الحکمت فی الدعوۃ الی اللّٰہ تعالٰی، معروف عرب عالمِ دین سعید بن علی بن وہف القحطانی کے ایم اے علومِ اسلامیہ کا مقالہ ہے۔ یہ مقالہ امام محمد بن سعود اسلامی یونی ورسٹی، سعودی عرب میں پاکستانی عالم دین ڈاکٹر فضل الٰہی کی زیرنگرانی لکھا گیا۔مقالہ نگار نے قرآن و سنت کی نصوص اور رسولؐ اللہ کے دعوتی کردار کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ بنیادی مصادر اور صحابہ، تابعین، تبع تابعین کے نمونے پیش کیے ہیں۔ احادیث و آثار کو مصادر اصلیہ سے لیا گیا ہے۔ صحیح اور حسن احادیث سے استدلال کیا گیا ہے۔ احادیث اور آثار کے فرق کو بھی ساتھ ساتھ بیان کردیا گیا ہے۔
کتاب کے مشتملات کو چار ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلا باب حکمت کے مفہوم، انواع، درجات، ارکان اور حصول کے ذرائع پر مشتمل ہے۔ دوسرا باب ’حکیمانہ کردار‘ پر بحث کرتا ہے جس میں رسولؐ اللہ ، صحابہ کرامؓ، تابعین، تبع تابعین اور عبقری شخصیات کے حکیمانہ کردار کو پانچ فصول میں الگ الگ بیان کیا ہے۔ رسولؐ اللہ کے کردار کو قبل از ہجرت اور بعد از ہجرت کے دو مراحل میں تقسیم کرکے بیان کیا گیا ہے۔ مخاطبینِ دعوت کے ساتھ حکیمانہ کلام کے تحت ملحدین، مشرکین، اہلِ کتاب اور اہلِ اسلام کے ساتھ دعوتی گفتگو ،مباحثہ و مکالمہ کو زیربحث لایا گیا ہے۔ غیرمسلم مخاطبینِ دعوت کے ساتھ گفتگو کے لیے خاص طور پر اور اہلِ اسلام کے ساتھ خطاب دعوت کے لیے عمومی طور پر رہنمائی دی گئی ہے۔ مخاطبینِ دعوت کے خلاف قوت کے حکیمانہ استعمال کو بھی موضوع بحث بنایا ہے۔ اسے بھی دو فصول: ۱-کفار کے خلاف قوت کا حکیمانہ استعمال، اور ۲- عاصی اہلِ اسلام کے خلاف قوت کے حکیمانہ استعمال کو شرعی نصوص اور دلائل و نظائر کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں حدود و تعزیرات کے حکیمانہ نفاذ اور بین الاقوامی تعلقات میں طاقت کے استعمال میں حکمت سے کام لینے کے حوالے سے دلائل کو جمع کیا گیا ہے۔
مصنف ِ کتاب نے ’حکمت ِ دعوت‘ کو جس جامع اور مختصر انداز میں بیان کیا ہے، اس کی بناپر یہ کتاب دنیا بھر کے حلقاتِ دعوت کی بنیادی ضرورت قرار دی جاسکتی ہے۔ اس کتاب کا ترجمہ اُردو کے دعوتی ادب میں قیمتی اضافہ ہے۔ مترجم نے کتاب کو اُردو قالب میں ڈھالنے کی قابلِ قدر سعی کی ہے، تاہم ترجمے میں عربیت کا رنگ متعدد مقامات پر نظر آتا ہے۔بنیادی اور مستند مصادر سے ماخوذ ہونے کی بناپر یہ کتاب کارکنانِ دعوت کی ناگزیر ضرورت قرار دی جانی چاہیے۔ اس کتاب کا مطالعہ قاری کو نہ صرف دعوتی وسائل اور ذرائع سے آگاہ کرتا ہے بلکہ دین کے وقیع اور مستند علم سے بھی بہرہ ور کرتا ہے۔(ارشاد الرحمٰن)
’جنت‘ اور ’جحیم‘ قرآن مجید کی دو ایسی اصطلاحات ہیں جو انسان کے لیے اللہ تعالیٰ کی رضا وناراضی کا استعارہ ہیں۔جس تفصیل سے جحیم (جہنم) کی ہولناکیوں کا تذکرہ قرآن میں آیا ہے اس سے کہیں بڑھ کر جنت کی خوش گواریوں کی داستان قرآن بیان کرتا ہے۔ کلیدِ جنت، جنت اور متعلقاتِ جنت پر بحث کرتی ہے۔ پہلا حصۂ کتاب میں جنت کے طبعی خواص کے علاوہ ایسے منفرد عنوانات پر بحث کی گئی ہے جو بالعموم اُردو زبان میں کم ہی پائے جاتے ہیں۔ اس میں ایسے اشکالات کی وضاحت بھی آگئی ہے جو بعض جدید ذہنوں میں اُلجھن کا باعث بنتے ہیں۔ جنت کی خوش خبری پانے والے خوش نصیب صحابہؓ و صحابیاتؓ کی بڑی تعداد کا تذکرہ یک جا طور پر یہاں آگیا ہے۔ کتاب کے دوسرے حصے میں عربی متن، ترجمے اور تشریح کے ساتھ اُن احادیث کو درج کیا گیا ہے جن میں مختلف اعمالِ جنت کی خوش خبری دی گئی ہے۔ اعمالِ جنت کا یہ مجموعہ ضخیم ذخیرۂ احادیث سے مرتب کیا گیا ہے۔ اس مجموعے کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ ہربات کو قرآن، حدیث اور دیگر نصوص کے مستند حوالہ جات کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔
جنت کی زندگی کے طبعی اصول اور اہلِ جنت کی کیفیات کو بڑی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ حجراسود، مقامِ ابراہیم، تابوتِ سکینہ، دریاے نیل، فرات، سیہون، جیحوں، عجوہ کھجور، ریاض الجنۃ اور منبر رسولؐ وہ جنتی چیزیں ہیں جو دنیا میں موجود ہیں۔ انفرادی طور پر بشارت پانے والوں میں ۷۸صحابہؓ اور ۲۰صحابیاتؓ کا تذکرہ ہے۔ اجتماعی طور پر بشارتیں پانے والوں میں عہدرسالت،قبل از رسالت اور بعد از رسالت کے متعدد گروہوں کا تذکرہ شامل ہے۔ عقائد، عبادات، معاملات اور اخلاق پر مشتمل اُن اعمالِ صالحہ کا مرتب بیان بھی ہے جو جنت میں داخلے کا سبب بتائے گئے ہیں۔ یہ کتاب وسعت ِ علم، حکمت ِ بیان اور احاطۂ موضوع کے اعتبار سے انفرادیت کی حامل ہے اور ایک وقیع انسائی کلوپیڈیا کی حیثیت رکھتی ہے۔ ہرمتمنی جنت کو ایک بار اس کتاب کو ضرور پڑھنا چاہیے۔ (ارشاد الرحمٰن)
حضور اکرمؐ کی سیرت پر بے شمار کتابیں لکھی گئی ہیں اور یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا۔ آپؐ کی شخصیت و کردار کی متعدد جہتیں ایسی ہیں جو کتابوں میں بہت مختصر طور پر مذکور ہیں۔ ان میں ایک موضوع آپؐ کی رضاعت ہے۔
زیرنظر کتاب میں ایسی خواتین کا ذکر کیا گیا ہے جنھیں تھوڑے یا زیادہ وقت کے لیے حضوراکرمؐ کو دودھ پلانے کی سعادت نصیب ہوئی۔ بچوں کو ان کی والدہ محترمہ کے سوا، دوسری خواتین سے دودھ پلانے کی روایت عربوں میں موجود تھی۔اس لیے حضرت عبدالمطلب نے بطورخاص حلیمہ سعدیہ سے کہا تھا کہ وہ ان کے بیٹے عبداللہ کے صاحبزادے محمدؐ کو دودھ پلائے۔ جب حضرت حلیمہ نے بچے کو لے جانے کی ہامی بھری تو عبدالمطلب کا چہرہ خوشی سے تمتا اُٹھا۔
زیرتبصرہ کتاب میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ حضور اکرمؐ کو دودھ پلانے والی خواتین میں ان کی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ کے علاوہ دو اور خواتین بھی تھیں۔ حضرت آمنہ کے بعد حضرت ثویبہ اور ان کے بعد حضرت حلیمہ سعدیہ کا نام آتا ہے۔ ان تین خواتین کے علاوہ اگرچہ دیگر خواتین کا تذکرہ بھی سیرت النبیؐ پر لکھی گئی کتابوں میں کیا گیا ہے لیکن ان کی رضاعت پایۂ ثبوت کو نہیں پہنچتی۔ بعض مصنفینِ سیرت نے ۱۰ خواتین کا تذکرہ کیا ہے اور بعض سیرت نگاروں نے آٹھ خواتین کا ذکر کیا ہے۔ زمانۂ رضاعت کے لحاظ سے حضرت حلیمہ سعدیہ نے زیادہ عرصے تک نبی اکرمؐ کی رضاعت کی۔ اسی دور میں معجزۂ شق صدر رُونما ہوا۔ مصنف نے قدیم تاریخی مآخذ اور احادیث کی معتبر و مستند کتابوں کے حوالے سے اپنے موقف کو مضبوط کیا ہے۔
مصنف کا اسلوبِ بیان عالمانہ انداز کا ہے۔ کتاب میں عربی کے ثقیل الفاظ بھی استعمال ہوئے ہیں لیکن مفہوم سمجھنے میں دقت پیش نہیں آتی۔ باریک بینی سے تحقیقی ضابطوں کے مطابق ایک نادر موضوع پر قلم اُٹھایا گیا ہے۔ یہ کتاب سیرت النبیؐ پر لکھی گئی کتابوں میں ایک گراں قدر اضافہ ہے۔ (ظفرحجازی)
رہِ شوق کے مسافروں کا سفر صدیوں سے جاری ہے۔ ان میں سے کچھ اہلِ قلم نے سولھویں صدی میں حرمین شریفین کے سفرنامے لکھنے کا آغاز کیا اور ان سفرناموں نے مسافروں کی جستجو اور ذوق و شوق میں مزید اضافہ کیا۔ اب تاریخ، جغرافیہ، سماجیات اور ثقافت کے علاوہ افسانہ و ناول کی ادبی چاشنی کے یک جا ہونے سے یہ سفرنامہ دورِحاضر کی مقبول ادبی صنف بن چکا ہے۔ زیرنظر سفرنامہ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
مصنف کا ایک سفرنامہ حرمین شریفین میں کے نام سے چند سال پہلے منظرعام پر آیا جس میں انھوں نے اپنے احساسات اور مشاہدات کو اسی اسلوب میں قلم بند کیا۔ زیرتبصرہ سفرنامے میں بھی مصنف نے محبتوں، عقیدتوں اور قلبی و ارادات کا ذکر اثرانگیز پیراے میں کیا ہے۔ ان کے وسیع مطالعے، موضوعات کے تنوع اور تحریر کی پختگی نے اسے اور زیادہ وقیع بنادیا ہے۔
یہ ایک سفری دستاویز بھی ہے اور زنبیل بھی جس میں مسافر نے اپنی شب و روز کی مصروفیات، تشنہ لبی اور عقیدتوں کو ادبی پیراے میں بیان کیا ہے۔ سعودی عرب کی تاریخ مستند حوالوں سے، اختصار کے ساتھ قلم بند کی ہے۔ سعودی عرب کی معاشرت، آلِ سعود کی اقتدار کے لیے تگ و دو اور سلطنت کے حُسنِ انتظام، سیاسی نظام، معیشت ، ریل، آبی وسائل، شاہراہوں، بندرگاہوں، ٹیلی کمیونی کیشن، تیل کے دریافت کی کہانی، عرب لیگ اور دیگر بہت سے موضوعات پر قابلِ قدر معلومات فراہم کی ہیں۔ سفرنامے میں سیماب پائی کیفیات اور تاریخ و جغرافیہ ایک ساتھ چلتے ہیں۔ کتاب میں طائف کے علاوہ حضرت حلیمہ سعدیہ کے گھر اور حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے بچپن کی وادی کے احوال و آثار کا ذکر ایک خاصے کی چیز ہے۔
اُمید ہے مناسک حج و عمرہ کے لیے جانے والوں اور سعودی عرب کے احوال جاننے کے خواہش مند حضرات کے لیے یہ سفرنامہ ایک رہنما اور مہمیز کا کام دے گا۔(عبداللّٰہ شاہ ہاشمی)
خطباتِ پاکستان مولانا سید جلال الدین کے ان خطبات کا مجموعہ ہے جو اپنے حالیہ دورۂ پاکستان کے موقع پر انھوں نے مختلف دینی، تحریکی اور علمی مجالس میں ارشاد فرمائے۔ مولانا سید جلال الدین عمری جماعت اسلامی ہند کے امیر، معروف دینی سکالر اور جید عالم دین ہیں۔ ممتاز محقق، خطیب اور صاحب ِطرز مصنف ہیں۔قرآن و سنت اور جدید علوم و افکار ان کا خاص موضوع ہیں۔ اسلوب کی انفرادیت ،موضوع کا تنوع ،منفرد طرز استدلال اور زبان و بیان کی شگفتگی ان کی تحریر کے نمایاں اوصاف ہیں۔
خطبات پاکستان ان کے دو اسفارِ پاکستان کی رُودادوں اور اس دوران مختلف مجالس اور سیمی ناروں میں ان کی تقاریر کا مجموعہ ہے۔ان خطبات میں ’’اسلام‘‘ کے حوالے سے جامع اور وسیع تر تناظر میں بات کی گئی ہے جس میں تحریک اسلامی ،اقامت دین اور اس کے علمی و عملی تقاضے ، احیاے اسلام کی مختلف تدابیر ، غلبۂ اسلام کی جد وجہد اور اس کی جہتیں ،ذاتی اصلاح و تربیت ، ہندستانی مسلمانوں کے حالات، مشکلات و مسائل ،اہم شخصیات کا تعارف ، پاکستان کے حالات، دینی و تحریکی حلقوں کی سرگرمیاں اور جماعت اسلامی ہند کا تذکرہ شامل ہے۔ اخبارات و رسائل کو دیے گئے مختلف انٹر ویو بھی کتاب کاحصہ ہیں۔ خطبات پاکستان ایک صاحب دل بزرگ کے تجربات و مشاہدات کا نچوڑ ہے جس سے پاکستان اور ہندستان میں اسلامی تحریک کا کام کرنے والوں کے لیے قیمتی نکات اور عمدہ لوازمہ فراہم ہو گیاہے۔(عمران ظہور غازی)
علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی (شعبۂ علوم اسلامیہ) کے ایسوسی ایٹ پروفیسر کے زیرنظر سفرنامے کا نام، ترقی پسند ادیب اور جانگلوس کے مصنف شوکت صدیقی (م: ۱۸دسمبر ۲۰۰۶ء) کے معروف ناول خدا کی بستی کی یاد دلاتا ہے (صدیقی کا عبرت ناک تعارف، ابوالامتیاز ع س مسلم کی خودنوشت لمحہ بہ لمحہ زندگی میں ملتا ہے)، مگر ناول اور سفرنامے کے نام میں جزوی مماثلت ارادی نہیں، غالباً اتفاقی ہے۔ لاہور اور اسلام آباد کے دو سفروں (۱۹۸۸ء اور ۲۰۱۱ء) کی یہ رُوداد زیادہ تر افراد و اشخاص (اساتذہ، پروفیسروں، ریسرچ اسکالروں، اسلامی جمعیت طلبہ اور جماعت اسلامی کے وابستگان اور مصنف کے ہمراہ بھارت سے آنے والے مندوبین سیرت سیمی نار) کے گرد گھومتی ہے۔ فلاحی صاحب نے ہر ایک کا تعارف (مع تواریخ ولادت و فہارسِ تصانیف) کرادیا ہے۔ ان شخصیات میں مولانا امین احسن اصلاحی، مولانا گوہررحمن، ڈاکٹر ظفراسحاق انصاری، پروفیسر خورشیداحمد، خرم مراد (متعلقہ باب کا عنوان: خرم مراد کا جادو)، ڈاکٹر محمود غازی، ڈاکٹر انیس احمد قابلِ ذکر ہیں۔ ان کے بارے میں ضروری معلومات بھی ہیں اور تصانیف سے بھی آگہی ہوتی ہے۔ سابق صدر ضیاء الحق مرحوم کے ساتھ تقریبِ ملاقات کا ذکر ہے جس میں موضوع نسیم حجازی تھے۔ دعوہ اکیڈمی کی بچوں کی کتب کی فہرست بھی موجود ہے۔ مصنف نے کوشش کی ہے کہ قارئین کو اس بستی میں ہونے والی تحریکی علمی سرگرمیوں سے اور شخصیات سے خوب اچھی طرح واقف کرا دیں۔
لاہور کے جس ناشر نے بلااجازت مصنف کی کتاب شائع کی، اس کی ’بے شرمی اور ڈھٹائی‘ کے ذکر کے ساتھ مجلہ نقوش کے جاوید طفیل کے حُسنِ سلوک کا اعتراف کیا ہے اور یہ بھی کہ ’’لاہور میں۸،۹ دنوں کی اقامت، تفریح اور علمی و ادبی مصروفیات نے ذہنی آسودگی عطا کی تو فکری فارغ البالی اور علمی سیرابی بھی ہوئی‘‘۔ اسی طرح لاہوری ناشتے کا ذکر: ’’گرم جلیبی، پٹھورا اور اس پر کم از کم ایک لیٹر لسّی، آسودہ حال ہوجاتے‘‘۔(ص ۸۷)
آخری باب: حق گوئی قابلِ تحسین اور ’’امن، دوستی، شانتی‘‘ کی خواہش بھی بجا مگر پلٹ کر دیکھیے کہ کشمیریوں سے جو سلوک کیا جا رہا ہے، اس کے پیش نظر دوستی اور شانتی کا خواب کیوں کر شرمندۂ تعبیر ہوسکتا ہے؟ ___ بہرحال لکھنے والا عالم ہے، اس لیے اِسے ایک علمی سفرنامہ کہنا بے جا نہ ہوگا جو معلومات افزا ہے اور دل چسپ بھی۔(رفیع الدین ہاشمی)
زیرنظر کتاب میں مصنف نے ان ۲۱ مجاہدعلما، فقہا، عادل حکمرانوں اور جدید تعلیم یافتہ دردمند رہنمائوں کا تعارف اور ان کی جدوجہد کا تذکرہ کیا ہے جنھیں ملت ِ اسلامیہ کی تجدید و احیاے دین کی تاریخ میں نمایاں مقام حاصل ہے۔ ان مردانِ کار نے اپنے اپنے عہد میں مسلمانوں کی آزادی، حُرمت کی خاطرلڑنے اور علمی خدمات انجام دینے میں امتیازی حیثیت سے کام کیا۔ غلبۂ اسلام کے لیے ان عادل اور خداترس حکمرانوں نے باطل سے ٹکرلی اور اللہ کے حکم کے مطابق اصولِ جنگ کی پاسبانی کی۔ ان عظیم اہلِ علم اور مجاہد حکمرانوں میں سے چند ایک کے اسماے گرامی یہاں دیے جاتے ہیں: حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ، امام ابوحنیفہؒ، شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ، سلطان صلاح الدین ایوبیؒ، اورنگ زیب عالم گیرؒ، شاہ ولی اللہؒ ، سلطان ٹیپوؒ، مولانا محمود حسنؒ اور علامہ اقبالؒ۔
مصنف نے ان تجدیدی کارناموں کے تذکرے کے ساتھ ساتھ، ان چودہ سو برس میں یہودیوں اور عیسائیوں کی اسلام دشمن سرگرمیوں کا تذکرہ بھی کیا ہے۔ تعلیمی، دعوتی اور اصلاحی کارناموں کے علاوہ بعض علما کی تزکیۂ نفس کے لیے کی گئی کوششوں کا جائزہ بھی لیا گیا ہے۔اُمید ہے اس کتاب کی اشاعت ثانی میں پروف خوانی میں محنت اور توجہ سے کام لیا جائے گا۔(ظفرحجازی)