جماعت اسلامی جس غرض کے لیے قائم ہوئی ہے، وہ ایک اور صرف ایک ہے اور وہ یہ ہے کہ دنیا میں اللہ کے دین کو پوری طرح سے، پوری زندگی میں نافذ کیا جائے۔ اس کے سوا اس جماعت کا اور کوئی مقصد اور نصب العین نہیں ہے۔ جو شخص بھی اس جماعت سے وابستہ ہے، خواہ رکن کی حیثیت سے ہو یا کارکن اور متفق کی حیثیت سے وابستہ ہو، اُسے یہ بات کبھی فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ جماعت ِ اسلامی کااصل مقصد دینِ حق کو مکمل طور پر خدا کی زمین پر غالب کرنا ہے۔ اگر ہم سیاسی کام بھی کرتے ہیں تو اقتدار حاصل کرنے یا دوسری سیاسی اغراض کے لیے نہیں کرتے، بلکہ اس غرض کے لیے کرتے ہیں کہ اُن رکاوٹوں کو دُور کیا جائے جو دینِ حق کے قیام میں مانع ہیں اور جمہوری ذرائع سے ملک کے اندر اسلامی انقلاب برپا کرنے کا راستہ ہموار ہوسکے۔
جماعت اسلامی نے یہ جو مسلک اختیار کیا ہے کہ وہ کسی قسم کے تشدد اور توڑ پھوڑ کے ذریعے سے، کسی قسم کی دہشت پسندانہ تحریک کے ذریعے سے اور کسی قسم کی خفیہ تحریک یا سازشوں کے ذریعے سے ملک میں انقلاب برپا نہیں کرنا چاہتی، بلکہ خالصتاً جمہوری ذرائع سے انقلاب برپا کرنا چاہتی ہے___ یہ مسلک قطعاً کسی کے خوف کی وجہ سے نہیں ہے۔ یہ ہرگز اس بنا پر نہیں ہے کہ ہم کبھی کسی ابتلا کے وقت اپنی صفائی پیش کرتے ہوئے یہ کہہ سکیں کہ ہم دہشت پسند نہیں ہیں، ہمارے اُوپر تشدد یا قانون شکنی کا الزام نہ لگایا جائے۔ یہ بات ہرگز نہیں ہے۔
اسلامی انقلاب اور اس کی مضبوط جڑیں : اصل حقیقت یہ ہے کہ ہمارے پیش نظر اسلامی انقلاب ہے اوراسلامی انقلاب کسی خطۂ زمین میں اس وقت تک مضبوط جڑوں سے قائم نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہاں کے رہنے والے لوگوں کے خیالات تبدیل نہ کر دیے جائیں، جب تک لوگوں کے افکار اور ان کے اخلاق و عادات میں تبدیلی نہ لائی جائے، اس وقت تک مضبوط بنیادوں پر کوئی انقلاب برپا نہیں ہوسکتا۔ اگر زبردستی کسی قسم کے تشدد کے ذریعے ، یا سازشوں اور خفیہ ہتھکنڈوں کے ذریعے سے کوئی انقلاب برپا کر دیا جائے تو اس کو کبھی دوام اور ثبات نصیب نہیں ہوتا اور بالآخر اسے کسی دوسرے انقلاب کے لیے جگہ خالی کرنی پڑتی ہے۔ اسی طرح اگر دھوکے بازیوں اور جھوٹ اور افترا کی مہم کے ساتھ انتخابات جیت کر،یا کسی اور طریقے سے حکومت پر قبضہ کرکے کوئی سیاسی انقلاب برپا کر بھی دیا جائے تو چاہے وہ کتنی دیر تک قائم رہے، لیکن جب وہ اکھڑتا ہے تو اس طرح اکھڑتا ہے جیسے اس کی کوئی جڑ ہی نہیں تھی۔
چاہے کتنا ہی عرصہ لگے : ہم اس طرح کے تجربے نہیں کرنا چاہتے۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ چاہے کتنا ہی عرصہ لگ جائے، لیکن پہلے قوم کے ذہن کو تبدیل کیا جائے اور اس کو اس حد تک تیار کیا جائے کہ وہ اسلامی نظام کا بوجھ سہار سکے۔ اسلامی نظام کو چلانے کے قابل ہوسکے۔
تیس سالہ محنت کا ثمر :لوگ کہتے ہیں کہ جماعت اسلامی نے تیس برس اپنا زور لگایا مگر کیا کرلیا؟ میں کہتا ہوں کہ ہماری تیس سالہ شبانہ روز محنت کا ثمر یہ ہے کہ اس وقت خدا کے فضل سے ملک کے تعلیم یافتہ طبقے کی اکثریت ہماری ہم خیال ہے۔ ملک کے اہلِ دماغ طبقے کے اندر اسلامی افکار اپنا مقام بناچکے ہیں۔ زندگی کے مختلف شعبوں میں، جہاں جہاں بھی تعلیم یافتہ اور صاحب ِ فکر لوگ موجود ہیں ان کی اکثریت متاثر اور اِن افکار کی قائل ہوچکی ہے۔
خیالات اور اخلاق میں انقلاب: اب دوسرا کام جو ہمارے سامنے ہے اور فی الحقیقت بہت بڑا کام ہے۔ وہ عام لوگوں کے خیالات تبدیل کرنا اور ان کے اندر اسلامی فکر اور اسلامی نظام کے بنیادی تصورات کو راسخ کرنا ہے۔ ان کے اندر اخلاقی انقلاب برپا کرنا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ایک بڑا مشکل کام ہے، لیکن یہ کام ہمیں بہرحال کرنا ہے۔ یہ کام پہلے بھی ہمارے پروگرام میں شامل رہا ہے اور ہم اس سے کبھی غافل نہ تھے۔ ہم اگر اس میدان میں اب تک بڑی کامیابی حاصل نہ کرسکے تو اس کے کچھ اسباب و موانع بھی ہیں، جن سے صرفِ نظر نہ کرنا چاہیے۔
عوام کا کردار بگاڑنے والے اہلِ اختیار :یہ امرواقع ہے کہ پچھلے ۲۶، ۲۷ برس کے دوران میں جن لوگوں کے ہاتھ میں بھی اس ملک کا نظام چلانے کے اختیارات رہے ہیں خواہ وہ سیاسی اختیارات ہوں یا معاشی یا تعلیمی ہوں (ایک آدھ کو چھوڑ کر)، انھوں نے اس قوم کے ذہن کو بگاڑنے اور اس کے سیرت و کردار کو تباہ کرنے کی کوشش کی اور اس کو اسلام سے دُور سے دُور تر کر دیا۔ یہ انھی کی اس مجرمانہ روش اور بداندیشیوں کا نتیجہ ہے کہ آخرکار مشرقی پاکستان،پاکستان سے الگ ہوا۔ وہاں مسلسل یہ ذہن پیدا کیا گیا کہ بنگالی بولنے والے مسلمان اور ہندو ایک قوم ہیں اور بنگالی نہ بولنے والے دوسری قوم۔ یہ ذہن وہاں پیدا کیا جاتا رہا ہے، لیکن حکومت کی طرف سے اس کی روک تھام نہ کی گئی بلکہ اس کی حوصلہ افزائی ہی کی گئی۔
جاہلی تفرقے پھیلانے کی مہم :یہاں برسرِ اقتدار آنے والے لوگ ہمیشہ خاموش تماشائی بنے رہے اور اس کے نتیجے میں آخرکار مشرقی پاکستان الگ ہوکر رہا اور اب یہاں بھی اُسی کفر کے پھیلانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یہاں لوگوں کے اندر یہ ذہن زبردستی پیدا کیا جارہا ہے کہ یہاں کوئی پٹھان ہے اور کوئی بلوچی، کوئی سندھی اور کوئی پنجابی ۔ کیا یہ پاکستان کی بنیاد تھی؟ قیامِ پاکستان کی جدوجہد میں تو سارے ہندستان کے مسلمان یہ بھول گئے تھے کہ ہم کون ہیں۔ ان کے پیش نظر صرف یہ تھا کہ ہم اوّل و آخر مسلمان ہیں۔ مسلمان ہونے کی حیثیت سے جب انھوں نے مل کر کوشش کی اور متحد ہوکر پاکستان کا مطالبہ کیا تب پاکستان وجود میں آیا ورنہ اس بات کا کوئی امکان نہیں تھا کہ اگر گجراتی اور مدراسی اور ملیباری اور سندھی اور پٹھان اور پنجابی سب کے سب الگ الگ قومیتوں کا تصورر کھتےتو پاکستان کبھی بن سکتا، اور اب یہاں پھر الگ الگ قومیتوں کا جو تصورپھیلایا جارہا ہے یہ لازماً پاکستان کے ٹکڑے اُڑانے والا ہے۔ سندھ میں آپ دیکھ رہے ہیں کہ بعینہٖ مشرقی پاکستان کی سی صورتِ حال پیدا کی جارہی ہے۔ سندھ کا عام مسلمان نہایت سیدھا سادا مخلص مسلمان ہے، لیکن وہاں کے تعلیم یافتہ طبقے میں یہ خالص کافرانہ تصور پھیلایا جارہا ہے کہ سندھی بولنے والا ہندو اور مسلمان ایک قوم ہے اور جو سندھی نہیں بولتا، وہ چاہے مسلمان ہو، وہ دوسری قوم ہے۔ اسی طرح کی کوششیں دوسرے صوبوں میں بھی جاری ہیں۔
اخلاقی بگاڑ کی مساعی :اس طرح ایک طرف تو لوگوں کے نظریات کو بگاڑنے اور ان کے اندر افتراق و انتشار کے بیج بونے کی کوشش کی جارہی ہے، اور دوسری طرف ان کے اخلاق کو بگاڑنے کے لیے تمام ممکن ذرائع استعمال کیے جارہے ہیں۔ تیسری طرف تعلیم کا ایسا نظام رائج کیا جارہا ہے جس سے ایک نوجوان کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا کہ اسے اسلامی نظام چلانے کے لیے تیار کیاجارہا ہے یا سوشلسٹ نظام چلانے کی تربیت دی جارہی ہے یا سرے سے اسے کوئی نظام بنانے اور چلانے کے لیے تیار بھی کیا جارہا ہے یا نہیں؟ اس طرح کی بگڑی ہوئی صورتِ حال آپ کے گردوپیش میں پیدا کی جارہی ہے۔
اس حالت میں آپ کو جان مار کر کوشش کرنی ہے۔ اس غرض کے لیے اپنی پوری طاقت صرف کرنی ہے کہ عام لوگوں کے اندر زیاہ سے زیادہ اسلامی ذہن پیدا کریں ، کیوں کہ جب تک آپ یہ کام نہیں کریں گے اس وقت تک یہاں اسلامی انقلاب کا خواب شرمندئہ تعبیر نہیں ہوسکے گا۔
اگر جمہوریت کو چلنے نہ دیا جائے تو؟ :اب یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب یہاں جمہوریت کو کبھی چلنے نہیں دیا گیا اور جمہوری طریقوں سے صالح تغیر کا راستہ قریب قریب بند کر دیا گیا ہے، اور اگر یہاں کبھی انتخابات ہوئے بھی ہیں تو وہ انتہائی بے ایمانیوں اور بددیانتیوں کے ذریعے سے جیتے جاتے رہے، اور ایسے حالات بھی پیدا کر دیے گئے ہیں کہ اگر مفروضے کے طورپر ہم انتخابات میں کبھی ۱۰۰ فی صد ووٹ حاصل کرلیں بھی تو صندوقچیوں سے سو فی صد ووٹ ہمارے خلاف ہی برآمد ہوں گے، تو ایسی صورت میں جمہوری ذرائع سے اصلاحِ احوال کی کیا توقع کی جاسکتی ہے؟ یہ صورتِ حال فی الواقع یہاں موجود ہے، لیکن ہمیں اس کا مقابلہ کرنا ہے۔
ایسے حالات کا مقابلہ کرنے کی کوشش :ہمیں اس صورتِ حال کو بدلنے کے لیے پوری پوری جدوجہد کرنی ہے۔ ہمیں اس غرض کے لیے سرتوڑ کوشش کرنی ہے کہ ہماری اَن تھک محنتوں کے نتیجے میں انسانوں کا سیلاب اس طرح انتخابات کے مراکز پر اُمڈ آئے کہ اگر کوئی شخص بے ایمانیاں کرنا بھی چاہے تو نہ کرسکے۔ انقلابی تحریکوں کی زندگی میں ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب لوگوں کے اندر ان کے پھیلائے ہوئے خیالات اس قدر مضبوطی سے جم جاتے ہیں اور ان کے اندرایک ایسا عزمِ راسخ پیدا ہوجاتا ہے کہ اس کے بعد پھر کوئی طاقت ان کے مطلوبہ نظام کو آنے سے نہیں روک سکتی۔ وہ ہر راستے سے آتا ہے اور ایسے راستوں سے آتاہے جن کو بندکرنے کا خیال بھی کسی کے دماغ میں نہیں آسکتا۔ اس لیے آپ اس بات کی فکر نہ کریں کہ آپ جس نظام کے لیے جدوجہد کررہے ہیں وہ یہاں کیسے آئے گا؟ آپ کا اصل کام یہ ہے کہ اپنا فرض نہایت خلوص اور جانفشانی کے ساتھ ادا کرتے چلے جائیں اور آپ کی واحد فکر آپ کا وہ کام ہو جسے آپ کو سرانجام دینا ہے۔
آپ کا اپنا معیار درست ہونا چاہیے :یہ کام آپ صرف اسی صورت میں انجام دے سکتے ہیں ، جب کہ آپ کے اپنے اخلاق اس سانچے میں ڈھلے ہوئے ہوں جو اس نظام کا تقاضا ہے۔ جب آپ اسلام کی طرف دعوت دینے کے لیے اُٹھیں گے تو یہ لوگ دیکھیں گے کہ ہمیں یہ دعوت دینے والے خود کیسے ہیں۔ اگر آپ کے اخلاق اور سیرت و کردار میں کوئی خرابی ہوئی، یا آپ کے اندر ایسے لوگ پائے گئے جو مناصب کے خواہش مند اور ان کے لیے حریص ہوں، یا آپ کے اندر ایسے لوگ موجود ہوئے جو کسی درجے میں بھی خلاف ورزی کرنے والے ہوں، تو اس صورت میں آپ اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوسکیں گے۔ اس لیے یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرلیجیے کہ اسلامی انقلاب کے لیے جدوجہد کرنے کے مخصوص تقاضے ہیں۔ اسلامی نظام کے قیام کی جدوجہد کرتے وقت آپ کو جن چیزوں کو خاص طور پر پیش نظر رکھنا ہوگا وہ یہ ہیں کہ آپ کے اخلاق نہایت بلند ہوں۔ آپ کی زندگی پوری طرح اسلام کے ڈھانچے میں ڈھلی ہوئی ہو۔ آپ کے اندر نظمِ جماعت کی کامل اطاعت پائی جاتی ہو۔ آپ جماعت کے دستور کی پوری طرح پابندی کرنے والے ہوں اور اس کے ساتھ ساتھ آپ عوام الناس کے اندر پھیل کر زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اپنا ہم خیال بنانے کے لیے ہرلحظہ کوشاں ہوں اور چاہے یہ کام آپ کو ۵۰سال بھی کرنا پڑے لیکن آپ لگن کے ساتھ اسے کرتے چلے جانے کا مصمم ارادہ رکھتے ہوں، تو ان شاء اللہ کوئی طاقت اس ملک کو اسلامی ملک بننے سے نہیں روک سکے گی۔(خطاب ۲۱ مارچ ۱۹۷۴ء، بحوالہ تحریکی شعور، از نعیم صدیقی)