مضامین کی فہرست


ستمبر ۲۰۲۰

امت مسلمہ تاریخ کے ایک نازک مرحلے سے گزر رہی ہے، مگر یہ کوئی نئی بات نہیں، کیونکہ امت کی پوری تاریخ بتاتی ہے کہ اسے ہر زمانے میں طرح طرح کے چیلنجوں اور بحرانوں سے واسطہ رہا ہے۔ اُمت کی امتیازی شان ہے کہ وہ بحرانوں سے نبٹتے ہوئے ہربار اپنی قوت کو بحال کرلیتی ہے کیوں کہ اُسے نشاتِ ثانیہ کی طرف بڑھنا ہوتا ہے۔ ایک لحاظ سے اس امت کے لیے یہ ایک ناگزیر عمل ہے۔اسلام، ایک دائمی اور عالم گیر پیغام کے طور پر ، نہ تو بحران کی کیفیت سے بچ سکتا ہے اور نہ مدوجزر اور احیا و تجدید کے مراحل سے دامن چھڑا سکتا ہے۔ اسی طرح کچھ معاملات میں تو تقسیم و تفریق اور پھر اتحاد و اتفاق کی بحالی کے عمل سے بھی گزرنا اس کی تاریخ کا لازمی حصہ رہا ہے۔

در حقیقت، ذات باری تعالیٰ نے انسان کو اختیار اور ارادے کی جس صلاحیت اور نعمت سے نوازا ہے، اس وہبی انتظام و انصرام کے پیش نظر تبدیلی کا یہ عمل ناگزیر ہے۔ اسلامی اسکیم کی ساخت میں کچھ عناصر ایسے ہیں، جو ناقابلِ تغیر اور مستقل حیثیت سے ہمارے سامنے آتے ہیں۔ وہ ہردور اور ہرعہد کے نظام کے لیے بنیادی حوالے کی تشکیل کا کام کرتے ہیں۔ ان ناقابلِ تبدیل عناصر کے ساتھ ساتھ کچھ ایسے عناصر بھی موجود ہیں، جو بنیادی خدائی اسکیم کے اندر رہتے ہوئے، لچک دار ہیں اور ہرزمانے کے تقاضوں کا ساتھ دینے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔

اُمت مسلمہ کی زبوں حالی

آج کے دور کی صورت حال ،کچھ بنیادی اختلافی اُمور کے باجود، بیسویں صدی کے  آغاز کے منظر نامے سے بہت حد تک ملتی جلتی ہے۔ انیسویں صدی کے اختتام پر، مسلم اُمّہ، جس نے ایک ہزار سال تک عالمی طاقت کی حیثیت سے ایک ممتاز کردار ادا کیا تھا، یورپی سامراج کی فوجوں کے حملوں سے مکمل طور پر مغلوب ہو گئی۔ طاقت کا توازن مسلم دنیا کے مفادات کے حوالے سے یکسر تبدیل ہو گیا جس کے نتیجے میں پوری مسلم تہذیب کے وسیع دائرے پر اس غلبے کے دُور رس نتائج نکلے۔ مغربی سامراجی طاقتیں، ایک الگ تہذیب اور روایت کی نمایندگی کرتی ہیں۔ جب ان کے توسیع پسندانہ فکری عزائم نے طاقت کے ذریعے معاشرتی حرکیات پر قابو پانےکی کوشش کی تو معاندانہ تہذیبی رویے کھل کر سامنے آگئے۔ محکومی کے اس دور میں مسلم اُمّہ کی معیشت برباد کر دی گئی، اس کی سیاسی طاقت کو ملیا میٹ کر دیا گیا۔ انجامِ کار سائنسی، دنیاوی علوم اور ٹکنالوجی پر اس کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی اور پھر اس پر مستزاد یہ کہ اس کی اخلاقی، تہذیبی، روحانی اور فکری طاقت بھی زوال پذیر ہوگئی اور آخرکار ۳مارچ ۱۹۲۴ء کو اس کی تہذیبی شان و شوکت کا جو آخری علامتی نشان خلافت عثمانیہ کی شکل میں بچا ہواتھا ، اسے بھی مٹا دیا گیا۔ 

یہی وہ پس منظر تھا، جس میں پوری دنیا کے متعدد مسلم رہنماؤں نے اس سوال پر انتہائی غوروفکر کرکے کسی نتیجے پر پہنچنے کی کوشش کی، کہ آخر امت مسلمہ سے کہاں غلطی سرزد ہوئی ہے جو اتنی بڑی افتاد آن پڑی ہے؟ کیا آج کے دور میں خدانخواستہ اسلام کی بنیادی تعلیمات واقعی غیرمتعلقہ ہوکر رہ گئی ہیں؟ یا ان تعلیمات کے بارے میں مسلمانوں کے نقطۂ نظر اور ان کے تاریخی کردار و عمل ہی میں کچھ نقائص پیدا ہوگئے ہیں؟ مراد یہ کہ مسلمان اس ہدایت الٰہی کے ساتھ جس طرح کا سلوک کررہے ہیں، کیا یہ اس نافرمانی کا نتیجہ ہے؟ اور آخر کار امت مسلمہ کو بحالی اور تعمیر نو کے راستے پر کیسے ڈالا جاسکتا ہے؟

ان سوالات پر جمال الدین افغانیؒ [م:۱۸۹۷ء]، محمدعبدہٗ ؒ[م:۱۹۰۵ء]،امیر شکیب ارسلانؒ [م:۱۹۲۱ء]، سعید حلیم پاشا ؒ[م:۱۹۲۱ء]، رشید رضاؒ [م:۱۹۳۵ء]، محمداقبالؒ [م:۱۹۳۸ء]، حسن البناؒ شہید [م:۱۹۴۹ء]،ابوالکلام آزادؒ [م:۱۹۵۸ء]، بدیع الزمان سعید نورسیؒ [م:۱۹۶۰ء]، مالک بن نبیؒ [م:۱۹۷۳ء] ، ابوالاعلیٰ مودودیؒ [م:۱۹۷۹ء] اور کئی دیگر دانش وَروں اور اصلاح پسندوں نے غورو فکر کیا، اور اُمت مسلمہ کو زوال سے نکالنے کے لیے بعض تجاویز پیش کیں اور راہِ عمل کی نشان دہی کی۔

احیاے اسلام کے لیے مولانا مودودیؒ کی مساعی

مفکرین اور مصلحین کی اس جگمگاتی کہکشاں میں ، مولانا مودودی ایک منفرد مقام رکھتے ہیں۔  ان کی عمر بمشکل ۱۷ سال ہوگی، جب انھوں نے ۱۹۲۰ء میں اپنے نازک و ناتواں کندھوں پر امت مسلمہ کی تعمیر نو کے انتہائی بھاری کام کا بوجھ اُٹھانے کا تہیہ کیا۔ دس سال کی ابتدائی صحافتی زندگی کی   صف اوّل میں رہنے والے مولانا مودودی نے مسلم فکر کی تشکیل نو کے لیے اور اسلام کو عالمی نظریے اور ایک منفرد طرزِزندگی کے طور پر پیش کرنے کے لیے، اپنی کوششوں کا آغاز کیا۔ان کا بنیادی مقصد احیاے امت کے لیے ایک ایسا نقشۂ کار (روڈ میپ) تیار کرنا تھا، جو مجموعی طور پر پوری انسانیت کے لیے منفعت بخش ثابت ہو۔

الجہاد فی الاسلام  (۱۹۲۹ء) اس سلسلے میں مولانا مودودی کی طرف سے کی گئی پہلی بھرپور کوشش تھی۔ اس وقت سے لے کر وفات (۲۲ ستمبر ۱۹۷۹ء ) تک،احیاے اسلام اور اصلاحِ ملّت اسلامیہ کے حوالے سے انھوں نے ۴۰ سے زائد کتب، اور سیکڑوں مضامین تحریر کیے، جو اسلامی فکر کے تقریباً ہر پہلو پر محیط ہیں۔ اس علمی سفرمیں ان کا سب سے عظیم کام کئی ہزار صفحات پر مشتمل تفہیم القرآن کی شکل میں وہ تفسیر قرآن ہے جو چھے جلدوں پر مشتمل ہے۔

 اسلامی فکر کی تشکیل نو کے علاوہ مولانا مودودی نے امت مسلمہ کے زوال کے اسباب، مسلم معاشرے میں در آنے والی کمزوریوں،اور خرابیوں کی نشان دہی پر مشتمل ایک وسیع تنقیدی لٹریچر بھی تخلیق کیا، اور اس سلسلے میں خرابی کو دُور کرنے کا حل بھی بتایا۔ وہ مغربی تہذیب کے ایک طاقت ور نقاد ، اور مغرب کو اسلام پر عصری حملوں کا اصل کھلاڑی قرار دینے والے اہم مفکر کے طور پر بھی سامنے آئے۔ وہ، مادی دنیا میں، مغربی تہذیب کی کامیابیوں اور اس کے عصری نظریات سے غافل نہیں تھے لیکن وہ ان کامیابیوں کے خوشہ چیں ہونے کے بجائے، اس تہذیب کی فکری اُلجھنوں، اخلاقی پستیوں، اس کے سیاسی اور ثقافتی عدم استحکام اور اس کی معاشی نا انصافیوں اور استحصال پر اس کے سخت ناقد تھے،تاہم اگر انھوں نے مغرب میں کوئی خوبی دیکھی تو اس کا اعتراف کرنے میں تنگ دلی سے کام نہیں لیا۔مولانا مودودی کے افکار نےمسلمانوں کی تین نسلوں کو متاثر کیا ہے۔ اس لیے یہ کہنا کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے کہ انھیں عصر حاضر میں، احیاے اسلام کی جدوجہد کرنے والوں کا ایک مرکزی معمار سمجھا جاتا ہے۔

مولانا مودودی کی بنیادی تحریروں کا رواں انگریزی ترجمہ وقت کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں، میں نے ۱۹۵۴ء سے ۱۹۶۰ء کے دوران میں کچھ کام کیا تھا ۔ بعد ازاں ۱۹۸۰ء میں میرے عزیز ترین رفیق خرم مراد [م: ۱۹۹۶ء] نے بھی اس کارخیر میں بڑا قیمتی اضافہ کیا۔ اور میرے دوسرے نہایت عزیز ساتھی ڈاکٹر ظفراسحاق انصاری [م: ۲۰۱۶ء] نے بہت جم کر، مولانا مودودی کے علمی کارنامے، یعنی قرآنِ کریم کی تفسیر تفہیم القرآن کا ترجمہ کرنے میں اپنی آدھی زندگی کے بہترین اوقات صرف کر دیے۔ اللہ تعالیٰ انھیں بلند درجات عطا فرمائے۔ لیکن یہ سارا کام مجموعی طور پر، مولانا مودودی کے کام کا ۲۰ فی صد بھی نہیں تھا، جو اردو سے انگریزی میں منتقل ہوا۔اس سلسلے میں ہم نے یہ منصوبہ بنایا ہے کہ مولانا مودودی نے جو تحریریں بالکل مقامی یا وقتی ضرورتوں کے پیش نظر لکھی تھیں، ان کے علاوہ باقی سب تحریروں کو انگریزی کے قارئین کے لیے پیش کیا جائے، اور پھر دنیا کی دوسری اہم زبانوں میں بھی ان کے تراجم کیے جائیں۔

اس پس منظر میں دیکھا جائے تو  بیسویں صدی میں مولانا مودودی نے جو علمی خدمت انجام دی، اسے کم ازکم بیسویں صدی کی احیاے اسلام کی تحریکوں کے ایک چراغِ راہ کے طور پر ،اور اکیسویں صدی میں امت کی رہنمائی کے لیے ایک روشن مینار کے طور پر دستیاب ہونا چاہیے۔ یہ کام بدلتے ہوئے حالات اور نئے چیلنجوں کے پیش نظر، مستقبل کی نسلوں میں اسلامی تصورات اور حکمت عملی کو مزید ترقی دینے کے لیے مدد اور موقع فراہم کر سکتا ہے۔ ہر انسان خواہ وہ کتنی ہی عظیم خدمات انجام دینے والا ہو، اس کی کچھ نہ کچھ حدود ہوتی ہیں۔ ان انسانی حدود کے باوجود مولانا مودودی نے ساٹھ سال کے عرصے میں جو کچھ لکھا، وہ نئے چیلنجوں کا مقابلہ کرتے ہوئے، مسلم معاشرے کی بحالی اورمسلم افکار کی تنظیم نو اور مسلم ثقافت کی تعمیر نو کےمسائل اور مشکلات سے لازوال مطابقت رکھتا ہے۔

مولانا مودودی کا کام نہ صرف فکری رہنمائی کے حوالے سے اہم ہے بلکہ بدلتے ہوئے حالات کے مطابق اسلامی تعلیمات کے پیغام اور مقاصد کو صحیح معنوں میں سمجھنے کے لیے درکار رہنمائی کے طور پر بھی اہم ہے۔ ان کا کام نہ صرف حقائق اور اصولوں کو جاننے میں رہنمائی کرتا ہے بلکہ ان کے اطلاق کے طریق کار میں بھی معاون ثابت ہوتا ہے۔

اس حوالے سے مولانا مودودی کے وہ مضامین بہت اہمیت کے حامل ہیں ،جو انھوں نے سیکولرزم کا تحقیقی و تنقیدی مطالعہ کرتے ہوئے ۱۹۳۰ء اور ۱۹۴۰ء کے عشرے میں مذہب اور معاشرے کی علیحدگی، خدائی ہدایت اور ریاست، سیکولر اور دینی تصورات پر بحث کرتےہوئے لکھے تھے۔  ان مضامین میں زندگی کے ان امور اور مسائل پر خاص توجہ دی گئی ہے، جن کے بارے میں اسلام اور سیکولرزم کا نقطۂ نظر باہم مختلف اورمتصادم ہے ۔اگرچہ ان تحریروں کو نصف صدی سے بھی زیادہ عرصہ گزر چکا ہے اور زبان و بیان کے انداز اور بحث کے اسلوب بدل چکے ہیں، اس کے باوجود   یہ مباحث آج بھی تروتازہ اور متعلقہ ہیں۔ تاہم، یہاں سوال زبان و بیان کا نہیں بلکہ اصل مواد اور نقطۂ نظر کا ہے۔ بظاہر ایسا نظر آتا ہے کہ مولانا مودودی نے سیکولرزم پر بہت سخت تنقید کی ہے اور اس کے ذیلی مباحث پر بہت جامع گفتگو کی ہے۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ جب آپ کسی غالب طرزِ اظہار اور منہاج فکرو عمل کو چیلنج کر رہے ہوتے ہیں، تو پھر اس میں سب سے پہلے وحشی بیل کو اس کے سینگوں سے پکڑنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوتا اور یہی وہ ناگزیر عمل تھا، جو مولانا مودودی نے اپنے ابتدائی مباحث میں سرانجام دیا۔

بنیادی طور پر ان کے مخاطب، سامعین اور قارئین برطانوی مقبوضہ ہندستان کے مسلمان تھے، لیکن عمومی طور پر وہ پوری دنیا کے مسلمانوں سے خطاب کر رہے تھے۔ چونکہ دنیا کے دیگر علاقوں میں بسنے والے تمام انسانوں کے لیے بھی یہ مسائل اور معاملات ایک جیسے ہی ہیں اور اخلاقی اور نظریاتی میدان میں سیکولرزم اورلبرلزم کا چیلنج آج بھی اتنا ہی متعلق ہے، جتنا ۱۹۳۰ءکے عشرے میں تھا، اس لیے مولانا مودودی کی تنقیدِ مغرب پر مشتمل مقالات آج بھی نئی نسلوں کو سوچ اور فکر کے لیے ایک نئی غذا فراہم کر تے ہیں۔ ہماری اس تحریر کو مولانا مودودی کے مذکورہ مضامین پر ایک حاشیہ ہی تصور کیا جانا چاہیے اور ہمیں امید ہے کہ یہ حاشیہ قارئین کو سیکولرزم او ر اس کے ذیلی مباحث،  اصطلاحات اور ان کے پس منظر کو جاننے میں مدد فراہم کرے گا۔

______ 

’سیکولرزم‘ ایک اہم، سیاسی، تاریخی، فکری تحریک کی نمایندگی کرتا ہے ، جس نے گذشتہ تین صدیوں کے دوران یور پ اور امریکا میں تشکیل پانے والے معاشرتی اور سیاسی نظم کی اساس اور خصوصیات کو تبدیل کر دیا ہے ۔ یہ رومن سلطنت کے خاتمے کے بعد پیدا ہونے والی ایک نئی سوچ ہے، جو خدائی رہنمائی کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے، پورے سیاسی، معاشی، معاشرتی اور قانونی نظام کو خالص انسانی عقل اور تجربے کی بنیاد پر چلانےکے ضمن میں تشکیل پائی ہے۔اگر یہ سوچ ،مذہب کو کچھ معمولی جگہ دینے کے لیے تیار بھی ہے تو صرف اس حد تک کہ مردوں اور خواتین کی نجی اور خانگی زندگی میں، چند رسم و رواج یا عبادات وغیرہ کی شکل میں، مذہب اپنا کردار ادا کر سکتا ہے ۔ لیکن سیکولرزم انسانی زندگی اور معاشرے کے سیاسی و معاشرتی طول و عرض میں پالیسیوں کی بڑی جہتوں کو طے کرنے میں اورقواعد و ضوابط تشکیل دینے میں مذہب کا کوئی کردار تسلیم نہیں کرتا۔ یہ سیکولرزم کےبنیادی اصول کی اصل ہے۔ لیکن جہاں تک فروع کی بات ہے تو تفصیلات کے اندر،سیکولرزم کا کردار، زیادہ متنوع اور کثیر جہتی ہے۔کم از کم ان میں سے تین اہم جہتوں کو واضح طور پر بیان کرنا مفید ہوسکتا ہے جن میں سیکولرزم کی شراکت اوراس کا کردارزیادہ اہمیت کا حامل ہے۔

سیکولرزم: دینی اور دُنیاوی تقسیم

پہلی جہت یہ ہے کہ ، چرچ کے اقتدار کے دور میں یورپی مذہبی تجربے کی تاریخی مطابقت جو بھی ہو، عیسائی دنیا کا نظریۂ زندگی (مسیحی ورلڈ ویو)، دنیا کو الوہی اور دنیاوی یا مقدس اورسیکولر کے خانوں میں تقسیم کرنے کےخیال میں مگن رہا۔ ’’جو خدا کا ہے خدا کو دو، اور جو قیصر کا ہے قیصر کو دو‘‘ جیسی تعلیمات اس نقطۂ نظر کی نمایندگی کرتی ہیں۔ جس میں مذہب کی غرض اور خدا اور انسان کے تعلق کا سوال بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ اس نقطۂ نظر کے مطابق سیکولر زندگی کا پورا دائرہ جو دنیاوی اُمور سے متعلق تھا، اسے دنیادار لوگوں کے لیے چھوڑ دیا گیا ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ مذہبی شخصیات کی طرف سے دنیاوی امور کو نظر انداز کرنا ایک حقیقت تھی۔ گویا روحانی دنیا کے ساتھ ان کا تعلق محض ایک جنون اور تقدس کی علامت بن کر رہ گیا ۔ دنیاوی زندگی سے بے رغبتی کا طرزِ عمل دنیا سے نفرت کی علامت بن گیا اور یہ نقطۂ نظر مذہبی اخلاق کا ایک خاصہ بن گیا۔ اس نقطۂ نظر کا فطری نتیجہ رہبانیت اور خانقاہیت کی شکل میں نکلا۔ دنیا وی دائرے کو مقدس دائرے کی نسبت سے اس قدر کم تر اور فروترتصور کیا گیا کہ اسے روحانی لوگوں کے لیے قابل قبول ہی نہیں سمجھا جاتا تھا۔ اس کی بدترین اور چشم کشا مثال مغربی مصنّفین نے یہ دی ہے کہ قرونِ وسطیٰ میں عیسائی راہب صرف اَزدواجی زندگی ہی سے اجتناب نہیں کرتے تھے بلکہ صفائی ستھرائی اور غسل تک کو بھی دُنیاداری سمجھتے تھے، نتیجتاً ان کے بدن اور کپڑوں سے بدبو دُور ہی سے آنا شروع ہوجاتی تھی۔

اس کے مقابلے میں بزعمِ خود’روشن خیالی‘ اور ’نشاتِ ثانیہ‘ کی تحریک نے اس نظریے کو چیلنج کیا اورزندگی کے جسمانی اور دنیاوی دائرے کےتقاضوں کو زیادہ اہمیت دی۔ جس کےنتیجے میں ساری توجہ مذہب سے ہٹ کر، دنیاوی معاملات پر مرکوز ہوگئی۔ اس لیے اب مطالعہ اورعمل جیسے شعبہ جات کا محور ’خدا‘ کے بجائے ’انسان‘ اور اُخروی زندگی کے بجائے مادی دنیا قرار پایا۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ سیکولر تحریک، اُخروی زندگی پر دنیاوی زندگی کے غلبے کی جدوجہد پر مبنی ایک ہمہ پہلو اورجارح تحریک ہے، جس میں فسطائی فکروعمل کے عناصر بھی بدرجۂ اتم موجود ہیں۔ اس کے نتیجے میں، انسانی معاشرتی زندگی میں، روحانی دنیا کے معاملات اور اُمور سے لاتعلقی نے ایک مریضانہ رُخ اختیار کیا۔ جس سے دنیاوی ضروریات کی طرف رغبت اور مادہ پرستی و ذاتی مفاد کی پرستش کے جنون نے ایک بھونچال برپا کردیا۔

چرچ کی حکومتوں کی مذہبی عدم رواداری

سیکولر تحریک کی دوسری جہت یہ ہے کہ یورپ میں زمانۂ وسطیٰ (Middle Ages) میں چرچ کی حکومتیں، عدم رواداری، مذہبی و فرقہ وارانہ ظلم و ستم، معمولی جرائم پر شدید سزائیں دینے، حتیٰ کہ پھانسیاں دینے کے حوالے سے مشہور تھیں۔ان کی اس پہچان اور جبر نے مذہب کو ایک ظالمانہ طاقت کے طور پر بدنام کیا۔ اس زمانے میں یورپ کے عیسائی فرقوں کے درمیان بدترین جنگیں برپا ہوئیں، جن میں لاکھوں انسان موت کے گھاٹ اُتار دیے گئے، اور محض مسلکی اختلاف کی بناپر خون کے دریا بہائے گئے، جو بالآخر ۲۴؍اکتوبر ۱۶۴۸ء کو ’ویسٹ فالیا معاہدے‘ (Treaty of Westphalia ) پرمنتج ہوئے،  جس سے سیکولر دور کا آغاز ہوتا ہے۔

ان حکومتوں کی اس مذہبی عدم رواداری کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک آبادی نے یورپ سے امریکا کی طرف نقل مکانی بھی کی۔ سیاسی نظام میں پاپائی طاقت کے غلط استعمال سے مذہب کے خلاف بدگمانیاں پیدا ہوئیں۔ اس تناظر میں سیکولر تحریک نے ’کثیرعقیدگی‘ اور’مذہبی تنوع‘ کے اصول کو پیش کیا اور نتیجے کے طور پر سیاست و ریاست سے مذہب کے کردار کو خارج کر دیا۔ اس طرح نہ صرف سیاست میں مذہب کا کردار ختم ہوگیا، بلکہ سیاست سے ان روحانی اور اخلاقی اقدار کا بھی خاتمہ ہوگیا جن کی بنیاد مذہب پر تھی۔یوں چرچ اور سیاست کے مابین کشیدگی اور مسابقت اپنے بدنما انجام کو پہنچی اور دونوں اپنے اپنے دائرے میں خود مختار ہو گئے۔

بےخدا کائنات کی تعبیر اور لادینیت

سیکولر تحریک کی تیسری جہت یہ ہے کہ یہ تحریک مذکورہ دو بڑی تہذیبی تبدیلیوں تک محدود نہیں رہی بلکہ اس نے مزید وسعت اختیار کرتے ہوئے ایک ایسا منہاج اور ماڈل تشکیل دے دیا، جس میں تمام سیاسی اور معاشرتی امور’خدا‘ سے غیر متعلق ہو گئے۔ کائنات اور فطرت کے قوانین کی ایک نئی تعبیر و تشریح تیار کی گئی، جس میں خدا کو تمام چیزوں کےوجود کے پیچھے کارفرما اصل قوت کے طور پر نظر انداز کرتے ہوئے خارج کر دیا گیا۔ اس کی وضاحت فرانسیسی بادشاہ اور نیوٹن [م: ۱۷۲۷ء] کے مکالمے کی مثال سے بخوبی ہوتی ہے کہ جب فرانسیسی بادشاہ نے نیوٹن سے پوچھا کہ کائنات کے بارے اس کی میکانکی تشریح میں خدا کی طاقت کی کارفرمائی کا کوئی ذکر کیوں نہیں ہے؟ تو نیوٹن نے سیدھا سادا جواب دیا: جہاں پناہ! مجھے میکانکی دنیا کی وضاحت کے لیے خدا کی ضرورت نہیں ہے۔

نیوٹن کی یہ بات ، کائنات کی اس نام نہاد میکانکی وضاحت تک ہی محدود نہیں تھی، بلکہ یہ انسانی زندگی کے وسیع دائرے تک پھیلی ہوئی تھی۔ اس کے مطابق یہ دعویٰ کیا گیا کہ اس کرۂ ارض پر انسانوں کو اپنی زندگی گزارنے کے لیے صرف انسان کی عقل اور تجربات کی رہنمائی ہی کافی ہے۔ لوگوں کو صرف اس حد تک رعایت دی گئی کہ اگر وہ اپنی انفرادی اور ذاتی زندگی میں خدا پر بھروسا رکھنا چاہیں تو ایسا کرسکتے ہیں، لیکن جہاں تک معاشرے، معیشت، عدل اور سیاست کے مسائل اور معاملات کا تعلق ہے تو وہ لوگوں کی خواہشات کی بنیاد پر حل کیے جائیں گے اور اس سلسلے میں صرف انسانی عقل اور تجربے ہی سے رہنمائی لی جائے گی۔ چنانچہ انسان کی حاکمیت اور خود مختاری، ایک نئے تجربے کے طور پر ابھر کر سامنے آئی اور یہ انسانی حاکمیت اور خودمختاری، ایک رہنما اصول بن گیا اور انسانی عقل اور تجربے کو ، معاشرے کے ارتقا کے لیے درکار تمام اقدار کے حتمی وسیلے اور بنیاد کے طور پر مان لیا گیا۔

فلسفے کے پروفیسر ورجیلیس فرم (م:۱۹۷۴ء) نے روشن خیالی اور سیکولرزم کے تصورات پر اپنے خیالات کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے لکھا ہے:

جمالیاتی اور دانش ورانہ بیداری کی لہر اور سیکولر ثقافت کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ان کا ظہور چودھویں صدی عیسوی میں اٹلی میں ہوا___خواہ اس کو بہتر کہیں یا بدتر، مگر نشاتِ ثانیہ کے انقلاب میں اس کا کردار ضرورموجودتھا۔ اور یہ کلیدی کردار سیکولر ہیومن ازم کا تھا، جس کا تعلق انسانی غوروفکر اور دنیاوی اقدار کی پہچان پر مبنی ہے اور یہ مذہبی اور کلیسائی منظوری سے مشروط نہیں ہے (انسائیکلوپیڈیا آف ریلیجن، فلسفیانہ لائبریری، نیویارک، ص۶۵۶،۶۵۷)۔

روشن خیالی اس تحریک کا نام ہے، جو اٹھارھویں صدی کے عام ماحول کی خصوصیات کی حامل ہے۔ اس کے ماخذ کو ، نشاتِ ثانیہ کے دو ر میں تشکیل پانے والے اس انسانی ذہن اور روحانی فضا میں تلاش کرنا چاہیے، جو اپنے مادیت پسندی اور انفرادیت پسندانہ رجحانات کے ساتھ لوگوں کے ذہن میں منطقی اور عقلی خود مختاری کا فخر اور شعور اجاگر کر رہی تھی۔ ایک تاریخی مظہر کی حیثیت سے، روشن خیالی کی تحریک، حقیقی انسانی زندگی میں عقلی و منطقی کردار کو اپنانے اور اس کا اطلاق کرنے کی جدوجہد کی نمایندگی کرتی ہے۔(حوالہ بالا، ص ۲۵۰)

’سیکولرزم‘ خاص طور پر مختلف افادی معاشرتی نظریۂ اخلاقیات جسے برطانیہ کے معروف سیکولرسٹ جارج جیکب ہولوک نے انیسویں صدی میں تشکیل دیا جو مذہب کے حوالے کے بغیر انسانی ترقی کی بات کرتا ہے ، اور خاص طور پر انسانی عقل ، منطق، سائنس اور سماجی تنظیم کو بنیاد بناتا ہے۔

سوشل سائنس انسائی کلوپیڈیا میں سیکولرزم اور سیکولرائزیشن کے ’اصولوں‘ کی نشان دہی اس طرح کی گئی  ہے:’’ سیکولرائزیشن سے مراد معاشرے کی اخلاقی زندگی سے مذہبی عقائد، رسم و رواج اور معاشرتی احساس کو تبدیل کرنا ہے ۔ سیکولر سوسائٹی میں روزمرہ زندگی کا ہر تجربہ ، مقدس دعا کے آغاز کے بغیر جاری رہتا ہے۔ تاہم، یہ ’روشن خیالی‘ کا فلسفہ تھا، جس نے مکمل سیکولرائزیشن کا بنیادی محرک فراہم کیا۔ پھر یہ تجویز پیش کی کہ معاشرے کی بنیاد ایسے اخلاقی اصولوں پر رکھی جائے، جو انسانی معاشرتی زندگی کی آفاقی نوعیت کی عقلی تحقیقات کے ذریعے وضع کی جائیں۔ یاد رہے معاشرتی تنظیم کے عقلی اصولوں کو اکثر مذہبی روایات کے خلاف عدم اعتماد کے طور پر پیش کیا جاتا تھا‘‘۔ (سیکولرائزیشن، سوشل سائنس انسائی کلو پیڈیا،ص۷۳۷)

اسی طرح جدید مسلم دنیا کے بارے میں اوکسفرڈ یونی ورسٹی کا انسائیکلوپیڈیا بھی تقریباً اسی موقف کو دُہراتا ہے: ’’سیکولرزم کی اصطلاح اس بات کی نشان دہی کرتی ہے کہ یہ مذہبی نہیں ہے۔ اس کی بنیاد لاطینی زبان کے لفظ ’سیکولم‘ میں ہے، جس کے بنیادی معنی’نسل‘،’عمر‘ یا ’زمانہ اور دور‘ کے ہیں۔ بعد میں یہ لفظ اس مادی دنیا کے معاملات سے وابستہ ہو گیا، جو جنت کے حصول کی غرض سے کیے گئے اعمال وغیرہ سے بالکل الگ ہیں۔سیکولرزم یا سیکولرائزیشن کا عمل یورپی تاریخی تجربے سے ماخوذ ہے اور اس کا مطلب یہ تھا کہ زندگی کے تقریباً تمام پہلوؤں اور فکر ی سوچ کو مذہبی تعلق اور کلیسائی مداخلت سے آہستہ آہستہ بالکل آزاد کر دیا جائے‘‘۔ (اوکسفرڈ انسائی کلو پیڈیا آف ماڈرن اسلامک ورلڈ، مدیر: پروفیسر جان ایل اسپوزیٹو، جلد چہارم، ص۲۰)

اسلام اورجمہوریت

اوپر کے اقتباسات میں ’سیکولرزم‘ کے جو تین پہلو بیان کیے گئے ہیں، ان میں پہلے دوپہلوؤں سے اسلام ان معاملات کو مختلف اور منفردطریقے سے مخاطب کرتا ہے ۔تاہم، اس کا اصل فرق معاشرے اور ریاست کے معاملات میں مذہب کے کردار سے متعلق ہے۔ اسلام ، زندگی کو روح اور مادے، مقدس اور غیر مقدس، روحانی اور دنیاوی جیسے خانوں میں تقسیم نہیں کرتا۔ اسلام، زندگی ’بطور ایک کُل‘ پر یقین رکھتا ہے۔یعنی سیکولر دنیا بھی اسلام سے اتنی ہی متعلق ہے جتنی روحانی دنیا۔ اسلام کے اس طرزِ عمل کا خلاصہ ایک قرآنی دعا میں اس طرح پیش کیا گیا ہے :

رَبَّنَآ اٰتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَۃً وَّفِي الْاٰخِرَۃِ حَسَـنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ (البقرة ۲:۲۰۱)اے ہمارےرب!ہمیں دنیا اور آخرت دونوں میں بہترین چیز عطا فرما۔ اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔

اسلام میں یہ دنیا اور اس کے بعد کی دنیا ایک دوسرے کے ساتھ منسلک ہیں،اور وہ دونوں ایک تسلسل کی نمایندگی کرتی ہیں۔اسلام زندگی کے دنیاوی امور سے بھی اسی طرح متعلق ہے،   جس طرح وہ روحانی اور اخلاقی جہات سے متعلق ہے۔یہ جہتیں ایک ہی سکّے کے دو رُخ ہیں۔ ہرایک حصہ، دوسرے پر منحصر ہے اور دونوں ایک دوسرے کو مضبوط کرتے ہیں۔ اسلام، کچھ مذاہب یا مذہبی شخصیات کی طرف سے دنیوی امور کو نظر انداز کرنے کے معاملے کو ، ان کی ناکامی قرار دیتا ہے۔ اسلام نے ان سب امور کو بہت اچھے طریقے سے مخاطب کیا ہے اور ان پر قابو پایا ہے۔

اسلام بنی نوع انسان کی تکریم کرتا ہے کیوںکہ انسانوں کے مابین یہ اس کے دنیاوی عمل اور عدل و انصاف کے کردار کا بڑا دائرہ ہے۔ اس طرح یہاں ان کی مطابقت کے حصول کے لیے کسی مبینہ اور مفروضہ ’روشن خیالی‘ کی ضرورت نہیں ہے۔یہاں پورے سیکولر یا دُنیوی دائرے کو روحانی شکل دی گئی ہے۔ اسلام روحانی طول و عرض میں اور انفرادی اور اجتماعی زندگی کے دُنیوی (سیکولر) میدانوں میں بھرپور اظہار کرتا ہے۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ زمین کا پورا منظر نامہ ایک مسجد کی طرح ہے ۔ اس کا محض یہی مطلب نہیں کہ کوئی شخص دنیا میں کہیں بھی عبادت یا دعا کر سکتا ہے بلکہ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ انسان کے دُنیاوی یا سیکولر معاملات پوری طرح روحانی معاملات کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔اسلام نے بھی کثیر العقیدگی ، کثیر الثقافتی آزادی اور متنوع انتخاب کی آزادی کے اصولوں کی واضح اور دلیرانہ تصدیق کی ہے۔ یہ خلافت کے تصور کی ایک فطری شکل ہے، جس کی بنیادیں انسانی آزادی اور صواب دید کے اصول پر مبنی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے خود ہر انسان کو آزادی کی نعمت عطا کی ہے کہ وہ جو بھی چاہے عقیدہ منتخب کرے اور اس پر عمل پیرا ہو: لَآ اِكْرَاہَ فِي الدِّيْنِ (البقرہ ۲:۲۵۶)’’دین کے معاملے میں کوئی زور زبردستی نہیں ہے‘‘۔

اسی طرح ’میثاقِ مدینہ‘ انسانی تاریخ کا پہلا دستور ہے، جس میں مسلمانوں اور مدینہ کے غیرمسلم قبائل کے درمیان سیاسی، عسکری اور اجتماعی معاملات کے خطوطِ کار طے کیے گئے ہیں، اور جس میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام اُمور میں آخری سند (authority) تسلیم کرکے مسلمانوںاور غیرمسلموں کے باہمی حقوق و فرائض کو مرتب کیا گیا ہے۔

یہ مذہبی آزادی کا ایک میثاق ہے، جو انسان کے وقار کی توثیق پر مبنی ہے اور ہر ایک کو عقیدے کے انتخاب کی آزادی کا حق حاصل ہے ۔اسلام کا یہ دعویٰ ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ، انسانوں کی رہنمائی کے لیے ، نازل کردہ سچا مذہب ہے، لیکن اگر کچھ لوگوں کی خواہش ہے کہ وہ عقائد کے کسی دوسرے نظام کا انتخاب کرنا چاہتے ہیں تو یہ ان کا حق ہے اور اسلام ان کے اس حق کو تسلیم کرتا ہے۔

چنانچہ رواداری، اسلامی طریقۂ کار کا بنیادی عنصر ہے۔ عقائد کی کثرت کو فطری رجحان کے طور پر قبول کرنا اسلامی فریم ورک کا لازمی عنصر ہے۔ مسلمان بھی انسان ہیں اور ساڑھے چودہ سو سال پر محیط طویل تاریخ میں ، اس حوالے سے ان کے طرز عمل میں ضرور کچھ غلطیاں تلاش کی جاسکتی ہیں۔ لیکن اسلام بطور دین ، دیگر مذاہب اور عقائد کی آزادی کے اس بنیادی اصول کے معاملے میں بہت واضح ہے اور اس حوالے سے اصل فیصلہ اُخروی زندگی میں ہونا ہے نہ کہ اس دنیاوی زندگی میں۔ اس لیے ہرشخص کو، جس طرح اپنے اپنے عقیدے کے مطابق یقین رکھنے اور اس پر عمل کرنے کا حق ہے، اور اسی طرح اس انتخاب کے نتائج کا ذمہ دار بھی وہی شخص ہوگا اور آخرت میں اس کا احتساب کیا جائے گا۔اس لیے جہاں تک اس دنیا میں انسانی تقسیم کا تعلق ہے، تو مذہبی تکثیریت اور ثقافتی بقاے باہمی کےاصول ، اسلام کے سیاسی نظم کے لازمی اجزا ہیں۔

لہٰذا، پہلی دو جہتوں کے حوالے سے اسلام اور سیکولرزم کے مابین اختلاف کے باوجود کوئی بڑا تصادم سامنے نہیں آتا۔اصل فرق تیسری جہت کے حوالے سے ہے، جہاں سیکولرزم ، مذہب اور ریاست ، ایمان اور معاشرے کو الگ الگ کرتا ہے اور اسلام کے نزدیک، انسانی زندگی کی ایسی تقسیم ، خود انسان کی فطری زندگی میں ایک رکاوٹ ہے۔ اسلام کا منہاج بنیادی طور پر ’خدا مرکز‘ (God-Centred) ہے، لیکن اس میں انسان اورخدا کے تعلق، انسان اور کائنات کے تعلق ، اور انسان اور انسان کے تعلق پر بھی بہت توجہ مرکوز کی گئی ہے۔ خدائی ہدایت اس دنیا اور اگلی دنیا (آخرت) میں انسانوں کی فلاح و بہبود کے لیے رہنمائی ہے۔ افراد اور اداروں کے درمیان، عدل و انصاف، مساوات اور ہم آہنگی کی بنیاد پر منصفانہ معاشرے کا قیام اور انسانوں کے مابین تعلقات استوار کرنے کی بھی اتنی ہی اہمیت ہے، جتنی روحانی اور اخلاقی معاملات میں فضیلت کی اہمیت ہے۔ یہ ہے وہ بنیادی فرق، جس کی بنیاد پر اسلام کا منہاج، سیکولرزم سے بالکل الگ ہے۔

اس کے علاوہ ایک اور پہلو بھی قابل توجہ ہے۔ وہ یہ کہ مسلم دنیا میں، سیکولرزم ، نو آبادیاتی حکومت کے لبادے میں چھپ کر آیا ہے۔ جب یورپی سامراجی قوتوں کی سرپرستی میں چلنے والی ، عیسائی مشنری تحریک خاطر خواہ نتائج حاصل کرنے میں ناکام رہی تو یورپی استعماری حکمرانوں (یعنی برطانوی، ہسپانوی،ولندیزی،فرانسیسی، پرتگیزی، جرمن وغیرہ) نے سیکولرزم کو مسلط کرنے، اور پورے خطے کی سماجی اور سیاسی زندگی میں سے مذہبی اثرورسوخ کو ختم کرنے پر توجہ دی۔ چونکہ یہ بات مسلمانوں کے عقائد اور اُمنگوں کے منافی تھی، لہٰذا مسلم معاشرہ: لبرلز اور روایت پسندوں، تبدیلی پسندوں اور مزاحمت کاروں، سیکولر اور اسلام سے محبت رکھنے والوں میں بٹ گیا۔

یہ بڑی ستم ظریفی ہے کہ لبرلز نے بے دریغ طاقت کے ذریعے سیکولرزم کو ان لوگوں پر مسلط کرنے کی کوشش کی جو اس کو تسلیم نہیں کرتے تھے۔یوں سیکولرزم اور استبداد لازم و ملزوم ہو گئے۔ درحقیقت کچھ مغربی مفکرین نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ ’’جمہوریت اور اسلامائزیشن ایک ساتھ چل سکتے ہیں، لیکن مسلم ممالک میں سیکولرزم کو صرف آمرانہ طرز حکمرانی کے تحت ہی مسلط کیا جا سکتا ہے‘‘۔

امریکی فلسفی ڈاکٹر فلمر ایس سی نارتھروپ [م: ۱۹۹۲ء] نے ۱۹۵۳ء کے ’کلوکیم آن اسلامک کلچر‘ میں اس  حقیقت کو ان الفاظ میں تسلیم کیا ہے: ’’کئی دیگر وجوہ میں سے ، میں اس وجہ پر یقین رکھتا ہوں کہ سیکولر قانون کو عام طور پر آمر کے ذریعے نافذ کرنا پڑتا ہے کہ یہ ایک عوامی تحریک سے نہیں آسکتا کیوںکہ عوام پرانی روایت سے جڑے ہوتے ہیں‘‘(پرنسٹن یونی ورسٹی پریس، ص ۱۰۹)۔

کمال اتاترک [م:۱۹۳۸ء] کے ماتحت ترکی کی سیکولرائزیشن ،اور رضا شاہ پہلوی [م:۱۹۸۰ء] کے تحت ایران کی سیکولرائزیشن، سوئیکارنو [م:۱۹۷۰ء]کے تحت انڈونیشیا اور جمال ناصر [م:۱۹۷۰ء] کے تحت مصر کی سیکولرائزیشن اسی سفاکانہ عمل کی واضح مثالیں ہیں۔

مسلم عوام میں اخلاقی قدروں کا وجود اور عمل ایک ایسی حقیقت ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ نظام سیاست و ریاست چلانے کے لیے، اسلامی احیا اورجمہوری کلچر ایک ساتھ چل سکتے ہیں لیکن مسلم ملکوں میں  سیکولرزم کی حمایت کرنے والا لبرل طبقہ سب سے زیادہ استبداد پسند واقع ہوا ہے۔ ان کے برعکس اسلام اور جمہوریت ایک ساتھ آگے بڑھ سکتے ہیں۔

[مدیر کے انگریزی مضمون کا ترجمہ اور تدوین۔ ادارہ]

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

قَالَتِ الْاَعْرَابُ اٰمَنَّا۝۰ۭ قُلْ لَّمْ تُؤْمِنُوْا وَلٰكِنْ قُوْلُوْٓا اَسْلَمْنَا وَلَمَّا يَدْخُلِ الْاِيْمَانُ فِيْ قُلُوْبِكُمْ۝۰ۭ وَاِنْ تُطِيْعُوا اللہَ وَرَسُوْلَہٗ لَا يَـلِتْكُمْ مِّنْ اَعْمَالِكُمْ شَـيْـــــًٔا۝۰ۭ اِنَّ اللہَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۝۱۴ اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِاللہِ وَرَسُوْلِہٖ ثُمَّ لَمْ يَرْتَابُوْا وَجٰہَدُوْا بِاَمْوَالِہِمْ وَاَنْفُسِہِمْ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ ۝۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الصّٰدِقُوْنَ۝۱۵ (الحجرات   ۴۹:۱۴-۱۵) یہ بدوی کہتے ہیں کہ ’ہم ایمان لائے‘۔ ان سے کہو، تم ایمان نہیں لائے، بلکہ یوں کہو کہ ’ہم مطیع ہوگئے‘۔ ایمان ابھی تمھارے دلوں میں داخل نہیں ہوا ہے۔ اگر تم اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت اختیار کرلو تو وہ تمھارے اعمال کے اجرمیں بالکل کمی نہیں کرے گا، بلاشبہہ اللہ تعالیٰ بڑا درگزر کرنے والا اوررحیم ہے۔ حقیقت میں مومن وہ ہیں جو اللہ اور اس کے رسولؐ پر ایمان لائے پھر انھیں کوئی شک نہیں ہوا، اوراپنی جان اور مال سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا۔ یہی سچے مومن ہیں۔

سورئہ حجرات کی مذکورہ آیات کے سلسلے میں امام بغویؒ کا خیال ہے کہ یہ آیات بنواسد کے اس وفد کے بارے میں نازل ہوئیں، جو قحط کے موقعے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنے اسلام کا اظہار کیا، حالانکہ حقیقت میں وہ مومن نہیں تھے۔

امام سدیؒ کہتے ہیں کہ ان آیات کا سبب ِ نزول وہ اعرابی ہیں، جن کا ذکر سورئہ فتح میں ہوا ہے۔ قبیلہ جہینہ، مزنیہ، اسلم اور غفار کے لوگ کہتے تھے کہ ’ہم ایمان لائے‘ تاکہ ان کی جان و مال محفوظ ہوجائے، لیکن جب یہ لوگ حدیبیہ کی طرف چلے گئے تو اپنی بات سے پھر گئے۔

بہرحال، آیات کا سبب ِ نزول جو بھی ہو، مگراس میں جو نکات بیان فرمائے گئے ہیں وہ گہرے غوروفکر کے طالب ہیں: پہلا نکتہ ایمان کی حقیقت اور انسانی زندگی پر اس کے اثرات سے متعلق ہے اور دوسرا نکتہ ایمان و اسلام کا فرق ہے۔

ایمان کی حقیقت

ایمان کی حقیقت یہ ہے کہ وہ ایک عقیدہ ہے جو دل میں راسخ ہوتا ہے، نفس پر غالب آتا ہے اورقلب پر حکمرانی کرتا ہے۔ اسی لیے بندئہ مومن ہروقت اپنے اس عقیدہ کو یاد رکھتا ہے، اس پر اپنی جان نثار کرنے کو تیاررہتا ہے اور اس کے راستے میں ہرطرح کی قربانی اس کا شعار اور   طرئہ امتیاز بن جاتی ہے۔ لیکن عزیز من! ایمان کے درجات مختلف ہوتے ہیں ، سب کا ایمان یکساں و برابر نہیں ہوتا۔ تم کسی چیز کی تصدیق کرتے ہو، اس کے بارے میں سنتے ہو مگر جب اس کے بارے میں پڑھتے ہو تواس پر تمھارا یقین و اعتماد پہلے سے بڑ ھ جاتا ہے۔ جب اپنی آنکھوں سے اس کا مشاہدہ کرتے ہو تو یقین دل میں راسخ ہوجاتا ہے اورجب اس پر نگاہِ حقیقت پڑتی ہے اوراس کا ظاہروباطن سامنے آتا ہے تو یہ یقین اپنے کمال کو پہنچ جاتاہے:

وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّقُوْلُ اٰمَنَّا بِاللہِ وَبِالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَمَا ھُمْ بِمُؤْمِنِيْنَ۝۸ۘ يُخٰدِعُوْنَ اللہَ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا۝۰ۚ وَمَا يَخْدَعُوْنَ اِلَّآ اَنْفُسَھُمْ وَمَا يَشْعُرُوْنَ۝۹ۭ فِىْ قُلُوْبِہِمْ مَّرَضٌ۝۰ۙ فَزَادَھُمُ اللہُ مَرَضًا۝۰ۚ وَلَھُمْ عَذَابٌ اَلِـيْمٌۢ۝۰ۥۙ بِمَا كَانُوْا يَكْذِبُوْنَ۝۱۰ (البقرہ ۲:۸-۱۰) بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لائے ہیں، حالانکہ درحقیقت وہ مومن نہیں ہیں۔ وہ اللہ اور ایمان لانے والوں کے ساتھ دھوکا بازی کررہے ہیں، مگر دراصل وہ خود اپنے آپ ہی کو دھوکے میں ڈال رہے ہیں اور اُنھیں اِس کا شعور نہیں ہے۔ ان کے دلوں میں ایک بیماری ہے جسے اللہ نے اورزیادہ بڑھا دیا، اور جو جھوٹ وہ بولتے ہیں، اُس کی پاداش میں ان کے لیے دردناک سزا ہے۔

ٹھیک اسی طرح ایمان باللہ کے بھی مختلف مدارج ہیں۔ کچھ لوگ محض ایمان کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن اپنے دعویٰ ایمان میں جھوٹے ہوتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: بعض لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم اللہ اورآخرت پرایمان لائے مگر حقیقت میں وہ مومن نہیں ہیں۔ وہ اللہ اور اہلِ ایمان کےساتھ دھوکا بازی کر رہے ہیں لیکن اصلاً وہ خوددھوکے میں مبتلا ہیں اورانھیں اس کا شعورنہیں ہے۔ ان کے دلوں میں مرض ہے جسے اللہ نے اور بڑھا دیا ہے اور ان کے اس جھوٹ کی پاداش میں ان کے لیے سخت عذاب ہے۔

انسانوں کی ایک قسم ایسی بھی ہے جو فراخی میں تو مومن ہوتی ہے مگر جب مصائب آتے ہیں تو اُلٹے پاؤ ں پھر جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے:

وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّعْبُدُ اللہَ عَلٰي حَرْفٍ۝۰ۚ فَاِنْ اَصَابَہٗ خَيْرُۨ اطْـمَاَنَّ بِہٖ۝۰ۚ وَاِنْ اَصَابَتْہُ فِتْنَۃُۨ انْقَلَبَ عَلٰي وَجْہِہٖ ۝۰ۣۚ خَسِرَ الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَۃَ۝۰ۭ ذٰلِكَ ہُوَالْخُسْرَانُ الْمُبِيْنُ۝۱۱ (الحج ۲۲:۱۱)اور لوگوں میں ایسے بھی ہیں جو کنارہ پر رہ کر اللہ کی بندگی کرتے ہیں۔ اگر فائدہ ہوا تو مطمئن ہوگئے اور مصیبت آئی تو پھرگئے۔ ان کی دنیا بھی گئی اور آخرت بھی، یہ صریح خسارہ ہے۔

کچھ لوگ صرف زبانی مومن ہوتے ہیں، دل ایمان سے خالی ہوتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو سورئہ حجرات کی مذکورہ آیتوں میں زیربحث ہیں:

مومنین ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے دلوں کو ایمان سے طمانیت اورروح کو سکون ملتا ہے اوروہ اسے اپنی سعادت سمجھتے ہیں اورہرچیز سے بڑھ کر اسی کے حریص ہوتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنھیں قرآن ان الفاظ سے یاد کرتا ہے:

اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ يَلْبِسُوْٓا اِيْمَانَہُمْ بِظُلْمٍ اُولٰۗىِٕكَ لَہُمُ الْاَمْنُ وَہُمْ مُّہْتَدُوْنَ۝۸۲ۧ (انعام ۶:۸۲)حقیقت میں تو امن انھی کے لیے ہے اور راہِ راست پر وہی ہیں جو ایمان لائے اور پھر اپنے ایمان کو ظلم کےساتھ آلودہ نہیں کیا۔

ایمان کے اثرات

ایمان جب اس بلندی پر پہنچ جاتا ہے اوردلوں میں اس طرح جاگزیں ہوجاتا ہے تو انسان کی زندگی پراس کے اثرات نظرآنےلگتے ہیں۔ کیونکہ ایمان کسی جامد چیز کا نام نہیں ہے بلکہ  وہ ایک زندہ حقیقت ہے۔ انسانی زندگی پر جو اثرات مرتب ہوتے ہیں وہ دن سے زیادہ روشن و تابناک ہوتے ہیں، مثلاً:

  ایمان کا پہلا اثر یہ ہوتا ہے کہ ان کو اپنی سعادت اورلازوال انعام سے محبت ہوجاتی ہے، ایسی محبت جو اس کی رگ و پے میں سرایت کرجاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّتَّخِذُ مِنْ دُوْنِ اللہِ اَنْدَادًا يُّحِبُّوْنَہُمْ كَـحُبِّ اللہِ۝۰ۭ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِّلہِ۝۰ۭ (البقرہ ۲:۱۶۵) کچھ لوگ ایسے ہیں جو اللہ کے سوا دوسروں کو اس کا ہمسر ومدمقابل بناتے ہیں اوران کے ایسے گرویدہ ہوتے ہیں جیسی گرویدگی اللہ کےساتھ ہونی چاہیے مگراہلِ ایمان سب سے بڑھ کراللہ کو محبوب رکھتے ہیں۔

  ایمان کادوسرااثریہ ہوتا ہے کہ مومن وہ راحت وسکون محسوس کرتا ہے جس کے ہوتے ہوئے کسی قسم کی شقاوت کا احساس تک نہیں ہوتا، تعذیب کا کوئی ڈھنگ ان کے عقیدہ کو متزلزل نہیں کرپاتا۔ کہتے ہیں کہ ایک شخص کا اپنی بیوی سے کسی بات پر جھگڑا ہوگیا۔ اس نے کہا اللہ کی قسم! میں تجھے ذلیل کرکے رہوں گا۔ بیوی نےمسکراتے ہوئے کہا: ذلت، تمھارے اختیار میں نہیں ہے۔ اس نے حیرت سےپوچھا: کیوں؟ جواب دیا: میری سعادت، میرے ایمان میں ہے اورایمان دل میں ہوتا ہے اور دل پرکسی کازور نہیں چلتا۔

یہ وہ ایمان ہے جو صرف حقیقی مومن کو حاصل ہوتا اورہوسکتا ہے۔

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ کے بارے میں آتا ہے کہ جب قید کی مشقت ان پرطویل ہوگئی، تو ان کے شاگرد ان کی مزاج پُرسی کے لیے گئے اوررہائی کی کوششیں کرنے لگے۔ جب امام صاحب کو یہ بات معلوم ہوئی تو کہا :’’قید کو مَیں خلوت گاہ، قتل کو شہادت اور جلاوطنی کو سیاحت تصور کرتا ہوں اور یہ سب تزکیۂ نفس کے انعامات ہیں‘‘۔

اللہ اکبر! یہ ہے ایمان کی حقیقت جس کے ساتھ مصائب و مشکلات بھی نعمت و راحت محسوس ہوتے ہیں اور بڑے بڑے غم و اندوہ سے انسان لذت گیر اورراحت محسوس کرتا ہے۔ کتنی سچی اور پیاری بات اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی کہ: ’’مومن کا معاملہ بھی عجیب ہے، اس کا ہرمعاملہ خیرہے۔ نعمتیں ملتی ہیں تو سجدئہ شکر بجا لاتا ہے اور جب مصائب آتے ہیں تو جادئہ صبر پر قائم رہتا ہے۔ (مسلم، کتاب الزہد والرقائق، حدیث: ۵۴۲۹)

حضرت جنید بغدادیؒ فرماتے ہیں کہ: ’’اگر ان بادشاہوں کو معلوم ہوجائے کہ ہمیں ایمان میں کتنی لذت ملتی ہے تو وہ ہمیں قتل کرا دیں‘‘۔

  ایمان کا ایک اوراثریہ ہوتا ہے کہ اس کے ذریعے مومن اپنے ربّ کا عزیز بن جاتا ہے اوراسے اپنی عظمت کا احساس ہوتا ہے۔ چنانچہ اس کی نگاہ میں کوئی اس سے زیادہ عزیز نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ اس کی عزّت و شوکت مخلوق سے نہیں بلکہ اللہ سے وابستہ ہے جوعزیز وں کا عزیز ہے۔

حقیقی ایمان کے نتیجے میں مومن کو وہ شجاعت نصیب ہوتی ہے جس کےسامنے بڑے بڑے جابرو ظالم سجدہ ریز ہوتے ہیں۔ اس کی نگاہ میں ساری مصیبتیں ہیچ ہوتی ہیں:

 اِنَّ اللہَ اشْتَرٰي مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ اَنْفُسَھُمْ وَاَمْوَالَھُمْ بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّۃَ۝۰ۭ يُقَاتِلُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ فَيَقْتُلُوْنَ وَيُقْتَلُوْنَ ۝۰ۣ وَعْدًا عَلَيْہِ حَقًّا فِي التَّوْرٰىۃِ وَالْاِنْجِيْلِ وَالْقُرْاٰنِ۝۰ۭ وَمَنْ اَوْفٰى بِعَہْدِہٖ مِنَ اللہِ فَاسْـتَبْشِرُوْا بِبَيْعِكُمُ الَّذِيْ بَايَعْتُمْ بِہٖ۝۰ۭ وَذٰلِكَ ھُوَالْفَوْزُ الْعَظِيْمُ۝۱۱۱  (التوبہ۹:۱۱۱) حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے مومنوں سے ان کے نفس اور ان کے مال جنّت کے بدلے خرید لیے ہیں۔ وہ اللہ کی راہ میں لڑتے اور مارتے اور مرتے ہیں۔ ان سے (جنّت کا وعدہ) اللہ کے ذمّے ایک پختہ وعدہ ہے تورات اور انجیل اور قرآن میں۔ اور کون ہے جو اللہ سے بڑ ھ کر اپنے عہد کا پورا کرنے والا ہو؟ پس خوشیاں مناؤ اپنے اس سودے پر جو تم نے خدا سے چُکا لیا ہے، یہی سب سے بڑی کامیابی ہے۔

ان سب کے ساتھ ایمان کا ایک اثر یہ بھی ہوتا ہے کہ پھربندئہ مومن اللہ کی راہ میں اپنی جان سے جہاد کرتا ہے اورآخری قطرئہ خون تک بہا دینے میں دریغ نہیں کرتا۔ مال سے جہاد کرتا ہےاوراپنی ساری دولت ایمان کےراستے میں نچھاورکردیتا ہے کیونکہ اسے معلوم ہے کہ جنّت اسی میں ہے۔

ہمارے سامنے بہت سی آیات اور بکثرت احادیث ہیں جن سے ہم حقیقی ایمان سے آشنا ہوسکتے ہیں۔ ان آیات و احادیث کو بار بار پڑھنا چاہیے کہ ہم بھی مومنین صادقین کی صف میں شامل ہوجائیں۔

ایمان اور اسلام کا فرق

اُوپر جو کچھ عرض کیا گیا وہ ایمان کی حقیقت ہے۔ اب دوسرا نکتہ جو آیت زیربحث میں ہے وہ ایمان و اسلام کا فرق ہے۔ اس پر لمبی لمبی بحثیں ہوئی ہیں۔ ہم ان لمبی بحثوں میں پڑ کر اپنا اور آپ کا وقت و قوت ضائع کرنا نہیں چاہتے ۔ معاملہ بہت آسان اور سادہ ہے۔

امام احمد بن حنبلؒ نے حضرت سعد بن ابی وقاصؓ سے ایک روایت نقل کی ہے: ’’ایک موقعے پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لوگوں کو نوازا، جب کہ بعض دوسروں کو چھوڑ دیا۔ حضرت سعد ؓ نے پوچھا: اللہ کے رسولؐ! آپؐ نے فلاں اورفلاں کو تو دیا مگرفلاں کو کچھ بھی نہیں دیا حالانکہ وہ مومن ہیں۔ آپؐ نے فرمایا: ’اومسلم‘۔حضرت سعدؓ نے تین باراپنی بات دُہرائی اورہربارآپؐ نے یہی فرمایا:’ اومسلم‘۔ آخر میں فرمایا: میں کچھ لوگوں کو نوازتا ہوں اورانھیں چھوڑ دیتا ہوں جو مجھے زیادہ محبوب ہیں، مبادا وہ اوندھے منہ آگ میں ڈالے جائیں‘‘۔(ابوداؤد، کتاب السنۃ، باب الدلیل علٰی زیادۃ الایمان ونقصانہ، حدیث: ۴۰۸۴،  نسائی، السنن الصغریٰ للنسائی، کتاب الایمان وشرائعہ، حدیث: ۴۹۳۰)

آپ نے دیکھا کہ اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مومن و مسلم کے درمیان فرق کرکے بتادیا۔ اسلام اور ایمان میں یہی فرق ہے، یعنی اسلام، ایمان کا اعلیٰ درجہ ہے۔ بعض جگہوں پر قرآن نے دونوںکو ایک ہی معنی میں بھی استعمال کیا ہے، مثلاً سورئہ ذاریات ۳۵-۳۷۔

خلاصہ یہ ہے کہ یہ سب لفظوں کا اختلاف ہے۔ مومن کا شیوہ یہ ہوتا ہے کہ: ’الفاظ کے پیچوں میں اُلجھتا نہیں دانا‘۔ وہ ہمیشہ خوب سے خوب تر کی تلاش میں رہتا ہے اور حقیقی ایمان سے لطف اندوز ہوتا ہے۔

اللہ کے بندو! ہرچیز کی ایک علامت ہوتی ہے جس سے وہ پہچانی جاتی ہے اور ہرعقیدہ کی کوئی نہ کوئی علامت ضرور ہوتی ہے۔ ایمان کی بھی کچھ علامتیں ہیں جن سے ایمان کاپتا چلتا ہے۔ اپنا جائزہ لیجیےکہ تم ایمان کے کس مقام پرہو اور تمھارا اللہ پر یقین کتنا مضبوط و مستحکم ہے، تاکہ تم اپنے ایمان و یقین کے سلسلے میںکسی خوش فہمی میں مبتلا نہ رہو کہ تمھیں اپنی گذشتہ زندگی پر پچھتاوا ہو۔

حضرت عمرؓ سے منقول ہے، انھوں نے فرمایا: حَاسِبُوْا اَنْفُسَکُمْ قَبْلَ اَنْ تُحَاسَبُوْا، وَتَزَیَّنُوْا لِلْعَرْضِ  الْاَکْبَرِ، وَ  اِنَّمَا یَخِفُّ  الْحِسَابُ  یَوْمَ  الْقِیَامَۃِ عَلٰی مَنْ حَاسَبَ  نَفْسَہٗ  فِی الدُّنْیَا (سنن ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ، حدیث: ۲۴۴۱) ’’حساب سے پہلے اپنا محاسبہ خود کرو اور قیامت کے روز بڑی پیشی کے لیے اپنے آپ کو تیار کرلو، قیامت کے دن اس شخص کا حساب ہلکا ہوگا جو دنیا میں اپنا احتساب کرتا ہے‘‘۔

 باعزم و غیور: میرے بھائی! ایمان کی ایک علامت یہ ہے کہ صاحب ِ ایمان باعزم   و غیور ہوتا ہے۔ وہ زبردست قوتِ ارادی کا مالک ہوتا ہے۔ حق کےسلسلے میں وہ کسی ملامت گر   کی پروا نہیں کرتا اور اللہ کے سلسلے میں کسی بات کا خوف نہیں کرتا۔ اس کا دل اللہ کے خوف و خشیت سے اس قدر معمورہوتا ہے کہ دوسروں سے ڈرنے کے لیے اس میں گنجایش نہیں ہوتی۔ وہ صرف اللہ سے ڈرتا ہے۔ اس لیے کسی اورسے نہیں ڈرتا۔ وہ اپنے عقیدہ کے تئیں کسی غلط فہمی کا شکار نہیں ہوتا اور اعداء دین سے مداہنت نہیں کرتا۔ وہ اس فرمانِ الٰہی کا پیکر و مصداق ہوتا ہے:

اَلَّذِيْنَ قَالَ لَھُمُ النَّاسُ اِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوْا لَكُمْ فَاخْشَوْھُمْ فَزَادَھُمْ اِيْمَانًا۝۰ۤۖ وَّقَالُوْا حَسْبُنَا اللہُ وَنِعْمَ الْوَكِيْلُ۝۱۷۳  (اٰل عمرٰن  ۳:۱۷۳) یہ ایسے لوگ ہیں کہ لوگوں نے جب ان سے کہا کہ ان لوگوں نے تمھارے مقابلے میں بڑا لاؤلشکر جمع کیا ہے، سو ان سے ڈرو۔ اس سے ان کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے اور کہا کہ ہمارے لیے اللہ کافی ہے۔ وہ بہترین کارساز ہے۔

 خوددار  و   بے باک: صاحب ِ ایمان کی ایک علامت یہ ہے کہ وہ خوددار ہوتا ہے۔ ظلم و ناانصافی کو نہ برداشت کرتا ہے اور نہ کمزوری کا مظاہرہ کرتا ہے۔ اسے یقین ہوتاہےکہ تمام قوتوں کا مالک اللہ ہے۔ عزّت و غلبہ، اللہ،رسول ؐاور مومنین کےلیے ہے۔ اس لیے وہ بڑی سے بڑی طاقت کو بھی خاطرمیں نہیں لاتا اوراپنےعزیز مولیٰ پرکامل اعتماد کرتاہے:

ذٰلِكَ بِاَنَّ اللہَ مَوْلَى الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَاَنَّ الْكٰفِرِيْنَ لَا مَوْلٰى لَہُمْ۝۱۱ۧ (محمد۴۷:۱۱) ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ (انھیں یقین ہے ) اللہ مومنوں کاکارساز ہے اورکافروں کا کوئی کارساز نہیں۔

 اللہ سے محبّت:مومن کا ایمان اللہ کی ذات اور صرف اللہ کی ذات پرہوتا ہے۔ اس لیے بھروسا بھی اسی پر کرتا ہے، اپنے تمام معاملات اسی کے حوالے کردیتا ہے۔ کیونکہ اسے یقین ہے کہ سارے اُمور اللہ کے ہاتھ میں ہیں ۔ فیصلے کااختیار بھی اسی کو ہے۔ اس لیے اس کو چھوڑ کر کہاں جائے اور کس سے فریاد کرے۔ وہ دل سے اللہ سے محبت کرتا ہے، اسے سب سےمحبوب اپنا مولیٰ ہوتا ہے:

وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّتَّخِذُ مِنْ دُوْنِ اللہِ اَنْدَادًا يُّحِبُّوْنَہُمْ كَحُبِّ اللہِ۝۰ۭ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِّلہِ۝۰ۭ (البقرہ ۲:۱۶۵) اور لوگوں میں ایسے بھی ہیں جو غیراللہ کو اس کا ہمسر اورمدمقابل بناتے اور مانتے ہیں اور ان سے ایسے ہی محبت کرتے ہیں جیسے اللہ سے کرنی چاہیے، جب کہ اہلِ ایمان سب سے زیادہ اللہ سے محبت کرتے ہیں۔

  اہلِ ایمان سے محبت اور کفّار سے نفرت:مومن کا ایک اور وصف یہ ہے کہ اسے اپنے مومن بھائیوں سے بے پناہ محبت اورکافروں سے شدید بُغض و نفرت ہوتی ہے۔ وہ دل سے ان سےنفرت کرتا ہے اور معاملات زندگی میں ان سے کوئی سروکار نہیں رکھتا:

لَا تَجِدُ قَوْمًا يُّؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ يُوَاۗدُّوْنَ مَنْ حَاۗدَّ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ وَلَوْ كَانُوْٓا اٰبَاۗءَہُمْ اَوْ اَبْنَاۗءَہُمْ اَوْ اِخْوَانَہُمْ اَوْ عَشِيْرَتَہُمْ۝۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ كَتَبَ فِيْ قُلُوْبِہِمُ الْاِيْمَانَ وَاَيَّدَہُمْ بِرُوْحٍ مِّنْہُ۝۰ۭ (المجادلہ ۵۸:۲۲) جولوگ اللہ اوریومِ آخرت پر یقین رکھتے ہیں ،انھیں تم نہیں دیکھو گے کہ خدا اور اس کےرسولؐ کے دشمنوں سے دوستی رکھیں،گو وہ ان کےباپ، بیٹے، بھائی یا ان کے خاندان ہی کے ہوں۔ یہی ہیں جن کےدلوں میں اللہ نے ایمان نقش کردیا ہے،اوراپنےفیضانِ خاص سے ان کی تائیدکی ہے۔

يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا عَدُوِّيْ وَعَدُوَّكُمْ اَوْلِيَاۗءَ تُلْقُوْنَ اِلَيْہِمْ بِالْمَوَدَّۃِ وَقَدْ كَفَرُوْا بِمَا جَاۗءَكُمْ مِّنَ الْحَـقِّ ۝۰ۚ (الممتحنہ۶۰ : ۱) اے ایمان والو! تم میرے دشمنوں کو اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ کہ تم ان سے دوستی گانٹھو، جب کہ وہ اس حق کے منکر ہیں جوتمھارے پاس آیا ہے۔

اس لیے مومن کی دشمنی بھی اللہ کے لیے ہوتی ہے اوردوستی بھی، جیساکہ اللہ بزرگ و برتر کا فرمان ہے:

اَشِدَّاۗءُ عَلَي الْكُفَّارِ رُحَمَاۗءُ بَيْنَہُمْ (الفتح۴۸:۲۹) (میرےساتھی) کفّارکے لیے انتہائی سخت اورباہم بڑے کریم و شفیق ہیں۔

 اللہ پر کامل بھروسا: ایمان کی ایک علامت یہ بھی ہےکہ بندئہ مومن کا تمام تر اعتماد و بھروسا اس چیز پر ہوتا ہے جو اللہ کے پاس ہے۔ اسےاپنی دولت پر بھروسا نہیں ہوتا۔ اس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنامال اللہ کے راستے میں خرچ کرتا ہے اور اس اُمید و یقین کے ساتھ کرتا ہے کہ اللہ کے یہاں اس سے اچھا بدلہ ملےگا:

مَا عِنْدَكُمْ يَنْفَدُ وَمَا عِنْدَ اللہِ بَاقٍ(النحل۶ ۱:۹۶) لوگو، جو کچھ تمھارے پاس ہے سب ختم ہوجائے گا اورجو اللہ کے یہاں ہے وہی باقی رہنے والا ہے۔

اللہ کے باایمان بندو! ایمان کی ان علامتوں، عزیمت، غیرت، توحید، توکّل، حُب ِالٰہی اور اللہ کےاجر کی اُمید کی روشنی میں اپنےایمان کا جائزہ لو، اپنے گریبان میں جھانکو۔ اگریہ علامتیں موجود ہیں اوروافرمقدار میں موجود ہیں تو اللہ کی توفیق پر شکربجالاؤ لیکن اگر معاملہ اس کے برعکس ہے تو اپنے آپ پر روؤ، اپنی گذشتہ زندگی پر آنسو بہاؤ اوراپنے دل کاعلاج کراؤ۔ اپنے دل کو  کسی دل کے ڈاکٹر کے پاس لے جاؤ، شاید اس کے پاس تمھیں اپنی بیماری کی دوا مل جائے۔ اور اللہ سےگڑگڑا کردُعا کرو کہ وہ تمھیں جادئہ ایمان پرقائم کردے اوراہلِ یقین کےراستے کی توفیق دے دے۔

اللہ کےرسولؐ نے فرمایا: تین چیزیں جس کےاندرہیں اسے ایمان کا ذائقہ مل گیا:

۱-اللہ اوررسولؐ اسے سب سے زیادہ محبوب ہوں۔

۲- جس کسی سے محبت کرے صرف اللہ کی خاطرکرے۔

۳- اور کفر کی طرف پلٹنا اسے اتنا ہی ناگوار وناپسند ہو جتنا آگ میں ڈالا جانا۔ (بخاری، کتاب الایمان، حدیث: ۱۶؛ مسلم، کتاب الایمان، حدیث ۸۵)

اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے ایمان کا جائزہ لینے کی توفیق دے، آمین!

قوم ، ملک، جاے پیدایش اور زبان عموماً کسی گروہِ انسان کو اپنے تشخص اور وجود کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں۔ چنانچہ وہ مشرق ہو یا مغرب ، قبل اسلام کا دور ہو یا تاریکی میں ڈوبے ہوئے یورپ کے ادوار اور بعد میں آنے والے روشن خیالی ، نشاتِ ثانیہ اور انسان پرستی کے اَدوار، ہرزمانے میں اقوام عالم نے اپنی شخصیت اور وجود کو ان میں سے کسی نہ کسی تصور سے وابستہ کر کے خود اپنی تعریف بطور ایک خطہ میں بسنے والے افراد کے ( یونانی اقوام، افریقی اقوام ، ایشیائی اقوام)، یا رنگ ونسل کی بنیاد پر (زرد اقوام ، سفید اقوام ، سیاہ اقوام)،یا اپنی علاقائی زبان(انگلش ، فرنچ، جرمن، ڈچ) کی بنیاد پر اپنا تعارف کرایا۔حتیٰ کہ بحری راستوں کو بھی ان میں سے کسی ایک تصور سےمنسوب کر دیا ، مثلاً بحیرۂ عرب ، ساؤتھ چائنا سی وغیرہ ۔

قوم پرستی اور رنگ و نسل یا کسی خطے کی بنا پر اپنی پہچان کا تصور ، اسلام کے بنیادی عالم گیریت اور الہامی دین ہونے کے تصور سے مطابقت نہیں رکھتا۔ لیکن یہ امت مسلمہ کے لیےایک سانحہ تھا کہ سیاسی میدان میں خلافت کے اسلامی تصور سے انحراف کے نتیجے میں خاندانی اور موروثی طرز حکومت رواج پا گیا۔ اس طرح اکثر مسلم فرماں رواؤں نے اپنے دینی تشخص کی جگہ نسلی ، لسانی یا قبائلی تعلق کی بنیاد پر اپنے آپ کو اموی ، عباسی ، فاطمی، مغل ، عثمانی کہلوانا پسند کیا ۔

مسلمان فرماں روا جنھوں نے طویل عرصے تک برصغیر پرحکومت کی ، اسلام کے دعوتی پہلو پر بہت کم توجہ دی۔تاہم، اپنے اقتدار کو اقلیت میں ہونے کے باوجود تقریباً آٹھ صدی سنبھالے رکھا۔ اگر وہ دین کی اشاعت کے لیے حکمت عملی بناتے تو بہ آسانی آبادی کی ایک بڑی تعداد مسلمان ہوجاتی، یا وہ اسلام کے ان اصولوں کو جو شریعت نے بیان کیے تھے، نافذ کرتے تو اسلام کے عدل اجتماعی سے متاثر ہو کر بے شمار افراد دائرہ اسلام میں داخل ہوجاتے۔ لیکن بدقسمتی سے اکثر فرماں روا ، موروثی بادشاہت کے تحفظ کے علاوہ کسی اور اعلیٰ مقصد سے دل چسپی نہیں رکھتے تھے۔ بہرصورت مغلوں کی حکومت کے زوال اور انگریز سامراجیت کے یہاں پر غلبے کے بعد برصغیر میں جو غالب رجحانات پائے جاتے تھے،انھی میں سے ایک رجحان یہ تھا کہ انگریزی طور طریقوں کی پیروی کو اس تعبیر کے ساتھ اختیار کرنے میں کوئی قباحت نہیں کہ ’’انگریز نے اکثر اچھائیاں اسلام سے ہی سیکھی ہیں، گو اسلام قبول نہیں کیا‘‘۔

ایک طبقے نے انگریز کی ہر بات کو کفر اور شرک قرار دیتے ہوئے مسلسل جہاد کی حالت کا اعلان کیا ،حتیٰ کہ جمعہ کا قیام بھی ملتوی کر دیا۔چنانچہ فرائضی تحریک نے بنگال میں یہی موقف اختیار کیا ۔ ایک طبقے نے انگریز سے نجات کے لیے ہندو مسلم اتحاد کو فروغ دینے کی کوشش کی، لیکن بہت جلد ان حضرات کو تجربات نے یہ سکھایا کہ یہ اتحاد ان کی نجات کی جگہ مقامی ہندو اکثریت کی مستقل غلامی پر جا کر ختم ہو گا۔اس لیے مسلمانوں کے دین ، تہذیب و ثقافت اور مفاد ات کے تحفظ کی صرف ایک ہی شکل ممکن ہے کہ ان کے لیے ایک آزاد خطہ وجود میں آئے ۔ یہی وہ شعور تھا، جو تصور پاکستان کی شکل میں دو قومی نظریہ کی صورت میں وجود میں آیا اور جس کی تعمیر میں سر سید احمد خان، علامہ محمد اقبال ، مولانا شبیر احمد عثمانی ، مولانا اشرف علی تھانوی، مولانا مودودی  اور سب سے بڑھ کر قائداعظم محمد علی جناح نے قیادت کا کردار ادا کیا۔زیر نظر مقالہ اس تصور کو تاریخ کے تناظر میں دیکھنے کی ایک کوشش ہے ۔

برصغیر میں اسلامی افکار کا فروغ

برصغیر میں اسلام کا تعارف ، محمد بن قاسم کی فتح سندھ کے علاوہ بےشمار تاجروں اور صوفیاے کرام کی مساعی جلیلہ سے ہوا۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ اس خطے میں تصوف آمیز اسلام، جو ظاہر کے مقابلے میں قلب اور داخل کی اصلاح کو فوقیت دیتا تھا، اور جو بادشاہت اور عوام کے لیے زیادہ سہولت مند تھا، رواج پا گیا ۔اس زمینی حقیقت کی بنا پر وہ علماے کرام بھی جو اعلیٰ سیاسی شعور رکھتے تھے اور جو حاکمیت الٰہیہ کے تصور کو سمجھتے تھے، غالباً مصلحت عامہ کی بنا پر بادشاہت کی مخالفت کی جگہ نصیحت کے ذریعے اس کی اصلاح کی طرف راغب رہے ۔حضرت مجدد الف ثانی، حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی اور اور صوفیا نے بادشاہت کو نشانہ نہیں بنایا بلکہ دعوتی اور اصلاحی سر گرمیوں سے نظام میں بہتری کی کوشش کی۔

اس پس منظر میں اسلام کا جو تصور برصغیر میں رواج پا یا، وہ ایک محدود مذہبیت کا تصور تھا، جو چند عبادات اور شخصی معاملات تک محدود ہو گیا ۔اسی لیے انگریز کی آمد سیاسی قیادت کی تبدیلی سے زیادہ نہیں سمجھی گئی اور برصغیر میں کم از کم مسلمانوں نے یہی سمجھا کہ جب تک ہند میں مسلمانوں کو سجدے کرنے کی اجازت ہے، ان کا دین بھی آزاد ہے ۔ وہ عبادت کی آزادی کو نہ صرف مذہبی بلکہ دینی آزادی بھی سمجھتے رہے ۔یہی وہ فکر تھی جس کی علم برداری دیوبند جیسی عظیم الشان دینی درس گاہ نے بھی اختیار کی، اور جسے مسئلہ خلافت جیسی علمی کتاب تحریر کرنے والے مفسر قرآن مولانا ابو الکلام آزادؒ نے اختیار کیا اور ہندو کانگریس کے ساتھ مکمل تعاون کے ذریعے ’ہندستانی قومیت‘، یا ’ایک قومی نظریہ‘ کا علَم بلند کیا۔ اس طرح یہ فکر برصغیر کے مسلمانوں کے ایک طبقے میں سرایت کر گئی۔

چنانچہ مولانا حسین احمد مدنیؒ ناظم دیو بند نے ایک کتابچہ تصنیف کیا(متحدہ قومیت اور اسلام) کہ مسلمان اور ہندو دراصل ایک ہی قوم ہیں اور مذہب ان کا ذاتی معاملہ ہے ۔اپنے نتیجے کے اعتبار سے یہ تصور نہ صرف ہندوؤں بلکہ انگریز سامراج کی فکر کو تقویت اور حمایت فراہم کرتا تھا۔ اس لیے اس کی پذیرائی کی گئی ۔اس کے برعکس علامہ محمد اقبالؒ ، قائد اعظمؒ اورمولانا مودودیؒ نے دوقومی نظریہ کو تحریک پاکستان کی بنیاد بنایا ۔ علامہ اقبال نے فکری طور پر اپنے خطبات اور شاعری کے ذریعے اور خصوصاً اپنے کُل ہند مسلم لیگ کے الٰہ آباد میں صدارتی خطاب میں یہ بات واضح کی کہ اسلام محض عبادات کا نام نہیں ہے بلکہ مکمل نظامِ ہدایت ہے ۔ ادھر مولانا مودودیؒ نے مولانا حسین احمد مدنی ؒکے دلائل کی تردیدایک اہم علمی رسالہ مسئلہ قومیت لکھ کرکی ۔جسے مسلم لیگ کی قیادت نے ملک گیر پیمانے پر جگہ جگہ تحریک پاکستان کی نظری بنیاد کے طور پر استعمال کیا۔

اسی طرح قائد اعظم نے ۱۹۳۰ء کے بعد اپنے تمام خطبات اور بیانات میں ایک ہی بات کو پیش کیا کہ مسلمان اپنے دین ، اپنی ثقافت ، اپنی تاریخ ، اپنے نام وَران و مشاہیر کے لحاظ سے ہندوؤں سے بالکل مختلف ہونے کی بنا پر ہر لحاظ سے ایک مکمل اور الگ قوم ہیں، جو زمین ،  رنگ اورنسل کی قید سے آزاد اور صرف اور صرف عقیدہ و ایمان کی بنا پر ایک قوم ہیں، اور ان کے دین کا تحفظ صرف اور صرف اسی شکل میں ہو سکتا ہے، جب وہ آزادانہ طور پر اپنے نظام حکومت ، نظام معیشت ، نظام معاشرت، نظامِ قانون ، نظام تعلیم غرض زندگی کے تمام معاملات میں قرآن و سنت کی بنیاد پر عمل کرنے کے لیے آزاد ہوں ۔ظاہر ہے یہ عمل آزاد خطہ اور سر زمین کے بغیر نہیں ہوسکتا۔ اس لیے پاکستان کا وجود میں آنا، ایک منطقی ضرورت تھا ۔

اس مختصر مقالے کا مقصد ان ’کرم فرماؤں‘ کے خیالات کا مفصل جواب دینا نہیں ہے، جو آج بھی متحدہ قومیت کے مرض کا شکار ہیں۔ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ براہ راست قائداعظم سے یہ پوچھا جائے کہ ان کا تصور پاکستان ان کے اپنے الفاظ میں کیا ہے ؟ اور کیا ان کا یہ موقف ان کے اعتماد ، مستقل مزاجی اور فکری بلوغت کا مظہر ہے یا وہ کسی سیاسی دباؤ میں آکر کچھ طبقات کو خوش کرنے کے لیے، یا غیر سنجیدگی کے ساتھ محض ہوا کے رُخ کو دیکھ کر کبھی کچھ اور کبھی کچھ کہتے رہے ۔یہ معاملہ نہ صرف ان کی شخصیت اور مقام سے تعلق رکھتا ہے، بلکہ اس کا بہت گہرا تعلق ملک کے تشخص، اس کی نظریاتی بنیاد اور اس کی داخلی اور خارجی حکمت عملی کے ساتھ ہے۔

نظریہ   پاکستان کا ارتقا

تصورِ پاکستان، یعنی ایسی سرزمین کا حصول جس پر زمین کے اصل مالک کا نظام اس کی مرضی کے مطابق نافذ ہو ، جنگ آزادی ۱۸۵۷ء سے بہت پہلے ،اسی وقت وجود میں آچکا تھا، جب برصغیر میں پہلے مسلمان نےقدم رکھا۔ اس کی توثیق بعد میں پیش آنے والے واقعات نے کی ۔ انسانی حقوق کی بحالی کے لیے اس خطے میں محمد بن قاسم کی آمد اور مقامی افراد کا ابن قاسم کے   عدل و احسان کے نظام کو پسند کرتے ہوئے اسے اپنا نجات دہندہ سمجھنا، اس تصور کا ایک حقیقی عکس تھا۔ برصغیر میں مغلیہ حکومت کے زوال کے دوران حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی کا مرہٹوں کے بڑھتے ہوئے اقتدار کو روکنے کے لیے نجیب الدولہ اوراحمد شاہ ابدالی کو دعوت دینا اس عمل کا حصہ تھا ۔ خود ان کے اپنے گھر کے فرد شاہ اسماعیل شہیدکاسید احمد بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ شامل ہوکر ۱۸۲۷ء میں پشاور میں خلافت قائم کرنا، اس خطے میں احیاےاسلام اور نظام عدل کے قیام کی ایک کوشش تھی۔ اس سے قبل ۱۷۵۷ء میں جنگ پلاسی میں انگریزوں کی کامیابی نے ایک نئی صورتِ حال پیدا کردی تھی۔

 اب دہلی کی مغلیہ سلطنت ، بنگال اور دیگر مقامات پر مسلمان فرماںرواؤں کی جگہ برطانیہ کے پنشن خوار نواب اور فرماںرواؤں کے دور کا آغاز ہوا۔ ایسا شگاف نہ صرف برصغیر میں بلکہ  سلطنت عثمانیہ میں بھی پیدا ہوا۔برصغیر کے بعض جرأت مند مسلمان فرماںرواؤں مثلاً میسور کے حکمران حیدرعلی اورٹیپوسلطان نے اٹھارھویں صدی کے آخر میں اپنی مقدور بھر کوشش کی اور ذلت کی زندگی کی جگہ شہادت کے اعلیٰ مقام کو منتخب کیا۔ لیکن۱۸۳۱ء میں بالاکوٹ (خیبرپختونخوا) میں سیّد احمد کی شہادت کے تھوڑے عرصے بعد ۱۸۵۷ء میں جنگ آزادی کی شکل میں ایک مزید کوشش کے بعد برصغیر کے مسلمان بڑی حد تک مایوسی کا شکار ہو گئے اور اب انھیں آسان راستہ یہی نظر آیا کہ وہ انگریز کے اقتدار کو مانتے ہوئے اپنے ذاتی فوائد کے حصول کے لیےمفاہمت کارو یہ اختیار کریں۔

جو مسلمان اس پر آمادہ نہ تھے،انھیں سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ۔ان کی زمینیں، ان کے کاروبار ختم کردیے گئے اور ہندو زمینداروں نے بڑھ چڑھ کر مسلمانوں کے ساتھ ذلت آمیز رویہ اختیار کرنا شروع کیا ۔بہت سے مقامات پر" ڈاڑھی ٹیکس" لگایا گیا۔ گائے کی قربانی پر پابندی عائد کر دی گئی۔ مساجد کو تاراج کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی گئی ۔یہ سب انگریز کی سرپرستی میں ہوا اور حکومت نے اس پر کوئی گرفت نہ کی۔

 انگریز سامراج نے مسلمانوں کو غلام بنانے کے لیے عسکری وانتظامی قوت کے ساتھ تعلیمی قوت کو بھی استعمال کیا اور سرکاری زبان فارسی اور عربی اور عوامی زبان اردو کی جگہ انگریزی کو سرکاری زبان کا درجہ دے کر ان تمام مسلمانوں کے لیے جو کل تک تعلیم یافتہ تھے اور حکومت کے مختلف شعبوں عدالتوں، انتظامیہ اور تعلیمی ذمہ داری ادا کر رہے تھے، ایک لمحے میں تعلیم یافتہ سے ناخواندہ میں تبدیل کردیا ۔ ہندو اس سے بہت پہلے انگریز کے ساتھ ساز باز اور تعاون کرنے میں پیش پیش تھے اور انگریزی تعلیم کو اختیار کر چکے تھے اور سرکاری مناصب کے دروازے ان کے لیے کھلے ہوئے تھے۔ اس صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے مئی ۱۸۵۷ء میں سرسید احمد خان نے علی گڑھ میں ایک مدرسے کا آغاز کیا، جو آگے چل کر اینگلو محمڈن اورینٹل کالج اور پھر علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے نام سے مشہور ہوا۔ دوسری جانب ہندو ۱۸۳۱ء سے انگریزی تعلیم حاصل کر رہے تھے اور   راجا رام موہن رائے کی کوششوں سے برطانوی حکومت ان کے ساتھ کھل کر تعاون کر رہی تھی۔ ہندوؤں کے اعلیٰ مناصب پر فائز ہونے کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ۱۸۵۲ء تا ۱۸۶۲ء کلکتہ ہائی کورٹ میں ۱۴۱ وکلا رجسٹر کیے گئے، جن میں سے صرف ایک مسلمان تھا۔ اس صوبے کے ۲۱۴۱گزیٹڈ افسران میں صرف ۹۲ مسلمان تھے ۔ اس بات سے ایک اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ تعلیم، کاروباراور پیشہ ورانہ شعبوں میں ہر طرف ہندو چھائے ہوئے تھے، خصوصاً بیوروکریسی میں ہندو عمل دخل غیر معمولی تھا۔

انیسویں صدی میں برصغیر میں مسلمانوں کا سیاست میں کوئی نمایاں اثر نظر نہیں آ رہا تھا۔اس صورتِ حال میں ۱۸۸۵ءمیں بمبئی میں انڈین نیشنل کانگریس انگریز حکمرانوں کی مشاورت اور حمایت کے ساتھ قائم ہوئی، تاکہ عوامی سطح پر بھی انگریز کی حمایت حاصل کی جائے اور مسلمان جو انگریز حکومت کے رویے سے غیر مطمئن اور شاکی تھے، ان کے مقابلے میں ایک توازن پیدا کرنے والی عوامی قوت انگریز کے اپنے ہاتھ میں ہو۔ انڈین کانگریس کے ذمہ داران نے کھلے عام انگریز سے اپنی وفاداری کی بنیاد پر اس تنظیم کی بنیاد رکھی۔

 مسلمانوں کو جگانے والا ایک واقعہ اس دوران میں یہ پیش آیاکہ ۱۹۰۵ء میں برطانوی وائس رائے ہند لارڈ کرزن نے اپنی اصلاحات میں بنگال کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا، ایک حصہ مشرقی بنگال اور آسام کا جس میں مسلمان اکثریت تھی اور اس کا مرکز ڈھاکاتھا ،مشرقی بنگال بعد میں مشرقی پاکستان بنااور دوسراحصہ مغربی بنگال جس کا مرکز کلکتہ تھا -یہ تقسیم ہندوؤں کو گوارا نہیں ہوئی ۔انھوں نے مسلسل مہم چلا کراور حکومت میں اپنے اثرورسوخ کو استعمال کرتے ہوئے برطانوی حکومت کو فیصلہ بدلنے پر مجبور کیا۔ ان حالات نےہر صاحب ہوش مسلمان کو یہ بات باور کروا دی کہ برصغیر میں بسنے والے قطعاً ایک قوم نہیں ہیں بلکہ یہاں صدیوں سےدو اقوام موجود رہی ہیں، جن کے مفادات ،عقائد، دین، تاریخ ،ثقافت، زبان ہر چیز دوسرے سے ممتاز ہے اور کوئی بھی حکومت جس کی بنیاد محض کثرت تعداد پر ہو مسلمانوں کو تحفظ فراہم نہیں کرسکتی ۔ ۱۹۰۶ء میں ڈھاکہ میں نواب وقارالملک کی صدارت میں کُل ہند مسلم لیگ کا قیام اسی شعور کا اظہار تھا۔

 یہ جداگانہ قومی تصور ہی تھا جس کی بنیاد پر مسلمانوں کے مختلف وفود انگریز وائسرائے سے وقتاً فوقتاً ملے ۔ مثلاً آغا خان سوم کی سربراہی میں لارڈ منٹو سے ملاقات اور یہ مطالبہ کے جداگانہ انتخابات کرائے جائیں، اسی فکر کا ایک مظہر تھا۔ لیکن معاہدوں کی سیاست مطلوبہ نتائج پیدا نہیں کرسکی۔ ۱۹۱۶ءسے ’لکھنؤ معاہدہ‘ کے صرف ۹ ماہ بعد ۲۲ ستمبر ۱۹۱۷ء کو شاہ آباد ،آگرہ اور اعظم گڑھ میں ۲۵ہزار ہندوؤں نے مسلم دیہات پر حملہ کر کے بہیما نہ قتل و غارت اور مسلمانوں کو زندہ جلا کر نام نہاد ’اتفاق‘کی حقیقت کو واضح کر دیا۔۱۹۲۸ء میں ’نہرورپورٹ‘ نے ’لکھنؤ معاہدہ‘ کو مکمل طور پر نظرانداز کرتے ہوئے مخلوط انتخابات اور ایسی تجاویز دیں کہ وقت گزرنے کے ساتھ مسلمانوں کا تشخص اور تہذیب کا نام و نشان تک باقی نہ رہے۔

اس تاریخی تناظر میں ۱۹۳۰ء میں الہ آباد کے کُل ہند مسلم لیگ کنونشن میں اپنے صدارتی خطاب میں علامہ محمد اقبال نے مسلمانان ہند کے مستقبل کے حوالے سے شمال مغربی ہندستان میں جہاں مسلمانوں کی اکثریت تھی ایک آزاد ریاست کی تجویز پیش کی۔ ۱۹۳۳ءمیں چودھری رحمت علی اور خواجہ عبدالرحیم نے اپنے فکرانگیز پمفلٹ Now or Never میں علامہ کے خواب کو اپنے الفاظ کی شکل میں پیش کیا۔۱۹۳۵ء کے ایکٹ میں ایک فیڈرل نظام کی تجویز دی گئی تھی ،اس دوران یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچ چکی تھی کہ کانگریس کا تصور متحدہ قومیت، یعنی زمین یا سکونت کسی قوم کی قومیت کی بنیاد ہوتی ہے، مسلمانوں کے لیے ناقابلِ قبول ہے۔

انڈین نیشنل کانگریس کے تصورِ متحدہ قومیت کی حمایت میں مسلمانوں کی جانب سے دارالعلوم دیوبند کے علما کا ایک مؤثر طبقہ سب سے آگے تھا۔ چنانچہ مولانا سیّد حسین احمد مدنی صاحب اور ان کے ہم خیال علما نے، جن میں بعض علما بعد میں سیاسی مناصب پر فائز ہوئے، پوری قوت سے کانگریس کی حمایت اور مسلم لیگ کی مخالفت کی۔کانگریس کے حمایتی علما میں مولانا ابوالکلام آزاد سب سے آگے تھے ، جو بعد میں مرکزی وزیر تعلیم کے عہدے پر بھی فائز ہوئے۔

اس کے برعکس دارالعلوم دیوبند ہی کے اکابر علمامیں سے مولانا اشرف علی تھانوی، مولانا شبیراحمد عثمانی اور مفتی محمد شفیع کے علاوہ مولانا مودودی نے کھل کر دو قومی نظریہ کی حمایت کی ۔

مولانا مودودی نے ایک سلسلہ مضامین مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش تحریر کیا اور ایک رسالہ مسئلہ قومیت تصنیف کیا جس کے بارے میں ڈاکٹر اشتیاق قریشی صاحب کا کہنا ہے کہ قرآن و حدیث پر مبنی اس رسالے نے مولانا حسین احمد مدنی کے موقف کو پُرزہ پُرزہ کردیا اور انتہائی سنجیدہ ٹھنڈے اور عقلی اور قرآن و حدیث پر مبنی دلائل سے دو قومی نظریہ پر ناقابلِ تردید تحریر پیش کی:

۱- اس رسالے کو مسلم لیگ نے بڑے پیمانے پر ملک میں تقسیم کیا ۔علامہ اقبال نے مولانا مدنی صاحب پر سخت تنقید شعر کی زبان میں کی :

عجم ہنوز نداند رموز دیں ورنہ

 زدیوبند حسین احمد! ایں چہ بوالعجبیست

سرود برسرِ منبر کہ ملت از وطن است

چہ بے خیرز مقام محمد عربیست

بمصطفٰی برساں خویش را کہ دیں ہمہ

 اوست  اگر بہ او نرسیدی تمام بولہبیست

 [عجم کو ابھی تک رموز دیں کی خبر نہیں، ورنہ دیوبند کے حسین احمد یہ بوالعجبی نہ کرتے۔ یہ تو گویا منبر پر سرود بجانے کے مترادف ہے کہ قوم وطن سے بنتی ہے۔ یہ مقامِ محمد عربی سے کس قدر بے خبری ہے۔ خود کو مصطفےٰ کی بارگاہ میں پہنچاؤکہ دین پورے کا پورا ان سے عبارت ہے۔ اگر تو اس تک نہ پہنچا تو سب کچھ بولہبی ہے]۔

 اور دوسری جانب تصور قومیت، یعنی دین کی بنیاد پر قومیت کا تصور جسے مولانا مودودی نے اپنے رسالے میں وضاحت سے بیان کیا تھا اسے علامہ محمد اقبال نے یوں بیان کیا:

اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر

خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی

ان کی جمعیت کا ہے ملک و نسب پر انحصار

قوتِ مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تیری

اس دوران مولانا عبدالماجددریابادی کے بقول یوپی صوبہ کی مسلم لیگ نے ایک مجلس قائم کی کہ جس اسلامی حکومت کے قیام کے لیے پاکستان بنانے کا خیال ہے، یہ مجلس اس کا نقشہ مرتب کرے۔ اس میں مولانا سید سلیمان ندوی، مولانا ابو الاعلیٰ مودودی، مولانا آزاد سبحانی ، اور خود مولانا عبدالماجد دریابادی کو شامل کیا گیا۔

 ۲- جس سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ جاتی ہے کہ پاکستان میں اسلامی نظام کا قیام ہی تحریکِ پاکستان کا بنیادی مقصد تھا اور اس غرض کے لیے مسلم لیگ خود ایسے علما کی امداد حاصل کر رہی تھی، جو دو قومی نظریہ کے حامی تھے، لیکن مسلم لیگ کے ممبر نہیں تھے ۔

مسلم لیگ کی قیادت قائد اعظم محمد علی جناح، نواب بہادر یارجنگ، نوابزادہ لیاقت علی خاں، سردار عبدالرب خان نشتر ،خواجہ ناظم الدین ،مولوی اے کے ایم فضل الحق، مولانا حسرت موہانی اور قائداعظم کے قریبی حلقہ کے افراد مثلاً علامہ محمد اسد دو قومی نظریہ اور پاکستان کے اسلامی ریاست ہونے پر مکمل یقین رکھتے تھے۔ جس کا اظہار ان قائدین نے بے شمار مواقع پر اپنے خطبات ،خطوط اور بیانات میں کیا۔

یہ ایک عجیب معما ہے کہ ان تمام دستاویزات کو نظرانداز کرتے ہوئے، پاکستان کے نام نہاد آزاد خیال دانش وَر صرف ۱۱؍ اگست ۱۹۴۷ء کی اس تقریر کو سیکولرزم کی تائید میں بطور دلیل پیش کرتے ہیں، جس میں قائد اعظم نے سیکولر یا مغربی جمہوریت کا لفظ تک استعمال نہیں کیا، جب کہ قائد نے دیگر مواقع پر واضح طور پر پاکستان کے لیے اسلامی تشخص اور مغربی جمہوریت کے پاکستان کے لیے ناموزوں ہونے کا بار بار اظہار کیا ۔ قائد کے ان خطبات کو معلوم نہیں کیوں یہ دانش وَر پڑھنے سے گریز کرتے ہیں ؟

اس مختصر تاریخی پس منظر کے بعد ہم قائداعظم اور ان کے رفقاء کے پاکستان کے بیانیہ کو کسی تعبیر و تشریح کے بغیر ان کے اپنے الفاظ میں پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اقتباسات اصل زبان میں درج کیے جا رہے ہیں تاکہ ترجمہ کرتے وقت تعبیر کا کوئی دخل نہ ہو اور اصل مدعا بالکل اسی طرح سامنے آئے، جیسے اظہار خیال کرنے والے نے بات کہی ہے ۔

علامہ اقبال کا تصور پاکستان

قائد اعظم کے فکری رہنما اور مسلم لیگ سے براہ راست وابستہ سیاسی بصیرت اور دینی فہم رکھنے والے علامہ اقبال نے الہ آباد میں مسلم لیگ کے کنونشن سے ۱۹۳۰ء میں اپنے خطبۂ صدارت میں جو بات تحریراً پیش کی، وہ اقبال اور قائداعظم کی فکر کی نمایندہ اور مسلم لیگ کی اعلان شدہ پالیسی کا درجہ رکھتی ہے ۔علامہ نےمسئلے کی نبض پر ہاتھ رکھ کرواضح اور غیر مبہم الفاظ میں کہا کہ مسلم قومیت کی بنیاد دین اسلام ہے جو زندگی کو سیاسی اور مذہبی، مادی اور روحانیت کے الگ الگ خانوں میں تقسیم نہیں کرتا بلکہ توحید کی تعلیم کے ذریعے مسلمان کے ہر عمل کو دین کے دائرے میں اور ہر سر گرمی کی بنیاد دین کو قرار دیتا ہے:

"What, then, is the problem' and its implications?? Is religion a private affair? Would you like to see Islam as a moral and political ideal, meeting the same fate in the world of Islam as Christianity has already met in Europe?? Is it possible to retain Islam as an ethical ideal and to reject it as a polity, in favour of national politics in which  [the] religious attitude is not permitted to play any part??  This question becomes of special importance in India, where the Muslims happen to be in a minority. The proposition that religion is a private individual experience is not surprising on the lips of a European"....

سوال یہ ہے کہ آج جو مسئلہ ہمارے پیش نظر ہے اس کی صحیح حیثیت کیا ہے؟ کیا واقعی مذہب ایک فرد کا نجی معاملہ ہے ، اور کیا آپ بھی یہی چاہتے ہیں کہ ایک اخلاقی اور سیاسی نصب العین کی حیثیت سے اسلام کا بھی وہی حشر ہو جو مغرب میں مسیحیت کا ہوا ہے؟ کیا یہ ممکن ہے کہ ہم اسلام کوبطور ایک اخلاقی تخیل کے توبرقرار رکھیں، لیکن اس کے نظامِ سیاست کےبجائے ان قومی نظامات کو اختیار کرلیں، جن میں مذہب کی مداخلت کا کوئی امکان باقی نہیں رہتا؟ ہندستان میں تو یہ سوال اور بھی اہمیت رکھتا ہے کیونکہ باعتبار آبادی ہم اقلیت میں ہیں ۔یہ دعویٰ کہ مذہبی ارادت محض انفرادی اور ذاتی واردات ہیں، اہلِ مغرب کی زبان سے تو تعجب خیز معلوم نہیں ہوتا....

The religious ideal of Islam, therefore, is organically related to the social order which it has created. The rejection of the one will eventually involve the rejection of the  other. Therefore the construction of the polity on national lines, if it means a displacement of the Islamic principle of solidarity, is simply unthinkable to a Muslim…

لہٰذا، اسلام کا مذہبی نصب العین اس کے معاشرتی نظام سے جو خود اسی کا پیداکردہ ہے، الگ نہیں ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ اگر آپ نےایک کو ترک کیا تو بالآخر دوسرے کا ترک بھی لازم آئے گا۔ میں نہیں سمجھتا کہ کوئی مسلمان ایک لمحے کے لیے بھی کسی ایسے نظامِ سیاست پر غورکرنے کے لیے آمادہ ہوگا جو کسی ایسے وطنی یا قومی اصول پر جو اسلام کے اصولِ اتحاد کی نفی کرنے پر مبنی ہو۔

The principle of European democracy cannot be applied to India without recognizing the fact of communal groups. The Muslim demand for the creation of a Muslim India within India is, therefore, perfectly justified....

مغربی جمہوریت کا اصول مختلف قومیتوں کی حقیقت کو تسلیم کیے بغیر ہندستان میں نافذ نہیں کیا جاسکتا، لہٰذا مسلمانوں کا انڈیا میں مسلم انڈیا کی تشکیل کا مطالبہ مکمل طور پر منصفانہ ہے…

I would like to see the Punjab, North-West Frontier Province, Sind and  Balochistan amalgamated into a single State. Self-government within the British Empire, or without the British Empire, the formation of a consolidated North-West Indian Muslim State appears to me to be the final destiny of the Muslims, at least of North-West India.

میری ذاتی طورپر خواہش ہے کہ پنجاب، صوبہ شمال مغربی سرحد [خیبرپختونخوا]، سندھ اور بلوچستان کو ایک ہی ریاست میں ملا دیا جائے، خواہ یہ ریاست سلطنت برطانیہ کے اندر حکومت خود اختیاری حاصل کرے، خواہ اس کے باہر۔ مجھے تو ایسا نظر آتا ہے کہ اور نہیں تو شمالی مغربی ہند کےمسلمانوں کو بالآخر ایک منظم مسلم ریاست قائم کرنا پڑے گی۔

"I therefore demand the formation of a consolidated Muslim State ln the best interests of India and Islam. For India it means security and peace resulting from an internal balance of power; for Islam an opportunity to rid itself of the stamp that Arabian imperialism was forced to give it, to mobilise its law, its education, its culture, and to bring them into closer contact with its own original spirit and with the spirit of modern times…"

میں صرف ہندستان اور اسلام کے فلاح و بہبودکے خیال سے ایک منظم مسلم ریاست کے قیام کامطالبہ کر رہا ہوں۔اس سے ہندستان کے اندر توازنِ قوت کی بدولت امن و امان قائم ہوجائے گا اور اسلام کو اس امر کا موقع ملے گا کہ وہ ان اثرات سے آزاد ہوکر جو عربی شہنشاہیت کی وجہ سے اب تک اس پرقائم ہیں اس جمود کو توڑڈالے جو اس کی تہذیب و تمدن، شریعت اور تعلیم پر صدیوں سے طاری ہے۔ اس سے نہ صرف ان کے صحیح معانی کی تجدید ہوسکے گی ، بلکہ وہ زمانہ حال کی روح سے بھی قریب تر ہوجائیں گے۔

علامہ اقبال اور قائد اعظم کے ذہن میں یہ مسئلہ بالکل واضح تھا کہ برصغیر کے مسلمانوں کی آزادی بالکل بے معنی ہے اگر تقسیم ملک کے بعد بھی ہندوؤں ، عیسائیوں اور مسلمانوں کوصرف اپنے مندر ، چرچ اور مسجد جانے کی اجازت ہو، اور وہ اپنی ذاتی زندگی میں روزہ، نماز ،زکوٰۃ اور دیگر مراسمِ عبودیت ادا کرسکتے ہوں۔’ مذہب‘پر اس نوعیت کے عمل سے نہ تو انگریز سامراج نے کبھی روکا اورنہ ہندو اکثریت کے ماتحت ہونےکے بعد ہندستان کا سیکولر دستور اس سے روک سکتا تھا، نہ کسی سیکولر نظام نےدنیا کے کسی بھی خطے میں یہ اعلان کیا کہ وہ عبادت کی آزادی نہیں دے گا۔

اصل مسئلہ یہ تھا کہ کیا نئے بننے والے پاکستان کی بنیاد علاقائی، لسانی یانسلی قومیت ہوگی جیسے یورپ میں پائی جاتی ہے؟ اس لیے علامہ اقبال اور قائد اعظم نے بار بارجن باتوں کو واضح کیا ان میں اول یہ تھی کہ اسلام میں دین و سیاست میں کوئی تفریق نہیں پائی جاتی۔ دوم یہ کہ پاکستان کا اسلامی تشخص ہی اس کی بنیاد ہے۔ چنانچہ اس پختہ عزم کا اظہا کیا گیا کہ کہ نئے ملک میں اسلامی تعلیمات، قوانین ،ثقافت ، سیاسی نظام ،روایت علم اور معیشت کو قرآن و سنت کی روشنی میں مرتب اور نافذ کیا جائے گا ۔ دونوں قائدین کےواضح بیانات اور تحریر وں میں یہ با ت تکرار کے ساتھ کہی جاتی رہی، حتیٰ کہ مسلمانانِ ہند نے اس بات پر یقین کیا اور اس کے نتیجے میں عامتہ المسلمین نے جان، مال،عزّت، ہر چیز اس خطۂ زمین پر قربان کرتے ہوئے وہ عظیم قربانی دی، جس کی انسانی تاریخ میں نظیرتلاش کرنا بے حد مشکل ہے۔

علامہ اقبال نے ۱۹۳۰ء میں مسلم لیگ کے اسی کنونشن میں یہی بات بیان کی :

"Islam does not bifurcate the unity of man into an irreconcilable duality of spirit and matter. In Islam, God and universe, spirit and matter, church and state are organic to each other. Man is not the citizen of a profane world to be renounced in the interest of a world of spirit situated elsewhere. To Islam, matter is spirit realizing itself in space and time".

لیکن اسلام کےنزدیک ذاتِ انسانی بجائے خود ایک وحدت ہے۔ وہ مادے اور روح کی کسی ناقابلِ اتحاد ثنویت کا قائل نہیں۔ مذہب اسلام کی رُو سے خدا اور کائنات، کلیسااور ریاست اور روح اور مادہ ایک ہی کُل کے مختلف اجزاہیں ۔ انسان کسی ناپاک دنیا کا باشندہ نہیں جس کو اسے ایک روحانی دنیا کی خاطر جو کسی دوسری جگہ واقع ہے، ترک کر دینا چاہیے۔اسلام کے نزدیک مادہ روح کی ایک شکل کا نام ہے جس کا اظہار قیدمکانی و زمانی میں ہوتا ہے۔

اسلامی ریاست کے اسی تصور کو علامہ اقبال اپنے خطبے The Principal of Movement  in the Structure of Islam (الاجتہادفی الاسلام) میں یوں بیان کرتے ہیں :

"The essence of Tawhid, as a working idea, is equality, solidarity and freedom. The state, from the Islamic standpoint, is an endeavor to transform these ideal principles into space- time  forces, an aspiration to realize them in a definite human organization. It is in this sense alone that the state in Islam is a theocracy, not in the sense it is headed by a representative of God on earth, who can always screen his despotic will behind his supposed infallibility… All that is secular is, therefore sacred in the roots of its being.....There is no such thing as a profane world. All this immensity of matter constitutes a scope for the self-realization of spirit. All is holy ground. As the Prophet so beautifully puts it:  "The whole of this earth is a mosque"...The state, according to Islam is only an effort to realize the spiritual in a human organization.

گویا بہ حیثیت ایک اصولِ عمل، توحید اساس ہے حُریت ، مساوات اور حفظ نوع انسانی کی۔ اب اگراس لحاظ سے دیکھا جائے تو ازروے اسلام ریاست کا مطلب ہوگا ہماری یہ کوشش کہ یہ عظیم اور مثالی اصول زمان و مکان کی دنیا میں ایک قوت بن کرظاہر ہوں۔ وہ گویا ایک آرزو ہے ان اصولوں کو ایک مخصوص جمعیت بشری میں مشہود دیکھنے کی۔ لہٰذا، اسلامی ریاست کو حکومت الٰہیہ سے تعبیر کیا جاتا ہے تو انھی معنوں میں ۔ ان معنوں میں نہیں کہ ہم اس کی زمامِ اقتدار کسی ایسے خلیفۃ اللہ فی الارض کے ہاتھ میں دے دیں، جو اپنے مفروضہ معصومیت کے عُذر میں اپنے جورو استبداد پر ہمیشہ ایک پردہ سا ڈال رکھے… جس کا ماحصل یہ ہے کہ مادی کے بحیثیت مادی کوئی معنی ہی نہیں ، اِلا یہ کہ ہم اس کی جڑیں روحانی میں تلاش کریں۔ بالفاظِ دیگر یہاں کسی ناپاک دنیا کا وجود نہیں… برعکس اس کے مادے کی ساری کثرت روح ہی کے ادراک ذات کا ایک میدان ہے اور اس لیے جو کچھ بھی ہے، مقدس ہے۔ کیا خوب ارشاد فرمایا ہے۔ حضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ ’’ہمارے لیے یہ ساری زمین مسجد ہے‘‘۔ لہٰذا اسلامی نقطۂ نظر سے ریاست کے معنی ہوں گے ہماری یہ کوشش کہ ہم جسےروحانی کہتے ہیں ، اس کا حصول اپنی ہیئت اجتماعیہ ہی میں کریں (تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ، ترجمہ: سیّد نذیر نیازی، ص ۲۲۸-۲۲۹)۔(جاری)

ویسے تو حقوق انسانی کی خلاف ورزیاں، زیادتیاں، گرفتاریاں اور ٹارچر کشمیر میں عام بات ہے اور وہاں کے مکین بھی ان مظالم کو سہنے کے عادی ہو چکے ہیں، مگر پچھلے سال اگست کے بعد سے بھارت نے جس طرح ریاست کو تحلیل اور ضم کردیا، اس نے بھارتی سیکورٹی اداروں کو اس حد تک بے لگام کر دیا ہے، کہ دیگر ادارے بشمول عدلیہ بھی ان کے سامنے بے بس نظر آتی ہے۔

۷؍اگست ۲۰۲۰ء کو ’پاکستان، انڈیا پیپلز فورم فار پیس اینڈ ڈیموکریسی‘ (PIPFPD) اور ’جموں و کشمیر سالیڈیریٹی گروپ‘ نے کشمیر کے زمینی حالات کا جائزہ لینے کے بعد ۱۹۶صفحات پر مشتمل ایک جامع رپورٹ The Siege میں کئی دل خراش واقعات قلم بند کیے ہیں ، جن کو پڑھیں تو کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ بدقسمتی سے میڈیا میں اس رپورٹ کو خاطر خواہ تشہیر نہیں مل سکی ہے۔رپورٹ کے مصنّفین تپن کے بوس، ریتامن چندا، انورادھا بھاسین، راجا سری داس گپتا، جاشودرا داس گپتا، اشوکا اگروال، ایم جے وجین اور دیگر افراد نے دیہات اور قصبوں کا دورہ کرکے بجاطور پر یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ خطے میں عدم تعاون کی ایک خاموش تحریک چل رہی ہے، جس سے بھارت نواز پارٹیاں اور حکومت خاصی خائف ہے اور سیکورٹی انتظامیہ کا رویہ خاصا ہتک آمیز اور بے لگام ہو گیا ہے۔

پلوامہ کے متمول تاجر اور ایک فیکٹری کے مالک کا ذکر کرتے ہوئے رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح دیہی علاقوں میں عام افراد کو مخبر ی کے لیے مجبور کیا جاتا ہے۔ اس تاجر نے وفد کو بتایا کہ: چند ماہ قبل جب مَیں انڈسٹریل اسٹیٹ میں واقع اپنی فیکٹری کے سامنے کار پارک کر رہا تھا تو راشٹریہ رائفلز کے سپاہیوں نے مجھ کو سڑک پر سے اینٹیں اٹھا کر ایک ٹرالی میں ڈالنے کا حکم دے دیا۔ میں نے پہلے تو احتجاج کیا اور پھر یہ پیش کش کی کہ اپنی فیکٹری سے مزدور بلاکر یہ کام کروا دوں گا۔ مگر سپاہی یہ جواب سن کر اور بھی طیش میں آگئے اور کہا کہ ـ’’ کشمیریوں کو اب یہ جان لینا چاہیے کہ وہ ہمارے غلام ہیں اور ان کو غلامی کی زندگی گزارنا سیکھنا ہوگا اور غلام ہی کی طرح رہنا ہوگا‘‘۔ یہ کہتے ہوئے اس متمول اور درمیانی عمر کے تاجر کے سر پر وہ اینٹوں اور گارے کا ٹوکرا زبردستی لاد کر اگلے کئی گھنٹے تک بیگا ر لیتے رہے۔ سڑک کی دوسری طرف اس کی فیکٹری کے مزدور اپنے مالک کو سر پر اینٹیں اور گارا ڈھوتے ہوئے دیکھ رہے تھے۔

 اسی طرح رپورٹ میں درج ہے کہ پچھلے سال ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی کارروائی کے دوران جب پاکستانی وزیر اعظم عمران خان تقریر کررہے تھے ، تو اس علاقے میں سپاہیوں نے لوگوں کے دروازے کھٹکھٹائے اور جو بھی یہ تقریر دیکھ رہا تھا ،اس پر بدترین تشدد کیا۔

رپورٹ میں ایک ایسے شخص کی آپ بیتی درج ہے، جس کے والد انڈین ملٹری کی انجینیرنگ سروس اور اس کے حقیقی چچا بھارتی فضائیہ کے لیے کام کرتے تھے۔ ۲۰۱۴ء میں آئے سیلاب کے متاثرین کے لیے جب اس نے بڑھ چڑھ کر ریلیف کا کام کیا تو پولیس نے اس کو گرفتار کرکے پوچھ گچھ کی کہ ریلیف کے لیے رقوم کہا ں سے آرہی ہیںاور کس نے ریلیف میں حصہ لینے کی ترغیب دی؟ ۲۰۱۸ء میں راشٹریہ رائفلز کی ۵۵ویں بٹالین نے اس کے گھر پر دھاوا بول کر کار اور دیگر قیمتی اشیا اپنے قبضے میں لے لیں۔ اگلے دن کیمپ میں بٹالین کے کیپٹن نے اس مظلوم کو بلاکر کہا کہ وہ عسکری کمانڈرذاکر موسیٰ کی اہلیہ تک رسائی حاصل کرکے اس کی مخبری کرے۔ ان کو معلوم ہوگیا تھا کہ ذاکر موسیٰ [ذاکرراشدبٹ شہید - ۲۴مئی ۲۰۱۹ء]کی اہلیہ اس کے ایک قریبی دوست کی ہمشیرہ ہے۔ اس گھٹیا حرکت سے انکار کی صورت میں اس تاجر کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر خوب زد و کوب کیا گیا، جس سے اس کے ہاتھ کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ کئی دن حراست میں رکھنے کے بعد اس کے والد نے انڈین فوج کے کیپٹن کو ۳ لاکھ [یعنی پاکستانی ۵ لاکھ] روپے ادا کرکے اس کو چھڑوایا۔

اس شخص کا کہنا تھا کہ ’’میں نے اپنے والد اور چچا کی فوج کے ساتھ قربت کی وجہ سے فوج کو کافی قریب سے دیکھا اور پرکھا ہے، اور اس فوج کے اندر جس قدر کرپشن سرایت کر گئی ہے اس کا مَیں چشم دید گواہ ہوں‘‘۔ پچھلے سال ۵؍ اگست کا ذکر کرتے ہوئے اس تاجر کا کہنا ہے ’’کرفیو کی وجہ سے اس دن اپنی فیکٹری میں ہی رُکا رہا۔ مگر میرے گھر پر انڈین آرمی نے دھاوا بولا اور افراد خانہ کو زد و کوب کیا، حتیٰ کہ دماغی طور پر کمزور میرے ۱۵سالہ کزن کو بری طرح پیٹا۔ اس واقعہ کی اطلا ع ملنے پر میں کیمپ کی طرف روانہ ہوا، جہاں مجھ پر الزام لگایا گیا کہ میں احتجاج میں شریک تھا اور پھر چند دن کیمپ میں حراست میں رکھ کر مجھ کو پولیس کے حوالے کیا گیا۔ پولیس لائنز میں اس وقت ایک درجن کے قریب ۱۳سے ۱۵سال کی عمر کے بچے بند تھے۔ چار روز بعد تو مجھ کو چھوڑدیا گیا ، مگر ان بچوں پر بد نامِ زمانہ پبلک سیفٹی ایکٹ کا اطلاق کرکے انھیں جیلوں میں بھیج دیا گیا‘‘۔

دل دہلا دینے والی اس رپورٹ کے مطابق پچھلے ایک سال کے دوران ۱۲سے ۱۵ہزار افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ان گرفتار شدہ اور دیگر بہت سے زیرحراست افراد کا کوئی حساب کتاب، لواحقین اور سول سوسائٹی کو نہیں ہے۔ مصنّفین کے مطابق ایک شخص کو گرفتار کرکے آگرہ جیل میں محض اس وجہ سے پہنچا دیا گیا کہ کسی فوٹو میں اس کو ایک نماز جنازہ ادا کرتے ہو ئے دیکھا گیا تھا۔ پچھلے ایک سال کے دوران جموں و کشمیر ہائی کورٹ میں حبس بے جا کی ۴۵۰ رٹ پٹیشن دائر کی گئیں، مگر صرف تین کی شنوائی کی گئی۔ کشمیر سے ہزاروں کلومیٹر دُور اسیروں کی حالت نہایت ناگفتہ بہ ہے۔ اسیروں سے ملاقات کے لیے اکثر افراد خانہ کو زمین و جایداد بیچنی پڑی ہے۔

کپواڑہ کا ایک طالب علم بلال احمد جو سرینگر میں امر سنگھ کالج میں زیر تعلیم تھا، اسے پولیس نے چند دیگر نوجوانوں کے ساتھ حراست میںلے لیا۔ ایس ایچ او نے طالب علم کے رشتہ داروں کو بتایا کہ چند روز میں اس کو رہا کر دیا جائے گا۔ دیگر نوجوانوں کو تو چند روز بعد بھاری رشوت کے عوض رہا کیا گیا، مگر بلال کے والد نے جب رقم دینے سے انکار کر دیا، تو اگلے ہی دن اس پر پبلک سیفٹی ایکٹ کا اطلاق کرکے ۱۶۰۰کلومیٹر دور اتر پردیش کے امیڈکر نگر ضلع کی جیل میں بھیج دیا گیا جہاں اس کو یرقان کی بیماری لاحق ہوگئی۔ یہ ضلع لکھنؤ سے ۲۰۰کلومیٹر دور فیض آباد ڈویژن میں آتا ہے۔ جب اس نوجوان کے والد صاحب کو پتا چلا تو وہ محض ۲۵ہزار روپے میں گائے بیچ کر امبیڈکر نگر پہنچ گئے، وہاں کسی ہندو تو دُور مسلم ہوٹل والے نے بھی ان کو رات بھر کرائے کے کمرے میں ٹھیرنے کی اجازت نہیں دی۔ جیل کے کمرئہ ملاقات میں بلال نے ان کو بتایا: ’’مجھ کو بُری طرح زدو کوب کیا جاتا رہا ہے۔ اس جیل میں دیگر ۲۵؍ایسے کشمیری لڑکے تھے، جن کے گھر والوں کو ابھی تک ان کا کوئی اتہ پتہ نہیں کہ وہ زندہ ہیں یا کہاں پر اور کس حالت میں ہیں؟‘‘ سرینگر واپسی پر بلال کے والد نے ہائی کورٹ میں فریا دکی ، میرے بیٹے کے امتحانات شروع ہونے والے ہیں۔ اس کو امتحان میں شرکت کی اجازت دی جائے‘‘۔ کورٹ نے دسمبرمیں حکم دیا کہ بلال کو سرینگر جیل میں منتقل کیا جائے، تاکہ وہ امتحانات دے سکے۔ مگر اس عدالتی حکم پر ذرہ برابر عمل نہیں ہوا۔ فروری میں دوبارہ بلال کے والد ہائی کورٹ کے دروازے پر پہنچے اور ایک یا دو پیشی کے بعد کورٹ نے دوبارہ حکم نامہ جاری کیا، مگر انتظامیہ کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔ اب اس کے والد کو مشورہ دیا گیا کہ وہ توہین عدالت کا کیس دائر کرے۔ مگر اتنی مشقت کے بعد اب اس کے پاس عدالتی غلام گردشوں میں خوار ہونے کے لیے پیسے ہی نہیں بچے تھے۔

                  اسی طرح بارہ مولہ کے ۲۱ سالہ دیہاڑی مزدور نوید پرے کو اس کے گھر سے اٹھایا گیا۔ جب اس کے عمر رسیدہ والدین پولیس اسٹیشن پہنچے، تو اس کی بیمار اور بوڑھی والدہ کو زد وکوب کیا گیا،  گالیاں دی گئیں، اور نوید کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت آگرہ جیل بھیج دیا گیا۔ آگرہ سفر اور ملاقات کے لیے والد نے ۳۵ہزار روپے میں اپنی ۱۰مرلہ زمین بیچی۔ یاد رہے نوید، خاندان کا اکیلا کفیل تھا۔ جب اس رپورٹ کے مصنّفین اس کے گھر پہنچے، تو معلوم ہوا کہ عمررسیدہ والدین پڑوس سے ادھار لے کر اس اُمید پر زندگی کاٹ رہے ہیں کہ بیٹا آکر قرض اُتارے گا۔ لیکن کیا بیٹا صحیح سلامت واپس آبھی سکے گا؟ اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے، جب کہ گرفتاری کو چیلنج کرنے کے لیے ا ن کے پاس کوئی ذریعہ نہیں تھا۔

 ۲۸سالہ فیاض میر نے قرضہ پر ٹریکٹر خریدا تھا تاکہ بوڑھے ماں باپ اور چار جوان بہنوں کی کفالت کر سکے۔ اس کو بھی گرفتار کرکے اترپردیش کے شہر بریلی کی جیل میں بھیج دیا گیا۔ اس کے باپ نے ۲۵ہزار روپے اکٹھا کیے اور ملاقات کے لیے بریلی پہنچا۔ مگر سلاخوں کے پیچھے وہ اپنے بیٹے کو صرف  دیکھ سکا اور کوئی بات نہیں کرسکا، کیونکہ جیل سپرنٹنڈنٹ کی سخت ہدایت تھی کہ گفتگو صرف ہندی زبان میں سپاہیوں کی موجودگی میں کی جائے گی، جب کہ اس کے والد کشمیر ی کے علاوہ اور کوئی زبان بولنے سے قاصر تھے۔ ۲۰منٹ تک باپ بیٹے بس ایک دوسرے کو دیکھتے رہے، تاآنکہ سپاہی فیاض کو دوبارہ گھسیٹتے ہوئے اندر لے کر گئے اور ملاقاتی کو زبردستی باہر نکال دیاگیا۔ بیٹے سے بات کیے بغیر عمررسیدہ باپ ۱۱۰۰کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے کے بعد واپس سرینگر اپنے گھر لوٹا۔ صبر کرتی رہی بے چارگی، ظلم ہوتا رہا مظلوم پر! (ملاحظہ کیجیے ویب پیج: www.pipfpd.net)

امریکی صدر ٹرمپ کی ایما پر متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کو تسلیم کرکے باضابطہ سفارتی تعلقات قائم کرکے بین الاقوامی سیاست میں دھماکا تو کردیا، مگر یہ سوال اپنی جگہ برقرار ہے  کہ امارات کو اس طرح کا قدم اٹھانے کی آخر ضرورت کیوں پیش آئی؟ اسرائیلی اخبار  ھاریٹز کے مدیر زیوی بارمل کے مطابق مصر او ر اردن کے برعکس امارات کو امریکی امداد کی اور نہ کسی ایسی ٹکنالوجی کی ضرورت تھی، کہ جسے وہ آزادانہ طور پر پیسوں سے خرید نہ سکتا تھا۔ حال ہی میں یمن کی جنگ سے تنگ آکر امارات نے سعودی اتحاد سے کنارہ کشی کرکے ایران کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی کوشش کی تھی۔ مگر اسی دوران اسرائیل کو تسلیم کرکے اس نے ایک قدم آگے اور دو قدم پیچھے والی پالیسی اختیار کرکے دوبارہ ایران کے ساتھ ایک طرح سے کشیدگی مول لے لی ہے۔

۱۳؍اگست کو اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان طے پائے گئے معاہدے کے بعد جو مشترکہ بیان جاری ہوا ہے، اس کا تجزیہ کرکے محسوس ہوتا ہے کہ اس کے خالق بڑی عجلت میں تھے۔ بیان میں مشرق وسطیٰ کے اصل تنازع فلسطین کا کہیں ذکر تک نہیں ہے۔ بس زبانی بتایا گیا ہے کہ اسرائیل مغربی کنارہ اور وادی اردن کو ضم کرنے کی پالیسی پر نظر ثانی کرے گا۔ یہ خوش فہمی چند گھنٹوں کے بعد ہی اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو نے یہ کہہ کر دور کردی: ’’اس طرح کی کوئی یقین دہانی نہیں دی گئی ہے‘‘۔ اس میں سابق سعودی فرماںروا کنگ عبداللہ کے فارمولے کا بھی ذکر نہیں ہے، جس کو عرب لیگ نے ۲۰۰۲ءمیں منظور کرکے رکن ممالک کو تاکید کی تھی کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے اس فارمولا کے اطلاق اور تعلقات کو اس کے ساتھ مشروط کیا جائے ۔ اس بیان میں فلسطینی اور اسرائیلی راہنماؤں کے درمیان طے پائے گئے اوسلو معاہدے کے مندرجات کو لاگو کرنے کی بھی کوئی یقین دہانی نہیں ہے۔ تاہم، بین السطور اسرائیل نے یہ وعدہ ضرور کیا ہے کہ یروشلم یا القدس شہر کی عبادت گاہوں ،بشمول مسجداقصیٰ اور گنبد صخرا کو دنیا بھر کے ’پُرامن‘مسلم زائرین کے لیے کھولا جائے گا‘‘۔ مگر چونکہ زائرین کو ا سرائیلی امیگریشن سے گزرنا ہوگا، اس لیے اسرائیلی ویزا اور اجازت کی بھی ضرورت پڑے گی اور صرف انھی ممالک کے مسلمان زیارت کے لیے آسکیں گے، جو اسرائیل کو تسلیم کرتے ہوں گے۔ اور پھر اسرائیلی سفارت خانے کو حق حاصل ہوگا کہ ’پُرامن‘ کی اصطلاح کی اپنی تشریح سے اجازت دے یا درخواست مسترد کر دے۔

باوثوق ذرائع کے مطابق امارات اور اسرائیل کے درمیان خفیہ تعلقات کا آغاز اصل میں  ۲۰۰۸ء میں اس وقت ہوا تھا ، جب اقوام متحدہ نے بین الاقوامی تجدید توانائی ایجنسی کے صدر دفتر کو ابوظہبی کے پاس مصدر شہر میں قائم کرنے کی منظوری دے دی۔ اقوام متحدہ کی ذیلی ایجنسی کے بظاہر ایک بے ضرر سے دفتر نے ، جس کا سیاست کے ساتھ دو ر دور تک کا واسطہ بھی نہیں تھا، برسوں تک اسرائیل اور امارات کے افسران کو ملنے اور بیک چینل سفارت کاری کے لیے ایک نہایت عمدہ پردہ فراہم کیا۔ چونکہ اسرائیل بھی اس ایجنسی کا ممبر تھا، اس لیے تل ابیب کو انرجی کے حوالے سے اپنا ایک مستقل نمایندہ ابوظہبی میں تعینات کرناپڑا۔ ۲۰۱۵ء میں اسرائیلی وزارت خارجہ کے  ڈائرکٹر جنرل ڈور گولڈ کی قیادت میں ایک اسرائیلی وفد نے دوبئی کا دورہ علانیہ طور پر کیا۔ اسی لیے دونوں ملکوں نے بیانات دیے کہ اس دورے کا دونوں ملکوں کی سیاسی پوزیشن کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔

یہ طے شدہ بات ہے کہ امارات کو اسرائیل اور امریکا میں یہودی لابی کی ضرورت کا احساس۲۰۰۶ء میں اس وقت ہوا تھا، جب امارات کی دوبئی عالمی بندرگاہ نے چھے امریکی بندرگاہوں کا انتظام و انصرام سنبھالنے کے لیے ٹینڈر بھرا تھا۔ اس پر امریکی کانگریس میں خاصا ہنگامہ برپا ہوا۔ کئی کانگریس اراکین نے نیویار ک ، بالٹی مور اور میامی جیسی حساس بندرگاہیں کسی عرب کمپنی کو دینے کی بھر پور مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اس کے اتحادیوں کی سلامتی خطرے میں پڑ جانے کا اندیشہ ہے۔ گو کہ امارات نے ٹینڈر واپس لے لیا، مگر یہ اس کے حکمرانوں کے لیے لمحۂ فکریہ تھا کہ آخر امریکی اتحادی ہونے اور خلیج میں اس کو پوری سہولیات دینے کے باوجود امریکی کانگریس اور انتظامیہ میں اس قدر بدگمانی کیوں ہے؟ انھی دنوں امارات نے اقوام متحدہ کی نئی قائم شدہ قابلِ تجدید توانائی ایجنسی، یعنی IRENAکے صدر دفتر کو ابوظہبی میں قائم کرنے کی پیش کش کی تھی۔ مگر اب خدشہ لاحق ہو گیا تھا کہ امریکی کانگریس کے اراکین ایجنسی کے صدر دفتر کو امارات میں قائم کرنے کی بھی مخالفت کرسکتے ہیں۔ یوں طے پایا کہ واشنگٹن میں کسی لابی فرم کی خدمات حاصل کی جائیں، جس نے بعد میں امارتی حکمرانوں کا رابطہ امریکا میں طاقت وَر یہودی لابی، یعنی امریکین جیوش کمیٹی (AJC) سے کروایا۔

انھی دنوں بھارت نے بھی اسرائیل کی ایما پر اسی کمیٹی کی خدمات، امریکا کے ساتھ جوہری معاہدہ طے کرنے اور اس کو کانگریس کی رضامندی حاصل کرنے کے لیے حاصل کی تھیں۔۲۰۰۸ء میں امریکی کانگریس نے جوہری قانون میں ترمیم کرکے بھارت کے لیے جوہری ٹکنالوجی فراہم کرنے کے لیے راستہ ہموار کردیا۔ اے جے سی نے نہ صرف اقوام متحدہ کی ایجنسی کا صدر دفتر ابوظہبی میں کھولنے میں مدد کی، بلکہ ۲۰۰۹ء  میںامریکی کانگریس سے امارات کو بھی جوہری ٹکنالوجی فراہم کروانے کے لیے ’بھارتی امریکی نیوکلیر ڈیل‘ کی طرز پر منظوری دلوانے میں بھی کلیدی کردار ادا کیا۔ جس کے بعد جنوبی کوریا کی ایک فرم کے اشتراک سے امارات نے ۳۰؍ارب ڈالر کے نیوکلیر پروگرام کی داغ بیل ڈالی، جو اَب تکمیل کے قریب ہے۔

وکی لیکس میں تل ابیب میں امریکی سفارت خانے کے سیاسی مشیر مارک سیورز کی ۲۰۰۹ءکی ایک کیبل کا تذکرہ ہے، جس میں وہ خلیجی ممالک اور اسرائیل کے درمیان خفیہ روابط کا انکشاف کررہے ہیں۔ خاص طور پر اس کیبل میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیلی وزیر خارجہ زیپی لیونی اور امارت کے اس کے ہم منصب کی بند کمروں میں اکثر ملاقاتیں ہو رہی ہیں۔ لیکن۲۰۱۰ء میں دونوں ممالک کے تعلقات کشیدہ ہوگئے، جب اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد نے دوبئی کے ایک ہوٹل میں حماس کے لیڈر محمود ال مابحوح کو قتل کردیا۔ اسرائیلی صحافی لوسی ملمین کے مطابق اماراتی حکمران اس لیے ناراض ہوگئے۔ ان دنوں اسرائیلی سفارت کار برلوس کاشدان ابوظہبی میں مذاکرات میں مصروف تھے اور اندازہ لگایا جا رہا تھا کہ موساد کا قاتل دستہ تلاشی وغیرہ سے بچنے کے لیے سفار ت کار وفدکے ساتھ ہی دوبئی وارد ہوا تھا۔ مگر امریکی کانگریس اراکین کی پذیرائی حاصل کرنے اور ٹکنالوجی کی خاطر اماراتی حکمرانوں نے یہ تلخ گھونٹ جلد پی لیا۔ ۲۰۱۶ء میں جب ڈونالڈ ٹرمپ کو ری پبلکن پارٹی نے صدارتی امیدوار نامزد کیا، تو ولی عہد محمد بن زید النہیان نے ٹرمپ کے یہودی داماد جیرالڈ کوشنر کے ساتھ انتخابات سے قبل ہی تعلقات استوار کر لیے تھے،حتیٰ کہ نیویارک میں کوشنر سے ملاقات کی خاطر ولی عہد اور ان کے بھائی عبداللہ بن زید نے امریکی صدر بارک اوباما کے ساتھ طے شدہ ملاقات منسوخ کردی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ امارتی ولی عہد نے ہی امریکیوں کو قائل کیا تھا کہ سعودی عرب میں محمد بن سلمان کی پشت پناہی کرکے محمد بن نائف کو ولی عہد کے عہدے سے معزول کرنے کے فیصلے کی حمایت کریں۔

اس طرح ۲۰۱۸ء تک اسرائیل کے کئی وزیروں نے امارات کے دورے کیے۔اسی سال اسرائیلی وزیر خارجہ یسرائیل کارٹز بغیر پیشگی اطلاع کے ابوظہبی پہنچ گئے اور ایران کے خطرات سے اماراتی حکمرانوں کو آگاہ کرکے تعاون کی پیش کش کی۔ اسرائیل کے عبرانی زبان کے اخبار یسرائیل حایوم کے مطابق خود نیتن یاہو بھی اسرائیلی سیکورٹی کونسل کے سربراہ میئر بن شابات کے ہمراہ دوبا ر امارات کا خفیہ دورہ کرچکے ہیں۔ اس دوران امارات نے تیل تنصیبات کی سیکورٹی کے لیے اسرائیل کی ایک فرم اے جی ٹی انٹرنیشنل کو ۸۰۰ملین ڈالر کا ٹھیکہ دے دیا۔ متحدہ امارات اور اسرائیل کے درمیان سفارتی تعلقات قائم ہونے سے اس خدشے کو تقویت پہنچتی ہے کہ عرب حکمران اپنے آپ کو کس قدر غیر محفوظ، غیرمستحکم اور کمزور محسوس کرتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ امریکا اور خطے میں اس کا قریب ترین اتحادی اسرائیل ہی ان کی بقا کا ضامن ہے۔ مگر بین الاقوامی سیاست اور تزویراتی حکمت عملی کے قواعد ہمیں یہی بتاتے ہیں کہ امریکا اور اسرائیل ان کی کمزوری کا زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا کر ان کو عوامی تحریکوں اور پڑوسیوں سے مزید خائف کرواکے اپنے مفادات کی تکمیل کریں گے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ عرب حکمران اپنے ضمیر اور عوام کی آواز پرلبیک کہہ کر پڑوسی اسلامی ممالک کے ساتھ اشتراک کی راہیں نکالتے۔ یوں اسرائیل اور امریکا کو مجبور کرکے فلسطینی مسئلے کا حل ڈھونڈ کر، خطے میں حقیقی اور دیرپا امن و امان قائم کروانے میں کردار ادا کرتے۔

’امریکا، اسرائیل اور متحدہ عرب امارات‘ کا ۱۳؍اگست کو متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان باہمی تعلقات معمول پر لانے کا مشترکہ بیان باعث حیرت نہیں۔ یہ اعلان خطے میں امریکا کی کئی برسوں سے جاری علانیہ اور غیر علانیہ کوششوں کا منطقی نتیجہ ہے۔ 

اس میں قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ اس میں متحدہ عرب امارات نے مسئلہ فلسطین کو ڈھال بناکر اپنے مخصوص مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کی ہے اور دنیا کو باور کرایا:’’اسرائیل- امارات نارملائزیشن کی برکت سے اسرائیل، مقبوضہ عرب علاقوں کو صہیونی ریاست میں ضم کرنے سے باز رہنے کا ’عہد‘ کر رہا ہے۔ یوں صہیونی وعدے نے قضیۂ فلسطین کے حل کی خاطر پیش کردہ دو ریاستی حل کو نزع کی حالت سے نکال کر ایک مرتبہ پھر زندہ کر دیا ہے‘‘۔

حقیقت اس کے برعکس ہے، جس کا اعتراف خود ۱۳؍اگست کے مشترکہ بیان میں موجود ہے: ’’انضمام کی کارروائی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مطالبے پر روکی گئی ہے‘‘۔ ’ڈیل آف دی سنچری‘ کے ذریعے مقبوضہ عرب علاقے اسرائیل میں ضم کرنے کی پالیسی فلسطینیوں کے متحدہ موقف، ناکافی امریکی حمایت اور بین الاقوامی برادری کی شدید تنقید کی وجہ سے اسرائیل پہلے ہی ’منجمد‘ کر چکا تھا۔

فلسطینیوں کو ان کے جائز اور قانونی حقوق دلوانے میں ناکامی کے بعد سعودی قیادت نے عرب لیگ کے پلیٹ فارم سے ۲۰۰۲ء میں ’دو ریاستی حل‘ کی تجویز پیش کی، جس میں اسرائیل کو تجویز پیش کی گئی تھی کہ اگر وہ جون ۱۹۶۷ء کی جنگ کے بعد ہتھیائے جانے والے علاقوں سے باہر  نکل جائے تو وہاں ایک ایسی آزاد وخود مختار فلسطینی ریاست تشکیل دی جا سکتی ہے، جس کا دارالحکومت بیت المقدس ہو۔ نیز فلسطینی مہاجرین کو بھی ان علاقوں میں واپسی کی اجازت ہو، جنھیں اسرائیل  وقتاً فوقتاً اپنی ظالمانہ پالیسیوں کا نشانہ بنا کر آبائی علاقے چھوڑنے پر مجبور کرتا رہا ہے۔ اس کے بعد عرب اور عالم اسلام اسرائیل کو تسلیم کر لے گا۔

غرب اردن کے مقبوضہ عرب علاقے ضم کرنے کی اسرائیلی کارروائی تو پہلے ہی موقوف ہوچکی تھی، اس لیے متحدہ عرب امارات نے تعمیر شدہ عمارت پر اپنے نام کی تختی سجانے کی بودی کوشش کی ہے۔ یہ حقیقت کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ متحدہ عرب امارات کا موجود حکومتی ڈھانچہ نہ سیاسی اور نہ جیو اسٹرے ٹیجک لحاظ سے اس قابل ہے کہ وہ فلسطینیوں کی خاطر کوئی اچھوتا ’آؤٹ آف دی باکس‘ کارنامہ سرانجام دے سکے۔

’اسرائیلی انضمام روکنے‘ کا نعرہ متحدہ عرب امارات حکومت کو ’بیچا‘ گیا تاکہ صہیونی ریاست سے تعلقات نارملائزیشن اور مسلّمہ دشمن [اسرائیل] کو کھلی چھوٹ دینے جیسے جرائم پر پردہ ڈالا جاسکے۔

مشترکہ بیان کے متن کے مطابق: ’’اس سفارتی کارنامے، صدر ٹرمپ کے ’مطالبے‘ اور متحدہ عرب امارات کی ’حمایت‘ سے اسرائیل اُن علاقوں میں اپنا اقتدار قائم کرنے سے باز رہے گا جن کی جانب امریکی صدر کے ’نظریۂ امن‘ میں اشارہ کیا گیا ہے‘‘___ متحدہ عرب امارات نے صرف امریکی صدر کے موقف کی حمایت کی ہے، وہ فیصلے کا اصل محرک قطعاً نہیں ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے نام نہاد تاریخی معاہدے کے روز ہی اعلان کیا کہ اسرائیل، غرب اردن کے علاقے ضم کرنے کی کارروائی کو ’ختم‘ نہیں بلکہ ’معطل‘ کر رہا ہے۔ انضمام کا منصوبہ ان کی حکومت کے ایجنڈے میں شامل ہے۔ یہ اعلان دولت مند عرب خلیجی ریاست کے منہ پر طمانچے سے کم نہیں تھا۔

غرب اردن میں اسرائیلی انضمام کی کارروائی میں تاخیر، امریکی اعلان اسرائیل کی عرب خطے میں تعلقات نارملائزیشن کی کوششوں کے لیے سہارا ثابت ہوئی ہے۔ اس سے فلسطینیوں پر دباؤ میں اضافہ ہوا اور ان کی پوزیشن کمزور ہوئی ہے، جیساکہ یہ شرمناک کارروائی فلسطینیوں کی سیاسی تنہائی میں اضافے کا باعث بنی ہے۔ ’اسرائیل- اماراتی اعلان‘ سے عرب دنیا کے انتشار میں اضافہ ہوا ہے، جو پہلے ہی ’دو ریاستی حل‘ کا راگ الاپ کر قضیۂ فلسطین کے آسان ترین حل کو اپنی کامیابی کے طور پر پیش کرتے نہیں تھکتے۔ نارملائزیشن، دراصل ڈونلڈ ٹرمپ کی ’ڈیل آف دی سنچری‘ اور غرب اردن کے علاقوں پر بہترین انداز میں ہاتھ صاف کرنے کی راہ ہموار کرتی ہے۔

’اسرائیل اور امارات کے درمیان اعلان کردہ نارملائزیشن وسیع البنیاد ہے۔ آنے والے چند ہفتوں کے دوران ابوظبی اور تل ابیب کے درمیان ایک دوسرے کے ملکوں میں سفارت خانے کھولنے، سرمایہ کاری، سیاحت، براہ راست پروازوں، سکیورٹی، توانائی، صحت، ثقافت، ماحولیات سمیت دوسرے شعبوں میں تعاون سے متعلق معاہدوں پر دستخط ہوں گے۔

نارملائزیشن کے اسیر فریقین کو اس میں معاشی ترقی، امن اور خطے میں نئی ایجادات کی راہیں ہموار ہوتی دکھائی دیتی ہیں۔ سکیورٹی کے ضمن میں اسرائیل کو خطے کا ’تسلیم شدہ بدمعاش‘ بننے کا موقع ملے گا۔ صہیونی دشمن سے دوستی کا ہاتھ ملا کر فرقہ واریت، لسانی تنازعات اور ایران کے خلاف جنگ کا ماحول پیدا کیا جائے گا۔ نیز خطے کی بدعنوان اور طاغوتی حکومتوں کی حمایت کرتے ہوئے انھیں اپنی حکومتوں کو برقرار رکھنے میں مدد دی جائے گی۔ اسی ہلّے میں اسلامی رحجان، تہذیبی قوتوں اور نشاتِ ثانیہ کے حامیوں کے خلاف کھلی جنگ ہو گی۔

اگر صدر ٹرمپ ’امارات- اسرائیل امن معاہدہ‘ کو ربع صدی کے دوران خطے میں ہونے والی سب سے اہم پیش رفت قرار دے رہے ہیں تو اس میں حیرانی نہیں ہونی چاہیے۔ نیتن یاہو نے بھی اسے مشرق وسطیٰ میں قیام امن کے لیے تاریخی اقدام قراردیا ہے۔

اماراتی امن لائحہ عمل کو فلسطینیوں نے اجتماعتی طور پر مسترد کر دیا ہے۔ تنظیم آزادیِ فلسطین، فلسطینی اتھارٹی، مختلف سیاسی جماعتوں اور مزاحمتی تنظیموں نے صہیونی دشمن سے اس ’تعلق خاطر‘ کو مسئلہ فلسطین کی پیٹھ میں خنجر گھونپنے سے تعبیر کیا ہے۔ وہ اسے القدس، مسجد اقصیٰ اور فلسطین کے ساتھ خیانت اور امارات کی حکومت کے ماتھے پر ایک کلنک کا داغ سمجھتے ہیں۔ نارملائزیشن کا کھیل کھیلنے والوں نے دشمن سے تعلقات معمول پر لا کر اُس کے جرائم پر اسے ’انعام‘ سے نوازا ہے۔

تنظیم آزادی فلسطین، فلسطینی اتھارٹی، الفتح اور حماس کی قیادت کا کہنا ہے کہ ’’نارملائزیشن کا ڈول ڈال کر جامع امن عرب منصوبہ سمیت قضیۂ فلسطین کے پرامن حل کی تمام راہیں مسدود کردی گئی ہیں‘‘۔

اس اسرائیلی ، امریکی اوراماراتی اقدام کی پوری قوت کے ساتھ مخالفت کی جانی چاہے۔  ہردلِ درد مند اورانصاف پسند یہ چاہتا ہے کہ ہم فلسطینی، عرب اور بین الاقوامی برادری اس نام نہاد نارملائزیشن کے خلاف سخت موقف اختیار کریں۔ سچ تو یہ ہے کہ ’اس گھر کو آگ لگ گئی گھرکے چراغ سے‘ کے مترادف تنظیم آزادی فلسطین اور فلسطینی اتھارٹی نے ’نارملائزیشن‘ کے اس عمل کی حوصلہ افزائی کی اور قضیۂ فلسطین کو موجود حال تک پہنچانے میں ان کا بھی کسی نہ کسی حد تک ہاتھ رہا ہے۔

ان تنظیموں کی قیادت نے دشمن سے تعلقات استوار کرنے کے قانونی جواز تراشے اور فلسطین کے بڑے حصے سے دست کشی کے لیے بھی قانونی موشگافیوں کا سہارا لیا۔ انھی تنظیموں نے اسرائیل کی خادم ’فلسطینی اتھارٹی‘ تشکیل دی، جس نے قابض اسرائیلی حکام کو تعاون پیش کیا اور مزاحمتی گروپوں کا پیچھا کرتے رہی۔ انھوں نے اسرائیل کو ایسی راہ سجھائی جس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ فلسطینی اراضی اور وہاں موجود مقامات مقدسہ کو یہودی رنگ میں رنگتا چلا گیا۔ اسرائیلی کی خادم ایسی ہی تنظیموں نے فلسطینی نمایندگی پر مخصوص سوچ کے حامل افراد کی اجارہ داری قائم کرکے دوسری سرگرم قوتوں کو بھی تنہائی کا شکار کیا۔ فلسطین سے باہر موجود تارکین وطن کو فراموش کر دیا اور انتہائی کمزور فلسطینی موقف کی ترویج شروع کر دی، آج عرب حکومتیں  اس کمزور موقف کی قیمت ادا کر رہی ہیں۔

 اسرائیل ، امارات سفارتی تعلقات کا اعلان گذشتہ دوبرسوں کے دوران باہمی سفارتی دوروں کا نتیجہ ہے۔ اسرائیلی وزرا کے امارات کے دوروں نے اہم کردار ادا کیا۔ اسرائیلی فوج کی سابق ترجمان اور وزیر ثقافت میری ریجیو اور وزیر مواصلات ایوب قرا نے ۲۰۱۸ء میں امارات کا دورہ کیا۔ ۲۰۱۹ءمیں اسرائیلی وزیر خارجہ یسرائیل کاٹس نے امارات کا سفر کیا۔

اقتصادی محاذ پر یہ معاہدہ طے پایا کہ اسرائیل کو یورپ سے ملانے والی دو ہزار کلومیٹر طویل پائپ لائن منصوبہ مکمل کرنے کے لیے ابوظہبی سرمایہ فراہم کرے گا۔ سکیورٹی اور فوجی تعاون کے میدان میں اسرائیل، متحدہ عرب امارات کو بغیر پائلٹ جاسوسی طیارے فروخت کرے گا۔ اسرائیل سے ’جاسوس‘ نامی انٹلیجنس سافٹ ویر خریدے جائیں گے۔ مشترکہ فوجی مشقوں کا اہتمام کر کے نارملائزیشن کی روح اجاگر کی جائے گی۔

متحدہ عرب امارات نے اسرائیل سے سفارتی تال میل بڑھا کر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ان کی دوسری مدت صدارت کے لیے ڈیموکریٹس مخالفین پر ’واک آوور‘ دلانے کی کوشش کی ہے۔ اس ڈیل کو صدر ٹرمپ داخلی اور بین الاقوامی سطح پر اپنی کامیاب خارجہ پالیسی کے ثبوت کے طور پر پیش کررہے ہیں کہ انھوں نے عربوں کو کس طرح اسرائیل کے آگے ہتھیار ڈالنے پر مجبور کیا ہے!

خفیہ ذرائع سے منظر عام پر آنے والی اطلاعات میں بتایا گیا ہے کہ اس متنازعہ معاہدے میں اس امر پر امریکا اور اسرائیل کے درمیان اتفاق پایا جاتا ہے کہ ابوظہبی کے حکمرانوں کے مشیر سلامتی محمد دحلان کو فلسطینی اتھارٹی کے زیر نگیں علاقوں میں آگے بڑھایا جائے تاکہ وہ صدر ٹرمپ کی ’ڈیل آف دی سنچری‘ کو مسترد کرنے والی موجودہ فلسطینی قیادت کا متبادل بن کر زمامِ کار سنبھال سکیں۔

اس معاہدے میں طے شدہ جملہ امور کی روشنی میں امارات، اسرائیل کے ساتھ صرف عملی تعاون نہیں کر رہا بلکہ وہ یروشلم کو یہودیانے اور غرب اردن کے وسیع علاقوں کو اسرائیلی عمل داری میں لینے سے متعلق کوششوں کو بڑھاوا دے رہا ہے۔ کیونکہ اسرائیل اپنے اس اقدام کو عملی شکل دینے کے لیے وسائل مجتمع کر رہا ہے۔ اس لیے آج اس ایشو کے منصفانہ حل کی خاطر پہلے سے زیادہ حمایت اور تعاون درکار ہے۔

نارملائزیشن سے متعلق متحدہ عرب امارات کے سرکاری موقف کے مقابلے میں اماراتی عوام کو ان کی مسئلہ فلسطین کے ساتھ گہری وابستگی اور عملی تعاون یاد دلانے کی ضرورت ہے۔ مسلّمہ اصولی موقف کے تحفظ کی خاطر فلسطینیوں کا قومی محاذ مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ اس مقصد کے لیے عرب عوام اور مسلم دنیا کو اسرائیل سے نارملائزیشن کے خلاف بیدار کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ قضیۂ فلسطین اور اس کی مقبوضہ اراضی کی یہودی قبضے سے آزادی ممکن ہو سکے۔

۲۱؍اپریل ۱۹۳۸ء کو علامہ اقبالؒ کے انتقال کے وقت مولانا مودودیؒ کی عمر تقریباً ۳۵سال تھی۔ یہ عین ان کی جوانی کا زمانہ تھا اور وہ اپنے افکار ونظریات کو بڑی حد تک مرتب کرچکے تھے، جن کی بنیاد پر انھوں نے آگے چل کر ایک فکری و نظریاتی تحریک کا آغاز کیا۔ ہمارا خیال ہےکہ مولانا کی مذکورہ تحریک کے پس منظر میں اقبالؒ کے افکار بڑے بھرپور طریقے سے کارفرما رہے ہیں اور اسی طرح دونوں شخصیات کے درمیان فکرونظر کی گہری ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔

شخصی حوالے سے دیکھا جائے تو علامہ اقبالؒ سے مولانا مودودیؒ کی پہلی ملاقات جنوری ۱۹۲۹ء میں ہوئی، جب علامہ، مدراس (چنائے) میں تشکیل جدید الٰہیاتِ اسلامیہ کے سلسلے کے تین انگریزی لیکچر (خطبات) دینے کے بعد، بنگلور اورمیسور سے ہوتے ہوئے حیدرآباد دکن پہنچے اور وہاں بھی تین خطبے دیے۔ مولانا مودودیؒ نے خود لکھا ہے کہ ’’میری ان سے پہلی ملاقات وہاں ہوئی، دوسری ملاقات فروری مارچ ۱۹۳۷ء میں (خطوط مودودی، دوم،ص ۶۹) اور تیسری ملاقات اکتوبر ۱۹۳۷ء (ایضاً، دوم،ص ۱۲۰) میں (لاہور میں) ہوئی۔ ان ملاقاتوں کا پس منظر یہ تھا کہ ایک دردمند مسلمان چودھری نیاز علی خاں (م: ۲۴ فروری ۱۹۷۶ء) نے اپنی جایداد واقع جمال پور، پٹھان کوٹ ضلع گورداس پور کا ایک حصہ خدمت ِ دین کے لیے وقف کرکے وہاں ایک درس گاہ قائم کرنے کا منصوبہ بنایا تھا اور اس سلسلے میں متعدد زعما اورعلما سے راہ نمائی چاہی، جن میں مولانا اشرف علی تھانویؒ، علامہ اقبالؒ ، سیّد سلیمان ندویؒ، عبدالماجد دریابادی اور سیّدمودودیؒ شامل تھے (چودھری نیاز علی خاں اور مولانا مودودی کی باہمی خط کتابت کے لیے دیکھیے: سیّد اسعد گیلانی کی تصنیف اقبال، دارالاسلام اور مودودی۔اسلامی اکادمی لاہور، ۱۹۷۸ء)۔ مولانا مودودی نے علمی کام کا ایک تفصیلی نقشہ بناکر چودھری صاحب کو پیش کیا۔ چودھری صاحب نے اس علمی منصوبے سے علّامہ اقبال کو آگاہ کیا۔ انھوں نے اسے پسند کیا اور فرمایا کہ ’’اس وقت کرنے کے کام یہی ہیں‘‘ (سیّارہ، لاہور، اقبال نمبر ۱۹۶۳ء)۔

دراصل علّامہ اقبالؒ اس زمانے میں مولانا مودودیؒ کے نام اور ان کی فکر سے واقف ہوچکے تھے۔ الجہاد فی الاسلام پڑھ چکے تھے اور ترجمان القرآن  بھی ان کے زیرمطالعہ رہتا تھا۔ چنانچہ بقول چودھری نیاز علی خاں: ’’حضرتِ علامہ کی نظر جوہر شناس بھی سیّد صاحب پر جاپڑی‘‘۔ (صحیفہ لاہور، اقبال نمبر، اکتوبر ۱۹۷۳ء، ص ۲۳)

علّامہ اقبال نے ادارے کی سربراہی کے لیے مولانا مودودی ؒ کا نام تجویز کیا۔ مولانا فرماتے ہیں:’’۱۹۳۷ء کے آغاز میں ان کا عنایت نامہ ملا کہ مَیں حیدرآباد کو چھوڑ کر پنجاب چلا آؤں‘‘ (سیارہ،اقبال نمبر، فروری ۱۹۷۸ء)۔ پھر چودھری نیاز علی نے بھی مسلسل اصرار کیا اورمولانا کو دعوت دی کہ وہ دکن سے ہجرت کرکے لاہور آجائیں۔ چنانچہ فروری مارچ ۱۹۳۷ء میں مولانا مودودیؒ لاہورآئے اور جیساکہ اُوپر ذکر آچکا ہے کہ علامہ اقبالؒ سے ملے اور دوتین نشستوں میں تفصیلی تبادلۂ خیالات ہوا۔ اگرچہ اس سے پہلے بھی مولانا مودودیؒ ،علامہ اقبالؒ اور ان کی شاعری سے بخوبی واقف تھےاور فکری سطح پر بہت قربت محسوس کرتے تھے۔ اب اس قربت میں اور اضافہ ہوگیا۔ مولانا مودودیؒ کہتے ہیں: ’’ان ملاقاتوں میں ایسا محسوس ہوا کہ جیسے میری اور ان کی بہت پرانی واقفیت ہے اور ہم ایک دوسرے کےدل سے بہت قریب ہیں۔ یہاں میرے اور اُن کے درمیان یہ بات طے ہوگئی کہ میں پنجاب منتقل ہوجاؤں اور پٹھان کوٹ کے قریب اس وقف کی عمارات میں، جس کا نام ہم نے بالاتفاق ’دارالاسلام‘ تجویز کیا تھا، ایک ادارہ قائم کروں، جہاں دینی تحقیقات اور تربیت کا کام کیا جائے‘‘(ایضاً)۔ بہرحال، ان ملاقاتوں کے بعد مولانا دکن کو چھوڑ کر پنجاب آنے کے لیے بالکل یکسو ہوگئے اور انھوں نے دکن سے ہجرت کرنے کا فیصلہ کیا۔

لاہور سے واپس دکن واپس پہنچے تو انھوں نے چودھری نیازعلی خاں کو جو خط لکھا، اس میں بتایا کہ میں نےیہاں پہنچتے ہی ہجرت کی تیاری شروع کردی ہے۔ اس کا ایک بڑا سبب یہ تھا کہ علامہ اقبالؒ نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ اگر آپ یہاںآجائیں تو میں بھی ہرسال کچھ ہفتوں کے لیے یہاں آیا کروں گا۔ کچھ مشترکہ علمی منصوبے طے ہوئے تھے۔ اس کام کو وہ بلاتاخیر آگے بڑھانا چاہتےتھے۔ اس سلسلے میں مولانا مودودیؒ کا ایک خط ڈاکٹر سیّدظفرالحسنؒ کے نام ملتا ہے (جوعلی گڑھ یونی ورسٹی میں شعبۂ فلسفہ کے پروفیسرتھے)۔ اس میں مولانانے یہ بتایا تھا کہ میرےاور علامہ اقبالؒ کے درمیان کیا باتیں ہوئی تھیں۔ یہ خط اقبالؒ کی وفات کے بعد جون ۱۹۳۸ء میں لکھا گیا۔اس وقت تک ایک ادارہ ’دارالاسلام‘ کے نام سے قائم ہوچکا تھا، اور کچھ افرادکار اس سے منسلک تھے۔ ڈاکٹر سیّد ظفرالحسن نے بھی اس کی شوریٰ کی رکنیت قبول کرلی تھی۔ خط میں مولانا نے لکھا کہ ’’آپ نے ہماری معنوی قوت میں بہت کچھ اضافہ کردیا ہے‘‘ اور پھر بتایا کہ ’’اکتوبر۱۹۳۷ء میں خاص طور پر انھی مسائل پر بحث کرنے کے لیے مَیں علامہ اقبالؒ سے لاہور میں ملا تھا… ان سے مفصل گفتگو ہوئی تھی۔ خوب غوروخوض کے بعد جس نتیجے پر پہنچے، وہ مختصراً مَیں یہاں عرض کرتا ہوں:

’’حالات کی رفتار نے خود بخود مسلمانوں کو گھیر گھیر کر ایک اجتماعی ہیئت کی طرف لانا شروع کردیا ہے،ہندستان کے مختلف حصوں میں ان کو جو پیہم ضربات لگ رہی ہیں، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہرطرف سے بھاگ بھاگ کر مسلم لیگ کی طرف آرہےہیں۔ اگرچہ ابھی تک ان میں ایک تنظیمی ہیئت پیدا نہیں ہوئی ہے، جو فکر اور وحدتِ عمل کا نتیجہ ہوتی ہے بلکہ درحقیقت ان کے سامنے اپنا نصب العین بھی واضح نہیں ہے۔مختلف خیالات، مختلف مقاصد اور مفادات اور خصائل رکھنے والے لوگ اس طرح جمع ہوگئے ہیں جیسے جنگل میں آگ لگنے پر مختلف گلے ہرطرف سے بھاگ کر ایک جگہ جمع ہوجاتے ہیں، تاہم یہ تنظیمی ہیئت پیدا کرنے کا ابتدائی مرحلہ ہے اور اس وقت کوئی الگ جھنڈا بلند کرنا، بجاے مفید ہونے کے، اس تالیفی عمل میں مانع ہوجائے گا جو کسی طرح مناسب نہیں ہے۔

’’ مسلم لیگ کے مرکز پر جو طاقتیں جمع ہورہی ہیں، ان کے بنیادی نقائص کو دُور کرنے کی ایک صورت یہ ہے کہ ان کے تصورات میں جو ابہام اس وقت پایا جاتا ہے، اس کو دُور کیا جائے تاکہ واضح طور پر اس موجودہ پوزیشن کوسمجھ لیں اور اپنی ایک قومی غایت متعین کرلیں۔ یہ چیز جتنی زیادہ واضح ہوتی جائے گی، اتنی ہی تیزرفتاری کے ساتھ عامۃ المسلمین کا ترقی پسند اور اقدام پسند عنصر مسلم لیگ کی صفوں میں آگے بڑھتا جائے گا، اورخودغرض،نمایشی اور آرام طلب عناصر پیچھے رہ جائیں گے۔ اس کا ایک لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ مسلمانوں کے وہ تمام بے چین عناصر جو محض مسلم لیگ کی بے عملی سے بے زارہوکر مختلف راستوں پر بھٹک گئے ہیں، رفتہ رفتہ پلٹنے شروع ہوجائیں گے، اور تھوڑی مدت بھی نہ گزرے گی کہ یہ جماعت جمہور مسلمین کی ایک مرکزی جماعت بن جائے گی۔

’’سردست ہم مسلم لیگ سے، اس سے بڑھ کر کوئی توقع نہیں کرسکتے کہ وہ موجودہ غیراسلامی نظامِ سیاست میں مسلمانوں کی قومی پوزیشن کو بیش از بیش محفوظ کرنے کی کوشش کرے گی۔ ہمارے لیے صحیح پالیسی یہ ہے کہ rear guard میں رہیں اور ایک طرف تو اپنے خیالات کی اشاعت سے مسلم لیگ کو بتدریج اپنے نصب العین کے قریب تر لانے کی کوشش کرتے رہیں اور دوسری طرف مردانِ کار کی ایسی طاقت ور جماعت تیار کرنے میں لگےرہیں جو دارالاسلام کی فکری بنیاد بھی مستحکم کرے اور اس مفکورے کو جامۂ عمل پہنانے کے لیے بھی مستعد ہو۔ جب تک یہ انقلابی جماعت میدان میں آنے کے لیے تیار ہوگی، اس وقت تک ان شاء اللہ میدان ہموار ہوچکا ہوگا کیونکہ انقلابی تصورات کی تبلیغ سے ہم پہلے ہی مسلمانوں کے کارکن اور کارفرما عناصر کو اپنے سے قریب تر لاچکے ہوں گے‘‘۔(خطوطِ   مودودی، دوم، ص ۱۹۸-۲۰۴)

اس خط سے اندازہ ہوتا ہے کہ علامہ اقبالؒ اور سیّد مودودیؒ کے درمیان بہت سے علمی مسائل اورفقہ اسلامی کی تشکیل کے منصوبے کے ساتھ دیگر موضوعات بھی زیربحث آئے ہوں گے اور اس وقت ہندستانی سیاست کا جو نقشہ مرتب ہورہا تھا، اس پربھی تبادلۂ خیال ہوا ہوگا۔

مولانا ۱۸مارچ ۱۹۳۸ء کو دکن سے جمال پور (پٹھان کوٹ) پہنچے (ابوالاعلیٰ مودودی، علمی و فکری مطالعہ، ص ۵۶۸)۔ اگلے ماہ وہ لاہور آنے کے لیے بالکل تیار تھے۔ نذیرنیازی نے ۱۸؍اپریل کو انھیں ایک خط لکھا کہ’’ ڈاکٹرصاحب فرماتے ہیں کہ اگر آپ کا ارادہ فی الواقع لاہور آنے کا ہے تو جلدی تشریف لایئےتاکہ ملاقات ہوجائے۔ اپنی طرف سے یہ گزارش ہے کہ ڈاکٹرصاحب قبلہ کی حالت نہایت اندیش ناک ہے۔ ایک لمحے کا بھی بھروسا نہیں۔ بہتر یہی ہوگا کہ آپ جس قدر ہوسکے جلدی تشریف لے آئیں‘‘ (خطوطِ مودودی، دوم،ص ۱۹۰)۔ اس خط کا ڈاکٹر جاویداقبال نے زندہ رُود ، سوم میں بھی ذکر کیا ہے۔ علامہ ۲۱؍اپریل کو فوت ہوگئے، اس پر مولانا مودودیؒ کو شدید صدمہ ہوا اور انھوں نے اقبال کی وفات پر اپنے دُکھ کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ اس کام کے لیے میں بالکل اکیلا رہ گیا ہوں جو ہم نے مل کر کرنے کا پروگرام بنایا تھا۔ اب معلوم نہیں وہ کس طرح سے ہوگا۔ دیکھیے کہ نذیر نیازی کے نام ایک خط (مورخہ ۲۳؍اپریل ۱۹۳۸ء ) میں وہ صدمے کا اظہار کس طرح کرتے ہیں:

علامہ اقبال کے انتقال کی خبر پہنچی، دفعتاً دل بیٹھ گیا۔سب سے زیادہ رنج مجھے اس بناپر ہوا کہ کتنا قیمتی موقع میں نے کھو دیا… میں اس کو اپنی انتہائی بدنصیبی سمجھتا ہوں کہ اس شخص کی آخری زیارت سے محروم رہ گیا، جس کا مثل شاید اب ہماری آنکھیں نہ دیکھ سکیں گی‘‘(خطوطِ مودودی، دوم، ص ۱۸۹)۔

اسی خط میں لکھتے ہیں کہ ’’کچھ خبر نہیں، اللہ کو کیا منظورہے۔ بظاہر تو ہم یہ سمجھ رہے ہیں کہ مسلمان قوم کو اس کی ناقدری اور نااہلی کی سزا دی جارہی ہے کہ اس کے بہترین آدمی عین اس وقت پر اُٹھا لیے جاتے ہیں، جب ان کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے ۔اب سارے ہندستان پر نگاہ ڈالتا ہوں تو کوئی ایک شخص بھی ایسا نظر نہیں آتا جس کی طرف ہدایت حاصل کرنے کے لیے رجوع کیا جاسکے۔ ہرطرف تاریکی چھائی ہوئی ہے، ایک شمع جو ٹمٹما رہی تھی، وہ بھی اُٹھا لی گئی۔

’’مجھے جو چیز پنجاب کھینچ کر لائی تھی، وہ دراصل اقبالؒ ہی کی ذات تھی۔ میں اس خیال سے یہاں آیا تھا کہ ان سے قریب رہ کر ہدایت حاصل کروں گا اور ان کی رہنمائی میں جو کچھ مجھ سے ہوسکے گا، اسلام اورمسلمانوں کے لیے کروں گا۔ اب میں ایسامحسوس کررہاہوں کہ اس طوفانی سمندر میں، میں بالکل تنہا رہ گیا ہوں، دل شکستگی اپنی آخری انتہا کو پہنچ گئی ہے۔ صرف اس خیال سے اپنے   دل کوڈھارس دےرہا ہوں کہ اقبالؒ مرگئے تو کیا ہوا، خدا تو موجود ہے، سب مرجانے والے ہیں، زندہ رہنے والا وہی حی و قیوم ہے، اوراگر وہ تجھ سے کوئی کام لینا چاہے گا تو تیری مدد کے لیے اورکچھ سامان کرے گا‘‘ (خطوطِ مودودی، دوم، ص ۱۸۹- ۱۹۱)۔

 علامہ اقبالؒ کی وفات کے بعد مولانا مودودیؒ نے جس تحریک اسلامی کا احیا کیا، وہ رفتہ رفتہ پھیلتی گئی۔ اس کی توسیع و ترقی، کامیابی اورفروغ میں علامہ اقبالؒ کی رہنمائی کا بھی بڑادخل ہے۔ جماعت اسلامی کے علاوہ جو اسلامی تحریکیں دوسرے ممالک میںبرپا ہوئی ہیں اور پھر عالمِ اسلام میں بیداری کی جو لہرپیدا ہوئی، اس میں مولانا مودودیؒ اورعلامہ اقبالؒ دونوں کا بڑا اثر ہے۔ آیت اللہ خمینی کے انقلابِ ایران میں علامہ اقبالؒ کی شاعری اورسیّد مودودیؒ کی نثر کے اثرات کا خود ایرانی دانش ور اور علما اعتراف کرتے ہیں۔ اسی طرح وسطی ایشیا میں اسلامی بیداری میں  بھی ان کے اثرات برگ و بار لائے۔

 بحیثیت مجموعی علامہ اقبالؒ اور سیّد مودودی، دونوں عالمِ اسلام کی بیداری اور تجدید و احیاے دین کے بارے میں بہت پُراُمید تھے۔ علامہ اقبالؒ ، چودھری محمدحسین کے نام ۲؍اکتوبر ۱۹۲۲ء کے خط میں لکھتے ہیں: ’’اسلام خلفا کے زمانے کی طرف آرہا ہے۔ خدا نےچاہا تو خلافت ِ اسلامیہ اپنے اصل رنگ میں عنقریب نظرآئے گی‘‘(چودھری محمد حسین اور علامہ اقبال، تحقیقی مقالہ ایم اے اُردو، ثاقف نفیس، ۱۹۸۴ء، ص ۶۵)۔اسی طرح نورحسین کو ۱۷مارچ ۱۹۳۷ء کے خط میں لکھتے ہیں : ’’گذشتہ دس پندرہ سال میں کئی لوگوں نے مجھ سے ذکر کیا ہے کہ انھوں نے حضورِرسالت مآبؐ کو جلالی رنگ میں یا سپاہیانہ لباس میں خواب میں دیکھا ہے۔ میرے خیال میں یہ علامت احیاےاسلام کی ہے‘‘(انواراقبال، ص ۲۱۶)۔

اس طرح کی باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ بیداری کی لہراور احیاے اسلام کی تحریکوں کا برپا ہونا علامہ اقبالؒ کی بصیرت میں موجود تھا اوروہ اس معاملے میں بڑے پُرامید تھے۔ سیّد مودودی نے بھی ایک موقعے پر کہا تھا کہ جس طرح یہ بات یقینی ہے کہ کل صبح سورج مشرق سے طلوع ہوگا، بالکل اسی طرح مجھے یقین ہے کہ پاکستان میں اسلامی نظام غالب آئے گا۔ بہرحال اس میں کوئی شک نہیں کہ ’’اقبال کی فکری تحریک سے مولانا سیّدابواالاعلیٰ مودودی نے احیاے اسلام کےکام کو آگے بڑھایا‘‘ (ڈاکٹرممتاز احمد فنون لاہور، بحوالہ: اوراقِ گم گشتہ، ص ۸۷) یہی اثرات ہمیں جدید عالمی تحریکوں میں بھی نظر آتے ہیں۔ اس اعتبار سے میں سمجھتا ہوں کہ جب بھی ہم مولانا مودودیؒ کی فکرپر گفتگو یا بحث کرتے ہیں تو ہمیں یہ بات پیش نظر رکھنی چاہیے کہ فکرمودودیؒ دراصل فکر ِ اقبالؒ ہی کا تسلسل اور اس کی توسیع ہے۔ اور تحریک اسلامی کی پیش رفت میں اقبال کے اثرات کارفرما ہیں۔علامہ اقبالؒ نے بجاطور پر کہا تھا :

وقت فرصت ہے کہاں کام ابھی باقی ہے

نُورِ توحید کا اتمام ابھی باقی ہے

_______________

حاشیہ

۱               معروف صحافی میاں محمدشفیع (م ش۔ م: یکم دسمبر ۱۹۹۳ء)نے اپنی عمر کے آخری زمانے میں لکھا تھا: ’’علامہ اقبال اس امرپر نوحہ کناں تھے کہ ہند میں حکمت ِ دین سیکھنے کے لیے اُنھیں دُوردُور تک کوئی فرد یا ادارہ نظرنہیں آتا تھا۔ انھوں نے بڑی تلاش کے بعد مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ کو حیدر آباد(دکن) سے ڈھونڈ نکالا تھا۔ ان سے خط کتابت کرکے انھیں پنجاب کو اپنی جولان گاہ بنانے کی دعوت دی۔ اس دعوت پر مولانا نے پٹھان کوٹ میں چودھری نیاز علی صاحب (جو کہ ایک مخلص مومن اور ریٹائرڈ سرکاری ملازم تھے) کے بھرپور تعاون سے دارالاسلام کی بنیاد رکھی‘‘… لیکن جب مولانا مرحوم مسائل نظری میں اُلجھ کر اپنی منطق کا شکارہوگئے تو میں نے حضرتِ علّامہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ مولانا مودودی بھی ملّا ہی برآمد ہوئے‘‘۔ (نوائے وقت، لاہور، ۲۶؍اگست ۱۹۸۶ء)

                  اس کالم کے حوالے سے نوائے وقت لاہور (۸ستمبر۱۹۸۶ء) میں پروفیسرآسی ضیائی کا ایک مراسلہ بہ عنوان ’م ش کی خدمت میں‘ شائع ہوا، جس میں وہ لکھتے ہیں: ’’میرے لیے یہ بات بڑی حیرت انگیز ہے کہ جن علامہ اقبال نے مولانا مرحوم کوخود ہی دکن سے پنجاب آنے کی دعوت دی تھی (اور آپ [م ش] ہی راوی ہیں کہ اس دعوت کا خط انھوں نے آپ ہی سے لکھوایا تھا) وہ مولانا کی طرف سے اتنے مایوس ہوگئے؟ ریکارڈ پر شہادت تو یہ ہے کہ علامہ کی دعوت پر مولانا ۱۶مارچ [صحیح:۱۸مارچ]۱۹۳۸ءکو پٹھان کوٹ پہنچے تھے اور اس کے بعد علامہ سے ان کا ملنا نہ ہوسکا تھا۔ البتہ اس دوران میں علامہ اپنی تشویش ناک علالت کےپیش نظر ، مولانا کو بار بار ملنے کے لیے بلواتے رہے۔ ا ن کی وفات سے صرف تین دن قبل سیّدنذیرنیازی مرحوم نے علامہ کی طرف سے بھی مولانا کو جلد آنے کے لیےخط لکھا تھا، اوراسی خط میں اپنی طرف سے بھی یہ اضافہ کیا تھا کہ علامہ کی غیریقینی صحت کے پیش نظر، آپ جلدلاہور آکر علامہ سے   مل لیجیے۔ (یہ خط بھی محفوظ ہے)۔ گویا ۱۸؍اپریل [۱۹۳۸ء] تک تو علامہ کو مولانا سے بڑی اُمیدیں وابستہ تھیں، لیکن بعد کے تین دنوں میں مولانا مودودی سے وہ کون سا قصور سرزد ہوگیا کہ علامہ نے انھیں بھی مُلّا قرار دے ڈالا؟  اب کم از کم ہم نیازمندوں کو یہ تو بتا دیا جائے کہ ان تین دنوں میں علامہ کی راے مولانا کے متعلق یکایک کیوں اور کیسے بدل گئی؟ خصوصاً جب کہ یہ وہ دن تھے جب علامہ کی علالت پورے اشتداد پرتھی، اور وہ ہرقسم کی نوشت و خواند سے معذور ہوگئے تھے؟ اس کالم سے پہلے آپ نے (یا کسی اورشخص نے) علامہ کی اس راے کا اظہار نہیں فرمایا، حالا نکہ یہ بہت ہی اہم تبصرہ تھا اوراسے مولانا تک جلد سے جلد پہنچاناضروری تھا۔ آج جب نہ مولانا اس دنیا میں موجود ہیں، نہ علامہ، آپ ہمیں بتارہے ہیں کہ اقبال کے نزدیک مودودی بھی نرا مُلّا ہی نکلا۔ پھر یہ سوچنے کی بات ہے کہ وہ کون سے’نظری مسائل‘ تھے جن میں مولانا اُلجھ کر ’اپنی منطق کا شکار‘ ہوگئے؟ستمبر ۱۹۳۷ء میں جب مولانا، لاہورآکر علامہ سے ملے ،فروری ۳۸ء تک وہ سلسلہ مضامین لکھا جارہا تھا جو اسی فروری میں ترجمان القرآن اورپیغام حق پٹھان کوٹ میں مسلمان اورموجودہ سیاسی کش مکش (حصہ اوّل) کے نام سے شائع ہوا تھا، جسے علامہ نے پسند بھی فرمایا تھا۔ اس کے بعد تواپریل تک کچھ لکھنے کی نوبت ہی نہیںآئی، کیونکہ مولانا حیدرآباد سے پٹھان کوٹ منتقل ہونے کی تیاریوں میں مصروف تھے اور وہاں پہنچ کر ٹھکانے سےبیٹھتے بیٹھتے بھی انھیں خاصا عرصہ لگ گیا ہوگا‘‘۔

                  راقم کا خیال ہے کہ میاں صاحب کوعلامہ کی بات سننےیا اس کو روایت کرنے میں تسامح ہوا ہے۔ انھوں نے ایک بار لکھا تھا کہ علامہ اقبال رسالہ ترجمان القرآن  پڑھوا کر سننے کے عادی تھے۔اور مَیں نے حضرتِ علامہ اقبال کی زبان سے کم و بیش اس قسم کے الفاظ سنے تھے کہ ’’مودودی کانگریسی مسلمانوں کی خبر لیں گے‘‘۔ مولانا کے بارے ایسی توقع رکھنے والے (اقبال) سے یہ بعید ہے کہ انھوں نےمولانا مودودی پر کوئی منفی ریمارک دیا ہو۔چنانچہ  یہ کہ سیاق و سباق میں م ش کی روایت کا وہ حصہ درست معلوم نہیں ہوتا ، جس سے منفی تاثر پیدا ہوتا ہے۔یہ امربھی تعجب خیز ہے کہ ۱۹۳۷ء سے ۱۹۸۶ء تک میاں صاحب نے سیکڑوں کالم لکھے، مگر کبھی اس روایت کا ذکر نہیں کیا۔ کم و بیش نصف صدی تک معلوم نہیں کس مصلحت کے تحت ’پردۂ خِفا‘ میں رکھا ؟

یوں توغوروفکر ، تدبر اور تفکرکا سفر صدیوں سے جاری ہے، لیکن عصرحاضر کی سائنس اور ٹکنالوجی کی تیزرفتار ترقی کی بنیاد پر یہ دعوے کیے گئے تھے کہ انسان اب اس قابل ہوچکا ہے کہ اُسے کسی دوسرے سہارے کی بالکل ضرورت نہیں ہے۔ اسی بناپر مادرپدر آزاد معاشرت، ترقی اور پُرآسایش معیارِ زندگی کے نعرے بلند کیے گئے۔ لیکن کووڈ-۱۹ کی وبا نے اُن تمام دعوؤںکی قلعی کھول کررکھ دی ہے۔ اب انسان اس بات پر مجبور ہے کہ موجودہ دور کی چمک دمک سے بالاتر ہوکر زندگی، معاشرے اور کائنات کے بارے میں درست طرز پر غوروفکر کرے۔ کیونکہ آج نہ انسان محفوظ ہے اور نہ اُن کی بنائی ہوئی معاشی جدوجہد کی عالی شان عمارتیں ہی محفوظ ہیں۔

 کورونا وائرس نے ۲۱۰ سے زائد ممالک کو ایسی گرفت میں لے لیا کہ پورے کرئہ ارض کی معاشرتی اوراقتصادی زندگی درہم برہم ہوکر رہ گئی اور زندگی کی رفتار سُست پڑگئی۔ اس پس منظر میں سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہ خاص دشمن انسانوں میں کوئی تفریق نہیں کرتا، کسی سرحد کو نہیں مانتا، کسی طبقے میں کچھ تفریق نہیں کرتا اورسب انسان اُس کے سامنے بظاہر بے بس نظر آرہے ہیں۔

ان شاء اللہ کورونا وائرس پر جلد یا بدیر قابوپالیا جائے گا، لیکن کیا انسانوں میں پائے جانے والے غیرانسانی نقطہ ہاے نظر، اختلافات، دشمنیوں، ہوسِ اقتدار وغیرہ جیسی چیزوں پر بھی قابو پایا جاسکے گا؟کیا قومی مفاد کا تصور انسانیت کے مفاد سے بالاتر اور اُونچا ہی رہے گا؟ کیا انسانیت یوں ہی دائمی طور پر اقوام میں منقسم اور آپس میں متحارب رہے گی؟

انسان کو ضرورت ہے کہ وہ اپنے اندازِ فکر،فلسفہ ہاے حیات، تصورِ حیات اور نظامِ حیات کے طور طریقوں پرغوروفکر کرے۔ کھلے ذہن سے تعاون و اشتراک کرے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ علمی، اخلاقی اور سائنسی اعتبار سے سوچنے کے قابل ہوسکے۔ نیز بنی آدم کو بیماریوں، مہلک اسلحوں اور جنگوں سے پاک پُرامن ماحول فراہم کرنے کے لیے کام کرے۔

جب اس ضمن میں سوچا تو مجھے مولانا مودودیؒ کےافکار میں ان عالمی سماجی و انسانی مسائل پر سیرحاصل بحث اور رہنمائی دکھائی دی۔ انھوں نے انسان کو انسان سمجھتے ہوئے، اُس کی زندگی کی بنیادی ضروریات کی طرف توجہ دلائی ہے۔

مولانا مودودیؒ بیسویں صدی کی اُن عظیم المرتبت شخصیتوں میں سے ایک ہیں، جنھوں نے اپنی منظم اور مربوط فکر کے ذریعے ساری دنیا کے بے شمار انسانوں کو متاثر کیا اور اُن کی زندگی کو بامعنی بنانے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ ان کی فکر کے بے شمار پہلو ہیں، لیکن یہاں پر صرف ایک پہلو پر توجہ دی جارہی ہے، جس کا تعلق انسانیت کی بنیادی ضرورت اور مسائلِ زندگی سے ہے۔

مولانا مودودیؒ محض ایک مفکر کی طرح منطق کی پیچیدگیوں کی پابندیوں میں گرفتار نہیں ہوئے بلکہ عام انسان کو متاثر کرنے والی زبان اور لب و لہجہ اختیار کیا۔انھوں نے اپنے علم کی بلندوبالا عمارت کی دھاک بٹھانے کے بجاے آسان اسلوب اختیار کیا، اور اپنے علم کو انسانیت کی خدمت کے لیے استعمال کیا۔ دقیق وفلسفیانہ طرزِ استدلال اختیارکرنے کے بجاے عام فہم لیکن عقلی، علمی، تجزیاتی، تجرباتی اور تاریخی استدلال اختیار کیا۔ یہ آسان اندازِ بیان ایک عام آدمی اور عالم و فاضل ، مفکر، دانش ور، فلسفی سب کو یکساں طور پر متاثر کرتا ہے اور اُنھیں حق اور سچائی کا راستہ دکھاتا ہے۔

مولانا مودودیؒ طرزِ بیان اوراسلوبِ ابلاغ میں سائنسی اندازِ کلام سے واقف تھے۔ آپ نے اپنی بات کو عقلی دلیلوں سے ثابت کرنے کے ساتھ تاریخی واقعات اور حقائق و مشاہدات سے بھی بھرپور استفادہ کیا۔ تواریخ کا مطالعہ مولانا مودودیؒ کے لیے محض واقعات کی عکاسی کا نام نہیں ہے بلکہ ان واقعات کی تہہ تک پہنچ کر نتائج اخذکرنے کا نام ہی مطالعۂ تاریخ ہے۔ اس عمل میں  ان کی تمام تر بصیرت کی بنیادوں میں قرآنِ کریم کی تعلیمات کا وسیع ادراک، رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور حدیث سے قدم قدم پر روشنی حاصل کرنا، اسلام کو بطورِ نظامِ حیات سمجھنا اور حالاتِ حاضرہ کا مشاہدہ نظر آتا ہے۔

مولانا مودودی ؒ محدود معنوں میں محض ایک مذہب کے علَم بردار نہیں تھے بلکہ واحدہٗ لاشریک کے بتائے ہوئے واحد پیغام اور آخری پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے پیش کردہ اسوہ کے شیدائی تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے دُنیابھر کے انسانوں اور معاشروں سے متعلق گفتگو کی اور اُن کی بہتری کے لیے سوچا۔

مولانا مودودی ؒنے جب ’الجہاد فی الاسلام‘ پر لکھنے کا آغاز کیا تو قرآن کو اپنے غوروفکر اور رہنمائی کا محور بنایا۔ جس کے نتیجے میں وہ ہرچیز کو الٰہی، آفاقی اور انسانی نقطۂ نظر سے دیکھنے لگے۔ وہ قرآن کے مرکزی موضوع اور مدّعا پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ :

اُس کا مرکزی مضمون یہ ہے کہ ظاہر بینی یا قیاس آرائی یا خواہش کی غلامی کے سبب سے انسان نے خدا اور نظامِ کائنات اور اپنی ہستی اور اپنی دنیاوی زندگی کے متعلق جو نظریات قائم کیے ہیں ، اور اُن نظریات کی بنا پر جو رویّے اختیار کر لیے ہیں، وہ سب حقیقت نفس الامری کے لحاظ سے غلط اور نتیجہ کے اعتبار سے خود انسان ہی کے لیے تباہ کن ہیں۔ حقیقت وہ ہے جو انسان کو خلیفہ بناتے وقت خدا نے خود بتا دی تھی۔ اُس کا مُدعا انسان کو اُس صحیح رویہ کی طرف دعوت دینا اور اللہ کی اُس ہدایت کو واضح طور پر پیش کرنا ہے، جسے انسان اپنی غفلت سے گم اور اپنی شرارت سے مسخ کرتا رہا ہے (تفہیم القرآن، اوّل،ص ۱۹-۲۰)۔

قرآن فہمی نے مولانا مودودی ؒ کو برطانوی ہند کے ایک غلام شہری سے اُٹھاکر ایک خدا کے بندے اور آفاقی شخصیت میں تبدیل کر دیا ،اور آپ یہ آفاقی پیغام لے کر انسانیت کی فلاح وترقی کے لیے وقف ہوکر زندگی کی آخری سانس تک جدوجہد کرتے رہے ۔ قرآن فہمی نے انھیں معاشرے اور کائنات کو ان کے صحیح اور حقیقت پر مبنی پس منظر میں سمجھنے کے لائق بنایا ۔

 مولانا مودودی ؒ کی ایک مرکزی خصوصیت، یہ ہے کہ آپ نہ تو مسلم معاشرے کے زوال کی وجہ سے مایوس نظر آتے ہیں اور نہ مغربی معاشرے کی نام نہاد ترقی سے مرعوب و مغلوب۔ وہ احساسِ کمتری اور احساسِ برتری کی نفسیات سے پرے، ساری انسانیت کی فلاح وبہبود کے لیے تڑپتے نظر آتے ہیں۔ انھوں نے علّامہ محمداقبال ؒکی طرح جہاں مسلم معاشروں کی خامیوں کا جائزہ لیا، وہیں مغربی معاشرے کی کمزوریوں پر بھی محاکمہ کیا۔ وہ اپنی فطرت کے اعتبار سے انسانیت کے بہی خواہ اور آفاقیت اور عالم گیر یت کے حامل تھے ۔

مولانا مودودیؒ کے ہاں مسلم اور مغربی تہذیب و معاشرت کے مثبت پہلوؤں کا ایک حسین امتزاج پایا جاتا ہے ۔ انھوں نے جس کھلے ذہن سے مسلم فکر کا مطالعہ کیا، اسی کھلے ذہن سے ہر فکر کا مطالعہ کیا، اور اس عمل میں ان کے ہاں کوئی تعصب نظر نہیں آتا۔ وہ ساری دنیا کے علمی خزانے کو اپنی میراث سمجھتے تھے، لہٰذا انھوں نے علم کے تمام ذخیروں سے استفادہ کیا اور اس مطالعے کی روشنی میں اپنی بے لاگ رائے قائم کی۔

اللہ تعالیٰ نے انھیں علم، حکمت، بصیرت، گہرائی اور گیرائی کی صفات وافر مقدار میں عطا فرمائی تھیں۔ انھوں نے ان نعمتوں کا شکر ان نعمتوں کے بھرپور استعمال سے ادا کیا۔ اللہ کے عطا کیے ہوئے علم وحکمت کے خزانوں کی روشنی میں اور قرآنی بصیرت کی بنیاد پر حالات اور نظریات کا بے لاگ تجزیے سے ان عوامل کی نشان دہی فرمائی، جن کی کسی اچھے معاشرے ، ملک وملّت کی تعمیر کے لیے ضرورت ہے۔

وہ بہ تکرار یہ بات کہتے ہیں کہ مسلم اور مغربی معاشرے یکساں طور پر ایک جیسے بن کر رہ گئے ہیں ۔ دونوں معاشرے صحیح تصورِ حیات، صحیح نظام زندگی اور تہذیب وتمدن کی صحیح فکر سے غافل ہیں۔ جزوی طور پر مسلم معاشرہ کچھ چیزوں کا ادارک ضرور رکھتا ہے، لیکن معاشرتی بنیادوں پر وہ بھی بیمار مغربی معاشرے کی بھونڈی نقالی کرتا نظر آتا ہے۔ غلط نظریۂ حیات اور باطل نظام حیات کی بنیاد پر جو کردار افراد اور اقوام عالم میں پیدا ہوتا ہے، اس کی عکاسی انھوں نے اس طرح کی ہے:

قوموں نے چھانٹ چھانٹ کر اپنے اندر سے بدترین آدمیوں کو چُنا، اور انھیں اپنا نمایندہ بنالیا۔ انھوں نے اپنے اکابر مجرمین کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکالا اور انھیں اپنے سربراہِ کار بنالیا۔ان کی سوسائٹی میں جو لوگ سب سے زیادہ پست اخلاق، بے ضمیر اوربے اصول تھے،وہ ان کی ترجمانی کے لیے اُٹھے، اور اخبارنویسی کے میدان میں وہی سب سے بڑھ کر مقبول ہوئے۔ پھریہ سب لوگ بگاڑ کی راہ پر اپنی اپنی بگڑی ہوئی قوموں کو سرپٹ لے کرچلے۔ (بناؤ اور بگاڑ، ۱۰مئی ۱۹۴۷ء)

مولانا مودودیؒ کا بہت واضح استدلال یہ تھا کہ باطل تصورِ حیات اور غلط نظام زندگی و اخلاق کی وجہ سے بننے والا معاشرہ اور اس کے افراد انسانیت کی سطح سے گر کر پستی کی کھائیوں میں جاگرتے ہیں، جس کا ثبوت ہمیں ہم جنسیت، صنفی کج روی اور خاندانی نظام کی تباہی کی صورت میں ایک عالم گیر وبا میں نظر آ رہا ہے ۔ انھوں نے تصورِ حیات اور صحیح نظام زندگی کی سچائی اورحقیقت کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے یہ بتایا کہ صحیح تصورِ حیات اوردرست نظامِ زندگی ہی دراصل انسانیت کی بنیادی ضرورت ہے۔ کیونکہ اس بنیاد پر قائم ہونے والا معاشرہ اور نظام ہی مستحکم اور اخلاقی بنیادیں فراہم کرتا ہے اور انسانیت صحیح منزل کی جانب رواں دواں ہوتی ہے۔ باطل تصورِ حیات اور نظامِ زندگی کی بنیاد پر قائم ہونے والا معاشرہ اور نظام دونوں انسانوں کو لامتناہی مسائل کے ایک ٹیڑھے راستے پر ڈال دیتے ہیں، جس پر چل کر انسان نہ ختم ہونے والے مغالطوں، مشکلات اور گمراہیوں میں اُلجھتا چلا جاتا ہے۔ اس پر بدقسمتی یہ کہ وہ پھر اسی کو زندگی کی اصل سمجھتا ہے، جیساکہ ہم آج عالمی سطح پر دیکھتے ہیں کہ ساری دنیا اسی دنیا کی متاع حیات لوٹنے میں لگی ہوئی ہے۔ جس کے پاس جتنی مکاری اور طاقت ہے، وہ اسی قدر دنیا کے ذرائع اور وسائل کو اپنی قدرت میں رکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔

یہ ساری چیزیں ہم موجودہ دور میں دیکھ رہے ہیں کہ ذہین سے ذہین افراد بھی کولہو کے بیل کی طرح ان چیزوں میں الجھے ہوئے ہیں ۔ مولانا مودودی ؒ نے یہ استدلال پیش کیا کہ صحیح  تصورِ حیات اور درست نظام زندگی ہی، زندگی کے اہم ترین سوالات ہیں، جن کو نظرا نداز کر کے انسانیت نے ہمیشہ گھاٹے کا سودا کیا ہے ۔ وہ لکھتے ہیں: ’’چونکہ یہ سوالات انسانی زندگی کے بنیادی سوالات ہیں، اس لیے کسی نظام تمدن و تہذیب اور کسی ہیئت اجتماعی کے لیے کوئی لائحہ عمل بن ہی نہیں سکتا، جب تک کہ ان سوالات کا کوئی جواب متعین نہ کر لیا جائے … زندگی کے ان بنیادی مسائل کو حل کیے بغیر کوئی بھی انسان ایک قدم نہیں چل سکتا ۔ آج کا المیہ یہ ہے کہ انسان ہی نہیں ساری اقوام عالم  تصورِ حیات اور نظام زندگی اور ان کی سچائی اور حقیقت کو علمی بنیادوں پر حل کیے بغیر، محض اپنے حسی مشاہدے اور قیاس وگمان کی بنیاد پر زندگی کا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں‘‘۔ جس کا نتیجہ مولانا مودودی کے الفاظ میں یہ ہے کہ: ’’تمدن وتہذیب کا سارا نظام نفس پرستی پر قائم ہے۔ کارل مارکس، فرائیڈ اور ڈارون کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اقوام عالم، لذت نفس کی ہر طلب پر، ہر اخلاقی بندش سے آزاد ہو کر شتر بے مہار کی طرح ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی دوڑ میں شامل ہیں۔ اس دوڑ نے عالمی سطح پر ایک ایسا معاشرہ، نظام ،تہذیب وتمدن کو پروان چڑھایا ہے کہ جس میں ہرشخص لذتوں کے حصول میں مشین کی طرح لگا ہوا ہے‘‘۔

مولانا مودودی ؒ فرماتے ہیں:’’اس غلط تصورِ حیات کی طلب میں سارا نظامِ تعلیم وتربیت گھومتا ہے، اور جو اس سے اختلاف کرتا ہے اسے ’تنگ نظر‘ اور تہذیب وتمدن کا ’دشمن‘ قرار دیا جاتا ہے… بے شک دنیا کے فلسفیوں اور مفکرین نے تہذیب وتمدن کے قافلے کو آگے بڑھانے کے لیے مختلف علوم کی بنیاد رکھی اور اپنی دانست میں انسانیت کے سامنے مختلف تصورِ حیات اور نظام زندگی پیش کیے، لیکن وہ اپنے خام اور بے خدا علم کی بنا پر یہ فیصلہ نہ کر سکے کہ ان میں کون اپنی اصل کی حیثیت سے سچا اور حقیقت پر مبنی ہے؟ ‘‘

عصرِ حاضر میں یہ فرض کر لیا گیا کہ ایک صحیح نظام زندگی کو واضح کرنے کے لیے سب سے پہلے انسان اور اس کے معاشرے کو سمجھنا ضروری ہے۔ دراصل عصرحاضر کی یہی بنیاد ی خامی تھی، جس کی طرف مولانا مودودی ؒ نے توجہ دلائی۔ انھوں نے یہ بتایا کہ: ’’انسان کو سمجھنے سے پہلے انسان کے وجود اورمابعد الطبیعیاتی حقیقت کو سمجھنا ضروری ہے۔ یعنی انسان ، معاشرے اور اس کے اندر کام کرنے والا عناصر کو سمجھنے سے پہلے تصورِ حیات کے مسئلے کو حل کرنا ضروری ہے۔ چونکہ عصر حاضر کے مفکرین نے اس مسئلے کو نظر انداز کیا ہے، اس لیے زندگی کے بارے میں ان کے بے شمار بلند وبانگ دعوے غلط ثابت ہوئے ہیں‘‘۔

مولانا مودودی ؒ نے استدلال کیا کہ تصورِ حیات کا سوال ہو یا نظامِ حیات کا، اس میں سب سے پہلے جس چیز کی ضرورت ہے وہ تصورِ حیات اور صحیح علم ہے۔اس ’صحیح علم‘ کے لیے قیاس ، گمان ، ظن ،مشاہدات اور انسانی تجربات علم کے حصول میں مدد گار تو ہو سکتے ہیں، لیکن بنیاد نہیں بن سکتے۔ مولانا مودودی ؒ نے ظنی اور قیاسی بنیادوں پر تنقید کی اور ’صحیح علم ‘ کی ضرورت پر زور دیا۔ انھوں نے غیر علمی اور غیر سائنسی طریقۂ کار کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ جدید دور کو ’علمی ‘ دور کہنا سراسر غلط اور بے بنیاد ہے، کیونکہ یہ دور اشیا کا علم تو ضرور رکھتا ہے، لیکن وہ انسان اور کائنات کے ’صحیح علم ‘ سے یکسر محروم ہے ۔

مولانا مودودیؒ نے جدید دور کے رہنماؤں کو توجہ دلائی کہ وہ علم اشیا اور علم انسان میں فرق کریں۔ قیاس وگمان پر مبنی غلط تصورِ حیات کو انھوں نے مابعدالطبیعیاتی بے خبری (metaphysical ignorance) سے تعبیر کیا اور کہا کہ ’صحیح علم‘ کی غیر موجودگی میں تہذیب وتمدن کا قافلہ آگے نہیں بڑھ سکتا ۔ برٹرینڈرسل نے سائنس اور ٹکنالوجی کی ترقی کے پس منظر میں کہا تھا: ’’سائنسی تہذیب کو ایک اچھی تہذیب بننے کے لیے ضروری ہے کہ علم میں اضافے کے ساتھ دانش مندی میں بھی اضافہ کیا جائے۔ دانش مندی سے میرا مطلب یہ ہے کہ زندگی کے اختتام کا صحیح تصور‘‘۔ (مقالہ سائنٹی فک آؤٹ لک)

صحیح مقاصد ِزندگی کا تعلق یقینی طور پر صحیح تصورِ حیات سے ہے۔ سیّد حسین نصر کے بقول:  ’صحیح علم ‘ کا حصول انسان کی پہنچ سے باہر ہے۔ جو لوگ انسانی عقل کو ’عقلِ کُل‘ کا درجہ دیتے ہوئے تصورِ حیات کے بارے میں ’صحیح علم ‘ کو پالینے کی بات کرتے ہیں، دراصل وہ انسان کی جملہ صفات سے ناواقف ہیں۔ جہاں تک عالم بالا سے متعلق علم کا تعلق ہے وہ انسان کی پہنچ سے باہر ہے۔

مولانا مودودی ؒ وہم،گمان ، قیاس اور حسی مشاہدے کی حقیقت کو سورۂ یونس کی آیت ۶۶ کی تشریح کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں:

سائنس دانوں نے اگرچہ سائنس کے دائرے میں تحقیقات کے لیے علمی طریقہ اختیار کیا، مگر مابعد الطبیعیات کے حدود میں قدم رکھتے ہی وہ بھی علمی طریقے کو چھوڑ کر قیاس و گمان اور اندازے اور تخمینے کے پیچھے چل پڑے۔ ( تفہیم القرآن، دوم ،ص ۲۹۷)

سورۃ النحل آیت نمبر ۶۵ کی تشریح کرتے ہوئے مولانا مودودی ؒ نے فلسفیوں ، مفکرین اور سائنس دانوں کے علم مابعد الطبیعیات کی حقیقت بیان کی۔ اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر اعلان فرمایا کہ: ’’اللہ کے سوا آسمانوں اور زمین میں کوئی غیب کا علم نہیں رکھتا ‘‘ (النمل۲۷: ۶۵)۔ مولانا مودودی ؒ فرماتے ہیں: آسمان اور زمین میں جو بھی مخلوقات ہیں، خواہ فرشتے ہوں یا جِنّ، فلسفیوں اور مفکرین نے تصورِ حیات کے بارے میں جو کچھ کہا ہے وہ کسی علم کی بنا نہیں ہے بلکہ یہ سب گروہ ایک دوسرے سے مختلف راے رکھتے ہیں ۔ یہ ایک دوسرے کی تائید نہیں بلکہ عمومی طور پر تکذیب کرتے ہیں :’’اپنے خیال کی تائید اور دوسرے خیالات کی تکذیب کے لیے ان میں سے کسی کے پاس بھی قیاس اور ظن وتخمین کے سوا کوئی ذریعۂ علم نہیں ہے ‘‘(سیرت سرور عالمؐ، جلد اول ،ص ۴۷)۔ اور یہ کہ: ’’وہ خود اقرار کرتے ہیں کہ ان کے پاس علم کا کوئی ایسا ذریعہ نہیں ہے جو دوسروں کے پاس نہ ہو۔ ان میں سے کوئی گروہ اس سے زیادہ کسی چیز کا مدّعی نہیں ہے کہ ہمارے قیاسات دوسروں کے مقابلے میں زیادہ وزنی ہیں، مگر اپنے قیاسات کا قیاسات ہونا سب کو تسلیم ہے ‘‘ (ایضاً، ص ۴۹) ۔

سورۂ یونس، آیت ۳۶ کی تشریح میں مولانا مودودی ؒ نے انسانوں کو توجہ دلائی ہے: ’’جنھوں نے مذاہب بنائے ، جنھوں نے فلسفے تصنیف کیے اور جنھوں نے قوانین حیات تجویز کیے، انھوں نے بھی یہ سب کچھ علم کی بنا پر نہیں بلکہ گمان وقیاس کی بنا پر کیا۔ اور جنھوں نے ان مذہبی اور دُنیوی رہنماؤں کی پیروی کی، انھوں نے بھی جان کر اور سمجھ کر نہیں بلکہ محض اس گمان کی بناپر ان کا اتباع اختیار کر لیا کہ ایسے بڑے بڑے لوگ یہ کہتے ہیں اور باپ دادا ان کو مانتے چلے آرہے ہیں اور ایک دنیا ان کی پیروی کر رہی ہے تو ضرور ٹھیک ہی کہتے ہوں گے ‘‘ (تفہیم القرآن، دوم،ص ۲۸۵)۔

آج کی انسانیت کا المیہ یہ ہے کہ وہ بغیر سوچے سمجھے وقت کے غالب تصورِ حیات، نظامِ حیات ، تہذیب وتمدن ، اخلاقی اصول اور سیاسی ضوابط سب کو بلا تامل قبول کرتی چلی آ رہی ہے، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ یہ سب کے سب قیاس اور گمان کا نتیجہ ہیں۔ اگرچہ ان سے کئی ایک سنگین مسائل پیدا ہو رہے ہیں، مگر اس کے باوجود نہ تو کوئی سبق سیکھنا چاہتا ہے اور نہ ان سے بچنا چاہتا ہے۔ کیونکہ آج کی دنیا کے غالب تصورات ، نظام حیات ، اخلاق وقوانین ، رسم ورواج سب کے سب انسانوں کی جسمانی لذتوں کی تسکین کا باعث ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ آج انسانیت صحیح تصورِ حیات سے غافل اور اس کے ’صحیح علم‘ سے یکسر محروم ان مقاصد کے لیے دن رات کام کر رہی ہے، جو خود انسانوں سے انسانیت کو ختم کر رہے ہیں۔ مگر وہ تمام لوگ جو قرآن سے واقفیت رکھتے ہیں، قرآن کے دیے ہوئے ’صحیح علم ‘ سے استفادہ کرتے ہیں، انھیں چاہیے کہ پوری ذہنی اور علمی طاقت کے ذریعے سے قرآن کے پیش کردہ تصورِ حیات اور نظام حیات کو مولانا مودودی ؒ کی طرح علم، حکمت اور دلیل کے ساتھ دنیا کے سارے انسانوں کے سامنے پیش کریں ۔ آج یہ انسانیت کی ضرورت ہے اور یہی اس کی صحیح خدمت ہے۔ مولانا مودودی ؒ نے نہ صرف انسانیت کی بنیادی ضرورت سے اسے آگاہ کیا بلکہ اسے کھول کھول کر آسان طریقے سے بیان بھی کیا۔

آج کل ’یکساں نصابِ تعلیم‘ اور پھر اس میں اسلامیات کے نصاب، اور جولائی۲۰۲۰ء میں ’تحفظ ِ بنیاد اسلام ایکٹ‘ (پنجاب حکومت)کی بحث نے ماضی کے اُفق روشن کردیے۔ پاکستان کا قیام اور نظریۂ پاکستان کی بنیاد دین اسلام اور کلمۂ طیبہ لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ ہے۔اس بنیاد کو متنازع بنانے کے لیے سیکولر عناصر نے ہمیشہ اہلِ دین ہی میں غلط فہمی پیدا کرکے پیدا شدہ کش مکش کو عام لوگوں میں بددلی پھیلانے کا کام کیا۔ سادہ لوح علما کا ایک طبقہ، ان عناصر کو ایسے شیطانی کھیل میں آلۂ کاربننے کے لیے ہرمرحلے پر ملتا رہا ہے۔ اسی نوعیت کی ایک تشویش ناک کارروائی کا احوال ہماری تاریخ کا حصہ ہے، جس میں بہت سے سبق پوشیدہ اور عبرت کے نشانات نمایاں ہیں۔

یہ ۱۹۷۵ء کے اواخر کی بات ہے۔ میں پنجاب یونی ورسٹی کا طالب علم تھا اور اسلامی جمعیت طلبہ پنجاب کی تنظیمی ذمہ داری کے لیے، مولانا مودودیؒ کی رہایش گاہ ۵-اے، ذیلدار پارک کے سامنے ۴-ذیلدار پارک میں روزانہ آیا کرتاتھا۔ تب ہم تمام نمازیں مولانا مودودیؒ  کے ساتھ  اُن کے گھر کے لان میں پڑھا کرتے تھے۔ جب مولانا محترمؒ کی طبیعت ٹھیک ہوتی تو وہ نمازِ عصر کے بعد وہیں صفوں پر بیٹھے ملاقاتیوں کے سوالات کے جواب دیتے اور ہلکی پھلکی گفتگو رہتی۔ یہ سلسلہ مغرب سے کچھ دیر پہلے تک چلتا۔

ایک روز ہم نے دیکھا کہ ایک پُرجوش خوبرو نوجوان، خطیبانہ لہجے میں مولانا مودودیؒ سے کہنے لگے: ’’مولانا، بھٹو صاحب کی حکومت نےتو اسلام کو بھی تقسیم کردیا ہے۔چودہ سوسال سے اُمت ایک کلمے پرمتفق چلی آرہی ہے، لیکن اب تو کلمۂ طیبہ بھی شیعہ اور سُنّی میں تقسیم کر دیا گیا ہے‘‘۔

مولانا نے فرمایا: ’’ایسا حادثہ کب ہوا؟‘‘

نوجوان نے بتایا: ’’مولانا، یہ دیکھیے نہم، دہم اسلامیات لازمی کی کتاب میں کلمہ کے عنوان میں ’کلمہ‘ کے بجاے یہ نوٹ درج ہے: ’’اساتذۂ کرام کلمہ راہنمائے اساتذہ گائیڈ سے دیکھ کر پڑھائیں‘‘۔ اب دیکھیے مولانا ، یہ ہے مرکزی وزارتِ تعلیم اسلام آباد کی شائع کردہ گائیڈ بُک، جس میں سُنّی اور شیعہ طلبہ کے لیے الگ الگ کلمہ درج ہے‘‘۔نوجوا ن کے ہمراہ آنے والے بزرگ نے کہا: ’’مولانا، ہم آپ سے رہنمائی کے لیے حاضر ہوئے ہیں‘‘۔

مولانا نے فرمایا: ’’یہ دونوں کتابیں میرے پاس چھوڑ دیں اور کل مغرب کے بعد آئیں‘‘۔

اس واقعے کے بعد میں نے جب اس نوجوان، اور بزرگ کے علاوہ ایک وکیل صاحب کو مولانا مودودیؒ کے ہاں وقتاً فوقتاً ملاقات کے لیے آتے جاتے دیکھا، تو ایک روز نوجوان سے تعارف حاصل کیا۔ معلوم ہوا، وہ مولانا محمد شفیع جوش، ماڈل ٹاؤن ایف بلاک مسجد کے خطیب ہیں۔ ان کے ساتھ جو بزرگ ہیں ان کا نام پیر سیّد ابرارمحمد صاحب ہے اور وکیل صاحب کو ہم جانتے تھے ارشاد احمد قریشی ایڈووکیٹ۔

میں نے محمد شفیع صاحب سے پوچھا: ’’اُس روز کی گفتگو پر مولانا نے کیا رہنمائی فرمائی ہے؟‘‘

شفیع جوش صاحب نے بتایا: ’’مولانا نے کہا ہے کہ ’اس مسئلے کو سڑکوں پر احتجاج اور   باہم کشیدگی پیدا کرنے کے بجاے آئینی اور قانونی سطح پر حل کرنے کے لیے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کریں‘۔ ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ ’قانونی معاونت کے لیے میں ارشاد احمد قریشی ایڈووکیٹ کی ذمہ داری لگاتاہوں‘۔ پھر یہ بھی کہا کہ ’اس مسئلے میں ، مَیں علمی، قانونی اور مالی سطح کی تمام ذمہ داریوں کو پورا کروں گا۔آپ کو صرف یہ کرنا ہے کہ عدالت میں پیش ہوں اور پوری ایمانی قوت اور اللہ کی تائیدسے جم کر کھڑے رہیں‘‘۔

ان دنوں وہ تینوں حضرات، رہنمائی حاصل کرنے اوررٹ کی تیاری کے علاوہ قومی سطح پریک جائی کی حکمت عملی بنانے کے لیے مولانا مودودی کے ہاں آیا کرتے تھے: ’’پھر چند ہفتوں کے بعد ایک نہایت جامع رٹ جنوری ۱۹۷۶ء میں لاہور ہائی کورٹ میں دائر کردی گئی، جو بنیادی طورپر مولانا مودودی مرحوم و مغفور ہی کی تحریر پرمبنی تھی، تاہم اس میں کچھ الفاظ کا اضافہ کیا گیا‘‘۔

اُسی ملاقات میں شفیع جوش صاحب نے مجھ سے کہا: ’’مولانا مودودی نےسختی سے ہدایت کی ہے، کہ لوگوں سے میرا ذکر نہ کیا جائے، کہ اس صورت میں عدالتی عمل کے پاؤں لڑکھڑانے کا خدشہ ہے، جس سے پیش نظر مقصد کو نقصا ن پہنچے گا‘‘۔ یوں نوجوان، جوش صاحب نے ہم عمری کی بے تکلفی سے اس نازک رازداری کا حصے داربنالیا (اس رٹ اور اس کے نتیجے میں عدالت کے فیصلے کو اس تحریر کے آخر میں ملاحظہ فرمایئے)۔

اس واقعے کی تفصیلات معلوم کرنے کے لیے ۴۵برس بعد مولانا محمد شفیع جوش صاحب سے گذشتہ دنوں جو ملاقات ہوئی، تو اس میں متعلقہ اُمور کی وضاحت ممکن ہوئی، جسے یہاں پیش کیا جارہا ہے: محترم شفیع صاحب نے بتایا: ’’رٹ دائر کرنے کے بعد مولانا مودودی نے مشورہ دیا کہ اب آپ مولانا مفتی محمد حسین نعیمیؒ (م:۱۲ مارچ ۱۹۹۸ء) لاہور، مفتی محمد شفیع ؒصاحب (م: ۶؍اکتوبر ۱۹۷۶ء) کراچی، خواجہ قمرالدین سیال شریف (م: ۲۰ جنوری ۱۹۸۱ء) سے بھی جاکرملیں اورمقدمے کی صورتِ حال پر ذاتی سطح پر بات کریں‘‘۔

 ان اکابر علما سے ملنے کے بعد ہم نے راولپنڈی میں مولانا غلام اللہ خان (م: ۲۶مئی ۱۹۸۹ء) اور پیراختر حسین شاہ علی پوری (م: ۱۶؍اکتوبر ۱۹۸۰ء) سے بھی ملاقات کی، جنھوں نے اپنا تعاون پیش کرتے ہوئے بہ اصرار ہمیں مالی معاونت لینے کے لیے کہا تو ہم نے بڑے ادب سے ان کو بتایا: ’’کلمۂ طیبہ کے تحفظ کے لیے جملہ سفری اور عدالتی اخراجات کا کُلی ذمہ مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ نے ذاتی طورپراُٹھا لیا ہے، اس لیے اس ضمن میں کسی فرد یا جماعت سے مالی ضرورت کی حاجت نہیں رہی‘‘ تو ان حضرات نےمولانا کی عظمت اور ان کے جذبۂ اسلامی کو سراہتے ہوئے مولانا کی خدمت میں سلام پیش کیا۔ ہم نے واپسی پر یہ تشکر بھرے جذبات جب مولانا مودودی کی خدمت میں پہنچائے تو مولانا مودودیؒ نے ہمیں انھی قدموں ان حضراتِ علما کے پاس اپنے خرچ پر واپس بھیجا اورفرمایا: ’’انھیں وعلیکم السلام کہیں اور میری طرف سےشکریہ ادا کریں‘‘۔ اکابرین ملّت اسلامیہ کے اس اسوہ کا ایمان افروز مظاہرہ میری زندگی کا ناقابلِ فراموش واقعہ ہے‘‘۔

شفیع صاحب نے مزید کہا:’’اتفاق سے ان دنوں امام مسجد نبوی مدینہ منورہ، پاکستان آئے ہوئے تھے اور اُنھوں نے بادشاہی مسجد لاہورمیں نماز جمعۃ المبارک کی امامت فرمائی ، جس میں پنجاب بھرسے لاکھوں اہلِ ایمان شریک ہوئے۔ اس موقعے پر لاہور ہائی کورٹ میں دائر کردہ رٹ کا اُردو ترجمہ ایک لاکھ کی تعداد میں ہم نے شائع کرکے تقسیم کیا، جو پورے پاکستان میں پھیل گیا۔ تب ذوالفقارعلی بھٹو صاحب کا دورِ حکومت تھا۔ اسی دوران شاہِ ایران رضا شاہ پہلوی بھی پاکستان آئے [۸مارچ ۱۹۷۶ء] تھے۔ ہمارا قیاس ہے کہ انھوں نے دیگراُمور کے علاوہ اس موضوع پر بھی بات کی ہوگی۔ مولانا مودودی کی ہدایت پر ہم نے رٹ دائر کرنے سے قبل ہی محترم آیت اللہ محمدکاظم شریعت مداریؒ [م: ۳؍اپریل ۱۹۸۹ء]، ایران سےفتویٰ حاصل کرکے شیعہ موقف بھی رٹ میں شامل کرلیا تھا کہ شیعہ بھائیوں کے نزدیک بھی کلمۂ اسلام صرف ’لا الٰہ الا اللہ محمدرسول اللہ‘ ہے‘‘۔

مولانا جوش صاحب نے بتایا: ’’لیکن حکومت پاکستان دوسری جانب سے دباؤ میں نظر آرہی تھی، جس کے لیے لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سردار محمداقبال [م: ۵مئی ۲۰۰۸ء] کو اسلام آباد طلب کرکے بہرقیمت مقدمے کا فیصلہ کرنے سے باز رہنے کی ہدایت کی گئی۔ اسی طرح ہمیں بھی خوف اور لالچ سے مقدمے کی پیروی سے باز رکھنے اور دوسری جانب مقدمے کو طوالت کا شکار کرنے کا کام شروع ہوا۔ اسی دوران آل پاکستان شیعہ کانفرنس کے صدراور چند روزپہلے تک فرانس میں پاکستان کے سفیر آغا مظفرعلی خاں قزلباش صاحب [م: ۲۱ستمبر۱۹۸۲ء] نے ایک جلسے میں کلمۂ اسلام کی رٹ دائر کرنے پر ہم دونوں کو ’کانگریسی مُلّا اور پاکستان کا مخالف قراردیتے ہوئے کلمۂ اسلام مقدمے کو پاکستان توڑنے کی سازش‘ قرار دیا۔ آغا قزلباش صاحب کوسابق چیف جسٹس محمد منیر [م: ۲۶جون ۱۹۸۱ء]کی معاونت حاصل تھی۔ ان کو باور کرایا گیا کہ ’’رٹ کنندہ محمد شفیع کی پیدایش تو ستمبر ۱۹۴۷ء میں ہوئی تھی، ان پر پاکستان کی مخالفت کا الزام کیسے لگایا جاسکتا ہے؟‘‘ اس طرح یہ الزام اپنی موت آپ مرگیا۔ سماعت سے پہلے ہم پر دباؤ ڈالا گیا کہ یہ رٹ واپس لی جائے، کہ کلمۂ طیبہ پہلی ہی صورت میں نصاب کے اندر شامل کردیا جائے۔ چیف جسٹس سردار محمد اقبال صاحب نے ہمیں چیمبر میں بلایا اور قومی حالات کی طرف توجہ دلا کر فرمایا: ’’یقین دلاتا ہوں واحد کلمے کی بحالی ہوجائے گی، اس لیے رٹ واپس لے لیں اور اگر آپ ایسا نہیں کریں گے تو میں رٹ خارج کردوں گا‘‘۔ اسی طرح ایک صوبائی سیکرٹری نے کہا کہ ’’رٹ واپس لینے کی صورت میں آپ کو حکومت کچھ انعام و اکرام سے بھی نوازنے کا ارادہ رکھتی ہے۔خواہ مخواہ مسئلے کو آگے نہ بڑھائیں‘‘۔

مولانا شفیع صاحب نے بتایا: ’’جب لاہور ہائی کورٹ کے سربراہ اور حکومت کے ایک سیکرٹری کی جانب سے دباؤ بڑھا تو ہم نے سوچنے کے لیےوقت مانگا اور اگلی تاریخ کی استدعا کی، جو صرف اگلے روز تک منظور کرلی گئی۔ یوں صرف ایک رات کے وقفے میں ہم نے مولانا مودودی کی خدمت میں حاضر ہوکرساری رُوداد بیان کی۔ ارشاد احمد قریشی صاحب بھی ہمراہ تھے۔ ہم نے مولانا مودودی سےعرض کیا: ’’حکومت ِ پاکستان نے یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ کلمۂ اسلام سابقہ پوزیشن پر نصاب میں بحال کردیا جائے گا۔ اور یہ کہ مجوزہ نظرثانی شدہ کتب نصاب، ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو بھی پیش کردی گئی ہیں کہ آیندہ کچھ عرصے میں مطالبہ پورا ہورہا ہے،اس لیے رٹ واپس لے لیں‘‘، وغیرہ وغیرہ۔

مولانا مودودی نے گہری توجہ اور فکرمندی سے تفصیل سننے کے بعد ہم سے ارشادفرمایا: ’’یہ ایک مضبوط مقدمہ ہے، اور یہ بھی درست ہے کہ حکومت غلطی کا احساس کرکےازالہ کررہی ہے، مگروہ یہ سب باتیں آف دی ریکارڈ کرنا چاہتی ہے۔ اس طرح آپ رٹ واپس لے لیں گے اور آیندہ نصاب میں اگرکبھی ایسی حرکت ہوئی تو پھررجوع کرنا بہت مشکل ہوجائے گا، اب لہٰذا یہ ’رٹ‘  آپ کا ذاتی معاملہ نہیں رہا ہے بلکہ یہ ملّت اسلامیہ کی ترجمانی اور ایک امانت ہے۔ آپ کو ’رٹ‘ واپس لینے کا شرعی اختیار نہیں ہے۔ اس لیے آپ مکمل ثابت قدمی اختیار کریں اور عدالت میں جاکر کہیں کہ وہ آئین اور قانون کے تحت فیصلہ کرے‘‘۔

اگلے روز ۱۰ بجے سردار محمد اقبال چیف جسٹس لاہورہائی کورٹ نے کمرئہ عدالت میں مجھ سے استفسار کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’آپ کا مطالبہ مان لیا گیا ہے، اس لیے رٹ واپس لے لیں‘‘۔ گذشتہ رات مولانا مودودی کے بیان کردہ الفاظ نے ہمیں ایک ایمانی قوت عطا کردی تھی، اس لیےبھری عدالت میں اعلیٰ حکام، وکلا اور جج صاحب کو مخاطب کرکے رٹ واپس لینے کے بجاے میں نے بیان ریکارڈ کرنے کا مطالبہ کردیا۔ چیف جسٹس نے غصّے میں فرمایا:’’حکومت تو نصاب  درست کرنے کا مطالبہ مان رہی ہے، تو اب آپ لوگ اور کیا چاہتے ہیں؟‘‘ میں نے معلوم نہیں کس طرح بھری عدالت میں بلندآواز میں عرض کیا: ’’جناب عزّت مآب چیف جسٹس صاحب! رٹ کلمۂ اسلام پر دعویٰ استقرارِ حق قرار دیا جائے کہ کلمۂ اسلام صرف لا الٰہ الااللہ محمد رسول اللہ ہے۔ اس لیے فیصلہ دے کر ایمان بچا لیں یا مسترد کرکے نوکری بچالیں‘‘۔ اس پر بھری عدالت میں سناٹا چھاگیا۔ چیف جسٹس صاحب نے غصّے میں عدالت برخواست کردی۔ ہم ہائی کورٹ سے نکل کر سیدھے مولانا مودودی صاحب کے پاس پہنچے۔ شرفِ ملاقات پر مولانا کو مختصر ترین کارروائی کی یہ رُوداد سنائی تو محترم مولانا مودودی نےمسرت کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: ’’آپ نے اپنا فرض ادا کردیا ہے۔ اب فیصلہ جو بھی ہو، آپ اور ہم بری الذمہ ہیں‘‘۔

مولانا شفیع صاحب نے مزید بتایا: ’’جسٹس صاحب اس روز خلافِ عادت ہائی کورٹ سے ۱۱بجے دن گھرپہنچے تو خود جسٹس سردار اقبال صاحب نے ریٹائرمنٹ کے کئی سال بعد مجھے بتایا کہ ’’یوں گھر خلافِ معمول آمد پر میری اہلیہ نے پوچھا: طبیعت تو ٹھیک ہے، آج آپ بہت جلد گھرآگئے ہیں‘‘۔ کہا کہ ’’ٹھیک نہیں ہے۔ ایک مولوی جو عدالتی آداب سے یکسرناواقف ہے، اس نے بھری عدالت میں مجھے کہا: ’’رٹ کلمہ منظور کرکے ایمان بچالیں یا مستردکرکے نوکری بچالیں۔ کیسے غیرمہذب ہوتے ہیں یہ مولوی لوگ۔ یہ سن کر طبیعت موزوں نہیں رہی تو گھر آگیا ہوں اور ساتھ ہی وہ فائل قریب رکھے ٹیبل پر دے ماری۔ میری اہلیہ گویا ہوئیں: ’’آپ رٹ منظورکرکے ایمان محفوظ کرلیں، نوکری کی فکر نہ کریں، اللہ مالک ہے‘‘ ۔ سردار اقبال صاحب نے بتایا کہ بیگم کے اس بے ساختہ اورمعصومانہ مشورے نے مجھے پریشانی سے نجات دلا کر غصہ ختم کردیا‘‘۔

شفیع صاحب کے بقول: ’’چیف جسٹس سردار محمد اقبال نے کہا: ’’پھر آپ کو معلوم ہے کہ میں نے کلمۂ طیبہ کیس ایک روز کی سماعت کے بعد منظور کرلیا اور اس ایمانی فیصلے سے طبیعت بحال و مطمئن ہوئی‘‘۔اور اس کے بعد یہ بھی امرواقعہ ہے کہ چند ہی روز بعد حکومت پاکستان کی ناراضی کے باعث، اس ترمیم کی بنیاد پر (کہ چیف جسٹس چارسال تک ہوگا) سردار محمد اقبال صاحب بطورِ چیف جسٹس فارغ کر دیے گئے [یاد رہے کہ حکومت نے جسٹس اقبال صاحب سے کہا تھا کہ آپ سینیر جج کے طور پر عدالت میں کام کرتے رہیں، مگرسردارصاحب نے صرف۵۴برس کی عمر میں عدالت کا منصب چھوڑ کر گھر آجانا پسند فرمایا۔ جو ہماری عدالتی تاریخ کا منفرد واقعہ ہے،مرتب]۔ واقعی بیگم عفت اقبال کے ایمانی مشورے سے جسٹس سردار محمد اقبال نے رٹ منظور کرکے ایمان بچانے کا ثبوت دیا اور نوکری ختم کرنے کی ذمہ داری حکومت پر ڈال دی‘‘۔

مولانا محمد شفیع صاحب نے بتایا: ’’میں نے سردار محمد اقبال صاحب سے کہا: میں بھی آج آپ کو بتا رہا ہوں کہ اس مقدمے کے پیچھے دراصل خاموشی سے مولانا مودودی تھے‘‘۔ اس پر سردار صاحب نے کہا: ’’یہ تو بہت ہی اچھاہوا کہ اُس وقت مجھے یہ بات معلوم نہ ہوئی، اوراگر یہ پتا چل جاتا تو مقدمے کے ساتھ میرا رویہ مختلف ہوتا‘‘۔ یوں انھوں نے اُس بے خبری پر مسرت کا اظہار کیا۔

’’سردار محمد اقبال صاحب نے اسی ملاقات میں یہ بھی فرمایا تھا کہ اگر کلمۂ پاک کی خدمت میں آپ کو روزِقیامت اجرملے تو مجھےبھی یاد رکھنا۔ یہ کہہ کران کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور مجھ جیسے گنہگار نے نم پلکوں سے وعدہ کیا کہ اگراللہ ربّ العالمین نے میری خطاؤں سے چشم پوشی کرتے ہوئے کلمۂ اسلام کی برکت سے، کرم وفضل سے نوازا تواپنے ربّ سے عرض نوا ہوں گا کہ اس میں پہلے چیف جسٹس محمد اقبال اور اُس کے بعد جو مالک و محبوب کو منظورہو‘‘۔

اب پیش ہے رٹ اور مقدمے کا فیصلہ!

___’رٹ پٹیشن‘___

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

 رٹ درخواست نمبر ۷۶/۱۵۹/۱۹۷۶ء، لاہور ہائی کورٹ

پیرابرار محمدو محمدشفیع جوش بنام حکومت ِ پاکستان بوساطت سیکرٹری تعلیم اسلام آباد (مسؤل الیہ)

رِٹ درخواست براے قراردیے جانے کہ اصل اورحقیقی کلمۂ اسلام لَآ اِلٰہَ  اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ  رَّسُوْلُ اللہِ  ہے۔ اور مسؤل علیہ کا اقدام جس کے ذریعے اس نے ملک کے اندر نہم ودہم جماعت کے طالب علموں کے لیے ایک مختلف کلمہ تجویز اور شائع کیا ہے ، کوئی قانونی جواز اور قانونی حیثیت نہیں رکھتا۔

مؤدبانہ گزارش ہے:

۱- یہ کہ پاکستان مسلمانانِ بر صغیر کی ان مساعی کے نتیجے میں معرضِ وجود میں آیا، جو انھوں نے اسلامی نظام قائم کرنے اور اسلامی احکام کے مطابق ایک حکومت قائم کرنے کے لیے کیں۔

۲- یہ کہ آئینِ پاکستان کے آرٹیکل نمبر ۲ میں اس بات کا اعلان کیا گیا ہے کہ پاکستان کا سرکاری مذہب اسلام ہو گا اور آرٹیکل نمبر ۱ میں اسے ’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘ کا نام دیا گیا ہے۔

۳- یہ کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کے مطابق اسلام کے پانچ ستون ہیں ، جنھیں ارکان اسلام کہا جاتا ہے ۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

بُنِیَ الْاِسْلَامٌ عَلٰی خَمْسٍ شَھَادَۃِ  اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ  وَاَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللہِ ، وَاِقَامِ الصَّلوٰۃِ  وَاِیْتَاءِ الزَّکٰوۃِ  وَالْحَجِّ وَصَوْمِ رَمَضَانَ (بخاری، جلد اول ) اسلام کی پانچ بنیادیں ہیں : اوّل: شہادت دینا اس بات کی کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔ دوم: نماز قائم کرنا، سوم: زکوٰۃ ادا کرنا۔ چہارم: حج کرنا۔ پنجم: رمضان کے روزے رکھنا۔

پیغمبر کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک اور مستند حدیث میں درج انھی پانچ چیزوں کو اسلام قرار دیا گیا ہے۔ اس حدیث کے الفاظ یوں ہیں:

اَلْاِسْلَامُ اَنْ   تَشْھَدَ اَنْ لَّا اِلٰہَ  اِلَّا اللہُ  وَاَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللہِ وَتُقِیْمَ الصَّلوٰ ۃَ وَتُؤْتِیْ الزَّکٰوۃَ وَتَصُوْمَ رَمَضَانَ وَتَحُجَّ الْبَیْتَ اِنِ اسْتَطَعْتَ اِلَیْہِ سَبِیْلًا (مسلم، جلد اول کتاب الایمان) اسلام یہ ہے کہ تم گواہی دو کہ سوائے اللہ کے کوئی معبود نہیں اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں اور نماز قائم کرو، زکوٰۃ دو، ماہِ رمضان کے روزے رکھو اور بیت اللہ کا حج کرو اگر طاقت ہو۔

۴-یہ کہ مذکورہ بالا حوالہ جات سے بالکل واضح ہے کہ ایک غیر مسلم کو اسلام میں داخل ہونے کے لیے سب سے اوّل کلمے کا علانیہ اقرار کرنا ضروری ہے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو دائرۂ اسلام میں داخل نہیں ہو سکتا، خواہ وہ مذکورہ بالا دیگر چارشرائط پوری کرتا ہو۔ اس لیے یہ بات انتہائی اہمیت کی حامل ہے کہ کلمے کو اس کے الفاظ اور معانی کے ساتھ تحفظ دیا جائے، اور کلمے کے الفاظ میں کسی قسم کی تبدیلی یا اضافے کی نہ تو اجازت دی جائے، اور نہ ایسا کوئی اقدام برداشت ہی کیا جائے۔

۵- یہ کہ مدّعا علیہ نے اسلامیات کے مضمون کو، جو کہ ثانوی سکول کے امتحانات طلبہ و طالبات کے لیے لازمی ہے، دو حصوں میں تقسیم کیا ہے، جن میں سے ایک سُنّی مکتبِ فکر کے طالب علموں کے لیے اور دوسرا شیعہ مکتبِ فکر کے لیے تجویز کی گئی ہیں۔

۶- یہ کہ کتاب موسومہ اسلامیات لازمی، جو شیعہ مکتب فکر کے نہم و دہم جماعت کے طالب علموں کے لیے شائع کی گئی ہے، اس کے صفحہ ۴۶ پر ’عبادات‘ کے عنوان کے تحت کلمے کے بارے میں درج ذیل الفاظ تحریر کیے ہیں:

’’استاد صاحب شیعہ بچوں کو ان کے مسلک کے مطابق رہنمائے اساتذہ  میں دیکھ کر کلمہ بتائیں گے‘‘۔

۷- یہ کہ مدّعا علیہ نے رہنمائے اساتذہ  نام کی ایک کتاب نہم ودہم کے اسلامیات کے نصاب کے اساتذہ کی رہنمائی کے لیے شائع کی ہے (یہ بات قابل ذکر ہے کہ شیعہ اور سُنّی طبقے سے متعلق طالب علموں کے لیے تجویز کردہ کتب اسلامیات میں کلمۂ اسلام کا متن درج ہی نہیں کیا گیا ہے ) اور اساتذہ اسے صرف رہنمائے اساتذہ   نامی کتاب کی مدد سے پڑھائیں گے۔

۸- یہ کہ رہنمائے اساتذہ   نامی کتاب کے صفحہ ۳۵ پر کلمے کا ایک باب ہے، جس کے پہلے پیرا گراف میں مندرجہ ذیل الفاظ لکھے ہیں:

’کلمہ ‘اسلام کے اقرار اور ایمان کے عہد کا نام ہے ۔ کلمہ پڑھنے سے کافر، مسلمان ہوجاتا ہے ۔ کلمہ میں توحید ورسالت ماننے کا اقرار امامت کے عقیدے کا اظہار ہے۔ ان عقیدوں کے مطابق عمل کرنے سے مسلمان مومن بنتا ہے۔ کلمے کے تین حصے ہیں‘‘۔

اسی باب میں صفحہ ۳۶ پر کلمہ کا متن درج ذیل الفاظ میں درج ہے:

لَآ اِلٰہَ  اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ  رَّسُوْلُ اللہِ عَلِیٌّ وَلِیُّ اللہِ وَصِیُّ رَسُوْلُ اللہِ وَخَلِیْفَتُہٗ بِلَافَصْلِ

۹- یہ کہ رہنمائے اساتذہ   کے مذکورہ بالا باب سے یہ بالکل واضح ہے کہ وہ شخص جو اس باب میں دیے (لکھے )گئے کلمہ کا علانیہ اقرار وتصدیق نہیں کرتا ،مسلمان نہیں بن سکتا ۔ اس کی رُو سے زمانۂ رسالتؐ سے لے کر قیامت تک کے مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد غیر مسلم اور کافر قرار پاتی ہے۔

۱۰- یہ کہ مذکورہ بالا کلمہ کی پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے کلمۂ اسلام کے طور پر کبھی تعلیم نہیں دی اور نہ اس کا کبھی اعلان کیا۔ نہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے دورِ حیات طیبہ میں اسلام میں داخل ہونے والے کسی شخص نے اس کلمے کا اقرار کیا۔ پھر یہ کلمہ ہرگز وہ کلمہ نہیں ہے، جسے: حضرت خدیجۃ الکبریٰ ؓ،  حضرت ابو بکر صدیق ؓ ، حضرت علی بن ابی طالب ؓ اور حضرت زید بن حارثہ ؓ نے کہ جو نبوت کے ابتدائی دنوں پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دستِ مبارک پر اسلام میں داخل ہونے والوں میں اوّلین افراد تھے، کبھی پڑھا ہو۔ اس کلمے کا شیعہ مکتب فکر کی مستند کتابوں میں سے کسی ایک میں بھی ذکر تک نہیں ملتا ۔ درحقیقت کلمے کے الفاظ اور حروف (متن )کے بارے میں آغاز اسلام سے گذشتہ چند برسوں تک مختلف مکاتب ِفکر کے مسلمانوں کے مابین کوئی اختلاف نہیں رہا ہے۔ کچھ عرصہ پیش تر بلاجواز کلمے میں درج ذیل الفاظ کا اضافہ کیا گیا ہے:

عَلِیٌّ وَلِیُّ اللہِ وَصِیُّ رَسُوْلُ اللہِ وَخَلِیْفَتُہٗ بِلَافَصْلِ

مذکورہ بالا اضافی الفاظ بجاے خود اس حقیقت کا ثبوت پیش کرنے کے لیے کافی ہیں کہ وہ اصل اور حقیقی کلمے کا حصہ نہیں ہو سکتے اور یہ کہ اُن کا بعد میں اضافہ کیا گیا ہے۔ اس بحث کے حق میں اہلِ تشیع علما کی تصنیف کردہ کتابوں کے (جن پر شیعہ مکتبِ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو مکمل اعتماد ہے) مندرجہ ذیل اقتباسات کی طرف رجوع کیا جا سکتا ہے :

                  (۱)            عَنْ جَمِیْلِ بْنِ  دَرَاجٍ  قَالَ سَاَلْتُ اَبَا عَبْدِاللہِ   عَنِ الْاِ یْمَانِ  فَقَالَ شَھَادَۃُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَاَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللہِ قَالَ اَلَیْسَ ھٰذَا عَمَلٌ قَالَ بَلٰی فَقُلْتُ فَالْعَمَلُ مِنَ الْاِیْمَانِ؟  قَالَ لَا یَثْبُتُ لَہُ  الْاِیْمَانُ اِلَّا بِالْعَمَلِ وَالْعَمَلُ مِنْہُ (اصول کافی، جلددوم، ص ۵۵) جمیل بن دراج سے روایت ہے کہ میں نے ابوعبداللہ (امام جعفر صادق علیہ السلام) سے ایمان کے متعلق دریافت کیا تو انھوں نے فرمایا: ’’گواہی دینا اس کی، کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم، اللہ تعالیٰ کے رسولؐ ہیں‘‘۔ راوی نے کہا کہ کیا یہ عمل نہیں، فرمایا: ’’ہاں ہے‘‘۔ میں نے کہا تو کیا عمل ایمان کا جزوہے ؟فرمایا : ’’ایمان بدونِ عمل ثابت نہیں ہوتا اور عمل اس کا جزو ہے۔

                  (۲)            فَلَمَّا اَذِنَ اللہُ لِمُحَمَّدٍ فِی الْخُرُوْجِ مِنْ مَکَّۃَ اِلَی الْمَدِیْنَۃَ  بُنِیَ الْاِسْلَامُ عَلٰی خَمْسٍ شَھَادَۃِ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَاَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ  وَرَسُوْلُہٗ  وَ اِقَامِ الصَّلٰوۃِ   وَ اِیْتَاءِ الزَّکٰوۃِ وَحَـجِّ  الْبَیْتِ وَصِیَامِ شَہْرِ رَمَضَانَ (اصول کافی، جلد دوم، ص ۴۶)

                                    جب اللہ نے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کی اجازت دی تو اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی:۱-گواہی دینا اس کی کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے عبد اور رسولؐ ہیں،۲- قائم کرنا نماز کا ،۳-زکوٰۃ دینا، ۴-حج کرنا اور، ۵-ماہِ صیام میں روزے رکھنا۔

                  (۳)            پھر وحی کی کہ اے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )لوگوں کے پاس جاؤ اور کہو کہ : لَآ اِلٰہَ  اِلَّا  اللہُ مُحَمَّدٌ  رَّسُوْلُ اللہِ  کا اقرار کریں(حیات القلوب، ج ۲، ص ۴۳، مؤلفہ: علامہ مجلسی ، ترجمہ مولوی سید بشارت حسین کامل)

                  (۴)            اگر کافر شہادتین بگوید ، یعنی بگوید: اَشْھَدُ  اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ  وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ  وَرَسُوْلُہٗ  مسلمان می شود (توضیح المسائل مجموعہ فتاوٰی، سید محمد کاظم شریعت مداری، ایران ص۳۹)

۱۱- یہ کہ تمام اسلامی مکاتب ِفکر کی مذہبی کتابوں میں اس کلمے کا کہیں ذکر نہیں جو مذکورہ بالا کتاب رہنمائے اساتذہ  (مطبوعہ:حکومت پاکستان، اسلام آباد ۱۹۷۵ء)کے ص ۳۶ پر درج ہے۔

۱۲- یہ کہ دستور اسلامی جمہوریہ پاکستان کی دفعہ ۳۱ کے تحت مدعا علیہ پر یہ لازم ہے کہ وہ ایسے اقدام کرے، جو مسلمانانِ پاکستان کے لیے اسلام کے بنیادی عقائد اور اصولوں کے مطابق اپنی زندگی مرتب کرنے میں معاون ہوں اور ایسی سہولتیں فراہم کرے جن کے ذریعے وہ قرآن مجید اور سنت کی منشا کے مطابق زندگی کا مفہوم سمجھیں،مگر اس کے برعکس مدعا علیہ کا یہ فعل آئین کی مذکورہ بالا دفعات کے منافی ہے۔

۱۳-یہ کہ مدعا علیہ اس کلمے کے سوا، جس کی تعلیم پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے، کسی اور کلمے کے جاری کرنے کا قانونی طور پر مجاز نہیں ہے۔

۱۴- یہ کہ مدعا علیہ کا فرض ہے کہ نہم ودہم کے طلبہ کے لیے اسی کلمے کی تعلیم دے ، جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کے مسلمانوں کو پڑھایا ہے۔

۱۵- یہ کہ مدعیان کے لیے سواے اس رٹ پٹیشن گزارنے کے اور کوئی چارۂ کار نہیں رہا ہے۔ ان حالات میں نہایت ادب سے استدعا کی جاتی ہے کہ اس امر کا اعلان کیا جائے کہ اصل اور حقیقی کلمۂ اسلام لَآ اِلٰہَ  اِلَّا  اللہُ مُحَمَّدٌ  رَّسُوْلُ اللہِ  ہے ۔ اور مسؤل علیہ کا اقدام جس کے ذریعے اس نے مختلف کلمہ تجویز کیا ہے یعنی لَآ اِلٰہَ  اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ  رَّسُوْلُ اللہِ عَلِیٌّ وَلِیُّ اللہِ وَصِیُّ رَسُوْلُ اللہِ وَخَلِیْفَتُہٗ بِلَافَصْلِ کوئی قانونی جواز نہیں رکھتا۔

مزید درخواست کی جاتی ہے کہ مدعا علیہ کو ہدایات جاری کی جائیں کہ وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں نہم دہم کے طلبہ کے لیے مخصوص اسلامیات (لازمی) اور مذکورہ بالارہنمائے اساتذہ  کی کتابوں میں (ہدایات کے مطابق ) مناسب ترامیم کریں۔

نیز یہ بھی استدعا کی جاتی ہے کہ مسؤل علیہ کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے علاوہ کسی دیگر کلمے کا اجرا کرنے ، تسلیم یا شائع کرنے یا طالب علموں کے کورس میں شامل کرنے سے منع کر دیا جائے۔

سائلان

پیر سید ابرار محمد ، محمد شفیع جوش

بذریعہ ارشاد احمد قریشی ایڈووکیٹ

___فیصلہ ، اُردو ترجمہ ___

از:جناب محمد اقبال چیف جسٹس

۱۹۷۵ء میں حکومت پاکستان نے وزارت ِ تعلیم کے ذریعے ایک کتاب بنام رہنمائے اساتذہ  شائع کی، تا کہ اس سے ثانوی مدارس کے اساتذہ کی رہنمائی کے لیے خطوط مقرر ہوں۔

اس کتاب کا پہلا حصہ تمہیدی ہے اور بتایا گیا ہے کہ طلبہ کی نوجوان نسل کو کیوں اور کس طریق پر اسلامیات کی تعلیم دی جائے؟ کتاب کے حصہ دوم میں اسلام کے کچھ بنیادی اصول جن پر اہل سنت والجماعت کے مختلف مکاتبِ فکر کا اتفاق ہے، درج کیے گئے ہیں ۔ کتاب کا حصہ سوم صرف شیعہ طلبہ کے لیے ہے۔

کتاب کے حصہ سوم میں جو صفحہ ۳۵ سے شروع ہوتا ہے ، سبق پڑھانے والے استاد کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اپنے شاگردوں پر کلمے کی اہمیت اچھی طرح واضح کرے۔ آگے چل کر کتاب کے اسی صفحہ ۳۵ پر من جملہ اور باتوں کے ، یہ کہا گیا ہے:

کلمہ، اسلام کے اقرار وایمان کے عہد کا نام ہے ، کلمہ پڑھنے سے کافر، مسلمان ہو جاتا ہے ۔ کلمہ میں توحید ورسالت ماننے کا اقرار اور امامت کے عقیدے کا اظہار ہے۔   ان عقیدوں کے مطابق عمل کرنے سے مسلمان مومن بنتا ہے۔

پھر صفحہ ۳۶ کے آخر کے نزدیک بتایا گیا ہے کہ کلمہ یہ ہے:

لَآ اِلٰہَ  اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ  رَّسُوْلُ اللہِ عَلِیٌّ وَلِیُّ اللہِ وَصِیُّ رَسُوْلُ اللہِ وَخَلِیْفَتُہٗ بِلَافَصْلِ

اس کا ترجمہ جو صفحہ ۳۷ پر دیا گیا ہے ،یہ ہے:

یعنی اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم، اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں اور حضرت علیؑ، اللہ تعالیٰ کے ولی اور رسول کریم کے وصی اور بلا فاصلہ خلیفہ ہیں۔

۲- موجودہ رٹ درخواست میں جو ۲۱ جنوری ۱۹۷۶ء کو پیر سید ابرار محمد صدر تنظیم الائمہ لاہور (خطیب جامع مسجد دارالحق ، ٹاؤن شپ سکیم ، لاہور)اور مولانا محمد شفیع جوش (مہتمم مرکز اشاعت اسلام جامع مسجد ایف بلاک ، ماڈل ٹاؤن ، لاہور)کی طرف سے دستورِ پاکستان کے آرٹیکل ۱۹۹ کے تحت دائر کی گئی ہے ، مدعیان نے کلمے کی اس صورت پر: جس میں وہ محولہ بالا کتاب رہنمائے اساتذہ  کے صفحہ ۳۶ پر درج ہے، اور اس کے ترجمے پر جو صفحہ ۳۷ پر ہوا ہے، اور صفحہ ۳۵ کی اس تحریر پر جو فیصلہ ہٰذا کے پہلے پیراگراف میں دیا گیا ہے ، اعتراض کیا ہے اور استدعا کی ہے کہ عدالت یہ قرار دے کہ اصل اور حقیقی کلمۂ اسلام لَآ اِلٰہَ  اِلَّا  اللہُ مُحَمَّدٌ  رَّسُوْلُ اللہِ  ہے اور مسؤل علیہ کا وہ اقدام جس کے ذریعے اس نے ایک مختلف کلمہ تجویز کیا ہے، یعنی لَآ اِلٰہَ  اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ  رَّسُوْلُ اللہِ عَلِیٌّ وَلِیُّ اللہِ وَصِیُّ رَسُوْلُ اللہِ وَخَلِیْفَتُہٗ بِلَافَصْلِ کوئی قانونی جواز نہیں رکھتا۔

۳- اس سے پہلے درخواست کی سماعت کے لیے کوئی تاریخ مقرر کی جا سکتی ، درخواست گزاروں نے آئین کی دفعہ ۲۰۴ کے تحت ۲ مارچ ۱۹۷۶ء کو ایک درخواست توہین عدالت (۷۶-۳۱- w) دائر کر دی، جس میں الزام لگایا گیا کہ ’’کل پاکستان شیعہ کانفرنس کے صدر مظفر علی قزلباش نے ۲۷فروری ۱۹۷۶ء کو شیعہ رہنماؤں اور کارکنوں کے ایک اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے درخواست گزاروں کو سنگین نتائج بھگتنے کی دھمکی دی، اور زیر تصفیہ رِٹ درخواست کے نفس مضمون کا حوالہ بھی دیا‘‘۔ اس درخواست میں مزید کہا گیا کہ ’’اس معاملے پر الزام علیہ کی طرف سے اظہار راے، جب کہ وہ ابھی عدالت میں زیرِ سماعت تھا، عدالت ہٰذا کی سنگین اور سخت توہین کے مترادف ہے۔ لہٰذا، اسے مناسب سزا دی جائے‘‘۔

۴- شیخ مظہر علی جاوید، جنرل سیکرٹری شیعہ میوچل سوسائٹی پاکستان (رجسٹرڈ) نے بھی ایک درخواست توہین عدالت (۷۶-۳۲- w) گزاری ہے، جس میں یہ الزام لگایا گیا ہے کہ ’’عوام میں رٹ درخواست کے مندرجات کی نقول تقسیم کر کے بہت زیادہ تشہیر کی گئی، نیز یہ کہ رٹ درخواست کا ترجمہ اردومیں کیا گیا، اور اس کی نقلیں عوام میں وسیع پیمانے پر اس اپیل کے ساتھ تقسیم کی گئیں کہ  وہ ۷ مارچ کو اس مقدمے کی کارروائی سنیں‘‘۔ اس درخواست میں یہ مؤقف اختیار کیا گیا کہ ’’مقدمے کی تاریخ سماعت کے مقرر کیے جانے سے پہلے اردو اور انگریزی میں رٹ درخواست کی اشاعت اور اس کی تقسیم پاکستان کی ایک خاصی بڑی آبادی کے خلاف ایک تحریک کی صورت پکڑ گئی، چونکہ رٹ درخواست پیش کرنے والوں، ان کے قانونی مشیر اور طابع (قیصر پرنٹرز لاہور) کا یہ فعل مقدمے کے فیصلے پر اثر انداز ہو سکتا ہے، لہٰذا ان کے خلاف آئین کی دفعہ ۲۰۴ کے مطابق عدالتی کارروائی کی جا سکتی ہے۔

اب میں ان تینوں مقدمات کا فیصلہ، یعنی رٹ درخواست ۱۵۹ بابت ۱۹۷۶ء ،فوجداری اصل نمبر ۳۱  ڈبلیو بابت ۱۹۷۶ء اور فوجداری اصل نمبر ۳۲ ڈبلیو بابت ۱۹۷۶ ء اپنے حکم کے ذریعے کر رہاہوں۔

۵- یہ معاملہ جناب وزیراعظم [ذوالفقار علی بھٹو] کے علم میں آیا، تو انھوں نے فرقہ وارانہ اختلافات کے خاتمہ کے لیے، جو قومی سالمیت اور مختلف طبقات میں ہم آہنگی کے لیے لازم ہے، حسب معمول جذبے سے کام لیتے ہوئے فوری کارروائی کی ۔ چنانچہ شیعہ اور سُنّی مکاتب ِفکر کے علما کا ایک اجلاس [وفاقی] وزیر تعلیم کی سرپرستی میں طلب کیا گیا اور معقول بحث وتمحیص کے بعد ایک نئی کتاب اسی نام یعنی رہنمائے اساتذہ کے ساتھ شائع کی گئی ۔ دونوں کتابوں کے فرق کو نمایاں کرنے کے لیے متعلقہ اقتباسات کو ذیل میں ایک دوسرے کے بالمقابل درج کیا جاتا ہے:

پہلے شائع شدہ کتاب

نئی (ترمیم شد ہ )کتاب

’’کلمہ، اسلام کے اقرار اور ایما ن کے عہد کا نام ہے۔ کلمہ پڑھنے سے کافر، مسلمان ہو جاتا ہے۔ کلمہ توحید ورسالت ماننے کا اقرار اور امامت

’’کلمۂ طیبہ، اسلام کے اقرار کا نام ہے۔ کلمہ  توحید ورسالت کا اقرار ہے‘‘۔ (ص ۳۵)

پہلے شائع شدہ کتاب

نئی (ترمیم شد ہ )کتاب

کے عقیدے کا اظہار ہے۔ ان عقیدوں کے مطابق عمل کرنے سے مسلمان مومن بنتا ہے‘‘۔ (ص ۳۵)

کلمہ: لَآ اِلٰہَ  اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ  رَّسُوْلُ اللہِ عَلِیٌّ وَلِیُّ اللہِ وَصِیُّ رَسُوْلُ اللہِ وَخَلِیْفَتُہٗ بِلَافَصْلِ (ص ۳۶) ، یعنی اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم، اللہ تعالیٰ کے رسولؐ ہیں اور حضرت علی علیہ السلام، اللہ تعالیٰ کے ولی اوررسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصی اوربلافاصلہ خلیفہ ہیں۔(ص ۳۷)

کلمۂ طیبہ: لَآ اِلٰہَ  اِلَّا  اللہُ مُحَمَّدٌ  رَّسُوْلُ اللہِ سے کافرمسلمان ہوتا ہے۔ جس کا مقصد یہ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو معبود نہیں مانتے، اور حضرت محمدمصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم، اللہ کے آخری رسولؐ ہیں۔اُن کے بعد کوئی نبی و رسولؐ نہیں آئے گا۔

لَآ اِلٰہَ  اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ  رَّسُوْلُ اللہِ عَلِیٌّ وَلِیُّ اللہِ وَصِیُّ رَسُوْلُ اللہِ وَخَلِیْفَتُہٗ بِلَافَصْلِ  سے شیعہ، توحید و رسالت کے علاوہ امامت کا اقرار اورشیعیت کا اظہار کرتے ہیں‘‘ (ص ۳۶)

رہنمائے اساتذہ  کے ترمیم شدہ ایڈیشن کے ساتھ ہی حکومت نے دو اور کتابیں شائع کیں، جن کا نام ’’اسلامیات (لازمی ) ہے، اور جو نویں اور دسویں جماعتوں کے شیعہ اور سنی طالب علموں کے درسی نصاب پر مشتمل ہیں۔ سنی طلبہ کی کتاب فیصلہ ہٰذا کے ساتھ بطور ’ضمیمہ سی ‘اور شیعہ طلبہ کی کتاب بطور ’ضمیمہ ڈی ‘ منسلک ہیں ۔ضمیمہ جات ’سی ‘ و ’ڈی‘ میں جو کلمۂ طیبہ علی الترتیب صفحات ۴۸ اور ۵۲ پر درج ہوا ہے، وہ لَآ اِلٰہَ  اِلَّا  اللہُ مُحَمَّدٌ  رَّسُوْلُ اللہِ ہے ۔

۶- مقدمات ۹ جون ۱۹۷۶ء کو سماعت کے لیے پیش ہوئے تو مدّعیان نے اپنی رٹ درخواست میں مندرجہ ذیل بیان دیا:بیان منجانب :

(۱) پیر سید ابرار محمد ولد پیر سید اعجاز محمد صدر تنظیم الائمہ لاہور، خطیب جامع مسجد دارالحق، ٹاؤن شپ سکیم لاہور۔

(۲) مولانا محمد شفیع جوش ولد مولانا محمد اعظم، مہتمم مرکزِ اشاعت اسلام جامع مسجد ایف بلاک، ماڈل ٹاؤن لاہور۔

(۱) ہم نے رِٹ درخواست نمبر۱۵۹/۱۹۷۶ کے ذریعے کتاب رہنمائے اساتذہ کی  مندرجہ ذیل تحریروں پر، جو اس کے صفحات ۳۵،۳۷ پر درج ہیں، اعتراض کیا تھا ، یہ کتاب مدّعا علیہ نے وزارت تعلیم کے شعبۂ نصابات کی ری پروڈکشن یونٹ کے ذریعے ۱۹۷۵ء میں اسلام آباد سے شائع کی:

کلمہ :اسلام کے اقرار اور ایمان کے عہد کا نام ہے ۔ کلمہ پڑھنے سے کافر، مسلمان ہوجاتا ہے ۔ کلمہ میں توحید ورسالت ماننے کا اور اقرار امامت کے عقیدے کا اظہار ہے۔ ان عقیدوں کے مطابق عمل کرنے سے مسلمان مومن بنتا ہے۔

کلمہ: لَآ اِلٰہَ  اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ  رَّسُوْلُ اللہِ عَلِیٌّ وَلِیُّ اللہِ وَصِیُّ رَسُوْلُ اللہِ وَخَلِیْفَتُہٗ بِلَافَصْلِ ،یعنی اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں اور حضرت علی علیہ السلام، اللہ تعالیٰ کے ولی اور اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصی اور بلا فاصلہ خلیفہ ہیں‘‘۔

(۲)  یہ رِٹ درخواست ابھی عدالت میں زیر تصفیہ تھی کہ مدّعا علیہ نے ایک اور کتاب اسی نام کے ساتھ شائع کی، جس کا حصہ سوم صرف شیعہ طالب علموں کے لیے ہے۔

اس کے صفحات ۳۵-۳۶ پر مندرجہ ذیل تحریر چھپی ہے :

’’کلمۂ طیبہ، اسلام کے اقرار کا نام ہے ۔ کلمہ میں توحید ورسالت کا اقرار ہے‘‘۔

کلمۂ طیبہ : لَآ اِلٰہَ  اِلَّا  اللہُ مُحَمَّدٌ  رَّسُوْلُ اللہِ  سے کافر، مسلمان ہو جاتا ہے ، جس کا مقصد یہ ہے کہ ہم اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں مانتے اور حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم، اللہ کے آخری رسول ہیں، ان کے بعد کوئی نبی ورسول نہیں آئے گا‘‘۔

لَآ اِلٰہَ  اِلَّا  اللہُ مُحَمَّدٌ  رَّسُوْلُ اللہِ  کے بعد عَلِیٌّ وَلِیُّ اللہِ وَصِیُّ رَسُوْلُ اللہِ وَخَلِیْفَتُہٗ بِلَافَصْلِ  سے شیعہ توحید ورسالت کے علاوہ امامت کا اقرار اور شیعیت کا اظہار کرتے ہیں۔

چونکہ اس کتاب میں یہ بالکل واضح کردیا گیا ہے کہ کلمۂ طیبہ صرف لَآ اِلٰہَ  اِلَّا  اللہُ مُحَمَّدٌ  رَّسُوْلُ اللہِ  ہے،اس لیے وہ اعتراض جو ہم نے پہلے اُٹھایا تھا، اب باقی نہیں رہتا۔

دوسرے بیان لَآ اِلٰہَ  اِلَّا  اللہُ مُحَمَّدٌ  رَّسُوْلُ اللہِ کے بعد عَلِیٌّ وَلِیُّ اللہِ وَصِیُّ رَسُوْلُ اللہِ وَخَلِیْفَتُہٗ بِلَافَصْلِ سے شیعہ توحید و رسالت کے علاوہ امامت کا اقرر اور شیعیت کا اظہار کرتے ہیں‘‘ پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں کیونکہ یہ صرف شیعہ طالب علموں کے لیے ہے۔

(۳) چونکہ نئی کتاب کے شائع ہونے سے ہماری شکایت کا تدارک ہوگیا ہے، اس لیے ہم اپنی رٹ درخواست پر کارروائی کے لیے اصرار نہیں کریں گے۔ لہٰذا ، اس کا فیصلہ ہمارے بیان کے مطابق کردیا جائے۔سیّد افضل حیدر اور سیّد ولایت حسین حیدری نے بھی (جو شیخ مظہرعلی جاوید کی طرف سے درخواست توہین عدالت نمبر۳۲، ڈبلیو، بابت ۱۹۷۶ء میں وکیل ہیں) مندرجہ ذیل بیان داخل کیا:

’’ہم نے کتاب موسومہ رہنمائے اساتذہ کے نئے ترمیم شدہ ایڈیشن کا مطالعہ کیا جس کے حصہ سوم کے ص ۳۶ پر شیعہ طلبہ کے لیے درج ہے:

کلمۂ طیبہ: لَآ اِلٰہَ  اِلَّا  اللہُ مُحَمَّدٌ  رَّسُوْلُ اللہِ سے کافر مسلمان ہوتا ہے، جس کا مقصد یہ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں مانتے اور حضرت محمدمصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم، اللہ کے آخری رسول ہیں۔ اُن کے بعد کوئی نبی و رسولؐ نہیں آئے گا۔ لَآ اِلٰہَ  اِلَّا  اللہُ مُحَمَّدٌ  رَّسُوْلُ اللہِ کے بعد عَلِیٌّ وَلِیُّ اللہِ وَصِیُّ رَسُوْلُ اللہِ وَخَلِیْفَتُہٗ بِلَافَصْلِ سے شیعہ توحید و رسالت کے علاوہ امامت کا اقرار اورشیعیت کا اظہار کرتےہیں۔

۶- ہم نے پیر سید ابرار محمد اور مولانا محمد شفیع جوش کے بیانات رِٹ درخواست نمبر ۷۶/۱۵۹ میں اور مسٹر ارشاد احمد قریشی کا بیان درخواست توہین عدالت نمبر ۷۶ w  ۳۱ میں سن لیا ہے ۔ بطور اظہار خیر خواہی ہم بھی فوجداری اصل نمبر۳۲ ڈبلیو ۱۹۷۶ء پر اب کوئی مزید کارروائی نہیں چاہتے ،لہٰذا درخواست کا فیصلہ بھی ایسے ہی ہو جائے گا‘‘۔

فوجداری اصل نمبر ۳۱ ڈبلیو بابت ۱۹۷۶ء میں مدّعیان کے وکیل مسٹر ارشاد احمد قریشی نے بھی ایک بیان ان الفاظ میں دیا:

 نئی تالیف کے شائع ہونے کے پیش نظر میرے مؤکلوں نے رِٹ درخواست نمبر ۷۶/۱۵۹ میں یہ بیان دیا ہے کہ اب چونکہ ان کی شکایت کا تدارک ہو گیا ہے، اس لیے وہ اپنی رِٹ درخواست پر مزید کارروائی نہیں کرنا چاہتے۔ جذبۂ خیر سگالی کے اظہار کے لیے میں بھی درخواست توہین عدالت میں مزید کارروائی نہیں چاہتا۔ اس کا فیصلہ بھی ایسے ہی کر دیا جائے۔

۷- اس حقیقت کے بارے میں کوئی شک نہیں کہ تمام مسلمانوں کا کلمہ طیبہ لَآ اِلٰہَ  اِلَّا  اللہُ مُحَمَّدٌ  رَّسُوْلُ اللہِ  ہی ہے ۔ جہاں تک سُنّی مکتب ِ فکر کا تعلق ہے، اس کی وضاحت کی ضرورت نہیں۔ البتہ رہنمائے اساتذہ  کی پہلی کتاب کے تحت شائع ہونے پر یہ شبہہ ہوا کہ گویا شیعہ مکتب ِ فکر کے مطابق کلمہ طیبہ لَآ اِلٰہَ  اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ  رَّسُوْلُ اللہِ عَلِیٌّ وَلِیُّ اللہِ وَصِیُّ رَسُوْلُ اللہِ وَخَلِیْفَتُہٗ بِلَافَصْلِ  ہے، لیکن یہ خیال نہ تو حکومت کے نقطۂ نظر سے کوئی مطابقت رکھتا ہے اور نہ شیعہ علما نے کبھی اس کی تائید کی ہے، کہ کلمۂ طیبہ سواے لَآ اِلٰہَ  اِلَّا  اللہُ مُحَمَّدٌ  رَّسُوْلُ اللہِ   کے کچھ اور بھی ہے ۔ حکومت کے ما بعد رویے سے کہ اس غلطی کو درست کرنے کے لیے فوری کارروائی کی گئی، یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ یہ ایک معصومانہ غلطی تھی۔ شیعہ مکتب ِفکر کی نیک نیتی اس بیان سے ظاہر ہوتی ہے، جس میں سید افضل حیدر نے (جو اس عدالت کے ایک سینئر ایڈووکیٹ ہیں) اور سید ولایت حسین ایڈووکیٹ نے غیر مبہم الفاظ میں تسلیم کیا ہے کہ ’’کلمۂ طیبہ صرف لَآ اِلٰہَ  اِلَّا  اللہُ مُحَمَّدٌ  رَّسُوْلُ اللہِ  ہے۔ اگر شیعہ علی ولی اللہ وصی رسول اللہ وخلیفتہ بلا فصل  پڑھتے ہیں تو یہ اس لیے نہیں کہ وہ کلمے کا حصہ ہے بلکہ اس سے وہ محض ’امامت ‘کا اقرار اور ’شیعیت‘ سے وابستگی کا اظہار کرتے ہیں۔ اس لیے اگر شیعہ عقیدے کے متعلق کوئی شکوک کتاب رہنمائے اساتذہ کی پہلی اشاعت سے پیدا ہوئے بھی تھے، تو اب وہ دُور ہوگئے ہیں۔ اب کسی کے دل میں شیعہ عقیدے کے متعلق اس بارے میں کوئی شبہہ نہیں رہنا چاہیے‘‘۔

حافظ کفایت حسین [م:۱۴؍اپریل ۱۹۶۸ء]نے کہ جن کا شمارچوٹی کے شیعہ علما میں ہوتا ہے، تحقیقاتی عدالت کے رُوبرو جو ’پنجاب فسادات (پبلک تحقیقات) ایکٹ مجریہ ۱۹۵۳ء‘ کے تحت وجود میں آئی تھی، مسئلہ زیربحث کے متعلق درج ذیل بیان دیا تھا، جو خصوصی توجہ کے قابل ہے:

ہر اُس شخص کو مسلمان کہلانے کا حق حاصل ہے جو: (۱) توحید (۲) نبوت اور (۳)قیامت پر ایمان رکھتا ہے۔ یہ وہ تین بنیادی عقیدے ہیں، جن پرمسلمان کہلانے کے لیے یقین رکھنا ضروری ہے۔ ان تین بنیادی عقائد کے متعلق شیعہ اور اہلِ سنت میں کوئی اختلاف نہیں۔

تمام مکاتب ِ فکر کے علما اس بات پر متفق ہیں کہ کلمۂ طیبہ لَآ اِلٰہَ  اِلَّا  اللہُ مُحَمَّدٌ  رَّسُوْلُ اللہِ  ہے۔ اس کے ذریعے ہم یہ اقرار کرتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی اِلٰہ نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم، اللہ کے پیغمبر ہیں۔ مسلمان ہونے کے لیے کلمۂ طیبہ یعنی لَآ اِلٰہَ  اِلَّا  اللہُ مُحَمَّدٌ  رَّسُوْلُ اللہِ  پرایمان لانا ضروری ہے، نیز اس کے لیے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نبوت کے ختم ہوجانے کا قطعی اور بلاشرط ایمان رکھنا لازم ہے۔

۸- کتاب رہنمائے اساتذہ  کی نئی اشاعت کےپیش نظر مدّعیان نے یہ بیان دیا ہے کہ ان کی شکایت رفع ہوچکی ہے، اس لیے وہ اپنی رٹ درخواست پر مزید کارروائی کے لیے زورنہیں دیتے۔ درخواست توہین عدالت ۷۶/w   ۳۱ و ۷۶/w  ۳۲ میں ہردوفریق کے وکلا کا بیان ہے کہ وہ جذبۂ حُب الوطنی کے تحت ان پر کارروائی کے لیے زور نہیں دیتے، لہٰذا ان کا فیصلہ ان کے بیانات کے مطابق کیا جاتا ہے۔

۹- مقدمے کے اختتام سے قبل مَیں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اس رٹ درخواست کے تصفیے کو  کسی ایک فریق کی کامیابی یا دوسرے کی ناکامی نہ سمجھا جائے۔اس امر پر مکمل اتفاق راے ہے کہ کلمۂ طیبہ لَآ اِلٰہَ  اِلَّا  اللہُ مُحَمَّدٌ  رَّسُوْلُ اللہِ ہے۔

مدعیان کا دعویٰ بھی یہی ہے ، حکومت نے بھی اس کی تصدیق کردی ہے اور شیعوں کا عقیدہ اوراقراربھی یہی ہے۔

۹جون ۱۹۷۶ء         دستخط /محمداقبال

رٹ درخواست منظور کی گئی چیف جسٹس

(بحوالہ PLD ، جلد: XXVIII ، لاہور، ص ۱۱۲۸ - ۱۱۳۵)

_______________

[مولانا محمد شفیع جوش اُس زمانے میں آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی کے رکن اور اسلامی نظریاتی کونسل کشمیر کے ممبر تھے۔ آج کل جوہرٹاؤن، لاہور میں مقیم ہیں]۔

وفاقی حکومت نے یکساں قومی نصاب کے مطالبے کی پذیرائی اس بنیاد پرکی تھی کہ ’’ملک میں تعلیم کے مختلف سلسلےچل رہے ہیں۔ جس سے طبقاتی تفریق اور معاشی و معاشرتی ناہمواری جنم لیتی ہے۔ کہا گیا کہ ’’اگر اشرافیہ کے اسکولوں، عام نجی اسکولوں،سرکاری اسکولوں اوردینی مدارس کے طالب علموں کو ایک کمرے میں اکٹھا بٹھا دیا جائے تو وہ آپس میں بات چیت بھی نہیں کرپائیں گے۔ یہ صورتِ حال قومی یک جہتی اور معاشرتی ہم آہنگی کے لیے بہت نقصان دہ ہے۔ پھر دینی مدارس اور پبلک سیکٹر اسکولوں سے پڑھ کر آنے والے طلبہ زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتے ہیں، جس سے معاشرتی تفرقہ پیدا ہوتا ہے۔ اس لیے ملک کے تمام طلبہ کے لیے یکساں تعلیمی نصاب ہونا چاہیے، تاکہ قوم کےسب بچوں کوزندگی کی دوڑ میں ایک طرح کی صورتِ حال کا سامنا ہو‘‘۔

یکساں قومی نصاب کے لیے، مندرجہ بالا موقف بالکل درست اور سچائی پر مبنی ہے لیکن عدل و انصاف اور زندگی کے یکساں مواقع دینے کے لیے صرف یکساں قومی نصاب ہی کافی نہیں ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ تعلیمی سہولیات، تعلیمی و تدریسی ماحول،تربیت یافتہ اساتذہ میں یکسانیت ہو اور امتحانات اور سنداتِ تعلیم عطا کرنے کا نظام بھی ایک جیسا ہو۔ لیکن صورتِ حال یہ ہے کہ بیرونی امتحانی بورڈز کے امتحانات، یعنی اولیول، اے لیول، آئی بی اور آئی جی سی ایس ای میں بیٹھنے والے اشرافیہ کے تعلیمی اداروں کے غلبے کے علاوہ جو طالب علم بھی میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کا مقامی تعلیمی بورڈز کا امتحان دیتے ہیں، وہ قومی تعلیمی نصاب ہی پڑھ کر آتے ہیں، چاہے ان طلبہ کا تعلق دولت مند طبقے کے اسکولوں سے ہو، سرکاری اسکولوں سے ہو، یا وہ دینی مدارس سے پڑھ کر مذکورہ امتحانات دے رہے ہوں۔ البتہ جو طلبہ صرف دینی مدارس سے پڑھ کرعامہ، ثانویہ یا شہادت العالمیہ کا امتحان دیتے ہیں، وہ صرف درسِ نظامی کا نصاب پڑھتے ہیں۔

ان گزارشات سے یہ معلوم ہوا کہ فرق امتحانی نظام اورسرٹیفکیشن (certification) کے نظام سے پڑتا ہے، نیز تعلیمی سہولیات اور تعلیمی و تدریسی ماحول کے ساتھ اساتذہ کی تعلیمی اور پیشہ ورانہ قابلیت فرق پیدا کرتی ہے۔ موجودہ حکومت محض نصاب کے ذریعے سے یکسانیت پیدا کرنا چاہتی ہے تو منطقی اور عملی سطح پر یہ ایک بے ثمر کوشش ہوگی۔

دوسری طرف صورتِ حال یہ ہے کہ حکومت کا یکساں قومی نصاب بُری طرح متنازع ہوچکا ہے۔ اسلامی اور پاکستانی ذہن کے حامل ماہرین تعلیم نصاب کے سیکولر لبرل چہرے پر تنقید کررہے ہیں اور اس امر پراعتراض کررہے ہیں کہ نئی نسل کی سیرت و کردار کی تربیت کےلیے اسلامی اقدار کو بنیاد بنانے کے بجائے ہیومنزم کی سیکولر، لبرل اقدار کو نصاب میں سمویا جارہا ہے۔ اس کے مقابلے میں سیکولر لبرل لابی اپنے بیرونی سرپرستوں کی زیرہدایت اسلامیات کے نصاب پر اعتراضات اُٹھا رہی ہے۔ ان کا یہ مطالبہ تویکساں قومی نصاب میں بدرجۂ اَتم مانا گیا کہ اسلامیات کے نصاب کے علاوہ دیگر مضامین کی ترتیب و پیش کش میں اسلامی اقدار اور اسلامی تصورِ حیات شامل نہیں ہوگا ۔ اب ان کااعتراض یہ ہے کہ قرآن کی تدریس، بعض سورتوں، دُعاؤں اور احادیث کی تعلیم اور حفظ شامل نصاب کیوں ہے؟ نیز یہ کہ مجوزہ نصاب تو دینی مدارس کے نصاب سے بھی زیادہ بوجھل ہے اور جنرل ضیاء الحق کے دور میں جو ’بنیاد پرستی‘ شروع کی گئی تھی اس نصاب میں تو اس سے بھی زیادہ ’بنیاد پرستی‘ شامل ہے۔

ہم جب اسلامیات کے موجودہ مجوزہ نصاب کا جائزہ لیتے ہیں، تو پتا چلتا ہے کہ قرآن کی تدریس تو ۱۹۶۰ء سے پرائمری اسکول پر لازم ہے۔ نیز اسلامیات کا موجودہ نصاب جنرل پرویز مشرف دور میں ۲۰۰۲ء کے نصاب، ۲۰۰۶ء کے نصاب اور صوبوں کے اسلامیات کے موجودہ نصاب سے ذرہ برابر مختلف نہیں ہے۔ اب جوسیکولر لبرل لابی ’اسلامیات‘ کےنصاب پر اعتراض کناں ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلامیات کے علاوہ پورے نصاب کو لبرل سیکولر شکل دینے کے بعد اب وہ اسلامیات کے نصا ب کا بھی تیاپانچا کرنا چاہتی ہے۔

یکساں قومی نصاب پر اعتراضات

۱۳؍اگست ۲۰۲۰ء کو جب وفاقی وزیرتعلیم نے یکساں قومی نصاب کو سرکاری سطح پر جاری کرکے انٹرنیٹ پر ڈالا تو ماہرین نصابیات نے اس کا جائزہ لینا شروع کردیا ہے اور خالص تکنیکی سطح پر سنجیدہ اعتراضات سامنے آرہے ہیں اور حکومتی دعوؤں کی قلعی کھل رہی ہے۔ خاص طور پر دولت مند   حلقوں سے جو نام نہاد مخالفانہ انگریزی پریس کے مضامین اور ٹویٹس کا ایک ختم نہ ہونے والا سلسلہ شروع ہوا تو جناب شفقت محمود وفاقی وزیرتعلیم نے یکے بعد دیگرے متعدد اعلان کیے:

                  ۱-              پہلا اعلان یہ تھا کہ ’’ہم اولیول اور اے لیول اور دیگر بیرونی امتحانات پر کوئی پابندی نہیں لگا رہے، وہ حسب ِ معمول جاری رہیں گے‘‘۔ اب اگربیرونی امتحانات جاری رہتے ہیں تو بیرونی نصابات کی تدریس بھی جاری رہے گی۔ تعلیم کی بیرونی سرٹیفکیشن بھی جاری رہے گی اور یکساں قومی نصاب طاق نسیاں رہے گا۔

                  ۲-              دوسرا اعلان یہ فرمایا کہ ’’ہم جو نصاب لا رہے ہیں، اس کی حیثیت بنیادی (Core Curriculum) کی ہوگی۔ ادارے اور صوبے اگر اس میں اضافے کرنے چاہیں تو وہ آزاد ہیں اور ایسا کرسکتے ہیں‘‘۔ اس اعلان کے بعد یکساں قومی نصاب کے غبارے سے تو ہوا بالکل نکل گئی۔

                  ۳-              پہلے بارباراعلان ہوتا رہاکہ ’’وفاق درسی کتب تیارکرے گا جو تمام ادارے اپنے ہاں لاگو کریں گے’’ لیکن اب جناب شفقت محمود نے اعلان فرمایا ہے کہ ’’وفاق صرف ماڈل درسی کتب تیارکرکے صوبوں کو اور اداروں کو دے دے گا‘‘۔ لیکن یہ متعلقہ اداروں اور صوبوں کی مرضی ہوگی کہ وہ ان کتب میں کمی بیشی کرکے اپنی ضرورت کے مطابق ڈھال کر شائع کریں اور رائج کریں۔

                  ۴-              یکساں قومی نصاب میں وفاقی وزارتِ تعلیم نے فیصلہ کیا تھا کہ ’’پری اسکول سے ہی  ذریعۂ تعلیم انگریزی ہوگا‘‘۔ قومی سطح پر اس کی مخالفت ہوئی۔ ماہرین تعلیم اوراساتذہ نے مخالفت کی، لیکن صرف اشرافیہ کے اسکولوں کے مالکان نے اس کی حمایت کی۔ اس پر بھی جناب وزیرتعلیم نے پسپائی اختیار فرمائی ۔ پہلے اعلان کیا کہ:’’ صوبوں کو آزادی ہوگی کہ وہ جس زبان میں تعلیم دینا بہتر سمجھتے ہیں وہ زبان بطورِ ذریعۂ تعلیم استعمال کریں‘‘۔ یہ بیان مبہم اور شرانگیز تھا۔ اس پر بہت لے دے ہوئی اور آخرکار وزیرمحترم نے چار و ناچار اعلان فرمایا کہ اُردویا صوبائی زبان ذریعۂ تعلیم ہوگی، کیونکہ سندھ میں پہلے ہی اسکول کی سطح پر سندھی اور اُردو ذریعۂ تعلیم ہیں‘‘۔

                  ۵-              معلوم ہوا کہ جو نام نہاد ماڈل درسی کتب تیارہورہی ہیں، وہ اُردو میں لکھی جارہی ہیں اور شاید نومبر کے آخر تک مسودات مکمل کرلیے جائیں گے۔ اس کے بعد اعلان کے مطابق یہ ماڈل درسی کتب صوبوں کو اور اداروں کو مہیا کی جائیں گی اور اس کے بعد وہ اپنا تیاری کا عمل شروع کریں گے۔ اس صورت میں نہیں نظر آتا کہ مارچ تک نئے نصاب کے مطابق درسی کتب صوبائی سطح پر سرکاری اورپرائیویٹ اداروں کو مہیا کی جاسکیں گی اور حکومت کا یہ ہدف کہ مارچ ۲۰۲۱ء سے پری اسکول سے پانچویں جماعت تک نیا نصاب نافذ اور شرمندئہ تعبیر ہوسکے۔

اصل ہدف کیا ہے؟

سطور بالا کی بحث سے صاف نظرآتا ہے کہ مہنگی فیسوں والے اسکولوں (Elite Schools)  میں یکساں قومی نصاب نافذ کرنے کا کوئی پروگرام نہیں اور نہ وہ ادارے ہی ایسا کوئی نصاب اپنے ہاں نافذ کریں گے۔ کیونکہ جب او لیول اور اے لیول کے کیمبرج کےامتحانات اور دیگر بیرونی امتحانات پر کوئی پابندی نہیں ہوگی تو اشرافیہ کے تعلیمی ادارے حسب ِ معمول اپنا تعلیمی پروگرام جاری رکھیں گے۔

صوبائی سرکاری اداروں اور نچلے درجے کے پرائیویٹ اسکولوں کا تعلق صوبائی حکومتوں اور صوبائی تعلیمی بورڈز سے ہے۔ وہ بھی وفاقی نصاب کی روشنی میں کیا فیصلہ کرتے ہیں؟ آئین کے مطابق یہ ان کی صوابدید پر ہے اور اس کے لیے صوبائی قوانین موجود ہیں ۔ رہ گئے دینی مدارس تو ہماری نظر میں یکساں قومی نصاب کا اصل ہدف دینی مدارس ہوں گے۔ پچھلے سال کے آخر میں وزارتِ وفاقی تعلیم اور اتحاد تنظیمات مدارس پاکستان کے درمیان جو تحریری معاہدہ ہوا ہے، اس میں صراحت کے ساتھ یہ شق موجود ہے کہ دینی مدارس اپنے ہاں یکساں قومی نصاب نافذ کریں گے۔ لہٰذا، اب تان یہاں آکر ٹوٹ رہی ہے کہ:

                  ۱-              اشرافیہ کے تعلیمی ادارے حسب معمول او لیول اور اے لیول اور دیگر بیرونی امتحانات کے لیے اپنے طلبہ کو تیار کرتے رہیں گے اور اس صورت میں ظاہرہے کہ یکساں قومی نصاب ان کے ہاں نافذ نہیں ہوگا اور نہ ان کے موجودہ ذریعۂ تعلیم کی پالیسی ہی میں کوئی فرق پڑے گا۔

                  ۲-              صوبائی حکومتیں اپنی ضروریات کے مطابق یکساں قومی نصاب اور ماڈل درسی کتب میں ترمیم و اضافہ کرسکیں گی۔

                  ۳-              دینی مدارس معاہدے کے مطابق وزارتِ وفاقی تعلیم کا تیار کردہ نصاب اوردرسی کتب اپنے ہاں نافذ کرنے کے پابند ہیں۔ ان کے امتحانات کے لیے الحاق بھی وفاقی امتحانی بورڈ سے ہوگا ، لہٰذا آخری صورتِ حال کے مطابق یہ سارا دھندا محض دینی مدارس کو کنٹرول میں لانے کے لیے ہورہا ہے۔ باقی رہا یکساں قومی نصاب اور یکساں نظامِ تعلیم تووہ پہلے کی طرح ناآسودہ ایک خواب ہی رہے گا۔ اب یہ دینی مدارس کے وفاقوں،دینی تنظیمات اور دینی و سیاسی جماعتوں کا کام ہے کہ وہ اس مسئلے پر غورکریں اور قومی مفاد میں درست فیصلوں کے لیے حکومت پر دباؤ ڈالیں۔

اگر یہ صورتِ حال چلتی رہی تو واضح ہے دینی تشخص کو بہت سخت دھچکا لگے گا۔ اگرچہ ہم دینی مدارس کی موجودہ تعلیمی صورتِ حال سے پوری طرح مطمئن نہیں ہیں اور چاہتے ہیں کہ نصاب، تعلیم و تدریس اور امتحان کی سطح پر اصلاح ہو، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہم ہرگز یہ بھی نہیں چاہتے کہ ’اصلاح کے نام پر‘ ان اداروں کا دینی، علمی، ملّی کردار اور غریب طبقے کے بچوں کے لیے ان کی خدمات کے امکانات کو ہی ختم کر دیا جائے۔ جو معاہدہ اتحاد تنظیماتِ مدارس پاکستان اوروزارتِ وفاقی تعلیم کے مابین ہوا ہے، اس میں ایسی شقیں موجود ہیں جن کے نتیجے میں دینی مدارس کا مستقبل خطرے میں پڑسکتا ہے۔

ساورکر کے عقیدے کے مطابق: ’’ شہریت مذہب کی بنیاد پر دی جائے‘‘۔ اور اسی بنیادپر سی اے اے سے مسلمانوں کو باہر رکھا گیا ہے۔ شہریت کے متنازعہ قانون: سی اے اے، این آر سی اور این پی آر، آر ایس ایس کا وہ ایجنڈا ہے، جسے سنگھ کے بانی کیشو بلی رام ہیڈگیوار نے عملی شکل دی اور اس کے بعد سنگھ کے دیگر بانیان اس ایجنڈے کو نہ صرف سنوارتے رہے بلکہ اسے عملی شکل دینے کے لیے کوشاں بھی رہے۔

آج ’سَنگھ‘ اور بی جے پی کا وہ حکمران ٹولہ جو سی اے اے، این آر سی، این پی آر کو لاگو کرنے کے لیے حرکت میں ہے، وہ دراصل اسی ایجنڈے کو بھارتی شہریوں پر تھونپنے کی ایک کوشش ہے۔ مودی اور امیت شا تو بس آر ایس ایس کے بانیان کا ایجنڈا مسلط کرنے کے لیے تمام تر سرکاری وسائل و ذرائع کا بشمول مقننہ، انتظامیہ، عدلیہ اور صحافت کا اندھادھند استعمال کر رہے ہیں۔

یہ بانیان کون ہیں؟ بھارت کی آزادی کے لیے ان کا کوئی کردار ہے بھی یا نہیں؟ ان سوالات کے جوابات سینیر صحافی نیلانجن مکھوپادھیائے کی کتاب The RSS: Icons of The Indian Right  [صفحات: ۴۹۹، پبلشرز ٹرنکوبار] میں تفصیل سے دیے ہیں۔مصنف نے جو کچھ لکھا ہے، اسے مضبوط شہادتوں اور مسکت دلائل سے ثابت بھی کیا ہے۔ کتاب میں ہیڈگیوار کے علاوہ آرایس ایس کے جن بانیان اور لیڈروں کا تذکرہ شامل ہے، وہ وی ڈی ساورکر، ایم ایس گولوالکر، شیاما پرساد مکھرجی، دین دیال اپادھیائے، بالا صاحب دیورس، وجئے راجے سندھیا، اٹل بہاری واجپائی، ایل کے اڈوانی، اشوک سنگھل اور بال ٹھاکرے ہیں۔

آر ایس ایس کے بانیان کی اس فہرست میں آخرالذکر نام دیکھ کر ابتدا میں کچھ حیرت ہوئی تھی، کیونکہ ٹھاکر ے نہ کبھی آر ایس ایس کے رکن رہے اور نہ عہدے دار۔ مگر اس فہرست میں ان کا نام اس لیے درست ہے کہ اپنی حمایت سے سنگھی نظریات کو انھوں نے زبردست تقویت دی۔

بات سی اے اے، این آر سی اور این پی آر سے شروع ہوئی تھی، لہٰذا اسی بات کا اعادہ کرتے ہیں ۔کیشوبلی رام ہیڈگیوار کے باب میں مصنف نے پہلے سرسنگھ چالک کی اس بات پر کہ تمام ہندستانی بلالحاظ مذہب ’ہندو‘ ہی ہیں، زور دیتے ہوئے اسے ’ گھرواپسی‘ تحریک کی بنیاد قرار دیا ہے۔ یہ تحریک لوگوں کو ’ہندو دھرم‘ میں داخل کراتی ہے، اور جو داخل نہ ہو، وہ ’غیر‘ کہلاتا ہے۔ ہیڈگیوار کا یہی فلسفہ تقسیم ہند کے بعد ’ملکی‘ اور ’غیرملکی‘ میں بدل دیا گیا۔ ونایک دامودر ساورکر کے باب میں اس پر تفصیل سے بات کی گئی ہے: ’’ساورکر کا یہ عقیدہ تھا کہ نظریاتی طور پر، قومیت اور شہریت کو صرف شہری ہونے کی نہیں بلکہ اس کی مذہبی شناخت کی بنیاد پر طے کیا جاسکتا ہے‘‘۔ اور اسی بنیادپر سی اے اے سے مسلمانوںکو باہر رکھا گیا ہے۔

آر ایس ایس کے دوسرے سر سنگھ چالک مادھو سداشیو گولوالکر کے باب میں اس پر مزید بحث کی گئی ہے۔ جس کے مطابق تقسیم ہند کے بعد جو مسلمان بھارت میں رہ گئے تھے، گولوالکر انھیں ’بچے کھچے‘ کہتے اوراس بات پر زور دیتے تھے کہ ہندوپاک کے درمیان ہندوؤں اور مسلمانوں کے تبادلے کا منصوبہ بنایا جائے تاکہ جو ’بچے کھچے‘ مسلمان ہیں، انھیں بھارت سے نکالا جاسکے۔  سنگھی نظریہ ساز شیاما پرشاد مکھرجی کے باب میں بھارتیہ جن سنگھ کے جنرل سیکرٹری آشوتوش لہری کو ان کی طرف سے دی گئی اس ہدایت کا ذکر ہے: ’’اب ان مسلمانوں کو جو ’ہندو استھان‘ میں رہتے ہیں ہم یہاں سے نکال باہر کرنا چاہتے ہیں، کیونکہ اگر وہ رہے تو غداری، تخریب کاری اور وطن دشمنی کریں گے‘‘۔

دین دیال اپادھیائے چوٹی کے سنگھی قائد نے بھی ’’بلاتفریق مذہب سب ہندو ہیں‘‘پر زور دے کر ’’ان پر جو خود کو ’ہندو‘ نہیں کہتے، ہندستان کے دروازے بند‘‘ کرنے کی پوری کوشش کی تھی۔

کتاب میں آر ایس ایس کے تیسرے سر سنگھ چالک بالاصاحب دیورس پر سب سے طویل اور ایک ہوش ربا باب ہے، جس میں دیورس کے بقول: ’’مہاجر اور گھس بیٹھئے برابر نہیں ہوسکتے، ہندوجو بنگلہ دیش سے آتے ہیں وہ الگ ہیں کیونکہ وہ مہاجر ہیں، جو اپنے گھر سے اسلامی حکومت کے ہاتھوں ستائے جانے کی وجہ سے بھاگے، اس لیے آسام کے ہندوؤں کو چاہیے کہ وہ ان کا خیرمقدم کریں۔ لیکن بنگلہ دیشی مسلمانوں کا بالکل نہیں کیونکہ ان کی آمد سے آبادی کا توازن بگڑ جائے گا‘‘۔ یہی وہ ’دلیل‘ ہے، جو آج مودی اور امیت شا کی جوڑی سی اے اے کے حق میں دےرہی ہے۔

نیلانجن لکھتے ہیں کہ بال ٹھاکرے نے تو باقاعدہ ’بھیونڈی کو مِنی پاکستان‘ کانام دے دیا تھا۔ بعد میں وہ بنگلہ دیشیوں کی بات بھی کرنے لگے تھے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ مہاراشٹر میں کانگریس اور این سی پی جیسی سیکولر پارٹیوں کی مدد سے وزیراعلیٰ بننے والے شیوسینا پرمکھ ادھو ٹھاکرے سی اے اے کےحامی ہیں اور ان کے چچا زاد بھائی راج ٹھاکرے، مہاراشٹر نونرمان سینا کے سربراہ تو خم ٹھونک کر پاکستانیوں اور بنگلہ دیشیوں کو بھگانے کے لیے میدان میں آچکے ہیں۔ یہ دراصل ملک کو ’ہندوراشٹر‘ میں تبدیل کرنے کی تحریک ہے۔ نیلانجن نے کتاب میں سنگھ اور جرمنی کے نازی، اٹلی کے فاشسٹ اوردیگر ’قوم پرست جماعتوں‘ کے درمیان روابط کو غیرجانب داری کے ساتھ اُجاگر کیا ہے۔

زیرتبصرہ کتاب کے مطابق ہیڈگیوار کے دست راست ڈاکٹر مونجے کی ڈائری میں اس تعلق سے بہت ساری باتیں تحریر ہیں۔ ایک جگہ وہ لکھتے ہیں: ’’ہندوؤں کومنظم کرنے کی کوشش اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتی، جب تک کہ ماضی کے شیواجی یا مسولینی یا ہٹلر جیسا ہمارا ہندو ڈکٹیٹر نہ ہو‘‘۔ برطانیہ کے محکمۂ خفیہ کی رپورٹ کابھی مصنف نے حوالہ دیا ہے کہ ’’سنگھ کو یہ یقین ہے کہ مستقبل کے ہندستان میں یہ وہی بن جائیں گے جو ’فاشسٹ‘ اٹلی میں اور ’نازی‘ جرمنی میں ہیں‘‘۔

نیلانجن نے کتاب کے ابتدائیے میں تحریر کیا ہے:’’اس کتاب میں، مَیں نے ’’آر ایس ایس کے بانیان کے نظریے ہی نہیں ان کے باطن کو ٹٹولنے کی بھی کوشش کی ہے‘‘ اور وہ اس میں یقینا کامیاب ہیں۔ چاہے ساورکر کی شخصیت کا ظاہروباطن ہو یا ٹھاکرے اور دیورس اور واجپائی کی شخصیت کا، نیلانجن بغیر کسی جانب داری کے سب واضح کردیتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ ’’دیورس ایک طرح سے ’غیرمذہبی‘ تھے۔ لیکن آر ایس ایس کا سر سنگھ چالک بننے کے بعدانھوں نے ’پوجاپاٹ‘ شروع کردی تھی۔ واجپائی نے بی جے پی کے قیام کے بعد کچھ عرصے کے لیے بطور حکمت عملی گاندھی جی کی فکر کواپنایا، مگر پھر دین دیال اپادھیائے کے سنگھی فلسفے پر واپس آگئے‘‘۔

مصنف نے گیارہ کی گیارہ شخصیات کی ’مفاد پرستی‘ اور ’خودغرضی‘ کو اُجاگر کیا ہے۔ ہیڈگیوار کم عمری میں انگریز مخالف تھے، مگر حیرت انگیز بات ہے کہ آرایس ایس کے قیام کے بعد آزادی کی تحریک سے مسلسل غائب رہے۔ساورکر نے انگریزوں سے معافی مانگی تاکہ سیاسی زندگی کو آگے بڑھاسکیں۔ ٹھاکرے نے علاقائیت کے نام پر اپنی دکان چمکائی، واجپائی مکھوٹا بنے رہے، اور اسی کے نتیجے میں ملک کے وزیراعظم بنے۔

نیلانجن کی یہ کتاب آرایس ایس کے گیارہ بانیان کے ظاہروباطن کو عیاں کرنے کے ساتھ آر ایس ایس کے قیام کی تاریخ کو بھی سامنے لاتی ہے اور آر ایس ایس اور کانگریس کے ’پیچیدہ‘ مگر حیران کردینے والے رشتے اور رابطے بھی ظاہر کرتی ہے۔ یہ رشتہ، محبت اور نفرت کا رہا ہے۔ پنڈت نہرو اور گاندھی جی آر ایس ایس کے سخت مخالف تھے۔مگر سردار پٹیل کے ساتھ ساتھ بڑی تعداد میں ایسےبھی کانگریسی تھے، جو آر ایس ایس اور کانگریس کے ’رشتے‘ کو مضبوط کرنے کے منصوبے بنارہے تھے۔ یہ کتاب ملک کی آزادی کی تاریخ میں آر ایس ایس اور ہندو ’توادیوں‘ کے منفی کردار کو بھی اُجاگر کرتی ہے۔ اور ۱۹۴۷ء سے پہلے اور بعد میں نفرت کی تاریخ پر بھی روشنی ڈالتی ہے۔

یہ کتاب گاندھی جی کے قتل اور اس میں آر ایس ایس اور ہندو مہاسبھا کے کردار کی تفصیلات پیش کرتی ہے اور مسئلہ کشمیر، بالخصوص آرٹیکل ۳۷۰ کابھی ذکر کرتی ہے جس کی مخالفت شیاماپرساد مکھرجی نے کی تھی اور کشمیر کی جیل میں ’مُردہ‘ پائے گئے تھے۔ یہ ایک دل چسپ، معلوماتی اور عبرت ناک کتاب ہے جو کمال درجے غیرجانب داری سے لکھی گئی ہے۔ اسے بھارت میں انگریزی کے ایک بڑے اشاعتی ادارے Tranquebar نے اہتمام سے شائع کیا ہے۔