سوال :مغربی فلسفے کا اپنا ایک نظام اور تاریخی تسلسل ہے، جب کہ علامہ اقبال ؒ کے افکار کی تفہیم کے لیے اسلام اور مشرق کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ کیا اس صورت میں فکرِ اقبال کی افادیت صرف مشرق تک محدود نہیں ہو جاتی؟
جواب: میں اس نظریے سے اتفاق نہیں کرتا۔ اگر آپ مغربی فکر اور تاریخی ارتقا کا جائزہ لیں ، تو یہ بات کھل کر سامنے آ جائے گی کہ اسلام سے اکتسابِ فیض کیے بغیر یورپ ترقی کی منازل طے نہ کر سکتاتھا۔ میرے نزدیک اسلام کے بغیر مغربی تہذیب اور علوم کی تاریخ کا تسلسل قائم رکھنا ممکن نہیں ہے۔ میں تو یہ کہوں گا کہ قرونِ وسطیٰ (Middle Ages) میں اقوامِ مغرب مشّرف بہ اسلام ہو جاتیں ، تو ان کی ترقی کی رفتار میں بے پناہ اضافہ ہوتا۔ ذرا اس پر تو غور کریں کہ جس زمانے میں یورپ جہالت کی تاریکیوں میں بھٹک رہا تھا، اُس دور میں اسلامی مفکرین کا ئنات کی گتھیاں سلجھا رہے تھے۔ اسلامی تہذیب نہ ہوتی تو مغرب ترقی کی راہ پر گامزن نہ ہوتا ۔ میرے خیال میں ہمیں اقبال ؒ کو صرف مشرق تک محدود نہیں کر دینا چاہیے۔ اقبال مشرق اور مغرب دونوں کے لیے سرچشمۂ فیض ہے۔ تاہم، میرے اس نظریے سے یورپ والے بھی اتفاق نہیں کرتے، لیکن اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔
اسی طرح یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ آج مسلم اقوام خواب ِ غفلت میں مبتلا ہیں۔ مسلمان درحقیقت الحاد کے تاریک راستوں میں بھٹک رہے ہیں، لہٰذا آج مشرق اور مغرب دونوں کو اقبال کی ضرورت ہے ، تا کہ توحید کے مرکز پر انسانیت کو جمع کیا جائے۔ ایک طرف مغرب مذہب سے بیگانہ ہو چکا ہے اور وہاں دوسری جانب مشرق رسوم وقیود میں گرفتار ہے۔ افراط اور تفریط کی یہ کیفیت ختم ہونی چاہیے، ورنہ دونوں تباہ ہو جائیں گے۔
اس تباہی سے بچنے کے لیے عملی صورت کیا ہوسکتی ہے؟
یہ ایک مشکل سوال ہے، اس کے لیے توحید کی راہ اختیار کرنا ہوگی ۔ ’اللہ ‘ کی ذاتِ واحد سے رشتہ استوار کیے بغیر مغربی معاشرت بربا د ہو جائے گی۔ جسے مغرب آزادی کہتا ہے وہ دراصل اس کی خودکشی ہے۔ یورپی سیاست دان،دانش ور اور ماہرین سماجیات بہت بلندآہنگ دعویٰ کرتے ہیں: ’’ہم آزاد ہیں…ہم اپنے ضمیر کی آواز سنتے اور اس پر عمل کرتے ہیں‘‘۔ لیکن فی الحقیقت ایسا نہیں، بلکہ وہ خود فریبی میں مبتلا ہیں ‘‘۔
ایک انسان کی زندگی میں تین طرح کی بندگیاں ہو سکتی ہیں: ¤ خدا کی بندگی ¤ کسی آمر کی بندگی ¤ نفسانی خواہشات کی بندگی۔ مغرب یا یورپ تیسری قسم کی بندگی میں مبتلا ہے۔ اگر ہم سب ایک اللہ کی بندگی اختیار کر لیں ، تو غلامی کی سبھی زنجیریں کٹ جائیں گی اور ہم حقیقی معنوں میں آزاد ہو جائیں گے۔ اسی طرح مشرق کے لوگ جو خدا کو کسی نہ کسی شکل میں ماننے کا دعویٰ تو کرتے ہیں، وہ بھی دراصل خرافات ہی میں کھوئے ہوئے ہیں۔ وہ رسوم اور روایات کی پرستش کررہے ہیں۔ صحیح راہ کی جستجو کے لیے اجتہاد کرنا ہو گا۔ میں یہاں غالب کا شعر پیش کروں گا:
ہم موحد ہیں ہمارا کیش ہے ترکِ رسوم
ملتیں جب مٹ گئیں، اجزاے ایماں ہو گئیں
ہم جن بندھنوں اور غلامیوں میں گرفتار ہیں، ان سے نجات حاصل کر لیں اور سچے موحد بن جائیں ، تو آئیڈیل معاشرہ قائم کر سکتے ہیں۔ ’توحید‘ سے میری مراد ’’ اسلامی تصورات کے مطابق اللہ کے وجود پر ایمان ہے،عیسائیت کے ’گاڈ‘ پر ایمان مراد نہیں ہے‘‘۔ کیوںکہ خدا کا مسیحی تصور عقل پر مبنی ہے، جب کہ اللہ اور انسان کا رشتہ روحانی ہے۔ یورپ کو اللہ پر ایمان لانا ہو گا جوارفع خودی (supreme ego) سے متصف ہے اور جو تصورات کی تمام حدوں سے آگے ہے۔
یورپی قومیں قوم پرستی اور نسلی افتخار کے زعم باطل میں مبتلا ہیں۔ کیا رنگ ونسل کے یہ امتیازات عملاً ختم ہو سکتے ہیں ؟
میں ذاتی طور پر وطنیت کے نظریے یعنی Nationalism کے خلاف ہوں۔ میں نے بچپن ہی سے کبھی اپنے اطالوی ہونے پر فخر نہیں کیا۔ میرے خیال میں جو لوگ نسلی افتخار میں مبتلا ہوجاتے ہیں وہ کوئی بڑا تخلیقی کارنامہ سر انجام نہیں دے سکتے۔ دانتے ، گوئٹے اور فارسی کے شعرا نے عظیم تخلیقات ان زمانوں میں کیں ، جب اٹلی ، جرمنی اور ایران کی موجودہ واضح سرحدوں کا تعین نہ ہوا تھا۔ فارسی کے دانش وروں نے غیر ملکی تسلط کے دور میں کارنامے سر انجام دیے، کیوں کہ ایسی صورتِ حال میں ایک آئیڈیل ان کے سامنے ہوتا تھا، اور وہ آئیڈیل تھا ’اسلامی سلطنت ‘ ۔ میری کیفیت یہ ہے کہ میں اپنے لیے پاکستان میں زیادہ مانوس ماحول پاتا ہوں، کیوںکہ پاکستانی عوام میرے تصورات سے زیادہ قریب ہیں۔ لیکن جب یہی بات میں نے ایران میں کہی تو ایرانیوں کو پسند نہ آئی، کہ وہ اپنی فطرت کے اعتبار سے مسلمان بعد میں اور ایرانی پہلے کہلانا چاہتے ہیں۔
یہ آئیڈیل باتیں ہیں۔ عام آدمی تو اپنے روز مرّہ مسائل میں گھرا ہوا ہے ۔ کیا سیاسی ، سماجی اور اقتصادی مسائل کا حل ان آئیڈیلز سے زیادہ ضروری نہیں؟
یہ بات درست ہے ۔ عام آدمی ہماری طرح نہیں سوچتا ۔ میری بہن اٹلی کے ایک کالج میں فلسفہ پڑھاتی ہیں ۔ وہ بھی مجھے یہی کہتی ہیں کہ: ’’ہمیں زندگی کے عملی مسئلے حل کرنے چاہییں۔ کسی کے لیے سکول کا اور کسی کے لیے صحت وصفائی کا مسئلہ زیادہ اہم ہے‘‘۔ لیکن مجھے اس بات سے اختلاف ہے۔ میرے نزدیک آئیڈیل کی اہمیت چھوٹے موٹے عملی مسائل سے زیادہ ہے۔ میںسمجھتا ہوں کہ اقتصادی مسئلے سے زیادہ انسانیت کی یک جہتی اہم ہے ۔ کسی ایک خطے یا علاقے میں بعض مسائل حل کر لینے سے پوری انسانیت کو فلاح حاصل نہیں ہو سکتی ۔ سویڈن کی مثال لے لیجیے ۔ وہاں معاشرتی رہن سہن اور سہولیات کے اعتبار سے صورتِ حال بڑی آئیڈیل تصور کی جاتی ہے، اور بلاشبہہ ایسا ہی ہے۔ صحت ، صفائی اور روز گار کے مسائل حل ہو چکے ہیں۔ لوگ آسودہ زندگی گزارتے ہیں ۔ایک طرح کی وہ جنتِ ارضی تصور کی جاتی ہے۔ لیکن اس پر بھی غور کیجیے کہ بھارت اور افریقہ کے کئی علاقوں میں لوگ بھوکے مر رہے ہیں ۔ ہم سب کو اکٹھے نجات حاصل کرنی چاہیے یا شرمندگی میں مر جانا چاہیے۔ یوں تنہا چھوٹی سی جنت بسا لینے سے تو انسانیت کا کوئی بھلا نہ ہو گا۔
کیا یہ نظریہ ،اشتراکیت سے قریب تر نہ ہو گا؟
اشتراکیت کے حامیوں سے ایک تاریخی غلطی ہوئی جس پر وہ پچھتارہے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام کی برائیوں سے نجات حاصل کرنے کے لیے انھوں نے مذہب کو بھی دیس نکالا دیا۔ ان کی مثال ایسی ہے جیسے ایک بچہ ٹب کے گندے پانی میں پڑا ہو، اور کوئی شخص ٹب سے گندے پانی کے ساتھ بچے کو بھی سڑک یا گندے نالے میں پھینک دے۔ اشتراکی روس میں اقتصادی انقلاب آیا، لوگوں کو روزگار ملا، لیکن معاشی مسئلہ حل کر لینے سے ان کے سبھی مسائل حل نہ ہوئے ۔ اشتراکی معاشرے میں نفرت اور بے چینی کہیں زیادہ اُبھر کر سامنے آئی ۔ اشتراکیت میں روپے پیسے کا مسئلہ حل ہو جاتا ہے، لیکن اس کی جگہ ایسی بیوروکریسی اپنا تسلط جما لیتی ہے کہ جس کے پاس تمام اختیارات ہوتے ہیں ۔ پھر اس کے ساتھ اخلاقی مسئلہ بھی حل طلب ہوتا ہے، جس کےلیے اشتراکی اخلاقیات کوئی حل پیش نہیں کرتی۔
روس میں لوگوں نے جس چیز کی کمی سب سے زیادہ محسوس کی ، وہ ہے روحانیت۔ میرے ایک روسی دوست نے مجھے کہا: ’’آپ لوگ خوش قسمت ہیں کہ آپ اس زندگی کے بعد بھی ایک زندگی کا تصور رکھتے ہیں‘‘ ۔ مذہب میںموت کو بڑی اہمیت حاصل ہے ۔ آخرت میں جواب دہی کا تصور انقلابی ہے۔ دراصل مذہب جو اخلاقی انقلاب لاتا ہے، وہ زندگی کے روحانی اور مادی، دونوں قسم کے مسائل حل کرتا ہے۔
ایسا اخلاقی انقلاب کہاں سے اٹھے گا؟
یہ کوئی نہیں بتا سکتا ۔ جب رومی سلطنت زوال پذیر تھی، تو کسی کو معلوم نہ تھا کہ اس کے بطن سے کوئی نئی تہذیب جنم لینے والی ہے ۔ ہم ایک بحرانی دور میں زندہ ہیں۔ کچھ نہ کچھ تو پردۂ غیب سے ظہور میں آئے گا۔ میں روحانیت پسند ہوں ، اگرچہ میںیہ نہیں جانتا کہ عملاً مستقبل کا نقشہ کیا ہوگا، پھر بھی آنے والے وقت کے بارے میں پُر امید ضرور ہوں۔
اپنے ملک کی سیاسی صورتِ حال کے بارے میں بتائیے؟
اٹلی میں مکمل سیاسی آزادی ہے اور نظامِ حکومت جمہوری پارلیمانی ہے، لیکن کسی سیاسی جماعت کو قطعی اکثریت حاصل نہ ہونے کے باعث حکومت کمزور بنتی ہے۔ اس صورتِ حال میں مخالفین چاہیں تو کسی بھی وقت برسرِ اقتدار جماعت کے پائوں اُکھاڑ دیں، لیکن وہ ایسا نہیں کرتے ۔ ہمارا ملک شدید اقتصادی مسائل اور بحران کا شکار ہونے کی وجہ سے اس قسم کی سیاسی عیاشی کا متحمل نہیں ہو سکتا ۔ آپ حیران ہوں گے کہ بعض ارکان، پارلیمنٹ میں اپنے ووٹ کا حق استعمال نہیں کرتے، تا کہ کمزورہی سہی معمولی اکثریت سے حکومت بن جائے۔
آپ کے ہاں نوجوان نسل کی ذہنی اور اخلاقی حالت کیسی ہے؟
اٹلی کی نئی نسل ہم سے زیادہ ذہین اور حقیقت پسند ہے۔ وہ خواب وخیال کی دنیا میں گم نہیں رہتے ، بلکہ کسی نئی کائنات کی جستجو کرتے ہیں ۔البتہ کوئی واضح آئیڈیل ان کے سامنے نہیں ہے۔ لہٰذا، وہ مایوسی سے دوچار ہو جاتے ہیں۔ ان میں منافقت نہیں ہے اور اس لحاظ سے وہ ہم سے اخلاقی طور پر بہتر ہیں۔ ہمارے ہاں تعلیم کا مسئلہ پیچیدہ تر ہے۔ روم یونی ورسٹی [تاسیس: ۱۳۰۳ء] ۱۰ہزار طلبہ کے لیے بنی تھی، لیکن اب یہ تعدا ایک لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ عمارتوں اور وسائل میں اضافہ نہ ہونے کے سبب طلبہ کی مشکلات بے پناہ ہیں۔ اس کے باوجود نوجوان اپنی ذہانت اور محنت کے بل پر کامیابی حاصل کرتے ہیں۔
آپ کے ہاں اسلامی تعلیمات پر گہری نظر رکھنے والے اور بھی اسکالر ہیں؟
بس گنے چنے لوگ ہیں۔ مغرب میں محقق لوگ چیزوں کا پوسٹ مارٹم کر کے دیکھتے ہیں۔ مشرقی شاعری اور مذاہب کے مطالعے میں بھی وہ اسی طریقے پر عمل کرتے ہیں، ان کی روح تک ان کی رسائی نہیںہوتی ۔ میرے شاگرد وں میں چند ایک اسلامی تعلیمات سے متاثر ہیں، اور مثبت علمی کام کر رہے ہیں۔
کیا اقبال ؒ کے پیغام کو صورت پذیر کرنے کی ساری ذمہ داری پاکستان پر ہے؟
نہیں ! اقبال ؒ کی فکر کو عملاً آگے بڑھانا پوری انسانیت کا فرض ہے۔ لیکن چوں کہ آپ کے ہاں وہ پیدا ہوئے، لہٰذا آپ کی ذمہ داری دوسروں سے زیادہ ہے۔ پھر پیدایشی مسلمان ہونے کی حیثیت سے بھی آپ کو موحد یا توحیدپرست ہونا چاہیے۔ آپ کی جانب سے اپنی ریاست کو ’اسلامی جمہوریہ‘ کا نام دے دینا کوئی معمولی بات نہیں۔ یہ اعلان کرکے آپ نے ایک بڑی عظیم ذمہ داری قبول کی ہے، اسے اب عملی سطح پر نبھانا بھی چاہیے۔
میرے خیال میں پاکستان کا عام شہری، اخلاقی اعتبار سے دوسرے مسلم ممالک کے شہریوں سے بہت بہتر ہے۔ یہ میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ آپ کے متوسط خاندان اخلاقی لحاظ سے قابلِ تعریف ہیں، اور نوجوانوں میں بزرگوں کے لیے احترام کا جذبہ ابھی باقی ہے۔ آپ ان بنیادوں پر ایک مثالی اسلامی معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں۔
یورپ میں لوگ پاکستان کے بارے میں کیا سوچتے ہیں؟
یورپ میں لوگ پاکستان کے بارے میں صحیح معلومات نہیں رکھتے ۔ اس میں بنیادی طور پر آپ کے سفارت کاروں اور سفارت خانوں کا قصور ہے۔ بھارت کا ذکر آئے تو لوگوں کے ذہن میں فوراً یہ بات آتی ہے کہ وہ ایک سیکولر ملک ہے ، لیکن پاکستان کی نظریاتی حیثیت سے یورپ آگاہ نہیں، وہ اسے ایک مذہبی ملک سمجھتے ہیں ۔ وہ مذہب اور دین کا فرق نہیں جانتے ۔
اسلام مکمل دین ہے، جس کے پاس زندگی کے چھوٹے سے چھوٹے مسائل سے لے کر، بڑے سے بڑے معاملات سے نبٹنے کے لیے مکمل ضابطۂ حیات ہے، جب کہ یورپ میں دین کا یہ تصور معروف نہیں ہے۔ وہاں لوگ اسلام کو ’مذہب‘سمجھتے ہیں اور مذہب کو اہلِ یورپ انسان کا محض ذاتی معاملہ کہتے ہیں۔ یورپ میں ہندو مذہب اور فلسفے کے بارے میں بھی ابہام پایا جاتا ہے۔ میرے نزدیک ہندو مذہب ایک فرسودہ چیزہے ، جب کہ مغربی لوگوں میں ہندوئوں کا جو تاثر (image) بنایا گیا ہے، اس کی بدولت یورپ میں بھارت کے ہر آدمی کو گاندھی اور رابندرا ناتھ ٹیگور خیال کیا جاتا ہے۔
پاکستان میں منعقدہ اقبال کانفرنس سے آپ کس قدر مطمئن ہیں؟
انتظام اچھا تھا، لیکن زیادہ تر مقالات ستایشی تھے، جن میں علمی ، فکری گہرائی مفقود تھی۔