اُمت ِ مسلمہ کی تاریخ کے روشن ترین اَدوار میں بھی بعض ایسے لمحات نظر آتے ہیں جن میں ایمان و یقین کے اعلیٰ مقام پر فائز ہونے کے باوجود، ایک لمحے کے لیے یہ سوال ذہن میں اُبھرتا ہے کہ کیا واقعی اسلامی جماعت اور اسلامی تحریک حق پر ہے؟ معرکۂ اُحد کو سامنے رکھتے ہوئے دیکھا جائے تو ایمان و یقین اور صبرواستقامت کے بعض پہاڑ بھی ایک لمحے کے لیے لرز اُٹھے لیکن یہ کیفیت آگے نہیں بڑھنے پائی اور فوری طور پر دل و دماغ نے یکسو ہوکر ایک ہی بات کہی کہ اگر اس معرکۂ حق میں مصروفِ عمل رہتے ہوئے قائد اعلیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنی جان اللہ کے حوالے کر دی تو پھر اسوئہ حسنہ کی پیروی میں جس اصول اور حق کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شہادت پیش کی، اس حق کی شہادت اپنی منزل اور مقصد پر اعتماد میں کمی کے بغیر پورے عزم و ارادے کے ساتھ اپنی متاعِ حیات کو اس بازی پر لگانا ہی شرطِ وفاداری ہے۔
یہ وہ پُراُمید (optimistic )رویہ اور طرزِعمل ہے جو کھلی کتاب کی طرح ہمارے سامنے موجود ہے جس میں کسی تعبیر اور تاویل کی گنجایش نہیں۔ جو اگر نگاہ کے سامنے ہو تو دل و دماغ میں مایوسی، نااُمیدی، دل گرفتگی، پشیمانی اور ظن و گمان جیسی کیفیات کا گزر نہیں ہوسکتا۔
اپنی تاریخ کے ان روشن ابواب کو سامنے رکھتے ہوئے اس بات کی بھی یکساں ضرورت ہے کہ ایک مومن ہرلمحہ انفرادی و اجتماعی احتساب سے گزرتا رہے اور یہ ایک رسمی عمل نہ ہو کہ کسی کارکنان کے اجتماع میں ایک ذمہ دار چند لمحات کے لیے اپنے آپ کو احتساب کے لیے پیش کرے اور پھر یہ سمجھ لیا جائے کہ اب یہ حالات درست ہوگئے ہیں۔ احتساب دراصل پلٹنے کا عمل ہے۔ یہ اللہ کی طرف پلٹنے اور اس طرح پلٹنے کا عمل ہے کہ فرد اور جماعت اپنے ماضی کے فکروعمل اور شعوری اور غیرشعوری فیصلوں کا جائزہ لینے کے بعد، اصلاحِ احوال اور تعمیر مستقبل کے لیے اپنی اصل کی طرف لوٹ جائے۔ مومن تعلق باللہ، یعنی توحید خالص کے ساتھ ربِ کریم کی امان، پناہ اور رحمت میں آتے ہوئے اس کی رضا کے لیے بے غرض، بے لوث اور جذبۂ ندامت کے ساتھ اپنی تمام قوت کو اس کے دین کی سربلندی میں لگا دیتا ہے۔
یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ اسلامی جماعت کا مقصد ِ وجود اور نصب العین اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ وہ اللہ کی زمین پر اللہ کی حاکمیت کو سلطانی ِ جمہور کی جگہ خلافت ِ جمہور کی شکل میں نافذ کرنے کی جدوجہد کو اپنی متاعِ حیات بنالے۔ اقامت ِ دین کو اس کے تمام مطالبات کے ساتھ ذاتی اور اجتماعی زندگی میں نافذ کرنے کی کوشش اسی کا نام ہے۔
شَرَعَ لَكُمْ مِّنَ الدِّيْنِ مَا وَصّٰى بِہٖ نُوْحًا وَّالَّذِيْٓ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِہٖٓ اِبْرٰہِيْمَ وَمُوْسٰى وَعِيْسٰٓى اَنْ اَقِيْمُوا الدِّيْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِيْہِ ۰ۭ (الشوریٰ ۴۲: ۱۳) اس نے تمھارے لیے دین کا وہی طریقہ مقرر کیا ہے جس کا حکم اس نے نوحؑ کو دیا تھا اور جسے اب تمھاری طرف ہم نے وحی کے ذریعے بھیجا ہے اور جس کی ہدایت ہم نے ابراہیم ؑ اور موسٰی اور عیسٰی ؑ کو دے چکے ہیںاس تاکید کے ساتھ کہ قائم کرو اس دین کو اس میں متفرق نہ ہوجائو۔
انبیاے کرام ؑ نے جس اقامت دین کے لیے جدوجہد کی اور دن رات ایک کر دیے، جب اہلِ کتاب اس سے غافل ہوگئے تو اللہ تعالیٰ نے انھیں قیادت کی جگہ محکومیت میں مبتلا کر دیا:
وَلَوْ اَنَّ اَہْلَ الْكِتٰبِ اٰمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَكَفَّرْنَا عَنْہُمْ سَـيِّاٰتِہِمْ وَلَاَدْخَلْنٰہُمْ جَنّٰتِ النَّعِيْمِ۶۵ وَلَوْ اَنَّہُمْ اَقَامُوا التَّوْرٰىۃَ وَالْاِنْجِيْلَ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَيْہِمْ مِّنْ رَّبِّہِمْ لَاَكَلُوْا مِنْ فَوْقِہِمْ وَمِنْ تَحْتِ اَرْجُلِہِمْ۰ۭ مِنْہُمْ اُمَّۃٌ مُّقْتَصِدَۃٌ۰ۭ وَكَثِيْرٌ مِّنْہُمْ سَاۗءَ مَا يَعْمَلُوْنَ۶۶ۧ (المائدہ ۵:۶۵-۶۶) اگریہ اہلِ کتاب ایمان رکھتے اور خدا ترسی (تقویٰ)کی راہ پر چلتے تو ہم ان کی بُرائیاں ان سے دُور کردیتے اور نعمت کے باغوں میں انھیں داخل کرتے اور اگر وہ تورات اور انجیل کو اور ان ہدایتوں کو جو ان کے رب کی طرف سے انھیں پہنچی ہیں، قائم کرتے (اَقَامُوا التَّوْرٰىۃَ وَالْاِنْجِيْلَ ) تو اپنے اُوپر سے بھی رزق بٹورتے اور اپنے قدموں کے نیچے سے بھی۔
انبیاے کرام ؑ کی سنت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی اقامت ِ دین کی جدوجہد کی شکل میں اپنے نقطۂ کمال کو پہنچی اور قرآنِ کریم نے اسوۂ رسولؐ کی پیروی اُمت مسلمہ پر لازم کرتے ہوئے یہ طے فرما دیا کہ جس طرح رسولِ رحمتؐ نے حق کی شہادت دیتے ہوئے اقامتِ دین فرمائی، اسی طرح اب یہ کام اُمت پر اجتماعی اور انفرادی حیثیت میں فرض کر دیا گیا ہے:
وَكَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُہَدَاۗءَ عَلَي النَّاسِ وَيَكُـوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَيْكُمْ شَہِيْدًا ۰ۭ (البقرہ ۲:۱۴۳) اور اسی طرح تو ہم نے تم مسلمانوں کو ایک ’اُمت وسط ‘ بنایا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور رسولؐ تم پر گواہ ہو۔
یہی شہادتِ حق اور اقامت ِ دین اس دور کی تحریکات دعوت و اصلاح کا بنیادی ستون اور ان کے منشور اور مقصد ِ وجود کی غایت ہے۔ دین کا جامع تصور ان تحریکات کے اقامت ِ صلوٰۃ، زکوٰۃ، صیام اور حج کے ساتھ یہ مطالبہ بھی کرتا ہے کہ وہ قیامِ عدل و قسط کے لیے اللہ کی شریعت کو نہ صرف اپنی ذاتی اور عائلی زندگی میں بلکہ اپنی معاشی، معاشرتی، ثقافتی اور سیاسی زندگی میں بھی قائم کریں۔ چنانچہ تحریکات دعوت و اصلاح کے دائرۂ کار میں عبادات کے ساتھ ساتھ باہمی تعلقات، ثقافت و معیشت اور اقتدارو حکومت (گویا زندگی کے ہرشعبے میں اللہ کی حاکمیت اور اس کی شریعت کی برتری یکساں اہمیت کے ساتھ) شامل ہے۔ تحریکات دعوت و اصلاح کا یہی پہلو انھیں دیگر تمام تحریکات سے ممتاز کرتا ہے اور ان کے تشخص کو نمایاں کرتا ہے۔
سیاسی جدوجہد اور حصولِ تمکین کے ذریعے نظامِ صلوٰۃ، نظامِ زکوٰۃ، نظامِ حیا اور نظامِ معروف کا قیام اور منکر، فواحش اور عدوان کا خاتمہ کرنا ان کے فرائض میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے:
اَلَّذِيْنَ اِنْ مَّكَّنّٰہُمْ فِي الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوۃَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَہَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ۰ۭ وَلِلہِ عَاقِبَۃُ الْاُمُوْرِ۴۱ (الحج ۲۲: ۴۱)یہ وہ لوگ ہیں جنھیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، نیکی کا حکم دیں گے اور بُرائی سے منع کریں گے اور تمام معاملات کا انجامِ کار اللہ کے ہاتھ میں ہے۔
گویا فکروعمل، معیشت اور سیاست میں قیادت کا حصول اقامت ِ دین کی جدوجہد کا ایک جزو ہے اور دین کے قیام کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ حضرت دائود ؑ، حضرت سلیمان ؑ اور حضرت یوسف ؑ کی مثالیں قرآنِ کریم میں ہمیں یہ سمجھاتی ہیں کہ جب تک مقصد اور ہدف واضح طور پر اقامت ِ دین ہے، اس کے لیے سیاسی ذرائع کا استعمال عین تقاضاے دین ہے۔
یہ کام سنت ِ رسولؐ کی شکل میں کس طرح کیا جائے گا؟ دعوت کس بات کی، کس کو، کس طرح اور کب دی جائے گی؟ خود یہ دعوت کیا ہے؟ ان سوالات کا جواب قرآن و سنت ہر قدم پر فراہم کرتے ہیں اور ان سے اخذ کردہ فکر وہ فکر ہے جسے فکر مودودی کہا جاتا ہے۔ تحریک اسلامی اس وقت ایک ایسی صورتِ حال سے دوچار ہے جس میں زمینی حقائق بظاہر وہ نہیں ہیں جو توقع کیے جارہے تھے۔ لہٰذا، اس بات کی ضرورت ہے کہ انفرادی اور اجتماعی احتساب کے عمل کو تنہا کسی ایک نشست تک محدود نہ رکھا جائے بلکہ اسے مسلسل جاری رکھا جائے اس اعتماد و یقین کے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ کے جو بندےاس کی طرف رجوع کرتے ہیں اور صرف ایک قدم بڑھاتے ہیں تو اس نے دس قدم قریب آنے کا وعدہ کیا ہے، اور مزید اس یقین کے ساتھ کہ جن لوگوں نے یہ کہہ دیا کہ اللہ ہمارا رب ہے اور ہم اس دعوت پر مکمل یقین کرتے ہوئے قائم ہوگئے ہیں تو پھر وہ اپنی غیبی طاقتوں کے دروازے کھول دیتا ہے۔ احتساب بار بار اور جب اس اعتماد سے کیا جائے گا تو ہرمرتبہ ایمان و عزم میں اضافہ اور اُمید میں چمک پیدا کرنے کا باعث ہوگا۔
ان ابتدائی گزارشات کے بعد، اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ تحریک کو وقتی طور پر جس صدمے کا سامنا ہے اس کے اسباب میں جائے بغیر صرف یہ دیکھا جائے کہ تحریک آیندہ ایسی صورتِ حال سے کس طرح اپنے آپ کو محفوظ کرسکتی ہے؟ بظاہر ہماری یہ بات عجیب تصور کی جائے گی کہ بغیر مرض کی تشخیص کے علاج تلاش کیا جائے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ان چھوٹے چھوٹے اسباب پر لمبی لمبی بحثیں کرکے وقت ضائع کرنے کے بجاے پُرامیدی و احتساب کے ساتھ وہ اصول ذہن میں تازہ کیے جائیں جو دعوت اور اسلامی تحریک کی کامیابی کا یقین دلاتے ہیں۔ یہ وقت اور قوتِ عمل کا زیادہ مناسب استعمال ہے۔
پہلی چیز جو ذہن میں تازہ کرنے کی ضرورت ہے وہ ان اصولوں کی برتری ہے جو ہمیں قرآن و سنت نے دیے ہیں۔ ان میں اوّلین اصول توحید اور زندگی پر اس کی تطبیق ہے، یعنی کس طرح اپنی انفرادی، خاندانی ، معاشرتی، معاشی، ثقافتی، تعلیمی، قانونی اور سیاسی زندگی میں توحید کو رائج کیا جائے اور اس کے تقاضے پورے کیے جائیں۔ تحریک ِ پاکستان کی کامیابی کا واحد سبب یہی توحید یا لا الٰہ الا اللہ کا سہارا تھا، یعنی اپنی ذات، برادری، اپنے سیاسی تعلقات، ووٹ بنک، اجتماعات میں کثیر تعداد کا جمع ہونا، ان تمام پر بھروسے کی جگہ دل و دماغ کو شعوری طور پر اللہ کا عبد بنانا اور عبودیت پر قائم ہو جانا۔ جب کبھی بھی اور جہاں کہیں بھی ایک لمحے کے لیے کسی کے دل میں یہ خیال آیا کہ فلاں اتحاد اور فلاں برادری کے وعدے کامیابی کو قریب لے آئیں گے، ہم جادئہ توحید سے دُور ہوجائیں گے۔ ایسے تمام خیالات سے ذہن کو خالی کرنا ہی توحید پر عمل کرنا ہے۔
دوسرا اصول سنت ِ رسولؐ کی مکمل اطاعت ہے، یعنی تحریک سے وابستہ ہرفرد ان تمام اُمور سے اپنا تعلق منقطع کرلے جو قرآن و سنت کے منافی ہیں۔ وہ ایسے کاروباری قرضے ہوں جس میں سود کی آمیزش ہو یا ایسے معاملات ہوں جن میں برادری کی روایات کی پیروی دین کی تعلیمات سے ٹکراتی ہو، وہ معاشی معاملات میں لین دین میں عدم احتیاط یا عائلی معاملات میں حقوق کی ادایگی کا نہ کرنا ہو۔ دراصل اسلامی تحریک کی اصل قوت اس کی قوتِ کردار ہے کہ اس کے کسی فرد یا نمایندے کے بارے میں کوئی کسی مالی، خاندانی، باہمی تنازعے میں یہ بات نہ کہہ سکے کہ وہ حق کے منافی رسوم و رواج کی پیروی کرتا رہا ہے۔ اسلام نام ہی رسوم و رواجِ جاہلیہ سے بغاوت کا نام ہے۔ جب اور جہاں اس اصول کی پیروی ہوگی اللہ کی مدد اور استعانت اور رحمت کا آنا اتنا ہی یقینی ہے جتنا قرآنِ کریم اور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حق پر ہونا ہے۔ خود احتسابی میں اس طرف خاص توجہ کی ضرورت ہے کہ کسی بھی ذمہ داری کے لیے جس فرد کو نامزد کیا جائے اس کی سیرت و کردار آئینے کی طرح ہو، چاہے ایسے افراد تلاش کرنے اور تیارکرنے میں کتنا ہی وقت لگ جائے۔
اصول کی برتری کا ایک واضح تقاضا یہ ہے کہ ہماری محبت اور جڑنا اور مخالفت اور کٹنا صرف اللہ کے لیے ہو۔ اگر ایک فرد یا گروہ جو کل تک اختلاف کر رہا تھا، ہمارے اصولوں کے قریب آنے کا اعلان کرے تو ہم ماضی کو نظرانداز کرتے ہوئے مثبت طرزِفکر کے ساتھ اللہ پر بھروسا کرتے ہوئے معروف میں اس کے ساتھ تعاون پر تیار ہوجائیں۔ اگر ایک شخص، گروہ یا جماعت کل تک اسلام سے دُوری کا اظہار کرتی ہو اور آج وہ اس بات کی قولی شہادت دے کہ وہ اسلامی عدلِ اجتماعی کو نافذ کرنا چاہتی ہے تو اپنے تمام تحفظات کے باوجود تَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْوٰی پر عمل کرتے ہوئے دنیاوی اعتراضات کو نظرانداز کرتے ہوئے اپنی راے پر نظرثانی کرلی جائے۔
اصولی جماعت کا مطلب یہ ہے کہ ہم ہرلمحہ اپنا جائزہ لیتے ہوئے یہ دیکھیں کہ ہماری قوت، وقت، انسانی اور مادی سرمایے کا کیا تناسب تعمیرِ کردار و سیرت پر لگایا جارہا ہے، اور کیا ہم واقعی مکّی دور کے ان صبرآزما مراحل سے گزر رہے ہیں جنھوں نے ہر صاحب ِ ایمان کو استقامت اور حکمت دینی سے نواز دیا تھا اور ان کے کردار کے اثر سے وہ جو کل تک خون کے پیاسے تھے، وہ وَلِیٌّ حَمِیْم بن گئے تھے۔
تحریک ِ اسلامی ایک نظریۂ حیات کی علَم بردار جماعت ہے۔ قرآنِ کریم ہمیں بتاتا ہے کہ ازل سے ابد تک حق و باطل اور اسلام اور جاہلی نظریۂ حیات میں ایک مکالمہ ہوتا رہا ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ کا مکالمہ، حضرت موسٰی کا مکالمہ، خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا اہلِ کتاب کے ساتھ انھیں دعوتِ مکالمہ دینا، انبیاے کرامؑ اور دعوت اسلامی کی سنت ہے۔ لیکن اس مکالمے اور نظریاتی جہاد کے لیے انبیاے کرام ؑ کو اللہ تعالیٰ نے خود تربیت دے کر ان عقلی دلائل سے آراستہ کیا تھا، جن کا کوئی جواب باطل پرستوں کے پاس نہیں تھا اور وہ صرف مبہوت ہوکر رہ گئے تھے۔ داعیانِ حق کی طرف سے صرف ایک مطالبہ تھا کہ: قُلْ ہَاتُوْا بُرْہَانَكُمْ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ۶۴ (النمل۲۷:۶۴)۔ یہ بُرہان قاطع ہی وہ چیز ہے جسے قرآن و سنت اور فکر اسلامی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ ہم نے گذشتہ ۲۵ برسوں میں قرآن و سنت اور فکرِ مودودی کی ترویج کے لیے کیا اقدامات کیے؟ کیا صرف چند نصابی کتابچوں کا سرسری مطالعہ رکن بنتے وقت کرلینا فکرِ مودودی کو ذہن و قلب میں راسخ کرسکتا ہے؟ کیا صرف قرآن کے ماہانہ درس میں شرکت، قرآن کی انقلابی دعوت سے روشناس کرا سکتی ہے؟ ہمارے وقت کا کتنا حصہ قرآن و حدیث سے گہرے تعلق میں گزرتا ہے اور کتنا وقت محض تنظیمی معاملات میں گزرتا ہے؟ اس وقت کا کتنا حصہ اہلِ خانہ کو دعوت دینے میں، کتنا حصہ اہلِ محلہ کے ساتھ مسجد میں ملاقات کر کے انھیں قرآن کی دعوت سے متعارف کرانے میں گزرتا ہے؟ مکّہ اور مدینہ میں اسلامی جماعت میں شامل ہونے والا ہر فرد بشمول داعی اعظم صلی اللہ علیہ وسلم چلتا پھرتا قرآن تھا۔ کیا ہمارا تعلق قرآن کے ساتھ ایسا ہی ہے اور اگر نہیں ہے تو جو ہربات کا علم رکھنے والا ہے، کیا وہ یہ جاننے کے باوجود کہ ہم کہاں کھڑ ے ہیں، ہمیں ہرمرحلے میں کامیابی سے نواز دےگا؟
سیّد مودودی نے فکر کے جن پہلوئوں کو اُجاگر کیا ، اس میں دین کی اجتماعیت اور شورائیت اور حاکمیت ِالٰہی بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔ کیا ہم نے ان کی روشنی میں اپنی طویل المیعاد اور قلیل المیعاد حکمت عملی مرتب کی؟ قرآن کریم میں سات سالہ منصوبہ بندی کا ذکر سورئہ یوسف میں ہے۔ مکہ میں دعوت و تربیت کا کُل عرصہ ۱۳برس تھا۔ سات سالہ حکمتِ عملی کے نتیجے میں ۱۴برس کی جگہ ۱۳برس ہی میں وہ نتائج حاصل ہوگئے جن کے اثرات آج تک پائے جاتے ہیں۔ قریب المیعاد سات سالہ حکمتِ عملی میں ہماری ترجیح میں صوبے یا مرکز میں، پارلیمان میں نمایندگی کے ساتھ توسیع دعوت اور تعمیرکردار کا کیا تناسب رہا ہے؟ کیا ہم نے اللہ کے بندوں تک اس کا پیغام اپنی عملی زندگی کے ذریعے پیش کیا یا محض تحریر و تقریر کو کافی سمجھا؟ کیا اصولی اور نظریاتی انقلاب صرف اچھی خواہشات کی بنا پر آتا ہے یا سنگلاخ وادیوں سے گزر کر تربیت ِ اخلاق سے آتا ہے؟
اللہ تعالیٰ کا قانون اٹل ہے۔ وہ بظاہر پریشان کن حالات کو بھی اسلامی تحریک کے لیے بہتری اور بھلائی کا پیش خیمہ بناسکتا ہے۔ گذشتہ ۷۰برس کے تناظر میں دیکھا جائے تو تحریک کی تمام تر حکمت عملی کے باوجود بڑی جماعتوں کی اجارہ داری کو نہیں توڑا جاسکا۔ آج اللہ تعالیٰ نے ایک تیسرے عنصر کے ذریعے ان دونوں کے اثرات کو محدود کر دیا ہے اور طاقتی مراکز کو متزلزل کردیا ہے۔ اس طرح حکمت الٰہی سے میدانِ دعوت میں اچانک زیادہ وسعت، قبولیت اور نفوذِ دعوت کا امکان اُبھر کر آگیا ہے۔ جن برادریوں کے جال کو تحریک ۷۰سال میں نہ توڑ سکی، اللہ نے اپنی حکمت سے اس میں شگاف پیدا کر دیا۔ اب یہ تحریک پر ہے کہ وہ کس طرح حکمت، محبت اور خدمت کے ذریعے ان مظلوموں تک پہنچے جو پہلے اپنے ’آقا‘ کے علاوہ کسی اور کی طرف دیکھنے کے لیے آمادہ نہ تھے۔ اب دعوت کی نئی راہیں کھلی ہیں۔
دعوت کے لیے ابلاغِ عامہ کا مؤثر استعمال سنت ِانبیاے کرام ؑ ہے اور آج کے دور میں اس کی اہمیت ہمیشہ سے کہیں زیادہ ہوگئی ہے۔ خصوصیت سے پرنٹ میڈیا کے ساتھ الیکٹرانک میڈیا اور پھر اب سوشل میڈیا میدان پر چھا گئے ہیں۔ گذشتہ چاردہائیوں میں بار بار ہر سطح پر اس پر غور کیا گیا لیکن یہ کبھی نہ ہوسکا کہ اس کو تجویز سے آگے بڑھا کر ترجیحی بنیادوں پر ، جس طرح انتخابات کے مالی وسائل آخرکار جمع کیے جاتے ہیں، اسی طرح میڈیا کے لیے وسائل پیدا کرکے اسے دعوت کا ذریعہ بنایا جائے۔ ابلاغِ عامہ کا سیاسی کردار جتنا اس دور میں اُبھر کر آیا ہے پہلے کبھی نہ تھا لیکن ہمارا ابلاغِ عامہ وہ نہیں ہونا چاہیے جس کا تجربہ قوم کرتی ہے۔ اس پر فوری طور پر ایک ٹاسک فورس جو تین ماہ میں مکمل نقشہ بنا کر دے، بنانے کی ضرورت ہے۔درحقیقت تحریک کا نصب العین رضاے الٰہی کا حصول ہے ، صرف پارلیمنٹ میں نشستوں کا حصول نہیں ہے جن کا رضاے الٰہی کے لیے کام کرنے کے نتیجے میں ملنا کوئی مشکل بھی نہیں ہے۔ جب نیت واضح طور پر صرف اور صرف رضاے الٰہی کا حصول، دعوتِ حق، شہادتِ حق اور اقامت ِ دین ہوگی، اللہ کی غیبی امداد قلّتِ تعداد کو کثرت پر غالب کردے گی۔ دعوت کے لیے نوجوانوں کو ان کی اپنی زبان میں ان کے مسائل کی روشنی میں دعوت دیے بغیر ہم ان میں تبدیلی پیدا نہیں کرسکتے۔ اس کے لیے خاص تربیت کی ضرورت ہے۔ آخردو روایتی سیاسی اجارہ دار جماعتوں کو نوجوانوں کو متحرک (mobilize) کرکے ہی شکست دی گئی۔ اگر ایک شخص یہ کام ۲۲سال میں کرسکتاہے تو کیا یہ کام ایک نظریاتی جماعت آیندہ ۱۵برس میں نہیں کرسکتی؟
نوجوانوں کو ان کی نفسیات کی روشنی میں، ناچ گانے کے کلچر سے دامن بچاتے ہوئے کس طرح اپنے اندر شامل کیا جائے؟ اس کے لیے خود قیادت کو خصوصی تربیت کی ضرورت ہوگی تاکہ روایتی طریقوں کے ساتھ وہ طریقے بھی استعمال کیے جائیں جو نوجوانوں کو ہم سے قریب لاسکتے ہیں۔ یہ یاد رہے کہ گذشتہ تین دہائیوں میں کچھ نوجوان ہمارے سامنے آنے کے باوجود ہم سے دُور بھی ہوئے۔ اس کے اسباب کو دُور کرنا ہوگا۔ خود اعلیٰ قیادت چاہے برس ہا برس تحریک سے وابستہ رہی ہو، ہرمرحلے میں مزید تربیت کی محتاج رہتی ہے۔ دنیا کی دس بڑی صنعتوں کو کامیابی کے ساتھ چلانے والے CEO's بھی تربیتی ورکشاپس سے گزر کر اپنی صلاحیتوں کو بہتر بناتے ہیں۔ نوجوانوں میں دعوت کے لیے خصوصی تربیت کے بغیر کام نہیں ہوسکتا۔ اس کی منصوبہ بندی کرنی ہوگی۔
نئے راستوں میں خواتین تک ہمارا پیغام کسی مداہنت کے بغیر پہنچنا ضروری ہے۔ ہمارا رویہ نہ معذرت پسندانہ ہو اور نہ روایتی بلکہ آج کے خواتین کے مسائل کے پیش نظر اسلام کے دائرے میں رہتے ہوئے ہم ان کو اپنی قوت کا ذریعہ بنا سکیں۔
ان نئی راہوں میں مظلوم عوام کے دلوں کو مسخر کرنے کے لیے حکمت عملی مرتب کرنی ہوگی۔ بالخصوص جو فاٹا، بلوچستان، اندرونِ سندھ و پنجاب میں غلاموں کی سی زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کے حقیقی مسائل کو ہاتھ میں لینا ہوگا۔
ان نئی راہوں میں ایسے اہلِ قلم پیدا کرنے ہوں گے جو نوجوانوں میں پھیلنے والی جدید دہریت کا مدلل جواب ان کے فہم کے مطابق دے سکیں۔ ایسے اہلِ قلم جو انگریزی اور اُردو دونوں زبانوں میں دعوت کو آسان اور دل نشین انداز میں پیش کرسکیں۔
ان نئی راہوں میں ان تمام تعلیمی اداروںکو دعوت کا ہدف بنانا ہوگا جو اس وقت گو تحریک سے وابستہ سمجھے جاتے ہیں لیکن ان کے نصابات، ان کے اساتذہ، ان کا ماحول دیگر اداروں سے بہت زیادہ مختلف نہیں ہے۔ یہ وہ خزانے ہیں جن کو ہم نے آج تک دعوت کے لیے صحیح طور پر استعمال کیا ہی نہیں۔
اگر ہم چاہتے ہیں کہ نظامِ تعلیم اسلامی شکل اختیار کرلے تو جو ادارے ہمارے ہم فکر افراد چلا رہے ہیں، ان میں ہمیں تجرباتی طور پر اپنے تصورات کو اساتذہ کے ذریعے، نئی نصابی کتب کے ذریعے، طلبہ و طالبات کی جداگانہ سرگرمیوں کے ذریعے ایک قابلِ عمل مثال کے طور پیش کرنا ہوگا۔ اگر ہم صرف پانچ ایسے ادارے جو ملک کے ہر صوبے اور آزاد کشمیر میں معیاری تعلیم کے ساتھ اعلیٰ تربیت ِکردار کر رہے ہوں، آیندہ پانچ برسوں میں قائم کرلیں تو یہ ہماری دعوت کو مستند بنانے کا ایک اعلیٰ نمونہ ہوگا۔ اگر قوم صرف ایک ہسپتال کے چلا لینے کی بنا پر کسی کی صلاحیت کی قائل ہوجاتی ہے، تو کیا ہرصوبے میں ایک اعلیٰ تعلیمی ادارے کے قیام کے بعد کوئی اسلامی نظامِ عدل کی مخالفت کرسکے گا؟
۸۰ سال قبل سیّد مودودی نے دعوتی حکمت ِعملی کے لیے جن تین اصولوں کی طرف متوجہ کیا تھا، ان کے صحیح ادراک اوران کی روشنی میں طویل المیعاد حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے۔ وہ تین اصول یہ تھے:
۱- لادینیت کے مقابلے میں خدا کی بندگی اور اطاعت
۲- قوم پرستی کے مقابلے میں ملّت ِ اسلامی
۳- جمہور کی حاکمیت کے مقابلے میں خدا کی حاکمیت اور جمہور کی خلافت
آج کے حالات میں جس طرح تعلیم، سیکولر لابی کے دانش وروں اور ابلاغِ عامہ نے ہرپاکستانی کے ذہن میں یہ بات بٹھا دی ہے کہ مذہب ذاتی معاملہ ہے، اسے دلائل کی بنیاد پر درست کرنے کی ضرورت ہے۔ اسلامی اجتماعیت کا مطلب ہی یہ ہے کہ ہماری معاشرت، سیاست، معیشت، ثقافت، بین الاقوامی تعلقات، ہر چیز قرآن و سنت کی روشنی میں طے ہو جیساکہ دستور اسلامی جمہوریہ پاکستان کا مدعا ہے۔
ایک فوجی آمر نے ایک جذباتی نعرہ یہ دیا کہ ’سب سے پہلے پاکستان‘ ، جس کا مطلب یہ تھا کہ بقیہ تمام معاملات کو الگ کردیں اور ایک زمینی خطے کو جس کا نام پاکستان ہے، اسے اوّلیت دی جائے۔ حالاں کہ اس خطے کے وجود میں آنے سے قبل ہی ملت اسلامیہ نے یہ طے کر دیا تھا کہ ہمیں وہ خطہ چاہیے جہاں لا الٰہ الا اللہ ہر شعبے میں رائج ہو۔ گویا اوّلین چیز وہ ہے جسے خود بانی ِ پاکستان نے اپنے تین اصولوں میں ایمان، اتحاد، تنظیم کی شکل میں بیان کر دیا تھا۔ پاکستان اس کلمے کی عملی شکل ہے۔ اس لیے جغرافیائی، نسلی، لسانی قوم پرستی کی جگہ نظریۂ پاکستان کی برتری کو حکمت کے ساتھ پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ کسی ملک کے قیام کی بنیاد اس کا نظریہ یا آئیڈیالوجی ہوتی ہے۔ اگر نظریۂ پاکستان کو نظرانداز کردیا گیا تو ملک کی بقا اور قیام کو خطرہ لاحق ہوجائے گا۔
تیسرا اصول غیرمعمولی اہمیت رکھتا ہے اور ان تمام اعتراضات کا جواب فراہم کرتا ہے جو مروجہ جمہوری نظام کے ساتھ تعاون کرنے پر کیے جاتے ہیں۔ یاد رہے کہ تحریک اسلامی کا ہدف اور مقصد اللہ کی زمین اور بندوں پر صرف اس کی حاکمیت قائم کرنا ہے لیکن اس کے لیے جو راستہ منتخب کیا گیا ہے، وہ نہ حاکمیت ِجمہور ہے اور نہ پارلیمان کی مطلق حاکمیت بلکہ ’خلافت ِ جمہور‘ کے ذریعے اصل مالک، آقا اور حاکم کے احکامات کا نفاذ ہے۔
آمریت، بادشاہت اور پارلیمان کی مطلق حاکمیت کو دستورِ پاکستان رد کرتا ہے اور اللہ کی حاکمیت کے قیام کو مملکت کا مقصد قرار دیتا ہے۔ تحریک اسلامی روزِ اوّل سے دستورِ پاکستان کی روح اور الفاظ کا احترام کرتے ہوئے دستوری ذرائع سے ملک میں بنیادی تبدیلی لانا چاہتی ہے۔ یہ ایک تدریجی عمل ہے جسے ایک شب و روز میں نہیں کیا جاسکتا۔ دستورِ پاکستان اس کے لیے جو طریقہ تجویز کرتا ہے وہ راے عامہ کو ہموار کرتے ہوئے پارلیمان کے ذریعے اسلامی قانون سازی ہے یا پارلیمان میں اجتماعی اجتہاد ہے۔ یہ کفر و شرک کے نظام میں شرکت نہیں ہے بلکہ خلافت ِ جمہور کا واضح مطلب یہ ہے کہ عوام اور ان کے منتخب نمایندے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات کی روشنی میں قانون سازی تو کرسکتے ہیں، اس کے خلاف نہیں کرسکتے۔
تبدیلی کا یہ عمل اللہ تعالیٰ کی استعانت سے جلد بھی طے ہوسکتا ہے اور کچھ طویل بھی ہوسکتا ہے لیکن اس کے لیے ذہن کو تیار کرنے اور راے عامہ کو ہموار کرنے کی ضرورت ہے۔ جب تک اس کو اہمیت نہیں دی جائے گی ہماری خواہشات کے باوجود یہ کام اپنی منزل کو نہیں پہنچے گا۔ اس میں سب سے اوّل مکمل بندگیِ رب پیدا کرنے کے لیے ایک انتہائی مؤثر تربیتی نظام کی ضرورت ہے جو براہِ راست فکرِ مودودی اور مصادر اسلام کے مطالعے پر مبنی ہو۔ فکر کی تطہیر اور ہم آہنگی کے بغیر یہ کام ناممکن ہے۔ وطن پرستی کی جگہ ملت اسلامی اور اُمت اسلامی کے تصور کو فروغ دینا ہوگا تاکہ پاکستان کی نظریاتی بنیاد مستحکم ہوسکے۔
فلاحی کاموں کو مزید وسعت دینے کی ضرورت ہے۔ ہر کام حکومت کی سطح پر کرنے کا مطالبہ اپنی جگہ پر لیکن ساتھ ساتھ خود ایسے اداروں کا قیام جو تعلیم، صحت اور خاندانی نظام کو مستحکم کریں، یہ دعوت کا لازمی حصہ ہے۔ تحریک کو اسے اہمیت دینی ہوگی۔
ایک لمحہ ضائع کیے بغیر عنقریب مقامی سطح پر ہونے والے بلدیاتی انتخابات کو توجہ کا مرکز بنانا ہوگا۔ نچلی سطح پر کام ہی تحریک کو دعوت کا صحیح طریقہ سکھاتا ہے اور عوام کو اپنی آنکھوں سے یہ مشاہدہ کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ دیکھیں کہ تحریک جو تبدیلی لانا چاہتی ہے، کیا اس کی صلاحیت رکھتی ہے؟ اور اگر لوکل انتظامیہ میں صالح عناصر آنے کے بعد مقامی فلاحی کام کرسکتے ہیں تو کیا صوبائی، مرکزی سطح پر بھی وہ ایسا کرسکنے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟ اس اعتماد کو بحال کیے بغیر محض صوبائی اور مرکزی سطح پر کام کرنا، مطلوبہ نتائج پیدا نہیں کرسکتا۔ اس کے لیے ایسے افراد کا انتخاب ہماری فوری ضرورت ہے جو صالح نوجوان ہوں، جن کا کردار، سچائی، امانت اور خدمت کا پیغام دیتا ہو۔ افراد کے انتخاب میں ضرورت ہے کہ دوسروں کی نقل کرتے ہوئے دھوم دھام کی جگہ سادگی اور خدمت خلق کے جذبے کے ساتھ کام کیا جائے۔ اس کام کے لیے سیاسی شعور رکھنے والے افراد کے ساتھ مشاورت اور ملک گیر پیمانے پر منتخب مقامات کا تعین کرکے ان پر آج ہی مناسب افراد کا تعین کرنا ہوگا، تاکہ بھرپور عوامی رابطے اور راے عامہ کو ہموار کرنے کا عمل مناسب انداز میں سرانجام دیا جاسکے اور دعوتی حکمت عملی کے اثرات سیاسی میدان میں مطلوبہ نتائج پیدا کرسکیں۔