کشمیریوں کو بااختیار بنائے جانے کو تحفظ حاصل تھا۔ اور جب ۱۹۹۰ کے عشرے میں مسلح شورش میں اضافہ ہوا تو ، بہت سے کشمیری سیاسی رہنماؤں نے مسلم اکثریتی وادی اور جموں کے متعدد اضلاع کی آبادی کو تبدیل کرنے کے ہندستانی ارادے کو بھانپ لیا تھا۔
۲۰۱۹ءتک ، یہ خدشات کشمیریوں کی تنہائی کے احساس کو تیز کرنے کے عمل میں ڈھل گئے۔ پھر اگست ۲۰۱۹ء کے اقدامات نے ماضی کی تمام مثبت کوششوں پر پانی پھیر کر رکھ دیا، جموں و کشمیر کے آئین کو زیر و زَبر کردیا اور آرٹیکل ۳۵- اے کو ختم کرکے رکھ دیا۔ جس کے بعد ڈومیسائل قواعد کو جبری طور پر مسلط کیا جارہا ہے۔
اس آخری اقدام کے ساتھ ہی جموں و کشمیر میں عدم استحکام بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔ مسلح مقابلوں میں اضافہ ہورہا ہے اور سیکیورٹی کی صورتِ حال انتہائی نازک ہے۔ اس خراب صورت حال کو پیدا کرنے کا پاکستان پر الزام لگانا ایک فضول سی بات ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ وادیِ کشمیر کے پیدا شدہ عدم استحکام ہی کا پاکستان کو فائدہ ہوتا ہے اور چین کو بھی ۔ مودی حکومت کی کشمیر پالیسی کے نتیجے میں ، ہندستان کو اپنے مغربی محاذ پر ، اور جموں و کشمیر کے عوام کے حقوق سے مسلسل انکار کرکے ، خود بھارت کی سلامتی کے لیے خطرات میں اضافہ کیا گیا ہے۔ کیا بھارت واقعی صرف ’ہندوتوا‘ نظریاتی جذبے کی قیمت ادا کرنے کے لیے تیار ہے؟ (روزنامہ The Hindu، ۲۶مئی ۲۰۲۰ء، ترجمہ: ادارہ)
اخوان کے مرشد عام اوّل امام حسن البنا شہید [۱۴؍اکتوبر ۱۹۰۶ء- ۱۲فرورری ۱۹۴۹ء] اور مرشدعام دوم حسن الہضیبی [دسمبر ۱۸۹۱ء-۱۱نومبر ۱۹۷۳ء] دونوں بڑی خوبیوں کے مالک تھے۔ استاذ الہضیبی نے نہایت کٹھن حالات میں ہماری رہنمائی کی اور اخوان کی قیادت کا حق ادا کیا۔ اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے، امانت کا حق ادا کرنے، قربانی پیش کرنے، وفا، صبر اور تحمل کا مظاہرہ کرنے اور مشکلات کو اجر کی اُمید پر ہمت سے برداشت کرنے کا بہترین نمونہ مرشدعام حسن الہضیبی مرحوم کی زندگی میں ہم نے بارہا دیکھا۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اپنے برگزیدہ بندوں میں شامل کرے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خطبۂ حجۃ الوداع میں مومن کی حُرمت کو بڑے مؤثر انداز میں یوں بیان فرمایا کہ بندئہ مومن کی حُرمت اللہ کے نزدیک کعبہ شریف اور مسجدحرام سے بڑھ کر ہے___ اخوان، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام پر پابندی سے کاربند ہیں۔ اخوان کے نزدیک کسی مسلمان مردو زن کی حُرمت کو بے حُرمت کرنا یا اسے کوئی ایذا پہنچانا بہت بڑا جرم ہے۔
اللہ تعالیٰ نے ہمیں ہرقسم کے تشدد کا مظاہرہ کرنے سے محفوظ رکھا ہے، کیوںکہ ہم حقیقی طور پر سلف صالحین کے نقشِ قدم پر چلتے ہیں اور سلف صالحین نے کسی مسلمان کا خون مباح نہیں ٹھیرایا، اگرچہ اس نے چوری کی ہو یا شراب پی ہو۔ اخوان کا دین اسلام کے معاملے میں نقطۂ نظر بڑا واضح ہے اور وہ یہ کہ اسلام دین بھی ہے اور حکومت بھی۔ ہمارے اس نقطۂ نظر نے دشمنانِ دین کو ہمارے خلاف بے چین اور مشتعل کررکھا ہے۔ وہ ہم پر ایسے ایسے الزامات لگاتے ہیں، جو کسی شریف انسان کے حاشیہ خیال میں بھی نہیں آسکتے۔پھر اس سے بڑھ کر بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ ان لوگوں کے اختیار میں دنیا کے سب سے زیادہ طاقت ور ذرائع ابلاغ اور نشرواشاعت کے وسائل ہیں۔ یہ سب وسائل، بے پناہ مالی و انتظامی اختیار کے ساتھ ہمارے خلاف مسلسل استعمال ہوتے رہتے ہیں۔
اخوان کی قیادت:مرشد عام حسن الہضیبی کی قیادت کے دوران جماعت اخوان قانونی طورپر کالعدم تھی۔ اخوان قانون کی پابندی بھی کرتے ہیں اور اپنے بنیادی عقیدے پر کاربند بھی رہتے ہیں۔ اس موقعے پر اخوان نے مل کر نئے مرشدعام کے بارے میں غوروخوض کیا تو اس نتیجے پر پہنچے کہ: ’’مکتب ارشاد کے ارکان میں سے جو رکن عمر میں سب سے بڑا ہو، اسے مرشدعام بنالیا جائے‘‘۔
اتفاق سے اس وقت مکتب ارشاد کے جملہ ارکان میں سے مَیں عمر میں بڑا تھا۔ پس، یہ ذمہ داری مجھ پر ڈال دی گئی۔ اگرچہ حکومت ہمارا وجود قانوناً تسلیم نہیں کرتی مگرعملاً حکومت بھی ہمارے وجود سے انکار نہیں کرسکتی۔ اہل حل و عقد مجھے اخوان المسلمون کا رہنما تسلیم کرتے ہوئے، اور اسی حیثیت میں مجھ سے ملاقاتیں کرتے رہے ہیں اور مختلف موضوعات پر مذاکرات کے دوران بھی ہم نے انھیں کبھی موقع نہیں دیا کہ وہ ہم پر ہاتھ ڈالنے کا قانونی جواز نکال سکیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آج بھی انھیں کوئی بہانہ مل جائے تو وہ ہمیں مقدمات میں پھنسا لیں۔
کس کا اعتبار کیجیے:اس صورتِ حال کو ہم نے بھی قبول کیا ہوا ہے اور بہت سارے مواقع پر میں نے قوم اور وطن کی خاطر حکومت سے کئی معاملات میں تعاون کیا ہے۔ اس صورتِ حال کو دیکھ کر یہ کہا جاسکتا ہے کہ قانونی پابندی کے باوجود مخلص اور یکسو انسانی نفوس کی وابستگی سے اخوان کی تنظیم موجود ہے۔ ملک میں امن و امان قائم رکھنے کے لیے وزارتِ داخلہ کے ذمہ داران کو جب بھی مجھ سے کوئی رابطہ قائم کرنا مقصود ہو تو مَیں ملاقات سے کبھی انکار نہیں کرتا۔ پھر کبھی یہ اصرار بھی نہیں کرتا کہ وہ میرے پاس آئیں۔ میں نے ان سے کہہ رکھا ہے کہ جہاں قوم و وطن کی بھلائی کا معاملہ ہوگا، مجھے بس ٹیلی فون پر اطلاع دے دیں، مَیں وزارت کے دفتر میں پہنچ جاؤں گا۔ ہاں، کبھی کبھار میری صحت کی کمزوری کی وجہ سے، یا کسی خاص موقعے کی مناسبت سے بعض افسران میرے ہاں بھی آجاتے ہیں ۔ ان کی اس آمد کا مَیں ہمیشہ شکرگزار ہوتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ کا مجھ پر یہ بڑا احسان ہے کہ مَیں کبھی ہنگامہ آرائی کے مقام پرنہیں گیا، اِلا یہ کہ میں نے کسی سے وعدہ کر رکھا ہو اور اسے ایفا کرنے کے لیے جانا ضروری ہو۔ میری کوشش ہمیشہ امن و امان قائم رکھنے پر صرف ہوتی ہے اور وزارتِ داخلہ کے موجودہ اہل کار اس پرشکرگزاری کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ وزیرداخلہ حسن ابوپاشا نے خصوصی طور پر تصریحات فرمائیں کہ اخوان المسلمون کا دہشت اور تخریب کاری سے کوئی تعلق نہیں، نیز یہ کہ دہشت پسند تنظیمیں اخوان المسلمون کی سرپرستی میں کبھی نہیں پنپ سکتیں۔ وزیرداخلہ داخلی امن و امان کے حوالے سے جواب دہ ہوتا ہے، اس کی زبان سے یہ اعتراف سچائی کا مظہر ہے، حالانکہ اخوان کے دشمنوں کے ہاتھوں ان کی تصویر ذرائع ابلاغ سے بڑے بھیانک انداز میں پیش کی جاتی رہی ہے۔ اب اہلِ وطن وزیرداخلہ کا اعتبار کریں یا ذرائع ابلاغ کا؟
جوش پر ہوش کا غلبہ: میں نے عہد کررکھا تھا کہ جب بھی الدعوہ کا اداریہ لکھوں گا تو کسی شخص پر ذاتی حملہ ہرگز نہ کروں گا اور اپنی تحریروں میں معروضیت کا اہتمام کروں گا۔ اشتعال انگیز حوادث کے موقعے پر لوگوں سے درخواست کیا کرتا ہوں کہ وہ اپنے جذبات کو قابو میں رکھیں۔ ستمبر ۱۹۸۱ء میں جب مختلف جماعتوں کے کارکنان کو گرفتار کرکے جیل میں بند کیا گیا تو وہاں ہماری آپس میں ملاقاتیں ہوئیں۔ ایک جماعت کے رکن نے مجھ سے کہا: ’’آپ نے تو نوجوانوں کے اعصاب منجمد کردیے ہیں اور ان کے جوش و جذبے کو ریفریجرٹر میں ڈال کر برف بنادیا ہے‘‘۔
میں نہیں جانتا کہ ان الفاظ سے موصوف میری تعریف کر رہے تھے یا مذمت۔ بہرحال ان کا شکریہ ادا کرنے کے بعد صرف اتنا کہا: ’’اس کا مطلب یہ ہوا کہ اپنےرفقا کے ہاں میری باتوں میں کچھ تاثیر ہے‘‘۔ اس سب کچھ کے باوجود اس دور میں بھی صحافیوں اور ادیبوں کے حملوں سے مَیں محفوظ نہ رہا۔ وہی دہشت گردی کے الزامات۔ اگرچہ اس دور میں یہ حملے ذرا نرم اور وقفے وقفے سے جاری بھی رہے تھے۔ انصاف کا تقاضا ہے کہ صدر انورالسادات کی زیادتیوں کے باوجود یہ بیان کر دیا جائے کہ سادات نے اخوان کو کسی حد تک آزادی کی فضا مہیا کی۔ ہمارا مجلہ الدعوہ بھی اس دور میں نئے سرے سے شائع ہونے لگا تھا اوردینی مناسبت سے ہم ملک بھر میں بعض اجتماعات منعقد کرنے کے قابل بھی ہوگئے تھے۔ اللہ تعالیٰ مجھ پر رحم کرے اور سادات پر بھی رحم کرے۔
فضیلۃ الاستاذ حسن الہضیبی کی زندگی میں اور آپ کی وفات کے بعد بعض اسلامی تنظیمیں، اخوان پر شدید حملے کرتی تھیں، بلکہ یوں معلوم ہوتا ہےکہ ان کا مقصد صرف اخوان ہی سے لڑنا ہے۔ وہ ہم پر الزام لگاتے ہیں کہ ’’اخوان نے جہاد کو ترک کردیا اورصرف مصحف لے کر بیٹھ گئے ہیں‘‘۔ جب ایک مرتبہ بعض اخوان نے میرے سامنے ان سنگ دلانہ حملوں کی شکایت کی تو میں نے نہایت سکون سے جواب دیا: ’’اللہ کا شکر ہے کہ ہمارے ان بھائیوں نے ہمارے ساتھ انصاف کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم نے صرف قرآن کو اختیار کرلیا ہے۔ اچھی بات ہے، قرآن کے اندر دین بھی ہے اور دولت بھی، امن بھی ہے اور جہاد بھی۔ انھوں نے تو ممکن ہے ، تہمت لگانے کے لیے یہ کہا ہے ،لیکن اگر وہ اپنے الفاظ کے معنی جانتے ہیں تو یہ ہمارے لیے ایک سرٹیفکیٹ ہے۔ ہم اس بات کا انکار نہیں کرتے کہ ہم نے قرآن کو مضبوطی سے پکڑ رکھا ہے اور الحمدللہ، فضیلت یہی ہوتی ہے کہ ناقدین نے تسلیم کرلیاہے کہ ہم نے قرآن کو پکڑ رکھا ہے‘‘۔
آپ کی دل چسپی کے لیے یہ بھی عرض کردوں کہ ہمارے یہ پُرجوش بھائی جو ہم پر ’کفر‘ کے فتوے عائد کرتے، بے سروپا الزام لگاتے اور جہاد سے منہ موڑنے کی تہمت باندھتے ہیں، ان خیرخواہوں کے مقدمات بھی اخوانی وکلا ہی نے عدالتوں میں لڑے اور بلامعاوضہ یہ خدمت انجام دی۔ ہمیں کسی سے نہ صلے کی اُمید ہے نہ داد کی تمنا۔ ہم ان شاء اللہ اپنا فرض ادا کرتے رہیں گے۔
ہمارا ایک واضح نصب العین ہے، جس کی جانب ہم رواں دواںرہتے ہیں ۔ راستے میں اگر کوئی کانٹا ہمارے دامن سے اُلجھ جائے یا کوئی چٹان راستہ روک لے تو ہم رُک نہیں جاتے۔ ہم کوئی نہ کوئی راستہ نکال کراپنی منزل کی جانب مسلسل چلتے رہتے ہیں۔ جن جماعتوں کا اُوپر ذکر کیا ہے ان کو قریب سے جاننے والے جانتے ہیں کہ یہ جماعتیں اس مقصد کے لیے قائم کی گئی تھیں کہ اخوان پر محاذ اور انداز بدل بدل کر حملے کیے جائیں۔
وَمَکَرُوْا وَمَکَرَ اللہِ :غیرمسلموں کے ذریعے اور غیراسلامی طریقوں سے اخوان پر حملے کرانے کے بعد اب یہی ایک طریقہ باقی رہ گیا تھا کہ اسلامی ناموں سے اخوان کی مخالفت کی جائے۔ مسلمانوں پر مسلمان حملے کر رہے تھے اور دشمن خوش تھا کہ دونوں میں سے جو بھی مار کھاجائے، اچھا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں توفیق دی کہ بجاے جوابی حملہ کرنے کے، ہم نے خاموشی اختیار کرلی، اور اسلام کا لبادہ اوڑھ کرہم پر حملہ کرنے والی یہ جماعتیں خود ہی زوال کا شکار ہوگئیں۔
’کارپس قرآنیکم‘ (Corpus Coranicum) برلن-برانڈنبرگ اکیڈیمی آف سائنسز اینڈ ہیومینی ٹیز (Berlin-Brandenburg Academy of Sciences and Humanities) کا پراجیکٹ ہے، جو پچھلی صدی کی دوسرے عشرے میں شروع ہونے والے پراجیکٹ کا احیا ہے۔
یہ وہی پراجیکٹ ہے جس کے بارے میں جلیل القدر عالم ڈاکٹر محمد حمید اللہ [۹ فروری ۱۹۰۸ء - ۱۷؍دسمبر ۲۰۰۲ء] نے مارچ ۱۹۸۰ء کو اسلامیہ یونی ورسٹی بہاولپور میں خطبہ دیتے ہوئے فرمایاتھا کہ اس کا مقصد یہ تھا کہ:
قرآن مجید کے قدیم ترین دستیاب نسخے خرید کر، فوٹو لے کر، جس طرح بھی ممکن ہو جمع کیے جائیں۔ جمع کرنے کایہ سلسلہ تین نسلوں تک جاری رہا۔ جب میں ۱۹۳۳ء میں پیرس یونی ورسٹی میں تھا تو اس کا تیسرا ڈائریکٹر [اوٹو]پریتسل Pretzl [۱۸۹۳ء- ۱۹۴۱ء] پیرس آیا تھا، تاکہ پیرس کی پبلک لائبریری میں قرآن مجید کے جو قدیم نسخے پائے جاتے ہیں ان کے فوٹو حاصل کرے۔ اس پروفیسر نے مجھ سے شخصاً بیان کیا کہ اس وقت (یہ ۱۹۳۳ء کی بات ہے) ہمارے انسٹی ٹیوٹ میں قرآن مجید کے ۴۲ ہزار نسخوں کے فوٹو موجود ہیں اور مقابلے (collation) کا کام جاری ہے۔ دوسری جنگِ عظیم میں اس ادارے کی عمارت پر ایک امریکی بم گرا اور عمارت، اس کا کتب خانہ اور عملہ سب کچھ برباد ہوگیا۔ لیکن جنگ شروع ہونے سے کچھ ہی پہلے ایک عارضی رپورٹ شائع ہوئی تھی۔ اس رپورٹ کے الفاظ یہ ہیں کہ’’ قرآنِ مجید کے نسخوں میں مقابلے کا جو کام ہم نے شروع کیا تھا، وہ ابھی مکمل تو نہیں ہوا لیکن اب تک جو نتیجہ نکلا ہے وہ یہ کہ ان نسخوں میں کہیں کہیں کتابت کی غلطیاں تو ملتی ہیں، لیکن اختلافاتِ روایت ایک بھی نہیں۔(۱)
یہی بات شاید ڈاکٹر حمید اللہؒ نے پہلے بھی کہیں لکھی یا کہی ہوگی کیونکہ مولانا مودودیؒ نے بھی بالکل اسی طرح کے الفاظ کہے تھے،جن کو راقم نے ان کے ایک درس کے آڈیو ریکارڈ سے سنا تھا۔
معلوم نہیں ڈاکٹر محمد حمیداللہ صاحب کس عارضی رپورٹ کا ذکر کر رہے ہیں ، حقیقت یہ ہے کہ یہ پراجیکٹ قرآن کا ایک کریٹیکل ایڈیشن (Critical Edition) شائع کرنے کی غرض سے ۱۹۲۹ء میں مشہور جرمن مستشرق گوتھیلف برگس ٹیسر[Gotthelf Bergstasser : ۱۸۸۶ء- ۱۹۳۳ء] نے شروع کیا تھا۔ ڈاکٹر حمید اللہؒ نے یہ جو تین نسلوں کا ذکر کیا ہے، وہ اس اعتبار سے صحیح ہے کہ پراجیکٹ کے رسمی اجرا سے پہلے غیر رسمی طور پر بہت کام ہوتا رہا تھا ۔ بہرحال ۱۹۳۳ء میں برگس ٹیسر کی وفات کے بعد ڈاکٹر پریٹزل (Otto Pretzl) نے اس پر پیش رفت کی۔ اس کو مصاحف اور قراءات پر قدیم لٹریچر جمع کرنے کا اس قدر شوق تھا کہ اس نے استنبول کے ایک مقری سے فنِ قراءات بھی سیکھا۔ یہاں تک کہ ایک موقع پر ایک دمشقی مقری اس کی قراءت سن کر حیران رہ گیا تھا۔(۲)ترکی میں رہنے کی وجہ سے اس کے مسلم شیوخ اور علما سے بھی اچھے مراسم قائم ہوگئے تھے۔ وہ ۱۹۴۱ء میں ایک فوجی مہم پر تھا، جب ہوائی جہاز کے فضا میں تباہ ہوجانے کی وجہ سے مارا گیا۔ اس کا جانشین ڈاکٹر اینٹن سپائی ٹالر [Anton Spitaler: ۱۹۱۰ء- ۲۰۰۳ء] تھا، جس کو اپنے پیش روؤں کے مقابلے میں ایک لمبی عمر ملی۔(۳)
۲۴؍اپریل ۱۹۴۴ء کو امریکی نہیں بلکہ برطانوی بمباری کے باعث، بویرین اکیڈمی آف سائنس کی وہ عمارت کہ جہاں اس پراجیکٹ کا دفتر تھا، ملبے کا ڈھیر بن گئی اورمبینہ طور پر وہ نادر ذخیرہ بھی، جو قرآنی نُسَخ کی تصاویر وغیرہ پر مشتمل تھا، سب برباد ہوگیا۔ جنگ ختم ہونے کے بعد ڈاکٹر سپائی ٹالر تعلیمی دنیا میں مشغول ہوگیا اور پلٹ کر بھی اس پراجیکٹ کا نام نہیں لیا، جس کا وہ ڈائریکٹر رہا تھا۔ عربی زبان پر اس کی گرفت بہت مضبوط تھی لیکن اس نے علمی دنیا میں مقالات وغیرہ لکھنے سے گریز ہی کیا۔ وہ غیر روایتی نقطہ ہاے نظر کو پسند نہیں کرتا تھا۔ ۱۹۷۰ء کے عشرے میں مستشرق گونتر لولینگ [ Günter Lüling: ۱۹۲۸ء- ۲۰۱۴ء] کا پی ایچ ڈی کا مقالہ،(۴)جس میں اس نےیہ نظریہ پیش کیا تھا کہ ’’قرآن عیسائی حمدیہ نشیدوں سے تالیف کیا گیا تھا، اس افسانے کو ڈاکٹر سپائی ٹالر نے نہ صرف رد کردیا تھا، بلکہ یونی ورسٹی سے اس کی نوکری بھی ختم کروا دی تھی۔(۵) کہا جاتا ہے کہ وہ مذہبی کتب کا احترام کرتا تھا ، شاید یہی وجہ تھی کہ وہ قرآن کے اس پراجیکٹ سے غیر متعلق رہنا چاہتا ہو؟
اپنی وفات سے کچھ سال پہلے اس نے اپنی شاگرد، مشہور جرمن مستشرقہ اور علومِ قرآنی کی تحقیق کار، اور برلن میں فری یونی ورسٹی کی پروفیسر انجلیکا نُووَرتھ [ Angelika Neuwirth : پ:۱۹۴۳ء] کواطلاع دی کہ قدیم نُسَخِ قرآن کی تصاویر ضائع نہیں ہوئی تھیں، بلکہ اس کے پاس محفوظ ہیں۔ یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ اس کے رفقا کا ایک محدود حلقہ ان تصاویر کے بارے میں جانتا تھا کہ وہ ضائع نہیں ہوئی تھیں۔ بہرحال، علمی دنیا کو پہلے تو اس ارادی جھوٹ کی اطلاع اور پھر نوادر کی موجودگی کی خوش خبری ۶۰سال بعد ۲۰۰۷ء کے اواخر میں ہی مل سکی، جب پروفیسر نُووَرتھ کی نگرانی میں یہ پراجیکٹ د وبارہ شروع ہوا۔ ’کارپس قرآنیکم‘ کی مدت ۱۸ سال، یعنی ۲۰۲۵ء تک ہے، جس میں توسیع کا خاصا امکان ہے۔پروفیسر نُووَرتھ مسلم روایات کا احترام کرنے والی اسکالر سمجھی جاتی ہیں۔
اب تک اس پراجیکٹ کے تحت جو کام ہوا ہے اس میں ۱۵ قرآنی نسخہ جات کی تحریر کشائی (decipher)، معیاری مصحف سے مقابلہ اور ترجمے کا کام کیا گیا ہے جو آن لائن دیکھا جاسکتا ہے۔ ان میں رام پور [اترپردیش، بھارت]کی رضا لائبریری [رضا کتب خانہ: ۱۷۹۲ء]کا مصحف منسوبہ امیر المو منین علی بن ابو طالبؓ بھی شامل ہے۔ یاد رہے کہ قدیم مخطوطات کو پڑھنے کا کام خاصا مشکل ہے، چنانچہ ایک ہی تحریر کو مختلف لوگ مختلف انداز میں پڑھتے ہیں۔ بہت سے مشہور اور قدیم ترین نسخہ جات کو اس فہرست میں شامل کرنے کا کام ابھی تک مکمل نہیں ہوسکا ہے۔ اس کے علاوہ قراءاتِ متعددہ پر تقریباً ۳۰ مصادر کا جائزہ لیا گیا ہے۔
مسلمانوں کو اس پراجیکٹ سے پریشان ہونے کی کچھ ضرورت نہیں۔ پروفیسر نُووَرتھ خود لکھ چکی ہیں: ’’قرآنی نسخہ جات کی نئی دریافتیں اس بات پر سوال اٹھانے کے بجاے الٹا تصدیق کررہی ہیں کہ قرآن ابتدا ہی سے ایک متنِ ثابت (fixed text) تھا اور انھی سورتوں پر مشتمل تھا، جو ہم آج بھی دیکھتے ہیں۔ وہ اسکالرز کامیاب نہ ہو سکے جو لسانیاتی بنیادوں پر قرآن کو ناقابلِ اعتبار ثابت کرنے کی کوششیں کرتے رہے تھے‘‘۔(۶) یہاں پر یہ جان لینا بھی ضروری ہے کہ قرآن کے ’کریٹیکل ایڈیشن‘ سے مراد قرآن کے متن کے ساتھ اس کےا رتقا، —ترمیم و اضافہ، تعدیل و تہذیب —کو تاریخی اور علاقائی پس منظر کے ساتھ منضبط کرنا ہے۔ ظاہر ہے مذکورہ محترم اور فاضل علما نے اس خبر کو جو باعثِ فخروانبساط سمجھا، تو اس کی کوئی ضرورت نہ تھی کہ وہ خود صحت ِ قرآن کی صداقت کا اعتراف کر رہے ہیں۔افسوس کہ ڈاکٹر حمیداللہ کے مذکورہ بیان کا بے وجہ بہت چرچا ہوا۔(۷)
اسی نوعیت کا دوسرا پراجیکٹ قرآنیکا (Coranica ) کے نام سے مشہور ہے ۔یہ ۲۰۱۱ء میں جرمن اور فرانسیسی اداروں (Deutsche Forschungsgemeinschaft and the Agence Nationale de la Recherche) کے تعاون سے شروع ہوا تھا۔ اس کا بنیادی مقصد اسلامی/ عربی روایات سے صرفِ نظر کرتے ہوئے، قرآنی متن کی تاریخ، دستاویزی شہادتوں کی بنیاد پر جمع و تدوین کرنا تھا۔ اس کاوش کا عنوان ہے: Manuscripta et Testimonia Coranica۔
اسی پراجیکٹ کا دوسرا مقصد جزیرۃ العرب کے مذاہب اور السنہ کی نہ صرف جمع و تدوین بلکہ قرآنی زبان پر ان کے اثرات کا جائزہ بھی ہے۔اس کوشش کو Glossarium Coranicum کا عنوان دیا جاتا ہے۔ قرانیکا پراجیکٹ ۲۰۱۴ء میں ختم ہوگیا۔ اس پراجیکٹ کی کارپس قرآنیکم کے ساتھ بہت زیادہ شراکتِ کار رہی ہے، شاید اسی وجہ سے یا نام میں کچھ مماثلت کی بنا پر اکثر لوگ ان کو آپس میں خلط ملط کردیتے ہیں۔
’ قرآنیکا‘ کے بطن سے ایک اور پراجیکٹ ' ’پیلیو قرآن‘ ' (Paleocoran) کے نام سے برآمد ہوا جو ۲۰۱۵ء سے ۲۰۱۸ء کے دورانیہ پر محیط تھا۔ اس کا مقصد ان مخطوطات پر تحقیق و تجزیہ کرنا تھا، جو جامع عمروبن العاص، فسطاط، میں انیسویں صدی شمسی کے آغاز تک محفوظ تھے اور پھر نوآبادیاتی نظام کے طفیل برلن، کیمبرج، شکاگو، ڈبلن، گوتھا، کوپن ہیگن، لیڈن، پیرس، برمنگھم اور سینٹ پیٹرز برگ تک پائے جاتے ہیں۔ یہ تقریباً ۳۵۰ قرآنی نسخے ہیں، جو ۷ہزار اوراق پر مشتمل ہیں۔ جرمن/فرنچ محققین کا کام علم المصاحف (codicology)، علمِ تحاریرِ قدیمہ (paleography) اور تاریخی و سائنسی طریقوں سےان پارچوں پر روشنائی کے تجزیے اور ریڈیو کاربن ڈیٹنگ کے ذریعے ان نسخوں کی عمر نیز ہجاء اور متن کے( مبینہ) تغیرات (Orthographical and textual variants) کا موازنہ قراءت کے لٹریچر سے کرنا بتایا گیا تھا۔
ہالینڈ کا مشہور اشاعتی ادارہ بِرل (Brill) مذکورہ دونوں تحقیقی کوششوں کو ’ ڈاکومینٹا قرآنیکا‘ (Documenta Coranica) نامی سیریزکے عنوان سے شائع کررہا ہے۔ اب تک صرف دو مجلد طبع ہوئے ہیں، ایک جنوری ۲۰۱۸ء میں اور دوسرا جولائی ۲۰۱۹ء میں۔
https://brill.com/view/serial/DOCO?qt-qt_serial_details=0
_______________
حوالے
۱- ڈاکٹر محمد حمید اللہ، خطباتِ بہاولپور، طبع۱۱ (۲۰۰۷ء)، طابع و ناشر ادارہ تحقیقاتِ اسلامی، اسلام آباد، ص۱۶
۲- Theodor, Nöldeke [1836-1930] ,Geschichte des Qorâns. English [The History of the Qur'an], Theodor Noldeke, Friedrich Schwally, Gotthelf Bergstrasser, Otto Pretzl ; Wolfgang H.Behn ed, Koninklijke Brill NV, Leiden, The Netherlands, 2013, p. xiv.
۳- ]Anton Spitaler, Die Verszahlung des Koran nach Islamischer [The Enumeration of the Koran According to Islamic Tradition], Munchen, 1935. [ادارہ
۴- ]Gunter Luling Kritisch Exegetische Undersuchung des Qurantextes,1970.[ ادارہ
۵- Andrew Higgins,The Lost Archives:Missing for a half century, a cache of photos spurs sensitive research on Islam's holy text, Wall Street Journal, January 12, 2008.
۶- Angelika Neuwirth," Structural, Linguistic and Literary Features", Ch. 5 in Cambridge Companion to the Quran, Jane D. McCuliffe, ed, Cambridge University Press, Cambridge, UK, 2006, pp. 97-114.
۷- Sami Ameri, Hunting for the Word of God: The quest for the original text of the New Testament and the Qur’an in light of textual and historical criticism, Thoughts of Light Publishing, Columbia Heights, MN 55421, USA, 2013.
قرآن نے خود کو آسان قرار دیا ہے (سورئہ قمر، سورئہ مریم، سورئہ دخان)۔ آسان ہونے کا مفہوم کیا ہے؟ کیا ہرشخص قرآن کے مفہوم کو متعین کرسکتا ہے؟ اس بارے میں دوانتہائی رویے پائے جاتے ہیں: ایک ان دین دار لوگوں کا جو درسِ قرآن دینے، حتیٰ کہ ترجمۂ قرآن پڑھنے کو بھی ایمان کے لیے خطرہ تصور کرتے ہیں اور اسے سمجھنے سے پہلے ۱۷، ۱۸ علوم کے جاننے کو شرط قرار دیتے ہیں۔ دوسری طرف پروٹسٹنٹ فکرسے متاثر جدید افکار کا علَم بردار طبقہ یہ کہتا ہے کہ دینی ماخذ کی تفسیر و تعبیرپر کسی طبقے کی اجارہ داری نہیں، الہامی کتاب کا ہرماننے والا اس کی تشریح کا حق رکھتا ہے۔
یاد رہے عیسائی مذہب کی اصلاح کی پروٹسٹنٹ تحریک پاپائیت کے اس جبر کا ردعمل تھی جس نے یورپ کی نشاتِ ثانیہ کے دور میں سائنسی مفکرین و فلاسفہ کی سوچ کو اپنے مذہبی عقائد پر حملہ سمجھتے ہوئے ان کے خلاف نہ صرف گمراہی کے فتوے دیے بلکہ سخت گیر سزائیں بھی دیں۔ مارٹن لوتھر نے جواب میں کہا: خدا نے انجیل انسانوں کی رہنمائی کے لیے نازل کی ہے اور ہر عیسائی کی نجات کا دارومدار اس کے انفرادی عقیدہ و اعمال پر ہے۔ اس لیے ہرآدمی کا یہ حق ہے کہ وہ براہِ راست کلامِ الٰہی کو پڑھے اور دینی اُمور سے متعلق خود فیصلہ کرے۔ اس لیے کہ نجات کے لیے اصل ذمہ دار فرد ہے اور اس ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونے کے لیے اسے اختیار بھی چاہیے۔ چنانچہ ہرفرد کو اختیار ہے کہ وہ بائیبل کی تعبیر کرسکے۔ گویا ہرفرد کو تفسیر بالراے کی آزادی دے دی گئی۔
ہمارے ذرائع ابلاغ میں موجود ایک بڑا طبقہ اس بات کا پرچارک ہے کہ کوئی بھی عالمِ دین قرآن کی تشریح کا اجارہ دار نہیں کہ اس کی تفسیر و تعبیر کو آخری سند مانا جائے۔ بلاشبہہ الہامی ہدایت کی تفسیر و تعبیر پر کوئی طبقہ اجارہ داری کا حق نہیں رکھتا اور اسلام میں نہ تو وراثتی برہمنیت کا کوئی تصور ہے اور نہ پاپائیت کا نظام۔ اسلام تو آیا ہی اس لیے تھا کہ بندے اور ربّ کے درمیان جو ہستیاں حائل ہوگئی تھیں ، ان کی رکاوٹ کو ختم کردے۔ لیکن کیا ہرشخص یہ اہلیت رکھتا ہے کہ وہ قرآنی مفاہیم کا تعین کرسکے ، اور کیا دنیا کے دیگر شعبہ ہاے زندگی کے اُمور سےمتعلق بھی ہرشخص کی راے معتبر گردانی جاتی ہے؟ کیا کسی طبّی عارضے کے بارے میں کسی انجینیرکی راے کو وہی اعتبار حاصل ہوگا جو ایک ڈاکٹر یا طبیب کی راے کا ہوسکتا ہے؟ کیا کسی قانونی مسئلے کی تفہیم میں کسی ڈاکٹر کی راے کسی قانون دان کی راے کے ہم پلہ قرار دی جاسکتی ہے؟ غرضیکہ ہرعلم سے متعلق اسی شخص کی راے صائب قرار دی جاتی ہے جس نے اس علم کے اصول و مبادی سیکھنے میں زندگی کا ایک عرصہ کھپایا ہو۔ مولانا امین احسن اصلاحی کے بقول: ’’قرآنِ کے اسرار و حکم کے خزانے پر کسی خاص گروہ کا اجارہ نہیں ہے۔ اس خزانے سے بقدرِصلاحیت و استعداد وہ لوگ حصہ پاتے ہیں جو کتابِ الٰہی پر تدبر کرتے ہیں اور اُن شرائط کے ماتحت تدبر کرتے ہیں جو قرآن پر تدبر کے لیے مقرر ہیں‘‘۔ (تزکیہ نفس، ص۳۱)
کسی آیت کا شانِ نزول کیا ہے؟ ناسخ و منسوخ آیات کون سی ہیں؟ کسی آیت کا سیاق و سباق کیا ہے؟ غریب الفاظ کا مفہوم کیا ہے؟کوئی لفظ اپنے حقیقی معنی میں استعمال ہوا ہے یا مجازی معنی میں؟ حذف و محذوف اور محکم ومتشابہ آیات کا علم، اصولِ تفسیر اور ماخذ تفسیر کو گہرائی سےجانے بغیر قرآنی مفاہیم کے تعین میں قدم قدم پر ٹھوکر کھانے کا اندیشہ موجود ہے۔ اس پہلو سے دیکھا جائے توہرشخص اس قابل نہیں کہ وہ قرآن سے صحیح طور پر استفادہ کرسکے ، جب کہ قرآن خود کو تذکیر کے لیے آسان قراردیتا ہے: وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّكْرِ فَہَلْ مِنْ مُّدَّكِرٍ۱۷ (القمر ۵۴: ۱۷) ’’ہم نے اس قرآن کو نصیحت کے لیے آسان ذریعہ بنا دیا ہے، پھر کیا ہے کوئی نصیحت قبول کرنے والا؟‘‘
مفتی محمد شفیعؒ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں: ’’ لِلذِّكْرِ،ذکر کے معنی یادکرنے اور حفظ کرنے کے بھی آتے ہیں اور کسی کلام سے نصیحت و عبرت حاصل کرنے کے بھی۔ یہ دونوں معانی یہاں مراد ہوسکتے ہیں کہ حق تعالیٰ نے قرآن کریم کو حفظ کرنے کے لیے آسان کر دیا۔ یہ بات اس سے پہلے کسی کتاب کو حاصل نہیں ہوئی… اور یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ قرآنِ کریم نےاپنے مضامینِ عبرت و نصیحت کو ایسا آسان کرکے بیان کیا ہے کہ جس طرح بڑے سے بڑا عالم و ماہر، فلسفی اور حکیم اس سے فائدہ اُٹھاتا ہے، اسی طرح ہرعامی وجاہل جس کو علم سے کوئی مناسبت نہ ہو، وہ بھی عبرت و نصیحت کے مضامینِ قرآنی کو سمجھ کر اس سے متاثر ہوتا ہے۔آیت میں يَسَّرْنَا کے ساتھ لِلذِّكْرِ کی قید لگا کر یہ بھی بتلا دیا گیا ہے کہ قرآن کو حفظ کرنے اور اس کے مضامین سے عبرت و نصیحت حاصل کرنے کی حد تک آسان کردیا گیا ہے جس سے ہرعالم و جاہل، چھوٹا بڑا یکساں فائدہ اُٹھا سکتاہے۔ اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ قرآنِ کریم سے مسائل واحکام کا استنباط بھی ایسا ہی آسان ہو، وہ اپنی جگہ ایک مستقل اور مشکل فن ہے جس میں عمریں صرف کرنےوالے علماے راسخین کو ہی حصہ ملتا ہے، ہر ایک کا وہ میدان نہیں۔ اس سے ان لوگوں کی غلطی واضح ہوگئی جوقرآن کریم کے اس جملے کا سہارا لے کر قرآن کی مکمل تعلیم اس کے اصول و قواعد سے حاصل کیے بغیر مجتہد بننا اور اپنی راے سے احکام و مسائل کا استخراج کرنا چاہتے ہیں کہ وہ کھلی گمراہی کا راستہ ہے‘‘ (معارف القرآن، جلد۸،ص ۲۳۰)۔
مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ کے بقول:’’بعض لوگوں نے يَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ کے الفاظ سے یہ غلط مطلب نکال لیا ہے کہ قرآن ایک آسان کتاب ہے، اسے سمجھنے کے لیے کسی علم کی ضرورت نہیں، حتیٰ کہ عربی زبان تک سے واقفیت کے بغیر جو شخص چاہے اس کی تفسیر کرسکتا ہے اور حدیث و فقہ سے بے نیاز ہوکر اُس کی آیات سے جو احکام چاہے مستنبط کرسکتا ہے۔ حالانکہ جس سیاق و سباق میں یہ الفاظ آئے ہیں ، اُس کو نگاہ میں رکھ کر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس ارشاد کا مدُعا لوگوں کو یہ سمجھانا ہے کہ نصیحت کا ایک ذریعہ تو ہیں وہ عبرت ناک عذاب جو سرکش قوموں پر نازل ہوئے، اور دوسرا ذریعہ ہے یہ قرآن جو دلائل اور وعظ و تلقین سے تم کو سیدھا راستہ بتارہا ہے۔ اُس ذریعے کےمقابلے میں نصیحت کا یہ ذریعہ زیادہ آسان ہے۔ پھر کیوں تم اس سےفائدہ نہیں اُٹھاتے اور عذاب ہی دیکھنے پر اصرار کیے جاتے ہو؟ یہ تو سراسر اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اپنے نبیؐ کے ذریعے سے یہ کتاب بھیج کر وہ تمھیں خبردار کررہا ہے کہ جن راہوں پر تم لوگ جارہے ہو وہ کس تباہی کی طرف جاتی ہیں اور تمھاری خیر کس راہ میں ہے؟ نصیحت کا یہ طریقہ اسی لیے تو اختیار کیا گیا ہے کہ تباہی کے گڑھے میں گرنے سے پہلے تمھیں اُس سے بچا لیا جائے۔ اب اُس سے زیادہ نادان اور کون ہوگا جو سیدھی طرح سمجھانے سے نہ مانے اور گڑھے میں گر کر ہی یہ تسلیم کرے کہ واقعی یہ گڑھا تھا‘‘ (تفہیم القرآن، جلد۵،ص ۲۳۴-۲۳۵)۔
مولانا امین احسن اصلاحیؒ لکھتے ہیں: ’’اس آیت کا مطلب عام طور پر لوگوں نے یہ لیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نےقرآن کو حفظ کرنے یا نصیحت حاصل کرنے کے لیے نہایت آسان کتاب بنایا ہے۔ یہ بات اگرچہ بجائے خود صحیح ہے لیکن آیت کا مفہوم اس سے بہت وسیع ہے۔ لفظ تیسیر عربی میں کسی چیز کو کیل کانٹے سے درست کرنے، پیش نظر مقصد کے لیے اس کو اچھی طرح موزوں بنانے اور جملہ لوازم سے آراستہ و پیراستہ کرنے کے معنوں میں آتا ہے، مثلاً یَسَّرَ الْفَرْسَ لِلرَّکُوب کے معنی ہوں گے گھوڑے کو تربیت دے کر ، اس کو کھلاپلا کر، زین، لگام، رکاب سے آراستہ کرکے سواری کے لیے بالکل ٹھیک ٹھاک کردیا … لفظ ذکر بھی یہاں وسیع معنوں میں استعمال ہوا ہے، یعنی تعلیم، تذکیر، آگاہی، تنبیہہ، نصیحت، موعظت، حصولِ عبرت اور اتمامِ حجت، سب اس کے مفہوم میں شامل ہیں… ہماری فطرت اور ہماری عقل کے اندر اللہ تعالیٰ نےعلم و معرفت کے جوخزانے ودیعت فرمائے ہیں لیکن ہم ان سے غافل ہیں، (قرآن) انھی کو ہمارے سامنے اُجاگرکرتاہے… تم مچلے ہوئے ہو کہ جب اس عذاب کی نشانی دیکھ لو گے تو مانو گے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے تمھاری تعلیم وتذکیر کے لیے قرآن اُتارا ہے جو ہرپہلو سے اس مقصد کے لیے جملہ لوازم سے آراستہ و مسلّح ہے تو آخر اس عظیم نصیحت سے کیوں فائدہ نہیں اُٹھاتے، عذاب کے تازیانے ہی کے لیے کیوں بے قرار ہو!‘‘ (تدبرقرآن، جلد۸، ص ۹۹-۱۰۰)
اب تک کی بحث سے ہمیں فہم قرآن کے دو درجے معلوم ہوئے۔ قرآن کے الفاظ میں ایک درجے کو ہم تذکر اور دوسرے کو تدبر کہہ سکتے ہیں:
تذکر: اس سے مراد نصیحت کرنا، متنبہ کرنا، یاد کرناہے۔ گویا علم کے مطابق عمل کرنے کا عزم کرنا۔ قرآن کے ایک ایک لفظ کا تو نہیں البتہ مجموعی پیغام کا ادراک کرنا۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو قرآن کے سب سے پہلے مخاطبین اُونٹ اور بکریاں چرانے والے بدو، تاجر اور کاشتکار تھے۔ ان میں سے ایک فی صد بھی پڑ ھے لکھے نہ تھے۔ ان کے پاس صَرف و نحو ، فلسفے اور تاریخ کی کوئی کتاب نہ تھی۔ لیکن انھوں نے قرآن سے جو اثر لیا اور وہ ان کے عمل میں ڈھل گیا۔ یہ وہ علم تھا جس کی تعلیم دیناقرآن کا مقصد تھا اور جس کی بنیاد پر وہ دنیا کو بہترین تہذیب و تمدن دینے والے بن گئے۔
تدبر:اس سے مراد ایسا غوروخوض کہ قرآن کے ایک ایک لفظ، آیت اور سورۃ کے مفہوم و مقاصد کو سمجھا جاسکے۔ اصولِ تفسیر اور علومِ تفسیر سے آگہی کے ساتھ یہ تدبر ہی ہے جو ایک انسان کو استنباطِ احکام، تفقہ فی الدین اور فتویٰ و تفسیرلکھنے کا اہل بناتاہے۔ یہی وہ عمل تھا جس کے لیے صحابۂ کرامؓ ایک ایک سورۃ کے سمجھنے میں کئی کئی ماہ و سال صرف کرتے تھے۔ یہ تدبر ہی ہے جس کے ذریعے سے ازروے حدیث قیامت تک قرآن کے نت نئے عجائب کھلتے چلے جائیں گے۔
کسی بھی کلام کی آسانی دو پہلوؤں سے ہوتی ہے: ۱- اس کے الفاظ و عبارات نامانوس اور پیچیدہ نہ ہوں۔۲- اس کے مضامین اور نظریات قابل فہم اور آسان ہوں۔
قرآن اپنے موقف کو منوانے کے لیے آفاق و انفس کے ایسے فطری دلائل دیتا ہے جو ہردور اور ہرسطح کا انسان آسانی سے سمجھ سکتا ہے۔ اس میں فلسفہ و کلام کا اسلوبِ استدلال نہیں ہے کہ ایک خاص سطح کے لوگ ہی سمجھ سکیں۔
امام غزالی (م: ۵۰۵ھ) قرآنی دلائل اورمتکلمین و فلاسفہ کے دلائل کا فرق بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:’’قرآنی دلائل غذا کی طرح ہیں جس سے ہرانسان فائدہ اُٹھاتاہے، اورمتکلمین کے دلائل دوا کی طرح ہیں جن سے کچھ افراد تو فائدہ اُٹھاتے ہیں لیکن بہت سے لوگوں کو اس سے نقصان پہنچتا ہے۔ قرآنی دلائل کی مثال پانی کی ہے جس سے دودھ پیتا بچہ اور تنومند آدمی دونوں فائدہ اُٹھاتے ہیں، جب کہ دوسرے دلائل کھانوں کی طرح ہیں جن سے صحت مند لوگوں کو کبھی فائدہ پہنچتا ہے تو کبھی نقصان، لیکن دودھ پیتے بچے اس سے کوئی فائدہ نہیں اُٹھا سکتے‘‘(علم الکلام، ص ۲۰)۔
امام فخرالدین رازی (م: ۶۰۶ھ) متکلمین و فلاسفہ کے امام ہیں۔وہ فرماتے ہیں: ’’میں نے علمِ کلام اورفلسفے کے طریقوں کو آزمالیا ہے۔ یہ نہ توکسی پیاسے کی پیاس بجھاسکتے ہیں اور نہ کسی بیمار کو شفا دے سکتے ہیں۔ میں نے سمجھ اوردیکھ لیا ہے کہ تمام راستوں کے مقابلے میں قریب ترین اور آسان ترین راستہ قرآن کا راستہ ہے‘‘ (البدایہ والنہایہ، جلد۱۳،ص ۵۶)۔
امام رازی تفسیر کبیر میں لکھتے ہیں: ’’قرآن کریم کا طرزِ استدلال لوگوں کے ذہنوں کے زیادہ قریب ہے اور ان کی عقل میں بات کو بٹھانے کا مؤثر ترین ذریعہ ہے۔ قرآنی دلائل کو اذہان و افہام کے قریب ترین ہی ہونا چاہیے تاکہ ان سے خواص و عوام دونوں نفع اُٹھا سکیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ قرآنی دلائل کا مقصد مجادلہ و مناظرہ نہیں بلکہ صحیح اورسچے عقائد کو دلنشین کرانا ہے، اور اس مقصد کے لیے قرآنی دلائل دوسرے تمام طریقوں سے زیادہ مؤثر ہوتے ہیں‘‘۔
قرآن کے آسان ہونے کے ایک پہلو سے متعلق مولانا اصلاحی کہتے ہیں: ’’قرآن مجید بنی نوعِ آدم کے تمام طبقات کے لیے صحیفۂ ہدایت بن کر نازل ہوا ہے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ جو اس پرایمان لائے گا، فلاح پائے گا اور جواعراض کرے گا، وہ ہلاک ہوگا۔ اس وجہ سے ضروری ہے کہ اس کی تعلیم و دعوت کا معیار عام عقل انسانی کے معیار کے مطابق ہو تاکہ ہرانسان جوفکرونظر کی عام استعداد رکھتا ہے اس کو سمجھ سکے،اور اس کی تعلیمات پر عمل کرکے خالق کی خوشنودی حاصل کرسکے۔ ایک ایسی کتاب جس کا مقصد عام تعلیم و دعوت ہو، نہ تو لفظاً اتنی پیچیدہ ہونی چاہیے کہ جب تک خواص اس کی مشکلات حل نہ کریں،وہ سمجھ نہ آئے، اور نہ معناً اتنی مبہم اور دقیق ہونی چاہیے کہ انسانی فہم و ادراک کی عام استعداد اس کے اسرار و رُموز سمجھنے سے قاصرہو‘‘ (مبادی تدبر قرآن، ص ۱۰۴-۱۰۵)۔
قرآن نے توحید، رسالت اور آخرت کے اثبات پر عقلی دلائل بھی دیے ہیں اور نقلی بھی۔ نقلی دلائل میں جن انبیاے کرام اور صلحا، جیسے حضرت لقمان، حضرت مریم، اصحابِ کہف اور طاغوت، جیسے فرعون، اصحاب الاخدود، اصحاب الفیل وغیرہ کے واقعات بیان کیے ہیں۔ عرب ان سے مانوس تھے، جب کہ عقلی دلائل ایسے ہیں جو ایک اَن پڑھ آدمی کو بھی اپیل کرتے ہیں اور اعلیٰ تعلیم یافتہ بھی ان کی قوتِ تاثیرکا انکارنہیں کرسکتا۔ مثلاً زمانۂ قید کے دوران حضرت یوسف ؑ سے ان کے قیدی ہم نشین اپنے اپنے خوابوں کی تعبیر جاننے کے خواہش مند ہوئے تو آپ نے بھی ان کے سامنے ایک سوال رکھا: ءَاَرْبَابٌ مُّتَفَرِّقُوْنَ خَيْرٌ اَمِ اللہُ الْوَاحِدُ الْقَہَّارُ۳۹ۭ (یوسف ۱۲: ۳۹) ’’کیا (کسی غلام کے لیے اس کے) کئی آقا بہتر ہیں یا ایک ہی اللہ غلبے والا؟‘‘
سوال کی صورت میں یہ ایک ایسی دلیل ہے جس کے مخاطب کے لیے ’ایک‘ کہے بغیر چارہ نہیں۔ اور اتناکہنے کے لیے قائل کو اصولِ تفسیر اور علومِ قرآنی کی تحصیل کا انتظار کرنے کی ضرورت نہیں۔ اسی طرح جب اللہ یہ فرماتا ہے: لَوْ كَانَ فِيْہِمَآ اٰلِہَۃٌ اِلَّا اللہُ لَفَسَدَتَا۰ۚ (الانبیاء ۲۱: ۲۲) ’’اگر زمین و آسمان میں اللہ کے سوا اورمعبود ہوتے تو یہ دونوں درہم برہم ہوجاتے‘‘۔ یہ ایسی دلیل ہے جو چودہ سو سال پہلے کے عالم و جاہل کو بھی اپیل کرتی تھی اور آج کے ترقی یافتہ زمانے کے لوگوں کو بھی۔
دلائل و مضامین کے عام فہم اور آسان ہونے ہی کی وجہ سے قریش قرآن کی تاثیر سے خوف زدہ تھے۔ قرآن نے ان کے اس اندرونی خوف کو یوں افشا کیا ہے: وَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَا تَسْمَعُوْا لِھٰذَا الْقُرْاٰنِ وَالْـغَوْا فِيْہِ لَعَلَّكُمْ تَغْلِبُوْنَ۲۶(حم السجدہ ۴۱:۲۶)’’اور کافر کہتے ہیں کہ اس قرآن کو ہرگز نہ سنو اور (جب سنایا جائے تو) شور مچا دو تاکہ تم غالب رہو‘‘۔گویا سردارانِ مکہ کو خدشہ ہے کہ ع ہو نہ جائے آشکارا شرع پیغمبرؐ کہیں
اگر کافر قرآن کے ابلاغ کو اپنے طاغوتی غلبے کے لیے خطرناک سمجھتے ہیں تو سوال یہ ہے کہ اہلِ اسلام کا غلبہ کس چیز سے وابستہ ہے؟ لیکن مسلمان لیڈرشپ، اپنی بقا اور ترقی کے لیے غیرقرآنی تعلیم اور ٹکنالوجی کے حصول کو ہی مطمح نظر بنائے ہوئے ہیں۔ بقول احسان دانش ؎
مانگتے پھرتے ہیں اغیار سے مٹی کے چراغ
اپنے خورشید پہ پھیلا دیے سایے ہم نے
کفارِ مکّہ جب اہلِ ایمان کو تضحیک و استہزا،ظلم و تشدد کے باوجود نہ جھکا سکے تو ایک وقت آیا کہ سردارِ مکہ عتبہ بن ربیعہ دولت، سرداری اور بادشاہت کا پیغام لے کر سمجھوتہ کرنے آیا تو اللہ کے رسولؐ نے اسے سورہ حم السجدہ کی آیات کی تلاوت کی صورت میں اپنا پیغام دیا۔ وہ واپس آکراپنی قوم کو کہنے لگا کہ ’’میں نے محمد کی زبان سے جو کلام سنا ہے وہ ضرور کوئی اثر دکھاکر رہے گا‘‘(ابن ہشام)۔ یہ قرآن کی تیسیر و تاثیر ہی کا کمال تھا کہ مشرکین مکہ کی خواتین اور بچے چھتوں اور دیواروں پر چڑھ کر حضرت ابوبکرؓ کی تلاوت سنتے تھے اور ٹھٹھ کے ٹھٹھ لگ جاتے۔
حضورؐ اور صحابۂ کرامؓ سے جب بھی کوئی اسلام کا تعارف چاہتا تو وہ جواب میں اکثر قرآن کا کچھ حصہ سناتے۔ شاہِ حبشہ کے دربار میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت پوچھی گئی تو قرآن سنایا گیا۔ مکہ میں ابوذر غفاریؓ، طفیل دوسیؓ اوردیگر کو رسولؐ اللہ نے قرآن سنایا۔ مدینہ میں مصعب بن عمیرؓ نے اسید بن حضیرؓ، سعد بن معاذ ؓاور دیگر کو قرآن سنا کر ہی قبولِ اسلام پر آمادہ کیا۔
قرآن خود کوھُدًى لِّلنَّاسِ (البقرہ ۲:۱۸۵)قرار دیتا ہے۔ اس اعتبار سے قرآن کا مخاطب انسان اور اس کا موضوع ہدایت ہے۔ اور انسانوں میں مسلمانوں کے علاوہ دیگر مذاہب کے ماننے والے اچھے بُرے، عالم و جاہل، سب شامل ہیں۔ ظاہر ہے کہ انھوں نے کسی قسم کے علومِ قرآنی نہیں پڑھے ہوں گے۔ اس کے باوجود قرآن خود کو ان کے لیے ہدایت کہتا ہے: ھُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ۲ۙ (البقرہ ۲:۲) اور ہُدًى وَّرَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ (یونس ۱۰:۵۷) کہتا ہے اور لازم نہیں کہ تمام متقین اور مومنین علمی رسوخ کے حامل ہوں۔ اب اگر قرآن تمام انسانوں کی ہدایت کے لیے آیا ہے اور ہدایت ہرانسان کی ضرورت ہے تو ضروری ہواکہ ہدایت کے حصول کا راستہ آسان بھی ہو اور سب کی دسترس میں بھی۔ اس لیے کہ کائنات میں جس چیز کی ضرورت عام ہے قدرت نے اس کی دستیابی کو بھی عام رکھا ہے، جیسے ہوا اور پانی ہر آدمی کی ضرورت ہے تو اللہ نے اسے دوسری چیزوں کی نسبت اتنا ہی عام کردیا۔ ہدایت وہ چیز ہے جو ہوا اور پانی کی طرح ہرانسان کی ضرورت ہے تو یہ کس طرح درست ہے کہ اس تک انسانی دسترس کو مشکل بنا دیا جائے۔ چنانچہ اللہ نے فرمایا:
فَاِنَّمَا يَسَّرْنٰہُ بِلِسَانِكَ لِتُبَشِّرَ بِہِ الْمُتَّقِيْنَ وَتُنْذِرَ بِہٖ قَوْمًا لُّدًّا۹۷ (مریم ۱۹: ۹۷) پس اے نبیؐ، ہم نے اس قرآن کو آپؐ کی زبان میں اسی لیے آسان کر دیا کہ آپؐ اس کے ذریعے پرہیزگاروں کو خوشخبری دیں، اکھڑاور ہٹ دھرم قوم کو ڈرائیں۔
معلوم ہوا کہ خوشخبری اور ڈراوے کے لیے قرآن آسان بھی ہے اور مؤثر بھی، حتیٰ کہ اسی قرآن کے ذریعے عرب جیسی اکھڑقوم موم کی طرح نرم ہوگئی۔ اسی طرح تذکیر و یاددہانی کے لیے بھی قرآن آسان ہے۔ فرمایا:
فَاِنَّمَا يَسَّرْنٰہُ بِلِسَانِكَ لَعَلَّہُمْ يَتَذَكَّرُوْنَ۵۸ (الدخان ۴۴:۵۸) ہم نے اس قرآن کو تمھاری زبان میں آسان کر دیا تاکہ یہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔
سورئہ قمر کے آغاز میں حضرت نوح ؑ کی قوم کی سرکشی اور پھران پر نزول عذاب کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا: فَكَيْفَ كَانَ عَذَابِيْ وَنُذُرِ۱۶ (القمر ۵۴: ۱۶)’’پس کیسا تھا میرا عذاب اور کیسے تھے میرے ڈراوے‘‘۔ اس سے اگلی آیت میں فرمایا:وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّكْرِ فَہَلْ مِنْ مُّدَّكِرٍ۱۷ (القمر۵۴:۱۷) ’’حقیقت یہ ہے کہ ہم نے قرآن کو نصیحت کے لیے آسان کردیا ہے، پس ہے کوئی جو نصیحت حاصل کرے؟‘‘اس کے بعد قومِ عاد کی تباہی کا ذکر اور آیت ۲۱ میں فَكَيْفَ كَانَ عَذَابِيْ وَنُذُرِ کی تکرار کے بعد آیت۲۲ میں يَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّكْرِ کی تکرار ہے۔ بعدازاں قومِ لوط کی سرکشی اور عذاب کے ذکر کے بعد آیت ۳۹ میں عذاب اور اِنذار کے بعد آیت۳۲ میں تیسیر قرآن کی تکرار ہے۔ پھر قومِ لوط کی سرکشی اورعذاب کے ذکر کے بعد آیت۳۹ میں عذاب اور ڈراوے اور آیت۴۰ میں چوتھی مرتبہ وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّكْرِ کی تکرار اس بات کا اظہار ہے کہ اللہ کی پکڑ سے خبردار کرنے،ڈرانے اور تذکیر و نصیحت کا جتنا آسان ذریعہ قرآن ہے کوئی اور چیز نہیں ہوسکتی۔
قرآن کتابِ الٰہی سے اہلِ ایمان کے بدن کےرونگٹے کھڑے ہونے، دلوں کے نرم پڑنے اور یادالٰہی کی طرف متوجہ ہونے کی خبر دیتا ہے:
تَــقْشَعِرُّ مِنْہُ جُلُوْدُ الَّذِيْنَ يَخْشَوْنَ رَبَّہُمْ۰ۚ ثُمَّ تَلِيْنُ جُلُوْدُہُمْ وَقُلُوْبُہُمْ اِلٰى ذِكْرِ اللہِ۰ۭ (الزمر ۳۹:۲۳) اُسے سن کر اُن لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں جو اپنے ربّ سے ڈرنے والے ہیں، اور پھر اُن کے جسم اور ان کے دل نرم ہوکر اللہ کے ذکر کی طرف راغب ہوجاتے ہیں۔
برصغیر میں مسلمانوں کے دورِ زوال کی عظیم ہستی شاہ ولی اللہ نے اُمت کے زوال اور فساد کے علاج کے لیے فہم قرآن کو مؤثر علاج سمجھتےہوئے پہلی مرتبہ قرآن کا فارسی ترجمہ کیا جس کے باعث ان کے خلاف گمراہی کے فتوے بھی صادر ہوئے۔ ان کی کتاب تحفۃ الموحدین کا ذیل کا پیرا اُس ذہن کو سمجھنے میں مددگار ہے جو آج بھی قرآن فہمی میں رکاوٹ ہے۔ شاہ ولی اللہ قرآن فہمی سے خوف زدہ اس ذہن کی ایک ایک خلش کا آیاتِ قرآنی سے یوں ازالہ کرتے ہیں:
’’بعض کہتے ہیں کہ قرآن مجید اور احادیث کو وہی شخص سمجھ سکتا ہے جو بہت سے علوم اور بے شمار کتابیں پڑھا ہوا ہو اور اپنے زمانے کا علامہ ہو، جب کہ اللہ فرماتا ہے:
ہُوَالَّذِيْ بَعَثَ فِي الْاُمِّيّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْہُمْ يَتْلُوْا عَلَيْہِمْ اٰيٰتِہٖ وَيُزَكِّيْہِمْ وَيُعَلِّمُہُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَۃَ۰ۤ وَاِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ۲ۙ (الجمعہ۶۲:۲) اللہ تعالیٰ وہ ہستی ہے جس نے انھی اَن پڑھ لوگوں میں سے رسول مبعوث کیا جو ان پراس کی آیات کو تلاوت کرتا ہے، ان کےدلوں کو پاک کرتا ہے اور انھیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے اور اس سے پہلے تووہ کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے تھے۔
یعنی اللہ کے رسولؐ بھی اَن پڑھ اور آپؐ کے اصحابِ بزرگوار بھی اَن پڑھ تھے لیکن جب رسولؐ اللہ نے اپنے اصحابؓ کے سامنے قرآن کی آیات پڑھیں تو ان کوسن کروہ ہرقسم کی بُرائی اور بگاڑ سے پاک صاف ہوگئے۔ پس اگراَن پڑھ آدمی قرآن و حدیث نہیں سمجھ سکتا اور اس کی سمجھ کی استعداد نہیں رکھتا تو صحابہؓ بُرائیوں اور عیبوں سے کیسے پاک صاف ہوگئے؟
بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہم بعد کے زمانے کے لوگ ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کی برکت اور صحابہؓ کے دل کی سلامتی کہاں سےلائیں جو قرآن و حدیث کے معنی سمجھ سکیں؟ اس کاجواب اس سے اگلی آیت میں ہے: وَّاٰخَرِيْنَ مِنْہُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِہِمْ۰ۭ (الجمعہ ۶۲ :۳)، یعنی بعد والے لوگ خواہ پڑھے ہوئے ہوں یا اَن پڑھ، جو بھی مسلمان ہوں اور اصحاب کے طریقے کی پیروی کا ارادہ کریں اور قرآن وحدیث کو سنیں تو انھیں بھی پاک کرنے کے لیے یہ ذریعہ کافی ہوسکتا ہے اور وہ فرماتا ہے: وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّكْرِ فَہَلْ مِنْ مُّدَّكِرٍ۔ اب یہ کیسے ممکن ہے کہ کافیہ پڑھنے والے اور شافیہ جاننے والے تو اس قرآن کے معنی سمجھنے سے عاجز ہوں ، جب کہ عرب کے جنگلی بدو اس کی حقیقت سے بہرہ ور ہوتے ہوں۔ اس کے علاوہ ایک جگہ یوں فرماتا ہے: اَفَلَا يَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ (محمد۴۷:۲۴) ’’وہ قرآن میں غوروفکر کیوں نہیں کرتے؟‘‘ پس قرآن آسان نہ ہو تو اس میں غوروفکر کیوں کیا جائے؟ اَمْ عَلٰي قُلُوْبٍ اَقْفَالُہَا’’یا ان کے دلوں پر تالے چڑھے ہوئے ہیں؟‘‘۔ یعنی باوجودیکہ ان کےدلوں پر تالے نہیں لگے ہوئے ہیں، پھر بھی کیسی گمراہی ہے کہ قرآن پر غوروفکر میں زور نہیں لگاتے‘‘۔
مال و اسباب سے محرومی کو ابتلا و آزمایش سمجھا جاتا ہے۔ اس لیے اہل ایمان جب اللہ کے باغیوں کو دنیا میں پھلتا پھولتا دیکھتے ہیں تو انھیں اس پر تعجب ہوتا ہے کہ آخر ان کو کیوں نوازا گیا ہے ؟ علامہ اقبال اپنی شہرۂ آفاق نظم ’شکوہ‘ میں ربِ کائنات سے کبھی تو اس طرح گلہ کرتے ہیں کہ ’ ’رحمتیں ہیں تری اغیار کے کاشانوں پر ‘‘ اور کبھی برملا سوال کرتے ہیں ’’کیوں مسلمانوں میں ہے دولتِ دنیا نایاب؟‘‘
یہ نہایت فطری استفسار ہے مگر قرآن حکیم میں اس کا نہایت دل چسپ اور ہمہ پہلو جواب دیا گیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’ان کا مال ومنال اور اُن کی اولاد آپ کو حیرت میں نہ ڈالے ، یہ تو محض اِس لیے ہےکہ اللہ اس دُنیا کی زندگی میں اُنھیں عذاب میں مبتلا کرے ‘‘(توبہ۹: ۵۵)۔ مال و متاع سے متعلق چونکہ حشر میں حساب کتاب ہوگا، تو اس لیے آخرت میں عذاب و ثواب فطری ہے، لیکن حیات دنیا میں اس کا باعثِ عذاب بن جانا بہ آسانی سمجھ میں نہیں آتا ۔ تاہم، کورونا کی وبا نے اس حقیقت کاپردہ فاش کردیا ہے۔
فی الحال اس عذاب کا سب سے زیادہ شکار دنیا کے مال دار ترین ممالک ہیں ۔ مذکورہ آیت بھی اسی جانب اشارہ کرتی ہے۔ اس مصیبت کا شکار وہ بڑے بڑے سرمایہ دار ہیں جن کو ساری دنیا کے لوگ حیرت و رشک کی نگاہ سے دیکھا کرتے تھے۔یہ معروف ہستیاں جب کسی تقریب میں رونق افروز ہوتیں، تو عوام کی وہی کیفیت ہوتی جو قارون کو اس کے لاؤ لشکر کے ساتھ دیکھ کر بنی اسرائیل کے بڑے طبقے کی ہوئی تھی۔ قرآن حکیم میں اس کی منظرکشی ملاحظہ فرمائیں: ’’ پھر وہ اپنی قوم کے سامنے (پوری) زینت و آرایش (کی حالت) میں نکلا۔ (اس کی ظاہری شان و شوکت کو دیکھ کر) وہ لوگ بول اٹھے جو دنیوی زندگی کے خواہش مند تھے: کاش! ہمارے لیے (بھی) ایسا (مال و متاع) ہوتا جیسا قارون کو دیا گیا ہے، بے شک وہ بڑے نصیب والا ہے‘‘(القصص۲۸: ۷۹)۔
آسمان نے ابھی حال میں یہ منظر دیکھا کہ بظاہر خوش بخت نظر آنے والے یہ اہل ثروت دیکھتے دیکھتے کائناتِ ہستی میں عذاب کا شکار ہوگئے اور کوئی طاقت ان کے کام نہیں آسکی ۔ ریزرو بنک یا فیڈرل خزانے کی مداخلت بھی اسٹاک ایکسچینج کی ریت کی دیوار کو تھام نہ سکی۔ یہ تباہی ان مفلس لوگوں کے لیے آزمایش نہیں بنی کہ جن کے پاس پس انداز کرنے کے لیے کچھ نہیں تھایا جن کو آرزومندی انھیں بازارِ حصص کی دہلیز تک لے کر نہیں گئی تھی۔ ایسے سارے لوگ اس کربِ عظیم سے محفوظ و مامون رہے۔ لیکن جن کو خوب نوازا گیا تھا، وہ مبتلاے عذاب ہوگئے ۔
ایسے میں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دھن دولت سے نوازنے کے بعد ربِّ کائنات اپنے بندوں کے ساتھ یہ سلوک کیوں کرتا ہے ؟ اس سوال کا جواب سورۂ اعراف کی مندرجہ ذیل آیات میں دیکھیں:’’اور اگر (ان) بستیوں کے لوگ ایمان لاتے اور تقویٰ کی روش اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے، مگر اُنھوں نے تو جھٹلایا، لہٰذا ہم نے اُس بری کمائی کے حساب میں انھیں پکڑ لیا جو وہ سمیٹ رہے تھے ‘‘(الاعراف ۷:۹۶)، یعنی بنیادی وجہ تو یہ ہے کہ ان لوگوں نےایمان و تقویٰ کی روش اختیار کرنے کے بجائے کفر و بداعمالی کا راستہ اپنایا ۔ ہر دو جگہ (محرومی و سرفرازی میں ) پہلی شرط کا تعلق عقیدے سے اور دوسری کا عمل سے ہے۔ یہ آیت اجتماعی سطح پر برکتوں کے حق دار بننے اور ان سے محرومی کا شکار ہو نے کی وجہ بتاتی ہے ۔
اب اگلا سوال یہ ہے کہ ان نامراد لوگوں نے خدائی نعمتوں سے نوازے جانے کے بعد شکر واحسان مندی سے کیوں اعراض برتا؟ استفہامیہ اسلوب بیان میں اس سوال کا انتہائی مؤثر جواب بالکل اگلی ہی آیات کے اندر موجود ہے۔ ارشادِ ربانی ہے: ’’ پھر کیا بستیوں کے لوگ اب اس سے بے خوف ہو گئے ہیں کہ ہماری گرفت کبھی اچانک اُن پر رات کے وقت نہ آ جائے گی، جب کہ وہ سوئے پڑے ہوں؟ یا انھیں اطمینان ہو گیا ہے کہ ہمارا مضبوط ہاتھ کبھی یکایک ان پر دن کے وقت نہ پڑے گا، جب کہ وہ کھیل رہے ہوں؟‘‘(الاعراف۷:۹۷-۹۸)۔ کورونا وائرس کی آمد سےقبل غفلت کا شکار عالمِ انسانیت بالکل اسی کیفیت میں مبتلا تھا ۔ دنیا کے ترقی یافتہ ملک امریکا میں تادمِ تحریر[۲۸مئی ] کورونا سے متاثرین کی تعداد تقریباً ۱۸لاکھ ہے اور ایک لاکھ ۵ سو۹۰ لوگ اس سے ہلاک ہوچکے ہیں،جب کہ دُنیا بھر میں ۲۹لاکھ افراد متاثر اور ۳ لاکھ ۷۰ہزار افراد موت کی وادی میں اُتر چکے ہیں۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس ملک پر یہ مصیبت اچانک وارد ہوگئی ؟ جائزہ بتاتا ہے کہ وہ اپنی غفلت کی قیمت چکا رہے ہیں ۔
امریکی صدر فی الحال چین پر الزامات لگا رہے ہیں، مگر مصدقہ اطلاعات کے مطابق ۳۱دسمبر۲۰۱۹ء کوچین نے اقوام متحدہ میں عالمی صحت کے ادارے کو خبردار کردیا تھا کہ: وُوہان شہر میں ۱۲ سے ۲۹ دسمبرکے درمیان ایک نئے وائرس کا پتا چلا ہے۔ اس کے بعد ہوانن کا مچھلی بازار بندکردیا گیا۔۵ جنوری کو چین نے انکشاف کیا کہ یہ وائرس سارس یا میرس سے مختلف ہے اور ۷جنوری کو اسے نوول کورونا وائرس کا نام دیا گیا ۔ ۱۱ جنوری کو چین میں اس سے پہلی موت ہوئی اور ۱۲ جنوری کو یہ وائرس ایک چینی باشندے کے ذریعے تھائی لینڈ پہنچ گیا ۔ یہ ساری خبریں اخبارات میں شائع ہورہی تھیں۔ دنیا کے چپے چپے پر نظر رکھنے والا امریکا یقیناً اس سے بے خبر نہ ہوگا۔
امریکا کے دارالحکومت واشنگٹن میں کورونا کی آمد کا اشارہ ۲۱ جنوری کو مل گیا تھا۔ ۲۲جنوری کو اس کے انسانوں کے ذریعے پھیلنے کی تصدیق ہوگئی اور اسی دن وُوہان سے باہر جانے والوں کے لیے ہوائی اڈا اور ریل کی سہولت بند کردی گئی۔ اس وقت تک چین میں ۵۴۷ لوگ متاثر اور ۱۷ہلاک ہوچکے تھے۔ ۲۳ جنوری کو عالمی ادارہ صحت (WHO) نے اس پر تشویش کا اظہار تو کیا، مگر اسے عالمی وبا تسلیم نہیں کیا۔ ۲۹جنوری کو وائٹ ہاؤس نے ٹاسک فورس بنا کر وائرس کے پھیلاؤ کی نگرانی کا اعلان کیا۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ امریکی حکام اس سے خبردار ہوچکے تھے ۔
اتفاق سے ارضِ چین پرکورونا سے ہلاک ہونے والا پہلاغیر ملکی امریکی نژاد باشندہ تھا۔ ان تمام واقعات کے باوجود امریکی صدر کو یہ غلط فہمی تھی کورونا صرف چین سے دیگر ممالک کو بر آمد ہوتا ہے۔ اس لیے وہ بڑے ٹھاٹ باٹ کے ساتھ ہندستان کے دورے پر آگئے اور کورونا کی عالمی وبا کے دوران احمد آباد میں ہزاروں کے مجمع سے خطاب کیا۔ ہندستان سے پلٹ کر جب ۲۶ فروری کی صبح وہ امریکا پہنچے تو انھیں پتا چلا ہوگاکہ کیلی فورنیا میں ایک ایسا شخص کورونا سے ہلاک ہوگیا ہے، جس نے نہ تو غیر ملکی سفر کیا تھا اور نہ کسی مسافر کے رابطے میں آیا تھا ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکا کے اندر بیرونی ذرائع کے بغیر بیماری کا پھیلاؤ شروع ہوچکا تھا، جسے کمیونٹی ٹرانسفر( یعنی معاشرتی پھیلاؤ) کہا جاتا ہے۔ یہی وہ مرحلہ ہے کہ جس کے بعد اس طرح کی وبا پر قابو پانا مشکل ہوجاتا ہے۔
امریکی حکومت نے بحالتِ مجبوری اس وبا سے نمٹنے کے لیے سرکاری نگرانِ کار مقرر کیا ۔ ۲۹ فروری کو واشنگٹن کا وہ پہلا مریض بھی لقمۂ اجل بن گیا۔ اس کے باوجود وبا کے حوالے سے امریکی حکام کے علاوہ عوام بھی سنجیدہ نہیں تھے ۔یکم مارچ کو فلوریڈا میں عوامی حفظان صحت کی ایمرجنسی نافذ کرکے۵۰ سے زیادہ لوگوں کے اکٹھا ہونے پر پابندی لگادی گئی، مگر اس کے۱۸ دن بعد اسی شہر کے ہزاروں لوگ بہار کا جشن منانے کی خاطر ساحلِ سمندر پر جمع ہوگئے۔اسی دن لوئزانا میں ایسٹ بیٹن چرچ کے اندر سیکڑوں لوگ عبادت کے لیے جمع ہوگئے۔
کسی آفت کے بارے میں جانتے بوجھتے اس طرح کی لاپروائی برتنے والی قوموں کے انجام سے متعلق فرمان ربّانی ہے :’’کیا یہ لوگ اللہ کی چال سے بے خوف ہیں؟ حالانکہ اللہ کی چال سے وہی قوم بے خوف ہوتی ہے جو تباہ ہونے والی ہو‘‘(الاعراف ۷:۹۹)۔ ان کے خسارے کا سبب نفس کی بندگی، مستقبل سے لاپروائی، رب کائنات کے تئیں بے فکری اور اس کی ہدایات سے بے نیازی بنی ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کی اس سنت کا اعادہ پہلے بھی ہوتا رہا ہے ۔ انسانی تاریخ اس طرح کی مثالوں سے بھری پڑی ہے، لیکن لوگ ان سے عبرت نہیں پکڑتے۔ انسان اگر پہلے والوں کے انجام سے سبق سیکھ کر اپنے عقائد و معاملات درست کرلے تو اس طرح کی اجتماعی تباہی سے محفوظ و مامون رہ سکتا ہے۔ اس سلسلے میں اگلی آیت میں یہی ہے ، فرمایا: ’’ اور کیا اُن لوگوں کو جو سابق اہل زمین کے بعد زمین کے وارث ہوتے ہیں، اِس امر واقعی نے کچھ سبق نہیں دیا کہ اگر ہم چاہیں تو ان کے قصوروں پر انھیں پکڑ سکتے ہیں؟ (مگر وہ سبق آموز حقائق سے تغافل برتتے ہیں) اور ہم ان کے دلوں پر مہر لگا دیتے ہیں، پھر وہ کچھ نہیں سنتے ‘‘(الاعراف ۷:۱۰۰)۔
جب انسانوں کے دل پر مہر لگ جائے تو وہ اپنے آپ کو قوت سماعت سے محروم کرلیتے ہیں، اور عمدہ نصیحت پر کان دھرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ تاریخ انسانی میں اس کی ایک مثال قارون ہے۔ سورۃ القصص میں دیکھیں: ’’ یہ ایک واقعہ ہے کہ قارون، موسٰی کی قوم کا ایک شخص تھا، پھر وہ اپنی قوم کے خلاف سرکش ہو گیا۔ اور ہم نے اس کو اتنے خزانے دے رکھے تھے کہ ان کی کنجیاں طاقت ور آدمیوں کی ایک جماعت مشکل سے اُٹھا سکتی تھی‘‘(القصص ۲۸:۷۶)۔ اس سرکشی کے باوجود بنی اسرائیل کے اہل دانش نے اس کو راہِ راست پر لانے کی کوشش کی: ’’ ایک دفعہ جب اس کی قوم کے لوگوں نے اُس سے کہا:’’پھول نہ جا، اللہ پھولنے والوں کو پسند نہیں کرتا ۔ جو مال اللہ نے تجھے دیا ہے، اس سے آخرت کا گھر بنانے کی فکر کر اور دُنیا میں سے بھی اپنا حصہ فراموش نہ کر۔ احسان کر جس طرح اللہ نے تیرے ساتھ احسان کیا ہے، اور زمین میں فساد برپا کرنے کی کوشش نہ کر، اللہ مفسدوں کو پسند نہیں کرتا‘‘(القصص ۲۸:۷۶-۷۷)۔
قارون نے مندرجہ بالا نصیحت کےجواب میں کہا تھا: ’’یہ سب کچھ تو مجھے اُس علم کی بنا پر دیا گیا ہے جو مجھ کو حاصل ہے‘‘ (القصص ۲۸:۷۸)۔ قارون کے رعونت آمیز ردعمل پر قرآن حکیم کا تبصرہ یہ ہے کہ: ’’کیا اس کو علم نہ تھا کہ اللہ اس سے پہلے بہت سے ایسے لوگوں کو ہلاک کرچکا ہے، جو اس سے زیادہ قوت اور جمعیت رکھتے تھے؟ مجرموں سے تو ان کے گناہ نہیں پوچھے جاتے‘‘ (القصص ۲۸:۷۸)۔ اس قصے میں قارون کے اُخروی انجام کا نہیں بلکہ دُنیوی تباہی کا ذکر ہے۔
کورونا وائرس نے اس منظر کو ایک نئے انداز میں دنیا کے سامنے پیش کیا ہے۔ بڑے بڑے سرمایہ دار اپنے حصص سمیت زمین میں دھنس چکے ہیں ۔ ان پر مال و منال کا خسارہ عذاب کا کوڑا بن کر برس رہا ہے ۔ اس کی چونکا دینے والی ایک مثال گذشتہ دنوں دبئی میں سامنے آئی، جہاں جوائے اراکل نامی کیرالہ کے ایک نام وَر سرمایہ دار نے ۱۴ویں منزل سے چھلانگ لگاکر خودکشی کرلی ۔ وہ مالی معاملات کے باعث ذہنی تناؤ کا شکار تھا۔ معمولی منشی کے عہدے سے اپنا کیرئیر شروع کرکے دولت اور شہرت کی بلندی پر پہنچنے والا یہ فرد جدید ترین ریفائنری کا مالک تھا۔ کورونا کے سبب جوائے کے دو لاکھ ہم وطنوں کو امارات میں اپنا روزگار گنوانا پڑا، لیکن شاید ہی کسی نے جوائے اراکل جیسے امیر کبیر شخص کی مانند خودکشی کے بارے میں سوچا ہو۔ کیا یہ عذابِ عام کی وہ مخصوص شکل نہیں ہے کہ جس کی شدت ان خاص لوگوں تک محدود ہے کہ جن کا ذکر اول الذکر آیت میں کیا گیا ہے:’’ان کا مال ومنال اور اُن کی اولاد آپ کو حیرت میں نہ ڈالے ، یہ تو محض اِس لیے ہےکہ اللہ اس دُنیا کی زندگی میں اُنھیں عذاب میں مبتلا کرے ‘‘ (التوبہ ۹:۵۵)۔
عالمِ عرب کے عظیم اسلامی مفکر ڈاکٹر محمدعمارہ علمی و فکری کارناموں سے بھرپور زندگی گزارنے کے بعد ۲۸ فروری ۲۰۲۰ء کی شام ۸۹سال کی عمر میں وفات پاگئے۔ ڈاکٹر محمد عمارہ ۸دسمبر ۱۹۳۱ء کو مصر کے کفر الشیخ نامی علاقے میں پیدا ہوئے۔ بچپن ہی میں قرآن کریم حفظ کیا۔ قاہرہ یونی ورسٹی سے اسلامیات میں گریجوایشن اور ایم اے کیا۔ وہیں سے ۱۹۷۵ میں اسلامی فلسفہ میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ آپ کئی علمی اداروں سے بحیثیت رکن وابستہ تھے، جن میں مصرکی مجلس اعلیٰ براے اسلامی امور، ہیئت کبار علما ازہر، انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک تھاٹ (IIIT)، اور مجمع البحوث الاسلامیۃ، جامعہ ازہر نمایاں ہیں۔ آپ نے مجلۃ الازھر کی ادارت کی خدمات بھی انجام دیں۔
ڈاکٹر محمد عمارہ نے تقریباً ایک سو کتابیں لکھیں اور علمی، تحقیقی اور فکری مجلات کے لیے متعدد مضامین سپردِ قلم کیے۔ بہت سی علمی کانفرنسوں میں بھی شرکت کی اور علمی و فکری کاموں کے لیے اپنے آپ کو وقف کردیا تھا۔ وہ روزانہ ۱۸ گھنٹے مطالعہ و تحریر میں صرف کرتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ ’’اگر عالم اسلام کے صرف سو علما و مفکرین بھی اپنے آپ کو علمی و فکری کاموں کے لیے وقف کردیں تو اس دور کا فکری منظرنامہ بالکل تبدیل ہوجائے گا‘‘۔
ڈاکٹر صاحب کی پرورش اور تربیت اگرچہ ازہر کے دینی پس منظر میں ہوئی، لیکن چونکہ شروع ہی سے وہ سماجی انصاف اور مصر پر غیر ملکی تسلط سے آزادی کے بڑے علَم بردار تھے، اس لیے کمیونسٹ تحریک اور مارکسی فکر سے متاثرہوئے اور اس تحریک کی نمایاں شخصیت بن گئے۔ اسی بنیاد پر تقریباً چھے سال تک جیل میں رہے۔ جیل کی زندگی میں انھوں نے اپنے افکار کاتنقیدی جائزہ لیا اور اس نتیجے پر پہنچے کہ ’’سماجی مسائل کا صحیح حل مارکسیت اورطبقاتی کش مکش میں نہیں بلکہ اسلام میں ہے‘‘۔ ڈاکٹر صاحب کی مارکسی فکر و تحریک سے وابستگی نے انھیں اس بات کا موقع دیا کہ وہ مغرب کے مادی افکار کوگہرائی کے ساتھ سمجھیں اور ان پر مضبوط تنقیدکرسکیں۔ وہ خود اسے مشیت ِ خداوندی سمجھتے تھے کہ ’’اس طرح وہ مارکسی فکر کو اچھی طرح سمجھ سکے اور اس کا تریاق بھی سوچ سکے‘‘۔یہی وجہ ہے سیکولر اور مارکسی حضرات نے ڈاکٹر صاحب کو شدید دشمنی کا ہدف بنایا۔ ڈاکٹر عمارہ خِیَارُھُمْ فِیْ الْجَاھِلِیَّۃِ خِیَارُھُمْ فِی الْاِسْلَامِ [ان میں سے جاہلیت کے زمانے میں جو بہتر تھا، اسلام قبول کرنے کے بعد بھی بہتر ہے] کے مصداق سیکولرزم کے کیمپ سے نکلنے کے بعد اسلام کے بہترین داعی اور ترجمان ثابت ہوئے۔
ڈاکٹر صاحب کی زندگی میں نمایاں فکری تبدیلیاں واقع ہوئیں۔ وہ اپنی فکری لغزشوں کو تسلیم کرنے اور اپنے افکار سے رجوع کرنے میں عار نہیں محسوس کرتےتھے۔ یہ علمی جرأت آج بہت سے علما و مفکرین میں دکھائی نہیں دیتی۔ وہ ان تبدیلیوں کو فکری پختگی اور ارتقا سے موسوم کرتے ہیں۔ ڈاکٹر عمارہ کے نزدیک ’’فکری ارتقا انسانی زندگی کی علامت ہے اور جو لوگ فکری جمود کو اپنا شیوہ بنالیتے ہیں، وہ مُردہ اور بے جان جسم ہیں‘‘۔ ڈاکٹر صاحب نے زندگی کے ایک مرحلے پر امام حسن البنا اور مولانا مودودی پر بھی تنقید کی اور پھر اپنے موقف سے رجوع بھی کیا۔ اسی طرح امام ابن تیمیہ پر تنقید کے بعد انھوں نے اپنی پوزیشن پر نظرثانی کی اور کہا کہ ’’اگر ان کے تجدیدی کاموں کو حکومت کی مدد حاصل ہوتی تو آج امت کی صورتِ حال کچھ اور ہوتی‘‘۔ عرب قومیت سے مارکسیت اور مارکسیت سے اسلام تک کا سفر اسی کشادہ ذہنی کی وجہ سے ان کے لیے ممکن ہوسکا۔ اس دوران وہ ہمیشہ آزادیِ وطن اور سماجی انصاف کے علَم بردار رہے۔
علامہ محمد غزالی [۹۶-۱۹۱۷ء] ڈاکٹر محمد عمارہ کو ’اسلام کا عظیم داعی اوراسلامی تعلیمات کا پاسبان‘ ' بتاتے ہیں۔ علامہ محمد یوسف قرضاوی [پ:۹ستمبر ۱۹۲۶ء] ڈاکٹر محمد عمارہ کو ’اسلامی سرحدوں کا نگہبان‘ قرار دیتے ہیں۔ اس سے جہاں ڈاکٹر عمارہ کی فکری عظمت کا احساس ہوتا ہے، وہیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ علما اپنے معاصرین کی علمی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کرنے میں کس قدر فیاض ہیں۔
ڈاکٹر محمد عمارہ نے فکری محاذ پر کئی کارنامے سرانجام دیے۔ انھوں نے اسلام پر اٹھائے جانے والے شکوک و شبہات کا ازالہ کیا۔ مغربی افکار کے حملوں کا جواب بھی دیا۔ فکر اسلامی کے قدیم و جدید دھاروں پر لکھا۔ کئی کتابیں لکھ کر اسلام کے روشن پہلووں کو واضح کیا۔ محمد غزالی، حسن البنا اور ابوالاعلیٰ مودودی جیسی تجدیدو احیاے دین کی علَم بردار شخصیات اور ان کے کام کو بھی موضوع بنایا۔
ڈاکٹر عمارہ نے کئی ایسے مفکرین کی اسلامی خدمات پر روشنی ڈالی، جنھیں عموماً ’مغرب زدہ‘ تصور کیا جاتا ہے اور بتایا کہ ’’وہ فی نفسہٖ فکر اسلامی سے وابستہ ہیں۔ مشہور عرب ادیب طہٰ حسین کو سیکولر اور مغربیت زدہ لوگ اپنے لیے نمونہ مانتے ہیں اور اسلام پسندحلقہ انھیں مغربیت کا داعی سمجھتا ہے۔ ڈاکٹر عمارہ نے طہٰ حسین کی پوری زندگی کا جائزہ لے کر بتایا کہ کس طرح وہ فکری ارتقا کے مختلف مراحل سے گزرنے کے بعد آخرکاراسلام کی طرف لوٹ آئے۔ اسی طرح جمال الدین افغانی، محمدعبدہٗ، رفاعۃ طہطاوی، قاسم امین، عبد الرحمن کواکبی جیسی شخصیات کی تحریروں کو الاعمال الکاملہ کے عنوان سے جمع کیا اور ان پر تحقیقی کام کرکے ان کے سلسلے میں شکوک و شبہات کو دور کیا اور فکراسلامی میں ان کی خدمات کو واضح کیا۔ یہ بڑا نازک اور مشکل کام تھا، لیکن کمالِ احتیاط کے ساتھ ڈاکٹر عمارہ نے سرانجام دیا۔ انھوں نے تصنیف و تالیف سے ہٹ کر فکری موضوعات پر فرج فودہ اور نصرحامد ابوزید جیسے سیکولر دانش وروں سے مکالمے اور مباحثے بھی کیے۔
ڈاکٹر عمارہ کے طرزِ فکرو تحقیق میں اعتدال کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ وہ فکر اسلامی میں أصالت (اسلام کے جوہر اور ثوابت سے وابستگی)اور معاصرت (عصر حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگی) دونوں کو ضروری سمجھتے تھے۔ وہ امت کے مکاتب فکر میں تقلیدی سوچ کے مخالف اور افکار مغرب کی کاسہ لیسی کے بھی خلاف تھے۔ وہ کہتے تھے کہ ’’امت کے دانشورقطبیت (polarization)کا شکار ہیں۔ کچھ لوگ صرف اسلامیات کے ماہر ہیں، لیکن مغربی افکار کوسمجھنے اور ان کا جواب دینے پر قادر نہیں ہیں اورکچھ لوگ مغربی افکار سے واقف ہیں، لیکن اسلام سے ناواقف ہیں۔ اس چیز نے اسلامی فکر کی ترقی کو نقصان پہنچایا ہے‘‘۔ ڈاکٹر عمارہ نے اپنے علمی کام کے ذریعے اسی بات کی کوشش کی ہے کہ اسلام اور مغربی افکار دونوں کا مطالعہ کریں اور مغربی افکار کے مقابلے میں بجاطور پر اسلام کی بالادستی کو واضح کریں۔
ڈاکٹر عمارہ نے اپنی کتاب تحریر المرأۃ بین الاسلام و الغرب میں عورت کی آزادی کے سلسلے میں معتدل موقف اختیار کیا ہے۔ وہ مغربی سماج کے طرز پر عورت کی بلاحدود و ضوابط آزادی کے بھی خلاف تھے اور دین داری کے نام پر اسے مکمل طور پر محبوس کردینے کو بھی درست نہیں سمجھتے۔ ڈاکٹر عمارہ کہتے ہیں کہ سدِّ ذرائع کے اصول میں غیر ضروری توسع حلال کو حرام کرنے کا موجب بنتا ہے۔ ان کے نزدیک بعض اوقات سماجی وسیاسی سرگرمیوں عورتوں کی شرکت، معاشرے کی ضرورت ہوتی ہے اور اسلام کچھ شرائط کے ساتھ اس کی اجازت دیتا ہے‘‘۔
ڈاکٹر عمارہ نے عورت کی گواہی، میراث میں عورتوں کا حصہ، مرد کی قوامیت جیسے نازک مسائل پر بحث کرکے، اشکالات کے تشفی بخش جوابات دیے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ عورت کی گواہی ہمیشہ آدھی نہیں ہوتی۔ وہ شھادۃ(قاضی کی عدالت میں عورت کے گواہ بننے) اوراشھاد( لین دین کے معاملے میں عورت کو گواہ بنانے )میں فرق کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ عورت کی گواہی سے متعلق سورۂ بقرہ کی آیت کا تعلق لین دین کے معاملے میں گواہ بنانے سے ہے۔ رہا عدالت میں گواہی کا معاملہ تو اس سلسلے میں وہ کہتے ہیں کہ بعض حالات میں عورت کی گواہی مرد کی گواہی کے برابر ہوتی ہے، بعض حالات میں صرف عورت کی گواہی قبول کی جائے گی اور بعض حالات میں صرف مرد کی گواہی قبول کی جائے گی‘‘۔ اسی طرح میراث کے معاملے میں وہ یہ کہتے ہیں کہ ’’میراث کی تقسیم میں ایک بنیاد قرابت داری ہے۔ قرآن کی رُو سے بعض حالات میں عورت کو مرد کے برابر حصہ ملتا ہے اوربعض حالات میں عورت کو مرد کا نصف حصہ ملتاہے‘‘۔
ڈاکٹر عمارہ نے اسلامی تحریکات کے مسائل، طریق کار اور مستقبل پربھی لکھا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ ’’اسلامی تحریکات سیاسی سرگرمیوں میں زیادہ الجھ کر رہ گئی ہیں، جس سے اصلاحی کام اور سماجی انصاف کے مسائل و معاملات اور چیلنج متاثر ہوئے ہیں‘‘۔
ڈاکٹر عمارہ نے اسلام میں فنون لطیفہ کی اہمیت پر بھی زور دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’اسلام جمالیاتی قدروں کو پسند کرتا ہے اور فنون لطیفہ کا دشمن نہیں ہے‘‘۔ ان کے نزدیک ’’غنائیت اصلاًحرام نہیں بلکہ اس وقت حرام ہوتی ہے، جب وہ حرام کاموں کے ارتکاب کا وسیلہ بنے‘‘۔ ڈاکٹر عمارہ اپنے پیچھے ایک بڑا علمی سرمایہ چھوڑ گئے ہیں۔ ان کی وفات سے علمی دنیا میں ایک بڑا خلا پیدا ہوگیا ہے۔ اللہ تعالی ان کی فکری خدمات کو قبول فرمائے اور ان کی لغزشوں سے درگزر فرمائے۔
۲۲ فروری ۲۰۲۰ء بروز ہفتہ ،بوقتِ سحر حفیظ الرحمٰن احسن اپنے ربّ کے پاس چلے گئے، اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ۔ احسن ان کا تخلص تھا،وہ شاعر تھے مگر شاعر کے علاوہ اور بھی بہت کچھ تھے۔ استاد، ادیب، نقاد، مقرر،منتظم۔ابتدائی دور میں وہ ـ’حفیظ الرحمٰن غازی پسروری‘ کے نام سے لکھتے تھے۔ وہ ۱۹؍اکتوبر ۱۹۳۴ء کو پسرور (ضلع سیالکوٹ) میں پیدا ہوئے۔
ان کا علمی و ادبی ذوق پروان چڑھانے میں زیادہ دخل دو شخصیتوں کا رہا۔اوّل: اسکول کے زمانے میں جناب طاہر شادانی(استاد گورنمنٹ ہائی سکول پسرور)اور مرے کالج سیالکوٹ کے دورِ طالب علمی میں پروفیسر آسی ضیائی۔
انٹر میڈیٹ کے زمانے (۱۹۵۰ء-۱۹۵۲ ء)میں اسلامی جمعیت طلبہ میں شامل ہو گئے۔ یہ وابستگی،جماعت اسلامی میں باقاعدہ شمولیت پر منتج ہوئی۔بی اے میں انھوں نے عربی کے مضمون میں (علامہ اقبال کی طرح)یونی ورسٹی میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔مزید تعلیم کے لیے وظیفہ ملا۔ انھوں نے(بوساطت اسلامیہ کالج لاہور)۱۹۵۹ء میں یونی ورسٹی اورینٹل کالج سے ایم اے عربی کا امتحان پاس کیا اورتیسری پوزیشن حاصل ہوئی۔بعد ازا ں ایم اے اردو بھی کر لیا۔گورنمنٹ کالج لائل پور[فیصل آباد]، گورنمنٹ کالج سرگودھا،مرے کالج سیالکوٹ اوراشاعتِ تعلیم کالج لاہور میں عربی اور اردو کے استاد رہے ۔۱۹۶۶ء میں وہ مستقلاً لاہور آگئے اور باقاعدہ درس و تدریس چھوڑ کر امین جاوید صاحب کے تعاون سے اشاعتی ادارے ’ایوانِ ادب‘کی بنیاد رکھی۔تعلیم و تعلّم سے ان کا رشتہ اس صورت میں برقرار رہاکہ انھوں نے انٹر میڈیٹ کے لازمی مضمون اردو کے لیے تحسینِ اردو مرتب کی، اور بچوں کے لیے بھی نظم و نثر کی چندخوب صورت کتابیں شائع کیں۔
حفیظ صاحب کا سب سے اہم کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمۃ اللہ علیہ کے دروسِ قرآن و حدیث کو فیتہ بند (taperecord) کرنے کا اہتمام بڑی محبت اور ثابت قدمی سے کیا۔ پھر ان دروس کو کیسٹ کے ذریعے مولانا کی آواز میں ہزاروں لاکھوں افراد تک پہنچایا۔ مولانا سے محبت کے اس تعلق کو انھوں نے اپنے ایک مضمون میں اس طرح واضح کیا ہے: ’’دسمبر۱۹۴۶ء کے آخری ایام میں سیالکوٹ کے قصبے مرادپور میں جماعت اسلامی لاہور کمشنری کا دوروزہ اجتماع ہوا اور مَیں داداجان کے ساتھ اس اجتماع میں شریک ہوا۔ اس اجتماع میں مولانا کا تاریخی خطبہ ’شہادتِ حق‘ (۱۳دسمبر ۱۹۴۶ء) سننے کی سعادت بھی حاصل ہوئی۔ اس اجتماع کی بدولت مجھے مولانا کو مسلسل دو روز تک دیکھنے اور سننے کا موقع ملا، اور اس طرح ان کی شخصیت کا ایک گہرا نقش میرے نہاں خانۂ شعور میں ثبت ہوگیا‘‘۔
راقم اپریل ۱۹۶۴ء میں سرگودھا سے لاہور آکر پنجاب یونی ورسٹی ایم اے اردوکی جماعت اوّل میں داخل ہوا۔باری تعالیٰ ہفت روزہ آئین لاہور کے مدیر مظفر بیگ (۱۹۳۵ء-۱۹۹۹ء)کو غریقِ رحمت کرے (آمین)،انھوں نے راقم الحروف کو مولانامودودیؒ کے دروس قرآن و حدیث اور دیگر خطبات کو قلم بند (رپورٹنگ)کرنے پر مامور کیا۔اس سلسلے میں راقم کے مرتب کردہ چند دروس اور خطبے آئین میں شائع ہوئے۔چند ایک تحریریں ماہنامہ ترجمان القرآن لاہور میں بھی نقل ہوئی ہیں۔
غالباً ۱۹۶۶ء سے حفیظ صاحب مولانا کے دروس فیتہ بند (ٹیپ) کرنے لگے تھے۔ ان کے پاس جہازی سائز کا ایک ٹیپ ریکارڈر تھا،جو باہر سے گراموفون معلوم ہوتا تھا۔ان کے مرتب کردہ دروس آئین میں شائع ہونے لگے۔ بعض جلسوں میں مولانا کے خطبات وہ ٹیپ کرتے اور راقم انھیں مرتب کرنا اور آئین میں شائع ہوتے۔ترتیب و تدوین کا کام کبھی تو راقم ۲۳ وُولنر ہاسٹل میں کرتا اور جب کبھی ہاسٹل بند ہوتا (جیسے جنوری ۱۹۶۶ ء میں اعلانِ تاشقند پر ایوب خان کے خلاف ہنگامے ہونے پر ہوسٹل بند کر دیے گئے تھے)تو پھر یہ کام حفیظ صاحب کے دفتر نسبت روڈ میں ہوتا تھا۔
مظفر بیگ مرحوم نے ۱۹۶۵ء میں راقم کو سید مودودی کی عصری مجالس کی رپورٹنگ کی ذمہ داری سونپی۔بعد ازاں ’۵ اے ذیلدار پارک ‘کے اس سلسلے میں خود بیگ صاحب اور حفیظ الرحمٰن صاحب بھی شامل ہو گئے۔ان مجالس کی رُودادیں تین حصوں میں بارہا چھپ چکی ہیں۔غالباً ۱۹۷۶ ء میں حفیظ صاحب ،جناب نعیم صدیقی مرحوم کے علمی و ادبی رسالے سیارہ سے رضاکارانہ طور پر وابستہ ہوگئے اور انھوں نے نعیم صاحب کاخوب ہاتھ بٹایا۔یہاں تک کہ نعیم صاحب نے رسالہ مستقلاً ان کے سپرد کر دیااور انھوں نے اسے بڑی مہارت اور کامیابی سے جاری رکھا۔سیارہ نے بعض یادگار نمبر شائع کیے(اقبال نمبر تین بار،سید مودودی نمبر ایک بار)۔ اسلامی اور تعمیری ادب کے فروغ میں مجلّہ سیارہ لاہور کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔ سیارہ کے سلسلے میں وہ اپنے حلقۂ احباب سے بھی مدد لیتے۔ مثال کے طور پر ایک بار مجھے خط میں لکھا کہ جگن ناتھ آزاد اور معین الدین عقیل سے مضامین کا تقاضا کیجیے اور کرتے رہیے کہ ان دونوں سے راقم کا مسلسل رابطہ رہتا تھا۔
۱۹۸۹ ء کی بات ہے ۔احباب میں سیارہ کا نعیم صدیقی نمبر نکالنے کی تجویز گردش کر رہی تھی۔ ظفر حجازی صاحب نے ’نعیم صدیقی نمبر‘ کا ایک مفصل خاکہ بنا کر حفیظ صاحب کو ارسال کیا۔ حفیظ صاحب نے جواب میں لکھا:’’آپ نے جو سنہری تجاویز پیش کر کے مجھے ان پہ عمل در آمد کا ذمہ دار ٹھیرایا ہے،اسے آپ کے حُسنِ ظن یا پھر حُسنِ تخیل کا شاہکار قرار دیا جائے تو غلط نہ ہو گا۔اگر اسی طرح کی مکتوب آرائی منصوبوں کی تکمیل کا کبھی بھی وسیلہ بن سکتی تو میں بخوشی روزانہ آپ کی خدمت میں ایک ایسا ہی طویل محبت نامہ لکھنے کی ذمہ داری قبول کر لیتا‘‘۔
احسن صاحب زبان و بیان اور قواعد و انشا پر بخوبی دسترس رکھتے تھے۔اشاعت کے لیے موصول ہونے والے شعری اور نثری مسوًدوں کی نوک پلک سنوارنے میں خاصا وقت صرف کرتے تھے۔اس ضمن میں اگر کہیں اپنی معلومات میں کمی محسوس کرتے تو بلاتکلف اپنے دوستوں سے تبادلۂ خیال بھی کرتے تھے۔ایوان ادبِ میں بعد دوپہر ان کے قریبی احباب جمع ہوتے ، پروفیسر جعفر بلوچ،ڈاکٹر تحسین فراقی،افضل آرش، شیدا کاشمیری،انور میر،طاہر شادانی اور کبھی کبھار راقم بھی حاضری دیتا۔ سیارہ یا حلقہ ادب یا کسی اور موضوع پر مشاورت کے لیے وہ احباب کو ازخود بھی بلالیتے اور احباب بڑی مسرت سے حاضر ہو جاتے۔
مولانا مودودی کے دروسِ قرآن و حدیث کی نشرواشاعت میں ،ایک مرحلہ ایسا آیا، جب انھوں نے پروفیسر خورشید احمد صاحب کے مشورے اور اعانت سے الابلاغ کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا۔ مگر چند کرم فرماؤں نے اسے مقدموں میں اُلجھا دیا۔ بہرحال اعلیٰ عدلیہ نے حفیظ الرحمٰن صاحب کے حق میں فیصلہ دیا۔ اس طرح خاصا وقت ضائع ہوجانے کے بعد مولانا مودودی کی آواز میں کیسٹوں کی نشرواشاعت ہونے لگی۔لیکن کیسٹ کا دور ختم ہوا اور یہ ادارہ بھی تعطل کا شکار ہو گیا۔
ہمارے ایک مشترکہ دوست تھے عبدالرحمٰن بزمی(م: ۱۴نومبر ۲۰۰۵ء) شاعر اور ادیب اور حفیظ صاحب کی طرح ہی اعلیٰ درجے کا علمی و ادبی ذوق رکھتے تھے۔ ان کے ورثا نے بزمی صاحب کا مجموعۂ کلام چھپوانا چاہا۔لندن ہی میں مقیم ایک مشترکہ دوست (جاوید اقبال خواجہ، م:۸؍اپریل ۲۰۱۹ء)کی وساطت سے ترتیب و تدوین اوراہتمام اشاعت کا قرعہ میرے نام نکلا۔ حفیظ صاحب فنِ شاعری کے کم و کیف سے بخوبی واقف تھے اور راقم اناڑی۔ چنانچہ راقم نے تدوین کی ذمہ داری حفیظ صاحب کو سونپ دی۔انھوں نے بڑی محنت سے مجموعہ:حرفِ تمنا مرتب کیا ،جو ۲۰۱۱ء میں منشورات لاہور سے شائع ہوا۔
مرحوم پروفیسر فروغ احمد (م:۲نومبر ۱۹۹۴ء)بھی اپنی وفات سے دو تین برس پہلے اپنے کلام کی تدوین و اشاعت کی ذمہ داری مجھے سونپ گئے تھے۔ حفیظ صاحب نے اس کی پروف خوانی کے علاوہ حسب ضرورت اصلاح و تصحیح بھی کر دی۔میری مصروفیات کی وجہ سے ’کلیاتِ کلام فروغ احمد‘ ابھی تک شائع نہیں ہو سکا(پروف محفوظ ہیں مگر کمپوزنگ تلاش طلب ہے)۔
غالباً ۱۹۸۱ء میں لاہور کے بعض ادب دوستوں نے ،حلقۂ ارباب ذوق کے باوجود، اسلام دوست اور تعمیر پسند مصنّفین کا ایک نیا ادبی فورم بنانے کی ضرورت محسوس کی ۔ان میں ڈاکٹر تحسین فراقی، جناب حفیظ الرحمٰن احسن، افضل آرش اور جعفر بلوچ پیش پیش تھے۔چند ایک مشاورتوں کے نتیجے میں ’حلقۂ ادب ‘قائم ہو گیااور اس کے ہفتہ وار تنقیدی اجلاس ہر منگل کی شام چائنیز لنچ ہوم میں ہونے لگے۔اس کی مجلسِ عاملہ میں ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا ،حفیظ صاحب ،سراج منیر،شہباز ملک اور راقم شامل تھے(شاید کچھ اور احباب بھی)۔پروفیسر آسی ضیائی حلقے کے صدراور حفیظ الرحمٰن احسن نائب صدر ، تحسین فراقی سیکرٹری اورسلیم منصور خالدجائنٹ سیکرٹری مقرر ہوئے، جو مسلسل تین برس تک باقاعدگی سے اجلاسوں کی کارروائی قلم بند کر کے پیش کرتے رہے۔پھر آفتا ب ثاقب اور ان کے بعد اصغرعابدنے یہ ذمہ داری سنبھال لی۔ اس حلقے کو چلانے میں حفیظ الرحمٰن احسن کا بنیادی اور فعال کردار رہا۔ان کا دفتر(ایوانِ ادب، حبیب بلڈنگ، اردو بازار لاہور) سیارہکے ساتھ حلقے کا دفتر بھی تھا۔وہیں دو ماہی یا سہ ماہی پروگرام بناتے اور اس کا سائیکلوسٹائل نکلوا کر یا کتابت کرا کے، نقول پھیلاتے ۔ وہ خود بھی اجلاسوں میں باقاعدگی سے شریک ہوتے تھے۔اکثر وبیش تر وہ مقررہ وقت سے پہلے مجلس گاہ میں پہنچ جاتے۔ حلقہ ۱۹۸۹ء تک چلتا رہا۔
حالیہ دنوں میں مجھے حلقے کے ۱۹۸۱ء تا ۱۹۸۹ء دو ماہی پروگراموں پر مشتمل کاغذات دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ان سے پتا چلتا ہے کہ لاہور کے بیش تر اہم اور سینئر مصنّفین اور شعرا حسب پروگرام اپنی نگارشات پیش کرتے رہے۔چند نام:میرزا ادیب،جیلانی بی اے،عبداللہ قریشی،نعیم صدیقی، شیخ منظور الٰہی، عبدالعزیز خالد، انجم رومانی، ڈاکٹر وحید قریشی، صلاح الدین محمود، عبدالکریم عابد، حفیظ تائب، حمیدجالندھری، جیلانی کامران،پروفیسر فروغ احمد،انتظار حسین، سیّد امجد الطاف، مقبول بیگ بدخشانی، رحمان مذنب، غلام الثقلین نقوی، اکرم جلیلی،سائرہ ہاشمی، سراج منیر، ہارون الرشید، سہیل عمر، عطاء الحق قاسمی، فضل الرحمان، یونس احقر، امجد طفیل وغیرہ۔
ادارہ معارفِ اسلامی لاہور نے سیّد ابوالاعلیٰ مودودی کی تحریروں سے سیرتِ سرورِ عالم ؐ کے مدنی دور پر مشتمل ،سیرت کاتیسرا حصہ مرتب کرنے کا منصوبہ بنایا ۔ابتدائی مرحلے پر لوازمہ مولانا عبدالوکیل علوی [م:۱۱جنوری ۲۰۱۶ء] نے جمع کیا، جسے حفیظ صاحب نے مرتب و مدوّن کیا اور حد درجہ تحقیق و تدقیق سے کام لیتے ہوئے نہایت محنت سے اس میں نیا لوازمہ شامل کیا ۔نظر ثانی کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں آخری تدوین کی ذمے داری مجھے سونپی گئی، جس پر خاصا وقت صرف کیا اور مزید لوازمے کی شمولیت سے اسے حتمی شکل دی۔
۴۰برس کی رفاقت کے بعد اپریل ۱۹۹۴ء میں جماعت اسلامی سے الگ ہوکر ’تحریک اسلامی‘ تنظیم میں شامل ہوگئے۔ تاہم، اہل جماعت سے بھی تعلق برقرار رکھا، اور اس دیرینہ تعلق کو آخر وقت تک بڑے اعتدال سے نبھاتے رہے۔ مولانا مودودی کے ریکارڈ شدہ خطبات پر مشتمل انھوں نے کتاب الصوم ، فضائلِ قرآن مرتب کی۔ علاوہ ازیں ۵-اے ذیلدار پارک، سوم اسلام کا سرچشمہ قوت جماعت اسلامی اور مشرقی پاکستان ان کی اہم مرتبات ہیں۔
ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن کے مئی ۲۰۲۰ء کے شمارے میں ایک اہم مضمون نظر سے گزرا۔ مضمون کا عنوان ہے: ’روزہ اور طبی مسائل‘ اور اس کے مؤلف پروفیسر ڈاکٹر نجیب الحق پیشے کے اعتبار سے میڈیکل ڈاکٹر ہیں۔روزے کے دوران مختلف ادویات اور انجکشن کے استعمال کی مناسبت سے پروفیسر صاحب نے تفصیلی گفتگو کی ہے۔ بحیثیت مجموعی ان کی آرا سے مجھے اتفاق ہے مگر روزے کے فاسد ہونے یا نہ ہونے کے حوالے سے کچھ باتیں محل نظر ہیں ۔
ایک عام مشکل کا سامنا اکثر روزے داروں کو کرنا پڑتا ہے کہ روزے کی حالت میں آنکھ، ناک اور کان میں دوا ڈالی جاسکتی ہے یا نہیں؟ اس بارے میں پروفیسر صاحب رقم طراز ہیں: ’’آنکھ میں دوا ڈالنے کے بارے میں فقہا کی عمومی راے یہ ہے کہ اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا، البتہ ناک میں دوا ڈالنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ کان کے اندرونی پردے کے صحیح اور سالم ہونے کا سو فی صد یقین ہو تو روزہ نہیں ٹوٹے گا، البتہ شک کی صورت میں بہتر یہی ہے کہ ماہر ڈاکٹر سے تصدیق کرلی جائے۔ پردہ پھٹا ہو یا اس میں سوراخ ہو تو دوائی ڈالنے سے روزہ ٹوٹ جائے گا‘‘۔ ناک اور کان میں دوا ڈالنے کے حوالے سے محترم مضمون نگار کی راے سے ہمیں اتفاق ہے مگر آنکھ کے بارے میں ان کی راے سے ہمیں شدید اختلاف ہے۔ یہ معاملہ تھوڑی سی وضاحت کا طلب گارہے۔ برصغیرمیں عمومی طور پر فتاویٰ کی معروف کتاب فتاویٰ عالمگیری کورہنمائی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔یہ کتاب مغل حکمران اورنگ زیب عالم گیر کے دور میں مرتب کی گئی تھی۔ اس بات کو تین سوسال سےزیادہ عرصہ گزرچکاہے۔ یہ اپنے عہد کی عظیم تصنیف ہے اور آج کے دور میں بھی مفید ہے مگر ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ یہ کتاب انسانوں نے مرتب کی تھی اور ان کی راے میں غلطی کا احتمال ہوتا ہے۔ آنکھ اورکان کی ساخت یا Anatomy کے حوالے سے اس کتاب میں بنیادی غلطی موجود ہے۔ اسی غلطی کو ہمارے دورکےعلما کی اکثریت نے نظرانداز کیا ہے۔
فاضل مضمون نگار بھی آنکھ کی حد تک اسی غلط روش پرگامزن ہیں۔ ہمارے علما کی اکثریت کا خیال ہے کہ آنکھ معتاد راستہ نہیں بلکہ کان معتاد راستہ ہے۔ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ آنکھ کا تعلق ایک باریک نالی یا Duct کے ذریعے حلق اور بعدازاں معدے سے ہوتا ہے، جب کہ ایک صحت مند کان کا تعلق معدے سے نہیں ہوتا۔ اپنی اسی غلط فہمی کی بنیاد پر ہمارے علما روزے کے دوران آنکھ میں دوا ڈالنے کی اجازت دیتے ہیں اور کان میں دوا یاقطروں کا استعمال ممنوع قرار دیتے ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ آنکھ میں دواکے قطرے ڈالے جائیں توان کے اثرات حلق تک پہنچتے ہیں اوربعض اوقات دوا کا ذائقہ بھی محسوس ہوتا ہے۔ گریہ و زاری کے دوران آنسو آنکھ سے خارج ہوتے ہیں مگر ایک نمکین ذائقہ ہمیں حلق میں محسوس ہوتا ہے۔ اس لیے روزے کی حالت میں آنکھ میں دوا ڈالنے سے احتراز کرنا ہوگا۔ کان کے بارے میں پروفیسر صاحب کی راےدرست ہے۔ جب تک کان کا پردہ مجروح یا Perforated نہ ہو اس وقت تک کان کا تعلق حلق اور معدے سے نہیں ہوتا اور دوا کا استعمال روزے کو فاسد نہیں کرتا۔ اس معاملے میں احتیاط احسن ہے۔
انجکشن کے استعمال کے بارے میں پروفیسر صاحب لکھتے ہیں:
انجکشن چاہے جِلد، گوشت یا رگ میں لگایا جائے اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔ کیونکہ روزہ ٹوٹنے کے لیے ایک بنیادی شرط یہ ہے کہ کوئی چیز بدن میں معتاد راستے سے داخل ہو،مثلاً منہ، ناک یا مقعد کے ذریعے۔ غیرمعتاد راستےسے کسی چیز کے بدن میں داخل ہونے سے اصولاً روزہ نہیں ٹوٹتا۔
یہاں فاضل مضمون نگار نے ایک بنیادی اصول بیان کردیا ہے کہ انجکشن کسی بھی نوعیت کا ہو اور کسی بھی ذریعےسے استعمال ہو، وہ روزہ ٹوٹنے کا باعث نہیں بنتا۔ یہ اصول بیان کرنے کے بعد کچھ تحفظات کا اظہار بھی فرماتے ہیں:
اگر کوئی مریض پیاس بجھانے کے لیے اور بھوک مٹانے کے لیے روزے میں انجکشن (ڈرپ) کا استعمال کرتا ہے تویہ روزے کی روح کے خلاف ہے اور اس مقصد یا اس نیت سے انجکشن کا استعمال انتہائی نامناسب حرکت ہے لیکن اگر یہ درد یا بخار کا زور توڑنے کے لیے استعمال کیا جائے تواس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔
پروفیسرصاحب کی اس راے سے عجیب و غریب صورتِ حال جنم لیتی ہے۔ وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ انجکشن کے مذکورہ بالا استعمال سے روزہ ٹوٹتا نہیں ہے مگر یہ روزے کی روح کے خلاف ہے اور انتہائی نامناسب حرکت ہے۔ اس راے کی عملی تطبیق خاصی مشکل ہے اوربے شمار اشکالات پیدا ہوجاتے ہیں، مثلاً ایک شخص شدید نقاہت محسوس کرتا ہے اور ڈاکٹر اسے گلوکوز کی ڈرپ لگا دیتا ہے تو غالباً اس کا روزہ نہیں ٹوٹے گا کیونکہ مریض کی اپنی نیت میں کوئی کھوٹ نہیں ہے۔ اسی طرح روزے کی حالت میں ذیابیطس کا مریض گلوکوز کی کمی یا Hypoglycemia کا شکار ہوسکتا ہے اور ڈاکٹر کے مشورے سے اسے بین الورید گلوکوز دیا جاسکتا ہے۔ ہمارے محترم مضمون نگار کے مطابق ایسے شخص کا روزہ بھی فاسد نہیں ہوگا۔ ایک اور صورت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ پانی کی شدید کمی یا Dehydration کی وجہ سے کسی شخص کو نمکیاتی محلول یا Normal Saline کا بین الورید استعمال کرایا جائے۔ غالباً اس کا روزہ بھی قائم رہے گا کیونکہ ایسا شخص بدنیت نہیں ہے اور اس نے معتاد راستوں سے کوئی چیز بدن میں داخل نہیں کی ہے۔
دراصل مضمون نگار کے پیش نظر فقہا کی وہ عمومی راے ہے کہ غیرمعتاد راستوں، مثلاً جِلد، گوشت یا رگ کے ذریعے جسم میں کسی چیزکے دخول سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔ ہم یہاں بھول رہے ہیں کہ فقہا کی یہ راے اس وقت سامنے آئی تھی جب انجکشن یا ڈرپ وغیرہ کے استعمال کا آغاز نہیں ہوا تھا۔ اس وقت جِلد اور گوشت کے ذریعے جسم میں کسی چیزکا دخول کیڑوں اور حشرات الارض کے کاٹنے سے ہوتا تھا اور معمولی رطوبت جسم میں داخل ہوجاتی تھی۔ یہ ایک غیرارادی عمل ہوتا تھا اور انسان کی اپنی خواہش کا اس میں کوئی دخل نہیں ہوتا تھا۔
کیڑے کے کاٹنے کے حوالے سے فقہا کی راے کا انطباق انجکشن اور ڈرپ پر نہیں کیا جاسکتا۔ یہاں نئے سرے سے اجتہاد کرنے کی ضرورت تھی۔ یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہیے کہ آج کل Parenteral Nutrition کا طریقہ بھی معروف ہوچکاہے، جس میں ورید کے ذریعے اہم غذائی اجزا مریض کے جسم میں داخل کیے جاتے ہیں۔ بہت سارے مریض توایسے ہیں جو برسوں سے کچھ کھائے پیئے بغیر صرف Total Parenteral Nutrition کی بنیاد پر زندہ ہیں۔ ہمارےہراجتہاد کے پس منظر میں یہ معروضی حقیقت موجود ہونی چاہیے کہ آج انجکشن کا استعمال جسم کو غذائیت فراہم کرنے کے متبادل طریقے کے طور پر معروف ہوچکا ہے۔
ہم جو کچھ منہ کے راستے کھاتے پیتے ہیں اس میں کچھ طبیعی اور کیمیائی تغیرات واقع ہوتے ہیں۔ بعدازاں غذائی مواد معدے کےراستے آنتوں میں داخل ہوجاتا ہے۔ کچھ مقعد اور پیشاب کے راستے خارج ہوجاتا ہے اورکچھ دورانِ خون میں شامل ہوکر جزوِ بدن بن جاتا ہے۔ہم جو کچھ انجکشن کے ذریعے جسم میںداخل کرتے ہیں وہ نظامِ انہضام میں جائے بغیر دورانِ خون میں شامل ہوجاتا ہے اور اپنا کام کرکے یا تو جزوِ بدن بن جاتا ہے یا پھر جسم سے خارج ہوجاتا ہے۔ آخری نتیجہ دونوں صورتوں میں یکساں ہوتا ہے۔ اس آخری نتیجے کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہمیں روزے کی حالت میں انجکشن کے استعمال کافیصلہ کرنا ہوگا۔
روزہ فاسدہونے کی وجوہ پر جس انداز سے گفتگو کی گئی ہے، اسے دیکھ کر لگتا ہے کہ پروفیسرصاحب برصغیر کی روایتی فکر کے تحت فیصلہ کرنا چاہتے ہیں۔ یاد رہے کہ ۱۴سے ۱۷ جون ۱۹۹۷ء میں کاسابلانکا، مراکش میں اسلامی فقہی کونسل کی نویں کانفرنس منعقد ہوئی جس میں طبی ماہرین اور جیدعلما نے شرکت کی۔ اس کانفرنس کے چند روز بعد جدہ (سعودی عرب) میںاسلامی فقہی کونسل کی دسویں کانفرنس کا انعقاد ہوا۔ ان دونوں کانفرنسوں میں دیگر مسائل کے ساتھ روزہ فاسد ہونے کی طبی وجوہ پر ماہرین نے عوام الناس کے لیےجو ہدایات جاری کیں، ان فتاویٰ کا خلاصہ درج ذیل ہے:
۱- غذائیت والے انجکشن لینے سے روزہ فاسدہوجاتا ہے۔
۲- غذائیت والے انجکشن کا استعمال ایسے ہی ہے جیسے منہ کے راستے کھانا پینا۔
۳- روزے کی حالت میں نمکیاتی محلول یا Normal Saline کا بین الورید استعمال بھی روزے کوفاسد کردیتا ہے۔{ FR 645 }
درحقیقت یہ مریض یاڈاکٹر کی نیت کا مسئلہ نہیں ہے۔ معروضی حقیقت یہ ہے کہ روزے کی حالت میں ایک شخص کو انجکشن کے ذریعے غذائی مواد یا نمکیاتی محلول فراہم کیاجارہا ہے اور یہ عمل روزہ فاسد ہونے کا باعث بنتا ہے۔
بعض علما کی راے روزے کی حالت میں انجکشن کےحوالے سے اور زیادہ سخت ہے اور وہ ہرقسم کے انجکشن کے استعمال پر پابندی عائد کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انجکشن خواہ غذائیت بخش ہو یا درد اور بخار کے لیے استعمال کیا جائے، دونوں صورتوں میں پانی یا محلول کی مناسب مقدار جسم میں داخل ہوکر دورانِ خون کا حصہ بن جاتی ہے۔ جب معتاد راستوں سے جسم میں داخل ہونے والی اشیا کی ہم تخصیص نہیں کرتے تو یہ تخصیص انجکشن کی صورت میں بھی نہیں ہوگی۔ کسی شخص کوروزے کی حالت میں اس بات کی اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ چھوٹی سی ایک گولی بغیر پانی کے نگل جائے۔ اگر وہ ایسا کرے گا تو اس کا روزہ فاسدہوجائے گا حالاں کہ ایک چھوٹی سی گولی بھوک اور پیاس پر کوئی اثر نہیں ڈالتی۔ یہی اصول انجکشن کے معاملے میں بھی لاگو ہوگا۔
یہاں فقہ کے ایک اور بنیادی اصول کو ذہن میں رکھنا ہوگا۔ اس اصول کے مطابق جس شے کی زیادہ مقدار حرام ہوتی ہے اس کی کم مقدار بھی حرام ہوتی ہے۔ شراب اور دیگر نشہ آور اشیا مقدارسے قطع نظرہرحال میں حرام قراردی گئی ہیں۔ روزے کی حالت میںپانی کا ایک گھونٹ یا گلاس دونوں حرام اور روزے کے فاسدہونے کا ذریعہ ہیں۔ اسی طرح انجکشن خواہ ایک ملی لٹر ہو یا پانچ سو ملی لٹردونوں صورتوں میں ممنوع ہوگا۔ بریلوی مکتبۂ فکر کے صاحب ِ تفسیر اور ممتاز عالمِ دین مولانا غلام رسول سعیدیؒ نے بڑے سائنسی انداز میں اس مسئلے کا جائزہ لے کر ہرقسم کے انجکشن کو ممنوع قراردیا ہے۔ میں دین کا ادنیٰ طالب علم ہوں مگرمجھے مذکورہ راے میں زیادہ وزن محسوس ہوتا ہے۔ آخر میں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ جن چیزوں کی ممانعت قرآن و حدیث اور اجماعِ صحابہ سے ثابت ہے، ان پر بحث کی کوئی گنجایش نہیں ہے۔ اگر یہ ممانعت بعد میں علما کی طبی معلومات کی بنیاد پر عائد کی گئی ہے تو اس پر بحث کی گنجایش ہے اور ہرایک کی راے میں تبدیلی کا امکان موجودہے۔