’راہِ اعتدال‘ اسلام کی ایک نمایاں خصوصیت ہے۔ اس کو ’توازن‘ کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ یعنی دو متقابل (متوازی) یا متضاد (مخالف) چیزوں کے درمیان ’اعتدال‘ کا اس طرح پایا جاناکہ ان میں سے ایک زیادہ توجہ پالینے کی بنا پر منفرد اور نمایاں نظر نہ آئے اور اس کی مقابل چیز نظرانداز ہو کر نہ رہ جائے۔متقابل اور متضاد چیزوں کو مثال کے طور پر یوں سمجھا جا سکتا ہے: ربوبیت اور انسانیت، روحانیت اور مادّیت، اُخرویت اور دُنیویت، وحی اور عقل، ماضی اور مستقبل، انفرادیت اور اجتماعیت، ثبات اور تغیر وغیرہ ۔ان کے درمیان توازن سے مراد یہ ہے کہ ہرایک کے دائرے اور حدود کو تنگ اور محدود نہ کیا جائے بلکہ کشادہ اور وسیع رکھا جائے اور ’عدل‘ کے ساتھ اُس کا حق دیا جائے۔ کسی کے حق میں کوئی کمی ہو، نہ حد سے تجاوز، نہ مبالغہ ہو، نہ تقصیر اور نہ ظلم و زیادتی ۔
اللہ کی پیدا کردہ اس کائنات میں ہم اپنے گردوپیش پر نگاہ ڈالیں تو ہمیں رات اور دن، تاریکی اور روشنی، گرمی اور سردی، خشکی اور سمندر اور دیگر بے شمار مخلوقات دکھائی دیتی ہیں، اور یہ سب ایک حساب، میزان اور حدود کی پابند نظر آتی ہیں۔ کوئی چیز مقابل اور متوازی چیز پر زیادتی کرسکتی ہے اور نہ اپنی مقررہ حدود سے تجاوز کر سکتی ہے۔ آسمان پر سورج، چاند اور تارے وسیع و عریض فضا کے اندر اپنے اپنے مدار میں گردش کرتے ہیں۔ کوئی دوسرے سے تصادم نہیں کرتا اور اپنے دائرے اور حدود سے نہیں نکلتا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
ہم نے ہر چیز ایک تقدیر کے ساتھ پیدا کی ہے۔(القمر۵۴:۴۹)
تم رحمٰن کی تخلیق میں کسی قسم کی بے ربطی نہ پائو گے۔(الملک۶۷:۳)
نہ سورج کے بس میں یہ ہے کہ وہ چاند کو جا پکڑے اور نہ رات دن پر سبقت لے جاسکتی ہے۔ سب ایک ایک فلک میں تیر رہے ہیں۔ (یٰس۳۶:۴۰)
آسمان کو اُس نے بلند کیااور میزان قائم کر دی۔ (الرحمٰن۵۵:۷)
توازن اور عدل درحقیقت انسان کے بس سے باہر ہے۔ اس لیے کہ اُس کی عقل اور علم محدود ہے۔ ذاتی و خاندانی، نسلی اور قومی میلانات اور جذبات و احساسات سے وہ متاثر ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسان کا وضع کردہ کوئی نظام و قانون خواہ وہ ایک فرد نے تشکیل دیا ہو، یا انسانوں کے کسی گروہ نے، افراط و تفریط سے کبھی خالی نہیں ہو سکتا۔ ماضی اور حال کا مطالعہ اس بات کی تائید کرتا ہے۔
یہ توازن اور میزان قائم کرنے اور جاری رکھنے کا حق صرف اُسی ذات کو حاصل ہے جو کائنات کے اندر مادی و معنوی ہر شے عطا کرنے والی ہے۔ وہ اللہ وحدہ لاشریک ہے جس نے ہرچیز کو درست تقدیر کے ساتھ پیدا کیا۔ پھروہ ذات ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے، باخبر ہے اور اس نے اپنی رحمت اور علم کا سایہ ہر شے کے اوپر پھیلا رکھا ہے۔ یہ بات نہایت نامناسب اور نامعقول ہو گی کہ کائنات کی تخلیق اور اس نظام کے جاری و ساری رہنے میں تو اللہ کا قائم کردہ توازن موجود ہو، مگر انسانوں کو عطا کیے گئے دین و ہدایتِ حق میں یہ توازن موجود نہ ہو۔
اعتدال و توازن کے اس مفہوم و معنی کی روشنی میں عملی اور نظریاتی، تربیتی اور قانونی، غرض اسلام کی ہر تعلیم اور ہر حکم میں اعتدال موجود ہے۔ اسلام عقیدہ و نظریہ، عبادات و شعائر، اخلاق و آداب اور قانون و نظام میں معتدل ہے۔
عقیدے و نظریے کے اعتبار سے انسانوں کے متعدد گروہ ہیں۔ ہر گروہ کسی نہ کسی لحاظ سے اعتدال اور توسط سے دور ہے۔ یہ شرف اور خصویت صرف اسلام کو حاصل ہے کہ وہ ان تمام گروہوں کے درمیان اعتدال کی علامت کے طور پر کھڑا ہے:
۱-انسانوں کا ایک گروہ عقیدے و نظریے میں اسراف و زیادتی کا ارتکاب کرتا ہے۔ دوسرا گروہ مادیت پرستوں کا ہے جو ماوراے حِس ہر چیز کا انکار کرتا ہے۔ فطرت کی آواز پر کوئی توجہ دیتا ہے نہ عقل کی بات مانتا ہے، حتیٰ کہ کسی معجزے کو بھی ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔
اسلام اعتقاد و ایمان کی دعوت دیتا ہے، لیکن ایسا ایمان جس کے اوپر قطعی دلیل قائم ہوتی ہو، یقینی برہان سے وہ ثابت ہو۔ اس کے علاوہ جو کچھ ہے اسلام اُس کا انکار کرتاہے اور اُسے اوہام و خرافات قرار دیتا ہے۔ اسلام کا تو یہ دائمی شعار ہے: قُلْ ھَاتُوْا بُرْھَانَکُمْ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ o (البقرہ ۲:۱۱۱)’’ان سے کہو، اپنی دلیل پیش کرو، اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو‘‘۔
۲- عقیدے و نظریے کے حوالے سے ایک گروہ ملحدین کا ہے جو کسی الٰہ اور معبود ہی کا قائل نہیں۔ وہ اپنے سینے میں موجود فطرت کی آواز کو بھی دبا دیتے ہیں اور اپنے دماغ میں موجود عقل کی اپیل کو بھی رد کر دیتے ہیں۔ ان کے مقابلے میں ایک گروہ اُن لوگوں کا ہے جو متعدد معبودوں کا قائل ہے، یہاں تک کہ وہ شجر و حجر اور جانوروں کی بھی پوجا کرتے اور اصنام و اوثان کو معبود مانتے ہیں۔
اسلام صرف ایک معبودِ لاشریک پر ایمان لانے کی دعوت دیتاہے، یعنی وہ اِلٰہ اور معبود جو لَمْ یَلِدْ لا وَلَمْ یُوْلَدْ o وَلَمْ یَکُنْ لَّـہٗ کُفُوًا اَحَدٌ o (اخلاص ۱۱۲:۳-۴) ہے۔ اُس کے علاوہ جو کچھ ہے سب مخلوق ہے اور مخلوق میں سے کوئی چیز بذاتِ خود کسی کو کوئی نفع و نقصان پہنچانے، موت و حیات سے ہم کنار کرنے، ازسرِنو زندہ اُٹھانے کی قدرت و صلاحیت ہرگز نہیں رکھتی کہ اُسے الٰہ اور معبود مان کر شرک، ظلم اور کھلی گمراہی کا ارتکاب کیا جائے۔ فرمایا:’’آخر اُس شخص سے زیادہ بہکا ہوا اِنسان اور کون ہو گا جو اللہ کو چھوڑ کر اُن کو پکارے جو قیامت تک اُسے جواب نہیں دے سکتے، بلکہ اِس سے بھی بے خبر ہیں کہ پکارنے والے ان کو پکار رہے ہیں‘‘۔(احقاف۴۶:۵)
۳-کچھ لوگ صرف کائنات ہی کو وجودِ حقیقی مانتے ہیں۔ ان کے نزدیک اس کے علاوہ جو کچھ ہے (جس کو آنکھ دیکھ نہیں سکتی اور ہاتھ چھو نہیں سکتا)، وہ وہم ہے۔ یہ نظریہ رکھنے والے لوگ مادہ پرست ہیں جو ہر ماوراے حِس چیز کا انکارکرتے ہیں۔ اور کچھ لوگ کائنات کو وہم اور غیرحقیقی خیال کرتے ہیں۔ اُن کے نزدیک یہ سراب ہے جس کو پیاسا پانی سمجھ بیٹھا ہے۔ یہاں صرف ایک ہی وجود ہے اور وہ اللہ تعالیٰ ہے۔ اُس کے علاوہ کچھ موجود نہیں ہے۔ یہ گروہ وحدۃ الوجود کا قائل ہے۔
اسلام کائنات کے وجود کو ایک حقیقت قرار دیتا ہے جس میں کوئی شک و شبہہ نہیں ، مگر وہ اس حقیقت سے ایک دوسری بڑی حقیقت تک انسان کو لے جاتا ہے۔ وہ حقیقت اُس ذات کا وجود ہے جس نے اس کائنات کو تشکیل دیا، اس کا نظام قائم کیااور اس نظام کو چلایا اور مسلسل چلا رہا ہے۔
۴-عقیدے کے لحاظ سے کچھ لوگ انسان کو معبود سمجھ بیٹھے ہیں۔ وہ انسان کے اندر ربوبیت کی خصوصیات کا عقیدہ رکھتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ انسان خود اپنا اِلٰہ ہے۔ وہ جو چاہے کرے اور حکم دے۔ انھی لوگوں کے مقابل کچھ لوگ انسان کو معاشی یا سماجی یا دینی جبریت کا پابند خیال کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انسان تو ایک تنکا ہے جس کو ہوا جدھر چاہے اُڑا لے جائے، یا یہ ایک پتلی ہے جس کو سماج ہلاتا اور حرکت دیتا ہے، یا پھر معیشت اور تقدیر اُس سے کچھ کرواتی ہے۔
اسلام کی نظر میں انسان ایک ذمہ دار اور جواب دہ مخلوق ہے اور اشرف المخلوقات ہے۔ وہ اللہ کا بندہ ہے۔ وہ اپنے ماحول کو خود جس قدر چاہے تبدیل کر سکتاہے:’’حقیقت یہ ہے کہ اللہ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی‘‘۔(الرعد۱۳:۱۱)
۵- انسانوں میں سے کچھ انسان انبیا ؑ کو اس قدر مقدس ٹھیراتے ہیں کہ انھیں مرتبہ الوہیت تک پہنچا دیتے ہیں، یا انھیں اللہ تعالیٰ کا بیٹا کہتے ہیں۔ ان کے مقابل وہ بدبخت بھی ہیں جنھوں نے انبیا ؑ کو جھٹلایا، اُن پر تہمتیں لگائیں، اذیتیں دیں، حتیٰ کہ اُن کا ناحق خون کر دیا۔
اِسلام کہتاہے کہ انبیا ؑ انسان تھے۔ وہ کھانا بھی کھاتے تھے اور گلیوں بازاروں میں بھی چلتے پھرتے تھے۔ اُن کی بیویاں بھی تھیں اور اولاد بھی۔ ان کے اور دیگر انسانوں کے درمیان فرق یہ ہے کہ ان کو اللہ تعالیٰ نے شرفِ وحی سے سرفراز کیا اور معجزات سے ان کی تائید و نصرت فرمائی، اور انسانیت کی ہدایت کے لیے ان کو نبی اور رسول مقرر فرمایا۔ اور خود انھی کی زبانی کہلوایا:’’اُن کے رسولوں نے ان سے کہا واقعی ہم کچھ نہیں ہیں مگر تم ہی جیسے انسان۔ لیکن اللہ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے نوازتا ہے، اور یہ ہمارے اختیار میں نہیں ہے کہ تمھیں کوئی سند لادیں۔ سند تو اللہ ہی کے اِذن سے آ سکتی ہے اور اللہ ہی پر اہل ایمان کو بھروسا کرنا چاہیے‘‘۔ (ابراھیم ۱۴:۱۱)
۶-کچھ لوگ حقائق کو جاننے کا واحد ذریعہ عقل کو مانتے ہیں۔ اور کچھ لوگ عقل کا منفی و مثبت کوئی کردار ہی تسلیم نہیں کرتے اور محض وحی و الہام پر ایمان رکھتے ہیں۔
اِسلام عقل پر یقین رکھتا اور غوروفکر کی دعوت دیتا ہے۔ جمود و تقلید کو پسند نہیں کرتا۔ وہ احکام و منہیات کے سلسلے میں عقل سے مخاطب ہوتا ہے۔ وہ کائنات کی دو عظیم حقیقتوں کے اثبات میں اُسی کے اُوپر اعتماد کرتا ہے، یعنی وجودِباری تعالیٰ اور انبیا ؑکے دعواے نبوت کی تصدیق عقل ہی سے کی جاتی ہے۔ لیکن عقل کی تکمیل اور تائید کے لیے وہ وحی پر ایمان لانا ضروری ٹھیراتا ہے، کیوںکہ عقل بھٹک سکتی ہے اور اس پر خواہشات کا غلبہ بھی ہو سکتا ہے۔ وحی اُن امور میں عقل کی ہادی و رہنما ہے جو عقل کی رسائی اور حدود سے باہر ہیں، مثلاً امورِ غیب اور تعلیماتِ نبوت اور عبادت!
کچھ قوموں اور ادیان نے اپنے فلسفہ و نظریہ اور واجبات و فرائض کے روحانی پہلو، یعنی عبادت و بندگی کو ہی کالعدم کر رکھا ہے۔ جیسا کہ بودھ مت صرف انسانی اخلاق کے حوالے سے پابندیاں اور امور واجب کرتا ہے۔اسی طرح کچھ دین ایسے ہیں جو اپنے پیروکاروں سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ دنیا کو تج کر عبادت کے لیے وقف ہو جائو، جیسا کہ مسیحی رہبانیت کا یہ تصور ہے۔
اِسلام ایک مسلمان سے متعین شعائراور عبادات کی ادایگی کا مطالبہ کرتا ہے، مثلاً دن بھر میں پانچ نمازوں کی ادایگی، سال میں ایک بار صیامِ رمضان، اور زندگی میں ایک دفعہ حج۔ مقصد یہ ہے کہ انسان دائمی طور پر اللہ تعالیٰ سے مربوط رہے۔ وہ اُس کی رضا و خوش نودی سے کٹ نہ جائے۔ ان شعائر کی ادایگی کے بعد وہ آزاد ہوتا ہے کہ دنیاوی کام کاج کرے۔ گوشہ ہاے ارض پر دوڑدھوپ کرے، اور رزق کمائے۔ اس کی واضح ترین مثال آیت جمعہ ہے۔ (الجمعہ ۶۲:۹-۱۰)
یہ ہے دین اور زندگی کے ساتھ مومن کا تعلق، اور وہ بھی جمعہ کے روز کہ وہ نماز سے قبل بھی دنیاوی کام کاج کرے، اور پھر نماز اور ذکر الٰہی کے لیے آ جائے۔ کاروبار و تجارت اور دیگر مشاغلِ حیات کو چھوڑ دے۔ نماز کی ادایگی کے بعد دوبارہ زمین میں پھیل کر اپنا رزق تلاش کیا جائے اور کسی حال میں بھی ذکر الٰہی سے غافل نہ ہو۔ کیوںکہ کامیابی اور فلاح کی اساس یہی ذکر ہے۔
۱- مثالیت پسندوں (Idealistics)کا خیال ہے کہ انسان ایک فرشتہ یا فرشتے کے مشابہ مخلوق ہے۔ ان لوگوں نے انسان کے لیے ایسے آداب و اقدار وضع کیے ہیں جن کے اوپر پورا اُترنا انسان کے بس میں نہیں۔ اسی طرح وہ واقعیت پسند (Realistics) ہیں جنھوں نے انسان کو حیوان یا حیوان سے مشابہ سمجھا ہے۔ پہلے گروہ نے انسانی فطرت کے بارے میں اس قدر حُسن ظن کیا کہ انسان کو مکمل خیر قرار دے دیا، جب کہ دوسرے گروہ نے انسان کو گرا کر خالص شر ٹھیرا دیا۔
اِسلام کا نظریۂ انسان ان دونوں انتہائوں کے درمیان عدل و توازن پر مبنی ہے۔ اسلام کی نظر میں انسان مخلوقِ مرکب ہے۔ اس کے اندر عقل، شہوت اور روحانی ملکہ ہے۔ اس کو دونوں راستوں کاشعور الہام کیاگیا ہے۔ وہ ان دونوں راستوں پر چلنے کے لیے فطری طور پر تیار کر دیا گیا ہے۔ وہ چاہے تو شکرگزار بن جائے، اور چاہے تو منکر ہو جائے۔ اس کے اندر فجور پر چلنے کی استعداد بھی ہے اور تقویٰ کو اختیار کرنے کی طاقت بھی۔ اس کی مہم نفس سے جہاد اور اس کی تربیت ہے تاکہ اُس کا تزکیہ ہو جائے۔ اسی لیے فرمایا گیا: ’’اور نفس انسانی کی اور اُس ذات کی قسم جس نے اسے ہموار کیا۔ پھر اُس کی بدی اور اُس کی پرہیزگاری اُس پر الہام کر دی، یقینا فلاح پا گیا وہ جس نے نفس کا تزکیہ کیا اور نامراد ہوا وہ جس نے اُس کو دبا دیا‘‘۔ (الشمس ۹۱:۷-۱۰)
۲- انسانی تصورات اور نظریات میں افراط و تفریط موجود ہے۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ انسان آسمانی روح ہے جس کو ارضی جسد کے اندر قید رکھا گیا ہے۔ یہ لوگ اس روح کی بالیدگی اور صفائی ستھرائی انسانی جسم کو تعذیب اور محرومی سے دوچار کرکے ممکن سمجھتے ہیں، جیسا کہ برہمنیت وغیرہ کا تصور ہے۔ اسی طرح کچھ مادہ پرست نظریات انسان کو صرف جسم تصور کرتے ہیں۔ اسے ایک مادی وجود سمجھتے ہیں جس میں کوئی آسمانی روح موجود نہیں ہے اور نہ وہ کسی آسمانی عطیے کے لیے خاص ہے۔
اسلام کے عطا کردہ تصور میں انسان ایک روحانی اور مادی وجود ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسانِ اوّل کی تخلیق مٹی سے فرمائی اور یہ چیز اس کے وجود کی مادیت پر دلیل ہے، اور پھر اس انسانی بدن کے اندر اپنی روح پھونکی اور یہی روح انسان کا طرۂ امتیاز اور سرچشمۂ عزت و توقیر ہے۔ اسی بنیاد پر تو فرشتوں کو اِس کے سامنے سجدہ ریز ہونے کا حکم ملا۔چونکہ انسان روح و بدن کا مرکب ہے، اس لیے اسلام نے اس کی روح کا حق بھی اس کے اوپر واجب کیا ہے اور اس کے بدن کا حق بھی۔
۳- ایک طبقہ آخرت کا منکر ہے۔ ان کے نزدیک اوّل و آخر یہی دنیاوی زندگی سب کچھ ہے، اس کے علاوہ کچھ نہیں:’’آج یہ لوگ کہتے ہیں کہ زندگی جو کچھ بھی ہے بس یہی ہماری دنیا کی زندگی ہے اور ہم مرنے کے بعد ہرگز دوبارہ نہ اٹھائے جائیں گے‘‘(الانعام۶:۲۹)۔ اسی تصور کی بنا پر وہ شہوات اور خواہشاتِ نفس میںغرق رہے۔ اپنے نفس کے غلام ہو کر رہ گئے۔ دنیاوی مفادات کے علاوہ انھیں کوئی مقصد اور ہدف ہی دکھائی نہ دیا جس کے اوپر وہ اپنی توجہ مرکوز کرتے۔
ہر زمانے کے مادہ پرستوں کا یہی وتیرا رہا ہے۔ ان کے مقابلے میںکچھ ایسے بھی ہیں جنھوں نے اس دنیا کو کوئی اہمیت دینے سے ہی انکار کر دیا۔ انھوں نے اپنی زندگی میں اس کو ایک کالعدم عنصر کی حیثیت سے دیکھا، اور اسے سراسر شر خیال کیا جس کی مزاحمت ضروری ہے۔ دنیاوی ضروریات و آسایشات سے ہی خود کو محروم رکھنا لازمی سمجھا، اور دنیا والوں سے خود کو دُور رکھنا اپنے اوپر واجب ٹھیرا لیا۔ دنیا کی تعمیر و ترقی اور اس کے لیے کچھ کرنا یا اسے کچھ دینا گناہ سمجھا۔
اسلام ان دونوں نظریاتِ زندگی کی اصلاح کرتا اور خود ایک معتدل نظریہ عطا کرتا ہے۔ اِسلام کے نزدیک دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔ دنیا کی تعمیر کا عمل اللہ کی عبادت قرار دیا گیا ہے۔ اسلام اُن انتہا پسند دین داروں کی تردید کرتا ہے جو زینت اور پاکیزگی کو بھی حرام سمجھتے ہیں، اور ان کو بھی درست نہیں سمجھتا جو خوش حالی و شہوت پرستی میں غرق ہو کر رہ جاتے ہیں۔اللہ تعالیٰ فرماتاہے:
اور کفر کرنے والے بس دنیا کی چند روزہ زندگی کے مزے لوٹ رہے ہیں، جانوروں کی طرح کھا پی رہے ہیں، اور اُن کا آخری ٹھکانا جہنم ہے۔(محمد ۴۷:۱۲)
اے بنی آدمؑ، ہر عبادت کے موقعے پر اپنی زینت سے آراستہ رہو اور کھائو پیو اور حد سے تجاوز نہ کرو، اللہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ اے نبیؐ، اِن سے کہو، کس نے اللہ کی اُس زینت کو حرام کر دیا جسے اللہ نے اپنے بندوں کے لیے نکالا تھا اور کس نے خدا کی بخشی ہوئی پاک چیزیں ممنوع کر دیں؟(اعراف۷:۳۱-۳۲)
آخر کار اللہ نے اُن کو دنیا کا ثواب بھی دیا اور اس سے بہتر ثوابِ آخرت بھی عطا کیا۔ اللہ کو ایسے ہی نیک عمل لوگ پسند ہیں۔(اٰلِ عمرٰن۳:۱۴۸)
قرآن اس کے لیے ایک جامع دعا بھی سکھاتا ہے: ’’اے ہمارے رب، ہمیں دنیا میں بھی بھلائی دے اور آخرت میں بھی بھلائی، اور آگ کے عذاب سے ہمیں بچا‘‘۔(البقرہ ۲:۲۰۱)
قوانین میں اعتدال
اِسلام اپنے قانونی و سماجی نظام میں اعتدال و توازن کی خصوصیت کا حامل ہے۔ حلّت و حرمت کے قانون کو یہودیت نے اپنے ہاتھ میں لیا تو محرمات میں انتہا کو پہنچ گئے۔ اللہ نے جو کچھ اُن کے اوپر حرام نہیں کیا تھا اُس کو بھی حرام ٹھیرا دیا۔ یہ اُن کی بغاوت اور سرکشی کی روش تھی۔ اسی طرح مسیحیت نے بھی حلّت و حرمت کا اختیار اپنے ہاتھ میں لیا تو اُن چیزوں کو بھی حرام قرار دے لیا جو اللہ تعالیٰ نے اُن کے اوپر حرام نہیں کی تھیں۔ اِنھوں نے اُن اشیا کو حلال کر لیا جن کی حرمت کی نصوص تورات میں موجود تھیں اور مسیحؑ تو تورات کی تکمیل کے لیے آئے تھے۔ اس کے باوجود مسیحیت کے بڑوں نے کہا کہ طاہرین کے لیے ہر چیز طاہر ہے۔
اسلام کا نظام حلّت و حرمت ان دونوں انتہائوں کے درمیان ہے۔ اسلام نے حلال و حرام کا اختیار کسی انسان کو نہیں دیا، بلکہ یہ اللہ وحدہ کا حق ہے۔ اللہ نے صرف ناپاک و نقصان دہ چیزوں کو حرام اور نفع بخش و پاک چیزوں کو حلال قرار دیا ہے۔ خود اہل کتاب کا مصدرِ دین رسولِ اکرمؐ کے اوصاف اس طرح بیان کرتا ہے:’’وہ انھیں نیکی کا حکم دیتا ہے، بدی سے روکتا ہے، اُن کے لیے پاک چیزیں حلال اور ناپاک چیزیں حرام کرتا ہے، اور اُن پر سے وہ بوجھ اُتارتا ہے جو اُن پر لدے ہوئے تھے اور وہ بندشیں کھولتا ہے جن میں وہ جکڑے ہوئے تھے‘‘۔(اعراف۷:۱۵۷)
عائلی اور خاندانی امور و مسائل میں بھی اسلام کے قوانین اعتدال پر مبنی ہیں۔ عائلی معاملات میں غیراسلامی نظریات کی دو انتہائیں یہ ہیں کہ بعض لوگ ازدواج (شادی)کی تعداد میں حد اور قیدو پابندی ہی کے قائل نہیں، اور بعض لوگ ایک سے زائد شادی کے سرے سے قائل ہی نہیں خواہ ضرورت و حاجت اور حالات و واقعات کا تقاضا کتنا ہی ناگزیر ہو۔ اسلام نے ایک سے زائد شادیوں کی اجازت انسان کی مالی استطاعت اور ازواج کے درمیان عدل کے برتائو کو یقینی بنانے سے مشروط کرکے دی ہے۔ اگر انسان کو اندیشہ ہو کہ وہ ایک سے زائد بیویوں سے عدل نہیں کرپائے گا تو اُس پر لازم ہے کہ وہ ایک ہی بیوی پر اکتفا کرے: ’’لیکن اگر تمھیں اندیشہ ہو کہ ان کے ساتھ عدل نہ کر سکو گے تو پھر ایک ہی بیوی کرو‘‘۔(النساء۴:۳)
طلاق کا معاملہ دیکھ لیجیے کہ یہاں بھی اسلام دو انتہائوں کے درمیان کھڑا نظر آتا ہے۔ ایک انتہا پر وہ لوگ کھڑے ہیں جو طلاق کو سرے سے حرام سمجھتے ہیں، خواہ میاں بیوی کی ازدواجی زندگی ناقابل برداشت ہولناکی سے دوچار ہو، جیسا کہ کیتھولک چرچ کا تصور ہے۔ انھی سے قریب قریب آرتھوڈوکس چرچ کا نظریہ ہے جنھوں نے طلاق کو زنا اور ازدواجی خیانت کے علاوہ حرام ہی سمجھا ہے۔ ان کے مقابل وہ لوگ ہیں جنھوں نے طلاق کو اس قدر کھلا چھوڑ رکھا ہے کہ وہ کسی قید و حد کی پابند ہی نہیں، اور نہ کسی شرط سے مشروط ہے۔ مرد و عورت میں سے جو بھی طلاق کا مطالبہ کرے اُسے اختیار حاصل ہے۔ اس طرح تو ازدواجی زندگی کو معمولی اسباب و وجوہ کی بنا پر ختم کر دینا بہت آسان ہے۔ یوں شادی کا مضبوط بندھن بیتِ عنکبوت سے بھی کمزور ہو کر رہ جاتاہے۔
اسلام طلاق کو جائز اور مباح ٹھیراتا ہے مگر اُس وقت جب دیگر تدابیر سے مرض ٹھیک نہ ہورہا ہو۔ کوئی ثالثی اور صلح و صفائی کی کوشش کامیاب نہ ہو رہی ہو۔ اس کے باوجود اللہ کے نزدیک یہ طلاق ابغض الحلال (ناپسندیدہ ترین حلال ہے)۔ طلاق دینے والے مرد کو اختیار حاصل ہے کہ وہ یکے بعد دیگرے اپنی مطلقہ سے رجوع کر سکتا اور اُس کو اپنے دائرۂ زوجیت میں لوٹا سکتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:’’طلاق دو بار ہے۔ پھر یا تو سیدھی طرح عورت کو روک لیا جائے یا بھلے طریقے سے اُس کو رخصت کر دیا جائے‘‘۔(البقرہ۲:۲۲۹)
اسلام اپنے سماجی اور اجتماعی نظام و قانون میں بھی معتدل ہے۔ وہ لبرلزم یا سرمایہ داری کی طرح فرد کو سماج پر حاوی نہیں کرتا کہ فرد معاشرے سے مطالبات و تقاضے تو بہت کرے مگر اپنے اوپر کوئی واجبات اور تقاضے عائد نہ کرے جن کی جواب دہی اُس کے اوپر فرض ہو۔ وہ ہمیشہ اپنے حقوق کا مطالبہ کرتا رہے، اور فرائض کو اہمیت نہ دے۔ اسی طرح اشتراکیت اور سوشلزم کا معاملہ ہے جو اس کے برعکس ہے۔ ان کے نزدیک معاشرے، سوسائٹی اور سماج کا کردار برتر اور اہم ہے۔ وہ فرد کے اوپر معاشرے اور سوسائٹی کا بار تو ڈالتے ہیں مگر فرد کو اُس کے حقوق بہت کم دیتے ہیں۔ اُس کی حریت کو سلب کر لیتے ہیں، اس کے ذاتی میلانات و رجحانات کو ابھرنے نہیں دیتے۔
اسلام فرد اور سوسائٹی کو ایک بہترین متوازن صورت میں رکھتا ہے۔ اس صورت کے اندر حریت ِ فرد اور مصلحت ِ معاشرہ دونوں ایک توازن کے ساتھ موجود ہوتے ہیں۔ دونوں پر حقوق اور فرائض عائد ہوتے ہیں۔ دونوں کے درمیان مفادات و منافع عدل سے تقسیم کیے جاتے ہیں۔
قدیم فلسفے اور نظریات فرد و معاشرے اور ان کے درمیان باہمی تعلقات کے قضیے میں اُلجھ کر رہ گئے۔ اُن کا خیال تھا کہ فرد اصل ہے اور معاشرہ و سماج ایک عارضی شے، جو فرد کے اوپر عائد کر دی گئی ہے، کیونکہ معاشرہ تو افراد سے ہی تشکیل پاتا ہے۔ یا پھر معاشرہ و سماج اساس اور بنیاد ہے اور فرد کی حیثیت ایک زائد چیز کی ہے، کیوںکہ معاشرے کے بغیر فرد ایک (خام)مادہ ہے۔ یہ معاشرہ ہی ہے جو فرد کی تشکیل و تعمیر کرتا، اس کی شخصیت کو نشوونما دیتا، اور اُسے ایک نمایاں صورت عطا کرتا ہے۔ یوں معاشرے ہی سے فرد اپنی ثقافت و آداب اور عادات و اطوار وراثت میں لیتا ہے۔ اس معاملے اور قضیے میں کچھ لوگ پہلے نظریے کے قائل ہوئے اور کچھ دوسرے نظریے کے۔ یوں فلسفہ و قانون، معاشیات و عمرانیات اور سیاسیات کے ماہرین کی مختلف آرا سامنے آئیں اور وہ کسی ایک نتیجے پر نہ پہنچ سکے۔ ارسطو، افلاطون، مانی، مزدک اور قدیم یہود و نصاریٰ کے تصورات اس قضیے کو حل نہ کر سکے۔
اِسلام ہی وہ واحد دین ہے جو اس قضیے میں انتہا و تقصیر سے پاک معتدل نظریہ پیش کر سکتا ہے۔ اسلام کا شارع انسان کا خالق ہے۔ لہٰذا یہ محال اور ناممکن ہے کہ خالق ایسا نظام وضع کرے جو انسان کی فطرت کو کچل دے اور اُس سے متصادم ہو۔ اللہ سبحانہ نے انسان کو ایک مرکب طبع و مزاج پر پیدا کیا ہے۔ انفرادیت اور سماجیت بیک وقت اُس کے اندر موجود ہیں۔ انفرادیت اُس کے نظامِ وجود کی اصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی ذات سے محبت کرتا،اور اپنے ذاتی امور و معاملات میں آزادی چاہتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی فرد کے اندر اپنے ہم جنس انسانوں کے ساتھ میل جول اور قربت و اجتماع کی رغبت بھی موجود ہے۔ ایک صالح نظام وہی ہوسکتا ہے جو اِن دونوں عناصر: انفرادیت اور اجتماعیت کاپورا پورا لحاظ رکھتا ہو۔ کسی ایک کو دوسرے پر ترجیح نہ دیتا ہو۔ اس میں کوئی حیرت و تعجب نہیں ہونا چاہیے کہ وہ معتدل نظام اسلام نے پیش کیاہے۔ وہ اسلام جو دین فطرت ہے۔ وہ معاشرے کو فائدہ پہنچا کر فرد کے اوپر ظلم نہیں کرتا ،اور نہ فرد کی خاطر معاشرے پر کوئی ناروا بوجھ ڈالتا ہے۔ معاشرے کو بے پناہ حقوق دے کر وہ فرد کی تذلیل نہیں کرتا اور بے پناہ واجبات عائد کرکے وہ اُس پر ظلم نہیں کرتا، بلکہ اسلام فرد کے اُوپر اُس کی وسعت و طاقت کے مطابق حقوق و فرائض عائد کرتا ہے۔ اسلام فرد کی حاجت پوری کرنے کے لیے لبیک کہتا ہے، اس کی توقیر و احترام کی حفاظت کرتا ہے، نیز اس کی عزتِ نفس کو مجروح نہیں ہونے دیتا۔