دسمبر ۲۰۱۳

فہرست مضامین

اسلوبِ دعوت : مخالفین سے مکالمہ

ڈاکٹر یوسف القرضاوی | دسمبر ۲۰۱۳ | فہم قرآن

Responsive image Responsive image

ترجمہ: ارشاد الرحمن

قرآنِ مجید کی ایک مکّی سورت میں دین کے اُسلوبِ خطاب، یعنی دعوتِ دین کا طریق کار متعین کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے: اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَ الْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَ جَادِلْھُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ ط (النحل ۱۶:۱۲۵) ’’اے نبیؐ! اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دو حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ، اور لوگوں سے مباحثہ کرو ایسے طریقے سے جو بہترین ہو‘‘۔ یہ آیت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے بعد ہر اُس اُمتی کو مخاطب کرتی ہے جو اس کے دائرے میں آتا ہو۔ اس لیے کہ اللہ کی طرف بلانا، یا اللہ کے راستے کی طرف بلانا، یعنی دعوتِ دین کا کام اور ذمہ داری نبی کریمؐ کے ساتھ ہی مخصوص نہیں تھی بلکہ آپؐ کی اُمت سے بھی یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ آپؐ کی موجودگی میں بھی اور آپؐ کے بعد بھی آپؐ کی اس دعوت کو آگے منتقل کرنے کی ذمہ داری ادا کرے۔ ایک دوسری آیت میں قرآنِ مجید اس بارے میں رسولِؐ کریم کی زبانی کہتا ہے:قُلْ ھٰذِہٖ سَبِیْلیْٓ اَدْعُوْٓا اِلَی اللّٰہِ قف عَلٰی بَصِیْرَۃٍ اَنَا وَ مَنِ اتَّبَعَنِیْ ط (یوسف۱۲:۱۰۸) ’’تم ان سے صاف کہہ دو کہ ’’میرا راستہ تو یہ ہے، میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں، میں خود بھی پوری روشنی میں اپنا راستہ دیکھ رہا ہوں اور میرے ساتھی بھی‘‘۔ لہٰذا ہر وہ شخص جو محمدؐ رسول اللہ کا اتباع کرے، اللہ کے رب ہونے پر راضی ہو، اسلام کے دین ہونے پر راضی ہو، محمدؐ کے نبی اور رسول ہونے کو دل و جان سے تسلیم کرتا ہو، وہ اللہ کی طرف دعوت دینے والا (داعی) ہوتا ہے۔ وہ یہ دعوت اپنی قلبی بصیرت اور شرح صدر کے ساتھ پیش کرتاہے۔

دعوت الی اللہ کے قرآنی اسلوب کا ایک اہم نکتہ ’بہترین انداز میں مکالمہ‘ ہے۔ قرآنِ مجید کے بیان کردہ طریقِ دعوت میں یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ آیت ِ مذکورہ میں وعظ و نصیحت (موعظہ) کے بہتر (حسنہ) ہونے پر اکتفا کیا گیا مگر مکالمے (جِدال) میں ’حسنہ‘ پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ ’احسن‘ (بہترین) طریقے کو اختیار کرنے کی تعلیم دی گئی۔ اس میں حکمت یہ ہے کہ نصیحت (موعظہ) کا معاملہ اپنے حامیان اور متفقین کے ساتھ ہوتا ہے جب کہ مکالمے (جِدال) کا معاملہ مخالفین کے ساتھ ہوتا ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ مکالمہ احسن انداز میں ہو۔ دوسرے الفاظ میں کہا جاسکتا ہے کہ اگر مکالمے کے دو طریقے ہوں: ۱- طریقۂ حسنہ۲- طریقۂ احسن، تو دعوتِ دین کے کارکن کو حکم ہے کہ وہ اپنے مخالفین سے احسن طریقے سے مکالمہ اور گفتگو کرے۔

مکالمے کے احسن طریقے میں بہت سے پہلو شامل ہیں، مثلاً: داعی کو چاہیے کہ وہ اپنے مخالف مخاطبینِ دعوت سے گفتگو کرتے ہوئے انتہائی نرم الفاظ اور انتہائی آسان اسلوب اختیار کرے۔ مقصد یہ کہ اس طرح وہ انھیں اپنے ساتھ مانوس کرلے اور اپنے قریب لے آئے۔ وہ کوئی ایسا لہجہ اور الفاظ استعمال نہ کرے جس سے اُن کے سینوں میں عصبیت اور کینہ پیدا ہوجائے۔ قرآنِ مجید نے اس ضمن میں بڑی نمایاں اور حیران کن مثالیں ہمارے سامنے رکھی ہیں۔ مشرکین سے مکالمے اور مجادلے کی مثال ملاحظہ کیجیے۔ فرمایا:

قُلْ مَنْ یَّرْزُقُکُمْ مِّنَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ ط قُلِ اللّٰہُ لا وَ اِنَّآ اَوْ اِیَّاکُمْ لَعَلٰی ھُدًی اَوْ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ o قُلْ لَّا تُسْئَلُوْنَ عَمَّآ اَجْرَمْنَا وَ لَا نُسْئَلُ عَمَّا تَعْمَلُوْنَo (السبا ۳۴:۲۴-۲۵) (اے نبیؐ!) ان سے پوچھو، ’’کون تم کو آسمانوں اور زمین سے رزق دیتا ہے؟‘‘ کہو، ’’اللہ۔ اب لامحالہ ہم میں اور تم میں سے کوئی ایک ہی ہدایت پر ہے یا کھلی گمراہی میں پڑا ہوا ہے‘‘۔ اِن سے کہو، ’’جو قصور    ہم نے کیا ہو اس کی کوئی بازپُرس تم سے نہ ہوگی اور جو کچھ تم کر رہے ہو اس کی کوئی جواب طلبی ہم سے نہیں کی جائے گی۔

اس خیرخواہانہ اسلوب میں اپنے مخالف مخاطب کی غلط فہمی کے ازالے اور نفسیاتی تسکین کی ایسی کوشش کی گئی ہے جس سے کافی حد تک وہ مطمئن اور قریب ہوسکتا ہے۔ کہا جا رہا ہے: ’’اب لامحالہ ہم میں اور تم میں سے کوئی ایک ہی ہدایت پر ہے یا کھلی گمراہی میں پڑا ہوا ہے‘‘۔ یہ نہیں کہا گیا کہ ’’تم کھلی گمراہی میں ہو‘‘۔ آگے مزید دیکھیے کہ حکیمانہ اسلوب کے استعمال کی حد کردی گئی ہے۔ فرمایا: ’’ان سے کہو، جو قصور ہم نے کیا ہو اس کی کوئی بازپُرس تم سے نہ ہوگی اور جو کچھ تم کر رہے ہو اس کی جواب طلبی ہم سے نہیں کی جائے گی‘‘۔ یہاں الفاظ کا موازنہ کرکے دیکھیے کہ کہا گیا ہے: وَلَا نُسْأَلْ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ ’’جو کچھ تم کر رہے ہو اس کی جواب طلبی ہم سے نہیں کی جائے گی‘‘۔ یہ نہیں کہا گیا کہ وَلَا نُسْأَلْ عَمَّا تُجْرِمُوْنَ  ’’جو قصور تم کر رہے ہو اس کی جواب طلبی ہم سے نہیں کی جائے گی‘‘ یعنی قصور اور جرم کو اپنی طرف منسوب کرلیا گیا لیکن اُن کو مانوس اور قریب کرنے کی خاطر جرم کو اُن کی طرف منسوب نہیں کیا گیا۔

دوسری بات جو ’مکالمے کے بہترین انداز‘ کے تحت آتی ہے وہ فریقینِ گفتگو کے نزدیک ’مشترکات‘ پر زور ہے۔ یہاں اختلاف اور مخالفت کے نکات کو اُٹھانے کی طرف توجہ ہی نہیں دی گئی۔ طرفین کے درمیان ’زمینِ مشترک‘ کا وجود گفتگو کو سنجیدہ اور بامقصد بنانے میں بہت معاون ہوتا ہے۔ یوں فریقینِ مکالمہ کے نزدیک متفق اُمور سے فائدہ اُٹھانا ممکن ہوجاتا ہے۔

  •  احسن انداز میں دعوت: قرآنِ مجید نے اہلِ کتاب کے ساتھ مکالمے میں اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے: وَ لَا تُجَادِلُوْٓا اَھْلَ الْکِتٰبِ اِلَّا بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ ق اِلَّا الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْھُمْ وَ قُوْلُوْٓا اٰمَنَّا بِالَّذِیْٓ اُنْزِلَ اِلَیْنَا وَ اُنْزِلَ اِلَیْکُمْ وَ اِلٰھُنَا وَ اِلٰھُکُمْ وَاحِدٌ وَّ نَحْنُ لَہٗ مُسْلِمُوْنَ o (العنکبوت ۲۹:۴۶) ’’اور اہلِ کتاب سے بحث نہ کرو مگر  عمدہ طریقے سے___ سواے اُن لوگوں کے جو اُن میں سے ظالم ہوں___ اور اُن سے کہو کہ  ’’ہم ایمان لائے ہیں اُس چیز پر بھی جو ہماری طرف بھیجی گئی ہے اور اس چیز پر بھی جو تمھاری طرف بھجی گئی تھی۔ ہمارا خدا اور تمھارا خدا ایک ہی ہے، اور ہم اُسی کے فرماں بردار ہیں‘‘۔

یہاں قرآنِ مجید نے اُن عقائد پر زور دیا ہے جو مسلمانوں کو غیرمسلموں سے قریب کرسکیں۔ یہاں یہ عقیدہ بیان کیا گیا ہے کہ مسلمان ہر اُس کتاب پر ایمان رکھتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائی ہے۔ اسی طرح مسلمان اللہ تعالیٰ کی طرف سے مبعوث ہر رسولؐ پر بھی ایمان رکھتے ہیں۔ اسی طرح اللہ کے ’یکتا معبود‘ ہونے پر بھی سب کا ایمان ہے۔ اشتراکِ ایمان کا یہی وہ نکتہ ہے جہاں تمام مذاہب کے اہلِ ایمان یک جا ہوجاتے ہیں۔ اور اُن سب کی جدوجہد اور کش مکش کا رُخ اُن ملحدین و منکرین خدا کی طرف مڑ جاتا ہے جو صرف مادے ہی کو سب کچھ سمجھتے ہیں۔ جن کا اس بات پر کوئی یقین و ایمان نہیں ہے کہ کائنات کا کوئی خدا ہے، انسان کے اندر کوئی روح ہے، اور اس دنیا کے بعد کوئی آخرت بھی ہے!!

’بہترین انداز میں مکالمے‘ میں یہ بات بھی شامل ہے جسے سید قطب شہیدؒ نے اپنی تفسیر  فی ظلال القرآن میں ذکر کیا ہے۔ لکھتے ہیں: ’’ان کے ساتھ اگر مجادلے کا موقع پیش آئے تو وہ بھی احسن طریق سے ہو۔ یہ مناسب نہ ہوگا کہ مخالف پر داعی حملہ آور ہوجائے اور اس کو ذلیل کرے یا اس کی قباحتیں بیان کرے۔ دعوت میں مباحثے کا انداز یہ ہو کہ مخاطب کو یقین ہوجائے کہ دعوت دینے والا محض غلبے اور کلام میں برتری کا حصول نہیں چاہتا بلکہ داعی محض ایک حقیقت ذہن نشین کرانا چاہتا ہے۔ ہر انسان کے اندر کچھ نہ کچھ عناد کا مادہ ہوتا ہے اور ہرشخص کی عزتِ نفس ہوتی ہے۔ وہ آخر دم تک اپنی راے کی مدافعت چاہتا ہے تاکہ وہ ہزیمت اور شکست سے بچے۔ اعتقاد و نظریہ دراصل راے ہوتی ہے اور لوگ راے کی قدروقیمت اس قدر بڑھا دیتے ہیں کہ اگر کسی کو راے بدلنے کا کہا جائے تو سمجھتے ہیں کہ ان کے رعب، ان کے احترام اور ان کی شخصیت میں فرق آجائے گا۔ اگر داعی اچھے انداز میں مباحثہ اور مکالمہ کرے تو اس سے کسی شخص کے ذاتی احساس کو ٹھیس    نہ پہنچے گی اور مخاطب یہ سمجھے گا کہ اس کی عزت نفس، اس کی شخصیت اور عزت و کرامت محفوظ ہے اور داعی صرف دعوت پہنچانا چاہتا ہے۔ محض اللہ کے لیے اسے ایک اچھی راہ کی طرف بلا رہا ہے۔   اس کام سے اس کی کوئی ذاتی غرض وابستہ نہیں ہے، نہ وہ اپنی فتح اور مخاطب کی شکست چاہتا ہے۔

داعی کے زیادہ جوش اور جذبے کو ذرا کم کرنے کی خاطر نصِ قرآنی اس طرف اشارہ کرتی ہے کہ دراصل اللہ ہی زیادہ علیم ہے ، وہی جانتا ہے کہ کون گمراہ ہے اور کون ہدایت پانے والا ہے۔ لہٰذا بحث و مباحثے کے اندر بہت زیادہ جوش اور جدال کی ضرورت نہیں ہے بلکہ شائستہ انداز میں دعوت دے دی جائے اور اس کے بعد اس کے نتائج اللہ پر چھوڑ دیے جائیں‘‘۔(تفسیر سورئہ نحل، آیت ۱۲۵)

  •  ’کفار‘ کے بجاے ’غیرمسلم‘ کا استعمال: مکالمے اور جدال کا وہ بہترین انداز جس کا مسلمانوں سے مطالبہ کیا گیا ہے اور خاص طور پر گلوبلائزیشن کے دور میں اس کی ضرورت ہے، اس میں یہ بات بھی شامل ہے کہ ہم اپنے مخالفین کے کفر کا اعتقاد ضرور رکھیں مگر اُن کو ’کفار‘ کے نام سے نہ پکاریں، خصوصاً اپنے اہلِ کتاب مخالفین کے معاملے میں اس بات کو پیش نظر رکھیں۔ ہمارے پاس اس موقف کی دو وجوہ ہیں:

۱- لفظ ’کفار‘ کے متعدد معانی اور مفاہیم ہیں۔ بعض تو یقینی طور پر ہماری مراد نہیں ہوتے، مثلاً: اللہ، اس کے رسولوں اور جہانِ آخرت کا انکار، جیساکہ اُن مادہ پرستوں کا نظریہ ہے جو محسوسات کے علاوہ کسی چیز پر ایمان ہی نہیں رکھتے، لہٰذا وہ اللہ، رسولؐ اور آخرت پر ایمان نہیں رکھتے۔

ہم جب اہلِ کتاب کے بارے میں بات کریں تو یقینا اس معنی و مفہوم میں ہم انھیں کافر نہیں کہہ سکتے۔ انھیں ’کفار‘ کہنے کا ہمارا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ حضرت محمدؐ کی رسالت و شریعت کے کافر (منکر) ہیں اور یہ بات تو سچ ہے کیونکہ یہی اعتقاد وہ ہمارے بارے میں بھی رکھتے ہیں کہ ہم اُن کے مذہب کو نہیں مانتے، لہٰذا اُن کے نزدیک ہم ’کفار‘ ہیں اور اس پہلو سے یہ بات بھی درست ہے۔

۲-  ہمارے اس موقف کی دوسری وجہ یہ ہے کہ قرآنِ مجید نے ہمیں یہ تعلیم دی ہے کہ ہم لوگوں کو کافر کہہ کر مخاطب نہ کریں خواہ وہ کافر ہی ہوں۔ غیراہلِ ایمان لوگوں کو قرآنِ مجید میں  درج ذیل الفاظ اور ناموں سے مخاطب کیا گیا ہے: یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ (اے انسانو!)، یَابَنِی اٰدَمَ (اے بنی آدم)، یَاعِبَادِی(اے میرے بندو!) یَااَھْلَ الْکِتَابَ(اے اہلِ کتاب!)۔

قرآنِ مجید میں دو مقامات (التحریم ۶۶:۷، الکافرون ۱۰۹:۱-۶)کے سوا لوگوں کو کہیں کافر کے نام سے مخاطب نہیں کیا گیا۔ سورئہ کافرون میں اُن بت پرست مشرکین کو مخاطب کیا گیا ہے جو رسول کریمؐ سے اس بات پر سودے بازی کی کوشش کر رہے تھے کہ ایک سال آپؐ اُن کے معبودوں کی عبادت کرلیا کریں اور ایک سال وہ آپؐ کے معبود کی عبادت کیا کریں گے۔ چونکہ ایسی کوششوں کو دوٹوک اور حتمی و قطعی اسلوب میں ختم کرڈالنا مقصود تھا، تاکہ اس طرح کی مزید بیان بازیوں کی گنجایش ہی باقی نہ رہے، لہٰذا رسولؐ اللہ کو حکم دیا گیا کہ آپؐ دوٹوک انداز میں اُن کو  مخاطب کریں جس میں تکرار اور تاکید بھی نمایاں ہو۔ اس دوٹوک اندازِ خطاب کے باوجود سورت کا اختتام جس آیت پر ہوتا ہے وہ دوسرے مذاہب کے ساتھ رواداری اور برداشت کا دروازہ کھلا رکھتی ہے، یعنی: لَکُمْ دِیْنُکُمْ وَلِیَ دِیْن (تمھارے لیے تمھارا دین اور میرے لیے میرا دین)۔ اس بناپر مَیں طویل عرصے سے اس بات کو ترجیح دے رہا ہوں کہ اپنے مخالف دیگر ادیان کے لوگوں کو ’غیرمسلم‘ کے نام سے مخاطب کیا جائے۔

  •  ’ذمی‘ کے بجاے ’شھری‘ کا استعمال: اسی طرح کچھ الفاظ ایسے ہیں جو ہمارے غیرمسلم اقلیتی بھائیوں کو قبول نہیں، مثلاً ’ذمی‘ کا لفظ ہمارے مصری قبطی برادران کو پسند نہیں حالانکہ اس لفظ کا مفہوم مثبت ہے، یعنی یہ مفہوم کہ ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ ، رسول کریمؐ اور مسلم جماعت کی ضمانت حاصل ہے۔ اس مفہوم اور مراد کی مسلمان کے دل میں ایک وقعت اور تاثیر ہے۔ وہ یہ بات کیسے گوارا کرسکتا ہے کہ وہ اللہ و رسولؐ کی ضمانت کو کسی بھی حال میں توڑ دے۔ جو شخص بھی ایسے فعل کا ارتکاب کرے گا وہ اللہ اور فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت کا مستحق ہوگا۔ تاہم اگر ہمارے مسلم ممالک کے غیرمسلم شہری اس لفظ سے تکلیف محسوس کرتے ہیں تو اس کی جگہ ’شہریت‘ اور ’شہری‘ کے استعمال میں کوئی حرج نہیں۔ فقہا اس بات سے متفق ہیں کہ اسلامی ریاست کے ذمی ’اہلِ ریاست‘ ہیں اگرچہ وہ ’اہلِ ملت‘ نہیں۔ ’اہلِ ریاست‘ کے اس لفظ کو عصری مفہوم میں ’شہری‘ کے لفظ سے بدلا جاسکتا ہے اور لفظ ’ذمی‘ کو حذف کرنے اور بدلنے سے اسلامی شریعت کے کسی حکم اور مسلّمہ امر کی مخالفت نہیں ہوتی۔ اس سلسلے میں ہمارے لیے خلفاے راشدین کے طرزِعمل میں نمونہ اور مثال موجود ہے۔ اور خلفاے راشدین وہ ہیں جن کی سنت اور طریقے کو اختیار کرنے اور اسے مضبوطی سے پکڑنے کا ہمیں حکم دیا گیا ہے، خصوصاً شیخین، یعنی حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کا طریقہ!!

بنی تغلب عہدِ جاہلیت سے مسیحی چلے آرہے تھے۔ انھوں نے حضرت عمرؓ سے مطالبہ کیا کہ ہم سے ’جزیہ‘ کے نام پر کچھ وصول نہ کیا جائے، یہی چیز ’صدقے‘ کے نام سے وصول کرلی جائے خواہ دگنی لے لیں۔ حضرت عمرؓ نے اُن سے اتفاق کیا اور ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھا، البتہ فرمایا: ’’یہ احمق قوم ہے، نام کا انکار کر رہے ہیں اور معنی کو قبول کرلیا ہے، حضرت عمرؓ کا یہ ایک بہت اہم اصول کی طرف اشارہ ہے، یعنی مقاصد اور معانی پر نظر رکھنا ضروری ہے نہ کہ الفاظ اور عبارتوں پر۔ کیونکہ اعتبار ناموں اور عنوانوں کا نہیں ہوتا بلکہ اُن چیزوں اور باتوں کا ہوتا ہے جن کے لیے یہ استعمال کیے جاتے ہیں۔

  •  تعلقاتِ انسانی کے لیے اخوت کی اساس: گلوبلائزیشن کے عہد میں مطلوبہ تعبیرات میں سے ایک تعبیر تمام انسانوں کے درمیان تعلقات کو’اخوت‘ کا پیرہن عطا کرنا ہے۔ اس سے مراد عام ’انسانی اخوت‘ ہے جو صرف اس بنیاد پر تشکیل پاتی ہے کہ ساری کی ساری انسانیت ایک خاندان ہے۔ اللہ تعالیٰ کی عبودیت اور آدم ؑ کی ابنیت میں سب انسان مشترک ہیں۔

اسلام تمام انسانوں کو ایک خاندان کے طور پر دیکھتا ہے، ان کے طبقات، علاقے، زبانیں اور رنگ و نسل جو بھی ہوں۔ یہ خاندان بحیثیت مخلوق ربِ واحد کی طرف اور بحیثیت نسب ایک باپ کی طرف منسوب ہے۔ یہی وہ چیز ہے جس کا اظہار کرتے ہوئے قرآنِ مجید نے انسانوں کو بلکہ تمام کے تمام انسانوں کو مخاطب کیا ہے:

یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّ خَلَقَ مِنْھَا زَوْجَھَا وَ بَثَّ مِنْھُمَا رِجَالًا کَثِیْرًا وَّ نِسَآئً ج وَ اتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیْ تَسَآئَ لُوْنَ بِہٖ وَ الْاَرْحَامَ ط اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلَیْکُمْ رَقِیْبًاo(النساء ۴:۱) لوگو، اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اسی جان سے اُس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت سے مرد و عورت دنیا میں پھیلا دیے۔ اُس خدا سے ڈرو جس کا واسطہ  دے کر تم ایک دوسرے سے،اپنے حق مانگتے ہو، اور رشتہ وقرابت کے تعلقات کو بگاڑنے سے پرہیز کرو۔ یقین جانو کہ اللہ تم پر نگرانی کر رہا ہے۔

یہاں استعمال ہونے والا لفظ الارحام جن تمام تر انسانی رشتوں پر مشتمل ہے اُس کو   ذرا واضح کرنا مناسب ہوگا۔ خاندانِ انسانی کی وحدت جیسی اس حقیقت کو رسولِؐ اسلام حضرت محمدؐ نے حجۃ الوداع کے موقع پر عظیم اجتماع کے سامنے علی الاعلان یوں بیان فرمایا تھا: ’’لوگو! یقینا تمھارارب ایک ہے، تمھارا باپ ایک ہے، تم سب آدم کی نسل سے ہو،اور آدم مٹی سے پیدا کیے گئے تھے۔  لہٰذا کسی عرب کو غیرعرب اور کسی غیرعرب کو عرب پر کوئی فوقیت اور برتری حاصل نہیں مگر صرف تقویٰ کی بنیاد پر۔ کیونکہ تم میں سے اللہ کے نزدیک معزز ترین وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے‘‘۔

رسول کریمؐ کے یہ الفاظ قرآنِ مجید کی سورئہ حجرات کے اس مضمون کو تاکید مزید کے طور پر بیان کرتے ہیں: ٰٓیاََیُّھَا النَّاسُ اِِنَّا خَلَقْنٰکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّاُنثٰی وَجَعَلْنٰکُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوْا ط اِِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقٰکُمْ ط اِِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ o(الحجرات ۴۹:۱۳) ’’لوگو، ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر قومیں اور برادریاں بنادیں تاکہ    تم ایک دوسرے کو پہچانو۔ درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمھارے اندر سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔ یقینا اللہ سب کچھ جاننے والا اور باخبرہے‘‘۔

جب یہ چیز موجود ہے تو تمام انسانوں کا انتساب انسانیت کے باپ حضرت آدم ؑ کی طرف ہونے کے اعتبار سے انسانی اخوت لامحالہ موجود ہے۔ اس نسبت کو ملحوظ رکھتے ہوئے قرآنِ مجید میں پانچ مقامات پر لوگوں کو ’یابنی آدم‘ کہہ کر مخاطب کیا گیا ہے۔ اس طرح کی تعبیرات دوسروں کو ہم سے قریب کرتی ہیں۔ ہمارے اور اُن کے درمیان حائل خلیج کو پاٹتی ہیں۔ یہی وہ چیز ہے جو ہمارے خلاف گھات میں بیٹھے ہمارے دشمنوں اور ان لوگوں کی سازشوں کو ناکام بناسکتی ہے جو لوگ ایک ملک اور ریاست کے باشندوں کے درمیان فتنے کی آگ بھڑکاتے ہیں۔ ایسی سازشوں کے ذریعے ہمارے اندرونی معاملات میں دخل اندازی کا انھیں راستہ مل جاتا ہے۔ وہ ہمارے اُوپر تسلط حاصل کرلیتے ہیں اور ہماری گردنوں میں اپنے احکام کی غلامی کا پھندا ڈال دیتے ہیں۔ ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم ایسے مواقع پر ان کی چالوں کو  انھی کے اُوپر پلٹ دیں۔ یہ مواقع اُمت کی تمام قوتوں کو اپنے دشمن کے مقابلے میں متحدہ محاذ کی صورت کھڑا کردیتے ہیں۔

  •  دین کی تعبیرِ جدید کا غلط انداز: گلوبلائزیشن کا عہد اگر ہم سے ایسے جدید دینی طریق کار کا تقاضا کرے جس میں ہم اسلام کو اس کی حقیقت ہی سے منحرف کردیتے ہوں یا کلام کو اس کے مدّعا سے ہٹا دیں، یعنی اسلام غیرمسلموں کی منشا و مرضی کے مطابق انھیں پیش کریں۔ ایسا اسلام جو اُن کا پسندیدہ ہو، ایسا اسلام جس کے پاس نہ اقدام کی صلاحیت ہو نہ دفاع کی طاقت، اُسے حکم دیا جائے تو وہ بلاچوں و چرا تسلیم کرلے، داعیان اور علماے دین سے مطالبہ کیا جائے کہ وہ اسلام کا ایسا عقیدہ پیش کریں جس میں شریعت نہ ہو، ایسی عبادت جس میں معاملات نہ ہوں، ایسا امن جس میں جہاد نہ ہو، ایسی شادی جو بلاطلاق ہو، ایسا حق جس کے پاس قوت نہ ہو، ایسا قرآن جس کے پاس نہ تلوار ہو، نہ اس کی دعوت ہو، اور نہ اس کی ریاست و حکومت ہو___ ایسے اسلام کو ہم نہیں جانتے اور نہ وہ ہمیں جانتا ہے۔ ایسا اسلام قرآن و سنت کا اسلام نہیں ہے۔ رسولؐ اللہ اور صحابہؓ و تابعینؒ کا اسلام نہیں جن کا عہد خیرالقرون (بہترین زمانہ) کہلاتا ہے۔

دین کے اندازِ خطاب کی تبدیلی سے مراد اگر یہ ہو کہ اسلام کو محض بندے اور رب کے درمیان تعلق کے طور پر پیش کیا جائے___   وہ ریاست و حکومت،خاندان و معاشرہ اور فرد کے لیے نظامِ حیات نہ ہو___ تو یہ مسلمانوں کے مقابلے میں وضع کیا گیا غیرحقیقی اور غلط اسلام ہے۔   یہ محمدرسولؐ اللہ کا اسلام نہیں ہے، یہ قرآن اور مسلمانوں کا اسلام نہیں ہے۔ ان کا اسلام تو زندگی اور انسان کے درمیان تقسیم کا قائل نہیں ہے۔ یہ اسلام تو کہتا ہے: قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ o لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَ بِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَo (الانعام ۶:۱۶۲-۱۶۳)’’کہو، میری نماز، میرے تمام مراسمِ عبودیت، میرا جینا اور میرا مرنا، سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے جس کا کوئی شریک نہیں۔ اسی کا مجھے حکم دیاگیا ہے اور سب سے پہلے سراطاعت جھکانے والا مَیں ہوں‘‘۔

دین کے اندازِخطاب میں تبدیلی سے مراد اگر اُن آیات کو حذف کرنا ہو جو یہود اور اُن کی غداریوں سے بحث کرتی ہیں، میدانِ جنگ میں نبیؐ اور آپؐ کے لشکر کو چھوڑ کر بت پرستوں سے جاملنے کا ذکر کرتی ہیں، ان آیات کو حذف کردینا یا کم سے کم نظرانداز کردینا اور اُن کو اس طرح منجمد کیے رکھنا کہ ذرائع ابلاغ پر اُن کو تلاوت نہ کیا جائے، خطیب، مقرر اور مدرس اپنے خطبات، تقاریر اور دروس میں ان کے بارے میں بات نہ کریں___ تو اُمت مسلمہ اس بات کو نہیں مان سکتی۔ اُن کے رب کی کتاب بدستور تلاوت ہوتی رہے گی، آیات کا تذکرہ ہوتا رہے گا۔ یہ معلم اور رہنما کا کردار ادا کرتی رہے گی کیونکہ یہ نورِ مبین اور صراطِ مستقیم ہے۔جو شخص بھی اس کا علم حاصل کرے گا وہ آگے نکل جائے گا، جو اس کی بنیاد پر بات کرے گا وہ حق کہے گا، جو اس کے مطابق فیصلے کرے گا، انصاف پر مبنی فیصلے کرے گا، جو اس پر عمل کرے گا اجر پائے گا، اور جو اس کی طرف انسانیت کو دعوت دے گا اُسے راہِ راست نصیب ہوگی۔

اسی طرح ’دینی اندازِ خطاب‘ میں تبدیلی سے مراد اگر مسلمانوں کے ہاں عبادات میں سے رکنِ زکوٰۃ کو حذف کردینا ہو، معاملات میں سے سود کی حُرمت کو ختم کردینا ہو، فوجداری مقدمات میں حدود و تعزیرات کا خاتمہ کردینا ہو، بین الاقوامی تعلقات میں جہاد کو خارج کردینا ہو، سیرت النبیؐ سے غزوات کا تذکرہ نکال دینا ہو، مسلم تاریخ سے خالد بن ولید، طارق بن زیاد، صلاح الدین ایوبی، سیف الدین قطز، عمرمختار اور عزالدین القسام کے کارناموں کا ذکر محو کردینا ہو تو ایسا ہرگز ہرگز نہیں ہوسکتا۔(ماخذ:  www.alqaradawi.net)