اپریل ۲۰۲۵

فہرست مضامین

زوال کا راستہ

سیّد ابوالاعلیٰ مودودی | اپریل ۲۰۲۵ | ۶۰ سال پہلے

Responsive image Responsive image

ایک مسلمان کی حیثیت سے آپ دیکھیں تو اخلاق کی پستی کے ساتھ ہم سرے سے کسی اسلامی زندگی کا تصوّر ہی نہیں کرسکتے۔ مسلمان تو مسلمان بنایا ہی اس لیے گیا ہے کہ اس کی ذات سے دُنیا میں بھلائی قائم ہو اور بُرائی مٹے۔ بھلائی کو مٹانا اور بُرائی پھیلانا ، اور پھر اس کے ساتھ مسلمان بھی ہونا، یہ درحقیقت ایک کھلا ہوا تناقض ہے۔ایک شخص مسلمان ہو اور پھر بھی اُس کے شر سے دوسرے بندگانِ خدا محفوظ نہ ہوں۔ ایک شخص مسلمان ہو اور پھر بھی اُس پر کسی معاملے میں اعتماد نہ کیا جاسکے۔ ایک شخص مسلمان ہو اور پھر بھی وہ نیکی سے بھاگے اور بدی کی طرف لپکے، حرام کھائے اور حرام طریقوں سے اپنی خواہشات پوری کرے، تو آخر اس کے مسلمان ہونے کا فائدہ کیا ہے؟ کسی مسلم معاشرے کی اس سے بڑھ کر کوئی ذلّت نہیں ہوسکتی کہ وہ انصاف سے خالی اور ظلم سے لبریز ہوتا چلا جائے۔ اس میں روز بروز بھلائیاں دبتی اور بُرائیاں فروغ پاتی چلی جائیں، اور اس کے اندر دیانت و امانت اور شرافت کے لیے پھلنے پھولنے کے مواقع کم سے کم تر ہوتے چلے جائیں۔ یہ خدا کے غضب کو دعوت دینے والی حالت ہے۔ اگر کسی مسلم معاشرے کی یہ حالت ہوجائے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ اسلام کی روح سے خالی ہوچکا ہے، صرف اسلام کا نام ہی اس میں باقی رہ گیا ہے، اور یہ نام بھی اب صرف اس لیے رہ گیا ہے کہ دُنیا کو اس دینِ حق سے دُور بھگاتا رہے۔

مسلمان اخلاقی زوال کی طرف جاتا ہی اس وقت ہے جب اسے خدا کی رضا اور آخرت کی فلاح مطلوب نہیں رہتی اور صرف دُنیا اس کی مطلوب بن کر ہ جاتی ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اخلاق کی پستی کے ساتھ کوئی قوم دُنیا کی کامیابی بھی حاصل نہیں کرسکتی۔ اس پستی کے ساتھ تو آخرت بھی ہاتھ سے جاتی ہے اور دُنیا بھی ہاتھ نہیں آتی۔(’تعمیر اخلاق کیوں اور کیسے ؟‘، سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، اپریل ۱۹۶۵ء، ص ۲۸)