دوسری دینی جماعتوں کے متعلق میرا نقطۂ نظر ہمیشہ سے یہ رہا ہے، اور میں اس کا اظہار بھی کرتا رہا ہوں کہ جو جس درجے میں بھی اللہ کے دین کی کوئی خدمت کر رہا ہے، بساغنیمت ہے۔
مخالفِ دین تحریکوں کے مقابلے میں دین کا کام کرنے والے سب حقیقت میں ایک دوسرے کے مددگار ہیں، اور انھیں ایک دوسرے کو اپنا مددگار سمجھنا چاہیے۔ رقابت کا جذبہ اگر پیدا ہوسکتا ہے تو اسی وقت، جب کہ ہم خدا کے نام پر دکان داری کر رہے ہوں۔ اس صورت میں تو بے شک ہردکان دار یہی چاہے گا کہ میرے سوا اس بازار میں کوئی اور دکان نظر نہ آئے۔ لیکن، اگر ہم یہ دکان داری نہیں کر رہے ہیں، بلکہ اخلاص کے ساتھ خدا کا کام کر رہے ہیں ،تو ہمیں خوش ہونا چاہیے کہ ہمارے سوا کوئی اور بھی اسی خدا کا کام کر رہا ہے۔ اگر کوئی کلمہ پڑھوا رہا ہے تو وہ بھی بہرحال خدا ہی کی راہ میں ایک خدمت انجام دے رہا ہے، اور اگر کوئی وضو اور غسل کے مسائل بتارہا ہے تو وہ بھی اس راہ کی ایک خدمت ہی کر رہا ہے۔ آخر اس کو مجھ سے اور مجھے اس سے رقابت کیوں ہو اور ہم ایک دوسرے کی راہ میں روڑے کیوں اٹکائیں؟
کلماتِ خبیثہ کی اشاعت کرنے والوں کے مقابلے میں تو کلمۂ طیبہ پڑھوانے والا مجھے عزیز تر ہونا چاہیے، اور فسق و فجور پھیلانے والوں کے مقابلے میں احکامِ شرعیہ کی تعلیم دینے والا بھی مجھے محبوب ہی ہونا چاہیے۔ میں نے جماعت ِ اسلامی کے کارکنوں میں بھی ہمیشہ یہی جذبہ پیدا کرنے کی کوشش کی ہے اور اس کے خلاف کسی روش کو میں نے کبھی پسند نہیں کیا ہے۔ اگر آپ نے کہیں جماعت میں اس سے مختلف کوئی جذبہ و عمل پایا ہو تو مجھے تعینِ مقام و اشخاص کے ساتھ اس کی خبر دیجیے، تاکہ میں اس کی اصلاح کرسکوں۔([سیّدابوالاعلیٰ مودودی] ترجمان القرآن، جلد۵۰، عدد۶، محرم ۱۳۷۷ھ/ ستمبر۱۹۵۸ء،ص۶۱)