پروفیسر خورشید احمد | دسمبر ۲۰۱۳ | شذرات
۱۰محرم الحرام کو راولپنڈی میں جو الم ناک اور خون آشام واقعہ رُونما ہوا ہے، اس پر ہر آنکھ اشک بار اور ہر زبان مصروفِ مذمت ہے۔ مسجد، مدرسہ، امام بارگاہ، سب کا تقدس بے دردی اور بے شرمی سے پامال کیا گیا۔ کم از کم ۱۱؍افراد شہید ہوئے اور ۱۰۰ کے قریب زخمی، جب کہ ۲۰۰دکانیں نذرِآتش کی گئیں۔ قیمتی جانی اور مالی نقصان کا ابھی پورا جائزہ لینا ممکن نہیں۔ توقع ہے کہ جو تحقیقاتی کمیشن مقرر کیا گیا ہے وہ پورے حالات کا بے لاگ جائزہ لے کر تمام صورتِ حال قوم کے سامنے لائے گا۔ تاہم، یہ ایک حقیقت ہے کہ اس واقعے نے پورے ملک کو ہلاکر رکھ دیا ہے۔ پوری قوم مغموم اور مشتعل ہے۔ بڑے بنیادی سوالات ہیں جو ہرذہن کو پریشان کر رہے ہیں اور ان کے واضح جواب تلاش کرنا اربابِ حکومت کی ذمہ داری ہے تاکہ قوم کے سامنے تمام حقائق آسکیں اور اس خونیں واقعے کے تمام ذمہ داران کو قرار واقعی اور عبرت ناک سزا مل سکے۔
بظاہر یہ نظر آتا ہے کہ واقعہ محض اتفاقی نہیں اور قوم کو فرقہ واریت کی جنگ کی طرف دھکیلنے کے کسی منصوبے کا پیش خیمہ ہے، اور حکومت کی بے تدبیری، نااہلی اور پوری انتظامی مشینری کی غفلت یا کچھ سرکاری عناصر کی معاونت سے اتنا بڑا واقعہ رُونما ہوا ہے۔ پانچ گھنٹے تک معصوم انسان مرتے رہے۔ عبادت گاہیں، مدرسے اور دکانیں جلتی رہیں اور پوری سرکاری مشینری غیرحاضر یا غیرمؤثر تھی اور بالآخر شہر میں کرفیو لگانا پڑا اور فوج کو انتظام سپرد کرنا پڑا۔ جو عناصر اس تباہی کے ذمہ دار ہیں ان کو پوری دیانت اور سُرعت سے حقیقی آہنی ہاتھوں سے قانون کے مطابق گرفت میں لانے کی ضرورت ہے۔ روایتی تحقیقات اور لیپاپوتی نے حالات کو بگاڑ کی اس انتہا پر پہنچا دیا ہے جہاں آج ہم ہیں۔ اس مجرمانہ روش کو ایک لمحے کے لیے بھی برداشت نہیں کیا جاسکتا۔
مسئلے کے تین پہلو ہیں جن کی طرف ہم توجہ دلانا اپنا فرض سمجھتے ہیں:
اوّلاً: پورے معاملے کی بے لاگ تحقیق اور پوری شفافیت کے ساتھ اور ایک لمحہ ضائع کیے بغیر کم سے کم مدت میں اس تحقیق کی روشنی میں مؤثر کارروائی۔ شرپسند عناصر اور ان کے پشتی بانوں کو گرفت میں لانا اور مؤثر اور فی الفور عدالتی کارروائی کے ذریعے انھیں ان کے گھنائونے جرائم کی پوری پوری سزا۔ اس سلسلے میں شرپسند عناصر کے ساتھ پولیس، انتظامیہ اور خفیہ اداروں کی کارکردگی پر بھی مؤثر گرفت ہونی چاہیے اور جس کی جتنی ذمہ داری ہے اس کے مطابق اسے سزا ملنی چاہیے تاکہ انصاف ہو اور انصاف ہوتا نظر آئے، اور مجرموں کو کھلے عام سزا ملے تاکہ وہ نشانِ عبرت بنیں اور آیندہ کے لیے ایسے واقعات سے ملک کو محفوظ کیا جاسکے۔
اس کے ساتھ جو افراد متاثر ہوئے ہیں ان کی فوری امداد___ شہدا کے خاندانوں اور زخمیوں کی مدد، اور جن کی دکانیں جل گئی ہیں اور عمربھر کی پونجی سے وہ محروم ہوگئے ہیں ان کی معاشی بحالی کا فوری انتظام، نیز مسجد، مدرسہ اور دکانوں کی فوری تعمیرنو، تاکہ متاثرہ افراد اور اداروں کی تلافی ہوسکے۔ یہ تمام کام پوری مستعدی سے اور کم سے کم وقت میں انجام پانے چاہییں، اور راولپنڈی کی دینی اور سیاسی قیادت کو اس پورے عمل کی نگرانی کرنی چاہیے۔
دوسرا بنیادی مسئلہ وہ فرقہ وارانہ کشیدگی ہے جو اس واقعے کے نتیجے میں رُونما ہوئی ہے۔ اِکّادکّا واقعات پہلے بھی رُونما ہوتے رہے ہیں۔ چند گروہ مختلف شکلوں میں اور مختلف مقامات پر یہ کھیل کھیلتے رہے ہیں اور حکومت نے ان عناصر کو قابو کرکے اور قانون کی گرفت میں لانے کے بارے میں مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا ہے۔ الحمدللہ بحیثیت مجموعی پاکستانی معاشرے میں اہلِ سنت اور اہلِ تشیع شانہ بشانہ زندگی گزار رہے ہیں اور شرپسند عناصر ان کے درمیان منافرت کے فروغ اور تصادم کے کھیل میں کامیاب نہیں ہوسکے، لیکن اس واقعے نے نئے خطرات کو جنم دیا ہے اور پورے ملک میں جذبات میں بے حد اضطراب بلکہ اشتعال ہے۔ یہ اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ مسئلے کو پوری سنجیدگی سے لیا جائے اور اس چنگاری کو بجھانے کے لیے کوشش کی جائے تاکہ یہ کسی بڑی آگ کا پیش خیمہ نہ بن جائے۔
۱۹۹۰ء کی دہائی میں بھی ایسے حالات پیدا ہوئے تھے مگر ملک کی تمام ہی دینی جماعتوں نے بڑی حکمت اور بالغ نظری کے ساتھ حالات پر قابو پایا ، ملّی یک جہتی کونسل کی شکل میں ایک منظم تحریکی قوت بن کر تمام مکاتب فکر کو ایک دوسرے سے قریب لایا گیا، ایک دوسرے کی بات کو کھلے دل سے سنا گیا اور حقیقی شکایات کا ازالہ کیا گیا، اور ملی یک جہتی، رفاقت باہمی اور رواداری کی راہیں استوار کی گئیں۔ آج اس کی ضرورت ماضی سے بھی کہیں زیادہ ہے۔ جس طرح اس وقت فرقہ وارانہ ہم آہنگی پیدا کرنے اور غلط فہمیوں اور دُوریوں کو پیدا کرنے والے عوامل کی نشان دہی کرنے کے ساتھ متفقہ طور پر ایک ضابطۂ اخلاق طے کیا گیا آج اس کے احیا اور اس پر سختی سے عمل کی ضرورت ہے۔
وقت کی ضرورت ہے کہ مرکزی اور صوبائی حکومتیں اور ملک کے تمام دینی اور سیاسی عناصر اس سلسلے میں اپنا کردار پوری مستعدی کے ساتھ انجام دیں۔ملّی یک جہتی کونسل کو بھی اس سلسلے میں ازسرِنو پہل کرنا چاہیے۔ اسی طرح مرکزی اور صوبائی حکومتوں کو ان اصولوں کی روشنی میں فی الفور ضروری قانون سازی کا اہتمام کرنا چاہیے، نیز مسجدومحراب، اسکول اور مدرسہ، اور میڈیا سے ان اصولوں کی باربار تلقین کی جائے اور عملاً ان کے احترام کا اہتمام کیا جائے۔
۱- اختلافات اور بگاڑ کو دُور کرنے کے لیے ایک اہم ضرورت یہ ہے کہ تمام مکاتب فکر نظم مملکت اور نفاذِ شریعت کے لیے ایک بنیاد پر متفق ہوں۔ چنانچہ اس مقصد کے لیے ہم ۳۱سرکردہ علما کے ۲۲نکات کو بنیاد بنانے پر متفق ہیں۔
۲- ہم ملک میں مذہب کے نام پر دہشت گردی اور قتل و غارت گری کو اسلام کے خلاف سمجھنے، اس کی پُرزور مذمت کرنے اور اس سے اظہارِ براء ت کرنے پر متفق ہیں۔
۳- کسی بھی اسلامی فرقے کو کافر اور اس کے افراد کو واجب القتل قرار دینا غیراسلامی اور قابلِ نفرت فعل ہے۔
۴- نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و حُرمت ہمارے ایمان کی بنیاد ہے اور آنحضوؐر کی کسی طرح کی توہین کے مرتکب فرد کے شرعاً و قانوناً موت کی سزا کا مستحق ہونے پر ہم متفق ہیں۔ اس لیے توہین رسالتؐ کے ملکی قانون میں ہم اس میں ہرترمیم کو مستردکریں گے اور متفق اور متحد ہوکر اس کی مخالفت کریں گے۔ عظمت اہلِ بیت اطہار و امام مہدی رضی اللہ عنہم، عظمت ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن اور عظمت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین و خلفاے راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین ایمان کا جز ہے۔ ان کی تکفیر کرنے والا دائرۂ اسلام سے خارج ہے اور ان کی توہین و تنقیص حرام اور قابلِ مذمت و تعزیری جرم ہے۔
۵- ایسی ہر تقریر و تحریر سے گریز و اجتناب کیا جائے گا جو کسی بھی مکتبۂ فکر کی دل آزاری اور اشتعال کا باعث بن سکتی ہے۔
۶- شرانگیز اور دل آزار کتابوں، پمفلٹوں اور تحریروں کی اشاعت، تقسیم و ترسیل نہیں کی جائے گی۔
۷- اشتعال انگیز اور نفرت انگیز مواد پر مبنی کیسٹوں پر مکمل پابندی ہوگی اور ایسی کیسٹیں چلانے والا قابلِ سزا ہوگا۔
۸- دل آزار، نفرت آمیز اور اشتعال انگیز نعروں سے مکمل احتراز کیا جائے گا۔
۹- دیواروں، بسوں اور دیگر مقامات پر دل آزار نعرے اور عبارتیں لکھنے پر مکمل پابندی ہوگی۔
۱۰- تمام مسالک کے اکابرین کا احترام کیا جائے گا۔
۱۱-تمام مکاتب فکر کے مقاماتِ مقدسہ اور عبادت گاہوں کے احترام و تحفظ کو یقینی بنایا جائے گا۔
۱۲-جلسوں، جلوسوں، مساجد اور عبادت گاہوں میں اسلحہ خصوصاً غیرقانونی اسلحے کی نمایش نہیں ہوگی۔
۱۳-عوامی اجتماعات اور جمعہ کے خطبات میں ایسی تقریریں کی جائیں گی جن سے مسلمانوں کے درمیان اتحاد و اتفاق پیدا کرنے میں مدد ملے۔
۱۴-عوامی سطح پر ایسے اجتماعات منعقد کیے جائیں جن سے تمام مکاتب فکر کے علما بیک وقت خطاب کر کے ملّی یک جہتی کا عملی مظاہرہ کریں۔
۱۵- مختلف مکاتب فکر کے متفقات اور مشترکہ عقائد کی تبلیغ اور نشرواشاعت کا اہتمام کیا جائے گا۔
۱۶- باہمی تنازعات کو افہام و تفہیم اور تحمل و رواداری کی بنیاد پر طے کیا جائے گا۔
۱۷-ضابطۂ اخلاق کے عملی نفاذ کے لیے ایک اعلیٰ اختیاراتی بورڈ تشکیل دیا جائے گا جو اس ضابطے کی خلاف ورزی کی شکایات کا جائزہ لے کر اپنا فیصلہ صادر کرے گا، اور خلاف ورزی کے مرتکب کے خلاف کارروائی کی سفارش کرے گا۔
ان گزارشات کے ساتھ ہم ایک تیسری بات بھی کہنا چاہتے ہیں اور پوری ذمہ داری اور بے باکی کے ساتھ کہنا چاہتے ہیں۔ وہ یہ کہ ایک مدت سے مغربی اقوام اور خصوصیت سے امریکا کے پالیسی ساز اداروں اور خود امریکی حکومت کی یہ پالیسی رہی ہے کہ مسلم دنیا کو تقسیم در تقسیم کا نشانہ بنایا جائے، اور اس میں نسلی اور زبانی عصبیتوں کے ساتھ مذہبی، مسلکی اور فرقہ وارانہ عصبیتوں کو اُبھارا جائے اور ان کی بنیاد پر مسلم ممالک کو تقسیم کیا جائے۔
اس سلسلے کا آغاز مغربی استعمار کے مسلم دنیا پر غلبے کے ساتھ ہی ہوگیاتھا اور دولت ِ عثمانیہ کو پارہ پارہ کرنے کے لیے ان ہی عصبیتوں کو اُبھارا گیا تھا۔ پھر ۱۹۶۰ء کی دہائی میں ہنری کسنجر نے عرب دنیا کو امریکا کے قابو میں رکھنے اور اسرائیل کو تحفظ فراہم کرنے کے مذموم مقاصد کو یقینی بنانے کے لیے جو حکمت عملی تجویز کی تھی، اس میں نسلی اور مذہبی عصبیت کی بنیادوں پر عرب ممالک کے سیاسی نقشے کی ازسرنو تشکیل کو مرکزی اہمیت حاصل تھی۔ متعدد امریکی تھنک ٹینک انھی خطوط پر پالیسی سازی کے مشورے دیتے رہے ہیں اور نئے سیاسی نقشے بنانے میں مصروف ہیں۔
رابن رائٹ نے نیویارک ٹائمز میں ۲۸ستمبر ۲۰۱۳ء کی اشاعت میں مشرق وسطیٰ کا ایک نیا نقشہ تجویز کیا ہے جو نئی سُنّی اور شیعہ ریاستوں سے عبارت ہوگا اور آج کے پانچ ممالک ۱۴ملک بن جائیں گے۔ عراق اس کی پہلی بڑی تجربہ گاہ بنائی گئی تھی اور شام، بحرین اور افغانستان کو اس آگ میں دھکیلنے کی کوششیں ہورہی ہیں اور پاکستان بھی اس مذموم ایجنڈے کا حصہ ہے۔ مقصد یہ کہ جہاں بھی کسی ملک کو فوری طور پر تقسیم کیاجاسکتا ہو، وہاں اس کے لیے فضا سازگار کی جائے اور جہاں فرقہ وارانہ اور مسلکی ریاستیں نہ بھی بن سکتی ہوں وہاں بھی فرقہ اور مسلک کی بنیاد پر مسلمانوں کو ایک دوسرے سے لڑانے کا کھیل کھیلا جائے ،اور اس میں امریکا ہی نہیں چند مسلمان ممالک کے کچھ حکمران بھی اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔
عراق میں امریکا نے یہ سارا کھیل کس طرح کھیلا ہے، اس کی پوری تصویر ایک تجزیہ نگار ایشلے اسمتھ (Ashley Smith) نے اپنے ایک حالیہ مضمون میں پیش کی ہے جو کاؤنٹرپنچ کے ۱۱نومبر ۲۰۱۳ء کے شمارے میں شائع ہوا ہے۔ اس سے چند اقتباس پیش کیے جاتے ہیں تاکہ سامراجی قوتوں کے اصل کھیل کو سمجھاجاسکے اور ان لبرل دانش وروں کا اصل چہرہ بھی دیکھا جاسکے جو اس خطرناک کھیل میں آلۂ کار بن رہے ہیں۔
بلاشبہہ بیرونی قوتیں اپنے مقاصد کے حصول کے لیے اپنا کھیل کھیل رہی ہیں لیکن ان کو اعوان و انصار ہمارے اپنے درمیان سے مل رہے ہیں، اور ہماری فکری اور سیاسی قیادت اپنی لاعلمی یا مفادات کی پرستش میں شعوری یا غیرشعوری طور پر ان کے مقاصد کے آگے بڑھانے کا ذریعہ بن رہی ہے۔ ضرورت ہے کہ قوم ان بیرونی سازشوں کو بھی سمجھے لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ اپنے گھر کی حفاظت اور اپنی صفوں کو ایسے عناصر سے پاک کرنے کی فکر کرے جو اس خطرناک کھیل کا حصہ بن رہے ہیں۔
ایشلے اسمتھ صاف لفظوں میں کہتا ہے:
عراق اور خطے میں فرقہ واریت پھیلنے کے پیچھے اصل مجرم امریکا ہے۔
بش انتظامیہ سُنّیوں اور شیعوں دونوں کی اس مزاحمت کے خلاف جنگ کی مرتکب ہوئی جو وہ بیرونی استعمار کے خلاف کر رہے تھے۔ امریکی افواج نے پہلے سُنّی مزاحمت کو بہت زیادہ ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا اور گھروں پر حملے، عام آدمیوں کی پکڑدھکڑ، ابوغریب میں قیدیوں پر ٹارچر، اور پورے پورے شہروں، جیسے فلوجہ میں تباہی پھیلانے کو ہدف بنایا۔ اس کے ساتھ ہی امریکا نے شیعہ رہنما مقتدا الصدر اور اس کی مہدی فوج کو جبروتشدد کا نشانہ بنایا۔ ایک مختصر عرصے کے لیے ایسا محسوس ہوا کہ وہ ٹوٹی پھوٹی سُنّی اور شیعہ مزاحمت جو متحد ہونے والی ہے، اس کو روکنے کے لیے واشنگٹن نے سامراج کی پٹاری کا پرانا نسخہ: ’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘ کو استعمال کیا۔ اس طرح امریکا نے اپنے اقتدار کو مضبوط کرنے کے لیے فرقہ واریت کو بڑھایا جس کے ذریعے عراق میں جاری تشدد کا بیج ڈالا گیا۔
ایشلے اسمتھ نے اپنے مضمون میں صدربش کے دور میں رُوبۂ عمل لائی جانے والی حکمت عملی کا قدم بہ قدم ذکر کیا ہے اور پوری تفصیل سے امریکی اقتدار کے چھے سال کا جائزہ لے کر دکھایا ہے کہ کس طرح عراق میں شیعہ سُنّی تصادم کی آگ کو بھڑکایا گیا، اور اب عراق شیعہ، سُنّی اور کرد تین حصوں میں عملاً بٹ چکا ہے۔
اپنے اس تجزیے کی تائید میں ایشلے اسمتھ نے ایک اور مصنف نیر روزن (Nir Rosen ) کی کتاب Aftermath: Following the Bloodshed of America's Wars in the Muslim World کا حوالہ دیا ہے جس کا ایک اقتباس چشم کشا ہے:
گو شیعہ اور سُنّیوں کے درمیان کبھی بھی مکمل ہم آہنگی نہیں رہی، لیکن ان کے درمیان عراق پر امریکی حملے کے وقت تک خانہ جنگی کی تاریخ بھی نہیں تھی۔ آج اس سلسلے میں بین الاقوامی سطح پر فروغ دینے والی فرقہ واریت، ذرائع ابلاغ میں مباحث کی بھرمار اور سیاست دانوں اور علما کے جو مباحثے نظر آرہے ہیں ان میں سے کوئی چیز بھی نہیں تھی، لیکن عراق پر قبضے کے بعد جو علاقے امریکا کے قبضے میں تھے ان میں سُنّیوں اور شیعوں کے درمیان خونیں خانہ جنگی کا سلسلہ شروع ہوا۔ یہاں تک کہ شیعہ اور سُنّی تعلقات اس سطح تک پہنچ گئے کہ اگر آپ کسی اجنبی سے ملیں تو پہلی بات یہ جاننا چاہیں گے کہ وہ شیعہ ہے یا سُنّی۔
اسی طرح خود رینڈ کارپوریشن جو امریکا کا ایک بہت ہی معروف اور بااثر تحقیقی ادارہ ہے، اس کی ایک اہم رپورٹ The Muslim World After 9/11 جو صدر جارج بش کے دوسرے دور میں شائع ہوئی تھی اور جو باقاعدہ امریکا کی ایئرفورس کی دعوت پر تیار کی گئی تھی اور اس واضح مقصد کے لیے تیار کی گئی تھی کہ مسلم دنیا میں وہ کون کون سے کمزور پہلو ہیں جن کا فائدہ اُٹھایا جاسکتا ہے۔ تحقیق کروانے والوں کے اپنے الفاظ میں:
فرقہ ،نسل ، علاقہ اور قوم کی بنیاد پر جو تفریق موجود ہے اس کی تشخیص کرنا اور یہ اندازہ کرنا کہ اس تفریق سے امریکا کے لیے کس طرح کے چیلنج اور مواقع پیدا ہورہے ہیں۔
رینڈ کارپوریشن نے اس تحقیقی رپورٹ میں یہ مشورہ دیا تھا کہ:’’شیعہ سُنّی اور عرب اور غیرعرب کے اختلاف کو مسلم دنیا میں امریکا کے پالیسی مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے‘‘۔
اس رپورٹ میں اس توقع کا بھی اظہار کیا گیا تھا کہ نئے حالات میں خود سعودی عرب کی شیعہ آبادی امریکا کی طرف اپنے جھکائو کا مظاہرہ کرے گی:
ان کی اُمید یہ ہے کہ عراق میں جمہوریت کے ذریعے شیعہ اکثریت کو اس ملک میں سیاست میں زیادہ مقام ملے گا اور سعودی عرب میں اپنے بھائیوں کی مدد کرنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوگا۔ اس طرح کی اُمیدیں امریکا کے لیے یہ مواقع پیدا کرتی ہیں کہ وہ اپنی پالیسی کو شیعہ جذبات سے ہم آہنگ کرے تاکہ جن ملکوں میں دوسرے لوگ حکمران ہیں وہاں انھیں زیادہ سے زیادہ مذہبی اور سیاسی اظہار کی آزادی ملے اور اپنے معاملات میں ان کی راے کا وزن بڑھے۔
یہ ہے وہ نقشۂ جنگ جو ہمارے دشمنوں نے ترتیب دیا ہے اور ہم ہیں کہ اس جنگ میں شریک ہوکر اپنے ہی دشمنوں کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے جرم میں شریک ہورہے ہیں۔
مسلمانوں کے تمام ہی معروف فرقے اور مسالک صدیوں سے ایک اُمت کے حصے کے طور پر اپنا اپنا کردارادا کر رہے ہیں اور اس کی بنیاد یہ ہے کہ اللہ کو اپنا رب ماننے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ہادی اور آقا، اور سند تسلیم کرنے کے بعد ہم سب ایک رشتے میں جڑگئے ہیں اور اختلافات جو بھی ہیں، وہ اپنی اپنی دلیل پر مبنی ہیں جن کا ماخذ اور سند بالعموم قرآن و سنت ہی ہیں، اور ہر ایک کا مقصد اور خواہش اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت ہی ہے:
اِنَّ ھٰذِہٖٓ اُمَّتُکُمْ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً ز وَّ اَنَا رَبُّکُمْ فَاعْبُدُوْنِ o وَ تَقَطَّعُوْٓا اَمْرَھُمْ بَیْنَھُمْ ط کُلٌّ اِلَیْنَا رٰجِعُوْنَo (الانبیاء ۲۱:۹۲-۹۳) یہ تمھاری اُمت حقیقت میں ایک ہی اُمت ہے اور میں تمھارا رب ہوں، پس تم میری عبادت کرو ، مگر (یہ لوگوں کی کارستانی ہے کہ) انھوں نے آپس میں اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کرڈالا___ سب کو ہماری طرف پلٹنا ہے۔
پھر اللہ تعالیٰ کا واضح حکم ہے کہ:
وَ اعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوْا ص وَ اذْکُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ اِذْ کُنْتُمْ اَعْدَآئً فَاَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِکُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہٖٓ اِخْوَانًا وَ کُنْتُمْ عَلٰی شَفَا حُفْرَۃٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنْقَذَکُمْ مِّنْھَا ط کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمْ اٰیٰتِہٖ لَعَلَّکُمْ تَھْتَدُوْنَo (اٰل عمران ۳:۱۰۳) سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑلو اور تفرقے میں نہ پڑو۔ اللہ کے اُس احسان کو یاد رکھو جو اس نے تم پر کیا ہے۔ تم ایک دوسرے کے دشمن تھے، اُس نے تمھارے دل جوڑ دیے اور اس کے فضل و کرم سے تم بھائی بھائی بن گئے۔ تم آگ سے بھرے ہوئے ایک گڑھے کے کنارے کھڑے تھے، اللہ نے تم کو اس سے بچالیا۔ اس طرح اللہ اپنی نشانیاں تمھارے سامنے روشن کرتا ہے شاید کہ ان علامتوں سے تمھیں اپنی فلاح کا سیدھا راستہ نظر آجائے۔
معلوم ہوا کہ اللہ کی رسی، یعنی دین اور شریعت کو مضبوطی سے تھامنا ہی دنیا میں راہِ ثواب کے حصول اور آخرت میں کامیابی کا ذریعہ ہے اور اُمت کی وحدت کتاب و سنت پر قائم رہنے پر منحصر ہے۔ پھر تفرقہ اور آپس میں پھوٹ ڈالنے سے واضح طور پر منع فرمایا ہے کہ یہ اُمت کو پارہ پارہ کرنے کا راستہ ہے۔ قابلِ غور نکتہ یہ ہے کہ اختلاف سے منع نہیں کیا، تفرقے سے روکا ہے اور دونوں میں جوہری فرق ہی یہ ہے کہ اختلاف ، اخلاص اور دیانت سے، دلیل کی بنیاد پر، تلاشِ حق کے جذبے ہی کی خاطر ایک فطری عمل ہے جس کی روایت دور رسالت مآبؐ اور صحابہؓ سے آج تک اُمت کی روشن شاہراہ کا حصہ رہی ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ: اِخْتِلَافُ اُمَّتِیْ رَحْمَۃٌ ’’میری اُمت کے درمیان اختلاف راے ایک رحمت ہے‘‘۔
مفتی محمد رفیع عثمانی ’اختلاف‘ اور ’تفرق‘ کا فرق یوں واضح فرماتے ہیں کہ ’’اختلاف کا حاصل اور لب ِ لباب تین چیزیں ہیں: ایک یہ کہ جو اختلاف قرآن و سنت کی بنیاد پر اخلاص و للہیت کے ساتھ ہو، اور اختلاف کرنے والوں میں وہ اہلیت بھی موجود ہو جو اس کے لیے ضروری ہے، تو یہ اختلاف ممنوع نہیں بلکہ اُمت کے لیے رحمت ہے۔
دوسرے یہ کہ یہ اختلاف ایسے مسائل میں ہو جن میں قرآن و سنت نے کوئی دوٹوک فیصلہ نہیں کیا ، اور ایسے مسائل میں جن میں اجتہاد کی گنجایش ہوتی ہے، یعنی ایک سے زیادہ آراکا احتمال ہوتا ہے۔ ان میں جو فریق بھی جو راے دلائل کی بنیاد پر قائم کرلے وہ ناجائز اور ناپسندیدہ نہیں ہوتی۔
تیسری بات یہ ہے کہ ہم جو، مثلاً یہ کہتے ہیں کہ ہم حنفی ہیں اور فلاں شافعی یا مالکی یا حنبلی ہے، تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوتا کہ امام ابوحنیفہؒ کا قول ہی یقینا، یقینا صحیح ہے، اور امام شافعیؒ کا قول یا کسی اور امام، مثلاً امام احمد بن حنبلؒ یا اما م مالکؒ کا قول جو اس کے مقابلے میں ہے، وہ یقینا غلط ہے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہمارا قول مَظْنُوْنُ الصَّوَابْ اور مُحْتَمَلُ الْخَطَائِ ہے، جب کہ دوسروں کا قول مَظْنُوْنُ الْخَطَائِ اور مُحْتَمَلُ الصَّوَابِ ہے،یعنی ظنِ غالب یہ ہے کہ امام ابوحنیفہؒ کا قول صحیح ہے، اگرچہ احتمال اس کے غلط ہونے کا بھی ہے۔ دیگر ائمہ کے بارے میں ہمارا نظریہ یہ ہے کہ ہمارا ظن غالب یہ ہے کہ وہ خطا ہے لیکن احتمال یہ بھی ہے کہ وہ صحیح ہو۔
دوسری چیز ہے ’تفرق‘، یعنی مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنا۔ یہ اتنا بڑا گناہ ہے کہ شریعت نے کسی بھی حالت میں اس کی اجازت نہیں دی۔ خنزیر کا گوشت کھانا جتنا بڑا حرام ہے، مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنا اس سے بڑا حرام ہے۔ خالص انگور کی شراب پینا جتنا بڑا گناہ ہے، مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنا اس سے بڑا گناہ ہے..... لیکن مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنے کی اجازت کسی حالت میں نہیں دی۔ جتنا ہم نے قرآن و سنت میں غور کیا اور جتنا ہمارے بزرگوں نے ہمیں سکھایا، ہمیں یہی نظر آیا کہ ’تفرق‘ اور فرقہ بندی کے جواز کی کوئی صورت نہیں‘‘۔
اور پھر رواداری اور رحماء بینھم بننے کا نسخہ بھی یوں بیان کرتے ہیں:’’اس سلسلے میں حکیم الامت حضرت تھانوی کا ملفوظ جو بہت مختصر ہے، یاد رکھنے کے قابل ہے، وہ یہ کہ ’’اپنا مسلک چھوڑو نہیں، دوسروں کا مسلک چھیڑو نہیں‘‘۔ جو جس مسلک کا پیروکار ہے وہ اپنے مسلک پر عمل کرے، لیکن دوسروں کو نہ چھیڑے۔ پس میری گزارشات کا خلاصہ یہ نکلا کہ اختلاف راے جائز ہے اور اختلاف کرنے والوں کی آرا کا احترام لازم ہے لیکن افتراق کسی حال میں جائز نہیں۔ ہم اسی افتراق کی وجہ سے تباہ ہورہے ہیں۔ آج کفر ہمیں مٹانے پر تلا ہوا ہے، اور ہم آپس میں جھگڑے کر رہے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر ایک اپنے اپنے مسلک پر عمل کرے اور بھائیوں کی طرح مل کر رہیں اور مل کر کفر کا مقابلہ کریں‘‘۔
علامہ اقبال نے مسلمانوں کی حالت اور وقت کی ضرورت دونوں کو کس خوبی سے پیش کیا ہے:
منفعت ایک ہے اس قوم کی، نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبیؐ، دین بھی، ایمان بھی ایک
حرم پاک بھی، اللہ بھی، قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں