اپریل ۲۰۲۵

فہرست مضامین

مسئلہ کشمیر کیسے حل ہو!

پروفیسر نیازعرفان | اپریل ۲۰۲۵ | اخبار اُمت

Responsive image Responsive image

۱۹۴۷ ء سے مسئلہ کشمیر لاینحل چلا آرہا ہے اور امن سے محروم بھی۔ اس کی وجہ بھارت کی مسلسل بدنیتی اور بدعہدی ہے۔ دنیا دیکھ رہی ہے کہ بدامنی بھارتی مقبوضہ کشمیر میں ہے۔ الحمدللہ! آزاد کشمیر میں تو مکمل امن وامان ہے، لوگ محفوظ اور اطمینان سے معمول کے مطابق زندگی گزار رہے ہیں۔ وادیٔ کشمیر جنت نظیر، آبشاروں اور جھرنوں کی سرزمین ،مشک نافہ ،زعفران اور پھولوں کی سرزمین ظلم وستم کی آگ میں جل رہی ہے۔ لوگ تقریباً ۸۰ سال سے ظلم وستم اور جبر کا شکار ہیں اور آزادی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ ۱۹۴۸ء میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ’استصواب رائے‘ کے انعقاد کے فیصلے کے باوجود بھارت کشت وخون میں مصروف ہے۔ تقریباً آٹھ لاکھ فوج کے ذریعے ڈھٹائی سے تباہی مچارہا ہے، خواتین کی بے حرمتی کی جا رہی ہے ہزاروں بچے یتیم ہو گئے ہیں لیکن مسئلہ کشمیر حل نہیں ہو رہا ہے۔

ان اسبا ب کے بارے میں بات کرنے کی ضرورت ہے جن کی وجہ سے پاکستان کا موقف برحق ہونے کے باوجود اقوام عالم میں نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ مشرقی اور جنوبی سوڈان میں مختصر مدت کی جدوجہد کامیابی سے ہم کنار ہو گئی تھی، پھر کیا وجوہ ہیں کہ کشمیر میں ۷۰ سال سے جاری جدوجہد اور ۳۵ سال سے جاری کشت وخون کو اقوام عالم نے قرار واقعی مقام نہیں دیا؟

ہماری نظر میں ان کے اسباب یہ ہیں:

۱- ماضی میں کی جانے والی کمزور اور نااہل سفارت کاری کی وجہ سے دوسرے ممالک میں برسرِاقتدار اور حزب اختلاف کے مؤثر قائدین اور ذرائع ابلاغ کے اہم نمائندوں کو مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے برحق موقف پر قائل کرنے میں کوتاہی ہوتی رہی ہے۔ سفارش پر میرٹ کے بغیر تقرریاں اور تعیناتیاں اور وزارت خارجہ کے افسران کی مسئلے پر پوری تربیت نہ ہونا اس کی بنیادی وجہ ہے جس کا تدارک ضروری ہے۔

۲- سیاسی جماعتوں اور ان کے قائدین کی باہمی رنجشیں ،جوڑتوڑ اور سازشیں عام رہی ہیں۔ قومی مفاد کے بجائے ذاتی مفاد کے لیے پارٹیاں بدلنا معمول رہا ہے، جس کے نتیجے میں  قومی کریکٹر پروان نہیں چڑھ سکا اور دنیا میں بھی ہمارے ملک کا تاثر خراب ہوا۔ ملک کا اعتبار اور وقار مجروح ہوا اور ہمارے موقف کو اہمیت نہ ملی۔

۳- ملک میں مسلکی اختلاف رائے کے بجائے فرقہ واریت کا فروغ ہماری بدنامی کا باعث بنا۔ اس میں شدت پیدا کرنے کے لیے بھارت نے سازش کے ذریعے منصوبہ بنایا جس کی نشان دہی معروف صحافی افتخار گیلانی نے ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن لاہور، ماہ جنوری ۲۰۲۲ء میں شائع شدہ مضمون میں کی ہے کہ دہلی کے قریب ایک زرعی فارم پر قائم دینی مدرسے میں جنونی ہندونوجوانوں کو مسلمان علمائے دین کے بھیس میں تیار کر کے پاکستان میں مختلف فرقوں کی مساجد میں پلانٹ کیا گیا یا نئی مساجد قائم کی گئیں یا پیرخانے قائم کیے گئے جہاں بیٹھ کر لوگوں کو دوسرے مسالک کے خلاف مشتعل کیا جاتا رہا ہے۔ فرقوں کی آپس کی لڑائیوں اور کشت وخون نے دنیا میں پاکستان کو بدنام کیا۔ اس کا اثر بھی ہمارے موقف کے لیے نقصان دہ ثابت ہوا۔ اس کا حل یہ ہے کہ تمام مسالک کے رہنما اپنے اپنے موقف پر لچک دار اور برداشت کا رویہ اپنائیں اور ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھنا گوارا کریں، تا کہ ملک کی بدنامی ختم ہو سکے۔

۴- کمزور معیشت اور بیرونی قرضے بھی دنیا میں ہمارے وقار اور عزت واحترام کے خاتمے کا سبب بنے ہیں۔ کمزور ملک کو دنیا میں کوئی اہمیت نہیں ملتی اور نہ اس کی بات سنی جاتی ہے  اور اس کو حمایت کم ہی ملتی ہے۔

۵-  ۱۹۷۹ء کے بعد دنیا میں اسلامو فوبیا کو اُبھارا گیا۔ مسلمانوں اور اسلام کے خلاف شدت پسند عیسائیوں ،یہودیوں اور بدھوں کے ساتھ بھارتی نسل پرست ہندو بھی شامل ہوگئے، جو قیام پاکستان سے بھی پہلے سے مسلم دشمنی میں ملوث تھے۔ کشمیر پر پاکستان کی آواز صدا بہ صحرا ثابت ہونے کی ایک وجہ اسلامو فوبیا بھی ہے۔

۶- بھارت بہتر ڈپلومیسی ،سفارت کاری ،مستحکم معیشت، اسرائیل کی مدد سے امریکا سے معاشی فوائد کا حصول اور امریکی اداروں میں سرایت اور متعدد عہدوں پر تعیناتی سے دنیا میں اور بالخصوص امریکا میں اثرورسوخ کا سبب بنا اور کشمیر کے کمزور موقف پر حمایت حاصل کر لی۔

ان اسباب اور عوامل کے علاوہ کچھ اور اسباب وعوامل بھی ہیں۔کشمیریوں کی جدوجہد اور مذکورہ بالا اسباب سے عہدہ برآ ہونے کے نتیجے کے طور پر ان شاء اللہ کشمیریوں کی برحق جدوجہد کو کامیابی سے ہمکنار کرنے میں مدد ملے گی۔ پاکستانی سیاسی اور دینی رہنمائوں کو ان اسباب کے پیش نظر اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ علامہ اقبال کے عثمانیوں کی ابتلا کے سلسلے میں کہے گئے شعر میں معمولی تصرف کرتے ہوئے کہوں گا   ؎

اگر ’کشمیریوں‘ پر کوہِ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے
کہ خون صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا