فلسفۂ الحاد نے جس برق رفتاری سے دنیا میں ترقی کی، اس کی بڑی وجہ لبرلزم (Liberalism) ہے.... مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس آزاد خیالی نے ذہنی انارکی کی شکل اختیار کرلی اور اب روشن خیالی کے یہ معنی قرار پاگئے ہیں کہ انسان کو ہرقسم کی پابندی سے آزاد ہونا چاہیے، خواہ وہ مذہب کی عائد کردہ ہو یا سماج کی....۔
تہذیب ِ الحاد کا دوسرا عنصر ترکیبی مادیت (Materialism) ہے۔ اسے مختصر الفاظ میں یوں کہاجاسکتا ہے کہ دنیا میں مادے کے سوا کوئی چیز نہیں.... حتیٰ کہ انسان بھی صرف برقیہ اور سالمیہ ہی کی کرشمہ سازی ہے۔ اسے اس دنیا میں اگر کسی چیز کی ضرورت ہے تو وہ صرف مادی احتیاجات کی تسکین ہے۔ اس نکتے تک پہنچنے کے لیے کافی مدت صرف ہوئی۔ یورپ کی نشاتِ ثانیہ کے بعد کچھ مدت تک مادی زندگی اور مسیحی اعمال و رسوم کو جمع کرنے کی کوشش کی جاتی رہی۔ مذہب کی پیروی سے وہ پوری طرح آزاد ہونا نہیں چاہتے تھے، اور اس بات کے آرزومند تھے کہ وہ کسی نہ کسی طرح کم از کم زندگی کے پرائیویٹ معاملات میں مذہبی رسوم کی ضرور پابندی کریں۔ ان کا خیال تھا کہ اس سے قوم کے افراد کے درمیان ربط قائم رہ سکے گا اور اس طرح ملک اجتماعی انتشار اور اخلاقی ابتری سے محفوظ رہے گا۔ لیکن مادی تہذیب کا ریلا اتنا تیز تھا کہ اس کے سامنے مذہب اس کمزور حیثیت میں کھڑا نہ رہ سکا، اور وقت کے دھارے کی نذر ہوکر رہ گیا، اور اس کی جگہ مادہ پرستی نے لے لی۔ مصنفین، اہلِ قلم اور اہلِ دماغ گروہوں نے اپنی جادوبیانی، سحرطرازی اور زورِ خطابت سے قدیم مذہبی رسوم اور قیود کے خلاف ملک میں ایک عام بغاوت برپا کردی۔ انھوں نے دنیا پرستی کو نہایت ہی دل فریب بناکر پیش کیا۔ جو چیز اس کی راہ میں حائل ہوئی، اس کے خلاف غیظ و غضب کا جذبہ بھڑکایا اور اس طرح طبیعتوں کو ہرقسم کی قیدوبند سے آزاد کردیا۔ انھیں زندگی سے بھرپور تمتُع، مطالباتِ نفس کی بے عنان تکمیل اور لذت پرستی کی علانیہ دعوت دی۔ حرص و ہویٰ کی اس زندگی کی اہمیت جتانے میں بڑے غلو سے کام لیا گیا۔ نقد لذت اور ظاہری اور محسوس مادی نفع کے سوا ہرچیز کا ابطال کیا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ یورپ کا موجودہ مذہب صرف مادہ پرستی ہے۔ (’انسانیت کی تعمیرنو اور اسلام‘، عبدالحمید ایم اے، ترجمان القرآن، جلد۴۰، عدد ۴،۵، شوال، ذیقعد ۱۳۷۲ھ، جولائی اگست ۱۹۵۳ء، ص ۸۶-۸۷)