اپریل کا مہینہ اب ’یاد اقبال‘ کے لیے وقف سا ہو گیا ہے۔ ہم خاص مواقع پر خصوصی پروگراموں کے مخالف نہیں لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سارا سال تو ہم اقبال کو بھولے رہتے ہیں۔ اِدھر ۲۱؍اپریل آئی، اُدھر مختلف گوشوں سے طرح طرح کی آوازیں بلند ہونے لگتی ہیں۔ سب اقبال کا پیغام یاد دلاتے ہیں اور اس پر عمل کا مشورہ دیتے ہیں۔ لیکن فی الحقیقت نہ کوئی اس کے پیغام کو بیان کرتا ہے، اور نہ خود اس پر عمل کی کوئی روشن مثال قائم کرتا ہے۔ پورا ہنگامہ ہوا ہو ایک ڈراما سامعلوم ہوتا ہے، جس کے بیش تر اداکار مصنوعی ہوں اور جن کے پیش نظر بس ایک ڈراما اسٹیج کرنا ہو۔
پھر ستم ظریفی یہ ہے کہ ہر حلقے اور ہرگوشے سے اقبال کی ایک نئی تعبیر ابھر رہی ہے۔ کم ہی لوگوں کو اس امر میں دلچسپی ہے کہ اقبال نے کیا کہا تھا؟ ہر کوئی اس بات کی کوشش کر رہا ہے کہ اپنی بات کی تائید میں اقبال کو پیش کرے اور خود اقبال کا حال آج یہ ہے کہ:
شد پریشاں خوابِ من از کثرت تعبیر
برگِ کل چوں بوئے خویش
جو حضرات اقبال کے ساتھ خلوص کا تعلق رکھتے ہیں، وہ فطری طور پر اس صورت حال پر کبیدہ خاطر ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان کے دانشوروں کے غوروفکر کے لیے چند معروضات پیش کریں:
پہلی بات تو یہ سامنے رہنی چاہیے کہ کسی ملک کے دانش وروں کی ذمہ داری بہت بڑی ہے۔ ان کے کندھوں پر قوم کی ذہنی اور فکری قیادت کا بوجھ ہوتا ہے۔ اگر وہ سچائی کے پرستار اور حق کے خادم کا رول ادا نہیں کریں گے، تو اپنے فرض میں کوتاہی کریں گے، اور بہت سی گمراہیوں کے فروغ کا باعث ہوں گے۔ حقیقی دانش ور وہ ہیں جو خلوص اور احساسِ ذمہ داری کے ساتھ اپنا قومی فرض ادا کرتے ہیں، اور خوف اور لالچ سے اپنا دامن بچا کر قومی تعمیر میں اپنا حصہ ادا کرتے ہیں۔
وہ حضرات جو ’دان‘ کے چکر میں ’شور‘ مچاتے ہیں ان کو ’دانشور‘ نہیں کہا جاسکتا، خواہ ان کے نام کتنے ہی بڑے، القاب کتنے ہی لمبے، عہدے کتنے ہی اونچے اور اثرات کتنے ہی وسیع کیوں نہ ہوں۔ خواہ دنیا ان کے پیچھے ہو یا تماشا ان کے آگے! حقیقی دانش ور وہی ہیں، جن کی اصل دلچسپی حق اور سچائی کے ساتھ ہے، جو سچائی پر سنجیدگی سے غوروفکر کرتے ہیں۔ ایمان داری سے نتائج و آراء مرتب کرتے ہیں اور بے خوف ہو کر ان کا اظہار کرتے ہیں۔ ایسے لوگ اس قوم کا ضمیر ہیں اور اس کے حقیقی محسن۔ اس کی فکری زندگی انھی کے دم سے قائم ہے۔
ہم اس ملک کے پڑھے لکھے طبقے سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ اس بات کو محسوس کرے کہ قومی زندگی میں اہلِ دانش کا اصل کردار کیا ہونا چاہیے؟ اور پھر اس کردار کو ادا کرنے کے لیے اپنے کو تیار کرے۔ اس کے بغیر اس ملک میں کسی کے ساتھ بھی انصاف نہیں کیا جاسکتا۔ اقبال کے ساتھ آج جو کچھ ہو رہا ہے، اس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ ہر شخص اسے اپنے مفید مطلب استعمال کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
اس کا روبار میں خلوص، فکری دیانت اور علمی وفاداری کو بڑی فراخ دلی سے قربان کیا جارہا ہے۔ یہ کھیل اسی وقت ختم ہو سکتا ہے، جب دانش ور اپنا فرض پہچانیں اور فکرِ اقبال کو کرگسوں کے اس حملے سے محفوظ کریں۔
ایک بلند آہنگ گروہ ایسا بھی ہے، جو اقبال کو تغیر اور تجدّد کے علم بردار کی حیثیت سے پیش کر رہا ہے اور اس کا نام لے کر روایات کو توڑنے، ثقافتی اقدار کو پامال کرنے، منکرات و فواحش کو عام کرنے اور تمدنی ورثے کو دریا برد کرنے کی دعوت دے رہا ہے۔ اسے اس بات کا خیال بھی نہیں آتا کہ اس قسم کے تخریبی تجدد کے لیے اقبال نے بہ صراحت کیا کچھ کہا ہے اور اس وضاحت پر مبنی سب چیزیں اس کے کلام اور اس کی تحریرات میں محفوظ ہیں۔ اسی طبقے کو جو آج اقبال کا بہت بڑا کرم فرما ہے، وہ مخاطب کر کے کہتا ہے:
ترا وجود سرا پا تجلّیِ افرنگ
کہ تُو وہاں کے عمارت گروں کی ہے تعمیر
مگر یہ پیکرِ خاکی خودی سے ہے خالی
فقط نیام ہے تُو، زرنگار و بے شمشیر
ایک گروہ وہ ہے، جس کا مسلک ہر چڑھتے سورج کی پوجا ہے۔ اسے آج کل اقبال کی شاعری میں جمہوریت کی مخالفت کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔
ایک اور گروہ ’آشفتہ سر، آشفتہ خو‘ تھا۔ اس کی نگاہ میں اقبال اشتراکیت کاحامی اور سوشلسٹ انقلاب کا نصیب تھا۔ اس گروہ میں سے کچھ اتنے پردہ دار بھی تھے، جو اقبال کو ’ننگی اشتراکیت‘ کا نہیں ’اسلامی سوشلزم‘ کا علم بردار بتاتے رہے اور کچھ یہ پردہ بھی باقی نہیں رکھتے تھے۔ پھر حد یہ ہے کہ پیر، فقیر اور وزیر سب ہی سے یہ گروہ فائدہ اٹھا کر اقبال کے کندھوں پر سرخ پرچم لادنے میں مصروف رہا۔ اوربات قلم سے بڑھ کر فلم تک پہنچ گئی۔ نام اقبال کا ہے اور بات سرخ انقلاب کی۔
بلاشبہ اقبال کو مذہبی جمود اور تنگ نظری سے کوئی دلچسپی نہ تھی، لیکن وہ تجدد، آمریت، نسل پرستی، سرمایہ داریت، پیری، کٹھ مُلائیت، اشتراکیت سب کا مخالف تھا اور اس نے ان کے خلاف کھلی جنگ لڑی۔ اقبال کو ان میں سے کسی کی ہمنوائی میں پیش کرنا اقبال پر بہت بڑا ظلم ہے۔ اور اس کی روک تھام ہونی چاہیے۔
ہماری نگاہ میں اقبال کے ساتھ انصاف اسی وقت ہو سکتا ہے جب اقبال پر بولنے اور لکھنے والے کم از کم ان تین باتوں کا خیال رکھیں:
۱- اقبال نہ تو محض ایک شاعر تھا اور نہ صرف ایک فلسفی اور انسانی زندگی سے الگ تھلگ مفکر۔ اس کی شخصیت بلاشبہ ان عناصر سے مل کر بنی ہے۔ اگر اس کو صرف ایک مفکر کی میزان پر پرکھا جائے گا تو بظاہر بہت سے تضادات نظر آئیں گے۔ اور اگر محض اسے ایک شاعر سمجھا جائے گا، تو اس کا اصل پیغام نگاہوں سے اوجھل رہے گا۔ شاعر کے سوچنے اور اپنے مدعا کا اظہار کرنے کا انداز خاص قسم کا ہوتا ہے۔ اس بات کو ملحوظ رکھے بغیر فکرِ اقبال کی گتھیاں نہیں سلجھائی جاسکتیں۔ اس لیے فہمِ اقبال کے لیے ضروری ہے کہ اس بنیادی حقیقت کوسامنے رکھا جائے۔
۲- اقبال کے کلام اور اس کی نثری تحریرات کا مطالعہ اقبال کے فکری، سیاسی اور تمدنی پس منظر اور اقبال کے ذہنی ارتقاء کے مراحل کی روشنی میں کیا جانا چاہیے۔ ان میں سے جس کو بھی جس قدر نظر انداز کیا جائے گا، اقبال کو سمجھنا اتنا ہی مشکل ہوگا۔ بلاشبہ اقبال، وطنی قومیت کا حامی بھی رہا ہے، لیکن یہ اس کی فکری ارتقاء کے اوّلیں مرحلے کی بات ہے۔ جس طرح اس نے کبھی اسکول میں بھی پڑھا تھا، اسی طرح اس کے کچھ افکار پر بھی طفولیت کا دور گزرا ہے۔ فکر کی پختگی کے ساتھ اس نے بہت سے تصورات کو بدلا ہے۔ ’نیا شوالا‘ بچہ کا لباس (BABY's FROCK) تھا، جسے ’’باقیات اقبال‘‘ کے میوزیم میں تو جگہ دی جاسکتی ہے، لیکن اقبال کی بالغ فکر میں اس کا کوئی مقام نہیں۔ سوشلسٹ انقلاب روس کی چکا چوند میں شاعر مشرق کو بھی افق پر روشنی کی ایک کرن نظر آئی تھی، اور شاعر نے اپنے ان جذبات کو ’حجاب‘ میں نہیں رکھا بلکہ برملا اور واشگاف اظہار کرنے میں کوئی تاخیر نہ کی۔ لیکن جب چشمِ شاعر نے یہ دیکھا کہ سرخی بام و در مظلوموں کے خون کی پیدا کردہ ہے، تو اُفق پر رونما ہونے والی ننھی کرن تاریکیوں کو چھاٹنے سے پہلے ہی ان کے سینے میں دفن ہوگئی۔ اگر فکر ِاقبال کے مختلف ارتقائی مراحل کو سامنے نہ رکھا جائے تو بہت سی باتیں سمجھ میں نہیں آتی ہیں اور مخصوص مفادات کے پرستار اقبال کی فکر کو اس کے پس منظر سے کاٹ کر لوگوں کو دھوکا دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور سادہ لوح طالب علم بھی اس کی بنا پر غلطی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ اقبال کے ساتھ انصاف اسی وقت ہو سکتا ہے، جب اس کی فکر کو اس کے اصل پس منظر میں رکھ کر سمجھا جائے۔
۳- آخری اور بنیادی چیز یہ ہے کہ اقبال کے مرکزی تصورات اور اس کے نظامِ فکر کو سمجھے بغیر اس کے مختلف اشعار کو سمجھنا محال ہے۔ کسی بھی شخص کے ساتھ انصاف اسی وقت ہو سکتا ہے جب اس کے مختلف افکار کو اس کے نظامِ فکر کے سانچے میں رکھ کر سمجھا جائے، اور تشریح و تاویل کے لیے خود اس کے افکار و تصورات ہی سے مدد لی جائے۔ کسی بھی فکر کو سمجھنے کے لیے یہ حددرجہ ضروری بھی ہے اور مفکر کے ساتھ دیانت کا معاملہ کرنےکے لیے بھی اہم تر۔
اگر ان تین بنیادی باتوں کو سامنے رکھا جائے تو پھر اقبال کے ساتھ انصاف کیا جاسکتا ہے۔ وہ بھانت بھانت کی بولیاں بند ہو سکتی ہیں، جن کی وجہ سے فکری انتشار اور ژولیدگی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
ہم اپنے ملک کے دانشوروں سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ اپنے اصل مقام کو محسوس کریں اور اقبال کے ساتھ وہ معاملہ کریں جو حق و انصاف پر مبنی ہے۔