سوال: میں چاہتا ہوں کہ جنت میں جائوں ، اپنے نفس سے مجاہدہ کرنا چاہتا ہوں، شیطان اور خواہشاتِ نفس سے دُور ہونا چاہتا ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھے قیامت کے دن ’ربانی بندہ‘ کا خطاب دے، میں اپنے مسلمان بھائیوں سے محبت کرنا چاہتا ہوں، اور یہ چاہتا ہوں کہ میرا ایمان مسلسل بڑھتا رہے۔ بتائیں میں کیا کروں؟
جواب: آپ نے جو سوالات کیے ہیں، وہ فطرتِ سلیمہ کے غماز ہیں۔ یہ عظیم تمنائیں ہیں جو پختہ ایمان سے ہی پوری ہوسکتی ہیں۔ حضرت سفیان ثوریؒ کا قول ہے کہ ایمان محض خواہشات اور چند رسومات کا نام نہیں، بلکہ ایمان تو وہ ہے جو دل میں بیٹھ جائے اور عمل سے اس کی تصدیق ہو۔ عربی کا مقولہ ہے کہ جو بلندیوں کا طالب ہوتا ہے، اسے راتیں جاگ کر گزارنا پڑتی ہیں۔ حضرت فضیل بن عیاضؒ کہتے ہیں: ’’تمھارے دل ایمان کی حلاوت اس وقت تک نہیں پاسکتے جب تک تم دنیا سے بے رغبتی اختیار نہیں کرلیتے‘‘۔ مزید کہتے ہیں: ’’اگر تمھیں قیام اللیل (رات کو اُٹھ کر عبادت کرنے) اور دن کو روزہ رکھنے کی طاقت نہیں تو پھر جان لو کہ تم بھلائیوں سے محروم ہو‘‘۔ سچے مومن کا دل دہکتے انگارے کی طرح ہوتا ہے۔ اس لیے آپؐ نے فرمایا: تمھارے دل میں ایمان پرانا ہوجاتا ہے جیسے کپڑا پرانا ہوتا ہے، تم اللہ سے سوال کرتے رہو کہ وہ تمھارے دلوں میں ایمان کو تازہ کرتا رہے۔ (مستدرک، معجم الطبرانی)
مومن کے دل کو بعض اوقات معصیت کے بادل گہنا دیتے ہیں، اور اس کے نور کو ڈھانپ دیتے ہیں جس سے وہ اندھیرے اور وحشت میں گرفتار ہوجاتا ہے۔ اگر بندے نے اپنے ایمان میں اضافہ کرنے کی کوشش کی اور اللہ سے مدد طلب کی تو یہ کالے بادل چھٹ جاتے ہیں اور دل کا نور پھرسے بحال ہوجاتا ہے۔ لہٰذا رہ رہ کر ایمان کی طرف واپسی ضروری ہے۔ اگر آپ ایمان کی طرف لوٹ آئے اور اس کے تقاضے پورے کردیے تو آپ کی یہ تمنائیں پوری ہوسکتی ہیں۔ اس سلسلے میں ایک اصول ہمیشہ مدنظر رہے جس سے آپ ایمان کے ہونے یا نہ ہونے کا خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔
امام ابن جوزی کہتے ہیں: ’’اے وہ کہ دروازے سے دھتکارے گئے ہو، اور جسے دوستوں کی ملاقات سے محروم کیا گیا ہے۔ اگر تم چاہتے ہو کہ بادشاہ کے ہاں اپنی قدرومنزلت کا اندازہ لگاسکو تو یہ دیکھ لو کہ اس نے تمھیں کن کاموں میں لگا دیا ہے، اور تم سے کون سے کام لے رہا ہے؟ کتنے ہی بادشاہ کے دَر پر کھڑے ہیں، مگر اندر جانے کی صرف ان کو اجازت ملتی ہے جنھیں بادشاہ چاہتا ہے۔ ہر دل تقرب حاصل کرنے کے قابل نہیں، ہرسینے کے اندر محبت نہیں، ہرنسیم نسیمِ سحر نہیں‘‘۔
اگر بندہ یہ جاننا چاہے کہ اللہ کے ہاں اس کی کیا قدرومنزلت ہے تو اسے یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ اللہ کے احکامات کی بجاآوری کس حد تک کر رہا ہے، اس کے اوقات کیسے گزررہے ہیں، اس کے مشاغل کیا ہیں۔ اگر وہ دین کی دعوت اور لوگوں کو جہنم کی آگ سے بچانے میں لگا ہوا ہے، جنت کے حصول، کمزوروں اور ناداروں کی مدد اور دیگر نیک کاموں میں اس کی صلاحیتیں لگ رہی ہیں، تو اسے بشارت ہو کہ اسے بادشاہ کا تقرب حاصل ہے۔ اس لیے کہ اللہ بھلائی کی اس کو توفیق دیتا ہے جس سے وہ محبت کرتا ہے۔ لیکن اگر وہ دعوتِ دین کے کام سے دُور ہے، بھلائی کے کاموں سے محروم ہے، محض دنیا کمانے میں لگا ہوا ہے، قیل و قال اور باتیں زیادہ مگر عمل کچھ نہیں، یا اپنی نفسانی خواہشات کے پیچھے لگا ہوا ہے، تو اسے جان لینا چاہیے کہ وہ اللہ سے دُور ہے، جنت سے قریب کرنے والے اعمال سے محروم ہے: مَنْ کَانَ یُرِیْدُ الْعَاجِلَۃَ عَجَّلْنَالَہٗ فِیْھَا مَا نَشَآئُ لِمَنْ نُّرِیْدُ ثُمَّ جَعَلْنَا لَہٗ جَھَنَّمَ (بنی اسرائیل ۱۷:۱۸) ’’جوکوئی (اس دنیا میں) جلدی حاصل ہونے والے فائدوں کا خواہش مند ہو، اسے یہیں ہم دے دیتے ہیں جو کچھ بھی جسے دینا چاہیں، پھر اس کے مقسوم میں جہنم لکھ دیتے ہیں جسے وہ تاپے گا، ملامت زدہ اور رحمت سے محروم ہوکر‘‘۔
اگر تم چاہتے ہو کہ بھلائی اور نیکی کے تمام کاموں میں تم سبقت حاصل کرتے رہو، ربانی بندہ، والدین کا فرماں بردار اور جنت کے طالب بنو، تو یہ کام کرو:
سمجھ لو کہ آدمی ’ربانی بندہ‘ تبھی بن سکتا ہے جب وہ ہرحال میں رب العالمین کا ہوکر رہے۔ قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَo (الانعام ۶:۱۶۲) ’’کہو، میری نماز، میرے تمام مراسمِ عبودیت، میرا جینا اور میرا مرنا سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے‘‘۔ ربانیت تبھی حاصل ہوسکتی ہے جب عبادت کے وسیع مفہوم کے ساتھ اللہ سبحانہ کی عبادت کی جائے۔ زندگی اور موت بلکہ تمام حرکات و سکنات اللہ کے احکام کے تابع کردی جائیں۔ بولیں تو اللہ کی مرضی کے مطابق، کوئی کام کریں تو اللہ کی مرضی کے مطابق، ان اقوال و اعمال کے پیچھے ارادہ اور ہدف و مقصد اللہ کی ذات بن جائے۔ صرف یہ نہ ہو کہ بعض مخصوص اذکار و اوراد پڑھ لیں یا کبھی کبھار تھوڑی سی رقم اداکریں یا چند دن روزہ رکھ لیں۔ جس طرح زندگی کے شعبے لامحدود ہیں اور ہمارے تعلقات اور سرگرمیاں لامحدود ہیں، اسی طرح ہرجگہ جہاں آپ ہوں اور ہرلمحہ جو آپ کو میسر ہو، اس میں اپنے مالک کی خوشنودی حاصل کرنے کے راستے تلاش کریں۔ اس فکر میں رہیں کہ جو کچھ وہ چاہتا ہے، کر گزریں۔ اس طرح آپ ’ربانی بندہ‘ بن سکتے ہیں۔(ڈاکٹرعبدالحی ابڑو)
س: میاں بیوی میں جھگڑا ہوگیا ۔ بیوی اپنے میکے چلی گئی۔ میکے والوں نے کڑی تحریری شرائط کے بغیر بیوی کو سسرال بھیجنے سے انکار کردیا۔ ایک معاہدے پر فریقین اور ثالثان نے دستخط کیے، اس کی اہم شرائط درج ذیل ہیں: ۱- اگر شوہر نے دوسری شادی کی یا پہلے سے کی ہوئی دوسری شادی ثابت ہوئی تو شوہر پہلی بیوی کو ۱۰ لاکھ روپے ادا کرے گا۔ ۲- شوہر نان نفقہ کے علاوہ بیوی کو ۱۰ہزار روپے ماہانہ بطورِ جیب خرچ ادا کرے گا۔۳- دوسری شادی کی صورت میں اپنا رہایشی مکان پہلی بیوی کے نام کردے گا۔۴- بیوی اور اس کے بچوں کے لیے علیحدہ کار اور ڈرائیور کا بندوبست کرے گا۔ ۵-بیوی کے لیے صرف یہ نصیحت درج کی گئی کہ وہ عائلی زندگی کے بابت شرعی احکامات کو پورا کرنے کی کوشش کرے گی۔
سوال یہ ہے کہ (ا) اللہ کا دین مرد کو قوام قرار دیتا ہے۔ کیا عائلی تنازعات کو حل کرنے کے لیے مذکورہ بالا شرائط منوانے سے دین کی بنیادی ترتیب درست رہ سکتی ہے؟ (ب)اسلام میں بیک وقت مرد کو چار بیویاں رکھنے کی اجازت ہے اور صرف ایک شرط باہم انصاف کرنے کی عائد کرتا ہے۔ کیا مذکورہ معاہدے میں شوہر کو دوسری شادی کرنے پر جس طرح مالی پابندی میں جکڑا گیا ہے، جائز ہے؟ کیا عدالت نبویؐ کا کوئی فیصلہ ملتا ہے کہ نبی کریمؐ نے کسی عائلی تنازعے میں مرد کو مالی شرائط میں جکڑا ہو؟
ج: جب ایک آدمی ایک شرط کو اپنی مرضی سے قبول کرلے اور اس کا وعدہ کرے تو اس کا پورا کرنا اس پر لازم ہوجاتا ہے۔ شوہر کو ان شرائط کے بارے میں اس وقت سوچنا چاہیے تھا جب معاہدہ ہورہا تھا۔ شوہر کے ہمدرد جن کو اب ان شرائط پر اعتراض ہے، انھیں بھی اس وقت سوچنا چاہیے تھا جب یہ شرائط پیش کی جارہی تھیں۔ اگر اس وقت ان شرائط کو قبول نہ کرنے پر متوجہ نہ کیا تو اب شرائط کو پورا کرنے دیا جائے۔ اخلاقاً شوہر پر ان شرائط کو پورا کرنے کی پابندی ہے۔ البتہ شرعی عدالت میں مقدمہ کیا جائے، تو عدالت صرف نصیحت کرے گی۔ ان شرائط کی خلاف ورزی پر تنسیخ نکاح کی ڈگری جاری نہ کرے گی۔ اس لیے کہ نکاح منعقد کرتے وقت یہ شرائط نہیں لگائی گئی تھیں، یہ بعد میں لگائی گئی ہیں اور وہ بھی لڑکی کے ماں باپ کی طرف سے لگائی گئی ہیں۔ اگر لڑکی شوہر کے ساتھ رہنے کے لیے تیار ہے، تب ان شرائط کا کیا جواز ہے۔ یہ شرائط تو ماں باپ نے اپنی اَنا کی تسکین کے لیے لگائی ہیں۔ بنابریں شوہر قانوناً ان شرائط کا پابند نہیں ہے لیکن باہمی نبھائو تو قانون نہیں کراتا، باہمی رضا مندی سے ہوتا ہے۔ اس لیے اگر بیوی ان شرائط کو لوجہ اللہ واپس لے لے تو اس کے لیے جائز بلکہ مستحسن ہے۔ کوشش کی جائے کہ یہ رشتہ نہ ٹوٹے اور حتی الامکان ایک دوسرے کی رعایت کریں تاکہ زندگی خوش گوار گزرے۔ دوسری شادی بیوی کو اطلاع دے کر کی جائے تاکہ پہلی بیوی ناراض ہوکر ماں باپ کے گھر نہ بیٹھ جائے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’وہ شرط جو تمام شرطوں سے زیادہ پورا کیے جانے کی مستحق ہے، نکاح کی شرط ہے جس سے تم فرج کو حلال کرتے ہو‘‘(متفق علیہ)۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وعدہ پورا کرنے کی اس قدر تاکید کی ہے کہ وعدے کی خلاف ورزی کو نفاق قرار دیاہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب ایسی صورت حال پیش کی جاتی تھی کہ عورت شوہر کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی اور شوہر کے ساتھ رہنا اس کے لیے گراں ہوتا تو آپؐ شوہر کو مہر واپس دلا کر طلاق دلوا دیتے تھے۔ ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ حضرت ثابت بن قیسؓ کی بیوی آپؐ کے پاس آئیں اور عرض کیا کہ میں ثابتؓ کے اخلاق اور دین پر کوئی اعتراض نہیں کرتی لیکن میرے لیے ایک بیوی کی حیثیت سے اس کے ساتھ خوش دلی کے ساتھ رہنا ممکن نہیں ہے۔ میں کراہت کے ساتھ بیوی بن کر رہنے کو کفر (ناشکری)سمجھتی ہوں۔ اس پر آپؐ نے حضرت ثابت بن قیسؓ کو پوچھے بغیر فرمایا: کیا تو اسے اس کا باغ جو اس نے تجھے مہر میں دیا ہے واپس کرتی ہے؟ نبیؐ نے یہ بات اس لیے پوچھی کہ آپؐ سمجھ گئے کہ خاتون سچی مسلمان ہے، اسلام اور ایمان کے تقاضوں کو سمجھتی ہے اور اسے بزورِ رشتۂ نکاح میں باندھے رکھنا مناسب نہیں ہے۔ تب آپؐ نے حضرت ثابت بن قیسؓ کو بلایا اور ان سے فرمایا کہ اسے طلاق دے دو۔ چنانچہ انھوں نے طلاق دے دی۔ (بخاری)
آپؐ نے ایسا اس لیے کیا کہ اسلام ایسا معاشرہ قائم کرنا چاہتا ہے جس میں معاشرے کی پہلی اکائی اطمینان اور سکون اور پیارو محبت کی زندگی پر مبنی ہو تاکہ اقامت ِ دین کے لیے جدوجہد دل جمعی اور کسی پریشانی کے بغیر کی جاسکے۔ اگر ایک آدمی اپنے گھر میں پریشان ہوگا تو وہ کفار اور منافقین سے کیسے جہاد کرسکے گا۔ صحابہ کرامؓ نے جس جذبے اور جوش اور اطمینان سے جہاد کیا اور قربانیاں دیں، اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ اپنے گھروں کے لیے فکرمند نہ تھے۔ ان کی بیویاں ان کے گھروں، ان کی اولاد اور ان کی امانتوں کی پوری طرح محافظ تھیں۔ آج اسی قسم کے معاشرے کی ضرورت ہے۔ جب محبت ہوتی ہے تو عسرت کی زندگی بھی قبول ہوتی ہے۔ شرائط مقرر کرنا اس بات کی نشان دہی کرتا ہے کہ فریقین کو بزور باندھ کر رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ثالثوں کو چاہیے کہ وہ مذکورہ جوڑے کو محبت کے رشتے میں باندھنے کی کوشش کریں اور اگر وہ سمجھتے ہیں کہ ان میں محبت ہے تو لڑکی کے والدین کو چاہیے کہ جس طرح نکاح سے پہلے شرطیں نہیں لگائیں، اب بھی شرائط کو واپس لے لیں۔ لڑکی کو چاہیے کہ والدین کو شرطیں واپس لینے کی درخواست کرے۔ اگر میاں بیوی راضی ہیں، محبت سے رہنے کے لیے تیار ہیں تو پھر شرطوں کو مسئلہ نہ بنائیں۔ بنیادی بات باہمی رضامندی اور محبت ہے، اس پر توجہ دی جائے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دین کی روح کے مطابق رشتوں کو استوار کرنے اور قائم رکھنے کی صلاحیت اور جذبے سے نوازے، آمین۔(مولانا عبدالمالک)