Family Law in Islam: Theory and Application [عائلی قانون اسلام میں: اصول اور اطلاق]، ڈاکٹر محمد طاہر منصوری۔ ناشر: شریعہ اکیڈمی، بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی، اسلام آباد۔ صفحات: ۲۶۳۔ قیمت: درج نہیں۔
اسلام میں خاندان، عیال کا تصور بہت وسیع ہے۔ قرآنِ مجید میں جہاں اللہ کی بندگی کا حکم دیا گیا ہے، اس کے بعد ہی والدین کے ساتھ ’احسان‘ کی ہدایت ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ایک زمانے سے ہمارے ہاں بھی (دوسرے لادینی معاشروں کی طرح) ’خاندان‘ یا ’عیال‘ سے مراد ’شوہر بیوی‘ سے تشکیل پانے والاادارہ ہی لیا جاتا ہے، حالانکہ family کے معنی ’ماں باپ اور اولاد پر مشتمل کنبہ‘ (دیکھیے: قومی انگریزی اُردو لغت،مرتبہ: ڈاکٹرجمیل جالبی) ہیں۔ بہرحال عائلی اور عیال کے اس محدود معنوں میں ڈاکٹر محمد طاہر منصوری کی پیش نظر کتاب اسلامی قوانین کی انگریزی زبان میں تذکیر و تفہیم میں ایک مفید اضافہ ہے۔
پہلے باب میں اسلام میں نکاح اور خاندان کے تصور پر گفتگو کی گئی ہے۔ حیرت انگیز افسوس کہ مسلم فقہا کی بیان کی ہوئی ’نکاح‘ کی تین تعریفوں میں مرد اور عورت کے درمیان ’جنسی تعلق‘ ہی کو بنیادی اہمیت دی گئی ہے، مگر مصنّف بجاطور پر کہتے ہیں کہ قرآنی تصورِ نکاح میں زوجین کے درمیان طویل رفاقت، باہمی محبت، ہمدردی اور ذہنی ہم آہنگی اہم ہیں، نہ کہ محض جنسی تعلق۔ تاہم نکاح کے وظائف کے ضمن میں وہ بھی جنسی خواہش کی تسکین ہی کو اوّلیت دے کر پہلے اسی کا تذکرہ کرتے ہیں، اور اس کے بعد نسلِ انسانی کی بقا، ذہنی سکون اور اولاد کی دینی و اخلاقی تربیت کا ذکر کرتے ہیں۔
زوجین کے حقوق و فرائض کے سلسلے میں قرآنی احکام واضح ہیں۔ بیویوں کے ساتھ حُسنِ سلوک کی ہدایت کی گئی ہے۔ اگرچہ مرد کو ایک سے زیادہ بیویوں کی اجازت ہے، مگر شرط یہ ہے کہ سب کے ساتھ انصاف اور برابری کا سلوک ہو۔ معاشی ضروریات کی تکمیل، بڑی حد تک مردوں کے فرائض میں ہے اور اُمورِ خانہ داری کی نگہ داشت عورتوں کا فریضہ ہے۔
عہدِنکاح کے قانونی اور درست طریقوں میں مختلف فقہی مدارس، مالکی، شافعی، حنفی اور حنبلی کا ذکر ہے، اور مختلف مسلم ممالک (تیونس، عراق، شام، ایران اور مراکش) میں جدید قانون سازی کا مختصر جائزہ ہے۔ عہدِ طفلی کے نکاح کو بعض فقہی مدارس درست قرار دیتے ہیں، لیکن پاکستان میں مروج قانون کے مطابق لڑکی اور لڑکے کی عمر کم از کم ۱۸سال ہونی چاہیے۔ کم سنی کے نکاح کو فسخ کرنے کا اختیار لڑکی کو دیاگیا ہے۔ تاہم اس سلسلے میں مختلف مسلم ملکوں میں اختلافات ہیں۔ جہاں تک ’مہر‘ کا تعلق ہے، اِسے بہت سے لوگ عورت کی ’قیمت‘ یا ’معاوضے‘ کے طور پر لیتے ہیں، جو درست نہیں۔ مرد کا اپنی بیوی کو مہرادا کرنا دراصل نکاح کی ذمہ داریوں کی ادایگی کا ایک علامتی اظہار اور اس کی طرف سے تعلقِ خاطر کا ایک تحفہ ہے۔
جن رشتوں کے حوالے سے نکاح کی ممانعت ہے، قرآنِ مجید میں اس کی وضاحت کردی گئی ہے۔ اس کے علاوہ بھی حج، عمرہ یا حالت ِ احرام میں نکاح فاسد ہوگا۔ غیرمسلم خواتین سے نکاح کے بارے میں مختلف فقہا اور مدارسِ فکر کا تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے۔ تاہم ایک اہم فقہی مسلک (امامیہ/جعفریہ) میں ’موقتی نکاح‘ یا متعہ کی اجازت اور دوسرے مسالک میں اس کی ممانعت کا ذکر نہیں، اگرچہ ایران کے حوالے سے ضمناً اس کا تذکرہ ہے۔ (ص ۵)
بیوی اور مطلقہ کے حقوق کے بارے میں بھی قرآن مجید کی آیات، مختلف علما کی آرا اور مسلم ملکوں کے قوانین کا تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے۔ طلاق، خلع، ظہار، فسخ (عدالتی حکم پر علیحدگی)، عدت، اولاد کی کفالت کے سلسلے میں بھی فقہا کی آرا اور مختلف مسلم ممالک کے قوانین میں اختلافات ہیں۔ مصنف نے ان سب کا تفصیلی جائزہ تو لیا ہے، جو بلاشبہہ ایک مفید کوشش ہے، تاہم انھوں نے اپنی حتمی راے دینے سے گریز کیا ہے۔ قانون سازوں کو اِن تفصیلات سے یقینا آسانی ہوگی کہ انھیں ایک جگہ مختلف نقطہ ہاے نظر مل جائیں گے، مگر ایک عام قاری کی معلومات میں اس سے اضافہ تو ہوگا، لیکن اس طرح وہ انتشارِ فکری کا شکار بھی ہوسکتا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ جس راے میں اُسے سہولت نظر آئے، یا جو اُس کی خواہش کے مطابق ہو وہ اُسے اختیار کرے۔ بہتر ہوتا کہ مصنف، دلائل کے ساتھ اپنا نقطۂ نظر بھی بیان کردیتے۔
پاکستان میں عائلی قوانین کی طرف ابتدا ہی سے توجہ کی گئی۔ ۵۰ کے عشرے میں حکومت نے ایک مجلس قائم کی، جس کی سفارشات پر مشتمل ۱۹۶۱ء میں حکومت ِ پاکستان نے مسلم فیملی لا آرڈی ننس نافذ کیا۔ اس کی تیاری میں علما، قانون دان اور سماجی رہنما (خواتین و حضرات) شامل تھے۔ تاہم بعض علما نے اس قانون کی بعض شقوں (یتیم پوتے کی وراثت، نکاح کے لیے لازمی رجسٹریشن، نکاحِ ثانی کے لیے خاندانی عدالت کی اجازت وغیرہ) سے اختلاف بھی کیا۔ مصنف نے اس سلسلے میں اپنی تفصیلی راے بھی دی ہے۔
کتاب میں ایک دل چسپ اضافہ The Disolution of Muslim Marriage Act 1939 (مسلم نکاح کی تنسیخ کا قانون ۱۹۳۹ء) ہے۔ یہ مفید قانون انگریزی حکومت کے دور کا ہے ، جو بعض حالات اور شرائط پر ایک خاتون کو نکاح کی تنسیخ کا عدالتی حق دیتا ہے۔
بظاہر کمرئہ جماعت کی تدریس میں تشکیل پانے والی اس مفید کتاب میں ناقص ’اشاریہ‘ (دیکھیے India، Psychological ) اور بعض نامکمل آیاتِ قرآنی کی اغلاط اور ترجمانی (ص ۱۰، ۷۸، ۸۸) کھٹکتی ہیں جو اُمید ہے کہ آیندہ اشاعت میں درست کرلی جائیں گی۔
ڈاکٹر محمد طاہر منصوری، بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی اسلام آباد میں شریعہ اور قانون کے پروفیسر ہیں۔ اُمید ہے کہ اُن کی یہ تالیف ہمارے قانون کے طلبہ اور قانون سازوں کے لیے مفید ثابت ہوگی۔(پروفیسر عبدالقدیر سلیم)
عبدالوحید خان، پاکستان ایئرفورس سے وابستہ رہے ۔ بین المذاہب موضوعات سے خصوصی دل چسپی رکھتے ہیں۔ ان کی ۱۱ کتب شائع ہوچکی ہیں۔ اس وقت ان کی چار کتب پیش نظر ہیں۔
۱- قرآنی معلومات:اس کتاب کے ذریعے مسلمان کے دل میں قرآن کی محبت کو بڑھانے اور مقاصدسے آشنا اور ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ قرآن کے بارے میں معلومات فراہم کرنے اور اس کے مضامین سے روشناس کرانے کی کامیاب کوشش ہے۔
۲- پیغمبر آخرالزماں حضرت محمدؐکی شخصیت
۳- Life of Prophet Muhammad ، اُردو اور انگریزی میں یہ کتابیں، حضوؐر کی سیرت و شخصیت کا ایک عمدہ خاکہ ہیں۔ سیرت کے اہم واقعات کو سامنے لاکر عمل پر اُبھارا گیا ہے۔ موجودہ دور میں مغرب کی جانب سے حضوؐر کی شخصیت کو مجروح کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس پروپیگنڈے کا توڑ بھی کیا گیا ہے۔ علمی استدلال پر مبنی یہ تحریریں حضوؐر سے محبت کو دوبالا کرتی اور عظمت ِ رسولؐ اور احترامِ رسولؐ کے جذبات بیدار کرتی ہیں۔
۴- Inter-Faith Essays and Other Articles،بین المذاہب ہم آہنگی اور دوسرے موضوعات پر مبنی ۲۱ مضامین پر مشتمل ہے۔ اس میں معاشرے کے بہت اہم اور حساس موضوعات پر قلم اُٹھایا گیا ہے۔ قرآن و سنت اور حالات کے تناظر میں ان پر بات کی گئی ہے، بالخصوص اہلِ مغرب نے اسلام سے جو ایک نام نہاد جنگ شروع کررکھی ہے اس پر اظہارِخیال کیا گیا ہے۔ مغرب این جی اوز کے ذریعے تعلیم و صحت کے میدان میں کام کر کے عیسائیت کے فروغ کے لیے کوشاں ہے اور اسلام کو اپنا حریف سمجھ کر اسلام کے بارے میں نت نئے فتنے اُٹھا رہا ہے، اس کے بارے میں اسلام کا نقطۂ نظر پیش کیا گیا ہے اور بتایا ہے کہ قرآن تو بس سیدھا راستہ دکھانے والی ایک کتاب ہے۔ مختصر انگریزی مضامین زبان و بیان کے اعتبار سے انتہائی سادہ اور عام فہم ہیں۔ (عمران ظہورغازی)
سرورق کے مطابق یہ کتاب مولانا ظفر علی خان کے ’غیرمطبوعہ خطوط کی روشنی میں‘ ان کا ایک شخصی مطالعہ ہے۔ زاہد منیرعامر پنجاب یونی ورسٹی اورینٹل کالج علامہ اقبال (اولڈ) کیمپس میں اُردو زبان و ادب کے پروفیسر ہیں۔ گذشتہ دو برس قبل شیخ الجامعہ نے انھیں نیوکیمپس بلاکر شعبۂ ابلاغ عامہ سے منسلک ’مسندِظفر علی خان‘ پر فائز کیا تھا۔ یہ کتاب مصنف کے زمانۂ مسند نشینی کا حاصل ہے۔
کوئی ۲۵سال پہلے موصوف نے مولانا ظفر علی خان کے مکاتیب کا پہلا (اور تاحال) آخری مجموعہ شائع کیا تھا، اب دوسرا مجموعہ پیش کیا ہے۔ اس دوسرے مجموعے کی نوعیت خطوں کے عمومی اور روایتی مجموعوں سے مختلف ہے، اور شاید اسی لیے انھوں نے کتاب کے نام میں خطوط و خیوط کی ترکیب شامل کی ہے (کاش مصنفِ علّام سرورق پر ایک حاشیہ دے کر ’خیوط‘ کے معنی بھی اس مبصر جیسے کم علم قارئین کو سمجھا دیتے۔ بہرحال ہم لُغت کی مدد سے بتائے دیتے ہیں کہ خیوط ’خیط‘ کی جمع ہے (خبط کی نہیں)، معنی ہیں: ’تاگہ‘)۔ اس لفظ کو کتاب سے مناسبت یہ ہے کہ مؤلف نے ان خطوں کی مدد سے مولانا ظفر علی خان کی زندگی کے کچھ خیوط ، یعنی نقوش یا پہلو دریافت کیے ہیں۔ خطوں کو تاریخ وار یا مکتوب الیہ وار ترتیب دینے کے بجاے چند عنوانات کے تحت مرتب کیا گیا ہے، مثلاً: ’خانگی زندگی پر کچھ روشنی، (اس حصے کے سارے خطوط مولانا کی بیگم کے نام ہیں)۔ عہدِشباب کے نقوش، پاکستان کا درزی، شہید گنج کا غم، کیا مولانا ظفر علی خان واقعی خط نہیں لکھتے تھے؟ وغیرہ۔ کتاب کے سرورق سے سوالیہ نشان لے کر قاری آگے بڑھتا ہے تو فہرست کے عنوانات دیکھ کر اسے خیال آتا ہے کہ مؤلف نے یہاں پھر کچھ ’گھنڈیاں‘ ڈال دی ہیں، مثلاً: ’پاکستان کا درزی‘ ایک گھنڈی ہے۔ یہ شمس الحسن اسٹیٹ سیکرٹری مسلم لیگ کے نام چند سطری خط ہے اور اس کے ساتھ مولانا ظفر علی خان کی نظم ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ سلطنت پاکستان کی قبا کو پاکستان کا درزی (قائداعظم) کب تک اور کیسے رفو کرے گا۔ اس کے بعد حسب ذیل دو شعر ہیں:
ندا آئی کہ مقصد تک پہنچ سکتی نہیں ملّت
نہ سیکھے گی وہ کرنا آبِ خنجر سے وضو جب تک
نہ آئے گا خدا کی راہ میں جب تک اسے مرنا
بہائے گی نہ اس رستے وہ اپنا لہو جب تک
یہ اشعار بہت کچھ کہہ رہے ہیں۔ مختصر یہ کہ مولانا ظفر علی خان کی بصیرت کی داد دینی پڑتی ہے۔ انھوں نے اندازہ لگالیا تھا کہ قیامِ پاکستان کے بعد مملکت خداداد کی زمامِ کار سنبھالنے والے اکثر و بیش تر ذمہ داران اور اعیانِ حکومت خون دینے والے نہیں، دودھ پینے والے مجنوں ثابت ہوں گے۔ پاکستان کی ۶۵سالہ تاریخ مولانا ظفر علی خان کی خداداد بصیرت کی تصدیق کررہی ہے۔ تاریخ کے اوراق پلٹیے تو معلوم ہوگا کہ تحریکِ حصولِ پاکستان کے دنوں میں اسی خدشے کا اظہار اور بھی کئی لوگوں نے کیا تھا اور کہا تھا کہ ہماری یہ مسلمان قیادت پاکستان میں اسلام دشمن اور وطن دشمن ثابت ہوگی۔ کیا پاکستان کی ۶۵سالہ تاریخ اس کی گواہی نہیں دے رہی؟
کتاب سے مؤلف کی محنت، مہارت اور سلیقہ مندی کا اظہار ہوتا ہے۔ بعض خطوں کے عکس، چند نایاب تصاویر اور محنت سے لکھے گئے حواشی و تعلیقات نے کتاب کی وقعت بڑھا دی ہے۔مولانا ظفر علی خان کی خوش قسمتی ہے کہ انھیں زاہد منیر ایسا محقّق ملا ہے ۔ کتاب کے آخر میں کتابیات اور مفصل اشاریہ بھی شامل ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)
تزکیہ و تربیت اور تعمیر سیرت جہاں نبی اکرمؐ کے فرائضِ منصبی کا اہم ترین تقاضا تھا وہاں اُمت مسلمہ کی تشکیل اور اس کے مقصد وجود کے حصول کے لیے ناگزیر ضرورت بھی ہے۔ زیرتبصرہ کتاب میں مصنف نے اسی مقصد اور ضرورت کو پیش نظر رکھا ہے۔ اس میں جہاں قرآن و سنت کی تعلیمات کی طرف رجوع کرنے، اللہ تعالیٰ سے تعلق قائم کرنے اور سیرتِ نبویؐ کی اتباع کی بات ہے، وہاں رذائلِ اخلاق سے بچنے اور محاسنِ اخلاق کو اختیار کرنے کی ترغیب بھی پائی جاتی ہے۔ ان مضامین میں قرآنِ مجید، نبی اکرمؐ، اولین وحی، حدیث و سنت، محبت الٰہی کا حقیقی معیار، اُمت مسلمہ، دعوت و تبلیغ، ایمان و عملِ صالح، شیطان کی چالیں، جھوٹ، شراب، لہوالحدیث، سلام، حیا، امانت اور عہدوپیمان، شکر، تفکر، حسنِ نیت،بخل، صدق و سچائی جیسے موضوعات پر شرح و بسط کے ساتھ بحث کی گئی ہے۔ متفرق مضامین کا یہ مجموعہ حقیقت میں اسلامی تعلیمات کا خوب صورت مرقع ہے۔ حوالے، حواشی اور کتابیات کا اہتمام مصنف کی عرق ریزی پر دال ہے۔ زبان و بیان میں ادبی چاشنی، مضامین کی تیاری میں تحقیق کا رنگ اور تالیف و تسوید میں سلیقہ پایا جاتا ہے۔ تزکیہ و تربیت اور تعمیرسیرت کے لیے مفید کتاب۔ (حمیداللّٰہ خٹک)
یہ کتاب اسرائیل، امریکا اور اقوام متحدہ کے اصل چہرے کو بے نقاب کرتی ہے۔ اگرچہ اس کتاب کا جذبۂ محرکہ فریڈم فلوٹیلا کے قافلے پر اسرائیلی فوج کا افسوس ناک اور سفاکانہ حملہ ہے، مگر اسی واقعے کی بنیاد پر اسرائیل کی تاریخ، قیام اور بے گناہ فلسطینیوں پر ظلم و ستم کی انتہا، امریکا اور اقوامِ متحدہ کی اسرائیل کی بے جا حمایت اور مسلمان حکمرانوں کی بے حسی کو وضاحت سے بیان کردیا گیا ہے۔
فلسطین کا جغرافیہ، تاریخ اور سیاسی منظرنامہ بیان کرنے کے ساتھ ساتھ فلسطینیوں کی چھے عشروں کی جدوجہد آزادی اور حماس کی تاسیس و ارتقا اور قربانیوں کی طویل داستان کو سلیس پیرایے میں بیان کیا گیا ہے۔ حماس کے رہنما خالدمشعل کا خصوصی انٹرویو ،فلسطین کی پُرعزم دختر شہیدوفا ادریس کا تذکرہ اور امریکا کی انسانی حقوق کی نمایندہ راشیل کوری کی لازوال قربانی کا بھی تذکرہ موجود ہے۔ایسے باضمیر یہودیوں کا بھی تذکرہ کیا گیا ہے جو اسرائیل کے غدار ٹھیرے ہیں مگر ضمیر کی عدالت میں سرخرو ہونے کے لیے نئے نئے انکشافات کر رہے ہیں۔
ترکی واحد ملک ہے جس نے اسرائیلی ناجائز ریاست کے خلاف عالمی سطح پر پُرزور آواز بلند کی ہے۔ فریڈم فلوٹیلا کے واقعے کی پُرزور مذمت کے واقعات اور ترکی کے وزیراعظم رجب طیب اردوگان کا ورلڈ اکانومک فورم میں سابقہ اسرائیلی صدر شمعون پیریز کے سامنے فلسطینی مسلمانوں کے بارے میں جرأت مندانہ موقف کااظہار اور اُس کی سنسنی خیز تفصیلات بھی موجود ہیں۔
فلسطین پر یہ کتاب ایک دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔ پروفیسر خورشیداحمد کے الفاظ میں ’’یہ کتاب ان شاء اللہ انسانیت کے ضمیر کو بیدار کرنے اور مسلمان اُمت کو اس کی ذمہ داریوں کا شعور دلانے کی مفید خدمات انجام دینے کا ذریعہ بنے گی اور مصنف کے لیے دنیا اور آخرت میں اجرعظیم کا وسیلہ بنے گی‘‘۔ اُمت مسلمہ کا درد رکھنے والے ہرمسلمان کو اس کتاب کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔ (طاہرآفاقی)