محترم سیّد منور حسن کی مختصر مگر کتابوں پر بھاری تقریر ’تجدید ِ عہد اور فریضۂ اقامت دین‘ کو پڑھ کر ہاتھوں سے پھلستی دعوت تھامنے اور آگے بڑھنے کا جذبہ پیدا ہوا۔ اس خطبے میں خوداحتسابی بھی ہے اور نشانِ منزل بھی۔
پروفیسر خورشیداحمد صاحب نے چودھری رحمت الٰہی صاحب کی یاد میں تحریک کی تاریخ کے بڑے اہم موڑ قلم بند کرکے یہ احساس زندہ کیا ہے کہ یہ قافلہ کن عظیم ہستیوں کی جوانی، صلاحیت اور ایمان سے مرکز ِ نگاہ بنا۔
مَیں پشاور یونی ورسٹی کا طالب علم ہوں۔ ایک دوست سے ترجمان ملا تو اس میں جاوید اقبال خواجہ کے تحقیقی مضمون میں فوجی آمریت اور خود آمر مطلق کی بددماغی اور مولانا مودودی سے عناد کا تذکرہ پڑھ کر سخت افسوس ہوا کہ ہمارے حاکم، ملّت ِ اسلامیہ کے محسنوں کی قدر کرنے سے کتنے بے بہرہ اور بے توفیق ہیں۔
فروری کے شمارے میں بنگلہ دیش اور کشمیر کے احوال کی مؤثر تصویرکشی، خون کے آنسو رُلاتی ہے۔ عابدہ فرحین نے خواتین کو درپیش مسئلے سے آگاہ کیا اور ڈاکٹر وقارمسعود کے معاشی جائزے اور اُمنڈتے بحران نے تشویش میں مبتلا کیا ہے۔
مرزا محمد الیاس صاحب نے ’معاشرتی چیلنج، تقاضے اور ہم‘ میں خود احتسابی کی بنیادیں دکھا کر آنکھیں کھول دی ہیں، جب کہ مجتبیٰ فاروق نے مولانا مودودی کے کشمیر سے ربط کو تازہ کیا ہے۔
ماہ جنوری ۲۰۱۹ء کے شمارے میں ’قرآن کریم اور روحانیت‘ کے آخری صفحے پر دی گئی روایت میں ایک بات اضافی طور پر دَر آئی ہے۔ لکھا ہے کہ ’گرجا میں نبی کریمؐ کی تصویر تھی‘(ص ۳۱)۔ یہ بات درست نہیں۔ مسلم حدیث نمبر ۱۱۸۱ اور ۱۱۸۳ میں صرف تصویروں کا ذکر ہے۔