دسمبر ۲۰۱۳

فہرست مضامین

تاجکستان کا صدارتی انتخاب

عبد الغفار عزیز | دسمبر ۲۰۱۳ | اخبار اُمت

Responsive image Responsive image

وسطی ایشیا کی اہم مسلم ریاست تاجکستان میں ۶ نومبر ۲۰۱۳ء کو ہونے والے صدارتی انتخابات میں صدر امام علی رحمانوف ہی حسب سابق دوبارہ صدر منتخب ہوگئے۔ سرکاری اعلان کے مطابق انھیں ۸۳ فی صدسے زائد ووٹ ملے۔ جس طرح ہر انسان اپنے گناہوں کا سب سے اہم گواہ خود ہوتا ہے، اسی طرح ۸۳فی صد کی اصل حقیقت بھی سب سے زیادہ رحمانوف ہی کو معلوم ہے۔ انتخابات میں ان کی سب سے مضبوط حریف، انسانی حقوق کی فعال علم بردار، معروف وکیل خاتون نیکولا بابا نزارووا تھیں۔ انھیں تحریک اسلامی( تحریک نہضت)کی مکمل تائید بھی حاصل تھی۔ تقریباً سب تجزیہ نگار متفق تھے کہ بے داغ شخصیت کی حامل ۶۵سالہ نزارووانہ صرف بھرپور مقابلہ کریں گی بلکہ وہ کامیابی کے جھنڈے بھی گاڑسکتی ہیں۔بڑے پیمانے پر ان کے حامیوں کی گرفتاریوں اورووٹر لسٹوںمیں تحریف جیسے دھاندلی کے مختلف ہتھکنڈوںکے باوجود بھی صدر کو اپنی کامیابی کا یقین    نہ ہوا، تو بالآخر ان کے کاغذات نامزدگی یہ کہتے ہوئے مسترد کردیے گئے کہ وہ اپنے کاغذات نامزدگی کے ہمراہ ۲۱ہزار تائید کنندگان کے دستخط پیش نہیں کرسکیں۔ ظاہر ہے کہ پھر رحمانوف ہی ’جنگل کا بادشاہ‘ تھا۔

 تاجکستان میں تحریک بیداری۱۹۹۱ء میں سوویت یونین کے خاتمے سے پہلے ہی شروع ہوگئی تھی، بلکہ سوویت یونین کے زیرتسلط تمام علاقوں میں اسلامی تحریک کا باقاعدہ زیر زمین آغاز تو ۱۹۷۸ء سے بھی پہلے ہوگیا تھا۔ افغان جہاد کے دوران بھی ایسے بہت سے ’گم نام سپاہیوں‘ نے کاردعوت و تربیت انجام دیا کہ جن کا علم صرف اللہ کو ہے یا اس کے ان بے نفس بندوں کو۔ گاڑیوں کی ڈگیوں میں سفر کرتے اور درندوں کے خونی پنجوں کے درمیان سے گزرتے ہوئے ان مخلص نفوس نے روسی زبان میں تفہیم القرآن اور دیگر کتب کا ترجمہ ان تمام علاقوں تک پہنچایا اور بالآخر سوویت یونین کے خاتمے کے اعلان کے ساتھ ہی ان مسلم ریاستوں میں تحریک بیداری ساری دنیا کے سامنے آگئی۔

۱۹۹۰ء میں سوشلسٹ پارٹی کے سربراہ قہار مخماکوف کو تاجکستان کے صدر کے طور پر مسلط کیا گیا تو عوام نے اسے مسترد کرتے ہوئے سوشلسٹ پارٹی کا ہیڈ کوارٹر نذر آتش کردیا اور پورے ملک میں عوامی تحریک شروع ہوگئی۔ اگرچہ ۱۹۹۱ء میں سوویت یونین کی باقاعدہ تجہیز و تکفین ہوگئی تھی، لیکن تاجکستان سمیت تمام وسط ایشیائی ریاستوں میں روسی مداخلت و نفوذمسلسل جاری رہا، جو   آج بھی جاری ہے۔تاجکستان نے توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لیے ایک بڑا ڈیم (روغون ڈیم) بنانے کا اعلان کیا ہے۔ اس پر عمل در آمد کی راہ میں پڑوسی ریاست ازبکستان کی طرف سے سخت احتجاج اور دھمکیاں دی جاتی ہیں کہ ’’نہیں بننے دیں گے، اس سے ہمارا پانی اور کپاس کی بنیادی فصل متاثر ہوتی ہے‘‘۔ روس نے تاجکستان کو اس یقین پر کہ وہ روغون ڈیم بنانے کے لیے اس کی حمایت کرے گا، وہاں اپنے عسکری اڈے بنانے کا معاہدہ کر لیا ہے جس کے مطابق روس ۲۰۳۰ء تک تاجک سرزمین استعمال کرسکے گا۔

دوسری طرف افغانستان پر امریکی حملے کے ساتھ ہی امریکا نے بھی افغانستان کی اس اہم پڑوسی ریاست میں اپنے لیے مزید جگہ بنانا شروع کر دی تھی۔ احمد آباد کا فوجی اڈا بحال کر تے ہوئے اسے ایک مستقل امریکی اڈے کی حیثیت دے دی گئی ہے۔ ازبکستان، قرغیزستان اور تاجکستان کے سنگم پر ایک اورامریکی اڈا فعال ہے۔ امریکا نے اس علاقے کو ’دہشت کی تکون‘ قرار دیا ہے۔ پروپیگنڈا کیا جارہا ہے کہ اس دشوار گزار پہاڑی علاقے میں دہشت گردوں کے اڈے ہیں،    یعنی ایک بار پھر ویسی ہی صورت حال بنائی جا رہی ہے جیسی آج سے تقریبا ایک صدی پہلے تھی۔   ۱۹۱۷ء میں سوشلسٹ انقلاب نے پورے خطے کو اپنے خونی پنجوں میں دبوچ لیا تھا۔اگرچہ ۱۹۲۹ء میں ازبکستان اور تاجکستان کو دو الگ الگ اور خودمختار ریاستوں کا درجہ دینے کا اعلان کیاگیا، لیکن پوری صدی کا اصل محور سوویت یونین کو سپریم طاقت بنانا اور اسلام کو جڑ سے اکھاڑ دینا ہی قرار پایا۔

گذشتہ صدی کی باقی تفصیلات کو فی الحال چھوڑتے ہوئے آیئے ذرا گذشتہ دوعشروں کا جائزہ لیں۔ ۲۲ ستمبر ۱۹۹۱ء کو ۱۲ ربیع الاول کی مناسبت سے سیرت نبویؐ کا پروگرام ختم ہوا، توعوام تاجکستان کے دار الحکومت دوشنبے کے وسط میں نصب لینن کے ۲۵ ٹن کے بت کے گرد جمع ہوگئے۔ اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اللہ اکبر کی صدائیں بلند کرتے انھوں نے یہ گرانڈیل بت گرا کر پاش پاش کردیا۔ مظاہرین ساتھ ہی ساتھ علامہ اقبال کا وہ معروف اور انقلابی فارسی ترانہ و الہانہ انداز سے گارہے تھے کہ جس میں انھوں نے پوری اُمت کو گہری نیند سے جاگنے اور اُٹھ کھڑا ہونے کی صدا لگائی تھی    ؎

از ہند و سمرقند و عراق و ہمداں خیز
از خوابِ گراں ، خوابِ گراں خوابِ گراں خیز

لیکن ان تمام عوامی جذبات کو بالاے طاق رکھتے ہوئے،۲۴نومبر کو ہونے والے ملک کے پہلے صدارتی انتخابات میں روس نوازرحمان نبیوف کی صدارت کا اعلان کردیا گیا۔ عوام نے   ’لینن آباد‘ شہر سے تعلق رکھنے والے روس کے اس وفادار کا اقتدار بھی مسترد کردیا۔ ملک گیر مظاہرے عروج پر پہنچ گئے۔ اسلامی تحریک اور سیکولر جماعتیں انتخابات میں دھاندلی اور روسی مداخلت کے ذریعے جیتنے والے کے خلاف یک آواز تھیں۔ پھر جب ایئرپورٹ سمیت اہم سرکاری عمارتیں اپوزیشن کے ہاتھ میں آگئیں، تو مذاکرات کے دور چلے۔ ۱۱ مئی ۱۹۹۲ء کو ایک قومی حکومت تشکیل دینے اور اپوزیشن کو اہم وزارتوں سمیت آٹھ وزارتیں دینے کا اعلان کیا گیا لیکن نیتوں میں فتور تھا، معاہدے پر عمل درآمد نہ کیا گیا۔ اپوزیشن سڑکوں پر ہی رہی۔ کئی ماہ جاری رہنے والی اس عوامی تحریک کے بعد ستمبر ۱۹۹۲ء میں ازبکستان اور روس نے یہ کہتے ہوئے اپنی باقاعد افواج تاجکستان میں اُتار دیں کہ وہاں ’اسلامی قوتوں‘ کے اقتدار میںآنے کا خطرہ ہے۔ ساتھ ہی امام علی رحمانوف کو مسندصدارت سونپ دی گئی۔ موصوف نے آتے ہی اپوزیشن بالخصوص تمام اسلامی مراکز و شخصیات کے خلاف کارروائیاں شروع کردیں۔ لاکھوں شہریوں کو تباہ حال افغانستان میں پناہ گزیں ہونا پڑا۔ بڑی تعداد کو ملک کے اندر ہی بے گھر کردیا گیا۔

۱۹۹۲ء سے ۱۹۹۶ء تک کا یہ سارا عرصہ عوامی تحریک کا عرصہ تھا۔ باقاعدہ جہادی کارروائیاں بھی شروع ہوگئیںاور اسی دوران حکومت اور اپوزیشن میں کسی نہ کسی طور مذاکرات کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ ۲۳دسمبر ۱۹۹۶ء کو صدر رحمانوف اور متحدہ اپوزیشن لیڈر سید عبد اللہ نوری نے ماسکو میں ایک معاہدے پر دستخط کیے۔ اس کے مطابق عوام کو آزادیاں دینے اور تحریک نہضت سمیت اپوزیشن جماعتوں کو اقتدار میں شریک کرنے کا اعلان کیا گیا۔ کہا گیا تھا کہ ملک کے تمام شہریوں کو آزادانہ طور پر انتخابات میں شرکت اور پارلیمنٹ میں آنے کا موقع دیا جائے گا۔ حکومت میں شریک اپوزیشن لیڈروں کو اختیارات دیے جائیں گے۔ ساتھ ہی ساتھ ملک میں اصلاحات اور مجاہدین کو تاجکستان کی باقاعدہ فوج میں شامل کرنے کا وعدہ بھی کیا گیا۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق تاجکستان میں مسلم آبادی کا تناسب ۸۴ فی صد ہے، وعدہ کیا گیا کہ انھیں مکمل طور پر اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی گزارنے کا موقع دیا جائے گا۔ آغازِ کار میں بعض فیصلوں پر عمل درآمد بھی ہوا۔ مہاجرین کی واپسی شروع ہوگئی۔ بعض حکومتی مناصب اپوزیشن کو بھی دیے گئے، لیکن جلد ہی رحمانوف نے اپنا اصل چہرہ دکھانا شروع کردیا۔ ہروعدے کی خلاف ورزی کی گئی۔ عام شہریوں سمیت ایک ایک کرکے اپوزیشن لیڈروں سے نجات حاصل کرنے کی راہ اپنالی گئی۔ اب تک دیگر اپوزیشن جماعتوں کے علاوہ تحریک نہضت کے چوٹی کے کئی رہنما پراسرارطورپر موت کا شکار ہوچکے ہیں۔ پارٹی کے سربراہ اور ایک قومی شخصیت کی حیثیت رکھنے والے سید عبد اللہ نوری اور ان کے نائب محمد شریف ہمت زادہ کے بارے میںتو یہ خدشہ زباں زدعام ہے کہ انھیں زہر دے کر موت کی وادی میں دھکیلا گیا۔ رہی عوام کو حاصل آزادیاں، تو حالیہ انتخابات ہی ان کا قصہ بیان کررہے ہیں۔ ایک ادھیڑ عمر خاتون ہی کو صدر مملکت کے مقابلے میں لانے کا امکان پیدا ہوا، اسے بھی سامنے نہیں آنے دیا گیا۔ بظاہر پانچ اُمیدوار مخالفت کر رہے تھے لیکن سب مجہول و مغلوب افراد تھے۔ بنیادی طور پر اس لیے لائے گئے تاکہ مقابلے کا تاثر دیا جاسکے۔ سورما صدر تقریباً بلامقابلہ ہی منتخب ہوگئے۔

 روسی فوجوں کے ذریعے ۱۹۹۲ء میںصدر مملکت بننے والے امام علی رحمانوف، حالیہ ڈھکوسلا انتخابات جیسے ہتھکنڈوں اور دستور میں رسمی تبدیلیوں کے بعد خود کو قانونی صدر قرار دے رہے ہیں۔ عالی جناب نے اقتدار کے ۱۰ برس پورے ہونے پر۲۰۰۳ء میں دستوری ترمیم کروائی تھی کہ اب ایک شخص کو صرف دوبار صدر منتخب ہونے کی اجازت ہوگی۔ لیکن ایک ٹرم ہی سات سال کی ہوگی۔ ساتھ ہی یہ فرمان جاری ہوگیا کہ اس دستوری ترمیم پر عمل درآمدتین سال بعد، یعنی ۲۰۰۶ء سے شروع ہوگا۔ ۱۹۹۲ء سے جو صدارتی دور چلا آرہا ہے وہ بھی اس نئی مدت میں شمار نہیں ہوگا۔ اس طرح ۱۴ برس سے چلے آنے والے صدر صاحب ۲۰۰۶ میں پہلی مدت کے لیے منتخب ہوئے اور حالیہ نومبر میں وہ مزید سات برس (۲۰۲۰ء تک) کے لیے دوبارہ منتخب ہوگئے ہیں۔ ۱۴ برس تو یوں پکے ہوگئے۔ اس کے بعد کوئی نہ کوئی صورت نکل ہی آئے گی۔ اکلوتا خدشہ ملک الموت سے  ہے کہ کہیں کوئی گڑبڑ نہ ہوجائے۔

تاجکستان کو سوویت غلامی سے نجات کے بعد بھی بہت سے حقیقی بحرانوں کا سامنا ہے۔ یورنیم اور دیگر قیمتی دھاتوں جیسے قیمتی وسائل سے مالامال، ملک میں غربت تو پہلے بھی تھی، اب اس میں شدید اضافہ ہوگیاہے۔ ملک میں پانی کے وافر ذخائر کے باوجود، توانائی کا بحران سنگین ترہے۔ موسم سرما میں بجلی اور گیس تقریبا ناپید ہوجاتی ہے۔ لاکھوں شہری ان بحرانوں اور بنیادی انسانی حقوق سے محرومی کے باعث ملک چھوڑ چکے ہیں۔ لیکن یہ بنیادی مسائل حل کرنے کے بجاے رحمانوف کی تمام تر توجہ مخالفین کو کچلنے پر مرکوز ہے۔بدقسمتی سے اپنے اقتدار کو ملک و قوم کے لیے ناگزیر سمجھنے والی ہستی کو اصل خطرہ اسلام، اسلامی عناصر اور اسلامی مظاہر ہی سے محسوس ہوتا ہے۔عوام میں تحریک نہضت اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کی ناقابل تردید وسیع حمایت کے باوجود، پارلیمنٹ میں ان کے ایک یا دو افراد سے زیادہ کو آنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ خواتین کا حجاب، مردوں کے چہرے پر سنت نبوی، اور تو اور سفید رنگ کا کھلا لمبا کُرتہ، سر پہ سجی ٹوپی، بیرون ملک (بالخصوص پاکستان میں) دینی تعلیم کا حصول، یہ وہ بڑے بڑے سنگین جرائم ہیں، جن کا مرتکب ’رحمانوف شریعت‘ کے مطابق دہشت گردہے اور اس کے خلاف جنگ ناگزیر ہے۔

روشن خیال قانون کے مطابق مسجد میں ۱۸سال سے کم عمر کے نوجوان نہیں جاسکتے۔ مساجد سے باہر باجماعت نماز نہیں ادا کی جاسکتی۔ سرکاری اداروں یا دفاتر میں تو بالکل نہیں۔ اگر کوئی کسی سرکاری دفتر یا مسجد سے باہر باجماعت نمازکے جرم میں پکڑا جائے تو امام کو بھاری جرمانہ ادا کرنے کی سزا دی جاتی ہے۔ ایک عالمِ دین ہنستے ہوئے بتارہے تھے کہ فقہ کی کتابوں میں امامت کی شرائط کے ضمن میں علمِ دین، بہتر تلاوت اور عمر جیسے مسائل زیربحث آتے ہیں۔ تاجک عوام کہتے ہیں کہ: ’’امامت وہ کروائے جس کی جیب میں زیادہ پیسے ہوں‘‘۔ قانون کے مطابق نمازباجماعت (مسجد سے باہر) جیسے سنگین جرم کی سزا امام صاحب کو دی جاتی ہے۔

ایک بار پھر ’نومنتخب‘ صدر صاحب ساتھ ہی ساتھ خود کو سب سے بہتر مسلمان ثابت کرنے پر بھی مصر ہیں۔ چونکہ ملک کی تقریباً ساری مسلم آبادی امام ابو حنیفہؒ کی پیروکار ہے اس لیے ان کا سال منانے کا اعلان کردیا گیا۔عالی جناب کے ادایگی حج کا خوب چرچا کیا گیا۔ کیونکہ وہ بخوبی آگاہ ہیں کہ جس قوم سے تقریباً ایک صدی تک کے سوشلزم مظالم، اس کی اسلامی شناخت نہیں چھین سکے، تو کوئی دوسرا بھی اسے دولت ِایمان سے محروم نہیں کرسکتا۔یہاں یہ حوالہ بھی بہت اہم اور   دل چسپ ہے کہ سوویت یونین کے خاتمے سے پہلے خود ایک سرکاری سروے میں اس امر پر اظہارِحیرت کیا گیا کہ سوشلسٹ عہد میں جینے والے ۸۰ فی صد مسیحی اپنا عقیدہ چھوڑ کر اللہ کے انکاری اور ملحد ہوگئے تھے۔ اس کے برعکس مسلمان آبادی کے ۸۰ فی صد سے زائد افراد اپنے مذہب پر مضبوطی سے جمے رہے۔ واضح رہے کہ اس وقت وسطی ایشیا کی پانچ مسلم ریاستوں (ازبکستان، قازقستان، قرغیزستان ، ترکمانستان، تاجکستان) میں مسلمانوں کی تعداد ۵ کروڑ سے متجاوز ہے۔

۱۹۹۲ء میں ایک ضعیف ولاغر باباجی منصورہ آئے تو شکستہ عربی بول رہے تھے۔ ہم نے حیرت سے پوچھا آپ کو تو قرآن کریم تک سے محروم کر دیا گیا تھا۔ آپ نے ایمان ہی نہیں قرآن کی زبان تک کی حفاظت کیوں کر کی؟ ہم تہ خانوں میں چھپ چھپ کر تعلیم حاصل کرتے تھے اور آدھی رات کے بعد اپنے بچوں کو جگا جگا کر انھیں قرآن کریم کی زیارت کروایا کرتے تھے۔ ہم نے اپنی نسلوں کے دل میںبھی ایمان کی آبیاری کی ہے،  اسلام سے محرومی نے دل کی پیاس مزید بڑھا دی تھی، باباجی نے جواب دیا۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ ان علاقوں میں کئی دیہات ایسے ہیں جہاں کی اکثر آبادی گھروں میں بھی عربی زبان بولتی ہے۔

یُرِیْدُوْنَ لِیُطْفِئُوْا نُوْرَ اللّٰہِ بِاَفْوَاہِھِمْ وَاللّٰہُ مُتِمُّ نُوْرِہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْکٰفِرُوْنَ o (الصف۶۱:۸) یہ لوگ اپنے منہ کی پھونکوں سے اللہ کے نور کو بجھانا چاہتے ہیں، اور اللہ کا فیصلہ یہ ہے کہ وہ اپنے نور کو پھیلا کر رہے گا خواہ کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔