عبد الغفار عزیز | مارچ ۲۰۱۹ | یاد رفتگان
سرخ و سپید نورانی چہرہ، گردن کو ڈھانپتی ہوئی سفید براق داڑھی، دائمی مسکراہٹ اور بے تکلف شخصیت کے مالک، یہ تھے جناب ڈاکٹر محمد صیام۔ بچپن ہی سے قرآن و سنت اور نیک لوگوں سے تعلق و محبت نے ان کے لیے رب ذوالجلال کی لازوال نعمتوں اور برکتوں کے دروازے کھول دیے۔ پانچ سال تک قبلۂ اوّل مسجد اقصیٰ کے خطیب رہے۔ ۱۵ فروری ۲۰۱۹ء بروز جمعہ سوڈان میں اللہ کو پیارے ہوگئے۔ دُعا اور یقین ہے کہ اللہ کی رحمت نے آگے بڑھ کر استقبال کیا ہوگا۔
جناب ڈاکٹر محمد محمود صیام ۱۹۳۵ء میں مصر میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد محمود صیام کا تعلق فلسطین کے قصبے ’الجورۃ‘ سے تھا۔ تلاش معاش کے لیے مصر کے صوبہ ’الشرقیہ‘ میں جابسے۔ ایک مصری گھرانے میں شادی ہوگئی۔ کچھ عرصے بعد والدین نے واپس فلسطین جانے کا فیصلہ کرلیا۔ ابتدائی تعلیم وہیں حاصل کی۔ اسی دوران فلسطین پر قبضہ کرتے ہوئے اسے صہیونی ریاست اسرائیل بنادینے کا اعلان کردیا گیا۔ بچپن کی وہ تلخ یادیں ان کے دل و دماغ پر نقش تھیں۔ ان کے ساتھ سفروحضر میں کئی ملاقاتوں کا شرف حاصل ہوا۔ آئیے ان کی کہانی خود انھی کے بیان کیے گئے واقعات کی روشنی میں سنتے ہیں:
میں چھے سال کا تھا جب ہم اپنے والدین کے ہمراہ آبائی گاؤں ’الجورۃ‘ واپس چلے گئے۔ آئے دن ہمیں سننے کو ملتا تھا کہ یہودی ہمارے گاؤں سمیت پورے ملک پر قبضہ کرکے ہمیں وہاں سے نکال دینا چاہتے ہیں۔ میں بارہ سال کی عمر کو پہنچا تو ایک روز زندگی کے یہ تلخ ترین لمحات دیکھنا پڑگئے۔ یہودیوں نے ہمارے گاؤں پر قبضہ کرلیا تھا۔ دیگر آبادیوں کی طرح ہمیں بھی فوراً اپنا گھربار چھوڑ کر وہاں سے چلے جانے کا حکم دیا گیا۔ اس دور کی تلخ یادوں میں سے ایک یہ ناقابل فہم اور تلخ حقیقت بھی مجھے یاد ہے کہ ہمیں جب اپنے گھروں سے نکالا گیا، اس سے چند روز قبل وہاں مصری فوج کے دستے آئے اور انھوں نے تلاشی لیتے ہوئے تمام شہریوں سے ہر طرح کا اسلحہ ضبط کرلیا۔ ان کا کہنا تھا کہ آپ کا تحفظ ہم کریں گے لیکن امن و امان کی حفاظت کے لیے آپ لوگ اپنا ہر طرح کا اسلحہ ہمیں جمع کروادیں۔ اسلحہ مصری افواج کو جمع کروادیے جانے کے بعد صہیونی لشکر آئے اور انھوں نے خوں ریزی کرتے ہوئے ہمیں وہاں سے نکال باہر کیا۔ ہم پر ہر طرف سے فائرنگ شروع کردی گئی تو سارے گاؤں والے گھربار چھوڑ کر نکل کھڑے ہوئے۔ کچھ دیر پیدل چلنے کے بعد مجھے ایک اونٹ پر سوار کردیا گیا۔ اس لٹے پٹے قافلے کو مزید خوف زدہ کرنے کے لیے برطانوی فوج کے جہاز انتہائی نیچی پرواز کرتے ہوئے مسلسل ہمارے اوپر سے گزر رہے تھے، تاکہ ہم جلد از جلد اس پورے علاقے سے دور نکل جائیں۔ بعض اوقات جہاز اتنا نیچے آجاتے تھے کہ لگتا تھا، ہمیں اچک کر لے جائیں گے۔ ایک بار جہاز نے نیچے غوطہ لگایا تو میں نے خوف زدہ ہوکر اُونٹ سے چھلانگ لگا دی۔ اسی طرح بھاگتے دوڑتے ہم کئی گھنٹے پیدل چلنے کے بعد غزہ شہر جاپہنچے۔ وہاں کئی مہاجر کیمپ قائم ہوچکے تھے۔ ہم بھی ایک مہاجر کیمپ میں چلے گئے۔ ہماری طرح وہاں موجود ہر شخص یہی سوچ اور اُمید رکھتا تھا کہ حملے اور قتل و غارت کے یہ دن جلد ختم ہوجائیں گے۔ ہم سب جلد اپنے اپنے گھر واپس چلے جائیں گے۔ ہم نے اپنے گھروں کی چابیاں سنبھال رکھی تھیں اور ہر کوئی پیچھے رہ جانے والے مویشیوں اور کھڑی فصلوں کے بارے میں فکر مند تھا۔
دن ہفتوں اور ہفتے مہ و سال میں بدلنے لگے، لیکن فلسطین کے مختلف مہاجر کیمپوں میں بسنے والے لاکھوں فلسطینی باشندوں کو اپنے علاقوں اور گھروں کو واپس آنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ ہم غزہ کے ایک قصبے ’خان یونس‘ میں سمندر کنارے واقع ایک کیمپ میں رہ رہے تھے۔ ہمارے بڑوں نے وہیں ہمارے لیے عارضی سکول قائم کردیے تھے۔ ہم اپنے ساتھ ابتدائی کتابوں اور کاپیوں کے علاوہ ایک ایک اینٹ یا پتھر بھی لے کر جاتے تھے تاکہ ان پر بیٹھ کر پڑھ سکیں۔ اس عالم میں بھی ہم صہیونی حملوں سے محفوظ نہیں تھے۔ ان کے جہاز آئے دن آکر ہمارے مہاجر کیمپوں پر بھی فائرنگ کردیتے تھے۔ اسی طرح کے ایک حملے میں ایک دن میرے والدصاحب کو بھی شہید کردیا گیا۔ وہ اس وقت مہاجرین میں کھانا تقسیم کررہے تھے۔
مہاجر کیمپ میں تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ ہم نے مختلف ہم نصابی سرگرمیوں میں بھی بھرپور حصہ لینا شروع کردیا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ ان سرگرمیوں کا اہتمام کرنے والوں کا تعلق الاخوان المسلمون سے تھا۔ ہم نے قرآن کریم حفظ کیا۔ ہمیں مختلف کھیلوں اور ورزشوں میں حصہ لینے کا موقع ملا۔جناب احمد یاسین بھی ہمارے ہم جولیوں میں شامل تھے۔ ہم شام کے وقت ساحل سمندر پر دوڑ لگانے اور لمبی چھلانگیں لگانے کا مقابلہ کرتے۔ کبھی یہ بھی ہوتا کہ ایک ساتھی رکوع کے عالم میں کھڑا ہوجاتا، ہم دور سے دوڑ کر آتے اور اسے چھوئے بغیر اس کے اوپر سے کود جاتے۔ کبھی ایک نہیں دو دو اور تین تین نوجوان اکٹھے کھڑے ہوتے اور ہم ان کے اوپر سے چھلانگ لگالیتے۔ ایک روز اسی طرح کی چھلانگ لگاتے ہوئے ہمارا دوست احمد یاسین گردن کے بل جاگرا، سخت چوٹ لگی۔ ہم اسے اٹھاکر ان کے گھر لے گئے۔ پانی گرم کرکے مسلسل ٹکور کرتے رہے، لیکن کوئی افاقہ نہ ہوا اور بالآخر وہ مفلوج ہوگئے۔ اللہ کی قدرت کہ ایک روز اسی مفلوج شخص نے اللہ کے حکم و توفیق سے پوری فلسطینی قوم کو ایک نئی زندگی دے دی۔
غزہ کے مہاجر کیمپ ہی کی یہ یادیں بھی دل میں تازہ ہیں کہ ہمارے اساتذہ ہمیں تقاریر کی تربیت بھی دیا کرتے۔ کبھی یہ ہوتا کہ کسی چھوٹی کشتی میں سوار ہوکر ہم کھلے سمندر میں چلے جاتے۔ ہمارے اساتذہ ہمیں فی البدیہ تقریر کرنے کے لیے کوئی موضوع دیتے اور کہتے کہ یہ سمندر کی موجیں، موجیں نہیں آپ کے سامعین ہیں۔ آپ نے ان سے خطاب کرنا ہے۔ ہم تقریر کرتے اور ہمارے اساتذہ ساتھ ساتھ اپنا تبصرہ نوٹ کرتے جاتے۔ اس وقت کبھی خیال بھی نہیں آیا تھا کہ سمندر کی لہروں سے کیے جانے والے یہ خطاب بالآخر قبلۂ اوّل کے منبر پہ خطبات جمعہ کی بنیاد بنیں گے۔
غزہ کے مہاجر کیمپ سے اپنے گھروں کو واپسی تو نہ ہوسکی لیکن ہم کسی طرح وہاں سے نکل کر مصر اور پھر کویت پہنچ گئے۔ وہاں میں نے باقی تعلیم مکمل کی اور تدریس کے شعبے سے وابستہ ہوگیا۔ ۳۰ سال تدریس کا موقع حاصل رہا۔ پھر مکہ مکرمہ کی اُم القریٰ یونی ورسٹی سے پی ایچ ڈی کے لیے اسکالر شپ مل گیا۔ پی ایچ ڈی کرنے کے بعد ہم واپس غزہ لوٹ گئے۔ شیخ احمد یاسین نے وہاں ’اسلامی یونی ورسٹی غزہ‘ کی بنیاد رکھ دی تھی۔ ۱۹۸۳ میں مجھے وہاں تدریس اور پھر یونی ورسٹی کے وائس چانسلر کے طور پر چُن لیا گیا۔
۱۹۸۴ میں اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قبلۂ اوّل مسجد اقصیٰ میں خطابت کا شرف عطا کردیا۔ مجھے یاد ہے کہ پہلی بار مسجد اقصیٰ کے منبر پر کھڑا ہوا تو دل لرز رہا تھا اور ٹانگیں کانپ رہی تھیں۔ بار بار یہ خیال آرہا تھا کہ یہ قبلۂ اوّل ہی نہیں مقبوضہ قبلۂ اوّل ہے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور پھر صلاح الدین ایوبیؒ نے اسے صلیبیوں کے قبضے سے آزاد کروایا تھا، لیکن اس وقت پھر صہیونی قبضے میں ہے۔ ہم نے یہاں صرف اللہ کے حضور سجدہ ریز ہی نہیں ہونا،قبلۂ اوّل کی آزادی کے لیے فریضۂ جہاد کو بھی زندہ کرنا ہے۔ مجھے چار برس تک مسجداقصیٰ میں خطابت کا اعزاز حاصل رہا۔ ۲۸ جولائی ۱۹۸۸ء کو صہیونی افواج نے اس سے محروم کرتے ہوئے مجھے وہاں سے نکال دیا۔ اس دن خود یہودی سرکاری ذرائع کے مطابق مسجد اقصیٰ میں ۲ لاکھ ۴۰ ہزار اہل ایمان نے نماز جمعہ ادا کی تھی۔ مجھے وہاں سے نکالتے ہوئے یہ بچکانہ الزام لگایا گیا کہ: ’’تحریک حماس کی جانب سے جاری ہونے والے بیانات میں لکھتا ہوں‘‘۔
مختلف مجالس میں سنائی گئی اس آپ بیتی سے شیخ محمد صیام کی زندگی کسی حد تک سامنے آجاتی ہے۔ ان سے ملاقاتوں کے دوران ان کی شخصیت کے کئی دیگر روح پرور پہلو اس تصویر کو مکمل کرتے ہیں۔ اسلامی تحریک کے اکثر ذمہ داران و کارکنان کی طرح شیخ محمد صیام بھی قرآن کریم کا ایک نسخہ ہمیشہ اپنے پاس رکھتے تھے۔ جب بھی اور جہاں بھی موقع ملتا وہ اس کی تلاوت کرتے ہوئے خالق دو جہاں سے محو گفتگو ہوجاتے۔ یہ بھی کئی بار دیکھا کہ وہ تلاوت مکمل کرنے کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر اُمتی کے لیے مغفرت، رحمت اور نصرت کی طویل دُعائیں کرتے۔ اُمت کے مظلوموں کا ذکر ہوتا تو فلسطین ، کشمیر، مصر، شام، افغانستان، ہر خطے کا ذکر کرتے۔ اپنے اعزہ و اقارب کا ذکر شروع کرتے تو ماں باپ سے لے کر ان کی نسبت سے ایک ایک رشتے کا ذکر کرتے۔ اس وقت ان کے اساتذہ کی قسمت پر بھی رشک آتا کہ جب وہ ان کا نام لے لے کر انھیں بھی ان پس از تلاوت دُعاؤں میں یاد کرتے۔ آج جب وہ دُعائیں کرنے والی ربانی شخصیت خود دُعاؤں کی محتاج ہوگئی ہے تو یقین ہے کہ اللہ رحیم و کریم نے انھیں بھی دُعائیں کرنے والوں کا ایک عظیم صدقۂ جاریہ عطا کیا ہوگا۔ان کا ایک بیٹا محمود اور ۸ بیٹیاں تھیں، لیکن ان کے لیے صرف ان کی صلبی اولاد ہی نہیں، ان کی فکری و روحانی اولاد بھی یقینا دُعاگو ہوگی۔ ڈاکٹر محمد صیام ایک شان دار شاعر بھی تھے۔ ان کے پانچ دیوان (دعائم الحق، ملحمۃ البراعم (۱۰حصے)۔ میلاد اُمۃ ، سقوط الرفاق ، دیوان الانتفاضۃ) مقصدیت سے بھرپور شاعری کا قیمتی خزانہ ہیں۔ یہ صرف شعری دیوان نہیں مسئلہ فلسطین کی تاریخ اور سرزمین اقصیٰ کی آزادی کی نوید ہیں۔
اتفاق دیکھیے کہ ۱۵ فروری کو ان کی وفات سے ایک دن پہلے پولینڈ کے دارالحکومت وارسو (Warsaw ) میں ایک اہم عالمی کانفرنس منعقد ہوئی۔ اس کانفرنس کا اہتمام امریکی صدر ٹرمپ نے کیا تھا۔ دنیا کے ۷۰ ممالک کو دعوت دی گئی، جن میں سے ۶۰ شریک ہوئے۔ اس کانفرنس کا عنوان تھا: Peace and Security in the Middle East ’مشرق وسطیٰ میں امن و سلامتی کانفرنس‘۔ اس سے خطاب کرتے ہوئے امریکی نائب صدر مائک پنس سمیت اکثر مغربی دانش وروں نے اسے ایک اہم اور تاریخی موقع قرار دیا۔ ان کا ارشاد تھا:
It was a truly historic gathering at the dinner last night Arab and Israeli leaders gathered in the same room to talk about deeply common and shared interests
یہ کانفرنس واقعی ایک تاریخی اجتماع ہے۔ گذشتہ رات عشائیے میں عرب اور اسرائیلی رہنما ایک ہی کمرے میں اکٹھے تھے تاکہ سب مل کر اپنے اہم ترین مشترک مفادات پر تبادلۂ خیال کرسکیں۔
اس کانفرنس میں اکثر ممالک کی نمایندگی نسبتاً کم درجے کے ذمہ دار کررہے تھے، لیکن اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نتن یاہو خود شریک تھا۔ اس نے کانفرنس کے دوران مختلف عرب ذمہ داران و نمایندگان سے الگ الگ ملاقاتیں بھی کیں۔ روس، فرانس اور جرمنی سمیت کئی دیگر اہم ممالک شریک نہیں ہوئے۔ خود فلسطینی اتھارٹی نے بھی اس میں شرکت سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ یہ کانفرنس مسئلۂ فلسطین سے کھلواڑ کرنے کے لیے ہے۔ امریکا اور اسرائیل نے دو وجوہ کی بنا پر اسے ایک کامیاب کانفرنس قرار دیا۔ ایک یہ کہ کئی ایسے عرب ممالک جو اس سے پہلے اسرائیلی قیادت کے ساتھ صرف خفیہ روابط رکھے ہوئے تھے، اب ان تعلقات کا کھلم کھلا اعلان کررہے ہیں۔ دوسرا یہ کہ کانفرنس میں ساری دنیا بالخصوص مسلم ممالک کو یہ کہہ دیا گیا کہ خطے کی سلامتی کے لیے اصل خطرہ سرزمین فلسطین پر اسرائیلی قبضہ و مظالم نہیں، ایرانی ’’دہشت گردی‘‘ ہے۔
کئی تجزیہ نگار یہ توقع ظاہر کررہے تھے کہ اس کانفرنس میں Deal of the Century صدی کی سب سے بڑی سودے بازی پر مشتمل امریکی منصوبے کا اعلان کردیا جائے گا، لیکن بوجوہ اس کا اعلان نہیں کیا گیا۔ البتہ امریکی صدر کے یہودی داماد اور مشرق وسطیٰ کے لیے ان کی خصوصی مشیر جیرڈ کوشنر نے اعلان کیا ہے کہ صدی کی اس سب سے بڑی ڈیل کا اعلان ۱۹؍ اپریل کو ہونے والے اسرائیلی عام انتخابات کے بعد کیاجائے گا۔
تمام تر امریکی دعوؤں کے باوجود وارسو کانفرنس اپنے شرکا اور نتائج کے لحاظ ہی سے ناکام نہیں قرار دی جارہی بلکہ اس میں کئی اندرونی تنازعے بھی اُٹھ کھڑے ہوئے۔ اپنی انتخابی مہم کو تقویت دینے کے لیے اسرائیلی وزیراعظم نے خود میزبان ملک پولینڈ ہی کو رگید ڈالا۔ اس نے کہا کہ ’’میں یہ بات واضح طور پر کہنا چاہتا ہوں کہ پولینڈ نے (یہودیوں کے قتل عام میں) نازیوں کا ساتھ دیا تھا۔ہم تاریخ کو خوب اچھی طرح جانتے ہیں۔ اسے نہ کسی کو تبدیل کرنے دیں گے اور نہ مخفی ہی رہنے دیں گے‘‘۔ اس بیان پر پولینڈ کے صدر سمیت مختلف ذمہ داران حکومت نے سخت احتجاج کیا اور دونوں ملکوں کے مابین یہ تنازع مزید تند بیانات کا سبب بن رہا ہے۔
وارسو کانفرنس میں اسرائیلی وزیراعظم اور دس عرب ملکوں کے نمایندگان اکٹھے تھے کہ ڈاکٹر محمد صیام اللہ کو پیارے ہوگئے۔ اگرچہ دونوں واقعات کا باہم کوئی تعلق نہیں، لیکن ادھر اس کانفرنس کی بازگشت جاری تھی کہ مرحوم کی رحلت پر ان کے وہ بہت سارے اشعار و نظمیں بڑے پیمانے پر مضامین و پیغامات عرب میڈیا کا حصہ بننے لگے کہ جن میں وہ سرزمین اقصیٰ کی یقینی آزادی کا پیغام دیتے ہیں۔ وارسو کانفرنس جیسی عالمی کانفرنسوں کا ذکر ہو یا شیخ احمد یاسین سمیت شہدا فلسطین کی طویل فہرست، خطیب اقصیٰ اس مناسبت سے اپنے جان دار، عوامی شاعری کے ذریعے، اُمت مسلمہ کو قبلۂ اوّل کا پیغام یاد دلاتے ہیں۔ ۹۰ کی دہائی میں بھی اسی طرح کی ایک کانفرنس منعقد ہوئی تھی تو ڈاکٹر محمد صیام نے اس موقعے پر کئی انقلابی نظمیں کہیں۔ یہ تحریر ان میں سے اکثر کی متحمل نہیں ہوسکتی۔
قدرے نرم الفاظ میں کہا گیا ایک بند یہ تھا:
یَاأیہا العربُ الکِرام
أمَا لہذا اللَّیلِ آخِر
أفیُترکُ الشَّعبُ الفِلَسطِینیُّ
فِی المیدانِ حائِر
أین السُّیوفُ الیَعرُ بِیَّاتُ
الصَّقِیلاتُ بَواتِر
أَتَحَوَّلَت تِلکَ السُّیوفُ
اِلی التَّدَابُرِ وَ التَّنَاحُر
أَم أَنَّ ’واعُربَاہ‘ مَا
عَادَت تُؤَثِّر فِی الضَّمائر
[اے معزز عرب حضرات! کیا اس سیاہ رات کا کوئی اختتام نہیں؟ کیا حیران و پریشان فلسطینی عوام کو میدان میں تنہا چھوڑ دیا جائے گا؟ وہ چمکتی ہوئی تیز دھار عرب تلواریں کہاں رہ گئیں؟ کیا اب وہ تلواریں صرف باہمی قتل و غارت کے لیے وقف ہوگئیں؟ یا پھر اب بھائی چارے کی کوئی پکار، ضمیروں پر اثر نہیں کرتی]۔
پھر فلسطینی قوم کی طرف سے اعلان کرتے ہیں:
لَا لَن نُہَاجِرَ کَالطُّیور
مَہما تَکَدَّسَتِ الشُّرُور
وَ لَسَوفَ نَصمُدُ فَوقَ أَرضِ
بِلادِنَا مِثلَ الصُّخُور
نَبنِی کَمَا بَنَت الجُدُودُ
لَنَاعَلیٰ مَرِّ الدُّھُور
وَ لَسَوفَ نَدفَعُ عَن حِمَانا
کَلَّ عَادٍ أو مُغِیر
بِالنَّابِ ۔ إن عَزَّ السِّلّاخُ
وَبِالمَخَالِبِ کَا الصُّقُور
[شر و مصائب جتنے بھی جمع ہوجائیں، ہم پرندوں کی طرح ہجرت نہیں کرجائیں گے۔ ہم مضبوط چٹانوں کی طرح اپنی سرزمین پر ہی ڈٹے رہیں گے۔ جس طرح ہمارے آبا و اجداد نے تعمیر کی، ہم بھی اپنے ان مضبوط بازوؤں سے جو نہ کبھی تھکتے ہیں اور نہ بزدلی سے آشنا ہیں، تعمیر کرتے رہیں گے۔ ہم ہر جارح اور حملہ آور کے مقابلے میں اپنے گھر کا دفاع کریں گے۔ اگر کوئی ہتھیار نہ بھی ملا تو ہم (شیروں کی طرح) اپنے جبڑوں اور شاہینوں کی طرح اپنے پنجوں سے اپنی سرزمین کا دفاع کریں گے]۔
شیخ محمد صیام مرحوم کے یہ اشعار صرف اشعار نہیں،قبلۂ اوّل کی آزادی کے لیے کوشاں مجاہد فلسطینی قوم کا اعلانِ لازوال ہے!