میں آپ کو اور اپنے تمام مسلمان بھائیوں کو عید کی مبارک باد دیتا ہوں!
عید کی مبارک باد کے حقیقی مستحق وہ لوگ ہیں جنھوں نے رمضان المبارک میں روزے رکھے۔ قرآنِ مجید کی ہدایت سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھانے کی فکر کی، اِس کو پڑھا، سمجھا، اُس سے رہنمائی حاصل کرنے کی کوشش کی اور تقویٰ کی اُس تربیت کا فائدہ اُٹھایا جو رمضان المبارک ایک مومن کو دیتا ہے۔
قرآنِ مجید میں رمضان کے روزوں کی دو ہی مصلحتیں بیان کی گئی ہیں۔ ایک یہ کہ ان سے مسلمانوں میں تقویٰ پیدا ہو:
کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ (البقرہ۲:۱۸۳) ، تم پر روزے فرض کیے گئے جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم میں تقویٰ پیدا ہو۔
دوسری یہ کہ مسلمان اُس نعمت کا شکر ادا کریں جو اللہ تعالیٰ نے رمضان میں قرآنِ مجید نازل کر کے ان کو عطا کی ہے:
لِتُکَبِّرُوا اللّٰہَ عَلٰی مَا ھَدٰکُمْ وَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ (البقرہ۲:۱۸۵) ، تاکہ تم اللہ کی تکبیر کرو اور اس کا شکر ادا کرو، اُس ہدایت پر جو اُس نے تمھیں دی ہے۔
دنیا میں اللہ جل شانہ ٗ کی سب سے بڑی نعمت نوعِ انسانی پر اگرکوئی ہے تو وہ قرآنِ مجید کو نازل کرنا ہے۔ تمام نعمتوں سے بڑھ کر یہ نعمت ہے ، اس لیے کہ رزق اور اس کے جتنے ذرائع ہیں، مثلاً یہ ہوا اور یہ پانی اور یہ غلے اور اسی طرح معیشت کے جو ذرائع ہیں جن سے انسان اپنے لیے روزی کماتا ہے، مکان بناتا ہے، کپڑے فراہم کرتا ہے۔ یہ ساری چیزیں بھی اگرچہ اللہ تعالیٰ کا فضل اور احسان ہی ہیں، لیکن یہ فضل و احسان اور اللہ تعالیٰ کی یہ نعمتیں محض انسان کے جسم کے لیے ہیں۔ قرآنِ مجید وہ نعمت ہے جو انسان کی روح کے لیے، اُس کے اخلاق کے لیے اور درحقیقت اُس کی اصل انسانیت کے لیے نعمت عظمیٰ ہے۔ ایک مسلمان اللہ تعالیٰ کا شکر اسی صورت میں صحیح طور پر بجالاسکتا ہے، جب کہ وہ اِس کے دیے ہوئے رزق پر بھی شکر اداکرے اور اُس کی دی ہوئی اِس نعمت ہدایت کے لیے شکر ادا کرے جو قرآن کی شکل میں اُس کو دی گئی ہے۔ اس کا شکر ادا کرنے کی یہ صورت نہیں ہے کہ آپ بس زبان سے شکر ادا کریں اور کہیں کہ اللہ تیرا شکر کہ تو نے قرآن ہمیں دیا، بلکہ اس کے شکر کی صحیح صورت یہ ہے کہ آپ قرآن کو سرچشمۂ ہدایت سمجھیں، دل سے اس کو رہنمائی کا اصل مرجع مانیں اور عملاً اس کی رہنمائی کا فائدہ اُٹھائیں۔
قرآنِ مجید آپ کو اپنی ذاتی زندگی کے متعلق ہدایت کرتا ہے کہ آپ کس طرح سے ایک پاکیزہ زندگی بسر کریں۔ وہ آپ کو ان چیزوں سے منع کرتا ہے جو آپ کی شخصیت کے نشوونما کے لیے نقصان دہ ہیں۔ وہ آپ کو وہ چیزیں بتاتا ہے جن پر آپ عمل کریں تو آپ کی شخصیت صحیح طور پر نشوونما پائے گی اور آپ ایک اچھے انسان بن سکیں گے۔ وہ آپ کی اجتماعی زندگی کے متعلق بھی مفصل ہدایات آپ کو دیتا ہے۔ آپ کی معاشرتی زندگی کیسی ہو؟ آپ کے گھر کی زندگی کیسی ہو؟ آپ کے تمدن اور آپ کی تہذیب کا نقشہ کیا ہو؟ آپ کی ریاست کن طریقوں پر چلے؟ آپ کا قانون کیا ہو؟ آپ کی معاشرتی زندگی کا نظام کیسا ہو؟ کن طریقوں سے آپ اپنی روزی حاصل کریں؟ کن راہوں میں آپ اپنی کمائی ہوئی دولت کو خرچ کریں اور کن راہوں میں نہ کریں؟ آپ کا تعلق اپنے خدا کے ساتھ کیسا ہو؟ آپ کا تعلق خود اپنے نفس کے ساتھ کیا ہو؟ آپ کا تعلق خدا کے بندوں کے ساتھ کیسا ہو؟ اپنی بیوی کے ساتھ، اپنی اولاد کے ساتھ، اپنے والدین کے ساتھ، اپنے رشتہ داروں کے ساتھ، اپنے معاشرے کے افراد کے ساتھ اور دنیا کے تمام انسانوں کے ساتھ، حتیٰ کہ جمادات اور حیوانات کے ساتھ اور خدا کی دی ہوئی تمام مختلف نعمتوں کے ساتھ آپ کا برتائو کیسا ہونا چاہیے؟ زندگی کے ان سارے معاملات کے لیے قرآنِ مجید آپ کو واضح ہدایات دیتا ہے۔ ایک مسلمان کا کام یہ ہے کہ اُس کو اصل سرچشمۂ ہدایت مانے، رہنمائی کے لیے اُسی کی طرف رجوع کرے اور اُن احکامات و ہدایات اور اُن اصولوں کو صحیح تسلیم کرے جو وہ دے رہا ہے اور اُن کے خلاف جو چیز بھی ہو، اُس کو رد کردے خواہ وہ کہیں سے آرہی ہو۔ اگر کسی شخص نے اِس رمضان المبارک کے زمانے میں قرآن کو اِس نظر سے دیکھا اور سمجھا ہے اور کوشش کی ہے کہ اُس کی تعلیم و ہدایت کو زیادہ سے زیادہ اپنی سیرت و کردار میں جذب کرے، تو اِس نے واقعی اِس نعمت پر اللہ کا صحیح شکر ادا کیا ہے۔ وہ حقیقت میں اس پر مبارک باد کا مستحق ہے کہ رمضان المبارک کا ایک حق جو اُس پر تھا، اسے اُس نے ٹھیک ٹھیک ادا کردیا۔
رمضان المبارک کے روزوں کا دوسرا مقصد جس کے لیے وہ آپ پر فرض کیے گئے ہیں، یہ ہے کہ آپ کے اندر تقویٰ پیدا ہو۔ آپ اگر روزے کی حقیقت پر غور کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ تقویٰ پیدا کرنے کے لیے اس سے زیادہ کارگر ذریعہ اور کوئی نہیں ہوسکتا۔ تقویٰ کیا چیز ہے؟ تقویٰ یہ ہے کہ آدمی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے بچے اور اُس کی فرماں برداری اختیار کرے۔ روزہ مسلسل ایک مہینے تک آپ کو اِسی چیز کی مشق کراتا ہے۔ جو چیزیں آپ کی زندگی میں عام طور پر حلال ہیں وہ بھی اللہ کے حکم سے روزے میں حرام ہوجاتی ہیں اور اس وقت تک حرام رہتی ہیں جب تک اللہ ہی کے حکم سے وہ حلال نہ ہوجائیں۔ پانی جیسی چیز جو ہرحال میں حلال و طیب ہے، روزے میں جب اللہ حکم دیتا ہے کہ یہ اب تمھارے لیے حرام ہے تو آپ اس کا ایک قطرہ تک حلق سے نہیں اُتار سکتے، خواہ پیاس سے آپ کا حلق چٹخنے ہی کیوں نہ لگے۔ البتہ جب اللہ پینے کی اجازت دے دیتا ہے اُس وقت آپ اُس کی طرف اِس طرح لپکتے ہیں گویا کسی نے آپ کو باندھ رکھا تھا اور آپ ابھی کھولے گئے ہیں۔ ایک مہینے تک روزانہ یہ باندھنے اور کھولنے کا عمل اسی لیے کیا جاتا ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کی پوری پوری بندگی و اطاعت کے لیے تیار ہوجائیں۔ جس جس چیز سے وہ آپ کو روکتا ہے اُس سے رُکنے کی، اور جس جس چیز کا وہ آپ کو حکم دیتا ہے اس کو بجالانے کی آپ کو عادت ہوجائے۔ آپ اپنے نفس پر اتنا قابو پالیں کہ وہ اپنے بے جا مطالبات اللہ کے قانون کے خلاف آپ سے نہ منوا سکے۔ یہ غرض ہے جس کے لیے روزے آپ پر فرض کیے گئے ہیں۔
اگر کسی شخص نے رمضان کے زمانے میں روزے کی اس کیفیت کو اپنے اندر جذب کیا ہے تو وہ حقیقت میں مبارک باد کا مستحق ہے، اور اس سے زیادہ مبارک باد کا مستحق وہ شخص ہے جو مہینے بھر کی اس تربیت کے بعد عید کی پہلی ساعت ہی میں اسے اپنے اندر سے اُگل کر پھینک نہ دے بلکہ باقی ۱ ۱ مہینے اس کے اثرات سے فائدہ اُٹھاتا رہے۔
آپ غور کیجیے! اگر ایک شخص اچھی سے اچھی غذا کھائے جو انسان کے لیے نہایت قوت بخش ہو، مگر کھانے سے فارغ ہوتے ہی حلق میں انگلی ڈال کر اس کو فوراً اُگل دے تو اس غذا کا کوئی فائدہ اُسے حاصل نہ ہوگا، کیونکہ اُس نے ہضم ہونے اور خون بنانے کا اسے کوئی موقع ہی نہ دیا۔ اس کے برعکس اگر ایک شخص غذا کھا کر اُسے ہضم کرے اور اُس سے خون بن کر اُس کے جسم میں دوڑے، تو یہ کھانے کا اصل فائدہ ہے جو اُس نے حاصل کیا۔ کم درجے کی مقوی غذا کھاکر اُسے جزوِبدن بنانا اس سے بہتر ہے کہ بہترین غذا کھانے کے بعد استفراغ [قے]کردیا جائے۔ ایسا ہی معاملہ رمضان کے روزوں کا بھی ہے۔ ان کا حقیقی فائدہ آپ اسی طرح اُٹھا سکتے ہیں کہ ایک مہینے تک جو اخلاقی تربیت اِن روزوں نے آپ کو دی ہے ، عید کے بعد آپ اس کو نکال کر اپنے اندر سے پھینک نہ دیں، بلکہ باقی ۱۱ مہینے اس کے اثرات کو اپنی زندگی میں کام کرنے کا موقع دیں۔ یہ فائدہ اگر کسی شخص نے اِس رمضان سے حاصل کرلیا تو وہ واقعی پوری پوری مبارک باد کا مستحق ہے کہ اُس نے اللہ کی ایک بہت بڑی نعمت پالی۔(تفہیمات، چہارم، ص ۱۶۶-۱۷۰)