۲۰۰۶فروری

فہرست مضامین

مغرب کا اندیشہ ٔجہاد اور جہاد

پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد | ۲۰۰۶فروری | مغرب اور اسلام

Responsive image Responsive image

جہاد اسلام کی ان تعلیمات میں سے ہے جسے مغرب ہی نہیں خود مسلمانوں میں سے بعض افراد نے ہر دور میں عصری تقاضوں کے پیش نظر تعبیر کی چھلنی سے گزارنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی‘ اور اس کی ایسی ایسی نادر تعبیرات پیش کیں جو شاید قرنِ اول کے کسی مجتہد کے وہم و گمان میں بھی نہ ہوں گی۔ ان خدشات‘ غلط فہمیوں‘ فکری غلطیوں اور اندیشوں میں سب سے نمایاں پہلو جہاد کو ’غارت گری‘ کے تصور کے ساتھ پیش کرنا ہے جسے گذشتہ دو عشروں میں عملی سطح پر بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا رہا ہے۔

یورپی کلیسا نے صدیوں قبل (۱۰۹۱ئ-۱۲۹۱ئ) مسلمانوں اور یہودیوں کو تلوار کے ذریعے عیسائی بنانے کے لیے جن صلیبی جنگوں کا آغاز کیا تھا‘ ان کی تمام غارت گری کو یکسر نظرانداز کرتے ہوئے دورِ جدید کے اکثر مستشرقین‘ قرآن کے تصورِ جہاد کو معروضی تحقیق و تقابل کے بغیر بیک جنبش قلم قوت کے اندھے استعمال‘ تشدد اور غارت گری سے تعبیر کربیٹھتے ہیں اور پھر تخیل کے زور پر   وضع کردہ ان تعبیرات کو اتنی تکرار کے ساتھ نقل کیا جاتا ہے کہ نہ صرف عامۃ الناس بلکہ غیرمسلم اور مسلم دانش ور بھی‘ بغیر ضمیر کی کسی خلش کے اکثر ان ہوائیوں پر ایمان لے آتے ہیں۔ علمی حلقوں میں اس تصور کے دو واضح ردعمل سامنے آتے ہیں:

پہلے ردعمل کا تعلق ذہنی مرعوبیت سے ہے جس میں بار بار دہرائی ہوئی ایک بات سے متاثر ہوکر معذرت پسندانہ رویہ اختیار کیا جاتا ہے‘ اور جہادو قتال کو ماضی کی ایک روایت قرار دیتے ہوئے اپنی ’روشن خیالی‘ کا ڈھنڈورا پیٹ کر یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ ہم تو اصل میں بہت امن پسند بلکہ ’اہنسا‘ کے علم بردار ہیں۔ ہم ایک چیونٹی کے مارنے کو بھی حیوانی حقوق کی پامالی سمجھتے ہیں۔ اسلحے کا استعمال صرف اپنے دفاع کے لیے جائز سمجھتے ہیں۔ اگر کسی خطے میں انسانوں کے حقوق پامال ہو رہے ہوں‘ ان کا خون ناحق بہایا جا رہا ہو‘ انھیں مستضعفین فی الارض بنا دیا گیا ہو تو یہ ان کا مسئلہ ہے۔ ہم   زیادہ سے زیادہ ان کے لیے صرف دعا کرسکتے ہیں۔ ان کی امداد اور انھیں ظلم سے نجات دلانا ہمارا نہیں بلکہ خالقِ کائنات کا مسئلہ ہے!

دوسرا ردعمل یہ سامنے آتا ہے کہ اسلام تو نام ہی مشرکین اور کافرین سے زمین کو پاک کرنے کا ہے۔ اس لیے انھیں جہاں پایا جائے بلاتکلف قتل کر دیا جائے۔ اس نوعیت کی نادر تعبیرات کو عموم کا درجہ دے کر ان پر ایک عالی شان تصوراتی محل تعمیر کر دینا زمینی حقائق اور علمی نظائر کے ساتھ ایک صریح زیادتی ہے۔

مغرب کی اصل ذھنی الجہن

کیا قرآن کا دیا ہوا تصورِ جہاد ہر دور میں تبدیل ہوتا رہا ہے؟ یہ ایک تحقیق طلب سوال ہے۔ لیکن اس پر غور کرنے سے قبل ہمیں یہ تعین کرنا ہوگا کہ معاصر مغربی مستشرقین کی اصل ذہنی الجھن کیا ہے۔ اس سلسلے میں چند سوالات‘ جنھیں وہ بار بار اٹھاتے ہیں‘ یہ ہیں:

                ۱-            کیا اسلام قتل و غارت گری اور سوچے سمجھے تشدد (organized use of violence) کی اخلاقی اور قانونی توثیق کرتا ہے؟

                ۲-            کیا اسلام‘ جہاد کو جنگِ مقدس (Holy War)کا درجہ دیتا ہے؟

                ۳-            کیا جہاد کا مقصد سیاسی توسیع ہے اور یہ محض ریاست کی حدود بڑھانے کے لیے کیا جاتا ہے؟

                ۴-            کیا اسلام اور قوت و تشدد کے استعمال میں کوئی منطقی اور فکری تعلق ہے؟

                ۵-            کیا جہاد کا مقصد مسلم دنیا اور غیرمسلم دنیا پر شریعت کو مسلط (impose) کرنا ہے؟

                ۶-            کیا جہاد جنت کے حصول کا آسان‘ مختصر اور یقینی راستہ ہے؟

                ۷-            کیا اسلام‘ بڑے پیمانے پر انسانی تباہی کے آلات (WMD) کو مباح قرار دیتا ہے؟

یہ چند بنیادی سوالات ہیں جن کو معاصر مغربی مستشرقین کی تحریروں میں دیکھا جا سکتا ہے۔

آغاز ہی میں یہ بات واضح کر دینا ضروری ہے کہ قرآن کریم کوئی جامد قوانین کی دستاویز نہیں ہے بلکہ یہ تین واضح انواع پر مشتمل ہے‘ یعنی احکام‘ اصول اور تعلیمات و ہدایات۔ جہاں تک احکام کا تعلق ہے وہ متعین ہیں جن میں حدود‘ معاملات اور عبادات کے حوالے سے تشریح کردی گئی ہے۔ یہ احکام قرآن کریم میں موجود بعض اصولوں پر مبنی ہیں‘ مثلاً: قصاص کے حکم کی بنیاد اس اصول پر ہے کہ انسانی جان کا بچانا اصل ہے اور جو اسے ضائع کرے اس کی تعزیر اور دوسروں کی تعلیم کے لیے جان کے بدلے جان لی جائے گی۔ لیکن احکام کے ساتھ بعض اوقات تعلیم کوحکم سے ملحق اور بعض اوقات الگ بیان کر دیا گیا۔ مثلاً قتل کے حوالے سے نص کو بیان کرتے ہوئے تعلیم دے دی گئی ہے کہ اگر ایک متاثر خاندان قاتل کو معاف کر دے تو بڑے اجر کی بات ہے یا خون بہا وصول کرلے تو یہ اس کا حق ہے۔ لیکن اگر وہ اس کو نظرانداز کرتے ہوئے اپنے حق پر اصرار کرے اور قانونی اداروں کے ذریعے قاتل کی جان بدلے میں لینے پر قائم رہے تو یہ بھی قانونی روایت کے مطابق ہوگا۔ اس لیے بعض مغربی اور بعض مسلم مستشرقین کا یہ کہنا کہ اسلام میں precepts‘یعنی مستند قانون و ضابطے کی کمی ہے‘ قرآن شناسی سے ناواقفیت کی ایک علامت ہے۔

انسانی جان کے احترام اور تحفظ و بقا کو فقہاے اسلام نے شریعت کا پہلا مقصد قرار دیا ہے اور قرآن کریم نے متعد مقامات پر یہ بات بیان کی ہے کہ جس نے ایک انسانی جان کو ناحق ضائع کیا اس نے گویا پوری انسانیت کو قتل کر دیا اور جس نے کسی ایک انسانی جان کو بچایا‘ اس نے تمام انسانوں کو حیات بخشی۔ یہ مذہب‘ رنگ‘ نسل‘ ذات ہر قسم کی تقسیم سے بلند ہوکر تمام انسانوں کے لیے ایک ایسا اصول ہے‘ جس کا مانناکسی مسلمان کے مسلمان ہونے کی شرط ہے۔ اگر واقعی ’بنیاد پرست‘ کی تعریف یہ ہے کہ وہ اپنے دین کی کتاب کو لفظاً لفظاً مانتا ہو تو ہمیں یہ کہنے میں کوئی تردد نہیں ہوسکتا کہ جو جتنا زیادہ ’بنیاد پرست‘ ہوگا وہ اتنی ہی شدت سے قرآن عظیم کے اس اصول پر کاربند ہوگا۔ ورنہ اس کے ایمان کے بارے میں سوال اٹھے گا کہ وہ قرآن کو مانے بغیر کس قسم کا مسلمان ہے۔

بلاشبہہ اس اصول کو دوٹوک انداز میں پیش کردینے کے ساتھ قرآن کریم نے یہ وضاحت بھی کر دی ہے کہ کون سا خون بہانا حق کی پیروی میں ہوگا۔ چنانچہ سورۃ الحج میں فرمایاگیا: ’’اجازت دی گئی ان لوگوں کو جن کے خلاف جنگ کی جارہی ہے‘ کیونکہ وہ مظلوم ہیں ‘اور اللہ یقینا ان کی مدد پر قادرہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے ناحق نکال دیے گئے صرف اس قصور پر کہ وہ کہتے تھے کہ ہمارا رب اللہ ہے۔ اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے دفع نہ کرتا رہے توخانقاہیں‘ گرجا‘ معبد اور مسجدیں‘ جن میں اللہ کاکثرت سے نام لیا جاتا ہے‘ سب مسمار کر ڈالی جائیں۔ اللہ ضرور ان لوگوں کی مدد کرے گا جو اس کی مدد کریں گے‘‘۔(الحج۲۲:۳۹-۴۰)

جھاد اور ’مقدس جنگ‘ کا فرق

یہاں مغربی استعماری تصورات سے نمو پانے والی ’بلارو رعایت جنگ‘ کے تصور کے برعکس ایک نئی فکر انقلابی انداز میں پیش کی گئی ہے۔ معاملہ کسی ایک ’مذہب‘ کے ماننے والوں کے تحفظ یا کسی ایک مذہب کا دوسروں پر مسلط کرنے کے لیے قوت کے استعمال کا نہیں ہے بلکہ کم از کم چار مذہبی روایات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہ بات فرمائی جارہی ہے کہ وہ عیسائیوں کے گرجے ہوں‘ یہودیوں کے معبد ہوں یا بدھ اوردیگر مذاہب والوں کی خانقاہیںیا مسلمانوں کی مساجد‘ ان تمام علاماتی مراکز ِعبدیت کے تحفظ‘ آزادی اور بلاروک ٹوک ان میں جاکر اپنے مسلک کے مطابق اپنے رب کویاد کرنے کے حق کا دفاع جہاد کا بنیادی مقصد ہے۔ یہ وہ انقلابی تصور ہے جسے ایک عیسائیت سے مرعوب ذہن اور نگاہ عموماً محسوس کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی‘ چونکہ اس کا بنیادی  ذہنی ڈھانچہ کاغذی سطح پر: ’کفارہ، نجات، تلافی اور وقار‘ کے شہتیروں سے تعمیر ہوتا ہے‘ اس لیے وہ اسلام میں بھی ان تصورات کے متبادل نظریات کی تلاش میں سرگرداں رہتا ہے۔

سورۃ الحج کی مندرجہ بالا آیت سے جو اصول نکلتا ہے وہ نہ صرف مسلمانوں بلکہ مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے مقاماتِ عبادت‘ ان کی ثقافت و تہذیبی زندگی کے تحفظ کے لیے مسلمانوں کو جہاد کی اجازت دیتا ہے۔ اس سے زیادہ حقوقِ انسانی کا احترام اور دیگر مذاہب کے ساتھ رواداری کا طرزِعمل نہ تو عیسائیت نے آج تک پیش کیا ہے اور نہ کسی اور مغربی یا مشرقی مذہب نے۔ یہی سبب ہے کہ قرآن جہاد کو ایک فریضہ قرار دیتا ہے۔ اگر جہاد کے وسیع تر تصور کو‘ جس کا ایک پہلواُوپر پیش کیا گیا‘ دین سے خارج یا معطل یا ملتوی کر دیا جائے تو پھر بین المذہبی رواداری اور دینی و ثقافتی حریت کے اصول کو بھی خیرباد کہنا ہوگا۔

جہاد کی تمام تر فرضیت و اہمیت کے باوجود قرآن وحدیث نے اس کے لیے جواصطلاح استعمال کی وہ ’اپنی جان اور مال سے اللہ کی راہ میںانتہائی کوشش‘ کی ہے۔ اسلامی تاریخ میں کوئی ایک مثال ایسی نہیں ملتی جب کسی فقیہ یا مفسر و محدث نے جہاد کے لیے Holy War‘ یعنی    حرب المقدس ’مقدس جنگ‘ کی اصطلاح استعمال کی ہو۔ انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا کے   مقالہ نگار نے اس تصور کو خالصتاً عیسائیت سے منسوب کیا ہے اور بتایا ہے کہ پاپاے روم نے یہودیوں اور مسلمانوں کو قوت کے استعمال کے ذریعے عیسائی بنانے کے لیے تمام عیسائیوں کوحروب الصلیبی کے عنوان سے جمع کیا اور یہی صلیبی جنگیں (Holy Wars)کہلائیں۔(Macropedia‘شکاگو‘ والیم ۵‘ ۱۹۷۴ئ‘ص ۲۹۷-۳۱۰)

اسلام کے قانونِ صلح و جنگ میں کسی مقدس جنگ کا تصور نہ پہلے تھا نہ آج پایا جاتا ہے۔ چونکہ اسلام زندگی کو لادینی اور دینی خانوں میں تقسیم نہیں کرتا‘ اس لیے اس کی جنگ ہو یا رزقِ حلال کا حصول‘ شعروشاعری ہو یا صنعت وحرفت‘ ہر سرگرمی کا مقصد اللہ تعالیٰ کو راضی کرنا اور اللہ تعالیٰ کی ناراضی سے بچنا ہے۔ اس لیے دین کا دائرۂ کار اور لادینی اعمال کا دائرۂ کار الگ الگ نہیں ہے۔ مغربی تعلیم یافتہ ذہن اور خود مغرب کا مادہ پرست تہذیب کا پیدا کردہ ذہن چوں کہ اسلام کو یورپی مذہبی عینک سے دیکھتا ہے اس لیے مسجد جانے کو مذہبی سرگرمی‘ جب کہ کسی ملٹی نیشنل کمپنی میں کام کرنے کو سیکولر اور پیشہ ورانہ سرگرمی قرار دیتا ہے۔ یہ تقسیم اسلام کے لیے اجنبی ہے۔ اگرچہ بہت سے مسلمان صدیوں سے اس پر عمل کرتے چلے آرہے ہیں اور اپنے خیال میں کمالِ مہارت سے ’دین ودنیا‘ میں توازن پیدا کرکے بیک وقت مسجد جاکر اللہ سبحانہ و تعالیٰ کو اور کاروبار کے دائرے میں سرمایہ داری کے دیوتا کو خوش رکھنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ قرآن کریم نے جب یہ سوال اٹھایا تھا کہ کیا بہت سے الٰہ بہتر ہیں یا ایک اللہ وحدہٗ لاشریک‘ کیا بہت سے حاکمین بہتر ہیں یا حکم صرف اللہ کے لیے ہونا بہتر ہے‘ تو اس سوال کا اصل مقصد اس تقسیم کو بنیاد سے اُکھاڑ پھینکنا تھا۔  ہم یہ بات پورے وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ اسلام میں holy warیا’مقدس جنگ‘کا کوئی تصور نہیں پایا جاتا۔ یہ بنیادی طور پر ایک عیسائی تصور ہے جسے اسلام پر چسپاں کرنا قرآن وسنت کی تعلیمات کی روح کے منافی ہے۔

جھاد کا مقصد

قرآن کریم نے جہاد کا مقصد ظلم و تعدی‘ ناانصافی‘ فتنہ و فساد‘ قتل و غارت اور بدامنی کو دُور کرنا قرار دیا ہے کیوں کہ قرآن کی نگاہ میں فتنہ قتل سے زیادہ شدید ہے۔ جب تک کسی معاشرے سے ظلم و ناانصافی دُور نہ ہو وہاں عدل کا قیام نہیں ہو سکتا۔ جہاد فی الحقیقت معاشرتی‘ معاشی اور سیاسی عدل کے قیام کا ذریعہ ہے۔ جہاں ضرورت ہو یہ جہاد قلم سے ہوگا اور جہاں ضرورت    پیش آئے اسلحے سے ہوگا۔ کہیں اس جہاد کا اسلحہ تعلیم و تربیت ہوںگے‘ کہیں جدید ترین عسکری ایجادات۔ گویا جہاد محض عسکری جدوجہد کا نام نہیں بلکہ اس مجموعی اوراجتماعی عمل کا نام ہے جو معاشرے کی اصلاح اور بقاے حیات کے لیے فاسد مادوں کو دُور کرکے فضا کو صحت مند‘ سازگار اور عدل و امن کا مرکز بنا دے۔

حقوق انسانی کی بحالی اور تحفظ اس کا ایک بنیادی محرک و مقصد ہے۔ قرآن کریم نے اس پہلو کو انتہائی واضح اور متعین الفاظ میں یوں بیان کیا ہے: ’’آخر کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں ان بے بس مردوں‘ عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑو جو کمزور پاکر دبا لیے گئے ہیں۔ اور فریاد کر رہے ہیں کہ خدایا! ہم کو اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں‘ اور اپنی طرف سے ہمارا کوئی حامی و مددگار پیدا کردے‘‘۔ (النساء ۴:۷۵)

ظلم‘ استحصال اور حقوقِ انسانی کی پامالی کو دُور کرنا اسلام کی نگاہ میں ایک عظیم انسانی خدمت ہے۔ اس ظلم کا نشانہ بننے والے مسلمان ہوں یا غیرمسلم‘ اصلاحِ احوال کے لیے اہلِ ایمان پر جہاد کو فرض کردیا گیا ہے۔ گویا جہاد نہ صرف اہلِ ایمان بلکہ انسانوں کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔ نتیجتاً ترکِ جہاد کا واضح مطلب طاغوت اور ظلم کے اہلکاروں کو مظلوموں کے خون‘   عزت اور مال سے کھیلنے کی آزادی فراہم کرنا ہوگا۔ اس حیثیت سے جہاد ایک تحفظ اور قوتِ مزاحمت (deterrence) فراہم کرتا ہے۔ اسی بنا پر قرآن نے یہ بات کہی ہے کہ تم اپنے گھوڑوں کو تیار رکھو اور اپنی قوت و اتحاد کو اتنا مضبوط بنالو کہ ظلم و کفر کی قوتیں تمھارے سامنے سر نہ اٹھا سکیں اور بغیر کسی قوت کے استعمال کے وہ محض اس دبائو کی بنا پر اللہ کے بندوں پر زیادتی سے باز رہیں۔

’جہاد‘ اور ’قتال‘ کی اصطلاحات اور ان کے قرآن کریم میں استعمال سے ناواقفیت کی بنا پر ان دونوں اصطلاحات کو تشدد‘ غارت گری اور انتہاپسندی سے وابستہ کر کے بعض عمومی نتائج نکال لیے گئے ہیں۔ انھیں اس کثرت سے ابلاغی ذرائع‘ علمی تحریرات اور سیاسی بیانات میں نشر کیا جا رہا ہے کہ وہ سادہ لوح افراد بھی جو قرآن سے کچھ واقفیت رکھتے ہوں ان تعبیرات کو سن کر معذرت پسندانہ رویہ اختیار کرلیتے ہیں اور جہاد کو دفاعی جنگ قرار دے دیتے ہیں۔ حالانکہ قرآن وسنت نے امر بالمعروف ونہی عن المنکر اور فتنہ و فساد اور ظلم کو رفع کرنے کے لیے جہاد کو ایک فریضہ قرار دیا ہے۔ گویا یہ ایک ردِعمل پر مبنی جوابی (reactive) حکمت عملی نہیں ہے بلکہ ایک مثبت عمل کی مثبت (pro-active) تعلیم ہے‘ جس کا مقصد معاشرے میں امن کا قیام‘ عدل کی سربلندی اور بغاوت‘ سرکشی‘ عدمِ تحفظ اور ظلم کا ابطال ہے۔ یہ ایک اخلاقی اور انسانی مطالبہ ہے۔ اسی لیے مدینہ منورہ میں پہلی اسلامی ریاست کے قیام کے ساتھ ہی جو بین الاقوامی معاہدہ مسلمانوں اور یہود کے درمیان ہوا اس میں یہود نے بھی ریاست میں امن کی بقا اور بیرونی خطرے کے مقابلے کی شکل میں جہاد میں شرکت کرنے اور اخراجات میں اپنا حصہ ادا کرنے کا تحریری معاہدہ کیا تھا۔ گویا اہلِ ایمان کی طرح وہ بھی جان اور مال سے جہاد میں شرکت کے لیے آمادہ و پابند ہوئے۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ یہود اور مسلمانوں کے اصولی طور پر جہاد میں شامل ہونے کا مقصد مشرکین کو بزورِ قوت مسلمان بنانا نہیں تھا بلکہ ظلم کے خلاف یک جہتی کا اظہار تھا۔

اسلام کے سیاسی کردار کو عموماً مسلح قوت کے ساتھ وابستہ کرکے ایک تصوراتی منطقی تعلق تلاش کیا جاتا ہے اور بعض مسلم ممالک کی مثال دے کر اس مفروضے کو ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ چنانچہ مصر اور الجزائر کو خصوصاً بطور مثال پیش کیا جاتا ہے کہ سادات کے قتل کا سبب   مسلح بغاوت کے ذریعے اسلامی ریاست کے قیام کا خواب تھا‘ یا الجزائر میں ۹۰ کے عشرے میں جو قتل و غارت ہوا وہ مسلح قوت کے ذریعے اسلامی ریاست کے قیام کی کوشش تھی۔

اس قسم کے دعوے کرتے وقت تحقیقی دیانت کے تمام اصولوں کو نظرانداز کرتے ہوئے   یہ بات فراموش کر دی جاتی ہے کہ مصری آمر انور سادات کے حوالے سے کیمپ ڈیوڈ معاہدہ اور مصر اور اسرائیل کی قربت کا اس سانحے میں کیا کردار تھا‘ یا الجزائر کے بلدیاتی انتخابات میں دینی رجحان کے حامل جدید تعلیم یافتہ منتخب نمایندوں نے اعلیٰ درجے کی کامیابی کے لیے کون سا ’مسلح دستہ‘ استعمال کیا تھا۔ اس کے برعکس جب ان لوگوں کی جمہوری ذرائع سے برسرِاقتدار آنے کی امید پیدا ہوئی تو وہ ممالک جو صبح شام جمہوریت کا کورس الاپتے نہیں تھکتے اور جو خصوصاً عالمِ عرب میں جمہوریت کی درآمد کو اپنا مقدس مشن قرار دیتے ہیں‘ انھی ممالک نے بلکہ اس ملک نے بھی جو   یک قطبی قوت ہونے کا دعویٰ کرتا ہے‘ الجزائر میں ہونے والے جمہوری عمل کے انہدام کے لیے فوج کے بے رحمانہ استعمال کو قانونی عمل قرار دیا اور ملک میں ہونے والے جمہوری عمل کو پیچھے کی طرف لوٹا دیا۔ آج تک الجزائر جمہوریت سے محروم ہے اور اس محرومی کی ذمہ داری صرف یک قطبی قوت پر عائد ہوتی ہے۔

جھاد اور جبر

اب ہم دیکھیں گے کہ کیا واقعی جہاد کا مقصد مسلم اور غیرمسلم دنیا پر ’شریعت‘ کو ’مسلط‘ کرنا ہے؟ یہ بات مغربی مصنفین شدومد سے کہہ رہے ہیں۔

یہ بات کہتے وقت شریعت کا ایک مخصوص رنگ آمیز مفہوم سامنے رکھا جاتا ہے‘ جس میں دوسرے مذاہب کے افراد کو مذہبی آزادی اور اپنی تہذیب اور رسومات کی ادایگی سے محروم کرکے زبردستی مسلمان بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ حقیقتِ حال اس سے بہت مختلف ہے۔ نظری حیثیت سے قرآن کی سیاسی تعلیمات میں غیرمسلموں کو نصوص کی شکل میں مذہبی اور ثقافتی آزادی کا تحفظ دیا گیا ہے۔ چنانچہ اگر کوئی مسلمان گروہ شریعت کا نفاذ چاہتا ہو تو اس کے لیے قرآن کے نصوص کے خلاف پالیسی بنانا اصطلاحی اور عملی تضاد کی حیثیت رکھے گا۔ عملی زاویے سے دیکھا جائے تو غیرمسلم اکثریتی ممالک میں مسلمان مفکرین نے شریعت کے نفاذ کا مفہوم کبھی یہ نہیں لیا کہ وہاں پر     خونی انقلاب برپا کرکے شریعت مسلط کر دی جائے‘ بلکہ ایک جانب مسلمانوں کو یہ یاد دہانی کراتے رہے کہ وہ اپنے معاملات کو شریعت کے مطابق سرانجام دیں‘ مثلاً نکاح‘ طلاق‘ میراث کے حوالے سے اسلامی احکام کی پیروی کی جائے اور سودی کاروبار سے اجتناب کیا جائے وغیرہ‘ اور دوسری طرف اسلام کے دعوتی پہلو کو اُجاگر کرتے ہوئے یہ بات کہتے رہے کہ اگر ایک طویل دعوتی عمل کے نتیجے میں غیرمسلم برضا و رغبت اسلام قبول کرنے کے بعد اسلامی تعلیمات کو اپنے ملک میں نافذ کرنا چاہیں تو دستوری اور جمہوری ذرائع ہی کواستعمال کیا جائے۔ قوت و تشدد کے استعمال کو ہمیشہ روکنے کی کوششیں کی گئیں۔

امریکا یا برطانیہ کے چند گنے   ُچنے یونی ورسٹی کیمپس پر اگر حزب التحریر کے بعض جوشیلے نوجوانوں نے کسی اجتماع یا پوسٹر میں یہ دعویٰ کیا کہ وہ امریکا یا برطانیہ میں خلافت کا نفاذ کرنا چاہتے ہیں تو اس طرح کے انفرادی اور محدود عمل کو اُمتِ مسلمہ کی فکر نہیں قرار دیا جاسکتا اور نہ یہ اسلام اور عالمِ اسلام کی غالب فکر کی نمایندگی کہی جاسکتی ہے۔ ایک مسلم ملک میں بھی جہاں ۹۷ فی صد آبادی مسلم ہو‘ وہ اسلامی ریاست غیرمسلموں کے شخصی‘ مذہبی اور ثقافتی معاملات میں دخل اندازی نہیں کرسکتی اور نہ ان پر شریعت کو مسلط کرسکتی ہے۔ لیکن دوسری طرف یہ بات بھی نہ صرف عدل کے منافی بلکہ مضحکہ خیز ہوگی کہ ۳ فی صد آبادی کا دل رکھنے کے لیے ۹۷ فی صد آبادی کو اپنی دینی‘ ثقافتی‘ علمی‘ قانونی اور ابلاغی روایات و نظریات کو ملک میں نافذ کرنے کے حق سے محروم کر دیا جائے۔ مغربی سیکولر جمہوریت تو ۵۱ فی صد کی رائے کا احترام کر کے جو چاہے مسلط کردے اور مسلم ممالک کے ۹۷ فی صد عوام کی خواہشات اور مطالبات کو محلے والوں کی دل شکنی کے خیال سے نافذ نہ کرنا  ظلم کی بدترین شکل اور جمہوریت کے ساتھ گھنائونا مذاق ہی کہا جا سکتا ہے۔ اگر مغرب کی      سیکولر جمہوریت ۹۷ فی صد عوام کی رائے کے مقابلے میں ۳ فی صد اقلیت کو زیادہ اہمیت دیتی ہے تو یہ اس کی عقل کا فتور ہے۔ خود مغربی جمہوریت کے اصول یہ تقاضا کرتے ہیں کہ اگر پاکستان یا کسی اور مسلم ممالک میں ۹۷ فی صد عوام شریعت کا نفاذ چاہتے ہوں تو اسے شریعت ’مسلط‘ کرنا نہیں کہاجاسکتا۔

چند غلط فھمیاں

جہاد کے حوالے سے یہ ہوائی بھی اڑائی جاتی ہے کہ یہ جنت کے حصول کا ایک مختصر راستہ (short cut) ہے اور بہت سے افراد جو اپنے ماضی کی زندگی میں اسلام پر عامل نہ رہے ہوں‘ اس ایک آسان ذریعے سے نجات حاصل کرسکتے ہیں۔ نظری طور پر ممکن ہے اس خیال میں کوئی منطقی صداقت پائی جاتی ہو‘ لیکن عملاً جن لوگوں نے آج تک یہ راستہ اختیار کیا ہے ان میں تین نمایاں مثالیں مسلم دنیا سے دی جاسکتی ہیں:

  • فلسطینی نوجوانوں کا جہاد میں قربانی پیش کرنا‘ چاہے بعض مغربی مصنفین کو ’مختصر راستہ‘ نظر آتا ہو‘ لیکن عملاً یہ ایک طویل تر داستانِ کرب و ابتلا کا محض ایک باب ہے۔ وقت کی ایک طاقت نے ۱۹۴۸ء میں ایک ایسے خطے کو جس پر اس کی حکومت بھی نہیں تھی ایک ایسی نسل پرست قوم کے حوالے کر دیا جو اس سرزمین کی اصل مکین نہ تھی اور نتیجتاً فلسطین کے اصل باشندوں کو جو وہاں صدیوں سے مقیم تھے اپنے آبائی گھروں سے بے دخل کر دیا گیا۔ جس قوم کو ۵۸سال تک اس کی بنیادی آزادی‘ اپنی زمین کی ملکیت‘ اپنے دین کی تعلیمات پر عمل سے محروم کیا گیا ہو اور وہ جہاد کا راستہ اختیار کرلے تو کیا اسے ’مختصر راستہ‘ کہنا حق و انصاف سے کوئی مناسبت رکھتا ہے؟
  • عراق میں ایک بیرونی ملک کے جابرانہ اور سفاکانہ قبضے کے بعد اگر عراقی عوام غیرملکی قابض فوجوں اور ان کے مقامی حامیوں کے خلاف مسلح جہاد کریں تو عقلی‘ علمی اور تاریخی طور پر اپنی جان‘ اپنی ملکیت اور اپنی آزادی کا بچائو کرنا ان کا انسانی اور بنیادی حق ہے۔ اسے ’دہشت گردی‘ کہنا عدل و انصاف کے عالمی پیمانوں کا مذاق اڑانا ہے۔
  • یہی شکل مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کی ہے۔ فلسطین کی طرح مقبوضہ کشمیر کے عوام اور زمین کو جس پر برطانیہ کا قبضہ دستوری قبضہ نہ تھا‘ ایک تیسرے فرد کے ہاتھ فروخت کر دیا گیا۔  کشمیری عوام کی جدوجہد ِآزادی‘ ظلم‘ استحصال اور غلامی کے خلاف ایک جہاد کی حیثیت رکھتی ہے اور جب تک ان کے بنیادی حقوق حاصل نہ ہوجائیں ان کی جدوجہد آزادی کو ’شدت پسندی‘ یا ’دہشت گردی‘ قرار نہیں دیا جا سکتا۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس جدوجہد ِ آزادی کو وہ چاہے کشمیر میں ہو یا عراق میں یا الجزائر میں‘ خودکُش حملہ یا حصولِ جنت کے لیے ایک ’مختصر راستہ‘ کہنا عقل و ہوش اور حق و انصاف سے کوئی مناسبت رکھتا ہے؟

ایک نکتہ یہ بھی اٹھایا جاتا ہے کہ ’جہاد کا تصور نظری طور پر بڑی تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں (WMD) یا توڑ پھوڑ کے لیے اخلاقی بنیاد فراہم کرتا ہے‘۔ شاید یہ بات کہتے وقت اس کے محرک بھول جاتے ہیں کہ ہیروشیما اور ناگاساکی کی تباہی کا سبب اسلام کا تصورِ جہاد نہیں تھا‘ بلکہ لادین جمہوریت کا صبح و شام ورد کرنے والی ریاست کا توسیع پسند ذہن تھا۔ خود عراق کے پس منظر میں صدام حسین کوایران کے خلاف صف آرا کروانے کے لیے مکمل حمایت اور مدد کرنے والا نہ کوئی القاعدہ کا لیڈر تھا اور نہ کسی مسلم ملک کا کوئی مفتی اعظم‘ بلکہ یک قطبی قوت کا معاشی مفاد اور واضح طور پر تیل کے ذخائر پر قابض ہونے کی خواہش تھی۔

قرآن کا تصورِ جہاد ایک اصلاحی عمل ہے جو ظلم‘ قتل و غارت اور استحصال کو ختم کرنے اور امن‘ سلامتی‘ عدل و انصاف کے قیام کے لیے ہاتھ‘ زبان اور دل و دماغ کے استعمال کو اور اپنی جان اور اپنے مال کو بازی پر لگادینے کو ایک انسانی فریضہ قرار دیتا ہے۔ یہ قرآنی تصور حقوقِ انسانی کی بحالی اور محکوم اقوام کو آزادی دلانے کے لیے قوت کے استعمال کو ایک اخلاقی فریضہ قرار دیتا ہے اور بغیر کسی معذرت کے اس کی عظمت کا اعلان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اللہ کی نگاہ میں وہ لوگ جو   سجود و رکوع کرنے کے مقامات پر مصروف ِعبادت رہتے ہیں اور وہ جو میدانِ کارزار میں اپنے مال اور جان کی بازی لگاتے ہیں برابر نہیں ہوسکتے۔ وہ جہاد کرنے والوں کے عمل کے لیے ’اعظم درجہ‘ کے الفاظ استعمال کرتا ہے۔ اگر معروضی طور پر غور کیا جائے تو قرآن کریم کا جہاد کے بارے میں  یہ غیرمعذرت پسندانہ ‘ شفاف‘ عقلی اور مصلحانہ تصور ہی انسانیت کو فلاح‘امن‘ تحفظ‘ نجات‘     عدل و انصاف اور حقوقِ انسانی کے احترام سے روشناس کرا سکتا ہے۔ جہاد وہ ضمانت فراہم کرتا ہے جس کی بنا پر فتنہ و فساد‘ طاغوت اور مکروفریب لرزہ براندام رہتا ہے اور انسانیت جھوٹ اوردھوکے سے نجات حاصل کرکے عافیت و ترقی پذیری کی راہ پر گامزن ہوسکتی ہے۔