۲۰۰۶فروری

فہرست مضامین

عراق میں امریکی فوج کا حشر

عبد الغفار عزیز | ۲۰۰۶فروری | اخبار اُمت

Responsive image Responsive image

امریکی فوج کو تاریخ کی سب سے طاقت ور فوج کہا جا رہا ہے‘ لیکن عراق میں اس  طاقت ور ترین فوج کو بدترین شکست کا سامنا ہے۔ اسے ابھی خودکُش حملوں‘ بارودی سرنگوں اور کار بموں کا کوئی علاج نہیں ملا تھا کہ ایک نئی مصیبت نے پوری فوج کو سراسیمگی کا شکار کردیا ہے۔  ’قنّاص بغداد‘ بغداد کا شکاری ایک شخص ہے… بے نام… بے ٹھکانہ اورشاید بے وسیلہ۔ اس کا کل سرمایہ ایک دُوربین لگی بندوق اورحساس ویڈیو کیمرہ اٹھائے ایک ساتھی ہے۔ ’بغداد کا شکاری‘ نام اس نے خود ہی متعارف کروایا ہے۔ شہر میں کسی بھی جگہ گھات لگا کر بیٹھ جاتا ہے‘ بندوق پر سائلنسر چڑھاتا ہے۔ ساتھی کیمرہ سنبھالتا ہے تاکہ اس میں شکار کو محفوظ کرسکے اور اس کی خبر دنیا کو پہنچ سکے۔ شکاری شکار کی آنکھوںکے درمیان نشانہ باندھتا ہے اور طاقت ور ترین ہونے کا زعم لیے امریکی فوجی ڈھیر ہوجاتا ہے۔ ساتھی حیران اور سراسیمہ ہوکر اِدھر اُدھر دیکھنے لگتے ہیں تو دوسرا اور پھر تیسرا…۔ اب تک یہ فردِ واحد ۵۵ فوجی مارچکا ہے۔ اس کے بقول جب تک امریکی فوجی عراق میں رہیں گے اس کا شکار جاری رہے گا اور گاہے بگاہے اس کی تصویری جھلکیاں دنیا کو بھی ملتی رہیں گی۔

اب خبرآئی ہے کہ عراقی شہر’ القائم‘ میں بھی ایک شکاری اُٹھ کھڑا ہوا ہے جو اب تک چار امریکی فوجی مار چکا ہے۔ بغداد سے ۴۵۰ کلومیٹر دُور واقع شہر موصل کا شکاری دو‘ فلوجہ کا شکاری چھے‘ شمالی بغداد میں واقع شہر طارمیہ کا شکاری چار روزمیں چھے اور الضلوعیہ شہر کا شکاری ایک امریکی فوجی شکار کرچکا ہے۔ عراقی فوج کے ایک سابق افسر عبدالجبار سامرائی نے القدس پریس کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ عراقی تحریکِ مزاحمت کی شکار کی پالیسی بہترین قرار پائی ہے۔ اس میں کارروائی کرنے والا پوری طرح محفوظ‘ بلکہ امریکی فوجیوں کے اردگرد ہی رہتا ہے لیکن امریکیوں کو سخت نقصان پہنچتا ہے۔ وہ نفسیاتی طور پر ٹوٹ پھوٹ رہے ہیں۔ ان میںسے ہرفوجی ہر لمحے اس خوف کا شکار رہتا ہے کہ کہیں قریب کسی کھڑکی یا کئی سو میٹر دُور کسی گھنے درخت کی مچان پہ بیٹھے شکاری کا اگلا شکار وہ نہ ہو۔ امریکی فوج میں ترجمان کی حیثیت سے کام کرنے والے ایک عراقی باشندے نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ خوف کا عالم یہ ہے کہ اکثر امریکی فوجی پتلون کے نیچے پیمپر استعمال کرنے لگے ہیں‘ کہ خوف کے عالم میں ساتھیوں کے سامنے جگ ہنسائی نہ ہوجائے۔

عراق میں امریکی فوج کے ایک ہزار دن پورے ہونے پر خود مغربی ذرائع ابلاغ نے امریکی فوج کے گرتے مورال اور ناقابلِ تلافی نقصانات کا ذکر کیا ہے۔ برطانوی اخبار انڈی پنڈنٹ نے اس موقع پر اپنی تفصیلی رپورٹ میں لکھا ہے کہ ان ہزار دنوں میں امریکی فوج ۲۰۴ ارب ڈالر جنگ میں جھونک چکی ہے۔ دیگر آزاد ذرائع کے مطابق امریکا کے جنگی اخراجات ستمبر ۲۰۰۵ء تک ۷۰۰ ارب ڈالر تک پہنچ چکے تھے۔ واضح رہے کہ ویت نام کی پوری ۱۸سالہ جنگ میں امریکا کے ۶۰۰ ارب ڈالر غارت ہوئے تھے۔

برطانیہ بھی ۳ئ۵ ارب سٹرلنگ پائونڈ خرچ کرچکا ہے اور ان اخراجات میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے‘ جب کہ ورلڈبنک کی رپورٹ کے مطابق عراق کی مکمل تعمیرنو اور بحالی کے لیے صرف ۳۶ارب ڈالر درکار تھے۔ انڈی پنڈنٹ مزید لکھتا ہے کہ امریکی سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ہزار دنوں میں مرنے والے امریکی فوجیوں کی تعدد ۲ہزار ۳ سو ۳۹ ہے۔ اگرچہ حقیقی تعداد کہیں زیادہ ہے۔ زخمیوں کی تعداد ۱۶ ہزار ہے۔ یہ تعداد بھی حقیقی سے کہیں کم ہے‘ جب کہ اس موقع پر عرب ذرائع ابلاغ پر ابومصعب الزرقاوی کی آواز میں نشر ہونے والے پیغام میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ مرنے اور زخمی ہونے والے امریکی فوجیوں کی تعداد ۴۰ ہزار سے متجاوز ہے لیکن امریکا اصل حقیقت کو چھپا رہا ہے۔

اس دوران جان سے ہاتھ دھو بیٹھنے والے عراقی باشندوں کی تعداد اخبار کے مطابق ۳۰ہزار اور زخمی یا اپاہج ہوجانے والوں کی تعداد دسیوں ہزار ہے‘ جب کہ آزاد ذرائع کے مطابق  کم از کم ایک لاکھ عراقی شہری موت کے گھاٹ اتارے جاچکے ہیں‘ اور جو زندہ ہیں ان کی زندگی عذاب بن چکی ہے۔ اگرچہ کہنے کو تو انتخابات کے بھی کئی دُور ہوچکے ہیں‘ پارلیمنٹ اور حکومت بھی وجود میں آچکی ہے‘ لیکن عراقی عوام کی زندگی امریکیوں کی بم باری‘ نامعلوم بم دھماکوں‘ بے روزگاری کے مہیب اندھیروں‘ ابوغریب کے خوف اور مجہول و تاریک مستقبل کی بے یقینی سے عبارت ہوکر  رہ گئی ہے۔ وہ مغربی ذرائع ابلاغ اور امریکی دانش ور جو تباہ کن ہتھیاروں کی تباہی کے نام پر چھیڑی جانے والی اس جنگ کے حق میں زمین و آسمان کے قلابے ملارہے تھے‘ اب وہ بھی مسلسل لکھ رہے ہیں کہ ’’ہم عراق میں خودکُشی کر رہے ہیں، ہم امریکا اور امریکیوں سے عالمی نفرت میں اضافہ کررہے ہیں، ہم عراق میں کانٹے بو رہے ہیں، عراقی صورت حال قابو سے باہر ہوچکی ہے، ہمیں اپنی فوجیں واپس بلا لیناچاہییں‘‘۔

امریکی پالیسیوں کے سابق گرو ہنری کسنجر نے بھی ۱۲ دسمبر ۲۰۰۵ء کو ٹریبیون میڈیا سروسز اور الشرق الاوسط میں چھپنے والے اپنے ایک مضمون میں عراق کی مشکل صورت حال کا اعتراف کیا ہے لیکن اس بات پر بھی اصرار کیاہے کہ فی الحال امریکا کو عراق سے نکلنا نہیں چاہیے‘ کیونکہ ایسا کرنے سے پوری دنیا میں امریکی منصوبوں کو نقصان پہنچے گا۔ صدربش نے بھی بارہا اسی موقف کا اعادہ کیا ہے کہ عراق سے فوجیں واپس بلانے کی بات ہمارے ایجنڈے سے خارج ہے۔ ان کے بقول: ’’عراق سے فوری انخلا بہت بھاری غلطی ہوگی‘ یہ دہشت گردی کی فتح امریکا کی شکست ہوگی‘‘۔ امریکی وزیردفاع رمزفیلڈ نے بھی مسلسل یہی بات دہرائی ہے۔ ۱۲دسمبر کو اس نے کہا کہ ’’فوری انخلا ہزیمت کی طرف مختصر ترین راستہ ہے‘‘۔لیکن ۲۰۰۵ء کے اختتام پر ۲۳دسمبر کو رمزفیلڈ نے اچانک عراق پہنچ کر اعلان کردیا کہ مارچ ۲۰۰۶ء سے پہلے پہلے امریکا عراق سے اپنے ۷ ہزار فوجی واپس بلا لے گا۔ اسی طرح افغانستان سے بھی ۳ہزار فوجی واپس بلا لیے جائیں گے‘ جب کہ عراقی مشیر قومی سلامتی موفق الربیعی نے بیان دیا کہ ۲۰۰۶ء کے اوائل میں امریکی فوج کا ۲۵فی صد‘ یعنی تقریباً ۳۰ ہزار فوجی عراق سے نکل جائیں گے۔ واضح رہے کہ اس وقت عراق میں امریکی فوجیوں کی تعداد ڈیڑھ لاکھ ہے اور اس پر اکثر تجزیہ نگاروں کااتفاق ہے کہ ان میں سے تقریباً ہر فوجی کل سے پہلے آج گھر واپس جانے کے لیے بے تاب ہے۔

ایک امریکی فوجی جمی ماسی (Jimmy Massey) نے عراق سے نکلنے کی کئی قانونی کوششوں میں ناکامی کے بعد وہاں سے فرار ہونے کا راستہ منتخب کیا۔ فرانس پہنچ کر اس نے کہا کہ میں اپنے ضمیر کا بوجھ ہلکا اور اپنی قوم اور ملک کو تباہی سے بچانے کی کوشش کرنا چاہتا ہوں۔ اس نے اپنے تجربے اور مشاہدے پرمبنی ایک اہم کتاب لکھی جو اکتوبر۲۰۰۵ء میں طبع ہوکر مارکیٹ میں آئی ہے۔ کتاب کا عنوان ہی دہلا دینے والا ہے: kill …kill …kill (ماردو… مار دو… ماردو)۔ جمی نے اس کتاب میں امریکی افواج کے اخلاقی دیوالیہ پن کا ماتم کیا ہے۔ ۱۸ برس تک فوجی خدمات سرانجام دینے والا ابھی مزید سات سال تک ’قوم و ملک کی خدمت‘ کرسکتا تھا۔ لیکن اس نے اعتراف کیا کہ’ ’اب امریکی فوجیوں کا فریضہ‘ امریکی قوم کی عزت و وقار کا دفاع نہیں‘ بلکہ دوسری اقوام کی عزت و وقار خاک میں ملانا رہ گیا ہے‘‘۔

جمی نے لکھا ہے کہ وہ ۲۰۰۳ء میں عراق میں داخل ہونے والی امریکی افواج میں شامل تھا اور ہمیں کہا گیا تھا کہ ہم نے بڑی تعداد میں عراقی جرنیلوں اور فوجی افسروں کو خرید لیا ہے اور اب جلد ہی جنگ ختم ہوجائے گی۔ ہمیں باور کروایا گیا تھا کہ عراق میں ہماری موجودگی صرف پٹرول کی خاطر نہیں ہے۔ اگرچہ یہ بھی ایک اور حساس و قیمتی ہدف ہے لیکن ہم یہاں امریکا کے وسیع تر اور دُور رس اہداف کے حصول کے لیے آئے ہیں۔

تربیتی مراحل کا ذکر کرتے ہوئے وہ امریکی فوجیوں کی نفسیات کی حقیقی تصویرکشی کرتا ہے: ’’ہم نے اپنے فوجی اسکولوں میں پیشہ ورانہ تعلیم کے ساتھ ساتھ اصل سبق یہ یاد کیا کہ ہمیں اپنی تمام تر صلاحیتیں اور توانائیاں اپنی قوم و ملک کے دفاع کے لیے وقف کرنا ہیں‘‘۔ ہمیں مخاطب کرتے ہوئے ہمارے انسٹرکٹر کہتے تھے: سنو تم امریکی فوج ہو‘ وہ سوپرپاور کہ جسے کبھی شکست نہیں دی جاسکتی‘ جس سے زیادہ طاقت ور اور کوئی فوج نہیں۔ اس لیے تمھیں ہمیشہ یہ بات ذہن نشین رکھنا چاہیے کہ تم امریکی ہو‘ تم سب سے طاقت ور ہو… ہاں‘ سب سے طاقت ور ہو۔ ہمیں یہ سبق بار بار‘ ایک ایک دن میں کئی کئی بار دیا جاتا‘ یہاں تک کہ ہم واقعی یہ سمجھنے لگے کہ ہم سب سے برتر‘ سب سے طاقت ور ہیں۔ ہمارے لیے یہ تصور بھی محال تھا کہ کوئی ہم سے بھی برتر ہوسکتا ہے۔ ہم دنیا کی ہر شے کو خود سے حقیر اور ہر انسان کو زمین پر رینگنے والا کیڑا مکوڑا سمجھنے لگے‘‘۔

اس احساس تفاخر و تعلّی کے ساتھ امریکی افواج عراق میں داخل ہوئیں اور جب آغاز ہی سے انھیں عوامی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تو افسروں کے دماغ اُلٹ گئے۔ جمی کے بقول: ’’ہمارے افسر ہمیں حکم دیتے کہ ہر متحرک شے کو بھون ڈالو‘‘۔ اس کا مطلب ہے ہر بچے ‘بوڑھے‘ خاتون اور  بے گناہ شہری کو قتل کرڈالو۔ ہمیں بار بار یہی حکم ملتا:ہرمتحرک شے کو بھون ڈالو۔ مجھے بھی ایسی کئی کارروائیوں میں شریک ہونا پڑا۔ ہم عمداً قتل میں ملوث ہوتے چلے گئے۔ ہم بچوں کو بھی قتل کرنے لگے… احکامات جاری رہے: مار دو… مار دو… ماردو۔ یہاں تک کہ ہم انسانیت سے عاری ہوگئے‘‘۔ شاید یہی وہ لمحہ تھا جب جمی کے ضمیر نے سوال اٹھایا : ’’امریکا اس جنگ سے کیا حاصل کرے گا؟ ہم بے گناہ بچوں‘ خواتین اور کمزور بوڑھوں کو کیوں قتل کر رہے ہیں؟‘‘

جمی اعتراف کرتا ہے کہ ’’امریکی فوج کے لیے لمبی جنگ لڑنا ممکن ہی نہیں ہے۔ امریکی فوجی اپنے عسکری وسائل‘ ٹکنالوجی‘ سیٹلائٹ کے جال‘ جاسوسی معلومات اور مٹھی بھر ڈالروں کے عوض اپنا ضمیر و وطن بیچنے والوں کے سہارے کسی بھی ملک کو تباہ تو کرسکتا ہے‘ لیکن وہ کوئی بھی ایسی طویل جنگ نہیں لڑسکتا جو دھیرے دھیرے تمام وسائل کو راکھ میں بدل دے۔ خاص طور پر اجنبی شہروں میں لڑی جانے والی ایسی گوریلا جنگ لڑنا تو کسی بھی امریکی فوجی کے بس کی بات نہیں کہ نہ تو وہ ان کی زبان سمجھتا ہو اور نہ اس کے راستوں سے پوری طرح آشنا ہو‘‘۔ اس نے ایک پورا باب اس نکتے پر لکھا ہے کہ امریکی افواج اپنی اس کمزوری کو اسرائیلی فوجیوں کے ذریعے دُور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کیونکہ ان کی اٹھان ہی ملکوں کو فتح کرنے کے بجاے شہروں کے اندر لمبی لڑائی لڑنے پر ہوتی ہے۔ لیکن یہ پالیسی بھی اپنے منفی اثرات مرتب کررہی ہے۔ سب سے برتر ہونے کا زعم رکھنے والے امریکی فوجی یہ تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں کہ ان پر کوئی اور حکم چلائے اور کوئی دوسرا فوجی ان سے بہتر ہوسکتا ہے۔ بالآخر وہ اس نتیجے تک پہنچتا ہے کہ عراق پرحملہ دراصل تھا ہی اسرائیلی مفادات کی خاطر اور اسرائیلیوں نے ہی ہمیں اس جنگ میں کھینچا ہے۔ وہ لکھتا ہے: ’’لیکن ہم فوجیوں کو یہ بات تب سمجھ آئی جب ہماری کارروائیاں صرف تشدد پر ہی مبنی ہوکررہ گئی تھیں‘ ہم آزادی کے علَم بردار سپاہیوں سے دہشت گردوں میں بدل گئے‘ امریکی فوجی وردی میں ملبوس دہشت گرد‘‘۔

کتاب کے تمام ابواب بہت اہم اور حساس ہیں‘ جو کسی مسلم بنیاد پرست یا جنگ مخالف لکھاری نے نہیں لکھے‘ بلکہ اس پوری جنگ میں شریک امریکی فوجی نے لکھے ہیں۔ کتاب لکھنے کے بعد اس سے ایک فرانسیسی اخبار لومانیٹی نے انٹرویو لیتے ہوئے پوچھا کہ ’’یہ سب کچھ لکھنے کے بعد آپ کوئی خوف محسوس نہیں کرتے؟ اس نے جواباً کہا: ’’میں نے ایک حقیقت بیان کی ہے تاکہ دنیا اس سے آگاہ ہوجائے۔ میں نے اپنے ضمیر کی تسکین کا سامان کیا ہے۔ اب مجھے سکون سے نیند آسکے گی۔ مجھے اس امر کی کوئی پروا نہیں کہ امریکی فوج کا ردعمل کیا ہوتا ہے۔ میں نے کتاب میں صراحت سے لکھا ہے کہ امریکا عراق میں آزادی یا جمہوریت نہیں پھیلا رہا بلکہ موت‘ تباہی اور خونی سیاست کو رواج دے رہا ہے۔ امریکا انسانی ضمیر کی آوازوں پر کان نہیں دھر رہا۔ یہ ایک حقیقت ہے اور میں اس حقیقت کی خاطر موت بھی قبول کرنے کو تیار ہوں تاکہ پوری دنیا اس سے آگاہ و باخبر ہوجائے‘‘۔

امریکی ذمہ داران کو یہ سوچنا ہوگا کہ اگر اس کا اپنا بازوے شمشیر زن‘ امریکی پالیسیوں کی مخالفت میں موت تک قبول کرنے پر آمادہ ہے تو وہ لوگ جن کے ملک پر وہ قابض ہے یا قابض ہونا چاہتا ہے وہ کیونکر سکون سے بیٹھیں گے۔ بغداد کا شکاری ایک فرد ہوسکتا ہے لیکن کیا اس ایک فرد سے نجات پاکر (اگر پاسکے)‘ امریکی فوج سُکھ کا سانس لے سکتی ہے۔

امریکا کو یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ہر انسانی جان قیمتی اور ہر انسان محترم و مقدس ہے۔ اسے بالآخر نہ صرف عراقی و افغانی یا باجوڑ اور وزیرستان کے انسانوں کی جان و مال کا بھی احترام کرنا ہوگا بلکہ خود اپنے فوجیوں کو بھی موت کی وادیوں سے نکالنا ہوگا۔ آخر انسانیت بھی کوئی چیز ہے۔ اگر امریکا اس تلخ حقیقت پر کان نہیں دھرتا اور تاریخ سے سبق نہیں سیکھتا تو یقینا وہ وقت بہت زیادہ دُور نہیں رہے گا جب دنیا ’سابق سوویت یونین‘ کی طرح امریکا کا نام بھی ’سابق ریاست ہاے متحدہ امریکا‘ کے الفاظ میں لکھا کرے گی۔ تب ’جمی ماسی‘ کے الفاظ میں: ’’مٹھی بھر ڈالروں کے عوض اپنا ضمیر و وطن بیچ ڈالنے والوں‘‘ کو بھی اپنے ایک ایک جرم کا حساب دینا ہوگا۔