ستمبر ۲۰۱۸

فہرست مضامین

احساسِ جواب دہی

اختر حسین عزمی | ستمبر ۲۰۱۸ | اسوہ حسنہ

Responsive image Responsive image

’’اے جبریلؑ! اس سورۃ میں مجھے دنیاسے میری رحلت کی خبر دی گئی ہے‘‘۔ یہ بات اللہ کے نبیؐ نے سورۃ النصر (اِذَا جَآئَ نَصْرُ اللّٰہِ وَالْفَتْحُ) کے نزول کے وقت حضرت جبریل ؑسے کہی۔

آپؐ کی بات سن کر حضرت جبریل ؑنے کہا: آخرت آپؐ کے لیے دنیا سے بہتر ہے اور عنقریب آپؐ کا رب آپؐ کو اتنا عطا فرمائے گا کہ آپؐ راضی ہو جائیں گے‘‘۔

اس خوش خبری کے باوجود محسن انسانیت کی فکر مندی کہ دنیاوی آلایش کا کوئی داغ آپؐ اپنے ساتھ بارگاہ الٰہی میں لے کر نہ جائیں، آپؐ کو بے چین کیے دے رہی تھی۔ لہٰذا اپنی رحلت سے انیس دن قبل آپؐ نے حضرت بلالؓ کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو جمع ہونے کی منادی کریں۔

چنانچہ مہاجرین و انصار مسجد نبویؐ میں جمع ہو گئے پھر آپؐ منبر پر جلوہ افروز ہوئے۔ امام طبرانی اپنی سند کے ساتھ حضرت جابر بن عبداللہ ؓاور حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے نقل کرتے ہیں کہ حمدوثنا کے بعد آپؐ نے ایسا بلیغ خطبہ اور تقریرِ دل پذیر ارشاد فرمائی، جس سے دل کانپ اٹھے اور آنکھوں سے آنسوئوں کی جھڑی لگ گئی۔ پھر فرمایا: ’’اے لوگو! میں تمھارے لیے کیسا نبی ہوں؟‘‘

ہر طرف سے آوازیں بلند ہوئیں: ’’آپؐ ہم میں شفیق و مہربان باپ اور خیر خواہ بھائی کی طرح ہیں۔ آپؐ نے اللہ کے پیغام کو پہنچا دیا اور اس کی وحی کی تبلیغ فرما دی۔ اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت و دل سوزی کے ساتھ دعوت دی۔ سو اللہ آپؐ کو ہماری طرف سے اس سے بہتر اجر عطا فرمائے جو وہ کسی نبی کو اس کی امت کی طرف سے جزا دیتا ہے‘‘۔

حاضرین کی اس گواہی کے بعد آپؐ نے فرمایا:’’یامعشرالمسلمین! میں تمھیں اللہ کی قسم دیتا ہوں اور تم پر میرا جو حق ہے، اس کا واسطہ دیتا ہوں، میری جانب سے کسی آدمی کی کوئی حق تلفی ہوئی ہو تو اسے چاہیے کہ وہ کھڑا ہوجائے اور مجھ سے اس تکلیف کا قصاص (بدلہ) لے لے‘‘۔

 آپؐ کی یہ بات سن کو مجمع دم بخود بیٹھا رہا۔ دوسری مرتبہ پھر آپؐ نے لوگوں کو یہی بات پکار کر کہی۔ پھر بھی کوئی کھڑا نہ ہوا۔

اللہ کے حضوؐر، پیشی کا احساس آپؐ کو بے چین رکھتا تھا کہ میری ذات سے کسی بندے کو اذیّت نہ پہنچے، جسمانی نہ ذہنی۔ کسی کی دل آزاری کا احساس بھی آپؐ کو پریشان کر دیتا تھا۔ مسلم و مسنداحمد کی ایک روایت کے مطابق ایک دن آپؐ یہ دعا فرما رہے تھے: ’’ اے اللہ میں انسان ہوں، سو تقاضاے بشریت کے تحت اگر میں نے کسی مسلمان کی دلآزاری کی ہو یا میں نے کسی پر لعنت کی ہو، یا میں نے کسی کو کوڑے مارے ہوں، تو اے الٰہ العالمین ان چیزوں کو تو اس کے حق میں رحمت بنا دے اور اس کے گناہوں کا کفارہ بنا دے‘‘۔

اسی احساس کے تحت آج آپؐ مسجد نبویؐ میں صحابہ کے مجمع کو مخاطب فرما رہے تھے: ’’اے مسلمانوں کی جماعت!‘‘ حضوؐر نے تیسری مرتبہ پھر حاضرین کو پکارا: ’’میں تمھیں اللہ کی قسم دیتا ہوں اور تم پر اپنے حقوق کا واسطہ دیتا ہوں کہ میری طرف سے جس شخص کی حق تلفی ہوئی ہو، اسے چاہیے کہ وہ مجھ سے یہاں دنیا میں ہی قصاص لے لے۔ بروز قیامت قصاص لینے سے پہلے پہلے‘‘۔

مجلس پر گہرا سکوت طاری تھا کہ مجلس کے سرے سے ایک عمر رسیدہ بزرگ اٹھے، مسلمانوں کی گردنیں پھلانگتے ہوئے رسولؐ اللہ کی طرف بڑھنے لگے۔ اہل مجلس اس بوڑھے کو حیرانی سے دیکھ رہے تھے، اور ان کی ایک بڑی تعداد ان کو پہچان گئی تھی کہ یہ عکاشہؓ ہیں۔ چند ہی لمحوں بعد وہ منبر رسول کے سامنے کھڑے تھے اور پھر سنبھل کر گویا ہوئے:

فداک ابی واُمّی یا رسول اللّٰہ! (میرے ماں باپ آپؐ پر قربان) اگر آپؐ نے بار بار ہمیں قسمیں نہ دی ہوتیں تو میں کبھی یہ اقدام نہ کرتا۔ بات یہ ہے کہ کسی غزوے میں، میں آپؐ کے ساتھ تھا۔ پھر جب اللہ کی فتح و نصرت سے ہمکنار ہو کر ہم واپس آ رہے تھے تو راستے میں ایک جگہ میری اونٹنی آپؐ کی اونٹنی کے آگے آگئی۔ میں اونٹنی سے نیچے اتر پڑا اور آپؐ کے قریب ہوا تاکہ   آپؐ کے قدم مبارک چوم سکوں تو آپؐ نے اپنی قضیب اٹھا کر میرے پہلو پر ماری۔ مجھے نہیںمعلوم کہ آپؐ نے مجھے جان بوجھ کر ماری یا آپؐ اونٹنی کو مارنا چاہتے تھے، جو مجھے لگ گئی‘‘۔

عکاشہؓ کی بات سن کر حضورؐ نے فرمایا:’’میں تمھیں اللہ کے جلال سے پناہ دیتا ہوں، اللہ کے رسولؐ نے جانتے بوجھتے تمھیں مارا تھا‘‘۔ یہ کہنے کے بعد آپؐ حضرت بلالؓ کی طرف متوجہ ہوئے:

’’اے بلالؓ! فاطمہؓ کے گھر جائو اور میری قضیب لے کر آئو‘‘۔

حضرت بلالؓ مسجد نبویؐ سے اس حال میں نکلے کہ ان کا ہاتھ ان کے سر پر تھا اور وہ اونچی آواز سے صدا لگا رہے تھے:’’لوگو! سنو! یہ اللہ کے رسولؐ ہیں جو اپنا قصاص دینا چاہتے ہیں۔ اللہ کے رسولؐ اپنا قصاص دینے جا رہے ہیں‘‘۔

اب وہ سیدہ فاطمہؓ کے گھر کے دروازے پر پہنچ چکے تھے۔ دروازہ کھٹکھٹایا۔ فاطمہؓ دروازے پر آئیں تو بلالؓ نے بلند آواز سے کہا:’’اے رسول ؐاللہ کی صاحبزادی! مجھے قضیب ممشوق دے دو‘‘۔

’’اے بلالؓ آج حج کا دن ہے نہ غزوے کا، ابّوجان قضیب کا کیا کریں گے؟‘‘۔

’’اے فاطمہؓ! تم کس قدر بے خبر ہو کہ نہیں جانتی کہ تمھارے والد آج کیا کرنا چاہتے ہیں۔ رسولؐ اللہ دین کو تمام کر رہے ہیں۔ دنیا کو داغ مفارقت دے رہے ہیں، اور اپنی ذات کا قصاص دینا چاہتے ہیں‘‘۔

حضرت بلالؓ کی یہ بات سن کر حضرت فاطمہؓ نے کہا: ’’وہ کون شخص ہے جو اس بات پر خوش ہے کہ رسولؐ اللہ سے قصاص لے؟ اے بلالؓ! تم حسنؓ و حسینؓ کو کہو کہ وہ اس شخص کے پاس جائیں تاکہ وہ شخص میرے بچوں سے قصاص لے لے۔ اور انھیں کہہ دینا کہ یہ شخص ہرگز رسولؐ اللہ سے قصاص نہ لے‘‘۔

حضرت بلالؓ نے قضیب (لاٹھی) اٹھائی اور تیز تیز قدموں سے چلتے ہوئے مسجد نبویؐ میں داخل ہوئے۔ رسولؐ اللہ کے قریب پہنچ کر قضیب آپؐ کے دست مبارک میں تھما دی اور رسولؐ اللہ نے قضیب عکاشہؓ کو سونپ دی۔

 وقت کی رفتار تھم گئی۔ ہر شے گویا ساکت و جامد تھی۔ اہل مجلس حیران تھے۔ کیا اب ان کی نظروں کے سامنے نبیؐ سے قصاص لیا جائے گا؟ پھر ابوبکرؓ وعمرؓ اُٹھ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے: ’’اے عکاشہ! ہم تمھارے سامنے موجود ہیں، تو ہم سے قصاص لے لے، رسولؐ اللہ سے قصاص نہ لے‘‘۔

اپنے جاں نثاروں کے یہ جذبات دیکھ کر رسولؐ اللہ نے فرمایا:’’اے ابوبکرؓو عمرؓ! تم دونوں اپنی جگہ ٹھہرو! تمھارے مقام و مرتبہ کو اللہ خوب جانتا ہے‘‘۔

دامادِ رسول حضرت علیؓ اٹھ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے:اے عکاشہؓ! میری موجودگی میں پیغمبرؐ اسلام کے ساتھ ایسا ہو، اور میں زندہ رہوں، مجھے اچھا نہیں لگتاکہ حضورؐ سے قصاص لیا جائے۔ میں جسم و جان سے حاضر ہوں، مجھ سے قصاص لے لو۔ مجھے سو کوڑے مارلو لیکن رسولؐ اللہ سے قصاص مت لو‘‘۔رسولؐ اللہ نے حضرت علیؓ کو بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:’’اے علیؓ بیٹھ جائو! اللہ کے ہاں جو تمھارا مقام ہے، اللہ اسے زیادہ اچھی طرح جانتا ہے‘‘۔

حضرت علیؓ ابھی بیٹھنے بھی نہ پائے تھے کہ حسنؓ و حسینؓ کھڑے ہو گئے۔ دونوں نے کہا: ’’اے مرد بزرگ! کیا تمھیں معلوم نہیں کہ ہم دونوں رسولؐ اللہ کے نوا سے ہیں، ہم سے قصاص لینا، رسولؐ اللہ سے قصاص لینے کے مترادف ہے‘‘۔ یہ سن کر حضورؐ نے ان دونوں کو مخاطب کرکے فرمایا: ’’میری آنکھوں کی ٹھنڈک بیٹھ جائو۔ اللہ کے ہاں جو تمھارا مقام ہے، اللہ اسے ضائع نہیں کرے گا‘‘۔

ہر اُٹھنے والے نے عکاشہؓ کو مخاطب کیا لیکن وہ خاموش کھڑے ہوئے تھے۔ بالآخر رسالت مآبؐ نے فرمایا:’’اے عکاشہ تو اگر مارنا چاہتا ہے تو مار لے‘‘۔ یہ سن کر عکاشہؓ کے لب ہلے۔ اہل مجلس ہمہ تن گوش تھے کہ عکاشہؓ یہ کیا کہہ رہے ہیں:

’’یارسولؐ اللہ! جب آپؐ نے مجھے مارا تھا تو میرے پیٹ پر کپڑا نہیں تھا‘‘۔

عکاشہؓ کی بات سن کر اللہ کے نبیؐ نے اپنے بطنِ اقدس سے قمیص اُٹھا دی۔

مسلمانوں میں آہ و بکا کی آوازیں بلند ہوئیں۔ وہ کہہ رہے تھے: ’’کیا عکاشہؓ کے بارے میں یہ گمان کیا جا سکتا ہے کہ وہ رسولؐ اللہ سے قصاص لیں گے؟‘‘

اہل مجلس اضطراب سے پہلو بدل رہے تھے۔ یہ کتنی بڑی جسارت ہے۔ آخر عکاشہؓ کو کیا ہوگیا ہے؟ وہ اس منظر کے دیکھنے کی تاب لا سکتے تھے اور نہ آنکھیں ہی بند کر سکتے تھے۔ حاضرین یہ بھی جانتے تھے کہ عکاشہؓ کا عالم بالا میںمقام و مرتبہ کیا ہے۔ ایک مرتبہ حضورؐ نے فرمایا تھا کہ اُمت کے ۷۰ ہزار اشخاص ایسے ہوں گے جو بغیر حساب کتاب کے جنت میں داخل ہوں گے۔ یہ وہ لوگ ہوں گے جو فال بند (بدشگونی) نہیں لیں گے۔ تعویذوں سے کام نہیں لیں گے اور صرف اپنے رب پر بھروسا کریں گے۔ اس موقعے پر عکاشہؓ نے کھڑے ہو کر عرض کیا تھا:

’’یار سولؐ اللہ دعا کریں کہ اللہ مجھے اس گروہ میں شامل کر دے‘‘۔

عکاشہ کی یہ آرزو سن کر حضورؐ نے فرمایا: ’’تُو انھی میں سے ہے‘‘۔

اتنی بڑی خوش خبری سن کر مجلس سے ایک اور شخص کھڑا ہوا اور کہا: ’’یا رسولؐ اللہ میرے لیے بھی یہ دعا فرما دیں‘‘۔ آپؐ نے فرمایا: ’’عکاشہ تم سے سبقت لے گئے‘‘۔

پس عکاشہؓ کے بارے میں حدیث رسولؐ کی اس خوش خبری نے اہل مجلس کی زبانیں گنگ کر دی تھیں۔وہ حیران بھی تھے اور پر یشان بھی۔ لیکن زبان رسالت مآبؐ سے عکاشہؓ کے جنتی ہونے کی یقینی ضمانت نے ان پر سکوت طاری کیا ہوا تھا۔

حضورؐ نے بطن مبارک سے کپڑا ٹھایا ہوا تھا۔ سورج کی روشنی میں جسم مبارک یوں چمک رہا تھا جیسے صاف شفاف سفید قباطی کپڑے کی چمک ہو۔ عکاشہؓ کی آنکھیں بدن مبارک کی دید سے خیرہ ہو رہی تھیں اور پھر وہ اپنے آپ پر قابو نہ رکھ سکے۔ وہ بے تابانہ حضورؐ کے بطن مبارک کی طرف جھکے اورپھر فرط عقیدت سے اس کے بوسے لینے لگے اور کہنے لگے:آپؐ پر میرے ماں باپ قربان! کون یہ طاقت رکھتا ہے کہ آپؐ سے قصاص لے‘‘۔

عکاشہؓ کے اظہار محبت کو دیکھ کر رسولِؐ رحمت نے فرمایا:’’عکاشہ تمھیں اختیار ہے قصاص لو یا مجھے معاف کر دو‘‘۔

’’میں نے معاف کر دیا اس اُمید پر کہ مجھے اللہ قیامت کے دن معاف کرے گا‘‘۔

یہ سن کر حضوؐر گویا ہوئے:’’یامعشرالمسلمین! تم میں سے جو یہ چاہتا ہے کہ وہ جنت میں میرے ہم نشین کو دیکھے، اسے چاہیے کہ وہ اس مرد بزرگ کو دیکھ لے‘‘۔

بس پھر کیا تھا، اہل مجلس کھڑے ہو گئے، ان میں سے ہر ایک عکاشہؓ کی طرف لپک رہا تھا۔ انھوں نے عکاشہؓ کے ماتھے کو چومنا شروع کر دیا اور ہر ایک کی زبان پر تھا:

 ’’عکاشہ تمھیں مبارک ہو۔ تم نے اعلیٰ درجہ اور رسولؐ اللہ کی رفاقت پالی‘‘۔

اس کے بعد رسولؐ اللہ اسی دن بیمار ہو گئے اور آپؐ مرض وفات میں اٹھارہ دن مبتلا رہے۔ لوگ آپؐ کی عیادت کرنے آتے رہے۔(المعجم الکبیر للطبرانی)

انھی دنوں میں ایک دن جب حضوؐر کے چچا زاد بھائی فضل بن عباسؓ مسجد نبویؐ کے صحن میں بیٹھے تھے۔ حضوؐر ان کے پاس اس حال میں آئے کہ آپؐ نے اپنے سر مبارک کو کپڑے سے باندھا ہوا تھا۔ حضرت فضلؓ کہتے ہیںکہ آپؐ نے مجھے فرمایا:’’اے فضل! میرا ہاتھ تھامو!‘‘ میں نے آپؐ کا ہاتھ پکڑا تو وہ شدت بخار سے پھنک رہا تھا۔ میں نے آپؐ کو سہارا دیتے ہوئے آپؐ کو منبر مبارک پر بٹھا دیا۔ پھر آپؐ نے فرمایا:’’اے فضل! لوگوں کو جمع ہونے کی ندا لگائو‘‘۔ چنانچہ سب لوگ جمع ہو گئے۔

رسولؐ اللہ نے خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’اے لوگو! مجھ سے تمھارے حقوق لینے کا وقت آگیا ہے اور آیندہ دنوں میں تم اس جگہ پر مجھے نہیں دیکھو گے اور میں سمجھتا ہوں کہ کوئی دوسرا شخص ایسا نہیں جو میرے بعد میری کفایت کرسکے۔ سنو! جس شخص کی پیٹھ پر میں نے ناحق کوڑے لگائے ہوں تو یہ میری پیٹھ حاضر ہے، وہ بدلہ لے لے! اور جس سے میں نے مال لیا ہو، یہ میرا مال حاضر ہے، وہ اس میں سے اپنا مال وصول کر لے۔ اور جسے میں نے سب وشتم کیا ہو وہ بھی مجھ سے بدلہ لے لے۔ اور ہرگز کوئی یہ نہ کہے کہ مجھے رسول ؐ کی جانب سے عداوت کا خدشہ ہے۔ عداوت کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں، نہ دشمنی میری فطرت کا حصہ ہے۔ اور میرے ہاں تم میں سے سب سے اچھا وہ ہے جو مجھ سے اپنا حق وصول کر لے، اگر میرے ذمے اس کا کوئی حق ہے، تاکہ میں اللہ عزوجل سے اس حال میں ملوں کہ میں نے کسی کی حق تلفی نہ کی ہو‘‘۔

 محفل پر ایک گہرا سکوت طاری تھا۔ایک شخص کھڑا ہوا اور عرض کیا: ’’یارسولؐ اللہ! میرے تین درہم دینا آپؐ کے ذمے ہے‘‘۔

آپؐ نے فرمایا: ’’میں اس بندے کو جھوٹا نہیں کہتا، نہ اس سے حلف لیتا ہوں کہ میرے پاس تمھارے درہم کس چیز کے ہیں‘‘۔

وہ کہنے لگا: ’’آپؐ کو یاد ہوگا کہ آپؐ ایک سائل کے پاس سے گزرے تو آپؐ نے مجھے اس کو تین درہم دینے کا حکم دیا تھا‘‘۔

 آپؐ نے فرمایا:’’ اے فضل! اسے تین درہم دے دو‘‘۔

حضرت فضلؓ نے طلب کرنے والے کو کہا:’’آپ بیٹھ جائیں‘‘۔

رسولؐ اللہ نے یہ خطبہ پھر دہرایا اور فرمایا: ’’اے لوگو جس کسی کے پاس کوئی خیانت کا مال ہے، وہ لوٹا دے‘‘۔

ایک شخص کھڑا ہوا اور کہنے لگا: ’’یا رسولؐ اللہ! میرے پاس تین درہم ہیں جنھیں میں نے   راہِ خدا میں خیانت کرکے حاصل کیا تھا‘‘۔

آپؐ نے فرمایا: ’’تم نے یہ خیانت کیوں کی؟‘‘

اس نے کہا : ’’میں ضرورت مند تھا‘‘۔

 آپؐ نے فرمایا: ’’ اے فضل! اس سے تین درہم لے لو‘‘۔

 پھر تیسری بار رسولؐ اللہ نے خطبہ دہرایا اور فرمایا: ’’لوگو! تم میں سے جو شخص اپنی ذات کے معاملے میں اضطراب محسوس کرتا ہو، وہ کھڑا ہو جائے،میں اس کے لیے اللہ سے دُعا کرتا ہوں‘‘۔

 تو ایک شخص نے کھڑے ہو کر کہا:’’یا رسولؐ اللہ! میںمنافق ہوں، جھوٹ بولتا ہوں اور بہت سوتا ہوں‘‘۔ اس کی بات سن کر حضرت فاروق اعظمؓ بول پڑے:’’اے شخص! تم پر افسوس، بے شک اللہ نے تمھارا پردہ رکھا تھا، کاش! تم بھی اپنے اوپر پردہ رکھتے‘‘۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ اے ابن خطاب! اس کو چھوڑ دو۔ فُضُوْحُ الدُّنْیَا اَہْوَنُ مِنْ فُضُوْحِ الْآخِرَۃِ ’’دنیا کی رسوائی آخرت کی رُسوائی کے مقابلے میں بہت ہلکی ہے‘‘۔ پھر آپؐ نے اپنے رب سے فریاد کی:’’ اے اللہ اسے صدق اور ایمان عطا فرما اور یہ جب چاہے اس سے اس کی نیند دور فرما‘‘۔(دلائل النبوۃ للبیہقی)

حضورؐ نے حضرت مقدادؓ کی تحسین فرمائی اور پھر کہا:’’لوگو! مجھے مشورہ دو‘‘۔

اب انصار میں سے حضرت سعد بن معاذؓ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے:’’حضور! شاید آپؐ کا اشارہ ہماری جانب ہے۔ اس ذات کی قسم جس نے آپؐ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے اگر آپؐ ہمیں سمندر میں کود جانے کا حکم دیں تو ہم اس میں بھی کود جائیں گے‘‘۔

انصار مدینہ ہر مشکل گھڑی میں رسولؐ اللہ اور آپؐ کے ساتھ ہجرت کرنے والے صحابہؓ کے ساتھ کھڑے رہے تھے۔ انھوںنے مہاجرین مکہ کو اپنے گھر وں میں صرف پناہ ہی نہیں دی تھی، انھیں سگے بھائیوں کی طرح جایداد اور کاروبار میں حصے دار بھی بنایا تھا۔ انھوں نے آپؐ کے لیے بیرونی خطرات ہی مول نہیں لیے تھے، اپنے قبیلے اور برادری کے منافقوں کی ریشہ دوانیوں کا بھی مقابلہ کیا تھا۔ وہ جنگ خندق کے موقعے پر اس وقت بھی ثابت قدم رہے تھے جب خود قرآن کے مطابق: وَاِذْ زَاغَتِ الْاَبْصَارُ وَبَلَغَتِ الْقُلُوْبُ الْحَـنَاجِرَ  (احزاب ۳۳:۱۰)’’جب دیدے پتھرا گئے اور کلیجے منہ کو آ گئے‘‘۔ اس وقت بھی انصار مدینہ ثابت قدم رہے لیکن ساری زندگی رسولؐ اللہ اور اہل ایمان کو دکھ دینے والے قریش پر حضوؐر کی مالی نوازشات پر آج انصار کی باتیں شکوہ کناں تھیں۔

یہاں تک کہ ابن اسحاق کی روایت کے مطابق بنو خزرج کے سردار حضرت سعد بن عبادہؓ آپؐ کے پاس حاضر ہوئے اور عرض کیا:’’یا رسولؐ اللہ! آپؐ نے حاصل شدہ مالِ فے میں جو نوازشات کی ہیں اس پر انصار اپنے جی ہی جی میں پیچ و تاب کھا رہے ہیں۔ آپؐ نے اسے اپنے قبیلے میں تقسیم فرمایا۔ قبائل عرب کو بڑے بڑے عطیات دیے لیکن انصار کو کچھ نہ دیا‘‘۔

آپؐ نے فرمایا:’’اے سعد اس بارے میں تمھارا کیا خیال ہے؟‘‘

’’یار سول اللہ میں بھی تو اپنی قوم کا ہی ایک فرد ہوں‘‘۔

پھر حضرت سعد بن عبادہؓ نے انصار مدینہ کو ایک چرمی خیمے کے اندر جمع کیا۔

’’حضورؐ! انصار مدینہ آپ کے لیے جمع ہو گئے ہیں‘‘، حضرت سعدؓ نے حضور سے عرض کیا۔ رسولؐ اللہ خیمے میں تشریف لائے اور اللہ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا:’’اے انصار کے لوگو! تمھاری یہ کیا چہ مگوئی ہے جو میرے علم میں آئی ہے اور یہ کیا ناراضی ہے جو دل ہی دل میں تم نے میرے بارے میں پال لی ہے؟‘‘

’’انصار کے جہاندیدہ لوگوں نے کہا: یارسولؐ اللہ! ہمارے بڑوں میں سے تو کسی نے کچھ نہیں کہا، البتہ چند نوخیز جوانوں نے آپس میں یہ بات کی ہے کہ اللہ رسولؐ اللہ کی مغفرت فرمائے۔ آپؐ قریش کو دیتے ہیں اور ہمیں نظر انداز کرتے ہیں حالاںکہ ہماری تلواروں سے ابھی تک ان کا خون ٹپک رہا ہے‘‘۔

آپؐ نے ان کی بات سن کر کہا:’’اے گروہ انصار! کیا ایسا نہیں کہ میں تمھارے پاس اس حالت میں آیا کہ تم گمراہ تھے، اللہ نے میرے ذریعے تمھیں ہدایت عطا فرمائی۔ تم محتاج تھے، اللہ نے تمھیں غنی کر دیا۔ تم باہمی دشمنیوں اور انتشار میں مبتلا تھے، اللہ نے تمھارے دل جوڑ دیے؟‘‘

’’کیوں نہیں! اللہ اور اس کے رسولؐ کا بڑا فضل و کرم ہے، سب بیک آواز بولے۔ اس کے بعد آپؐ نے فرمایا: ’’انصار کے لوگو! مجھے جواب کیوں نہیں دیتے؟‘‘

انصار نے عرض کیا:’’یا رسولؐ اللہ! بھلا ہم آپؐ کو کیا جواب دیں۔ بس اللہ اور اس کے رسول کا ہم پر فضل و احسان ہے‘‘۔ انصار یہی الفاظ بار بار دُہرا رہے تھے، اب رسولؐ اللہ نے فرمایا:’’نہیں! خدا کی قسم اگر تم چاہو تو کہہ سکتے ہو کہ اے محمدؐ! آپؐ ہمارے پاس اس وقت آئے جب آپؐ کی قوم نے آپؐ کو جھٹلا دیا تھا۔ ہم نے آپؐ کی تصدیق کی۔ آپؐ اپنی قوم میں بے یارومددگار تھے، ہم نے آپؐ کی مدد کی۔ آپؐ کو دھتکار دیا گیا، ہم نے آپؐ کوٹھکانا دیا۔ آپؐ محتاج تھے، ہم نے آپؐ کی غم گساری کی‘‘۔

رسولؐ اللہ کی خطابت کی لَے اپنے جوبن پر تھی، اور مجمع میں دبی دبی سسکیاں سنائی دے رہی تھیں:’’اے انصار کے لوگو! تم دنیا کی اس عارضی دولت کے لیے مجھ سے ناراض ہو گئے جو میں نے قبولِ اسلام کرنے والے نئے لوگوں کی تالیفِ قلب کے لیے ان کو دے دی ہے۔ اے گروہ انصار! کیا تم اس بات سے راضی نہیں ہو کہ لوگ اُونٹ اور بکریاں لے کر اپنے گھروں کو جائیں اور تم اللہ کے رسول کو اپنے ساتھ لے کر اپنے گھروں کی طرف پلٹو‘‘۔ خدا کی قسم! جس چیز کو لے کر تم جائو گے، وہ اس چیز سے بہتر ہے جو وہ لے کر جائیں گے‘‘۔

ہم راضی ہیں یارسول اللہ! ہم راضی ہیں اس بات سے کہ ہمارے حصے میں اللہ کے رسول ہوں‘‘، سب بیک زبان پکا ر رہے تھے۔ اس پکار میںہچکیوں کی آواز بھی شامل تھی۔ آپؐ پھر گویا ہوئے: ’’اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں محمدؐ کی جان ہے! اگر ہجرت نہ ہوتی تو میں بھی انصار ہی کا ایک فرد ہوتا۔ اگر ساری دنیا ایک راہ چلے اور انصار دوسری راہ چلیں تو میں بھی انصار ہی کی راہ چلوں گا۔ اے اللہ! انصار پر رحم فرما، انصار پر، ان کے بیٹوں پر اور ان کے بیٹوں کے بیٹوں پر (پوتوں) پر بھی‘‘۔

رسولؐ اللہ کا یہ دل پذیر خطاب سن کر انصار اس قدر روئے کہ داڑھیاں تر ہو گئیں۔ وہ بار بار کہے جا رہے تھے:’’ہم راضی ہیں کہ ہمارے نصیب میں اللہ کے رسولؐ ہیں‘‘۔

’’اے میرے انصار! عن قریب تم پر کچھ مشکلات آئیں گی، تم صبر کرنا، یہاں تک کہ تم اللہ اور اس کے رسولؐ سے جاملو۔ یقینا میں حوضِ کوثر پر تمھارا منتظر رہوں گا!‘‘(الرحیق المختوم)