’اسلامی تحریکیں اور سیاسی مستقبل‘(اگست ۲۰۱۸ء) اسلام اور جاہلیت کی کش مکش کا عمدہ تجزیہ ہے۔ ڈاکٹر انیس احمد صاحب نے بجا توجہ دلائی ہے کہ: ’’اس معرکہ حق وباطل میں وقتی اتار چڑھائو فطری عمل ہے۔ حق وباطل کی کش مکش میں جہاں بدر ایک زندہ حقیقت ہے وہاں احد و حنین اور موتہ بھی دعوت فکر دیتے ہیں‘‘۔
’اسلامی تحریکیں اور سیاسی مستقبل‘نظر سے گزرا۔ ایک اہم مسئلے کو زیربحث لایا گیا ہے۔ آج اگر نوجوان دینی اور سیاسی وابستگی میں فرق کر رہے ہیں تو اسلامی تحریکوں کو اپنی حکمت عملی پر غور کرنا چاہیے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حالات کے جبر کا اندازہ کریں، قومی ریاستوں کے وجود کو محسوس کریں اور مؤثر انداز میں جدوجہد کو جاری رکھیں۔
’کتابیں جھانکتی ہیں‘(اگست ۲۰۱۸ء) شاکر احمد فاضل کی تحریر میں موجودہ دور میں قاری کی بے رُخی کو ظاہر کر کے کتابوں کے ساتھ رشتہ جوڑنے کی طرف عمدہ توجہ دلائی گئی ہے ۔ ’حسد سے نجات‘ ڈاکٹر تابش مہدی میں ایک ایسی بُرائی جس میں ہم غیرمحسوس انداز میں مبتلا ہوجاتے ہیں، کی نہ صرف نشان دہی کی گئی ہے، بلکہ اس سے بچنے کا آسان راستہ بھی بتایا گیا ہے۔
’اسلامی تحریکیں اور انسانی وسائل کا نظم وضبط‘ (اگست ۲۰۱۸ء) کے تحت ہلال احمد تانترے نے ایک اہم موضوع پر قلم اُٹھایا ہے اور عصرحاضر کے تقاضوں پر روشنی ڈالی ہے۔ انھوں نے مفید تجویز دی ہے کہ اسلامی تحریکوں کو ایک دوسرے کے تجربات سے استفادے اور براہِ راست مشاہدے کے لیے مختلف ممالک میں کارکنان کو کچھ عرصہ گزارنے کا موقع فراہم کرنا چاہیے۔ اس کے دُور رس نتائج مرتب ہوں گے۔ ’پرنٹ اور سوشل میڈیا پر تصدیق کی اہمیت‘ (اگست ۲۰۱۸ء) میں تزئین حسن نے سوشل میڈیا کے لیے ضابطۂ اخلاق کے لیے غورطلب نکات پیش کیے ہیں اور بجا توجہ دلائی ہے کہ خبروں کو بغیر تصدیق کے پھیلاناانسانی معاشرے کے لیے نقصان دہ ہے، لہٰذا تصدیق، شفافیت اور مواخذہ ناگزیر ہے۔
’علم کے سایے میں‘ (جولائی ۲۰۱۸ء) مریم جمیلہ کا انتہائی اہم مضمون ہے۔ معلومات افزا بھی اور دین کی ایک تڑپ بھی! بالخصوص نوجوانوں کے لیے اس میں بہت کچھ سیکھنے کا سامان ہے۔’ترکی اور ملایشیا کے شان دار نتائج‘ (جولائی۲۰۱۸ء) عبدالغفار عزیز کی تحریر ہمیشہ کی طرح عالمی منظرنامے کا ایک اچھا تجزیہ پیش کرتی ہے۔ ’مغربی فکروفلسفے پر مولانا مودودی کا تبصرہ‘ تو اپنی مثال آپ ہے اور نہایت اہم تحریر ہے۔
’علامہ اقبال کے ہاں ایک شام‘ (اپریل ۲۰۱۸ء) نے تو چار چاند لگا دیے۔ یہ مضمون علامہ اقبال کی ہمہ گیر شخصیت پر ایک تاریخی دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے۔ مصنّف عمدہ اسلوب میں جامعیت سے بات کہہ گئے۔ شیخ جاوید ایوب صاحب کی تحریر ’تحریک، کارکن اور شعور‘ (اپریل ۲۰۱۸ء) مبنی برحقائق تجزیہ ہے۔ قائدین تحریک کو اس کی روشنی میں جائزہ لینے اور حکمت عملی طے کرنے کی ضرورت ہے۔
عبیداللہ فہد فلاحی کا مولانا مودودیؒ پر مضمون ’مغربی فکروفلسفے پر مولانا مودودی کا تبصرہ‘ (جولائی ۲۰۱۸ء) اچھا ہے لیکن یکہ طرفہ ہے۔ تحقیق کا تقاضا تھا کہ وہ ان لوگوں کے موقف کا بھی ذکر کرتے جو مولانا کی فکر کے بعض پہلوئوں کو مغرب سے مستفاد سمجھتے ہیں (مثلاً مغربی جمہوریت وغیرہ) اور دلائل سے اس پر بھی بحث کرنا چاہیے تھی۔
موجودہ انتخابات میں جہاں تحریک انصاف ایک بڑی جماعت بن کر ابھری ہے وہاں ایم ایم اے کو بھی نقصان اٹھانا پڑا۔متحدہ مجلس عمل میں سب سے زیادہ خسارہ جماعت اسلامی کو ہوا ہے۔جماعت اسلامی پاکستان کی قیادت کو آیندہ کے لیے کچھ ٹھوس اقدامات اور ایک مؤثر لائحہ عمل تیار کرنا ہوگا جس سے ملک اور قوم کے اندر تبدیلی لائی جا سکے۔غلطیوں سے سبق سیکھنا، نئے تجربات کرنا، میدان میں ڈٹے رہنا اور پیہم جدوجہد ہی کامیابی کی کلید ہے۔
تصحیح: ’آپ نماز سمجھ کر کیسے پڑھیں؟‘ (اگست ۲۰۱۸ء) ڈاکٹر محی الدین غازی میں سورئہ فاتحہ کا ترجمہ سہواً ’’ساری تعریف اللہ کے لیے ہے، جو سارے انسانوں کا رب ہے‘‘ (ص ۳۱) شائع ہوگیا۔ درست ترجمہ ہے: ’’ساری تعریف اللہ کے لیے ہے، جو سارے جہانوں کا رب ہے‘‘۔ اللہ تعالیٰ ہماری اس لغزش کو معاف فرمائے۔ ادارہ