پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد


جہاد اسلام کی ان تعلیمات میں سے ہے جسے مغرب ہی نہیں خود مسلمانوں میں سے بعض افراد نے ہر دور میں عصری تقاضوں کے پیش نظر تعبیر کی چھلنی سے گزارنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی‘ اور اس کی ایسی ایسی نادر تعبیرات پیش کیں جو شاید قرنِ اول کے کسی مجتہد کے وہم و گمان میں بھی نہ ہوں گی۔ ان خدشات‘ غلط فہمیوں‘ فکری غلطیوں اور اندیشوں میں سب سے نمایاں پہلو جہاد کو ’غارت گری‘ کے تصور کے ساتھ پیش کرنا ہے جسے گذشتہ دو عشروں میں عملی سطح پر بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا رہا ہے۔

یورپی کلیسا نے صدیوں قبل (۱۰۹۱ئ-۱۲۹۱ئ) مسلمانوں اور یہودیوں کو تلوار کے ذریعے عیسائی بنانے کے لیے جن صلیبی جنگوں کا آغاز کیا تھا‘ ان کی تمام غارت گری کو یکسر نظرانداز کرتے ہوئے دورِ جدید کے اکثر مستشرقین‘ قرآن کے تصورِ جہاد کو معروضی تحقیق و تقابل کے بغیر بیک جنبش قلم قوت کے اندھے استعمال‘ تشدد اور غارت گری سے تعبیر کربیٹھتے ہیں اور پھر تخیل کے زور پر   وضع کردہ ان تعبیرات کو اتنی تکرار کے ساتھ نقل کیا جاتا ہے کہ نہ صرف عامۃ الناس بلکہ غیرمسلم اور مسلم دانش ور بھی‘ بغیر ضمیر کی کسی خلش کے اکثر ان ہوائیوں پر ایمان لے آتے ہیں۔ علمی حلقوں میں اس تصور کے دو واضح ردعمل سامنے آتے ہیں:

پہلے ردعمل کا تعلق ذہنی مرعوبیت سے ہے جس میں بار بار دہرائی ہوئی ایک بات سے متاثر ہوکر معذرت پسندانہ رویہ اختیار کیا جاتا ہے‘ اور جہادو قتال کو ماضی کی ایک روایت قرار دیتے ہوئے اپنی ’روشن خیالی‘ کا ڈھنڈورا پیٹ کر یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ ہم تو اصل میں بہت امن پسند بلکہ ’اہنسا‘ کے علم بردار ہیں۔ ہم ایک چیونٹی کے مارنے کو بھی حیوانی حقوق کی پامالی سمجھتے ہیں۔ اسلحے کا استعمال صرف اپنے دفاع کے لیے جائز سمجھتے ہیں۔ اگر کسی خطے میں انسانوں کے حقوق پامال ہو رہے ہوں‘ ان کا خون ناحق بہایا جا رہا ہو‘ انھیں مستضعفین فی الارض بنا دیا گیا ہو تو یہ ان کا مسئلہ ہے۔ ہم   زیادہ سے زیادہ ان کے لیے صرف دعا کرسکتے ہیں۔ ان کی امداد اور انھیں ظلم سے نجات دلانا ہمارا نہیں بلکہ خالقِ کائنات کا مسئلہ ہے!

دوسرا ردعمل یہ سامنے آتا ہے کہ اسلام تو نام ہی مشرکین اور کافرین سے زمین کو پاک کرنے کا ہے۔ اس لیے انھیں جہاں پایا جائے بلاتکلف قتل کر دیا جائے۔ اس نوعیت کی نادر تعبیرات کو عموم کا درجہ دے کر ان پر ایک عالی شان تصوراتی محل تعمیر کر دینا زمینی حقائق اور علمی نظائر کے ساتھ ایک صریح زیادتی ہے۔

مغرب کی اصل ذھنی الجہن

کیا قرآن کا دیا ہوا تصورِ جہاد ہر دور میں تبدیل ہوتا رہا ہے؟ یہ ایک تحقیق طلب سوال ہے۔ لیکن اس پر غور کرنے سے قبل ہمیں یہ تعین کرنا ہوگا کہ معاصر مغربی مستشرقین کی اصل ذہنی الجھن کیا ہے۔ اس سلسلے میں چند سوالات‘ جنھیں وہ بار بار اٹھاتے ہیں‘ یہ ہیں:

                ۱-            کیا اسلام قتل و غارت گری اور سوچے سمجھے تشدد (organized use of violence) کی اخلاقی اور قانونی توثیق کرتا ہے؟

                ۲-            کیا اسلام‘ جہاد کو جنگِ مقدس (Holy War)کا درجہ دیتا ہے؟

                ۳-            کیا جہاد کا مقصد سیاسی توسیع ہے اور یہ محض ریاست کی حدود بڑھانے کے لیے کیا جاتا ہے؟

                ۴-            کیا اسلام اور قوت و تشدد کے استعمال میں کوئی منطقی اور فکری تعلق ہے؟

                ۵-            کیا جہاد کا مقصد مسلم دنیا اور غیرمسلم دنیا پر شریعت کو مسلط (impose) کرنا ہے؟

                ۶-            کیا جہاد جنت کے حصول کا آسان‘ مختصر اور یقینی راستہ ہے؟

                ۷-            کیا اسلام‘ بڑے پیمانے پر انسانی تباہی کے آلات (WMD) کو مباح قرار دیتا ہے؟

یہ چند بنیادی سوالات ہیں جن کو معاصر مغربی مستشرقین کی تحریروں میں دیکھا جا سکتا ہے۔

آغاز ہی میں یہ بات واضح کر دینا ضروری ہے کہ قرآن کریم کوئی جامد قوانین کی دستاویز نہیں ہے بلکہ یہ تین واضح انواع پر مشتمل ہے‘ یعنی احکام‘ اصول اور تعلیمات و ہدایات۔ جہاں تک احکام کا تعلق ہے وہ متعین ہیں جن میں حدود‘ معاملات اور عبادات کے حوالے سے تشریح کردی گئی ہے۔ یہ احکام قرآن کریم میں موجود بعض اصولوں پر مبنی ہیں‘ مثلاً: قصاص کے حکم کی بنیاد اس اصول پر ہے کہ انسانی جان کا بچانا اصل ہے اور جو اسے ضائع کرے اس کی تعزیر اور دوسروں کی تعلیم کے لیے جان کے بدلے جان لی جائے گی۔ لیکن احکام کے ساتھ بعض اوقات تعلیم کوحکم سے ملحق اور بعض اوقات الگ بیان کر دیا گیا۔ مثلاً قتل کے حوالے سے نص کو بیان کرتے ہوئے تعلیم دے دی گئی ہے کہ اگر ایک متاثر خاندان قاتل کو معاف کر دے تو بڑے اجر کی بات ہے یا خون بہا وصول کرلے تو یہ اس کا حق ہے۔ لیکن اگر وہ اس کو نظرانداز کرتے ہوئے اپنے حق پر اصرار کرے اور قانونی اداروں کے ذریعے قاتل کی جان بدلے میں لینے پر قائم رہے تو یہ بھی قانونی روایت کے مطابق ہوگا۔ اس لیے بعض مغربی اور بعض مسلم مستشرقین کا یہ کہنا کہ اسلام میں precepts‘یعنی مستند قانون و ضابطے کی کمی ہے‘ قرآن شناسی سے ناواقفیت کی ایک علامت ہے۔

انسانی جان کے احترام اور تحفظ و بقا کو فقہاے اسلام نے شریعت کا پہلا مقصد قرار دیا ہے اور قرآن کریم نے متعد مقامات پر یہ بات بیان کی ہے کہ جس نے ایک انسانی جان کو ناحق ضائع کیا اس نے گویا پوری انسانیت کو قتل کر دیا اور جس نے کسی ایک انسانی جان کو بچایا‘ اس نے تمام انسانوں کو حیات بخشی۔ یہ مذہب‘ رنگ‘ نسل‘ ذات ہر قسم کی تقسیم سے بلند ہوکر تمام انسانوں کے لیے ایک ایسا اصول ہے‘ جس کا مانناکسی مسلمان کے مسلمان ہونے کی شرط ہے۔ اگر واقعی ’بنیاد پرست‘ کی تعریف یہ ہے کہ وہ اپنے دین کی کتاب کو لفظاً لفظاً مانتا ہو تو ہمیں یہ کہنے میں کوئی تردد نہیں ہوسکتا کہ جو جتنا زیادہ ’بنیاد پرست‘ ہوگا وہ اتنی ہی شدت سے قرآن عظیم کے اس اصول پر کاربند ہوگا۔ ورنہ اس کے ایمان کے بارے میں سوال اٹھے گا کہ وہ قرآن کو مانے بغیر کس قسم کا مسلمان ہے۔

بلاشبہہ اس اصول کو دوٹوک انداز میں پیش کردینے کے ساتھ قرآن کریم نے یہ وضاحت بھی کر دی ہے کہ کون سا خون بہانا حق کی پیروی میں ہوگا۔ چنانچہ سورۃ الحج میں فرمایاگیا: ’’اجازت دی گئی ان لوگوں کو جن کے خلاف جنگ کی جارہی ہے‘ کیونکہ وہ مظلوم ہیں ‘اور اللہ یقینا ان کی مدد پر قادرہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے ناحق نکال دیے گئے صرف اس قصور پر کہ وہ کہتے تھے کہ ہمارا رب اللہ ہے۔ اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے دفع نہ کرتا رہے توخانقاہیں‘ گرجا‘ معبد اور مسجدیں‘ جن میں اللہ کاکثرت سے نام لیا جاتا ہے‘ سب مسمار کر ڈالی جائیں۔ اللہ ضرور ان لوگوں کی مدد کرے گا جو اس کی مدد کریں گے‘‘۔(الحج۲۲:۳۹-۴۰)

جھاد اور ’مقدس جنگ‘ کا فرق

یہاں مغربی استعماری تصورات سے نمو پانے والی ’بلارو رعایت جنگ‘ کے تصور کے برعکس ایک نئی فکر انقلابی انداز میں پیش کی گئی ہے۔ معاملہ کسی ایک ’مذہب‘ کے ماننے والوں کے تحفظ یا کسی ایک مذہب کا دوسروں پر مسلط کرنے کے لیے قوت کے استعمال کا نہیں ہے بلکہ کم از کم چار مذہبی روایات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہ بات فرمائی جارہی ہے کہ وہ عیسائیوں کے گرجے ہوں‘ یہودیوں کے معبد ہوں یا بدھ اوردیگر مذاہب والوں کی خانقاہیںیا مسلمانوں کی مساجد‘ ان تمام علاماتی مراکز ِعبدیت کے تحفظ‘ آزادی اور بلاروک ٹوک ان میں جاکر اپنے مسلک کے مطابق اپنے رب کویاد کرنے کے حق کا دفاع جہاد کا بنیادی مقصد ہے۔ یہ وہ انقلابی تصور ہے جسے ایک عیسائیت سے مرعوب ذہن اور نگاہ عموماً محسوس کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی‘ چونکہ اس کا بنیادی  ذہنی ڈھانچہ کاغذی سطح پر: ’کفارہ، نجات، تلافی اور وقار‘ کے شہتیروں سے تعمیر ہوتا ہے‘ اس لیے وہ اسلام میں بھی ان تصورات کے متبادل نظریات کی تلاش میں سرگرداں رہتا ہے۔

سورۃ الحج کی مندرجہ بالا آیت سے جو اصول نکلتا ہے وہ نہ صرف مسلمانوں بلکہ مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے مقاماتِ عبادت‘ ان کی ثقافت و تہذیبی زندگی کے تحفظ کے لیے مسلمانوں کو جہاد کی اجازت دیتا ہے۔ اس سے زیادہ حقوقِ انسانی کا احترام اور دیگر مذاہب کے ساتھ رواداری کا طرزِعمل نہ تو عیسائیت نے آج تک پیش کیا ہے اور نہ کسی اور مغربی یا مشرقی مذہب نے۔ یہی سبب ہے کہ قرآن جہاد کو ایک فریضہ قرار دیتا ہے۔ اگر جہاد کے وسیع تر تصور کو‘ جس کا ایک پہلواُوپر پیش کیا گیا‘ دین سے خارج یا معطل یا ملتوی کر دیا جائے تو پھر بین المذہبی رواداری اور دینی و ثقافتی حریت کے اصول کو بھی خیرباد کہنا ہوگا۔

جہاد کی تمام تر فرضیت و اہمیت کے باوجود قرآن وحدیث نے اس کے لیے جواصطلاح استعمال کی وہ ’اپنی جان اور مال سے اللہ کی راہ میںانتہائی کوشش‘ کی ہے۔ اسلامی تاریخ میں کوئی ایک مثال ایسی نہیں ملتی جب کسی فقیہ یا مفسر و محدث نے جہاد کے لیے Holy War‘ یعنی    حرب المقدس ’مقدس جنگ‘ کی اصطلاح استعمال کی ہو۔ انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا کے   مقالہ نگار نے اس تصور کو خالصتاً عیسائیت سے منسوب کیا ہے اور بتایا ہے کہ پاپاے روم نے یہودیوں اور مسلمانوں کو قوت کے استعمال کے ذریعے عیسائی بنانے کے لیے تمام عیسائیوں کوحروب الصلیبی کے عنوان سے جمع کیا اور یہی صلیبی جنگیں (Holy Wars)کہلائیں۔(Macropedia‘شکاگو‘ والیم ۵‘ ۱۹۷۴ئ‘ص ۲۹۷-۳۱۰)

اسلام کے قانونِ صلح و جنگ میں کسی مقدس جنگ کا تصور نہ پہلے تھا نہ آج پایا جاتا ہے۔ چونکہ اسلام زندگی کو لادینی اور دینی خانوں میں تقسیم نہیں کرتا‘ اس لیے اس کی جنگ ہو یا رزقِ حلال کا حصول‘ شعروشاعری ہو یا صنعت وحرفت‘ ہر سرگرمی کا مقصد اللہ تعالیٰ کو راضی کرنا اور اللہ تعالیٰ کی ناراضی سے بچنا ہے۔ اس لیے دین کا دائرۂ کار اور لادینی اعمال کا دائرۂ کار الگ الگ نہیں ہے۔ مغربی تعلیم یافتہ ذہن اور خود مغرب کا مادہ پرست تہذیب کا پیدا کردہ ذہن چوں کہ اسلام کو یورپی مذہبی عینک سے دیکھتا ہے اس لیے مسجد جانے کو مذہبی سرگرمی‘ جب کہ کسی ملٹی نیشنل کمپنی میں کام کرنے کو سیکولر اور پیشہ ورانہ سرگرمی قرار دیتا ہے۔ یہ تقسیم اسلام کے لیے اجنبی ہے۔ اگرچہ بہت سے مسلمان صدیوں سے اس پر عمل کرتے چلے آرہے ہیں اور اپنے خیال میں کمالِ مہارت سے ’دین ودنیا‘ میں توازن پیدا کرکے بیک وقت مسجد جاکر اللہ سبحانہ و تعالیٰ کو اور کاروبار کے دائرے میں سرمایہ داری کے دیوتا کو خوش رکھنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ قرآن کریم نے جب یہ سوال اٹھایا تھا کہ کیا بہت سے الٰہ بہتر ہیں یا ایک اللہ وحدہٗ لاشریک‘ کیا بہت سے حاکمین بہتر ہیں یا حکم صرف اللہ کے لیے ہونا بہتر ہے‘ تو اس سوال کا اصل مقصد اس تقسیم کو بنیاد سے اُکھاڑ پھینکنا تھا۔  ہم یہ بات پورے وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ اسلام میں holy warیا’مقدس جنگ‘کا کوئی تصور نہیں پایا جاتا۔ یہ بنیادی طور پر ایک عیسائی تصور ہے جسے اسلام پر چسپاں کرنا قرآن وسنت کی تعلیمات کی روح کے منافی ہے۔

جھاد کا مقصد

قرآن کریم نے جہاد کا مقصد ظلم و تعدی‘ ناانصافی‘ فتنہ و فساد‘ قتل و غارت اور بدامنی کو دُور کرنا قرار دیا ہے کیوں کہ قرآن کی نگاہ میں فتنہ قتل سے زیادہ شدید ہے۔ جب تک کسی معاشرے سے ظلم و ناانصافی دُور نہ ہو وہاں عدل کا قیام نہیں ہو سکتا۔ جہاد فی الحقیقت معاشرتی‘ معاشی اور سیاسی عدل کے قیام کا ذریعہ ہے۔ جہاں ضرورت ہو یہ جہاد قلم سے ہوگا اور جہاں ضرورت    پیش آئے اسلحے سے ہوگا۔ کہیں اس جہاد کا اسلحہ تعلیم و تربیت ہوںگے‘ کہیں جدید ترین عسکری ایجادات۔ گویا جہاد محض عسکری جدوجہد کا نام نہیں بلکہ اس مجموعی اوراجتماعی عمل کا نام ہے جو معاشرے کی اصلاح اور بقاے حیات کے لیے فاسد مادوں کو دُور کرکے فضا کو صحت مند‘ سازگار اور عدل و امن کا مرکز بنا دے۔

حقوق انسانی کی بحالی اور تحفظ اس کا ایک بنیادی محرک و مقصد ہے۔ قرآن کریم نے اس پہلو کو انتہائی واضح اور متعین الفاظ میں یوں بیان کیا ہے: ’’آخر کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں ان بے بس مردوں‘ عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑو جو کمزور پاکر دبا لیے گئے ہیں۔ اور فریاد کر رہے ہیں کہ خدایا! ہم کو اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں‘ اور اپنی طرف سے ہمارا کوئی حامی و مددگار پیدا کردے‘‘۔ (النساء ۴:۷۵)

ظلم‘ استحصال اور حقوقِ انسانی کی پامالی کو دُور کرنا اسلام کی نگاہ میں ایک عظیم انسانی خدمت ہے۔ اس ظلم کا نشانہ بننے والے مسلمان ہوں یا غیرمسلم‘ اصلاحِ احوال کے لیے اہلِ ایمان پر جہاد کو فرض کردیا گیا ہے۔ گویا جہاد نہ صرف اہلِ ایمان بلکہ انسانوں کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔ نتیجتاً ترکِ جہاد کا واضح مطلب طاغوت اور ظلم کے اہلکاروں کو مظلوموں کے خون‘   عزت اور مال سے کھیلنے کی آزادی فراہم کرنا ہوگا۔ اس حیثیت سے جہاد ایک تحفظ اور قوتِ مزاحمت (deterrence) فراہم کرتا ہے۔ اسی بنا پر قرآن نے یہ بات کہی ہے کہ تم اپنے گھوڑوں کو تیار رکھو اور اپنی قوت و اتحاد کو اتنا مضبوط بنالو کہ ظلم و کفر کی قوتیں تمھارے سامنے سر نہ اٹھا سکیں اور بغیر کسی قوت کے استعمال کے وہ محض اس دبائو کی بنا پر اللہ کے بندوں پر زیادتی سے باز رہیں۔

’جہاد‘ اور ’قتال‘ کی اصطلاحات اور ان کے قرآن کریم میں استعمال سے ناواقفیت کی بنا پر ان دونوں اصطلاحات کو تشدد‘ غارت گری اور انتہاپسندی سے وابستہ کر کے بعض عمومی نتائج نکال لیے گئے ہیں۔ انھیں اس کثرت سے ابلاغی ذرائع‘ علمی تحریرات اور سیاسی بیانات میں نشر کیا جا رہا ہے کہ وہ سادہ لوح افراد بھی جو قرآن سے کچھ واقفیت رکھتے ہوں ان تعبیرات کو سن کر معذرت پسندانہ رویہ اختیار کرلیتے ہیں اور جہاد کو دفاعی جنگ قرار دے دیتے ہیں۔ حالانکہ قرآن وسنت نے امر بالمعروف ونہی عن المنکر اور فتنہ و فساد اور ظلم کو رفع کرنے کے لیے جہاد کو ایک فریضہ قرار دیا ہے۔ گویا یہ ایک ردِعمل پر مبنی جوابی (reactive) حکمت عملی نہیں ہے بلکہ ایک مثبت عمل کی مثبت (pro-active) تعلیم ہے‘ جس کا مقصد معاشرے میں امن کا قیام‘ عدل کی سربلندی اور بغاوت‘ سرکشی‘ عدمِ تحفظ اور ظلم کا ابطال ہے۔ یہ ایک اخلاقی اور انسانی مطالبہ ہے۔ اسی لیے مدینہ منورہ میں پہلی اسلامی ریاست کے قیام کے ساتھ ہی جو بین الاقوامی معاہدہ مسلمانوں اور یہود کے درمیان ہوا اس میں یہود نے بھی ریاست میں امن کی بقا اور بیرونی خطرے کے مقابلے کی شکل میں جہاد میں شرکت کرنے اور اخراجات میں اپنا حصہ ادا کرنے کا تحریری معاہدہ کیا تھا۔ گویا اہلِ ایمان کی طرح وہ بھی جان اور مال سے جہاد میں شرکت کے لیے آمادہ و پابند ہوئے۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ یہود اور مسلمانوں کے اصولی طور پر جہاد میں شامل ہونے کا مقصد مشرکین کو بزورِ قوت مسلمان بنانا نہیں تھا بلکہ ظلم کے خلاف یک جہتی کا اظہار تھا۔

اسلام کے سیاسی کردار کو عموماً مسلح قوت کے ساتھ وابستہ کرکے ایک تصوراتی منطقی تعلق تلاش کیا جاتا ہے اور بعض مسلم ممالک کی مثال دے کر اس مفروضے کو ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ چنانچہ مصر اور الجزائر کو خصوصاً بطور مثال پیش کیا جاتا ہے کہ سادات کے قتل کا سبب   مسلح بغاوت کے ذریعے اسلامی ریاست کے قیام کا خواب تھا‘ یا الجزائر میں ۹۰ کے عشرے میں جو قتل و غارت ہوا وہ مسلح قوت کے ذریعے اسلامی ریاست کے قیام کی کوشش تھی۔

اس قسم کے دعوے کرتے وقت تحقیقی دیانت کے تمام اصولوں کو نظرانداز کرتے ہوئے   یہ بات فراموش کر دی جاتی ہے کہ مصری آمر انور سادات کے حوالے سے کیمپ ڈیوڈ معاہدہ اور مصر اور اسرائیل کی قربت کا اس سانحے میں کیا کردار تھا‘ یا الجزائر کے بلدیاتی انتخابات میں دینی رجحان کے حامل جدید تعلیم یافتہ منتخب نمایندوں نے اعلیٰ درجے کی کامیابی کے لیے کون سا ’مسلح دستہ‘ استعمال کیا تھا۔ اس کے برعکس جب ان لوگوں کی جمہوری ذرائع سے برسرِاقتدار آنے کی امید پیدا ہوئی تو وہ ممالک جو صبح شام جمہوریت کا کورس الاپتے نہیں تھکتے اور جو خصوصاً عالمِ عرب میں جمہوریت کی درآمد کو اپنا مقدس مشن قرار دیتے ہیں‘ انھی ممالک نے بلکہ اس ملک نے بھی جو   یک قطبی قوت ہونے کا دعویٰ کرتا ہے‘ الجزائر میں ہونے والے جمہوری عمل کے انہدام کے لیے فوج کے بے رحمانہ استعمال کو قانونی عمل قرار دیا اور ملک میں ہونے والے جمہوری عمل کو پیچھے کی طرف لوٹا دیا۔ آج تک الجزائر جمہوریت سے محروم ہے اور اس محرومی کی ذمہ داری صرف یک قطبی قوت پر عائد ہوتی ہے۔

جھاد اور جبر

اب ہم دیکھیں گے کہ کیا واقعی جہاد کا مقصد مسلم اور غیرمسلم دنیا پر ’شریعت‘ کو ’مسلط‘ کرنا ہے؟ یہ بات مغربی مصنفین شدومد سے کہہ رہے ہیں۔

یہ بات کہتے وقت شریعت کا ایک مخصوص رنگ آمیز مفہوم سامنے رکھا جاتا ہے‘ جس میں دوسرے مذاہب کے افراد کو مذہبی آزادی اور اپنی تہذیب اور رسومات کی ادایگی سے محروم کرکے زبردستی مسلمان بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ حقیقتِ حال اس سے بہت مختلف ہے۔ نظری حیثیت سے قرآن کی سیاسی تعلیمات میں غیرمسلموں کو نصوص کی شکل میں مذہبی اور ثقافتی آزادی کا تحفظ دیا گیا ہے۔ چنانچہ اگر کوئی مسلمان گروہ شریعت کا نفاذ چاہتا ہو تو اس کے لیے قرآن کے نصوص کے خلاف پالیسی بنانا اصطلاحی اور عملی تضاد کی حیثیت رکھے گا۔ عملی زاویے سے دیکھا جائے تو غیرمسلم اکثریتی ممالک میں مسلمان مفکرین نے شریعت کے نفاذ کا مفہوم کبھی یہ نہیں لیا کہ وہاں پر     خونی انقلاب برپا کرکے شریعت مسلط کر دی جائے‘ بلکہ ایک جانب مسلمانوں کو یہ یاد دہانی کراتے رہے کہ وہ اپنے معاملات کو شریعت کے مطابق سرانجام دیں‘ مثلاً نکاح‘ طلاق‘ میراث کے حوالے سے اسلامی احکام کی پیروی کی جائے اور سودی کاروبار سے اجتناب کیا جائے وغیرہ‘ اور دوسری طرف اسلام کے دعوتی پہلو کو اُجاگر کرتے ہوئے یہ بات کہتے رہے کہ اگر ایک طویل دعوتی عمل کے نتیجے میں غیرمسلم برضا و رغبت اسلام قبول کرنے کے بعد اسلامی تعلیمات کو اپنے ملک میں نافذ کرنا چاہیں تو دستوری اور جمہوری ذرائع ہی کواستعمال کیا جائے۔ قوت و تشدد کے استعمال کو ہمیشہ روکنے کی کوششیں کی گئیں۔

امریکا یا برطانیہ کے چند گنے   ُچنے یونی ورسٹی کیمپس پر اگر حزب التحریر کے بعض جوشیلے نوجوانوں نے کسی اجتماع یا پوسٹر میں یہ دعویٰ کیا کہ وہ امریکا یا برطانیہ میں خلافت کا نفاذ کرنا چاہتے ہیں تو اس طرح کے انفرادی اور محدود عمل کو اُمتِ مسلمہ کی فکر نہیں قرار دیا جاسکتا اور نہ یہ اسلام اور عالمِ اسلام کی غالب فکر کی نمایندگی کہی جاسکتی ہے۔ ایک مسلم ملک میں بھی جہاں ۹۷ فی صد آبادی مسلم ہو‘ وہ اسلامی ریاست غیرمسلموں کے شخصی‘ مذہبی اور ثقافتی معاملات میں دخل اندازی نہیں کرسکتی اور نہ ان پر شریعت کو مسلط کرسکتی ہے۔ لیکن دوسری طرف یہ بات بھی نہ صرف عدل کے منافی بلکہ مضحکہ خیز ہوگی کہ ۳ فی صد آبادی کا دل رکھنے کے لیے ۹۷ فی صد آبادی کو اپنی دینی‘ ثقافتی‘ علمی‘ قانونی اور ابلاغی روایات و نظریات کو ملک میں نافذ کرنے کے حق سے محروم کر دیا جائے۔ مغربی سیکولر جمہوریت تو ۵۱ فی صد کی رائے کا احترام کر کے جو چاہے مسلط کردے اور مسلم ممالک کے ۹۷ فی صد عوام کی خواہشات اور مطالبات کو محلے والوں کی دل شکنی کے خیال سے نافذ نہ کرنا  ظلم کی بدترین شکل اور جمہوریت کے ساتھ گھنائونا مذاق ہی کہا جا سکتا ہے۔ اگر مغرب کی      سیکولر جمہوریت ۹۷ فی صد عوام کی رائے کے مقابلے میں ۳ فی صد اقلیت کو زیادہ اہمیت دیتی ہے تو یہ اس کی عقل کا فتور ہے۔ خود مغربی جمہوریت کے اصول یہ تقاضا کرتے ہیں کہ اگر پاکستان یا کسی اور مسلم ممالک میں ۹۷ فی صد عوام شریعت کا نفاذ چاہتے ہوں تو اسے شریعت ’مسلط‘ کرنا نہیں کہاجاسکتا۔

چند غلط فھمیاں

جہاد کے حوالے سے یہ ہوائی بھی اڑائی جاتی ہے کہ یہ جنت کے حصول کا ایک مختصر راستہ (short cut) ہے اور بہت سے افراد جو اپنے ماضی کی زندگی میں اسلام پر عامل نہ رہے ہوں‘ اس ایک آسان ذریعے سے نجات حاصل کرسکتے ہیں۔ نظری طور پر ممکن ہے اس خیال میں کوئی منطقی صداقت پائی جاتی ہو‘ لیکن عملاً جن لوگوں نے آج تک یہ راستہ اختیار کیا ہے ان میں تین نمایاں مثالیں مسلم دنیا سے دی جاسکتی ہیں:

  • فلسطینی نوجوانوں کا جہاد میں قربانی پیش کرنا‘ چاہے بعض مغربی مصنفین کو ’مختصر راستہ‘ نظر آتا ہو‘ لیکن عملاً یہ ایک طویل تر داستانِ کرب و ابتلا کا محض ایک باب ہے۔ وقت کی ایک طاقت نے ۱۹۴۸ء میں ایک ایسے خطے کو جس پر اس کی حکومت بھی نہیں تھی ایک ایسی نسل پرست قوم کے حوالے کر دیا جو اس سرزمین کی اصل مکین نہ تھی اور نتیجتاً فلسطین کے اصل باشندوں کو جو وہاں صدیوں سے مقیم تھے اپنے آبائی گھروں سے بے دخل کر دیا گیا۔ جس قوم کو ۵۸سال تک اس کی بنیادی آزادی‘ اپنی زمین کی ملکیت‘ اپنے دین کی تعلیمات پر عمل سے محروم کیا گیا ہو اور وہ جہاد کا راستہ اختیار کرلے تو کیا اسے ’مختصر راستہ‘ کہنا حق و انصاف سے کوئی مناسبت رکھتا ہے؟
  • عراق میں ایک بیرونی ملک کے جابرانہ اور سفاکانہ قبضے کے بعد اگر عراقی عوام غیرملکی قابض فوجوں اور ان کے مقامی حامیوں کے خلاف مسلح جہاد کریں تو عقلی‘ علمی اور تاریخی طور پر اپنی جان‘ اپنی ملکیت اور اپنی آزادی کا بچائو کرنا ان کا انسانی اور بنیادی حق ہے۔ اسے ’دہشت گردی‘ کہنا عدل و انصاف کے عالمی پیمانوں کا مذاق اڑانا ہے۔
  • یہی شکل مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کی ہے۔ فلسطین کی طرح مقبوضہ کشمیر کے عوام اور زمین کو جس پر برطانیہ کا قبضہ دستوری قبضہ نہ تھا‘ ایک تیسرے فرد کے ہاتھ فروخت کر دیا گیا۔  کشمیری عوام کی جدوجہد ِآزادی‘ ظلم‘ استحصال اور غلامی کے خلاف ایک جہاد کی حیثیت رکھتی ہے اور جب تک ان کے بنیادی حقوق حاصل نہ ہوجائیں ان کی جدوجہد آزادی کو ’شدت پسندی‘ یا ’دہشت گردی‘ قرار نہیں دیا جا سکتا۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس جدوجہد ِ آزادی کو وہ چاہے کشمیر میں ہو یا عراق میں یا الجزائر میں‘ خودکُش حملہ یا حصولِ جنت کے لیے ایک ’مختصر راستہ‘ کہنا عقل و ہوش اور حق و انصاف سے کوئی مناسبت رکھتا ہے؟

ایک نکتہ یہ بھی اٹھایا جاتا ہے کہ ’جہاد کا تصور نظری طور پر بڑی تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں (WMD) یا توڑ پھوڑ کے لیے اخلاقی بنیاد فراہم کرتا ہے‘۔ شاید یہ بات کہتے وقت اس کے محرک بھول جاتے ہیں کہ ہیروشیما اور ناگاساکی کی تباہی کا سبب اسلام کا تصورِ جہاد نہیں تھا‘ بلکہ لادین جمہوریت کا صبح و شام ورد کرنے والی ریاست کا توسیع پسند ذہن تھا۔ خود عراق کے پس منظر میں صدام حسین کوایران کے خلاف صف آرا کروانے کے لیے مکمل حمایت اور مدد کرنے والا نہ کوئی القاعدہ کا لیڈر تھا اور نہ کسی مسلم ملک کا کوئی مفتی اعظم‘ بلکہ یک قطبی قوت کا معاشی مفاد اور واضح طور پر تیل کے ذخائر پر قابض ہونے کی خواہش تھی۔

قرآن کا تصورِ جہاد ایک اصلاحی عمل ہے جو ظلم‘ قتل و غارت اور استحصال کو ختم کرنے اور امن‘ سلامتی‘ عدل و انصاف کے قیام کے لیے ہاتھ‘ زبان اور دل و دماغ کے استعمال کو اور اپنی جان اور اپنے مال کو بازی پر لگادینے کو ایک انسانی فریضہ قرار دیتا ہے۔ یہ قرآنی تصور حقوقِ انسانی کی بحالی اور محکوم اقوام کو آزادی دلانے کے لیے قوت کے استعمال کو ایک اخلاقی فریضہ قرار دیتا ہے اور بغیر کسی معذرت کے اس کی عظمت کا اعلان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اللہ کی نگاہ میں وہ لوگ جو   سجود و رکوع کرنے کے مقامات پر مصروف ِعبادت رہتے ہیں اور وہ جو میدانِ کارزار میں اپنے مال اور جان کی بازی لگاتے ہیں برابر نہیں ہوسکتے۔ وہ جہاد کرنے والوں کے عمل کے لیے ’اعظم درجہ‘ کے الفاظ استعمال کرتا ہے۔ اگر معروضی طور پر غور کیا جائے تو قرآن کریم کا جہاد کے بارے میں  یہ غیرمعذرت پسندانہ ‘ شفاف‘ عقلی اور مصلحانہ تصور ہی انسانیت کو فلاح‘امن‘ تحفظ‘ نجات‘     عدل و انصاف اور حقوقِ انسانی کے احترام سے روشناس کرا سکتا ہے۔ جہاد وہ ضمانت فراہم کرتا ہے جس کی بنا پر فتنہ و فساد‘ طاغوت اور مکروفریب لرزہ براندام رہتا ہے اور انسانیت جھوٹ اوردھوکے سے نجات حاصل کرکے عافیت و ترقی پذیری کی راہ پر گامزن ہوسکتی ہے۔

امن و انصاف کا حصول انسان کا ایک بنیادی مسئلہ ہے اور تمام مذاہب نے اس کی اہمیت اور مرکزیت کے پیش نظر اسے حل کرنے کی کوشش کی ہے۔ اگر حقیقت پسندانہ تجزیہ کیا جائے تو سیکولر مفکرین کے نزدیک بھی یہ اتنا ہی اہم ہے اگرچہ اس کے بنیادی تخیلات اور     پس پردہ جذبہ مکمل طور پر کتنا ہی مختلف کیوں نہ ہو۔

سرمایہ دارانہ ذہنیت کے زیراثر جو معیشت کے استحکام‘ انفرادیت اور ہر دم بدلتی ہوئی اخلاقیات کا مجموعہ ہے‘ ایک نئی سوچ اور فکر یہ پیدا ہوگئی ہے کہ ترقی یافتہ ممالک اپنے طویل المیعاد سماجی اور معاشی فوائد جنگ کے ذریعے حاصل نہیں کرسکتے۔

عدم تشدد اور عدم جارحیت کا فلسفہ جو پہلے چند افراد یا مذاہب کی ذاتی فکر کا مظہر سمجھا جاتا تھا‘ وقت گزرنے کے ساتھ عالمی سیاسی حکمت عملی کی صورت اختیارکرگیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فوج اور جنگوں کے ذریعے خام مال پر قبضہ اور نئی معاشی منڈیوں کی تلاش کی سرمایہ دارانہ حکمت عملی کی جگہ یہ سوچا جانے لگا ہے کہ امن کے نام پر‘ عدم جارحیت کے زیرعنوان اور آزاد تجارت کا نعرہ بلند کر کے بھی سرمایہ دارانہ قوتیں وہی کچھ حاصل کرسکتی ہیں جس کے لیے پہلے طول طویل اور خوں ریز جنگیں لڑی جاتی تھیں۔

عالمی جنگوں کے دور کے بعد بین الاقوامی سطح پر ترقی پذیر ممالک پر قابو پانے اور انھیں اپنا ماتحت بنانے کے لیے تجارت‘ سیاحت اور جمہوریت کو قابلِ عمل طریقہ اور بنیاد سمجھا گیا۔  امن کی تلاش کے اس دور میں جنگی تصادم سے بچنے کی کوششیں اس لیے بھی کی گئیں کیوںکہ جنگ کو تجارت اور سیاحت کا دشمن خیال کیا جاتا ہے۔

سرد جنگ کے زمانے میں علاقائی معیشت‘نیوکلیئر صلاحیت اور باہمی تعاون کی راہیں کھلیں۔ گو صرف فکری طور پر ہی سہی ‘ اس سلسلے میں اقوام متحدہ کا قیام عدم جارحیت کے فلسفے کا عالمی سطح پر ظہور تھا۔ اس ادارے کی کامیابی اور ناکامی سے قطع نظر اس کے قیام کا بڑا مقصد مسائل کا پرامن حل تلاش کرنا تھا۔ اس لیے امن کا قیام و انصرام اس سیکولر ادارے اور اس کے رکن ممالک کا جزو ایمان بن گیا۔

دیگر اقوام کو یورپ کے سامراجی اور نوآبادیاتی تسلط اور چیرہ دستیوں سے آزاد کرانے والی جمہوری جدوجہد ایک عرصے تک نہ صرف پُرامن تحریک اور تشدد سے آزاد مزاحمتی تحریک سمجھی جاتی رہی‘ بلکہ دیگر تحریکات کو بھی اس کا حصہ تصور کیا جاتا رہا‘ مثلاً مساوات مرد و زن کی تحریک۔ مغرب میں یہ تحریک عورتوں کے مساوی حقوق کی علم بردار بن کر اٹھی‘ جب کہ عورتوں کی معاشرے میں انصاف پسندانہ اور شفاف شراکت کار کو اہمیت نہیں دی گئی۔ بہرصورت یہ ایک پُرامن تحریک ہی رہی۔ لیکن سیاسی منظرنامے پر موجود معاشرے میں جمہوریت کے نفاذ کی تحریکیں کبھی تو پرامن رہیں اور بعض اوقات تشدد پسند۔ تاہم‘ عالمی امن اور مسائل کے غیرفوجی حل پر مشتمل تحریکیں اپنے تمام تر سیکولر کردار کے باوجود ایک اچھے انسانی معاشرے کے قیام کا دعویٰ اور اس کے لیے سرگرمی اختیار کرتی رہیں۔ ایٹمی قوت سے پاک دنیا کی تحریک بحالیِ امن اور سیکولر معاشرے کے قیام کی داعی رہی۔

دوسری طرف اُن لوگوں کو انتہا پسندی‘ بنیاد پرستی‘ تشدد‘ دہشت گردی اور خون خرابہ شروع کرنے کا الزام دیا جاتا تھا جن کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو۔ گو کئی عشروں تک شمالی آئرلینڈ کے کیتھولک اور پروٹسٹنٹ عیسائی فرقوں کو مذہبی تشدد‘ بنیاد پرستی اور انتہاپسندی کا الزام دیا جاتا تھا‘ تاہم اگر حقیقت کا جائزہ لیا جائے تونہ کیتھولک اور نہ پروٹسٹنٹ فرقہ ہی اس قسم کے خون خرابے کی اجازت دیتا ہے‘ نہ کروشیا اور سربیا کے لوگوں کی بوسنیا کے مسلمانوں کے خلاف دہشت گردی ہی صحیح مذہبی عیسائیت کا اظہار کہی جاسکتی ہے۔ اسی طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ باضمیر‘ دیانت دار اور صحیح العقیدہ یہودی بھی صہیونیوں کے فلسطینی مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف کھلے تشدد اور ننگِ انسانیت اقدامات کی حمایت نہیں کرتے۔ بہت سے اسرائیلی پائلٹوں کے فلسطین کے مختلف ٹھکانوں پر بم باری کرنے کے انکار سے واضح ہوتا ہے کہ تمام یہودی فلسطین میں ہونے والی صہیونی دہشت گردی میں شریک نہیں‘ یعنی چاہے مجبوراً انھیں ایسے اقدام کرنے پڑتے ہوں۔ اس مختصر جائزے سے ظاہر ہوتا ہے کہ امن ہر انسان کی مشترک خواہش ہے‘ چاہے وہ دین دار ہو یا سیکولر۔ مزید یہ کہ مذہب کے نام پر تشدد کسی بھی معاشرے میں پسند نہیں کیا جاتا۔

عام طور پر امن اور بحالی امن کے اقدامات‘ مسائل کے پرامن حل‘ اجتماعی دفاع کی سوچ‘ بچائو کی مختلف تدابیر‘ تخفیف اسلحہ جیسے موضوعات آج کی دنیا کے عملی مسائل ہیں اور عموماً یہ مسائل اور جھگڑے‘ چاہے سیاسی ہوں یا معاشی‘ ہمیں غور کرنا ہوگا کہ ان کا حل طاقت و قوت سے ہوگا    یا گفت و شنید سے۔ اس لیے بحالی امن کے اقدامات پر گفت و شنید کے لیے ایسے فورم (forum) ضروری ہیں جہاں ان مسائل پر معروضی طور پر غور اور تبادلۂ خیالات کیا جاسکے۔

اجتماعی دفاع کی سوچ باہمی اور کثیرجہتی تعلقات کی صورت میں نمودار ہوتی ہے اور علاقائی یا عالمی امن پر منتج ہوتی ہے۔ تخفیف اسلحہ کا مطلب اسلحے کے عدم توازن کو ختم کرنے کی کوششیں‘ ایٹمی اسلحے پر موثر کنٹرول اور ایٹمی فضلہ جات کو صحیح طور پر ٹھکانے لگانا اور شعوری طور پر اسلحے کی دوڑ میں حصہ نہ لینے جیسے اقدامات کرنا ہیں۔ امن کے لیے اقوام متحدہ جیسے اداروں کو بلاواسطہ شریک کرنا‘ بچائو کی حکمت عملی اور تدابیر کا اہم جزو ہوسکتا ہے۔ اگرچہ امریکی سامراج کی یک قطبی دنیا اور اس کے غیر قانونی طور پر عراق پر حملے اور قبضہ کرنے کے اقدامات نے نہ صرف اقوام متحدہ اور اس جیسے اداروں کی بے بسی کو واضح کر دیا ہے بلکہ ان کی موت پر مہر تصدیق بھی ثبت کر دی ہے۔ لیکن ہم اس سے مایوس نہیں ہیں بلکہ اس سے ہمارے اس خیال کو تقویت پہنچی ہے کہ دانش ور‘ مذہبی قائدین اور وہ تمام لوگ جو کسی بھی سطح پر پالیسی کی منصوبہ بندی سے وابستہ ہیں‘ اجتماعی طور پر موجودہ بین الاقوامی معاشی‘ سماجی اور سیاسی مسائل پر ہماری رہنمائی کرسکتے ہیں اور ایک نئی دنیا تعمیر کرنے میں اپنا حصہ ادا کرسکتے ہیں‘ ایسی دنیا جس کی بنیاد گفت و شنید‘ دلیل و برہان‘ باہمی تعلق اور عدم تشدد کی سوچ پر ہو۔

عالمی امن کے حصول میں موجودہ مذاہب کا کیا کردار ہے‘ اور خاص طور پر اسلام کا اس بارے میں کیا نقطۂ نظر ہے؟ یہ سوال ہمیں غیر جذباتیت اور خالص دلیل و برہان کی بنیاد پر قرآن و سنت کی رہنمائی میں حل تلاش کرنے کی دعوتِ تحقیق دیتا ہے۔

لغوی طور پر اسلام کا مادہ س ل م ہے جس کے معنی امن‘ سکون‘ بندگیِ رب اور اللہ کی بڑائی کے سامنے سرتسلیم خم کر دینا ہے۔ اگر عملی حقیقت یہی ہے تو نام نہاد ’’مقدس جنگ‘‘ اور ’’اسلامی جہاد‘‘ کا عالمی شوروغوغا کیوں؟ اس شوروغوغا میںاور اسلام کے بارے میں غلط فہمیاں پیدا کرنے میں عالمی ابلاغ عامہ بالخصوص الیکٹرانک میڈیا‘ مستشرقین اور آزاد خیال لوگوں کی ان تحریروں کا بڑا کردار ہے جن میں اسلام کی مسخ شدہ تصویر پیش کی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر جوڈتھ مِلر (Judith Miller) کی کتاب ’’خدا کے ننانوے نام‘‘ پیش کی جاسکتی ہے جو اپنے منصب اور ذمہ داری کے لحاظ سے نیویارک ٹائمز کی مشرق وسطیٰ کے امور پر ماہر اور نامہ نگار ہے لیکن اسے کبھی خود مشرق وسطیٰ کے کسی ملک میں معقول عرصے تک رہنے اور مطالعہ کرنے کا موقع نہیں ملا‘ اور نہ وہ عربی کی ابجد سے ہی واقفیت رکھتی ہے لیکن پھر بھی اسلام کے بارے میں سند سمجھی  جاتی ہے۔ ایڈورڈ سعید (Edwards Saeed) اس کی کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ان ’’ماہرین‘‘ (مِلر‘ سیموئیل ہن ٹنگٹن‘ مارٹن کرامر‘ برنارڈ لیوس‘ ڈینیل پائپز‘ سٹیفن ایمرسن اور  باری رُبن‘ اس کے علاوہ اسرائیلی مصنفین) کے لکھنے کا ایک مقصد یہ ہوتا ہے کہ اسلام کو ’’خطرے‘‘ کے طور پر پیش کیا جائے‘ اسلام کو دہشت اور تشدد کا علم بردار ثابت کیا جائے اور دوسری طرف ذاتی تشہیر‘ میڈیا میں اثرورسوخ پیدا کرنے کے ساتھ اپنی جیبیں بھی بھری جائیں۔ اسی طرح کی ایک اور مثال اسٹیفن شوارٹز (Stephen Schwartz) کی کتاب ’’اسلام کے دو چہرے: آل سعود روایت سے دہشت تک‘‘ ہے جوایسے ’’شیاطین‘‘ کو تلاش کرنے کی ایک ناکام کوشش ہے جن کا وجود شاید مصنف کے ذہن کے علاوہ اور کہیں نہیں پایا جاتا۔

اسلام کی اس تصویر کشی کی ایک کھلی وجہ ’’جہاد‘‘ کو غیرمسلموں اور ان کی تہذیب کے دشمن کے طور پر پیش کرنا ہے۔ ۱۱ستمبر کے ہولناک واقعات نے مسلمانوں اور جہاد کے متعلق صدیوں سے مروجہ غلط فہمی پر مہرتصدیق ثبت کردی ہے۔ لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس بارے میں عمومی طور پر مسلمانوں نے معذرت خواہانہ یا جذباتی رویے اختیار کرتے ہوئے مغرب کو جہاد کے صحیح تصور اور حقیقی مقصد کو سمجھانے میں کوئی مدد کی اور نہ مثبت طور پر اسلام کے اصول پیش کیے۔ نتیجتاً آج جہاد کو بڑی آسانی کے ساتھ تشدد اور دہشت گردی کا ہم معنی قرار دے دیا گیا ہے۔

لغوی طور پر تشدد کا مطلب کسی کو تکلیف دینے‘ زخمی کرنے اور تذلیل کرنے کے لیے طاقت کا سوچا سمجھا استعمال کرنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ریموٹ کنٹرول بم کے ذریعے کسی کو زخمی کرنا یا قتل کرنا یا املاک کو نقصان پہنچانا دہشت گردی اور تشدد کے زمرے میں آتا ہے۔ گو‘ہر قوت کا استعمال تشدد نہیں کہا جا سکتا۔ لیکن جب بھی قوت کے استعمال کے ساتھ مقصد یہ ہو کہ کسی کو اذیت اور ذلت کا مزا چکھایا جائے تو پھر یہ استعمالِ قوت تشدد بن جاتا ہے۔

اس چیز کو ہم سرجن کے نشتر کی مثال سے واضح کرسکتے ہیں جس کا مقصد نشتر کے ذریعے تکلیف دینا نہیں ہوتا‘ بلکہ فاسد مادہ کا نکالنا یا ناکارہ عضو کا اس غرض سے کاٹنا ہوتا ہے کہ باقی سارا جسم اس تکلیف اور غلاظت سے نجات حاصل کر کے صحت مند اور توانا رہے۔ جہاد کا ٹھیک یہی مقصد اور مقام قرآن میں بیان کیا گیا ہے‘ یعنی معاشرے میں امن و انصاف کے قیام اور لاقانونیت اور استحصال کے خاتمے کے لیے جہاد کو ایک ذریعہ بنانا۔

معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرنے والے لوگ اکثر جہاد کی دو قسمیں مدافعانہ اور جارحانہ بیان کرتے ہیں اور دنیا کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں‘ یعنی دارالحرب اور دارالسلام۔ وہ یہاں تک کہتے ہیں کہ جہاد صرف اور صرف مدافعانہ ہی ہوتا ہے اور کسی کے خلاف جنگ کرنا اسلام کا مدعا نہیں ہے۔ دوسری طرف کچھ لوگ ہر اُس چیز کے خلاف جنگ کرنا جہاد قرار دیتے ہیں جو غیراسلامی ہو۔ دونوں تعبیرات جہاد کے حقیقی اور وسیع مفہوم کا احاطہ نہیں کرتیں۔

اگر ہم قرآن مجید کا مطالعہ کریں تو اس میں لفظ جہاد تقریباً۴۰ مرتبہ اور لفظ قتال تقریباً ۱۶۰ مرتبہ مختلف معنوں میں آیا ہے۔قرآنی تعلیمات کے مطابق جہاد کسی مقصد کے حصول کے لیے بھرپور کوشش‘ انتہائی جدوجہد اور پیہم عمل کا نام ہے‘ جب کہ قتال سے مراد لڑنا اور جنگ کرنا ہے۔

قرآن کے مطابق جہاد کا مقصد لوگوں کو ظلم و ناانصافی‘ غلامی اور استحصال سے نجات دلانا اور حقوقِ انسانی کی بحالی ہے۔ اگرچہ زیادہ زور مسلمانوں کے حقوق پر دیا گیا ہے لیکن اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا صحیح نہیں کہ جہاد صرف مسلمانوں کو ان کے حقوق دلانے سے تعلق رکھتا ہے۔ قرآن میں لفظ مستضعفین ان لوگوں کے لیے استعمال ہوا ہے جو ظلم و زیادتی کا شکار ہوں اور قرآن ان کے حقوق کی بحالی کے لیے لڑنے پر اُبھارتا ہے۔ یہ مستضعفین مسلمانوں کے علاوہ دیگر مظلوم افراد بھی ہو سکتے ہیں۔ ارشاد ربانی ہے:

بھلا کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں اور ان ناتواں مردوں‘ عورتوں اور ننھے منے بچوں کے لیے جہاد نہ کرو جو یوں دعا مانگ رہے ہیں کہ اے پروردگار ان ظالموں کی بستی سے ہمیں نجات دے اور ہمارے لیے خود اپنے پاس سے حمایتی اور کارساز مقرر کردے اور ہمارے لیے خاص اپنے پاس سے مددگار بنا۔ (النساء ۴:۷۵)

اسی طرح انسانی حقوق کی سربلندی کے لیے ایک دوسری جگہ قرآن میں تین مختلف مذاہب کی عبادت گاہوں کی حفاظت کو مسلمانوں کی ذمہ داری قرار دیا گیا ہے:

اگر اللہ تعالیٰ لوگوں کو آپس میں ایک دوسرے سے ہٹاتا نہ رہتا تو عبادت خانے‘ گرجے اور معبد اور مسجدیں بھی ڈھائے جا چکے ہوتے جہاں اللہ کا نام بکثرت لیا جاتا ہے۔ (الحج ۲۲:۴۰)

سورۂ نساء اور سورۂ حج کی مندرجہ بالا آیات سے جو اصول نکلتے ہیں وہ جہاد کے ایک عملِ اصلاح اور حقوق انسانی کے قیام کے لیے ایک حکمت عملی ہونے کو ثابت کرتے ہیں۔ پہلی بات یہاں پر یہ کہی گئی کہ جن عورتوں‘ بچوں اور مردوں کو محض اس بنا پر کہ وہ اپنے رب کی بندگی کرنا چاہتے ہوں‘ ظلم کا نشانہ بنایا جا رہا ہو (جیسے آج مقبوضہ کشمیر ہی میں نہیں بعض مسلم اکثریتی ممالک میں اہلِ حق کے ساتھ کیا جا رہا ہے)‘ تو اہلِ ایمان پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ان کی رہائی اور نجات کے لیے مادی اور اخلاقی امداد کریں۔

اگلی بات یہ واضح کر دی گئی کہ جہاد محض مسلمانوں کی مذہبی آزادی کے حصول کے لیے نہیں ہے‘ بلکہ یہود و عیسائی وغیرہ کو بھی اگر اپنے عبادت خانوں میں عبادت کرنے سے محروم کردیا جائے تومسلمانوں کا فرض ہے کہ ان کا یہ مذہبی حق ان کو دلوائیں۔ اس طرح جہاد محض اُمت مسلمہ کے حقوق انسانی کے تحفظ تک محدود نہیں رہتا بلکہ عالمی طور پر مذہبی حقوق کے احیا و بحالی کے لیے ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔

اصل میں جہاد قرآنی تعلیمات کی روشنی میں انسانی حقوق کی آزادی‘انسانی عظمت کی حفاظت اور بحالی کی ’’تحریک‘‘ کا نام ہے۔ یہ صرف کافروں کے خلاف ایک مقدس جنگ (holy war) نہیں ہے۔ مقدس جنگ کا عربی ترجمہ ’’حرب المقدس‘‘ ہوگا۔ قرآن و سنت کسی مقام پر بھی ’’حرب المقدس‘‘ کی اصطلاح استعمال نہیں کرتے۔ تاریخی طور پر ’’مقدس جنگ‘‘ کا تصور عیسائیت کی پیداوار ہے۔اسی طرح امن و سلامتی اور صلح کے الفاظ اسلامی روایات میں جنگ کی ضد میں استعمال نہیں ہوتے‘ بلکہ اس سے مراد امن‘ برداشت‘ رواداری‘ باہمی اعتماد اور افہام و تفہیم کا کلچر ہے۔ قرآن تمام انسانیت کو ایک امہ قرار دے کر امن کی دعوت دیتا ہے: ’’اور اللہ تم کو سلامتی کے گھر کی طرف بلاتا ہے اور جس کو چاہتا ہے راہِ راست پر چلنے کی توفیق دیتا ہے‘‘ (یونس ۱۰:۲۵)۔ مختلف الفاظ اور حوالوں سے سلامتی اور امن کا تقریباً ۱۳۸ مرتبہ قرآن میں ذکر کیا گیا ہے۔

امن و سلامتی کا وہ تصور جو اسلام کے پیشِ نظر ہے صرف تخفیفِ اسلحہ‘ اجتماعی دفاع کی تدابیر اور عدم جارحیت تک محدود نہیں بلکہ زیادہ وسیع اور ہمہ گیر ہے۔ جزئیات سے صرفِ نظر کرتے ہوئے اسلام کے تصور ’’امن و صلح‘‘ کو سات نکات کی صورت میں پیش کیا جاسکتا ہے جوکہ ’’عالمی امن‘‘ کی بنیاد بن سکتے ہیں۔

۱- توحید

اسلامی تصور حیات میں ’’امن و انصاف‘‘کو بنیادی اہمیت حاصل ہے اور اس کا اظہار انفرادی و اجتماعی طور ہردو جگہ پر ہوتا ہے۔ قرآن میں بیان کردہ امن کا تصور بلاواسطہ طور پر تصورِتوحید سے جڑا ہوا ہے۔ توحید‘ جس پر اسلامی فکر کی بنیاد ہے‘ کا مفہوم دراصل ایک انسان کا اپنے طرزِعمل‘ اپنی شخصیت اور سماجی رویوں میں موجود تناقصات اور تضادات کا شعوری خاتمہ کرنا ہے۔ اس کے بعد انفرادی سطح پر جو شخصیت سامنے آتی ہے وہی امن و انصاف کی مستند اور مؤثر بنیاد بنتی ہے۔ توحید انسان کو ہر قسم کے دوغلے پن اور شخصیت کے انتشار سے بچاتی ہے‘ چنانچہ  خواہ اپنے خاندان یا کاروباری شریکِ کار سے معاملات طے کرنے ہوں‘یا کسی حکومتی عہدے کی ذمہ داری پوری کرنی ہو‘ توحید ہر ہر مرحلے میں اس کے لیے رہنما اصول فراہم کرتی ہے۔

اندرونی تضادات کا خاتمہ اور فکروعمل کی یہ یک جائی (توحید) ایک واقعاتی امن کا راستہ کھولتی ہے۔ توحید یا ایک بالاتر اصول کی آفاق و انفس میں فرمانروائی ان لوگوں کے لیے بھی زندگی میں یک رنگی پیدا کرنے کی بنیاد فراہم کرتی ہے جو بظاہر مسلمان ہونے کے دعوے دار نہیں۔ یہی سوچ و فکر کی یکجائی عالمی سطح پر انفرادی اور اجتماعی مسائل کے حل اور امن و انصاف کے لیے اولین بنیاد فراہم کرتی ہے۔

۲- عدل

انسانی معاشرے میں قیام امن کا دوسرا سنہری اصول عدل ہے۔ قرآن عدل کی تقریباً سات جہتوں کی طرف ہماری رہنمائی کرتا ہے جو پایدار معاشرتی امن کی بنیادیں ہیں۔

پہلی اور بنیادی چیز قانون کی حکمرانی‘ مساوات اور انسانی جان کا احترام ہے۔ قانون کی حقیقی حکمرانی سے معاشرے کے مختلف طبقات کے درمیان فرق ختم ہوجاتا ہے۔ قانون بنیادی انسانی حقوق میں مسلم اور غیرمسلم کی تقسیم نہیں کرتا۔غیرمسلم کی جان‘ مال اور عزت و آبرو کی حفاظت اتنی ہی اہم ہے جتنی کسی مسلم کی۔ انسانی جان کی حفاظت اور نشوونما بنیادی انسانی قدر ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ معاشرے میں امن و سکون اس وقت ہی قائم ہوسکتاہے جب  انسانی جان کی حفاظت کو سب سے زیادہ اہمیت دی جائے۔ انسانی جان کی حفاظت اور نشوونما ہی امن و سکون اور پایدار معاشرے کی ضمانت ہے۔ قرآن نہ صرف انسانی قتل کی مذمت کرتا ہے بلکہ اس نے ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل اور ایک انسان کی زندگی کے بچانے کو‘ گویا پوری انسانیت کو بچانا قرار دیا ہے (المائدہ ۵:۳۲)۔ اور تعلیمات نبویؐ میں تو درختوں‘ پرندوں اور جانوروں تک پر ظلم و زیادتی کی اجازت نہیں دی گئی۔

اگلا پہلو سماجی اور معاشی عدل ہے۔ اس کا مطلب ہے ایک شخص اپنے خاندان اور معاشرے حتیٰ کہ ناواقفوں کے حقوق و فرائض کی بھی صحیح طور پر بجاآوری کی کوشش کرے۔ قرآن و سنت حقوق و فرائض پر بہت زور دیتے ہیں اور اسی چیز کو بالکل بنیادی اور نچلی سطح تک پُرامن زندگی کی بنیاد قرار دیتے ہیں۔ حقیقی جاے امن‘ یعنی جنت میں داخلہ اس بات پر منحصر ہے کہ انسان اپنے مالک اور بھائی بند کے حقوق کی ادایگی صحیح طریقے پر کرتا ہے یا نہیں۔ چنانچہ حقوق اللہ ہوں یا حقوق العباد‘ دونوں کی صحیح ادایگی ہی اسے آخرت میں کامیاب بناسکتی ہے۔

پایدار معاشرتی عدل کے قیام کے لیے ضروری ہے کہ ہم نہ صرف اپنے معاملات اور سماجی رویوں میں اس کا اظہار کریں بلکہ اس کا مظاہرہ اپنی تجارت اور معاشی زندگی میں بھی کریں۔ لین دین میں خیانت اور استحصال نہ صرف ایک سماجی برائی ہے بلکہ یہ امن و سکون کو بھی برباد کر دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے خیانت کی سخت سزا مقرر کی ہے تاکہ معاشرے میں امن و سکون پیداہو‘ تجارتی شاہراہیں محفوظ و مامون ہوں اور تجارتی قافلوں کی بھی محفوظ نقل و حرکت ممکن ہو۔

قرآن معاشی زندگی میں اخلاقیات پر زور دیتا ہے کہ یہی معاشرتی امن و سکون کی بنیاد ہے۔ قرآن کہتا ہے:

اے لوگو جو ایمان لائے ہو‘ آپس میں ایک دوسرے کے مال باطل طریقوں سے نہ کھائو‘ لین دین ہونا چاہیے آپس کی رضامندی سے۔ اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو۔ یقین مانو اللہ تمھارے اوپر مہربان ہے۔ (النسائ۴:۲۹)

اور ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھایا کرو‘ نہ حاکموں کو رشوت پہنچا کر کسی کا کچھ مال  ظلم و ستم سے اپنا لیا کرو‘ حالانکہ تم جانتے ہو۔ (البقرہ ۲:۱۸۸)

اسی طرح ناپ تول میں خیانت سے منع فرمایا گیا ہے:

اور جب ناپنے لگو تو بھرپور پیمانے سے ناپو اور سیدھی ترازو سے تولا کرو یہی بہتر ہے اور انجام کے لحاظ سے بھی بہت اچھا ہے۔ (بنی اسرائیل ۱۷:۳۵)

اسلام نہ صرف معاشی معاملات میں عدل و انصاف اختیار کرنے کی ترغیب دیتا ہے‘ بلکہ معاشی استحصال (چاہے وہ سود ہو یا کسی اور شکل میں) کی مذمت کرنے کے ساتھ ساتھ اس کا بزور انسداد کرتا ہے اور اس کو معاشرے کے لیے باعثِ نزاع اور معاشی جبر قرار دیتا ہے۔

۳- سیاسی آزادی اور حریت

سیاسی عمل میںآزادانہ شرکت قرآن کے نزدیک ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔ سیاسی انصاف‘ حمایت و مخالفت کا حق ‘ آزادی اور حکومتی امور میں شرکت امن و سکون کی بنیادیں ہیں۔

۴- تنقیدی سوچ اور غوروفکر پر مبنی رویہ

معاشرتی عدل کا چوتھا نکتہ قرآنی تعلیمات کے مطابق عالمی امن کے قیام کے لیے انفرادی اور سماجی معاملات میں انسان کے اندر تنقیدی سوچ‘ غوروفکر اور شعور کا پیدا کرنا ہے۔ اسلامی نقطۂ نظر سے امن کا قیام اس وقت تک ناممکن ہے جب تک افراد اور معاشرہ دونوں اپنے معاملات میں راستی کا رویہ نہیں اپنا لیتے۔

انفرادی اور اجتماعی پالیسی سازی کا قریبی تعلق معاشرے میں مروجہ تنقیدی رویوں کے ساتھ ہے۔ تنقیدی نقطۂ نظر سے مراد کسی شخص کی ذاتی پسند و ناپسند نہیں بلکہ عقل کا صحیح‘ معروضی اور متوازن استعمال ہے۔ اجتماعی منصوبہ بندی اور پایدار امن کے لیے اس کا وجود ایک بنیادی ضرورت ہے۔

۵- صنفی تعلقات

اسلامی تصورحیات میں امن و سکون‘ صنفی تعلقات اور جنسی اخلاقیات کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ غیراخلاقی جنسی تعلق کو قرآن نہ صرف فحش‘ بلکہ ایک بڑی خیانت‘استحصال اور معاشرے کی ’’بیمار‘‘ ذہنیت کی عکاسی قرار دیتا ہے۔ دنیا میں پائے جانے والے باقی مذاہب کے برعکس اسلام تجرد اور رہبانیت کی زندگی اختیار کرنے کی نفی کرتا ہے۔ اسلام کے نزدیک خاندان کے ادارے کا قیام‘ معاشرے اور ریاست کی ذمہ داری ہے۔ اس کا فریضہ ہے کہ وہ غیرشادی شدہ لوگوں کو رشتۂ ازدواج میں منسلک کرائے:

تم میں سے جو مرد اور عورت مجرد ہوں ان کا نکاح کر دو اور اپنے نیک بخت غلام اور لونڈیوں کا بھی۔ اگر وہ مفلس بھی ہوں گے تو اللہ انھیں اپنے فضل سے امیر بنادے گا۔ اللہ کشادگی والا اور علم والا ہے۔ (النور۲۴:۳۲)

اسلام نہ صرف بیوہ کو شادی کی اجازت دیتا ہے ‘ بلکہ خاندان اور بڑے کنبے کی تعریف و توصیف بھی کرتا ہے اور اس پر اُبھارتا ہے۔ ان اقدامات کے ذریعے سے اسلام جنسی بے راہ روی سے بچاتا ہے اور معاشرے میں امن و سکون اور اخلاقی فضا کو قائم کرتاہے۔

۶- مذھبی آزادی

اسلامی تصور عدل کا چھٹا اہم پہلو مسلمان معاشروں میں مذہبی آزادی اور اپنے مذہب کے مطابق زندگی گزارنا ہے۔ مذہبی آزادی کے حق کو قرآن میں امن و انصاف قائم کرنے کے لیے بہت اہم قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ قرآن میں آتا ہے:

دین کے بارے میں کوئی زبردستی نہیں۔ (البقرہ ۲:۲۵۶)

۷- قانونی انصاف

بے لاگ قانونی انصاف کا حصول بھی عدل ہی کا ایک پہلو ہے اور اس کا اطلاق مذہب‘ رنگ و نسل‘ صنف اور کسی انسان کے سماجی مقام و مرتبے کے تعصب سے بلند ہے۔ قرآن کہتا ہے:

اے ایمان والو! تم اللہ کی خاطر حق پر قائم ہوجائو‘ راستی اور انصاف کے ساتھ گواہی دینے والے بن جائو‘ کسی قوم کی عداوت تمھیں خلافِ عدل پر آمادہ نہ کر دے۔ عدل کیا کرو جو پرہیزگاری کے زیادہ قریب ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو‘ یقین مانو کہ   اللہ تمھارے اعمال سے باخبر ہے۔ (المائدہ ۵:۸)

ایک اور اہم بات معاشرے میں کثیریت (pluralism) کا فروغ‘ مذہبی اور مسلکی آزادی اور اس کا احترام ہے۔ اس کی وجہ سے مختلف مذاہب اور مسالک کے لوگ اکٹھے ایک معاشرے میں امن وسکون کے ساتھ رہ سکتے ہیں۔

عدل وا نصاف کی ان سات جہتوں کا تعلق مسلمانوں یا کسی خاص وقت اور خاص جگہ کے ساتھ نہیں ہے‘ بلکہ یہ آفاقی اخلاقی اصول ہیں جو عالمی مکالمے کی اساس اور بنیاد ہیں اور انھی کے ذریعے امن وسکون‘ عدل و انصاف اور باہمی تعاون کو فروغ ملتا ہے‘ اور یہ اصول ایسی دنیا کی تعمیر کرتے ہیں جس کی بنیاد مذہبی آزادی و رواداری‘ انسانی جان کے احترام اور نشوونما اورفکرونظر کی آزادی پر ہو۔

مسلمان فلاسفر‘ مثلاً الغزالی (م: ۱۱۱۱ئ) اور شاطبی (م: ۱۳۸۸ئ) کے خیال میں اوپر بیان شدہ نکات میں سے پانچ نکات الہامی قانون‘ یعنی قرآن و سنت کی بنیاد بنتے ہیں۔ قرآن کی بہت سی تعلیمات اور احکامات انھی اصولوں کی بنیاد پر ہیں۔ ان اصولوں کی آفاقیت اور اسلامی اصولوں (توحید اور عدل) کے ساتھ عقلی تعلق‘ ان کو ہر ایک کے لیے قابلِ عمل بناتا ہے چاہے اس کا تعلق کسی بھی مذہب یا ثقافت سے ہو‘ اور یہی چیز معاشرے میں امن و انصاف کو دوام بخشتی ہے۔

یہ آفاقی اور غیر فرقہ وارانہ اصول امن کے عالمی مکالمے کی بنیاد ہیں اور شفاف سماجی ایجنڈے کی اساس۔ یہ اصول امن کے قیام اور سیاسی‘ سماجی اور معاشی انصاف کے نفاذ کے لیے بنیادی شرط کی حیثیت رکھتے ہیں۔

آج‘ جب کہ عالمی طور پر ’’سیکولر بنیاد پرستی‘‘ اپنے غیرجامد اور ہرلمحے بدلتے ہوئے خیالات اور اخلاقیات کے ساتھ سیاسی‘ معاشی‘ سماجی‘ قانونی اور تعلیمی اداروں کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے ‘اور آفاقی عالمی اقدار کی جگہ لادین اور سرمایہ دارانہ اقدار فروغ کے لیے سرگرمِ عمل ہیں‘ امن و سکون اور عدل و انصاف ہر شخص کی ذاتی پسند و ناپسند اور سوچ تک محدود ہوکر رہ گیا ہے۔ ’’آفاقی اخلاقی قدروں‘‘ کی جگہ مادیت کا دور دورہ ہے۔ اس خلا کی وجہ سے معاشرے میں تصادم برپا ہے۔ کثیریت‘ انصاف اور امن (داخلی اور خارجی)‘ اس سیکولر تہذیب کا شکار ہوگئے ہیں۔

امن و انصاف کا خواب حقیقت کا روپ کیسے دھارے؟ شاید اس کا جواب ایک ’’اخلاقی فورس‘‘ کے قیام میں مضمر ہے جس میں وہ تمام مذہبی اور سیکولر عناصر شامل ہوں جو تشدد‘ سماجی اور معاشی ناانصافی‘ استحصال اور انسانی حقوق کی پامالی کے خلاف متحد ہوں۔

دانش وروں‘ مذہبی قائدین اور پروفیشنل پر مشتمل یہ ’’اخلاقی فورس‘‘ نہ صرف لوگوں کو حقیقی امن کی آگاہی دے سکتی ہے بلکہ قومی اور بین الاقوامی سطح پر راہِ عمل بھی متعین کرسکتی ہے۔ (Policy Perspectives‘اسلام آباد‘ اپریل ۲۰۰۴ئ)

مستشرقین کے نقطۂ نظر کا جائزہ

مغربی محققین واضح تاریخی حقائق کا دیدہ دلیری سے مذاق اڑاتے ہوئے خود قرآن کریم کے حوالے سے وہ بہت سی باتیں دوبارہ اٹھا رہے ہیںجو صدیوں سے زیربحث آتی رہی ہیں اور جن پر مسلم علما اور دانش وروں نے علمی سطح پر بغیر کسی معذرت کے حقائق کو بلاکم و کاست پہلے ہی پیش کر دیا ہے۔

بعض مغربی ناقدین قرآن کریم کی ان آیات کے حوالے سے جن میں جہاد اور قتال کا حکم دیا گیا ہے یہ کہتے ہیں کہ ایسی آیات کی موجودگی میں‘ جو ان کے بقول ان آیات کو منسوخ کر دیتی ہیں جن میں امن ‘ترقی اور محبت کا پیغام دیا گیا ہے‘ اسلام کو کس طرح ایک امن پسند مذہب کہا جا سکتا ہے۔ سورہ نساء کی آیت ۷۴ کو اس کے سیاق و سباق سے نکال کر بطور دلیل پیش کیا جاتا ہے کہ ’’اللہ کی راہ میں لڑنا چاہیے ان لوگوں کو جو آخرت کے بدلے دنیا کی زندگی کو فروخت کر دیں۔ پھر جو اللہ کی راہ میں لڑے گا اور مارا جائے گا یا غالب رہے گا اسے ضرور    ہم اجرعظیم عطا کریں گے‘‘ (النساء ۴:۷۴)۔


  • وائس چیئرمین ‘انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز‘ اسلام آباد

اس آیت مبارکہ کو نقل کرنے کے بعد مغربی مستشرق یہ کہتے ہیں کہ اسلام لوگوں کو لڑائی اور قتل پر اُبھارتا ہے۔ کاش! یہی مستشرق اس آیت سے اگلی آیت کو بھی پڑھ لیتے اور پھر دونوں آیتوں کو ملا کر ان کا مفہوم سمجھنے کی کوشش کرتے۔ رب کریم اگلی آیت میں فرماتا ہے: ’’آخر کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں ان بے بس مردوں‘ عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑو جو کمزور پا کر دبا لیے گئے ہیں اور فریاد کر رہے ہیں کہ خدایا ہم کو اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں اور اپنی طرف سے ہمارا کوئی حامی و مددگارپیدا کر دے‘‘ (النساء ۴:۷۵)۔ اس آیت کو اگر صرف ایک غیرجانب دار نظرڈال کر پڑھ لیا جائے تو بات واضح ہو جاتی ہے کہ پہلی آیت کس کے خلاف جنگ پر اُبھارتی ہے ؟اگر ظلم‘ تشدد‘ حقوق انسانی کی پامالی کرنے والے سفاک افراد کو ان کے حال پر یہ کہہ کر چھوڑ دیا جائے کہ ہم تو امن کے پرستار ہیں‘ ہم تلوار کو ہاتھ لگا کر گناہ کا ارتکاب نہیں کرنا چاہتے تو کیا یہ رویہ اخلاق کے کسی بھی پیمانے پر پورا اُترے گا؟

اسلام اور قرآن کو کوئی معذرت پیش کرنے کی ضرورت نہیں۔ وہ اگر جہاد کی بات کرتا ہے تو دوٹوک‘ سیدھے اور غیرمبہم انداز میں یہ بات کہتا ہے کہ ہر ظالم‘ جابر‘سفاک کے خلاف جنگ کرنا انسانی فریضہ ہے۔ اسلام کا مقصد قیامِ امن و عدل ہے اور اس میں گفت و شنید‘ اخلاقی دبائو‘ترغیب‘ مکالمہ ہرچیز ناکام ہو جائے اور عورتیں‘بچے اور بوڑھے مسلسل ظلم کا شکار ہو رہے ہوں تو پھر اس سے قطع نظر کہ وہ مظلوم مسلمان ہیں یا غیرمسلم‘ ان کی نصرت و امداد مسلمان پر فرض ہو جاتی ہے۔ یہی وہ پیغام ہے جو یہ دو آیتیں دیتی ہیں۔ ان میں کس جگہ یہ کہا گیا ہے کہ بلاکسی سبب کے جب اور جہاں چاہو مذہب کے نام پر خون بہائو؟

اسی طرح سورۂ توبہ کی ایک آیت کے حوالے سے یہ بات کہی جاتی ہے کہ اس میں غیرمسلموں اور اہل کتاب کے خلاف قتل عام کی اجازت دی گئی: ’’جنگ کرو اہل کتاب میں سے ان لوگوں کے خلاف جو اللہ اور روزِ آخر پر ایمان نہیں لاتے اور جو کچھ اللہ اور اس کے رسولؐ نے حرام قرار دیا ہے اسے حرام نہیں کرتے اوردین حق کو اپنا دین نہیں بناتے۔ (ان سے لڑو) یہاں تک کہ وہ اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں اور چھوٹے بن کر رہیں‘‘ (التوبہ ۹:۲۹)۔ یہاں بھی  قرآن کریم یہ بات واضح الفاظ میں بیان کر رہا ہے کہ غیرمسلم اہل کتاب ہوں یا کوئی اور‘ ان کے خلاف صرف اس وقت تک جنگ کی جا سکتی ہے جب تک وہ اسلامی ریاست کی امارت  تسلیم نہ کرلیں۔ اصل مقصد ان کو قتل کرنا‘ ختم کرنا‘ تباہ کرنا نہیں ہے بلکہ قانون کی حکمرانی اور  امن و عدل کا قیام ہے۔ جہاد کا مدعا انھیں مار مار کر قوت کے زور سے مسلمان بنانا یا صفحۂ ہستی سے مٹانا نہیں ہے۔ اسلام کسی بھی ذی روح بلکہ غیر ذی روح کو بھی تشدد کے ذریعے تباہ کرنے کی اجازت نہیں دیتا‘ خواہ وہ حیوان ہوں یا نباتات۔ یہ صرف مغربی سامراجی طاقتوں کا طریقہ ہے کہ وہ جہاں چاہیں ’’تورابورا‘‘ کرنے کا پیدایشی حق بزعم خود استعمال کرتے ہوئے شرم محسوس نہیں کرتے۔ وہ ویت نام ہو‘ کوریا ہو‘ بوسنیا ہرذی گوونیاہو‘ چیچنیا ہو‘ آذربائیجان ہو‘ افغانستان ہو یا عراق وہ جب اور جہاں چاہتے ہیں اپنے مفاد کے لیے دوسروں کو ظلم و تشدد کا نشانہ بنانا اپنا’’انسانی فرض‘‘سمجھتے ہیں۔

سورۃ المائدہ کی آیت ۵۱ کے حوالے سے بھی یہ بات کہی جاتی ہے کہ یہ یہود اور عیسائیوں کو دشمن کے مقام پر رکھ دیتی ہے اور اس طرح ان کے خلاف نفرت کے جذبات کو ہوا دیتی ہے۔ آیت کا ترجمہ یہ ہے: ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو‘ یہودیوں اور عیسائیوں کو اپنا رفیق نہ بنائو‘ یہ آپس میں ایک دوسرے کے رفیق ہیں۔ اور اگر تم میں سے کوئی ان کو اپنا رفیق بناتا ہے تو اس کا شمار بھی پھر انھی میں ہے‘ یقینا اللہ ظالموں کو اپنی رہنمائی سے محروم کر دیتا ہے‘‘۔ (المائدہ ۵:۵۱)

سلسلۂ مضامین پر غور کیا جائے تو واضح ہو جاتا ہے کہ آیت ۴۲ سے جس موضوع پر بات کی جا رہی ہے وہ اہل کتاب کا عناد‘ جھوٹ اور دھوکا دہی پر مبنی طرزِعمل ہے جس میں ان کے مذہبی رہنمائوں کا اپنے ذاتی مفاد کے لیے تورات و انجیل کی تعلیمات کو بدل دینا اور اللہ کے ساتھ حضرت عزیر ؑ اور حضرت عیسٰی ؑ کو شریک بنانا ہے۔

پھربتایا جا رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو شریعتیں مختلف ادوار میں نازل کی ہیں ان میں بہت سی تعلیمات مشترک ہیں۔ اسلامی شریعت بھی انھی اصولوں پر مبنی اور من جانب اللہ ہے‘ اس لیے یہود و نصاریٰ کے بہکائے میں آئے بغیر فیصلے اللہ کی شریعت کے مطابق کیے جائیں‘ باوجود اس کے کہ یہود و نصاریٰ کی کوشش یہ ہو کہ اہل ایمان کو فتنے میں ڈال کر اپنی طرح گمراہ کر دیں۔

اس تفصیل کے بعد جو آیت ۴۲ سے آیت ۵۰ تک بیان کی گئی ہے یہ فرمایا جا رہا ہے کہ یہود اور عیسائیوںکو رفیق نہ بنایا جائے کیونکہ یہ تو آپس ہی میں گمراہوں کے رفیق ہوسکتے ہیں۔ اگر غور کیا جائے تو سیاق و سباق کی روشنی میں اس سے زیادہ سچی بات اور کیا ہو سکتی ہے جو یہاں کہی جا رہی ہے۔ پھر یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ جس سورہ کے حوالے سے مستشرقین یہ الزام اسلام کو دیتے ہیں‘ اس کا آغاز جن الفاظ سے کیا جا رہا ہے وہ ان محققین کی نگہ انتخاب سے     نہ جانے کیوں اوجھل ہو جاتے ہیں۔ فرمایا جا رہا ہے: ’’آج تمھارے لیے ساری پاک چیزیں حلال کر دی گئی ہیں۔ اہل کتاب کا کھانا تمھارے لیے حلال ہے اور تمھارا کھانا ان کے لیے۔ اور محفوظ عورتیں بھی تمھارے لیے حلال ہیں خواہ وہ اہل ایمان کے گروہ سے ہوں یا ان قوموں میں سے جن کو تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی‘ (یہودی یا عیسائی) بشرطیکہ تم ان کے مہر ادا کر کے نکاح میں ان کے محافظ بنو‘‘۔ (المائدہ ۵:۵)

ایک معمولی عقل کا انسان بھی یہ بات سمجھ سکتا ہے کہ جن یہودی یا عیسائی نیک خواتین کے ساتھ رشتہ مناکحت کی اجازت دی جا رہی ہو گویا انھیں اپنے گھر اور اپنے معاشرے میں ایک قابلِ احترام بیوی کا مقام دیا جا رہا ہو اور جن کے ساتھ کھانے پینے کے معاشرتی تعلقات قائم کرنے کی اجازت دی جا رہی ہو‘ ان کے بارے میں کیا یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ وہ تمھارے دشمن ہیں‘ جہاں کہیں مل جائیں انھیں تہ تیغ کر دو‘ تہس نہس کر دو اور صفحۂ ہستی سے مٹا دو!

دوسری جانب کیا قرآن کریم کو یہ چاہیے کہ جو یہودی اور عیسائی بظاہر دوست بن کر آئیں‘ جب کہ ان کا واضح مقصد فتنہ و فساد ہو‘ اہل ایمان کو آپس میں لڑانا ہو‘ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم کو دعوت کے بہانے بلا کر زہر بھرا گوشت کھلا کر قتل کرنے کی نیت ہو تو کیا قرآن یا تورات کو ایسے افراد کو جگری دوست بنانے کا مشورہ دینا چاہیے؟ قرآن کریم ہی نہیں‘ کسی بھی کتاب سے ایک جملہ نکال کر اس کو اپنے من مانے معنی پہنانا نہ تو فکری دیانت ہے اور نہ اس کتاب کے ساتھ انصاف۔ اسی لیے قرآن کریم نے یہ کہا تھا کہ ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو‘ اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو۔ کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کر دے کہ انصاف سے پھرجائو۔ عدل کرو‘ یہ خداترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے‘‘۔ (المائدہ۵:۸)

ایک اور قرآنی آیت: ’’پس جب ان کافروں سے تمھاری مڈبھیڑ ہو تو پہلا کام گردنیں مارنا ہے‘ یہاں تک کہ جب تم ان کو اچھی طرح کچل دو تب قیدیوں کو مضبوط باندھو‘ اس کے بعد (تمھیں اختیار ہے) احسان کرو یا فدیے کا معاملہ کر لو‘ تاآنکہ لڑائی اپنے ہتھیار ڈال دے‘‘ (سورہ محمد ۴۷:۴)۔ مغربی مستشرق اس آیت کی یہ تعبیرکرتے ہیں کہ قرآن یہ چاہتا ہے کہ اہل ایمان کو جہاں کہیں کفار مل جائیں ان کی گردنیں مارتے چلے جائیں اور کشتوں کے پشتے لگادیں‘ بالکل اسی طرح جیسے کہ بوسنیا ہرذی گوونیا میں بہت سے مقامات پر اجتماعی قبروں کی دریافت سے معلوم ہوا کہ کروٹ اور سرب عیسائیوں نے مسلمانوں کو بلاتفریق جنس و عمرتہ تیغ کیا۔

اس آیت مبارکہ کے نزول سے قبل سورۃ الحج کی آیت ۳۹ اور سورۃ البقرہ کی آیت ۱۹۰ جہاد کی اجازت کے سلسلے میں آچکی تھیں۔ اب اس بات کی ضرورت تھی کہ اسلامی قانونِ جنگ کی وضاحت جنگ پیش آنے سے قبل ہی کر دی جائے۔ چنانچہ فرمایا گیا کہ اگر مشرکین و کفار کا مقصد یہ ہے کہ اسلامی تحریک کو دبانے اور مٹانے کے لیے اورتمھیں مدینہ سے بے دخل کرنے کے لیے پوری قوت سے مدینہ پر حملہ آور ہو کر اس دعوتِ حق کی روشنی کو بجھا دیں تو جہاد کی اجازت کی روشنی میں تم بھی ان کی قوت توڑنے میں تکلف نہ کرو۔ ’’گردنیں مارنا‘‘ محض قتل کرنے کے معنی میں نہیں بلکہ واضح طور پر ان کی قوت توڑنے کے معنی میں استعمال ہواہے۔

کسی بھی جنگ کی حکمت عملی یہی ہوتی ہے کہ مخالف کی قوت کو توڑا جائے۔ اس لیے قرآن کا یہ کہنا اخلاق و عدل کے اصولوں پر مبنی صحیح ترین عمل نظر آتا ہے۔ ہاں اگلی بات یہ سمجھا دی گئی کہ مقصود ان کا بے رحمانہ قتل نہیں بلکہ اگر ان کی قوت ٹوٹ جائے تو انھیں قید میں آنے کے بعد قتل نہیں کیا جا سکتا‘ہرقیدی کو عزت و احترام کے ساتھ لباس‘ کھانا‘ تحفظ دیا جائے گا اور اس کے سامنے یہ اختیار ہوگا کہ وہ اپنے آپ کو فدیہ دے کر آزاد کرا لے یا اسلامی ریاست ان پر احسان کر کے رہا کر دے یا تبادلۂ اسیران میں اسے رہا کر دیا جائے۔ ہمارے علم میں کسی انتہائی ’’پُرامن‘‘ فلسفے پر مبنی مذہب کا کوئی ایسا اصول نہیں جس میں کہا گیا ہو کہ جب دشمن تم پر حملہ آور ہو تو اپنے دروازے کھول کر سرجھکا کر ادب سے اس کا استقبال کرتے ہوئے اپنی گردنیں قلم کرانے کے لیے پیش کرو اور یقین کرلو کہ تمھاری طرف سے ایک انگلی بھی نہ اُٹھے‘ نہ اس میں سے ایک قطرہ خون ٹپکے!

مستشرقین کے بعض اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے بار بار یہ احساس ہوتا ہے کہ کاش یہ علم کے مدعی بات کرنے سے قبل حصول معلومات بھی کرلیتے‘ مثلاً یہ کہنا کہ مسلم معذرت خواہ (apologists) یہ کہتے ہیں کہ تمام غلط فہمی اس بنا پر پیدا ہوتی ہے کہ قرآن کریم کے انگریزی تراجم ناقص ہیں‘ اس بنا پر جہاد اور قتال کے بارے میں غلط تصورات پائے جاتے ہیں (الراوندی "Islam and Armageddon")۔ یہ نصف سچائی پر مبنی ایک بیان ہے۔ ہمارے خیال میں بعض صورتوں میں اس کا امکان تو ہے لیکن اصل مسئلہ ترجمے کا نہیں بلکہ قرآن کریم کی آیات کو سیاق و سباق سے الگ کر کے اس کا مفہوم اپنے ذہنی مفروضوں کی روشنی میں متعین کرنا ہے۔

تحقیق کا بنیادی اصول ہے کہ زیربحث مسئلے کو براہِ راست اس کے سیاق و سباق میں دیکھا جائے‘ اس کے بعد کوئی رائے قائم کی جائے۔ یہی سبب ہے کہ مستشرقین بعض ایسی باتیں بھی کہہ جاتے ہیں جو بنیادی اسلامی علمی اصطلاحات سے ان کی ناواقفیت کا اظہار کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر یہ کہنا کہ مکّی آیات رحم و عفو و محبت سے بھری ہوئی ہیں‘ جب کہ مدنی آیات‘ مثلاً ’’مشرکین کو جہاں پائو قتل کر دو‘‘ نے ۱۳۴ ایسی آیات کو جو رحم و لطف سے متعلق تھیں منسوخ کر دیا ہے (الراوندی‘ایضاً) نہ صرف مکی و مدنی آیات سے ناواقفیت ظاہر کرتا ہے بلکہ نسخ فی القرآن جیسے اہم مضمون سے مکمل لاعلمی کا ثبوت پیش کرتا ہے۔

حقیقت واقعہ یوں ہے کہ ۹ ہجری میں جب مسلمانوں نے حضرت ابوبکرؓ کی قیادت میں پہلا حج کیا تو سورۂ توبہ کی وہ آیات نازل ہوئیں جن میں اللہ اور اس کے رسولؐ نے ان مشرکین سے اپنی برأت کا اعلان کیا جن سے اس سے قبل بعض معاہدے ہوئے تھے اور وہ ان کی   خلاف ورزی کرتے رہے تھے۔ انھیں مہلت دی گئی کہ وہ آیندہ چار ماہ تک اپنے بارے میں طے کرلیں اور اگر کہیں اور جاکر آباد ہونا ہو تو بلاروک ٹوک چلے جائیں یا اپنی روش بدلنی ہو تو ایساکرلیں۔ اس کے بعد ان کے خلاف عام اعلان جنگ کرتے ہوئے یہ بات سمجھا دی گئی کہ ان چار ماہ کے بعد مشرکین کے خلاف اس وقت تک جنگ ہوگی جب تک وہ اپنی غلطی کا اعتراف (توبہ) کرنے کے بعد نماز اور زکوٰۃ پر عامل نہ ہو جائیں۔

چنانچہ اس آیت سے اگلی آیت میں مشرکین کے حوالے ہی سے یہ ہدایت کی گئی کہ گو ان کے خلاف جارحیت کی اجازت ہے لیکن اگر کوئی مشرک حالت جنگ میں بھی اہل ایمان سے پناہ مانگے تو اسے پناہ دی جائے اور اسے قرآن سننے اور اہل قرآن کو دیکھنے کا موقع فراہم کیا جائے۔ پھر اسے مجبور کیے بغیر اور اس پر کسی قسم کا تشدد کیے بغیر اس کے گھر تک اپنی امان اور حفاظت میں پہنچانا مسلمانوں کا فرض ہے۔ چنانچہ فرمایا: ’’اور اگر مشرکین میں سے کوئی شخص پناہ مانگ کر تمھارے پاس آنا چاہے (تاکہ اللہ کا کلام سنے) تو اسے پناہ دے دو یہاں تک کہ وہ اللہ کا کلام سن لے۔ پھر اسے اس کے مامن تک پہنچادو۔ یہ اس لیے کرنا چاہیے کہ یہ لوگ علم نہیں رکھتے‘‘۔ (التوبہ ۹:۵)

دونوں آیات کو ملا کر پڑھیے تو بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ ’’مشرکین کو قتل کرو جہاں پائو‘‘ کے حکم کا صحیح مفہوم کیا ہے۔ یہ ایک مطلق اجازت نہیں ہے کہ جہاں کسی مشرک کو دیکھا اور نشانہ بنا دیا بلکہ اس بات کا اعلان ہے کہ ہماری اصل جنگ شرک و کفر کے ساتھ ہے۔ اگر کوئی مشرک حصولِ معلومات کے لیے اہل ایمان سے پناہ طلب کرتا ہے تو قرآنی حکم کی اطاعت میں اسے نہ ہاتھ لگایا جائے گا نہ قیدی بنایا جائے گا بلکہ اپنی حفاظت میں اسے اس کے گھر تک لے جایا جائے گا۔ یہاں بھی آیت کے ایک حصے کو سیاق و سباق سے الگ کرنے کے نتیجے میں مستشرقین ایک گمراہ کن تعبیرکرکے یہ سمجھتے ہیں کہ انھوں نے خود قرآن سے فلسفۂ تشدد کو ثابت کردیا۔

مغرب میں آج کل اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں بہت کچھ لکھا جا رہا ہے۔ اسی حوالے سے گذشتہ دنوں ہفت روزہ نیوزویک نے ’’۲۰۰۲ء کے مسائل‘‘ کے عنوان سے ایک خصوصی شمارہ (دسمبر ۲۰۰۱ء-فروری ۲۰۰۲ء) شائع کیا ہے جس میں مسلمانوں سے موجودہ کش مکش کے منظر کو موضوع بنایا گیا۔ ’’اختتام تاریخ‘‘ شہرت یافتہ امریکی مفکر فرانسس فوکویاما کا مضمون اسلامی احیائی تحریکات کے حوالے سے توجہ کا مستحق ہے۔

وہ پہلی بات یہ کہتا ہے کہ جدید سرمایہ دارانہ تہذیب کے اصل دشمن ’’اس دور کے فاشسٹ‘‘ ، ’’اسلامی انقلابی‘‘ (Radical Islamists) ہیں۔ یہ لوگ جدید لبرل جمہوریت اور سرمایہ داری کو‘ جو فوکویاما کے تصور میں انسانی تاریخ کی بہترین ممکنہ معاشرتی ارتقائی شکل پیش کرتی ہے‘ نفرت‘ حقارت اور دشمنی کی نگاہ سے اپنا مدمقابل سمجھتے ہیں۔ چنانچہ ۱۱ستمبر۲۰۰۱ء کا واقعہ اسی کا مظہر تھا۔ ان کا وجود اس جدید تہذیب کی حیات اور بقا کے سلسلے میں بنیادی سوال بن کر اُٹھ کھڑا ہوا ہے۔ اس مخالفانہ رویے کو اختیار کرتے وقت‘ اس کے خیال میں‘ مسلمان یہ بھول جاتے ہیں کہ امریکہ ہی نے صومالیہ‘ بوسنیا‘ کوسووا اور چیچنیا میں مسلمانوں پر ظلم کے خلاف آواز بلند کی تھی۔

فوکویاما کے یہ خیالات ایک قدم آگے بڑھ کر احیائی تحریکات کے حوالے سے ایک نئی اصطلاح استعمال کرتے ہیں‘ یعنی "Islamo Facists"۔ اس کے بقول:

"The Islamo fascist sea within which the terrorists swim constitutes an  Ideological challenge that is in some ways more basic than the one posed by communism" (p  58)

اسلامی فاشزم کا سمندر‘ جس میں دہشت گرد تیرتے ہیں‘ ایسا نظریاتی چیلنج ہے جو بعض اعتبار سے کمیونزم کے چیلنج سے زیادہ بنیادی ہے۔

فوکویاما کی نظر میں مسلمانوں کو یہ فیصلہ جلد کرنا ہوگا کہ کیا وہ ’’جدیدیت‘‘ (modernity) کے ساتھ ایک امن کا رشتہ قائم کرنا چاہتے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو انھیں سیکولر ریاست اور مذہبی رواداری کو اختیار کرنا ہوگا (ص۵۹)۔ موصوف کے یہ خدشات تو بڑی حد تک ہن ٹنگٹن کی فکر کا تکملہ نظر آتے ہیں‘ لیکن مغرب کی نمایندہ فکر ہونے کے سبب سنجیدگی کے ساتھ غور کرنے کا تقاضا بھی کرتے ہیں۔

ان تمام خدشات کی بنیاد چار غلط فہمیوں پر ہے۔

اولاً یہ تصور کر لیا گیا ہے کہ تحریکات احیاے اسلام دراصل ماضی پرست تحریکات ہیں۔ حالانکہ اسلامی تحریکات دراصل اجتہادی تحریکات ہیں اور اسی بنا پر خود مسلم ممالک میں جو طبقات روایتی مذہب پرستی کے قائل ہیں وہ ان تحریکات کی مخالفت میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھتے۔ حقیقتاً ماضی پرست تو وہ ہیں جو اسلاف کی ہر عادت کو جامہ تقدس پہنا کر اپنے اُوپر فرض کر لیتے ہیں‘ جب کہ تحریکات اسلامی صرف قرآن و سنت کی بنیاد پر نئے حالات کی روشنی میں تجزیے اور عقل کی بنیاد پر ایک لائحہ عمل پیش کرتی ہیں جس میں اسلام محض عبادات تک محدود نہیں رہتا بلکہ جدید معاشی‘ سیاسی‘ معاشرتی اور بین الاقوامی مسائل کا حل پیش کرتا ہے۔ یہ تحریکات آج کے مسائل اور مستقبل کے امکانات کو اپنی اولین ترجیح قرار دیتی ہیں اور کسی پہلو سے بھی قدامت پرست اور ماضی کی پرستار نہیں کہی جاسکتیں۔

دوسرا غلط مفروضہ یہ ہے کہ اسلامی تحریکات شدت پسند تحریکات ہیں اور مغرب سے اپنے غصے‘ نفرت اور دشمنی کے پیش نظر اسے تباہ و برباد کرنے کے لیے بے چین ہیں۔ ایک مفکر کی حیثیت سے فوکویاما کو ایک انتہائی غلط اور بے بنیاد بات پر بھی یقین کرنے کا حق حاصل ہے لیکن اگر تعصبات سے بلند ہو کر دیکھا جائے تو اسلامی احیائی تحریکات‘ مثلاً انڈونیشیا میں ماشومی‘ ترکی میں حزب رفاہ‘ سوڈان میں اخوان المسلمون‘ الجزائر میں فاس‘ پاکستان میں جماعت اسلامی اور اسی طرح بنگلہ دیش‘ ہندستان‘ سری لنکا‘ مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر کی جماعت اسلامی‘ حتیٰ کہ شام‘ عراق‘ اور اُردن کی اخوان المسلمون نے کبھی تشدد‘ انتہا پسندی اور قوت کے استعمال کو نظری اور عملی حیثیت سے اختیار نہیں کیا۔ مصر میں صرف ایک محدود وقت کے لیے اخوان المسلمون نے خفیہ طریقہ اختیار کیا لیکن وہ بھی دوسرے مرشدعام حسن الہضیبی کے دورسے کھلے اور جمہوری ذرائع پر عامل تحریک بن گئی۔ علمی دیانت کا تقاضا ہے کہ جن مقامات پر تحریکاتِ حریت برپا ہیں‘ وہ فلسطین ہو یا مقبوضہ کشمیر‘ ان پر دیگر تحریکات کو قیاس نہ    کیا جائے۔

تیسری اہم بات یہ قابل غور ہے کہ تحریکات اسلامی جو اپنا تشخص دعوت و اصلاح کو قرار دیتی ہیں اور رنگ‘ نسل‘ زبان اور قومیت سے بلند ہو کر یورپ اور امریکہ کی اقوام کو اسلام کے پیغام امن کی دعوت دینے کو اپنی ترجیحات میں شامل کرتی ہیں‘ کیا عقلی اور منطقی طور پر ان اقوام کو نفرت اور دشمنی کا نشانہ بنا سکتی ہیں؟ کیا اتنا بڑا تضاد ممکن ہے؟ فوکویاما اور اس قسم کے مفکرین اسلام کے بنیادی اخلاقی تصور کو نظرانداز کر جاتے ہیں‘ یعنی یہ کہ وہ جہالت‘ ظلم اور بغاوت و فتنہ و فساد کا دشمن ہے۔ اگر فرعون جیسا ظالم اور سرکش اسلام کی دعوت کو سوچ سمجھ کر قبول کر لے تو وہ ولی حمیم بن سکتا ہے۔ اسی لیے خود خالق کائنات نے اپنے رسول حضرت موسٰی ؑکو یہ حکم دیا کہ جائو اور وقت کے باغی کو انتہائی نرمی سے دعوت امن و فلاح دو۔ یہ انبیاء کی سنت رہی ہے۔ خود رسولؐ اللہ نے مکہ اور طائف میں اس سنت پر عمل کیا۔ آج بھی تحریکات اسلامی اس پر عامل ہیں۔ گویا تحریکات اسلامی کی دشمنی جہالت‘ فحاشی اور فتنہ و فساد سے ہے۔ جو لوگ ان برائیوں میں پڑے ہوں اگر وہ اخلاقی رویہ اختیار کر لیں تو وہی بہترین ساتھی بن جاتے ہیں۔ یہاں معاملہ کسی قوم کو صفحۂ ہستی سے مٹا دینے کا نہیں ہے اور نہ اس پر ناجائز قوت کا استعمال کرکے اپنی عظمت کا سکّہ منوانا ہے۔ فوکویاما کا ایک تبصرہ اس حوالے سے چونکا دینے والا ہے۔ وہ جرمن فاشزم کی مثال دے کر کہتا ہے:

"German Fascism did not collapse because of its internal moral contradiction; it died because  Germany was bombed to rubbles  and occupied by the Allied armies (p 58-59)

جرمن فاشزم اپنے اندرونی داخلی تضادات کی بنیاد پر منہدم نہیں ہوا۔ اس کی موت اس لیے واقع ہوئی کہ جرمنی کو بم باری کرکے ایک ڈھیر بنا دیا گیا اور اتحادی افواج نے اس پر قبضہ کر لیا۔

اس تبصرے میں ایک واضح پیغام "Islamo-fascists" کے ساتھ ساتھ ان ممالک کے لیے بھی موجود ہے جو ایسے ممالک اور افراد سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ غالباً یہی وجہ تھی کہ امریکہ نے بیسویں صدی کی شدید ترین بم باری کے ذریعے افغانستان کو نشانہ بنا کر دوسروں تک یہ پیغام پہنچایا۔

جہاں تک سوال تشدد اور قوت کے استعمال کا ہے‘ اسلامی تحریکات اپنی ساخت‘ طریقہ کار اور لائحہ عمل کے لحاظ سے فاشزم سے کوئی مماثلت نہیں رکھتیں بلکہ تاریخی طور پر مکی دور سے آج تک فاشسٹ قوتوں کا نشانہ بنتی رہی ہیں۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ جہاد جو اسلام کا ایک بنیادی رکن ہے ایک صحیح الفہم مسلمان کو متحرک  توکرتا ہے‘ متشدد نہیں بناتا‘ اور نہ اس میں ’’مذہبی جنون‘‘ پیدا کرتا ہے۔

کاش مغربی مفکرین اسلامی تحریکات احیا کو معروضی طور پر مطالعہ کرنے کے بعد کوئی رائے قائم کرتے!

 

اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے اُمت مسلمہ پر بے شمارانعامات میں سے ایک عظیم احسان اہل ایمان کے درمیان رشتہ اخوت و مودت کا قائم فرمانا ہے۔ سورۃ الحجرات میں اس احسان عظیم کا ذکر یوں فرمایا گیا کہ بلاشبہہ اہل ایمان تو آپس میں بھائی بھائی ہیں (اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ-الحجرات ۴۹:۱۰)‘ اور ان کے باہمی تعلّق کو قریب ترین قرار دیتے ہوئے ان کی پہچان یہ بتائی گئی کہ وہ آپس میں رحمت و محبت سے پیش آتے ہیں (رُحَمَآئُ بَیْنَھُمْ- الفتح ۴۸:۲۹)۔ اسی طرح اہل ایمان کو ایک دوسرے کا دوست‘ ساتھی‘ رفیق‘ مددگار اور ہم رکاب قرار دیا۔ چنانچہ فرمایا: وَالْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُھُمْ اَوْلِیَآئُ بَعْضٍ م یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَیُقِیْمُوْنَ الصَّلوٰۃَ وَیُوْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ وَیُطِیْعُوْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ ط (التوبہ ۹:۷۱) ’’اور مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے اولیا اور رفیق ہیں۔ بھلائی کا حکم دیتے ہیںاور برائی سے منع کرتے ہیں‘ نماز قائم کرتے ہیں‘ زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں‘‘۔

اپنے اس انعام اور احسان کے اظہار کے ساتھ ہی یہ بات بھی فرما دی گئی کہ اخوت کا بنیادی تقاضا باہمی صلح‘ رواداری اور عدل ہے۔ چنانچہ سورہ النحل میں فرمایا: اللہ تمھیں حکم دیتا ہے کہ عدل و احسان کو اختیار کرو اور اقربا کودو‘ (اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَاِیْتَآیِٔ ذِی الْقُرْبٰی … النحل ۱۶:۹۰)۔ اس لیے اہل ایمان پر یہ اجتماعی ذمہ داری ڈال دی گئی کہ اگر ان میں اختلاف اور تنازع ہو جائے تو صلح کرائی جائے اور مظلوم کو ظالم سے نجات دلائی جائے۔ اس حکم کی اہمیت کے پیش نظر سورہ النحل کی یہ آیت دنیا کے ہر خطے میں خطبہ جمعہ کا ایک لازمی حصہ بن گئی ہے۔ اسی طرح دوسرے مقام پر یوں فرمایا:  وَاِنْ طَآئِفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَیْنَھُمَا ج فَاِنْ م بَغَتْ اِحْدٰھُمَا عَلَی الْاُخْرٰی فَقَاتِلُوا الَّتِیْ تَبْغِیْ حَتّٰی تَفِیْٓ ئَ اِلٰٓی اَمْرِ اللّٰہِ ج فَاِنْ فَآئَ تْ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَھُمَا بِالْعَدْلِ (الحجرات ۴۹:۹) ’’اور اگر اہل ایمان میں سے دو گروہ آپس میں لڑ جائیں تو ان کے درمیان صلح کرائو۔ پھر اگر ان میں سے ایک گروہ دوسرے پر زیادتی کرے تو زیادتی کرنے والے سے لڑو یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف پلٹ آئے۔ پھر اگر وہ پلٹ آئے تو ان کے درمیان عدل کے ساتھ صلح کرا دو‘‘۔

اسلامی اخوت کوحضور نبی کریمؐ نے ایک محکم و مضبوط عمارت سے تعبیر فرمایا ہے: المومن کالبنیان یشد بعضہ بعضا ثم ثبت من اصابعہ (بخاری‘ مسلم) ’’مسلمان مسلمان کے لیے عمارت کی طرح ہے جس کا ایک حصہ دوسرے حصے کو قوت پہنچاتا ہے۔ پھر آپؐ نے ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں پیوست کر کے بتایا‘‘۔

حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو اپنے بھائی کی مدد کر چاہے وہ ظالم ہو یا مظلوم‘ تو ایک شخص نے کہا کہ اے اللہ کے رسولؐ ،مظلوم ہونے کی صورت میں تو اس کی مدد کر دیتا لیکن ظالم ہونے کی صورت میں کس طرح مدد کروں۔ آپؐ نے فرمایا‘ تو اسے ظلم کرنے سے روک دے۔ یہی اس کی مدد کرنا ہے۔ (بخاری ‘مسلم)

مسلمان بھائی کی خیر خواہی‘ اس کی جان‘ مال ‘ عزت و آبرو کی حفاظت کرنا ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر حقوق میں سے ہے گویا یہ کوئی احسان کی بات نہیں بلکہ فریضہ ہے۔ حضور نبی کریمؐ کا واضح حکم ہے کہ اگر کسی بنا پر آپس میں کوئی رنجش ہو جائے تو تین راتوں سے زیادہ قطع تعلق کرنا حرام ہے‘ خواہ زیادتی کسی کی بھی ہو۔ بحالی تعلّقات کے لیے‘ ہر مومن کا فرض ہے کہ وہ سلام کرنے میں پہل کرے۔ چنانچہ حدیث میں فرمایا گیا: ’’ان دونوں میں بہتر وہ ہے جو سلام میں پہل کرے‘‘۔ (بخاری ‘  مسلم)

انسانیت کی تشکیل جدید کے لیے اسلام کی نگاہ میں ایک ایسی اُمت کا قیام ضروری ہے جو نہ صرف اخوت و محبت کے جذبات سے سرشار اور متحد اور یک جان ہو بلکہ اس میں وہ صفات موجود ہوں جو زندہ رہنے اور قیادت کرنے کے لیے بنیادی اہمیت رکھتی ہیں۔ قرآن کریم نے اہل ایمان کی مطلوبہ صفات کو بے شمارمقامات پر بیان کرنے کے ساتھ سورہ المومنون میں اختصار اور جامعیت سے یوں بیان فرمایا ہے کہ ’’یقینا فلاح پائی ایمان لانے والوں نے جو اپنی نماز میں خشوع اختیار کرتے ہیں‘ لغویات سے اعراض کرتے ہیں‘ زکوٰۃ کے طریقے پر عامل رہتے ہیں‘ اپنے فروج کی حفاظت کرتے ہیں… اپنی امانتوں اور عہد و پیمان کو پورا کرتے ہیں… یہی لوگ وہ وارث ہیں جو میراث میں فردوس پائیں گے…‘‘ (المومنون ۲۳:۱-۱۱)

یہ وہ اجتماعی اخلاق ہیں جو انھیں مصلحین‘ صائمین‘ ذاکرین‘ ساجدین‘ راکعین‘ شاکرین‘ کاظمین الغیظ اور عباد الرحمن بننے میں مدد دیتے ہیں۔ قرآن مقام عبدیت کو اہل ایمان کے لیے سب سے اعلیٰ مقام قرار دیتے ہوئے اس صفت کی بنا پر خیر امۃ اور قائم بالقسط‘ عادل اور خلیفۃ اللہ فی الارض سے تعبیر کرتا ہے۔

انسانوں کا ایک دوسرا گروہ جو ضابطہ اخلاق اور جادہ عدل کو نظرانداز کرتا ہے۔ پھر یہ گروہ صراط مستقیم اور خالق کائنات کی بندگی کو رَدّ کرتا ہے اور دوسری جانب طاغوت کو ‘ کبر و انانیت کو‘ بغاوت و سرکشی کو‘ ضد اور ہٹ دھرمی کو اختیار کرتا ہے۔ قرآن کریم انھیں ضالین‘ گمراہ اور گمراہ کرنے والے قرار دیتا ہے۔ یہ گروہ اہل ایمان کی مخالفت میں کمربستہ رہتا ہے اور انھیں کبھی قوت سے اور کبھی چالاکی‘ لالچ‘ طمع‘ حرص اور مادی فوائد کے ذریعے ایک دوسرے کے مقابل لاکھڑا کرتا ہے۔ نتیجتاً اہل ایمان عظیم اخلاقی مقام پر فائز ہونے کے باوجود کبھی رنگ‘ کبھی نسل‘ کبھی زبان‘ کبھی علاقائیات و قبیلہ و برادری اور کبھی جزوی فقہی اختلافات میں پڑ کر متفرق و منتشر ہو جاتے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے اخوت‘ رواداری اور عدل کے علم بردار اہل ایمان فرقہ پرستی‘ منافرت اور باہمی جدال کا شکار ہو جاتے ہیں۔

فرقہ واریت

اس صورت حال کو دیکھ کر ایک مسلمان ہی نہیں ایک غیر مسلم بھی یہ سوچتا ہے کہ کیا مسلمانوں میں فرقہ واریت اور آپس کے جھگڑوں کا اصل سبب فقہی اختلافات کا پایا جانا ہے؟ کیا مسلمانوں کو ان کے مذہب نے ایسا خون آشام بنا دیا ہے کہ باہمی نفرت‘ تصادم اور خون خرابے کے سوا ان کا کوئی شغل نہیں؟ جب ایک عام تجزیہ نگار مسلمانوں کی صورت حال کا مقابلہ غیر مسلموں کے ساتھ کرتا ہے تو اس کے ذہن میں سوال اٹھتا ہے کہ کیا سبب ہے کہ عیسائیت میں ۲۵۰ سے زیادہ علیحدہ علیحدہ چرچ اور مسلکی و فقہی اختلافات کے باوجود ایک دوسرے کے خلاف ایسی نفرت و دشمنی نہیں پائی جاتی‘ جیسی کچھ ملکوں اور علاقوں میں آج مسلمانوں کے فرقوں اور مسلکوں میں پائی جاتی ہے۔

اس تاثر کو شدید بنانے میں عالمی ابلاغ عامہ کا بڑا ہاتھ ہے۔ شاید ہی کوئی دن ایسا ہو جب بین الاقوامی ذرائع ابلاغ مسلمانوں کے حوالے سے تشدد اور قوت کے استعمال کا ذکر اپنی سرخیوں میں نہ کرتے ہوں۔

عالمی سطح پر اُمت مسلمہ کے اختلافات‘ باہمی دشمنی اور آپس کے خون خرابے اور تشدد و قوت کے استعمال کی کہانیاں جب بار بار نظروں سے گزرتی ہیں‘ تو غیر ہی نہیں اپنوں کو بھی یقین سا آجاتا ہے کہ مسلمانوں کے باہمی اختلافات کے بارے میں جو کچھ دکھایا جا رہا ہے اورکہا جا رہا ہے وہ سچ ہی ہوگا۔ اگر جائزہ لیا جائے تو صرف امریکہ کے بڑے شہروں مثلاً نیویارک‘ شکاگو‘ لاس اینجلس‘ فلاڈیلفیا اور ڈیٹرائٹ وغیرہ میں جرائم کی رفتار‘ جن میں قتل‘ جنسی جرائم‘ چوری اور ڈاکا ہر چیز شامل ہے‘ کسی ترقی پذیر ملک سے کم نہیں بلکہ کئی گنا زیادہ ہے۔ لیکن اس کے باوجود ٹائم‘ نیوزویک یا  ایشیا ویک‘ نیز سی این این ہو یا بی بی سی کبھی مسافروں کو یہ مشورہ نہیں دیتے کہ ان شہروں کا سفر اختیار کرتے وقت پہلے قریبی پولیس تھانہ سے رابطہ کریں اور اس کے بعد بازار جائیں‘ جب کہ ملتان یا کراچی میں اگر کوئی فرقہ وارانہ واقعہ وقوع پذیر ہو جائے تو اسے عموم کی شکل دیتے ہوئے نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا کے مسلمانوں میں پائی جانے والی کسی بھی درجے کی تفرقہ بازی زیربحث آجاتی ہے اور بین السطوریہ پیغام پہنچا دیا جاتا ہے کہ پوری دنیا کے مسلمان تنگ نظری‘ تشدد پسندی اور مذہبی اور لسانی فرقہ بندی کا شکار ہیں۔ یہ بات بھی بہت شدومد سے کہی جاتی ہے کہ دینی مدارس سے فارغ علما اور ائمہ‘ اسلام سے زیادہ اپنے مسلک کو اہمیت دیتے ہیں اور ان کی یہ انتہا پسندی مذہبی منافرت اور تشدد کی شکل میں ظاہر ہوتی ہے۔ بلکہ اب تو دینی درس گاہوں کو تشدد اور لاقانونیت کی تربیت گاہیں بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔

دوسری طرف یہ امر بھی غور طلب ہے کہ مدارس دینیہ میں بڑی حد تک مشترک نصابی کتب کے باوجود  بعض اداروں میں ایک جامد اور متشدد مسلکی ذہن کیوں تعمیر ہوتا ہے؟ جو طلبہ یہاں سے فارغ ہوتے ہیں ان میں سے کسی ایک کے نزدیک بعض روایتی رسموں کے بغیر ایمان نامکمل رہتا ہے اورکسی دوسرے کی نظر میں ایسی تقریبات سے دل پر ایمان کی جگہ ضلالت و گمراہی کا قبضہ ہو جاتا ہے۔ بات اگر یہاں تک رہتی تو شاید نظری گفتگوئوں سے اس کا کوئی حل نکالا جا سکتا تھا‘ لیکن نوبت یہاںتک پہنچ جاتی ہے کہ ان میں سے بعض ائمہ و علما نہ صرف اپنے علاوہ دوسرے فرقے اور مسلک کی تضحیک و تذلیل منبر و محراب سے کرتے ہیں‘بلکہ بعض صورتوں میں دوسرے مسلک کے حاملین کے خون کو بھی حلال قرار دے ڈالتے ہیں۔ ان میں بعض شقی القلب تو اس سے بھی ایک قدم آگے بڑھ کر مخالف فقہی مسلک کے افراد پر عین حالت قیام صلوٰۃ و قیام اللیل‘ حتیٰ کہ ماہِ رمضان میں حملہ آور ہونے کو بھی’’جہاد‘‘ سمجھتے اور ایسے افعال کو مسلکی فتح مندی کے رنگ میں پیش کرتے ہیں‘ حالانکہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تو مسلمانوں کو ایک دوسرے کا بھائی بنایا ہے۔ انھیں رحماء بینھم کا مصداق قرار دیا ہے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان خوارج کا خون بھی مباح قرار نہیں دیا تھا جو عملاً ریاست سے باغی ہو گئے تھے___ یہ تمام حالات اور واقعات اس بات پر غوروفکر کی طرف دعوت دیتے ہیں کہ اس مسئلے کی جڑ کو تلاش کیا جائے کہ آخر ٹیڑھ کہاں ہے۔

اسلام کا نقطۂ نظر

ان ابتدائی گزارشات کے بعد ضروری معلوم ہوتا ہے کہ قرآن و حدیث کی روشنی میں سمجھا جائے کہ تفرقہ ہے کیا چیز‘کیا یہ محبوب و مقصود ہے یا مردود و مکروہ ہے۔ قرآن کریم میں فرقہ‘ تفرقہ اور تفریق کے حوالے سے تقریباً ۲۱ مقامات پر مختلف سیاق میں ذکر آیا ہے۔کہیں یہ بات فرمائی گئی کہ علم و ہدایت آنے کے بعد فرقوں میں بٹ نہ جائو (اٰل عمرٰن ۳:۱۰۵) ۔کہیں اس علم کو رَدّ کیا جو شوہر اور بیوی میں فرق ڈلوا دے (البقرہ ۲:۱۰۲)۔ کہیں واضح ترین الفاظ میں یہ بات سمجھائی کہ حق سے منحرف ہونے والے بعض افراد مسجد جیسی جوڑنے والی‘ اعتصام باللہ بپا کرنے اور اخوت و احترام کرنے والی جگہ کو اہل ایمان کے درمیان ضرر و افتراق کے لیے استعمال کرتے ہیں (التوبہ  ۹:۱۰۷)۔ اور اسی حوالے سے سورہ اٰل عمران میں اعتصام باللہ کے حوالے سے وہ حکم بھی آیا‘ جس کی طرف پہلے اشارہ کیا گیا تھا‘ کہ فرقوں میں نہ بٹ جائو (۳:۱۰۳)۔ سورہ الشوریٰ میں تفرقہ بندی کو ایک منفی اور سلبی عمل قرار دیتے ہوئے اقامت دین کی جدوجہد کے ذریعے تفرقہ رکھنے والی ذہنیت کو دُور کرنے کی تعلیم دی گئی۔ یہاں سے یہ اصول بھی نکلا کہ اقامت دین کرنے والی تحریکات کا ذہن فرقہ پرستی کا نہیں بلکہ دین کے حوالے سے امت مسلمہ کو جوڑنے کا ہوگا۔ چنانچہ فرمایا: اَنْ اَقِیْمُوا الدِّیْنَ وَلاَ تَتَفَرَّقُوْا فِیْہِ ط (الشوریٰ ۴۲:۱۳) ’’قائم کرو اس دین کو اور اس میں متفرق نہ ہو جائو‘‘۔

گویا اسلام‘ تفرقہ بندی اور آپس میں تقسیم ہو کر جتھہ بندی کرنے کی مکمل طور پر مذمت و ممانعت کرتا ہے۔ لیکن یہ سمجھنا درست نہ ہوگا کہ اسلام اختلاف رائے اور فرقہ پرستی اور تفرقہ بازی میں فرق نہیں کرتا۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام‘ قرآن و حدیث پر غوروخوض کرنے کے بعد خلوص نیت سے مختلف تعبیرات اور فقہی آرا قائم کرنے کی مخالفت کبھی نہیں کرتا ‘بلکہ قرآن کریم اسے محبوب و مطلوب قرار دیتا ہے۔ وہ جہاں دین کے قیام و غلبہ کے لیے اہل ایمان کی ایک جماعت کا جہاد بالسیف میں مصروف ہونا ضروری قرار دیتا ہے‘ وہاں دوسری جماعت (فرقہ) پر دینی مصادر کو سمجھنے‘ فہم دین پیدا کرنے اور دین کی دعوت و تعلیم فرض کر دیتا ہے‘ تاکہ اسلام کی معاشی‘ سیاسی‘ معاشرتی‘ ثقافتی تعلیمات کی وضاحت ہو اور ان تعلیمات کی روشنی میں ایک نقشۂ عمل اور حکمت عملی وضع کی جا سکے۔ سورہ توبہ(آیت ۱۲۲) میں اسے تفقہ فی الدین کا عنوان دیا گیا ہے۔ یہاں یہ یاد رہے کہ یہ تقسیم بھی مطلق نہیں ہے کہ مجاہدین اورفقہا کے ہمیشہ دو الگ الگ طبقات یا گروہ ہوں‘ مجاہد اور عالم‘ دونوں اس جہاد کا حصہ ہیں۔امام ابن تیمیہؒ اور شاہ اسماعیل شہیدؒ کی شخصیات میں فکروفن اور سیف و جہاد کا اجتماع بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ استثنائی مثالیں نہیں ہیں۔ عصرحاضر میں جدید تحریکات اسلامی کے بہت سے رجال ان دونوں حیثیتوں کو یک جا کرنے والے افراد تھے۔ انھوں نے اجتہاد‘ مسائل اور جہاد فی سبیل اللہ دونوں کو اختیار کر کے یہ ثابت کر دیا کہ دونوں کام بیک وقت انجام دیے جا سکتے ہیں۔

اس اصطلاحی وضاحت کی روشنی میں دیکھا جائے تو سوال پیدا ہوتا ہے پھر تفریق و اختلاف ہے کیا؟ کیا یہ مرض اس صدی کا مرض ہے؟ کیا دین میں اس کی گنجایش ہے؟ کیا قرآن و سنت کے علاوہ کسی مسلک کا پیروکار ہونا بھی فلاح و کامیابی کے لیے ضروری ہے؟

قرآن کریم ہر مسلمان مرد اور عورت کو حکم دیتا ہے کہ وہ دین کا کم از کم اتنا علم حاصل کر لے کہ  حلال و حرام میں فرق معلوم ہو سکے۔ حدیث شریف بھی حکم دیتی ہے کہ ’’حلال واضح ہے اور حرام واضح ہے‘‘ اس لیے اس واضح حرام و حلال کا علم اور اس کی روشنی میں مشتبہ کو معلوم کرنے کے لیے تفقہ اختیار کرنا ہوگا۔ قرآن کریم جگہ جگہ اپنے ماننے والوں کو تفکر و تدبر و تفہیم پر اُبھارتا ہے اور چاہتا ہے کہ ہر معاملے میں تحقیق و جستجو کرنے کے بعد ایک موقف اختیار کیا جائے۔ ایک موقف پر مطمئن ہونے سے قبل مقدور بھر بحث و مباحثہ کر لیا جائے۔ چنانچہ مشاور ت کو فریضہ قرار دیتے ہوئے یہ حکم دیتا ہے کہ اپنے تمام معاملات میں مشاورت کرو اور جب قلب و ذہن ایک مقام پر مطمئن ہو کر یکسو ہو جائیں تو پھر عزم الامور کے ساتھ اللہ پر توکل کر کے اس پر عمل پیرا ہو جائو۔ (اٰل عمرٰن ۳:۵۹  اورالشوریٰ ۴۲:۳۸)

کیا ہر مشورہ‘ ہر تحقیق اور ہر تعبیر لازمی طور پر اجماع کی شکل اختیار کر لے گی؟ کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ پورے خلوص نیت‘ علمی عبور‘ اور جائزے و تجزیے کے بعد ایک سے زائد آرا و مسالک یکساں طور پر دین کے دائرے میں ہوں‘ جیسا کہ صحابہ کرامؓ کی اس جماعت کے ساتھ پیش آیا جسے نبی کریمؐ نے حکم دیا تھا کہ فلاں مقام کی طرف جائو اور وہاں پہنچ کر صلوٰۃ عصر ادا کرنا۔ صحابہؓ کی ایک جماعت نے غالباً قرآن کریم کے اس حکم کی روشنی میں کہ صلوٰۃ مومنین پر کتابا موقوتا ہے اور خود حضورؐ کے ارشاد پر کہ عصر کواوّل وقت پڑھ لیا جائے‘ عمل کرتے ہوئے راستے میں نماز پڑھی‘ اور دوسری جماعت نے اس خیال سے کہ شارع علیہ السلام اور مومنین کے سردار نے حکم دیا کہ صلوٰۃ عصرفلاں مقام پر ادا کی جائے‘ وہاں پہنچ کر نماز ادا فرمائی۔ واپسی پر جب معاملہ آپؐ کے حضور پیش کیا گیا تو آپؐ نے کسی پر گرفت نہیں فرمائی۔

جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو‘ جب تم نماز کے لیے اٹھو تو چاہیے کہ اپنے منہ اور ہاتھ کہنیوں تک دھو لو‘ سروں پر ہاتھ پھیرلو اور پائوں ٹخنوں تک دھو لیا کرو‘‘ (المائدہ ۵:۶)۔ یہاں مسح کے حوالے سے ایک سے زائد تعبیرات پائی جاتی ہیں اور آج تک علما و مفسرین نے یہ اصرار نہیں کیا کہ صرف ایک تعبیر ہی درست ہے۔

ہماری اپنی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ حضور نبی کریمؐ نے امام و سربراہ ہونے کے باوجود شوریٰ کے اصول کو عملاً اختیار فرمایا۔ میدان بدر کے انتخاب کا فیصلہ‘ احد میں مدینہ منورہ سے باہر جا کر مقابلہ کرنے کا فیصلہ‘ غزوہ احزاب کے موقع پر خندق کی تعمیر‘ صلح حدیبیہ کے موقع پر حکمت عملی طے کرنا‘ غرض بے شمار مواقع پر آپؐ نے اپنے فیصلہ کرنے کے اختیار کی جگہ شوریٰ کو اوّلیت دی۔

ابھی آپؐ کے وصال کو چند لمحات ہی گزرے تھے کہ صحابہ کرامؓ کے درمیان خلیفہ کے انتخاب پر اختلاف ہوا اور مختلف آرا سامنے آئیں۔ خود آپؐ کی تدفین کے حوالے سے اختلاف پیدا ہوا کہ تدفین کہاں پر عمل میں لائی جائے۔ ابھی ریاست کے معاملات طے ہو رہے تھے کہ حضرت اسامہ بن زیدؓ کے لشکر کی روانگی پر اختلاف پیدا ہو گیا‘ ساتھ ہی منکرین زکوٰۃ سے جہاد کے مسئلے پر صحابہؓ میں اختلاف کھڑا ہوا۔ یہ مسئلہ اٹھا کہ جو لوگ زکوٰۃ کے منکر ہوں مگر صلوٰۃ ادا کر رہے ہوں کیا ان پر تلوار اٹھائی جائے گی؟ ابھی یہ معاملات طے ہوئے ہی تھے کہ یہ سوال پیدا ہوا کہ جن مقامات پر جہاد کیا جا رہا ہے اور مسلم افواج بغیر کسی مقابلے کے املاک پر قابض ہو جائیں تو کیا یہ بھی غنیمت کی طرح تقسیم ہوں گی یا اموال فئے کے لیے کوئی اور اصول اختیار کیا جائے گا‘ جو زمینیں اس طرح زیرنگیں آئیں گی وہ عشری ہوں گی یا خراجی۔ مختصر یہ کہ امور مملکت ہوں یا بنیادی معاشی‘ اعتقادی‘ معاشرتی و انتظامی مسائل‘ ہر نوع پر صحابہ کرامؓ کے درمیان اختلاف کی واضح مثالیں موجود ہیں۔    اُم المومنین سیدہ عائشہؓ کھلے لفظوں میں فرماتی ہیں کہ حضرت ابوہریرہؓ سے فلاں معاملے میں سہو ہوا‘ اصل بات یوں ہے۔ اسی طرح حضرت عمرؓ اور دیگر خلفاے راشدین تعزیر کے معاملے میں اختلاف کرتے ہیں۔ لیکن کیا ان اہم اختلافات کے باوجود کوئی ایک مثال ایسی ہے کہ جب حضرت ابوبکرؓ نے حضرت علیؓ سے اختلاف کیا ہو تو حضرت علیؓ نے ان کے پیچھے نماز پڑھنی بند کر دی ہو؟ یا حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ سے بول چال بند کردی ہو؟ یا ان کے ایمان و خلوص پر کوئی شک و شبہہ کیا ہو؟ کیا یہ امر واقعہ نہیں ہے کہ جب حضرت عثمانؓ پر بیرونی افراد یلغار کرتے ہیں تو حضرت علیؓ بنفس نفیس ،حضرت حسنؓ اور حسینؓ کو مسلح پہرہ دینے کے لیے حضرت عثمانؓ کے گھر پر مامور کرتے ہیں؟

گویا اختلاف مسلک بجائے خود نہ تو مردود ہے اور نہ نفرت و فساد پیدا کرتا ہے‘ بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ جب بھی مصنوعی طریقہ سے اُمت مسلمہ پر کسی ایک مسلک کو مسلط کرنے کا خیال پیش کیا گیا‘ اُمت مسلمہ کے خیرخواہ علما نے اس کی مخالفت کی۔ حضرت امام مالکؒکی مثال ہمارے سامنے ہے۔ انھوں نے خلیفہ وقت کی خواہش کو رَدّ کرتے ہوئے حدود مملکت میں فقہ مالکی رائج کیے جانے کی مخالفت کی اور اس معاملے کو اُمت مسلمہ کے شعور پر چھوڑ دیا کہ وہ جس فقہی رائے کو چاہے اختیار کرے۔

دَور صحابہؓ  اور بعد کے ادوار میں فقہا و علما اُمت کے اختلافات کا جائزہ لیں تو واضح طور پر ان میں خلوص نیت کے ساتھ نصوص قرآن و سنت پر مبنی اختلاف کا رجحان نظر آتا ہے‘ یعنی وہ اپنی ذات‘ انا‘ یا اپنے مرشد و شیخ کی اندھی تقلید و پیروی کرتے نظر نہیں آتے۔

امام ابویوسفؒ اور امام محمد الشیبانی ؒ سے بڑھ کر امام ابوحنیفہؒ کا احترام و محبت کس کے دل میں ہوگا۔ دونوں ان کے جانشین اور شاگردانِ رشید ہیں‘ لیکن وہ بھی بہت سے معاملات میں اپنے استاد سے اختلاف کرتے ہیں۔ کیا اس اختلاف کی بنیاد پر وہ توہین استادکے مرتکب قرار دیے جائیں گے؟ گویا ہماری علمی و ثقافتی روایت میں اختلاف کا نہ ہونا ایک اجنبی چیز ہے اور دلیل و برہان کی بنا پر اختلاف ایک فطری حقیقت ہے۔

پھر کیا وجہ ہے کہ ہمارے آج کے معاشرے میں تحمل‘ رواداری‘ کشادہ دلی‘ اکرام و محبت کا فقدان پایا جاتا ہے۔ اختلاف خواہ چھوٹا ہو یا بڑا‘ مخالف کا خون تک بہانے میں دریغ نہیں کیا جاتا۔ ہماری نگاہ میں مسئلہ چاہے کتنا پیچیدہ نظر آتا ہو اگر خلوص نیت اور دیانت داری کے ساتھ اس پر غور کیا جائے تو اس کا حل نہ صرف ممکن ہے‘ بلکہ ہمیں اسے جلد از جلد اختیار کرنا ہوگا۔ منافرت‘ مقاطعہ‘ مقاتلہ اور فساد مستحکم سے مستحکم انسانی معاشرے کی جڑوں کو کھوکھلا کر کے تباہ و برباد کر دیتا ہے۔ مسلم معاشرے میں جب بھی فروعی اختلافات کو بنیادی اہمیت دی گئی‘ اُمت مسلمہ کی ہَوا اکھڑی (اور آپس میں جھگڑو نہیں ورنہ تمھارے اندر کمزوری پیدا ہو جائے گی اور تمھاری ہَوا اکھڑ جائے گی۔ انفال ۸:۴۶) اور وہ تعداد میں کثیر ہونے کے باوجود دشمن کے لیے تر نوالہ بن گئی۔ اس لیے ہمیں خود آگے بڑھ کر اس مسئلے کو حل کرنا ہوگا۔

کیا مسئلہ بنیادی طور پر عقیدے کا ہے؟ کیا ہر مسلک کے ماننے والوں کے اللہ اور رسولؐ مختلف ہیں؟ یا سب اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی وحدانیت اور رسولؐ کی ختم نبوت پر یقین رکھتے ہیں؟ کیا ہر مسلک کا کعبہ الگ ہے یا سب کا قبلہ حرم کعبہ ہی ہے؟ کیا کسی مسلک کے ماننے والے زکوٰۃ کے قائل ہیں اور کسی کے قائل نہیں؟ کیا کسی مسلک میں روزہ فرض ہے اورکسی میں نہیں؟ ان تمام اور دیگر اس جیسے سوالات پر جتنا غور کیا جائے تو بات واضح ہو جائے گی کہ بنیادی عقیدے کے لحاظ سے معروف سنی و شیعہ مسالک میں کوئی بنیادی اختلاف نہیں پایا جاتا۔  اس بنا پر ان میں سے کسی کے بارے میں یہ کہنا کہ چونکہ وہ فلاں جزوی معاملے میں یہ رائے رکھتے ہیں اس لیے دائرہ اسلام سے خارج ہو گئے اور ان کے ساتھ تعلقات کی نوعیت وہی ہوگی جو مرتد یا مشرک یا کفار کے ساتھ ہوتی ہے‘ فکر ونظر کا یہ زاویہ دین سے کوئی مناسبت نہیں رکھتا۔ کوئی شخص جو دین کا فہم رکھتا ہو ایسی بات نہیں کہہ سکتا۔

فرقہ واریت کے اسباب

پھر کیا وجہ ہے کہ ہمارے ہاں آئے دن ایک فرقہ دوسرے فرقے کی تکفیر کرتا رہتا ہے‘ ایک دوسرے پر تبریٰ کرتا ہے اور برا بھلا کہتا ہے۔ جائزہ لیا جائے تو اس طرزعمل کے پیچھے تین بنیادی عناصر کارفرما نظر آتے ہیں:

اوّل: خود اپنے بنیادی عقیدے اور دوسرے فرقے کے عقیدے کے بارے میں معلومات کی کمی اور غیر مصدقہ معلومات پر بھروسا کرنا۔

دوم: ہر فارغ التعلیم بلکہ طالب علم کا اپنے آپ کو مقام افتا و قضا پر بٹھا دینا۔ نتیجتاً وہ ایسے بہت سے معاملات میں جن میں فیصلے کا حق صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ کو حاصل ہے بلا کسی تردد کے اپنا فتویٰ جاری کر دیتا ہے۔ وہ یہ بھول جاتا ہے کہ آخر حضور نبی کریم ؐ نے ایک جلیل القدر صحابی کو مخاطب فرماتے ہوئے یہ بات کیوں فرمائی تھی کہ کیا تم نے فلاں شخص کو قتل کرنے سے قبل اس کے دل کو چیر کر دیکھ لیا تھا کہ اس میں ایمان تھا یا نہیں؟ ہر صاحب علم جانتا ہے کہ دوران جہاد ایک شخص نے عین حالت جنگ میں اپنے آپ کو قتل کیے جانے سے قبل یہ کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ واحد لاشریک ہے اور حضور نبی کریمؐ اللہ کے رسول ہیں۔ سربراہِ لشکر نے یہ سمجھا کہ یہ شخص محض جان بچانے کے لیے ایسا کہہ رہا ہے اور اس کے قتل سے ہاتھ نہ روکا۔ حضور نبی کریمؐ نے ان کے اس عمل کو ناپسند فرمایا۔ لیکن ہمارا روزہ مرہ کا مشاہدہ ہے‘ ہرکس و ناکس کے بارے میں محض افواہ اور غیرمصدقہ معلومات کی بنا پر بلاکسی تکلف و تردد یہ فتویٰ صادر کر دیتے ہیں کہ وہ منافق ہے‘ بدعتی ہونے کے سبب ضالین میں سے ہوگیا ‘ اس لیے اس پر ہاتھ اٹھانا جائز ہوگیا۔

سوم: معلوم یہ ہوتا ہے کہ شاید اپنے بین الانسانی تعلقات کو بھی اپنی سیاسی وابستگیوں کے تابع کر دیا  گیا ہے اور جب کسی مسلک کے ماننے والوں کا کسی لادینی جماعت کے ساتھ اتحاد ہو جاتا ہے تو وہ اپنے مسلکی اختلافات کو سیاسی وابستگی کی روشنی میں دیکھتے ہیں۔ اگر اس سے آگے بڑھ کر کہا جائے کہ ہمارے ہاں مسلکی تشدد عموماً سیاسی عناصر کے مفادات کی روشنی میں ہوتا ہے تو غلط نہ ہوگا۔

پاکستان میں شیعہ سنی کھچائو کی جڑیں عموماً سیاسی مفادات رکھنے والے افراد تک پہنچتی ہیں اور وہ اختلافات کو ہوا دے کر اور یا ایک دوسرے فرقہ کی پشت پناہی کر کے اپنے لیے مناسب سیاسی فضا پیدا کرتے رہتے ہیں۔ انھیں اس بات کی فکر نہیں ہوتی کہ اس طرح منافرتوں کی جو خلیج ہر تشدد کے عمل کے نتیجے میں گہری ہوتی چلی جاتی ہے اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کی جواب دہی تو کرنی ہی ہوگی‘ خود اس دنیا میں بھی کسی وقت احتسابی عمل کے نتیجے میں انھیں اپنے کیے پر جواب دہی کرنی نہ پڑ جائے۔

دین کی بنیادوں میں سے ایک بنیاد انسانی جان‘ خون اور رشتہ کا احترام ہے۔ یہی سبب ہے کہ ایک جان کو بغیر کسی حق کے ضائع کیے جانے کو پوری انسانیت کے قتل سے تعبیر کیا گیا۔ اسلامی شریعت میں (جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا اس نے گویا     تمام انسانوں کو قتل کر دیا اور جس نے کسی کو زندگی بخشی اس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخش دی۔  المائدہ ۵:۳۲) قتل نفس کو کبیرہ گناہ قرار دیا گیا۔ پھر کیا وجہ ہے کہ ایسے تشدد پرست گروہ وجود میں آگئے ہیں جو اپنے نام اور اپنی پہچان حضور نبی کریمؐ یا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے کرنے کے باوجود وہ کام کر رہے ہیں جسے خود اللہ‘ اللہ کے رسولؐ اور ان کے صحابہؓنے شدت سے منع کیا گیا ہے؟

فرقہ واریت کا سدباب: ممکنہ حل

ہمارے خیال میں اس کی ذمہ داری مکمل طور پر دینی مدارس‘ ائمہ و مشائخ اور علما پر نہیں ڈالی جا سکتی۔ ہمیںتجزیہ کر کے دیکھنا ہوگا کہ کیا واقعی دینی مدارس کے نصاب میں شیخ الحدیث دورہ حدیث کے دوران ٹینک چلانے‘ ہیلی کاپٹر اڑانے‘ ہوائی جہاز چلانے اور کلاشنکوف کی ساخت‘ فوائد اور ترکیب استعمال کی عملی تربیت بھی دیتے ہیں یا وہ اپنے طلبہ کو تفسیر حدیث‘ فقہ اور عقیدہ و کلام کی تعلیم دیتے ہیں۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ کیا تشدد کا رویہ صرف دینی مدارس کے طلبہ اختیار کرتے ہیں یا قومی محرومیوں نے سرکاری یونی ورسٹیوں کے     ہر کیمپس پر ایسے طلبہ کے گروہ پیدا کر دیے ہیں جو اکثر مسلح رہتے ہیں اورآپس میں قتل و غارت کے مرتکب ہوتے ہیں۔ دینی مدارس کے طلبہ کے حوالے سے طالبان کی مثال پیش کی جاتی ہے کہ وہ محض فقہ و حدیث کے طالب علم نہیں بلکہ عسکری تربیت یافتہ افراد ہیں۔ لیکن یہ بات کہنے والے اس حقیقت کو کیوں بھول جاتے ہیں کہ ۱۵۰۰ سال کی اسلامی روایت علم یہ بتاتی ہے کہ آج تک کسی شیخ الحدیث نے اپنے طلبہ کو ٹینک اور ہیلی کاپٹر اڑانے کی تربیت نہیں دی۔ پھر طالبان یہ سب کچھ سیکھ کر کہاں سے آگئے؟ کیا یہ درست نہیں ہے کہ جس ہیئت مقتدرہ نے انھیں یہ تربیت دی وہی آج دوسروں پر الزام دھرتے ہیں۔ یہ کون سا انصاف ہے؟ اس جملۂ معترضہ سے  قطع نظر‘ جو حقیقت واقعہ (ground reality) پائی جاتی ہے ہمیں اس کا حل تلاش کرنا ہوگا۔

۱- اس پیچیدہ اور اُلجھے ہوئے مسئلے کے حل کے لیے پہلا اقدام خود نوعیت مسئلہ کا تعین و تجزیہ ہے اور یہ کام باہر سے آنے والا کوئی امریکی یا برطانوی مستشرق نہیں کرے گا‘ اسے ان افراد کو کرنا ہوگا جو خود کو مختلف ممالک کا ’’نمایندہ‘‘ سمجھتے ہیں۔ نمایندہ مسالک خواہ وہ شیعہ ہوں‘ دیوبندی ہوں‘ بریلوی ہوں یا اہل حدیث ہوں‘ انھیں مل کر معروضی طور پر ایک تجزیاتی عمل کے ذریعے مسئلے کا تعین کرنا ہوگا کہ اصل سبب کیا ہے؟ اس کی جڑیں کہاں تک پہنچتی ہیں اور اس کے محرکات کیا ہیں؟

۲- فقہی مسالک کے نمایندہ علما کو ایک مرتبہ نہیں بار بار ایک مستقل فورم کی شکل میں ایک ساتھ بیٹھ کر ٹی وی اور ریڈیو پر اپنے مسلک کے ماننے والوں کو مخاطب کرتے ہوئے ‘ امن عامہ کے قیام‘ نفرتوں کے خاتمے اور اخوت و حق کے قیام کے لیے اپنی مخلصانہ رائے دینی ہوگی۔ وہ دوعملی اختیار نہیں کر سکتے کہ نجی محفلوں میں یا کسی قومی کانفرنس میں ایک مشترکہ اعلامیہ پر قیام امن اور اتحاد امت کی کسی قرار داد پر دستخط بھی کر دیے جائیں اور ساتھ ہی ان کے مسلک کی ایک سپاہ دوسروں کے اعوان و انصار سے نبردآزما بھی ہو جائے۔

۳- تشدد‘ قتل و غارت اور اختلافات کی پیدا کردہ منافرت کو دُور کرنے کے لیے علما اور مسالک کے رہنما افراد کو آگے بڑھ کر ایک مثبت کردار ادا کرنا ہوگا۔ یہ بات باور نہیں کی جا سکتی کہ ایک مسلک کے سربراہ تو ایک متوازن الفکر معروف عالم دین ہوں لیکن اسی مسلک کا ایک عسکری تربیت یافتہ گروہ بھی ہو‘ جو جہاں جب چاہے شب خون مارنے کے لیے آزاد ہو۔ ظاہر ہے ایسے گروہ کی قیادت جن‘ بھوت یافرشتے تو کرنے سے رہے۔ کسی مسلکی سربراہ کی رائے کے خلاف ایسے افراد کا کوئی کام کرنا عقل نہیں مان سکتی۔ گویا مسالک کے سربراہان کو عوامی سطح پر امن کے قیام‘ انسانی جان کے احترام اور قتل و غارت گری کے خاتمے کے لیے اپنا جوہری کردار ادا کرنا ہوگا اور اپنے مسلک کے پیروکار افراد کے مثبت اور منفی تمام کاموں کی ذمہ داری قبول کرنی ہوگی۔

۴- ہمیں اس حقیقت کو ماننا ہوگا کہ انسانی مسائل کا حل تنہا قوت کے استعمال سے نہیں ہو سکتا۔ اس لیے وہ مسلکی گروہ بھی جو غیر دانستہ طور پر ایک دہشت پسندانہ طرزعمل کا شکار ہو گئے ہیں‘ انھیں موجودہ تشدد کی ثقافت کی گرداب سے نکلنے کے لیے جرأ ت مندی اور خلوص نیت کے ساتھ اصلاح حال کی طرف متوجہ ہونا پڑے گا۔ مسائل کے حل کے لیے حملے اور جوابی حملے کی جگہ عقل و دانش کو استعمال کرتے ہوئے باہمی اعتماد اور ملکی یک جہتی کے قیام کے لیے ان تلخ دشمنیوں کو دفن کرنا ہوگا جو وقتاً فوقتاً کسی کی زندگی کا چراغ گل کرنے کی شکل میں ظاہر ہوتی ہیں۔ آستین کا لہو زیادہ عرصہ چھپا نہیں رہتا اور جلد یا بدیر حقائق سے پردہ اٹھ کر رہتا ہے‘ اس لیے متعلقہ مسلکی گروہوں کو آنے والی نسلوں کے خیال سے نفرتوں کی اس سلگتی ہوئی آگ کو بجھانا ہوگا خواہ اس عمل میں ان کے اپنے ہاتھوں پر آبلے پڑ جائیں۔

۵- جماعت اسلامی جو اس خطے میں واحد غیر مسلکی دینی‘ اصلاحی‘ دعوتی اور سیاسی جماعت کی حیثیت رکھتی ہے ۔ اسے بھی اس ملّی اہمیت کے معاملے میں ایک اہم کردار ادا کرنا ہوگا۔ اس کے ارکان‘ امرا‘ ارکان شوریٰ غرض قیادت میں ہر سطح اور درجے پر اہل حدیث‘ دیوبندی اور بریلوی فکر کے افراد و علما شامل ہیں۔ اس میں فقہ جعفریہ سے وابستہ حضرات بھی شامل رہے ہیں۔ یہ وہ واحد دینی جماعت ہے جو دیگر جماعتوں کے سربراہان و مخلصین کو بلا کسی تردد و تکلف ملّی یک جہتی کے لیے دعوت دے سکتی ہے۔ لیکن یہ کام محض کانفرنسوں سے نہیں ہو سکتا۔ اس غرض سے ایک مستقل رابطہ گروپ تشکیل دینا ہوگا‘ جس میں بار بار ملاقاتوں کے نتیجے میں اعتماد کی بحالی اور دلوں میں قربت پیدا ہو سکے۔ اس تعمیری اور طویل عمل میں ایک دوسرے سے واقفیت‘ ذاتی تعلّق اور تعمیر اعتماد (confindence building) بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔

۶- مختلف مسالک کے جیدعلماے کرام اور بزرگان دین کو بھی عزم کرنا ہوگا کہ وہ اپنے مسلک کو مزید بدنام نہ ہونے دیں گے اور جو دست شرانگیز ان کے مسلک کے بعض حضرات کو اپنے لیے استعمال کر رہے ہوں‘ ان کو پہچانتے ہوئے اس دخل اندازی کو جرأت کے ساتھ بند کرانے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔ لازمی طور پر ان معاملات میں حکومت کو خلوص نیت اور مکمل عزم کے ساتھ‘ اس عمل میں برابر کا حصہ ادا کرنا ہوگا۔ ایک طرف اسے اپنے اداروں کو اس غرض سے حرکت میں لانا ہوگا اور دوسری طرف عدلیہ کے احترام کو بحال کرنا ہوگا۔ ابلاغ عامہ کو بھی ایک تعمیری رُخ پر چلنا ہوگا اور اطلاعات کے ذریعے سنسنی پھیلا کر اپنے مذموم کاروبار کو چمکانے کی جگہ ان اداروں اور افراد کو عوام کے سامنے بے نقاب کرنا ہوگا جو دہشت گردی کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔ اگر اپنے مفادات کے پیش نظر ابلاغ عامہ کے اجارہ دار‘ اقتدار میں شریک دو جماعتوں میں جس کے بارے میں چاہیں اور جب چاہیں تحقیقات پر مبنی جائزے چھاپ سکتے ہیں کہ کس کی کتنی املاک کہاں پائی جاتی ہیں تو کیا دہشت گردوں کے خلاف اس قسم کی تحقیقات نہیں ہوسکتیں۔

۷- قومی ابلاغ عامہ کی ذمہ داری بھی اس سلسلے میں غیر معمولی طور پر اہم ہے۔ اگر یہ فرض کر بھی لیا جائے کہ بعض علما اس دہشت گردی کی پشت پناہی کر رہے ہیں تو حکومتی ابلاغ عامہ (ریڈیو/ ٹی وی) کو کس نے روکا ہے کہ وہ ملک کے بڑے اور چھوٹے تمام نمایندہ علما کو یکے بعد دیگرے ٹی وی پر بلا کر خود ان سے براہِ راست اس مسئلے کا حل دریافت کریں اور معروضیت اور کشادگی کے ساتھ ان کی آرا کو بغیر کسی ترمیم کے نشر کریں۔ یہ سمجھنا کہ اس طرح کشیدگی بڑھ جائے گی‘ بے بنیاد واہمہ ہے۔ ہر فرد اپنی جماعت کی ذات کے حوالے سے خوب سمجھتا ہے کہ کس بات کے کہنے سے مثبت یا منفی تاثر پیدا ہوگا۔ اس لیے براہِ راست ان حضرات کا ٹی وی پر آنا خود یہ واضح کر دے گا کہ آخر اس ہنگامے کے پس پردہ کون ہے؟ اگر یہ علما اپنی بریت کا اعلان کرتے ہیں تو پھر خود بخود ظاہر ہو جائے گا کہ تشدد و دہشت گردی کا کون ذمہ دار ہے؟ اور یہ قصہ پیدا کس نے کیا ہے؟ اس قسم کے قومی اہمیت کے حساس موضوعات پر بات کھل کر ہونی چاہیے۔ پس پردہ جوانمردی دکھانا اور سامنے بھولے پن کا مظاہرہ کرنا عوام کی نگاہ سے نہیں چھپ سکتا۔ عوام خوب سمجھتے ہیں کہ کون کیا کر رہا ہے اور کیوں کر رہا ہے؟

تحریک اسلامی کی ذمہ داری

یہ مسئلہ ملک کی بقا سے وابستہ ہونے کے سبب تحریک اسلامی کے کارکنوں کے لیے بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ اوّلاً تحریک کی بنیاد ہی حریت فقہ پر ہے۔ چنانچہ جماعت کی تاسیس (اگست ۱۹۴۱ء) سے آج تک جماعت نے اپنے دروازے ہر مسلک کے ماننے والے متلاشیان حق کے لیے کھلے رکھے ہیں۔ مسلکی منافرت اور گروہ بندی کی‘ جو دعوت دین کے بنیادی مزاج کے منافی ہے‘ ہمیشہ کھل کر مخالفت کی ہے۔ ثانیاً تحریک اسلامی کا مقصد اس ملک عزیز میں اقامت دین اور صالح افراد کی قیادت کا قیام ہے۔ یہ کام اسی وقت ہو سکتا ہے جب دین سے تعلق رکھنے والے افراد میں ایک دوسرے کے لیے احترام‘ محبت اور اخوت کے جذبات ہوں۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اختلافات کے باوجود ایک دوسرے کی ڈھال تھے۔ ان کے ہاتھ‘ ان کی زبان‘ بلکہ ان کے ذہن تک ایک دوسرے کے بارے میں برے خیالات سے محفوظ تھے۔

جو جماعت صحابہ کرامؓ کے اسوہ اور اسوہ رسولؐ کو بنیاد بنا کر معاشرتی‘ معاشی‘ سیاسی اور تعلیمی و قانونی اصلاح کی داعی ہو‘ اس کے لیے یہ بات فریضے کی حیثیت رکھتی ہے کہ وہ جہاں بھی اپنے دو دینی بھائیوں کو مقابل دیکھے فاصلحوا بین اخویکم کے ابدی عالمی اسلامی اصول کی روشنی میں صلح جوئی کی کوشش اور دلوں کوجوڑنے کے لیے اپنا فرض ادا کرے۔ ثالثاً تحریک اسلامی نے اس ملک کے قیام میں گذشتہ صدی کے چوتھے عشرے سے جو نظری اور عملی کردار ادا کیا ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ مسلم لیگ نے محترم مولانا مودودیؒ کی کتاب مسئلہ قومیت (جس میں انھوں نے وجودِ پاکستان کے لیے نظری بنیاد فراہم کرتے ہوئے یہ بات کہی کہ مسلمان اور ہندو ایک قوم نہیں ہیں‘ چنانچہ ہماری ثقافت‘ ہماری تاریخ‘ ہمارے ہیرو سب ان سے مختلف ہیں) کو کثیر تعداد میں جگہ جگہ تقسیم کیا۔جس طرح اس ملک کے قیام میں تحریک نے کردار ادا کیا اور ایسے ہی اس میں اتحاد و یک جہتی کے قیام کے لیے بھی اسے قیادت کرنی ہوگی۔ رابعاً اس ملک میں نظام اسلامی کے قیام کے لیے تحریک اسلامی کو ان تمام قوتوں کو اپنے سے قریب لانا ہوگا جو خود کو مذہبی جماعتیں کہتی ہیں۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب ان جماعتوں میں اپنے مخالف مسلک کے افراد کے لیے کم از کم عداوت اور دشمنی کے جذبات نہ ہوں۔

رواداری اور صبروتحمل وہ اعلیٰ دینی اقدار ہیں جن پر عمل کرنا مومن کے ایمان کی تشکیل کے لیے ضروری ہے۔ نہ صرف قومی سطح پر بلکہ صوبائی ‘ ضلعی‘ شہری اور محلہ کی سطح پر رواداری کے لیے ایک مسلسل تعلیمی جہاد کرنا ہوگا۔ اس جہاد کے نتائج ممکن ہے آج نظر نہ آئیں لیکن یہ کام آنے والی نسلوں کی طرف سے ایک قرض کی حیثیت رکھتا ہے۔ مسلکی اختلافات سے بلند ہونے کے سبب تحریک اسلامی ہی وہ ادارہ ہے جو  اس کام کو دوسروں کے مقابلے میں زیادہ غیر جانب داری سے کر سکتا ہے۔

 

مسلم ممالک بالخصوص عرب دُنیا میں جمہوری روایت کے نشوونما و ارتقا پر بات کرتے وقت مغربی  تجزیہ نگار عموماً اپنے تحفظات کا ذکر کرتے ہیں اور بادشاہت یا فوجی آمریت کو جمہوریت کے لیے خطرہ قرار دیتے ہیں۔ ان کے مطابق اس وقت دُنیا کی ۱۸۹ اقوام میں سے تقریباً ۱۲۰ میں جمہوریت کسی نہ کسی شکل میں پائی جاتی ہے اور اس میں سے حد سے حد نصف مقامات پر جمہوری روایت مستحکم ہے۔ ۱۹۹۰ء کی دہائی میں تقریباً ایک درجن ممالک میں جمہوریت کو صدمہ پہنچا۔ اس سلسلے کی آخری مثال ۱۲اکتوبر ۱۹۹۹ء کو ہونے والا پاکستان کا پرُامن فوجی انقلاب تھا۔

ان ممالک میں جمہوریت کی ناکامی کے اسباب متنوع اور پیچیدہ ہیں۔ ان میں خصوصاً انصاف اور قانون کی حکمرانی اور تحفظ کا فقدان اور عدلیہ کا خودمختار نہ ہونا ایک بنیادی سبب کہا جا تا ہے۔ معاشی عدم استحکام اور قرضوں پر مبنی معاشی ترقی بھی ایک بنیادی سبب بتائی جاتی ہے جس میں سیاست دانوں اور نااہل نوکرشاہی کی طرف سے مالی بددیانتی اور فنی قابلیت میں کمی کا بھی بڑا دخل سمجھا جاتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ترقی پذیر ممالک میںتقریباً ۴۰ فی صد قومی معاشی پیداوار صرف قرضوں کے سود کی ادایگی پر صرف ہو جاتی ہے‘ جب کہ قرضے وہیں کے وہیں رہتے ہیں۔ اس طرح معاشی اضمحلال کا ایک کبھی نہ ختم ہونے والا سلسلہ ان ممالک کو اپنی گرفت میں لیے رہتا ہے۔ اس میں رہی سہی کسر سیاست دانوں اور نوکر شاہی کی مالی بدعنوانی پورا کر دیتی ہے۔ ایسے معاشی حالات میں جمہوریت کو جس کی روح احتساب اور جواب دہی کے تصور میں ہے‘ کس طرح پنپنے کا موقع مل سکتا ہے۔ گویا نوکرشاہی ہو یا اختیارات پر قابض سیاست دانوں یا فوج کا گروہ‘ ہر ایک جمہوریت کے موضوع پر اپنی گل افشانی کے باوجود حقیقی جمہوریت کے لیے ہمیشہ سنگ راہ بنا رہتا ہے۔

یہ فطری بات ہے کہ عدل و انصاف کا فقدان ‘ تحفظ کا نہ ہونا‘ حکمرانوں کی بے اصولی اور مالی استحصال کا آنکھوں کے سامنے پایا جانا‘ نظم مملکت پر سے لوگوں کے اعتماد کو متزلزل کر دیتا ہے اور crisis of governanceگہرے سے گہرا ہوتا چلا جاتاہے۔ انتظامیہ اور سیاست دان ایسی بگڑی ہوئی صورت حال میں اپنی نااہلی اور جرائم پر پردہ ڈالنے اور عوام کی توجہ اصل مسئلے سے ہٹانے کے لیے ایسے قضیوں کو ہوا دیتے ہیں جن میں اُلجھ کر عوامی توجہ بدعنوان حکمرانوں کی طرف سے ہٹ جائے۔ اس حوالے سے سب سے زیادہ کارگر حیلہ مذہبی تفرقہ بازی ہے۔چنانچہ اکثر عرب حکومتوں نے اپنی ضرورت کے پیش نظر کبھی اسلامی تحریکات کو قیدوبند اور ظلم کا نشانہ بنایا اور کبھی انھیں وقتی آزادی دے کر دوسرے نظریاتی دشمنوں کی قوت کو توڑنے یا اپنے حق میں ایک توازن پیدا کر کے ان تحریکات پر قابو پانے کے لیے استعمال کیا۔

پاکستان میں بھی صورت حال اس سے مختلف نہیں رہی۔ دو بڑی سیاسی جماعتیں باری باری ملک اور عوام کو اپنی سواری کے لیے استعمال کرتی رہیں۔ خودمسلکی جماعتوں نے خواہ وہ دیوبندی مکتب فکر کی علم بردار ہوں یا بریلوی‘ اہل حدیث یا شیعہ مسلک سے تعلق رکھتی ہوں‘ کبھی اپنے آپ کو ایک پارٹی سے وابستہ کیا کبھی دوسری سے اور اپنی سیاسی پشت پناہی کے بل پر اپنی مخالف مسلکی جماعت کے افراد کو زک پہنچانے میں کبھی تکلف نہیں کیا۔ لیکن ایک پرانی کہاوت کے مصداق ’’کرے مونچھوں والا‘ پکڑا جائے ڈاڑھی والا‘‘ مذہبی تشدد کا الزام بلااستثنا مسلکی جماعتوں پر ہی رکھا گیا۔ دوسری جانب ان میں سے کئی جماعتوں نے خود بھی اپنی قوت بازو کا اظہار کرنے کے لیے اپنی ذیلی نیم عسکری تنظیمیں قائم کر کے اس الزام کے لیے خود بنیاد فراہم کر دی۔

ان زمینی حقائق کے پیش نظر اور بالخصوص مذہبی تشدد اور فرقہ وارانہ قتل و غارت کے حوالے سے مغربی مصنفین کے اعتراضات کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس صورتِ حال کے اسباب پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ بالخصوص یہ کہ (۱) کیا نام نہاد ترقی پذیر ممالک (عرب دُنیا میں یا ایشیائی ممالک) میں مذہبی منافرت اور تشدد پسندی کے باوجود جمہوریت کا کوئی مستقبل ہے؟ (۲) کیا جمہوریت واقعی اسلام کی ضد ہے؟ اور (۳) کیا تحریکات اسلامی ان بگڑے ہوئے حالات میں اسلامی نظام حکومت کو بطور متبادل نافذ کرنے کی قوت رکھتی ہیں؟

مغربی مصنفین ان تینوں سوالات کا جواب عموماً نفی میں دیتے ہیں‘ یعنی جمہوریت اور اسلامی احیائی تحریکات میں نبھائو بہت مشکل ہے۔ ان کا خیال ہے کہ اسلامی تحریکات ’’جہاد‘‘ پر ایمان رکھنے کے سبب تشدد کو جائز سمجھتی ہیں۔ اس لیے ایک معتدل (modrate)اور آزادی پسند(liberal) نظام اور ماحول پیدا کرنے سے قاصر ہیں اور نتیجتاً جہاں کہیں بھی اسلامی نظام کے نفاذ کا امکان پیدا ہوتا ہے اسے قصرجمہوریت اور سرمایہ دارانہ نظام کے لیے شدید خطرے سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ جس طرح deductive logic  یا منطق استخراجیہ میں ایک مفروضہ دوسرے مفروضے سے ملحق ہوتا ہے اور ایک متوقع منطقی نتیجے کی طرف لے جاتا ہے‘ بالکل اسی طرح یہ تصورات مغربی ابلاغ عامہ اور علمی حلقوں میں متواتر پیش کیے جا رہے ہیں جن کا اظہار عمانویل سیوان (Emmanuel Siven)نے اپنے مضمون (Arabs & Democracy: Illusions of Change) میں واضح طور پر کیا ہے۔

ہمارے خیال میں اپنی تمام تر معروضیت کے باوجود مغربی مصنفین اسلام اور جمہوریت کے بنیادی تضاد‘ تحریکات اسلامی کے انتہاپسند اور جہاد کے ’’مذہبی جنون‘‘ ہونے کے بارے میں اپنے طے شدہ تصورات اور ذہنی تحفظات کے اتنے عادی ہو چکے ہیں کہ ساون کے اندھے کی طرح انھیں ہرچیز ہری ہری نظرآتی ہے۔ گو سوشل سائنس کی تحقیقی حکمت عملی (research methodology) میں نام نہاد معروضیت کے باوجود داخلیت کے عنصر کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا لیکن یہاں معاملہ اس سے کچھ بڑھ کر ہے۔

مندرجہ بالا تینوں فکری اغلاط کی اصلاح تفصیلی گفتگو کی متقاضی ہے۔ ہم انتہائی اختصار سے یہاں صرف تین نکات کی طرف اشارہ کریں گے:

۱-  اسلام اور جمہوریت بلاشبہ بنیادی طور پر دو مختلف چیزیں ہیں۔ اسلام کی بنیاد قرآن و سنت کی عظمت اور مطلق بالادستی پر ہے‘ جب کہ جمہوریت نظری طور پر عوام کی بالادستی کا نام ہے۔ اس بنیادی فرق کے ساتھ اسلامی نظم مملکت کی بنیاد شوریٰ کے الہامی اصول پر ہے اور اسلامی نظام خلافت فرد یا طبقۂ علما کی آمریت سے مکمل طور پر آزاد ہے۔ مغرب کے ذہن میں لفظ مذہب جو ارتعاش پیدا کرتا ہے اس کی ہر لہرسے تھیاکریسی کی صدا بلند ہوتی ہے۔ پھر بعض حادثات زمانہ بھی مغرب کے اس تصور کی کسی حد تک تائید کر دیتے ہیں‘ مثلاً فی زمانہ ’’طالبان‘‘ کا ذہنی ہّوا جسے مذہبی ریاست کے ماڈل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ خود پاکستان کے لادینی فکر رکھنے والے دانش ور‘ ہر دو دن کے بعد انگریزی کے کسی روزنامے میں کسی مضمون یا ادارتی نوٹ کے ذریعے اس خطرے کی گھنٹی بجاتے رہتے ہیں کہ ’’طالبان دستک دے رہے ہیں!‘‘ اور اس طرح ’’مذہبی جنونیت کے غبارے‘‘ میں ہوا بھرتے رہتے ہیں تاآنکہ عوام الناس کے ذہن میں مذہبی عناصر کے لیے سوائے نفرت کے کوئی جذبہ باقی نہ رہے۔

۱-  اسلام روح جمہوریت کا علم بردار لیکن انسان کی خدائی کا منکر ہے۔ وہ انسان کو ایک باشعور‘ آزاد‘ فیصلہ کرنے والی مخلوق کی حیثیت سے ارادے کی آزادی دیتے ہوئے سیاسی‘ معاشی اور معاشرتی معاملات میں اپنی قوت فیصلہ کے صحیح استعمال کی دعوت دیتاہے لیکن ساتھ ہی ہر قدم پر انسان کو یاد دلاتا رہتا ہے کہ نہ وہ اقتدار کا بندہ ہے نہ عوام کا بلکہ وہ صرف اللہ کا بندہ ہے۔ جب تک اس بنیادی حقیقت کو ذہن نشین نہ کر لیا جائے خیالات اور تصورات کا تاج محل بنیادی پتھرکے ٹیڑھے ہونے کے سبب تاثریا کجی اور ٹیڑھ سے خالی نہیں ہوسکتا۔

۲-  مسلم ممالک خصوصاً عرب دُنیا میں ملوکیت‘ فوجی آمریت یا غیر جمہوری نظاموں کے پائے جانے کے اصل سبب پر غور کیا جائے تو یہ بات واضح ہو جائے گی کہ ایک جانب خلافت راشدہ کے بعد خاندانی اور شخصی ملوکیت کے دَور کا آغاز ہوا اور تھوڑے عرصے بعد مسلمانوں کے سیاسی اور تہذیبی زوال کے ساتھ ہمسایہ تہذیبوں کے زیراثر بادشاہت کی مختلف شکلوں نے رواج کی شکل اختیار کرلی۔ دوسری طرف اٹھارھویں صدی سے مغربی سامراج نے مسلم ممالک میں جہاں جہاں قدم جمائے بادشاہوں اور آمروں کو اپنے حق میں بہتر جانا اور اپنے جمہوریت کے عشق کے دعووں کے باوجود اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے آمروں اور جابروں کی حمایت و طرف داری کی۔ دَورِ جدید میں مغربی فکر اور حکمت عملی کا ایک واضح تضاد مغربی طاقتوں کی خارجہ ‘ معاشی اور ابلاغ عامہ کی پالیسی میں واضح ہو کرسامنے آجاتا ہے۔ عرب دُنیا کی بادشاہتوں اور سابق شاہِ ایران اور شمالی افریقہ کی آمریتوں کو تحریکات اسلامی نے نہیں جمہوریت کے مدعی مغرب نے پروان چڑھایا‘ کھل کر ان کی مکمل حمایت و امداد کی اور ان ممالک کی اسلامی تحریکات کو ان کی جمہوریت پسندی کے باوجود اپنا دشمن سمجھا۔

۳-  اکثر تحریکات اسلامی نے اپنے سیاسی پروگرام اور منشور میں جن باتوں کو اوّلین اہمیت دی ہم ذیل میں صرف نکات کی شکل میں ان کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ یہ نکات خود ان تحریکات کے بارے میں مغرب کی غلط فہمی کی اصلاح کے لیے کافی مواد فراہم کرتے ہیں‘ اور تاریخی اور دستاویزی طور پر ان تحریکات کے ’’مذہبی جنونی‘‘، ’’انتہا پسند‘‘ یا ’’جمہوریت دشمن‘‘ ہونے کی مکمل تردید کردیتے ہیں۔ پاکستان‘ سوڈان ‘ ترکی اور اُردن کی تحریکات اسلامی یقین رکھتی ہیں کہ:

  •  ملک میں اسلامی نظام کے قیام کی راہ کے لیے دستوری اور جمہوری جدوجہد ہی صحیح طریقۂ انقلاب ہے۔
  •  ملک و قوم کی اصلاح تعلیمی‘ دعوتی‘ فلاحی اور سیاسی حکمت عملی کے بغیر نہیں ہو سکتی ہے۔ اس لیے تبدیلی و اصلاح کے لیے ایک طویل سفر صبرو استقامت کے ساتھ طے کرنا ہوگا۔
  • ایک صالح اور عادلانہ نظام کا قیام صالح اور آزاد قیادت کے بغیر ممکن نہیں۔ وہ فرماں روا طبقہ جو بیرونی طاقتوں کی خواہشات کا غلام ہو اور ان کے اشاروں پر ناچنے کے لیے ہر وقت آمادہ رہتا ہو محب وطن قیادت فراہم نہیں کر سکتا۔ اس لیے صالح افراد کی تیاری اور ان کی تنظیم و تربیت ایک عادلانہ نظام کا پیش خیمہ ہے۔
  • good governance یا حسن انتظام کے لیے اسلام کے دیے ہوئے ضابطہ ء اخلاق کی پیروی لازمی ہوگی اور ایسے افراد کا بے لاگ احتساب ضروری ہوگا جو ملک و قوم کے استحصال پر پلے اور بڑھے ہوں۔
  • قانون کا احترام اور بالادستی قائم کرنے کے لیے عدلیہ کو سیاسی اور حکومتی اثرات سے پاک کرنا ہوگا اور اہل کاروں کو باوقار اور باعزت طور پر زندگی گزارنے کے لیے مناسب اعزازیے کے ساتھ احتساب کی چھلنی سے گزرنا ہوگا تاکہ صرف وہ حضرات مناصب پر ہوں جن کا دامن خود داغ دار نہ ہو۔
  • اہل کاروں کے انتخاب میں صرف اور صرف صلاحیت کو بنیاد بنانا ہوگا‘ سفارش‘ اقربا پروری اور صوبہ پروری کا کلچر یکلخت ختم کرنا ہوگا۔
  •  اقتصادی خودمختاری کے لیے سودی کاروبار کو ختم کر کے اسلامی اصولوں پر معیشت کو استوار کرنا ہوگا۔
  •  سیاسی جماعتوں کے لیے بھی ضابطہ ء اخلاق کی پابندی لازمی ہوگی اور کم از کم انھیں خود جمہوری اصولوں پر عمل کرنا ہوگا۔ موروثی سیاست (کہ باپ کے بعد بیٹی یا بیٹا یا بیوی سیاسی جماعت کی قیادت پر قابض ہو جائے) کا خاتمہ کرنا ہوگا۔
  •  مسلکی تشدد اور منافرت کی جگہ رواداری‘ اور باہمی احترام کو جگہ دینی ہوگی۔
  •  نظام تعلیم میں بنیادی تبدیلی کے ذریعے سیکولر ذہن کی جگہ ایک دین سے محبت کرنے والا‘ انسانی جان و مال‘ عزت اور اختلافات کا احترام کرنے والا انسان وجود میں لانا ہوگا۔

ان نکات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ دُنیا بھر میں اسلامی تحریکات نے نہ تو کبھی حصولِ اقتدار کے لیے تشدد کا راستہ اپنایا ہے اور نہ ہلّہبول کر ہی نظام اسلام کے نفاذ کی قائل ہیں بلکہ اس کے برعکس صبرواستقامت اور دستوری ذرائع سے اصلاح اور قیامِ عدل کے لیے کوشاں ہیں۔ بہ ظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ تحریکات اسلامی کے مغربی نقاد یا تو ان تحریکات کے دساتیر‘ منشور اور اصلاح و تجدید کے تصورات سے براہِ راست واقفیت نہیں رکھتے اور ثانوی ذرائع معلومات پر انحصار کرتے ہوئے‘ ان کے بارے میں ایک ذہنی تصویر بنا لیتے ہیں‘ یا تحریکات اسلامی نے خود اپنے بارے میں معلومات فراہم کرنے اور ایک تہذیبی اور فکری مکالمے کے ذریعے دوسروں کو اپنے مقاصد اور طریق کار سے آگاہ کرنے میں غفلت برتی ہے۔ مسئلے کا حل نہ الزام تراشی ہے نہ ایک دوسرے کو نظرانداز کرنا۔ تحریک اسلامی کے بارے میں گمراہ کن تصورات کی اصلاح اگرمغرب کی ضرورت نہ بھی ہو جب بھی تحریکات اسلامی کو اپنے دعوتی اور اصلاحی تشخص کی بنا پر خود آگے بڑھ کر ایک ثقافتی اور علمی مکالمے کا آغاز کرنا ہوگا جو آخرکارخود اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں مغرب کے ناقص اندازوں کی اصلاح میں مددگار ہوگا۔

۱۹۷۹ء میں ایران کا اسلامی انقلاب کئی پہلوئوں سے امت مسلمہ اور خصوصاً اسلام کی تحریکی فکر رکھنے والے افراد کے لیے نفاذِ اسلام کی ایک نوید بن کر اُبھرا۔تاریخی نقطہ نظر سے علاماتی (symbolic)خلافت عثمانیہ کے زوال سے جو دَور شروع ہوا‘ اس میں امت مسلمہ اپنے مستقبل اور اختیار و قوت کے دوبارہ حصول کے لیے مسلسل سرگرداں رہی۔ چالیس کی دہائی سے مسلم ممالک میں سیاسی آزادی کا دَور شروع ہوا اور یہ امید بندھی کہ پاکستان‘ انڈونیشیااورشرق ا وسط کے بہت سے ممالک‘ سیاسی آزادی کے ساتھ ثقافتی اور نظریاتی آزادی بھی حاصل کر لیں گے‘ لیکن یہ امیدیں بڑی حد تک ناتمام رہیں۔ اس پس منظر میں ایرانی انقلاب اسلامی قوتوں کے لیے غیر معمولی طور پر اپنی جدوجہد پر اعتماد میں اضافہ کا باعث بنا۔ تحریکات اسلامی کے قائدین نے نہ صرف ذاتی بلکہ اجتماعی طور پر ایران میں طاغوتی ملوکیت کے خاتمہ اور اسلامی نظام کے قیام کے عزم کو خوش آمدید کہتے ہوئے نمایندہ افراد کے وفد کی شکل میں تہران جا کر امام خمینی کو اپنی حمایت کا یقین دلایا۔ یورپ اور امریکہ میں بسنے والے مسلمانوں نے یہ جاننے کے باوجود کہ وہ ایک غیر اسلامی معاشرے میں زندگی گزار رہے ہیں‘ اسلامی انقلاب کی کھل کر حمایت کی۔

یہ انقلاب ان قوتوں کے لیے سخت تشویش کا باعث بنا جو ایران کو اپنی بین الاقوامی سیاست کا سب سے زیادہ مستحکم ستون سمجھتے تھے۔ یورپ و امریکہ کے بیشتر ممالک نے اسے لادینی جمہوریت‘ اباحیت اور مغرب زدگی کے لیے ایک’’بنیاد پرست‘‘ خطرہ قرار دیتے ہوئے پورے خطے کے لیے ایک نئی حکمت عملی وضع کرنی شروع کی۔ اسی دوران ایرانی طلبہ کی جانب سے (پاسدارانِ انقلاب کے تعاون سے) امریکی سفارت خانے کے عملے کو یرغمال بنانے کے واقعے نے ایران کے خلاف امریکی جذبات کو مشتعل کرنے اور ایران میں امریکہ

کے خلاف نفرت اور غصہ کو بھڑکانے میں جلتی پر تیل کا کام کیا۔ممکن ہے کہ یہ واقعہ بعض قوتوں کے لیے ایک منطقی ضرورت ہو لیکن اس ایک واقعہ کے اثرات معاشی‘ سیاسی اور جذباتی سطح پر ایران کے حوالے سے پورے عالم اسلام پر پڑے۔ اس مفروضہ کو حقیقت مانتے ہوئے کہ اسلام اور مغربی سامراجی طاقتوں کے درمیان کوئی مکالمہ اور تبادلہ خیال‘ اظہار قوت کے علاوہ نہیں ہو سکتا‘ نہ صرف ایران بلکہ دیگر مسلم ممالک کے خلاف بھی معاشی اور سیاسی پابندیوں کا حربہ استعمال کیا گیا۔

اس حکمت عملی کا ردعمل واضح تھا۔ چنانچہ ہر دو جانب سے زبانی جنگ اور موقع ملنے پر ایک دوسرے کو زِک پہنچانے کی کوششیں ہوتی رہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس دوران میں نہ صرف مغربی سامراج بلکہ خود ایران میں زمینی حقائق کے پیش نظر ایک نئی حکمت عملی وضع کرنے پر بھی غور ہوتا رہا۔ داخلی حالات نے اس بات کی اجازت نہ دی کہ یہ عمل سرعت سے ہو‘ لیکن نئی صدی کے آغاز پر صدر خاتمی کی ایرانی قیادت نے غیر معمولی جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے چھوٹے اور بڑے ’’شیاطین‘‘ کے ساتھ بھی مکالمہ کو ممکن قرار دیتے ہوئے اس کے آغاز کی طرف پیش قدمی کا اعلان کیا۔

مغربی سامراج اور اہل فکر نے بھی اس دوران اپنے موقف پر واضح نظرثانی کی کوشش کی۔ چنانچہ ایران کی قیادت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا گیا کہ ’ماضی کی تلخ یادوں کو دفن کیا جائے اور اگر ایران نئی صدی میں کوئی تعمیری کردار ادا کرنا چاہتا ہے تو عالم گیریت (globalization)کی حقیقت کو مانتے ہوئے اپنے رویے میں تبدیلی کرے‘ نعروں کی نفسیات سے اپنے آپ کو آزاد کرے‘ اپنے تیل کے ذخائر پر بے جا اعتماد و فخر پر نظرثانی کرے‘ اپنے عوام کی معاشی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے مغرب کے ساتھ تجارتی تعاون پر غور کرے اور خاص طور پر خود پیدا کردہ اندرونی معاشی اضمحلال کو کسی بیرونی ’’شیطان‘‘ کے سرمنڈھنے کی کوشش ترک کرے‘‘۔

مغربی پالیسی سازوں کا کہنا یہ ہے کہ تیل فروخت کرنے والی اقوام کو تیل خریدنے والی اقوام کی خواہشات کا احترام کرنا ہوگا اور ]نام نہاد[ جدید معاشی نظام (N.E.O)میں اپنا مقام پیدا کرنے کے لیے اسے اپنی انا کا مسئلہ بنائے بغیر بعض بنیادی سمجھوتے (adjustment)کرنے ہوں گے۔

ابھی حال ہی میں ایران کی وزارت خارجہ کے زیر اہتمام تہران میں منعقدہ ایک بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت کے دوران میں نے محسوس کیا کہ ایران کے پالیسی ساز مغربی مفکرین کے ان خیالات کو تحمل اور صبر کے ساتھ سننے کے بعد ایک نسبتاً زیادہ عملی(pragmatic) حکمت عملی وضع کرنے پر آمادہ نظر آرہے ہیں۔ اسلامی فقہ کا ایک مستقل مضمون سیاست شرعیہ ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ بدلتے حالات میں شریعت کے ابدی‘ کلی اور جامع اصولوں کی مددسے کس طرح ایک نئی صورت حال کا حل تلاش کیا جائے۔ مصلحت عامہ کا اصول بھی (جسے مصالح مرسلہ بھی کہا جاتا ہے) وسیع تر حکمت کے پیش نظر‘ شریعت کی بالادستی قائم رکھتے ہوئے‘ ایک صورت حال کا حل تلاش کرنے میں مدد کرتا ہے۔

بہ ایں ہمہ اس طرح کی صورت حال میں چند بنیادی سوالات زیادہ اہمیت اختیار کر جاتے ہیں۔ اولاً ایک نظریاتی انقلاب کی مدعی جماعت کے لیے اصل اہمیت طویل المیعاد ہدف و حکمت عملی کی ہے یا قلیل المیعاد اور فوری حصول منفعت کی؟ اور کسی فوری اور قلیل المیعاد مقصد کے حصول کے لیے کس حد تک اصل ہدف کو وقتی طور پر نظرانداز کیا جا سکتا ہے؟ ثانیاً عملیت پسندی (pragmatism) کی سرحدیں کہاں تک ہیں؟ ایک حدیث نبویؐ میں جہاں حلال اور حرام کے بیّن ہونے کے ساتھ ساتھ مشابہات سے اعراض کا حکم دیا گیا ہے‘ اس کی روشنی میں ’’اضطرار‘‘ اور ’’ضرورت‘‘ کی حدود کا تعین کس طرح کیا جائے؟ ثالثاً مادی طور پر ایک مستحکم فریق کے ساتھ مادی طور پر ایک غیر مستحکم فریق کے مکالمے اور احترام مفادات کی شکل کیا ہوگی؟

یہ امر بھی غوروفکر کا متقاضی ہے کہ عالم گیریت (globalization)اور یک قطبی (unipolar) قوت ہونے کی دعوے دار ریاست کے ساتھ معاشی تعلقات کا تانا بانا کیا صرف معیشت کے میدان تک محدود رہے گا یا غالب معاشی قوت کی ثقافت‘ اس کی اقدار حیات‘ اس کا طرزِ زندگی اور مقصد حیات‘ محسوس اور غیر محسوس اثرات بھی معاشی سرگرمی اور تعلقات کے ہمراہ سرحدیں پار کر کے کم ترقی یافتہ ممالک پر اثرانداز ہوں گے؟ حقیقت واقعی یوں ہے کہ ابلاغ عامہ کے انقلاب نے جغرافیائی سرحدوں کو اضافی بنا دیا ہے اور ثقافتی اثرات‘ ایسے مقامات پر بھی جن کے نظریاتی ثقل کو بطور مثال پیش کیا جاتا ہے‘ دیکھنے میں آ رہے ہیں۔ ایک معمولی مشاہدہ جو میں نے خود کانفرنس کے دوران کیا ‘یہ تھا کہ بعض ایرانی خواتین روایتی ’’مانتو‘‘ (سیاہ چادر) تو لازماً استعمال کر رہی تھیں‘ جس سے وہ تمام شرعی تقاضے پورے ہو رہے تھے‘ جو ایک مسلمان خاتون کی پہچان کہے جا سکتے ہیں‘ لیکن گذشتہ دس سال کے عرصے میں اس چادر کی پیمائش میں قابل محسوس فرق واقع  ہوا ہے۔ انقلاب کے فوراً بعد یہ ٹخنوں بلکہ پائوں تک تھی جب کہ آج یہ نصف پنڈلی پر آگئی ہے جس کی بنا پرجینز جو پہلے مکمل طور پر چھپ جاتی تھی‘ غیر ثقافت کے اثرات کی چغلی کرتی نظر آتی ہے (یہاں صرف اس پہلو کی طرف اشارہ مقصود ہے کہ وہ شدت جو بہرصورت دین کا جزو پہلے بھی نہ تھی اب وسعت میں تبدیل ہوتی نظر آتی ہے اور اس بنا پر ان طبقات کی پریشانی‘ جو دین کو غلو اور شدت ہی کے تناظر میں درست سمجھتے ہیں‘ کسی تعارف کی محتاج نہیں)۔

ایرانی طرزِ عمل اور طرزِفکر میں محسوس یا غیر محسوس طور پر سامنے آنے والی اس تبدیلی کے مثبت اور  منفی اثرات نہ صرف ایران بلکہ ان تمام افراد پر پڑیں گے جو ایران کے انقلاب کو ایک شیعی انقلاب کے تصور سے بلند ہو کر عالمی تناظر میں اسلام اور طاغوت کی کش مکش کا مظہر سمجھتے رہے ہیں۔ واضح رہے کہ قدامت پسند لیکن بااختیار حلقوں میں ایسی کسی تبدیلی کی مضبوط مخالفت بھی موجود ہے۔ خود تحریکات اسلامی کے لیے بھی یہ صورت حال لمحہ فکریہ فراہم کرے گی کہ نظریے سے مکمل وفاداری اور اصولیت کے باوجود وہ کون سے دائرے ہیں جہاں ’’عملیت‘‘ اختیار کرنی ہوگی اور کس طرح ایک ایسی حکمت عملی وضع کی جائے گی جو تحریکات اسلامی کی نظریاتی اساس اور امتیاز کو تحلیل کیے بغیر ان کے دور رس اہداف کے حصول میں مددگار ہو سکے۔

اسلام کا مزاج اصلاً دعوتی اور اصلاحی ہے‘ اس لیے مکالمہ اس کی بنیادی ضروریات میں شامل ہے۔ حتیٰ کہ اسلام کے سخت ترین دشمن سے بھی مکالمے کے ذریعہ تعلق پیدا کرنا فرائض دعوت میں شامل ہے۔ اس کی واضح مثال اللہ تعالیٰ کا اپنے سچّے رسول حضرت موسیٰ علیہ السلام سے یہ کہنا ہے کہ جائو اور فرعون کو دعوت اسلام دو‘ وہ حد سے گزر گیا ہے‘ اور یہ بات بھی واضح فرما دی تھی کہ اس مکالمے کا مزاج اور انداز متشدد نہ ہو‘ بلکہ ’’قول لیّن‘‘ انتہائی مناسب اور نرم انداز گفتگو اختیار کیا جائے تاکہ وہ ہدایت کی طرف آ سکے۔ گویا شرک اور طاغوت سے نفرت تو کی جائے گی لیکن مشرک اور طاغی کو مسلسل مکالمے کے ذریعے حق کی دعوت دی جاتی رہے گی۔ یہاں نفرت شرک سے ہے ‘مشرک سے نہیں۔

مغرب سے جس مکالمہ کی طرف صدر خاتمی نے اپنی متعدد گفتگوئوں میں اشارہ کیا ہے ہمیں اس کی اخلاقیات کے تعین کے لیے بھرپور طور پر‘ قرآن و حدیث سے مدد لینی ہوگی اور واضح اصول اور نظریاتی بنیادوں پر اس کے خدوخال کا تعین کرنا ہوگا۔ اسلام کا دعوتی مزاج مطالبہ کرتا ہے کہ اسلامی فکروعقیدہ‘ ثقافت اور معاشرت کی ترویج و تحفظ پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہ کیا جائے‘ ہاں فکر وعقیدہ کی مکمل آزادی کے ساتھ دیگر اقوام اور تہذیبوں کے ساتھ پراعتماد طور پر مکالمہ اور تبادلہ خیالات اسلامی دعوت کے منشور کا لازمی جزو ہے۔ چنانچہ اہل کتاب کے حوالہ سے قرآنی تعلیم کا خلاصہ یہ ہے کہ آئو اے اہل کتاب ‘ہم کیوں نہ ایک مشترک بنیاد سے اس مکالمہ کا آغاز کریں اور دیکھیں کہ کن معاملات میں تعاون ہو سکتا ہے اور کن معاملات میں اختلاف کے باوجود ایک احترام کا تعلق قائم کیا جا سکتا ہے۔ اس مکالمہ کو نظری سطح سے آگے بڑھاتے ہوئے معاشرتی سطح پر قیامت تک کے لیے عملاً قائم کر دیا گیا اور نہ صرف اہل کتاب کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھانے کو‘ جو مکالمہ اور تبادلہ خیالات کا ایک موثر ذریعہ ہے‘ جائز قرار دیا گیا بلکہ ان کے ساتھ معاشرتی تعلق‘ جس میں سب سے زیادہ قریبی تعلق شوہر اور بیوی میں ہو سکتا ہے‘ ممکن قرار دیا گیا۔ چنانچہ مسلمان مرد کو کسی اہل کتاب خاتون سے نکاح کی اجازت اس جانب ایک مثبت اور عملی اقدام کی حیثیت رکھتی ہے۔ یاد رہے کہ اس کے ساتھ ساتھ اسلام کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت اور عقیدہ کے تحفظ کے لیے ایک مومنہ کے کسی اہل کتاب مرد سے نکاح کی ممانعت بھی کر دی گئی ہے۔

ہمیں اپنے تجزیہ میں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میثاق مدینہ میں اس مکالمے کے لیے کون سے اصول طے فرمائے تھے۔ بالخصوص انسانی حقوق اور معاملات کے حوالے سے میثاق مدینہ یہ بات واضح کر دیتا ہے کہ بین الاقوامی تعلقات میں انسانی جان اور عزت کا احترام ایک قدر مشترک ہوگا۔ نہ صرف یہ بلکہ بین الانسانی مساوات کے اصول کی بھی پیروی کی جائے گی۔ قرآن کریم  نے یہ بات بھی متعین کر دی ہے کہ مقامات عبادت خواہ وہ مسجد ہو‘ کلیسا ہو یا سیناگاگ اور ٹمپل‘ امت مسلمہ ان کے تحفظ اور آزادی کے لیے ہمیشہ اپنے وسائل کا استعمال کرے گی۔ اس عمومی پس منظر میں دوسری جانب ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ عالم گیریت کے نام پر کس طرح مغربی سامراجی طاقتیں اپنی پسند کی معیشت‘ معاشرت اور ثقافت کو تمام انسانوں کے لیے معیار قرار دیتے ہوئے دوسروں پر مسلط کرنا چاہتی ہیں۔

مزید یہ کہ بادی النظر میں عالم گیریت کے نام پر جو تہذیب و ثقافت اور معاشرت دیگر ممالک پر برضا و رغبت یا بالجبر مسلط کی جا رہی ہے‘ کیا یہ انسانی حقوق پر ایک حملہ نہیں ہے؟ ایک بامعنی ثقافتی مکالمے کے آغاز سے پہلے ہمیں اس ثقافتی یلغار کی گرفت اور اس کے وسیع اثرات و مضمرات کا اندازہ کرنا ہوگا۔ یہ اور دیگر متعلقہ پہلو ہمیں مزید غوروفکر کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔