ایسے حالات میں جماعت اسلامی کی رہنمائی میں عوام جو دستوری جدوجہد کر رہے ہیں، وہ تاریخ میں ایک انوکھے تجربے کی حیثیت رکھتی ہے، یعنی اختیاراتِ نمایندگی جن لوگوں کے قابو میں آگئے ہیں وہ سیکولرزم کی صہبا کے سرمست ہیں اور ان کے سینوں میں مصطفی کمال بننے کے ارمان برابر چٹکیاں لیتے رہتے ہیں، لیکن راے عام اُن کے عزائم کا ساتھ دینے پر ایک سیکنڈ کے لیے بھی کبھی تیار نہیں ہوئی۔ دوسری طرف جماعت اسلامی ہے جو اگرچہ قوم کے مناصب ِ نمایندگی اور اختیارات کی طاقت سے محروم ہے لیکن جس نظریہ و نظام کو وہ پیش کر رہی ہے، راے عام اس کے ساتھ پوری طرح ہم آہنگ ہے۔ گویا حکمران طاقت کا رُخ مغرب کی طرف ہے تو راے عام کا رُخ مشرق کی طرف! دونوں میں کش مکش ناگزیر ہے۔ ایسے حالات میں ہونا یہ چاہیے تھا کہ حکمران اور نمایندہ طاقت یا تو دلائل کے زور سے راے عام کو مطمئن کرلے جاتی، یا پھر عوام کے مطالبے کی معقولیت کو مانتی اور ان کے پسندیدہ نظریہ و نظام کی حقانیت پر صدقِ دل سے ایمان لاکر اپنی روش کو بدل لیتی.....اب ہو یہ رہا ہے کہ راے عام کی طاقت سے جماعت اسلامی دبائو ڈالتی جاتی ہے اور حکمران اور نمایندہ طاقت چار و ناچار دستورسازی کے راستے پر ایک ایک قدم اسلام کی طرف اُٹھاتی جاتی ہے۔
اس سیاسی ’آنکھ مچولی‘ کے ذریعے گذشتہ سال کے عرصے میں جو کام ہوا ہے اس کے نتائج کا ہم جائزہ لیتے ہیں تو وہ بہت ہی حوصلہ افزا نظر آتے ہیں۔ دستوری رپورٹ کا جو حصہ پاس ہوچکا ہے وہ بہ حیثیت مجموعی اس بات پر گواہ ہے کہ اس ملک میں اسلام کو چاہنے والے عناصر نے لادینیت کو پسند کرنے والے عناصر کے مقابلے میں بڑی نمایاں فتح پائی ہے.....
اس کامیابی کا سہرا تنہا جماعت اسلامی کے سر نہیں، بلکہ اس مہم میں جن مختلف تنظیموں اور مختلف افراد نے عوام کی تمنائوں اور جذبوں کا ساتھ دیا ہے وہ سب اس کامیابی کے کریڈٹ میں حصہ دار ہیں اور اس کامیابی کا اصل کریڈٹ وہ ہے جو کسی کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاصل ہو۔(’اشارات‘ ، نعیم صدیقی، ترجمان القرآن،جلد۴۱، عدد۳، ربیع الاول ۱۳۷۳ھ، دسمبر ۱۹۵۳ء، ص ۴-۵)