انتخابات ۲۰۱۸ کے بارے میں بہت کچھ لکھا جاچکا اور بہت کچھ لکھا جاتا رہے گا۔ عموماً ہر لکھنے یا پڑھنے والا اپنی راے سے موافق بات ہی کو قبول اور دوسری راے کو مسترد کردیتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ موافق ہو یا مخالف، اگر حق ہے تو اسے قبول کیا جائے۔ ناحق بات حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ جیسا محبوب ساتھی ہی کیوں نہ کرے، قبول نہیں کی جاسکتی۔
کسی مہذب اور منصفانہ معاشرے میں ہونے والے انتخابات کے بنیادی عناصر ان میں حصہ لینے والی جماعتوں کی قیادت، ان کے پروگرام ،اُمیدواران، کارکنان اور ووٹروں تک ابلاغ و رسائی کے وسائل ہوتے ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستانی انتخابات کے فیصلہ کن اسباب میں مال و دولت کے انبار، دھونس اور غنڈاگردی (بالخصوص دیہی علاقوں میں اور خصوصاً اندرونِ سندھ اور بلوچستان میں) اور سب سے بڑھ کر نادیدہ قوتوں کے فیصلے، اہم ترین حیثیت اختیار کرگئے ہیں۔ ملک میں قرآن و سنت کے غلبے اور دنیا ہی نہیں، آخرت کی اصل کامیابی کے لیے کوشاں تحریک کے ہر کارکن (ہر سطح کے ذمہ داران سمیت) کو اس اہم دوراہے پر اصل حقائق سے آگاہ ہونے کے ساتھ ساتھ، کڑی خود احتسابی سے گزرنا ہوگا، تاکہ ہمارا آنے والا کل آج سے بہتر ہوسکے۔
یہ امر اپنی جگہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ علامہ محمد اقبال کی فکر، قائداعظم محمدعلی جناح کی قیادت، سیّد مودودی کے بے مثال لٹریچر، ان کے ہم عصر ممتاز علماے کرام اور ہم رکاب قافلے کی مسلسل کوششوں سے پاکستان کی اسلامی شناخت اور جہت کا تعین واضح ہوگیا۔ وہ دین اسلام جسے عبادات کے محدود تصور اور چند رسوم و رواج تک محدود سمجھا جانے لگا تھا، آج الحمدللہ سب کی نظر میں جامع نظامِ حیات کے طور پر معلوم و مقبول ہوچکا ہے۔ سید مودودی اور ان کی جماعت نے ہر قومی مسئلے اور اہم دوراہے پر ہر طرح کے ذاتی یا جماعتی مفاد سے بالاتر ہوکر دو ٹوک موقف ہی اختیار نہیں کیا، بلکہ اس کے لیے بیش بہا قربانیاں بھی دیں۔ لیکن دوسری جانب دیکھیں تو یہ تلخ حقیقت دکھائی دیتی ہے کہ اس بلندپایہ اور جامع کارِ تجدید، اللہ کے دین کو پوری طرح سے پوری زندگی میں نافذ کردینے کے مشکل ہدف، دینِ حق کو مکمل طور پر انفرادی اور اجتماعی زندگی میں نافذ کردینے، اصلاحِ نفس، اصلاحِ معاشرہ، دعوت و تربیت، تنظیمی قوت اور اصلاحِ حکومت کے ہمہ پہلو جہاد کا اصل مقصد، گاہے نظروں سے اوجھل ہوجاتا ہے۔
سید ابوالاعلیٰ مودودی کی تشکیل کردہ جماعت اسلامی میں خوداحتسابی کوئی نئی یا انوکھی بات نہیں۔ احتساب کے اصول و ضابطے خود نہیں گھڑے گئے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہ اجمعین کی سیرت طیبہ سے أخذ کیے گئے ہیں۔ آپؐ نے تو بلکہ حکم دیا کہ حَاسِبُوْا اَنْفُسَکُمْ قَبْلَ اَنْ تُحَاسَبُوْا ’’اپنا محاسبہ کرلو قبل اس سے کہ تمھارا محاسبہ کیا جائے‘‘۔ بدقسمتی سے یہ پورا عمل اپنی اصل روح سے محروم ہوتا جارہا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ’’اپنا احتساب کرو‘‘۔ ہم نے جب بھی احتساب کیا، اپنے بھائیوں، اپنے ذمہ داران اپنی قیادت، اپنے کارکنان اور اپنی اجتماعیت ہی کا کیا۔ ہمارے پیش نظر اصل ہدف ’اصلاح‘ (اپنے وسیع تر مفہوم میں) کے ذریعے قرآن و سنت کو غالب کرنا تھا اور ہے، لیکن جب میں نے خود کو اللہ کی عدالت میں کھڑا کرتے ہوئے جائزہ لیا کہ قرآن، حدیث اور سیرت کی کتنی روشنی خود میرے دل میں فروزاں ہے؟ مجھے اندازہ ہوا کہ میں دوسروں کو تو ہمیشہ نصیحت کرتا یا کرنا چاہتا ہوں، لیکن خود کو نصیحت اور اس کے مطابق عمل نہیں کرتا۔ الحمدللہ ،اللہ کی رحمتِ خاص سے مجھے کچھ نہ کچھ نیکی کرنے، اسلام کو ایک مکمل ضابطۂ حیات سمجھنے کی توفیق تو حاصل ہوگئی، لیکن میں اس سوال کے جواب میں خود کو بُری طرح ناکام پاتا ہوں کہ اس ایک شمع سے میں نے مزید کتنی شمعیں روشن کیں؟ اور تو اور میں نے اپنے بچوں، اہل خانہ اور قریبی رشتہ داروں تک میں سے کتنے افراد کو اس قافلے کا ہم سفر بنایا؟ میں اپنی جماعت کے منظم ترین ہونے کے تاثر پر تو فخر و مسرت محسوس کرتا ہوں، لیکن اگر خود اپنا جائزہ لوں کہ سمع و طاعت کے بنیادی تقاضے کس حد تک پورے کررہا ہوں؟ تو شرمندگی گھیر لیتی ہے۔
میں اکثر بھول جاتا ہوں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اگر تمھارا ذمہ دار کشمش کے دانے جتنے سر والا (کم علم و فہم والا) نکٹا، حبشی غلام ہی کیوں نہ بنادیا جائے، اس کی بات سنو اور اس کی پابندی کرو۔ یقینا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ناممکن صورت کی مثال دے کر سمع و طاعت کی اہمیت واضح کی ہے۔ اجتماعیت اور افراد کو یہ اختیار تو دیا گیا کہ وہ ذمہ داروں کا تعین چھان پھٹک اور ہوش مندی سے کرے، لیکن یہ اختیار نہیں کہ وہ کسی کو امام بنائے اور پھر نماز اپنی اپنی مرضی سے ادا کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی تأویل گھڑنے لگ جائے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام تر مفادات سے بالاتر ہوکر باہم اخوت و محبت کی تعلیم ہی نہیں، حکم دیا۔ اس رشتے میں جڑ جانے والوں کو عرش کے سایے اور نور کے منبروں پر مسندیں ملنے کی بشارتیں سنائیں۔ اللہ کا شکر ہے کہ یہ باہم اخوت اسلامی تحریک کے کارکنان کا انتہائی قیمتی اثاثہ ہے، لیکن کیا یہ بھی درست نہیں کہ جہاں میرے کسی ادنیٰ مفاد پر ضرب لگی، کسی بھی بات پر کوئی ناگواری محسوس ہوئی، میں اپنی جنت کا یہ خزانہ خاک میں ملا دینے پر تل گیا؟ ہم نے اصلاح یا جائزے کے نام پر اکثر مجالس میں (اور اب سوشل میڈیا پر) محاذ آرائی شروع کردی۔ غیبت اور ہتک آمیز القاب تو ہمیں اس قدر لطف دینے لگے کہ طنز و تشنیع کے تیر چلائے بغیر بھلی سے بھلی بات کرتے ہوئے بھی دل کو تسلی ہی نہیں ہوتی۔
کسی بھی نظریے کی کامیابی کے لیے کارکنان کی یکسوئی انتہائی اہم شرط ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ابوالانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام کی صفات بیان کرتے ہوئے، جس نمایاں ترین صفت کا آٹھ مرتبہ ذکر فرمایا وہ آپؑ کا حَنِیْفًا مُسْلِمًا مطیع فرمان و یک سُو ہونا تھا۔رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی یہی حکم دیا کہ اتَّبِعْ مِلَّۃَ اِبْرٰہِيْمَ حَنِيْفًا ط (النحل ۱۶:۱۲۳) ’’یک سُو ہوکر ابراہیم ؑ کے طریقے پر چلو‘‘۔
ہمیں اس تلخ حقیقت کا اعتراف کرنا ہوگا کہ جسد ِ واحد کی حیثیت رکھنے کے باوجود ان کی یہ یکسوئی متاثر بلکہ مجروح ہوئی ہے۔ کئی عیار مخالفین اور بعض نادان دوست ان زخموںکو گہرے گھائو میں بدلنے کے لیے بھی فعال ہیں۔ اس مرض کا علاج یقینا وہی ہے جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دلوں پر لگے زنگ کو دُور کرنے کا بتایا تھا کہ:موت کی یاد اور قرآن سے گہرا تعلق۔ ساتھ ہی ساتھ ان تمام غلط فہمیوں، اور معلومات میں کمی کا ازالہ بھی کرنا ہوگا کہ جو بعض اوقات نہ چاہتے بھی نقب لگانے میں کامیابی ہوجاتی ہیں۔ ہم اگر کسی بھی مقام اور کسی بھی سطح کی اجتماعیت کا بے لاگ جائزہ لیں، اور وہاں گروہ بندی سمیت ہر وہ بیماری سرایت کرتی دکھائی دینے لگے کہ جسے محسن انسانیتؐ نے زہرِ قاتل قرار دیا ہو، تو ایسی اجتماعیت کو پھر آخر کسی دشمن کی کیا ضرورت رہ جاتی ہے۔
دشمن کا ذکر ہوا تو اس حقیقت سے آگاہ ہونا بھی اہم ہے کہ صرف پاکستان ہی نہیں، اس وقت پوری دنیا کی اسلامی تحریکوں اور مسلم ممالک کے مابین باہم اختلافات، غلط فہمیوں اور تمام کے تمام فیصلوں کو غلط اور احمقانہ قرار دینے کی مہم اپنے جوبن پر ہے۔ مختلف حکومتوں، ان کے خفیہ اداروں، تیار کردہ افراد اور تشکیل کردہ گروہوں کے ذریعے تحریکات میں انتشار پیدا کرنے کی کوششیں عروج پر ہیں۔ اسی مہم کا ایک حصہ یہ بھی ہے کہ مختلف افراد و شخصیات کو اپنی تضحیک اور بسا اوقات اس کے خیرخواہ کا روپ دھار کر تنقید کا نشانہ بنایا جائے۔ اس طرزِ عمل کے نتیجے میں مصر کے اخوان میں تو عملاً ایک الگ دھڑا پیدا کردیا گیا ہے۔ کئی انتہائی مخلص و فہمیدہ افراد بھی ان میں شامل ہیں۔ اخوان کی ساری قیادت اور ۵۰ ہزار سے زائد فرشتہ صفت مرد و زن جیلوں میںبدترین مظالم کا شکار ہیں، لیکن میڈیا اور سوشل میڈیا میں انھی کے خلاف پروپیگنڈا، الزامات اور دہشت گرد ثابت کرنے کی مہمات جاری ہیں۔
غزہ گذشتہ ۱۲ سال سے محاصرے میں ہے، لیکن ابلاغیاتی مہم بھی انھی بے گناہ محصورین اور ان کے ذمہ داران کے خلاف ہی جاری ہے۔ گذشتہ ہفتے فوٹو شاپ کے ذریعے خود ساختہ تصاویر میں حماس کے سربراہ اسماعیل ھنیہ کو غزہ کے کسی عالی شان خفیہ محل میں دکھایا اور شوروغوغا مچایا گیا کہ غزہ کے عام شہری مررہے ہیں اور یہ عیاشیاں کررہا ہے۔ اس پوری مہم میں بڑے مقدس ذمہ داران بھی شریک ہوگئے۔ انھوں نے نہ تو اسرائیل اور مصری جنرل سیسی کے محاصرے کی مذمت کی اور نہ یہ سوچا کہ جو شخص ہر لمحے شہادت کی دہلیز پر کھڑا ہو وہ کس طرح ایسی منافقت کا ارتکاب کرسکتا ہے۔ حالیہ حج کے دوران سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو کلپ چلاتے ہوئے علامہ یوسف القرضاوی کے خلاف اچانک طوفان بدتمیزی برپا کردیا گیا۔ کئی سال پرانے اپنے خطبۂ جمعہ میں انھوں نے قرآنی آیات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’’اللہ نے یہ حج تمھارے ہی بھلے اور فائدے کے لیے فرض کیا ہے وگرنہ اللہ کو تمھارے حج کی کوئی ضرورت نہیں‘‘۔ اس پورے جملے میں سے صرف یہ بات کاٹ کر کہ ’’اللہ کو تمھارے حج کی کوئی ضرورت نہیں‘‘۔ پروپیگنڈا شروع کردیا گیا کہ قرضاوی نے حج کی مخالفت کردی۔ سعودی عرب اور قطر کے درمیان اختلافات کے ماحول میں آپ اس مہم کی سنگینی کا اندازہ خود کرسکتے ہیں۔
کسی بھی فیصلے، پالیسی یا سرگرمی کے بارے میں اپنی راے دینا تمام ذمہ داران اور کارکنان کا حق ہی نہیں، ان کا فرض ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسلامی تحریکات پر جو خصوصی انعامات کیے ہیں، ان میں سے ایک یہی نظام شورائیت ہے۔ مختلف سطح کی شورائیں کوئی فیصلہ کرنے سے قبل جس تفصیل بلکہ بے دردی سے تجزیہ کرتی ہیں وہ عموما اس معاملے کے تمام پہلو سامنے لے آتا ہے۔ قرآنی حکم و ہدایت کی روشنی میں اس ساری بحث و تمحیص کے بعد جو فیصلہ کیا جاتا ہے، وہ کسی ایک یا چند افراد کا نہیں، پوری اجتماعیت کا فیصلہ قرار پاتا ہے۔ لیکن شورائیت کی یہ روح صرف اسی صورت میں سلامت رہ سکتی ہے کہ فیصلہ ہوجانے کے بعد قیادت اور کارکنان سمیت پوری جماعت کامل یکسوئی سے اس کی پابندی کرے۔ یقینا فیصلہ کرنے والے یہ ادارے انسانوں ہی پر مشتمل ہیں۔ ذمہ داران یا کارکنان میں سے کوئی بھی فرد نہ تو فرشتہ ہے اور نہ غلطیوں بلکہ گناہوں سے معصوم۔ لیکن خالق عزوجل نے اس کے باوجود، کمال علم و حکمت سے اپنے حبیب کو بھی حکم دے دیا کہ شَاوِرْہُمْ فِی الْاَمْر،’’ فیصلہ کرتے ہوئے ان سے مشورہ کیا کرو‘‘۔ اصلاح کا بیڑا اٹھانے والی کسی تحریک اور اس کی کسی بھی سطح کی قیادت یا کارکنان کے لیے اس کے بعد روا نہیں کہ پھر وہ کسی بھی سبب اور کسی بھی حالت میں شورائیت کی راے کے برعکس اپنی راے کو ترجیح و فوقیت دیتے رہیں۔ اس قرآنی حکم پر ایمان کا دعویٰ تو آسان ہے لیکن اس پر عمل آسان نہیں۔ہم قربانی کے جانور پر تو چھری پھیردیتے ہیں، لیکن اپنی راے کی قربانی دینے پر آمادہ نہیںہوتے۔
حالیہ انتخابات کے دوران مختلف اضلاع میں ٹکٹوں کی تقسیم کا مرحلہ یاد کرتے ہوئے، دربارِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں پیش آنے والا ایک منظر انتہائی ایمان افروز ہے۔ اس واقعے کے آئینے میں بھی اپنا اپنا چہرہ دیکھنا ضروری ہے۔ واقعہ اگرچہ ذرا طویل ہے، لیکن ہے پیغام آفرین!
یارسولؐ اللہ! سارا مالِ غنیمت عرب قبائل میں تقسیم کردینے اور انھیں کچھ بھی نہ دینے کی وجہ سے، انصار قبائل کے دل میں آپؐ سے کچھ ناراضی آگئی ہے، حضرت سعد بن عبادۃ رضی اللہ عنہ نے آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا۔ آپؐ نے انصاری سردار اور اپنے جاں نثار صحابی کی بات سنی تو جواب دینے کے بجاے پوچھا: فَأَیْنَ اَنْتَ مِن ذٰلِکَ یَاسَعْدُ؟ سعد اس سارے ماجرے میں خود آپ کا کیا حال ہے؟ یارسولؐ اللہ! میں بھی تو آخر اپنی قوم ہی کا ایک فرد ہوں۔ حضرت سعدؓ نے احترام لیکن بے تکلفی سے دل کی کیفیت بیان کردی۔ فَاجْمَـعْ لِیْ قَوْمَکَ فِی ہٰذِہِ الْحَظِیْرَۃ، ’’اچھا تو پھر اپنی قوم کو اس احاطے میں جمع کردو‘‘، آپؐ نے ارشاد فرمایا۔
تمام انصاری صحابہ رضی اللہ عنہم جمع ہوگئے تو آپؐ نے معمول کے مطابق اللہ کی حمدو ثنا بیان کرنے کے بعد فرمایا: اے گروہِ انصار! یہ مجھ تک آپ کی کیا بات پہنچی ہے؟ یہ آپ لوگ اپنے دلوں میں کیا ناراضی محسوس کررہے ہیں؟ قدرے توقف کے بعد فرمایا: کیا تم سب لوگ گمراہی میں نہیں تھے، اللہ نے میرے ذریعے تمھیں ہدایت عطا فرمائی؟ کیا تم لوگ فقر و فاقے کا شکار نہیں تھے، پھر اللہ تعالیٰ نے تمھیں غنی کردیا؟ آپ ایک دوسرے کے دشمن نہیں تھے، اللہ نے تمھارے دل ایک دوسرے سے جوڑ دیے؟ صحابہ نے عرض کی: یقینا اللہ اور اس کے رسولؐ نے ہم پر بہت کرم فرمایا۔ آپؐ نے اپنا سوال پھر دہراتے ہوئے فرمایا: اَلَا تُجِیْبُوْنِی یَامَعْشَرَ الْاَنْصَار؟ ’’اے گروہ انصار! آپ میری گذشتہ بات کا جواب نہیں دے رہے؟ عرض کیا گیا: یارسولؐ اللہ! ہم بھلا آپؐ کو کیا جواب دیں؟ یقینا اللہ اور اس کے رسولؐ کے ہم پر بہت فضل و احسانات ہیں۔
آپؐ نے فرمایا: اللہ کی قسم! اگر آپ لوگ چاہتے تو یہ جواب دے سکتے تھے، تمھارا یہ جواب درست ہوتا اور سب اس کی صداقت تسلیم کرتے۔ آپ کہہ سکتے تھے کہ آپ جب ہمارے پاس آئے تھے تب سب نے آپ کو جھٹلا دیا تھا، ہم نے آپ کی تصدیق کی۔ جب سب نے آپ کا ساتھ چھوڑ دیا تھا، تب ہم نے آپ کی نصرت کی تھی۔ آپ کو نکال دیا گیا تھا، تب ہم نے آپ کو پناہ دی تھی۔ آپ نادار آئے تھے، ہم نے آپ کی دل جوئی کی تھی…
پھر اصل رہنمائی دیتے ہوئے فرمایا: ’’اے گروہ انصار! کیا آپ نے اپنے دلوں میں حقیر دنیا کو جگہ دے دی ہے؟ صرف اس بات پر کہ میں نے کچھ لوگ کی تالیف قلب کی تاکہ وہ مسلمان ہوجائیں…؟ آپ کو تو میں نے آپ کے اسلام کے سپرد کردیا تھا… ؟ اے گروہِ انصار! کیا تمھیں یہ بات پسند نہیں کہ یہ لوگ تو یہاں سے اپنے ساتھ کوئی بکری یا اونٹ لے جائیں اور آپ لوگ اپنے ساتھ اللہ کے رسولؐ کو اپنی رہایش گاہوں میں لے جاؤ؟ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمدؐ کی جان ہے اگر ہجرت نہ ہوتی تو میں انصار ہی کا ایک فرد ہوتا… اگر سب لوگ اپنا اپنا راستہ اختیار کریں تو میں انصار کے ساتھ ان کا راستہ اختیار کروں گا۔ پھر فرمایا:’’اے اللہ! انصار پر رحم فرما، انصار کی اولاد پر رحم فرما، انصار کی اولاد کی اولاد پر رحم فرما‘‘۔
رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کا خطاب سن کر انصار زارو قطار رونے لگے ۔ آنسوؤں سے ان کی داڑھیاں تر ہوگئیں۔ وہ بے ساختہ پکار اٹھے: ہم اس بات پر راضی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے حصے میں آئے۔ ہم اس خوش بختی پر نازاں ہیں۔ آپؐ ان کا یہ جواب سن کر رخصت ہوئے اور مجلس برخاست ہوگئی۔ کاش! اصلاح و تجدید کا اعزاز پانے والا ہرخوش قسمت یہ جملہ بار بار دہراتا رہے کہ: ’’یقینا ہم اس بات پر راضی ہیں کہ ہمارے حصے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے‘‘۔
قرآن کریم کی آیت مبارکہ : مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاہَدُوا اللہَ عَلَيْہِ۰ ۚ فَمِنْہُمْ مَّنْ قَضٰى نَحْبَہٗ وَمِنْہُمْ مَّنْ يَّنْتَظِرُ ۰ۡۖ وَمَا بَدَّلُوْا تَبْدِيْلًا۲۳ۙ (الاحزاب۳۳: ۲۳) ’’ایمان لانے والوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جنھوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو سچا کردکھایا ہے۔ اُن میں سے کوئی اپنی نذر پوری کرچکا اور کوئی وقت آنے کا منتظر ہے۔ انھوں نے اپنے رویّے میں کوئی تبدیلی نہیں کی‘‘، اللہ کی طرف سے اہلِ ایمان کے لیے تعریف و ستایش کی ایک شان دار سند ہے۔ اس اعزاز و اکرام کا حق دار ہر وہ صاحب ایمان بن سکتا ہے جس نے بالخصوص آیت کے آخری جملے کو یاد رکھا: وَمَا بَدَّلُوْا تَبْدِيْلًا کہ انھوں نے (آخری سانس تک) اپنے عہد میں کوئی تبدیلی نہیں آنے دی۔ یقینا ہر وہ شخص خوش قسمت ہے جو اس پر ثابت قدم رہا۔ کسی بھی مرحلے میں، کسی بھی صورت میں اور کسی بھی وجہ سے اللہ کے ساتھ کیے گئے اپنے عہد پر آنچ نہ آنے دی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب فرمایا کہ مجھے سورہء ھود اور اس جیسی سورتوں نے بوڑھا کردیا ہے، تو کسی نے پوچھا: یا رسولؐ اللہ! خصوصی طور پر اس سورت کی کس آیت نے؟ تو آپؐ نے فرمایا: خصوصی طور پر اللہ کے اس ارشاد نے کہ فَاسْتَقِمْ کَمَا اُمْرِتَ ، ’’ پس (اے محمدؐ) تم ٹھیک ٹھیک راستے پر ثابت قدم رہو‘‘۔ اپنا یہ جائزہ و تذکیر یقینا کوئی نئی یا انوکھی بات نہیں ہے۔ اسلامی تحریک کا ہر کارکن انھیں اس سے بھی بہتر طور پر جانتا اور اس سے بھی بہتر انداز سے بیان کرسکتا ہے۔ لیکن اصل مقصد الفاظ کو عمل میں ڈھالنے کی کاوش ہے۔
حالیہ انتخابات سے تقریباً دو ہفتے قبل ترکی کے سابق وزیرخارجہ اور دوبار وزیراعظم رہنے والے پروفیسر ڈاکٹر احمد داؤد اوغلو کے ساتھ ایک طویل نشست کا موقع ملا۔داؤد اوغلو کا شمار دورِ حاضر کے ان رہنماؤں میں ہوتا ہے جو علم، عمل اور تجربے میں اپنی مثال آپ ہیں۔ معروف عالمی رسالے Foreign Policy نے ۲۰۱۰ء اور ۲۰۱۱ء میں ان کا شمار دنیا کے ۱۰۰ نمایاں ترین دانش وروں میں کیا۔ اپنی وزارت اور وزارت عظمیٰ کے دوران، اس سے پہلے اور بعد میں بھی انھوںنے ترک پالیسیوں کے ایسے اصول وضع کیے کہ ترکی اور صدر طیب اردوان کی کامیابیوںمیں جن کا ایک اہم کردار ہے۔بدقسمتی سے صدر اردوان کے ساتھ بعض اصولی اختلافات کے باعث وہ اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے۔ حالیہ ترک انتخابات کے موقعے پر بعض عناصر نے انھیں صدر اردوان کے بالمقابل کھڑا کرنے کی بہت کوشش کی لیکن وہ مکمل یکسوئی سے اردوان کے ساتھ کھڑے ہوئے اور مخالفین کی ایک مہلک چال ناکام ہوگئی۔
ان سے ملاقات میں اندازہ ہوا کہ وہ نہ صرف پاکستان کی صورتِ حال سے بخوبی آگاہ تھے، بلکہ ان اکثر عالمی تجزیوں سے بھی باخبر تھے جن میں واضح طور پر بتایا جارہا تھا کہ کون کون سی قوتیں انتخابات کے نتائج پر اثر انداز ہورہی ہیں۔ پاکستان کے بارے میں ان کے احساسات بہت سے پاکستانیوں کی نسبت بھی زیادہ جذباتی تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ عالم اسلام کے لیے جو قائدانہ کردار پاکستان ادا کرسکتا ہے، وہ ترکی بھی ادا نہیں کرسکتا۔ اگر پاکستان اور ترکی مل کر مستقبل کا لائحۂ عمل تیار کریں تو دونوں ممالک اور ان کے عوام کے لیے خیر کثیر کا باعث ہوگا۔
انتخابی سیاست کے بارے میں اپنا نقطۂ نظر پیش کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ انتخاب میں آپ معاشرے کے کسی بھی فرد کو اپنے ساتھ آنے سے مستثنیٰ نہیںکرسکتے۔ نہ آپ اس کے ساتھ اس کی پوری زندگی اور زندگی کے ہر گوشے پر محیط کوئی معاہدہ کرسکتے ہیں۔ پھر مثال دیتے ہوئے بتایا کہ طیب اردوان نے جب اپنی پہلی انتخابی مہم چلائی تو وہ قحبہ خانوں اور جوا خانوں میں بھی پہنچے۔ وہ یقینا وہاں کے مکینوں کو اس لعنت و تباہی سے بچانا چاہتے ہیں، لیکن اس موقعے پر ان کا ہدف اور مطالبہ یک نکاتی تھا اور وہ یہ کہ ملک کی تعمیر و ترقی کے لیے ہمارا ساتھ دو۔
ان کی پختہ راے تھی کہ جماعت کو بھی الگ سے اپنا سیاسی بازو تشکیل دے لینا چاہیے۔ اس تجویز کا مزید جائزہ لیں تو یہ حقیقت بھی سامنے آتی ہے کہ اس وقت دنیا کے گیارہ ممالک کی اسلامی تحریکات اپنی اپنی الگ سیاسی جماعت تشکیل دے چکی ہیں۔ موریتانیا، مراکش، تیونس، لیبیا، مصر، سوڈان، اُردن، کویت، بحرین، یمن اور انڈونیشیا میںپورا نظامِ دعوت و تربیت الگ اور سیاسی جدوجہد کے لیے پارٹی الگ ہے۔ ترکی میں پروفیسر نجم الدین اربکان کی تشکیل کردہ سعادت پارٹی (SP) اور طیب اردوان کی (AKP) کے بنیادی نظام، پروگرام اور اہداف و مقاصد میں ، کوئی بڑا فرق نہیں۔ دونوں ہی بنیادی طور پر قومی سیاسی جماعتیں ہیں، لیکن دونوں کی اصل قیادت اسلامی تحریک کی فکر و مقاصد سے ہم آہنگ افراد کے ہاتھ میں ہے۔
یہ بھی ایک اہم حقیقت ہے کہ جہاں جہاں تحریک اور سیاسی جماعت الگ ہوئی ہیں، وہاں بھی تحریک ہی سیاسی پارٹی کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس امر میں بھی قطعاً کوئی شک نہیں کہ سابق الذکر اکثر تحریکیں تمام تر ابتلا و آزمایش کے باوجود اپنی افرادی و تربیتی قوت کے اعتبار سے ہم سے بہت آگے بڑھ چکی ہیں۔ تقریباً دس کروڑ کی آبادی والے مصر ہی کو دیکھ لیجیے، وہاں اخوان کے تربیت یافتہ ارکان و اُمیدواران کی تعداد ۲۰ لاکھ کے قریب ہے (یہ اعداد و شمار ۲۰۱۱ء کے ہیں)۔ حسنی مبارک سے نجات کے بعد جب قومی اور پھر صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کا مرحلہ آیا تو الحریۃ و العدالۃ کے نام سے اخوان نے الگ سیاسی جماعت تشکیل دی ، جس میں ۱۰ فی صد قبطی مسیحی آبادی کے افراد بھی شامل کیے گئے۔
یقینا یہ بات بھی اپنی جگہ درست ہے کہ ہر ملک کے حالات و مزاج مختلف ہوتے ہیں۔ یہ نتیجہ اخذ کرنا بھی کسی صورت درست نہیںہوگا کہ الگ سیاسی جماعت تشکیل دیتے ہی ہتھیلی پر سرسوں جم جائے گی اور کامیابیوں کے دروازے کھل جائیں گے۔ یہ امر بھی ایک حقیقت ہے کہ الگ الگ جماعتیںقائم کرنے سے بعض تنظیمی مسائل بھی جنم لیں گے۔ لیکن اگر ہم انتخابات کے دوران افرادی قوت میں اضافے کے لیے مختلف النوع جماعتوں سے اتحاد کی کڑی آزمایش سے گزر سکتے ہیں، تو اپنی ایک الگ جماعت کو کہیں آسانی سے منظم کرسکتے ہیں۔
اس ضمن میں ایک اہم سوال اپنے تحریکی تشخص کو محفوظ رکھنے کا بھی سامنے آتا ہے۔ سیاسی جماعت میں شریک ہونے والے بہت سے مرد و زن یقینا اپنے اپنے پس منظر رکھتے ہوں گے۔ لیکن اگر ہم دوران انتخاب ووٹ مانگتے ہوئے، ہر در پہ دستک دے سکتے ہیں، کوئی ووٹ دینے پر آمادہ ہوجائے تو اسے سینے سے لگا اور کندھوں پر اٹھا سکتے ہیں تو ہمیں مستقل طور پہ بھی یہ فریضہ انجام دینے میں عار نہیں محسوس ہونی چاہیے۔ ایک داعی اور تحریکی کارکن ہونے کے ناتے سے تو کسی فرد کو سیاسی جماعت میں شامل کرلینے سے گویا آدھا سفر طے ہوجاتا ہے۔ ان سب حقائق کے ساتھ ہی ساتھ ہمیں اپنے بارے میں یہ بے بنیاد تاثر بھی درست کرنا ہوگا کہ ہم اپنے علاوہ باقی سب کو خدانخواستہ کسی کم تر درجے کے مسلمان سمجھتے ہیں۔ آخر کون نہیں جانتا کہ بعض اوقات بظاہر ایک گیاگزرا شخص اپنی کسی ادا کے باعث اللہ کے ہاں وہ مقام حاصل کرجاتا ہے، جو بظاہر بہت متقی دکھائی دینے والا بھی حاصل نہیں کرپاتا۔ آپؐ کے ارشاد کے مطابق: ’’دُنیا میں آنے والا ہرانسان نیک فطرت لے کر آتا ہے‘‘۔ انسان ہونے کے ناتے ہرشخص کے دل میں خیروبھلائی کی چنگاریاں موجود ہوتی ہیں۔ہم اگر ہر شخص کے دل میں موجود خیر کو اُجاگر کریں گے تو ان شاء اللہ بالآخر خیر ہی غالب تر ہوجائے گا۔
ان اور دیگر تمام دلائل و حقائق کے باوجود، یہ تجویز بہرحال دیگر کئی تجاویز کی طرح ایک تجویز ہی ہے۔ فیصلہ پوری جماعت اور اس کے دستوری اداروں ہی نے کرنا ہوتا ہے۔ لیکن جس نکتے پر کسی کو اختلاف نہیںہوسکتا، وہ یہ ہے کہ ہم میں سے ہر فرد کو سب سے پہلے خود کو تبدیل کرنا ہوگا۔ دل میں یہ شمع از سرِ نو روشن کرنا ہوگی کہ ہم اپنے نبی کے وارث ہیں۔ جس فریضے کے بوجھ سے آپؐ کی کمر ٹوٹی جارہی تھی (وَوَضَعْنَا عَنْكَ وِزْرَكَ۲ۙ الَّذِيْٓ اَنْقَضَ ظَہْرَكَ۳ۙ الم نشرح : ۲-۳)، وہ فریضہ اب ہم میں سے ہراُمتی کے سر پر عائد ہوتا ہے۔ خود نیک بننا بھی یقینا بہت اہم ہے، لیکن دین اسلام کی نظر میں یہ ایک ادھورا ہدف ہے۔ اصل راہِ نجات ہر فرد، پورے معاشرے اور سارے نظام کو عملی طور پر سایہ خداے ذو الجلال تلے لانا ہے۔