ڈاکٹر یوسف القرضاوی


تعصب اُن انتہائی خطرناک چیزوں میں سے ہے جو معاشروں کو تباہ کردیتی ہیں، اُن کو ایک دوسرے کا دشمن بنادیتی ہیں۔ بلکہ یہاں تک ہوتا ہے کہ ان کے درمیان جنگ کی آگ بھڑکا دیتی ہیں۔ حتیٰ کہ ایک ہی معاشرے اور ایک ہی وطن کے باشندے آپس میں برسرِجنگ ہوجاتے ہیں۔ تعصب سے مراد یہ نہیں ہے کہ آدمی اپنی آزاد مرضی سے اختیار کیے ہوئے اپنے عقیدے اور  افکار کے اُوپر فخر کرے۔ بلکہ تعصب کا مطلب یہ ہے کہ آدمی اپنی فکر اور عقیدے کی محبت میں اس طرح اندھا ہوجائے کہ دوسروں کو اپنا مخالف اور دشمن قرار دے لے۔ اُن سے نقصان اور شر کا اُسے اندیشہ لاحق رہے۔ اُن کے لیے بُرا سوچے اور بُرا کرے۔ اُن کے خلاف ناپسندیدگی اور تشدد کی فضا پیدا کرے۔ جس کی وجہ سے لوگ امن و سکون کی زندگی نہ گزار سکیں۔ اور یہ امن و سکون انسانیت کے لیے اللہ رب العزت کی عظیم نعمت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب قریش کو اس نعمت سے نوازا تو فرمایا: فَلْیَعْبُدُوْا رَبَّ ہٰذَا الْبَیْتِ o الَّذِیْٓ اَطْعَمَھُمْ مِّنْ جُوْعٍ وَّاٰمَنَھُمْ مِّنْ خَوْفٍ o (قریش: ۱۰۶:۳-۴)، ’’لہٰذا اُن کو چاہیے کہ اس گھر کے رب کی عبادت کریں جس نے انھیں بھوک سے بچاکر کھانے کو دیا اور خوف سے بچاکر امن عطا کیا‘‘۔

قرآن مجید نے بھوک اور خوف کو معاشرے کے لیے بدترین مصیبت قرار دیتے ہوئے کہا:  وَ ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا قَرْیَۃً کَانَتْ اٰمِنَۃً مُّطْمَئِنَّۃً یَّاْتِیْھَا رِزْقُھَا رَغَدًا مِّنْ کُلِّ مَکَانٍ فَکَفَرَتْ بِاَنْعُمِ اللّٰہِ فَاَذَاقَھَا اللّٰہُ لِبَاسَ الْجُوْعِ وَ الْخَوْفِ بِمَا کَانُوْا یَصْنَعُوْنَo (النحل ۱۶:۱۱۲) ، ’’اللہ ایک بستی کی مثال دیتا ہے۔ وہ امن و اطمینان کی زندگی بسر کر رہی تھی اور ہرطرف سے اس کو بفراغت رزق پہنچ رہا تھا کہ اُس نے اللہ کی نعمتوں کا کُفران شروع کر دیا۔ تب اللہ نے اس کے باشندوں کو اُن کے کرتوتوں کا یہ مزا چکھایا کہ بھوک اور خوف کی مصیبتیں ان پر چھاگئیں‘‘۔

کچھ لوگ یہ تصور رکھتے ہیں کہ دینی ایمان اور تعصب لازم ملزوم ہیں۔ ایمان کسی حالت میں بھی تعصب سے جدا نہیں ہوسکتا۔ اس لیے کہ مومن دینی اعتبار سے یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ وہ حق پر ہے اور اُس کے علاوہ سب باطل پر ہیں۔ اُس کا ایمان ہی راہِ نجات ہے۔ جو انسان اُس کے اس مضبوط سہارے کو نہیں پکڑے گا وہ نجات کے راستے کی طرف ہدایت نہیں پاسکتا۔ اور جو بھی اس کی کتاب قرآنِ مجید اور اس کے رسول حضرت محمدؐ پر ایمان نہیں لائے گا وہ جہنم رسید ہوگا۔ اُسے اُس کے اچھے اور بھلے کام کوئی فائدہ نہیں دے سکیں گے۔ کیونکہ اُن کی بنیاد ایمان پر نہیں تھی اس لیے اللہ تعالیٰ کے ہاں اُن کاموں کی کوئی قدروقیمت نہیں ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اَعْمَالُھُمْ کَسَرَابٍ م بِقِیعَۃٍ یَّحْسَبُہُ الظَّمْاٰنُ مَآئً حَتّٰیٓ  اِِذَا جَآئَ ہٗ لَمْ یَجِدْہُ شَیْئًا  (النور ۲۴:۳۹)،’’ جنھوں نے کفر کیا ان کے اعمال کی مثال ایسی ہے جیسے دشت بے آب میں سراب کہ پیاسا اُس کو پانی سمجھے ہوئے تھا، مگر جب وہاں پہنچا تو کچھ نہ پایا‘‘۔ مَثَلُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِرَبِّھِمْ اَعْمَالُھُمْ کَرَمَادِ نِ اشْتَدَّتْ بِہِ الرِّیْحُ فِیْ یَوْمٍ عَاصِفٍ لَا یَقْدِرُوْنَ مِمَّا کَسَبُوْا عَلٰی شَیْئٍ (ابراھیم ۱۴:۱۸)، ’’جن لوگوں نے اپنے رب سے کفر کیا ہے ان کے اعمال کی مثال اُس راکھ کی سی ہے جسے ایک طوفانی دن کی آندھی نے اڑا دیا ہو۔ وہ اپنے کیے کا کچھ بھی پھل نہ پاسکیں گے‘‘۔

محض تعصب کی بنیاد پر قائم کیے گئے اس طرح کے تصورات یقینا لوگوں کے درمیان بُغض اور عداوت پیدا کرتے ہیں۔ بہت سے مواقع پر تو یہ تصورات بعض گروہوں اور قوموں کے درمیان خوں ریز لڑائیوں کا سبب بن جاتے ہیں۔ تاریخ کے مختلف اَدوار میں ایسی مثالیں موجود ہیں کہ دومختلف ادیان کے لوگوں کے درمیان جنگیں برپا ہوئیں، مثلاً مسلمانوں اور مسیحیوں کے درمیان، بلکہ ایک ہی دین کے ماننے والے دینی مسالک اور گروہوں کے درمیان یہ لڑائیاں ہوتی رہیں۔ عیسائی فرقے کیتھولک اور پروٹسٹنٹ باہم جنگ آزما رہے۔ مسلمانوں کے شیعہ اور سُنّی گروہ باہم متحارب رہے۔

سوال یہ ہے کہ ان فکری اور عملی مشکلات کا حل کیا ہے جو واقعتا معاشروں کو درپیش ہیں۔ جو ایسے چیلنج بن کر سامنے کھڑی ہیں کہ اُن کا مقابلہ کیا جائے۔ ایسے سوالات بن کر سامنے آئی ہیں کہ اُن کا جواب فراہم کیا جائے؟

میں یہاں بلاتردد یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اسلام نے ان نظری تصورات اور عملی مشکلات کا حل ایسی روشن اور اصلی روایت کے ذریعے پیش کیا ہے جس روایت، رجحان اور کلچر کی بنیاد صرف اور صرف اسلام ہی نے رکھی ہے، اور اسلام ہی نے اپنے ماننے والوں کو اس کی تعلیم دی ہے۔ یہ وہ کلچر اور رجحان ہے جو رواداری اور برداشت کو جنم دیتا ہے، تعصب کو پنپنے نہیں دیتا۔ تعارف اور مانوسیت کا ماحول پیدا کرتا ہے، اجنبیت اور غیراُنسیت کو ختم کرتا ہے۔ محبت کے پھول کھلاتا ہے، نفرت کے بیج نہیں بوتا۔ مکالمے کی تعلیم دیتا ہے اور تصادم کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔ نرمی اور ملاطفت کی فضا قائم کرتا ہے، سختی اور تشدد کے رویوں کا خاتمہ کرتا ہے۔ رحم دلی کے جذبات بیدار کرتا ہے ، سختی اور  سنگ دلی انسانوں کے لیے روا نہیں سمجھتااور جنگ نہیں بلکہ امن سے انسانیت کو آشنا کرتا ہے۔

رواداری کی تعلیم کے مآخذ

۱- مسلمانوں کو دی گئی رواداری کی تعلیم کے ماخذ کئی ہیں اور یہ سب اصلی اور بنیادی ماخذ ہیں۔ بلاشبہہ ان میں سب سے بڑا ماخذ قرآن کریم ہے جس نے رواداری کے اصولوں کی بنیاد رکھی ہے۔ اپنے معجزبیان اسلوب کے ذریعے مکی اور مدنی سورتوں میں ان اصولوں کو واضح کیا ہے۔ قرآن کریم کا یہ اسلوبِ بیان پورے انسانی وجود کو مخاطب کرتا ہے جس کے نتیجے میں عقل مطمئن ہوجاتی ہے، جذبات وجد میں آجاتے ہیں اور عزم بیدار ہوجاتا ہے۔ پڑھنے والا محسوس کرے گا کہ وہ شرعی اور منطقی دلائل جن کو ہم نے ’رواداری کی تعلیم‘ کے اس مضمون میں بنیاد بنایا ہے، اُن کی اساس اور بنیاد قرآن کریم ہی سے فراہم کی گئی ہے۔

۲- قرآن کے بعد سیرت و سنت ِ نبویؐ ہے جو قرآنِ مجید کی شرح، وضاحت اور تفصیل بیان کرتی ہے۔ سنت قرآن کریم کا نظری بیان اور عملی تطبیق ہے۔ جیسا قرآن کریم نے کہا ہے: وَاَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْھِمْ وَ لَعَلَّھُمْ یَتَفَکَّرُوْنَo (النحل ۱۶:۴۴)، ’’اور ہم نے یہ ذکر تم پر نازل کیا ہے تاکہ تم لوگوں کے سامنے اُس تعلیم کی شرح و توضیح کرتے جائو جو اُن کے لیے اُتاری گئی ہے، اور تاکہ لوگ (خود بھی) غوروفکر کریں‘‘۔

۳- عملِ صحابہؓ ، خصوصاً خلفاے راشدینؓ کا عمل، ان کا طریقہ نبی کریمؐ کی سنت کا تسلسل ہے۔ یہ مدرسۂ نبوت کے طالبانِ علم ہیں، انھوں نے اسی علمِ نبوت کی پیروی کی اور ہدایت پائی، اپنے قوانین اور فیصلے سنت ِ نبویؐ ہی کی روشنی میں تیار اور نافذ کیے۔ اور صراطِ مستقیم کی طرف رہنمائی پائی۔

۴- اس کے ساتھ ہم اَئمہ اُمت ، فقہا اور راسخ علما کے اقوال کو بھی بنیاد بناتے ہیں کیونکہ یہی لوگ نبوت کے وارث اور اس علم کے حامل ہیں جو اہلِ غلو کی تحریفات سے، باطل پسندوں کے نظریات سے،اور جاہلوں کی تاویلات سے دین کو صاف کرتے ہیں۔

۵- مسلم رواداری کی تعلیم کے ماخذ میں ’تاریخی حالات‘ بھی شامل ہیں کیونکہ اسلام کی اس تاریخ میں مخالفینِ اسلام کے ساتھ برداشت اور رواداری کا سلوک اور برتائو سامنے آیا۔ اس معاملے میں کسی خلیفہ، سلطان، رہنما یا وزیر نے مشرق و مغرب میں مخالفت نہیں کی۔ نہ عہدبنواُمیہ میں اور نہ عہد بنوعباس و بنوعثمان میں ایسا کوئی برتائو سامنے آیا جو اس تعلیم کی نفی کرتا ہو۔ اس بات کی شہادت تو مغرب کے انصاف پسند مؤرخین نے بھی دی ہے۔

رواداری کی خصوصیت

اسلامی رواداری اور برداشت کی متعدد خصوصیات ہیں۔ تاہم ایک خصوصیت بہت اہم ہے۔ وہ یہ کہ اس کا دینی رنگ، ربانی ماخذ اور اصل منبع احکامِ الٰہی اور ہدایاتِ نبویؐ ہیں۔ یہ احکام و ہدایات اسے مسلمانوں کے اُوپر ایسی قوت عطا کرتے ہیں جو اُن کے دلوں اور ضمیروں سے ازخود پیدا ہوتی ہے اور وہ اس کے سامنے سرتسلیم جھکا دیتے ہیں۔ وہ اُس قوت کے احکام کو اپنے ایمانی جذبے اور خوفِ خدا کی بنا پر نافذ کرنے کے بے حد متمنی رہتے ہیں۔

الٰہی قوانین و احکام اور انسان کے وضع کردہ قوانین میں فرق یہ ہے کہ انسانی قوانین سے لوگ جان چھڑانے کی کوشش کرتے ہیں، ان کوتوڑتے اور ان سے تجاویز کرتے ہیں، جب کہ قوانین الٰہی کے احترام و اتباع پر اہلِ ایمان کو بشارت دی گئی ہے کہ وہ اس سے اللہ کی رضامندی، آخرت کا اجروثواب، دنیا میں دل کا سکون اور ضمیر کا اطمینان پائیں گے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا: مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثٰی وَ ھُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّہٗ حَیٰوۃً طَیِّبَۃً وَ لَنَجْزِیَنَّھُمْ اَجْرَھُمْ بِاَحْسَنِ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَo (النحل ۱۶:۹۷) ’’جو شخص بھی نیک عمل کرے گا، خواہ وہ مرد ہو یا عورت، بشرطیکہ ہو وہ مومن، اسے ہم دنیا میں پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گے اور (آخرت میں) ایسے لوگوں کو اُن کے اجر، اُن کے بہترین اعمال کے مطابق بخشیں گے‘‘۔

رواداری کی روح

یہاں ایک چیز اور ہے جو اُن حقوق کے دائرے میں شامل نہیں ہے جو حقوق قوانین کے ذریعے متعین ہوتے ہیں، عدالتوں کے ذریعے قانونی قرار پاتے ہیں، اور حکومتیں اُن حقوق کے نفاذ کی ذمہ داری پوری کرتی ہیں۔ یہ چیز رواداری کی وہ روح ہے جو معاشرت میں احسان، معاملات میں نرمی اور ہمسایگی کے تقاضوں کو پورا کرنے میں نظر آتی ہے۔ یہ احسان، رحم دلی اور خیروفلاح  کے انسانی جذبات میں کشادہ دلی کے مظاہروں میں سامنے آتی ہے۔ یہ وہ اُمور ہیں جن کی  روزمرہ زندگی میں بہت ضرورت ہوتی ہے۔ یہاں دستور و قانون اور عدلیہ کچھ نہیں کرسکتی۔ رواداری کی یہ روح ایسی ہے جو غیراسلامی معاشرے میں ملنا مشکل ہے۔

رواداری کے عظیم مظاھر

اسلام نے جن بنیادی اور مسلّمہ اصولوں کی تعلیم دی ہے اُن میں ایک اسلامی معاشرے میں غیرمسلموں کے ساتھ تعلقات و معاملات میں رواداری اور برداشت کا اصول ہے، یعنی غیرمسلموں کے ساتھ اعلیٰ انسانی اقدار پر مبنی برتائو کیا جائے۔ اسلام کے کسی مخالف کے ساتھ تعصب، بے جا عناد اور کینہ نہ رکھا جائے۔

یہ سلوک یوں تو ہر مخالف ِ اسلام کے ساتھ روا رکھنے کی تعلیم ہے مگر اہلِ کتاب، یعنی یہودیوں اور عیسائیوں کے ساتھ خصوصی طور پر معاملہ کرنے کی تعلیم دی گئی ہے۔ اس لیے کہ دراصل وہ بھی سماوی دین کے پیروکار ہیں۔ یہ اپنی نسبت اور تعلق جدالانبیا حضرت ابراہیم ؑ سے جوڑتے ہیں۔ قرآنِ مجید نے انھیں ’اہل الکتاب‘ کے نام سے یاد کیا ہے۔ ان کا ذبیحہ مسلمانوں کے لیے کھانا حلال قرار دیا ہے۔ ان کی عورتوں سے شادی کی اجازت دی ہے۔ فرمایا:

 اہلِ کتاب کا کھانا تمھارے لیے حلال ہے اور تمھارا کھانا ان کے لیے۔ اور محفوظ عورتیں بھی تمھارے لیے حلال ہیں خواہ وہ اہلِ ایمان کے گروہ سے ہوں یا ان قوموں میں سے جن کو تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی۔(المائدہ ۵:۵)

دینی اعتبار سے اپنے مخالفین کے ساتھ جو رواداری اور برداشت اسلام کے اندر ہے اس سے زیادہ کشادہ اور وسیع رواداری ہمیں کسی دوسرے مذہب میں نہیں ملتی۔ قرآنِ مجید نے غیرمسلموں کے ساتھ معاملہ کرنے کے حوالے سے ایک واضح فرق اور امتیاز قائم کیا ہے۔

اسلام کے نزدیک غیرمسلموں کی دو قسمیں ہیں: ۱- مُحارِب (برسرِجنگ) جو دین کے معاملے میں مسلمانوں کے خلاف جنگ میں مصروف ہوں، یعنی مسلمانوں کو انھوں نے مسلمان ہونے کی بنا پر اُن کے گھروں سے بے دخل کردیا ہو، یا اُن کے بے دخل کیے جانے میں کسی کی مدد کی ہو۔ ۲- مُسالِم (امن پسند) جنھوں نے مذکورہ بالا اُمور میں سے کسی بھی معاملے میں مسلمانوں کے دشمنوں کا ساتھ نہ دیا ہو۔ یہ تقسیم اور تفریق قرآنِ مجید کی اُن آیات میں بیان کی گئی ہے جو غیرمسلموں کے ساتھ تعلقات کو متعین کرنے کے لحاظ سے ایک ٹھوس دستور قرار دی جاتی ہیں:

 اللہ تمھیں اس بات سے نہیں روکتا کہ تم اُن لوگوں کے ساتھ نیکی اور انصاف کا برتائو کرو جنھوں نے دین کے معاملے میں تم سے جنگ نہیں کی ہے اور تمھیں تمھارے گھروں سے نہیں نکالا ہے۔ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ وہ تمھیں جس بات سے روکتا ہے وہ تو یہ ہے کہ تم اُن لوگوں سے دوستی کرو جنھوں نے تم سے دین کے معاملے میں جنگ کی ہے اور تمھیں تمھارے گھروں سے نکالا ہے اور تمھارے اخراج میں ایک دوسرے کی مدد کی ہے۔ اُن سے جو لوگ دوستی کریں وہی ظالم ہیں۔(الممتحنہ ۶۰:۸-۹)

یاد رہے کہ یہ دونوں آیات مشرکوں اور بت پرستوں کے بارے میں نازل ہوئی ہیں کیونکہ اس سورت کے اسبابِ نزول سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جب مشرک اور بت پرست خیر اور انصاف کے حق دار قرار دیے گئے ہیں تو ’اہلِ کتاب‘ ان کی نسبت زیادہ حق رکھتے ہیں کہ ان کے ساتھ خیروانصاف کا معاملہ کیا جائے۔

مخالفینِ اسلام کی ایک تقسیم اُوپر ذکر ہوچکی اور دوسری تقسیم میں ’معاہدین‘ آتے ہیں۔ ان معاہدین کی بھی دواقسام ہیں: ۱-وہ معاہدین جن کے ساتھ ایک متعین مدت تک کے لیے معاہدہ ہوا ہو۔ ان کے ساتھ معاہدہ، اس کی مدت تک پورا کرنا فرض ہے۔ ۲- وہ معاہدین جن کے ساتھ دائمی اور غیرمتعینہ مدت کے لیے معاہدہ ہو۔ ان لوگوں کو اسلام نے ’اہل الذمۃ‘ (ذمی) کا نام دیا ہے۔ ’اہلِ ذمہ‘ ان معنوں میں کہ ان کے لیے اللہ تعالیٰ اور رسولؐ اللہ اور مسلم جماعت کی طرف سے ضمانت ہے۔ اسلامی فقہ میں ان کے وہی حقوق و فرائض بیان ہوئے ہیں جو مسلمانوں کے ہیں۔ گویا تمام حقوق و فرائض، سواے ان مطالبات اور تقاضوں کے جو دونوں ادیان کے مختلف ہونے کی بنا پرموجود ہیں۔ یہ ذمی ’دارالاسلام‘ یعنی (اسلامی ریاست) کی قومیت کے حامل ہیں۔بالفاظِ دیگر یہ اسلامی ریاست کے شہری ہیں۔

یہ ’اہل الذمہ‘ (ذمی) کے الفاظ کسی تحقیر اور تذلیل کی طرف اشارہ نہیں ہے جیساکہ کئی لوگوں کو غلط فہمی ہوجاتی ہے، بلکہ یہ الفاظ تو اللہ تعالیٰ کی شریعت کو مانتے ہوئے اللہ اور رسولؐ کی ضمانت کو پورا کرنے کی طرف اشارہ کرتے ہیں، لیکن اگر ہمارے مسیحی بھائی اس اصطلاح کے استعمال سے تکلیف محسوس کریں تو اس کو تبدیل یا حذف کیا جاسکتا ہے۔ ہم اس کے ذریعے اللہ کی عبادت کا کوئی فریضہ ادا نہیں کرتے۔ سیدنا عمرؓ نے تو اس سے بھی اہم اصطلاح ’جزیہ‘ کو حذف کردیا تھا، حالانکہ یہ قرآن میں مذکور ہے۔ حضرت عمرؓ نے بنی تغلب جو مسیحی تھے اُن کے مطالبے پر یہ کام کیا  تھا۔ بنی تغلب نے اس نام سے بے زاری کا اظہار کیا اور مطالبہ کیا کہ اُن سے جزیہ کے نام پر جو کچھ وصول کیا جاتا ہے وہ صدقہ کے نام پر وصول کرلیا جائے خواہ دگنا ہی ہو۔ حضرت عمرؓ نے اُن سے اتفاق کیا اور ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھا، البتہ یہ فرمایا: یہ احمق قوم ہے، نام کا انکار کر رہے ہیں اور معنی کو قبول کرلیا ہے۔ یہ حضرت عمرؓ کا ایک بہت اہم اصول کی طرف اشارہ ہے، یعنی مقاصد اور معانی پر نظر رکھنا ضروری ہے، نہ کہ الفاظ اور عبارتوں پر۔ اور یہ کہ اعتبار ناموں اور عنوانوں کا نہیں ہوتا بلکہ اُن چیزوں اور باتوں کا ہوتا ہے جن کے لیے یہ استعمال ہوتے ہیں۔

 اس بنیاد پر ہم کہتے ہیں: لفظ ’جزیہ‘ کے ساتھ چمٹے رہنا کوئی ضروری نہیں ہے کیونکہ اس سے مصر اور دیگر اسلامی و عربی ممالک میں ہمارے مسیحی بھائی تکلیف محسوس کرتے ہیں۔ دراصل یہ لوگ مسلمانوں کے ساتھ گھل مل گئے ہیں۔ یہ مسلمانوں کے قومی دھارے میں پوری طرح شامل رہتے ہیں۔ اُن کے لیے کافی ہے کہ وہ ٹیکس کے نام پر کوئی رقم ادا کریں جس طرح مسلمان زکوٰۃ  ادا کرتے ہیں۔ پھر یہ لوگ بھی قوم اور ملک کے دفاع میں بذاتِ خود اسی طرح شریک رہیں    جس طرح اُن کے مسلمان بھائی شریک رہے ہیں۔ لبنان میں عباسی امیر جو خلیفہ کے قریب تھا، امام اوزاعی نے اس کے خلاف اہلِ ذمہ (ذمیوں) کا ساتھ دیا۔ امام ابن تیمیہؒ نے تیمورلنگ کو قیدیوں کی رہائی کے لیے کہا تو اُس نے صرف مسلمان قیدیوں کو رہا کرنے کا عندیہ دیا، مگر امام   ابن تیمیہؒ نے اس کی بات ماننے سے انکار کیا اور ذمیوں کو بھی رہا کرنے کے لیے اصرار کیا۔

رواداری کے بلند ترین درجات

رواداری کے بلند ترین درجات صرف مسلمانوں ہی کے ہاں پائے جاتے ہیں:

  • ادنٰی درجہ: رواداری کا ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ آپ اپنے مخالف کو اس کے دین و عقیدے کی آزادی دیں۔ اُسے اپنا دین اور مذہب اختیار کرنے پر مجبور نہ کریں۔
  • درمیانی درجہ: رواداری کا درمیانی درجہ یہ ہے کہ آپ اُسے یہ حق دیں کہ وہ جس دین و مذہب کو چاہے بطور عقیدہ اختیار کرے۔ پھر آپ اُسے کسی ایسے معاملے کو ترک کرنے پر مجبور نہ کریں جس کے فرض ہونے کا وہ عقیدہ رکھتا ہے، یا کوئی ایسا کام کرنے پر آپ مجبور نہ کریں جس کو وہ حرام گردانتا ہے۔اگر ایک یہودی کے نزدیک سبت (ہفتے) کے روز کام کرنا حرام ہے تو یہ جائز نہیں کہ اس کو اس روز کام کرنے پر مجبور کیا جائے، کیونکہ اگر وہ ایسا کرے گا تو اُسے حرام اور اپنے دین کی مخالفت سمجھتے ہوئے ہی کرے گا۔ اسی طرح ایک عیسائی کے نزدیک اتوار کے روز گرجا جانا فرض ہے تو یہ جائز نہیں کہ اُسے اُس روز وہاں جانے سے روکا جائے۔
  • اعلٰی درجہ: رواداری کا بلند ترین درجہ یہ ہے کہ آپ اپنے دینی مخالفین کو کسی ایسی چیز یا کام کے بارے میں مجبور نہ کریں جس کے حلال ہونے کا وہ عقیدہ رکھتے ہوں، اگرچہ آپ کا     یہ عقیدہ ہو کہ وہ چیز آپ کے دین اور مذہب میں حرام ہے۔

مسلمان جب رواداری کے اپنے بلند ترین درجے تک پہنچتے ہیں تو اپنے ذمی مخالفین کے ساتھ ایسا برتائو کرتے ہیں۔ مسلمانوں نے تو ہر اُس امر کو احترام دیا ہے جس کا غیرمسلم عقیدہ رکھتے ہوں کہ یہ اُن کے دین میں حلال ہے۔ اس معاملے میں مسلمانوں نے کشادہ دلی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اُنھوں نے اُن کے حلال کو حرام یا ممنوع بنانے پر اُن کو مجبور نہیں کیا۔ البتہ یہ ممکن ہے کہ ملکی دستور و قانون کے پیش نظر وہ بھی ان چیزوں کو حرام سمجھ لیں اور کسی تعصب اور ہٹ دھرمی کی بنا پر اس کا اہتمام نہ کریں، کیونکہ اگر کسی چیز کو کسی دین نے حلال ٹھیرایاہے تو اُسے عمل میں لاکے رہنا اس کے ماننے والوں پر فرض نہیں ہے۔ اگر ایک عیسائی کا دین خنزیر کا گوشت کھانا حلال قرار دیتا ہے تو وہ اُسے کھائے بغیر بھی زندہ رہ سکتا ہے۔ گائے، بکری اور مرغی وغیرہ کا گوشت اس کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے کافی ہے۔ اسی طرح شراب کا معاملہ ہے۔ اگرچہ بعض مسیحی کتب میں اس کی اباحت مذکور ہے، یا معدے کی اصلاح کے لیے بہت تھوڑی مقدار کی اباحت موجود ہے۔ تو یہ مسیحیت کا فرض قرار نہیں پاگیا کہ مسیحی لازمی طور پر شراب نوشی کرے، بلکہ بعض مسیحی تو اپنے دین کی رُو سے اس کو حرام سمجھتے ہیں۔

اگر اسلام ذمیوں سے کہے کہ اپنے مسلمان بھائیوں کی خاطر شراب نوشی اور خنزیرخوری نہ کرو تو اس بات میں دینی لحاظ سے کوئی حرج نہیں ہے، کیونکہ اگر وہ ان اشیا کو ترک کردیں گے تو اپنے دین میں کسی منکر (حرام اور ممنوع) کے مرتکب نہیں ہوں گے، اور نہ کسی مقدس واجب اور فرض ادا نہ کرنے کے مجرم ٹھیریں گے۔ لیکن اس کے باوجود اسلام نے ایسا کوئی مطالبہ نہیں کیا، اور نہ اسلام کا منشا یہ ہے کہ وہ حلال چیز کے بارے میں غیرمسلموں کو کسی ایسی تنگی میں مبتلا کرے۔ اسلام نے تو مسلمانوں سے یہ کہہ دیا ہے کہ انھیں چھوڑ دو، وہ جو چاہیں دینی عقیدہ اختیار کریں۔

اس طرح کی رواداری قرآنِ مجید میں مشرک والدین کے معاملے میں پوری وضاحت سے سامنے آئی ہے۔ جو والدین اپنے بیٹے کو توحید سے شرک کی طرف لانا چاہتے ہوں، ان کے بارے میں قرآن مجید کا یہ حکم ہے کہ: وَ صَاحِبْھُمَا فِی الدُّنْیَا مَعْرُوْفًا (لقمان ۳۱:۱۵)   ’’دنیا میں ان کے ساتھ نیک برتائو کرتا رہ‘‘۔

یہ رواداری قرآنِ مجید کی اس ترغیب میں بھی نمایاں ہے جس میں مسلمانوں کو اپنے اُن مخالفین سے عدل و احسان اور مہربانی کا معاملہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے جو برسرِجنگ نہیں ہیں بلکہ امن پسند ہیں: ’’اللہ تمھیں اس بات سے نہیں روکتا کہ تم ان لوگوں کے ساتھ نیکی اور انصاف کا برتائو کرو جنھوں نے دین کے معاملے میں تم سے جنگ نہیں کی ہے اور تمھیں تمھارے گھروں سے نہیں نکالا ہے۔ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے‘‘۔(الممتحنہ ۶۰:۸)

قرآنِ مجید اللہ کے نیک بندوں کی صفات بیان کرتے ہوئے کہتا ہے: وَیُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسْکِیْنًا وَّیَتِیْمًا وَّاَسِیْرًا (الدھر ۷۶:۸)، ’’اور اللہ کی محبت میں مسکین اور یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں‘‘۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تھی اس وقت اسیر(قیدی) تو مشرک ہی تھے مسلمان نہیں۔

قرآن مجید بعض مسلمانوں کے اس شبہے کا جواب بھی فراہم کرتا ہے کہ مشرک ہمسایوں اور رشتے داروں پر انفاق نہیں کیا جاسکتا۔ قرآن کا بیان ہے:  ’’اے نبیؐ، لوگوں کو ہدایت بخش دینے کی ذمہ داری تم پر نہیں ہے۔ ہدایت تو اللہ ہی جسے چاہتا ہے بخشتا ہے، اور راہِ خیر میں جو مال تم لوگ خرچ کرتے ہو وہ تمھارے اپنے لیے بھلا ہے‘‘۔(البقرہ  ۲:۲۷۲)

امام ابوحنیفہؒ کی فقہ کے مدوّن و مرتب اور اُن کے رفیق محمدبن حسن نے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ میں قحط کے زمانے میں اہلِ مکہ کے لیے کچھ مال بھیجا تاکہ وہ وہاں کے فقرا میں تقسیم کردیا جائے۔ رسولِؐ اکرم کا یہ رحم دلانہ اقدام اہلِ مکہ کے اُس تعذیب و تشدد اور ایذارسانی کے باوجود سامنے آیا جس سے آپؐ خود بھی اور آپؐ کے صحابہ بھی دوچار رہے۔

حضرت اسما بنت ابوبکرؓ کا بیان ہے کہ قریش سے مسلمانوں کے معاہدے کے دوران میری والدہ آئیں اور وہ مشرکہ تھیں تو میں نے رسولؐ اللہ سے پوچھا: اللہ کے رسولؐ میری والدہ آئی ہیں، اور مجھ سے ملنا چاہتی ہیں۔ کیا میں اُن سے مل سکتی ہوں؟ رسولؐ اللہ نے فرمایا: ہاں ہاں، اپنی والدہ سے ملو۔ (بخاری و مسلم)

یہ رواداری اہلِ کتاب یہود و نصاریٰ کے ساتھ رسولؐ اللہ کے ذاتی معاملات میں مزید کھل کر سامنے آتی ہے۔ آپؐ اُن سے ملا کرتے تھے، ان کی عزت و توقیر کیا کرتے تھے، اُن سے احسان کا معاملہ کرتے تھے، اُن کے بیماروں کی بیمارپُرسی کرتے تھے، اُن سے روپے پیسے کا لین دین بھی کرتے تھے۔ ابن اسحاق نے السیرۃ النبویۃ میں ذکر کیا ہے کہ جب وفدِ نجران(جوعیسائی تھے) رسولؐ اللہ کے پاس مدینہ آیا تو عصر کے بعد آپؐ سے مسجد میں ملاقات کی۔ اُن کی عبادت کا بھی وقت ہوگیا تو انھوں نے وہیں مسجد میں کھڑے ہوکر عبادت شروع کردی۔ لوگوں نے انھیں منع کرنا چاہا تو رسولِؐ اکرم نے فرمایا: انھیں مت روکو۔ پھر وفد کے لوگوں نے مشرق کی طرف قبلہ رُخ ہوکر عبادت کی۔

علامہ ابن قیمؒ نے اس واقعے پر زاد المعاد میں حاشیہ لکھتے ہوئے اس کے فقہی نکات میں یہ نکتہ بھی بیان کیا ہے: ’’اہلِ کتاب کے لیے اگر وہ مستقل معمول نہ بناسکتے ہوں اور عارضی طور پر مسلمانوں کی مساجد میں اور مسلمانوں کی موجودگی میں عبادت کرنا اور مساجد میں داخل ہونا جائز ہے!!

علامہ ابوعبید نے اپنی کتاب الاموال میں حضرت سعید بن مسیب سے روایت کیا ہے کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک یہودی گھرانے پر صدقہ کیا تو پھر وہ صدقہ مستقل جاری رہا۔

بخاری کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک یہودی کی عیادت کی اور اس کے سامنے اسلام پیش کیا تو وہ اسلام لے آیا۔ آپؐ وہاں سے واپس ہوئے تو آپؐ کی زبانِ مبارک سے یہ کلمات جاری تھے: اُس اللہ کا شکر ہے جس نے میرے ذریعے اس کو جہنم سے بچالیا‘‘۔ بخاری ہی کی دوسری روایت ہے کہ جب رسولؐ اللہ کی رحلت ہوئی تو اُس وقت آپؐ کی زرہ ایک یہودی کے پاس رہن تھی۔ آپؐ  نے اس سے اپنے اہلِ خانہ کے خرچ کے لیے قرض لے رکھا تھا‘‘۔ یہاں یہ بات قابلِ غور ہے کہ رسولؐ اللہ کے لیے یہ کوئی مشکل نہ تھا کہآپؐ  اپنے رفقا سے قرض لے لیتے اور وہ قطعاً کوئی چیز آپؐ  سے نہ روکتے۔ مگر آپؐ  نے اپنے اس عمل سے اپنی اُمت کو تعلیم دینا تھی اس لیے آپؐ  نے ایسا نہ کیا۔ رسولؐ اللہ نے غیرمسلموں سے تحائف بھی قبول فرمائے۔ حالت ِ امن و جنگ میں غیرمسلموں سے تعاون بھی لیا جب انھوں نے آپؐ کا ساتھ دینے کی ضمانت دی۔ پھر آپؐ  نے اُن کے کسی شر اور سازش کا خوف محسوس نہ کیا۔

غیرمسلموں کے ساتھ رواداری کا یہ اظہار اصحابِ رسولؐ اور تابعین کرامؒ کے معاملات میں بھی اسی طرح نمایاں نظر آتا ہے۔ حضرت عمرؓ نے ایک یہودی گھرانے کے لیے مسلمانوں کے   بیت المال سے دائمی وظیفے کے اجرا کا حکم دیا۔ پھر کہا: اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآئِ وَالْمَسٰکِیْنِ (التوبۃ ۹:۶۰)، ’’صدقات تو دراصل فقیروں اور مسکینوں کے لیے ہیں‘‘۔ اور یہ اہلِ کتاب کے مسکینوں میں سے ایک مسکین گھرانہ ہے۔

سفرشام کے دوران میں حضرت عمرؓ کا گزر ایک مجذوم مسیحی قوم کے پاس سے ہو ا تو آپؓ نے مسلم بیت المال میں سے اُن کی اجتماعی امداد کاحکم دیا۔ حضرت عمرؓ کی شہادت جس حملے کے نتیجے میں ہوئی وہ حملہ اہلِ ذمہ کے ساتھ انھیں حُسنِ سلوک کی تلقین کرنے سے نہ روک سکا اور آپؓ نے بسترمرگ پر بھی فرمایا: میں اس کے معاملے میں اللہ اور اس کے رسولؐ کے ذمہ (ضمانت) کی تلقین کرتا ہوں کہ ان کے ساتھ کیے گئے معاہدے کو پورا کیا جائے، ان کی حفاظت کی خاطر دشمن سے جنگ کی جائے اور ان کی طاقت سے زیادہ ان پر کوئی بوجھ نہ ڈالا جائے۔

عبداللہ بن عمرو اپنے غلام کو وصیت کرتے ہیں۔ میرے یہودی ہمسائے کو قربانی کا گوشت دیا جائے۔ آپ نے یہ وصیت اتنی بار دہرائی کہ غلام خوف زدہ ہوگیا اور یہودی ہمسایے پر     اِس عنایت کا راز پوچھا۔ ابن عمرو نے کہا: رسولؐ اللہ نے فرمایا ہے کہ جبرئیل ؑ مجھے اس تسلسل سے ہمسایے کے بارے میں وصیت کرتے رہے کہ مجھے یقین ہو رہا تھا کہ اس ہمسایے کو وراثت میں  حق دار بنا دیا جائے گا۔ حارث بن ابوربیعہ کی والدہ نصرانی تھی، فوت ہوئی تو رسولؐ اللہ کے اصحاب اُس کے جنازے کے ساتھ گئے۔

بعض اجلّ تابعین اپنے صدقۂ فطر کا کچھ حصہ نصرانی راہبوں کو دیا کرتے تھے اور اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔ بلکہ عکرمہ، ابن سیرین اور زہری تو زکوٰۃ میں سے بھی انھیں کچھ دینے کو جائز سمجھتے ہیں۔ ابن ابی شیبہ نے جابر بن زید سے روایت کیا ہے کہ اُن سے پوچھا گیا کہ صدقہ کن لوگوں کو دیا جائے؟ تو انھوں نے کہا: اپنی مسلمان ملت اور اہلِ ذمہ کے حق داروں کو!

قاضی عیاض نے ترتیب المدارک میں ذکر کیا ہے کہ دارقطنی نے بیان کیا کہ قاضی اسماعیل بن اسحاق کے پاس عباسی خلیفہ معتضدباللہ کا نصرانی وزیر عبدون بن صاعد آیا تو قاضی اس کے احترام میں کھڑے ہوگئے اور اسے خوش آمدید کہا۔ قاضی نے اپنے اس عمل پر حاضرین کی ناگواری دیکھی۔ جب وزیروہاں سے چلا گیاتو قاضی اسماعیل نے کہا:مجھے تمھاری ناگواری معلوم ہوگئی ہے، مگر اللہ تعالیٰ نے فرما رکھا ہے: لاَیَنْہٰکُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوْکُمْ فِی الدِّیْنِ وَلَمْ یُخْرِجُوْکُمْ مِّنْ دِیَارِکُمْ اَنْ تَبَرُّوْھُمْ وَتُقْسِطُوْا اِِلَیْھِمْ اِِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ o (الممتحنہ ۶۰:۸)، ’’اللہ تمھیں اس بات سے نہیں روکتا کہ تم اُن لوگوں کے ساتھ نیکی اور انصاف کا برتائو کرو جنھوں نے دین کے معاملے میں تم سے جنگ نہیں کی ہے اور تمھیں تمھارے گھروں سے نہیں نکالا ہے۔ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے‘‘۔

 اور یہ آدمی یعنی وزیر مسلمانوں کی ضروریات پوری کرتا ہے اور خلیفہ معتضد اور ہمارے درمیان سفیر ہے، لہٰذا میں نے جو کچھ کیا ہے ، یہ بِّر (نیکی) کا حصہ ہے۔ (ماخذ: www.qaradawi.net)

 

سوال: ہم قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا یہ اِرشاد پڑھتے ہیں: وَ کَانَ حَقًّا عَلَیْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِیْنَ (الروم۳۰:۴۷) ’’اور ہم پر یہ حق تھا کہ ہم مومنوں کی مدد کریں‘‘، جب کہ زمینی صورتِ حال میں مومنوں کو خواری اور زبوں حالی سے دوچار پاتے ہیں۔ اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد بھی پڑھتے ہیں: وَلِلّٰہِ الْعِزَّۃُ وَلِرَسُوْلِہٖ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ (المنافقون۶۳:۸) ’’عزت تو اللہ اور اس کے رسولؐ اور مومنین کے لیے ہے‘‘، لیکن مومن رسوائی اور غلامی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ قرآنِ مجید کہتا ہے: وَلَنْ یَّجْعَلَ اللّٰہُ لِلْکٰفِرِیْنَ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ سَبِیْلًا (النساء۴:۱۴۱) ’’اور اللہ نے کافروں کے لیے مسلمانوں پر غالب آنے کی ہرگز کوئی سبیل نہیں رکھی ہے‘‘،مگر ہم اپنے اردگرد دیکھتے ہیں تو کافروں کو مومنوں پر ہزار حوالوں سے حاوی پاتے ہیں۔ اسی طرح اور آیات بھی ہیں، مثلاً: اِنَّ اللّٰہَ یُدٰفِعُ عَنِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا(الحج۲۲:۳۸) ’’یقینا اللہ مدافعت کرتا ہے ان لوگوں کی طرف سے جو ایمان لائے ہیں‘‘۔ذٰلِکَ بِاَنَّ اللّٰہَ مَوْلَی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا(محمد۴۷:۱۱) ’’یہ اس لیے کہ ایمان لانے والوں کا حامی و ناصر اللہ ہے‘‘۔ وَ اَنَّ اللّٰہَ مَعَ الْمُؤْمِنِیْنَ(الانفال۸:۱۹) ’’اللہ مومنوں کے ساتھ ہے‘‘۔ اس کے باوجود صورتِ حال یہ ہے کہ قوت و سیادت اور سربلندی کافروں اور ملحدوں کو حاصل ہے، جب کہ کمزوری و پس ماندگی اور ذلت و رسوائی مومنوں کے حصے میں آئی ہے۔ اس کی کیا توضیح ہو سکتی ہے اور کیا سبب بیان کیا جا سکتا ہے؟

جواب: آیات تو بہت ہی صاف ہیں۔ آپ عزت و نصرت اور قوت و سیادت اور   تائید الٰہی کی تمام آیات کو مومنوں سے تو جوڑ سکتے ہیں، لیکن ایمان کے ہر دعوے دار اور اہل اسلام جیسے نام رکھ لینے والوں سے متعلق قرار نہیں دے سکتے، کیونکہ اعتبار اور اہمیت ناموں کی نہیں ہوتی بلکہ اُن چیزوں کی ہوتی ہے جن کے یہ نام ہوتے ہیں۔

اگر ایمان سے مراد اللہ و رسولؐ کو ماننے کا زبانی اقرار لیا جائے اور اسلام کے بعض شعائر کو قائم رکھنے کی حد تک سمجھا جائے تو ہم مومن ہیں اور اگر ایمان اُن اوصاف کے حصول کا نام ہو جن کو قرآنِ مجید نے مومنین کے لیے بیان کیا ہے تو ہمارے اور قرآن کے بیان کردہ ایمان کے درمیان کئی اور مراحل بھی آتے ہیں۔وہ مومن جن کی نصرت و تائید کا ذمہ قرآنِ مجید کی آیات کے مطابق اللہ تعالیٰ لیتا ہے۔ اُن مومنوں کی کچھ صفات ہیں جنھیں خود قرآنِ مجید نے ہی بیان کر دیا ہے۔ ان صفات کے ذریعے ان مومنوں کے ایسے عقائد، اعمال اور اخلاق کو واضح کر دیا گیا ہے جن کی بنا پر مومن اللہ تعالیٰ کی طرف سے تکریم و توقیر کے مستحق قرار پاتے ہیں۔ یہ انصاف نہیں کہ ہم مومنوں کے لیے قرآنِ مجید میں بیان کیے گئے اللہ تعالیٰ کے وعدوں کا تو ذکر کریں مگر مومنوں کی تعریف اور وضاحت کے لیے قرآن کے بجائے کہیں اور رجوع کریں۔

ہمیں قرآنِ مجید کی یہ روشن آیات بھی پڑھنی چاہییں:

اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ وَجِلَتْ قُلُوْبُھُمْ وَ اِذَا تُلِیَتْ عَلَیْھِمْ اٰیٰتُہٗ زَادَتْھُمْ اِیْمَانًا وَّ عَلٰی رَبِّھِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ۔الَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ۔اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّا (الانفال۸:۲،۳،۴)’’سچے اہل ایمان تو وہ لوگ ہیں جن کے دل اللہ کا ذکر سن کر لرز جاتے ہیں اور جب اللہ کی آیات ان کے سامنے پڑھی جاتی ہیں تو ان کا ایمان بڑھ جاتا ہے، اور وہ اپنے رب پر اعتماد رکھتے ہیں۔ جو نماز قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے (ہماری راہ میں) خرچ کرتے ہیں۔ ایسے ہی لوگ حقیقی مومن ہیں‘‘۔ قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ۔الَّذِیْنَ ہُمْ فِیْ صَلاَتِہِمْ خَاشِعُوْنَ (المومنون ۲۳:۱،۲) ’’یقینا فلاح پائی ہے ایمان لانے والوں نے جو اپنی نماز میں خشوع اختیار کرتے ہیں‘‘۔ وَ الْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ بَعْضُھُمْ اَوْلِیَآئُ بَعْضٍ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ (التوبہ۹:۷۱) ’’مومن مرد اور مومن عورتیں، یہ سب ایک دوسرے کے رفیق ہیں، بھلائی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں‘‘۔ اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَ اَخَوَیْکُمْ (الحجرات۴۹:۱۰) ’’مومن تو ایک دوسرے کے بھائی ہیں، لہٰذا اپنے بھائیوں کے درمیان تعلقات کو درست کرو‘‘۔ اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ ثُمَّ لَمْ یَرْتَابُوْا وَجٰہَدُوْا بِاَمْوَالِہِمْ وَاَنْفُسِہِمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اُوْلٰٓئِکَ ہُمُ الصّٰدِقُوْنَo (الحجرات۴۹:۱۵) ’’حقیقت میں تو مومن وہ ہیں جو اللہ اور اس کے رسولؐ پر ایمان لائے پھر انھوں نے کوئی شک نہ کیا اور اپنی جانوں اور مالوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا۔ وہی سچے لوگ ہیں‘‘۔ اِنَّمَا کَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذَا دُعُوْٓا اِلَی اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ لِیَحْکُمَ بَیْنَہُمْ اَنْ یَّقُوْلُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا وَاُوْلٰٓئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ o (النور۲۴:۵۱) ’’ایمان لانے والوں کا کام تو یہ ہے کہ جب وہ اللہ اور رسولؐ کی طرف بلائے جائیں تاکہ رسولؐ ان کے مقدمے کا فیصلہ کرے تو وہ کہیں کہ ہم نے سنا اور اطاعت کی۔ ایسے ہی لوگ فلاح پانے والے ہیں‘‘۔

یہ آیات اور ایسی دیگر بہت سی آیات بھی پڑھنی چاہییں جو قرآنِ مجید میں ہی ہیں۔ پھر ہمیں اربوں مسلمانوں کو دیکھنا چاہیے جو خود کو اسلام کے ساتھ منسوب کرتے ہیں۔ ایسی صورتِ حال میں اپنے رب کی قسم کھا کر کہیے کہ کیا مسلمان ایسی قوم نہیں بن گئے جنھوں نے نماز کو ضائع کر دیا ہے، خواہشات کے پیچھے دوڑ رہے ہیں۔ ان کے دل اللہ تعالیٰ کی یاد سے غافل ہیں، اللہ سے ان کا تعلق کٹ چکا ہے۔ گویا قرآن ہی کی زبان میں: بَاْسُہُمْ بَیْنَہُمْ شَدِیْدٌ تَحْسَبُہُمْ جَمِیْعًا وَّقُلُوْبُہُمْ شَتّٰی(الحشر۵۹:۱۴)’’یہ آپس کی مخالفت میں بڑے سخت ہیں۔ تم انھیں اکٹھا سمجھتے ہو مگر ان کے دل ایک دوسرے سے پھٹے ہوئے ہیں‘‘۔ برائی اُن میں عام اور علانیہ ہو گئی ہے، جب کہ نیکی دَب کر رہ گئی ہے، بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ نیکی برائی بن گئی ہے اور برائی نے نیکی کی جگہ لے لی ہے۔ یہاں اب نیکی کا پرچار کرنے والوں کی جگہ برائی کا پرچار کرنے والے آ گئے ہیں بلکہ نیکی کو روکنے والے موجود ہیں۔

آپ اِن اربوں اہل ایمان کو دیکھیں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ ان میں سے لاکھوں کو گروہی تعصب اور فرقہ ورانہ گمراہ کاری نے تباہ کر کے رکھ دیا ہے اور لاکھوں کو سیاسی استبداد نے بے کار بنادیا ہے۔ لاکھوں کو اجنبی فکری یلغار نے اعتقادی طور پر کمزور کر دیا ہے۔ لاکھوں کو سیکولر استعمار نے علیحدگی پسند بنا دیا ہے۔ اسی طرح لاکھوں کو صلیبی استعمار نے جہالت میں دھکیل دیا ہے اور لاکھوں ایسے ہیں جو کسی شمار قطار میں ہی نہیں۔ وہ غفلت میں بے سدھ اور مدہوشی میں بے حس پڑے ہیں: اَمْوَاتٌ غَیْرُ اَحْیَآئٍ وَ مَا یَشْعُرُوْنَ اَیَّانَ یُبْعَثُوْنَ(النحل۱۶:۲۱) ’’مردہ ہیں نہ کہ زندہ۔ اور ان کو کچھ معلوم نہیں ہے کہ انھیں کب (دوبارہ زندہ کر کے) اٹھایا جائے گا‘‘۔

سوال ہے کہ کیا ہم یہودیوں کے مقابلے میں بھی مخلص مومن نہیں؟ یہودی کیوں غالب ہیں، اور غالب بھی ہمارے اوپر ہیں؟

عرض ہے کہ یہودی کائنات میں اللہ تعالیٰ کے قوانین قدرت کو اہمیت دینے کی بنا پر غالب آئے ہیں۔ قوانین قدرت کو اہمیت دینا ایمان کا ایک اہم جز ہے۔ ہم نے اس جز کو ضائع کردیا لیکن انھوں نے اس کی حفاظت کی ہے۔ دراصل وہ بیدار رہے، جب کہ ہم خواب کے مزے لیتے رہے۔ انھوں نے علم حاصل کیا، جب کہ ہم جہالت میں پڑے رہے۔ انھوں نے محنت و کوشش کو شعار بنایا، جب کہ ہم نے سستی و پس ماندگی کو گلے لگایا۔ انھوں نے اپنی باہمی قوت کو معاونت کے ذریعے بڑھایا، جب کہ ہم باہمی چپقلشوں میں کمزور ہوتے رہے۔ انھوں نے کل کے لیے تیاری کی، جب کہ ہم تو اپنا آج کاکام بھی فراموش کیے رہے۔ اُس قوم نے اپنا خون پسینہ بہا ڈالا، جب کہ ہم نے آنسو بہانے کے علاوہ کچھ نہ کیا۔

ترقی و زوال اور نصرت و ہزیمت کے الٰہی قوانین کسی سے ظلم نہیں کرتے اور نہ بے جا کسی کی حمایت میں آتے ہیں۔ جو بھی نصرت کے اسباب و وجوہ کو اختیار اور استعمال کرے گا وہ کامیابی سے ہمکنار ہو گا خواہ وہ یہودی ہی ہو۔ اور جو ہزیمت و شکست کی طرف چل پڑے گاوہ اس سے دوچار ہو کر رہے گا خواہ وہ اسلام کے ساتھہ ہی منسوب ہو۔ معرکہ اُحد میں مسلمانوں کے ساتھ پیش آنے والے حادثے پر نظر ڈالیے! اس معرکے میں مسلمانوں نے ایک غلطی کی تو ۷۰ شہدا کی صورت میں اس کی قیمت ادا کی، جن میں رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت حمزہؓ اور حضرت معصبؓ بن عمیر اور سعدؓ بن ربیع اور انسؓ بن نضر جیسے جواں مرد مومن شامل تھے۔ اس موقع پر یہ بات بھی مسلمانوں کے کام نہ آئی کہ اُن کے قائد حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور دشمنوں کی صف میں بتوں کے پجاری ہیں۔ قرآنِ مجید نے اس صورتِ حال کو یوں محفوظ کیا ہے اور قرآن سے بڑھ کر مبنی برعدل فیصلہ اور بیان کس کا ہو سکتا ہے۔ فرمایا: اَوَ لَمَّآ اَصَابَتْکُمْ مُّصِیْبَۃٌ قَدْ اَصَبْتُمْ مِّثْلَیْھَا قُلْتُمْ اَنّٰی ھٰذَا قُلْ ھُوَ مِنْ عِنْدِ اَنْفُسِکُمْ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌo(اٰلِ عمرٰن۳:۱۶۵) ’’اور یہ تمھارا کیا حال ہے کہ جب تم پر مصیبت آ پڑی تو تم کہنے لگے یہ کہاں سے آئی؟ حالانکہ (جنگ بدر میں) اس سے دوگنی مصیبت تمھارے ہاتھوں (فریق مخالف پر) پڑ چکی ہے۔ اے نبیؐ! ان سے کہو، یہ مصیبت تمھاری اپنی لائی ہوئی ہے۔ اللہ ہر چیز پر قادر ہے‘‘۔

اس مسئلے کو مزید سمجھنے کے لیے قرآنِ مجید کی درج ذیل آیات بھی پڑھ لیجیے:یٰٓـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا خُذُوْا حِذْرَکُمْ فَانْفِرُوْا ثُبَاتٍ اَوِ انْفِرُوْا جَمِیْعًا (النساء ۴:۷۱) ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، مقابلے کے لیے تیار ہو جائو، پھر جیسا موقع ہو الگ الگ دستوں کی شکل میں نکلو یا اکٹھے ہو کر‘‘۔ وَ اَعِدُّوْا لَھُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ وَّ مِنْ رِّبَاطِ الْخَیْلِ تُرْھِبُوْنَ بِہٖ عَدُوَّ اللّٰہِ وَ عَدُوَّکُمْ وَ اٰخَرِیْنَ مِنْ دُوْنِھِمْ لَا تَعْلَمُوْنَھُمْ اَللّٰہُ یَعْلَمُھُمْ (الانفال۸:۶۰) ’’اور تم لوگ، جہاں تک تمھارا بس چلے، زیادہ سے زیادہ طاقت اور تیار بندھے رہنے والے گھوڑے اُن کے مقابلے کے لیے تیار رکھو تاکہ اس کے ذریعے سے اللہ کے اور اپنے دشمنوں کو اور اُن دوسرے اعداء کو خوف زدہ کر دو جنھیں تم نہیں جانتے مگر اللہ جانتا ہے‘‘۔ یٰٓـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا لَقِیْتُمْ فِئَۃً فَاثْبُتُوْا وَ اذْکُرُوا اللّٰہَ کَثِیْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَo وَاَطِیْعُوا اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ وَ لَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَ تَذْھَبَ رِیْحُکُمْ وَ اصْبِرُوْا اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَo (الانفال۸:۴۵،۴۶)’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جب کسی گروہ سے تمھارا مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو اور اللہ کو کثرت سے یاد کرو، توقع ہے کہ تمھیں کامیابی نصیب ہو گی۔ اور اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرو اور آپس میں جھگڑو نہیں، ورنہ تمھارے اندر کمزوری پیدا ہوجائے گی اور تمھاری ہوا اکھڑ جائے گی۔ صبر سے کام لو، یقینا اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے‘‘۔

کیا ہم نے ان آیات پر عمل کیا؟ ہم نے تو اپنا دفاع بھی نہ کیا بلکہ فریب میں ہی مبتلا تھے کہ اچانک صہیونی چالوں کا شکار ہو گئے اور آج بھی اُن کے چنگل میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ہم ہمیشہ غفلت میں پڑے رہے اور اپنی بساط بھر تیاری کی، نہ قوت حاصل کی۔ ہاں، بے کار اسلحہ خرید لیا جو نشانے پر لگنے کے بجاے نشانہ لینے والے ہی پر واپس آ لگتا ہے۔ اسلحہ اور ساز و سامان سے یہی غفلت بھری صورت حال تھی جس کی بنیاد پر دشمن نے یکبارگی ہمارے اوپر حملہ کر دیا۔ قرآنِ مجید نے اس حقیقت کو بھی بیان کیا ہوا ہے: وَدَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَوْ تَغْفُلُوْنَ عَنْ اَسْلِحَتِکُمْ وَاَمْتِعَتِکُمْ فَیَمِیْلُوْنَ عَلَیْکُمْ مَّیْلَۃً وَّاحِدَۃً(النساء۴:۱۰۲) ’’کفار اس تاک میں ہیں کہ تم اپنے ہتھیاروں اور سامان کی طرف سے ذرا غافل ہو تو وہ تم پر یک بارگی ٹوٹ پڑیں‘‘۔

یہی وجہ ہے کہ جب ہم دشمن کے سامنے آئے تو اس طرح نہ ٹھیر سکے جس طرح ٹھیرنے کا اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو حکم دیا تھا۔ نہ بہت زیادہ اللہ تعالیٰ کو یاد ہی کیا بلکہ تھوڑا بھی نہ کیا اور نہ    اللہ و رسولؐ کی اطاعت کی۔ ہم نے تو لشکر سازی اور میدانِ جنگ سے منہ موڑ کر رقص و سرود کی طرف رُخ کر لیا۔ ہم اس باہمی آویزش اور چپقلش سے باز نہ آئے جس سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں منع کیا تھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ہم ناکام ہوئے اور ہمارے غبارے سے ہوا نکل گئی۔

اس صورتِ حال کے بعد کیسے ہم اپنے آپ کو مومنوں کے اس گروہ میں شمار کر سکتے ہیں جس کو قرآنِ مجید نے بیان کیا ہے۔ اسی طرح ہم اُن وعدوں کے منتظر بھی کیسے ہو سکتے ہیں جو   اللہ نے کیے ہیں، جب کہ ہم اُن شرائط کو پورا نہیں کر رہے جو اللہ تعالیٰ نے مقرر کی ہیں۔ یہ تو بڑی بے شرمی کی بات ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی نصرت کے تو طلب گار ہوں مگر خود اللہ تعالیٰ کی مدد کے لیے کچھ نہ کریں۔ اللہ سے ہم مومنوں جیسا بدلہ چاہیں مگر اپنے اندر مومنوں جیسے اوصاف پیدا نہ کریں۔ ہمارے اوپر فرض ہے کہ ہم اللہ کے لیے مخلص ہو جائیں۔ پھر اللہ بھی ہمارے ساتھ مخلصوں جیسا سلوک کرے گا۔ میرا مقصد یہ ہے کہ ہم حقیقی مومن بن جائیں، اللہ وحدہٗ کے رب ہونے پر، اسلام کے طریق زندگی ہونے پر، رسولِ کریمؐ کے مقتدا و پیشوا ہونے پر اور قرآن کے رہنما ہونے پر تہہ دل سے راضی ہو جائیں۔ اس کے ساتھ یہ بھی ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنے عقائد و افکار، اخلاق و کردار اور قانون و نظامِ زندگی، غرض ہر چیز میں غیر اللہ کی بندگی سے بیزاری کا اظہار کریں۔

صرف اور صرف اسی ایمان کی بنیاد پر ہم اس خوشی و راحت اور عزت و نصرت کو حاصل کر سکتے ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے دنیا میں مومنوں کے لیے مقدر فرما دیا ہے، جب کہ آخرت کی رضا و خوشی اور ثواب و اجر اس کے علاوہ ہے۔

یہاں سوال یہ اُٹھتا ہے کہ کیا صالح مومن بھی کہیں موجود نہیں ہیں؟ گزارش یہ ہے کہ یہ اُمت تو گمراہی پر یک جا نہیں ہو سکتی۔ مگر ایسے صالح مومن بہت تھوڑے ہیں اور وہ تھوڑے ہونے کے ساتھ اُن بکھرے ہوئے دانوں کی طرح منتشر بھی ہیں جو کسی دھاگے میں منسلک نہ ہوں اور ان میں سے کثیر تعداد کو تو اس مایوسی نے گھیر رکھا ہے کہ اصلاح اور تبدیلی ممکن نہیں۔ لہٰذا انھوں نے ہتھیار ڈال دیے ہیں اور میدان منکرِ خدا، فاجر اور چال باز فکری یلغار کے لیے کھلا چھوڑ دیا ہے۔ ان صالح مومنوں میں سے کچھ تو آہ و زاری، واویلے اور ماضی کی طرف پلٹنے کو کافی سمجھ بیٹھے ہیں اور کوئی سنجیدہ و مثبت لائحہ عمل پیش نہیں کرتے اور کچھ اللہ کی راہ میں پہنچنے والی تکلیف سے ہی خوف زدہ ہو کر کمزور و بے کار ہو گئے ہیں۔ اسی طرح کے درجنوں اور اسباب بھی ہیں جو ایسے مومنوں کی موجودہ صورتِ حال کو واضح کرتے ہیں۔

اس تمام تر صورتِ حال میں مسائل کا حل کیا ہو سکتا ہے؟ حل یہ ہے کہ اہل ایمان ایک دوسرے کو صحیح اسلام کی طرف رجوع کی دعوت دیں کہ عقیدہ و شریعت اور اخلاق و کردار میں وہ صحیح اسلام کو اختیار کریں۔ وہ قوم کو بھی اسی یاد دہانی کے ذریعے امیدیں و عیدیں سنائیں۔ وہ صرف اسلام ہی کے ذریعے غالب آ سکتے اور قیادت کر سکتے ہیں۔ اُن کی وحدت و قوت اسی اسلام میں پوشیدہ ہے اور دنیا کی عزت اور آخرت کی سعادت اسی اسلام میں ہے، کہیں اور نہیں ۔

یہ صالح مومن امت کو قدیم جمود، جدید انتشاراور کبھی کھل کر اور کبھی چھپ کر حملہ کرنے والے کفر سے بچانے کے لیے اپنی کوششوں کو متحد کریں۔ ان غیرت مند مومنوں کو اپنے عہد کے حالات کا بخوبی علم ہونا چاہیے، زمانے کے تقاضوں سے آگاہ ہونا چاہیے، اپنے اپنے معاشروں اور ممالک کے احوال سے باخبر ہونا چاہیے۔ اجنبی یلغاروں اور مشکلات سے بھی چوکنا ہونا چاہیے اور ان سے نمٹنے کا سامان بھی کرنا چاہیے۔ انھیں یہ کام ماہر و متخصّص علما کے طرز پر کرنا چاہیے، مقلدوں اور نقالوں کی طرح نہیں۔ اس کے ساتھ وہ اس سرکش مادی یلغار کا مقابلہ کرنے کے لیے صبر و یقین کے ہتھیار سے لیس ہوں جس یلغار نے اُن کے گھروں کو تباہ کر ڈالا ہے اور اُن کے   دل و دماغ کو بھی مائوف کر کے رکھ دیا ہے۔ اس صورتِ حال کو ایک بڑے اسلامی مفکر نے ایک جملے میں بیان کیا کہ ’’اِرتداد بڑھ رہا ہے مگر اس کے خاتمے کے لیے ابوبکر نہیں ہے‘‘۔

جب مومن حق و باطل کے درمیان گرم ہو چکے معرکے میں صبر کا مظاہرہ کر لیں گے اور انھیں اپنے بارے میں اللہ تعالیٰ کی آیات کی صداقت کا یقین ہو چکے گا اور وہ اللہ، رسولؐ اور جہاد کو ہر اُس چیز پر ترجیح دے چکے ہوں گے جس کی خواہش اور تمنا انسانوں کو ہر دور میں رہی ہے۔ جب وہ ایسی پامردی اور ثابت قدمی کا مظاہرہ کر لیں گے تو وہ خود کو اس کا حقدار بنا لیں گے کہ اللہ اُن کو دنیا کی امامت و قیادت عطا فرما دے، زمین کا وارث بنا دے، اور زمین کی حکمرانی و سلطنت اُن کے پاس آ جائے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: وَجَعَلْنَا مِنْھُمْ اَئِمَّۃً یَّھْدُوْنَ بِاَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوْا وَ کَانُوْا بِاٰیٰتِنَا یُوْقِنُوْنَo(السجدہ۳۲:۲۴)’’اور جب انھوں نے صبر کیا اور ہماری آیات پر یقین لاتے رہے تو ان کے اندر ہم نے ایسے پیشوا پیدا کیے جو ہمارے حکم سے رہنمائی کرتے تھے‘‘۔

لیکن اگر یہ صالح مومن اس فرض کو پورا کرنے سے پہلو بچائیں گے تو اس کا انجام کیا ہو گا؟… یہ انجام تو بڑا خوف ناک اور دہلا دینے والا ہے۔ قرآنِ مجید کی ایک آیت نے اس کی علامات کو متعین کر کے اور ایک دوسری آیت نے اسے متعین کیے بغیر بیان کیا ہے۔

پہلی آیت یہ ہے: اِلَّا تَنْفِرُوْا یُعَذِّبْکُمْ عَذَابًا اَلِیْمًا وَّ یَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَیْرَکُمْ وَلَا تَضُرُّوْہُ شَیْئًا وَاللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرo(التوبہ۹:۳۹) ’’تم نہ اٹھو گے تو خدا تمھیں دردناک سزا دے گا، اور تمھاری جگہ کسی اور گروہ کو اٹھائے گا، اور تم خدا کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکو گے،    وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے‘‘۔ دوسری آیت ہے: قُلْ اِنْ کَانَ اٰبَـآؤُکُمْ وَ اَبْنَـآؤُکُمْ وَ اِخْوَانُکُمْ وَ اَزْوَاجُکُمْ وَ عَشِیْرَتُکُمْ وَ اَمْوَالُ نِ اقْتَرَفْتُمُوْھَا وَتِجَارَۃٌ تَخْشَوْنَ کَسَادَھَا وَ مَسٰکِنُ تَرْضَوْنَھَآ اَحَبَّ اِلَیْکُمْ مِّنَ اللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ وَ جِھَادٍ فِیْ سَبِیْلِہٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰی یَاْتِیَ اللّٰہُ بِاَمْرِہٖ وَ اللّٰہُ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ(التوبہ۹:۲۴) ’’اے نبی کہہ دو کہ اگر تمھارے باپ اور تمھارے بیٹے اور تمھارے بھائی، اور تمھاری بیویاں، اور تمھارے عزیز و اقارب اوروہ مال جو تم نے کمائے ہیں، اور تمھارے وہ کاروبار جن کے ماند پڑ جانے کا تم کو خوف ہے، اور تمھارے وہ گھر جو تم کو پسند ہیں، تم کو اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں جہاد سے عزیز تر ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ تمھارے سامنے لے آئے، اور اللہ فاسق لوگوں کی رہنمائی نہیں کیا کرتا‘‘۔ [مأخذ:www.qaradawi.net]

سوال: امر بالمعروف اور نہی عن المنکر، یعنی ’نیکی کا حکم دینا‘ اور ’برائی کو روکنا‘ دینی طبقات کے نزدیک ایک بہت اہم مسئلہ ہے۔ اس میں بھی برائی [منکر] کو بزورِ قوت روکنے کا مسئلہ زیادہ اہم ہے، اور اسی طرح یہ بات بھی کہ برائی کو روکنے کا یہ حق کسے حاصل ہے اور یہ کب جائز ہوتا ہے؟

کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ حق فقط اہل اقتدار کو حاصل ہے، یعنی یہ حکومت کی ذمہ داری میں شامل ہے، افراد کی ذمہ داری نہیں ہے، کیونکہ اگر یہ حق افراد کے پاس ہو تو معاشرے میں فساد رُونما ہو سکتا ہے۔کچھ دوسرے لوگوں کا خیال یہ ہے کہ برائی کو روکنا ہر مسلمان کے فرائض میں شامل ہے۔ ان کی دلیل یہ صحیح حدیث رسولؐ ہے: ’’تم میں سے کوئی منکر کو دیکھے تو اُسے اپنے ہاتھ کی طاقت سے بدل دے۔ اگر کوئی یہ طاقت اپنے اندر نہ رکھتا ہو تو وہ اپنی زبان سے کام لے۔ اور اگر کوئی اس کی طاقت بھی نہ رکھتا ہو تو وہ اپنے دل میں اسے برا سمجھے اور یہ ضعیف ترین ایمان ہے۔‘‘ (مسلم، عن ابی سعید الخدریؓ)

سوال یہ ہے کہ اگر کوئی شخص قوی ترین ایمان پر قادر ہے تو وہ اس کے ضعیف ترین درجے پر کیوں راضی ہو جائے؟یہ وہ رجحان ہے جو انجام اور نتائج کی پروا کیے بغیر برائی کو روکنے کے حوالے سے بعض جذباتی نوجوانوں میں پایا جاتا ہے۔ اُن کا خیال ہے کہ چونکہ اہل اقتدار اور حکومت خود برائی کا ارتکاب کرتی ہے، یا اس کی پشت پناہی کرتی ہے، حرام کو حلال اور حلال کو حرام ٹھیراتی ہے، یا فرائض کو ساقط کرتی ہے،       یا حدود سے تجاوز کرتی ہے، یا حق سے دشمنی رکھتی ہے اور باطل کو رواج دیتی ہے، تو ایسی صورتِ حال میں افراد پر فرض ہو جاتا ہے کہ وہ اپنی طاقت کے مطابق اس کی اصلاح کی کوشش کریں۔ اس کوشش میں اگر افراد کوئی نقصان اٹھاتے ہیں تو وہ اللہ کی خاطر ہوگا، اگر قتل کر دیے جائیں گے تو فی سبیل اللہ شہادت ہو گی اور حدیث رسولؐ کے مطابق وہ سید الشہداء حضرت حمزہؓ بن عبدالمطلب کی ہمسایگی میں جگہ پائیں گے۔

دونوں طرف کے ان دلائل کی بنا پر بہت سے لوگوں خصوصاً غیرت مند دین پسند نوجوانوں کے لیے یہ معاملہ کچھ الجھ سا گیا ہے۔ جو لوگ پہلے موقف کے قائل ہیں کہ برائی کو روکنے کا اختیار اہل اقتدار کے پاس ہے،عموماً وہ لوگ ہیں جن کو ’سرکاری علما‘ کہا جاتا ہے اور عوام میں اُن کی بات کو کوئی اہمیت اور وزن حاصل نہیں ہوتا، جب کہ دوسرا گروہ جو برائی کو بزورِ قوت روکنے کا قائل ہے، یہ سب وہ نوجوان ہیں جن کو انتہا پسند، جذباتی اور شریعت کا ظاہری مفہوم لینے کا الزام دیا جاتا ہے۔

گزارش ہے کہ صحیح راے کی نشان دہی کریں۔ ہو سکتا ہے دونوں ہی درست ہوں اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ دونوں درست نہ ہوں، بلکہ تیسری راے درست ہو جو اِن کے علاوہ ہو۔

جواب: نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے کا فریضہ اسلام کے بنیادی فرائض میں سے ہے۔ یہ وہ فریضہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اُمت مسلمہ کی فضلیت کے دو بڑے اسباب میں سے ایک قرار دیا ہے:

کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ (اٰلِ عمرٰن۳:۱۱۰)، اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔

قرآنِ مجید کی نظر میں مؤمنوں کی اساسی صفات یہ ہیں:

اَلتَّآئِبُوْنَ الْعٰبِدُوْنَ الْحٰمِدُوْنَ السَّآئِحُوْنَ الرّٰکِعُوْنَ السّٰجِدُوْنَ الْاٰمِرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ النَّاھُوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ الْحٰفِظُوْنَ لِحُدُوْدِ اللّٰہِ (التوبہ ۹:۱۱۲) اللہ کی طرف بار بار پلٹنے والے، اس کی بندگی بجا لانے والے، اس کی تعریف کے گن گانے والے، اس کی خاطر زمین میں گردش کرنے والے، اس کے آگے رکوع اور سجدے کرنے والے، نیکی کا حکم دینے والے، بدی سے روکنے والے اور اللہ کی حدود کی حفاظت کرنے والے۔

قرآنِ مجید نے جس طرح نیکی کا حکم دینے والوں اور برائی سے روکنے والوں کی تعریف کی ہے، اسی طرح اُن لوگوں کی مذمت بھی کی ہے جو نیکی کا حکم نہیں دیتے اور برائی سے نہیں روکتے :

لُعِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْم بَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ عَلٰی لِسَانِ دَاوٗدَ وَ عِیْسَی ابْنِ مَرْیَمَ ط ذٰلِکَ بِمَا عَصَوْا وَّ کَانُوْا یَعْتَدُوْنَo  کَانُوْا لَا یَتَنَاھَوْنَ عَنْ مُّنْکَرٍ فَعَلُوْہُ ط لَبِئْسَ مَا کَانُوْا یَفْعَلُوْنَ o (المائدہ۵: ۷۸- ۷۹)، بنی اسرائیل میں سے جن لوگوں نے کفر کی راہ اختیار کی اُن پر دائودؑ اور عیسیٰؑ ابن مریم کی زبان سے لعنت کی گئی کیونکہ وہ سرکش ہو گئے تھے اور زیادتیاں کرنے لگے تھے، انھوں نے ایک دوسرے کو برے افعال کے ارتکاب سے روکنا چھوڑ دیا تھا، برا طرزِ عمل تھا جو انھوں نے اختیار کیا۔

مذکورہ آیت کے مطالعے کی روشنی میں مسلمان صرف انفرادی حیثیت ہی میں صالح انسان نہیں ہوتا جو اچھے کام کرتا ہے، برائی سے بچتا ہے اور اپنے ایک خاص دائرے میں زندگی گزارتا ہے، نہ اُسے یہ فکر ہو کہ خیر کا دائرہ سمٹ رہاہے اور اُسے بے وقعت بنایا جا رہا ہے، نہ اُسے یہ پریشانی ہو کہ برائی اُس کے اردگرد پھیل رہی ہے اور پرپرزے نکال رہی ہے___ بلکہ ہرمسلمان اپنی ذات میں ایسا صالح انسان ہوتا ہے جس کی یہ تمنا ہوتی ہے کہ وہ اوروں کی بھی اصلاح کرے۔ اسی بات کو قرآنِ مجید کی مختصر سورت سورۂ عصر میں بیان کیا گیا ہے: ’’زمانے کی قسم، انسان درحقیقت خسارے میں ہے، سواے اُن لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک اعمال کرتے رہے اور ایک دوسرے کو حق کی نصیحت اور صبر کی تلقین کرتے رہے‘‘(العصر۱۰۳:۱-۳)۔ جو مسلمان دنیا و آخرت میں خسارے سے دوچار ہو جائے اس کے لیے نجات ممکن نہیں۔ نجات اگر مسلمان کا مقدر بن سکتی ہے تو صرف اسی صورت میں جب وہ حق اور صبر کی تلقین کا فریضہ ادا کرے اور یہی وہ چیز ہے جس کو ’امر بالمعروف اور نہی عن المنکر‘ کا بھی نام دیا گیا ہے۔ مسلمان اُمت مسلمہ میں حق و خیر کا محافظ اور نگران ہے۔

مسلم معاشرے میں برائی صرف اِسی صورت میں ہوتی ہے، جب معاشرہ غفلت کا شکار ہوجائے یا ضعف اور انتشار سے دوچار ہو جائے۔ ایسی صورتِ حال میں یہ معاشرہ نہ قائم رہ سکتا ہے اور نہ آگے بڑھ سکتا ہے۔ وہ اپنے آپ کو محفوظ بھی خیال نہیں کر سکتااور اپنے ان دگرگوں حالات کی بنا پر کسی قانون کے نفاذ سے بھی فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔

برائی، مسلم معاشرے میں غیر مقبول عنصر کے طور پر ہی زندہ رہ سکتی ہے۔ جیسے پھانسی یا عمر قید کے سزا یافتہ مجرم کی کیفیت ہوتی ہے۔ وہ ماوراے عدالت اور معاشرے سے چھپ چھپا کر زندگی گزارتا اور نقل و حرکت کرتا ہے۔ لہٰذا مسلمان سے یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ برائی کے سامنے اس وقت تک مزاحمت کرے اور اُسے روکے، جب تک اس کا ایسے علاقے سے خاتمہ نہیں ہو جاتا جو علاقہ برائی کو پسند کرنے والوں کا نہیں بلکہ مسلمانوں کی سرزمین ہے۔

مذکورہ حدیثِ رسولؐ کا مطلب بالکل واضح ہے کہ برائی کو روکنا ہر اُس مسلمان کا حق بلکہ فریضہ ہے جو اُسے دیکھ لے۔ اس بات کے فرض اور واجب ہونے کی دلیل حدیث میں مذکور لفظ ’مَن‘ ہے یعنی مَنْ رَأیٰ ’’جو بھی دیکھے‘‘ عام الفاظ ہیں۔ یہ الفاظ ہر اُس شخص کے لیے ہیں جو برائی کو دیکھے، وہ شخص حاکم ہو یامحکوم۔ رسول ؐاللہ نے تو تمام مسلمانوں کو مخاطب کر کے یہ بات فرمائی ہے، یعنی مَنْ رَأیٰ منکم ’’تم میں سے جو شخص بھی برائی کو دیکھے‘‘۔ آپؐ نے اس میں سے کسی کو مستثنیٰ نہیں کیا، صحابہ کرامؓ سے لے کر قیامت تک آنے والی امت مسلمہ کی تمام نسلیں اس میں شامل ہیں۔ یہ ’برائی کو دیکھنے والا‘ امت کا رہنما، سربراہ اور حاکم بھی ہو سکتا ہے اور عوام میں سے کوئی فرد بھی ہو سکتا ہے۔ ان میں سے جو بھی برائی کو دیکھے وہ طاقت کے مطابق اسے روکنے کی کوشش کرے۔

برائی کو روکنے کی شرائط

 برائی کو روکنے کے حوالے سے مسلم فرد یا مسلم جماعت کو جن لازمی شرائط کا خیال رکھنا واجب ہے اور جن کی طرف حدیث کے الفاظ اشارہ کرتے ہیں وہ شرائط حسب ذیل ہیں:

  •  حرام اور متفقہ منکر: پہلی شرط یہ ہے کہ وہ برائی متفقہ طور پر حرام کاموں میں شامل ہو، یعنی وہ برائی حقیقتاً’منکر‘ ہو۔ اس سے مراد وہ برائی ہے جس کو اولاً ہاتھ کی طاقت سے، پھر زبان سے اور پھر دل سے روکنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ حدیث میں مذکور لفظ ’منکر‘ [برائی] کا اِطلاق صرف اس ’حرام‘ کے اوپر ہی کیا جاتا ہے جس کو چھوڑنے کا شارع نے تاکیدی حکم دیا ہو، جب کہ اس حرام کا ارتکاب کرنے والا عذابِ الٰہی کا مستحق بھی ٹھیرتا ہو، اور پھر اس حرام کا تعلق منع کیے گئے حرام کاموں کا ارتکاب کرنے سے ہو یا انجام دیے جانے والے امورکو چھوڑ دینے سے۔ اس منکر کا تعلق محرماتِ صغیرہ [چھوٹے حرام امور] سے ہو یا محرماتِ کبیرہ [بڑے حرام امور] سے۔ اگرچہ محرماتِ صغیرہ کے بارے میں تساہل سے کام لیا جاتا ہے، لیکن محرماتِ کبیرہ کے متعلق ایسا تساہل نہیں پایا جاتا، خصوصاً اس وقت جب ان ’منکرات‘ کا مرتکب ان کا عادی بھی نہ ہو۔ قرآنِ حکیم میں ہے:

اِنْ تَجْتَنِبُوْا کَبَآئِرَ مَا تُنْھَوْنَ عَنْہُ نُکَفِّرْ عَنْکُمْ سَیِّاٰتِکُمْ وَ نُدْخِلْکُمْ مُّدْخَلًا کَرِیْمًا(النساء۴:۳۱)، اگر تم اُن بڑے بڑے گناہوں سے پرہیز کرتے رہو جن سے تمھیں منع کیا جا رہا ہے تو تمھاری چھوٹی موٹی برائیوں کو ہم تمھارے حساب سے ساقط کر دیں گے اور تم کو عزت کی جگہ داخل کریں گے۔

رسولِ کریمؐ نے فرمایا: پانچ نمازیں، جمعہ سے اگلے جمعہ تک اور رمضان سے اگلے رمضان تک کے درمیانی عرصے کے گناہوں کو محو کر دیتی ہیں، اگر تم کسی کبیرہ گناہ کا ارتکاب نہ کرو تو (مسلم، عن ابی ہریرہؓ)۔ لہٰذا مکروہ افعال کا ارتکاب اور مسنون اور مستحب اعمال کو ترک کر دینے کا فعل ’منکر‘ میں داخل نہیں ہے۔ ایک سے زیادہ صحیح احادیث میں بیان ہوا ہے کہ ایک شخص نے نبیؐ سے فرائضِ اسلام کے بارے میں پوچھا تو آپؐ نے اس کے سامنے نماز، روزہ، زکوٰۃ کے فرائض بیان کیے۔ یہ شخص ہر فرض کے ذکر کے بعد آپؐ سے پوچھتا تھا کہ کیا اس کے علاوہ بھی کچھ میرے اوپر فرض ہے؟ آپؐ اُسے جواب دیتے: ’’اگر تم نفلی طور پر کچھ کرنا چاہو تو کر سکتے ہو‘‘… رسولؐ اللہ  اپنی بات سے فارغ ہوئے تو اُس شخص نے کہا: اللہ کی قسم یا رسول اللہ! میں نہ اس سے کچھ زیادہ کروں گا اور نہ اس میں کوئی کمی کروں گا۔ اس پر آپؐ نے فرمایا: ’’اگر اس نے سچ کہا ہے تو یہ نجات پا گیا‘‘۔ یا آپؐ کے الفاظ تھے: ’’اگر اس نے سچ کہا ہے تو یہ جنت میں داخل ہو گیا‘‘ (بخاری،  مسلم،  عن طلحہ بن عبید اللہؓ)۔ایک دوسری حدیث کے الفاظ ہیں: ’’جو شخص کسی جنتی آدمی کو دیکھ کر خوش ہونا چاہے وہ اس آدمی کو دیکھ لے‘‘(بخاری ، مسلم، عن ابی ہریرہؓ)۔ لہٰذا ضروری ہے کہ یہ ’منکر‘ جس کو روکنے کا مسئلہ درپیش ہو، وہ حرام کے درجے میں آتا ہو اور شریعت کی رو سے حقیقتاً ’منکر‘ ہو۔ شریعت کے ٹھوس اور واضح الفاظ یا قطعی قواعد و ضوابط سے اس کا ’منکر‘ ہونا ثابت ہو۔  اس ’منکر‘ کا منکر ہونا محض راے اور اجتہاد سے ثابت نہ ہوتا ہو کیونکہ راے اور اجتہاد درست بھی ہوسکتے ہیں اور غلط بھی۔ یہ زمانے، مقام، اور حالات و رواج کے بدلنے سے بدل جاتے ہیں۔

اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ اس برائی کے ’منکر‘ ہونے پر سب کا اتفاق ہو۔ ایسے امور جن کے بارے میں قدیم یا جدید علماے اجتہاد کا اختلاف ہو، یعنی اس امر کے جائز ہونے اور ممنوع ہونے کے بارے میں علما متفق نہ ہوں، تو یہ اُس ’منکر‘ کے دائرے میں داخل نہیں جس کو ہاتھ کی قوت سے روکنا، خصوصاًانفرادی سطح پر روکنا واجب ہے۔

تصویر، آلات یا غیر آلات کی موسیقی، عورت کا چہرے اور ہتھیلیوں کو نہ چھپانا، عورت کا عدالتی امور کے مناصب پر تقرر، ایک ہی دن روزہ رکھنے یا نہ رکھنے کا معاملہ جو مطالع کے اختلاف کی وجہ سے سامنے آتا ہے، چاند کو آنکھ سے مشاہدہ کرنا یا ریڈار اور کیلنڈر وغیرہ کی مدد سے یہ حساب قائم کرنا وغیرہ ایسے امور اور مسائل ہیں جن کے بارے میں قدیم اور جدید فقہا کا طول طویل اختلاف موجود ہے۔ ان امور میں کسی مسلمان فرد یا مسلمان جماعت کے لیے یہ روا نہیں کہ وہ کسی ایک راے کو اختیار کر کے دوسروں کو سختی کے ساتھ اس پر مجبور کرے۔

یہاں تک کہ جمہور اکثریت کی راے اقلیت کی راے کو ساقط اور بے اعتبار نہیں کر سکتی خواہ مخالفت میں صرف ایک فرد ہی کیوں نہ ہو۔ البتہ یہ ضروری ہے کہ وہ فرد اہل اجتہاد میں سے ہو، یعنی اس کے اندر مجتہدانہ صفات اور صلاحیتیں موجود ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک زمانے اور عہد میں ایک راے متروک ہوتی ہے، لیکن کسی دوسرے عہد میں اس کا رواج ہو جاتا ہے۔ اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی فقیہ کی راے کو اس کے دور میں ضعیف قرار دیا گیا اور بعد میں کوئی پیدا ہوا جس نے اس راے پر دلائل قائم کیے اور اس کو صحیح اور قوی کے مقام پر لا کھڑا کیا۔ پھر یہی راے قابل اعتماد قرار پائی اور اسی کی بنیاد پر فتوے دیے جانے لگے۔

طلاق اور خاندانی معاملات میں امام ابن تیمیہؒ کی آرا کا معاملہ ایسا ہی ہے۔ انھیں زندگی بھر  ان آرا کی وجہ سے قید و بند کی صعوبتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ وفات کے بعد بھی صدیوں اُن کی راے کے خلاف مزاحمت ہوتی رہی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اُن کے پھیلنے کے اسباب پیدا فرمائے اور یہی آرا بہت سے اسلامی ممالک میں فتویٰ، عدالت اور قانون سازی کے شعبوں میں سند قرار پائیں۔

وہ ’منکر‘ جس کو طاقت سے روکنا واجب ہے، اس کے لیے ناگزیر ہے کہ وہ ثابت اور  بین ’منکر‘ ہو۔ مسلمان ائمہ کا اس کے ’منکر‘ ہونے پر اتفاق ہو۔ یہ بھی ضروری ہے کہ اس کا روکنا   شر کے لامتناہی سلسلے کا باعث نہ بن جائے۔ لہٰذا جو شخص بھی برائی کو روکنے کے بارے میں راے رکھتا ہو اسے چاہیے کہ وہ لوگوں کو آمادہ کرے کہ وہ اس برائی کو طاقت سے روک دیں۔

بعض اسلامی ممالک میں جوشیلے اور جذباتی نوجوانوں کے گروپ بنے ہوئے ہیں تاکہ اُن دکانوں کی توڑ پھوڑ کریں جو بچوں کے کھلونے اور گڑیائیں فروخت کرتی ہیں۔ ان نوجوانوں کا خیال ہے کہ یہ کھلونے اور گڑیائیں بت ہیں اور مجسمے کی شکلیں ہیں جو کبائر میں بھی سب سے اُوپر کا درجہ رکھتے ہیں۔

جب ان نوجوانوں سے کہا جاتا ہے کہ قدیم علما نے بچوں کے کھلونوں کی اجازت دی ہے کیونکہ ان میں تو ’صورت‘ [تصویر] کی توہین اور اس کی تعظیم کی نفی ہے___ اس پر نوجوانوں کا جواب ہوتا ہے کہ یہ راے تو قدیم کھلونوں کے بارے میں تھی۔ اب تو تصویر کی کامل تر صورت سامنے آ گئی ہے، جس میں کھلونا آنکھیں کھول سکتا اور بند کر سکتا ہے۔جب ان نوجوانوں سے یہ کہا گیا کہ بچہ تو ان کھلونوں کو دائیں، بائیں پھینکتا ہے، ان کا بازو توڑ دیتا ہے، ٹانگ الگ کر دیتا ہے، وہ تو انھیں تعظیم و احترام یا تقدس نہیں دیتا، تو ان نوجوانوں کے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا۔

اسی طرح کئی اسلامی ممالک میں بعض نوجوانوں نے رمضان کا چاند نظر آ جانے پر ہوٹلوں، جوس کی دکانوں اور قہوہ خانوں کو جبراً بند کرانے کی کوشش کی۔ ان جذباتی نوجوانوں کا خیال تھا کہ رمضان شروع ہو چکا لہٰذا اب کھلے عام کھانا پینا جائز نہیں۔

ایسا ہی واقعہ مصر میں بھی عیدالفطر کے موقع پر پیش آیا تھا، جب دینی حلقوں نے مختلف دلائل کی بنیاد پر یہ کہا تھا کہ شوال شروع نہیں ہوا۔ مطلع ابرآلود ہونے کے سبب اس رات چاند کی رئویت ممکن نہیں تھی، لہٰذا مصر میں چاند دکھائی نہ دیا۔ مگر بعض حلقوں نے چاند نظر آ جانے کا اعلان کر دیا، تو کچھ نوجوانوں نے اصرار کیا کہ وہ روزہ چھوڑ دیں گے اور قوم کی اکثریت اور حکومت کے علی الرغم عیدمنائیں گے۔ اس موقع پر امن فورسز کے ساتھ تصادم ہو گیا جس کا کوئی جواز نہیں تھا۔

میری راے میں یہ لوگ درج ذیل وجوہات کی بنا پر خطا کے مرتکب ہوئے ہیں:

۱- فقہا کی آرا چاند کی رئویت پر اعتماد کرنے کے حوالے سے مختلف ہیں۔ ان میں سے کسی نے ایک شہادت کو کافی سمجھا ہے، کسی نے دو شہادتوں کا مطالبہ کیا ہے اور کسی نے صاف مطلع میں  جم غفیر کی شہادت کی شرط عائد کی ہے۔ ان میں سے ہر کسی کے اپنے دلائل اور اپنا زاویۂ نظر ہے۔ لہٰذا لوگوں کو بغیر کسی قوت نافذہ کے ایک طریقے پر مجبور کرنا جائز نہیں۔

۲-اسی طرح ان فقہا کا اختلافِ مطالع کے اعتبار اور عدم اعتبار کے مسئلے میں بھی اختلاف ہے۔ متعدد فقہی مذاہب کی راے یہ ہے کہ ہر علاقے کی رئویت اپنی ہے۔ کسی ایک علاقے کے لیے کسی دوسرے علاقے کی رئویت پر عمل کرنا لازمی نہیں ہے۔ یہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ اور ان کے موافقین کا مذہب ہے۔ جیسا کہ یہ مسلم میں حضرت کریبؓ کی حدیث سے معروف ہے۔

۳- اختلافی امور میں حکمران یا قاضی کا حکم اختلاف کا خاتمہ کر دیتا ہے اور قوم کے لیے اس کا حکم ماننا لازمی ہوتا ہے۔ لہٰذا اس طرح کے مسائل میں جب مقتدر قانونی قوتیں کسی امام کے قول یا اجتہاد کو اختیار کر لیں تو ان کی پیروی فرض اور قوم کے اندر فرقہ بازی ممنوع ہو جاتی ہے۔

میں نے اپنے بعض فتاویٰ میں کہا ہے کہ اگر ہم رمضان کا روزہ شروع کرنے اور عید منانے کے معاملے میں تمام مسلمانوں کی وحدت کو ممکن نہیں بنا سکتے تو کم سے کم ایک علاقے یا ملک کے لوگ تو اپنے شعائر میں اتحاد کا مظاہرہ کریں۔ اُن کے لیے یہ صورتِ حال قابل قبول نہیں ہونی چاہیے کہ ایک ملک کے لوگ دو حصوں میں بٹے رہیں۔ ایک حصہ روزے سے ہو اور دوسرا روزے کے بغیر۔ لیکن مخلص نوجوانوں کی اس اجتہادی غلطی کا علاج گولی نہیں ہے، بلکہ صبر و تحمل کے ساتھ اُنھیں بات سمجھانا ہے۔

  •  منکر کا ظاھری ارتکاب: دوسری شرط یہ ہے کہ منکر کا ارتکاب ظاہری ہو، خفیہ نہ ہو، یعنی اس منکر کا ارتکاب ظاہر اور دیکھا جا سکنے والا ہو۔ اگر کوئی شخص اسے لوگوں کی نظروں سے چھپائے رکھتا ہے اور اپنے بند دروازے کے اندر ایسا کرتا ہے تو کسی کے لیے اس کے بارے میں نگرانی کے آلات یا خفیہ تصویری کیمروں یا منکر کے ارتکاب کے شک میں اس کے گھر پر چھاپہ مارنا جائز نہیں ہے۔

یہ وہ نکات ہیں جن کی نشان دہی حدیث کے یہ الفاظ کرتے ہیں: مَنْ رَأی مِنْکُم مُنْکَرًا فَلْیُغَیِّرْہٗ… ’’جو تم میں سے کسی منکر کو دیکھے وہ اُسے بدل دے…‘‘ یعنی روکنے کا حکم منکر کے دکھائی دینے اور مشاہدے میں آ سکنے سے مشروط ہے۔ منکر کے بارے میں کسی سے صرف سن لینے کی شرط نہیں لگائی گئی۔

ایسا کیوں ہے؟ اس لیے کہ اسلام اس شخص پر سزا کو نافذ نہیں کرتا جو ’منکر‘ کا ارتکاب چھپ چھپا کر کرے، علی الاعلان نہ کرے۔ اسلام اس کا حساب آخرت میں اللہ پر چھوڑ دیتا ہے۔ دنیا میں   اس کے اُوپر کسی کو کوئی اختیار نہیں، سواے یہ کہ وہ خود اپنے جرم کو ننگا کر دے اور اپنا پردہ ظاہر کردے۔

عذابِ الٰہی کے بارے میں تو یہاں تک ہے کہ جس شخص کے جرم پر اللہ کی طرف سے  پردہ پڑا ہوا ہے اور وہ خود بھی اُسے ظاہر نہیں کرتا تو ایسے مجرمین کی سزا میں تخفیف کر دی جائے گی۔ جیسا کہ صحیح حدیث میں آیا ہے: ’’میری پوری امت کو معاف کیا جا سکتا ہے مگر معصیت کا علی الاعلان ارتکاب کرنے والوں کو معاف نہیں کیا جائے گا‘‘۔

یہی وجہ ہے کہ خفیہ منکرات کے بارے میں کسی کو کوئی فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل نہیں ہے۔ خفیہ منکرات میں سرفہرست قلبی معصیات: ریاکاری، نفاق، کبر، حسد، بخل اور غرور وغیرہ ہیں۔ اگرچہ دین نے ان گناہوں کو کبیرہ قرار دیا ہے، لیکن یہ اُس وقت کبیرہ بنتے ہیں جب ظاہری عمل میں ڈھل کر سامنے آ جائیں، اور ایسا اس لیے ہے کہ ہمیں ظاہری صورتِ حال پر راے دینے اور   خفیہ صورتِ حال کو اللہ پر چھوڑ دینے کا حکم ہے۔

حضرت عمرؓ کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ اس سلسلے کے عمدہ واقعات میں سے ہے۔ یہ واقعہ امام غزالیؒ نے احیاء علوم الدین میں ’الامر بالمعروف و النہی عن المنکر‘ کے تحت بیان کیا ہے۔

حضرت عمرؓ دیوار پھلانگ کر ایک آدمی کے گھر میں چلے گئے اور اُس آدمی کو ناپسندیدہ حالت میں دیکھاتو اسے ڈانٹ ڈپٹ کی۔ آدمی نے کہا: امیر المومنین! اگر میں نے ایک پہلو سے اللہ کی نافرمانی کی ہے، تو آپ نے تین پہلوئوں سے نافرمانی کی ہے۔ امیر المومنین نے پوچھا:    وہ کیسے؟ آدمی نے کہا: اللہ نے فرمایا ہے: وَلَا تَجَسَّسُوا (الحجرات۴۹:۱۲) ’’تجسس نہ کرو‘‘، جب کہ آپ نے تجسس کیا ہے… اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: وَاْتُوا الْبُیُوْتَ مِنْ اَبْوَابِھَا (البقرہ ۲:۱۸۹) ’’گھروں میں اُن کے دروازوں سے داخل ہو‘‘،جب کہ آپ دیوار پھلانگ کر  اندر داخل ہوئے ہیں… اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: لَا تَدْخُلُوْا بُیُوتًا غَیْرَ بُیُوتِکُمْ حَتّٰی تَسْتَاْنِسُوا وَتُسَلِّمُوْا عَلٰٓی اَہْلِہَا (النور۲۴:۲۷) ’’اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو جب تک کہ گھروالوں کی رضا نہ لے لو اور گھروالوں پر سلام نہ بھیج لو، جب کہ آپ نے سلام نہیں کیا… آدمی کے اس جواب پر حضرت عمرؓ نے آدمی کو توبہ کرنے کی شرط پر   چھوڑ دیا۔ (احیا علوم الدین،ج۷، ص ۱۲۱۸،طبع الشعب، القاہرہ)

  •  منکر کو روکنے کی طاقت: تیسری شرط یہ ہے کہ منکر کو روکنے کی بالفعل طاقت رکھتا ہو۔ گویا منکر کو روکنے والا ذاتی طور پر یا اپنے ہم خیال ساتھیوں کے ساتھ مل کر بالفعل یہ طاقت رکھتا ہو کہ منکر کو قوت سے روک سکے۔ اس کے پاس مادی اور معنوی طور پر یہ قوت ہو کہ وہ آسانی کے ساتھ منکر کا ازالہ کر سکے۔

یہ شرط بھی زیر بحث حدیث کے ان الفاظ سے ماخوذ ہے فَمَنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ فَبِلِسَانہٖ ’’جو طاقت نہ رکھتا ہو وہ زبان سے روکے‘‘ یعنی جو شخص برائی کو اپنے ہاتھ کی قوت سے نہیں روک سکتا وہ اس کام کو ان لوگوں کے لیے چھوڑ دے جو اس کی طاقت رکھتے ہیں۔ وہ خود صرف زبان و بیان پر ہی اکتفا کرے اور وہ بھی اگر اس کے بس میں ہو تو۔

یہ کام غالباً ہر صاحب ِاختیار اپنے دائرۂ اختیار میں کر سکتا ہے۔ خاوند اپنی بیوی، باپ   اپنی اولاد، سرپرست اپنے زیر سرپرستی افراد، کسی ادارے کا سربراہ اپنے ادارے کے اندر اور امورِحکومت کے ذمہ داران اپنی ذمہ داری اور اتھارٹی کے حدود اور اپنے اختیار کے حدود میں رہتے ہوئے کر سکتے ہیں۔ کیونکہ بعض اشیا و امور کا فیصلہ ذمہ دارانِ حکومت کے بس میں بھی نہیں ہوتا۔ حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ کا معاملہ اس مسئلے میں بہت واضح مثال ہے، یعنی وہ موروثی نظام سے ہٹ کر عنانِ حکومت کو مسلمانوں کی شوریٰ میں نہیں لوٹا سکے۔

ہم نے اس شرط کے آغاز میں ’مادی و معنوی‘ کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ ان کا مقصد یہ ہے کہ خاوند کا اپنی بیوی پر یا باپ کا اپنی اولاد پر اختیار اس لیے نہیں ہے کہ وہ مادی قوت کا مالک ہوتا ہے، بلکہ اس بنا پر ہے کہ اس کا ایک احترام اور ہیبت ہوتی ہے جو اس کی بات کو منواتی اور اس کے حکم کو نافذ کرتی ہے۔

  •  فتنہ وفساد کا خدشہ: چوتھی شرط یہ ہے کہ کسی بڑی برائی کے پیدا ہونے کا خدشہ  نہ ہو۔گویا ’منکر‘ کو طاقت سے روکنے یا اسے ختم کرنے کے نتیجے میں کوئی بڑی برائی پیدا ہو جانے کا ڈر نہ ہو، کہ یہ فعل ایسے فساد کا باعث بن جائے جس میں بے گناہوں کا خون بہہ جائے، حرمتیں پامال کی جائیں، مال و دولت لوٹ لی جائے اور آخری نتیجہ یہ نکلے کہ برائی اپنے قدم مزید مضبوط کر لے اور ظالم و متکبر زمین میں ظلم و فساد کا بازار گرم کر دیں۔

علما نے اسی بنا پر اس ’منکر‘ پر خاموشی کو جائز ٹھیرایا ہے جس کو روکنے کے نتیجے میں اُس سے بھی بڑی برائی پیدا ہونے کا ڈر ہو۔ یہاں کم تر ضرر کے ارتکاب اور کم تر شر کے اختیار کا اصول نافذ ہوتا ہے۔ اس بارے میں صحیح حدیث بھی موجود ہے: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہؓ سے فرمایا: ’’اگر تمھاری قوم سے تمھیں پہنچنے والے شر کا مجھے خوف نہ ہو تو میں کعبہ کو ابراہیمی بنیادوں پر استوار کر دوں‘‘۔

قرآنِ مجید میں بھی اس نکتے کی تائید میں واقعہ موجود ہے۔ حضرت موسیٰؑ جب اپنے رب سے وعدے کے مطابق ۴۰ راتیں گزارنے کے لیے قوم سے دور چلے گئے تو اُن کی غیر موجودگی میں یہودی جادوگر سامری نے قوم کو سنہری بچھڑے کے فتنے میں مبتلا کر دیا۔ حضرت موسیٰؑ کے شریک نبوت بھائی حضرت ہارون ؑنے قوم کو وعظ و نصیحت کی مگر وہ باز نہ آئے اور سامری کے پیچھے چل پڑے۔ کہنے لگے: لَنْ نَّبْرَحَ عَلَیْہِ عٰکِفِیْنَ حتّٰی یَرْجِعَ اِلَیْنَا مُوْسٰی(طٰہٰ۲۰:۹۱)، ’’ہم تو اِسی کی پرستش کرتے رہیں گے جب تک کہ موسٰی ؑ ہمارے پاس واپس نہ آ جائے۔‘‘

جب حضرت موسٰی ؑمیعاد پوری کر کے واپس آئے اور قوم کو اس ’بچھڑے کی عبادت‘ جیسی بدترین برائی میں مبتلا دیکھا تو بھائی کو اُن کی سستی اور عدم توجہی پر زَدوکوب کرنے لگے۔ اُن کی داڑھی پکڑ لی اور شدت غضب میں کہا:

قَالَ یٰھٰرُوْنُ مَا مَنَعَکَ اِذْ رَاَیْتَھُمْ ضَلُّوْٓا۔ اَلَّا تَتَّبِعَنِ اَفَعَصَیْتَ اَمْرِیْ۔ قَالَ یَبْنَؤُمَّ لَا تَاْخُذْ بِلِحْیَتِیْ وَ لَا بِرَاْسِیْ اِنِّیْ خَشِیْتُ اَنْ تَقُوْلَ فَرَّقْتَ بَیْنَ بَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ وَ لَمْ تَرْقُبْ قَوْلِیْ(طٰہٰ۲۰: ۹۲-۹۴)، ’’موسٰی ؑ (قوم کو ڈانٹنے کے بعد ہارون کی طرف پلٹا اور) بولا ’’ہارونؑ، تم نے جب دیکھا تھا کہ یہ گمراہ ہو رہے ہیں تو کس چیز نے تمھارا ہاتھ پکڑا تھا کہ میرے طریقے پر عمل نہ کرو؟ کیا تم نے میرے حکم کی خلاف ورزی کی‘‘؟ ہارونؑ نے جواب دیا ’’اے میری ماں کے بیٹے، میری داڑھی نہ پکڑ، نہ میرے سر کے بال کھینچ، مجھے اس بات کا ڈر تھا کہ تو آ کر کہے گا: تم نے     بنی اسرائیل میں پھوٹ ڈال دی اور میری بات کا پاس نہ کیا‘‘۔

اس واقعے میں حضرت ہارون ؑ کے عمل سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ انھوں نے اپنے بڑے بھائی حضرت موسٰی ؑ کی غیر موجودگی میں قوم کی وحدت اور یک جہتی کو محفوظ رکھنا مقدم سمجھا اور خیال کیا کہ بھائی کے آ جانے پر باہمی سوچ بچار کے بعد دیکھیں گے کہ حزم و احتیاط اور حکمت و دانائی کے متقاضی اس خطرناک موقف سے کس طرح نپٹنا ہے۔

یہ چار شرائط ہیں___ جو شخص بھی برائی کو ہاتھ کی قوت سے یا دوسرے الفاظ میں ناگزیر مادی قوت سے روکنا چاہتا ہو اس پر ان شرائط کو پورا کرنا فرض ہے۔

جب منکر کا ارتکاب حکومت کر رھی ھو

منکر کو روکنے کے مسئلے میں ایک مشکل یہ بھی کھڑی ہو جاتی ہے کہ جب صاحب ِقوت اور صاحب ِاختیار، یعنی حکومت ہی برائی کی مرتکب ہو تو پھر افراد اور جماعتیں اُس منکر کو کیسے روکیں جس میں حکومت ملوث ہو یا حکومت اس کی پشت پناہی کر رہی ہو؟

اس سوال کا جواب یہ ہے کہ افراد اور جماعتیں پہلے اتنی قوت کی مالک بنیں جو برائی کو   روک سکے۔ عہد حاضر میں تین طاقتوں میں سے ایک کے ذریعے ہی یہ ممکن ہے۔ وہ حسب ذیل ہیں:

۱- مسلح افواج: یہ وہ طاقت ہے جس کا سہارا عہد حاضر کے بہت سے ملک لیتے ہیں۔ خصوصاً تیسری دنیا میں اپنے حکم نافذ کرنے، سیاست کا سکہ بٹھانے اور اپنے مخالفین کو آتش و آہن کے ذریعے خاموش کرنے کے لیے اسی قوت سے کام لیتے ہیں۔ ان حکومتوں کے نزدیک مناسب، محفوظ اور معقول راستہ دلیل و منطق اور بات چیت کا نہیں بلکہ قوت کا ہے۔ یہ قوتیں جس کے ساتھ ہوں گی اس کے لیے قومی دھارے کے رخ کو بدلنا یا روک دینا ممکن ہو گا۔ اس کا مظاہرہ ماضی قریب میں بہت سے ممالک میں کیا گیا اور آئے روز کہیں نہ کہیں ہوتا رہتا ہے۔

۲- پارلیمنٹ: مروّجہ جمہوری نظام حکومت میں غالب اکثریت رکھنے والی پارلیمنٹ کے پاس یہ اختیار ہوتا ہے کہ وہ قانون بنا بھی سکتی ہے اور تبدیل بھی کر سکتی ہے۔ خالص حقیقی جمہوری نظام کے تحت یہ اکثریت جس کو بھی حاصل ہو جائے اس کے لیے ممکن ہے کہ وہ قانون سازی کے بعد اس کو نافذ کر کے اُن تمام منکرات کو روک سکتی ہے جو اُسے نظر آئیں۔ پھر کسی وزیر، سربراہِ حکومت، یا سربراہِ ریاست کے بس میں نہیں ہوتا کہ وہ پارلیمنٹ کے سامنے ’نہ‘ کہے۔

۳- قومی سطح کی فیصلہ کن عوامی قوت: یہ عوام کی ملکی سطح کی ایسی فیصلہ کن قوت ہوتی ہے جسے اجتماع سے تشبیہ دی جا سکتی ہے۔ جب یہ قوت حرکت میں آ جائے تو کسی میں ہمت نہیں ہوتی کہ اس کا سامنا کرے یا اس کا راستہ روکے۔ یہ قوت اپنی تندی اور تیزی میں ٹھاٹھیںمارتے سمندر یا سب کچھ بہالے جانے والے سیلاب کی مانند ہوتی ہے کہ کوئی شے، حتیٰ کہ مسلح قوتیں بھی اس کے سامنے ٹھیر نہیں سکتیں۔ یہ مسلح قوتیں بھی تو اسی کا حصہ ہوتی ہیں اور یہ عوام ان قوتوں کے افرادِ خاندان، باپ، بیٹے اور بھائی ہی تو ہوتے ہیں۔

جس کے پاس ان تینوں قوتوں میں سے کوئی بھی نہ ہو، اس کے لیے لازم ہے کہ صبر سے کام لے، دوسروں کو بھی صبر کی تلقین کرے، اور روابط کو بڑھانے پر توجہ دے۔ یہاں تک کہ وہ   ان قوتوں میں سے کسی ایک کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے۔ جب تک اُسے یہ طاقت حاصل نہیں ہو جاتی وہ اپنی زبان اور قلم، دعوت اور تعلیم، رہنمائی و توجہ اور نصیحت و مشورے کے ذریعے منکر کی روک تھام کا فریضہ ادا کرے، اور اس وقت تک یہ فریضہ ادا کرتا رہے جب تک کہ راے عامہ کو برائی کے انسداد پر یکسو اور یک زبان نہ کر لے جو برائی کے خاتمے کا مطالبہ کرے۔ پھر وہ صاحب ِایمان آیندہ نسل کی ایسی تربیت کرے کہ وہ برائی کے انسداد کی اس ذمہ داری کا بوجھ اٹھانے کے قابل ہو جائے۔ اس نکتے کی طرف حضرت ابو ثعلبہ خشنیؓ کی روایت کردہ حدیث میں اشارہ موجود ہے۔ حضرت ابو ثعلبہ خشنیؓ نے رسولؐ اللہ سے قرآنِ مجید کی اس آیت کے بارے میں پوچھا:

 یٰٓـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا عَلَیْکُمْ اَنْفُسَکُمْ لَا یَضُرُّکُمْ مَّنْ ضَلَّ اِذَا اھْتَدَیْتُمْ (المائدہ۵:۱۰۵) ،اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اپنی فکر کرو، کسی دوسرے کی گمراہی سے تمھارا کچھ نہیں بگڑتا اگر تم خود راہِ راست پر ہو۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں جواب دیا: تم ایک دوسرے کو اس وقت تک نیکی کی طرف بلاتے اور برائی سے منع کرتے رہو جب تک تم طمع و لالچ کی پیروی، خواہشات کا اتباع، دنیا ہی کو سب کی ترجیح، اور صاحب ِراے کو اپنی راے کے فریب میں مبتلا نہ دیکھ لو۔ اس وقت تم اپنے اوپر ہی توجہ مرکوز رکھو اور عوام کو چھوڑ دو۔ تمھارے بعد ایسے حالات آنے والے ہیں جن میں صبر کرنے والے کی مثال انگارے کو ہتھیلی میں پکڑنے والے شخص کی مانند ہوگی۔ ان حالات میں دین پر عمل کرنے والے کے لیے ۵۰ آدمیوں جتنا اجر ہے جو تمھارے جیسے عمل کریں‘‘۔ (ترمذی)

یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے۔ ابودائود نے بھی اسے ابن مبارک کے حوالے سے روایت کیا ہے۔ ابن ماجہ، ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے عتبہ بن ابی حکیم سے روایت کیا ہے۔ بعض روایات میں ’’تم ایسے امور دیکھو جن کو روکنے کی طاقت نہ ہو‘‘ کے الفاظ بھی ہیں۔

’منکر‘ کے ازالے میں نرمی کی ضرورت

یہاں ایک اور مسئلہ بھی ہے جس کو ہم فراموش نہیں کر سکتے، اور وہ یہ ہے کہ منکر کے ازالے میں نرمی، اور اس کے مرتکب لوگوں کو معروف کی دعوت دینے کی ضرورت ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس نرمی کی وصیت کر رکھی ہے اور ساتھ ہی یہ وضاحت بھی کر دی کہ اللہ تعالیٰ ہرمعاملے میں اس کو پسند کرتا ہے، اور یہ نرمی جس معاملے میں بھی آ جائے اُسے حسن عطا کر دیتی ہے اور جس معاملے سے نکل جائے اُسے بدنما بنا دیتی ہے۔

اس سلسلے میں بیان کیا گیا ایک واقعہ امام غزالیؒ نے احیاء علوم الدین میں ذکر کیا ہے کہ ایک آدمی مامون الرشید کے پاس آیا تاکہ اسے نیکی بدی کے بارے میں وعظ و نصیحت کرے۔ آدمی نے بات شروع کی تو اس کی گفتگو میں شدت آتی گئی اور اس نے مامون کو ’اے ظالم‘،    ’اے فاجر‘ کے الفاظ کہہ کر مخاطب کیا۔ مامون بڑا سمجھ دار اور حلیم الطبع تھا۔ اس نے آدمی کا جواب اُسے سزا کی صورت میں نہ دیا جیساکہ حکمرانوں کا وتیرہ ہوتا ہے، بلکہ کہا: کچھ نرمی سے کام لو۔    اللہ تعالیٰ نے تجھ سے بہتر شخص کو نبی بنا کر مجھ سے بدتر لوگوں کی طرف بھیجا، اور اُسے نرمی کا حکم دیا۔ حضرت موسٰی ؑ اور ہارون ؑ کو جو دونوں تجھ سے بہتر ہیں، فرعون کی طرف مبعوث کیا جو مجھ سے بدتر ہے۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے دونوں پیغمبروں سے کہا:

 اِذْھَبَآ اِلٰی فِرْعَوْنَ اِنَّہٗ طَغٰی o فَقُوْلَا لَہٗ قَوْلًا لَّیِّنًا لَّعَلَّہٗ یَتَذَکَّرُ اَوْ یَخْشٰی (طٰہٰ۲۰:۴۳،۴۴) ، جائو تم دونوں فرعون کے پاس کہ وہ سرکش ہو گیا ہے۔ اس سے نرمی کے ساتھ بات کرنا، شاید کہ وہ نصیحت قبول کرے یا ڈر جائے۔

غور کیجیے کہ اس آیت میں حرف امید (لَّعَلَّہٗ یَتَذَکَّرُ اَوْ یَخْشٰی) شاید کہ وہ نصیحت قبول کرے یا ڈر جائے، اس کے باوجود استعمال کیے کہ فرعون کی سرکشی اور باغیانہ روش کا بھی دوسری جگہ تذکرہ بھی کیا (اِنَّـہٗ طَغٰی اُس نے سرکشی کی)۔ ان حروف امید کا یہاں استعمال اس بات کی دلیل ہے کہ داعی کے شایانِ شان نہیں کہ وہ اپنے مخاطبین کے بارے میں امید کا دامن ہاتھ سے   چھوڑ دے، خواہ وہ کفر و ظلم کے راستے پر ہی چل رہے ہوں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ مسلسل  نرمی اور شائستگی کے ساتھ دعوت دے نہ کہ سختی و شدت کے ساتھ لوگوں کو حق کی طرف بلائے۔

جزوی برائیوں کا انسداد مرض کا علاج نھیں

میں یہاں اس بات سے آگاہ کرناضروری سمجھتا ہوں جو مسلمانوں کی اصلاح کے عمل میں مصروف لوگوں کے لیے نہایت اہمیت کی حامل ہے۔ بات یہ ہے کہ ہمارے معاشرے پسماندگی، مغربی استعمار، آمروں اور سیکولر حکومتوں کے ادوار میں جس ٹوٹ پھوٹ سے دوچار ہوئے ہیں،  اس تخریب کے اثرات بہت گہرے ہیں۔ ان اثرات کو ختم کرنے کے لیے جزوی برائیوں کا ازالہ کافی نہیں ہے۔ مثلاً رقص و سرود کی محفلیں، عورتوں کا راستوں میں اظہار زینت کے ساتھ آنا جانا، آڈیو ویڈیو کیسٹوں کی فروخت وغیرہ اگرچہ نامناسب ہیں، جائز نہیں ہیں، مگر صرف انھی برائیوں کے خاتمے سے معاشرے کی اصلاح ناممکن ہے۔ معاملہ ان سے بھی بڑا اور عظیم ہے جو کامل، وسیع تر اور گہری بنیادوں پر تبدیلی کا تقاضا کرتا ہے___ ایسی تبدیلی جو افکار و تصورات، اقدار و معیارات، اخلاق و اعمال، آداب و روایات اور قوانین و ادارہ جات سب کا احاطہ کرتی ہو۔

اس سے پہلے مسلسل تعلیم، دائمی تربیت اور بہترین نمونوں کے ذریعے لوگوں کا اندر سے تبدیل ہونا ضروری ہے۔ جب لوگ اپنے آپ کو تبدیل کر لیں گے تو اس کے اہل قرار پائیں گے کہ اللہ تعالیٰ اپنے مسلّمہ قانون کے مطابق انھیں تبدیل کر دے، یعنی: اِنَّ اللّٰہَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِھِمْ (الرعد۱۳:۱۱) ’’ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی‘‘۔ (ترجمہ: ارشاد الرحمٰن، بحوالہ qaradawi.net)

 

 ترجمہ وتلخیص: ارشاد الرحمن

اہلِ اسلام کی دو عیدیں ہیں: عیدالفطر اور عیدالاضحی، اور ہر عید کسی بڑی عبادت یا کسی بڑے فرض کے بعد آتی ہے۔ عیدالاضحی فریضۂ حج، اور عیدالفطر ماہِ رمضان کے بعد آتی ہے۔ مقصد یہ ہے کہ ان فرائض و عبادات کی ادایگی کے بعد تم اللہ تعالیٰ کی عظمت بیان کرو اور اس کا شکر ادا کرو کہ اس نے تمھیں اس ادایگی کی توفیق و رہنمائی عنایت فرمائی۔

عیدالفطر کے موقع پر اللہ تعالیٰ کی نعمت اور اس کی توفیق و عنایت پر اس کا شکر ادا کرنے کا ایک اظہار یہ ہے کہ مسلمان عید کی اس خوشی سے تنہا محظوظ نہ ہو، بلکہ فقیروں اور مسکینوں کو اس میں شریک کرنے کی کوشش کرے۔ رمضان کی زکوٰۃ، ’فطرانہ‘ اسی لیے فرض کیا گیا ہے۔ مسلمان یہ زکوٰۃ اپنی اور اپنے اہل و عیال کی طرف سے ادا کرتا ہے۔ یہ ایک معمولی سی مقدار ہے جو ہر اس شخص پر واجب ہے جو عید کے دن اوررات کے کھانے کے علاوہ کچھ اپنے پاس رکھتا ہو۔ جمہور علما کے نزدیک اس شخص کی ملکیت کا نصاب کو پہنچنا ضروری نہیں۔ دراصل اسلام مسلمان کو خوشی غمی کے ہرموقع پر انفاق کا عادی بنانا چاہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اس صدقۂ فطر کی ادایگی کرتا ہے خواہ    وہ فقیر ہی ہو۔ اگر وہ فقیر ہو تو ایک طرف وہ خود صدقہ ادا کرتا ہے اور دوسری طرف اسے  دوسروں سے موصول ہو رہا ہوتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے: اس روز انھیں  [فقرا و مساکین کو] کوچہ و بازار میں نکل کر مانگنے سے بے نیاز کردو۔

برادرانِ اسلام! عید کا دن وعید کے دن سے مشابہت رکھتا ہے۔ قرآن حکیم کے الفاظ میں: وُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ مُّسْفِرَۃٌ o ضَاحِکَۃٌ مُّسْتَبْشِرَۃٌ o وَوُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ عَلَیْھَا غَبَرَۃٌ o تَرْہَقُھَا قَتَرَۃٌ o (عبس ۸۰: ۳۸-۴۱) ’’کچھ چہرے اُس روز دمک رہے ہوں گے، ہشاش بشاش اور خوش و خرم ہوں گے اور کچھ چہروں پر اس روز خاک اُڑ رہی ہوگی اور کلونس چھائی ہوئی ہوگی‘‘۔ تروتازہ اور خوش باش چہروں والے ہی تو ہوں گے جن پر اللہ تعالیٰ نے صیام و قیام کی نعمت مکمل فرمائی۔ لہٰذا آج کے دن وہ خوش ہوں گے اور یقینا اُن کا حق ہے کہ وہ خوش ہوں۔ دوسری طرف وہ چہرے جن پر کلونس چھائی ہوگی، یہی وہ چہرے ہوں گے جنھوں نے اللہ کی نعمت کی قدر نہ کی اور قیام و صیام کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے حکم کی پروا نہ کی۔ ان کے لیے عید کا دن وعید کی حیثیت رکھتا ہے۔

برادرانِ اسلام!  ہماری عید کا یہ روز بے ہودگی، بے مقصدیت اور شہوت پرستی کے لیے آزاد ہوجانے کا دن نہیں ہے، جیساکہ بعض قوموں اور ملکوں کا وتیرا ہے کہ اُن کی عید شہوت، اباحیت اور لذت پرستی کا نام ہے۔ مسلمانوں کی عید اللہ کی کبریائی کے اقرار و اظہار اور اللہ کے سامنے   سجدہ ریز ہونے سے شروع ہوتی ہے۔ اس کا مقصد اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق استوار کرنا ہے۔  اس دن کا پہلا عمل اللہ کی بڑائی بیان کرنا اور دوسرا اس کے سامنے سجدہ ریز ہونا ہے۔

اللہ کی کبریائی___ تکبیر، ہم مسلمانوں کی عیدوں کی شان ہے۔ یہ تکبیر ___اللہ اکبر، مسلمانوں کا شعار ہے۔ مسلمان روزانہ پانچ وقت اپنی نماز میں اسی عظیم کلمے کے ساتھ داخل ہوتا ہے۔ روزانہ پانچ وقت نماز کے لیے کیا جانے ولا اعلان ’اذان‘ اسی کلمے سے شروع ہوتی ہے۔ نماز کی اقامت کا آغاز اسی کلمے سے ہوتا ہے۔ جانور کو ذبح کرتے وقت مسلمان اسی کلمے کو ادا کرتا ہے۔ یہ بہت عظیم کلمہ ہے___ اللہ اکبر! ’اللہ اکبر‘ ہر موقع پر مسلمانوں کا شعار ہوتا ہے۔ مسلمان میدانِ جہاد کے معرکے میں داخل ہو تو اللہ اکبر ___ یہ نعرئہ تکبیر دشمن کے دل میں خوف و دہشت طاری کر دیتا ہے۔ اللہ اکبر عید کی شان ہے۔ اسی لیے یہ تکبیر پڑھتے ہوئے عیدگاہ کی طرف جائو: اللّٰہ اکبر، اللّٰہ اکبر، لا الٰہ الا اللّٰہ ، واللّٰہ اکبر، اللّٰہ اکبر، وللّٰہ الحمد۔

برادرانِ اسلام! رمضان متقین کا موسم ہے، صالحین کا بازار ہے اور بازار میں کاروبار کرنے والا تاجر خاص موسم میں اپنی سرگرمیوں کو تیز کرتا ہے، لیکن وہ دکان کو اس خاص موسم کے بعد بند نہیں کردیتا۔ رمضان وہ موسم ہے جس میں ہم اپنے دلوں کو تقویٰ و ایمان کے مفہوم و معانی سے بھر لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ دلوں کو اُس چیز کے حصول کی ترغیب دلاتے ہیں، جو اللہ کے پاس ہے۔ اللہ کی خوشنودی اور نعمتوں کی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ رمضان کی عبادتوں کی قبولیت کی علامت یہ ہے کہ انسان رمضان کے بعد بھی اللہ کی رسّی کو پکڑے رکھے۔ وہ اپنے رب کے ساتھ استوار ہوئے تعلق کو ٹوٹنے نہ دے۔ بعض اسلاف تو یہ کہتے ہیں کہ بہت بُرے ہیں وہ لوگ جو اللہ کو صرف رمضان ہی میں پہچانتے ہیں۔ لہٰذا ہم کہتے ہیں کہ مسلمانو! ربانی بنو، رمضانی نہ بنو۔ ایسے موسمی نہ بنو جو اللہ تعالیٰ کو سال میں صرف ایک مہینے کے لیے پہچانتے ہیں۔ پھر اِس کے بعد اُس کی عبادت و اطاعت کا سلسلہ توڑ دیتے ہیں۔

عید کے معنی ہر پابندی سے آزاد ہونا نہیں ہے۔ عید اللہ تعالیٰ کے ساتھ جڑے تعلق کو توڑ دینے کا نام نہیں ہے۔ بہت سے لوگوں کا رویہ بن گیا ہے کہ رمضان ختم ہوا تو مسجد کے ساتھ تعلق بھی ختم ہوگیا۔ عبادت اور اطاعت کے کاموں سے بھی ہاتھ روک لیا۔ نہیں، ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ اگر کوئی شخص رمضان کو معبود مان کر روزہ رکھتا اور عبادت کرتا تھا تو اسے معلوم ہو کہ رمضان ختم ہوگیا، اور جو اللہ کو معبود مان کر اس کی عبادت کرتا تھا تو اللہ زندہ و جاوید ہے، اُسے کبھی فنانہیں!

جس شخص کے روزے اور قیام اللہ کی بارگاہ میں قبولیت پا چکے ہوں، اس کی بھی تو کوئی علامت ہوگی! اس کی علامت یہ ہے کہ اس صیام و قیام کے اثرات ہم اس شخص کی زندگی میں رمضان کے بعد بھی دیکھ سکیں گے:

وَالَّذِیْنَ اہْتَدَوْا زَادَھُمْ ہُدًی وَّاٰتٰھُمْ تَقْوٰھُمْ o (محمد ۴۷:۱۷) اور وہ لوگ جنھوں نے ہدایت پائی ہے، اللہ ان کو اور زیادہ ہدایت دیتا ہے، اور انھیں ان کے حصے کا تقویٰ عطا فرماتا ہے۔

نیکی قبول ہوجانے کی علامت اس کے بعد بھی نیکی کا جاری رہنا ہے، اور برائی کی سزا کی علامت اس کے بعد بھی برائی کرتے رہنا ہے۔ لہٰذا میرے مسلمان بھائیو! اللہ کے ساتھ دائمی تعلق استوار کرو۔ اللہ تعالیٰ نے انسانوں پر اطاعت ہمیشہ کے لیے فرض کی ہے۔ وہ نافرمانی کو بھی ہمیشہ کے لیے ناپسند کرتا ہے۔اگر رمضان کا رب وہ ہے تو شوال، ذوالقعدہ اور دیگر مہینوں کا رب بھی وہی ہے۔ اللہ کی معیت میں چلنا ہے تو دائمی چلو، اس سے ہرجگہ ڈرو، خواہ کسی بھی زمانے میں ہو، اور کسی بھی حال میں ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’’تم جہاں بھی ہو، اللہ سے ڈرتے رہو‘‘۔

برادرانِ اسلام! ہر اُمت کا ایک امتیاز ہوتا ہے، اور ہر امتیاز کی ایک کلید ہوتی ہے۔ جب آپ کسی قفل کو کلید کے بغیر کھولیں گے تو وہ ہرگز نہیں کھلے گا۔ اسی طرح اس اُمت کا بھی ایک امتیاز ہے، اور اس امتیاز کی کلید ’ایمان‘ ہے۔ اسے ’ایمان‘ کے ذریعے متحرک کیجیے، یہ حرکت میں آجائے گی۔ ایمان کے ذریعے اس کی قیادت کیجیے، یہ پیچھے چلنے کے لیے تیار ہوجائے گی۔ اسے اللہ تعالیٰ پر ایمان کے جذبات کے ذریعے حرکت دی جائے تو ایک بہترین اُمت تیار ہوسکتی ہے۔ یہ بڑی بڑی رکاوٹوں کو عبور کرلیتی ہے، مشکل ترین اہداف کو حاصل کرلیتی ہے، اور بڑے بڑے کارنامے انجام دے سکتی ہے۔ یہ خالد بن ولید، طارق بن زیاد اور صلاح الدین ایوبی کا دور واپس لاسکتی ہے۔

یہی وہ چیز ہے جس سے اس اُمت کے دشمن خائف ہیں۔ وہ ڈرتے ہیں کہ کہیں یہ اُمت اسلام کی بنیاد پر متحرک نہ ہوجائے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ایک کے بعد دوسری رکاوٹ کھڑی کردیتے ہیں۔ اسلامی تحریکوں کا چہرہ مسخ کرکے پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان سے دنیا کو ڈراتے ہیں۔ ان کی دعوت سے متنفر کرتے ہیں۔ اُن کے بارے میں افواہوں کا جال پھیلا دیتے ہیں۔ ہمارے نزدیک ان تحریکوں سے زیادہ صاف و شفاف کوئی تحریک نہیں۔ اپنے اسلوب، طریق کار، قیادت و کارکنان کے اعتبار سے یہ مثالی تحریکیں ہیں۔ یہاں ہرچیز شفاف اور ہرعمل میں اخلاص ہے۔ ہر کام میں ایمانی جھلک موجود ہے۔ یہی وہ چیز ہے جس پر اہلِ ایمان فرحت محسوس کرتے ہیں۔

برادرانِ اسلام! آج ہم ایک ایسے دور میں زندہ ہیں جو فتنوں کا دَور ہے، آزمایشوں کا دور ہے۔ نبی کریمؐ نے ہمیں اس دور سے ڈرایا ہے جس میں فتنے سمندر کی موجوں کی طرح ٹھاٹھیں ماریں گے، جن کی وجہ سے لوگ اپنے عقائد سے گمراہ ہوجائیں گے۔ رسولؐ اللہ فرماتے ہیں: لوگ ان فتنوں کے کاموں کی طرف اس طرح بڑھیں گے جیسے سخت اندھیری رات چھا جاتی ہے۔ آدمی ایمان کی حالت میں صبح کرے گا اور شام کو کافر ہوگا، شام کو ایمان کی حالت میں ہوگا اور صبح کافر ہوگا۔ آدمی دنیا کی بہت تھوڑی قیمت پر اپنے دین کو بیچ دے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث میں جن فتنوں سے ڈرایا گیا ہے اُن میں عورتوں کا سرکش ہوجانا، جوانوں کا فسق میں مبتلا ہوجانا، جہاد کا ترک کر دیا جانا، امربالمعروف اور نہی عن المنکر پر عمل نہ ہونا، بلکہ اُن پیمانوں ہی کا بدل جانا، یعنی لوگوں کا اچھائی کو بُرائی اور بُرائی کو اچھائی سمجھنے لگنا بھی شامل ہیں۔

برادرانِ اسلام! اس اُمت کے لیے ہر مشکل سے نکلنے کا راستہ قرآن ہی ہے، انسانوں کے وضع کردہ قوانین نہیں۔ نہ دائیں بازو اور بائیںبازو کی تنظیمیں اس کے مرض کا علاج کرسکتی ہیں۔ یہ صرف قرآنِ مجید ہے جو اسے بحرانوں سے نکال سکتا ہے۔ ہمارے اُوپر یہ فرض ہے کہ ہم اس کی طرف واپس آئیں اور اس کی ہدایت پر چلیں۔ ہم نے اُوپر رمضان اور قرآن کی بات کی، تو یہ حقیقت ہے کہ رمضان قرآن کا مہینہ ہے اور قرآن کی برکت، اس کی پیروی اور اس کے مطابق عمل کرنے میں ہے۔ اس کی برکت اس میں نہیں ہے کہ ہم اس کی آیات کے فریم زینت کی غرض سے دیواروں پر لٹکا لیں، یا اسے مُردوں کے پاس تلاوت کرلیں، یا اس کو بچوں اور عورتوں کے لیے تعویذ بنا لیں۔ قرآن تمام انسانیت کے لیے ہرقسم کی گمراہی سے بچنے کے لیے آڑ ہے۔ قرآن اس لیے نازل ہوا ہے کہ زندوں کے معاملات کا فیصلہ کرے، نہ اس لیے کہ مُردوں پر پڑھا جائے۔   قرآن نازل ہوا ہے کہ عدالتوں میں اس کے مطابق فیصلہ کیا جائے نہ کہ اسے محض ثواب اور اپنے مُردوں کے ایصالِ ثواب کے لیے پڑھا جائے۔ قرآن اس اُمت کا دستور ہے، لہٰذا ضروری ہے کہ ہم اسی کی طرف رجوع کریں۔ اس کی آیات کو سمجھیں، اس کے فہم میں گہرائی پیدا کریں، اور اسے اپنا اخلاق بنا لیں، جیساکہ نبی کریمؐ کے اوصاف میں بیان کیا گیا ہے کہ قرآن آپؐ کا اخلاق تھا۔ قرآن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

کِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ اِلَیْکَ مُبٰرَکٌ لِّیَدَّبَّرُوْٓا اٰیٰــتِہٖ وَلِیَتَذَکَّرَ اُوْلُوا الْاَلْبَابِo(صٓ ۳۸:۲۹) یہ ایک بڑی برکت والی کتاب ہے جو (اے نبیؐ) ہم نے تمھاری طرف نازل کی ہے تاکہ یہ لوگ اس کی آیات پر غور کریں اور عقل و فکر رکھنے والے اس سے سبق لیں۔

برادرانِ اسلام! اس موقع پر یہ بہت مناسب ہوگا کہ ہم پوری اُمت کو رجوع الی الاسلام کی دعوت دیں۔ قرآن کی طرف بلائیں، دین کی طرف بلائیں۔ ہم نے دائیں بازو یا بائیں بازو کی تنظیموں اور مشرق و مغرب سے درآمد شدہ حل آزمائے۔ ہم نے دوسروں سے امداد کی بھیک کا تجربہ بھی کرلیا۔ ان تمام نے ہمیں کیا دیا؟ شکست، رسوائی، ندامت، نقصان، اخلاقی فساد اور غلامانہ انتشار کے سوا ہمیں کیا ملا ہے! ہمیں نہ معاشی آسودگی میسر آسکی، نہ سیاسی استحکام نصیب ہوا نہ معاشرتی تعلقات میں بہتری آسکی، اور نہ اخلاقی ترقی ہوئی نہ روحانی رفعت حاصل ہوسکی۔

ہمارے پاس اسلامی اصول، ربانی شریعت، محمدی طریق ہاے کار اور عظیم ورثہ موجود ہے۔ لہٰذا ہم امیر ہیں اور دوسروں سے ان چیزوں کے معاملے میں بے نیاز ہیں۔ پھر کیوں سب کچھ درآمد کرتے اور بھیک مانگتے پھرتے ہیں؟ ہمیں اپنے قرآن، آسمانی ہدایت اور نبویؐ سنت کی طرف پلٹنا چاہیے۔ ہماری نجات اسی میں ہے کہ ہم اللہ کی کتاب اور رسولؐ اللہ کی سنت کو مضبوطی کے ساتھ تھام لیں۔ ببانگِ دہل توحید کے عقیدے پر کاربند ہوجائیں۔ اسی طرح مسلمان ہوجائیں جیسے کبھی ہوا کرتے تھے، یعنی حقیقی مسلمان، نہ کہ نام کے مسلمان، یا موروثی مسلمان۔ مسلمانوں کو مستعد و متحرک ہونا چاہیے کہ وہ اپنے دین کے راستے میں اپنا سب کچھ نچھاور کرسکیں، اس دین کی خاطر کسی قربانی سے دریغ نہ کریں۔ لہٰذا ملت کا ہر فرد اور مسالک کے تمام ذمہ دار اپنے دین کے لیے قربانی دیں۔ کیا ہم اسلام کی راہ میں قربانی نہیں دے سکتے؟

برادرانِ اسلام! یہ دین اللہ کے فضل اور مومنوں کی نصرت کے ذریعے بالآخر فتح یاب ہوگا،  جیساکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولؐ سے فرمایا:

ھُوَ الَّذِیْٓ اَیَّدَکَ بِنَصْرِہٖ وَ بِالْمُؤْمِنِیْنَ (انفال ۸:۶۲) وہی (اللہ) تو ہے جس نے اپنی مدد سے اور مومنوں کے ذریعے سے تمھاری تائید کی۔

برادرانِ اسلام! مسلمانوں کی تعداد اس وقت اربوں میں ہے، لیکن اہمیت تعداد کے زیادہ ہونے یا لشکروں کے بھاری ہونے کی نہیں ہوتی بلکہ اہمیت معیار کی ہوتی ہے۔ جب مسلمان ۳۱۳ تھے تو انھوں نے عظیم فتح حاصل کی۔ اللہ تعالیٰ نے اُن کے اس دن کو ’یوم الفرقان‘ کا نام دیا، یعنی جس میں حق اور باطل کے درمیان فرق سامنے آگیا اور اللہ نے تو سچ ہی فرمایا ہے کہ:

وَلَقَدْ نَصَرَکُمُ اللّٰہُ بِبَدْرٍ وَّ اَنْتُمْ اَذِلَّۃٌ فَاتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ o (اٰل عمرٰن ۳:۱۲۳) اور اللہ نے بدر میں تمھاری مدد کی حالانکہ اس وقت تم بہت کمزور تھے۔ لہٰذا تمھیں چاہیے کہ اللہ کی ناشکری سے بچو، اُمید ہے کہ اب تم شکرگزار بنو گے۔

وَاذْکُرُوْٓا اِذْ اَنْتُمْ قَلِیْلٌ مُّسْتَضْعَفُوْنَ فِی الْاَرْضِ تَخَافُوْنَ اَنْ یَّتَخَطَّفَکُمُ النَّاسُ فَاٰوٰکُمْ وَ اَیَّدَکُمْ بِنَصْرِہٖ وَ رَزَقَکُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَo (انفال ۸:۲۶) یاد کرو وہ وقت جب کہ تم تھوڑے تھے، زمین میں تم کو بے زور سمجھا جاتا تھا، تم ڈرتے رہتے تھے کہ کہیں لوگ تمھیں مٹا نہ دیں۔ پھر اللہ نے تم کو جاے پناہ مہیا کر دی، اپنی مدد سے تمھارے ہاتھ مضبوط کیے اور تمھیں اچھا رزق پہنچایا، شاید کہ تم شکرگزار بنو۔

گویا جب مسلمان کم تھے مگر اللہ کے ساتھ تھے، حق، یعنی اسلام کے ساتھ تھے، تو اللہ نے لاکھوں پر انھیں غالب کیا۔ آج اُن اربوں مسلمانوں کی کوئی وقعت نہیں جو انصارِ مدینہ کی صفات سے متصف نہ ہوں۔ انصار کی صفت تھی کہ وہ خوف کے موقع پر سب اُمڈ آتے تھے اور طمع و طلب کے وقت خال خال دکھائی دیتے تھے۔ آج ہماری حیثیت آخری دور کے ان مسلمانوں جیسی ہے جن کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ان کی حیثیت سیلاب کے کوڑے کرکٹ جیسی ہوگی جنھیں سیلاب بہا لے جاتا ہے۔

برادرانِ اسلام! عظیم فیصلے اور عظیم ارادے بڑے اجتماعات ہی میں ہوتے ہیں۔ اہلِ اسلام کو عید کے موقع پر اسلام کی نصرت کا عزم کرنا چاہیے۔ روایت کیا گیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک روز اپنے اصحاب کی ایک جماعت سے پوچھا: سب سے زیادہ کن لوگوں کا ایمان تمھارے نزدیک عجیب ہوسکتا ہے؟ صحابہ نے عرض کیا: فرشتوں کا۔ آپؐ نے فرمایا: وہ کیوں ایمان نہ لائیں گے وہ تو اپنے رب کے پاس ہی ہیں۔ لوگوں نے عرض کیا: تو پھر انبیا کا۔ آپؐ نے فرمایا: وہ کیوں نہ ایمان لائیں گے، جب کہ ان کے اُوپر تو وحی نازل ہوتی ہے۔ لوگوں نے عرض کیا: تو پھر ہمارا۔ آپؐ نے فرمایا: تم کیوں ایمان نہ لاتے، جب کہ میں تمھارے درمیان موجود ہوں۔ پھر آپؐ نے فرمایا: سنو! میرے نزدیک سب سے زیادہ عجیب ایمان اُن لوگوں کا ہے جو تمھارے بعد آئیں گے اور کتاب کو پڑھ کر ہی ایمان لے آئیں گے‘‘۔

برادرانِ اسلام! یہ ہیں وہ بنیادیں جن کے اُوپر ہمیں اپنی عملی زندگی کی عمارت تعمیر کرنی ہے، لہٰذا آیئے اور اللہ کے انصار بن جایئے۔ رسولؐ اللہ کے پیروکار بن جایئے۔ بعید نہیں کہ تمھی وہ گروہ قرار پائو جو اللہ کے دین کو غالب کرنے ولا ہو۔ (بہ شکریہ www.alqardawi.net)

 

ترجمہ: عبدالحمید صدیقی

دنیا میں انسان کے پیشِ نظر بیسیوں مقاصد ہوتے ہیں جنھیں حاصل کرنے کے لیے اسے متواتر جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔ اس تگ و دو اور کش مکش کے دوران اسے قدم قدم پر اپنی کمزوریوں کا احساس ہوتا ہے جو اسے کسی بڑی قوت کا سہارا لینے پر مجبور کرتا ہے۔ ایسی قوت جو ہر مشکل مرحلے پر اس کی دستگیری کرے‘ اس کی راہ کے خطرات کو دُور کر دے اور سفرِ زندگی کی گہری تاریکیوں میں تاحدِّنگاہ اُجالا کر دے۔

وہ قوت بس ایک ہی قوت ہے: عقیدہ و ایمان کی قوت۔ اس قوت کی بدولت بندئہ مومن اتنا طاقت ور ہو جاتا ہے کہ کسی چیز کو خاطر میں نہیں لاتا۔ اللہ کے فضل کی اسے امید ہوتی ہے۔ اللہ کے عذاب سے وہ ڈرتا ہے۔ وہ نہتا ہو کر بھی بڑا قوی ہوتا ہے کیونکہ اللہ اس کے ساتھ ہوتا ہے۔ وہ مفلس و تہی دست ہونے کے باوجود غنی ہوتا ہے۔ تن تنہا رہ کر بھی اپنے آپ کو غالب و توانا محسوس کرتا ہے۔ جب سفینۂ حیات کسی گرداب میں پھنس جاتا ہے تو وہ کسی اضطراب کا شکار  نہیں ہوتا بلکہ پہاڑ کی سی مضبوطی و استقامت کا مظاہرہ کرتا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایمان باللہ کی حیرت انگیز طاقت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: لوعرفتم اللّٰہ حق معرفتہ لزالت بدعائکم الجبال‘ اگر تم اللہ کی معرفت کماحقہٗ حاصل کرلو تو تمھاری دعا سے پہاڑ ٹل جائیں۔

فرد کے اندر قوت کا یہ خزانہ دراصل معاشرے کی قوت کا مصدر و ماخذ ہے۔ وہ معاشرہ کتنا سعادت مند ہے جس کے افراد قوت و رسوخ کے اس درجے پر فائز ہوں۔ اس کے برعکس قوتِ ایمان سے محروم‘کمزور‘ ودوں ہمت اور درماندہ لوگوں کا معاشرہ کتنا شقی و بدبخت معاشرہ ہے جس میں کوئی اپنے دوست کی مدد نہیں کرتا اور نہ اپنے دشمن کو ڈرا دھمکا سکتا ہے۔

مومن کے نزدیک قوت کے مصادر

الایمان باللّٰہ

اللہ قوی و قدیر اور علی و کبیر ہے۔ جو اس پہ ایمان لے آئے‘ اس پر بھروسا کرے اور اس کے حاضر و ناظر ہونے کا پختہ اعتقاد رکھے‘ اللہ کبھی اسے بے یارومددگار نہیں چھوڑتا۔ وَکَانَ حَقًّا عَلَیْنَا نُنْجِ الْمُؤْمِنِیْنَo (یونس ۱۰:۱۰۳) اور ایمان داروں کی مدد کرنا ہمارا فرض ہے‘‘۔ اور جس کی اللہ مدد کرے اس پر کوئی غالب نہیں آسکتا‘ اِنْ یَّنْصُرْکُمْ اللّٰہُ فَلَا غَالِبَ لَکُمْج     (اٰل عمرٰن ۳:۱۶۰)۔

الایمان بالحق

مومن کی قوت کا دوسرا بڑا ماخذ اس کا حق و صداقت پر ایمان ہے۔ وہ خواہشِ نفس کے زیرِاثر کوئی کام نہیں کرتا۔ نہ ذاتی منفعت نہ جاہلی عصبیت اور نہ ظلم و زیادتی اُس کے اعمال کی محرک ہوتی ہے بلکہ وہ اُس حق کے لیے سب کچھ کرتا ہے جس پر سمٰوات والارض قائم ہیں۔ جہاں حق ہوگا وہاں کوئی دوسری چیز ٹھہر نہیں سکتی۔ وَقُلْ جَآئَ الْحَقُّ وَزَھَقَ الْبَاطِلُط اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقًا (بنی اسرائیل ۱۷:۸۱) ۔

قادسیہ کی لڑائی میں حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کے سفیر ربعی بن عامر جب ایرانیوں کے سپہ سالار رستم کے پاس گئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ اس کے خدم و حشم اور اس کے لشکری سونے چاندی میں لدے پھدے اس کے اردگرد دست بستہ کھڑے ہیں۔ مگر جنابِ ربعی بن عامر کسی چیز کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے آگے بڑھتے گئے اور اپنے کوتاہ قامت گھوڑے ‘ اپنی موٹی جھوٹی ڈھال اور اپنے معمولی لباس کے ساتھ رستم کے پاس جاپہنچے۔ اس نے سوال کیا: تم کون ہو؟ اللہ کے اس بندے نے پوری قوت سے کہا: ہم ایک ایسی قوم ہیں جسے اللہ نے اس مقصد کے لیے مبعوث کیا ہے کہ ہم اس کی مخلوق کو بندوں کی غلامی سے نکال کر اللہ وحدہ لاشریک کی غلامی میں دے دیں‘ اور دنیا کی تنگی سے نکال کر کشایش سے ہمکنار کریں اور باطل ادیان اور طاغوتی قوتوں کے ظلم و جور سے بچا کر اسلام کے سایۂ رحمت میں لے آئیں۔ کشور کشائی ہمارا مقصد نہیں۔ ربعی بن عامر کے اندر یہ کیا چیز بول رہی تھی؟ رستمِ ایران کے سامنے اُن کا یہ بے باکانہ طرزِ تخاطب کس بنا پر تھا؟ صرف اس بنا پر کہ وہ حق و صداقت کے نمایندہ اور علمبردار تھے اور قوتِ حق و صداقت نے ان کے اندر یہ شجاعت اور بے باکی پیدا کر دی تھی۔

الایمان بالخلود

انسان کے اندرجو مختلف چیزیں جبن وضعف اور انحطاط پیدا کر دیتی ہیں ان میں سے ایک اُس کا یہ احساس بھی ہے کہ وہ فانی مخلوق ہے کہیں فنا نہ ہو جائے۔ اُس کا کوئی اقدام اُس کی موت کا باعث نہ بن جائے لیکن مومن زندگی کو اِسی دنیا کی زندگی تک محدود نہیں سمجھتا بلکہ وہ ازروے یقین و ایمان اس کا سلسلہ ناقابلِ تصور حد تک آگے پھیلا ہوا دیکھتا ہے۔ موت اس کی نظر میں ایک پردہ ہے جس کے پیچھے زندگی اپنی تمام رعنائیوں کے ساتھ جلوہ گر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ موت کا احساس اسے بزدل نہیں بناتا۔ اس کے برعکس وہ آگے بڑھ کر موت کو گلے لگا لیتا ہے کیونکہ موت آجانے سے وہ ابدی زندگی اور اُس کی نعمتوں کو پالیتا ہے۔

حضرت عمیرؓبن الحمام انصاری غزوہ بدر میں شریک ہوئے۔ کسی موقع پر ایک طرف کھڑے کھجوریں کھا رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ مبارک سے یہ کلمات سنے: ’’اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے جو آدمی بھی آج اِن (مشرکین) سے لڑے اور نتیجتاً قتل ہو جائے اِس حال میں کہ وہ صابر ہو‘ ثواب کی نیت سے لڑائی میں حصہ لے رہا ہو‘ پیچھے ہٹنے کے بجائے آگے بڑھنے والا ہو‘ اللہ اسے جنت میں داخل کر دیں گے‘‘۔ اور حضرت عمیرؓ کے منہ سے بے اختیار نکلا: بخٍ بخٍ (کلمۂ تعجب ہے)۔ رسولؐ پاک نے فرمایا: اے ابن الحمام‘ کس بات پر تعجب کرتے ہو؟ انھوں نے عرض کی: تو کیا‘یارسولؐ اللہ! میرے اور جنت کے درمیان صرف موت ہی حائل ہے‘یعنی آگے بڑھ کر لڑائی کروں اور مارا جائوں۔ رسولؐ پاک نے فرمایا: تو اور کیا۔ یہ سنتے ہی حضرت عمیرؓنے ہاتھ میں جو کھجوریں تھیں پھینک دیں اور کہنے لگے کہ کھجوریںختم ہونے کا انتظار کون کرے۔ اسی وقت دشمن کی صفوں میں گھس گئے اور بے جگری سے لڑنے لگے۔ ان کی زبان پر یہ رجز تھا:

رکضًا الی اللّٰہ بغیر زادٍ

الا التقی وعمل العادٖ

والصبر فی اللّٰہ علی الجھاد

وکل زادٍ عرضۃ النفادٖ

غیر التقی والبر والرشاد

اللہ کی جانب بغیر زادِ راہ کے رواں دواں ہوں۔ اپنا زادِ راہ تقویٰ اور آخرت میں اجر پانے کی نیت سے کیا جانے والا عمل ہے۔ راہِ خدا میں جہاد کے لیے اپنے آپ کو وقف کر چکا ہوں اور تقوی‘ نیکی اور بھلائی کے علاوہ ہر دوسرا زادِ راہ ختم ہو جانے والا ہے۔

الایمان بالقدر

چوتھی چیز جو ایک مومن کے لیے قوت کا باعث ہے وہ اس کا تقدیر پر محکم ایمان ہے۔ وہ جانتا ہے کہ جو مصیبت بھی اسے پہنچتی ہے اللہ کے اذن سے پہنچتی ہے۔ تمام انسان‘ جنّ اور دوسری جملہ مخلوقات مل کر بھی اگر کسی کو کوئی فائدہ پہنچانا چاہیں تو نہیں پہنچا سکتیں‘ الا یہ کہ اللہ کی مشیت بھی یہی ہو۔ قُلْ لَّنْ یُّصِیْبَنَآ اِلاَّ مَا کَتَبَ اللّٰہُ لَنَا ھُوَ مَوْلٰـنَا وَعَلَی اللّٰہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَo  (التوبہ ۹:۵۱) مومن اس بات کا پختہ یقین رکھتا ہے کہ اس کے رزق کی تقسیم ہو چکی ہے اور اُس کی موت کا وقت مقرر ہے۔ اس عقیدے کے نتیجے میں اس کے اندر ایسی زبردست قوت پیدا ہو جاتی ہے جو تمام خطرات و وساوس کا قلع قمع کر دیتی ہے اور وہ بے خوف ہوکر میدانِ جہاد میں کود جاتا ہے۔ کوئی پوچھے کہ بیوی بچوں کا کیا کرچلے ہو تو اُس کا جواب یہ ہوتا ہے: علینا ان نطیعَہٗ تعالٰی کما امرنا وعلیہ ان یرزقنا کما وعدنا۔ ’’ہمارا فرض ہے کہ ہر حال میں اللہ کی اطاعت کریں جیساکہ اُس نے ہمیں حکم دیا ہے اور اللہ تعالیٰ کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ ہمیں رزق دے جس کا اس نے ہمارے ساتھ وعدہ کر رکھا ہے‘‘۔اِسی طرح اگر کوئی محرومِ ایمان جاکر اُس مردِ مجاہد کی بیوی کے کان بھرے کہ دیکھو تمھیں بھوکا مرنے کے لیے پیچھے چھوڑے جا رہا ہے تو وہ مومنہ خاوند کا دامن پکڑنے کے بجاے پورے اعتماد کے ساتھ کہتی ہے: ’’میں اپنے خاوند کو کھانے والے کی حیثیت سے جانتی ہوں‘ رازق کی حیثیت سے نہیں۔ اگر کھانے والا چلا گیا تو کیا ہوا۔ رزق دینے والا تو موجود ہے‘‘۔

پس ثابت ہوا کہ قضا و قدر پر ایمان‘ انسان کو جرأت و اقدام کی صفت سے متصف کرتا ہے‘ اس کے اندر شجاعت و بسالت پیدا کر دیتا ہے‘ اسے عظیم کارنامے انجام دینے اور خطرات میں کود جانے کی تاب و تواں بخشتا ہے اور اُس کی طبیعت میں ثبات و استقامت‘ حلم و تحمل اور صبرورضا کے اوصافِ حمیدہ کو پروان چڑھاتا ہے۔

الایمان بالاخوۃ

آخری چیزجس سے اہلِ ایمان کو احساسِ تقویت ہوتا ہے وہ دوسرے صاحب ِ ایمان بھائیوں کا وجود ہے‘ وہ بھائی کہ جو اس کی خدمت و خیرخواہی کے لیے وقف ہوتے ہیں‘ اِس کی موجودگی میں ہر طرح اس کے مددگار ہوتے ہیں اور اس کی غیرحاضری میں اس کے حقوق کے محافظ۔ جو دکھ تکلیف میں اس کے غم گسار‘ دل سوز فدائی اور وحشت و خوف میں اس کے لیے سامانِ انس اور بوقت ِ لغزش اُس کے دستگیر ہوتے ہیں۔ جب اس کے قویٰ جواب دے جائیں تو وہ اسے سہارا بہم پہنچاتے ہیں۔ جب کوئی کام کرنے لگے تو وہ اس کے شریکِ کار بنتے ہیں اور جب وہ میدانِ جہاد و قتال میں مصروفِ حرب و ضرب ہوتا ہے تو دوسرے اہل ایمان اس کے دوش بدوش لڑتے ہیں۔ ایک ہزار صاحب ایمان جب کسی دشمن کی جمعیت پر حملہ آور ہوتے ہیں تو ان میں کوئی بھی خود کو تنہا محسوس نہیں کرتا بلکہ ہر ایک اپنے آپ کو ہزار‘ ہزار افراد کی قوت سے سرشار پاتا ہے یا بالفاظِ دیگر وہ ہزار افراد تنِ واحد کی صورت اختیار کرجاتے ہیں۔

کہتے ہیں کہ مسلمانوں کا ایک لشکر دشمن کی فوج کے سامنے صف آرا تھا اور درمیان میں ایک دریا حائل تھا۔ سپہ سالار نے حکم دیا کہ دریا میں چھلانگیں لگا دو اور اسے پار کر کے دشمن پر حملہ آور ہوجائو۔چنانچہ دیکھتے ہی دیکھتے سارا لشکرِ اسلام دریا میں تھا۔ دوسری طرف دشمن حیران تھا کہ یہ انسان ہیں یا کوئی دوسری مخلوق۔ وسطِ دریا میں جب یہ لشکر پہنچا تو سب نے غوطہ لگایا اور دشمن نے خیال کیا کہ غرق ہوگئے مگر لشکرِاسلام اچانک پھر نمودار ہوگیا۔ دشمنانِ اسلام ایک دوسرے سے استفسار کرنے لگے۔ یہ ماجرا کیا ہے؟ آخر انھیں پتا چلا کہ کسی سپاہی کا پیالہ دریا میں گر گیا تھا۔ وہ چیخا: ’’میرا پیالہ‘ میرا پیالہ‘‘۔ یہ سننا تھا کہ سب سپاہی اپنے بھائی کا پیالہ تلاش کرنے کی غرض سے پانی میں نیچے چلے گئے۔ اِس ہمدردی و خیرخواہی کا نتیجہ یہ نکلا کہ دشمن کی فوج سوچنے لگی: ایک پیالہ دریا میں گر جانے سے یہ لوگ تعاون و ایثار کا اتنا بھرپور مظاہرہ کرتے ہیں۔ اگر ہم نے خود اِن میں سے کسی کو قتل کر دیا تو نہ معلوم یہ ہمارے ساتھ کیا سلوک کریں۔ اِسی احساس نے ان کی کمر ہمت توڑ دی‘ اُن کے حوصلے پست کر دیے اور مسلمانوں کے جذبۂ اخوت کے سامنے دشمن گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوگیا۔

مندرجہ بالا سطور میں عرض کیا جا چکا ہے کہ اللہ پر ایمان‘ حق و صداقت پر ایمان‘ خلودِحیات پر ایمان اور قضا و قدر اور اخوت پر ایمان ہی درحقیقت ایک انسان کے مصادرِ قوت ہیں۔ اب یہ بات بھی ذہن نشین کر لیجیے کہ مذکورہ بالا حقائق پر جتنا کسی کا ایمان پختہ ہوتا ہے اتنا ہی وہ خود کو قوی محسوس کرتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جو حوصلہ شکن حالات پیدا ہوگئے اور اُن میں جس طرح سیدنا ابوبکررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اُمت کو سنبھالا دیا‘ اسے دیکھتے ہوئے جنابِ فاروق کو اعتراف کرنا پڑا: بخدا اگر ابوبکرؓ کا ایمان ایک پلڑے میں رکھ دیا جائے اور پوری اُمت مسلمہ کا ایمان ترازو کے دوسرے پلڑے میں تو ابوبکرؓ کا پلڑا ہی جھکے گا۔ رسولؐ پاک کی وفات کے صدمے سے بڑے بڑے صحابہؓ کے اوسان خطا ہوگئے تھے خود عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ وقتی طور پر اپنے حواس کھو بیٹھے ۔ اس موقع پر جنابِ صدیقؓ کا یہ اعلان ان کی زبردست قوتِ ایمانی کا کھلا ہوا ثبوت ہے: جو شخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پرستش کرتا تھا وہ سن لے کہ محمدؐ وفات پا چکے ہیں اور جو خداے واحد کا پرستار ہے (اس کے لیے خوف اور گھبراہٹ کی کوئی بات نہیں کیونکہ) اللہ تعالیٰ زندہ ہے اُسے موت اور فنا نہیں‘‘۔

جیشِ اسامہؓ جسے شام کی طرف بھیجنے کا فیصلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وفات سے قبل فرما چکے تھے‘ حضوؐر کی وفات کے بعد عام اصحابِ رسولؐ اس کی روانگی کو اس احساس کے تحت مؤخر کر دینا چاہتے تھے کہ آپؐ کی وفات کی خبرقبائلِ عرب میں نہ معلوم کیا ردِعمل پیدا کرے‘ لہٰذا  اس امر کے متحقق ہونے تک وہ اسلامی حکومت کا ساتھ بھی دیتے ہیں یا نہیں‘ جیش روانہ نہ کیا جائے۔ مگر حضرت ابوبکرؓ جناب رسالت مآبؐ کا یہ فیصلہ ہر قیمت پر نافذ کر دینا چاہتے تھے۔ ان کا موقف یہ تھا کہ اُس ذات کی قسم جس کے قبضے میں ابوبکر کی جان ہے‘ اگر میرا گمان یہ ہوتا کہ درندے میری بوٹیاں نوچ لیں گے پھر بھی میں جیشِ اسامہؓ کو روانہ کرکے رہتا جیسا کہ رسول پاکؐ نے اس کی روانگی کا حکم صادر فرمایا ہے اور اگر لشکر بھیجنے کے بعد میں کہیں تن تنہا رہ جائوں پھر بھی آپؐ کے فیصلے کو نافذ کر کے رہوں گا۔

غور فرمائیں سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ یہ باتیں کس برتے پر کر رہے تھے؟ انھیں کس قوت و طاقت کا سہارا تھا؟ وہ تنہا تھے پھر بھی اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے تھے۔ یہ سب کچھ محض قوتِ ایمانی کا نتیجہ تھا۔ اس طرح مرتدین مانعین زکوٰۃ کا معاملہ جب پیش آیا تو بعض لوگوں نے مشورہ دیا: ’’اے رسولؐ اللہ کے جانشین! آپ میں سارے عرب کے ساتھ لڑائی کرنے کی طاقت نہیں‘ لہٰذا دروازے بند کر کے اپنے گھر بیٹھ رہیے اور اپنے پروردگار کی عبادت کیجیے تاآنکہ موت آجائے‘‘۔

اسی قسم کی رائے جب حضرت عمرؓ کی طرف سے بھی آئی تو آپ نے نہایت سختی سے اس کا نوٹس لیا اور انھیں مخاطب کرکے فرمایا: خطاب کے بیٹے! جاہلیت میں تم بڑے دلیر تھے‘ اسلام قبول کرکے بزدل ہوگئے ہو۔ یاد رکھو‘ وحی مکمل ہوچکی ہے اور زکوٰۃ کا نصاب مقرر ہے۔ میرے   جیتے جی اس میں کمی نہیں ہو سکتی۔ خدا کی قسم! اگر مانعینِ زکوٰۃ نے مجھے اُونٹ باندھنے کی رسی بھی دینے سے انکار کیا جسے وہ رسولؐ اللہ کے زمانے میں اداکرتے تھے تو میں ان سے جنگ کروں گا۔

خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے عہدِخلافت کے یہ چند واقعات اس لیے نقل کیے گئے ہیں تاکہ اندازہ ہو سکے کہ مضبوط ایمان کے حامل لوگ کتنی غیرمعمولی طاقت کے مالک ہوتے ہیں۔ کس طرح تن تنہا وہ بڑی بڑی جمعیتوں سے ٹکراجاتے ہیں اور اپنے عزمِ محکم کی بنا پر ایک دنیا کی دنیا کے خیالات و نظریات تبدیل کر کے اسے اپنا ہمنوا بنا لیتے ہیں۔

یہ ایمانِ محکم انھیں ہر حال میں عدل و انصاف پر قائم رکھتا اور حق و صداقت کا ترجمان بنا دیتا ہے۔ مادی سہاروں کی کوئی اہمیت ان کی نظرمیں باقی نہیں رہتی۔ قوی و طاقت ور ایمان ان کے قول و عمل میں اخلاص پیدا کر دیتا ہے۔ خوف و حرص ان کے قریب نہیں پھٹکتا اور اپنے وقت کے جابر و مستبد حکمرانوں کو وہ پرکاہ کے برابر بھی نہیں سمجھتے۔ یہ سب باتیں محض زبانی باتیں ہی نہیں بلکہ تاریخ کے صفحات ان حقائق سے بھرے پڑے ہیں۔ (ترجمان القرآن‘ اپریل ۱۹۷۴ئ)

ترجمہ:  ابوسعد

دین اسلام حصول علم اور بحث و تحقیق کو ایک پسندیدہ امر قرار دیتا ہے۔ اُمت مسلمہ پر یہ فرض کفایہ ہے کہ وہ اُن تمام شعبہ ہاے علوم میں دسترس اور مہارت پیدا کرے جو اس کے دین اور دنیا سنوارنے کے لیے مطلوب ہیںیہاں تک کہ علوم و فنون کے ہر اختصاص اور شعبے میں وہ خودکفیل ہو جائے اور اغیار کی محتاج نہ رہے۔ اسلام کا تصور علم یہ ہے کہ انسان کے اعمال و اخلاق کی طرح معیشت‘ سیاست‘ جنگ‘ سب کچھ دین کے تقاضوں پر پورے اُترنے والے ہوں۔ اسلام اس نظریے کا قائل نہیں کہ دنیاوی امور کا رشتہ دین اور اخلاق سے منقطع کردیا جائے۔ جیساکہ حریت علم‘ حریت اقتصاد‘ حریت سیاست وحرب کا نعرہ لگانے والے یہ باور کراتے ہیں کہ دین اور اخلاق کو ان امور سے الگ تھلگ رہنا چاہیے کیونکہ اس طرح ترقی کی راہ کھوٹی ہوتی ہے‘ اس کا میدان تنگ ہو جاتا ہے اور حرکت و ایجاد ماند پڑ جاتی ہے۔ درحقیقت اسلام ایسے تمام نظریات کو رد کرتا ہے جس سے علم و اقتصاد اور سیاست وغیرہ میں بگاڑ اور فساد در آتا ہے اور یہ شرط عائد کرتا ہے کہ زندگی میں تمام کام دین کے تابع ہونے چاہییں۔

شریعت اسلامی کا مزاج جو تمام صریح نصوص‘ واضح فقہی اصول اور مقاصد عامہ کی رعایت سے اخذ شدہ ہے اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ انسانی کلوننگ اختیار کی جائے۔ اس کے اختیار کرنے سے درج ذیل مفاسد پیدا ہونے کا یقینی خطرہ موجود ہے۔

تنوع کی نفی

پہلی بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو تنوع کے ساتھ قائم کیا ہے۔ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر اس کا ذکر آیا ہے۔ تخلیق عباد کے ساتھ قرآن میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ان کے رنگ مختلف ہیں۔ اس طرح مختلف رنگ کا ہونا تنوع کو ظاہر کرتا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ آسمان سے پانی برساتا ہے اور پھر اس کے ذریعے سے ہم طرح طرح کے پھل نکال لاتے ہیں جن کے رنگ مختلف ہوتے ہیں۔ پہاڑوں میں بھی سفید‘ سُرخ اور گہری سیاہ دھاریاں پائی جاتی ہیں جن کے رنگ مختلف ہوتے ہیں اور اسی طرح انسانوں اور جانوروں اور مویشیوں کے رنگ بھی مختلف ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے بندوں میں سے صرف علم رکھنے والے لوگ ہی اس سے ڈرتے ہیں‘‘ ۔(فاطر ۳۵:۲۷-۲۸)

کلوننگ تصویر کائنات سے ان رنگوں کو مٹا دینا چاہتی ہے چونکہ وہ ایک ہی طرح کے متعدد اجسام ڈھالنے کی دعوے دار ہے۔ اس کے سبب انسانی زندگی میں انفرادی اور اجتماعی معاملات میں مفاسد کا در آنا یقینی ہے۔ اس کا کچھ ادراک ہر صاحب عقل کر سکتا ہے اور مزید کچھ مفاسد شاید ابھی احاطۂ ادراک میں نہ آ سکیں۔

ایک ایسی درس گاہ کا تصور کیجیے جس میں کلوننگ سے پیدا شدہ طلبہ زیرتعلیم ہیں۔ کس طرح استاد ان طلبہ کی شناخت کا معمّا حل کر سکے گا؟ وہ کیسے معلوم کرے گا کہ ان میں کون کون ہے؟ اسی طرح ایک تفتیش کرنے والا پولیس آفیسر ارتکاب جرم پر مجرم کو کیسے گرفتار کر سکے گا‘ جب کہ ایک ہی چہرے‘ قدوقامت اور انگلیوں کے نشانات رکھنے والے بیسیوں افراد جاے واردات پر موجود ہوں؟ اسی طرح ایک شوہر اپنی بیوی کو کس طرح پہچانے گا‘ جب کہ اس کے سامنے صد فی صد مشابہ یا فوٹوکاپی کی گئی کئی عورتیں ہوں؟ وغیرہ وغیرہ۔

دوسرا پہلو یہ ہے کہ اس بات کا ہرگز اطمینان نہیں ہے کہ کلوننگ شر کے لیے استعمال نہ ہو۔ آج جوہری طاقت اور دیگر مہلک ہتھیار بڑے پیمانے پر زمین اور اس پر بسنے والے انسانوں کی تباہی و بربادی کے لیے استعمال کیے جا رہے ہیں۔ کون ہمیں یہ ضمانت دیتا ہے کہ بڑی طاقتیں اور ان کے حلیف کلوننگ کے عمل سے ایک قوی اور وحشی فوج تیار کر کے دیگر اقوام کو روند نہ ڈالیں گے؟ کون ہمیں یہ یقین دلا سکتا ہے کہ یہ بڑی طاقتیں کلوننگ کا استعمال صرف اپنے لیے خاص نہیں کر لیں گی اور دیگر اقوام کے لیے اس کے استعمال پر پابندی نہیں لگا دیں گی؟ جیساکہ ایٹمی اسلحے کے سلسلے میں انھوں نے کیا ہے۔

سنت زوجیت کی نفی

کلوننگ کی جو کچھ معلومات ہم تک پہنچ رہی ہیں وہ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ اس سے رشتۂ ازدواج کی بیخ کنی ہوتی ہے اور اس کائنات کی سنتِ زوجیت پر ضرب پڑتی ہے جس میں ہم زندگی بسر کر رہے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے مرد اور عورت کی شکل میں جوڑے بنائے ہیں۔ اسی طرح سے حیوانات میں پرند‘ چرند‘ کیڑے مکوڑے اور دیگر اصناف میں نر اور مادہ بنائے اور تمام نباتات میں بھی یہ سنت قائم و دائم ہے۔ جدیدعلوم سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ جوڑے یا زوجیت کا تصور جمادات میں بھی موجود ہے‘ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ   بجلی‘ مثبت اور منفی عناصر سے عبارت ہے۔ یہاں تک کہ ایک ذرے (atom) کے اندر بھی الیکٹران اور پروٹان کی شکل میں یہ حقیقت جلوہ گر ہے۔ قرآن کریم اس حقیقت کی طرف یوں اشارہ کرتا ہے:

پاک ہے وہ ذات جس نے جملہ اقسام کے جوڑے پیدا کیے خواہ وہ زمین کی نباتات میں سے ہوں یا خود ان کی اپنی جنس (یعنی نوع انسانی) میں سے یا اُن اشیا میں سے جن کو یہ جانتے تک نہیں ہیں۔ (یٰسٓ ۳۶: ۳۶)

اس کے برعکس کلوننگ ایک جنس واحد کی تکرار اور دوسری جنس سے لاتعلقی کو فروغ دیتی ہے۔ اس پس منظر سے وہ امریکی عورت پوری طرح آگاہ ہے جس نے کہا کہ کلوننگ کی کامیابی کا یہ مطلب ہوگا کہ یہ دنیا مستقبل میں صرف اور صرف عورتوں کی ہوگی۔ دراصل کلوننگ اس فطرت سے بغاوت ہے جس پر اللہ نے انسانوں کی تخلیق کی۔ اس کے ذریعے انسانیت کی بھلائی کی تلاش ایک فعل عبث ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ انسان اپنی فطرت کے عین مطابق صرف افزایش نسل ہی کے لیے نہیں بلکہ ایک دوسرے کی طمانیت اور تکمیل کی خاطر جنس مخالف کا محتاج رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

جواب میں ان کے رب نے فرمایا: ’’میں تم میں سے کسی کا عمل ضائع کرنے والا نہیں ہوں خواہ مرد ہو یا عورت‘ تم ایک دوسرے کے ہم جنس ہو۔ (آل عمران ۳: ۱۹۵)

جب اللہ تعالیٰ نے آدم ؑ کو پیدا کیا اور انھیں جنت میں آباد کیا تو انھیں جنت میں بھی اکیلے نہیں چھوڑا بلکہ ان کے لیے ان کی پسلی سے ان کی زوجہ کو بنایا تاکہ وہ ایک دوسرے کے لیے باعث تسکین ہوں۔

پھر ہم نے آدم سے کہا کہ ’’تم اور تمھاری بیوی‘ دونوں جنت میں رہو‘‘۔ (البقرہ ۲:۳۵)

مرد اور عورت ایک دوسرے کے محتاج ہیں۔ ان میں باہم اُنس اور مودت رکھی گئی ہے۔ ان کی اولاد کو ان دونوں کی مزید شدت سے ضرورت رہتی ہے۔ وہ اس خاندان کے محتاج رہتے ہیں جہاں پر ماں کی محبت اور باپ کی نگہداشت انھیں میسر آئے۔ اور یہی تعلق انھیں اپنے خاندان اور معاشرے کی خیرخواہی پر اُکساتا ہے اور ان کے اندر جود و عطا‘ تفاہم باہمی اورخیرکے لیے تعاون جیسی کیفیات پیدا کرنے کا محرک بنتا ہے۔

لوگ اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ طویل تر عہد طفولیت انسانوں ہی میں پایا جاتا ہے جو کئی برسوں پر محیط ہوتا ہے۔ اس کے دوران بچہ اپنے ماں باپ اور خاندان کے مادی اور اخلاقی سہارے کا قدم قدم پر محتاج ہوتا ہے۔ اس کی تربیت مکمل نہیں ہوتی جب تک کہ والدین اس سے پیار و محبت سے نہ پیش آئیں اور اپنی محنت کی کمائی اس پر خرچ نہ کرتے رہیں۔ یہاں تک کہ وہ سن بلوغت کو پہنچ جائے۔ والدین عام طور سے اولاد کے لیے جو کچھ کرتے ہیں اُس پر خوش رہتے ہیں‘ نہ اپنے احسانات شمار کرتے ہیں اور نہ کوئی تکلیف ہی کا احساس اولاد کی پرورش میں مانع ہوتا ہے۔ لیکن کلوننگ مرد اور عورت کو ایک دوسرے کے فطری تعلق سے آزاد کرتی ہے اور اُس خاندان کی بنیاد ڈھا دیتی ہے جہاں انسان پرورش پاتے ہیں اور ان کی اولین تربیت ہوتی ہے۔

کلوننگ شدہ انسانوں میں رشتے ناطے

جس انسان سے مادہ لے کر کلوننگ کی جائے گی اور جو نومولود ہوگا‘ ان میں کیا رشتہ و تعلق ہوگا؟ یہ ایک بڑا معمّا ہے ۔ اس میں شک نہیں کہ نومولود ایک الگ وجود رکھتا ہے چاہے وہ اپنے محسن/ ہم زاد کی مکمل اور مماثل جسمانی‘ عقلی اور نفسیاتی صفات رکھتا ہو۔ لیکن وہ ایک معنی میں دوسرا بھی نہیں ہے بلکہ ان دونوں میں صرف زمانی اختلاف ہے۔ دیگر صفات کی مماثلت کے باوجود نومولود ایک نئی شخصیت میں ڈھل جائے گا۔ اسے مختلف ماحول اور ثقافت میسر آئے گی۔ چونکہ عقیدہ‘ سلوک اور معرفت کسب کیے جاتے ہیں‘ وراثت سے سرشت کا حصہ نہیں بن جاتے‘ اس طرح یہ نیا شخص ہی شمار کیا جائے گا۔ لیکن اس کا اپنے سینیر(senior)سے کیا رشتہ ہوگا؟ کیا وہ بیٹا ہوگا؟ یا بھائی ہوگا؟یا لاتعلق ہوگا؟ یہ ایک بنیادی سوال اُٹھے گا۔ بعض لوگ قیاس کرتے ہیں کہ وہ بیٹا ہوگا کیونکہ وہ اس کا جز ہے۔ لیکن یہ بات اسی وقت منطقی ہوگی جب کہ مادہ رحمِ مادر میں ڈالا جائے‘ اور اس کی طبیعی طریقے پر ولادت ہو۔ جیساکہ قرآن میں آتا ہے: ’’ان کی مائیں تو وہی ہیں جنھوں نے ان کو جنا ہے‘‘ (المجادلۃ ۵۸:۲)۔ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ نومولود کی ماں ہوگی اور باپ نہیں ہوگا۔

بعض حضرات کی رائے میں یہ جڑواں بھائی ہوگا لیکن بھائیوں کی اصل تو ماں باپ ہوتے ہیں اور جب اصل ہی نہ رہے گی تو فرع کیسے ثابت ہوگی۔

یہ تمام پیچیدگیاں اس بات کی متقاضی ہیں کہ ان تمام مفاسد سے بچنے کے لیے کلوننگ کا انکار کر دیا جائے۔

کلوننگ بغرض علاج

کلوننگ امراض کے علاج میں کس طرح استعمال ہوگی‘ یہ میں نہیں جانتا۔ اگر اس سے مراد یہ ہے کہ کلوننگ شدہ انسان‘ طفل یا جنین بنائے جائیں تاکہ ان کے اعضا نکال کر مریض انسانوں کے علاج میں کام آئیں تو یہ صورت ہرگز جائز نہیں ہوگی۔ کیونکہ مخلوق باحیات ہے چاہے کلوننگ کے ذریعے ہی پیدایش ہوئی ہو۔ اس لیے اس کے اعضا ے جسم کو ضائع نہیں کیا جاسکتا چاہے وہ ابھی مرحلۂ طفولیت یا جنین ہی میں کیوں نہ ہو۔ اس کی حرمت وقوع پذیر ہوچکی ہے۔

اگر کلوننگ سے مخصوص اعضاے جسم ہی کی پیداوار ہو سکے جیسے دل‘ جگر‘ گردے وغیرہ تاکہ محتاج مریض اور معذور افراد کے کام میں لائے جائیں تو یہ صورت مقبول ہے۔ دین میں پسندیدہ ہے اور باعث ثواب ہے۔ چونکہ یہ طریقۂ کار انسانیت کے لیے نفع بخش ہے اور یہ کسی دیگر مخلوق کو ایذا پہنچائے بغیر‘ نیز کسی حرمت کو پامال کیے بغیر یہ مقصد حاصل ہو رہا ہے--- اس لیے اس طرح کے تمام استعمال شرعی حدود کے اندر سمجھے جائیں گے بلکہ یہ مطلوب اور مستحسن کام ہوگا۔ بعض حالات میں بقدر ضرورت اس کی اہمیت و افادیت اور بڑھ جائے گی۔

دو اہم نکات

کلوننگ کے حوالے سے دو مزید نکات غورطلب ہیں:

اولاً یہ کہ کلوننگ جیسا کہ بعض تصور کرتے ہیں کسی جان دار کی بذاتِ خود تخلیق نہیں ہے بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کے تخلیق کردہ مادئہ تناسل کو مخصوص طریقے سے نشوونما دینا ہے۔ کلوننگ کے دوران ایک بالغ ذی روح کے جسمانی خلیہ (somatic cell) سے حاصل کردہ مرکزے (nucleus) کو ایک بیضہ (egg) میں داخل کیا جاتا ہے جس کا مرکزہ نکال لیا گیا ہو۔ اس طرح جس مولود کی نشوونما ہوتی ہے اُس میں اُس ذی روح سے جس سے somatic cell nucleus لیا گیا ہو مکمل جینیاتی مماثلت ہوتی ہے۔ اس پورے عمل کی بنیادبیضہ اور جسمانی خلیہ کا استعمال ہے جس کی تخلیق اللہ تعالیٰ نے کی ہے۔ نشوونما اسی فطری دائرے میں ہو رہی ہے جس پر یہ سارا عالم قائم ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو قائم کیا ہے۔

ثانیاً یہ کہ شاید کلوننگ کے علم سے دین کے اساسی عقیدے حیات بعد موت کو سمجھنے میں آسانی پیدا ہوگی۔ دورِ قدیم کے مشرکین ہوں یا آج کے مادہ پرست‘ موت کے بعد زندہ کیے جانے کے تصور کو بعیداز حقیقت واہمہ سمجھتے رہے ہیں۔ مگر آج کلوننگ کی ٹکنالوجی یہ ثابت کر رہی ہے کہ صرف بیضہ اور خلیہ کے واسطے سے انسان اپنی اصل شکل و صورت پر پھر سے وجود میں آسکتا ہے۔ پس اگر اس معاملے میں انسان اتنی قدرت حاصل کر سکتا ہے تو کیا اللہ تبارک و تعالیٰ اس بات پر قادر نہیں ہے کہ انسانوں کو دوبارہ اس مادے سے زندہ کرے جو حدیث میں   عجب الذنب کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے‘ جو انسان سے فنا نہیں ہوتا‘ یا کسی بھی واسطے کے بغیر اللہ تعالیٰ اس کو دوبارہ زندگی میں لا سکتا ہے جو ہمارے علم سے بعید ہے۔

وہی ہے جو تخلیق کی ابتدا کرتا ہے‘ پھر وہی اس کا اعادہ کرے گا اور یہ اس کے لیے آسان تر ہے۔ (الروم ۳۰: ۴۷)

ترجمہ: ابوسعد

ملت اسلامیہ پر آج ایسا مرحلہ آیا ہے کہ وہ اغیار کے رحم و کرم پر زندہ ہے‘ وہ جس طرح چاہیں اس سے معاملہ کریں اور اس کے معاملات میں دخل اندازی کرتے رہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ اس اُمت کے مزاج اور اس کی اصل کو بدل ڈالیں‘ اس کے تشخص اور تمدن میں وہ تبدیلیاں لائیں جو ان کے لیے قابل قبول ہوں۔ اغیار ہم سے ہرگز راضی نہیں ہو سکتے جب تک کہ ہم ان کی مرضی کے مطابق نہ چلیں۔

وہ چاہتے ہیں کہ ملت اسلامیہ اپنی دینی تعلیم میں بنیادی تبدیلی لائے۔ ریاست ہاے متحدہ امریکہ نے ایک سے زائد اسلامی ممالک سے یہ مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنے ہاں رائج دینی تعلیم کے نظام پر نظرثانی کریں۔ دینی تعلیم سے کیا مراد ہے؟ کیا وہ دینی تعلیم جو عام مدارس کے نصاب میں داخل ہے جس کے ذریعے طلبہ اپنے عقیدے‘ شریعت‘ تہذیب اور اخلاق سے واقفیت حاصل کرتے ہیں‘ یا اس سے وہ تعلیم مراد ہے جو بعض     یونی ورسٹیوں میں اسلامی ثقافت کے حوالے سے ایک مضمون کی حیثیت سے پڑھائی جاتی ہے‘ یا اس دینی تعلیم سے مراد وہ خاص منہج تعلیم ہے جو مختلف اسلامی ممالک کے دینی مدارس‘ شرعی مراکز اوراسلامی یونی ورسٹیوں‘ مثلاً مصر میں الازھر‘ تونس میں الزیتونہ اور بلاد مغرب میں قروین‘ سعودی عرب میں الجامعہ الاسلامیہ اور جامعہ الامام محمد بن سعود اور جامعہ ام القریٰ‘ بھارت میں مدرسہ دیوبند‘ ندوۃ العلما‘ پاکستان کی معروف دینی درس گاہوں اور ملایشیا میں کوالالمپور کے دینی مدارس میں دی جاتی ہے؟ غالب امکان یہ ہے کہ یہ مطالبہ مذکورہ تمام طرز کی دینی تعلیم کے لیے ہے‘ اور مطلوب یہ ہے کہ دینی تعلیم کو اس رنگ میں رنگا جائے جو امریکہ چاہتا ہے۔

یہ ایک عجیب و غریب مطالبہ ہے۔

کیا ہم عرب اور مسلمانوں پر وہ پابندیاں لگا دی جائیں گی جو دوسری عالمی جنگ کے بعد جاپان اور جرمنی پر لگا دی گئی تھیں؟ جرمنی اور جاپان سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ اپنے دستور‘ تعلیم اور ثقافت کو تبدیل کریں کیونکہ وہ امریکہ اور اس کے حلیفوں کے دشمن تھے اور اس جنگ میںکود پڑے تھے جس میں لاکھوں انسانوں کی جانیں تلف ہوئیں۔ حالانکہ ہم ان کے دشمن نہیں ہیں۔ جن اسلامی ممالک سے دینی تعلیم میں تبدیلی کا مطالبہ ہو رہا ہے وہ امریکہ کے دوست ملک سمجھے جاتے رہے ہیں۔ ان کے درمیان معاہدات ہیں‘ سمجھوتے ہیں‘ سفارتی تعلقات ہیں۔ ہم حالت جنگ میں نہیں ہیں‘ پھر بھی ہم سے یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ آخر ہم سے وہ سلوک کیوں کیاجا رہا ہے جو شکست خوردہ جنگی فریق سے کیا جاتا ہے؟ ہم نے جنگ نہیں چھیڑی مگریہ ایک طاقت ور کی کمزور پر گرفت ہے‘ ایک غالب کا مغلوب سے برتائو ہے‘ بھیڑیاآگیا بکریاں اپنی خیرمنائیں--- یہی کچھ ان دنوں ہو رہا ہے۔

کیا دہشت گردی دینی تعلیم کا نتیجہ ہے؟

امریکہ کیا چاہتا ہے؟ امریکہ یہ چاہتا ہے کہ ہماری دینی تعلیم کو بدل ڈالے۔ حالانکہ یہاں نہ دہشت گردی سکھائی جاتی ہے اور نہ اس کے نتیجے میںدہشت گردی ہی پروان چڑھتی ہے۔ یہ کس نے کہہ دیا کہ دہشت گردی دینی تعلیم سے پھلتی پھولتی ہے؟ کیا اسامہ بن لادن‘ ایمن الظواہری‘ عبدالسلام فرج اور خالد الاسلامبولی اور وہ جن پر دہشت گردی کے الزامات لگائے گئے ہیں‘ کیا ان میں سے کوئی ہے جس نے جامعہ الازھر سے یا کسی معروف دینی درس گاہ سے تعلیم حاصل کی ہو؟ ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہے جس نے کسی معروف دینی درس گاہ سے تعلیم حاصل کی ہو۔ ہاں‘ یہ صحیح ہے کہ طالبان ضرور دینی مدارس کے فارغ ہیں لیکن وہ دہشت گرد نہیں ہیں۔ طالبان پر کچھ بھی الزامات لگائے جائیں‘ مگر دہشت گردی کا الزام ان پر صادق نہیں آتا۔ امریکہ بھی یہ کہتا رہا ہے کہ اسامہ بن لادن اور القاعدہ دہشت گرد ہیں‘ ہم ان سے اور جو انھیں پناہ دیتے ہیں‘ ان سے بھی لڑیں گے۔ طالبان کو دہشت گرد نہیں‘ بلکہ ان کو پناہ دینے والے قرار دیا گیا تھا۔ یہ کتنی کم ظرفی کی بات ہے کہ اب کہتے ہیں کہ طالبان دہشت گرد ہیں۔

طالبان نے جو کچھ کیا وہ صرف یہ کہ بن لادن کو اپنے ملک میں پناہ دی۔ حقیقت یہ ہے کہ بن لادن اور القاعدہ افغانستان میں اس وقت سے تھے جب سرخ سامراج (سابق سوویت یونین) کے خلاف افغانستان میں جہاد جاری تھا اور جنھیں برسوں امریکہ اور عرب و اسلامی ممالک کی سرپرستی حاصل رہی تھی۔ پھر یہی مجاہدین‘ مجرم قرار دیے جانے لگے ‘ ان کے راستے مسدود کر دیے گئے‘ ان سے اسباب چھین لیے گئے اور وہ اس قابل بھی نہیں رہے کہ اپنے ملکوں کو واپس جا سکیں کیونکہ وہاں ان کی آمد پر دارورسن ان کا مستقبل تھا۔ اس لیے وہ افغانستان ہی میں رہے اور افغانیوں نے ان کے ساتھ اپنے روایتی اخلاق کا برتائو اختیار کیا کہ جس نے ان سے پناہ طلب کی اس کو ہرگز بے یارومددگار نہیں چھوڑا۔ یہ حسن سلوک ہے دہشت گردی نہیں ہے۔

اس دنیا میں دہشت گردی مختلف رنگوں میں نظر آتی ہے جس کا کوئی تعلق دین سے یا دینی تعلیم سے ہرگز نہیں۔ یہ خود امریکہ میں ‘ برطانیہ میں‘ جاپان میں موجود ہے۔ بھارت اور اسرائیل میں بھی موجود ہے۔ ہر جگہ کے واقعات ریکارڈ پر ہیں۔ پھر کیوں صرف اسلامی دینی تعلیم ہی پر دہشت گردی کا الزام لگایا جاتا ہے؟

امریکی دل چسپی کا سبب

آخر امریکہ اسلامی دینی تعلیم میں تبدیلی کے مطالبے سے کیا حاصل کرنا چاہتا ہے؟ کیا وہ یہ چاہتا ہے کہ اس تعلیم کا اثر زائل کر دے تاکہ حیات مسلم پر اس کا کوئی اثر باقی نہ رہے؟ اگر یہی بات ہے تو یہ تبدیلی دہشت گردی کو ختم کرنے میں ممد ثابت نہ ہوگی بلکہ یہ اُمت کے اخلاق کو بری طرح متاثر کرے گی اور اُمت اپنے بنیادی اصولوں سے عاری ہو جائے گی۔ یہ اُمت بے راہ رو اُمت بن جائے گی۔

اخلاق کی بنیاد دین ہے اور دین زندگی کا جوہر اور اس کا راز ہے‘ اور اگر یہ زندگی سے گم ہو جائے تو زندگی‘ زندگی نہ رہے۔ دین ایک قوت سے عبارت ہے جوخیر کی محافظ ہے اور شر کولگام دیتی ہے۔ دین انسان کے لیے ضابطہء حیات متعین کرتا ہے۔ اگر دین کا کردار ختم کر دیا جائے تو اس کے معنی ہوں گے کہ شر پھیلنے لگے‘ جرائم بڑھنے لگیں‘ فساد پھیلے‘ بے حیائی عام ہو اور ضمیر کے سودے سرعام ہونے لگیں۔ اگر دین کو زندگی سے نکال باہر کردیا گیا تو یہی کچھ ہو کر رہے گا۔

مسلم ممالک کے سیکولر حکمران چاہتے ہیں کہ ترکی کی سیکولر اور متشدد حکومت کی طرح دین کو عام مسلمانوں کی زندگی سے خارج کر دیں۔ ترکی مدارس میں دین نہیں سکھایا جاتا۔ ترک عوام نے اس کمی کو پورا کرنے کے لیے اپنے وسائل سے ہزاروں قرآنی مدارس کا آغاز کیا جس میں بچوں کو قرآن ناظرہ پڑھایا جاتا ہے۔ وہاں وہ قرآن پڑھتے ہیں مگر اس کے معنی نہیں جانتے۔ کیا یہ تعلیم بھی کہیں دہشت گردی پھیلا سکتی ہے؟ مگر اس کے باوجود سیکولر ترکی حکومت نے ان مدارس پر پابندی لگا دی اور مدارس بند کر دیے گئے۔ کیا یہ ایسا ہی چاہتے ہیں؟ کیا یہ چاہتے ہیں کہ دینی تعلیم ان بنیادی مقاصد سے عاری ہو جائے جو ایک کامل مسلمان اور مرد مومن کی نشوونما کے ضامن ہیں۔ وہ مرد مومن جو حق پر ایمان رکھتا ہے اور اس کے راستے میں جہاد کرتا ہے۔ خیر کی طرف بلاتا ہے‘ بھلائیوں کا حکم دیتا ہے اور منکرات سے روکتا ہے اور باطل کا مقابلہ کرتا ہے اور حق کو مضبوطی سے تھامے رہتا ہے۔ وہ اس کی پروا نہیں کرتا کہ اس راستے میں کیسی اذیتیں اور پریشانیاں اسے لاحق ہیں۔ ایک ایسی شخصیت جو اللہ کے راستے میں اپنا سر ہتھیلی پر رکھ لیتی ہے‘ جو اس کی راہ میں شہید ہو جاتے ہیں جس طرح ہمارے بھائی حماس اور جہاد اسلامی و دیگر جہادی تنظیموں میں شہید ہو رہے ہیں‘ کیا وہ چاہتے ہیں کہ جہاد کا یہ تصور دین سے حذف کر دیں؟ ہو سکتا ہے کہ وہ یہی چاہتے ہوں۔ کچھ سیکولرعرب ممالک نے یہ کام کر دیا ہے۔ خصوصاً ان ممالک نے جو سیکولرازم اور تشدد کی انتہا کو پہنچ چکے ہیں۔

اہل مغرب کا کہنا ہے کہ یہ کافی نہیں ہے کہ دین داروں سے جنگ کرو‘ انھیں قیدخانوں میں ڈال دو اور ان پر تسلط حاصل کرلو اور انھیں مالی و نفسیاتی سزا دو۔ دین داروں کے خلاف محاذ اسی وقت جیتا جا سکتا ہے جب ان چشموں کو خشک کر دیا جائے جہاں سے دین کے سوتے پھوٹتے ہیں۔ اس کو منبع آب خشک کرنے کا نام دیا گیا ہے۔ یقینا امریکہ دینی تعلیم میں تغیر کے اپنے مطالبے سے یہی کچھ حاصل کرنا چاہتا ہے جو اسے اصلاح اور تجدید کے حوالے سے پیش کر رہا ہے۔ یہ اصلاح اور تجدید نہیں‘ بلکہ فساد اور گمراہی ہے۔

کیا امریکہ یہ چاہتا ہے کہ دینی تعلیم کے منہج میں کچھ تبدیلی آئے تاکہ اسلامی فکر اور رواداری پروان چڑھے؟ حالانکہ اسلام ایک ایسی فکر کا حامل ہے جو دوسروں کے ساتھ گفت و شنید کے لیے ہر وقت تیار‘ اور مخالفین کے ساتھ عفو و درگزر اور دشمنوں کے ساتھ احسان کا رویہ پیش کرتی ہے‘ اور انسان کو بحیثیت بشر ایک برادری اور خاندان کے افراد سمجھتی ہے جو ایک باپ آدم ؑ کی اولاد اور ایک رب اللہ تعالیٰ کا بندہ ہے۔ اگر امریکہ یہ چاہتا ہے تو ہم اس مطالبے میں امریکہ سے آگے ہیں۔

دین کو ہم الاسلام کہتے ہیں جو ایک کھلا اور روادار دین ہے۔ ہم مسلمانوں کے متشدد اور تنگ نظر اور متعصب عناصر کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ تعصب‘ تنگ نظری اور جمود سے رواداری اور حرکت کی طرف‘دشواری اور منافرت سے آسانی اور خوش خبری کے ماحول کی طرف‘ غلو اور بے اعتدالی سے انصاف اور اعتدال کی راہ پر آئیں۔ حسداور بغض کے بجائے ہمدردی اور رحمت کو اپنائیں۔ ہم مسلمانوں کو اس طرف بلاتے ہیں تو اس لیے نہیں کہ امریکہ ہم سے یہ مطالبہ کرتا ہے بلکہ اس لیے کہ ہمارے دین نے اس کا حکم دیا ہے۔ یہ خود ہماری دعوت ہے۔ اس کی قطعی ضرورت نہیں ہے کہ یہ امریکہ اور اس کے حلیف کی طرف سے دبائو کے ذریعے کرائی جائے۔ ہم اسی دینی تعلیم کے منہج کے دعوے دار ہیں جس سے صحابہ اور تابعین نے استفادہ کیا اور وہ لوگ اسلام کا بہتر  فہم رکھنے والے‘ اس کی روح سے اچھی طرح واقف‘ اس کے مقاصد سے آشنا‘ اس سے زیادہ تعلق رکھنے والے‘ اس کے ارکان و آداب پر اچھی طرح عمل کرنے والے لوگ تھے۔ ہم اُس اسلام کی طرف دعوت دیتے ہیں جو کہ صحابہ کرامؓ کی اولین جماعت نے سمجھا جن کی تربیت محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے خود کی تھی اور جن کے ذریعے سے اس اُمت کی تشکیل کی گئی۔ ہم اس کی طرف بلاتے ہیں اور ہمیں اس کی ضرورت نہیں ہے کہ اغیار ہمیں دین سکھائیں۔

اسلام ہی ہدف کیوں؟

سوال یہ ہے کہ صرف اسلام اور مسلمان ہی دہشت گردی کا ہدف کیوں؟ دوسری تمام اقوام سے  صرفِ نظر کر کے صرف مسلمانوں سے ہی مطالبہ کیوں کیا جا رہا ہے کہ وہ دینی تعلیم میں تبدیلی لائیں؟ آخر اسرائیلیوں سے یہ مطالبہ کیوں نہیں کیا جاتا‘ جب کہ اسرائیل وہ قوم ہے جس نے خوں ریزی اور غارت گری کو جائزٹھہرا لیا ہے۔ جن کے ہاں خون بہانا‘ عزت نفس سے کھیلنا اور انسانی رشتوں کا لحاظ نہ کرنا کوئی گناہ نہیں‘ ان کی اپنی اسی دینی تعلیم کی بنیاد پر جو تورات میں دی گئی ہے۔ تورات میں موسیٰ علیہ السلام سے یہ کہا گیا ہے کہ اگر تم کسی قوم پر فتح حاصل کرلو اور کسی ملک میں داخل ہو جائو تو وہاں کے باشندوں کو مارو۔ مرد اور عورت دونوں پر تلوار چلائو اور ان کے گائے‘ بھیڑبکریاں‘ گدھوں اور دیگر جانوروں کو قتل کر دو‘ یعنی ہر طرح کی غارت گری روا رکھو۔ یہ وہ سبق ہے جو انھیں تورات سکھاتی ہے۔ جہاں تک تلمود کا تعلق ہے وہ اس سے زیادہ شدید‘ زہریلی اور قساوت سے پُر ہے کیونکہ وہ تمام غیر اسرائیلیوں کو مذموم ٹھہراتی ہے۔ تمام غیر اقوام کو وہ جانوروں کی طرح سمجھتی ہے اور وہ بھی کتوں سے بدتر‘ اور یہ کہ دیگر انسان خدا کی محبوب قوم بنی اسرائیل کے مملوک اور غلام ہیں۔ یہ اور اس طرح کی باتیں تلمود کہتی ہے اور جس کے تعلق سے قرآن بھی گواہی دیتا ہے جب وہ اشارہ کرتا ہے کہ ’’وہ کہتے ہیں کہ ہمارا امیین (غیر اسرائیلیوں) سے کوئی عہد نہیں ہے اور یہ اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں جانتے بوجھتے ہوئے‘‘۔ اسرائیلیوں کے نزدیک کسی غیر اسرائیلی کی نہ کوئی حرمت ہے اور نہ کوئی منزلت اور وقعت ہی۔ یہی ان کی دینی قدریں ہیں۔

یہ سب جاننے کے باوجود امریکہ اسرائیل سے کیوں مطالبہ نہیں کرتا کہ وہ اپنی دینی تعلیم بدل ڈالے۔ وہ اسرائیل کی دینی جماعتوں‘ حزب شاش جیسے متشدد گروہوں پر کیوں دبائو نہیں ڈالتا حالانکہ یہی لوگ ہیں جو عربوں کا قتل عام روا رکھتے ہیں اور جنھیں ان کا نام و نشان باقی رکھنا گوارا نہیں ہے۔ اسرائیل کے لیے سب حلال ہے اور مسلمانوں اور عربوں کے لیے سب حرام ہے۔

امریکہ کا یہ مطالبہ امریکہ میں موجود ان بنیاد پرست مسیحی گروہوں سے کیوں نہیں ہے جوکھلے عام یہودی اور صہیونی سازشوں میں تعاون کرتے ہیں اور اس کو وہ دینی تقاضا سمجھتے ہیں جن کی تعلیم نے کروڑوں پر اثر ڈالا۔ بشمول امریکی صدر‘ جمی کارٹر ہوں یا بش (باپ)‘ ریگن ہوں یا کلنٹن اور موجودہ صدر بش (بیٹا)۔ یہ تمام اسی مسیحی فکر سے متاثر ہیں جس کو اصولی مسیحیت یا صہیونی مسیحیت کہا جاتا ہے۔ شاید اوکلاہاما سٹی کے دھماکوں میں جو ملوث تھے وہ بھی اسی ذہن کے پرداختہ تھے اور ان کے علاوہ درجنوں اور تنظیمیں اور گروہ امریکہ میں موجود ہیں جو اس زمرے میں آتی ہیں۔ آخر ان کا نام کیوں نہیں لیا جاتا؟ اسی طرح آئرلینڈ کے کیتھولک مسلح گروہ جو برطانیہ میں پروٹسٹنٹ طبقے سے برسرپیکار ہیں‘ ان کو کیوں ملزم نہیں سمجھا جاتا؟

حد یہ ہے کہ ہمارے رفاہی اور خدمات عامہ کے ادارے بھی ان کی زد میں ہیں۔ حال ہی میں امریکی وفود نے خلیج کا دورہ کیا تاکہ ان اداروں کی جانچ پڑتال اور نگرانی کی جائے اور ان کا کسی بھی طرح کا تعاون بقول ان کے دہشت گردوں کو نہ ملنے پائے۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ ان سے کوئی تعاون فلسطین نہ جائے۔ حماس‘ الجہاد تنظیم اور حزب اللہ اور دیگر تمام اسلامی جماعتیں جو اپنے دین و وطن کی مدافعت کر رہی ہیں ان سے کٹی رہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ خلیج میں موجودہ رفاہی اور خدمت خلق کے اداروں پر پابندی لگائیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ہمارے ہر معاملے میں اپنی رائے ٹھونسیں۔ یہ جدید استعمار ہے۔ نیا استعمار نئے نام اور نئے انداز سے آرہا ہے۔ یہ اشد ضروری ہے کہ خلیج اور دیگر عرب و اسلامی ممالک اس طرح کی دخل اندازی کو مسترد کر دیں۔ ہم کسی کے غلام نہیں ہیں۔ ہم صرف اللہ وحدہ لاشریک کے غلام ہیں: کہہ دو کہ میری نماز‘ میری قربانی‘ میرا جینا اور میرا مرنا سب اللہ رب العالمین کے لیے ہے جس کا کوئی شریک نہیں اور اسی کا حکم مجھے دیا گیا ہے اور میں سب سے پہلا مطیع و فرماں بردار ہوں۔

اُمت مسلمہ کی ذمہ داری

میں اس بات سے انکار نہیں کرتا کہ ہمارے دینی اداروں میں بھی مختلف طرح کی خامیاں موجود ہیں۔ ہمارے ملکوں کے یہ تمام ادارے اصلاح کے محتاج ہیں اور اس کی ضرورت ہے کہ ان کی کارکردگی کا جائزہ لیا جاتا رہے۔ زندہ قومیں اپنا احتساب خود کرتی ہیں۔ اپنے حال اور مستقبل پر مسلسل نظر رکھتی ہیں اور اس بات کا انتظارنہیں کرتیں کہ کوئی غیر انھیں اس کام کے لیے متوجہ کرے۔ خود امریکہ اپنے حالیہ نظام تعلیم کا جائزہ لے رہا ہے۔ انھوں نے ایک جاپانی وفد کو دعوت دی کہ امریکی نظام تعلیم کی اصلاح کے ضمن میںوہ اپنے مشورے پیش کرے لیکن یہ فیصلہ امریکہ نے خود کیا تھا کسی اور نے اس پر ٹھونسا نہیں تھا۔ ہم ہمیشہ یہ کہتے رہے ہیںاور ہمارے مفکرین اس بات پر زور دیتے رہے ہیں کہ نظام تعلیم کا احیا اور جائزہ مسلسل ہوتا رہنا چاہیے۔ یہ ایک فطری ضرورت ہے۔ اکثر لوگ یہ شکایت کرتے ہیں کہ ہماری مروجہ دینی تعلیم جمود کا شکار ہے۔ وہ ماضی سے عبارت ہے اور عصرحاضر کے تقاضوں سے میل نہیں کھاتی‘ وہ عصرحاضر جس کا دائرہ بہت وسیع ہے‘ جس کی ثقافت متنوع ہے اور جس کے مسائل نئے نئے اور ان گنت ہیں۔ ہماری دینی تعلیم اس سے کوئی سروکار نہیں رکھتی۔

ہم اس بات کے خواہاں ہیں کہ ہم علم دین کی ترویج ماضی کے علمی ورثے اور جدید تقاضوں کے پیش نظر کریں۔ ہمارے ماضی میں ایسا ہی ہوتا رہا ہے۔ اہل دانش کو چاہیے کہ وہ اپنے زمانے سے واقف اور اپنی خودی کے نگہبان رہیں۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ دینی تعلیم بند حصار سے باہر نکل آئے اور جمود سے چھٹکارا پائے اور علم کو وسیع تر آفاق پر محیط کرے۔ بعض دینی مدارس عصری علوم سے کوئی واسطہ نہیں رکھتے۔ وہ جغرافیہ سے نابلد ہیں‘ نہ فزکس کی معرفت ہے‘ نہ کیمیا‘ نہ علوم حیاتیات کے ہی مبادیات سے واقف ہیں۔ انسان اگر ان اہم علوم کے مبادی سے ناواقف ہو تو اس دور میں کیسے جی سکتا ہے۔ جب ہم بعض مسائل پر گفتگو کرتے ہیں جن کا تعلق عصری علوم سے ہو تو ہم دیکھتے ہیں کہ یہاں کے فارغ التحصیل صحیح صورت حال کو سمجھ نہیں پاتے۔ ہمارے علما یہ کہتے ہیں کہ مفتی کے لیے ضروری ہے کہ وہ نصوص دین کی طرح مسئلے کی حقیقی صورت حال سے بھی اچھی طرح آگاہ ہو۔ دین اور عصرحاضر کے علوم میں مہارت کے بغیر صحیح فتویٰ نہیں دیا جا سکتا۔ رویت ہلال کے مسئلے سے آگاہی ممکن نہیں جب تک علم فلکیات سے واقفیت نہ ہو۔ جب ہم نہیں جانتے کہ فلکیات کیا ہے‘ چاند گرہن اور سورج گرہن کیا ہے اور شمس و قمر کی گردش کس حساب میں ہے تو پھر کیسے کوئی حتمی رائے قائم کر سکتے ہیں۔ اسی طرح سے توالد و تناسل کے جدید علم سے واقف ہوئے بغیر ہم کیسے کوئی شرعی رائے بیان کر سکتے ہیں۔

کچھ عرصہ قبل میں فلپائن کے دورے پر تھا۔ وہاں میں نے اسلامی اور عربی مدارس کا دورہ کیا۔ ہم نے اہل مدارس سے عرض کیا کہ آپ لوگ ماضی بعید میں رہتے ہیں جیسا کہ آج سے ۱۰۰ سال قبل الازھر تھا۔ میں نے ان سے کہا کہ آخر آپ انگریزی زبان کیوں نہیں سیکھتے؟ عصری علوم کیوں نہیں پڑھتے؟ اپنے انداز تدریس کو سہل اور جدید کیوں نہیں بناتے؟ اور نئے سمعی و بصری وسائل تدریس سے استفادہ کیوں نہیں کرتے؟ تو انھوں نے کہا یہ سب چیزیں وافر وسائل سے ہی ممکن ہیں۔ ہم صرف متوکل اساتذہ کے تعاون سے یہ ادارے چلاتے ہیں۔ اگر وہ مشاہرہ لیتے بھی ہیں تو بہت قلیل سا۔ انگریزی‘ طبیعیات‘ کیمیا‘ جغرافیہ وغیرہ کے مدرسین کے لیے بڑی بڑی تنخواہیں چاہییں۔ یہ ہم کہاں سے مہیا کریں؟ یوں ایک اہم مسئلہ مالی وسائل کی کمی کا ہے۔

یہ کتنے تعجب کی بات ہے کہ مسلمان جو وافر وسائل اور کارخیر کا جذبہ بھی رکھتے ہیں‘ ان حالات میں بھی جب کارخیر کا سوچتے ہیں تو سوائے ایک کے کوئی اور کام ان کے خیال میں نہیں آتا‘ اور وہ ہے مسجد کی تعمیر۔ یقینا اس کی ضرورت مسلمانوں کو ہے۔ مگر مسلمانوںکو مدارس کی بھی اسی طرح ضرورت ہے جیسے مسجد کی یا اس سے بھی کچھ زیادہ۔ مدرسے اور مساجد ایک دوسرے کو تقویت پہنچاتے ہیں۔ ہمیں مساجد کی ضرورت ہے‘ مدرسوں کی ضرورت ہے‘ اسٹیڈیم کی ضرورت ہے‘ مختلف تربیتی‘ تعلیمی‘ ثقافتی اور ابلاغی اداروں کی ضرورت ہے جن سے ہمارے معاشرے کی ضرورتیں پوری ہوں‘ وہ اس کے ارتقا کے ضامن بن جائیں اور اپنا موثر اور بھرپور کردار ادا کر سکیں۔

یہی وہ تبدیلی ہے جو ہم دینی تعلیم میں دیکھنا چاہتے ہیں کہ وہ نشوونما پائے‘ ترقی کرتی رہے‘ اس کے منہج بہتر ہوتے رہیں‘ عصرحاضر میں زندہ رہے اور حیات انسانی کے ساتھ سفر کرتی رہے۔ یہاں تک کہ ہر لحظہ وہ اپنے رب کے اذن سے اپنے ثمرات عطا کرتی رہے۔ (خطبہ جمعہ ‘ ۱۸ جنوری ۲۰۰۲ء‘ مسجد عمر بن خطاب‘ دوحہ‘ قطر)