سوال: شرک و کفر کو چھوڑ کر ایک مسلم نافرمان بلکہ باغی (مراد احکاماتِ الٰہی پر عمل نہ کرنے والے) کے لیے اپنے گذشتہ جملہ گناہوں سے معافی کی کیا صورت ہے؟
جواب :عظیم سے عظیم گناہ سے معافی کی یقینی صورت ، سچی توبہ ہے مگر توبہ صرف توبہ کے الفاظ دہرانے کا نام نہیں ہے، بلکہ توبہ تو درحقیقت وہی ہے جو دل کی گہرائی اور کامل شعور کے ساتھ کی جائے اور ایک بار توبہ کرنے کے بعد اس پر قائم رہنے کی اپنی سی کوشش کی جائے۔
توبہ کے چار اجزا ہیں:
مومن کے لیے کسی وقت بھی مایوسی کی کوئی گنجایش نہیں۔ جب بھی انسان کو احساس ہو، وہ توبہ میں تاخیر نہ کرے۔ اگر اس نے ۹۹قتل کیے ہوں تو بھی خداوندعالم معاف فرما سکتا ہے، بشرطیکہ انسان سچے دل سے توبہ کرے لیکن گناہ کرتے رہنا کہ آخر میں توبہ کرلوں گا، غیرمومنانہ طرزِفکر ہے۔ احساس کے بعد ایک لمحہ بھی ضائع کرنے کی گنجایش نہیں ہے۔ اس لیے کہ اگلے لمحے کی ضمانت نہیں ہے کہ وہ زندگی کا لمحہ ہوگا یا موت کا۔ قرآن کی اس آیت کو بار بار پڑھیے، اور توبہ کی کیفیت پیدا کیجیے:
قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِھِمْ لاَ تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ ط اِِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا ط اِِنَّہٗ ھُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ o(الزمر ۳۹:۵۳) اے میرے بندو! جنھوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے اللہ کی رحمت سے ہرگز مایوس نہ ہونا۔ بے شک اللہ تعالیٰ تمام گناہوں کو معاف فرما دے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ بہت زیادہ معاف فرمانے والا اور بہت ہی زیادہ مہربانی فرمانے والا ہے۔
توبہ کو واقعی توبہ بنانے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی کی زندگی میں تین پسندیدہ اعمال کا ظہور ہو:انابت: یعنی اللہ کی طرف رجوع، جس کا اظہار انسان کے قول و عمل اور شب و روز کی سرگرمیوں سے ہو۔ اسلام: یعنی اطاعت اور فرماں برداری کی زندگی گزارنے کا اہتمام ہو۔ اتباعِ قرآن:قرآن کے اوامر ونواہی پر عمل کا شوق اور التزام ہو۔ (محمد یوسف اصلاحی، مسائل اور اُن کا حل،ص ۴۳-۴۴)
س: قلمی و زبانی اشاعت ِدین میں اپنی سی سعی و کاوش کے علاوہ مالی طور پر کتب خرید کر دینا کیا اللہ تعالیٰ کو قرض دینے کے زمرے میں آتا ہے؟ یا راہِ حق میں جہاد کرنے کی تعریف میں؟ صراحت مطلوب ہے۔
ج:دین کی اشاعت و تبلیغ،اور دین کی اقامت و غلبے کی کوششوں میں اپنی بساط بھر مومن جو ذہنی، فکری، جسمانی، مالی کوشش و کاوش بھی کر ے گا، وہ راہِ حق میں بلاشبہہ جہاد ہی ہے۔ قلم سے بھی جہاد ہوتا ہے اور جان کھپاکر اور جان دے کر بھی جہاد ہوتا ہے۔
اس وقت، جب کہ ہر طرف باطل کا غلبہ ہے، خدا کا دین مغلوب ہے، لوگ دین سے ناواقف بھی ہیں اور دین کے خلاف ہرطرح کی فکری اور عملی مخالف کوششیں بھی ہورہی ہیں۔ ایسے حالات میں جس بندے کو جو پونجی میسر ہے، خواہ وہ مال ہو یا صلاحیتیں، زبان کی طاقت ہو یا قلم کی، بندہ جس طرح بھی دین کی اشاعت و اقامت میں لگے گا ان شاء اللہ وہ سب کچھ جہاد میں شمار ہوگا۔ دین کا تعارف کرانے، اور دین کو لوگوں میں مقبول بنانے اور اسلام کی طرف لوگوں کو متوجہ کرنے کے لیے جو شخص اپنا مال خرچ کرکے دینی کتب خرید کر تقسیم کرے اور لوگوں تک پہنچائے وہ یقینا خداوندعالم کو قرض حسن دے رہا ہے۔ اور اس دور میں یہ بہترین قرضِ حسن ہے، جس پر اللہ سے اچھی اُمیدیں وابستہ کرنا چاہییں۔ خداوندعالم ہم سب کو اپنی جان اور مال سے اپنی راہ میں جدوجہد کرنے کی توفیق بخشے، آمین!
دورِحاضر کتابوں کا دور ہے۔ کتابوں کے ذریعے دعوت و تبلیغ اور خدا کے دین کی اقامت کے جو مواقع آج پیدا ہوگئے ہیں، اس سے پہلے کبھی نہیں تھے۔ طباعت اور اشاعت کی جو سہولتیں اور ذرائع اس وقت میسر ہیں، ان سے فائدہ اُٹھانا اور ان میں دین کی اشاعت اور دین کی اقامت کی خاطر اپنا دل پسند مال لگانا یقینا اللہ کو قرضِ حسن دینا بھی ہے اور جہاد بالمال بھی، اور یقینا اس مہم میں شرکت کی سعادت پر اللہ سے اجروصلے کی توقع رکھنا بجا ہے۔ (محمد یوسف اصلاحی، مسائل اور اُن کا حل،ص ۳۲۲-۳۲۳)