’۹۱سالہ پروفیسر غلام اعظم کو دینی تو سزاے موت چاہیے، مگر صحت اور عمر کا خیال کرتے ہوئے ہم ۹۰سال قید کی سزا سناتے ہیں، جو تسلسل کے ساتھ جاری رہے گی یا پھر ان کی موت تک برقرار رہے گی‘۔
یہ الفاظ فضل کبیر، جہانگیر حسن، انوارالحسن پر مشتمل نام نہاد ’جنگی جرائم کے ٹربیونل‘ کے فیصلے میں درج ہیں، جو ۱۵جولائی ۲۰۱۳ء کو سنایا گیا۔اس عدالتی ڈرامے کے اسٹیج کو بنگلہ دیش کے اہلِ دانش اور قانون دانوں نے واضح طور پر مسترد کردیا تھا، تاہم بین الاقوامی سطح پر بھی اس کی قانونی اور اخلاقی حیثیت کو کسی نے مان کر نہ دیا۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں:
علاوہ ازیں یورپ، ملایشیا اور ترکی وکلا کی تنظیموں نے اس سارے سلسلے کو قانون کے ساتھ صریح مذاق قرار دیا، اور اسی مضحکہ خیز ’عدالت‘ نے بنگلہ دیش ہی نہیں، بلکہ عالمِ اسلام کے ایک بزرگ، عالمِ دین اور رہنما پروفیسر غلام اعظم کے لیے عملاً سزاے موت کی سزا کا اعلان کیا ہے۔
پروفیسر غلام اعظم ۷نومبر ۱۹۲۲ء کو پیدا ہوئے۔ زمانۂ طالب علمی میں تحریکِ پاکستان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ ۱۹۵۰ء میں ڈھاکا یونی ورسٹی اسٹوڈنٹس یونین کے جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے، پھر بنگلہ زبان تحریک میں حصہ لیا اور ۱۹۵۵ء میں جماعت اسلامی سے وابستہ ہوئے۔ انھوں نے پاکستان میں دعوتِ دین، دستور سازی، بنیادی انسانی اور جمہوری حقوق کی بحالی کے لیے بھرپور جدوجہد کی اور متعدد بار قیدوبند کی آزمایشوں سے گزرے۔غلام اعظم صاحب کی جماعت اسلامی میں شمولیت کے بعد، مشرقی پاکستان جماعت اسلامی کی ترقی اور پھیلائو کی رفتار میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ اُن کی پُرکشش اور دل نواز شخصیت نے اپنوں اور غیروں کے دلوں کو جس طرح فتح کیا، یہی خوبی دشمن کے لیے کانٹا بن گئی۔
یکم سے ۲۴ مارچ ۱۹۷۱ء تک عوامی لیگ نے غیربنگالیوں کا قتلِ عام کیا ، اُردو بولنے والوں کی عورتوں کی سرعام بے حُرمتی کی، ہزاروں بہاری ، پنجابی اور پٹھان مسلمانوں کو چُن چُن کر ذبح کیا۔ پھر ۲۵مارچ ۱۹۷۱ء کو پاک آرمی نے جوابی آپریشن کیا تو، پروفیسر غلام اعظم ان مرکزی شخصیات میں شامل تھے، جنھوں نے ’امن کمیٹی‘ قائم کرکے شہری زندگی کی بحالی کے لیے سرتوڑ کوششیں کیں۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے بھارتی فوج کے پشت پناہ مداخلت کاروں کی دہشت گردانہ کارروائیوں کی پروا نہ کرتے ہوئے، مشرقی پاکستان کے تمام اضلاع اور اکثر تحصیل ہیڈکوارٹرز کا دورہ کیا۔ پروفیسر صاحب کے رفیقوں میں بزرگ سیاست دان نورالامین، فضل القادر چودھری، مولوی فریداحمد، خواجہ خیرالدین، شفیق الاسلام وغیرہ شامل تھے۔ ان کاوشوں سے حالات میں تبدیلی آئی، مگر بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی نے مشرقی پاکستان میں بھیجی جانے والی بھارتی آلۂ کار مکتی باہنی اور کمیونسٹ تخریب کاروں کی مدد سے پاکستان توڑنے کے اس موقع سے پورا فائدہ اُٹھایا۔ بھارتی جرنیلوں کی کتابیں گواہ ہیں کہ وہ مارچ سے دسمبر تک پوری طرح مشرقی پاکستان میں علیحدگی پسندوں کی مدد میں مصروف تھے۔ آخرکار ۱۶دسمبر ۱۹۷۱ء کو پاکستان توڑنے کا منصوبہ مکمل کیا۔
پروفیسر غلام اعظم ۲۱دسمبر ۱۹۷۱ء کو مغربی پاکستان سے مشرقی پاکستان (بعد میں بنگلہ دیش) جارہے تھے کہ بھارتی افواج نے مشرقی پاکستان پر حملہ کردیا، اس لیے ان کا طیارہ کولمبو سے واپس مغربی پاکستان آگیا۔ اس کے بعد وہ ۱۹۷۴ء تک پاکستان میں رہے۔ ۱۸؍اپریل ۱۹۷۳ء کو مجیب حکومت نے اُن کی شہریت منسوخ کردی۔ ایک طویل عرصہ جلاوطنی گزارنے کے بعد پروفیسر صاحب ۱۱؍اگست ۱۹۷۸ء کو ڈھاکہ واپس چلے آئے اور ۲۰برس تک عدالتی جنگ لڑنے کے بعد اعلیٰ عدلیہ نے پروفیسر صاحب کی شہریت بحال کی، اور وہ جماعت اسلامی کے امیر منتخب ہوئے۔
۱۱جنوری ۲۰۱۲ء کو بھارت نواز حسینہ واجد حکومت نے انھیں گرفتار کیا اور خراب صحت کے باوجود پہلے پہل طبی سہولت دینے سے انکار کیا۔ پھر انھیں قرآن پاک تک اپنے پاس رکھنے کے لیے عدالتوں میں درخواست دائر کرنا پڑی ، اور چھے ماہ کی جدوجہد کے بعد قرآن،سیرتِ رسولؐ ، حدیث کے انتخاب پر مشتمل اور دعائوں پر مبنی ایک ایک کتاب فراہم کی گئی۔
ان کے مقدمے کی کارروائی کو عالمی اخبارات نے بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔ برطانیہ اور ترکی سے وکلا کی تنظیموں نے غلام اعظم صاحب کے مقدمے کی پیروی کے لیے آنا چاہا، مگر نام نہاد ٹربیونل نے انھیں اجازت دینے سے انکار کر دیا۔ غلام اعظم صاحب کی طرف سے ۲ہزار گواہوں نے عدالت میں پیش ہونے کے لیے اپنے نام درج کرائے، مگر صرف ۱۲؍افراد کو گواہی کی اجازت دی گئی اور ان میں سے بھی متعدد افراد کو دھمکایا ڈرایا گیا، حتیٰ کہ ایک ہندو گواہ شکھو رنجن کو اغوا کرلیا۔ ایک اطلاع کے مطابق اُسے اغوا کرکے کلتّے لے جایا گیا ہے۔ دوسری جانب استغاثے پر گواہ پیش کرنے کے لیے کوئی پابندی نہ لگائی۔ یہی نہیں بلکہ انڈین ایجنسی ’را‘ (RAW) کے ایجنٹ شہریار کبیر کو ایک معزز اتھارٹی کے طور پر تسلیم کیا۔ یہ وہی فرد ہے، جسے پاکستان میں ہیومن رائٹس کمیشن کے بھارت نواز پروپیگنڈا مینیجرز نے گذشتہ برس بلاکر لیکچر کرائے تھے۔
پروفیسر غلام اعظم صاحب کو اس گرفتاری کے دوران اپنے مرحوم بھائی کی نمازِ جنازہ میں شرکت تک کی اجازت نہ دی گئی، جب کہ گرفتاری سے قبل پروفیسر صاحب کے بیٹے بریگیڈیئر جنرل عبداللہ اعظم کو بغیر کسی وجہ کے فوج سے برطرف کردیا گیا۔پروفیسر غلام اعظم کی اس سزا نے پورے بنگلہ دیش کو ہلا کر رکھ دیا، مگر وزیراعظم حسینہ واجد نے ۱۶جولائی کو پارلیمنٹ میں خطاب کرتے ہوئے کہا: ’’ہم خوش ہیں کہ غلام اعظم کو سزا ملی ہے۔ ہمیں اُمید ہے کہ ہم اپنی مدتِ حکومت میں سزائوں پر عمل درآمد کرائیں گے۔ میں ججوں کی جرأت کو سلام پیش کرتی ہوں کہ انھوں نے عالمی اور مقامی دبائو کو مسترد کردیا ہے، اور یہ ہماری بہت بڑی قومی کامیابی ہے‘‘۔ یہ وہ ’کامیابی‘ ہے جس کی کوئی اخلاقی اور قانونی حیثیت نہیں ہے، مگر افسوس تو پاکستان کے حکمرانوں اور دانش وروں پر ہے۔ حکومت اور دفترخارجہ اس پر کوئی ردعمل نہیں دے رہے، جب کہ پروفیسر صاحب کو سزا دی گئی ہی اس جرم کی بنا پر ہے کہ ’’انھوں نے ۱۹۷۱ء میں پاکستان کا ساتھ دیا‘‘___ اور پاکستان ہے کہ خاموش!
اگر فیصلے کو پڑھا جائے تو وہ تمام تر اخباری رپورٹوں پر مشتمل ہے۔ یاد رہے کہ اُس وقت ملک پر مارشل لا نافذ تھا اور سنسرشپ کے باعث پروفیسر صاحب کے حکومت وقت پر تنقیدی بیانات کی اشاعت ممکن نہ تھی۔ پھر غلام اعظم صاحب پر براہِ راست الزام لگانے کے بجاے، جماعت اسلامی کو ’مجرم‘ قرار دینے کے لیے استغاثے کے مخالفانہ سیاسی بیانات سے مقدمے کو سجایا گیا ہے۔ درحقیقت یہ فیصلہ پروفیسر صاحب کی زندگی سے کھیلنے اور آخرکار جماعت اسلامی، آج کی جماعت اسلامی کے لیڈروں اور لٹریچر پر پابندی لگانے کا فیصلہ ہے۔
وہ لوگ جو آج یہاں اپنے آپ کو محفوظ سمجھتے ہیں، چاہے وہ اسٹیبلشمنٹ ہو یا حکومتی کارندے، انھیں یہ سمجھنا چاہیے کہ یہ مقدمے بنگلہ دیش کی نمایشی حکومت کے مقدمے نہیں، بلکہ یہ بھارت کے سیاسی پروپیگنڈے اور فوجی یلغار کا ایک محاذ ہیں۔ آپ دیکھیں پہلے یہ مقدمے دو، پھر چار، اس کے بعد ۱۱؍افراد پر چلنے شروع ہوئے۔ اب ان کا دائرہ ان لوگوں تک پھیلا دیا گیا ہے، جو امریکا یا برطانیہ کے شہری بن چکے ہیں۔ جس نام نہاد بنگلہ دیشی ایکٹ کی بنیاد پر یہ ٹربیونل بنایا گیا ہے اس کی یہ شق قابلِ غور ہے: ’’یہ ٹربیونل ہر اس فوجی، دفاعی یا رضاکار فرد یا گروہ پر مقدمہ چلانے کا اختیار رکھتا ہے، جس نے بنگلہ دیش کی سرزمین پر جنگی جرم کیا، چاہے وہ کسی بھی قومیت سے تعلق رکھتا ہو‘‘۔ اور پھر یہ پے درپے مقدموں کے جعلی فیصلے مستقبل کے ڈرامے کا رُخ دکھاتے ہیں۔بنگلہ دیش تو محض ایک دکھلاوا ہے، اصل ڈائریکٹر بھارت ہے۔
پروفیسر غلام اعظم صاحب نے حق کی شہادت دے کر اپنا فرض ادا کردیا ہے۔ کیا اس شہادت کی شہادت دینے والے کسی غیبی مدد کا انتظار کریںگے یا قافلۂ حق میں شہادتِ حق ادا کریں گے!
۱۷جولائی کو اسی خانہ ساز عدالت نے بنگلہ دیش جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل علی احسن محمد مجاہد کو سزاے موت سنائی۔ سزاے موت کا اعلان سننے کے بعد وہ پُرسکون انداز سے کھڑے ہوئے اور اعلان کرنے والے سے مخاطب ہوکر کہا: ’’آپ کا فیصلہ سو فی صد بددیانتی پر مبنی ہے اور میں سو فی صد بے گناہ ہوں۔ ہاں، میرا ایک جرم ہے اور وہ یہ کہ میں اسلامی تحریک کا کارکن ہوں‘‘۔
علی احسن محمد مجاہد گذشتہ دورِ حکومت میں مرکزی وزیر کی حیثیت سے شاندار کارکردگی کے باعث بنگلہ دیش کی بیوروکریسی اور پالیسی ساز اداروں اور دانش وروں کی نگاہوں میں ایک دیانت دار، پُرعزم، محنتی اور معاملہ فہم رہنما کی حیثیت سے اُبھرے ہیں۔ اُن کی یہ متاثر کن کارکردگی حسینہ واجد حکومت کو ہضم نہ ہوسکی۔
اس سال کے آغاز سے فیصلے سنائے جارہے ہیں۔ سب سے پہلے ۲۱جنوری کو جماعت اسلامی کے رہنما ابوالکلام آزاد کو سزاے موت سنائی گئی۔ اس کے بعد اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل عبدالقادر ملّا کو ۵فروری کو عمرقید کی سزا سنائی گئی۔ ۲۸فروری کو جماعت کے مرکزی رہنما اور بنگلہ دیش کے مقبول ترین مذہبی راہنما دلاور حسین سعیدی کو سزاے موت دی گئی۔ قیدیوں کو شرمناک حالت میں رکھا گیا ہے۔ غلام اعظم صاحب ۸فٹ کی کوٹھڑی میں تھے۔ انھیں ڈھاکے سے دُور دوسری جیل میں منتقل کر کے اب علی احسن مجاہد اس میں لائے گئے ہیں۔ غلام اعظم صاحب نے کہا: ایسا لگ رہا ہے کہ قبر سے نکلا ہوں۔
علی احسن مجاہد کی سزا کے بعد اب مولانا مطیع الرحمن نظامی کے مقدمے کی سماعت شروع ہوگئی ہے۔ اس کے بعد ابوالکلام محمد یوسف، مولانا عبدالسبحان، ازہرالاسلام اور میرقاسم علی کے مقدمات پر فیصلے ہوں گے۔
یہ فیصلے اور یہ ڈرامے ایک طرف، مگر پاکستان کادفترخارجہ کہہ رہا ہے کہ ’’یہ بنگلہ دیش کا اندرونی معاملہ ہے‘‘ حالانکہ یہ تمام فیصلے پاکستان پر الزام تراشی کا دفتر اور متحدہ پاکستان کی حمایت کا ’جرم‘ کرنے والوں کے لیے پھانسی کے اعلانات ہیں۔ اس بے رحمانہ انداز سے مظلوموں کے زخموں پر نمک پاشی کرکے مسلم لیگ کی حکومت نے پاکستان اور تحریکِ پاکستان سے مذاق کیا ہے۔