عالمِ اسلام کے مسائل کا جائزہ لیا جائے تو ایک بنیادی مسئلہ قومی، ملکی اور ذاتی ترجیحات کا نظر آتا ہے۔ اکثر ترقی پذیر مسلم ممالک میں مغربی تعلیم یافتہ فرماں روا اور مشیرانِ حکومت محض ٹکنالوجی میں ترقی کو قومی ترجیح قرار دیتے ہوئے تعلیمی اور معاشی پالیسی کو اس طرح مرتب کرتے ہیں کہ قوم فنی طور پر ٹکنالوجی میں مہارت حاصل کرلے۔ کچھ فرماں روا مسلمانوں کو ’روشن خیال‘ ثابت کرنے کے لیے فحش اور عریاں ثقافتی سرگرمیوں کے اپنانے کو تعمیر ِکردار پر ترجیح دیتے ہیں اور اسے مسلمانوں کی ’نرم شبیہہ‘ (soft image) قرار دیتے ہوئے آخرکار دشمنانِ اسلام کے لیے نرم نوالہ بن جاتے ہیں۔ بعض افراد اپنی ذاتی زندگی میں فرائض کو نظرانداز کرتے ہوئے ان نوافل پر زیادہ توجہ دیتے ہیں جو ان کے خیال میں برکت کا باعث ہوتے ہیں۔ زندگی کے ہر ہرقدم پر ہمیں ترجیحات کا سامنا ہوتا ہے۔ چاہے وہ حج کی تیاری کرتے وقت یہ فیصلہ کرنا ہو کہ جمع شدہ رقم لڑکی کے گھر بسانے پر خرچ ہو یا حج و عمرہ پر، یا ووٹ ڈالتے وقت ترجیح ایسے فرد کو دی جائے جو جیتنے والا سرکش گھوڑا ہو، یا مدمقابل کو جو صالح اور امانت دار ہو لیکن شاید ہارجائے۔
شیخ قرضاوی کی یہ تحریر ان کی بالغ نظری اور فقہی بصیرت کا ایک مظہر ہے۔ انھوں نے آسان انداز میں فقہ کے ایک اہم مضمون، یعنی مقاصد الشریعہ اور قواعد الفقیہہ کو بغیر فقہی اصطلاحات کو استعمال کیے، مثالوں کی مدد سے سمجھایا ہے جو ایک باکمال استاذ ہی کرسکتا ہے جسے طلبہ کی ایک ایسی جماعت مل جائے جس میں انتہائی ذکی اور کم فہم اور غبی ہر طرح کے طلبہ کا سامنا ہو۔ اس لحاظ سے کتاب غیرمعمولی طور پر عملیّت سے بھرپور ہے۔
کتاب ۱۱ ابواب پر مشتمل ہے جن میں: موضوع کی اہمیت و ضرورت، ترجیحات اور موازنات، علم و فکر میں ترجیحات، فتویٰ اوردعوت میں ترجیحات، عمل میں ترجیحات، مامورات میں ترجیحات اور دینی ورثے اور مصلحینِ عصر کی دعوت اور ان کی ترجیحات، جیسے اہم موضوعات شامل ہیں۔
یہ کتاب کئی حیثیات سے تحریکِ اسلامی کے کارکنوں کے لیے ایک لازمی مطالعے کی حیثیت رکھتی ہے۔ اولاً: اس میں یہ بات سمجھائی گئی ہے کہ اصول الدعوۃ کی تطبیق کس طرح کی جائے اور دین میں غلو سے کس طرح بچاجائے۔ ایک عام فرد کے لیے اس میں غور کرنے کا اہم پہلو یہ ہے کہ روزمرہ زندگی میں جب کسی سے کہا جاتا ہے وہ انفاق فی سبیل اللہ کرے تو لے دے کر ذہن کسی مسجد یا مدرسے کی تعمیر کی طرف جاتا ہے، جب کہ کشمیر اور فلسطین کے یتیم بچوں کی تعلیم و تربیت، بیوہ خواتین کے لیے دستکاری کے مراکز، اعضا سے محروم اور مجروحین کے لیے شفاخانوں کا قیام اور مغربی ثقافتی یلغار کے خلاف ایسے اداروں کا قیام جو صحت مند فلمیں، ڈرامے، نغمے اور تعلیمی پروگرام بنا سکیں، ایک غیردینی کام تصور کرلیا جاتاہے۔
بعض اوقات انفاق کے جذبے کے ساتھ ایک صاحب ِ خیر کئی لاکھ روپے کسی یتیم خانے کو دے دیتا ہے جو ایک بھلائی کا کام ہے، لیکن یہ نہیں سوچتا کہ اس نے جو دولت حاصل کی ہے اور جسے وہ ایک بھلائی کے کام میں لگا رہا ہے اسے حاصل کرنے میں سود اور ممنوع ذرائع کا کتنا بڑا دخل رہا ہے۔ اُمت کی ترجیحات کا اظہار اس کے رویوں سے بھی ہوتا ہے، مثلاً ایک فن کار فوت ہوجائے تو اخبارات اور برقی ذرائع ابلاغ میںکہرام مچ جاتا ہے، جب کہ ایک عالم کے انتقال پر کسی کو پریشانی نہیں ہوتی۔ ایک دو کوڑی کا کردار رکھنے والے وزیر کی حفاظت کے لیے ۳،۳مسلح گارڈوں کے ساتھ اس کی سواری نکلتی ہے، جب کہ عام شہری کی جان، عزت اور مال کے تحفظ کے لیے اقدام نہیں کیے جاتے۔
پاکستان کے تناظر میں دیکھیں تو ہم تنہا ایک فرماں روا کے بیرونی سفر پر قومی خزانے پر جتنا چاہیں بوجھ ڈال دیتے ہیں جب کہ ایک شہری کی تعلیم، صحت اور دینی ضروریات کو این جی اوز کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے یومِ ولادت پر چراغاں اور مٹھائیاں تقسیم کرنا فرض اور واجب قرار پاتا ہے، جب کہ دو قدم پر کچی آبادی میں بسنے والے ہزارہا افراد کی بھوک، لباس اور دیگر ضروریات پر قرآنِ کریم کے واضح احکام اور سنت ِ رسولؐ کی واضح تعلیمات کے باوجود سائل، محروم اور مسکین کی زندگی کو بہتر بنانے پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔
اسلام نے گو اپنے نظامِ عبادت میں فرض، سنت اور نفل کی تقسیم کے ذریعے ترجیحات کا تعین کیا ہے مگر اُمتِ مسلمہ اکثر نوافل کو فرض کا مقام دے بیٹھتی ہے اور فرائض سے عدمِ توجہی کی مرتکب ہوتی ہے۔ شیخ قرضاوی کی یہ تحریر اُمتِ مسلمہ کو اسی طرف متوجہ کرتی ہے کہ وہ اپنی ترجیحات کا جائزہ لے اور اپنی کھوئی ہوئی عظمت کو دوبارہ حاصل کرنے کے لیے ایسا لائحہ عمل طے کرے جو دین کی صحیح ترجیحات پر مبنی ہو۔
تحریکاتِ اسلامی اپنے روز مرہ کے مسائل اور بالخصوص سیاسی حالات میں الجھنے کے سبب اپنی اصل اور بنیاد سے، جس پر زیادہ توجہ اور ترجیحی بنیاد پر کام کرنا چاہیے، لاپروا ہوجاتی ہیں۔ نتیجتاً تعداد میں کثرت کے باوجود تحریک کی اصل پہچان اور تشخص یعنی فکری، تربیتی اور تعمیر کردار کا پہلو ثانوی حیثیت اختیار کرلیتا ہے۔ سیاسی عمل کے شوروغل اور ابلاغِ عامہ میں سرگرمیوں کے تذکرے تحریک کو تعمیر ِسیرت و کردار کے بنیادی کام سے غافل کردیتے ہیں۔ تبدیلیِ فرد کا اصل معیار جلسوں اور جلوسوں میں شرکت کو سمجھ لیا جاتا ہے، جب کہ سنجیدگی کے ساتھ اسلامی مصادر، یعنی قرآن وسنت سے براہِ راست تعلق، اللہ کے بندوں کے مسائل و مشکلات کے حل کے لیے کوشش ثانوی حیثیت اختیار کرجاتے ہیں اور تحریکات کی قیادت کو اس کمزوری کا احساس بھی نہیں ہوتا۔ اگر ترجیحات پر مسلسل غوروتجزیہ اور تنقیدی نگاہ کے ساتھ احتسابی عمل کو زندہ رکھا جائے تو تحریکات نہ جمود کا شکار ہوتی ہیں اور نہ ایک میکانکی نظام ہی میں تبدیل ہوتی ہیں۔
تحریکاتِ اسلامی کے کارکنوں کے لیے اس کتاب میں غور کرنے کے لیے بہت قیمتی مواد ہے اور اگر دیکھا جائے تو کام کی منصوبہ بندی ترجیحات کا تعین کیے بغیر ہو ہی نہیں سکتی۔ مرکزی، صوبائی اور مقامی سطح پر کام کرنے والے ہر کارکن اور ذمّہ دار کے لیے اس کتاب میں غوروفکر کا سامان موجود ہے۔ اس کے ایک ایک باب کو اجتماعی حلقوں میں مطالعہ کا موضوع بناکر اپنے کام کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔
شیخ قرضاوی اِس دور کے اُن علما میں سے ہیں جو مجتہد ِعصر کا درجہ رکھتے ہیں لیکن انھوں نے کتاب میں جابجا علما کی تحریرات سے استفادہ کرتے ہوئے ان کے افکار کا خلاصہ اور بعض اوقات حوالے نقل کرنے میں اپنے قلب و فکر کی وسعت کا مظاہرہ کیا ہے۔ ایک پورا باب مصلحینِ عصر کی ترجیحات پر قائم کیا ہے۔ جن میں امام ابن عبدالوہاب، مہدی سوڈانی، جمال الدین افغانی، محمد عبدہٗ، امام حسن البنّا، امام مودودی، سیدقطب، استاذ مبارک اور استاذ شیخ الغزالی شامل ہیں۔ ان علما کی فکر کو پیش کرتے وقت ایک محقق اور طالب علم کے انداز میں معروضیت کے ساتھ ان کی دعوت و فکر کو پیش کیا گیا ہے جو خود شیخ قرضاوی کے مقامِ علم کو بلند کردیتی ہے۔
کتاب اول تا آخر پوری ذہنی یکسوئی کے ساتھ پڑھنے کی متقاضی ہے۔ مترجم گل زادہ شیرپائو نے ترجمے کا حق ادا کردیا ہے۔ دورانِ مطالعہ کہیں بھی بوجھل پن یا تھکاوٹ کا احساس نہیں ہوتا۔ ادارہ منشورات اس کتاب کی اشاعت پر مبارک باد کا مستحق ہے۔ اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ اُردو خواں طبقے کے فائدے کے لیے شیخ قرضاوی کی دیگر تصنیفات کی اشاعت کو بھی ادارے کی ترجیحات میں شامل کیا جائے۔ (دین میں ترجیحات، علامہ یوسف القرضاوی۔ ترجمہ: گل زادہ شیرپائو۔ ناشر: منشورات، منصورہ، ملتان روڈ، لاہور۔ صفحات: ۴۱۲۔ قیمت: ۲۴۰ روپے)
اقوامِ عالم اور عالمی تہذیبوں کو ایک دوسرے سے ممتاز کرنے والے عناصر میں فکروثقافت کو بنیادی مقام دیا جاتا ہے۔ چنانچہ کسی قوم یا نسل کے عادات و اطوار ہوں، اس کی عبادات ہوں، لباس ہو یا معیشت و سیاست ہو، اگر غور کیا جائے تو ہرہرشعبے میں اس کی بنیادی فکر وثقافت کی ایک جھلک پائی جاتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ مراکش سے انڈونیشیا اور وسط ایشیا سے شمالی امریکا اور جنوبی افریقہ تک اُمت ِمسلمہ کی پہچان اس کی ثقافت و فکر ہی کو قرار دیا جاسکتا ہے۔
دورِحاضر میں جسے عالم گیریت کا دور کہا جانے لگا ہے، ایک سوال علمی اور تحقیقی سطح پر یہ اٹھایا جاتا ہے کہ عالم گیریت کے دور میں جب کوئی علاقائی ثقافت ہزارہا میل سے نشر ہونے والے نغموں، ڈراموں، سنجیدہ اور غیرسنجیدہ گفتگوؤں کی زد میں آچکی ہے، یہ کیسے ممکن ہے کہ کسی خطے کی ثقافت دوسرے خطے کی ثقافت کے منفی یا مثبت اثرات سے محفوظ رہ سکے؟ مزید یہ کہ کیا یہ ضروری ہے کہ ہرخطہ اپنی ثقافت و روایت سے وابستہ ہی رہے۔ آخر اس میں کیا حرج ہے کہ ایک ایسی چڑھتی ہوئی ثقافت و فکر کو جس کے نتیجے میں یورپ و امریکا نے معاشی، عسکری اور سیاسی فوقیت حاصل کرلی ہے، ہم بھی اختیار کرکے انھی کی طرح ’ترقی یافتہ‘ بن جائیں اور ہمارے ہاں بھی جلیبی کی طرح بل کھاتی شاہراہیں اور ایک چھت کے نیچے سو دکانوں والے بازار وجود میں آجائیں۔ کیا روایت پرستی یا ’قدامت‘ ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہیں ہے؟ اس سے آگے بڑھ کر ایک سوال یہ بھی اٹھایا جاتا ہے کہ کیا کوئی ثقافت اسلامی بھی کہلا سکتی ہے یا درحقیقت مسلمانوں نے جب اور جہاں طبع زاد طور پر کوئی ایجادات، مصنوعات اور اختراعات کرلیں، انھی کو اسلامی ثقافت سے تعبیر کردیا گیا؟ گویا اسلامی ثقافت ایک خیالی نقشے سے زیادہ کوئی چیزنہیں ہے، جب کہ عملاً مختلف خطوں میں پائے جانے والے مسلمانوں نے اپنے الگ الگ خطوں کی ضروریات و حالات کی مناسبت سے جو طورطریقے اختیار کیے انھیں اسلامی ثقافت سے تعبیر کردیا گیا۔ ایک پہلو یہ بھی قابلِ غور ہے کہ کیا اسلامی ثقافت، اگر کوئی چیز اس نام کی ہے، عربی ثقافت سے مختلف کوئی چیز ہے یا وقت گزرنے کے ساتھ عربوں کے رسوم و رواج اور بود وباش کو ہی اسلامی ثقافت و تہذیب اور فکر قرار دے دیا گیا۔ یہ اور اس نوعیت کے بہت سے سوالات تقاضا کرتے ہیں کہ اسلامی فکر وثقافت کی بنیادوں اور مظاہر پر ایک تنقیدی نگاہ ڈالی جائے اور اسلامی تشخص و شخصیت کو قرآنِ کریم کی روشنی میں دیکھا جائے۔
اس تحریر کا بنیادی مقصد ان سوالات کو اٹھانا ہے جو آج نوجوانوں کے ذہنوں میں پائے جاتے ہیں۔ اس کا مقصد حتمی جوابات فراہم کر کے بحث کا دروازہ بند کرنا نہیں ہے، بلکہ قرآن و سنّت کی روشنی میں کھلے ذہن کے ساتھ ذہنی دریچوں کو کھولنا ہے تاکہ تازہ ہوا کی مدد سے مسئلے کا ادراک اور اس پر مسلسل غور کا سلسلہ چل سکے۔ مسلسل غوروفکر قرآنِ کریم کی بنیادی دعوت ہے۔ اسی بنا پر وہ بار بار اپنے پڑھنے والوں کو متوجہ کرتا ہے کہ وہ کسی لمحے بھی اس عمل کو ترک نہ کریں۔ جب تک ایک بندہ اپنے رب سے اس درخواست کے ساتھ کہ وہ اسے علم و ہدایت دے (رَّبِّ زِدْنِیْ عِلْمًاo طٰہٰ ۲۰:۱۱۴)، صراطِ مستقیم پر رکھے (اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ o الفاتحہ۱:۵)، نفس کے فتنوں اور شیطان کی چالوں سے محفوظ رکھے، یہ کام کرتا رہے گا۔ قرآنِ کریم کے معانی و مفہوم کے نئے نئے اسرار اس پر کھلتے رہیں گے اور جب وہ یہ سوچ کر بیٹھ جائے گا کہ جو کچھ ہدایت ملنی تھی مل چکی اس کا ذہنی اور فکری سفر جمود کا شکار ہوجائے گا۔
مذاہبِ عالم پر ایک عمومی اعتراض کیا جاتا ہے کہ وہ عقلیت، تجزیہ اور تفکر کی راہیں مسدود کر کے اندھی تقلید، جذباتیت، بنیاد پرستی، شدت پسندی اور غلو کو رواج دیتے ہیں اور اپنے آپ کو حتمی سمجھنے کی بنا پر علمی تحقیق، تجزیہ اور تنقید کو سخت ناپسند کرتے ہیں۔ اسلام بظاہر وہ واحد دین ہے جو عقل، مشاہدہ، تدبر،تجزیہ، تزکیہ اور مسلسل فکر کی دعوت دیتا ہے۔ قرآنِ کریم وہ واحد الہامی کتاب ہے جو انسان کو سوال اٹھانے اور سوالات کے حل تلاش کرنے کی دعوت دیتی ہے۔
قرآنِ کریم میں غوروفکر کرنے کی دعوت تقریباً ہر صفحے پر دی گئی ہے۔ فکر کے حوالے سے اس کے مختلف پہلوئوں پر ۱۹ سے زائد مقامات پر مختلف زاویوں سے انسان کو متوجہ کیا گیا ہے۔اس کے مفہوم میں سوچنے (اِِنَّہٗ فَکَّرَ وَقَدَّرَo ’’اس نے سوچا اور کچھ بات بنانے کی کوشش کی‘‘۔ المدثر ۷۴: ۱۸)، تنہا یا اجتماعی طور پر مل کر دماغ لڑانے اور فکر کرنے (قُلْ اِنَّ رَبِّیْ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَآئُ وَ یَقْدِرُ وَ لٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَo’’اے نبیؐ! ان سے کہو’’میرا رب جسے چاہتا ہے کشادہ رزق دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے نپا تُلا عطا کرتا ہے، مگر اکثر لوگ اس کی حقیقت نہیں جانتے‘‘۔ السبا ۳۴:۳۶)، اور دنیا و آخرت کے حوالے سے فکر کرنے، منطقی انداز میں واقعات و حقائق کو مرتب کرکے غوروفکر کرنے کے لوازم پائے جاتے ہیں (یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْخَمْرِ وَ الْمَیْسِرِ قُلْ فِیْھِمَآ اِثْمٌ کَبِیْرٌ وَّ مَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَ اِثْمُھُمَآ اَکْبَرُ مِنْ نَّفْعِھِمَا وَ یَسْئَلُوْنَکَ مَاذَا یُنْفِقُوْنَ قُلِ الْعَفْوَ کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمُ الْاٰیٰتِ لَعَلَّکُمْ تَتَفَکَّرُوْنَo ’’پوچھتے ہیں: شراب اور جوے کا کیا حکم ہے؟ کہو اِن دونوں چیزوں میں بڑی خرابی ہے اگرچہ ان میں لوگوں کے لیے کچھ منافع بھی ہیں، مگر ان کا گناہ ان کے فائدے سے بہت زیادہ ہے۔ پوچھتے ہیں: ہم راہِ خدا میں کیا خرچ کریں؟ کہو: جو کچھ تمھاری ضرورت سے زیادہ ہو۔ اس طرح اللہ تمھارے لیے صاف صاف احکام بیان کرتا ہے، شاید کہ تم دنیا اور آخرت میں دونوں کی فکر کرو‘‘۔البقرہ ۲:۲۱۹)۔ خود قرآنِ کریم اپنے لیے ذکریٰ کی اصطلاح استعمال کرتا ہے (الانعام ۶:۶۸) اور اپنے آپ کو تمام انسانوں کے لیے یاددہانی، غوروفکر پر اُبھارنے والی ہدایت و نور قرار دیتا ہے۔ مختلف اقوامِ عالم کے عروج و زوال کے واقعات کی طرف اشارہ کرنے کے بعد بار بار یہ بات دہراتا ہے کہ اس کا مقصد محض تاریخی واقعات کا بیان نہیں ہے بلکہ غوروفکر کی دعوت دینا ہے۔کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمُ الْاٰیٰتِ لَعَلَّکُمْ تَتَفَکَّرُوْنَ o ’’اس طرح اللہ اپنی باتیں تمھارے سامنے بیان کرتا ہے، شاید کہ تم غوروفکر کرو‘‘۔ (البقرہ۲:۲۶۶)
سورۂ آل عمران میں فکر کے عمل کو ذکر کے ساتھ وابستہ کرتے ہوئے اسے اہلِ دانش کی اہم پہچان بتایا گیا ہے (اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ اخْتِلَافِ الَّیْلِ وَ النَّھَارِ لَاٰیٰتِ لِّاُولِی الْاَلْبَابِo’’زمین اور آسمانوں کی پیدایش میں اور رات اور دن کے باری باری سے آنے میں اُن ہوش مند لوگوں کے لیے بہت نشانیاں ہیں‘‘۔ ۳:۱۹۰)گویا اہلِ دانش نہ تو اپنی آنکھیں اور کان بند رکھتے ہیں اور نہ دل کی آنکھ کو موندنے دیتے ہیں۔ ایسے افراد کے لیے آسمان اور زمین میں اور خود ان کی اپنی ذات میں اللہ تعالیٰ نے بے شمار نشانیاں رکھ دی ہیں۔ اگر وہ صرف ان پر غور کرلیں اور فکر کا دامن تھامے رہیں تو بہت کم ایسے ہوںگے جو گمراہ ہوں۔
انسان کی یہی وہ صلاحیت ہے جس کی بنا پر اسے حیوانات سے ممتاز کیا گیا۔ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں اور ہدایت ِربانی کے تذکرے کے بعد کہ شاید اس طرح لوگ فکر پرآمادہ ہوں، قرآنِ کریم ان افراد کا ذکر کرتا ہے جو جانتے بوجھتے تفکر اور غوروفکر کرنے سے بھاگتے ہیں۔ غفلت میں پڑے ہوئے اِن افراد کے بارے میں قرآن یوں مخاطب ہوتا ہے کہ: لَھُمْ قُلُوْبٌ لَّا یَفْقَھُوْنَ بِھَا وَ لَھُمْ اَعْیُنٌ لَّا یُبْصِرُوْنَ بِھَا وَ لَھُمْ اٰذَانٌ لَّا یَسْمَعُوْنَ بِھَا اُولٰٓئِکَ کَالْاَنْعَامِ بَلْ ھُمْ اَضَلُّ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْغٰفِلُوْنَo (الاعراف ۷:۱۷۹) ’’ان کے پاس دل ہیں مگر وہ ان سے سوچتے نہیں، ان کے پاس آنکھیں ہیں مگر وہ ان سے دیکھتے نہیں، ان کے پاس کان ہیں مگر وہ ان سے سنتے نہیں۔ وہ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گئے گزرے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو غفلت میں کھوئے گئے ہیں‘‘۔
انسان تفکر کے لیے جن ذرائع کو استعمال کرتا ہے ان میں عقل، قلب، سماعت و بصارت ہی علم کے حصول کے ذرائع ہیں لیکن اگر ایک شخص اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتِ بصارت و سماعت کو استعمال نہ کرے اور جو کچھ آنکھ دیکھتی ہو یا دیکھ سکتی ہو، اسے نظرانداز کرتا رہے اور جو کچھ کانوں کے ذریعے قلب و دماغ تک پہنچ سکتا ہو، اس سے اپنے آپ کو بچاکر رکھے تو پھر وہ اپنے من کی بھول بھلیوں ہی میں گرفتار رہے گا۔ خودساختہ تصورات میں گم اور غوروفکر سے عاری رہنے کے سبب علم و ہدایت کے نور سے محروم ہوجائے گا۔ ایسے ہی افراد کو قرآنِ کریم جانوروں سے تشبیہہ دیتا ہے بلکہ ان سے بھی گیا گزرا سمجھتا ہے۔
مغربی دانش کا ایک مفروضہ یہ ہے کہ الہامی کتاب کی پیروی سے انسان گویا عقل سے عاری، قدامت پرست اور بنیاد پرست بن جائے گا، جب کہ قرآنِ کریم وہ واحد الہامی کتاب ہے جو ہرلمحے اپنے پڑھنے والوں کو غوروفکر کی دعوت دیتی ہے۔ اس دعوتِ فکر میں اولاً اس نکتے پر زور دیا جاتا ہے کہ تعصبات اور خودساختہ ذہنی تحفظات کے خول سے نکل کر ایک شخص اردگرد کی کائنات پر غور کرتے ہوئے اپنے آپ سے یہ سوال کرے کہ کیا جو کچھ وہ دیکھ رہا ہے یہ خود اس کے اپنے ذہن کی تخلیق ہے؟ یا کسی اور اُس جیسے فرد یابہت سے افراد میں اجتماعی طور پر یہ قوت ہے کہ وہ اس طرح کی کائنات، چمکتا آسمان، گرجتے بادل، کڑکتی بجلی، بلندوبالا پہاڑ، وادیاں، سبزہ زار اور بدلتے موسم، غرض ایک عالمِ رنگ و بو کو پیدا کرسکیں یا اس نظامِ ہستی کو اپنی مرضی کے مطابق چلنے پر مجبور کرسکیں یا عقل و تجربہ مطالبہ کرتا ہے کہ اس پوری کائنات کا ایک ہی خالق اور مالک جو مدّبر و قوی ہو، حی و قیوم ہو، ہونا چاہیے۔ گویا انسان کو اپنا سراغ لگانے کے لیے جس کسی نکتے سے فکر کا آغاز کرنے کی دعوت دی جاتی ہے وہ فکر آخرکار اسے حق و صداقت تک پہنچنے کے لیے ایک عقلی سفر پر لگا دیتی ہے۔
یہی وہ فکر ہے جسے ہم قرآنی اور مسلم فکر سے تعبیر کرسکتے ہیں اور جو موجود ذرائع علم کا جہاں تک ممکن ہو استعمال کرتے ہوئے ایک ایسا سفر اختیار کرسکتی ہے جس کا مقصد محض فکری اٹھکیلیاں نہ ہوں، بلکہ اصلاحِ حال اور تعمیر ِمستقبل کے لیے نظامِ حیات کی تلاش ہو۔ اس پُرمعنی عمل کو قرآنِ کریم فکر اور ذکر سے تعبیر کرتا ہے، یعنی وہ فکر جو مشاہدے، یاد دہانی، تجزیے اور تجربے کے ذریعے انسان کو اپنی منزل کے تعین میں راہ نمائی اور امداد فراہم کرسکے۔ اسی لیے علمِ نافع کی اصطلاح کا استعمال اس فکر کے لیے کیا جاتا ہے جو تعمیری و متحرک ہو اور مستقبل کا شعور رکھتی ہو۔
قرآنِ کریم نے دنیا اور آخرت کی فکر پر بار بار اسی لیے متوجہ کیا ہے کہ فکر محض دنیاوی معاملات تک محدود نہ ہو بلکہ انسان کو اس کی حقیقی منزل اور مقام تک کامیابی کے ساتھ لے جانے میں مددگار ہو۔ وہ اندھیروں میں ٹھوکریں کھاتا نہ پھرے۔ وہ ہر پگڈنڈی پر نہ چل پڑے بلکہ صراطِ مستقیم پر استقامت اور صبر کے ساتھ گامزن رہے، حتیٰ کہ اپنے مقصود و مطلوب اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لیے ایسا راستہ اختیار کرلے جو اس کے رب کا پسندیدہ اور مقرر کردہ راستہ ہو۔ انسانوں کا جو گروہ اس تعمیری فکری عمل میں مصروف ہوتا ہے اسے قرآنِ کریم قَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْنَ قرار دیتا ہے (مزید ملاحظہ ہو: النحل ۱۶:۱-۱۱)۔ اس تعمیری فکری عمل کو وحیِ الٰہی کے ساتھ وابستہ کرتے ہوئے قرآنِ کریم ان لوگوں کو جو فکر کرنے والے ہوں، یوں مخاطب کرتا ہے: وَ مَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِیْٓ اِلَیْھِمْ فَسْئَلُوْٓا اَھْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ o بِالْبَیِّنٰتِ وَالزُّبُرِ وَ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْھِمْ وَ لَعَلَّھُمْ یَتَفَکَّرُوْنَo (النحل ۱۶: ۴۳-۴۴)’’اے نبیؐ! ہم نے تم سے پہلے بھی جب کبھی رسول بھیجے ہیں آدمی ہی بھیجے ہیں جن کی طرف ہم اپنے پیغامات وحی کیا کرتے تھے۔ اہلِ ذکر سے پوچھ لو اگر تم لوگ خود نہیں جانتے۔ پچھلے رسولوں کو بھی ہم نے روشن نشانیاں اور کتابیں دے کر بھیجا تھا اور اب یہ ذکر تم پر نازل کیا ہے تاکہ تم لوگوں کے سامنے اُس تعلیم کی تشریح و توضیح کرتے جائو جو ان کے لیے اُتاری گئی ہے۔ اور تاکہ لوگ (خود بھی) غوروفکر کریں (وَلَعَلَّھُمْ یَتَفَکَّرُوْنَ)‘‘۔
انسان کو یہ دعوتِ فکر محض کائنات یا خود اپنے نفس کی جانب نہیں بلکہ وحیِ الٰہی کے سمجھنے کی طرف دی جارہی ہے تاکہ وحیِ الٰہی کے تمام پہلوئوں کو سمجھنے کے بعد وہ عقلی رویہ اختیار کرسکے جو اس ہدایت کا مقصود و مطلوب ہے۔ آخرکار یہی فکری عمل وحیِ الٰہی میں موجود ہدایات و اصول پر غوروفکر کرنے کے نتیجے میں جدید مسائل کے حل کی طرف رہنمائی کرے گا، اور اس طرح وحی کے غیرمتغیر اور مستقل وجود کے تعامل سے، تغیر حالات و زمانہ سے پیدا ہونے والے مسائل کا حل تلاش کیا جاسکے گا۔ اگر وحیِ الٰہی کے سمجھنے کے فکری عمل میں جمود آ جائے تو مسائل کے حل کا عمل جو دراصل ترقی کا عمل ہے اپنی رفتار کھو بیٹھتا ہے اور اُمت جمود اور تقلید کا شکار ہوجاتی ہے۔ اجتہاد گویا وحیِ الٰہی اور اس کے مقصد کو سمجھنے کے بعد وحی کے ذریعے ملنے والی ہدایت کو جدید حالات پر منطبق کرنے کا نام ہے۔ یہ خود رائی اور اپنی ذہنی اپج کو اسلامی حل قرار دینے کا نام نہیں ہے۔ قرآنِ کریم فکروذکر کی طرف متوجہ کرتے ہوئے اپنے ہر پڑھنے والے کو ایسی فکر کی دعوت دیتا ہے تاکہ اس طرح وہ اپنے روزمرہ کے معاشرتی، معاشی، سیاسی اور، ثقافتی مسائل کا حل تلاش کرسکے اور وہ اپنی سرگرمیوں کو فکرِاسلامی کا تابع بناسکے۔ اسلامی فکر محض عقیدے کے باریک مسائل اور غیرمرئی روحانی مسائل کو سمجھنے کا نام نہیں ہے جسے بالعموم الٰہیات یا مابعد الطبیعیات کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ زندگی کے ہرشعبے میں وحیِ الٰہی اور موجود ذرائع علم کے استعمال کے ذریعے مسائل کے حل کرنے کے عمل کا نام ہے۔
قرآنِ کریم کی دعوتِ فکر کسی خاص موضوع تک محدود نہیں ہے بلکہ زندگی کے تمام پہلوئوں کا احاطہ کرتی ہے۔ اگرچہ بعض ایسے پہلو بھی ہیں جو روزانہ مشاہدے میں تو آتے ہیں لیکن بہت کم لوگ ان پر غور کرتے ہیں، قرآن ان کی طرف متوجہ کرتا ہے اور انھیں فکری عمل کو آگے بڑھانے کا ذریعہ بناتا ہے: اَللّٰہُ یَتَوَفَّی الْاَنْفُسَ حِیْنَ مَوْتِہَا وَالَّتِیْ لَمْ تَمُتْ فِیْ مَنَامِہَا فَیُمْسِکُ الَّتِیْ قَضٰی عَلَیْہَا الْمَوْتَ وَیُرْسِلُ الْاُخْرٰٓی اِِلٰٓی اَجَلٍ مُّسَمًّی اِِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَتَفَکَّرُوْنَo (الزمر ۳۹:۴۲)’’وہ اللہ ہی ہے جو موت کے وقت روحیں قبض کرتا ہے اور جو ابھی نہیں مرا ہے اس کی روح نیند میں قبض کرلیتا ہے۔ پھر جس پر وہ موت کا فیصلہ نافذ کرتا ہے اسے روک لیتا ہے اور دوسروں کی روحیں ایک وقتِ مقرر کے لیے واپس بھیج دیتا ہے۔ اس میں بڑی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو غوروفکر کرنے والے ہیں‘‘۔ ہر انسان رات اور دن کے اوقات میں تھکن کے بعد قوت حاصل کرنے اور آرام کرنے کے لیے سوتا ہے اور یہ بات اس کے ذہن میں بالعموم نہیں آتی کہ آیا سونے کے بعد جاگے گا یا نہیں۔اس روزمرہ کے عمل کو بھی قرآنِ کریم فکر اور غور کرنے کے عمل سے تعبیر کرتا ہے تاکہ سونے سے قبل بھی ایک شخص اپنا عقلی طور پر احتساب کرکے دیکھ لے کہ اگر نیند ہی میں اسے موت آگئی تو کیا اس کا نامۂ اعمال ایسا ہے کہ بغیر کسی ندامت کے رب کے حضور حاضر ہوسکے۔
ایک عام انسان ہی کو نہیں بلکہ ماہرینِطب کو بھی اس مثال کے ذریعے دعوتِ فکر دی جارہی ہے کہ وہ نیند کے دوران انسانی جسم، دماغ اور دل کے عمل کرنے پر غور کریں اور تحقیق کر کے دیکھیں کہ وہ کون سی تبدیلیاں ہیں جو اس دوران انسان کا خالق اس کے جسم میں پیدا کرتا ہے تاکہ اللہ تعالیٰ کی قدرت و حاکمیت کو تحقیق اور فکر کی بنیاد پر سمجھا جاسکے۔
حیاتِ انسانی کے بعض ایسے پہلو جن پر اپنی مصروفیات کے سبب انسان توجہ نہیں دے پاتا قرآنِ کریم ان کی طرف بھی غوروفکر کی دعوت دیتا ہے اور یکے بعد دیگرے ان نشانیوں کا ذکر کرتا ہے جو ہمارے روزمرہ کے مشاہدے میں عالمی حیثیت رکھتی ہیں اور انھیں کسی خاصے خطے، زبان یا ثقافت تک محدود نہیں سمجھا جاسکتا۔ ان میں ایک نشانی انسان کی اوّلین پیدایش اور پھر ایک فطری جینیاتی عمل کے ذریعے ایک قطرہ سے گوشت پوست کا انسان بنایا جانا، پھر خود اسی کی نوع سے زوج کی تخلیق ، پھر ان ازواج کے درمیان محبت و رحمت و مودت کا پیدا کرنا بطور ایک نشانی کے بیان کیا گیا ہے۔ کل تک دوافراد جو بالکل اجنبی تھے دُور دراز علاقوں میں رہتے تھے، جب ایک مرتبہ رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوجاتے ہیں تو اللہ اپنی رحمت سے انھیں ایک دوسرے سے ایک ناقابلِ بیان تعلق میں جوڑ دیتا ہے جو جسمانی تعلق سے بہت برتر اور اعلیٰ ہوتا ہے۔ وَ مِنْ اٰیٰتِہٖٓ اَنْ خَلَقَ لَکُمْ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْکُنُوْٓا اِلَیْھَا وَ جَعَلَ بَیْنَکُمْ مَّوَدَّۃً وَّ رَحْمَۃً اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْنَo (الروم ۳۰:۲۱) ’’اور اُس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اُس نے تمھارے لیے تمھاری ہی جنس سے بیویاں بنائیں تاکہ تم اُن کے پاس سکون حاصل کرو اور تمھارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کردی‘‘۔ اسے بیان کرنے کے بعد کہا جاتا ہے: اِنَّ فِی ذٰلِکَ لِاٰیٰتٍ لِقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْنَ پھر دیگر مثالیں دینے کے بعد اسی بات کو ایک دوسرے پیرایے میں بیان کیا جاتا ہے: اِنَّ فِی ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّلْعٰلِمِیْنَ اور لِقَوْمٍ یَّسْمَعُوْنَ اور لِقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ (الروم ۳۰:۲۱-۲۴)
قرآنِ کریم فکر میں حرکت پیدا کرنے کے لیے ہرہرصفحہ پر سماعت، عقل، بصارت، شعور اور تفکر کی طرف متوجہ کرتے ہوئے اہلِ ایمان اور قرآنِ کریم، مطالعہ کرنے والے ہر انسان کو فکری حکمت عملی (methodology) کو اختیار کرنے کی تعلیم دیتا ہے اور اس طرح دین میں غلو، جمود، اندھی تقلید کا دروازہ بند کرنے اور تفکر کے ذریعے اجتہاد یا مسائلِ حیات کے حل کی تعلیم و ترغیب دیتے ہوئے دینِ اسلام کو دیگر مذاہب سے ممتاز و ممیز کرتا ہے۔ مذاہبِ عالم اور خصوصاً عیسائیت میں عقیدہ کی بنیاد ہی ایک ایسے تصور پر ہے جس کی عقلی توجیہہ، تعبیر و تفسیر کا امکان عیسائی ائمہ کے بقول نہیں پایا جاتا چنانچہ حضرت عیسٰی ؑکس طرح بیک وقت انسان بھی ہیں اور الوہیت کا مظہر بھی، اس کی کوئی توجیہہ نہیں کی جاسکتی، جب کہ قرآنِ کریم انسان کی اوّلین تخلیق کی بھی اور جینیاتی عمل کے ذریعے نسلِ انسانی کے فروغ کی بھی توجیہہ کرتا ہے اور غوروفکر کی دعوت دیتا ہے: ھُوَ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُّطْفَۃٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَۃٍ ثُمَّ یُخْرِجُکُمْ طِفْلًا ثُمَّ لِتَبْلُغُوْٓا اَشُدَّکُمْ ثُمَّ لِتَکُوْنُوْا شُیُوخًا وَ مِنْکُمْ مَّنْ یُّتَوَفّٰی مِنْ قَبْلُ وَلِتَبْلُغُوْٓا اَجَلًا مُّسَمًّی وَّلَعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَo (المؤمن ۴۰:۶۷) ’’وہی تو ہے جس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا، پھر نطفے سے، پھر خون کے لوتھڑے سے، پھر وہ تمھیں بچے کی شکل میں نکالتا ہے، پھر تمھیں بڑھاتا ہے تاکہ تم اپنی پوری طاقت کو پہنچ جائو، پھر اور بڑھاتا ہے تاکہ تم بڑھاپے کو پہنچو۔ اور تم میں سے کوئی پہلے ہی واپس بلا لیا جاتا ہے۔ یہ سب کچھ اس لیے کیا جاتا ہے تاکہ تم اپنے مقررہ وقت تک پہنچ جائو، اور اس لیے کہ تم حقیقت کو سمجھو‘‘۔
اس طرح انسان کے اپنے جسم میں موجود آیات ہوں یا کائنات میں پھیلے ہوئے شواہد یا پھر حضرت آدم اور حضرت عیسٰی علیہم السلام کی پیدایش، ہر معاملے میں قرآنِ کریم تفکر و تدبر کی دعوت دیتے ہوئے عقلی دلائل کے ذریعے انسان کے ذہن میں اٹھنے والے سوالات کا جواب فراہم کرتا ہے۔ گویا ایک انسان جس قدر قرآنِ کریم سے قریب آئے گا اور اس کی تعلیمات پر غوروفکر کرنے کے ساتھ شدت سے عمل پیرا ہوگا، اسی قدر اس میں فکر کا مادہ ترقی کرے گا اور وہ اپنی ذات، کائنات اور خالقِ کائنات کے درمیان تعلق کو عقلی بنیادوں پر سمجھنے اور نتیجتاً اپنے معاشی، سیاسی، معاشرتی، ثقافتی معاملات میں اپنے لیے صحیح راستہ اور طریق ِعمل تلاش کرنے میں کامیاب ہوسکے گا۔
فکرِ اسلامی ان ابتدائی معروضات کی روشنی میں ایک ایسا شعوری عمل ہے جو وحیِ الٰہی کی راہ نمائی میں اور اس کی پیروی کرتے ہوئے زندگی کے معاملات پر تحقیقی نگاہ کے ساتھ بصیرت، عبرت اور تعمیر ِحیات کے لیے اختیار کیا جائے۔ یہ محض حواسِ خمسہ پر مبنی تجربی فکر کا نام نہیں ہے بلکہ اُس فکر کا نام ہے جو الہامی ہدایت اور انسانی عقل، وجدان اور تجربے کے عمل اور تعامل (inter-active) سے وجود میں آتی ہے جس میں صحت فکر کی کسوٹی قرآن و سنت ہیں لیکن اس کے ساتھ قرآن وسنت کے احکام، مقاصدِشریعت اور اصولی اور منصوص ہدایات کی روشنی میں حالات، احوال اور انسانی زندگی کے تمام احوال و ظروف کی صورت گری کی کوششوں سے عبارت ہے۔ اس فکر میں تعمیری اور اصلاحی پہلو یک جان اور غالب نظر آتے ہیں۔ یہ نفسِ انسانی ہو، معاشرہ ہو یا معیشت، ہرہرشعبے میں کتاب کائنات اور الکتاب اور صاحب ِکتاب سے بیک وقت اکتساب کرتے ہوئے حیاتِ انسانی کو اس دنیا اور آخرت میں صحیح راستے پر چلانے اور اصل منزلِ مراد تک کامیابی کے ساتھ لے جانے کے عمل کا نام ہے۔ (جاری)
کراچی میں تین ڈاکوئوں کا سرِبازار زد و کوب کرنے کے بعد زندہ نذرِ آتش کردینا ایک ایسا المناک سانحہ ہے جس نے پورے ملک کے اہلِ دانش کے قلب و دماغ کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور بہت واضح طور پر دو نقطۂ نظر سامنے آئے ہیں۔ ملک میں لاقانونیت اور اداروں کی ناکامی کے پیش نظر ایک پڑھالکھا طبقہ یہ راے رکھتا ہے کہ عوام کا خود اپنے ہاتھوں معاملات کا فیصلہ کرنا ہی شاید اس مسئلے کا علاج ہے، اس لیے جو کچھ ہوا وہ قابلِ فہم ہے۔ لیکن ایک دوسرا مکتب ِفکر یہ راے رکھتا ہے کہ اداروں کی ناکامی کے باوجود ایک شہری کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی ملزم یا مجرم کو جان سے مار ڈالے، حتیٰ کہ جلا ڈالے۔ یہ ایک ناجائز اور قابلِ مذمت فعل ہے جس کی روک تھام ازبس ضروری ہے۔ یہ واقعہ ملک کے موجودہ سیاسی، قانونی اور معاشرتی نظام میں نہ صرف ٹوٹ پھوٹ اور زوال کا پتا دیتا ہے، اور اگر بروقت اس ملک کی نوجوان نسل کی صحیح روحانی، سیاسی اور معاشرتی رہنمائی نہ کی گئی تو اس سے زیادہ بھیانک واقعات کا ظہور ہوسکتا ہے۔
اسلام جس عدل کا علَم بردار ہے اس میں قانون اور خصوصاً فوج داری قانون کو ایک فرد کے اپنے ہاتھ میں لینے کی کوئی گنجایش نہیں پائی جاتی۔ دیوانی معاملات ہوں یا فوج داری، جیسے ڈاکا، چوری، قتل، بے حُرمتی یا رہزنی اور ارتداد، ان تمام معاملات میں صرف اور صرف اسلامی ریاست ہی وہ ادارہ ہے جو کسی ملزم یا مجرم کو مناسب تحقیق اور کارروائی کے بعد تعزیر یا سزا دے سکتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ مختلف علاقائی اور قبائلی روایات اور دیگر مذاہب اور تہذیبوں سے ربط کے نتیجے میں بعض ایسے طریقے ہمارے معاشرے میں رائج ہوگئے جو نہ اسلامی نقطۂ نظر سے اور نہ انسانی حقوق کے عمومی اصولوں سے مناسبت رکھتے ہیں، مثلاً غیرت کے نام پر قتل یا خون کا بدلہ چکانے کے لیے کم عمر لڑکیوں کو نکاح میں دے دینا۔
یہ صحیح ہے کہ اسلامی شریعت صرف قانون کے ذمہ داروں کو یہ اختیار دیتی ہے کہ وہ تنازعات کا فیصلہ کریں اور جرم ثابت ہونے پر کسی شخص کو سزا دیں جو جرم کی نوعیت اور انصاف کے تقاضوں کے مطابق ہو، لیکن بات محض اصول کی نہیں ہے۔ یہ مسئلہ گہرے اثرات کا حامل ہے اور جب تک اس طرح کے قابلِ مذمت واقعے کے اسباب پر غور نہ کیا جائے اصولی بات کافی نہ ہوگی۔
اس المناک واقعے سے پہلی بات یہ ثابت ہوتی ہے کہ ملک کی آبادی کا ایک بڑا حصہ پولیس اور عدالت جیسے اداروں پر اعتماد کھو چکا ہے اور اس کا عدمِ اعتماد ایک ایسے مقام تک پہنچ چکا ہے کہ وہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے پر مجبور ہوگیا ہے۔ یہ احساس اور یہ طرزِفکر کسی بھی معاشرے کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے کے مترادف ہے اور فوری توجہ اور تدارک کا مطالبہ کرتا ہے۔
دوسری چیز جو اس اندوہناک حادثے سے سامنے آتی ہے، وہ ہمارے معاشرے میں انسانی جان کی حُرمت، عظمت اور قیمت سے تعلق رکھتی ہے۔ ایک چور، زانی اور راہ زن اپنے انتہائی قابلِ نفرت فعل کے باوجود ایک انسان ہے اور جب تک یہ تحقیق نہ کرلی جائے کہ وہ اس جرم کے ارتکاب پر کیوں مجبور ہوا، اس کی جان کا احترام دین کا مدعا ہے۔ بظاہر یہ معلوم ہوتاہے کہ ہمارے ابلاغِ عامہ کے ذرائع جس طرح اپنے ناظرین کو تشدد، ماردھاڑ اور رشتوں کا احترام نہ کرنے کی تعلیم دیتے ہیں، مثلاً ڈراموں اور ’حقیقت پسندانہ‘ فلموں میں شوہر کا بیوی پر اور بیوی کا شوہر پر تشدد کرنا، نام نہاد ’مردانگی‘ کے نام پر عورت پر ہاتھ اٹھانا اور پنجابی فلموں کے ہیرو کی طرح ہرلمحے ماردھاڑ کرنے کو اپنی برتری سمجھنا۔ اسی طرح مغربی فلمیں حتیٰ کہ ٹی وی پر بچوں کے لیے کارٹونوں میں بھی تشدد،مار دھاڑ اور قتل و غارت کے مناظر اس کثرت سے دکھائے جاتے ہیں کہ اگر ان کے سامنے کسی زندہ انسان کو جلایا بھی جا رہا ہو تو ان کی انسانیت نہ جاگتی ہے اورنہ تکلیف محسوس کرتی ہے۔ یہ بے حسی جس کا اظہار اس واقعے سے ہوا ہے براہِ راست ابلاغِ عامہ کی تجارتی پالیسی کا نتیجہ ہے، اور یہ ظاہر کرتاہے کہ انسانوں کے ضمیر کو بے حس بنانے یا انسانوں میں انسانیت جگانے میں ابلاغِ عامہ (اخبارات، رسائل، ٹی وی، انٹرنیٹ وغیرہ) مثبت اور منفی دونوں کردار ادا کرسکتے ہیں، جب کہ فی الوقت ان سب کا رخ بحیثیت مجموعی منفی اور تباہ کن رجحانات پیدا کرنے کی طرف نظر آتاہے۔
تیسری بات یہ واضح ہوکر سامنے آتی ہے کہ ریاست جب بھی اپنے رفاہی کردار سے مجرمانہ طور پر غافل ہوگی، ملک میں نہ صرف غربت، فاقہ، بدامنی بلکہ قتل و غارت کا دور دورہ ہوگا۔ اسلام نے دورِ جدید میںانسانیت کو جو تحفہ دیا ہے وہ اسلامی ریاست کا ایک فلاحی ریاست ہونا ہے۔ چنانچہ شریعت کی بنیاد پر قائم ہونے والی اسلامی ریاست، وہ ریاست ہے جس میں نہ صرف ایک انسان بلکہ کوئی بھی جان دار خواہ انسان ہو یا حیوان، اگر فاقے سے مرتا ہے تو اس کا خون ریاست کے سر پر ہوتا ہے۔ حضرت عمرؓ کا فرمان اس سلسلے میں ریاست کی ذمہ داری کے اصول کا اثبات کرتا ہے۔ اگر گذشتہ ۶۱ سال میں اس ملک کے بانی اور عوام کی خواہش، وعدے اور تصور کے پیشِ نظر پاکستان میں اسلامی فلاحی ریاست وجود میں آجاتی تو آج فاقے کی بنا پر خودکشی یا انسان سوزی کے یہ اندوہ ناک واقعات پیش نہ آتے۔ انسانوں کو زندہ جلانا نہ اسلام کی روایت ہے اور نہ شریعت کا مدعا۔ اسلام تو یہ بھی پسند نہیں کرتا کہ قحط کے زمانے میں کسی باغ سے کوئی پھل یا کسی کا غلہ چرا لینے پر چور کا ہاتھ کاٹ دیا جائے۔ حضرت عمرؓ نے قحط سالی کے دوران جس پالیسی پر عمل فرمایا، وہ حقیقت پسندی اور مقاصدِ شریعت کی پاس داری کی روشن مثال ہے۔
اس واقعے کا چوتھا قابلِ غور پہلو یہ ہے کہ ملک میں جو سیاسی نظام رائج رہا ہے وہ بدعنوانی، عدمِ تحفظ اور غربت و امارت کے فاصلوں کو کم یا ختم کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہا ہے۔ اس طرح کے دردناک واقعات اس مجرمانہ غفلت، مفاد پرستی اور عوام کی ضروریات کا احساس نہ ہونے کی بنا پر ہی وجود میں آتے ہیں، اور اگر معاشرے کے ان ناسوروں کو بند نہ کیا جائے تو پھر یہی ناسور معاشرے کا سرطان بن جاتے ہیں۔
کیا مسئلے کا حل قراردادِ مذمت یا حکومت پر ذمہ داری ڈالنے سے ہوسکتا ہے، یا ہر باشعور شہری کو اپنے گریبان میں منہ ڈال کر یہ دیکھنا ہوگا کہ کم سے کم وقت میںکس طرح اس فتنے کا سدّباب کیا جائے؟ اس ضمن میں چار ایسے پہلو ہیں جنھیں ہم نظرانداز نہیں کرسکتے۔
اول: مسئلے کا روحانی اور دینی پہلو یہ مطالبہ کرتا ہے کہ عوام ہوں یا خواص، ہم نے گذشتہ ۶۱سال سے کسی فرد کو اسلام کی عادلانہ، مصلحانہ اور اخلاقی تعلیمات سے نہ آگاہ کیا اور نہ ایسا کرنے کو اچھا سمجھا، بلکہ اسلام سے دُوری اور فاصلے قائم کرنے کو اپنی ترقی پسندی، روشن خیالی اور جدیدیت قراردیا جس کے پھل ہمارے سامنے ہیں۔ اگر اس عرصے میں اس قوم کو انسانی رشتوں کا احترام، جان کی قدروقیمت کا احساس اور حقوق اللہ اور حقوق العباد کا علم ہوتا اور وہ اخلاق جو خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا امتیاز تھے اور جن کی بنا پر قرآن کریم نے کہا تھا کہ ’’آپؐ اخلاق کے اعلیٰ ترین مقام پر فائز ہیں‘‘، ہمارے نوجوانوں کے کردار و شخصیت کا حصہ ہوتے تو آج ملک کی فضا امن، محبت، سلامتی، حق، عدل اوررواداری سے بھری ہوتی۔
دوم: اگر ہم نے اسلامی عدل کو رائج کیا ہوتا اور شریعت کی بنیاد پر عدالتی، سیاسی، معاشی نظام اور تعلیم کو ڈھالا ہوتا تومعاشی تفاوت و تفریق، معاشی طبقاتی نظام، سیاسی انتشار اور اخلاقی زوال سے محفوظ ہوچکے ہوتے۔ آج اس بات کی ضرورت ہے کہ آزاد اور ذمہ دار عدلیہ کو زندہ کیا جائے تاکہ عوام کا اعتماد بحال ہو اور وہ قانونی اداروں کے ذریعے عدل و انصاف کے حصول کی کوشش کریں۔
سوم: فوری طور پر یہ کیا جائے کہ موجودہ حکومت زکوٰۃ کی وہ رقوم جو اس کے پاس امانت ہیں، مستحقین کو ایک شفاف اور ذمہ دار نظام کے تحت فراہم کرے تاکہ فاقہ، غربت اور محرومی کے احساس میں کمی ہو۔ اسلام وہ واحد دین ہے جو معاشرے سے احساسِ محرومی اور معاشی فاصلوں کو کم کرنے کے لیے اپنے نظامِ عبادت میں زکوٰۃ کو دین کا ایک رُکن قرار دیتا ہے تاکہ غربت اور فاقہ کشی کا خاتمہ کیا جاسکے۔ ظاہر ہے کہ ایمان کی تکمیل اسی وقت ہوسکتی ہے جب ارکانِ اسلام کو نہ صرف مانا جائے بلکہ ان پر عمل کیا جائے۔
چہارم: ہمارے ابلاغِ عامہ کا ذمہ دارانہ اور تعمیری کردار بہت اہمیت رکھتا ہے۔ اگر ٹی وی پر قتل و غارت اور فلموں میں انسانی لاشوں کو جلتے ہوئے دکھایا جاتا رہے گا، چاہے وہ ’حقیقت پسندی‘ کے نام پر ہو یا سنسنی پیدا کرنے کے لیے، تو ہم انسانوں کے احساسات کو مُردہ کردیں گے۔ اس لیے ابلاغ عامہ کو اخلاقی ضابطے کی پیروی کرنا ہوگی اور شعوری طور پر اسلامی اقدار اور قرآن وسنت کے مقرر کردہ انسانی حقوق کو ناظرین کے ذہن نشین کرنا ہوگا۔
ایک صحت مند، مثبت اور تعمیری رجحان ہی معاشرے سے نہ صرف ڈاکے اور چوری بلکہ خاندان میں ہونے والے بہت سے مظالم میں کمی کا باعث بن سکتا ہے۔ نتیجتاً معاشرتی اصلاح، انسانیت کے احترام، قانون کے احترام اور معاشی انصاف پر مبنی معاشرہ قائم کیاجاسکتا ہے۔
یہ پہلا موقع ہے جب ڈاکوئوں کو عوامی عدالت میں یوں سزا دی گئی لیکن اس ملک میں جن سیاسی شاطروں نے غیردستوری اور غیرقانونی طور پر صدارت پر ڈاکا ڈالا، جن نام نہاد فرماں روائوں نے ملک کے خزانے کو ذاتی ہوس کی خاطر لوٹا، جن برسرِاقتدار افراد نے اس ملک کی مائوں، بیٹیوں، بہنوں کو ابلاغِ عامہ کے ذریعے بے حیا بنانے میں نام پیدا کیا، یا تعلیم کے ذریعے نوجوان نسل کو اس کی اصل روایات و ثقافت سے دُور کرنے میں قومی وسائل کا بے دریغ استعمال کیا___ یہ اور اس قبیل کے رہزن اپنی سفاکی میں ان ڈاکوئوں سے کم قرار نہیں دیے جاسکتے جو چند سکّے اور زیور لوٹنے کے نتیجے میں اس انجام تک پہنچے۔ مسئلے کا حل تشدد اور جان سوزی نہیں بلکہ زاویۂ نگاہ کی تشکیلِ نو اور اسلام کے رفاہی، عادلانہ اور انسان دوست نظام کا فوری نفاذ ہے۔
۲۰ویں صدی ، مغربی مفکرین کی تحریرات میںعموماً ’سیاسی اسلام‘ کی صدی قرار دی جاتی ہے۔ اسلام نے اس صدی میں مسلم امت کو نہ صرف مغربی سامراج کی غلامی سے نکلنے میں قوت محرکہ فراہم کی، بلکہ دنیا کے نقشے پر اس صدی میں وہ تحریکات اسلامی ابھریں جن کا مشترکہ ہدف اور مقصد ایک صالح اخلاقی معاشرے اور نظام حکم کا قیام تھا۔ ان تحریکات نے روایتی اسلامی تعبیر سے ہٹ کر اپنا رشتہ براہ راست قرآن و سنت سے جوڑتے ہوئے دین کی حرکی تعبیر اپنے ادب ، تنظیم اور نظام تربیت کے ذریعے امت مسلمہ کے سامنے رکھی۔ امت مسلمہ نے جو اپنے سیاسی ، معاشی ، معاشرتی ، نفسیاتی زوال کی چبھن کومحسوس کررہی تھی اور جس کے دیکھتے ہی دیکھتے مغربی سامراج کے زیراثر اس کے اتحاد کی علامتی خلافت کی جگہ مغربی لادینی نظام کو رائج کردیاگیاتھا۔ وہ اُمت جو الجزائر سے انڈونیشیا تک کہیں فرانسیسی ، کہیں پر تگالی،کہیں اطالوی اور کہیں انگریزی سامراج کی غلامی میں جکڑی ہوئی تھی۔ اُمت نے اس صالح مقصد کے حصول کے لیے نئی فکر اور تعبیر پر الجزائر سے انڈونیشیا تک استقبال کیا۔ مختلف ناموں اور عنوانات سے اٹھنے والی اس تحریک نے امت کے سنجیدہ ، تعلیم یافتہ نوجوانوں کو جو امت مسلمہ کے مستقبل کے بارے میں فکر مند تھے، امید کی ایک کرن دکھائی اور یوں لوگ ساتھ آتے گئے اور قافلہ بنتا گیا۔
اس تناظر میںامام البنا نے اپنی تحریک اصلاح کا آغاز کیا۔ ان کی حیات ، تحریک کے تاریخی ارتقا، اشاعت فکر ، اداروں کے قیام ، سیاسی اتار چڑھائو ، مختلف عناصر کے ساتھ اتحاد اور ٹکرائو کو ایک لمحے کے لیے نظر انداز کرتے ہوئے، اس مقالے میں ہمارا مقصد صرف یہ دیکھناہے کہ بعض معروف مغربی مفکرین امام البنا اور ان کی تحریک کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔ ممکنہ اختصار کے ساتھ ہم صرف چند اشارات کی شکل میں اس موضوع سے بحث کریں گے۔
مغربی مفکرین بالعموم ۲۰ویں صدی کی اسلامی تحریکات کو روایت پرست ، رجعت پسند، بنیاد پرست عسکریت پسند ،ملوکیت کی پشت پناہ اور اس سے ملتے جلتے متضاد القاب سے یاد کرتے ہیں۔ عموماً یہ بات بھی کہی جاتی ہے کہ یہ تحریکات ایک تصوراتی اسلام (Utopia)کی طرف دعوت دیتی ہیں، جب کہ زمینی حقائق کو نظر انداز کرجاتی ہیں۔ یہ ایک ایسے ماضی کی طرف پلٹنے کی دعوت دیتی ہیں جو تاریخ کے اور اق میں دفن ہوچکاہے۔ ان پر یہ الزام بھی دھرا جاتا ہے کہ یہ اس بوسیدہ ڈھانچے کو کوہ کنی کرنے کے بعد ایک حیات نو بخشنے کی خواہش میں گرفتار ہیں اور یہ تحریکات تاریخ کی رفتار اور تبدیلیوں سے کوئی آگاہی نہیں رکھتیں۔ ان مفروضات کو کلید تصور کرتے ہوئے یہ نتیجہ نکال لیا جاتا ہے کہ ان تحریکات کی پکار سے صرف وہ لوگ متاثر ہوتے ہیں جو متوسط طبقے کے تعلیم یافتہ، خیالات میں گم رہنے والے اور اپنے مروجہ معاشروں سے عدم اطمینان رکھنے والے افراد ہیں۔اس قسم کے تصورات کی بنا پر اسلامی تحریکات کو بادی النظر میں بآسانی بنیاد پرست اور قدامت پرست یاروایت پسند کا عنوان دے دیا گیا۔
بعض جدید مغربی مفکرین نے ایک قدم آگے بڑھ کر نہ صرف اصلاح اور تبدیلی کی قیادت کے جذبے سے سرشار ان اسلامی تحریکات کو، بلکہ خود اسلام کو امن عالم اور جدید مغربی لادینی سیاست و معیشت پر مبنی نظام کے لیے ایک خطرہ قرار دیتے ہوئے اسلام کے ساتھ کسی مکالمے یا تبادلۂ خیال کے امکان کو ردکرتے ہوئے ٹکرائو اور قوت کے ذریعے زیر کرنے کی تلقین سے بھی گریز نہیں کیا۔ بعض مغربی بنیاد پرست مفکرین مغرب کی عسکری اور معاشی برتری سے سرشار نہ صرف اسلامی احیا کی تحریکات کو بلکہ خود اسلام کو راہ کی رکاوٹ سمجھتے ہوئے اپنا ہدف بنا بیٹھے۔ اس سلسلے میں معروف امریکی ماہر سیاسیات پروفیسر سیمویل پی ہن ٹنگٹن کا صرف ایک جملہ مغرب کی مذہبی بلکہ سیاسی و عسکری قیادت کے حالیہ ذہن کی عکاسی کرنے کے لیے کافی ہے۔ وہ کہتاہے:
The underlying problem for the West is not Islamic Fundamentalism, it is Islam ,a different civilization whose people are convinced of the superiority of their culture and are obsessed with the Inferiority of their power.۱؎
مغرب لیے بنیادی مسئلہ اسلامی بنیاد پرستی نہیں‘ اسلام ہے۔ یہ ایک مختلف تہذیب ہے جس کے ماننے والے اپنی ثقافت کی برتری پر یقین رکھتے ہیں اور اقتدار سے محرومی کا احساس ان پر چھایا ہوا ہے۔
اتنے واشگاف الفاظ میںاسلام کو بجاے خود ایک خطرہ قرار دینا علمی بوکھلاہٹ اور ایک بنیاد پرست ذہن کی عکاسی کرتا ہے۔
ایک ہی تیرسے کئی شکار کرتے ہوئے ایک دوسرے مغربی مصنف جان لافن نے اسلامی تحریکات اصلاح کو ایک جانب مغرب کے لیے خطرہ اور دوسری جانب خودان ممالک کے حکمرانوں اور حکمران طبقوں کے لیے سخت مہلک قرار دیا ہے۔پھر ان کا موازنہ یورپ کی اشتراکی تحریک سے کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا ہے کہ: ان کے ہتھکنڈے بھی وہی ہیں جو اشتراکی تنظیمات کے ہوتے ہیں یعنی یہ پیشہ ورجنونی اور ’روایتی ترقی پسند‘ہیں جو ہر لمحہ حملہ کرنے کی تاک میں صبر و استقامت سے منتظر رہتے ہیں۔ اس کے اپنے الفاظ میں یہ بات یوں کہی گئی ہے :
" The third group of millitant leader, the "traditional progressives", can for the West be the most dangerous of all, though short-term they are even more dangerous to the present political leaders of Arab regimes. Professional zeaolts , these men are more worldly wise than the ayatullahs . They know that their Islamic Ideal can be reached and held ---through political action. They use violance as a deliberate means to a desired end. Their strength is their group discipline and motivation. I have always been struck by the similarity of their orgnization with that of European Communists - the same emphasis on self contained cells the courier contact with other cells, the policy of working and watching while being ready to strike. The most obvions samples are the Muslim Brotherhood in Arab World and Jamaat-e-Islami in Pakistan.۲؎
جنگ جو قائدین کا تیسرا گروہ: ’روایت پسند ترقی پسند‘ مغرب کے لیے سب سے زیادہ خطرناک ہوسکتا ہے‘ اگرچہ مختصر مدت میں وہ عرب حکومتوں کے موجودہ سیاسی قائدین کے لیے اس سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ یہ پیشہ ور انتہا پسند‘ آیت اللہ (ملاؤں) سے زیادہ دنیاوی سمجھ بوجھ رکھتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ ان کا اسلامی نصب العین سیاسی عمل کے ذریعے حاصل کیا جاسکتا ہے اور قائم رکھا جاسکتا ہے۔ وہ مطلوبہ ہدف حاصل کرنے کے لیے تشدد کو سوچے سمجھے ذریعے کے طور پر اختیار کرتے ہیں۔ ان کی طاقت‘ ان کا گروہی نظم و ضبط اور جذبہ ہے۔ مجھے ان کی اور یورپی کمیونسٹوں کی تنظیمی مماثلت ہمیشہ غیرمعمولی محسوس ہوئی: خود مکتفی چھوٹے چھوٹے گروہوں کی وہی اہمیت اور دوسرے گروہوں سے کوریئر کے ذریعے رابطہ، حملے کے لیے تیار رہتے ہوئے دیکھنے اور جائزہ لینے کی حکمت عملی۔ اس کی نمایاں مثال عرب دنیا میں اخوان المسلمون اور پاکستان میں جماعت اسلامی ہے۔
اگر اس بیان کا تجزیہ کیا جائے تو چار نکات ابھر کر سامنے آتے ہیں :
امام البنا کی تحریک اشتراکی ماڈل پر ایک شدت پسند عسکری جماعت تھی جو حملہ آور ہو کر ملکی نظام کو درہم برہم کرنے کے لیے ایک ایک لمحہ گن کر گزاررہی تھی۔ ثانیاً مغرب اور مغرب کی حمایت کی بنا پر جو حکمران مسلمان ممالک پر مسلط ہیں، یہ ان کی دشمن تھی۔ ثالثاً اس کا اصل ہدف کسی نہ کسی طرح اقتدار پر قبضہ کرکے اپنی من مانی اسلامی تعبیر کو دوسروں پر زبردستی نافذ کردینا تھا اور رابعاً اس کی اصل قوت اس کے وہ کارکن تھے، جنھیں اشتراکی طرز کے کمیون(commune) یا حلقوں میں تربیت دے کر مذہبی فدائی بنادیا جاتاتھا جو جنون کی حد تک اطاعت امیر پر ایمان رکھتے تھے اور اس بناپر اس دور میں سب سے زیادہ مہلک خطرے اور اسلحے کی حیثیت رکھتے ہیں۔
خرد مندی کے نام پر مذکورہ بالا قیاسات اور مفروضوں کی بنیاد پر کسی تحریک کا تصوراتی خاکہ بنالینا کہاں تک درست ہے اور اس قسم کے جذباتی، غیر حقیقی، متعصبانہ اور رنگ آلود بیانات معروضیت کی کسوٹی پر کہاں تک درست ثابت ہوسکتے ہیں؟ ان سوالات کا جواب بجاے انفرادی قیاس آرائی میں تلاش کرنے کے ،خود ایک تحریک کے دستور اس کے زعما کی تحریرات اور اس کی اعلان کردہ حکمت عملی میں تلاش کیے جائیں تو شاید ایسی تحریکات کے ساتھ زیادہ انصاف کیاجاسکے۔ یہ بات دکھ اور افسوس کے ساتھ کہنی پڑتی ہے کہ مغرب کے اکثر مصنف اپنے طولانی دعوئوں کے باوجود بہت کم معروضیت پر عمل کرتے نظر آتے ہیں۔ ان کے اکثر مفروضات ثانوی ذرائع معلومات اور پہلے سے مرتب کردہ احساسات پر تعمیر ہوتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود بعض ایسے مغربی مفکرین بھی ہیںجو ان تحریکات اصلاح اور ان کے قائدین کے حوالے سے راے رکھنے میں جادۂ اعتدال سے قریب تر رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔
مثلاً معروف کناڈین محقق اور میکیگل کے ادارہ تحقیقات اسلامی کے بانی، ڈائرکٹر پروفیسر ولفرڈکینٹ ول اسمتھ جنھوں نے کچھ عرصہ لاہور کے فورمین کرسچن کالج اورمسلم یونی ورسٹی علی گڑھ میں تدریس کے فرائض بھی انجام دیے،جو عربی اردو اوردیگر اسلامی زبانوں سے واقفیت رکھتے تھے،وہ اخوان المسلمون پر لگائے گئے ایک فکری الزام کی تردیدان الفاظ میں کرتے ہیں:
"To regard the Ikhwan as purely reactionary would , in our judgement be false. For there is at work in it also a praise worthy constructive endeavour to build a modern society on the basis of justice and humanity, as an extrapolation from the best Values that have been experienced in the tradition from the past.۳؎
اخوان کو صرف رجعتی قرار دینا ہماری راے میں غلط ہوگا۔ اس کے اندر عدل و انسانیت اور ماضی کی روایات سے تجربے کی بنیاد پر حاصل کردہ سنہری اقدار کی بنیاد پر ایک جدید معاشرے کے قیام کے لیے ایک قابلِ تعریف تعمیری کوشش بھی بروے کار ہے۔
اسمتھ کے اس معتدل بیان سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اخوان المسلمون‘ امام البنا اور اسی طرح سید مودودی کا دورِحاضر میں ایک عادلانہ اسلامی سیاسی نظام اور معاشرے کے قیام کی کوشش کو رجعتی تحریک کہنا ان تحریکات کے ساتھ ظلم ہے۔ ایک جانب اس فکر کے حامل مغربی مفکر نظر آتے ہیں تو دوسری جانب ایسے مفکرین کی ایک بڑی تعداد ہے جوالبنا اور ان کی تحریک کو بنیاد پرست قرار دینے پر اصرار کرتے ہیں۔
یہ بات کہ امام البناعسکریت پسند جنگ جو تھے اور انھوں نے اپنی تحریک کو ایک تشدد پسند جماعت بناناچاہا، یا وہ شمشیر بے نیام کے ذریعے نظام عدل و امن کو قائم کرنا چاہتے تھے، مغربی مصنفین کا ایک پسندیدہ موضوع ہے اور امام البنا ، اخوان المسلمون اور اسی رو میں جماعت اسلامی پاکستان اور دیگر دستوری اصلاحی اسلامی تحریکات کو لپیٹتے ہوئے یہ حضرات اکثر ان تحریکات کی ’جنگ جویانہ ‘ صلاحیت پر اتنے مختلف بلکہ متضاد زاویوں سے روشنی ڈالتے ہیں کہ ان تحریکات کے اصل خدوخال اردگرد کے گردآلود ماحول میںدھندلاجاتے ہیں اور کبھی ابھر کر سامنے نہیں آنے پاتے۔
"This is the movement which , in one form or another, has been the most prominent-fundamentalist current in sunni Islam since its Inciption in 1928. He launched the Brotherhood as movement for education and reform of hearts and minds.۴؎
یہ وہ تحریک ہے جو ایک یا دوسری حیثیت میں‘ ۱۹۲۸ء میں اپنے آغاز کے بعد سے سنّی اسلام کی سب سے نمایاں بنیاد پرست لہر رہی ہے۔ انھوں [امام البنا] نے اخوان کو دل و دماغ کی اصلاح و تعلیم کے لیے تحریک کی حیثیت سے شروع کیا۔
امام البنا اور اخوان پر ’بنیاد پرست‘ ہونے کا خیالی الزام اتنی بار دہرایا گیا ہے کہ غیر شعوری طور پر بعض اخوانی بھی خود کو بنیاد پر ست سمجھنے پر مجبور دکھائی دیتے ہیں۔
بنیاد پرستی کے الزام کے ساتھ ہی بار بار یہ بات بھی دہرائی جاتی ہے کہ امام البنا اور تحریک اخوان المسلمون گردش ایام کو پیچھے کی طرف دھکیل کر انسانیت اور مسلم دنیاکو ایک ایسے دور کی طرف لے جانا چاہتی ہے جو ماضی کا ایک ورق بن چکاہے اور جو ۲۱ویں صدی کی ٹیکنالوجی ،مادی ترقی اور علوم میں نئی ایجادات سے کوئی مطابقت نہیں رکھتا۔ اس لیے یہ دعوت ،ترقی کی جگہ علمی ، فکری اور مادی زوال کی دعوت ہے اور اس بنا پر ’روشن خیال ‘دنیا کے لیے ایک شدید خطرے کی حیثیت رکھتی ہے۔
The Muslim Brothers world view was articulated in conservative Islamic terms calling for the restorating an Ideal society of the distant past.۵؎
اخوان المسلمون کا تصور جہاں (ورلڈ ویو) قدامت پسند اسلامی اصلاحات میں بیان کیا گیا تھا جس میں ماضی بعید کے مثالی معاشرے کو بحال کرنے کی دعوت دی گئی تھی۔
جن محققین نے براہ راست امام البنا کے خطبات اور تحریرات کا مطالعہ کیا ہے ،وہ یہ ماننے پر مجبور ہوئے ہیں کہ گو درمیانی دور میں اخوان کے بعض اقدامات عسکری نوعیت کے تھے، لیکن مجموعی طور پر نفوس کا تزکیہ و اصلاح ہی دعوت کا مرکزی نکتہ رہا۔ چنانچہ ایک مفصل تجزیاتی تحریر میں پروفیسر جان ایل اسپوزیٹونے اخوان کی دعوت کے اس پہلو کو اجاگر کیا ہے۔۶؎
امام البنا کی شخصیت کا ارتقا اور ان کا تصوف سے نہ صرف متاثر ہونا بلکہ اس کو عملاً اس حدتک اختیار کرنا کہ ان کی تعلیمات اور نظام تربیت میں ایک بڑا حصہ قرآن کریم کی تلاوت ، اذکار و اوراد اور قیام الیل کے ذریعے نفوس کی اصلاح سے تعلق رکھتاہے، ان کی شخصیت اور طرز عمل ہرزاویے سے ایک روحانی پیشوا سے ملتا ہوا نظرآتاہے۔اس غالب پہلو کے باوجود ان کی دعوت کا ایک جزوی نکتہ جس سے وہ خود بہت زیادہ مطمئن نہ تھے‘ اور ان کی عسکریت ہی اکثر مغربی مفکرین کی توجہ کا مرکز بنی ہے۔
امام البنا کی شخصیت اور جماعت اخوان المسلمون پر غیر مسلم محققین کی تحریرات میں نمایاں ترین اور اولین مصاد ر پر مبنی ایک تحقیقی کتاب جس کا مصنف ایک عرصے تک مصر میں امریکی خفیہ ادارے کے رکن کی حیثیت سے متعین رہا ،باربار اس بات کا تذکرہ کرتاہے کہ :
"The two continous Influnces in history so far had been classical Islamic learning and emotional discipline of sufism.۷؎
تاریخ پر کلاسیکل اسلامی علوم اور تصوف کے جذباتی پہلو دونوں کے اثرات مسلسل رہے۔
امام البنا کے رسائل مدلل طور پر تزکیۂ نفس ،تزکیۂ خاندان اور تزکیۂ معاشرہ پر متوجہ کرتے ہیں لیکن چونکہ سید ابوالاعلی مودودی کی طرح امام البناکا پہلا دعوتی نکتہ بھی یہی ہے کہ اسلام مکمل جامع اور عملیت پر مبنی نظام حیات ہے۔ اس لیے تصوف کے واضح اور غالب اثرات کے باوجود ان کی تحریک اور شخصیت کو سیاسی حوالے سے زیادہ نمایاں کیا جاتارہا۔ بظاہر اس کاسبب مغربی اور مغرب زدہ اذہان کا ’مذہب ‘ اور ’سیاست ‘ کو دو الگ خانوں میں تقسیم کرناہے،جس کے بعد ’مذہب ‘ سے وابستہ کسی بھی فرد کے سیاسی عمل میں حصہ لینے کو اصول سے انحراف سمجھا جاتا ہے، جب کہ امام البناہوں یا سید مودودی، دونوں کی دعوت کا مقصد روایتی مذہبیت اور روایتی روحانیت سے بغاوت کرتے ہوئے، ایک انقلابی فکر کے ذریعے علامہ محمد اقبال کی طرح ،اسلامی فکر اور معاشرے کی تشکیل جدید کرنا تھا۔مغربی نگارشات میں اس اختیار کردہ جدید (innovative) اور غیر روایتی طرز عمل کو بہ تکرار ’قدامت پرستی ‘ اور ’روایت پرستی ‘کہنا دراصل اصطلاحات کو گڈمڈ کرکے قارئین کی فکر کو پراگندہ کرناہے۔ جس طرح امام ابن تیمیہ نے اپنے دور کی روایت پرستی کو رد کرتے ہوئے یہ اعلان کیا تھا کہ وہ نہ صرف مختلف تعبیراتِ فقہ حتیٰ کہ صحابہ کرام کے اجماع کو بھی وہ مقام نہیں دے سکتے جومقام اتباع قرآن و سنت کا ہے۔ چنانچہ انھوں نے فقہ کے تخلیقی عمل کو اجماعِ صحابہ کا پابند بھی کرنا پسند نہیں کیا۔ یہ طرزِفکر ہرزاویۂ نظر سے انقلابی‘ اجتہادی تھا اور روایت پرستی کے رد پر مبنی تھا، لیکن بہت سے حضرات نے اسے ’سلطنت‘ کا عنوان دے کر بزرگوں کی اطاعت کہنا شروع کردیا۔ بالکل اسی طرح امام البنا نے سلف صالح سے پوری عقیدت کے باوجود دور جدید کے معاملات میں اجتہاد پر زور دیا۔ مولانا مودودی کا بھی یہی جرم روایت پرست فقہا اور قدامت پسند صوفیا کے نزدیک ناقابل معافی فعل تھا کہ وہ معاشی ، سیاسی ، معاشرتی ، ثقافتی اور قانونی معاملات میں براہِ راست قرآن وسنت کی روشنی میں جدید حل تلاش کرکے ایک اسلامی ریاست اور معاشرے کی تشکیل چاہتے تھے۔
امام البنا اور سید مودودی کا حالات کا تجزیہ اور معاشرتی ، معاشی ، ثقافتی اور سیاسی مسائل کا قرآن و سنت کی روشنی میں حل تلا ش کرنا نہ صرف روایت پرست فقہا اور قدامت پرست صوفیا بلکہ جدیدیت کے علم بردار مغربی مفکرین کے لیے بھی قابل قبول نظر نہیں آتا۔ اسی لیے قرآن و سنت کی طرف رجوع کرنے کو، نامعلوم خدشات اور وجوہ کی بنیاد پر یکایک بنیاد پرستی کی دعوت کا عنوان دے دیا جاتاہے:
"Thus Banna's reaction to the crisis milieu was to advocate a return to the basis of Islam the call to fundamentlism.Banna's da'wah was a direct descendent of earlier revival movements.۸؎
بحرانی حالات میں حسن البنا کا ردعمل اسلام کی اصل کی طرف رجوع کی وکالت تھا، یعنی بنیاد پرستی کی طرف دعوت۔ حسن البنا کی دعوت ماقبل احیائی تحریکوں کا راست ورثہ تھی۔
بنیاد پرستی اپنے اصطلاحی یورپی پس منظر میں مغربی لادینی تہذیب کے لیے ایک خطرے کی حیثیت رکھتی ہے۔ بنیاد پرستی کی اصطلاح کا تعلق اسلام سے ہو یا عیسائیت سے، ہر شکل میں یورپی ذہن اس کے ساتھ نباہ کرنے سے اپنے آپ کو قاصر پاتاہے، جب کہ سادہ لوح مسلمان مفکرین بنیاد پرستی کے لفظی مفہوم یعنی دین کی بنیاد ی تعلیمات پر عمل کرنے کو اس کا صحیح مفہوم سمجھتے ہوئے یورپی ذہن کی اس نفسیاتی بیماری کا صحیح طور پر ادرا ک نہیں کرپاتے، بلکہ بعض اوقات فخر سے کہتے ہیں کہ ’’الحمد للہ ارکان اسلام پر عمل کرتے ہیں اس لیے بنیاد پرست ہیں ‘‘۔ مفاہیم کا یہ غلط اختلاط ایک بڑی فکری رکاوٹ بن کر مغرب کو ایسے نتائج اخذ کرنے پر آمادہ کردیتاہے جن کا حقیقتِ واقعہ سے کوئی تعلق نہیں پایا جاتا اور سادہ لوح مسلم مفکرین بھی مغربی فکر کی بعض فنی اصطلاحات سے کماحقہٗ واقفیت نہ ہونے کے سبب اس مسئلے کو سلجھانے میں کوئی پیش رفت نہیں کرپاتے۔
امام البنا جس تصوف کے قائل ہیں وہ قوم کو جگانے والا، تزکیۂ نفوس کے ذریعے معاشرتی عدل قائم کرنے والا اور مظلوم کو ظلم سے نجات دلانے کے لیے جہاد پر آمادہ کرنے والا عمل ہے۔ اسی بنا پر ان کے حلقہ ہاے ذکر قائم کرنے اور اخوان کوالماثورات کا اہتمام کرنے کی ہدایت کے باوجود ان کی جو تصویر کشی مغربی مفکرین کرتے ہیں وہ نہ صرف مبالغہ آمیز بلکہ گمراہ کن حد تک غلط ہے۔ دو معروف تصنیفات ہماری راے کی توثیق کرتی ہیں۔ایک،اسحاق موسیٰ الحسینی کی تصنیف‘ جو اخوان المسلمون کی تحریک پر سند کا درجہ رکھتی ہیں۔ ۹؎ دوسرے ،استاذ سعید حویٰ کی تصنیف الاخوان المسلمونبھی اس پہلو پر مستند اور براہ راست معلومات فراہم کرتی ہے۔۱۰؎
بنیادی طور پر مغربی مصنفین گھوم پھر کر جس پہلو کو اجاگر کرتے ہیں، اس کا تعلق یورپ کی تاریخ کے بعض اہم ادوار سے ہے۔ ان کے خیال میں یورپ کی معاشی ، علمی ،اور سیاسی ترقی و استحکام کا تعلق براہ راست مذہب کو پس پشت ڈال کر زندگی کے معاملات میں مادی اور ٹکنالوجیکل ترقی کو رہنما بنانے سے ہے۔ اس لیے اسلامی تحریکات کا احیاے دین کی دعوت دینا ان اہلِ مغرب کے نزدیک تاریک ماضی کی طرف لوٹنے کے مترادف ہے اور اسی بنا پر وہ ان تحریکات کو بنیاد پرست قرار دیتے ہیں۔ امام البنا نے اپنے رسائل میں یہ بات وضاحت سے بیان کی ہے کہ ان کا تصور دین ، روایتی مذہبیت اور روایتی روحانیت دونوںسے مختلف ہے۔ وہ سید مودودی کی طرح دین کی شامل و کامل تعریف کرتے ہیں اور مذہب کو محض عبادت اور رسومات تک محدودتصور نہیںکرتے۔
اس پہلو سے دیکھا جائے تو دونوں تحریکات میں غیر معمولی فکری قربت کے باوجود انتظامی اور حکمت عملی کے بعض امور میں جزوی اختلاف پایا جاتاہے۔ جو چیز دونوں تحریکات کا امتیاز کہی جاسکتی ہے وہ دونوں کے قائدین میں غیر معمولی قوت کار اور شخصیت کی جاذبیت ہے ،جس کی بنا پر البنا ہزار ہا ارکان کے لیے ایک مرشد اور رہنما کی حیثیت اختیار کرگئے۔ بعض مغربی مصنفین بھی اس راز سے واقف نظر آتے ہیں اوربرطانوی مستشرق بشپ کینتھ کریگ اس طرف اشارہ کرتا ہے:
" The secret of its success lay in the force and dedication of its Ideas and in the extraordinary energy almost in its quality of al-Banna himself.He combined the meticulousness of a watch maker with the drives of a prophet.۱۱؎
اس کی کامیابی کا راز اس کے نظریات کی طاقت اور خلوص اور حسن البنا کی طرح کی غیرمعمولی توانائی تھا۔ ان میں ایک گھڑی ساز کی باریک بینی اور ایک نبی کی قائدانہ قوتوں کا امتزاج تھا۔
اگر غور کیا جائے تو ان دوصفات سے متصف شخص کو’جنگ جو‘یا شدت پسند کہنا ایک منطقی تضاد ہی کہا جاسکتاہے۔ لیکن امام البنا کی دعوت وشخصیت سے واقفیت کے باوجود تان آکر ٹوٹتی اسی بات پر ہے کہ البنا دور جدید میں پائی جانے والی تشدد پسند تحاریک کے محرک تھے۔ امام البنا کا معاشرتی اصلاح کا تصور خود بعض مغربی مستشرقین کی زبان میں کچھ یوں نظر آتاہے کہ امام البنا کی دعوت کا پہلانکتہ یہ تھا کہ قرآن کی جدید تعبیر کی ضرورت ہے اور سائنسی حقائق کے علم کے ساتھ قرآن کے مفہوم کو بیان کیا جانا چاہیے۔ثانیاً، مغربی سامراج سے نجات کی خواہش کا یہ مطلب نہیں کہ مغربی ایجادات اور تحقیقات سے استفادہ نہ کیا جائے۔ ثالثاً، سرمایہ دارانہ اور اشتراکیت پر مبنی معاشی نظام سے نکل کر ایک سرمایہ کار (enterprenuer) کو یہ حق ہونا چاہیے کہ وہ وسائل تک دسترس حاصل کرے اور معاشی میدان میں اپنا کردار ادا کرسکے۔ رابعاً ،امت کے اندر مسلکی اختلافات سے بلند ہو کر صرف قرآن و سنت کی بنیاد پر یک جہتی کا قیام عمل میں لایا جائے،خامساً، اسلامی معاشرے کو خودکفیل بنانا تاکہ وہ فطری انداز میں ترقی کرلے۔سادساً ،قومی افق پر اعتماد اور قومی صفات کا پیدا کرنا، تاکہ سامراجی دورکے منفی اثرات سے نجات حاصل کی جاسکے۔ ۱۲؎
البنا کی دعوت کو سمجھنے اور اتنے اچھے انداز میں بیان کردینے کے بعد بھی اگر یہی مغربی مصنفین یہ نتیجہ نکال بیٹھیں کہ البنا ایک ’جنگ جو‘،’تشدد پسند‘ رہنما تھے تو یہی کہا جاسکتاہے کہ
خرد کا نام جنوں رکھ دیا جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
یعنی مستشرقین نے البنا کی شخصیت کے حوالے سے ایسے الفاظ استعمال کیے ہیں جو تعریفی بھی ہیں اور ان کی من مانی تعبیر بھی کی جاسکتی ہے ،مثال کے طور پر:
"Hassan al-Banna, more than any Individual, can be considerd the atvair of the twentieth Century Sunni revivalism. He was the unique embodiment of the Sufi spiritualist, Islamic scholar and activist leader who possessed a rare ability to evoke masses., support by translating doctrinal complexities into social action.۱۳؎
کسی بھی فرد سے زیادہ‘ حسن البنا کو ۲۰ویں صدی کے سنّی اسلام کے احیا کا روح رواں قرار دیا جاسکتا ہے۔ وہ صوفی روحانی شیخ، مفکر اسلام ، اور سرگرم قائد کا منفرد اظہار تھے جو عوام کو اُبھارنے اور عقیدے کی پیچیدگیوںکو عوامی اقدامات میں تبدیل کرنے کا شاذ ملکہ رکھتے تھے۔
امام البنا کی ان قائدانہ روحانی صفات کی بنا پر اسی مصنف کا یہ تبصرہ ہے کہ مشہور مغربی ماہر نفسیات ارکسن (Ereckson)نے ایک متاثر کرنے والے قائد کی جو صفات بتائی ہیں وہ سب امام البنا میں بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں۔
امام البنا نے جس تدریجی حکمت عملی سے اپنی دعوت کا آغاز کیا اور ایک وسیع تر حلقہ کو براہِ راست مخاطب کیا، وہ انبیا کے طریقِدعوت کے عین مطابق نظر آتاہے۔ البنا نے نہ صرف عوام الناس ، وکلا ، انجینیروں ، اطبا ،تاجروں بلکہ خود فرماںروائوں کو دعوتی خطوط کے ذریعے اپنی جماعت میںشمولیت کی دعوت دی بلکہ ایک مرحلے میں فوج کے نوجوان افسران میں دعوت کی مقبولیت اس حد تک پہنچی کہ ۱۹۵۲ء میں فوجی انقلاب میں اخوان کی حیثیت ایک شریک کار کی قرار پائی۔
اگر تقابلی نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو یہ حکمت عملی سید مودودی کی تجویز کردہ حکمت عملی سے کچھ مختلف نظر آتی ہے۔ سید مودودی ایک نظریاتی جماعت اور برسراقتدار گروہ میں ایک فاصلے کے قائل نظر آتے ہیں اور وقت کی قید سے آزاد ہو کر ایک طویل فریم ورک میں فرد ، خاندان، معاشرے اور ریاست میں تبدیلی و اصلاح کے حوالے سے بے انتہا پرامید نظر آتے ہیں، جب کہ،حسن البنا نے اس اصولی موقف کے ساتھ زمینی حقائق کو اہمیت دیتے ہوئے تبدیلی قیادت کے عمل کے جلد واقع ہونے کے لیے بعض مفاہمتی اقدامات کو اختیار کرنے میں کوئی تکلف محسوس نہیں کیا۔
اس کے باوجودرچرڈ پی مچل کا خیال ہے کہ،اگرچہ البنا نے اسلامی معاشرے کے ساتھ اسلامی ریاست کے قیام پر یکساں زور دیا ،لیکن وہ اسلامی ریاست سے کیامراد لیتے تھے ، اس میں نظمِ حکومت کس قسم کا ہوگا، اس کے اندرونی اور بیرونی تعلقات کس نوعیت کے ہوں گے؟ کیامغربی سیکولر جمہوریت کے بعض عناصر جوں کے توں اسلامی ریاست میں شامل کرلیے جائیں گے۔؟ غرض اس نوعیت کے سوالات جو تفصیل طلب ہیں، ان کے بارے میں امام البنا نے کسی متعین راے کا اظہار نہیں کیا۔ اس کے مقابلے میں سید مودودی نے اسلامی ریاست کے حوالے سے ایک جامع اصولی اور عملی نقشہ مرتب کیا ،اور دستوری اور انتظامی حیثیت سے جو تبدیلیاں لانی ضروری تھیں ان پر قلم اٹھایا۔۱۴؎
حسن البنا کو حالات کا پورا علم تھا اور اپنی قوت کا اندازہ بھی تھا۔ اس بنا پر انھوں نے حالات کو تبدیل کرنے میں جلدبازی کی جگہ ایسی حکمت عملی اختیار کرنا چاہی جو دوررس نتائج پیدا کرسکے۔ اس میں وہ کہاں تک کامیاب ہوسکے یہ ایک مختلف فیہ مسئلہ ہے۔ لیکن یہ بات شواہد کی بنا پر کہی جاسکتی ہے کہ یہ تدریجی حکمت عملی ایک وسیع تر وقت کے فریم ورک سے وابستہ تھی۔۱۵؎
مچل کی اس راے سے ہمیں واضح اختلاف ہے کہ چونکہ بعض سیاسی مسائل پر امام البنا کی راے متعین نہ تھی یہ قیاس کرلیا جائے کہ اسلامی معاشرت اور ریاست کے بارے میں امام البنا کے ذہن میں کوئی نقشۂ کار ہی نہ تھا۔ امام البنا اپنے دور میں حالات کا تجزیہ کرنے کے بعد ایک اصلاحی تحریک کو لے کر اٹھے ،جسے مسلم امت کی سیاسی اور معاشی زبوں حالی کاپورا ادراک تھا۔ اس مناسبت سے علمی حلقوں میں اسلام کے سیاسی نظام کے حوالے سے علی عبدالرازق کی کتاب نظام الحکم فی الاسلام جس میں انھوں نے یہ دعویٰ کیاکہ قرآن و سنت سے کسی واضح اسلامی ریاست کا نقشہ نہیں بن سکتا، زیربحث تھی، جب کہ رشید رضا نے خلافت کے عنوان پر ایک عالمانہ کتاب لکھ کر یہ سمجھانا چاہا کہ کس طرح تاریخ کے حوالے سے اسلامی ریاست کا وجود ممکن ہے۔ اس لیے شیریںہنٹر کا یہ خیال یا لیری پوسٹن کایہ سمجھنا کہ امام البناکے سامنے معاشرے اورر یاست کے حوالے سے کوئی واضح منصوبہ بندی اور نظام کا نقشہ موجود نہ تھا ۱۶؎ ایک گمراہ کن تصور نظر آتاہے۔ یہ الگ بات ہے کہ امام البنا نے اسلامی ریاست کے عنوان سے کوئی کتاب نہ لکھی ہو، لیکن ان کی دعوت کا بنیاد ی ہدف معاشرے کے ساتھ ساتھ ریاست کی اصلاح اور تبدیلیِ قیادت و اقتدار تھا، جو ان کی دیگر تحریروں میں واضح نظر آتاہے۔
امام البنا کی شخصیت ، نظام تربیت اور خصوصاً اذکار اور تزکیۂ نفس پر توجہ پہ غور کیا جائے تو آسانی سے یہ نتیجہ نکالا جاسکتاہے کہ ان کی ابتدائی تربیت اور امام غزالی سے متاثر ہونے کی بنا پر ان کا رجحان تصوف کی طرف رہا، لیکن یہ وہ تصوف نہ تھا جو معاشرتی، معاشی اور سیاسی مسائل کو اہمیت نہ دیتاہو۔ البتہ مغربی مفکرین کو اس میں جو دقت پیش آتی ہے وہ امام البنا کے مائل بہ تصوف ہونے کے باوجود سیاسی زندگی میں فعال ہونا، پھر بذات خود الیکشن میں حصہ لینا اور اپنی دعوت کے نکات میں اس بات کا کھل کر اعتراف کرنا کہ ہم اسلامی ریاست کا قیام چاہتے ہیں۔
یہی وہ پہلو ہے جس کی بنا پر ۲۰ویں صدی کی اسلامی تحریکات کو Political Islamیا سیاسی اسلام ،کا طعنہ دیا جاتا ہے۔یہ کام نہ صرف مغربی مصنفین بلکہ ان سے متاثر بعض معروف مسلم دانش وروں نے بھی کیا، جو اسلام کی محض روایتی مذہبی تعریف پر یقین رکھتے تھے۔ وہ اس پورے عمل کودین کی سیاسی تعبیرقرار دیتے ہیں۔ امام البنا اور ان کی تحریک کے بارے میں یہ خیال درست نظر نہیں آتاکہ وہ دور جدید میں اسلامی ریاست کا واضح تصور نہیں رکھتے تھے۔ ان کی تحریرات سے ثابت ہوتاہے کہ وہ اللہ کی حاکمیت ، شورائیت ، امانت اور صلاحیت کی بنیاد پر قائم ہونے والی ریاست کے قائل تھے۔ اگرامام البنا کو زندگی کی مزید مہلت ملتی تو وہ لازمی طور پر ان اصولوں پر مبنی مفصل خاکہ تیار کرتے۔ اس کے مقابلے میں سید مودودی کو یہ امتیاز حاصل رہا کہ وہ نہ صرف اصولی طور پر بلکہ عملی طور پر، ایک اسلامی ریاست کے خدوخال، اس میں پارلیمنٹ ،عدلیہ اور انتظامیہ کے اختیارات اور اہل کاروں کی خصوصیات کے حوالے سے اپنے خیالات کو تفصیل سے تحریری شکل میں پیش کرسکے۔
امام البنا جس معاشرے اور ریاست کی تعمیر کے لیے کوشاں تھے، اس میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو بنیادی اہمیت حاصل تھی۔ ظاہر ہے یہ کام ریاست کی قوت نافذہ کے بغیر نامکمل رہتا، نہ صرف یہ بلکہ ان کی جانب سے بار بار کھلے الفاظ میں بیرونی سامراج سے نجات کی دعوت میں بھی یہ بات شامل تھی کہ مقامی آمروں ،بادشاہتوں اور موروثی نظام کی جگہ قرآن و سنت کا دیا ہوا نظام نافذ ہونا چاہیے۔
اپنے آخری ایام میں ان کو اس بات کا احساس ہوچلا تھا گو بعض حالات میں عسکری تنظیم کے بغیر مسائل کا حل ممکن نہیں ہوسکتاجس طرح کہ فلسطین میں اخوان المسلمون نے عملاً حصہ لے کر مسجد اقصیٰ کا دفاع کیا ، لیکن اندرونی معاملات میں مسائل کا حل، سیاسی حکمت عملی ، مکالمہ اور مسلسل تعلیم وتربیت ہی سے کیا جاسکتاہے۔
یہ عجب اتفاق ہے کہ امام البنا اور ان کی تحریک کو اپنی دعوت کے اصولوں کے لیے ایک امن پسند ، صلح جو اور داعیِ اصلاح ماننے کے باوجود، صرف جہاد فلسطین میں شرکت اور برطانوی اور اطالوی سامراج کی مخالفت کی بناپر بنیاد پرست اور شدت پسند کہا گیا۔ بالکل اسی طرح پاکستان میں جہاد کشمیر کی حمایت کرنے والی جماعت اسلامی کو بنیاد پرست اور شدت پسند ہونے کا الزام دیا جاتا رہا۔ گو زمینی حقائق اس بات کے گواہ ہیں کہ ان تحریکاتِ اسلامی نے ہمیشہ دستوری ذرائع سے اصلاح حال اور تبدیلیِ اقتدار کی دعوت دی اور اس بنا پر ان تحریکات کا جمہوریت پسندی کا ریکارڈ وقت کی سب سے زیادہ جابر و ظالم ریاست امریکا سے کئی ہزار گنا زیادہ جمہوری اور شفاف ہے۔
امام البنا جس طرح اپنی تعلیمی ، تذکیری اور تربیتی حکمت عملی کے نتیجے میں کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ افراد میں عوام الناس کی سطح پر اپنی دعوت کو پھیلانے میں کامیاب ہوئے ،اس کی کوئی اور مثال ۲۰ویں صدی میں نظر نہیں آتی۔ دیگر تحریکاتِ اسلامی کے لیے یہ ایک لمحہ فکریہ ہے اور ان کی قیادت کو تجزیہ کرنے کے بعد یہ سوچنا چاہیے کہ کیا وجہ ہے کہ نصف صدی سے اوپر کام کرنے کے باوجود عوام میں ان کا وہ نفوذ اس درجے میںکیوںنہ ہوسکا، جو امام البنا نے ۱۹۲۸ء سے ۱۹۴۸ء تک محض ۲۰سال میں حاصل کرلیاتھا اور جب ۱۹۴۹ء میں وہ شہید کیے گئے تو اخوان المسلمون دنیاے اسلام کے نقشے پر ایک بین الاقوامی تحریک بن چکی تھی۔
اگر گذشتہ دو صدیوں میں مغربی مستشرقین اور مغرب زدہ مسلمان دانش وروں کی تحریرات کا جائزہ لیا جائے تو دونوں گروہوں کا اس بات پر اجماع نظر آتا ہے کہ وہ تحریکات اسلامی کی دعوتِ اصلاح اور تبدیلیِ زمام قیادت کو Political Islam اور کسی شدت پسند مذہبی ٹولے کے اقتدار پر قابض ہوجانے یا تھیوکریسی (theocracy) کے غلبے سے تعبیر کرتے رہے ہیں۔ اسی طرح عقیدے کی اصلاح کی ہر تحریک کا رشتہ جزیرہ نماے عرب کے معروف مجدد محمدبن عبدالوہاب کی تحریک سے جوڑ کر اسے وہابی تحریک قرار دیتے رہے ہیں‘ ماضی میں بھی یہ حربہ استعمال ہوتا رہا ہے۔سیداحمدشہید کی تحریک نفاذ شریعت و خلافت کو ہندستانی وہابی تحریک کا خطاب دے دینا۔ دورِجدید میں اس فکر میں ایک جزوی تبدیلی یہ واقع ہوئی کہ ۱۹۴۷ء میں قیامِ پاکستان کے ساتھ ساتھ مسلم دنیا میں بیرونی سامراج سے سیاسی آزادی کے حصول کا ایک سلسلہ شروع ہوا اور پاکستان‘ مصر‘ سوڈان‘ اُردن‘ انڈونیشیا اور ملایشیا میں اُبھرنے والی تحریکات اسلامی نے سیاسی آزادی کے ساتھ فکری‘ ثقافتی‘ معاشی اور قانونی آزادی کے حصول کے لیے نوآزاد ممالک میں نفاذ شریعت اور دستوری اصلاحات کی تحریکات کا آغاز کیا۔ آزادی کا تصور محض بیرونی استعمار سے سیاسی آزادی تک محدود نہ تھا بلکہ اپنے دین اور ثقافت کے مطابق اپنی اجتماعی زندگی کی تشکیل نو کی آزادی اس کا مرکزی نکتہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں نئی مملکت کے قیام میں آنے کے ساتھ ہی اسلامی دستور اور اسلامی نظامِ معیشت و معاشرت کے قیام کی جدوجہد شروع کردی گئی۔ یہ جدوجہد بانیِ پاکستان قائداعظم محمدعلی جناح کے قوم سے کیے گئے وعدے اور ان کے ۵۰ سے اُوپر خطابات میں دہرائے گئے عزم کا ایک منطقی نتیجہ تھی۔ گویا جو کام بانیِ پاکستان اپنی حیات میں پایہ تکمیل کو نہ پہنچا سکے پاکستان میں نفاذ نظامِ اسلامی اور شریعت کے نفاذ کی تحریک اسی مقصد کے حصول کی جدوجہد تھی۔
اسلامی تحریکات کی اس جدوجہد کو مغربی سامراجی ذہن نے جو محض مغرب تک محدود نہ تھا بلکہ خود مسلم ممالک میں برسرِاقتدار طبقے میں بھی‘ جس کی ذہنی تربیت مغربی نظام تعلیم میں ہوئی تھی‘ روایتی تصورِ مذہب کی روشنی میں یہ تصور کرلیا گیا تھا کہ تحریکاتِ اسلامی کے نظام اسلام کے نفاذ کا نتیجہ دور جدید کی ایجادات کو تین طلاقیں دینے کے بعد بجلی اور انجن کی ایجاد سے قبل کے زمانے کی طرف لوٹنا ہوگا۔ ان کے اس خیال کا بظاہر سبب یہ تھا کہ وہ اسلام کو بھی عیسائیت پر قیاس کرتے ہوئے یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ اسلامی نظام کا مطلب ایک مخصوص بنیاد پرست مذہبی ٹولے کی اجارہ داری ہے اور جس طرح یورپ میں کلیسا نے تھیوکریسی کی شکل میں سائنسی تحقیقات اور جدید افکار کا راستہ روکا تھا ایسے ہی ’مذہب‘ کے نام پر جو کام بھی کیا جائے گا اس کا نتیجہ پاکستان ہو یا مصر و سوڈان‘ ترقیِمعکوس کی شکل میں ظاہر ہوگا۔
بعض سادہ لوح افراد نے تحریکات اسلامی کے تبدیلیِ اقتدار اور اصلاحِ نظام کے مقصد کو روایتی مذہبی سوچ کی بنا پر روحانیت کے منافی ایک سیاسی نعرہ سمجھا‘ اور وہ بھی اس غلط فہمی کا شکار ہوگئے کہ اگر بات قلبی جِلا اور تزکیے کی ہو تو یہ چیز اسلام کی روح کے مطابق ہے لیکن اگر الہامی ہدایت‘ دین اور اخلاقی اقدار و احکام کی روشنی میں سیاسی‘ معاشی اور قانونی تبدیلی کی ہو تو پھر یہ سیاست ہے ۔ مزید یہ کہ اگر اسلام کو سیاسی‘ معاشی اور دیگر شعبوں میں نافذ کیا گیا تو مروجہ نظام (status quo) درہم برہم ہوجائے گا اور شاید اس کے نتیجے میں ان کا اقتدار و اثر باقی نہیں رہے گا۔ یہ قیاس کرتے ہوئے انھوں نے یہ زحمت بھی نہ کی کہ تحریکات اسلامی کی دعوت کا براہِ راست مطالعہ و مشاہدہ کرکے مبنی برحقائق راے قائم کرتے۔ یہ حضرات فرد کی ذاتی اصلاح کے توقائل رہے لیکن دین کو ’مذہب‘ سمجھنے کی وجہ سے مذہب کے معاشی‘ معاشرتی اور سیاسی کردار کو ہضم نہ کرسکے اور غلط العام اصطلاح ’بنیاد پرستی‘ یا ’سیاست زدہ دین‘ کا عکس تحریکات اسلامی میں دیکھنے لگے۔
یہ بات بھی دل چسپی سے خالی نہیں کہ تحریکات اسلامی نے کسی لمحے بھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ وہ رجعتی تحریکات ہیں بلکہ روزاوّل سے دعوت و اصلاح کو ایک اجتہادی عمل سمجھا‘ لیکن ان تحریکات کے اپنے بارے میں یہ اعلان کرنے کے باوجود کہ ان کا مقصد تجدید و اصلاح ہے اور وہ جدید علوم و ٹکنالوجی کے حصول کو اسلام کے نفاذ کی مہم کا حصہ سمجھتی ہیں۔ ان تحریکات کے بارے میں یہ بات پھیلا دی گئی کہ یہ قدامت پرست اور محض روایت کی علَم بردار تحریکات ہیں۔
اس کے مقابلے میں یورپ و امریکا کی بعض معروف سیاسی پارٹیوں کے اپنے بارے میں اس اعلان کے باوجود کہ وہ روایت پرست اور رجعتی ہیں انھیں بنیاد پرست قرار نہیں دیا جاتا۔ بڑی واضح مثال امریکا کی جی او پی یا ری پبلکن پارٹی ہے جس کی سربراہ آج کل neo-conservative فرقے کے ’امامِ حاضر‘ بش اصغر ہیں۔ یہ پارٹی اپنی قدامت پرستی کے اعلان کے باوجود آج تک fundamentalist یا extremist یا terroristکے نام سے نہیں پکاری گئی۔ ایسے ہی برطانیہ کی دو بڑی پارٹیوں میں سے ایک قدامت پسند اور دوسری لبرل ہونے کا دعویٰ کرتی ہے اور اسی بناپر ووٹ بنک میں اپنا اثر بڑھاتی ہے لیکن کسی مغربی مفکر نے ان کے لیے fundamentalist کی اصطلاح استعمال نہیں کی۔ پھر کیا وجہ ہے کہ تحریکات اسلامی کے لیے جو اجتہاد کو اپنا منہج قرار دیتی ہیں‘ اس اصطلاح کا استعمال نہایت فیاضی سے اور بے محل کیا جاتا رہا ہے۔
اس سوال کے جواب سے قبل مناسب ہوگا کہ بنیاد پرستی کے مفہوم پر چند لمحات کے لیے غور کرلیا جائے۔
حقیقت واقعہ یہ ہے کہ تحریکات اسلامی جس قرآن و سنت پر مبنی اسلام کی دعوت دیتی ہیں وہ کھلے الفاظ میں غلو‘ روایت پرستی اور آبا پرستی کا رد کرتا ہے۔ روایت پرستی کے بارے میں قرآن کا تبصرہ ہے: ’’ان سے جب کہا جاتا ہے کہ اللہ نے جو احکام نازل کیے ہیں ان کی پیروی کرو تو جواب دیتے ہیں کہ ہم تو اسی طریقے کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے‘‘ (البقرہ ۲:۱۷۰)۔ قرآن کریم ان کے طرزِعمل اور ذہنی ساخت کے بارے میںبتاتا ہے کہ روایت پرستی اور بزرگوں کی اندھی پیروی میں وہ ایسے مقام تک چلے جاتے ہیں کہ ’’یہ لوگ جب کوئی شرم ناک (فحش) کام کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم نے تو اپنے باپ دادا کو اسی طریقے پر پایا ہے (الاعراف ۷:۲۸)۔ (مزید ملاحظہ ہو الزخرف ۴۳:۲۳)
۲۱ویں صدی میں بھی آبا پرستی کی مثالیں روز دیکھنے میں آتی ہیں۔ یورپ اور امریکا میں ہم جنس پرستی کی تحریک حضرت لوطؑ کی قوم سے اپنے فکری اور نسلی رشتہ کو جوڑ کر اپنے شرم ناک عمل کو انسانی حقوق اور آزادی کا نام دیتی ہے اور ہم جنس پرست اپنے عالمی اجتماعات منعقد کرتے ہوئے فخر سے اپنے غیرفطری عمل کو عین مطابق ’اخلاق‘ قرار دیتے ہیں۔ اپنی اصل اور تاریخ سے ناواقف بعض حضرات اس ملک عزیز میں بھی قبل اسلام کی ہندو اور بدھ تہذیبوں سے آبائی رشتہ جوڑنے کو روشن خیالی کا نام دیتے ہیں اور بسنت اور ویلنٹائن ڈے جیسے مشرکانہ تہواروں کو منانے میں بھی تکلف محسوس نہیں کرتے۔
قرآن کریم ہر آباپرستی اور روایت پرستی کو شدت سے رد کرنے کے ساتھ اپنے قاری کو عقل و فہم کی بنیاد پر زندگی کے ہرمعاملے میں اخلاقی فیصلہ کرنے کی دعوت دیتا ہے اور شعورو آگہی کی بنیاد پر نظامِ حیات کو چلانے کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ اسلام کا تصور حلال و حرام ایک اخلاقی‘ شعوری‘ ارادی اور قانونی عمل ہے۔ زندگی کا چھوٹے سے چھوٹا مسئلہ ہو یا اہم ترین ریاستی امور‘ معاشی پالیسی ہو یا ابلاغ عامہ کی حکمت عملی‘ پانی کا ایک گھونٹ کا پینا ہو یا کسی ملک کے ساتھ صلح و جنگ کا معاملہ‘ اس کاحتمی فیصلہ کسی فردِواحد کی عقل پر چھوڑنے کے بجاے قرآن و سنت کے معیار پر اور حلال و حرام کی بنا پر طے کرنا پڑتا ہے۔ یہ اُمت مسلمہ کی سادہ لوحی ہے کہ اس نے حلال و حرام کو ذبیحہ یا طلاق بائن سے وابستہ کر کے حلال و حرام کے دائرے کو اپنی کوتاہ عقلی کی بناپر محدود و مقید کر دیا ہے‘ جب کہ قرآن و سنت نے دین کے حرکی تصور کی بنا پر اور روایت پرستی کا رد کرتے ہوئے تمام معاملات میں انسانی فیصلوں کے لیے قرآن و سنت کے عالم گیر اصولوں کی روشنی میں عقل اور مشاہدے کی بنیاد پر فیصلہ کرنے اور حکمت عملی وضع کرنے کی تعلیم دی ہے۔ تحریکات اسلامی کا یہی امتیاز ہے کہ وہ اپنی حکمت عملی طے کرتے وقت چاہے اس کا تعلق دیگر جماعتوں کے ساتھ سیاسی اتحاد سے ہو‘ کسی خاص معاملے پر تعاون سے متعلق ہو یا کسی مسئلے پر اصولی فیصلہ ہو‘ حلال و حرام کی کسوٹی پر پرکھ کر طے کرتی ہیں کہ ان کا فیصلہ کہاں تک مقاصدِ شریعت کو پورا کرتا ہے اور کہاں تک مصالح عامہ اور سیاستِ شرعیہ سے مطابقت رکھتا ہے۔
تحریکات اسلامی کے اس اجتہادی ذہنی عمل اور حلال و حرام کے حوالے سے وسیع تر تصور سے ناواقفیت‘ اور ایک حد تک خود تحریکات اسلامی کی طرف سے ان کی اس حکمت عملی کی مناسب انداز میں وضاحت نہ کرنے کے سبب مغربی مستشرقین اور ان سے تربیت پانے والے مسلمان یہ فرض کرلیتے ہیں کہ تحریکات اسلامی جو قرآن و سنت کی صداقت‘ کمال اور عملیت پر یقین رکھتی ہیں‘ ان کا ذہنی سفر ساتویں صدی پر آکر رک گیا ہے اور یہ تحریکات تاریخ کی قید میں گرفتار ہیں۔ ظاہر ہے تحریکات اسلامی اور اسلام کے بارے میں اگر بنیادی مفروضہ ہی غلط ہو تو حدآسمان اس پر تعمیر ہونے والا قیاسی محل ٹیڑھا ہی ہوگا اور اس کی کلیں سیدھی کیوں ہوں گی۔ نتیجتاً مغرب اور مغرب زدہ ذہن کے اخذ کردہ نتائج بظاہر مربوط ہونے کے باوجود بنیاد کے غلط ہونے کی بنا پر اسلام اور تحریکات اسلامی کی منفی‘ رجعت پسندانہ اور جامد تصویر پیش کرتے ہیں۔
بنیاد پرستی کی ایک نمایاں پہچان اور صفت اس کا اپنے آپ کو تنقید سے بالاتر ہونا اور ہرمعاملے میں مطلقاً درست ہونے کا احساس ہے۔ اس زاویے سے اگر دیکھا جائے تو مغربی مفکرین جس جدید تثلیث پر غلو کی حدتک ایمان رکھتے ہیں اس کے ارکان خود ان کے بقول انفرادیت‘ لادینیت اور جمہوریت ہیں‘ وہ ان کے مطلق (absolutely) حق ہونے پر نہ صرف خود ایمان رکھتے ہیں بلکہ ہر اس شخص کو جو اس تثلیث سے اختلاف کرتا ہو’کافر‘، ’گردن زدنی‘ اور ایک دوسری دنیا کا باشندہ (alien) سمجھتے ہیں۔ اصطلاحی طور پر اس اندھے ایمان ہی کو مغربی مفکرین اور ماہرین تقابلِ ادیان بنیاد پرستی کہتے ہیں۔ گویا ایک شخص چاہے وہ مصطفی کمال ہو‘ یا مصطفی کمال کی قسم کے افراد کو اپنا ہیرو ماننے والا کوئی فوجی آمر‘ جب وہ یہ کہتا ہے کہ سیکولرزم ہی مسائل کا حل ہے اور صرف اس کے ذریعے ہی مذہبی منافرت اور شدت پسندی کو دُور کیا جاسکتا ہے تو وہ عملاً اور غیرشعوری طور پر سیکولرزم پر اس اندھے عقیدے کی بنا پر اپنے بنیاد پرست ہونے کا اعلان کر رہا ہوتا ہے‘ یا کوئی شخص جب یہ کہتا ہے کہ قرآن و سنت کی تعلیم شدت پسند بناتی ہے‘ اور اس کے مقابلے میں اس کی اپنی ناقص و نامکمل عقل کی تخلیق کردہ روشن خیالی ‘گروہی تعصب‘ تشدد‘ معاشی عدمِ مساوات‘ غیرمنصفانہ عدلیہ اور معاشرتی استحصال اور بدامنی اور عدمِ تحفظ سے نجات دلا سکتی ہے تو وہ اپنے اس بلادلیل دعوے کی بنا پر دن کی روشنی میں اپنے بنیاد پرست ہونے کا ثبوت فراہم کر رہا ہوتا ہے۔ ایسے ہی کوئی یک قطبی قوت جب دنیا پر اپنی اجارہ داری کے دعوے کے ساتھ محض اس اندیشے کی بنا پر کہ کوئی ملک اس پر حملہ آور نہ ہوجائے بغیر اُکسائے اور بغیر کسی جارحانہ اقدام کے اس ملک کا کشتہ بنا دے (اس فلسفے کو جدید اصطلاح میں پیشگی حملے (preventive strike ) کا نام دیا جاتا ہے) تو حقیقی معنوں میں قوت پر اندھا عقیدہ رکھنے کی بناپر اسے صرف بنیادپرست ہی کہا جاسکتا ہے۔اسی بنا پر نصف صدی قبل بعض امریکی مفکرین نے سیکولر قومیت پرستی اور مارکس ازم کو ’نیم مذہب‘ (pseudo religion)کا عنوان دیا تھا۔۱؎ یہ دونوں نظام بنیاد پرستی کی اعلیٰ ترین مثال پیش کرتے ہیں کیونکہ یہ اپنے علاوہ کسی اور کو زندہ رہنے کا حق دینے کے قائل نہیں ہیں‘ کثرتیت (pluralism) کا انکار کرتے ہیں۔
اسلام کا رویہ اس کے برعکس ہے۔قرآن کریم بار بار اسلام کو الدین القیم قرار دینے اور خود اپنے آپ کو کلامِ الٰہی‘ الحق‘ الفرقان ‘البیان کہنے کے باوجود اسلامی معاشرے میں غیرمسلم کو‘ چاہے وہ اہلِ کتاب ہو یا نہ ہو‘ اپنے مذہب‘ ثقافت اور طرزِزندگی میں پوری آزادی اور تحفظ فراہم کرتا ہے۔قرآن بار بار یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اس کی تعلیمات خالق انسانیت کی طرف سے نازل کردہ ہیں لیکن انسان کو اس بات کا بھی پورا حق دیتا ہے کہ وہ ہدایت اختیار کرکے فلاح اور فوز حاصل کرلے یا ضلالت و گمراہی کی تاریکی میں پڑ کر اپنا مستقبل سیاہ کرلے۔ قرآن کریم دوسرے تمام انسانوں کے بارے میں حتیٰ کہ وہ مشرک ہوں تب بھی یہ حکم دیتا ہے کہ انسانوں سے محبت اور ان کی بھلائی کے جذبے کے تحت ایک مشرک کو بھی‘ اگر وہ اسلامی ریاست اور معاشرے سے پناہ طلب کرے‘ تو اسے پناہ دی جائے حتیٰ کہ وہ قرآن کی تعلیمات سے آگاہ ہوجائے۔ اس کے بعد اگر وہ کفروشرک کی ملت میںواپس جانا چاہے تو اسے مسلمان اپنے تحفظ میں اس کی جاے امن تک پہنچائیں!
قرآن کسی مقام پر یہ نہیں کہتا کہ ایک مشرک کو پناہ دے کر اور قرآن سنا کر اگر وہ ایمان لے آئے تو خیر ورنہ گوانتاناموبے کے قیدیوں کی طرح اذیت دے دے کر ہلاک کردو! سورۂ توبہ میں ارشاد ہوتا ہے: ’’اگر مشرکین میں سے کوئی شخص پناہ مانگ کر تمھارے پاس آنا چاہے (تاکہ اللہ کا کلام سنے) تو اسے پناہ دو یہاں تک کہ وہ اللہ کا کلام سن لے۔ پھر اسے اس کے مامن تک پہنچا دو۔ یہ اس لیے کرنا چاہیے کہ یہ لوگ علم نہیں رکھتے‘‘(۹:۶) ۔ قرآن کریم کا مدعا واضح ہے کہ مشرک جو دین کا علم نہیں رکھتا اور اس بنا پر گمراہی میں پڑا ہے‘ اگر قرآن کو سننا چاہتا ہو تو اسے پناہ دے کر موقع فراہم کیا جائے اور اگر پوری کوشش کے باوجود وہ دین اسلام کو قبول نہ کرے تو بلاکسی خطر اور ضرر کے حفظ و امان کے ساتھ اس کے مقام تک اسے پہنچا دیا جائے۔ رواداری‘ مخالف کا احترام اور باوقار طرزعمل کی کوئی اور ایسی مثال ہمیں تاریخ عالم میں کہیں نظر نہیں آتی۔
ایک مشرک یا ظالم کے ساتھ قرآن کریم نے جس رویے کی تعلیم دی ہے وہ یہ ثابت کرتا ہے کہ دین اسلام کے حق اور آخری مکمل نظام ہونے کے باوجود نصوص کی بنیاد پر وہ کثرتیت کا قائل و محرک ہے‘ جب کہ سیکولرزم اور نام نہاد مغربی اباحیت جسے بعض دشمنانِ عقل و دانش’روشن خیالی‘ کہتے ہیں ایک بنیاد پرست ذہن کی غمازی کرتا ہے جو صرف اور صرف اپنی بقا اور دوسروں کی فنا پر اندھا عقیدہ رکھتا ہے۔
یہ تصور کہ قرآن ہر غیرمسلم کے خون کو بہانے کا حکم دیتا ہے اور جہاں کہیں بھی کوئی غیرمسلم مل جائے اسے بلاتردد و تحقیق گولی کا نشانہ بنانے کی ترغیب دیتا ہے‘ نہ قرآن میں پایا جاتا ہے نہ اسلام کی تاریخ میں۔ اس قسم کا خیالی نقشہ ہالی وڈ کے تخلیق کردہ تصور اسلام ہی میں پایا جاتا ہے کہ وہ دارالاسلام ہو یا دارالکفر‘ کسی صاحبِ ایمان کو جہاں کہیں کوئی غیرمسلم ہاتھ لگ جائے وہ اسے مارے بغیر دم نہ لے۔ قرآن کریم توحید کی دعوت اور شرک کی شدت سے رد کے باوجود شرک کو توعقلی دلائل کی بنیاد پر ظلم قرار دیتا ہے لیکن ہرمشرک و کافر کو ایک امکانی (potential) مسلمان قرار دیتے ہوئے عدل و امن کے ساتھ دعوت کا مخاطب تصور کرتا ہے اور لا اکراہ فی الدین کے زریں اصول کے تحت ہرشخص کو عقیدے اور راے کی آزادی کا اختیار دیتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جہاد کے حوالے سے سورۂ الحج میں یہ بات بطور ایک اصول کلید کے بیان کی گئی ہے کہ: ’’اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے دفع نہ کرتارہے تو خانقاہیں اور گرجا اور معبد اور مسجدیں‘ جن میں اللہ کا کثرت سے نام لیا جاتا ہے‘ سب مسمار کر ڈالی جائیں‘‘(الحج ۲۲:۴۰)۔ یہاں قابلِ غور بات یہ ہے کہ آخر قرآن مسجد کے ساتھ ان تین مختلف قسم کی عبادت گاہوں کا ذکر کیوں کر رہا ہے؟ کیا اس کا یہ مطلب نہیں کہ دیگر مذاہب کے مراکز عبادت کی حفاظت اورمذہبی آزادی کا تحفظ کرنا بھی جہاد کے مقاصد میں شامل ہے۔ جو قرآن مذہبی آزادی کا احترام کرتا ہو‘ مشاورت اور اختلاف کے حق کو دین کا بنیادی تصور قرار دیتا ہو‘ وہ کس طرح اپنے قاری کو بنیاد پرست‘ بند ذہن رکھنے والا‘ غلو کرنے والا‘ شدت اختیار کرنے والا بنا سکتا ہے۔ قرآن سے وابستگی اور واقفیت رکھنے والا کوئی شخص نہ تو خود بنیاد پرست ہوسکتا ہے‘ نہ دوسروں کو بنیاد پرستی کی تعلیم دے سکتا ہے۔ ہاں‘ یہ الگ بات ہے کہ جس نے قرآن کو نہ پڑھا ہو‘ نہ سمجھا ہو وہ لاعلمی کی بنا پر غلو اور شدت پسندی اختیار کرلے اور عقیدتاً قرآن کو ماننے کے باوجود اس کی راے میںشدت اور محدودیت پیدا ہوجائے۔ اُمت مسلمہ کو اس مرض سے بچانے کی صرف ایک ہی دوا ہے کہ اس کا تعلق قرآن کریم سے زیادہ سے زیادہ پیدا کیا جائے اور قرآن کریم کی تفہیم کے لیے ہرسطح پر تعلیم کا بندوبست کیا جائے ‘ اسے محض تبرکاً بغیر سمجھے بوجھے پڑھ کر نہ گزرجایا جائے۔ گویا جتنا مسلمان قرآن کو اختیار کریں گے اتنا ہی بنیاد پرستی سے محفوظ رہ سکیں گے۔
اگر ایک وسیع تر تناظر میں دیکھا جائے تو ’بنیاد پرستی‘ کے تصور کو محدود اور روایتی مذہبیت‘ غلو‘ اندھی روایت پرستی اور مذہبی شدت پسندی تک محدود نہیں کیا جاسکتا۔ حقیقتِواقعہ یہ ہے کہ جدید بنیاد پرستی‘ معاشی‘ سیاسی‘ معاشرتی‘ثقافتی اور ابلاغی سطح پر اپنے اثرات کے لحاظ سے نام نہاد مذہبی بنیاد پرستی سے بھی زیادہ خطرناک اور مہلک اثرات کی حامل ہے۔ معاشی میدان میں جدید بنیاد پرستی نے نئی سرمایہ دارانہ فکر کو بڑے جاذب نظر عنوانات کے تحت ابلاغ عامہ کی ماہرانہ حکمت عملی کے ساتھ ذہنوں میں اُتار دیا ہے۔ چنانچہ نیا عالمی نظام یا عالمی نظمِ تجارت کی اصطلاحات سے آج ہر تعلیم یافتہ شخص متعارف ہے۔ اپنے اثرات و نتائج کے لحاظ سے ’نیا عالمی نظام‘ شمال کی معاشی طور پر ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ اقوام کی‘ کم وسائل رکھنے والی جنوبی اقوام پر‘ ایک جدید نوآبادیاتی سامراج کو مسلط کرنے کا دوسرا نام ہے۔ اس کے اعضاے تنفیذی عالمی منظمہ تجارت‘ آئی ایم ایف ہو یا ورلڈبنک‘ سب کا بنیادی مقصد جنوبی اقوام پر جدید سرمایہ دارانہ نظام کا تسلط ہے کیونکہ یہ نظام اپنے آپ کو حتمی (ultimate) نظام قرار دیتا ہے۔ یہ دعویٰ کرتا ہے کہ تاریخ اپنا سفر کرتی ہوئی اُس مقام پر آگئی ہے جہاں پر صرف اور صرف مغربی لادینی جمہوریت اور استحصالی سرمایہ دارانہ نظام واحد فتح مند قوت کے طور پر اُبھرے ہیں۔ اب دیگر اقوام کی بھلائی اسی میں ہے کہ وہ اس کے سامنے سجدہ ریز ہوکر سرمایہ دارانہ مادہ پرستی کے خدا پر ایمان لے آئیں۔ اگر معروضی طور پر مغرب کی خود تجویز کردہ‘ بنیاد پرستی کی تعریف کی روشنی میں دیکھا جائے تو معاشی بنیاد پرستی اور مادی قوت کا فیصلہ کن اور حتمی مقام حاصل کرنے کا دعویٰ جدید بنیاد پرستی کی تعریف پر پورا اُترتا ہے۔
لیکن چونکہ اس معاشی بنیاد پرستی کو عالمی ابلاغ عامہ کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے اور ساتھ ہی ترقی پذیر ممالک‘ بشمول مسلم ممالک کے فرماںروا ٹولے کے‘ جو اپنے وجود کے لیے مغرب کے کھوٹے سکوں کی دوستی پر ناز کرتا ہے اور اپنی بقا کو مغربی شاطروں کی رضا سے وابستہ کرتا ہے‘ اس لیے یہ ٹولہ اس استحصالی نظام کے گُن دن رات گاتا ہے اور آئی ایم ایف‘ ورلڈ بنک کے کسی سودی قرضے کے حصول کو اپنے لیے ’کارنامہ‘ تصور کرتا ہے اور دن بہ دن اس سودی دلدل میں دھنستے چلے جانے کے باوجود قوم کو ترقی کے مصنوعی باغ دکھاتا رہتا ہے۔
عالمی معاشی استحصالی اداروں کے خودساختہ ضوابط اور قوانین وہ عالمی نظم تجارت کی شکل میں ہوں یا آئی ایم ایف اور ورلڈبنک کی پالیسی کی شکل میں‘ اس معاشی بنیاد پرستی کو تحفظات اور ترقی پذیر ممالک کے مفادات کو غیرمحفوظ اور غیریقینی بنانے کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔ لیکن یہ سب کچھ جاننے بلکہ بعض اوقات ان عالمی اداروں میں بطور مزدور کام کرنے کے بعد کسی ملک کے وزیراعظم بن جانے والے افراد بھی مغرب کی اس معاشی بنیاد پرستی پر لب کشائی نہیں کرتے۔ ہاں‘ اگر کہیں ملکیت اور فرقہ واریت کی بنیاد پر کوئی ہنگامہ ہوجائے تو مذہبی بنیاد پرستی پر اُچک اُچک کر باتیں کرنے میں ایک لمحہ کی تاخیر بھی نہیں کرتے۔
یہ معاشی بنیاد پرستی عام تاجر‘ صنعت کار‘ کاشت کار اور محنت کار کو قرضوں کے بوجھ تلے دبانے‘ اس پر معاشی ترقی کا دروازہ بند کرنے اور بڑی مچھلیوں کو بغیر ڈکار لیے چھوٹی مچھلیوں کو نگلنے کے لیے کھلے مواقع فراہم کرتی ہے۔ یہ عالمی مارکیٹ صرف ان اداروں کے لیے معاشی ترقی کے دروازے کھولتی ہے جو جدید معاشی بنیاد پرستی پر اندھا ایمان رکھتے ہوں اور عالمی تجارتی اداروں کے استحصالی مقاصد میں ان کے دست راست بننے پر آمادہ ہیں۔
اگر دیکھا جائے تو عالمی سطح پر نیوورلڈ آرڈر کے نام سے اس معاشی استحصالی اور جدید سرمایہ دارانہ نظام کی کامیابی میں ابلاغی بنیاد پرستی کا بھی برابر کا ہاتھ ہے۔ ۲۱ ویں صدی کو انفارمیشن ٹکنالوجی کی انقلابی صدی کہا جاتا ہے۔ آج مائیکرو سافٹ انٹل کے بغیر کسی بھی معاشی ترقی کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ انفارمیشن ٹکنالوجی یا معلومات کی تخطیط و تحلیل کے ذرائع کو قوت کا اصل سرچشمہ کہا جاتا ہے۔ چنانچہ معروف ہے کہ معلومات ہی قوت و طاقت (power) فراہم کرتی ہیں اور جس کے پاس زیادہ معلومات ہیں وہ زیادہ قوت والا ہے۔ آج معیشت ہو یا سیاست‘ معلومات کی فراہمی اور مناسب استعمال کے بغیر کسی بھی شعبے میں ایک قدم آگے بڑھنا ناممکن ہے۔ معلومات کی صحیح ترتیب و ترجیح و استعمال اور تطبیق ہی ایک قوم کو کامیاب یا پس ماندہ بنا سکتی ہے۔ مائیکروسافٹ کی یہ اجارہ داری معلومات کی شاہ راہوں (highways of information) پر تسلط اور نظربینی فراہم کرتی ہے اور اس طرح صرف وہی معلومات دوسروں تک پہنچتی ہیں جو پہنچانی مقصود ہوں۔ اس معلوماتی بنیاد پرستی نے دنیا کی آبادی کو واقعات و حقائق کو اسی انداز سے دیکھنے پر مجبور کردیا ہے جس طرح ان معلومات کو استعمال (manipulate) کرنے والے ادارے دکھانا چاہتے ہوں۔
مظلوم فلسطینیوں کے گھربار کو تباہ کرنے کو امن عالم کی راہ ہموار کرنے کے ایک اقدام کے طور پر اتنی بار پیش کیا جاتا ہے کہ ہر مظلوم فلسطینی اور ان کا خیرخواہ خود کو مجرم سمجھنے پر مجبور ہوجائے‘ دنیا کے بے شمار مقامات پر ہونے والے تشدد میں سے صرف وہ منتخب شدہ واقعات سرخیاں بنتے ہیں جنھیں کسی طرح الزام مسلمانوں پر ‘ القاعدہ پر یا طالبان پر رکھا جاسکتا ہو۔ امریکی جارحیت کے ہرقدم کو عالمی امن‘ حقوق انسانی کی بحالی اور جمہوریت کے احیا سے وابستہ کردیا جاتا ہے۔ اسی کا نام ابلاغی بنیاد پرستی ہے اور یہ اُس مذہبی بنیاد پرستی سے زیادہ مہلک و خطرناک ہے جس پر صبح و شام پیشہ ور نوحہ گروں کی طرح سینہ کوبی کی جاتی ہے کہ ہاے مذہبی بنیاد پرستی نے فرقہ واریت کو بڑھادیا!
اس بنیاد پرستی سے نجات کیسے حاصل کی جائے؟ یہ ایک اہم سوال ہے اور اس پر ہم کچھ دیر بعدبحث کریں گے لیکن یہاں صرف یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ مذہبی بنیاد پرستی ایک محدود (limited) تصور ہے‘ جب کہ جدید بنیاد پرستی وہ معاشی ہو یا ابلاغی‘ اس کا زہر زیادہ قاتل ہے اور آج دنیا کی بیش تر اقوام مذہبی بنیاد پرستی کے مقابلے میں عالمی یک قطبی نظام کے زیراثر آجانے کی بنا پر معاشی اور ابلاغی بنیادپرستی کی گھائل‘ زخم خوردہ اور اسیر ہیں۔
بعینہٖ یہی شکل سیاسی بنیاد پرستی کی ہے۔ آج مغربی سیکولر جمہوریت کوانسانیت کے بنیادی عقیدے اور ایمان کی حیثیت سے نہ صرف دنیا کے سب سے بڑے جابر و ظالم یک قطبی ملک نے بلکہ مظلوم مسلم ممالک کے زرخرید نام نہاد اور باہر سے مسلط کردہ فرماں روائوں نے بھی وظیفۂ زبان بنا رکھا ہے اور اپنے تمام آمرانہ اقدامات کے باوجود تمام مسائل کے حل کے طور پر سیکولر جمہوریت ہی کی تسبیح پڑھتے ہیں‘ چلّے کاٹتے ہیں اور پھولوں کی چادریں چڑھاتے ہیں! ان کے خطابات کا آغاز ہی اس سے ہوتا ہے کہ ان کی آمریت کے زیرسایہ ممالک میں جمہوریت دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کر رہی ہے۔ ان کے عوام معاشی ترقی کے پھلوں سے مالا مال ہو رہے ہیں۔ ان کے معاشرتی اور سیاسی عدل سے محروم عوام ان کے لیے مساجد میں دعاگو ہیں اور ان کی عطا کردہ جمہوریت میں انھیں ۹ء۹۹ فی صد ووٹ دے کر عوام بے تابانہ طور پر انھیں منتخب کر کے ان کی مدت‘ ظلم واستحصال میں مزید اضافے کے لیے جانیں قربان کرنے پر آمادہ ہیں۔ یہ طلسماتی سیاسی بنیاد پرستی مصر میں ہو یا پاکستان میں‘ زمان و مکان کی قید سے آزاد کھیل اور کھلاڑی میں مشابہت کی مثال پیش کرتی ہے۔ یہ نام نہاد فرماں روا اپنے ملک کے عوام کو مفتوح اور قیدی بناکر اپنی فتح مندی کے پرچم گاڑنے کو جمہوریت کے بت کی سربلندی قرار دیتے ہیں چاہے اس بت کی قربان گاہ پر وہ پوری قوم کو قربان کردیں۔ اس بت کی اندھی پرستش ہی جدید سیاسی بنیاد پرستی کی ایک اعلیٰ اور اکمل ترین شکل ہے۔
معاشرتی نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو مغرب کی انفرادیت پرستی پر اندھے ایمان کا دعویٰ کرنے والے افراد دوسروں پر اپنے تصورِمعاشرہ اور خاندان کو مسلط کرنے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کرتے اور اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے خاندان کے نظام کو پامال اور برباد کرنے کے درپے نظر آتے ہیں۔ ان کی اس معاشرتی جنگ کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ اباحیت کے فروغ کے ذریعے خاندان کے نظام کو تباہ کردیا جائے۔
جدید معاشرتی بنیاد پرستی پر ایمان لانے والے مسلم ممالک کے نام نہاد فرماںروا‘ جو مغرب کے سامنے بالعموم یا عادتاً سربسجود رہتے ہیں‘ یہ چاہتے ہیں کہ خاندان کی وحدت کاتصور پارہ پارہ کردیا جائے۔ نکاح‘ حقوق و فرائض‘ شرم و حیا‘ حلال اور حرام‘ جنسی تعلقات‘ غرض معاشرے کی اخلاقی بنیادوں کی جگہ معاشرے میں مادی بنیادپرستی کو رائج کردیا جائے۔ یہ سرکاری اور قرض پر حاصل کیے ہوئے وسائل کو اس ’نیک مقصد‘ کے لیے نئے نئے عنوانات سے استعمال کرنے میں اپنی ذہانت کا استعمال کرتے ہیں۔ چنانچہ اکبر الٰہ آبادی کے بقول اپنے وقت کے فرعون بن کر بچوں کا قتل ’چالیس پاروں‘ والے نظامِ تعلیم کے ذریعے ان کے کردار اور فکر کو زہرآلود کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی چاہتے ہیں کہ ’ماں کی صحت‘ کے بھلے عنوان کے تحت بچوں کی آمد پر اس لیے پابندی لگادیں کہ ۱۹ویں صدی کے مالتھس کے نظریات پر عمل کرسکیں۔یہ سمجھتے ہیں ہر آنے والا بچہ ان کے ہاتھ کا نوالہ چھین لے گا۔ یہ ’خوش حال گھرانا‘ اور ’محفوط تعلق‘ جیسی اصطلاحات استعمال کرکے آخرکار خاندان کے ادارے کو تحلیل کردینا چاہتے ہیں۔ یہ اس سلسلے میں ادویات اور ’احتیاطی‘ ذرائع کو فروغ دے کر قوم کے ضمیر سے احساس ذمہ داری اور اخلاقی جواب دہی کے تصور کو ایک فرد کی ’انفرادیت‘ کے نام پر ختم کرنے پراندھا ایمان رکھتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ اس اندھے ایمان اور مالتھس کی روایت کی پیروی کا نام ہی بنیاد پرستی ہے۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ تنقیدی اور غیرجانب دار ذہن سے سوچنے کے بجاے ہم صدیوں کی محکومی سے اخذ کردہ غلامانہ ذہن پر بھروساکرتے ہیں جو مغربی تہذیب و ثقافت و اخلاقیات کی اندھی پیروی کو ’روشن خیالی‘ اور’توازن و اعتدال پسندی‘ کہتا ہے اور مغرب کی کاسہ لیسی اور نقالی کو فن کی معراج قرار دیتا ہے۔ یہ غلامانہ ذہن ریاستی وسائل اور بالخصوص ابلاغ عامہ کا بے دریغ استعمال کرکے یہ چاہتا ہے کہ عوام الناس کی سوچ کو بھی غلامانہ اور لذت پرست بنا دے۔ یہ اپنے قومی مفادات کو بھی مغربی آقائوں کی رضامندی کے حصول کے لیے بھینٹ چڑھانے میں شرم محسوس نہیں کرتا۔ اسی غلامانہ طرزِعمل اور اندھی تقلید کا نام حقیقی جدید بنیاد پرستی ہے۔ اس بنیاد پرستی کا اظہار عموماً سیاسی آمروں کی انانیت اور خودرائی پر مبنی فیصلوں سے ہوتا ہے۔ چنانچہ وہ عموماً ’قومی مفاد‘ کا نام لے کر فی الحقیقت اپنے ذاتی مفاد کے لیے ایسی حکمت عملی وضع کرتے ہیں جو ان کے بیرونی آقائوں کو ان کی اطاعت و بندگی کا یقین دلا سکے۔ یہ آمر اپنی ذاتی راے کو اپنے عوام پر مسلط کرنے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کرتے اور عوام پر یہ ظلم کرتے وقت بلندآواز سے جمہوریت کی تسبیح پڑھنے سے بھی نہیں چوکتے۔ ان کا ہر غیرجمہوری عمل سرکاری ابلاغ عامہ میں عوام سے محبت کی بنا پر ایک فلاحی عمل کے عنوان سے پیش کیا جاتا ہے۔ زمینی حقائق کے انکار اور ابلاغ عامہ کی قوت سے جھوٹ کو سچ کہہ کر مسلط کرنا ہی حقیقی ابلاغی بنیاد پرستی کی تعریف میں آتا ہے۔
ابلاغ عامہ خصوصاً کہربائی ذرائع ابلاغ کایک طرفہ استعمال کرتے ہوئے مغربی عریانیت‘ فحاشی اور صنفی بے راہ روی کا پھیلانا ان آمروں کا ایک مشترکہ حربہ ہے۔ اس کا مقصد جہاں عوام کی توجہ کو اصل مسائل سے ہٹاکر فحش و منکرات میں الجھا دینا ہوتا ہے بلکہ لوگوں کے مقصدحیات کو ابلاغی بنیاد پرستی کے ذریعے تبدیل کرنا ہوتا ہے۔
مسئلے کا حل کیا ہو؟ کیا تحریکات اسلامی بھی مغربی لادینی جمہوریت کی تثلیث کے جواب میں جہاں کہیں انھیں موقع ملے اپنے نظریات کودوسروں پر مسلط کردیں یا دعوت و اصلاح کا منہج اس سے کچھ مختلف ہے؟
اگر عریانیت کا ریاستی سرپرستی میں فروغ، ’حقوق نسواں کے نام پر حرام کو حلال قرار دینے کا عمل‘ خاندان کے ادارے کو تباہ کردینے کی حکمت عملی‘ شرم و حیا کا جنازہ نکال دینے کی پالیسی جدید بنیاد پرستی ہے تو اسلامی نظام عوام پر نافذ کردینا بنیاد پرستی کیوں نہیں ہے؟ اگر ایک آمر کا مغربی لادینی جمہوریت کے نام پر فردِ واحد کی آمریت مسلط کرنا بنیاد پرستی ہے تو اسلامی نظام سیاست و معیشت و معاشرت کو کسی ملک میں رائج کرنا بنیاد پرستی کیوں نہیں ہے؟ یہ اور اس نوعیت کے سوالات اٹھائے بغیر ہم مسئلے کا حل تلاش نہیں کرسکتے۔
اسلام دین فطرت اور تشریعی دین ہونے کے سبب چاہتا ہے کہ ایسے سوالات اٹھائے جائیں اور ان پر معروضی اور تنقیدی نقطۂ نظر سے غور کیا جائے۔ وہ بار بار یاد دہانی کرتا ہے کہ فَسْئَلُوْٓا اَھْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ (النحل ۱۶: ۴۳) ’’اہلِ علم سے پوچھ لو اگر تم لوگ خود نہیں جانتے‘‘۔
اسی طرح مشاورت اور راے کے آزادانہ استعمال کے بعد معاملات میں یک سوئی اختیار کرنے کا حکم دیتا ہے۔ وَ شَاوِرْھُمْ فِی الْاَمْرِ فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ (اٰل عمرٰن ۳:۱۵۹) ’’اور دین کے کام میں ان کو بھی شریکِ مشورہ کرو پھر جب تمھارا عزم کسی راے پر مستحکم ہوجائے تو اللہ پر بھروسا کرو‘‘۔
یہ حکم محض عوام الناس کو نہیں بلکہ خود قائد انسانیت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا جاتا ہے کہ وہ بھی معاملات میں مشورہ کریں اور اس کے بعد عزم الامور اور اللہ پر توکل کرتے ہوئے مسائل کا حل کریں۔ اس لیے اس قسم کے سوالات کا اٹھایا جانا اور اٹھنا اسلامی نقطۂ نظر سے مطلوب اور ذہنی صحت کی علامت ہے۔
اختصار کے ساتھ حقیقت واقعہ یہ ہے کہ نہ صرف قرآن و سنت کے زیرسایہ بلکہ اگر انسانی تہذیب و ثقافت کی تاریخ کی روشنی میں دیکھا جائے تو عریانیت کا چھپانا اور اخلاقی رویے کا اختیار کرنا‘ معاملات میں عدل و توازن برتنا انسانیت کی میراث ہے‘ اور جس کا سبب قرآن کریم نے یہ بتایا ہے کہ اللہ رب العزت نے پہلے انسان کو بھی بغیر ہدایت کے نہیں بھیجا‘ اور جب سے انسان کا وجود زمین پر ہے اس وقت سے ایک عالمی اخلاقی ضابطہ تاریخ کے ہردور میں انسانوں پر نازل کیا جاتا رہا جس نے انسانیت کے ذہن کا ایک اجتماعی مزاج بنادیا کہ دنیا میں ہرجگہ حق و باطل میں امتیاز کا ایک مشترکہ جذبہ پیدا ہوسکے۔ چنانچہ قرآن کریم نے دنیا میں انسان کو نیابت و امامت کے فریضے پر مامور کرتے وقت عادلانہ رویہ‘ حق‘ صداقت اور پاک بازی کی تعلیم دی جو نسلاً بعد نسلٍ شعوری طور پر منتقل ہوتی رہی۔ یہی سبب ہے کہ انسان دنیا میں کہیں بھی ہو‘ سچ بولنا ایک اخلاقی قدر ہے اور جھوٹ ایک مردود فعل ہے۔ اسی طرح اسلام انسانوں میں شرم و حیا کو انسانیت اور حیوانیت کے درمیان بنیادی فرق سے تعبیر کرتا ہے۔ وہ اسے انسان کی فطرت میں ودیعت کردہ ایک صفت سے تعبیر کرتا ہے۔ وہ اسے عدل کا تقاضا سمجھتا ہے اور زندگی کے تمام معاملات میں عادلانہ رویہ اختیار کرنے کو ایک شعوری اور اختیاری عمل قرار دے کر انسانوں کو اپنے طرزِعمل کا اخلاقی فیصلے کی روشنی میں تعین کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ وہ جبر اور ظلم کا رد اور حریت و آزادیِ عمل کا علَم بردار بن کر انسانیت کے احیا کی دعوت دیتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ انسانی فطرت سے مطابقت رکھنے کے ساتھ شعوری طور پر آزاد ذہن کے ساتھ ایک اخلاقی اور عادلانہ طرزِعمل اختیار کیا جائے۔ وہ چاہتا ہے کہ کہربائی ابلاغ کے جبرواستحصال سے آزاد ہوکر انسان خود یہ طے کرے کہ اسے حق کو ماننا ہے‘ یا باطل کو‘ اخلاقی رویے کو یا فحش اور منکر پر مبنی فساد و ظلم کے رویے کو۔
تحریکات اسلامی کی دعوت کا بنیادی نکتہ اجتماعی اصلاح ہے۔ اس غرض سے انھوں نے جو حکمت عملی اختیار کی ہے وہ انبیاے کرام کے اسوہ کی روشنی میں ایک دعوتی حکمت عملی ہے‘ یعنی وہ اپنی دعوتِ حق کو انفرادی‘ اجتماعی‘ معاشرتی اور ریاستی‘ ہر ہرسطح پر دلائل و براہین کی بنیاد پر پیش کرتی ہیں اور ایک شخص کو چاہے وہ اپنے وقت کا فرعون یا جارج بش ہو یا اپنے وقت کا سقراط و بقراط ہو مکمل آزادیِ فکر کے ساتھ اسے یہ طے کرنے کا موقع دیتی ہیں کہ وہ فرعون یا باوردی فوجی آمر بننا چاہتا ہے یا عبداً شکوراً۔ وہ اپنے نفس کے شیطان سے نجات چاہتا ہے یا خودساختہ خدائوں کی بندگی کرتے ہوئے غلو‘ معاشی‘ سیاسی‘ معاشرتی اور ابلاغی شدت پسندی اور بنیاد پرستی کو اختیار کرنا چاہتا ہے۔
تحریکات اسلامی ایک تعمیری اور بامعنی مکالمے کے ذریعے‘ جیساکہ حضرت ابراہیم، حضرت موسٰی، حضرت سلیمان اور دیگر انبیا علیہم الصلوات والسلام نے اپنے وقت کے رائج نظاموں اور اصحابِ اقتدار کے ساتھ مکالمہ کیا تھا‘ بالکل اسی روح کے ساتھ عصری تہذیبوں اور افکار کے ساتھ مکالمہ چاہتی ہیں۔ ان کی یہ دعوت ایک غیرمشروط دعوت ہے‘ کھلی دعوت ہے اور شوریٰ کے تصور پر مبنی ہے۔ اس دعوت میں کہیںآس پاس بھی آمریت‘ جبر اور بنیاد پرستی کی خاصیت نہیں پائی جاتی۔
تحریکات اسلامی قرآن و سنت کے تصور شوریٰ کی پابندی کرتے ہوئے اپنے اندرونی اور بیرونی معاملات میں آزادیِ راے کا احترام کرتے ہوئے‘ ادب اختلاف پر عمل اور تنقیدواحتساب کے اصولوں کی پیروی کرتے ہوئے ایک تہذیبی مکالمے کے ذریعے معاملات کے تصفیے کی خواہش رکھتی ہیں۔ ان کی یہی صفت انھیںبنیاد پرستی کے اتہام سے پاک کرنے کے لیے کافی قرار دی جاسکتی ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ تحریکات اسلامی خود اپنی قیادت کو بھی تنقیدواحتساب سے بالاتر نہیں سمجھتیں اور نہ قیادت کے گرد تقدس و کرامت کاہالہ ہی بناتی ہیںکہ ان کی جنبش لب کو حتمی فیصلہ سمجھ لیا جائے اور سجدۂ تعظیمی کے ساتھ ان کی ہر بات کو مان لیا جائے۔ یہاں شخصیت پرستی کے لیے کوئی گنجایش نہیں۔ وہ اطاعت امیر کو اطاعت رب اور اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے مشروط رکھتے ہوئے یقین رکھتی ہیں کہ مطلق اطاعت صرف اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہے‘ جب کہ امیر جس وقت تک اللہ اور رسولؐ کی پیروی کر رہا ہو ‘ اس کی بات سنی اور مانی جائے لیکن اگر وہ اللہ اور رسولؐ سے انحراف کرے تو نہ اطاعت ہے نہ تعاون۔ تحریکات اسلامی کی یہ اصول پرستی اور شخصیت پرستی کو پاش پاش کرنے کی حکمت عملی انھیں بنیاد پرست بننے سے روکنے کا ایک بڑا سبب ہیں۔تحریکات اسلامی کی دعوت سے معمولی سی واقفیت رکھنے والا شخص بھی یہ بات جانتا ہے کہ ان کے اصول اور ان کا نظام اختلاف راے‘ تنقید و احتساب اور مسلسل عملِ مشاورت (interactive discourse) کی بنا پر تقلید‘ اندھی عقیدت (my party right or wrong) جیسے تصورات کو رد کرتی ہیں۔ اسی بنا پر وہ ’حقیقی روشن خیالی‘ کی علَم بردار کہی جاسکتی ہے۔ اس حقیقی روشن خیالی کے خدوخال کیا ہیں۔ یہ ایک مزید قابلِ غور موضوع ہے۔
انتہا پسندی‘ بنیاد پرستی اور دہشت گردی کی اصطلاحات اتنی کثرت کے ساتھ مسلمانوں اور اسلام کے حوالے سے استعمال ہوتی رہی ہیں کہ آج مغرب ہو یا مشرق‘ ان اصطلاحات کو سننے والے کے تصور میں جو خاکہ اُبھرتا ہے وہ یا تو کسی فلسطینی جاں نثار سے ملتا ہوا ہوتا ہے یا کسی افغان مجاہد کی شکل جیسا۔ ان خاکوں میں خدوخال کے لحاظ سے بڑی مماثلت نظر آتی ہے۔ لباس‘ چہرہ‘ داڑھی‘ سر پر رومال‘ کلاشنکوف خود بخود اس خاکے کے ہمراہ چلے آتے ہیں اور سننے والے کے ذہن میں نہ کبھی آئرش ری پبلک میں ہونے والے ۳۰ سالہ مذہبی جنونی دور کی یاد آتی ہے نہ اسپین‘ نکاراگوا‘ سری لنکا وغیرہ کے فدائیان اور خودکش حملہ آوروں کا خیال آتا ہے بلکہ صرف اور صرف جو تصویر ذہن میںاُبھرتی ہے وہ کشمیر یا فلسطین یا عراق و افغانستان کے حریت پسند افراد کی ہوتی ہے۔
اگر غور کیا جائے تو اس مقام تک آنے میں‘ ہمارے ذہنی سفرکو تقریباً دو صدیاں لگی ہیں۔ اس بظاہرطویل عرصے میں اسلام اور مسلمانوں کی ثقافت و دین کو ایک جارحانہ‘ غیرامن پسند‘ non-pacifist‘ خون آشام اور شدت پسند دین کی حیثیت سے پیش کیا گیا اور مسلم دانش وروں کے ایک گروہ نے بالعموم اپنا دفاع کرتے ہوئے معذرت پسندانہ رویے کے ساتھ یہ بات باور کرانا چاہی کہ اسلام جیسا کہ اس اصطلاح کے مادے سے ظاہر ہوتا ہے‘ امن اور سلامتی کا علم بردار ’مذہب‘ ہے جو صرف اور صرف دفاعی مقاصد کے لیے ’جہاد‘ کو جائز قرار دیتا ہے۔ معذرت پسندانہ مکتب ِفکر نے مدافعانہ جہاد کو عموم کی شکل دے کر ردعمل کے طور پر جہاد کرنے کو اصل رُوحِ اسلام قرار دیا اور یہ اصرار کیا کہ اسلام جارحیت اور جہاد میں پہل کرنے کا قائل نہیں ہے۔ ان حضرات کی نگاہ میں یہ مدافعانہ جہاد بھی ماضی میں ایک خاص دور تک کے لیے ممکن تھا۔ آج کے پُرامن اور ترقی پسند دور میں جہاد کا اطلاق صرف قلب کی صفائی اور تزکیۂ نفس کے دائرے ہی میں ہوسکتا ہے وغیرہ۔
دوسری جانب ایک طرزِفکر یہ اُبھرا کہ اسلام اور غیراسلام کا مقابلہ اگر ہوسکتا ہے تو صرف قوت و تلوار کی زبان کے ساتھ۔ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جارحانہ طرزِعمل کا مقابلہ اور رد‘ قوت کے استعمال سے ہی کیا جاسکتا ہے۔ چنانچہ قوت کا استعمال وقت کی ضرورت ہے اور اس سلسلے میں ہرحد کو نظرانداز کیا جاسکتا ہے۔ صرف محارب ہی نہیں‘ مخالف کیمپ کے ہر مشرک اور کافر کو نشانہ بنایا جاسکتا ہے اور دلیل بھی کچھ اس طرح وضع کی گئی کہ اگر جاپانی خودکش حملہ آوروں نے دور جدید میں جنگ عظیم کے دوران جس طرح اپنی جان کا نذرانہ پیش کرکے اپنے وطن کی عزت میں اضافہ کیا تھا تو آج اسلام کے دشمن پر ضرب لگانے کے لیے خودکش حملہ آوری کا راستہ اختیار کرنے میں کوئی تردد کیوں ہو؟
ان دونوں نقطہ ہاے نظر سے ہٹ کر ایک تیسری فکر بھی میدان میں اُبھری جس نے قرآن و سنت سے رشتہ جوڑتے ہوئے‘ بغیر کسی معذرت یا جارحیت کے یہ چاہا کہ براہِ راست اسلامی مصادر کی روشنی میں دین کے خدوخال کو واضح کیا جائے اور خصوصاً اسلام کے اصلاحی کردار اور اس کی جامعیت اور جدیدیت کو قرآن وسنت کے تناظر میں پیش کیا جائے۔ یہ تیسرا نقطۂ نظر ان تحریکاتِ اصلاح کا ہے جو دور جدید میں اسلام کے معاشی‘سیاسی‘ معاشرتی اور ثقافتی کردار کو اُجاگر کرتے ہوئے تبدیلیِ نظام اور قیامِ عدل کے لیے اسلامی اصولوں پر مبنی ریاست اور معاشرے کی تعمیر کی علم بردار ہیں۔
مغرب نے پہلے نقطۂ نظر کو moderateیا متوازن قرار دیا لیکن بقیہ دونوں طرزِعمل اس کی تنقید کا ہدف بنے۔ اصلاحی تحریکات کو ان کی نمایاں دستوری اور پُرامن تحریک ہونے کے باوجود اکثر بنیاد پرست (fundamentalist) تحریکات قرار دے دیا گیا۔ اگر معروضی نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو اصلاحی تحریکات اپنے مقاصد‘ طریق کار اور تصور انقلاب کے لحاظ سے نہ قدامت پرست کہی جاسکتی ہیں اور نہ بنیاد پرست۔پھر مغرب نے ایسا کیوں کیا اور آج دنیا کے کسی بھی گوشے میں اگر اسلامی معیشت‘ اسلامی ثقافت‘ اسلامی ریاست‘ اسلامی ابلاغ عامہ‘ اسلامی معاشرت اور اسلامی قانون کی بات کی جاتی ہے تو کیا وجہ ہے کہ مغربی دانش ور‘ صحافی اور کہربائی ابلاغ عامہ کے کان کھڑے ہوجاتے ہیں اور بلا کسی تردد کے ایسی تمام تحریکات اور ان کے قائدین کو بنیادپرست قرار دے دیا جاتا ہے۔ ان تحریکات کو انتہاپسند بلکہ شدت پسند کہنے میں بھی تکلف نہیں کیا جاتا۔ اس اہم اور بنیادی سوال پر غور کرنے سے پہلے ہمیں اِس بات کا اعتراف کرنا چاہیے کہ جس طرح مغرب نے گذشتہ ڈھائی سو سال میں استشراق (Orientalism) کے زیرعنوان مشرق اور بالخصوص مسلم معاشروں اور مسلمانوں کے ذہن کو سمجھنے کے لیے ان کی تاریخ‘ ثقافت‘ زبانوں‘ ادب اور فنون کا مطالعہ کیا ہے۔ ہم نے اتنی ہی سنجیدگی‘ لگن اور تحقیق کے ساتھ مغرب کے ذہن کو سمجھنے کی کوشش ابھی تک نہیں کی۔ اس سوال کا جواب جاننے کے لیے کہ تحریکاتِ اصلاح کو بنیاد پرست اور انتہاپسند کیوں کہا جاتا ہے‘ پہلے یہ دیکھنا ہوگا کہ خود مغرب کے ذہن میں ان اصطلاحات کا مفہوم و پس منظر کیا ہے۔
بنیاد پرستی یا اساسیت کی اصطلاحات تاریخی اور فکری طور پر عیسائی فرقوں میں پائے جانے والے عقائد و رجحانات کے حوالے سے وجود میں آئیں۔ چنانچہ برطانیہ میں ۱۸۲۸ء میں ہزاروی Millenariam تحریک چرچ آف انگلینڈ میں پھیلی اور بعض فرقوں( Evangelicals اور Catholic Brethren) میں اس کا نفوذ و فروغ ہوا۔ ۱۸۷۰ء میں اس کے اثرات امریکا میں ظاہر ہوئے اور Pentacostalist ‘Presbyterian اور Baptistچرچ کے پیروکار معقول تعداد میں اس تحریک میں شامل ہونے شروع ہوئے۱؎ اور جلد ایسے ادارے وجود میں آئے جن کا مقصد Millenariamکے عقائد کا فروغ تھا۔ یہ حضرت عیسٰی ؑکے دوبارہ ظہورکے منتظر تھے۔ ان کا خیال تھا کہ Church age کاآغاز ہوچکا ہے جس میں حضرت عیسٰی ؑکو دوبارہ دنیا میں آنا ہے۔ بعض بنیادپرستوں نے ان کی آمد کی تاریخ بھی اندازاً مشہور کردی لیکن ان کی آمد سے قبل حضرت سلیمان ؑ کے ہیکل کو دوبارہ تعمیرکرنا ہوگا جس کے لیے اسرائیل کی ریاست کا وجود میں آنا ضروری ہے گویا یہ بنیاد پرست عیسائی فرقے اسرائیلی ریاست کے قیام کے حامی اور علم بردار بن گئے۔ اس کا ایک اور بنیادی عقیدہ جس کی بناپر یہ بنیادپرست کہلائے‘ یہ تھا کہ ’’حق بجاے خود الفاظ میں محفوظ ہوتا ہے۔ چنانچہ الفاظ کے معنی کبھی تبدیل نہیں ہوسکتے اور الفاظ زندگی میں انقلاب برپا کرسکتے ہیں‘‘۔۲؎ اس تصور کا فطری نتیجہ یہ نکلا کہ بائبل کو لفظاً لفظاً (literally) اللہ کا کلام مان کر ان حضرات نے یہ راے قائم کرلی کہ بائبل کے الفاظ کی کوئی عقلی تعبیر و توضیح نہیں کی جاسکتی بلکہ الفاظ کو جیسے کہ وہ ہیں‘ ویسا ہی مانا اور پڑھا جائے۔۳؎
اس تحریک کا تیسرا بنیادی عقیدہ یہ تھا کہ ہر جدید چیز مردود ہے اور عیسائی عقیدے کے منافی ہے۔ چنانچہ جدید سائنسی نظریات بالخصوص نظریۂ ارتقا کی مخالفت اس تحریک کی پہچان بن گئی۔ عیسائیت میں اس طرزفکر کے حوالے سے لائنل کیپلان ( Lionel Caplan) کا کہناہے کہ عیسائی بنیاد پرستی پروٹسٹنٹ فرقوں اور خصوصاً کرشماتی (Charismatic)عقیدہ رکھنے والوں میں بہت تیزی کے ساتھ پھیل رہی ہے۔۴؎
اسلام کے حوالے سے ۱۹۵۷ء میں پہلی مرتبہ امریکی مجلے مڈل ایسٹ جرنل نے یہ اصطلاح استعمال کی اور پھر آہستہ آہستہ ہر اُس گروہ کے لیے جو مروجہ نظام کی جگہ قرآن کی بنیاد پر معاشرتی اور سیاسی تبدیلی چاہتا ہو‘ اس اصطلاح کو استعمال کیا جانے لگا۔ چنانچہ معروف برطانوی مستشرق منٹگمری واٹ نے اسی عنوان کے تحت اپنی کتاب میں یہ بات کہی۔ وہ روایت پرستی جو ماضی کے تصورات میں کسی تبدیلی کے بغیر اور آج کے دور کے ترقی کے تصورات کو نظرانداز کرتے ہوئے جدیدیت اور تغیر کی جگہ روایت پر عمل کرنا چاہتی ہو تو اسے مسلم بنیاد پرستی کہا جائے گا۔۵؎ بعض سادہ لوح مسلمان مفکرین اس اصطلاح کے فنی معنی تک پہنچے بغیر محض لغت میں اس کا مفہوم دیکھ کر جوش و جذبے کے ساتھ یہ کہتے ہیں کہ چونکہ اسلام میں بعض تعلیمات بنیادی حیثیت رکھتی ہیں جنھیں بنیادی عقائد کہا جاتا ہے‘ اس لیے جو بھی ان بنیادوں کو مانتا ہے‘ اسے ببانگ دہل اپنے آپ کو بنیاد پرست کہنا چاہیے۔ عیسائی بنیاد پرستی کے حوالے سے جو کچھ اُوپر درج کیا گیا ہے اس کی بنا پر عیسائی بنیاد پرستی کی اصطلاح تو ان فرقوں پر چسپاں ہوتی ہے لیکن اسلام تو اندھے عقیدے کی جگہ شعوری اور عقلی طور پر حقائق کو جانچ پرکھ کر خالق کائنات اور اس کی بھیجی ہوئی ہدایت اور انبیا و رسل کو ماننے کی دعوت دیتا ہے اور کلامِ عزیز کے ہرہر صفحے پر تعقل‘ تدبر‘ تفکر‘ تفہیم‘ تذکرہ‘ تعلیم‘ تفقہ‘ تحلیل و تجزیہ کرنے‘ عقل کا استعمال کرنے اور سوچ سمجھ کر اللہ کی بندگی اختیار کرنے کا حکم دے رہا ہے تو اسلامی عقاید کو کس بنیاد پر اندھا عقیدہ اور عقل دشمن کہا جاسکتا ہے‘ جب کہ بنیاد پرستی کا مطلب ہی یہ ہے کہ عقلیت کو رد کر کے محض اندھی تقلید اختیار کرلی جائے۔
عیسائی بنیاد پرستی کا دعویٰ ہے کہ بائبل کے الفاظ٭ جیسے ہیں انھیں ویسا ہی مانا جائے گا‘ ان کی کوئی تعبیر نہیں کی جائے گی۔ مسلم مفسرین نے قرآن کریم کے احکامات کی پیروی کرتے ہوئے مختلف زاویوں سے قرآن کریم کی آیات پر تفکر اور تدبر کے نتیجے میں اپنی تعبیر اور تاویل کو تفاسیر کی شکل میں قلم بند کیا۔ کسی نے ادبی پہلو کو‘ کسی نے بلاغت وفصاحت کو‘ کسی نے فقہی اور قانونی زاویے کو‘ کسی نے عقیدے اور کلام کے نقطۂ نظر سے اور کسی نے دعوت وہدایت کے نقطۂ نظر سے قرآن کریم کی تفسیر لکھی۔ ابن کثیر‘ طبری‘ بیضاوی‘ قرطبی‘ زمخشری‘ رازی‘ طنطاوی‘ طباطبائی‘ مودودی‘ قطب کے نام سے تفسیر کا ہرطالب علم اسی لیے آگاہ ہے کہ ہرایک کا زاویہ دوسرے سے مختلف ہے۔ اگرچہ ہر مفسر کا نقطۂ آغاز مختلف تھا لیکن ان سب تفاسیر میں عقلی تفہیم‘ توجیہہ اور تشریح قدرمشترک نظر آتی ہے۔ سیکڑوں تفاسیر کا ۱۵ سو سال میںوجود میں آنا اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن کے الفاظ کی تفہیم‘ تعبیر‘ تجزیہ اور تحلیل کرنے والے اس معنی میں بنیاد پرست نہیں ہوسکتے‘ جو یورپ کے محققین نے وضع کیا ہے اسی طرح روایت اور جدیدیت میں تضاد اور تناقص ہماری تاریخ کا خاصہ ہے جس کے بغیر یورپ کی تاریخ کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔
پھر مسلمانوں کو بنیاد پرست قراردینے کا مطلب کیا ہے؟ دراصل مغربی مفکرین اور ان کے زیرسایہ تربیت پانے والے مسلم دانش وروں نے جن مفروضوں پر یہ راے قائم کی‘ وہ بنیادی طور پر چار ہیں: پہلا مفروضہ یہ ہے کہ اسلام دیگر مذاہب کی طرح عبادات‘ رسومات اور تہواروں کا ایک مذہب ہے۔ مادہ پرست تہذیب میں وہ تمام شعبے جو کبھی مذہب سے وابستہ تھے‘ آج نام نہاد سول سوسائٹی ان تمام کاموں کو انجام دے رہی ہے اِس بنا پر مادہ پرست تہذیب میں مذہب کا وجود بے معنی سمجھا جاتا ہے۔ اگر کوئی روحانیت زدہ شخص مذہب کی ضرورت پر ایمان رکھتا ہو تو وہ ذاتی حیثیت میں جو چاہے کرے لیکن اسے مذہب کو معاشرتی‘ معاشی‘ سیاسی‘ قانونی اور ثقافتی معاملات میں داخل کرنے کا کوئی حق نہیں۔
دوسرا مفروضہ یہ ہے کہ قرآن کریم بھی بائبل کی طرح ایک ’مذہبی کتاب‘ ہے اور جس طرح بنیاد پرست عیسائیت میں بائبل کی طرف رجوع کرنے کا مطلب اس کی لفظی پیروی لیا جاتا ہے اسی طرح جو تحریکات قرآن کی طرف آنے کی دعوت دیتی ہیں‘ ان کو بھی قیاساً بنیاد پرست تحریکات سمجھ لیاگیا۔ اس مفروضے کے حوالے سے نہ صرف غیرمسلم مستشرق ایک بڑے مغالطے کا شکار ہیں بلکہ جدیدیت زدہ مسلمان بھی اُس غلط فہمی کو پھیلانے میں ان کے شریک ہیں۔ حقیقت ِواقعہ یہ ہے کہ قرآن کریم اور بائبل کا مقابلہ اور موازنہ کسی پہلو سے بھی درست نہیں‘ اس لیے کہ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا کلام ہے‘ جب کہ عیسائی عقیدے کے مطابق حضرت عیسٰی ؑبذاتِ خود اللہ کا کلام اور پرتو ہیں۔ قرآن کریم کا مصنف اللہ تعالیٰ خود ہے جب کہ بائبل کو مختلف ادوار کے انسانی مصنفین نے تحریر کیا ہے۔ چنانچہ اس کی ۲۷کتب مختلف محرروں کے ناموں سے منسوب ہیں‘ جب کہ قرآن اوّل تا آخر کلامِ الٰہی ہے اور اس میں نہ ایک حرف کا اضافہ ہوا ہے اور نہ کمی۔ یہ براہِ راست اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا کلام ہے جسے حفظ اور تحریر کی شکل میں محفوظ کرلیا گیا۔ ثانیاً قرآن کی طرف آنے کی دعوت ایک دعوتِ فکر‘ دعوتِ تجزیہ اور دعوتِ تعقل ہے اوریہ قرآن کی لفظی پیروی کی جگہ قرآن کریم کے احکامات و اصول کو سمجھنے اور ہردور میں ان کی تطبیق کے راستے نکالنے کی دعوت ہے۔
تیسرا مفروضہ یہ ہے کہ اسلامی تحریکات کی نظامِ اسلامی کے قیام کی دعوت یا اسلامی ریاست کے قیام کا مطالبہ دراصل تھیاکریسی کے قیام کا مطالبہ ہے جس نے یورپ کو ایک عرصے تک دہشت زدہ رکھا۔ چنانچہ دورِ جدید میں ایسی تھیاکریسی کے قیام سے امنِ عالم کو خطرہ ہوسکتا ہے۔ اس لیے وہ تمام تحریکات جو اسلامی ریاست کے قیام کی جدوجہد میں مصروف ہیں‘ ان کے نقطۂ نظر سے بنیادپرستی اور انتہا پسندی کی تحریکات ہیں۔
چوتھا مفروضہ یہ ہے کہ اسلامی تحریکات روایت پرستی کی علم بردار اور جدیدیت کی دشمن ہیں اس کے برخلاف مغرب کے مفکرین جدیدیت (modernism) سے بھی ایک قدم آگے بڑھ کر مابعد الجدیدیت (post - modernism)کی بات کرتے رہے ہیں ‘ جب کہ مسلم نشاتِ ثانیہ کے علم بردار ہمیشہ خلافتِ راشدہ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے بات کرتے ہیں جو مغرب کی نگاہ میں قدامت پرستی ہے۔ لیکن ایک مشترکہ عقیدے کی حیثیت سے یورپی فکر اپنے معاشی‘ معاشرتی‘ سیاسی اور ثقافتی نظام ہی کو جدیدیت کا حقیقی مظہر سمجھتی ہے اور اس بنا پر جب تک دیگر اقوام جدیدیت یا مغربیت کو اختیار نہ کرلیں انھیں اجنبی (allien) اور تہذیبی لحاظ سے اپنے سے کم تر سمجھتی ہیں اس بات کو کسی لاگ لپیٹ کے بغیر ہن ٹنگٹن نے یوں بیان کیا ہے:
Only when Muslims explicitly accept the western model will they be in a position to technicalize and then to develop. ۶؎
گویا جب تک مغربی تہذیب کی بنیادوں کو اختیار نہیں کیا جائے گا‘ اس وقت تک مسلم دنیا میں سائنسی اور معاشی ترقی کا کوئی امکان نہیں ہوسکتا‘ اور وہ ترقی کی دوڑ میں مغرب سے پیچھے رہے گی۔
معاشی استدلال ہی کو آگے بڑھاتے ہوئے مغربی مفکرین یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ معاشی زبوں حالی اور مذہبی جنونیت کا قریبی تعلق ہے اور مسلمانوں کا معاشی احساس محرومی ہی انھیں مذہبی شدت پسندی کے ذریعے مغرب کے خلاف اپنے غصے کو نکالنے پر اُبھارتا ہے۔ سرمایہ داری نظام کے علم برداروں کے یہ تصورات کارل مارکس کے نظریہ ٹکرائو کا پرتو معلوم ہوتے ہیں کیونکہ اس کی فکر کی اساس بھی اس تصور پر تھی کہ مزدور کا یہی احساس محرومی اور مذہب کا بطور ایک حربے کے مزدور کے خلاف استعمال کیا جانا معاشرتی تنائو اور ٹکراؤ کو پیدا کرتا ہے۔ اس نقطۂ نظر کو کچھ اور آگے بڑھاتے ہوئے ہن ٹنگٹن نے نہ صرف اس احساسِ محرومی کے نتیجے میں پیداہونے والی شدت اور بنیاد پرستی کو بلکہ خود دین اسلام کی تعلیمات کو اس اختلاف‘ ٹکرائو اور نفرت کا ذمہ دار ٹھیرایا ہے:
The underlying problem for the west is not islamic fundamentalism. It is Islam, a different civilization whose people are convinced of the superiority of their culture and obsessed with the inferiority of their power. ۷؎
مسلم دنیا ہی میں نہیں بلکہ دنیا میں جہاں کہیں بھی کوئی انتہاپسند یا شدت پسند تحریک ردعمل کے طور پر اُبھری ہے‘ اس کے پیچھے بڑے واضح‘ تاریخی اسباب نظر آتے ہیں۔ ان میں درج ذیل سات اسباب زیادہ اہم کہے جاسکتے ہیں:
۱- سیاسی غلبہ و استبداد اور آزادی کے حق کی پامالی: مغربی لادینی سامراجی نظام ہو یا مسلم ملوکیت اور آمریت‘ جب بھی انسان کے بنیادی حقوق: جان‘ عقل‘ دین‘ نسل اورمال کو نشانہ بنایا جائے گا اور افراد کو ان حقوق سے محروم کیا جائے گا‘ فطری طور پر شدت پسندی ردعمل کی شکل میں اُبھرے گی۔ فلسطین میں امریکا اور برطانیہ کی پشت پناہی میں اسرائیل جارحیت و بربریت ہو یا کشمیر میں ہندستانی سیکورٹی فورس کی درندگی‘ جب بھی اور جہاں بھی انسانوں کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم کیا جائے گا ان کی جان‘ گھربار‘ عزیز واقربا‘ معیشت و معاشرت اور ثقافت کو تباہ و برباد کیا جائے گا‘ انتہاپسندی اور شدت پسندی کا ظہور ہوگا۔ ظلم کے ردعمل میں ظاہر ہونے والی شدت پسندی کا توڑ قوت کے اندھے استعمال سے نہ تاریخ انسانی میں ہوا ہے اور نہ ہوگا۔ یہ تو ممکن ہے کہ وقتی طور پر مظلوم انسانوں کو مستضعفین فی الارض بنا دیا جائے لیکن دہشت گردی کے ذریعے انھیں ختم نہیں کیا جاسکتا۔ دہشت گردی صرف دہشت گردی ہی کو جنم دے سکتی ہے‘ امن و سکون کو پیدا نہیں کرسکتی۔
۲- غربت و افلاس اور عدل سے محرومی: انسانی تاریخ میں ایسے معاشرے تو مل جاتے ہیں جہاں فاقہ کشی ہو‘ غربت ہو لیکن معاشرے میں عدل ہو۔ ایسے معاشرے نہیں مل سکے جہاں عدل نہ ہو اور اس کے باوجود امن‘ سکون‘ برکت اور تحفظ پایا جائے۔ جب بھی کسی قوم کو عدل سے محروم کیا جائے گا اس میں شدت پسندی‘ انتہا پسندی فطری عمل کے طور پر پیدا ہوگی۔
۳- سیاسی استحصال: انتہا پسندی کے پیدا ہونے کا ایک بڑاسبب صحت مند سیاسی ماحول اور فضا کا موجود نہ ہونا ہے۔ سیاسی آزادیوں کا پامال کیا جانا‘ متاثرہ افراد کو غیرسیاسی‘ عسکری شدت پسند ذرائع کے استعمال کرنے پر مجبور کرتا ہے اور وہ جابرانہ سیاسی تسلط کو ختم کرنے کے لیے انتہاپسند ذرائع کا استعمال کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ اکثر فوجی انقلاب اور عوامی انقلاب سیاسی استحصال کے جواب ہی میں وجود میں آتے ہیں۔
۴- معاشرتی اور معاشی غلامی: معاشرتی اور معاشی غلامی اور ناانصافی متاثرہ افراد کو قوت کے ذریعے اپنے حقوق کے حصول پر اُبھارتی ہے اور معاشرے کے مختلف طبقات میں انتہاپسند ذرائع کا استعمال عام ہوجاتا ہے۔ اس کا حل قوت کے ذریعے ان تحریکات کو روکنے سے نہیں ہوسکتا۔ جب تک ان اسباب کو دُور نہ کیا جائے۔ اندھی قوت ان مسائل کا حل نہیں کرسکتی۔
۵- ثقافتی یلغار و تھذیبی محکومیت: ہر قوم کی ایک ثقافت و تہذیب ہوتی ہے جو اس کی اقدار حیات کی امین ہوتی ہے۔ جب کسی قوم کو اس کی ثقافت و تہذیب اور اخلاقی اقدار سے محروم کرنے کے لیے اس پر بیرونی استعماری تہذیب و ثقافت مسلط کی جاتی ہے تو ردعمل کے طور پر انتہاپسندی کا ظہور ہوتا ہے۔ الجزائر میں فرانسیسی سامراجیت نے ڈیڑھ سو سال تک مقامی تہذیب و ثقافت کی جگہ اپنی اقدارِ حیات کو ان پر مسلط کیا۔ آخرکار الجزائر کی تحریک حریت نے قوت کے استعمال کے ذریعے غلامی کے قلاوے کو گردن سے اُتار پھینکا اور فرانسیسی قوت کا استعمال اس عمل کو نہ روک سکا۔ گویا ثقافتی یلغار جب بھی اور جہاں بھی ہوگی اس کا ردعمل ظاہر ہونا بالکل فطری ہے۔
۶- حریت پسند مزاحمتی تحریکات: انسانی تاریخ بتاتی ہے کہ جب بھی طویل عرصہ تک حریت پسند مزاحمتی تحریکات کو دبانے کی کوشش کی گئی ہے‘ مزاحمت کے طول پکڑنے کے ساتھ ہی شدت پسندی اور انتہاپسندی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ فلسطین‘ کشمیر‘ افغانستان کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ طویل عرصے کی جدوجہد کے باوجود جب مطلوبہ نتائج سامنے نہ آرہے ہوں تو تحریکاتِ آزادی‘ شدت پسندی کے استعمال کی طرف راغب ہوجاتی ہیں۔
۷- کچھ نہ کہونے کا احساس: بیرونی سامراجی مداخلت اور بعض اوقات خود کسی ملک میں برسرِاقتدار ٹولہ جب ظلم و بربریت کی حدیں پھلانگ جاتا ہے اور ایک خاندان کا چشم و چراغ یہ دیکھتا ہے کہ اس کی آنکھوں کے سامنے اس کے والدین کو بھائیوں اور بہنوں کو شہید کردیا گیا ہے‘ اس کا مکان نذرِ آتش کردیا گیا ہے‘ اس کے کھیت ویران کردیے گئے ہیں حتیٰ کہ اس کے مویشی بھی ہلاک کردیے گئے ہیں تو پھر اسے مزید کچھ نہ کھونے کا احساس اس بات پر مجبور کردیتا ہے کہ اپنی جان کا نذرانہ پیش کر کے ظالم اور سفاک ٹولے کو‘ اس کی فوج کو‘ اس کے اداروں کو تباہ کرکے اپنے سینے میں سلگتی ہوئی آگ کی تپش میں کچھ کمی کرلے۔ یہ واقعہ الجزائر میں ہو‘ عراق میں ہو‘ فلسطین میں ہو‘ سری لنکا میں ہو‘ کشمیر میں ہو یا باجوڑ میں‘ اس کی اصل ذمہ داری اُس ظلم اور سفاکی پر عائد ہوتی ہے جس نے ایک فرد کو گویا دیوار سے لگا کر کھڑا کردیا اور اس کے پاس اس آخری حربے کے سوا کوئی اور ذریعہ ٔ انتقام باقی نہ رہا۔
یہاں یہ بات بھی وضاحت طلب ہے کہ وہ شدت پسندی جو محض توڑ پھوڑ اور لاقانونیت کے لیے ہو اور وہ قوت کا استعمال جو حقوق انسانی کے تحفظ اور اعلیٰ جمہوری اقدار کو زندہ رکھنے کے لیے کیا جائے‘ دو مختلف النوع چیزیں ہیں۔ اس کا اعتراف اقوام متحدہ تک نے کیا ہے۔ چنانچہ ۱۹۸۷ء میں اس کی مقرر کردہ ایک کمیٹی نے اپنی سفارشات میں یہ بات درج کی کہ دہشت گردی اور حقِخود ارادیت کے لیے جدوجہد جو عموماً بیرونی سامراج یا نسل پرست حکومتوں کے خلاف کی جاتی ہے‘ دو الگ الگ چیزیں ہیں اور انھیں خلط ملط نہیں کیا جاسکتا۔ (یو این رپورٹ‘ اے/۴۲/ ۸۳۲‘ اے/۹۰۲۸/۱۹۷۳)
یہ بات کسی تعارف کی محتاج نہیں کہ ظلم‘ حقوق کی پامالی‘ استحصال‘ جبروبربریت کا علاج اُس سے زیادہ قوت والی بربریت سے نہیں کیا جاسکتا۔ اگر فرض بھی کرلیا جائے کہ صدام حسین نے امریکا کے تعاون سے کُردوں کے خلاف زہریلی گیس کا استعمال کیا اور امریکی امداد و تعاون سے اپنے ملک کے عوام پر ظلم کا بازار گرم کیا۔ کیا اس جبر کو دُور کرنے کے لیے اس سے سو گنا زیادہ بربریت اوردہشت گردی کرنا جس کا ارتکاب جارج ڈبلیو بش نے عراق کے نہتے عوام پر جارحانہ حملے اور ناجائز قبضے کی شکل میں کیا اور جس میں ۶ لاکھ سے زیادہ نہتے عوام بچے بوڑھے اور خواتین حتیٰ کہ ہسپتالوں میں پڑے ہوئے مریض‘ یتیم خانوں میں مقیم یتیم بچے اور تعلیم گاہوں میں زیرتعلیم طلبہ کا سفاکانہ خون عراق میں امن‘ عدمِ تشدد اور رواداری پیدا کرسکتا ہے؟ تشدد اور انتہاپسندی کا علاج اندھی قوت سے نہیں‘ مسائل و معاملات کے حل‘ حقوق کی بحالی اور ناجائز قبضے کے خاتمے کے ذریعے ہی کیا جاسکتا ہے۔
حقوق کی پامالی بیرونی قوت کرے یا اپنے ہی ملک کی فوج اور زرخرید سیاست ‘ جب تک عوام کو ظلم سے نجات نہیں ملے گی‘ اُن کے حقوق بحال نہیں ہوسکتے اور جب تک حقوق بحال نہ ہوں گے انتہاپسندی اور شدت پسندی میں کمی نہیں آسکتی۔ دنیا میں ایسے بے عقل لوگ کہیں نہیں پائے جاتے کہ ان کو تمام انسانی سہولیات حاصل ہوں‘ سیاسی‘ معاشی‘ معاشرتی اور ثقافتی حقوق پر کوئی قدغن نہ ہو‘ ان کے کھیت ہرے بھرے ہوں‘ ان کے گھروں میں تعلیم کی روشنی ہو اور پھر بھی وہ سینے پر بم باندھ کر کسی بازار میں جاکر یا کسی فوجی تربیت گاہ میں گھس کر اپنے آپ کو ہلاک کرڈالیں۔
ان حالات میں تحریکات اسلامی کا کردار غیرمعمولی اہمیت اختیار کرجاتا ہے اور ملک و ملّت میں اتحاد‘ حقوق کی بحالی‘ سیاسی‘ معاشی‘ معاشرتی اور ثقافتی اقدار کے تحفظ اور ملت کے وسیع تر مفاد کے لیے عوامی شعور کی بیداری‘ مسلسل تعلیمی و تربیتی نظام کے ذریعے ایسے افراد کی تیاری جو نفس کی غلامی سے نکل کر اپنے مفادات کو صرف اور صرف اللہ کی رضا سے وابستہ کردیں جو نتائج سے بے پروا ہوکر اصولی موقف اور عظیم تر اُخروی فلاح کے لیے فوری مفادات کو نظرانداز کرتے ہوئے ایک منظم اور بامقصد جدوجہد کا حصہ بن جائیں جن کی فکروعمل میں کوئی تضاد نہ ہو‘ جن کی سیرت و کردار شفاف اور اللہ کی بندگی کا مظہر ہو۔ یہ مثبت تعمیری اور اصلاحی عمل صبر‘ حکمت‘ اعتماد اور منزل کے واضح نشان کے ساتھ ہی ہوسکتا ہے۔
یہ جہادِ مسلسل قرآن و اسوہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زیرسایہ ہی ہوسکتا ہے۔ اس سفر میں درپیش ہر رکاوٹ اور راہ کا ہر کانٹا مسافرانِ حق کے شوقِ آبلہ پائی میں اضافے ہی کا باعث بنتا ہے اور ظلم و جبر کی تاریک گھٹائیں کسی لمحے اس قافلے کی بصیرت و بصارت اور قلب و نگاہ کے نور کو مدھم نہیں کرتیں بلکہ تاریکی میں اضافہ اس شعلۂ اندرون کی لو میں کبھی ۱۰ گنا اور کبھی ۱۰۰ گنا اضافہ کردیتا ہے۔ قرآن نے سچ ہی تو کہا تھا کہ اگر وہ ۲۰ صابرون ہوں تو ۲۰۰ پر غالب آئیں گے۔ یہ جہاد زندگی کے ہر شعبے میں طاغوت کو للکارنے اور اچھائی کے ذریعے برائی کے خاتمے ہی سے ہوسکتا ہے۔ ہدایت بھیجنے والے کا وعدہ اور سنت ہے کہ حسنات ہی سیئات کو دُور کرتی ہیں۔
تحریکاتِ اسلامی کا ہدف کسی فوری کامیابی تک محدود نہیں ہوسکتا کیونکہ یہ تحریکات حیاتِ انسانی میں دیرپا اور مکمل تبدیلی کے لیے برپا ہوتی ہیں۔ یہ توازن و اعتدال کے ساتھ دین کے معاملے میں نہ مداہنت سے کام لیتی ہیں اور نہ قریب المیعاد نتائج کے لیے وسیع تر مقصد کو قربان کرتی ہیں۔ مسئلہ تشدد کا ہو یا بنیاد پرستی کا‘ ان کا موقف روایت پرستی کی جگہ قرآن و سنت سے براہ راست استفادہ کرتے ہوئے اس کے اصولوں کی روشنی میں ایک اجتہادی راستہ اختیار کرنے ہی کا ہوتا ہے۔ جو تحریکات اس اجتہادی عمل کو جاری رکھتی ہیں‘ ان کے لیے صادق و امین صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ اگر ان کا اجتہاد آخرکار درست ہو تو دو اجر اور اگر کسی انسانی خامی کی بنا پر اس میں کوئی غلطی ہوگئی ہو‘ جب بھی ایک اجر ہاتھ سے نہیں جاسکتا۔
حواشی
1. Ernest R. Sandeen, Fundamentalist Evangelical Churches, in Encyclopedia Britannica, Chicago, Chicago University Press, 1974, Macropaedia, Vol 7, p 777.
2. Martin E. Martz & R. Scott Applelag, Fundamentalism Observed, Chicago, Chicago University Press, 1991, p 15.
3. ibid, p 18.
4. Lionil Caplan, Studies in Religious Fundamentalism, London, The Macmillan Press, 1987, p 1.
5. Montgomery Watt, Islamic Fundamentalism & Modernity, London, Routledge, 1988, p 2-3.
6. Samuel P. Huntington, The Clash of Civilizations, Penguin Books, 1997, p 74.
7. Ibid, p 217.
جہاد اسلام کی ان تعلیمات میں سے ہے جسے مغرب ہی نہیں خود مسلمانوں میں سے بعض افراد نے ہر دور میں عصری تقاضوں کے پیش نظر تعبیر کی چھلنی سے گزارنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی‘ اور اس کی ایسی ایسی نادر تعبیرات پیش کیں جو شاید قرنِ اول کے کسی مجتہد کے وہم و گمان میں بھی نہ ہوں گی۔ ان خدشات‘ غلط فہمیوں‘ فکری غلطیوں اور اندیشوں میں سب سے نمایاں پہلو جہاد کو ’غارت گری‘ کے تصور کے ساتھ پیش کرنا ہے جسے گذشتہ دو عشروں میں عملی سطح پر بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا رہا ہے۔
یورپی کلیسا نے صدیوں قبل (۱۰۹۱ئ-۱۲۹۱ئ) مسلمانوں اور یہودیوں کو تلوار کے ذریعے عیسائی بنانے کے لیے جن صلیبی جنگوں کا آغاز کیا تھا‘ ان کی تمام غارت گری کو یکسر نظرانداز کرتے ہوئے دورِ جدید کے اکثر مستشرقین‘ قرآن کے تصورِ جہاد کو معروضی تحقیق و تقابل کے بغیر بیک جنبش قلم قوت کے اندھے استعمال‘ تشدد اور غارت گری سے تعبیر کربیٹھتے ہیں اور پھر تخیل کے زور پر وضع کردہ ان تعبیرات کو اتنی تکرار کے ساتھ نقل کیا جاتا ہے کہ نہ صرف عامۃ الناس بلکہ غیرمسلم اور مسلم دانش ور بھی‘ بغیر ضمیر کی کسی خلش کے اکثر ان ہوائیوں پر ایمان لے آتے ہیں۔ علمی حلقوں میں اس تصور کے دو واضح ردعمل سامنے آتے ہیں:
پہلے ردعمل کا تعلق ذہنی مرعوبیت سے ہے جس میں بار بار دہرائی ہوئی ایک بات سے متاثر ہوکر معذرت پسندانہ رویہ اختیار کیا جاتا ہے‘ اور جہادو قتال کو ماضی کی ایک روایت قرار دیتے ہوئے اپنی ’روشن خیالی‘ کا ڈھنڈورا پیٹ کر یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ ہم تو اصل میں بہت امن پسند بلکہ ’اہنسا‘ کے علم بردار ہیں۔ ہم ایک چیونٹی کے مارنے کو بھی حیوانی حقوق کی پامالی سمجھتے ہیں۔ اسلحے کا استعمال صرف اپنے دفاع کے لیے جائز سمجھتے ہیں۔ اگر کسی خطے میں انسانوں کے حقوق پامال ہو رہے ہوں‘ ان کا خون ناحق بہایا جا رہا ہو‘ انھیں مستضعفین فی الارض بنا دیا گیا ہو تو یہ ان کا مسئلہ ہے۔ ہم زیادہ سے زیادہ ان کے لیے صرف دعا کرسکتے ہیں۔ ان کی امداد اور انھیں ظلم سے نجات دلانا ہمارا نہیں بلکہ خالقِ کائنات کا مسئلہ ہے!
دوسرا ردعمل یہ سامنے آتا ہے کہ اسلام تو نام ہی مشرکین اور کافرین سے زمین کو پاک کرنے کا ہے۔ اس لیے انھیں جہاں پایا جائے بلاتکلف قتل کر دیا جائے۔ اس نوعیت کی نادر تعبیرات کو عموم کا درجہ دے کر ان پر ایک عالی شان تصوراتی محل تعمیر کر دینا زمینی حقائق اور علمی نظائر کے ساتھ ایک صریح زیادتی ہے۔
مغرب کی اصل ذھنی الجہن
کیا قرآن کا دیا ہوا تصورِ جہاد ہر دور میں تبدیل ہوتا رہا ہے؟ یہ ایک تحقیق طلب سوال ہے۔ لیکن اس پر غور کرنے سے قبل ہمیں یہ تعین کرنا ہوگا کہ معاصر مغربی مستشرقین کی اصل ذہنی الجھن کیا ہے۔ اس سلسلے میں چند سوالات‘ جنھیں وہ بار بار اٹھاتے ہیں‘ یہ ہیں:
۱- کیا اسلام قتل و غارت گری اور سوچے سمجھے تشدد (organized use of violence) کی اخلاقی اور قانونی توثیق کرتا ہے؟
۲- کیا اسلام‘ جہاد کو جنگِ مقدس (Holy War)کا درجہ دیتا ہے؟
۳- کیا جہاد کا مقصد سیاسی توسیع ہے اور یہ محض ریاست کی حدود بڑھانے کے لیے کیا جاتا ہے؟
۴- کیا اسلام اور قوت و تشدد کے استعمال میں کوئی منطقی اور فکری تعلق ہے؟
۵- کیا جہاد کا مقصد مسلم دنیا اور غیرمسلم دنیا پر شریعت کو مسلط (impose) کرنا ہے؟
۶- کیا جہاد جنت کے حصول کا آسان‘ مختصر اور یقینی راستہ ہے؟
۷- کیا اسلام‘ بڑے پیمانے پر انسانی تباہی کے آلات (WMD) کو مباح قرار دیتا ہے؟
یہ چند بنیادی سوالات ہیں جن کو معاصر مغربی مستشرقین کی تحریروں میں دیکھا جا سکتا ہے۔
آغاز ہی میں یہ بات واضح کر دینا ضروری ہے کہ قرآن کریم کوئی جامد قوانین کی دستاویز نہیں ہے بلکہ یہ تین واضح انواع پر مشتمل ہے‘ یعنی احکام‘ اصول اور تعلیمات و ہدایات۔ جہاں تک احکام کا تعلق ہے وہ متعین ہیں جن میں حدود‘ معاملات اور عبادات کے حوالے سے تشریح کردی گئی ہے۔ یہ احکام قرآن کریم میں موجود بعض اصولوں پر مبنی ہیں‘ مثلاً: قصاص کے حکم کی بنیاد اس اصول پر ہے کہ انسانی جان کا بچانا اصل ہے اور جو اسے ضائع کرے اس کی تعزیر اور دوسروں کی تعلیم کے لیے جان کے بدلے جان لی جائے گی۔ لیکن احکام کے ساتھ بعض اوقات تعلیم کوحکم سے ملحق اور بعض اوقات الگ بیان کر دیا گیا۔ مثلاً قتل کے حوالے سے نص کو بیان کرتے ہوئے تعلیم دے دی گئی ہے کہ اگر ایک متاثر خاندان قاتل کو معاف کر دے تو بڑے اجر کی بات ہے یا خون بہا وصول کرلے تو یہ اس کا حق ہے۔ لیکن اگر وہ اس کو نظرانداز کرتے ہوئے اپنے حق پر اصرار کرے اور قانونی اداروں کے ذریعے قاتل کی جان بدلے میں لینے پر قائم رہے تو یہ بھی قانونی روایت کے مطابق ہوگا۔ اس لیے بعض مغربی اور بعض مسلم مستشرقین کا یہ کہنا کہ اسلام میں precepts‘یعنی مستند قانون و ضابطے کی کمی ہے‘ قرآن شناسی سے ناواقفیت کی ایک علامت ہے۔
انسانی جان کے احترام اور تحفظ و بقا کو فقہاے اسلام نے شریعت کا پہلا مقصد قرار دیا ہے اور قرآن کریم نے متعد مقامات پر یہ بات بیان کی ہے کہ جس نے ایک انسانی جان کو ناحق ضائع کیا اس نے گویا پوری انسانیت کو قتل کر دیا اور جس نے کسی ایک انسانی جان کو بچایا‘ اس نے تمام انسانوں کو حیات بخشی۔ یہ مذہب‘ رنگ‘ نسل‘ ذات ہر قسم کی تقسیم سے بلند ہوکر تمام انسانوں کے لیے ایک ایسا اصول ہے‘ جس کا مانناکسی مسلمان کے مسلمان ہونے کی شرط ہے۔ اگر واقعی ’بنیاد پرست‘ کی تعریف یہ ہے کہ وہ اپنے دین کی کتاب کو لفظاً لفظاً مانتا ہو تو ہمیں یہ کہنے میں کوئی تردد نہیں ہوسکتا کہ جو جتنا زیادہ ’بنیاد پرست‘ ہوگا وہ اتنی ہی شدت سے قرآن عظیم کے اس اصول پر کاربند ہوگا۔ ورنہ اس کے ایمان کے بارے میں سوال اٹھے گا کہ وہ قرآن کو مانے بغیر کس قسم کا مسلمان ہے۔
بلاشبہہ اس اصول کو دوٹوک انداز میں پیش کردینے کے ساتھ قرآن کریم نے یہ وضاحت بھی کر دی ہے کہ کون سا خون بہانا حق کی پیروی میں ہوگا۔ چنانچہ سورۃ الحج میں فرمایاگیا: ’’اجازت دی گئی ان لوگوں کو جن کے خلاف جنگ کی جارہی ہے‘ کیونکہ وہ مظلوم ہیں ‘اور اللہ یقینا ان کی مدد پر قادرہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے ناحق نکال دیے گئے صرف اس قصور پر کہ وہ کہتے تھے کہ ہمارا رب اللہ ہے۔ اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے دفع نہ کرتا رہے توخانقاہیں‘ گرجا‘ معبد اور مسجدیں‘ جن میں اللہ کاکثرت سے نام لیا جاتا ہے‘ سب مسمار کر ڈالی جائیں۔ اللہ ضرور ان لوگوں کی مدد کرے گا جو اس کی مدد کریں گے‘‘۔(الحج۲۲:۳۹-۴۰)
یہاں مغربی استعماری تصورات سے نمو پانے والی ’بلارو رعایت جنگ‘ کے تصور کے برعکس ایک نئی فکر انقلابی انداز میں پیش کی گئی ہے۔ معاملہ کسی ایک ’مذہب‘ کے ماننے والوں کے تحفظ یا کسی ایک مذہب کا دوسروں پر مسلط کرنے کے لیے قوت کے استعمال کا نہیں ہے بلکہ کم از کم چار مذہبی روایات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہ بات فرمائی جارہی ہے کہ وہ عیسائیوں کے گرجے ہوں‘ یہودیوں کے معبد ہوں یا بدھ اوردیگر مذاہب والوں کی خانقاہیںیا مسلمانوں کی مساجد‘ ان تمام علاماتی مراکز ِعبدیت کے تحفظ‘ آزادی اور بلاروک ٹوک ان میں جاکر اپنے مسلک کے مطابق اپنے رب کویاد کرنے کے حق کا دفاع جہاد کا بنیادی مقصد ہے۔ یہ وہ انقلابی تصور ہے جسے ایک عیسائیت سے مرعوب ذہن اور نگاہ عموماً محسوس کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی‘ چونکہ اس کا بنیادی ذہنی ڈھانچہ کاغذی سطح پر: ’کفارہ، نجات، تلافی اور وقار‘ کے شہتیروں سے تعمیر ہوتا ہے‘ اس لیے وہ اسلام میں بھی ان تصورات کے متبادل نظریات کی تلاش میں سرگرداں رہتا ہے۔
سورۃ الحج کی مندرجہ بالا آیت سے جو اصول نکلتا ہے وہ نہ صرف مسلمانوں بلکہ مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے مقاماتِ عبادت‘ ان کی ثقافت و تہذیبی زندگی کے تحفظ کے لیے مسلمانوں کو جہاد کی اجازت دیتا ہے۔ اس سے زیادہ حقوقِ انسانی کا احترام اور دیگر مذاہب کے ساتھ رواداری کا طرزِعمل نہ تو عیسائیت نے آج تک پیش کیا ہے اور نہ کسی اور مغربی یا مشرقی مذہب نے۔ یہی سبب ہے کہ قرآن جہاد کو ایک فریضہ قرار دیتا ہے۔ اگر جہاد کے وسیع تر تصور کو‘ جس کا ایک پہلواُوپر پیش کیا گیا‘ دین سے خارج یا معطل یا ملتوی کر دیا جائے تو پھر بین المذہبی رواداری اور دینی و ثقافتی حریت کے اصول کو بھی خیرباد کہنا ہوگا۔
جہاد کی تمام تر فرضیت و اہمیت کے باوجود قرآن وحدیث نے اس کے لیے جواصطلاح استعمال کی وہ ’اپنی جان اور مال سے اللہ کی راہ میںانتہائی کوشش‘ کی ہے۔ اسلامی تاریخ میں کوئی ایک مثال ایسی نہیں ملتی جب کسی فقیہ یا مفسر و محدث نے جہاد کے لیے Holy War‘ یعنی حرب المقدس ’مقدس جنگ‘ کی اصطلاح استعمال کی ہو۔ انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا کے مقالہ نگار نے اس تصور کو خالصتاً عیسائیت سے منسوب کیا ہے اور بتایا ہے کہ پاپاے روم نے یہودیوں اور مسلمانوں کو قوت کے استعمال کے ذریعے عیسائی بنانے کے لیے تمام عیسائیوں کوحروب الصلیبی کے عنوان سے جمع کیا اور یہی صلیبی جنگیں (Holy Wars)کہلائیں۔(Macropedia‘شکاگو‘ والیم ۵‘ ۱۹۷۴ئ‘ص ۲۹۷-۳۱۰)
اسلام کے قانونِ صلح و جنگ میں کسی مقدس جنگ کا تصور نہ پہلے تھا نہ آج پایا جاتا ہے۔ چونکہ اسلام زندگی کو لادینی اور دینی خانوں میں تقسیم نہیں کرتا‘ اس لیے اس کی جنگ ہو یا رزقِ حلال کا حصول‘ شعروشاعری ہو یا صنعت وحرفت‘ ہر سرگرمی کا مقصد اللہ تعالیٰ کو راضی کرنا اور اللہ تعالیٰ کی ناراضی سے بچنا ہے۔ اس لیے دین کا دائرۂ کار اور لادینی اعمال کا دائرۂ کار الگ الگ نہیں ہے۔ مغربی تعلیم یافتہ ذہن اور خود مغرب کا مادہ پرست تہذیب کا پیدا کردہ ذہن چوں کہ اسلام کو یورپی مذہبی عینک سے دیکھتا ہے اس لیے مسجد جانے کو مذہبی سرگرمی‘ جب کہ کسی ملٹی نیشنل کمپنی میں کام کرنے کو سیکولر اور پیشہ ورانہ سرگرمی قرار دیتا ہے۔ یہ تقسیم اسلام کے لیے اجنبی ہے۔ اگرچہ بہت سے مسلمان صدیوں سے اس پر عمل کرتے چلے آرہے ہیں اور اپنے خیال میں کمالِ مہارت سے ’دین ودنیا‘ میں توازن پیدا کرکے بیک وقت مسجد جاکر اللہ سبحانہ و تعالیٰ کو اور کاروبار کے دائرے میں سرمایہ داری کے دیوتا کو خوش رکھنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ قرآن کریم نے جب یہ سوال اٹھایا تھا کہ کیا بہت سے الٰہ بہتر ہیں یا ایک اللہ وحدہٗ لاشریک‘ کیا بہت سے حاکمین بہتر ہیں یا حکم صرف اللہ کے لیے ہونا بہتر ہے‘ تو اس سوال کا اصل مقصد اس تقسیم کو بنیاد سے اُکھاڑ پھینکنا تھا۔ ہم یہ بات پورے وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ اسلام میں holy warیا’مقدس جنگ‘کا کوئی تصور نہیں پایا جاتا۔ یہ بنیادی طور پر ایک عیسائی تصور ہے جسے اسلام پر چسپاں کرنا قرآن وسنت کی تعلیمات کی روح کے منافی ہے۔
قرآن کریم نے جہاد کا مقصد ظلم و تعدی‘ ناانصافی‘ فتنہ و فساد‘ قتل و غارت اور بدامنی کو دُور کرنا قرار دیا ہے کیوں کہ قرآن کی نگاہ میں فتنہ قتل سے زیادہ شدید ہے۔ جب تک کسی معاشرے سے ظلم و ناانصافی دُور نہ ہو وہاں عدل کا قیام نہیں ہو سکتا۔ جہاد فی الحقیقت معاشرتی‘ معاشی اور سیاسی عدل کے قیام کا ذریعہ ہے۔ جہاں ضرورت ہو یہ جہاد قلم سے ہوگا اور جہاں ضرورت پیش آئے اسلحے سے ہوگا۔ کہیں اس جہاد کا اسلحہ تعلیم و تربیت ہوںگے‘ کہیں جدید ترین عسکری ایجادات۔ گویا جہاد محض عسکری جدوجہد کا نام نہیں بلکہ اس مجموعی اوراجتماعی عمل کا نام ہے جو معاشرے کی اصلاح اور بقاے حیات کے لیے فاسد مادوں کو دُور کرکے فضا کو صحت مند‘ سازگار اور عدل و امن کا مرکز بنا دے۔
حقوق انسانی کی بحالی اور تحفظ اس کا ایک بنیادی محرک و مقصد ہے۔ قرآن کریم نے اس پہلو کو انتہائی واضح اور متعین الفاظ میں یوں بیان کیا ہے: ’’آخر کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں ان بے بس مردوں‘ عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑو جو کمزور پاکر دبا لیے گئے ہیں۔ اور فریاد کر رہے ہیں کہ خدایا! ہم کو اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں‘ اور اپنی طرف سے ہمارا کوئی حامی و مددگار پیدا کردے‘‘۔ (النساء ۴:۷۵)
ظلم‘ استحصال اور حقوقِ انسانی کی پامالی کو دُور کرنا اسلام کی نگاہ میں ایک عظیم انسانی خدمت ہے۔ اس ظلم کا نشانہ بننے والے مسلمان ہوں یا غیرمسلم‘ اصلاحِ احوال کے لیے اہلِ ایمان پر جہاد کو فرض کردیا گیا ہے۔ گویا جہاد نہ صرف اہلِ ایمان بلکہ انسانوں کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔ نتیجتاً ترکِ جہاد کا واضح مطلب طاغوت اور ظلم کے اہلکاروں کو مظلوموں کے خون‘ عزت اور مال سے کھیلنے کی آزادی فراہم کرنا ہوگا۔ اس حیثیت سے جہاد ایک تحفظ اور قوتِ مزاحمت (deterrence) فراہم کرتا ہے۔ اسی بنا پر قرآن نے یہ بات کہی ہے کہ تم اپنے گھوڑوں کو تیار رکھو اور اپنی قوت و اتحاد کو اتنا مضبوط بنالو کہ ظلم و کفر کی قوتیں تمھارے سامنے سر نہ اٹھا سکیں اور بغیر کسی قوت کے استعمال کے وہ محض اس دبائو کی بنا پر اللہ کے بندوں پر زیادتی سے باز رہیں۔
’جہاد‘ اور ’قتال‘ کی اصطلاحات اور ان کے قرآن کریم میں استعمال سے ناواقفیت کی بنا پر ان دونوں اصطلاحات کو تشدد‘ غارت گری اور انتہاپسندی سے وابستہ کر کے بعض عمومی نتائج نکال لیے گئے ہیں۔ انھیں اس کثرت سے ابلاغی ذرائع‘ علمی تحریرات اور سیاسی بیانات میں نشر کیا جا رہا ہے کہ وہ سادہ لوح افراد بھی جو قرآن سے کچھ واقفیت رکھتے ہوں ان تعبیرات کو سن کر معذرت پسندانہ رویہ اختیار کرلیتے ہیں اور جہاد کو دفاعی جنگ قرار دے دیتے ہیں۔ حالانکہ قرآن وسنت نے امر بالمعروف ونہی عن المنکر اور فتنہ و فساد اور ظلم کو رفع کرنے کے لیے جہاد کو ایک فریضہ قرار دیا ہے۔ گویا یہ ایک ردِعمل پر مبنی جوابی (reactive) حکمت عملی نہیں ہے بلکہ ایک مثبت عمل کی مثبت (pro-active) تعلیم ہے‘ جس کا مقصد معاشرے میں امن کا قیام‘ عدل کی سربلندی اور بغاوت‘ سرکشی‘ عدمِ تحفظ اور ظلم کا ابطال ہے۔ یہ ایک اخلاقی اور انسانی مطالبہ ہے۔ اسی لیے مدینہ منورہ میں پہلی اسلامی ریاست کے قیام کے ساتھ ہی جو بین الاقوامی معاہدہ مسلمانوں اور یہود کے درمیان ہوا اس میں یہود نے بھی ریاست میں امن کی بقا اور بیرونی خطرے کے مقابلے کی شکل میں جہاد میں شرکت کرنے اور اخراجات میں اپنا حصہ ادا کرنے کا تحریری معاہدہ کیا تھا۔ گویا اہلِ ایمان کی طرح وہ بھی جان اور مال سے جہاد میں شرکت کے لیے آمادہ و پابند ہوئے۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ یہود اور مسلمانوں کے اصولی طور پر جہاد میں شامل ہونے کا مقصد مشرکین کو بزورِ قوت مسلمان بنانا نہیں تھا بلکہ ظلم کے خلاف یک جہتی کا اظہار تھا۔
اسلام کے سیاسی کردار کو عموماً مسلح قوت کے ساتھ وابستہ کرکے ایک تصوراتی منطقی تعلق تلاش کیا جاتا ہے اور بعض مسلم ممالک کی مثال دے کر اس مفروضے کو ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ چنانچہ مصر اور الجزائر کو خصوصاً بطور مثال پیش کیا جاتا ہے کہ سادات کے قتل کا سبب مسلح بغاوت کے ذریعے اسلامی ریاست کے قیام کا خواب تھا‘ یا الجزائر میں ۹۰ کے عشرے میں جو قتل و غارت ہوا وہ مسلح قوت کے ذریعے اسلامی ریاست کے قیام کی کوشش تھی۔
اس قسم کے دعوے کرتے وقت تحقیقی دیانت کے تمام اصولوں کو نظرانداز کرتے ہوئے یہ بات فراموش کر دی جاتی ہے کہ مصری آمر انور سادات کے حوالے سے کیمپ ڈیوڈ معاہدہ اور مصر اور اسرائیل کی قربت کا اس سانحے میں کیا کردار تھا‘ یا الجزائر کے بلدیاتی انتخابات میں دینی رجحان کے حامل جدید تعلیم یافتہ منتخب نمایندوں نے اعلیٰ درجے کی کامیابی کے لیے کون سا ’مسلح دستہ‘ استعمال کیا تھا۔ اس کے برعکس جب ان لوگوں کی جمہوری ذرائع سے برسرِاقتدار آنے کی امید پیدا ہوئی تو وہ ممالک جو صبح شام جمہوریت کا کورس الاپتے نہیں تھکتے اور جو خصوصاً عالمِ عرب میں جمہوریت کی درآمد کو اپنا مقدس مشن قرار دیتے ہیں‘ انھی ممالک نے بلکہ اس ملک نے بھی جو یک قطبی قوت ہونے کا دعویٰ کرتا ہے‘ الجزائر میں ہونے والے جمہوری عمل کے انہدام کے لیے فوج کے بے رحمانہ استعمال کو قانونی عمل قرار دیا اور ملک میں ہونے والے جمہوری عمل کو پیچھے کی طرف لوٹا دیا۔ آج تک الجزائر جمہوریت سے محروم ہے اور اس محرومی کی ذمہ داری صرف یک قطبی قوت پر عائد ہوتی ہے۔
اب ہم دیکھیں گے کہ کیا واقعی جہاد کا مقصد مسلم اور غیرمسلم دنیا پر ’شریعت‘ کو ’مسلط‘ کرنا ہے؟ یہ بات مغربی مصنفین شدومد سے کہہ رہے ہیں۔
یہ بات کہتے وقت شریعت کا ایک مخصوص رنگ آمیز مفہوم سامنے رکھا جاتا ہے‘ جس میں دوسرے مذاہب کے افراد کو مذہبی آزادی اور اپنی تہذیب اور رسومات کی ادایگی سے محروم کرکے زبردستی مسلمان بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ حقیقتِ حال اس سے بہت مختلف ہے۔ نظری حیثیت سے قرآن کی سیاسی تعلیمات میں غیرمسلموں کو نصوص کی شکل میں مذہبی اور ثقافتی آزادی کا تحفظ دیا گیا ہے۔ چنانچہ اگر کوئی مسلمان گروہ شریعت کا نفاذ چاہتا ہو تو اس کے لیے قرآن کے نصوص کے خلاف پالیسی بنانا اصطلاحی اور عملی تضاد کی حیثیت رکھے گا۔ عملی زاویے سے دیکھا جائے تو غیرمسلم اکثریتی ممالک میں مسلمان مفکرین نے شریعت کے نفاذ کا مفہوم کبھی یہ نہیں لیا کہ وہاں پر خونی انقلاب برپا کرکے شریعت مسلط کر دی جائے‘ بلکہ ایک جانب مسلمانوں کو یہ یاد دہانی کراتے رہے کہ وہ اپنے معاملات کو شریعت کے مطابق سرانجام دیں‘ مثلاً نکاح‘ طلاق‘ میراث کے حوالے سے اسلامی احکام کی پیروی کی جائے اور سودی کاروبار سے اجتناب کیا جائے وغیرہ‘ اور دوسری طرف اسلام کے دعوتی پہلو کو اُجاگر کرتے ہوئے یہ بات کہتے رہے کہ اگر ایک طویل دعوتی عمل کے نتیجے میں غیرمسلم برضا و رغبت اسلام قبول کرنے کے بعد اسلامی تعلیمات کو اپنے ملک میں نافذ کرنا چاہیں تو دستوری اور جمہوری ذرائع ہی کواستعمال کیا جائے۔ قوت و تشدد کے استعمال کو ہمیشہ روکنے کی کوششیں کی گئیں۔
امریکا یا برطانیہ کے چند گنے ُچنے یونی ورسٹی کیمپس پر اگر حزب التحریر کے بعض جوشیلے نوجوانوں نے کسی اجتماع یا پوسٹر میں یہ دعویٰ کیا کہ وہ امریکا یا برطانیہ میں خلافت کا نفاذ کرنا چاہتے ہیں تو اس طرح کے انفرادی اور محدود عمل کو اُمتِ مسلمہ کی فکر نہیں قرار دیا جاسکتا اور نہ یہ اسلام اور عالمِ اسلام کی غالب فکر کی نمایندگی کہی جاسکتی ہے۔ ایک مسلم ملک میں بھی جہاں ۹۷ فی صد آبادی مسلم ہو‘ وہ اسلامی ریاست غیرمسلموں کے شخصی‘ مذہبی اور ثقافتی معاملات میں دخل اندازی نہیں کرسکتی اور نہ ان پر شریعت کو مسلط کرسکتی ہے۔ لیکن دوسری طرف یہ بات بھی نہ صرف عدل کے منافی بلکہ مضحکہ خیز ہوگی کہ ۳ فی صد آبادی کا دل رکھنے کے لیے ۹۷ فی صد آبادی کو اپنی دینی‘ ثقافتی‘ علمی‘ قانونی اور ابلاغی روایات و نظریات کو ملک میں نافذ کرنے کے حق سے محروم کر دیا جائے۔ مغربی سیکولر جمہوریت تو ۵۱ فی صد کی رائے کا احترام کر کے جو چاہے مسلط کردے اور مسلم ممالک کے ۹۷ فی صد عوام کی خواہشات اور مطالبات کو محلے والوں کی دل شکنی کے خیال سے نافذ نہ کرنا ظلم کی بدترین شکل اور جمہوریت کے ساتھ گھنائونا مذاق ہی کہا جا سکتا ہے۔ اگر مغرب کی سیکولر جمہوریت ۹۷ فی صد عوام کی رائے کے مقابلے میں ۳ فی صد اقلیت کو زیادہ اہمیت دیتی ہے تو یہ اس کی عقل کا فتور ہے۔ خود مغربی جمہوریت کے اصول یہ تقاضا کرتے ہیں کہ اگر پاکستان یا کسی اور مسلم ممالک میں ۹۷ فی صد عوام شریعت کا نفاذ چاہتے ہوں تو اسے شریعت ’مسلط‘ کرنا نہیں کہاجاسکتا۔
جہاد کے حوالے سے یہ ہوائی بھی اڑائی جاتی ہے کہ یہ جنت کے حصول کا ایک مختصر راستہ (short cut) ہے اور بہت سے افراد جو اپنے ماضی کی زندگی میں اسلام پر عامل نہ رہے ہوں‘ اس ایک آسان ذریعے سے نجات حاصل کرسکتے ہیں۔ نظری طور پر ممکن ہے اس خیال میں کوئی منطقی صداقت پائی جاتی ہو‘ لیکن عملاً جن لوگوں نے آج تک یہ راستہ اختیار کیا ہے ان میں تین نمایاں مثالیں مسلم دنیا سے دی جاسکتی ہیں:
ایک نکتہ یہ بھی اٹھایا جاتا ہے کہ ’جہاد کا تصور نظری طور پر بڑی تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں (WMD) یا توڑ پھوڑ کے لیے اخلاقی بنیاد فراہم کرتا ہے‘۔ شاید یہ بات کہتے وقت اس کے محرک بھول جاتے ہیں کہ ہیروشیما اور ناگاساکی کی تباہی کا سبب اسلام کا تصورِ جہاد نہیں تھا‘ بلکہ لادین جمہوریت کا صبح و شام ورد کرنے والی ریاست کا توسیع پسند ذہن تھا۔ خود عراق کے پس منظر میں صدام حسین کوایران کے خلاف صف آرا کروانے کے لیے مکمل حمایت اور مدد کرنے والا نہ کوئی القاعدہ کا لیڈر تھا اور نہ کسی مسلم ملک کا کوئی مفتی اعظم‘ بلکہ یک قطبی قوت کا معاشی مفاد اور واضح طور پر تیل کے ذخائر پر قابض ہونے کی خواہش تھی۔
قرآن کا تصورِ جہاد ایک اصلاحی عمل ہے جو ظلم‘ قتل و غارت اور استحصال کو ختم کرنے اور امن‘ سلامتی‘ عدل و انصاف کے قیام کے لیے ہاتھ‘ زبان اور دل و دماغ کے استعمال کو اور اپنی جان اور اپنے مال کو بازی پر لگادینے کو ایک انسانی فریضہ قرار دیتا ہے۔ یہ قرآنی تصور حقوقِ انسانی کی بحالی اور محکوم اقوام کو آزادی دلانے کے لیے قوت کے استعمال کو ایک اخلاقی فریضہ قرار دیتا ہے اور بغیر کسی معذرت کے اس کی عظمت کا اعلان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اللہ کی نگاہ میں وہ لوگ جو سجود و رکوع کرنے کے مقامات پر مصروف ِعبادت رہتے ہیں اور وہ جو میدانِ کارزار میں اپنے مال اور جان کی بازی لگاتے ہیں برابر نہیں ہوسکتے۔ وہ جہاد کرنے والوں کے عمل کے لیے ’اعظم درجہ‘ کے الفاظ استعمال کرتا ہے۔ اگر معروضی طور پر غور کیا جائے تو قرآن کریم کا جہاد کے بارے میں یہ غیرمعذرت پسندانہ ‘ شفاف‘ عقلی اور مصلحانہ تصور ہی انسانیت کو فلاح‘امن‘ تحفظ‘ نجات‘ عدل و انصاف اور حقوقِ انسانی کے احترام سے روشناس کرا سکتا ہے۔ جہاد وہ ضمانت فراہم کرتا ہے جس کی بنا پر فتنہ و فساد‘ طاغوت اور مکروفریب لرزہ براندام رہتا ہے اور انسانیت جھوٹ اوردھوکے سے نجات حاصل کرکے عافیت و ترقی پذیری کی راہ پر گامزن ہوسکتی ہے۔
امن و انصاف کا حصول انسان کا ایک بنیادی مسئلہ ہے اور تمام مذاہب نے اس کی اہمیت اور مرکزیت کے پیش نظر اسے حل کرنے کی کوشش کی ہے۔ اگر حقیقت پسندانہ تجزیہ کیا جائے تو سیکولر مفکرین کے نزدیک بھی یہ اتنا ہی اہم ہے اگرچہ اس کے بنیادی تخیلات اور پس پردہ جذبہ مکمل طور پر کتنا ہی مختلف کیوں نہ ہو۔
سرمایہ دارانہ ذہنیت کے زیراثر جو معیشت کے استحکام‘ انفرادیت اور ہر دم بدلتی ہوئی اخلاقیات کا مجموعہ ہے‘ ایک نئی سوچ اور فکر یہ پیدا ہوگئی ہے کہ ترقی یافتہ ممالک اپنے طویل المیعاد سماجی اور معاشی فوائد جنگ کے ذریعے حاصل نہیں کرسکتے۔
عدم تشدد اور عدم جارحیت کا فلسفہ جو پہلے چند افراد یا مذاہب کی ذاتی فکر کا مظہر سمجھا جاتا تھا‘ وقت گزرنے کے ساتھ عالمی سیاسی حکمت عملی کی صورت اختیارکرگیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فوج اور جنگوں کے ذریعے خام مال پر قبضہ اور نئی معاشی منڈیوں کی تلاش کی سرمایہ دارانہ حکمت عملی کی جگہ یہ سوچا جانے لگا ہے کہ امن کے نام پر‘ عدم جارحیت کے زیرعنوان اور آزاد تجارت کا نعرہ بلند کر کے بھی سرمایہ دارانہ قوتیں وہی کچھ حاصل کرسکتی ہیں جس کے لیے پہلے طول طویل اور خوں ریز جنگیں لڑی جاتی تھیں۔
عالمی جنگوں کے دور کے بعد بین الاقوامی سطح پر ترقی پذیر ممالک پر قابو پانے اور انھیں اپنا ماتحت بنانے کے لیے تجارت‘ سیاحت اور جمہوریت کو قابلِ عمل طریقہ اور بنیاد سمجھا گیا۔ امن کی تلاش کے اس دور میں جنگی تصادم سے بچنے کی کوششیں اس لیے بھی کی گئیں کیوںکہ جنگ کو تجارت اور سیاحت کا دشمن خیال کیا جاتا ہے۔
سرد جنگ کے زمانے میں علاقائی معیشت‘نیوکلیئر صلاحیت اور باہمی تعاون کی راہیں کھلیں۔ گو صرف فکری طور پر ہی سہی ‘ اس سلسلے میں اقوام متحدہ کا قیام عدم جارحیت کے فلسفے کا عالمی سطح پر ظہور تھا۔ اس ادارے کی کامیابی اور ناکامی سے قطع نظر اس کے قیام کا بڑا مقصد مسائل کا پرامن حل تلاش کرنا تھا۔ اس لیے امن کا قیام و انصرام اس سیکولر ادارے اور اس کے رکن ممالک کا جزو ایمان بن گیا۔
دیگر اقوام کو یورپ کے سامراجی اور نوآبادیاتی تسلط اور چیرہ دستیوں سے آزاد کرانے والی جمہوری جدوجہد ایک عرصے تک نہ صرف پُرامن تحریک اور تشدد سے آزاد مزاحمتی تحریک سمجھی جاتی رہی‘ بلکہ دیگر تحریکات کو بھی اس کا حصہ تصور کیا جاتا رہا‘ مثلاً مساوات مرد و زن کی تحریک۔ مغرب میں یہ تحریک عورتوں کے مساوی حقوق کی علم بردار بن کر اٹھی‘ جب کہ عورتوں کی معاشرے میں انصاف پسندانہ اور شفاف شراکت کار کو اہمیت نہیں دی گئی۔ بہرصورت یہ ایک پُرامن تحریک ہی رہی۔ لیکن سیاسی منظرنامے پر موجود معاشرے میں جمہوریت کے نفاذ کی تحریکیں کبھی تو پرامن رہیں اور بعض اوقات تشدد پسند۔ تاہم‘ عالمی امن اور مسائل کے غیرفوجی حل پر مشتمل تحریکیں اپنے تمام تر سیکولر کردار کے باوجود ایک اچھے انسانی معاشرے کے قیام کا دعویٰ اور اس کے لیے سرگرمی اختیار کرتی رہیں۔ ایٹمی قوت سے پاک دنیا کی تحریک بحالیِ امن اور سیکولر معاشرے کے قیام کی داعی رہی۔
دوسری طرف اُن لوگوں کو انتہا پسندی‘ بنیاد پرستی‘ تشدد‘ دہشت گردی اور خون خرابہ شروع کرنے کا الزام دیا جاتا تھا جن کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو۔ گو کئی عشروں تک شمالی آئرلینڈ کے کیتھولک اور پروٹسٹنٹ عیسائی فرقوں کو مذہبی تشدد‘ بنیاد پرستی اور انتہاپسندی کا الزام دیا جاتا تھا‘ تاہم اگر حقیقت کا جائزہ لیا جائے تونہ کیتھولک اور نہ پروٹسٹنٹ فرقہ ہی اس قسم کے خون خرابے کی اجازت دیتا ہے‘ نہ کروشیا اور سربیا کے لوگوں کی بوسنیا کے مسلمانوں کے خلاف دہشت گردی ہی صحیح مذہبی عیسائیت کا اظہار کہی جاسکتی ہے۔ اسی طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ باضمیر‘ دیانت دار اور صحیح العقیدہ یہودی بھی صہیونیوں کے فلسطینی مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف کھلے تشدد اور ننگِ انسانیت اقدامات کی حمایت نہیں کرتے۔ بہت سے اسرائیلی پائلٹوں کے فلسطین کے مختلف ٹھکانوں پر بم باری کرنے کے انکار سے واضح ہوتا ہے کہ تمام یہودی فلسطین میں ہونے والی صہیونی دہشت گردی میں شریک نہیں‘ یعنی چاہے مجبوراً انھیں ایسے اقدام کرنے پڑتے ہوں۔ اس مختصر جائزے سے ظاہر ہوتا ہے کہ امن ہر انسان کی مشترک خواہش ہے‘ چاہے وہ دین دار ہو یا سیکولر۔ مزید یہ کہ مذہب کے نام پر تشدد کسی بھی معاشرے میں پسند نہیں کیا جاتا۔
عام طور پر امن اور بحالی امن کے اقدامات‘ مسائل کے پرامن حل‘ اجتماعی دفاع کی سوچ‘ بچائو کی مختلف تدابیر‘ تخفیف اسلحہ جیسے موضوعات آج کی دنیا کے عملی مسائل ہیں اور عموماً یہ مسائل اور جھگڑے‘ چاہے سیاسی ہوں یا معاشی‘ ہمیں غور کرنا ہوگا کہ ان کا حل طاقت و قوت سے ہوگا یا گفت و شنید سے۔ اس لیے بحالی امن کے اقدامات پر گفت و شنید کے لیے ایسے فورم (forum) ضروری ہیں جہاں ان مسائل پر معروضی طور پر غور اور تبادلۂ خیالات کیا جاسکے۔
اجتماعی دفاع کی سوچ باہمی اور کثیرجہتی تعلقات کی صورت میں نمودار ہوتی ہے اور علاقائی یا عالمی امن پر منتج ہوتی ہے۔ تخفیف اسلحہ کا مطلب اسلحے کے عدم توازن کو ختم کرنے کی کوششیں‘ ایٹمی اسلحے پر موثر کنٹرول اور ایٹمی فضلہ جات کو صحیح طور پر ٹھکانے لگانا اور شعوری طور پر اسلحے کی دوڑ میں حصہ نہ لینے جیسے اقدامات کرنا ہیں۔ امن کے لیے اقوام متحدہ جیسے اداروں کو بلاواسطہ شریک کرنا‘ بچائو کی حکمت عملی اور تدابیر کا اہم جزو ہوسکتا ہے۔ اگرچہ امریکی سامراج کی یک قطبی دنیا اور اس کے غیر قانونی طور پر عراق پر حملے اور قبضہ کرنے کے اقدامات نے نہ صرف اقوام متحدہ اور اس جیسے اداروں کی بے بسی کو واضح کر دیا ہے بلکہ ان کی موت پر مہر تصدیق بھی ثبت کر دی ہے۔ لیکن ہم اس سے مایوس نہیں ہیں بلکہ اس سے ہمارے اس خیال کو تقویت پہنچی ہے کہ دانش ور‘ مذہبی قائدین اور وہ تمام لوگ جو کسی بھی سطح پر پالیسی کی منصوبہ بندی سے وابستہ ہیں‘ اجتماعی طور پر موجودہ بین الاقوامی معاشی‘ سماجی اور سیاسی مسائل پر ہماری رہنمائی کرسکتے ہیں اور ایک نئی دنیا تعمیر کرنے میں اپنا حصہ ادا کرسکتے ہیں‘ ایسی دنیا جس کی بنیاد گفت و شنید‘ دلیل و برہان‘ باہمی تعلق اور عدم تشدد کی سوچ پر ہو۔
عالمی امن کے حصول میں موجودہ مذاہب کا کیا کردار ہے‘ اور خاص طور پر اسلام کا اس بارے میں کیا نقطۂ نظر ہے؟ یہ سوال ہمیں غیر جذباتیت اور خالص دلیل و برہان کی بنیاد پر قرآن و سنت کی رہنمائی میں حل تلاش کرنے کی دعوتِ تحقیق دیتا ہے۔
لغوی طور پر اسلام کا مادہ س ل م ہے جس کے معنی امن‘ سکون‘ بندگیِ رب اور اللہ کی بڑائی کے سامنے سرتسلیم خم کر دینا ہے۔ اگر عملی حقیقت یہی ہے تو نام نہاد ’’مقدس جنگ‘‘ اور ’’اسلامی جہاد‘‘ کا عالمی شوروغوغا کیوں؟ اس شوروغوغا میںاور اسلام کے بارے میں غلط فہمیاں پیدا کرنے میں عالمی ابلاغ عامہ بالخصوص الیکٹرانک میڈیا‘ مستشرقین اور آزاد خیال لوگوں کی ان تحریروں کا بڑا کردار ہے جن میں اسلام کی مسخ شدہ تصویر پیش کی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر جوڈتھ مِلر (Judith Miller) کی کتاب ’’خدا کے ننانوے نام‘‘ پیش کی جاسکتی ہے جو اپنے منصب اور ذمہ داری کے لحاظ سے نیویارک ٹائمز کی مشرق وسطیٰ کے امور پر ماہر اور نامہ نگار ہے لیکن اسے کبھی خود مشرق وسطیٰ کے کسی ملک میں معقول عرصے تک رہنے اور مطالعہ کرنے کا موقع نہیں ملا‘ اور نہ وہ عربی کی ابجد سے ہی واقفیت رکھتی ہے لیکن پھر بھی اسلام کے بارے میں سند سمجھی جاتی ہے۔ ایڈورڈ سعید (Edwards Saeed) اس کی کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ان ’’ماہرین‘‘ (مِلر‘ سیموئیل ہن ٹنگٹن‘ مارٹن کرامر‘ برنارڈ لیوس‘ ڈینیل پائپز‘ سٹیفن ایمرسن اور باری رُبن‘ اس کے علاوہ اسرائیلی مصنفین) کے لکھنے کا ایک مقصد یہ ہوتا ہے کہ اسلام کو ’’خطرے‘‘ کے طور پر پیش کیا جائے‘ اسلام کو دہشت اور تشدد کا علم بردار ثابت کیا جائے اور دوسری طرف ذاتی تشہیر‘ میڈیا میں اثرورسوخ پیدا کرنے کے ساتھ اپنی جیبیں بھی بھری جائیں۔ اسی طرح کی ایک اور مثال اسٹیفن شوارٹز (Stephen Schwartz) کی کتاب ’’اسلام کے دو چہرے: آل سعود روایت سے دہشت تک‘‘ ہے جوایسے ’’شیاطین‘‘ کو تلاش کرنے کی ایک ناکام کوشش ہے جن کا وجود شاید مصنف کے ذہن کے علاوہ اور کہیں نہیں پایا جاتا۔
اسلام کی اس تصویر کشی کی ایک کھلی وجہ ’’جہاد‘‘ کو غیرمسلموں اور ان کی تہذیب کے دشمن کے طور پر پیش کرنا ہے۔ ۱۱ستمبر کے ہولناک واقعات نے مسلمانوں اور جہاد کے متعلق صدیوں سے مروجہ غلط فہمی پر مہرتصدیق ثبت کردی ہے۔ لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس بارے میں عمومی طور پر مسلمانوں نے معذرت خواہانہ یا جذباتی رویے اختیار کرتے ہوئے مغرب کو جہاد کے صحیح تصور اور حقیقی مقصد کو سمجھانے میں کوئی مدد کی اور نہ مثبت طور پر اسلام کے اصول پیش کیے۔ نتیجتاً آج جہاد کو بڑی آسانی کے ساتھ تشدد اور دہشت گردی کا ہم معنی قرار دے دیا گیا ہے۔
لغوی طور پر تشدد کا مطلب کسی کو تکلیف دینے‘ زخمی کرنے اور تذلیل کرنے کے لیے طاقت کا سوچا سمجھا استعمال کرنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ریموٹ کنٹرول بم کے ذریعے کسی کو زخمی کرنا یا قتل کرنا یا املاک کو نقصان پہنچانا دہشت گردی اور تشدد کے زمرے میں آتا ہے۔ گو‘ہر قوت کا استعمال تشدد نہیں کہا جا سکتا۔ لیکن جب بھی قوت کے استعمال کے ساتھ مقصد یہ ہو کہ کسی کو اذیت اور ذلت کا مزا چکھایا جائے تو پھر یہ استعمالِ قوت تشدد بن جاتا ہے۔
اس چیز کو ہم سرجن کے نشتر کی مثال سے واضح کرسکتے ہیں جس کا مقصد نشتر کے ذریعے تکلیف دینا نہیں ہوتا‘ بلکہ فاسد مادہ کا نکالنا یا ناکارہ عضو کا اس غرض سے کاٹنا ہوتا ہے کہ باقی سارا جسم اس تکلیف اور غلاظت سے نجات حاصل کر کے صحت مند اور توانا رہے۔ جہاد کا ٹھیک یہی مقصد اور مقام قرآن میں بیان کیا گیا ہے‘ یعنی معاشرے میں امن و انصاف کے قیام اور لاقانونیت اور استحصال کے خاتمے کے لیے جہاد کو ایک ذریعہ بنانا۔
معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرنے والے لوگ اکثر جہاد کی دو قسمیں مدافعانہ اور جارحانہ بیان کرتے ہیں اور دنیا کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں‘ یعنی دارالحرب اور دارالسلام۔ وہ یہاں تک کہتے ہیں کہ جہاد صرف اور صرف مدافعانہ ہی ہوتا ہے اور کسی کے خلاف جنگ کرنا اسلام کا مدعا نہیں ہے۔ دوسری طرف کچھ لوگ ہر اُس چیز کے خلاف جنگ کرنا جہاد قرار دیتے ہیں جو غیراسلامی ہو۔ دونوں تعبیرات جہاد کے حقیقی اور وسیع مفہوم کا احاطہ نہیں کرتیں۔
اگر ہم قرآن مجید کا مطالعہ کریں تو اس میں لفظ جہاد تقریباً۴۰ مرتبہ اور لفظ قتال تقریباً ۱۶۰ مرتبہ مختلف معنوں میں آیا ہے۔قرآنی تعلیمات کے مطابق جہاد کسی مقصد کے حصول کے لیے بھرپور کوشش‘ انتہائی جدوجہد اور پیہم عمل کا نام ہے‘ جب کہ قتال سے مراد لڑنا اور جنگ کرنا ہے۔
قرآن کے مطابق جہاد کا مقصد لوگوں کو ظلم و ناانصافی‘ غلامی اور استحصال سے نجات دلانا اور حقوقِ انسانی کی بحالی ہے۔ اگرچہ زیادہ زور مسلمانوں کے حقوق پر دیا گیا ہے لیکن اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا صحیح نہیں کہ جہاد صرف مسلمانوں کو ان کے حقوق دلانے سے تعلق رکھتا ہے۔ قرآن میں لفظ مستضعفین ان لوگوں کے لیے استعمال ہوا ہے جو ظلم و زیادتی کا شکار ہوں اور قرآن ان کے حقوق کی بحالی کے لیے لڑنے پر اُبھارتا ہے۔ یہ مستضعفین مسلمانوں کے علاوہ دیگر مظلوم افراد بھی ہو سکتے ہیں۔ ارشاد ربانی ہے:
بھلا کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں اور ان ناتواں مردوں‘ عورتوں اور ننھے منے بچوں کے لیے جہاد نہ کرو جو یوں دعا مانگ رہے ہیں کہ اے پروردگار ان ظالموں کی بستی سے ہمیں نجات دے اور ہمارے لیے خود اپنے پاس سے حمایتی اور کارساز مقرر کردے اور ہمارے لیے خاص اپنے پاس سے مددگار بنا۔ (النساء ۴:۷۵)
اگر اللہ تعالیٰ لوگوں کو آپس میں ایک دوسرے سے ہٹاتا نہ رہتا تو عبادت خانے‘ گرجے اور معبد اور مسجدیں بھی ڈھائے جا چکے ہوتے جہاں اللہ کا نام بکثرت لیا جاتا ہے۔ (الحج ۲۲:۴۰)
سورۂ نساء اور سورۂ حج کی مندرجہ بالا آیات سے جو اصول نکلتے ہیں وہ جہاد کے ایک عملِ اصلاح اور حقوق انسانی کے قیام کے لیے ایک حکمت عملی ہونے کو ثابت کرتے ہیں۔ پہلی بات یہاں پر یہ کہی گئی کہ جن عورتوں‘ بچوں اور مردوں کو محض اس بنا پر کہ وہ اپنے رب کی بندگی کرنا چاہتے ہوں‘ ظلم کا نشانہ بنایا جا رہا ہو (جیسے آج مقبوضہ کشمیر ہی میں نہیں بعض مسلم اکثریتی ممالک میں اہلِ حق کے ساتھ کیا جا رہا ہے)‘ تو اہلِ ایمان پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ان کی رہائی اور نجات کے لیے مادی اور اخلاقی امداد کریں۔
اگلی بات یہ واضح کر دی گئی کہ جہاد محض مسلمانوں کی مذہبی آزادی کے حصول کے لیے نہیں ہے‘ بلکہ یہود و عیسائی وغیرہ کو بھی اگر اپنے عبادت خانوں میں عبادت کرنے سے محروم کردیا جائے تومسلمانوں کا فرض ہے کہ ان کا یہ مذہبی حق ان کو دلوائیں۔ اس طرح جہاد محض اُمت مسلمہ کے حقوق انسانی کے تحفظ تک محدود نہیں رہتا بلکہ عالمی طور پر مذہبی حقوق کے احیا و بحالی کے لیے ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔
اصل میں جہاد قرآنی تعلیمات کی روشنی میں انسانی حقوق کی آزادی‘انسانی عظمت کی حفاظت اور بحالی کی ’’تحریک‘‘ کا نام ہے۔ یہ صرف کافروں کے خلاف ایک مقدس جنگ (holy war) نہیں ہے۔ مقدس جنگ کا عربی ترجمہ ’’حرب المقدس‘‘ ہوگا۔ قرآن و سنت کسی مقام پر بھی ’’حرب المقدس‘‘ کی اصطلاح استعمال نہیں کرتے۔ تاریخی طور پر ’’مقدس جنگ‘‘ کا تصور عیسائیت کی پیداوار ہے۔اسی طرح امن و سلامتی اور صلح کے الفاظ اسلامی روایات میں جنگ کی ضد میں استعمال نہیں ہوتے‘ بلکہ اس سے مراد امن‘ برداشت‘ رواداری‘ باہمی اعتماد اور افہام و تفہیم کا کلچر ہے۔ قرآن تمام انسانیت کو ایک امہ قرار دے کر امن کی دعوت دیتا ہے: ’’اور اللہ تم کو سلامتی کے گھر کی طرف بلاتا ہے اور جس کو چاہتا ہے راہِ راست پر چلنے کی توفیق دیتا ہے‘‘ (یونس ۱۰:۲۵)۔ مختلف الفاظ اور حوالوں سے سلامتی اور امن کا تقریباً ۱۳۸ مرتبہ قرآن میں ذکر کیا گیا ہے۔
امن و سلامتی کا وہ تصور جو اسلام کے پیشِ نظر ہے صرف تخفیفِ اسلحہ‘ اجتماعی دفاع کی تدابیر اور عدم جارحیت تک محدود نہیں بلکہ زیادہ وسیع اور ہمہ گیر ہے۔ جزئیات سے صرفِ نظر کرتے ہوئے اسلام کے تصور ’’امن و صلح‘‘ کو سات نکات کی صورت میں پیش کیا جاسکتا ہے جوکہ ’’عالمی امن‘‘ کی بنیاد بن سکتے ہیں۔
اسلامی تصور حیات میں ’’امن و انصاف‘‘کو بنیادی اہمیت حاصل ہے اور اس کا اظہار انفرادی و اجتماعی طور ہردو جگہ پر ہوتا ہے۔ قرآن میں بیان کردہ امن کا تصور بلاواسطہ طور پر تصورِتوحید سے جڑا ہوا ہے۔ توحید‘ جس پر اسلامی فکر کی بنیاد ہے‘ کا مفہوم دراصل ایک انسان کا اپنے طرزِعمل‘ اپنی شخصیت اور سماجی رویوں میں موجود تناقصات اور تضادات کا شعوری خاتمہ کرنا ہے۔ اس کے بعد انفرادی سطح پر جو شخصیت سامنے آتی ہے وہی امن و انصاف کی مستند اور مؤثر بنیاد بنتی ہے۔ توحید انسان کو ہر قسم کے دوغلے پن اور شخصیت کے انتشار سے بچاتی ہے‘ چنانچہ خواہ اپنے خاندان یا کاروباری شریکِ کار سے معاملات طے کرنے ہوں‘یا کسی حکومتی عہدے کی ذمہ داری پوری کرنی ہو‘ توحید ہر ہر مرحلے میں اس کے لیے رہنما اصول فراہم کرتی ہے۔
اندرونی تضادات کا خاتمہ اور فکروعمل کی یہ یک جائی (توحید) ایک واقعاتی امن کا راستہ کھولتی ہے۔ توحید یا ایک بالاتر اصول کی آفاق و انفس میں فرمانروائی ان لوگوں کے لیے بھی زندگی میں یک رنگی پیدا کرنے کی بنیاد فراہم کرتی ہے جو بظاہر مسلمان ہونے کے دعوے دار نہیں۔ یہی سوچ و فکر کی یکجائی عالمی سطح پر انفرادی اور اجتماعی مسائل کے حل اور امن و انصاف کے لیے اولین بنیاد فراہم کرتی ہے۔
انسانی معاشرے میں قیام امن کا دوسرا سنہری اصول عدل ہے۔ قرآن عدل کی تقریباً سات جہتوں کی طرف ہماری رہنمائی کرتا ہے جو پایدار معاشرتی امن کی بنیادیں ہیں۔
پہلی اور بنیادی چیز قانون کی حکمرانی‘ مساوات اور انسانی جان کا احترام ہے۔ قانون کی حقیقی حکمرانی سے معاشرے کے مختلف طبقات کے درمیان فرق ختم ہوجاتا ہے۔ قانون بنیادی انسانی حقوق میں مسلم اور غیرمسلم کی تقسیم نہیں کرتا۔غیرمسلم کی جان‘ مال اور عزت و آبرو کی حفاظت اتنی ہی اہم ہے جتنی کسی مسلم کی۔ انسانی جان کی حفاظت اور نشوونما بنیادی انسانی قدر ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ معاشرے میں امن و سکون اس وقت ہی قائم ہوسکتاہے جب انسانی جان کی حفاظت کو سب سے زیادہ اہمیت دی جائے۔ انسانی جان کی حفاظت اور نشوونما ہی امن و سکون اور پایدار معاشرے کی ضمانت ہے۔ قرآن نہ صرف انسانی قتل کی مذمت کرتا ہے بلکہ اس نے ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل اور ایک انسان کی زندگی کے بچانے کو‘ گویا پوری انسانیت کو بچانا قرار دیا ہے (المائدہ ۵:۳۲)۔ اور تعلیمات نبویؐ میں تو درختوں‘ پرندوں اور جانوروں تک پر ظلم و زیادتی کی اجازت نہیں دی گئی۔
اگلا پہلو سماجی اور معاشی عدل ہے۔ اس کا مطلب ہے ایک شخص اپنے خاندان اور معاشرے حتیٰ کہ ناواقفوں کے حقوق و فرائض کی بھی صحیح طور پر بجاآوری کی کوشش کرے۔ قرآن و سنت حقوق و فرائض پر بہت زور دیتے ہیں اور اسی چیز کو بالکل بنیادی اور نچلی سطح تک پُرامن زندگی کی بنیاد قرار دیتے ہیں۔ حقیقی جاے امن‘ یعنی جنت میں داخلہ اس بات پر منحصر ہے کہ انسان اپنے مالک اور بھائی بند کے حقوق کی ادایگی صحیح طریقے پر کرتا ہے یا نہیں۔ چنانچہ حقوق اللہ ہوں یا حقوق العباد‘ دونوں کی صحیح ادایگی ہی اسے آخرت میں کامیاب بناسکتی ہے۔
پایدار معاشرتی عدل کے قیام کے لیے ضروری ہے کہ ہم نہ صرف اپنے معاملات اور سماجی رویوں میں اس کا اظہار کریں بلکہ اس کا مظاہرہ اپنی تجارت اور معاشی زندگی میں بھی کریں۔ لین دین میں خیانت اور استحصال نہ صرف ایک سماجی برائی ہے بلکہ یہ امن و سکون کو بھی برباد کر دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے خیانت کی سخت سزا مقرر کی ہے تاکہ معاشرے میں امن و سکون پیداہو‘ تجارتی شاہراہیں محفوظ و مامون ہوں اور تجارتی قافلوں کی بھی محفوظ نقل و حرکت ممکن ہو۔
اے لوگو جو ایمان لائے ہو‘ آپس میں ایک دوسرے کے مال باطل طریقوں سے نہ کھائو‘ لین دین ہونا چاہیے آپس کی رضامندی سے۔ اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو۔ یقین مانو اللہ تمھارے اوپر مہربان ہے۔ (النسائ۴:۲۹)
اور ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھایا کرو‘ نہ حاکموں کو رشوت پہنچا کر کسی کا کچھ مال ظلم و ستم سے اپنا لیا کرو‘ حالانکہ تم جانتے ہو۔ (البقرہ ۲:۱۸۸)
اور جب ناپنے لگو تو بھرپور پیمانے سے ناپو اور سیدھی ترازو سے تولا کرو یہی بہتر ہے اور انجام کے لحاظ سے بھی بہت اچھا ہے۔ (بنی اسرائیل ۱۷:۳۵)
اسلام نہ صرف معاشی معاملات میں عدل و انصاف اختیار کرنے کی ترغیب دیتا ہے‘ بلکہ معاشی استحصال (چاہے وہ سود ہو یا کسی اور شکل میں) کی مذمت کرنے کے ساتھ ساتھ اس کا بزور انسداد کرتا ہے اور اس کو معاشرے کے لیے باعثِ نزاع اور معاشی جبر قرار دیتا ہے۔
سیاسی عمل میںآزادانہ شرکت قرآن کے نزدیک ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔ سیاسی انصاف‘ حمایت و مخالفت کا حق ‘ آزادی اور حکومتی امور میں شرکت امن و سکون کی بنیادیں ہیں۔
معاشرتی عدل کا چوتھا نکتہ قرآنی تعلیمات کے مطابق عالمی امن کے قیام کے لیے انفرادی اور سماجی معاملات میں انسان کے اندر تنقیدی سوچ‘ غوروفکر اور شعور کا پیدا کرنا ہے۔ اسلامی نقطۂ نظر سے امن کا قیام اس وقت تک ناممکن ہے جب تک افراد اور معاشرہ دونوں اپنے معاملات میں راستی کا رویہ نہیں اپنا لیتے۔
انفرادی اور اجتماعی پالیسی سازی کا قریبی تعلق معاشرے میں مروجہ تنقیدی رویوں کے ساتھ ہے۔ تنقیدی نقطۂ نظر سے مراد کسی شخص کی ذاتی پسند و ناپسند نہیں بلکہ عقل کا صحیح‘ معروضی اور متوازن استعمال ہے۔ اجتماعی منصوبہ بندی اور پایدار امن کے لیے اس کا وجود ایک بنیادی ضرورت ہے۔
اسلامی تصورحیات میں امن و سکون‘ صنفی تعلقات اور جنسی اخلاقیات کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ غیراخلاقی جنسی تعلق کو قرآن نہ صرف فحش‘ بلکہ ایک بڑی خیانت‘استحصال اور معاشرے کی ’’بیمار‘‘ ذہنیت کی عکاسی قرار دیتا ہے۔ دنیا میں پائے جانے والے باقی مذاہب کے برعکس اسلام تجرد اور رہبانیت کی زندگی اختیار کرنے کی نفی کرتا ہے۔ اسلام کے نزدیک خاندان کے ادارے کا قیام‘ معاشرے اور ریاست کی ذمہ داری ہے۔ اس کا فریضہ ہے کہ وہ غیرشادی شدہ لوگوں کو رشتۂ ازدواج میں منسلک کرائے:
تم میں سے جو مرد اور عورت مجرد ہوں ان کا نکاح کر دو اور اپنے نیک بخت غلام اور لونڈیوں کا بھی۔ اگر وہ مفلس بھی ہوں گے تو اللہ انھیں اپنے فضل سے امیر بنادے گا۔ اللہ کشادگی والا اور علم والا ہے۔ (النور۲۴:۳۲)
اسلام نہ صرف بیوہ کو شادی کی اجازت دیتا ہے ‘ بلکہ خاندان اور بڑے کنبے کی تعریف و توصیف بھی کرتا ہے اور اس پر اُبھارتا ہے۔ ان اقدامات کے ذریعے سے اسلام جنسی بے راہ روی سے بچاتا ہے اور معاشرے میں امن و سکون اور اخلاقی فضا کو قائم کرتاہے۔
اسلامی تصور عدل کا چھٹا اہم پہلو مسلمان معاشروں میں مذہبی آزادی اور اپنے مذہب کے مطابق زندگی گزارنا ہے۔ مذہبی آزادی کے حق کو قرآن میں امن و انصاف قائم کرنے کے لیے بہت اہم قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ قرآن میں آتا ہے:
دین کے بارے میں کوئی زبردستی نہیں۔ (البقرہ ۲:۲۵۶)
بے لاگ قانونی انصاف کا حصول بھی عدل ہی کا ایک پہلو ہے اور اس کا اطلاق مذہب‘ رنگ و نسل‘ صنف اور کسی انسان کے سماجی مقام و مرتبے کے تعصب سے بلند ہے۔ قرآن کہتا ہے:
اے ایمان والو! تم اللہ کی خاطر حق پر قائم ہوجائو‘ راستی اور انصاف کے ساتھ گواہی دینے والے بن جائو‘ کسی قوم کی عداوت تمھیں خلافِ عدل پر آمادہ نہ کر دے۔ عدل کیا کرو جو پرہیزگاری کے زیادہ قریب ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو‘ یقین مانو کہ اللہ تمھارے اعمال سے باخبر ہے۔ (المائدہ ۵:۸)
ایک اور اہم بات معاشرے میں کثیریت (pluralism) کا فروغ‘ مذہبی اور مسلکی آزادی اور اس کا احترام ہے۔ اس کی وجہ سے مختلف مذاہب اور مسالک کے لوگ اکٹھے ایک معاشرے میں امن وسکون کے ساتھ رہ سکتے ہیں۔
عدل وا نصاف کی ان سات جہتوں کا تعلق مسلمانوں یا کسی خاص وقت اور خاص جگہ کے ساتھ نہیں ہے‘ بلکہ یہ آفاقی اخلاقی اصول ہیں جو عالمی مکالمے کی اساس اور بنیاد ہیں اور انھی کے ذریعے امن وسکون‘ عدل و انصاف اور باہمی تعاون کو فروغ ملتا ہے‘ اور یہ اصول ایسی دنیا کی تعمیر کرتے ہیں جس کی بنیاد مذہبی آزادی و رواداری‘ انسانی جان کے احترام اور نشوونما اورفکرونظر کی آزادی پر ہو۔
مسلمان فلاسفر‘ مثلاً الغزالی (م: ۱۱۱۱ئ) اور شاطبی (م: ۱۳۸۸ئ) کے خیال میں اوپر بیان شدہ نکات میں سے پانچ نکات الہامی قانون‘ یعنی قرآن و سنت کی بنیاد بنتے ہیں۔ قرآن کی بہت سی تعلیمات اور احکامات انھی اصولوں کی بنیاد پر ہیں۔ ان اصولوں کی آفاقیت اور اسلامی اصولوں (توحید اور عدل) کے ساتھ عقلی تعلق‘ ان کو ہر ایک کے لیے قابلِ عمل بناتا ہے چاہے اس کا تعلق کسی بھی مذہب یا ثقافت سے ہو‘ اور یہی چیز معاشرے میں امن و انصاف کو دوام بخشتی ہے۔
یہ آفاقی اور غیر فرقہ وارانہ اصول امن کے عالمی مکالمے کی بنیاد ہیں اور شفاف سماجی ایجنڈے کی اساس۔ یہ اصول امن کے قیام اور سیاسی‘ سماجی اور معاشی انصاف کے نفاذ کے لیے بنیادی شرط کی حیثیت رکھتے ہیں۔
آج‘ جب کہ عالمی طور پر ’’سیکولر بنیاد پرستی‘‘ اپنے غیرجامد اور ہرلمحے بدلتے ہوئے خیالات اور اخلاقیات کے ساتھ سیاسی‘ معاشی‘ سماجی‘ قانونی اور تعلیمی اداروں کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے ‘اور آفاقی عالمی اقدار کی جگہ لادین اور سرمایہ دارانہ اقدار فروغ کے لیے سرگرمِ عمل ہیں‘ امن و سکون اور عدل و انصاف ہر شخص کی ذاتی پسند و ناپسند اور سوچ تک محدود ہوکر رہ گیا ہے۔ ’’آفاقی اخلاقی قدروں‘‘ کی جگہ مادیت کا دور دورہ ہے۔ اس خلا کی وجہ سے معاشرے میں تصادم برپا ہے۔ کثیریت‘ انصاف اور امن (داخلی اور خارجی)‘ اس سیکولر تہذیب کا شکار ہوگئے ہیں۔
امن و انصاف کا خواب حقیقت کا روپ کیسے دھارے؟ شاید اس کا جواب ایک ’’اخلاقی فورس‘‘ کے قیام میں مضمر ہے جس میں وہ تمام مذہبی اور سیکولر عناصر شامل ہوں جو تشدد‘ سماجی اور معاشی ناانصافی‘ استحصال اور انسانی حقوق کی پامالی کے خلاف متحد ہوں۔
دانش وروں‘ مذہبی قائدین اور پروفیشنل پر مشتمل یہ ’’اخلاقی فورس‘‘ نہ صرف لوگوں کو حقیقی امن کی آگاہی دے سکتی ہے بلکہ قومی اور بین الاقوامی سطح پر راہِ عمل بھی متعین کرسکتی ہے۔ (Policy Perspectives‘اسلام آباد‘ اپریل ۲۰۰۴ئ)
مغربی محققین واضح تاریخی حقائق کا دیدہ دلیری سے مذاق اڑاتے ہوئے خود قرآن کریم کے حوالے سے وہ بہت سی باتیں دوبارہ اٹھا رہے ہیںجو صدیوں سے زیربحث آتی رہی ہیں اور جن پر مسلم علما اور دانش وروں نے علمی سطح پر بغیر کسی معذرت کے حقائق کو بلاکم و کاست پہلے ہی پیش کر دیا ہے۔
بعض مغربی ناقدین قرآن کریم کی ان آیات کے حوالے سے جن میں جہاد اور قتال کا حکم دیا گیا ہے یہ کہتے ہیں کہ ایسی آیات کی موجودگی میں‘ جو ان کے بقول ان آیات کو منسوخ کر دیتی ہیں جن میں امن ‘ترقی اور محبت کا پیغام دیا گیا ہے‘ اسلام کو کس طرح ایک امن پسند مذہب کہا جا سکتا ہے۔ سورہ نساء کی آیت ۷۴ کو اس کے سیاق و سباق سے نکال کر بطور دلیل پیش کیا جاتا ہے کہ ’’اللہ کی راہ میں لڑنا چاہیے ان لوگوں کو جو آخرت کے بدلے دنیا کی زندگی کو فروخت کر دیں۔ پھر جو اللہ کی راہ میں لڑے گا اور مارا جائے گا یا غالب رہے گا اسے ضرور ہم اجرعظیم عطا کریں گے‘‘ (النساء ۴:۷۴)۔
اس آیت مبارکہ کو نقل کرنے کے بعد مغربی مستشرق یہ کہتے ہیں کہ اسلام لوگوں کو لڑائی اور قتل پر اُبھارتا ہے۔ کاش! یہی مستشرق اس آیت سے اگلی آیت کو بھی پڑھ لیتے اور پھر دونوں آیتوں کو ملا کر ان کا مفہوم سمجھنے کی کوشش کرتے۔ رب کریم اگلی آیت میں فرماتا ہے: ’’آخر کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں ان بے بس مردوں‘ عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑو جو کمزور پا کر دبا لیے گئے ہیں اور فریاد کر رہے ہیں کہ خدایا ہم کو اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں اور اپنی طرف سے ہمارا کوئی حامی و مددگارپیدا کر دے‘‘ (النساء ۴:۷۵)۔ اس آیت کو اگر صرف ایک غیرجانب دار نظرڈال کر پڑھ لیا جائے تو بات واضح ہو جاتی ہے کہ پہلی آیت کس کے خلاف جنگ پر اُبھارتی ہے ؟اگر ظلم‘ تشدد‘ حقوق انسانی کی پامالی کرنے والے سفاک افراد کو ان کے حال پر یہ کہہ کر چھوڑ دیا جائے کہ ہم تو امن کے پرستار ہیں‘ ہم تلوار کو ہاتھ لگا کر گناہ کا ارتکاب نہیں کرنا چاہتے تو کیا یہ رویہ اخلاق کے کسی بھی پیمانے پر پورا اُترے گا؟
اسلام اور قرآن کو کوئی معذرت پیش کرنے کی ضرورت نہیں۔ وہ اگر جہاد کی بات کرتا ہے تو دوٹوک‘ سیدھے اور غیرمبہم انداز میں یہ بات کہتا ہے کہ ہر ظالم‘ جابر‘سفاک کے خلاف جنگ کرنا انسانی فریضہ ہے۔ اسلام کا مقصد قیامِ امن و عدل ہے اور اس میں گفت و شنید‘ اخلاقی دبائو‘ترغیب‘ مکالمہ ہرچیز ناکام ہو جائے اور عورتیں‘بچے اور بوڑھے مسلسل ظلم کا شکار ہو رہے ہوں تو پھر اس سے قطع نظر کہ وہ مظلوم مسلمان ہیں یا غیرمسلم‘ ان کی نصرت و امداد مسلمان پر فرض ہو جاتی ہے۔ یہی وہ پیغام ہے جو یہ دو آیتیں دیتی ہیں۔ ان میں کس جگہ یہ کہا گیا ہے کہ بلاکسی سبب کے جب اور جہاں چاہو مذہب کے نام پر خون بہائو؟
اسی طرح سورۂ توبہ کی ایک آیت کے حوالے سے یہ بات کہی جاتی ہے کہ اس میں غیرمسلموں اور اہل کتاب کے خلاف قتل عام کی اجازت دی گئی: ’’جنگ کرو اہل کتاب میں سے ان لوگوں کے خلاف جو اللہ اور روزِ آخر پر ایمان نہیں لاتے اور جو کچھ اللہ اور اس کے رسولؐ نے حرام قرار دیا ہے اسے حرام نہیں کرتے اوردین حق کو اپنا دین نہیں بناتے۔ (ان سے لڑو) یہاں تک کہ وہ اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں اور چھوٹے بن کر رہیں‘‘ (التوبہ ۹:۲۹)۔ یہاں بھی قرآن کریم یہ بات واضح الفاظ میں بیان کر رہا ہے کہ غیرمسلم اہل کتاب ہوں یا کوئی اور‘ ان کے خلاف صرف اس وقت تک جنگ کی جا سکتی ہے جب تک وہ اسلامی ریاست کی امارت تسلیم نہ کرلیں۔ اصل مقصد ان کو قتل کرنا‘ ختم کرنا‘ تباہ کرنا نہیں ہے بلکہ قانون کی حکمرانی اور امن و عدل کا قیام ہے۔ جہاد کا مدعا انھیں مار مار کر قوت کے زور سے مسلمان بنانا یا صفحۂ ہستی سے مٹانا نہیں ہے۔ اسلام کسی بھی ذی روح بلکہ غیر ذی روح کو بھی تشدد کے ذریعے تباہ کرنے کی اجازت نہیں دیتا‘ خواہ وہ حیوان ہوں یا نباتات۔ یہ صرف مغربی سامراجی طاقتوں کا طریقہ ہے کہ وہ جہاں چاہیں ’’تورابورا‘‘ کرنے کا پیدایشی حق بزعم خود استعمال کرتے ہوئے شرم محسوس نہیں کرتے۔ وہ ویت نام ہو‘ کوریا ہو‘ بوسنیا ہرذی گوونیاہو‘ چیچنیا ہو‘ آذربائیجان ہو‘ افغانستان ہو یا عراق وہ جب اور جہاں چاہتے ہیں اپنے مفاد کے لیے دوسروں کو ظلم و تشدد کا نشانہ بنانا اپنا’’انسانی فرض‘‘سمجھتے ہیں۔
سورۃ المائدہ کی آیت ۵۱ کے حوالے سے بھی یہ بات کہی جاتی ہے کہ یہ یہود اور عیسائیوں کو دشمن کے مقام پر رکھ دیتی ہے اور اس طرح ان کے خلاف نفرت کے جذبات کو ہوا دیتی ہے۔ آیت کا ترجمہ یہ ہے: ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو‘ یہودیوں اور عیسائیوں کو اپنا رفیق نہ بنائو‘ یہ آپس میں ایک دوسرے کے رفیق ہیں۔ اور اگر تم میں سے کوئی ان کو اپنا رفیق بناتا ہے تو اس کا شمار بھی پھر انھی میں ہے‘ یقینا اللہ ظالموں کو اپنی رہنمائی سے محروم کر دیتا ہے‘‘۔ (المائدہ ۵:۵۱)
سلسلۂ مضامین پر غور کیا جائے تو واضح ہو جاتا ہے کہ آیت ۴۲ سے جس موضوع پر بات کی جا رہی ہے وہ اہل کتاب کا عناد‘ جھوٹ اور دھوکا دہی پر مبنی طرزِعمل ہے جس میں ان کے مذہبی رہنمائوں کا اپنے ذاتی مفاد کے لیے تورات و انجیل کی تعلیمات کو بدل دینا اور اللہ کے ساتھ حضرت عزیر ؑ اور حضرت عیسٰی ؑ کو شریک بنانا ہے۔
پھربتایا جا رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو شریعتیں مختلف ادوار میں نازل کی ہیں ان میں بہت سی تعلیمات مشترک ہیں۔ اسلامی شریعت بھی انھی اصولوں پر مبنی اور من جانب اللہ ہے‘ اس لیے یہود و نصاریٰ کے بہکائے میں آئے بغیر فیصلے اللہ کی شریعت کے مطابق کیے جائیں‘ باوجود اس کے کہ یہود و نصاریٰ کی کوشش یہ ہو کہ اہل ایمان کو فتنے میں ڈال کر اپنی طرح گمراہ کر دیں۔
اس تفصیل کے بعد جو آیت ۴۲ سے آیت ۵۰ تک بیان کی گئی ہے یہ فرمایا جا رہا ہے کہ یہود اور عیسائیوںکو رفیق نہ بنایا جائے کیونکہ یہ تو آپس ہی میں گمراہوں کے رفیق ہوسکتے ہیں۔ اگر غور کیا جائے تو سیاق و سباق کی روشنی میں اس سے زیادہ سچی بات اور کیا ہو سکتی ہے جو یہاں کہی جا رہی ہے۔ پھر یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ جس سورہ کے حوالے سے مستشرقین یہ الزام اسلام کو دیتے ہیں‘ اس کا آغاز جن الفاظ سے کیا جا رہا ہے وہ ان محققین کی نگہ انتخاب سے نہ جانے کیوں اوجھل ہو جاتے ہیں۔ فرمایا جا رہا ہے: ’’آج تمھارے لیے ساری پاک چیزیں حلال کر دی گئی ہیں۔ اہل کتاب کا کھانا تمھارے لیے حلال ہے اور تمھارا کھانا ان کے لیے۔ اور محفوظ عورتیں بھی تمھارے لیے حلال ہیں خواہ وہ اہل ایمان کے گروہ سے ہوں یا ان قوموں میں سے جن کو تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی‘ (یہودی یا عیسائی) بشرطیکہ تم ان کے مہر ادا کر کے نکاح میں ان کے محافظ بنو‘‘۔ (المائدہ ۵:۵)
ایک معمولی عقل کا انسان بھی یہ بات سمجھ سکتا ہے کہ جن یہودی یا عیسائی نیک خواتین کے ساتھ رشتہ مناکحت کی اجازت دی جا رہی ہو گویا انھیں اپنے گھر اور اپنے معاشرے میں ایک قابلِ احترام بیوی کا مقام دیا جا رہا ہو اور جن کے ساتھ کھانے پینے کے معاشرتی تعلقات قائم کرنے کی اجازت دی جا رہی ہو‘ ان کے بارے میں کیا یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ وہ تمھارے دشمن ہیں‘ جہاں کہیں مل جائیں انھیں تہ تیغ کر دو‘ تہس نہس کر دو اور صفحۂ ہستی سے مٹا دو!
دوسری جانب کیا قرآن کریم کو یہ چاہیے کہ جو یہودی اور عیسائی بظاہر دوست بن کر آئیں‘ جب کہ ان کا واضح مقصد فتنہ و فساد ہو‘ اہل ایمان کو آپس میں لڑانا ہو‘ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم کو دعوت کے بہانے بلا کر زہر بھرا گوشت کھلا کر قتل کرنے کی نیت ہو تو کیا قرآن یا تورات کو ایسے افراد کو جگری دوست بنانے کا مشورہ دینا چاہیے؟ قرآن کریم ہی نہیں‘ کسی بھی کتاب سے ایک جملہ نکال کر اس کو اپنے من مانے معنی پہنانا نہ تو فکری دیانت ہے اور نہ اس کتاب کے ساتھ انصاف۔ اسی لیے قرآن کریم نے یہ کہا تھا کہ ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو‘ اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو۔ کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کر دے کہ انصاف سے پھرجائو۔ عدل کرو‘ یہ خداترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے‘‘۔ (المائدہ۵:۸)
ایک اور قرآنی آیت: ’’پس جب ان کافروں سے تمھاری مڈبھیڑ ہو تو پہلا کام گردنیں مارنا ہے‘ یہاں تک کہ جب تم ان کو اچھی طرح کچل دو تب قیدیوں کو مضبوط باندھو‘ اس کے بعد (تمھیں اختیار ہے) احسان کرو یا فدیے کا معاملہ کر لو‘ تاآنکہ لڑائی اپنے ہتھیار ڈال دے‘‘ (سورہ محمد ۴۷:۴)۔ مغربی مستشرق اس آیت کی یہ تعبیرکرتے ہیں کہ قرآن یہ چاہتا ہے کہ اہل ایمان کو جہاں کہیں کفار مل جائیں ان کی گردنیں مارتے چلے جائیں اور کشتوں کے پشتے لگادیں‘ بالکل اسی طرح جیسے کہ بوسنیا ہرذی گوونیا میں بہت سے مقامات پر اجتماعی قبروں کی دریافت سے معلوم ہوا کہ کروٹ اور سرب عیسائیوں نے مسلمانوں کو بلاتفریق جنس و عمرتہ تیغ کیا۔
اس آیت مبارکہ کے نزول سے قبل سورۃ الحج کی آیت ۳۹ اور سورۃ البقرہ کی آیت ۱۹۰ جہاد کی اجازت کے سلسلے میں آچکی تھیں۔ اب اس بات کی ضرورت تھی کہ اسلامی قانونِ جنگ کی وضاحت جنگ پیش آنے سے قبل ہی کر دی جائے۔ چنانچہ فرمایا گیا کہ اگر مشرکین و کفار کا مقصد یہ ہے کہ اسلامی تحریک کو دبانے اور مٹانے کے لیے اورتمھیں مدینہ سے بے دخل کرنے کے لیے پوری قوت سے مدینہ پر حملہ آور ہو کر اس دعوتِ حق کی روشنی کو بجھا دیں تو جہاد کی اجازت کی روشنی میں تم بھی ان کی قوت توڑنے میں تکلف نہ کرو۔ ’’گردنیں مارنا‘‘ محض قتل کرنے کے معنی میں نہیں بلکہ واضح طور پر ان کی قوت توڑنے کے معنی میں استعمال ہواہے۔
کسی بھی جنگ کی حکمت عملی یہی ہوتی ہے کہ مخالف کی قوت کو توڑا جائے۔ اس لیے قرآن کا یہ کہنا اخلاق و عدل کے اصولوں پر مبنی صحیح ترین عمل نظر آتا ہے۔ ہاں اگلی بات یہ سمجھا دی گئی کہ مقصود ان کا بے رحمانہ قتل نہیں بلکہ اگر ان کی قوت ٹوٹ جائے تو انھیں قید میں آنے کے بعد قتل نہیں کیا جا سکتا‘ہرقیدی کو عزت و احترام کے ساتھ لباس‘ کھانا‘ تحفظ دیا جائے گا اور اس کے سامنے یہ اختیار ہوگا کہ وہ اپنے آپ کو فدیہ دے کر آزاد کرا لے یا اسلامی ریاست ان پر احسان کر کے رہا کر دے یا تبادلۂ اسیران میں اسے رہا کر دیا جائے۔ ہمارے علم میں کسی انتہائی ’’پُرامن‘‘ فلسفے پر مبنی مذہب کا کوئی ایسا اصول نہیں جس میں کہا گیا ہو کہ جب دشمن تم پر حملہ آور ہو تو اپنے دروازے کھول کر سرجھکا کر ادب سے اس کا استقبال کرتے ہوئے اپنی گردنیں قلم کرانے کے لیے پیش کرو اور یقین کرلو کہ تمھاری طرف سے ایک انگلی بھی نہ اُٹھے‘ نہ اس میں سے ایک قطرہ خون ٹپکے!
مستشرقین کے بعض اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے بار بار یہ احساس ہوتا ہے کہ کاش یہ علم کے مدعی بات کرنے سے قبل حصول معلومات بھی کرلیتے‘ مثلاً یہ کہنا کہ مسلم معذرت خواہ (apologists) یہ کہتے ہیں کہ تمام غلط فہمی اس بنا پر پیدا ہوتی ہے کہ قرآن کریم کے انگریزی تراجم ناقص ہیں‘ اس بنا پر جہاد اور قتال کے بارے میں غلط تصورات پائے جاتے ہیں (الراوندی "Islam and Armageddon")۔ یہ نصف سچائی پر مبنی ایک بیان ہے۔ ہمارے خیال میں بعض صورتوں میں اس کا امکان تو ہے لیکن اصل مسئلہ ترجمے کا نہیں بلکہ قرآن کریم کی آیات کو سیاق و سباق سے الگ کر کے اس کا مفہوم اپنے ذہنی مفروضوں کی روشنی میں متعین کرنا ہے۔
تحقیق کا بنیادی اصول ہے کہ زیربحث مسئلے کو براہِ راست اس کے سیاق و سباق میں دیکھا جائے‘ اس کے بعد کوئی رائے قائم کی جائے۔ یہی سبب ہے کہ مستشرقین بعض ایسی باتیں بھی کہہ جاتے ہیں جو بنیادی اسلامی علمی اصطلاحات سے ان کی ناواقفیت کا اظہار کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر یہ کہنا کہ مکّی آیات رحم و عفو و محبت سے بھری ہوئی ہیں‘ جب کہ مدنی آیات‘ مثلاً ’’مشرکین کو جہاں پائو قتل کر دو‘‘ نے ۱۳۴ ایسی آیات کو جو رحم و لطف سے متعلق تھیں منسوخ کر دیا ہے (الراوندی‘ایضاً) نہ صرف مکی و مدنی آیات سے ناواقفیت ظاہر کرتا ہے بلکہ نسخ فی القرآن جیسے اہم مضمون سے مکمل لاعلمی کا ثبوت پیش کرتا ہے۔
حقیقت واقعہ یوں ہے کہ ۹ ہجری میں جب مسلمانوں نے حضرت ابوبکرؓ کی قیادت میں پہلا حج کیا تو سورۂ توبہ کی وہ آیات نازل ہوئیں جن میں اللہ اور اس کے رسولؐ نے ان مشرکین سے اپنی برأت کا اعلان کیا جن سے اس سے قبل بعض معاہدے ہوئے تھے اور وہ ان کی خلاف ورزی کرتے رہے تھے۔ انھیں مہلت دی گئی کہ وہ آیندہ چار ماہ تک اپنے بارے میں طے کرلیں اور اگر کہیں اور جاکر آباد ہونا ہو تو بلاروک ٹوک چلے جائیں یا اپنی روش بدلنی ہو تو ایساکرلیں۔ اس کے بعد ان کے خلاف عام اعلان جنگ کرتے ہوئے یہ بات سمجھا دی گئی کہ ان چار ماہ کے بعد مشرکین کے خلاف اس وقت تک جنگ ہوگی جب تک وہ اپنی غلطی کا اعتراف (توبہ) کرنے کے بعد نماز اور زکوٰۃ پر عامل نہ ہو جائیں۔
چنانچہ اس آیت سے اگلی آیت میں مشرکین کے حوالے ہی سے یہ ہدایت کی گئی کہ گو ان کے خلاف جارحیت کی اجازت ہے لیکن اگر کوئی مشرک حالت جنگ میں بھی اہل ایمان سے پناہ مانگے تو اسے پناہ دی جائے اور اسے قرآن سننے اور اہل قرآن کو دیکھنے کا موقع فراہم کیا جائے۔ پھر اسے مجبور کیے بغیر اور اس پر کسی قسم کا تشدد کیے بغیر اس کے گھر تک اپنی امان اور حفاظت میں پہنچانا مسلمانوں کا فرض ہے۔ چنانچہ فرمایا: ’’اور اگر مشرکین میں سے کوئی شخص پناہ مانگ کر تمھارے پاس آنا چاہے (تاکہ اللہ کا کلام سنے) تو اسے پناہ دے دو یہاں تک کہ وہ اللہ کا کلام سن لے۔ پھر اسے اس کے مامن تک پہنچادو۔ یہ اس لیے کرنا چاہیے کہ یہ لوگ علم نہیں رکھتے‘‘۔ (التوبہ ۹:۵)
دونوں آیات کو ملا کر پڑھیے تو بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ ’’مشرکین کو قتل کرو جہاں پائو‘‘ کے حکم کا صحیح مفہوم کیا ہے۔ یہ ایک مطلق اجازت نہیں ہے کہ جہاں کسی مشرک کو دیکھا اور نشانہ بنا دیا بلکہ اس بات کا اعلان ہے کہ ہماری اصل جنگ شرک و کفر کے ساتھ ہے۔ اگر کوئی مشرک حصولِ معلومات کے لیے اہل ایمان سے پناہ طلب کرتا ہے تو قرآنی حکم کی اطاعت میں اسے نہ ہاتھ لگایا جائے گا نہ قیدی بنایا جائے گا بلکہ اپنی حفاظت میں اسے اس کے گھر تک لے جایا جائے گا۔ یہاں بھی آیت کے ایک حصے کو سیاق و سباق سے الگ کرنے کے نتیجے میں مستشرقین ایک گمراہ کن تعبیرکرکے یہ سمجھتے ہیں کہ انھوں نے خود قرآن سے فلسفۂ تشدد کو ثابت کردیا۔
مغرب میں آج کل اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں بہت کچھ لکھا جا رہا ہے۔ اسی حوالے سے گذشتہ دنوں ہفت روزہ نیوزویک نے ’’۲۰۰۲ء کے مسائل‘‘ کے عنوان سے ایک خصوصی شمارہ (دسمبر ۲۰۰۱ء-فروری ۲۰۰۲ء) شائع کیا ہے جس میں مسلمانوں سے موجودہ کش مکش کے منظر کو موضوع بنایا گیا۔ ’’اختتام تاریخ‘‘ شہرت یافتہ امریکی مفکر فرانسس فوکویاما کا مضمون اسلامی احیائی تحریکات کے حوالے سے توجہ کا مستحق ہے۔
وہ پہلی بات یہ کہتا ہے کہ جدید سرمایہ دارانہ تہذیب کے اصل دشمن ’’اس دور کے فاشسٹ‘‘ ، ’’اسلامی انقلابی‘‘ (Radical Islamists) ہیں۔ یہ لوگ جدید لبرل جمہوریت اور سرمایہ داری کو‘ جو فوکویاما کے تصور میں انسانی تاریخ کی بہترین ممکنہ معاشرتی ارتقائی شکل پیش کرتی ہے‘ نفرت‘ حقارت اور دشمنی کی نگاہ سے اپنا مدمقابل سمجھتے ہیں۔ چنانچہ ۱۱ستمبر۲۰۰۱ء کا واقعہ اسی کا مظہر تھا۔ ان کا وجود اس جدید تہذیب کی حیات اور بقا کے سلسلے میں بنیادی سوال بن کر اُٹھ کھڑا ہوا ہے۔ اس مخالفانہ رویے کو اختیار کرتے وقت‘ اس کے خیال میں‘ مسلمان یہ بھول جاتے ہیں کہ امریکہ ہی نے صومالیہ‘ بوسنیا‘ کوسووا اور چیچنیا میں مسلمانوں پر ظلم کے خلاف آواز بلند کی تھی۔
فوکویاما کے یہ خیالات ایک قدم آگے بڑھ کر احیائی تحریکات کے حوالے سے ایک نئی اصطلاح استعمال کرتے ہیں‘ یعنی "Islamo Facists"۔ اس کے بقول:
"The Islamo fascist sea within which the terrorists swim constitutes an Ideological challenge that is in some ways more basic than the one posed by communism" (p 58)
اسلامی فاشزم کا سمندر‘ جس میں دہشت گرد تیرتے ہیں‘ ایسا نظریاتی چیلنج ہے جو بعض اعتبار سے کمیونزم کے چیلنج سے زیادہ بنیادی ہے۔
فوکویاما کی نظر میں مسلمانوں کو یہ فیصلہ جلد کرنا ہوگا کہ کیا وہ ’’جدیدیت‘‘ (modernity) کے ساتھ ایک امن کا رشتہ قائم کرنا چاہتے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو انھیں سیکولر ریاست اور مذہبی رواداری کو اختیار کرنا ہوگا (ص۵۹)۔ موصوف کے یہ خدشات تو بڑی حد تک ہن ٹنگٹن کی فکر کا تکملہ نظر آتے ہیں‘ لیکن مغرب کی نمایندہ فکر ہونے کے سبب سنجیدگی کے ساتھ غور کرنے کا تقاضا بھی کرتے ہیں۔
ان تمام خدشات کی بنیاد چار غلط فہمیوں پر ہے۔
اولاً یہ تصور کر لیا گیا ہے کہ تحریکات احیاے اسلام دراصل ماضی پرست تحریکات ہیں۔ حالانکہ اسلامی تحریکات دراصل اجتہادی تحریکات ہیں اور اسی بنا پر خود مسلم ممالک میں جو طبقات روایتی مذہب پرستی کے قائل ہیں وہ ان تحریکات کی مخالفت میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھتے۔ حقیقتاً ماضی پرست تو وہ ہیں جو اسلاف کی ہر عادت کو جامہ تقدس پہنا کر اپنے اُوپر فرض کر لیتے ہیں‘ جب کہ تحریکات اسلامی صرف قرآن و سنت کی بنیاد پر نئے حالات کی روشنی میں تجزیے اور عقل کی بنیاد پر ایک لائحہ عمل پیش کرتی ہیں جس میں اسلام محض عبادات تک محدود نہیں رہتا بلکہ جدید معاشی‘ سیاسی‘ معاشرتی اور بین الاقوامی مسائل کا حل پیش کرتا ہے۔ یہ تحریکات آج کے مسائل اور مستقبل کے امکانات کو اپنی اولین ترجیح قرار دیتی ہیں اور کسی پہلو سے بھی قدامت پرست اور ماضی کی پرستار نہیں کہی جاسکتیں۔
دوسرا غلط مفروضہ یہ ہے کہ اسلامی تحریکات شدت پسند تحریکات ہیں اور مغرب سے اپنے غصے‘ نفرت اور دشمنی کے پیش نظر اسے تباہ و برباد کرنے کے لیے بے چین ہیں۔ ایک مفکر کی حیثیت سے فوکویاما کو ایک انتہائی غلط اور بے بنیاد بات پر بھی یقین کرنے کا حق حاصل ہے لیکن اگر تعصبات سے بلند ہو کر دیکھا جائے تو اسلامی احیائی تحریکات‘ مثلاً انڈونیشیا میں ماشومی‘ ترکی میں حزب رفاہ‘ سوڈان میں اخوان المسلمون‘ الجزائر میں فاس‘ پاکستان میں جماعت اسلامی اور اسی طرح بنگلہ دیش‘ ہندستان‘ سری لنکا‘ مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر کی جماعت اسلامی‘ حتیٰ کہ شام‘ عراق‘ اور اُردن کی اخوان المسلمون نے کبھی تشدد‘ انتہا پسندی اور قوت کے استعمال کو نظری اور عملی حیثیت سے اختیار نہیں کیا۔ مصر میں صرف ایک محدود وقت کے لیے اخوان المسلمون نے خفیہ طریقہ اختیار کیا لیکن وہ بھی دوسرے مرشدعام حسن الہضیبی کے دورسے کھلے اور جمہوری ذرائع پر عامل تحریک بن گئی۔ علمی دیانت کا تقاضا ہے کہ جن مقامات پر تحریکاتِ حریت برپا ہیں‘ وہ فلسطین ہو یا مقبوضہ کشمیر‘ ان پر دیگر تحریکات کو قیاس نہ کیا جائے۔
تیسری اہم بات یہ قابل غور ہے کہ تحریکات اسلامی جو اپنا تشخص دعوت و اصلاح کو قرار دیتی ہیں اور رنگ‘ نسل‘ زبان اور قومیت سے بلند ہو کر یورپ اور امریکہ کی اقوام کو اسلام کے پیغام امن کی دعوت دینے کو اپنی ترجیحات میں شامل کرتی ہیں‘ کیا عقلی اور منطقی طور پر ان اقوام کو نفرت اور دشمنی کا نشانہ بنا سکتی ہیں؟ کیا اتنا بڑا تضاد ممکن ہے؟ فوکویاما اور اس قسم کے مفکرین اسلام کے بنیادی اخلاقی تصور کو نظرانداز کر جاتے ہیں‘ یعنی یہ کہ وہ جہالت‘ ظلم اور بغاوت و فتنہ و فساد کا دشمن ہے۔ اگر فرعون جیسا ظالم اور سرکش اسلام کی دعوت کو سوچ سمجھ کر قبول کر لے تو وہ ولی حمیم بن سکتا ہے۔ اسی لیے خود خالق کائنات نے اپنے رسول حضرت موسٰی ؑکو یہ حکم دیا کہ جائو اور وقت کے باغی کو انتہائی نرمی سے دعوت امن و فلاح دو۔ یہ انبیاء کی سنت رہی ہے۔ خود رسولؐ اللہ نے مکہ اور طائف میں اس سنت پر عمل کیا۔ آج بھی تحریکات اسلامی اس پر عامل ہیں۔ گویا تحریکات اسلامی کی دشمنی جہالت‘ فحاشی اور فتنہ و فساد سے ہے۔ جو لوگ ان برائیوں میں پڑے ہوں اگر وہ اخلاقی رویہ اختیار کر لیں تو وہی بہترین ساتھی بن جاتے ہیں۔ یہاں معاملہ کسی قوم کو صفحۂ ہستی سے مٹا دینے کا نہیں ہے اور نہ اس پر ناجائز قوت کا استعمال کرکے اپنی عظمت کا سکّہ منوانا ہے۔ فوکویاما کا ایک تبصرہ اس حوالے سے چونکا دینے والا ہے۔ وہ جرمن فاشزم کی مثال دے کر کہتا ہے:
"German Fascism did not collapse because of its internal moral contradiction; it died because Germany was bombed to rubbles and occupied by the Allied armies (p 58-59)
جرمن فاشزم اپنے اندرونی داخلی تضادات کی بنیاد پر منہدم نہیں ہوا۔ اس کی موت اس لیے واقع ہوئی کہ جرمنی کو بم باری کرکے ایک ڈھیر بنا دیا گیا اور اتحادی افواج نے اس پر قبضہ کر لیا۔
اس تبصرے میں ایک واضح پیغام "Islamo-fascists" کے ساتھ ساتھ ان ممالک کے لیے بھی موجود ہے جو ایسے ممالک اور افراد سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ غالباً یہی وجہ تھی کہ امریکہ نے بیسویں صدی کی شدید ترین بم باری کے ذریعے افغانستان کو نشانہ بنا کر دوسروں تک یہ پیغام پہنچایا۔
جہاں تک سوال تشدد اور قوت کے استعمال کا ہے‘ اسلامی تحریکات اپنی ساخت‘ طریقہ کار اور لائحہ عمل کے لحاظ سے فاشزم سے کوئی مماثلت نہیں رکھتیں بلکہ تاریخی طور پر مکی دور سے آج تک فاشسٹ قوتوں کا نشانہ بنتی رہی ہیں۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ جہاد جو اسلام کا ایک بنیادی رکن ہے ایک صحیح الفہم مسلمان کو متحرک توکرتا ہے‘ متشدد نہیں بناتا‘ اور نہ اس میں ’’مذہبی جنون‘‘ پیدا کرتا ہے۔
کاش مغربی مفکرین اسلامی تحریکات احیا کو معروضی طور پر مطالعہ کرنے کے بعد کوئی رائے قائم کرتے!
اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے اُمت مسلمہ پر بے شمارانعامات میں سے ایک عظیم احسان اہل ایمان کے درمیان رشتہ اخوت و مودت کا قائم فرمانا ہے۔ سورۃ الحجرات میں اس احسان عظیم کا ذکر یوں فرمایا گیا کہ بلاشبہہ اہل ایمان تو آپس میں بھائی بھائی ہیں (اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ-الحجرات ۴۹:۱۰)‘ اور ان کے باہمی تعلّق کو قریب ترین قرار دیتے ہوئے ان کی پہچان یہ بتائی گئی کہ وہ آپس میں رحمت و محبت سے پیش آتے ہیں (رُحَمَآئُ بَیْنَھُمْ- الفتح ۴۸:۲۹)۔ اسی طرح اہل ایمان کو ایک دوسرے کا دوست‘ ساتھی‘ رفیق‘ مددگار اور ہم رکاب قرار دیا۔ چنانچہ فرمایا: وَالْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُھُمْ اَوْلِیَآئُ بَعْضٍ م یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَیُقِیْمُوْنَ الصَّلوٰۃَ وَیُوْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ وَیُطِیْعُوْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ ط (التوبہ ۹:۷۱) ’’اور مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے اولیا اور رفیق ہیں۔ بھلائی کا حکم دیتے ہیںاور برائی سے منع کرتے ہیں‘ نماز قائم کرتے ہیں‘ زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں‘‘۔
اپنے اس انعام اور احسان کے اظہار کے ساتھ ہی یہ بات بھی فرما دی گئی کہ اخوت کا بنیادی تقاضا باہمی صلح‘ رواداری اور عدل ہے۔ چنانچہ سورہ النحل میں فرمایا: اللہ تمھیں حکم دیتا ہے کہ عدل و احسان کو اختیار کرو اور اقربا کودو‘ (اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَاِیْتَآیِٔ ذِی الْقُرْبٰی … النحل ۱۶:۹۰)۔ اس لیے اہل ایمان پر یہ اجتماعی ذمہ داری ڈال دی گئی کہ اگر ان میں اختلاف اور تنازع ہو جائے تو صلح کرائی جائے اور مظلوم کو ظالم سے نجات دلائی جائے۔ اس حکم کی اہمیت کے پیش نظر سورہ النحل کی یہ آیت دنیا کے ہر خطے میں خطبہ جمعہ کا ایک لازمی حصہ بن گئی ہے۔ اسی طرح دوسرے مقام پر یوں فرمایا: وَاِنْ طَآئِفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَیْنَھُمَا ج فَاِنْ م بَغَتْ اِحْدٰھُمَا عَلَی الْاُخْرٰی فَقَاتِلُوا الَّتِیْ تَبْغِیْ حَتّٰی تَفِیْٓ ئَ اِلٰٓی اَمْرِ اللّٰہِ ج فَاِنْ فَآئَ تْ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَھُمَا بِالْعَدْلِ (الحجرات ۴۹:۹) ’’اور اگر اہل ایمان میں سے دو گروہ آپس میں لڑ جائیں تو ان کے درمیان صلح کرائو۔ پھر اگر ان میں سے ایک گروہ دوسرے پر زیادتی کرے تو زیادتی کرنے والے سے لڑو یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف پلٹ آئے۔ پھر اگر وہ پلٹ آئے تو ان کے درمیان عدل کے ساتھ صلح کرا دو‘‘۔
اسلامی اخوت کوحضور نبی کریمؐ نے ایک محکم و مضبوط عمارت سے تعبیر فرمایا ہے: المومن کالبنیان یشد بعضہ بعضا ثم ثبت من اصابعہ (بخاری‘ مسلم) ’’مسلمان مسلمان کے لیے عمارت کی طرح ہے جس کا ایک حصہ دوسرے حصے کو قوت پہنچاتا ہے۔ پھر آپؐ نے ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں پیوست کر کے بتایا‘‘۔
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو اپنے بھائی کی مدد کر چاہے وہ ظالم ہو یا مظلوم‘ تو ایک شخص نے کہا کہ اے اللہ کے رسولؐ ،مظلوم ہونے کی صورت میں تو اس کی مدد کر دیتا لیکن ظالم ہونے کی صورت میں کس طرح مدد کروں۔ آپؐ نے فرمایا‘ تو اسے ظلم کرنے سے روک دے۔ یہی اس کی مدد کرنا ہے۔ (بخاری ‘مسلم)
مسلمان بھائی کی خیر خواہی‘ اس کی جان‘ مال ‘ عزت و آبرو کی حفاظت کرنا ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر حقوق میں سے ہے گویا یہ کوئی احسان کی بات نہیں بلکہ فریضہ ہے۔ حضور نبی کریمؐ کا واضح حکم ہے کہ اگر کسی بنا پر آپس میں کوئی رنجش ہو جائے تو تین راتوں سے زیادہ قطع تعلق کرنا حرام ہے‘ خواہ زیادتی کسی کی بھی ہو۔ بحالی تعلّقات کے لیے‘ ہر مومن کا فرض ہے کہ وہ سلام کرنے میں پہل کرے۔ چنانچہ حدیث میں فرمایا گیا: ’’ان دونوں میں بہتر وہ ہے جو سلام میں پہل کرے‘‘۔ (بخاری ‘ مسلم)
انسانیت کی تشکیل جدید کے لیے اسلام کی نگاہ میں ایک ایسی اُمت کا قیام ضروری ہے جو نہ صرف اخوت و محبت کے جذبات سے سرشار اور متحد اور یک جان ہو بلکہ اس میں وہ صفات موجود ہوں جو زندہ رہنے اور قیادت کرنے کے لیے بنیادی اہمیت رکھتی ہیں۔ قرآن کریم نے اہل ایمان کی مطلوبہ صفات کو بے شمارمقامات پر بیان کرنے کے ساتھ سورہ المومنون میں اختصار اور جامعیت سے یوں بیان فرمایا ہے کہ ’’یقینا فلاح پائی ایمان لانے والوں نے جو اپنی نماز میں خشوع اختیار کرتے ہیں‘ لغویات سے اعراض کرتے ہیں‘ زکوٰۃ کے طریقے پر عامل رہتے ہیں‘ اپنے فروج کی حفاظت کرتے ہیں… اپنی امانتوں اور عہد و پیمان کو پورا کرتے ہیں… یہی لوگ وہ وارث ہیں جو میراث میں فردوس پائیں گے…‘‘ (المومنون ۲۳:۱-۱۱)
یہ وہ اجتماعی اخلاق ہیں جو انھیں مصلحین‘ صائمین‘ ذاکرین‘ ساجدین‘ راکعین‘ شاکرین‘ کاظمین الغیظ اور عباد الرحمن بننے میں مدد دیتے ہیں۔ قرآن مقام عبدیت کو اہل ایمان کے لیے سب سے اعلیٰ مقام قرار دیتے ہوئے اس صفت کی بنا پر خیر امۃ اور قائم بالقسط‘ عادل اور خلیفۃ اللہ فی الارض سے تعبیر کرتا ہے۔
انسانوں کا ایک دوسرا گروہ جو ضابطہ اخلاق اور جادہ عدل کو نظرانداز کرتا ہے۔ پھر یہ گروہ صراط مستقیم اور خالق کائنات کی بندگی کو رَدّ کرتا ہے اور دوسری جانب طاغوت کو ‘ کبر و انانیت کو‘ بغاوت و سرکشی کو‘ ضد اور ہٹ دھرمی کو اختیار کرتا ہے۔ قرآن کریم انھیں ضالین‘ گمراہ اور گمراہ کرنے والے قرار دیتا ہے۔ یہ گروہ اہل ایمان کی مخالفت میں کمربستہ رہتا ہے اور انھیں کبھی قوت سے اور کبھی چالاکی‘ لالچ‘ طمع‘ حرص اور مادی فوائد کے ذریعے ایک دوسرے کے مقابل لاکھڑا کرتا ہے۔ نتیجتاً اہل ایمان عظیم اخلاقی مقام پر فائز ہونے کے باوجود کبھی رنگ‘ کبھی نسل‘ کبھی زبان‘ کبھی علاقائیات و قبیلہ و برادری اور کبھی جزوی فقہی اختلافات میں پڑ کر متفرق و منتشر ہو جاتے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے اخوت‘ رواداری اور عدل کے علم بردار اہل ایمان فرقہ پرستی‘ منافرت اور باہمی جدال کا شکار ہو جاتے ہیں۔
اس صورت حال کو دیکھ کر ایک مسلمان ہی نہیں ایک غیر مسلم بھی یہ سوچتا ہے کہ کیا مسلمانوں میں فرقہ واریت اور آپس کے جھگڑوں کا اصل سبب فقہی اختلافات کا پایا جانا ہے؟ کیا مسلمانوں کو ان کے مذہب نے ایسا خون آشام بنا دیا ہے کہ باہمی نفرت‘ تصادم اور خون خرابے کے سوا ان کا کوئی شغل نہیں؟ جب ایک عام تجزیہ نگار مسلمانوں کی صورت حال کا مقابلہ غیر مسلموں کے ساتھ کرتا ہے تو اس کے ذہن میں سوال اٹھتا ہے کہ کیا سبب ہے کہ عیسائیت میں ۲۵۰ سے زیادہ علیحدہ علیحدہ چرچ اور مسلکی و فقہی اختلافات کے باوجود ایک دوسرے کے خلاف ایسی نفرت و دشمنی نہیں پائی جاتی‘ جیسی کچھ ملکوں اور علاقوں میں آج مسلمانوں کے فرقوں اور مسلکوں میں پائی جاتی ہے۔
اس تاثر کو شدید بنانے میں عالمی ابلاغ عامہ کا بڑا ہاتھ ہے۔ شاید ہی کوئی دن ایسا ہو جب بین الاقوامی ذرائع ابلاغ مسلمانوں کے حوالے سے تشدد اور قوت کے استعمال کا ذکر اپنی سرخیوں میں نہ کرتے ہوں۔
عالمی سطح پر اُمت مسلمہ کے اختلافات‘ باہمی دشمنی اور آپس کے خون خرابے اور تشدد و قوت کے استعمال کی کہانیاں جب بار بار نظروں سے گزرتی ہیں‘ تو غیر ہی نہیں اپنوں کو بھی یقین سا آجاتا ہے کہ مسلمانوں کے باہمی اختلافات کے بارے میں جو کچھ دکھایا جا رہا ہے اورکہا جا رہا ہے وہ سچ ہی ہوگا۔ اگر جائزہ لیا جائے تو صرف امریکہ کے بڑے شہروں مثلاً نیویارک‘ شکاگو‘ لاس اینجلس‘ فلاڈیلفیا اور ڈیٹرائٹ وغیرہ میں جرائم کی رفتار‘ جن میں قتل‘ جنسی جرائم‘ چوری اور ڈاکا ہر چیز شامل ہے‘ کسی ترقی پذیر ملک سے کم نہیں بلکہ کئی گنا زیادہ ہے۔ لیکن اس کے باوجود ٹائم‘ نیوزویک یا ایشیا ویک‘ نیز سی این این ہو یا بی بی سی کبھی مسافروں کو یہ مشورہ نہیں دیتے کہ ان شہروں کا سفر اختیار کرتے وقت پہلے قریبی پولیس تھانہ سے رابطہ کریں اور اس کے بعد بازار جائیں‘ جب کہ ملتان یا کراچی میں اگر کوئی فرقہ وارانہ واقعہ وقوع پذیر ہو جائے تو اسے عموم کی شکل دیتے ہوئے نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا کے مسلمانوں میں پائی جانے والی کسی بھی درجے کی تفرقہ بازی زیربحث آجاتی ہے اور بین السطوریہ پیغام پہنچا دیا جاتا ہے کہ پوری دنیا کے مسلمان تنگ نظری‘ تشدد پسندی اور مذہبی اور لسانی فرقہ بندی کا شکار ہیں۔ یہ بات بھی بہت شدومد سے کہی جاتی ہے کہ دینی مدارس سے فارغ علما اور ائمہ‘ اسلام سے زیادہ اپنے مسلک کو اہمیت دیتے ہیں اور ان کی یہ انتہا پسندی مذہبی منافرت اور تشدد کی شکل میں ظاہر ہوتی ہے۔ بلکہ اب تو دینی درس گاہوں کو تشدد اور لاقانونیت کی تربیت گاہیں بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔
دوسری طرف یہ امر بھی غور طلب ہے کہ مدارس دینیہ میں بڑی حد تک مشترک نصابی کتب کے باوجود بعض اداروں میں ایک جامد اور متشدد مسلکی ذہن کیوں تعمیر ہوتا ہے؟ جو طلبہ یہاں سے فارغ ہوتے ہیں ان میں سے کسی ایک کے نزدیک بعض روایتی رسموں کے بغیر ایمان نامکمل رہتا ہے اورکسی دوسرے کی نظر میں ایسی تقریبات سے دل پر ایمان کی جگہ ضلالت و گمراہی کا قبضہ ہو جاتا ہے۔ بات اگر یہاں تک رہتی تو شاید نظری گفتگوئوں سے اس کا کوئی حل نکالا جا سکتا تھا‘ لیکن نوبت یہاںتک پہنچ جاتی ہے کہ ان میں سے بعض ائمہ و علما نہ صرف اپنے علاوہ دوسرے فرقے اور مسلک کی تضحیک و تذلیل منبر و محراب سے کرتے ہیں‘بلکہ بعض صورتوں میں دوسرے مسلک کے حاملین کے خون کو بھی حلال قرار دے ڈالتے ہیں۔ ان میں بعض شقی القلب تو اس سے بھی ایک قدم آگے بڑھ کر مخالف فقہی مسلک کے افراد پر عین حالت قیام صلوٰۃ و قیام اللیل‘ حتیٰ کہ ماہِ رمضان میں حملہ آور ہونے کو بھی’’جہاد‘‘ سمجھتے اور ایسے افعال کو مسلکی فتح مندی کے رنگ میں پیش کرتے ہیں‘ حالانکہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تو مسلمانوں کو ایک دوسرے کا بھائی بنایا ہے۔ انھیں رحماء بینھم کا مصداق قرار دیا ہے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان خوارج کا خون بھی مباح قرار نہیں دیا تھا جو عملاً ریاست سے باغی ہو گئے تھے___ یہ تمام حالات اور واقعات اس بات پر غوروفکر کی طرف دعوت دیتے ہیں کہ اس مسئلے کی جڑ کو تلاش کیا جائے کہ آخر ٹیڑھ کہاں ہے۔
ان ابتدائی گزارشات کے بعد ضروری معلوم ہوتا ہے کہ قرآن و حدیث کی روشنی میں سمجھا جائے کہ تفرقہ ہے کیا چیز‘کیا یہ محبوب و مقصود ہے یا مردود و مکروہ ہے۔ قرآن کریم میں فرقہ‘ تفرقہ اور تفریق کے حوالے سے تقریباً ۲۱ مقامات پر مختلف سیاق میں ذکر آیا ہے۔کہیں یہ بات فرمائی گئی کہ علم و ہدایت آنے کے بعد فرقوں میں بٹ نہ جائو (اٰل عمرٰن ۳:۱۰۵) ۔کہیں اس علم کو رَدّ کیا جو شوہر اور بیوی میں فرق ڈلوا دے (البقرہ ۲:۱۰۲)۔ کہیں واضح ترین الفاظ میں یہ بات سمجھائی کہ حق سے منحرف ہونے والے بعض افراد مسجد جیسی جوڑنے والی‘ اعتصام باللہ بپا کرنے اور اخوت و احترام کرنے والی جگہ کو اہل ایمان کے درمیان ضرر و افتراق کے لیے استعمال کرتے ہیں (التوبہ ۹:۱۰۷)۔ اور اسی حوالے سے سورہ اٰل عمران میں اعتصام باللہ کے حوالے سے وہ حکم بھی آیا‘ جس کی طرف پہلے اشارہ کیا گیا تھا‘ کہ فرقوں میں نہ بٹ جائو (۳:۱۰۳)۔ سورہ الشوریٰ میں تفرقہ بندی کو ایک منفی اور سلبی عمل قرار دیتے ہوئے اقامت دین کی جدوجہد کے ذریعے تفرقہ رکھنے والی ذہنیت کو دُور کرنے کی تعلیم دی گئی۔ یہاں سے یہ اصول بھی نکلا کہ اقامت دین کرنے والی تحریکات کا ذہن فرقہ پرستی کا نہیں بلکہ دین کے حوالے سے امت مسلمہ کو جوڑنے کا ہوگا۔ چنانچہ فرمایا: اَنْ اَقِیْمُوا الدِّیْنَ وَلاَ تَتَفَرَّقُوْا فِیْہِ ط (الشوریٰ ۴۲:۱۳) ’’قائم کرو اس دین کو اور اس میں متفرق نہ ہو جائو‘‘۔
گویا اسلام‘ تفرقہ بندی اور آپس میں تقسیم ہو کر جتھہ بندی کرنے کی مکمل طور پر مذمت و ممانعت کرتا ہے۔ لیکن یہ سمجھنا درست نہ ہوگا کہ اسلام اختلاف رائے اور فرقہ پرستی اور تفرقہ بازی میں فرق نہیں کرتا۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام‘ قرآن و حدیث پر غوروخوض کرنے کے بعد خلوص نیت سے مختلف تعبیرات اور فقہی آرا قائم کرنے کی مخالفت کبھی نہیں کرتا ‘بلکہ قرآن کریم اسے محبوب و مطلوب قرار دیتا ہے۔ وہ جہاں دین کے قیام و غلبہ کے لیے اہل ایمان کی ایک جماعت کا جہاد بالسیف میں مصروف ہونا ضروری قرار دیتا ہے‘ وہاں دوسری جماعت (فرقہ) پر دینی مصادر کو سمجھنے‘ فہم دین پیدا کرنے اور دین کی دعوت و تعلیم فرض کر دیتا ہے‘ تاکہ اسلام کی معاشی‘ سیاسی‘ معاشرتی‘ ثقافتی تعلیمات کی وضاحت ہو اور ان تعلیمات کی روشنی میں ایک نقشۂ عمل اور حکمت عملی وضع کی جا سکے۔ سورہ توبہ(آیت ۱۲۲) میں اسے تفقہ فی الدین کا عنوان دیا گیا ہے۔ یہاں یہ یاد رہے کہ یہ تقسیم بھی مطلق نہیں ہے کہ مجاہدین اورفقہا کے ہمیشہ دو الگ الگ طبقات یا گروہ ہوں‘ مجاہد اور عالم‘ دونوں اس جہاد کا حصہ ہیں۔امام ابن تیمیہؒ اور شاہ اسماعیل شہیدؒ کی شخصیات میں فکروفن اور سیف و جہاد کا اجتماع بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ استثنائی مثالیں نہیں ہیں۔ عصرحاضر میں جدید تحریکات اسلامی کے بہت سے رجال ان دونوں حیثیتوں کو یک جا کرنے والے افراد تھے۔ انھوں نے اجتہاد‘ مسائل اور جہاد فی سبیل اللہ دونوں کو اختیار کر کے یہ ثابت کر دیا کہ دونوں کام بیک وقت انجام دیے جا سکتے ہیں۔
اس اصطلاحی وضاحت کی روشنی میں دیکھا جائے تو سوال پیدا ہوتا ہے پھر تفریق و اختلاف ہے کیا؟ کیا یہ مرض اس صدی کا مرض ہے؟ کیا دین میں اس کی گنجایش ہے؟ کیا قرآن و سنت کے علاوہ کسی مسلک کا پیروکار ہونا بھی فلاح و کامیابی کے لیے ضروری ہے؟
قرآن کریم ہر مسلمان مرد اور عورت کو حکم دیتا ہے کہ وہ دین کا کم از کم اتنا علم حاصل کر لے کہ حلال و حرام میں فرق معلوم ہو سکے۔ حدیث شریف بھی حکم دیتی ہے کہ ’’حلال واضح ہے اور حرام واضح ہے‘‘ اس لیے اس واضح حرام و حلال کا علم اور اس کی روشنی میں مشتبہ کو معلوم کرنے کے لیے تفقہ اختیار کرنا ہوگا۔ قرآن کریم جگہ جگہ اپنے ماننے والوں کو تفکر و تدبر و تفہیم پر اُبھارتا ہے اور چاہتا ہے کہ ہر معاملے میں تحقیق و جستجو کرنے کے بعد ایک موقف اختیار کیا جائے۔ ایک موقف پر مطمئن ہونے سے قبل مقدور بھر بحث و مباحثہ کر لیا جائے۔ چنانچہ مشاور ت کو فریضہ قرار دیتے ہوئے یہ حکم دیتا ہے کہ اپنے تمام معاملات میں مشاورت کرو اور جب قلب و ذہن ایک مقام پر مطمئن ہو کر یکسو ہو جائیں تو پھر عزم الامور کے ساتھ اللہ پر توکل کر کے اس پر عمل پیرا ہو جائو۔ (اٰل عمرٰن ۳:۵۹ اورالشوریٰ ۴۲:۳۸)
کیا ہر مشورہ‘ ہر تحقیق اور ہر تعبیر لازمی طور پر اجماع کی شکل اختیار کر لے گی؟ کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ پورے خلوص نیت‘ علمی عبور‘ اور جائزے و تجزیے کے بعد ایک سے زائد آرا و مسالک یکساں طور پر دین کے دائرے میں ہوں‘ جیسا کہ صحابہ کرامؓ کی اس جماعت کے ساتھ پیش آیا جسے نبی کریمؐ نے حکم دیا تھا کہ فلاں مقام کی طرف جائو اور وہاں پہنچ کر صلوٰۃ عصر ادا کرنا۔ صحابہؓ کی ایک جماعت نے غالباً قرآن کریم کے اس حکم کی روشنی میں کہ صلوٰۃ مومنین پر کتابا موقوتا ہے اور خود حضورؐ کے ارشاد پر کہ عصر کواوّل وقت پڑھ لیا جائے‘ عمل کرتے ہوئے راستے میں نماز پڑھی‘ اور دوسری جماعت نے اس خیال سے کہ شارع علیہ السلام اور مومنین کے سردار نے حکم دیا کہ صلوٰۃ عصرفلاں مقام پر ادا کی جائے‘ وہاں پہنچ کر نماز ادا فرمائی۔ واپسی پر جب معاملہ آپؐ کے حضور پیش کیا گیا تو آپؐ نے کسی پر گرفت نہیں فرمائی۔
جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو‘ جب تم نماز کے لیے اٹھو تو چاہیے کہ اپنے منہ اور ہاتھ کہنیوں تک دھو لو‘ سروں پر ہاتھ پھیرلو اور پائوں ٹخنوں تک دھو لیا کرو‘‘ (المائدہ ۵:۶)۔ یہاں مسح کے حوالے سے ایک سے زائد تعبیرات پائی جاتی ہیں اور آج تک علما و مفسرین نے یہ اصرار نہیں کیا کہ صرف ایک تعبیر ہی درست ہے۔
ہماری اپنی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ حضور نبی کریمؐ نے امام و سربراہ ہونے کے باوجود شوریٰ کے اصول کو عملاً اختیار فرمایا۔ میدان بدر کے انتخاب کا فیصلہ‘ احد میں مدینہ منورہ سے باہر جا کر مقابلہ کرنے کا فیصلہ‘ غزوہ احزاب کے موقع پر خندق کی تعمیر‘ صلح حدیبیہ کے موقع پر حکمت عملی طے کرنا‘ غرض بے شمار مواقع پر آپؐ نے اپنے فیصلہ کرنے کے اختیار کی جگہ شوریٰ کو اوّلیت دی۔
ابھی آپؐ کے وصال کو چند لمحات ہی گزرے تھے کہ صحابہ کرامؓ کے درمیان خلیفہ کے انتخاب پر اختلاف ہوا اور مختلف آرا سامنے آئیں۔ خود آپؐ کی تدفین کے حوالے سے اختلاف پیدا ہوا کہ تدفین کہاں پر عمل میں لائی جائے۔ ابھی ریاست کے معاملات طے ہو رہے تھے کہ حضرت اسامہ بن زیدؓ کے لشکر کی روانگی پر اختلاف پیدا ہو گیا‘ ساتھ ہی منکرین زکوٰۃ سے جہاد کے مسئلے پر صحابہؓ میں اختلاف کھڑا ہوا۔ یہ مسئلہ اٹھا کہ جو لوگ زکوٰۃ کے منکر ہوں مگر صلوٰۃ ادا کر رہے ہوں کیا ان پر تلوار اٹھائی جائے گی؟ ابھی یہ معاملات طے ہوئے ہی تھے کہ یہ سوال پیدا ہوا کہ جن مقامات پر جہاد کیا جا رہا ہے اور مسلم افواج بغیر کسی مقابلے کے املاک پر قابض ہو جائیں تو کیا یہ بھی غنیمت کی طرح تقسیم ہوں گی یا اموال فئے کے لیے کوئی اور اصول اختیار کیا جائے گا‘ جو زمینیں اس طرح زیرنگیں آئیں گی وہ عشری ہوں گی یا خراجی۔ مختصر یہ کہ امور مملکت ہوں یا بنیادی معاشی‘ اعتقادی‘ معاشرتی و انتظامی مسائل‘ ہر نوع پر صحابہ کرامؓ کے درمیان اختلاف کی واضح مثالیں موجود ہیں۔ اُم المومنین سیدہ عائشہؓ کھلے لفظوں میں فرماتی ہیں کہ حضرت ابوہریرہؓ سے فلاں معاملے میں سہو ہوا‘ اصل بات یوں ہے۔ اسی طرح حضرت عمرؓ اور دیگر خلفاے راشدین تعزیر کے معاملے میں اختلاف کرتے ہیں۔ لیکن کیا ان اہم اختلافات کے باوجود کوئی ایک مثال ایسی ہے کہ جب حضرت ابوبکرؓ نے حضرت علیؓ سے اختلاف کیا ہو تو حضرت علیؓ نے ان کے پیچھے نماز پڑھنی بند کر دی ہو؟ یا حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ سے بول چال بند کردی ہو؟ یا ان کے ایمان و خلوص پر کوئی شک و شبہہ کیا ہو؟ کیا یہ امر واقعہ نہیں ہے کہ جب حضرت عثمانؓ پر بیرونی افراد یلغار کرتے ہیں تو حضرت علیؓ بنفس نفیس ،حضرت حسنؓ اور حسینؓ کو مسلح پہرہ دینے کے لیے حضرت عثمانؓ کے گھر پر مامور کرتے ہیں؟
گویا اختلاف مسلک بجائے خود نہ تو مردود ہے اور نہ نفرت و فساد پیدا کرتا ہے‘ بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ جب بھی مصنوعی طریقہ سے اُمت مسلمہ پر کسی ایک مسلک کو مسلط کرنے کا خیال پیش کیا گیا‘ اُمت مسلمہ کے خیرخواہ علما نے اس کی مخالفت کی۔ حضرت امام مالکؒکی مثال ہمارے سامنے ہے۔ انھوں نے خلیفہ وقت کی خواہش کو رَدّ کرتے ہوئے حدود مملکت میں فقہ مالکی رائج کیے جانے کی مخالفت کی اور اس معاملے کو اُمت مسلمہ کے شعور پر چھوڑ دیا کہ وہ جس فقہی رائے کو چاہے اختیار کرے۔
دَور صحابہؓ اور بعد کے ادوار میں فقہا و علما اُمت کے اختلافات کا جائزہ لیں تو واضح طور پر ان میں خلوص نیت کے ساتھ نصوص قرآن و سنت پر مبنی اختلاف کا رجحان نظر آتا ہے‘ یعنی وہ اپنی ذات‘ انا‘ یا اپنے مرشد و شیخ کی اندھی تقلید و پیروی کرتے نظر نہیں آتے۔
امام ابویوسفؒ اور امام محمد الشیبانی ؒ سے بڑھ کر امام ابوحنیفہؒ کا احترام و محبت کس کے دل میں ہوگا۔ دونوں ان کے جانشین اور شاگردانِ رشید ہیں‘ لیکن وہ بھی بہت سے معاملات میں اپنے استاد سے اختلاف کرتے ہیں۔ کیا اس اختلاف کی بنیاد پر وہ توہین استادکے مرتکب قرار دیے جائیں گے؟ گویا ہماری علمی و ثقافتی روایت میں اختلاف کا نہ ہونا ایک اجنبی چیز ہے اور دلیل و برہان کی بنا پر اختلاف ایک فطری حقیقت ہے۔
پھر کیا وجہ ہے کہ ہمارے آج کے معاشرے میں تحمل‘ رواداری‘ کشادہ دلی‘ اکرام و محبت کا فقدان پایا جاتا ہے۔ اختلاف خواہ چھوٹا ہو یا بڑا‘ مخالف کا خون تک بہانے میں دریغ نہیں کیا جاتا۔ ہماری نگاہ میں مسئلہ چاہے کتنا پیچیدہ نظر آتا ہو اگر خلوص نیت اور دیانت داری کے ساتھ اس پر غور کیا جائے تو اس کا حل نہ صرف ممکن ہے‘ بلکہ ہمیں اسے جلد از جلد اختیار کرنا ہوگا۔ منافرت‘ مقاطعہ‘ مقاتلہ اور فساد مستحکم سے مستحکم انسانی معاشرے کی جڑوں کو کھوکھلا کر کے تباہ و برباد کر دیتا ہے۔ مسلم معاشرے میں جب بھی فروعی اختلافات کو بنیادی اہمیت دی گئی‘ اُمت مسلمہ کی ہَوا اکھڑی (اور آپس میں جھگڑو نہیں ورنہ تمھارے اندر کمزوری پیدا ہو جائے گی اور تمھاری ہَوا اکھڑ جائے گی۔ انفال ۸:۴۶) اور وہ تعداد میں کثیر ہونے کے باوجود دشمن کے لیے تر نوالہ بن گئی۔ اس لیے ہمیں خود آگے بڑھ کر اس مسئلے کو حل کرنا ہوگا۔
کیا مسئلہ بنیادی طور پر عقیدے کا ہے؟ کیا ہر مسلک کے ماننے والوں کے اللہ اور رسولؐ مختلف ہیں؟ یا سب اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی وحدانیت اور رسولؐ کی ختم نبوت پر یقین رکھتے ہیں؟ کیا ہر مسلک کا کعبہ الگ ہے یا سب کا قبلہ حرم کعبہ ہی ہے؟ کیا کسی مسلک کے ماننے والے زکوٰۃ کے قائل ہیں اور کسی کے قائل نہیں؟ کیا کسی مسلک میں روزہ فرض ہے اورکسی میں نہیں؟ ان تمام اور دیگر اس جیسے سوالات پر جتنا غور کیا جائے تو بات واضح ہو جائے گی کہ بنیادی عقیدے کے لحاظ سے معروف سنی و شیعہ مسالک میں کوئی بنیادی اختلاف نہیں پایا جاتا۔ اس بنا پر ان میں سے کسی کے بارے میں یہ کہنا کہ چونکہ وہ فلاں جزوی معاملے میں یہ رائے رکھتے ہیں اس لیے دائرہ اسلام سے خارج ہو گئے اور ان کے ساتھ تعلقات کی نوعیت وہی ہوگی جو مرتد یا مشرک یا کفار کے ساتھ ہوتی ہے‘ فکر ونظر کا یہ زاویہ دین سے کوئی مناسبت نہیں رکھتا۔ کوئی شخص جو دین کا فہم رکھتا ہو ایسی بات نہیں کہہ سکتا۔
پھر کیا وجہ ہے کہ ہمارے ہاں آئے دن ایک فرقہ دوسرے فرقے کی تکفیر کرتا رہتا ہے‘ ایک دوسرے پر تبریٰ کرتا ہے اور برا بھلا کہتا ہے۔ جائزہ لیا جائے تو اس طرزعمل کے پیچھے تین بنیادی عناصر کارفرما نظر آتے ہیں:
اوّل: خود اپنے بنیادی عقیدے اور دوسرے فرقے کے عقیدے کے بارے میں معلومات کی کمی اور غیر مصدقہ معلومات پر بھروسا کرنا۔
دوم: ہر فارغ التعلیم بلکہ طالب علم کا اپنے آپ کو مقام افتا و قضا پر بٹھا دینا۔ نتیجتاً وہ ایسے بہت سے معاملات میں جن میں فیصلے کا حق صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ کو حاصل ہے بلا کسی تردد کے اپنا فتویٰ جاری کر دیتا ہے۔ وہ یہ بھول جاتا ہے کہ آخر حضور نبی کریم ؐ نے ایک جلیل القدر صحابی کو مخاطب فرماتے ہوئے یہ بات کیوں فرمائی تھی کہ کیا تم نے فلاں شخص کو قتل کرنے سے قبل اس کے دل کو چیر کر دیکھ لیا تھا کہ اس میں ایمان تھا یا نہیں؟ ہر صاحب علم جانتا ہے کہ دوران جہاد ایک شخص نے عین حالت جنگ میں اپنے آپ کو قتل کیے جانے سے قبل یہ کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ واحد لاشریک ہے اور حضور نبی کریمؐ اللہ کے رسول ہیں۔ سربراہِ لشکر نے یہ سمجھا کہ یہ شخص محض جان بچانے کے لیے ایسا کہہ رہا ہے اور اس کے قتل سے ہاتھ نہ روکا۔ حضور نبی کریمؐ نے ان کے اس عمل کو ناپسند فرمایا۔ لیکن ہمارا روزہ مرہ کا مشاہدہ ہے‘ ہرکس و ناکس کے بارے میں محض افواہ اور غیرمصدقہ معلومات کی بنا پر بلاکسی تکلف و تردد یہ فتویٰ صادر کر دیتے ہیں کہ وہ منافق ہے‘ بدعتی ہونے کے سبب ضالین میں سے ہوگیا ‘ اس لیے اس پر ہاتھ اٹھانا جائز ہوگیا۔
سوم: معلوم یہ ہوتا ہے کہ شاید اپنے بین الانسانی تعلقات کو بھی اپنی سیاسی وابستگیوں کے تابع کر دیا گیا ہے اور جب کسی مسلک کے ماننے والوں کا کسی لادینی جماعت کے ساتھ اتحاد ہو جاتا ہے تو وہ اپنے مسلکی اختلافات کو سیاسی وابستگی کی روشنی میں دیکھتے ہیں۔ اگر اس سے آگے بڑھ کر کہا جائے کہ ہمارے ہاں مسلکی تشدد عموماً سیاسی عناصر کے مفادات کی روشنی میں ہوتا ہے تو غلط نہ ہوگا۔
پاکستان میں شیعہ سنی کھچائو کی جڑیں عموماً سیاسی مفادات رکھنے والے افراد تک پہنچتی ہیں اور وہ اختلافات کو ہوا دے کر اور یا ایک دوسرے فرقہ کی پشت پناہی کر کے اپنے لیے مناسب سیاسی فضا پیدا کرتے رہتے ہیں۔ انھیں اس بات کی فکر نہیں ہوتی کہ اس طرح منافرتوں کی جو خلیج ہر تشدد کے عمل کے نتیجے میں گہری ہوتی چلی جاتی ہے اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کی جواب دہی تو کرنی ہی ہوگی‘ خود اس دنیا میں بھی کسی وقت احتسابی عمل کے نتیجے میں انھیں اپنے کیے پر جواب دہی کرنی نہ پڑ جائے۔
دین کی بنیادوں میں سے ایک بنیاد انسانی جان‘ خون اور رشتہ کا احترام ہے۔ یہی سبب ہے کہ ایک جان کو بغیر کسی حق کے ضائع کیے جانے کو پوری انسانیت کے قتل سے تعبیر کیا گیا۔ اسلامی شریعت میں (جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کر دیا اور جس نے کسی کو زندگی بخشی اس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخش دی۔ المائدہ ۵:۳۲) قتل نفس کو کبیرہ گناہ قرار دیا گیا۔ پھر کیا وجہ ہے کہ ایسے تشدد پرست گروہ وجود میں آگئے ہیں جو اپنے نام اور اپنی پہچان حضور نبی کریمؐ یا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے کرنے کے باوجود وہ کام کر رہے ہیں جسے خود اللہ‘ اللہ کے رسولؐ اور ان کے صحابہؓنے شدت سے منع کیا گیا ہے؟
ہمارے خیال میں اس کی ذمہ داری مکمل طور پر دینی مدارس‘ ائمہ و مشائخ اور علما پر نہیں ڈالی جا سکتی۔ ہمیںتجزیہ کر کے دیکھنا ہوگا کہ کیا واقعی دینی مدارس کے نصاب میں شیخ الحدیث دورہ حدیث کے دوران ٹینک چلانے‘ ہیلی کاپٹر اڑانے‘ ہوائی جہاز چلانے اور کلاشنکوف کی ساخت‘ فوائد اور ترکیب استعمال کی عملی تربیت بھی دیتے ہیں یا وہ اپنے طلبہ کو تفسیر حدیث‘ فقہ اور عقیدہ و کلام کی تعلیم دیتے ہیں۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ کیا تشدد کا رویہ صرف دینی مدارس کے طلبہ اختیار کرتے ہیں یا قومی محرومیوں نے سرکاری یونی ورسٹیوں کے ہر کیمپس پر ایسے طلبہ کے گروہ پیدا کر دیے ہیں جو اکثر مسلح رہتے ہیں اورآپس میں قتل و غارت کے مرتکب ہوتے ہیں۔ دینی مدارس کے طلبہ کے حوالے سے طالبان کی مثال پیش کی جاتی ہے کہ وہ محض فقہ و حدیث کے طالب علم نہیں بلکہ عسکری تربیت یافتہ افراد ہیں۔ لیکن یہ بات کہنے والے اس حقیقت کو کیوں بھول جاتے ہیں کہ ۱۵۰۰ سال کی اسلامی روایت علم یہ بتاتی ہے کہ آج تک کسی شیخ الحدیث نے اپنے طلبہ کو ٹینک اور ہیلی کاپٹر اڑانے کی تربیت نہیں دی۔ پھر طالبان یہ سب کچھ سیکھ کر کہاں سے آگئے؟ کیا یہ درست نہیں ہے کہ جس ہیئت مقتدرہ نے انھیں یہ تربیت دی وہی آج دوسروں پر الزام دھرتے ہیں۔ یہ کون سا انصاف ہے؟ اس جملۂ معترضہ سے قطع نظر‘ جو حقیقت واقعہ (ground reality) پائی جاتی ہے ہمیں اس کا حل تلاش کرنا ہوگا۔
۱- اس پیچیدہ اور اُلجھے ہوئے مسئلے کے حل کے لیے پہلا اقدام خود نوعیت مسئلہ کا تعین و تجزیہ ہے اور یہ کام باہر سے آنے والا کوئی امریکی یا برطانوی مستشرق نہیں کرے گا‘ اسے ان افراد کو کرنا ہوگا جو خود کو مختلف ممالک کا ’’نمایندہ‘‘ سمجھتے ہیں۔ نمایندہ مسالک خواہ وہ شیعہ ہوں‘ دیوبندی ہوں‘ بریلوی ہوں یا اہل حدیث ہوں‘ انھیں مل کر معروضی طور پر ایک تجزیاتی عمل کے ذریعے مسئلے کا تعین کرنا ہوگا کہ اصل سبب کیا ہے؟ اس کی جڑیں کہاں تک پہنچتی ہیں اور اس کے محرکات کیا ہیں؟
۲- فقہی مسالک کے نمایندہ علما کو ایک مرتبہ نہیں بار بار ایک مستقل فورم کی شکل میں ایک ساتھ بیٹھ کر ٹی وی اور ریڈیو پر اپنے مسلک کے ماننے والوں کو مخاطب کرتے ہوئے ‘ امن عامہ کے قیام‘ نفرتوں کے خاتمے اور اخوت و حق کے قیام کے لیے اپنی مخلصانہ رائے دینی ہوگی۔ وہ دوعملی اختیار نہیں کر سکتے کہ نجی محفلوں میں یا کسی قومی کانفرنس میں ایک مشترکہ اعلامیہ پر قیام امن اور اتحاد امت کی کسی قرار داد پر دستخط بھی کر دیے جائیں اور ساتھ ہی ان کے مسلک کی ایک سپاہ دوسروں کے اعوان و انصار سے نبردآزما بھی ہو جائے۔
۳- تشدد‘ قتل و غارت اور اختلافات کی پیدا کردہ منافرت کو دُور کرنے کے لیے علما اور مسالک کے رہنما افراد کو آگے بڑھ کر ایک مثبت کردار ادا کرنا ہوگا۔ یہ بات باور نہیں کی جا سکتی کہ ایک مسلک کے سربراہ تو ایک متوازن الفکر معروف عالم دین ہوں لیکن اسی مسلک کا ایک عسکری تربیت یافتہ گروہ بھی ہو‘ جو جہاں جب چاہے شب خون مارنے کے لیے آزاد ہو۔ ظاہر ہے ایسے گروہ کی قیادت جن‘ بھوت یافرشتے تو کرنے سے رہے۔ کسی مسلکی سربراہ کی رائے کے خلاف ایسے افراد کا کوئی کام کرنا عقل نہیں مان سکتی۔ گویا مسالک کے سربراہان کو عوامی سطح پر امن کے قیام‘ انسانی جان کے احترام اور قتل و غارت گری کے خاتمے کے لیے اپنا جوہری کردار ادا کرنا ہوگا اور اپنے مسلک کے پیروکار افراد کے مثبت اور منفی تمام کاموں کی ذمہ داری قبول کرنی ہوگی۔
۴- ہمیں اس حقیقت کو ماننا ہوگا کہ انسانی مسائل کا حل تنہا قوت کے استعمال سے نہیں ہو سکتا۔ اس لیے وہ مسلکی گروہ بھی جو غیر دانستہ طور پر ایک دہشت پسندانہ طرزعمل کا شکار ہو گئے ہیں‘ انھیں موجودہ تشدد کی ثقافت کی گرداب سے نکلنے کے لیے جرأ ت مندی اور خلوص نیت کے ساتھ اصلاح حال کی طرف متوجہ ہونا پڑے گا۔ مسائل کے حل کے لیے حملے اور جوابی حملے کی جگہ عقل و دانش کو استعمال کرتے ہوئے باہمی اعتماد اور ملکی یک جہتی کے قیام کے لیے ان تلخ دشمنیوں کو دفن کرنا ہوگا جو وقتاً فوقتاً کسی کی زندگی کا چراغ گل کرنے کی شکل میں ظاہر ہوتی ہیں۔ آستین کا لہو زیادہ عرصہ چھپا نہیں رہتا اور جلد یا بدیر حقائق سے پردہ اٹھ کر رہتا ہے‘ اس لیے متعلقہ مسلکی گروہوں کو آنے والی نسلوں کے خیال سے نفرتوں کی اس سلگتی ہوئی آگ کو بجھانا ہوگا خواہ اس عمل میں ان کے اپنے ہاتھوں پر آبلے پڑ جائیں۔
۵- جماعت اسلامی جو اس خطے میں واحد غیر مسلکی دینی‘ اصلاحی‘ دعوتی اور سیاسی جماعت کی حیثیت رکھتی ہے ۔ اسے بھی اس ملّی اہمیت کے معاملے میں ایک اہم کردار ادا کرنا ہوگا۔ اس کے ارکان‘ امرا‘ ارکان شوریٰ غرض قیادت میں ہر سطح اور درجے پر اہل حدیث‘ دیوبندی اور بریلوی فکر کے افراد و علما شامل ہیں۔ اس میں فقہ جعفریہ سے وابستہ حضرات بھی شامل رہے ہیں۔ یہ وہ واحد دینی جماعت ہے جو دیگر جماعتوں کے سربراہان و مخلصین کو بلا کسی تردد و تکلف ملّی یک جہتی کے لیے دعوت دے سکتی ہے۔ لیکن یہ کام محض کانفرنسوں سے نہیں ہو سکتا۔ اس غرض سے ایک مستقل رابطہ گروپ تشکیل دینا ہوگا‘ جس میں بار بار ملاقاتوں کے نتیجے میں اعتماد کی بحالی اور دلوں میں قربت پیدا ہو سکے۔ اس تعمیری اور طویل عمل میں ایک دوسرے سے واقفیت‘ ذاتی تعلّق اور تعمیر اعتماد (confindence building) بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔
۶- مختلف مسالک کے جیدعلماے کرام اور بزرگان دین کو بھی عزم کرنا ہوگا کہ وہ اپنے مسلک کو مزید بدنام نہ ہونے دیں گے اور جو دست شرانگیز ان کے مسلک کے بعض حضرات کو اپنے لیے استعمال کر رہے ہوں‘ ان کو پہچانتے ہوئے اس دخل اندازی کو جرأت کے ساتھ بند کرانے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔ لازمی طور پر ان معاملات میں حکومت کو خلوص نیت اور مکمل عزم کے ساتھ‘ اس عمل میں برابر کا حصہ ادا کرنا ہوگا۔ ایک طرف اسے اپنے اداروں کو اس غرض سے حرکت میں لانا ہوگا اور دوسری طرف عدلیہ کے احترام کو بحال کرنا ہوگا۔ ابلاغ عامہ کو بھی ایک تعمیری رُخ پر چلنا ہوگا اور اطلاعات کے ذریعے سنسنی پھیلا کر اپنے مذموم کاروبار کو چمکانے کی جگہ ان اداروں اور افراد کو عوام کے سامنے بے نقاب کرنا ہوگا جو دہشت گردی کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔ اگر اپنے مفادات کے پیش نظر ابلاغ عامہ کے اجارہ دار‘ اقتدار میں شریک دو جماعتوں میں جس کے بارے میں چاہیں اور جب چاہیں تحقیقات پر مبنی جائزے چھاپ سکتے ہیں کہ کس کی کتنی املاک کہاں پائی جاتی ہیں تو کیا دہشت گردوں کے خلاف اس قسم کی تحقیقات نہیں ہوسکتیں۔
۷- قومی ابلاغ عامہ کی ذمہ داری بھی اس سلسلے میں غیر معمولی طور پر اہم ہے۔ اگر یہ فرض کر بھی لیا جائے کہ بعض علما اس دہشت گردی کی پشت پناہی کر رہے ہیں تو حکومتی ابلاغ عامہ (ریڈیو/ ٹی وی) کو کس نے روکا ہے کہ وہ ملک کے بڑے اور چھوٹے تمام نمایندہ علما کو یکے بعد دیگرے ٹی وی پر بلا کر خود ان سے براہِ راست اس مسئلے کا حل دریافت کریں اور معروضیت اور کشادگی کے ساتھ ان کی آرا کو بغیر کسی ترمیم کے نشر کریں۔ یہ سمجھنا کہ اس طرح کشیدگی بڑھ جائے گی‘ بے بنیاد واہمہ ہے۔ ہر فرد اپنی جماعت کی ذات کے حوالے سے خوب سمجھتا ہے کہ کس بات کے کہنے سے مثبت یا منفی تاثر پیدا ہوگا۔ اس لیے براہِ راست ان حضرات کا ٹی وی پر آنا خود یہ واضح کر دے گا کہ آخر اس ہنگامے کے پس پردہ کون ہے؟ اگر یہ علما اپنی بریت کا اعلان کرتے ہیں تو پھر خود بخود ظاہر ہو جائے گا کہ تشدد و دہشت گردی کا کون ذمہ دار ہے؟ اور یہ قصہ پیدا کس نے کیا ہے؟ اس قسم کے قومی اہمیت کے حساس موضوعات پر بات کھل کر ہونی چاہیے۔ پس پردہ جوانمردی دکھانا اور سامنے بھولے پن کا مظاہرہ کرنا عوام کی نگاہ سے نہیں چھپ سکتا۔ عوام خوب سمجھتے ہیں کہ کون کیا کر رہا ہے اور کیوں کر رہا ہے؟
یہ مسئلہ ملک کی بقا سے وابستہ ہونے کے سبب تحریک اسلامی کے کارکنوں کے لیے بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ اوّلاً تحریک کی بنیاد ہی حریت فقہ پر ہے۔ چنانچہ جماعت کی تاسیس (اگست ۱۹۴۱ء) سے آج تک جماعت نے اپنے دروازے ہر مسلک کے ماننے والے متلاشیان حق کے لیے کھلے رکھے ہیں۔ مسلکی منافرت اور گروہ بندی کی‘ جو دعوت دین کے بنیادی مزاج کے منافی ہے‘ ہمیشہ کھل کر مخالفت کی ہے۔ ثانیاً تحریک اسلامی کا مقصد اس ملک عزیز میں اقامت دین اور صالح افراد کی قیادت کا قیام ہے۔ یہ کام اسی وقت ہو سکتا ہے جب دین سے تعلق رکھنے والے افراد میں ایک دوسرے کے لیے احترام‘ محبت اور اخوت کے جذبات ہوں۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اختلافات کے باوجود ایک دوسرے کی ڈھال تھے۔ ان کے ہاتھ‘ ان کی زبان‘ بلکہ ان کے ذہن تک ایک دوسرے کے بارے میں برے خیالات سے محفوظ تھے۔
جو جماعت صحابہ کرامؓ کے اسوہ اور اسوہ رسولؐ کو بنیاد بنا کر معاشرتی‘ معاشی‘ سیاسی اور تعلیمی و قانونی اصلاح کی داعی ہو‘ اس کے لیے یہ بات فریضے کی حیثیت رکھتی ہے کہ وہ جہاں بھی اپنے دو دینی بھائیوں کو مقابل دیکھے فاصلحوا بین اخویکم کے ابدی عالمی اسلامی اصول کی روشنی میں صلح جوئی کی کوشش اور دلوں کوجوڑنے کے لیے اپنا فرض ادا کرے۔ ثالثاً تحریک اسلامی نے اس ملک کے قیام میں گذشتہ صدی کے چوتھے عشرے سے جو نظری اور عملی کردار ادا کیا ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ مسلم لیگ نے محترم مولانا مودودیؒ کی کتاب مسئلہ قومیت (جس میں انھوں نے وجودِ پاکستان کے لیے نظری بنیاد فراہم کرتے ہوئے یہ بات کہی کہ مسلمان اور ہندو ایک قوم نہیں ہیں‘ چنانچہ ہماری ثقافت‘ ہماری تاریخ‘ ہمارے ہیرو سب ان سے مختلف ہیں) کو کثیر تعداد میں جگہ جگہ تقسیم کیا۔جس طرح اس ملک کے قیام میں تحریک نے کردار ادا کیا اور ایسے ہی اس میں اتحاد و یک جہتی کے قیام کے لیے بھی اسے قیادت کرنی ہوگی۔ رابعاً اس ملک میں نظام اسلامی کے قیام کے لیے تحریک اسلامی کو ان تمام قوتوں کو اپنے سے قریب لانا ہوگا جو خود کو مذہبی جماعتیں کہتی ہیں۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب ان جماعتوں میں اپنے مخالف مسلک کے افراد کے لیے کم از کم عداوت اور دشمنی کے جذبات نہ ہوں۔
رواداری اور صبروتحمل وہ اعلیٰ دینی اقدار ہیں جن پر عمل کرنا مومن کے ایمان کی تشکیل کے لیے ضروری ہے۔ نہ صرف قومی سطح پر بلکہ صوبائی ‘ ضلعی‘ شہری اور محلہ کی سطح پر رواداری کے لیے ایک مسلسل تعلیمی جہاد کرنا ہوگا۔ اس جہاد کے نتائج ممکن ہے آج نظر نہ آئیں لیکن یہ کام آنے والی نسلوں کی طرف سے ایک قرض کی حیثیت رکھتا ہے۔ مسلکی اختلافات سے بلند ہونے کے سبب تحریک اسلامی ہی وہ ادارہ ہے جو اس کام کو دوسروں کے مقابلے میں زیادہ غیر جانب داری سے کر سکتا ہے۔
مسلم ممالک بالخصوص عرب دُنیا میں جمہوری روایت کے نشوونما و ارتقا پر بات کرتے وقت مغربی تجزیہ نگار عموماً اپنے تحفظات کا ذکر کرتے ہیں اور بادشاہت یا فوجی آمریت کو جمہوریت کے لیے خطرہ قرار دیتے ہیں۔ ان کے مطابق اس وقت دُنیا کی ۱۸۹ اقوام میں سے تقریباً ۱۲۰ میں جمہوریت کسی نہ کسی شکل میں پائی جاتی ہے اور اس میں سے حد سے حد نصف مقامات پر جمہوری روایت مستحکم ہے۔ ۱۹۹۰ء کی دہائی میں تقریباً ایک درجن ممالک میں جمہوریت کو صدمہ پہنچا۔ اس سلسلے کی آخری مثال ۱۲اکتوبر ۱۹۹۹ء کو ہونے والا پاکستان کا پرُامن فوجی انقلاب تھا۔
ان ممالک میں جمہوریت کی ناکامی کے اسباب متنوع اور پیچیدہ ہیں۔ ان میں خصوصاً انصاف اور قانون کی حکمرانی اور تحفظ کا فقدان اور عدلیہ کا خودمختار نہ ہونا ایک بنیادی سبب کہا جا تا ہے۔ معاشی عدم استحکام اور قرضوں پر مبنی معاشی ترقی بھی ایک بنیادی سبب بتائی جاتی ہے جس میں سیاست دانوں اور نااہل نوکرشاہی کی طرف سے مالی بددیانتی اور فنی قابلیت میں کمی کا بھی بڑا دخل سمجھا جاتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ترقی پذیر ممالک میںتقریباً ۴۰ فی صد قومی معاشی پیداوار صرف قرضوں کے سود کی ادایگی پر صرف ہو جاتی ہے‘ جب کہ قرضے وہیں کے وہیں رہتے ہیں۔ اس طرح معاشی اضمحلال کا ایک کبھی نہ ختم ہونے والا سلسلہ ان ممالک کو اپنی گرفت میں لیے رہتا ہے۔ اس میں رہی سہی کسر سیاست دانوں اور نوکر شاہی کی مالی بدعنوانی پورا کر دیتی ہے۔ ایسے معاشی حالات میں جمہوریت کو جس کی روح احتساب اور جواب دہی کے تصور میں ہے‘ کس طرح پنپنے کا موقع مل سکتا ہے۔ گویا نوکرشاہی ہو یا اختیارات پر قابض سیاست دانوں یا فوج کا گروہ‘ ہر ایک جمہوریت کے موضوع پر اپنی گل افشانی کے باوجود حقیقی جمہوریت کے لیے ہمیشہ سنگ راہ بنا رہتا ہے۔
یہ فطری بات ہے کہ عدل و انصاف کا فقدان ‘ تحفظ کا نہ ہونا‘ حکمرانوں کی بے اصولی اور مالی استحصال کا آنکھوں کے سامنے پایا جانا‘ نظم مملکت پر سے لوگوں کے اعتماد کو متزلزل کر دیتا ہے اور crisis of governanceگہرے سے گہرا ہوتا چلا جاتاہے۔ انتظامیہ اور سیاست دان ایسی بگڑی ہوئی صورت حال میں اپنی نااہلی اور جرائم پر پردہ ڈالنے اور عوام کی توجہ اصل مسئلے سے ہٹانے کے لیے ایسے قضیوں کو ہوا دیتے ہیں جن میں اُلجھ کر عوامی توجہ بدعنوان حکمرانوں کی طرف سے ہٹ جائے۔ اس حوالے سے سب سے زیادہ کارگر حیلہ مذہبی تفرقہ بازی ہے۔چنانچہ اکثر عرب حکومتوں نے اپنی ضرورت کے پیش نظر کبھی اسلامی تحریکات کو قیدوبند اور ظلم کا نشانہ بنایا اور کبھی انھیں وقتی آزادی دے کر دوسرے نظریاتی دشمنوں کی قوت کو توڑنے یا اپنے حق میں ایک توازن پیدا کر کے ان تحریکات پر قابو پانے کے لیے استعمال کیا۔
پاکستان میں بھی صورت حال اس سے مختلف نہیں رہی۔ دو بڑی سیاسی جماعتیں باری باری ملک اور عوام کو اپنی سواری کے لیے استعمال کرتی رہیں۔ خودمسلکی جماعتوں نے خواہ وہ دیوبندی مکتب فکر کی علم بردار ہوں یا بریلوی‘ اہل حدیث یا شیعہ مسلک سے تعلق رکھتی ہوں‘ کبھی اپنے آپ کو ایک پارٹی سے وابستہ کیا کبھی دوسری سے اور اپنی سیاسی پشت پناہی کے بل پر اپنی مخالف مسلکی جماعت کے افراد کو زک پہنچانے میں کبھی تکلف نہیں کیا۔ لیکن ایک پرانی کہاوت کے مصداق ’’کرے مونچھوں والا‘ پکڑا جائے ڈاڑھی والا‘‘ مذہبی تشدد کا الزام بلااستثنا مسلکی جماعتوں پر ہی رکھا گیا۔ دوسری جانب ان میں سے کئی جماعتوں نے خود بھی اپنی قوت بازو کا اظہار کرنے کے لیے اپنی ذیلی نیم عسکری تنظیمیں قائم کر کے اس الزام کے لیے خود بنیاد فراہم کر دی۔
ان زمینی حقائق کے پیش نظر اور بالخصوص مذہبی تشدد اور فرقہ وارانہ قتل و غارت کے حوالے سے مغربی مصنفین کے اعتراضات کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس صورتِ حال کے اسباب پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ بالخصوص یہ کہ (۱) کیا نام نہاد ترقی پذیر ممالک (عرب دُنیا میں یا ایشیائی ممالک) میں مذہبی منافرت اور تشدد پسندی کے باوجود جمہوریت کا کوئی مستقبل ہے؟ (۲) کیا جمہوریت واقعی اسلام کی ضد ہے؟ اور (۳) کیا تحریکات اسلامی ان بگڑے ہوئے حالات میں اسلامی نظام حکومت کو بطور متبادل نافذ کرنے کی قوت رکھتی ہیں؟
مغربی مصنفین ان تینوں سوالات کا جواب عموماً نفی میں دیتے ہیں‘ یعنی جمہوریت اور اسلامی احیائی تحریکات میں نبھائو بہت مشکل ہے۔ ان کا خیال ہے کہ اسلامی تحریکات ’’جہاد‘‘ پر ایمان رکھنے کے سبب تشدد کو جائز سمجھتی ہیں۔ اس لیے ایک معتدل (modrate)اور آزادی پسند(liberal) نظام اور ماحول پیدا کرنے سے قاصر ہیں اور نتیجتاً جہاں کہیں بھی اسلامی نظام کے نفاذ کا امکان پیدا ہوتا ہے اسے قصرجمہوریت اور سرمایہ دارانہ نظام کے لیے شدید خطرے سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ جس طرح deductive logic یا منطق استخراجیہ میں ایک مفروضہ دوسرے مفروضے سے ملحق ہوتا ہے اور ایک متوقع منطقی نتیجے کی طرف لے جاتا ہے‘ بالکل اسی طرح یہ تصورات مغربی ابلاغ عامہ اور علمی حلقوں میں متواتر پیش کیے جا رہے ہیں جن کا اظہار عمانویل سیوان (Emmanuel Siven)نے اپنے مضمون (Arabs & Democracy: Illusions of Change) میں واضح طور پر کیا ہے۔
ہمارے خیال میں اپنی تمام تر معروضیت کے باوجود مغربی مصنفین اسلام اور جمہوریت کے بنیادی تضاد‘ تحریکات اسلامی کے انتہاپسند اور جہاد کے ’’مذہبی جنون‘‘ ہونے کے بارے میں اپنے طے شدہ تصورات اور ذہنی تحفظات کے اتنے عادی ہو چکے ہیں کہ ساون کے اندھے کی طرح انھیں ہرچیز ہری ہری نظرآتی ہے۔ گو سوشل سائنس کی تحقیقی حکمت عملی (research methodology) میں نام نہاد معروضیت کے باوجود داخلیت کے عنصر کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا لیکن یہاں معاملہ اس سے کچھ بڑھ کر ہے۔
مندرجہ بالا تینوں فکری اغلاط کی اصلاح تفصیلی گفتگو کی متقاضی ہے۔ ہم انتہائی اختصار سے یہاں صرف تین نکات کی طرف اشارہ کریں گے:
۱- اسلام اور جمہوریت بلاشبہ بنیادی طور پر دو مختلف چیزیں ہیں۔ اسلام کی بنیاد قرآن و سنت کی عظمت اور مطلق بالادستی پر ہے‘ جب کہ جمہوریت نظری طور پر عوام کی بالادستی کا نام ہے۔ اس بنیادی فرق کے ساتھ اسلامی نظم مملکت کی بنیاد شوریٰ کے الہامی اصول پر ہے اور اسلامی نظام خلافت فرد یا طبقۂ علما کی آمریت سے مکمل طور پر آزاد ہے۔ مغرب کے ذہن میں لفظ مذہب جو ارتعاش پیدا کرتا ہے اس کی ہر لہرسے تھیاکریسی کی صدا بلند ہوتی ہے۔ پھر بعض حادثات زمانہ بھی مغرب کے اس تصور کی کسی حد تک تائید کر دیتے ہیں‘ مثلاً فی زمانہ ’’طالبان‘‘ کا ذہنی ہّوا جسے مذہبی ریاست کے ماڈل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ خود پاکستان کے لادینی فکر رکھنے والے دانش ور‘ ہر دو دن کے بعد انگریزی کے کسی روزنامے میں کسی مضمون یا ادارتی نوٹ کے ذریعے اس خطرے کی گھنٹی بجاتے رہتے ہیں کہ ’’طالبان دستک دے رہے ہیں!‘‘ اور اس طرح ’’مذہبی جنونیت کے غبارے‘‘ میں ہوا بھرتے رہتے ہیں تاآنکہ عوام الناس کے ذہن میں مذہبی عناصر کے لیے سوائے نفرت کے کوئی جذبہ باقی نہ رہے۔
۱- اسلام روح جمہوریت کا علم بردار لیکن انسان کی خدائی کا منکر ہے۔ وہ انسان کو ایک باشعور‘ آزاد‘ فیصلہ کرنے والی مخلوق کی حیثیت سے ارادے کی آزادی دیتے ہوئے سیاسی‘ معاشی اور معاشرتی معاملات میں اپنی قوت فیصلہ کے صحیح استعمال کی دعوت دیتاہے لیکن ساتھ ہی ہر قدم پر انسان کو یاد دلاتا رہتا ہے کہ نہ وہ اقتدار کا بندہ ہے نہ عوام کا بلکہ وہ صرف اللہ کا بندہ ہے۔ جب تک اس بنیادی حقیقت کو ذہن نشین نہ کر لیا جائے خیالات اور تصورات کا تاج محل بنیادی پتھرکے ٹیڑھے ہونے کے سبب تاثریا کجی اور ٹیڑھ سے خالی نہیں ہوسکتا۔
۲- مسلم ممالک خصوصاً عرب دُنیا میں ملوکیت‘ فوجی آمریت یا غیر جمہوری نظاموں کے پائے جانے کے اصل سبب پر غور کیا جائے تو یہ بات واضح ہو جائے گی کہ ایک جانب خلافت راشدہ کے بعد خاندانی اور شخصی ملوکیت کے دَور کا آغاز ہوا اور تھوڑے عرصے بعد مسلمانوں کے سیاسی اور تہذیبی زوال کے ساتھ ہمسایہ تہذیبوں کے زیراثر بادشاہت کی مختلف شکلوں نے رواج کی شکل اختیار کرلی۔ دوسری طرف اٹھارھویں صدی سے مغربی سامراج نے مسلم ممالک میں جہاں جہاں قدم جمائے بادشاہوں اور آمروں کو اپنے حق میں بہتر جانا اور اپنے جمہوریت کے عشق کے دعووں کے باوجود اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے آمروں اور جابروں کی حمایت و طرف داری کی۔ دَورِ جدید میں مغربی فکر اور حکمت عملی کا ایک واضح تضاد مغربی طاقتوں کی خارجہ ‘ معاشی اور ابلاغ عامہ کی پالیسی میں واضح ہو کرسامنے آجاتا ہے۔ عرب دُنیا کی بادشاہتوں اور سابق شاہِ ایران اور شمالی افریقہ کی آمریتوں کو تحریکات اسلامی نے نہیں جمہوریت کے مدعی مغرب نے پروان چڑھایا‘ کھل کر ان کی مکمل حمایت و امداد کی اور ان ممالک کی اسلامی تحریکات کو ان کی جمہوریت پسندی کے باوجود اپنا دشمن سمجھا۔
۳- اکثر تحریکات اسلامی نے اپنے سیاسی پروگرام اور منشور میں جن باتوں کو اوّلین اہمیت دی ہم ذیل میں صرف نکات کی شکل میں ان کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ یہ نکات خود ان تحریکات کے بارے میں مغرب کی غلط فہمی کی اصلاح کے لیے کافی مواد فراہم کرتے ہیں‘ اور تاریخی اور دستاویزی طور پر ان تحریکات کے ’’مذہبی جنونی‘‘، ’’انتہا پسند‘‘ یا ’’جمہوریت دشمن‘‘ ہونے کی مکمل تردید کردیتے ہیں۔ پاکستان‘ سوڈان ‘ ترکی اور اُردن کی تحریکات اسلامی یقین رکھتی ہیں کہ:
ان نکات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ دُنیا بھر میں اسلامی تحریکات نے نہ تو کبھی حصولِ اقتدار کے لیے تشدد کا راستہ اپنایا ہے اور نہ ہلّہبول کر ہی نظام اسلام کے نفاذ کی قائل ہیں بلکہ اس کے برعکس صبرواستقامت اور دستوری ذرائع سے اصلاح اور قیامِ عدل کے لیے کوشاں ہیں۔ بہ ظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ تحریکات اسلامی کے مغربی نقاد یا تو ان تحریکات کے دساتیر‘ منشور اور اصلاح و تجدید کے تصورات سے براہِ راست واقفیت نہیں رکھتے اور ثانوی ذرائع معلومات پر انحصار کرتے ہوئے‘ ان کے بارے میں ایک ذہنی تصویر بنا لیتے ہیں‘ یا تحریکات اسلامی نے خود اپنے بارے میں معلومات فراہم کرنے اور ایک تہذیبی اور فکری مکالمے کے ذریعے دوسروں کو اپنے مقاصد اور طریق کار سے آگاہ کرنے میں غفلت برتی ہے۔ مسئلے کا حل نہ الزام تراشی ہے نہ ایک دوسرے کو نظرانداز کرنا۔ تحریک اسلامی کے بارے میں گمراہ کن تصورات کی اصلاح اگرمغرب کی ضرورت نہ بھی ہو جب بھی تحریکات اسلامی کو اپنے دعوتی اور اصلاحی تشخص کی بنا پر خود آگے بڑھ کر ایک ثقافتی اور علمی مکالمے کا آغاز کرنا ہوگا جو آخرکارخود اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں مغرب کے ناقص اندازوں کی اصلاح میں مددگار ہوگا۔