سوال: موجودہ دور میں انشورنش ایک ناگزیر ضرورت بن چکی ہے۔ ایک محدود مالیت کی قسط اداکر کے ایک بڑی رقم یک مُشت میسر آجاتی ہے۔ اگر خدانخواستہ پالیسی ہولڈر کا انتقال ہوجائے تو رقم اس کے ورثا کو مل جاتی ہے اور واجب الادا اقساط بھی معاف ہوجاتی ہیں۔ ناگہانی حالات میں یہ بڑا سہارا ہے۔ اس کے علاوہ بھی کئی سہولتیں میسر آجاتی ہیں‘ مثلاً علاج معالجے کی سہولت‘ بچوں کے لیے ماہانہ وظیفہ وغیرہ۔ کیا موجودہ حالات میں اس کا جواز ہے؟ اگر نہیں‘ تو اس کا متبادل بھی کوئی ہے؟
جواب :پاکستان اور باہر کے ملکوں میں انشورنس اور لائف انشورنس کمپنیاں سودی نظام پر عمل کرتی ہیں اور اس بنا پر ان سے پالیسی لینا سودی نظام کو تقویت پہنچانے کے مترادف ہے۔ بعض ممالک میں قانون یہ مطالبہ کرتا ہے کہ جب تک ایک کار انشورنس نہ کرا لی جائے اسے سڑک پر نہیں لایا جاسکتا۔ جہاں پر پابندی ہے وہاں اضطرار کے اصول کی بناپر اسے گوارا کیا جائے گا لیکن جہاں قانون اجازت دیتا ہو کہ ایک معمولی رقم ادا کر کے تھرڈ پارٹی انشورنس کرا لی جائے اور کوئی مستقل قسط ادا نہ کی جائے تو اس پر عمل کرنے میں کوئی قباحت نہیں لیکن بیمۂ زندگی(لائف انشورنس) اس سے بہت مختلف ہے۔
بیمۂ زندگی میں ایک کمپنی ایک شخص کی صحت‘ خاندانی کوائف اور دیگر اندازوں کی بنا پر اسے ایک پالیسی آفر کرتی ہے جس میں وہ ہر ماہ ایک متعین رقم کمپنی کودیتاہے اور اگر اسے کوئی حادثہ یا کمپنی کے اندازے کے برخلاف جلد موت واقع ہوجائے تو جو رقم اس نے ہر ماہ جمع کرائی تھی اور اس پر ایک مزید رقم جسے ’منافع‘ کہاجاتا ہے ادا کر دی جاتی ہے۔ اسے ہمارے فقہا نے حرام قراردیا ہے۔ جس کی دو واضح وجوہات ہیں۔ اوّلاً: انشورنس کمپنی جو رقم بھی لیتی ہے اسے عموماً سودی کاروبار ہی میں لگایا جاتا ہے جس سے وہ کمپنی دوسروں کی رقم پر اپنے قصر تعمیر کرتی رہتی ہے اور یہ استحصال کی واضح شکل ہے۔ ثانیاً: زندگی اور موت ہرشکل میںاللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی پرورش کا ذمہ لیا ہے اور ایک اہلِ ایمان کو یہ بات سمجھا دی ہے کہ وہ غیرمتوقع حالات کے لیے اپنی رقم کا ایک حصہ محفوظ رکھے تاکہ کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے کے بجاے وہ خود اپنے مسائل کا حل کرسکے۔ ایک معروف صحابی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لاتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ میں چاہتا ہوں میں اپنی تمام دولت اللہ کی راہ میں قربان کر دوں۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: کیا تمھاری اولاد ہے اور جب انھوں نے بتایا کہ ہاں میں صاحبِ اولاد ہوں تو ہدایت فرمائی کہ وہ اپنی اولاد کو ایسے حال میں نہ چھوڑیں کہ وہ کسی کے سامنے ہاتھ پھیلائے۔ گویا اللہ کی راہ میں خرچ کرنا اورانفاق ایک اہم عبادت ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ توازن برقرار رکھتے ہوئے اولاد کے لیے اتنی رقم بچارکھنا کہ وہ بعد میں کسی کے سامنے ہاتھ نہ پھیلائے‘ بھی اللہ کے رسولؐ کی سنت ہے۔
اس سے یہ معلوم ہوا کہ غیرمتوقع یا متوقع حالات کے لیے ایک حصہ الگ کرنا خود مسلمان کی منصوبہ بندی میں شامل ہونا چاہیے۔ فرض کرلیا جائے کہ ایک شخص نہ خود اتنا کماتا ہے کہ اپنی تمام ضروریات پوری کرسکے اور نہ اس قابل ہے کہ پس انداز کر کے اپنے پیچھے اپنی اولاد کے لیے کچھ چھوڑ کر جائے تو اس کا کیا حل کیا جائے گا؟ اسلام نے اپنے فقہی نظام میں جہاں وراثت کے اصول متعین کر دیے ہیں وہیں کفالت کے حوالے سے بھی یہ کوشش کی ہے کہ خاندان کے اندر رہتے ہوئے ضرورت مند حضرات کی ذمہ داری اٹھائی جائے۔ نہ صرف یہ بلکہ ریاست پر بھی یہ ذمہ داری عائد کردی گئی ہے کہ وہ صدقات‘ اوقاف اور زکوٰۃ کی رقوم سے ایسے افراد کی امداد اس حد تک کرے کہ وہ اپنے پائوں پر کھڑے ہوسکیں۔ مثلاً ایک شخص کا تمام سامانِ تجارت نذرآتش ہوگیا‘ سیلاب یا زلزلے سے تباہ ہوگیا تو ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ اسے اتنا معاوضہ دے کہ اس کے نقصان کی تلافی ہوجائے۔
انشورنس کمپنیاں جس شرح سے پالیسی لینے والوں کو ’منافع‘ دیتی ہیں اگر اس کا مقابلہ ان کے مجموعی ’منافع‘ سے کیا جائے تو ان کا بظاہر ’عملِ خیر‘ ایک کھلا استحصال نظر آئے گا۔
لائف انشورنس اور عمومی انشورنس کے ناجائز ہونے پر بڑی حد تک ہمارے فقہا کا اجماع ہے۔ رہا یہ سوال کہ پھر متبادل طور پر کیا کیا جائے تو اگر غور کیا جائے تو ہر معاشرے میں ایسے باہمی امداد کے ادارے corperativesقائم کیے جاسکتے ہیں جو بغیر کسی سودی کاروبار کے اپنے ممبران کے لیے مشکلات اور حادثات میں امداد فراہم کرنے کے لیے مختلف پراجیکٹ بناسکتے ہیں اور اس طرح اس مسئلہ کا اسلامی حل نکالا جا سکتا ہے۔ (ڈاکٹر انیس احمد)
س : بنک افسران اور دیگر بنک ملازمین کے لیے پیشگی تنخواہ اسکیم کا اجرا کیا گیا ہے۔ اس کے تحت مطلوبہ رقم پر تقریباً ۷ فی صد سروس چارجز کاٹے جاتے ہیں اور آسان اقساط میں رقم واپس کرنا ہوتی ہے۔ ایک ملازم پیشہ فردکے لیے اس میں بہت سہولت ہے۔ قرض لے کر مکان کی تعمیر جیسی ناگزیر ضرورت پوری ہونے کی سبیل نکل سکتی ہے۔ بہت سے لوگوں نے اسے اسلام کے مطابق قرار دیا ہے اور اس سہولت سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ سودی اسکیم ہے‘ تاہم حالتِ اضطرار کے تحت ہم اس سے فائدہ اُٹھا سکتے ہیں۔ ہماری مشکلات اور حالات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے رہنمائی فرمایئے کہ کیا میں اس اسکیم سے فائدہ اٹھا سکتا ہوں؟ میں اپنی آخرت برباد کرکے دنیا نہیں بنانا چاہتا۔
ج: آپ نے ایڈوانس تنخواہ لینے پر سروس چارجز کے بارے میں جو سوال اٹھایا ہے وہ ایک اہم عملی مشکل کی نشان دہی کرتا ہے۔ہم جس ظالمانہ سرمایہ دارانہ نظام میں زندگی گزار رہے ہیں اس میں سب سے زیادہ مظلوم طبقہ غالباً ملازمت پیشہ افراد ہیں جو اپنی محدود آمدنی اور بڑھتے ہوئے اخراجات کی بنا پر بعض بنیادی ضروریات ِ زندگی کے حصول سے بھی محروم رہ جاتے ہیں۔ مکان ایسی ہی ایک بنیادی ضرورت ہے اورایک جدید اسلامی ریاست کی ذمہ داریوں میں سے ایک ذمہ داری ہے لیکن چونکہ ہمارے ہاں ۵۸سال گزرنے پر بھی وہ اسلامی ریاست جس کے لیے اس ملک کو حاصل کیا گیا تھا قائم نہیں کی جا سکی‘ اس لیے آپ کو اور بہت سے دیگر شہریوں کو سخت عملی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
سروس چارجز کی اصطلاح سے اگر مراد یہ ہے کہ آپ نے ایک کارکرائے پر لی اور ایک دن کے استعمال کرنے کے عوض آپ نے اس کے مالک کو ۸۰۰ روپے ادا کر دیے تو یہ ایک جائزعمل کہلائے گا۔ لیکن اگر آپ ایک بنک سے رقم قرض لیں اور واپسی کی ہر قسط پر ۷ فی صد سروس چارجز دیں تو نام بدل دینے کے باوجود یہ سود کی تعریف میں آئے گا کیونکہ کوئی بھی متعین رقم جو اصل سے زائد وصول کی جائے سود یا ربا قرار دی جائے گی۔
حالت اضطرار میں ایک حرام چیز سے وقتی طور پر استفادے کا مطلب یہ نہیں کہ وہ چیز حلال ہوگئی بلکہ یہ اجازت صرف اس بنا پر ہے کہ ایک حرام کام کا کیا جانا جان کے ضائع ہونے سے کم درجہ رکھتا ہے اس لیے جان کو بچانے کے لیے اس کی اجازت دی گئی ہے اور وہ بھی اس شرط کے ساتھ کہ ایسا کرنے میں نہ تو اللہ تعالیٰ کے کسی حکم سے بغاوت و سرکشی مقصود ہو اور نہ ایسے عمل کو معمول بنایا جائے۔
اگر آپ زمین کے مالک ہیں تو آپ اس زمین کی بنیاد پر بنک سے ایک معاہدہ کریں جس میں وہ مطلوبہ رقم بطور سرمایہ کاری مکان کی تعمیر میں لگائے اور بازار میں اس قسم کے مکان کا جو کرایہ رائج ہو وہ آپ اسے ہر ماہ ادا کریں یہاں تک کہ بنک نے جو سرمایہ لگایا ہے وہ اسے واپس مل جائے۔ آپ نے بالکل صحیح بات تحریر کی ہے کہ اس دنیا کی زندگی میں اپنی سہولت کے لیے ایک ناجائز ذریعے سے مکان بنا لینا اور آخرت کو خراب کر دینا ایک بہت خسارے کا سودا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی حدود کی حفاظت کرنے اور اللہ کے لیے ہر آزمایش استقامت سے گزارنے کی توفیق دے۔(ا-ا)
س : میرے شوہر ملک سے باہر ہیں۔ انھوں نے بنک اکائونٹ صرف میرے نام سے کھلوایا ہے تاکہ مجھے رقم نکلوانے میں دشواری نہ ہو۔ انھوں نے خرچ کا تقریباً کُلی اختیار مجھے دیا ہوا ہے۔ اب اگر میںان سے پوچھے بغیر فی سبیل اللہ کچھ خرچ کروں تو کیا گناہ ہوگا‘ جب کہ میری خواہش ہے کہ میں اپنے ہاتھ سے بھی راہِ خدا میں خرچ کروں؟ واضح رہے کہ وہ گھر میں خرچ کے متعلق تو کچھ نہیں بولتے مگر شاید صدقہ خیرات کو بہت زیادہ پسند نہ کریں۔ یہاں پر یہ بات بھی بتاتی چلوں کہ وہ خود الحمدللہ فی سبیل اللہ کافی خرچ کرتے ہیں مگر میرا خرچ کرنا انھیں برا لگتا ہے۔ اس کے علاوہ میں نے کچھ رقم ان سے چھپاکر پس انداز کی ہوئی ہے۔ اگر میں اسے گھر میں خرچ کردوں اور بعد میں انھیں بتائوں تو انھیں برا نہیں لگے گا بلکہ وہ خوش ہوں گے اور اگر ان کو بتا کر فی سبیل اللہ دے دوں تو ایک تو انھیں شاید اعتراض بھی ہو اور دوسرے یہ کہ ہوسکتا ہے وہ خود خیرات کرنے سے اپنا ہاتھ روک لیں جو میں نہیں چاہتی۔ کیا ان حالات میں‘ میں انھیں بتائے بغیر یہ رقم فی سبیل اللہ خرچ کرسکتی ہوں؟
ج: مالی معاملات میں اور وہ بھی خصوصاً جب ان کا تعلق قریبی رشتہ داروں کے ساتھ ہو غیرمعمولی احتیاط کرنا ایمان کا تقاضا ہے اور آپ کو اس بات پر اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اللہ نے آپ کو نہ صرف اس معاملے میں باشعور بنایا بلکہ آپ کے شوہر کے دل میں آپ کے لیے اتنا اعتماد پیدا کیا کہ وہ گھر کے خرچ میں آپ سے کوئی حساب طلب نہیں کرتے۔ ایسی صورت حال میں آپ کی فکرمندی قابلِ فہم ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کے ایمان میں مزید اضافہ کرے اور آپ پر آپ کے شوہر کے اعتماد کو ہمیشہ قائم رکھے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث صحیح میں یہ بات فرمائی گئی ہے کہ سربراہِ خاندان گھرکا امیر ہے اور اس بنا پر جواب دہ بھی ہے (اصل الفاظ مسئول کے ہیں)۔ اس کی غیرموجودگی میں مسئولیت ’امارت‘ کی ذمہ داری بیوی کی ہے اور بیوی کی غیرموجودگی میں جو ملازم گھرکا نگراں یا محافظ بنایا جائے اس کی ہے۔ اس حدیث سے جو اصول نکلا وہ بڑا اہم ہے یعنی سربراہ کی حیثیت سے جو فیصلے ایک شوہر یا باپ کو کرنے ہوتے ہیں اس کی غیرموجودگی میں یہی منصب اور مسئولیت اس کی بیوی کی ہوجائے گی۔ ظاہر ہے یہ مسئولیت محض اولاد کی تربیت تک محدود نہیں ہے بلکہ گھر کے تمام معاملات کی ہے جس میں مالی معاملات بھی شامل ہیں۔ فقہ کا بنیادی اصول یہ ہے کہ جب تک ایک مباح کام سے روکا نہ جائے اس کے کرنے کے لیے کسی کی اجازت کی ضرورت نہیں۔ آپ کے سلسلے میں چونکہ آپ کے شوہر نے آپ کو خود یہ اختیار دیا ہوا ہے کہ آپ جس طرح چاہیں خرچ کریں اس لیے اس سلسلے میں آپ کو مزید پوچھنے کی ضرورت نہیں۔
یہ بات بھی قرآن و حدیث سے واضح ہوتی ہے کہ اللہ کے راستے میں دینے کی ذمہ داری محض شوہر کی نہیں بلکہ بیوی کی بھی ہے۔ جہاں کہیں بھی قرآن کریم مومن مردوں اور عورتوں کی خصوصیات بیان کرتا ہے وہاں دونوں کا الگ الگ ذکر کرنے کے بعد کہتا ہے کہ وہ مومن مرداور وہ مومن عورتیں جو نماز میں خشوع‘ زکوٰۃ پر عامل‘ لغویات سے پرہیز اور عزت کی حفاظت کرنے والے ہیں اور امانتوں اور عہدوں کا پاس کرتے ہیں وہ وراثت میں یعنی بطور انعام کے فردوس پائیں گے۔ (المومنون ۲۴:۱-۱۰)
یہاں پر زکوٰۃ اور دیگر معاملات میں مومن مردوں اور عورتوں کو انفرادی طور پر ذمہ دار اور جواب دہ بتایا گیا ہے۔ اگر ایک بیوی صاحبِ نصاب ہے تو محض شوہر کی جانب سے اپنے اثاثے پر زکوٰۃ دینے سے وہ بری الذمہ نہیں ہوجاتی۔ ایسے میں جب آپ کے شوہر نے گھر کے خرچ میں آپ کو مکمل اختیار دیا ہے تو اب مسئولیت آپ کی ہے اور آپ کوخود اللہ تعالیٰ کی رضا کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلے کرنے ہوں گے۔
یہ بات بہت خوشی کا باعث ہے کہ آپ کے شوہر الحمدللہ خود اللہ کی راہ میں خرچ کرتے رہتے ہیں لیکن کسی وقت یہ غور کریں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والا اور کون ہوسکتا ہے۔ اس کے باوجود جب آپؐ ایک مرتبہ گھر تشریف لاتے ہیں اور اُم المومنین سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں کہ کہیں سے گوشت تحفتاً آیا تھا‘ انھوں نے اس کا بیش تر حصہ اللہ کی راہ میں دے دیا اور صرف ایک دست نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بچاکر رکھا ہے تو شارعِ اعظم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو بات فرمائی اس سے بہت سے اصول نکلتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا کہ تم نے جو اللہ کی راہ میں دے دیا وہی تو بچ گیا۔ گویا اللہ کی راہ میں جتنا دیا جائے گا وہ دینے والے کے حساب میں سات سو گنا یا اس سے بھی زائد بڑھا کر جمع ہوگیا۔ کیا آپ اور آپ کے شوہر یہ پسند نہیں کریں گے کہ جو کچھ وہ دیں اس کا اجر تو انھیں ملے ہی‘ ساتھ میں جو آپ اس طرح دیں کہ دوسرے ہاتھ (یعنی آپ کے شوہر کو) کو اس کی خبر نہ ہو وہ بھی ان کے اور آپ کے حساب میں اللہ تعالیٰ کے ہاں محفوظ ہوجائے؟
اگر کبھی آپ ضرورت محسوس کریں تو شوق سے اس کا ذکر بھی شوہر سے کرسکتی ہیں لیکن اگر ناراضی کا خطرہ ہو تو ذکر کرنا ضروری نہیں۔ ایک مرتبہ ملکیت جب آپ کے ہاتھ میں منتقل ہوگئی تو اب آپ کی صواب دید زیادہ معتبر ہوگی۔(ا-ا)