تزکیہ کے لفظ کی بنیاد ’زک ۃ‘ ہیں۔اسی سے لفظ زکوٰۃ بھی ہے جس کے معنی پاک صاف کرنا‘ نشوونما دینا‘ پروان چڑھانا ہیں۔ یہ لفظ چونکہ قرآن پاک میں متعدد مرتبہ مختلف صورتوں میں وارد ہوا ہے۔ چنانچہ اس کا مفہوم ہمہ گیر اور اس کے میدان وسیع ہیں۔ کسی ایک چیز کا تزکیہ مقصود نہیں بلکہ انسانی نفس‘ افراد کا باہمی تعلق‘ خاندان کی تنظیم‘ معاشرہ‘ حیثیت‘ سماج کے رسم ورواج‘ حکومت‘سیاست‘ علوم و فنون غرض عنوانات کی ایک کہکشاں ہے جو دُور تک پھیلی ہوئی ہے اور ان سب کا تزکیہ مقصود ہے۔
یہی وجہ ہے کہ یہ لفظ قرآن مجید میں اکثر مقامات پر مطلقاً وارد ہوا ہے۔ چنانچہ فرمایا: قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰی (الاعلٰی ۸۷:۱۴)، کامیاب ہوا وہ جس نے تزکیہ کیا۔ اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقاصد بعثت بیان فرمائے تو چار جگہ وَیُزَکِّیْھِمْ فرمایا‘ یعنی پیغمبر انھیں پاک کرتاہے۔ قرآن وسنت کی روشنی میں ذیل کی سطور میں تزکیہ کے مختلف میدانوں کی نشاندہی کی جائے گی۔
وَنَفْسٍ وَّمَا سَوّٰھَا o فَاَلْہَمَھَا فُجُوْرَھَا وَتَقْوٰھَا o قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا o وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰھَا o (الشمس۹۱:۷-۹)
اور نفس انسانی کی اور اُس ذات کی قسم جس نے اُسے ہموار کیا‘ پھر اُس کی بدی اور اُس کی پرہیزگاری اُس پر الہام کر دی‘ یقینا فلاح پاگیا وہ جس نے نفس کا تزکیہ کیا اور نامراد ہوا وہ جس نے اُس کو دبا دیا۔
نفس کیا ہے۔ کیا یہ انسانی جسم کا نام ہے یا اندرونی خواہشات کو نفس سے تعبیر کیا گیا ہے۔ قرآن مجید میں یہ لفظ جسمِ انسانی کے لیے بھی استعمال ہواہے‘ خواہشاتِ نفس کے لیے بھی اور ضمیر کو بھی نفسِ لوامہ سے تعبیر کیا گیا ہے۔
وَیَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الرُّوْحِ ط قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ (بنی اسرائیل ۱۷:۸۵)
اے نبی! (صلی اللہ علیہ وسلم) یہ آپؐ سے روح کے متعلق پوچھتے ہیں۔ آپؐ کہہ دیجیے کہ روح میرے رب کے حکم سے ہے۔
لہٰذا روح کثافت اور بُرائی سے پاک ہے۔ البتہ یہ جس جسم میں ہو اُس کی کثافت اور برائی اس پر ضرور اثرانداز ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ موت کے وقت جب یہ روح کسی گناہ گار بندے کے جسم سے علیحدہ ہوتی ہے تو اُسے لعنت ملامت کرتے ہوئے جاتی ہے کہ اُس کی وجہ سے اسے اذیت اٹھانا پڑی۔
دوسری طرف جسم تین چیزوں سے عبارت ہے: عقل‘ قلب‘ جوارح۔
عقلِ انسانی فکر کا مسکن ہے۔ یہ سوچ سمجھ‘ غوروفکر اور تدبر کا ذریعہ ہے۔ یہی انسانیت کے لیے وجہ شرف ہے۔ عقل ہی سے انسان مختلف نظریات کو پرکھتا ہے۔ یہیں عقائد و نظریات رہتے ہیں۔ اسی کے ذریعے انسان خیروشر‘ نیک و بد‘ اندھیرے اور اُجالے میں فرق کرنے کے قابل ہوتا ہے۔ چنانچہ سب سے پہلے اسی عقل کا تزکیہ ضروری ہے۔ اسی کو سید مودودیؒ نے تطہیرِافکار کا نام دیا ہے۔ یہ دراصل تطہیرِعقل ہے۔
ہر دور میں شیطان سب سے پہلے انسانی عقل پر حملہ آور ہوا ہے‘ بلکہ شیطان خود سب سے پہلے اسی عقل کے فریب میں مبتلا ہوکر مردود ٹھیر چکا ہے (جب اُس نے کہا تھا کہ میں آدم سے بہتر ہوں کیونکہ مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے)۔ شیطان مسلّمہ عقائد کو مشکوک بنانے کے لیے وسوسہ اندازی کرتا ہے (یہی وجہ ہے کہ اُس کے وساوس سے پناہ مانگتے رہنے کی تلقین کی گئی ہے)۔ آج پرنٹ میڈیا ہو یا الیکٹرانک‘ مشنری ادارے ہوں یا مغربی پروردہ این جی اوز‘ یہ سب مسلمانوں کی فکر کو پراگندا کرنے کے لیے برسرِپیکار ہیں۔
تزکیۂ عقل کا پہلا مرحلہ اُن غیر اسلامی افکار اور نظریات کی تشخیص ہے جو عقل میں جڑپکڑ چکے ہیں یا جن کو شیطان اپنے آلہ کاروں کے ذریعے پوری قوت سے پھیلانے کی کوشش کر رہا ہے اور پھر دلائل و براہین کی بنیاد پر صالح عقائد کو اس فکر میں بٹھانا‘ تزکیہ کا دوسرا مرحلہ ہے۔ ان دونوں مراحل کے لیے قرآن پاک سے زندہ تعلق‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث اور آپؐ کی پاکیزہ سنت اور سیرت سے اٹوٹ رابطہ اور ان دونوں مآخذ کی بنیاد پر وجود میںآنے والے لٹریچر سے تعلق بہت ضروری ہے۔ اور صرف یہی نہیں کہ صرف ایک بار چند چیزوں کامطالعہ کرنے سے بات بن جائے بلکہ جب تک جسم اور سانس کا رشتہ استوار و برقرار رہے۔ یہ مطالعہ برابرجاری رہے تو توقع ہے کہ کسی نہ کسی درجے میں تزکیۂ عقل کی منزل ہاتھ آجائے۔
قلب جذبات کا مرکز ہے۔ اس کے اندر محبت‘ خوف‘ رجا‘ رشک‘ بُغض اور نفرت جیسے جذبات جنم لیتے رہتے ہیں۔ تزکیۂ قلب یہ ہے کہ انسان دل میں پنپنے والے جذبات کا مسلسل جائزہ لیتا رہے۔ محبت کا جائزہ لے کہ دل میں محبت کی کیفیت کیاہے۔ کیا اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت غالب ہے یا دنیا کی؟قرآن پاک میں ارشاد باری ہے:
قُلْ اِنْ کَانَ اٰبَآؤُکُمْ وَاَبْنَآؤُکُمْ وَاِخْوَانُکُمْ وَاَزْوَاجُکُمْ وَعَشِیْرَتُکُمْ وَاَمْوَالُ نِ اقْتَرَفْتُمُوْھَا وَتِجَارَۃٌ تَخْشَوْنَ کَسَادَھَا وَمَسٰکِنُ تَرْضَوْنَھَآ اَحَبَّ اِلَیْکُمْ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَجِھَادٍ فِیْ سَبِیْلِہٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰی یَاْتِیَ اللّٰہُ بِاَمْرِہٖ ط (التوبہ ۹:۲۴)
اے نبی! (صلی اللہ علیہ وسلم) کہہ دو کہ اگر تمھارے باپ‘ اور تمھارے بیٹے‘ اور تمھارے بھائی‘ اور تمھاری بیویاں‘ اور تمھارے عزیز واقارب‘ اور تمھارے وہ مال جو تم نے کمائے ہیں‘ اور تمھارے وہ کاروبار‘ جن کے ماند پڑجانے کاتم کو خوف ہے‘ اور تمھارے وہ گھر جو تم کو پسند ہیں‘ تم کو اللہ اور اُس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) اور اُس کی راہ میں جہاد سے عزیز تر ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ تمھارے سامنے لے آئے۔
یہی معاملہ خوف کا ہے۔ چنانچہ قرآن پاک میں صراحت کے ساتھ اس کا ذکر ہے۔ فرمایا: فَاللّٰہُ اَحَقُّ اَنْ تَخْشَوْہُ (التوبہ ۹:۱۳)’’تو اللہ تعالیٰ اس کا زیادہ مستحق ہے کہ تم اس سے ڈرو‘‘۔ دل میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا خوف اہلِ علم کی نشانی اور دانائی کی دلیل ہے۔ فرمایا: اِنَّمَا یَخْشَی اللّٰہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمٰٓؤُا ط (فاطر ۳۵:۲۸) ’’حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے بندوں میں سے صرف علم رکھنے والے لوگ ہی اس سے ڈرتے ہیں‘‘۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: راس الحکمۃ مخافۃ اللّٰہ ، ’’دانائی کا بلند ترین مقام اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا خوف ہے‘‘۔ لہٰذا بندہ مومن کے دل میں جہاں اللہ کا خوف ہوگا وہیں اُس کا دل مخلوقات کے خوف سے خالی ہوگا کیونکہ یہ دونوں خوف ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتے۔ ایسا ہی حال قلب کے اندر جاگزیں دیگر جذبات کا بھی ہے۔ آپؐ کا ارشاد ہے:
جس نے محض اللہ کی خاطر محبت کی اور اللہ ہی کی خاطر (کسی سے) نفرت کی‘ اللہ ہی کے لیے (کسی کو) کچھ دیا اور اللہ ہی کی خاطر (کسی سے) کچھ روکا‘ تو اُس کا ایمان مکمل ہوگیا۔
جسم کی ظاہری حالت‘ ہاتھ اور پائوں‘ آنکھیں اور کان اور زبان بھی مسئول ہیں۔ اِن سے صادر شدہ اعمال کی بابت سوال کیا جائے گا بلکہ قیامت کے دن جب منہ پر مہر لگا دی جائے گی تو یہ اعضا خود اپنے جسم کے خلاف گواہی دیں گے۔ چنانچہ جوارح کا تزکیہ بھی ضروری بلکہ ناگزیر ہے۔ زبان کا تزکیہ یہ ہے کہ اس سے خلافِ حق بات نہ نکلے۔ کوئی جھوٹ‘ جھوٹی گواہی‘ بہتان‘ غیبت یا فساد کی بات برآمد نہ ہو۔ اگر خدانخواستہ ایسا ہے تو یہی زبان جہنم میں لے جانے کا باعث بنے گی۔ یہی حال آنکھوں اور کانوں کا ہے۔ اللہ تعالیٰ آنکھوں کی خیانت سے باخبر ہے بلکہ یہ آنکھیں خود اس خیانت پر شاہد ہیں۔ کان جو کچھ سنتے ہیں اُس کی گواہی دیں گے۔ قرآن پاک میں دو مرتبہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسی محافل میں بیٹھنے سے منع کیا گیا ہے جس میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی آیات کا مذاق اُڑایا جاتا ہو‘ یعنی ایسی بات کا سننا بھی اللہ سبحانہ وتعالیٰ کو گوارا نہیں۔
تزکیہ کا دوسرا اہم میدان گھر اُس کا ماحول اور اُس کے مکین ہیں۔ انسان اپنے اردگرد کے ماحول سے بہت کچھ سیکھتا ہے۔ ماحول ہی انسان کے بنائو اور بگاڑ میں کلیدی کردارادا کرتا ہے۔ چنانچہ گھر کے ماحول کو درست رکھنا گھر کے سربراہ کی ذمہ داری ہے۔ گھر کے افراد کی تعلیم و تربیت‘ بچوں اور بڑوں میں قرآن فہمی کے لیے رغبت و مسابقت‘ نمازوں کی حفاظت‘ حلال و حرام کے حوالے سے گھر کے مکینوں پر خصوصی توجہ‘ ٹیلی ویژن‘ اخبارات‘ رسائل اور دیگر اشاعتی مواد کی مسلسل نگرانی۔ اِن سب چیزوں سے گھر کا ماحول بنتا ہے۔ بچہ اپنے گھر سے ہی سادگی‘ قناعت اور توکل کے اسباق سیکھتا ہے اور یہیں سے تعیّش و آسایش کا خوگر بنتاہے۔
قرآن پاک نے بہت شروع میں آپؐ کو یہ تاکید کی: وَاَنْذِر عَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ (الشعراء ۲۶:۲۱۴) اور اے نبی! (صلی اللہ علیہ وسلم) اپنے قریب ترین رشتہ داروں کو (قیامت سے) ڈرائو۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور اُس سے اُس کی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا‘‘۔
گھر میں بتائے جانے والے رسم و رواج‘ نشست و برخاست کے معمولات‘ لباس کا انتخاب (خصوصاً والدین کے لیے) آمدن کے ذرائع‘ خرچ کی مدّات‘ آپس کے تعلقات‘ والدین کے حقوق‘ صلۂ رحمی‘ اولاد کی تربیت‘خواتین سے سلوک‘ غرض گھر کی دنیا ایک بحرِ ناپیداکنار ہے اور ہر پہلو سے اس ماحول اور اس کے مکینوں کا تزکیہ شریعت کا عین تقاضا ہے۔
معاشرے کا تزکیہ
گھر معاشرے کا ایک یونٹ ہے۔ معاشرے کے اندر تزکیے کا عمل ہمہ جہت بھی ہے اور ہمہ وقتی اور پیہم جدوجہد کا متقاضی بھی۔ معاشرے میں نیکی پھلے اور برائی کی جڑ کٹ جائے۔ معیشت تمام مفاسد سے پاک کر دی جائے اور معاشرت کو جو عوارض لاحق ہیں اُن کا علاج کر دیا جائے اور سیاست کو تزکیے کے عمل سے گزار کر مجلّٰی و مصفّٰی کر دیاجائے تو وہ معاشرہ وجود میں آتا ہے جسے قرنِ اوّل کے مثالی اسلامی معاشرے سے تشبیہہ دی جاسکتی ہے۔
تزکیہ کا دشمن
اس ضمن میں ایک بات یاد رکھنی چاہیے اور وہ یہ کہ تزکیہ کے اس سارے عمل کا دشمن شیطان ہے جو یہ قسم کھائے بیٹھا ہے کہ وہ انسانوں کو ضرور گمراہ کرے گا اور اس دنیا اور آخرت میں اُنھیں رسوا کرے گا۔ چنانچہ جب تزکیے کا عمل فرد تک محدود ہو تو شیطان بھی انفرادی طور پر حملہ آور رہتا ہے۔ لیکن جب یہ عمل معاشرے تک پھیل جائے اور کچھ لوگ مل کر یہ کام کرنا شروع کر دیں تو شیطان بھی اُن کے مقابل میں جمعیت فراہم کرنا شروع کر دیتا ہے۔ افراد کے مقابلے میں افراد لاتا ہے۔ وسائل کے مقابلے میں وسائل پیش کرتا ہے۔ قوت کے مقابلے میں قوت سے کام لیتا ہے اور پوری کوشش کرتا ہے کہ حق غالب ہونے نہ پائے‘ معاشرے کا تزکیہ نہ ہوسکے۔ چنانچہ اس مقابلے میں اہل ایمان اُسی وقت کامیاب ٹھیرسکتے ہیں جب کہ وہ اس مشن کو اپنی پہلی ترجیح قرار دیں‘ منظم ہوں اور جو کچھ اُنھیں میسر آئے اس راہ میں لگا دیں پھر اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ شیطان کی تدبیروں کو اُلٹ دے گا اور اُس کے وسائل اُس کے کچھ کام نہ آسکیں گے۔
تزکیہ کے ذرائع
تزکیے کے اس ہمہ جہت پروگرام کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لیے جو ذرائع و وسائل بتائے گئے ہیں وہ بھی بہت ہی عظیم الشان ہیں۔ فرمایا:
قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰی o وَذَکَرَ اسْمَ رَبِّہٖ فَصَلّٰی o بَلْ تُؤْثِرُوْنَ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا o وَالْاٰخِرَۃُ خَیْرٌ وَّاَبْقٰی o (الاعلٰی۸۷:۱۴-۱۷)
فلاح پا گیا وہ جس نے پاکیزگی اختیار کی اوراپنے رب کا نام یاد کیا‘ پھر نماز پڑھی۔ مگر تم لوگ دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو‘ حالانکہ آخرت بہتر ہے اور باقی رہنے والی ہے۔
ان آیات میں چار چیزوں کی نشان دہی فرمائی گئی۔ ان میں سے دو یعنی ذکر اورنماز تو وہ ذرائع ہیں جن کے ذریعے یہ منزل حاصل کی جا سکتی ہے‘ جب کہ بقیہ دو میں سے ایک یعنی حقیقی کامیابی کا تصور اُجاگر کیا اوردوسرے تزکیے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ یعنی دنیا پرستی کا ذکر کیا گیا۔ ذیل میں اِن تمام امور پر غور کیا جائے گا۔
ذکـر
ذکر کے معنی یاد کرنے کے بھی‘یاد رکھنے کے بھی اور نصیحت اور یاد دہانی کو بھی ذکر کہتے ہیں۔ اسی نسبت سے آپؐ کو مُذَکِّر کہا گیا۔ فرمایا: جس نے رب کے نام کو یاد رکھا‘ یعنی جس نے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے اسماے حسنیٰ کی معرفت حاصل کی وہ تزکیہ کی اِس منزل کو حاصل کرلے گا۔ قرآن پاک میں جگہ جگہ اِنھی اسماے حسنیٰ کا ذکر موجود ہے۔ جب بندہ یہ علم حاصل کرتا ہے کہ اُس کا رب رحمن ہے‘ رحیم ہے‘ کریم ہے‘ رؤف ہے‘ ودود ہے اور اِن ناموں سے اُس کی رحمت‘ شفقت‘ محبت اور کرم کا اظہار ہوتا ہے‘ تو اُس کے دل میں رب کی محبت پیدا ہوتی ہے۔ یہ صفاتِ جلیلہ بندے کے دل میں رب کی طرف رجوع‘ اُس کی رحمت کی آس‘ رجا اور اُمید کی کیفیت پیدا کردیتی ہیں۔ جب بندے کو علم ہوتا ہے کہ وہ رب عزیز ہے‘ شدید العقاب ہے‘ جبار و قہار ہے‘ مقتدر اور بادشاہِ حقیقی ہے تو اُس کے دل میں رب کا خوف اور اُس کے حضور جواب دہی کا احساس پیدا ہونا شروع ہوجاتا ہے۔
بندہ جب سنتا ہے کہ اُس کا رب سمیع و بصیر ہے‘ علیم و خبیرہے تو وہ محتاط ہوجاتا ہے۔ اپنے اعمال کی برابر نگرانی شروع کر دیتا ہے۔ جب اُسے معلوم ہوتا ہے کہ اُس کا رب رزّاق ہے‘ تورزق کے سلسلے میں اُس کی نگاہ مخلوقات سے ہٹ کر اُسی فاعلِ حقیقی پر جم جاتی ہیں۔ حاصل یہ کہ رب کے یہ نام رب تک پہنچنے کا بہترین ذریعہ ہیں اور تزکیے کے عمل کے لیے اکسیر کی حیثیت رکھتے ہیں۔
نماز
ذکر کی مکمل ترین شکل نماز ہے۔ بندہ عملی طور پر کبھی ہاتھ باندھ کر‘ کبھی رکوع کی حالت میں اور کبھی سجدے میں سرجھکا کر بندگی کا اظہار کرتا ہے۔ اسماے حسنیٰ کا ورد کرکے رب کی معرفت حاصل کرتا ہے۔ دُعا و مناجات کر کے رب سے تعلق اُستوار کرتا ہے۔ چنانچہ تزکیہ کے عمل کو برابر جاری رکھنے اور اس میں ہر دم اضافے کے لیے نماز سے بہتر اور کارگر نسخہ کوئی اور نہیں۔
نماز ہی کے عمل میں دو اور اشارے بھی پوشیدہ ہیں۔ ایک یہ کہ نماز مسلمان پر ساری زندگی فرض ہے۔ سواے جنون اور بے ہوشی کے یہ فرض کبھی ساقط نہیں ہوتا۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ تزکیے کا عمل بھی موت کی آخری ہچکی تک جاری رہنا چاہیے۔ دوسرا اشارہ یہ کہ نماز کی اصل روح اس کی اجتماعی شان ہے۔ نماز باجماعت‘ امام کی اطاعت اور بے مثال تنظیم یہ پیغام ہے کہ معاشرے میں تزکیے کا عمل کرنے کے لیے جس بے مثال اجتماعیت‘ مثالی تنظیم اور فداکاری کی ضرورت ہے۔ اُس کی نظیر نماز میں تمھارے لیے موجود ہے۔
قرآن پاک کا ارشاد ہے:
اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَـنْھٰی عَـنِ الْفَحْشَـآئِ وَالْمُنْکَـرِ ط وَلَذِکْـرُ اللّٰہِ اَکْـــبَرُ ط (العنکبوت ۲۹:۴۵)
یقینا نماز فحش اور بُرے کاموں سے روکتی ہے اور اللہ کا ذکر اس سے بھی زیادہ بڑی چیز ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ذکر کو قلعہ سے تشبیہہ دی ہے جس میں انسان دشمن سے پناہ لیتا ہے۔ چنانچہ شیطان کے حملوں سے بچائو کے لیے ذکر اور نماز بہترین ہتھیار ہیں۔
تزکیے کا نبویؐ اسلوب
’’اب دیکھیے کہ اس مقصد کی تکمیل کے لیے محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کس ترتیب و تدریج کے ساتھ کام کیا: ’’سب سے پہلے آپ نے ایمان کی دعوت دی اور اس کو وسیع ترین بنیادوں پر پختہ و مستحکم فرمایا۔ پھر اس ایمان کے مقتضیات کے مطابق بتدریج اپنی تعلیم و تربیت کے ذریعے سے اہلِ ایمان میں عملی اطاعت و فرماں برداری (یعنی اسلام)‘ اخلاقی طہارت (یعنی تقویٰ) اور خدا کی گہری محبت و وفاداری (یعنی احسان) کے اوصاف پیدا کیے۔ پھر ان مخلص مومنوں کی منظم سعی و جہد سے قدیم جاہلیت کے فاسد نظام کو ہٹانا اور اس کی جگہ قانونِ خداوندی کے اخلاقی و تمدنی اصولوں پر ایک نظامِ صالح قائم کرنا شروع کردیا۔ اس طرح جب یہ لوگ اپنے دل و دماغ‘ نفس وا خلاق‘ افکار و اعمال‘ جملہ حیثیات سے واقعی مسلم‘ متقی اور محسن بن گئے اور اس کام میں لگ گئے جو اللہ تعالیٰ کے وفاداروں کو کرنا چاہیے تھا‘ تب آپ نے ان کو بتانا شروع کیا کہ وضع قطع‘ لباس‘ کھانے پینے‘ رہنے سہنے‘ اٹھنے بیٹھنے اور دوسرے ظاہری برتائو میں وہ مہذب آداب و اطوار کون سے ہیں جو متقیوں کو زیب دیتے ہیں۔ گویا پہلے مِسِ خام کو کندن بنایا پھر اس پر اشرفی کا ٹھپہ لگایا۔ پہلے سپاہی تیار کیے پھر انھیں وردی پہنائی۔ یہی اس کام کی صحیح ترتیب ہے جو قرآن و حدیث کے غائر مطالعے سے صاف نظر آتی ہے۔ اگر اتباعِ سنت نام ہے اس طرزِعمل کا جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی مرضی پوری کرنے کے لیے ہدایت ِالٰہی کے تحت اختیار کیا تھا‘ تو یقینا یہ سنت کی پیروی نہیں بلکہ اس کی خلاف ورزی ہے کہ حقیقی مومن‘ مسلم‘ متقی اور محسن بنائے بغیر لوگوں کو متقیوں کے ظاہری سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کی جائے اور محسنین کے سے چند مشہور ومقبول عام افعال کی نقل اتروائی جائے۔ یہ سیسے اور تانبے کے ٹکڑوں پر اشرفی کا ٹھپہ لگا کر بازار میں ان کو چلا دینا‘ اور سپاہیت‘ وفاداری اور جاں نثاری پیدا کیے بغیر نرے وردی پوش نمایشی سپاہیوں کو میدان میں لاکھڑا کرنا‘ میرے نزدیک تو ایک کھلی ہوئی جعل سازی ہے‘ اور اسی جعل سازی کا نتیجہ ہے کہ نہ بازار میں آپ کی ان جعلی اشرفیوں کی کوئی قیمت اٹھتی ہے اور نہ میدان میں آپ کے ان نمایشی سپاہیوں کی بھیڑ سے کوئی معرکہ سر ہوتا ہے…
میری اس گزارش کو یہ معنی نہ پہنایئے کہ میں ظاہری محاسن کی نفی کرنا چاہتا ہوں‘ یا ان احکام کی تعمیل کو غیرضروری قرار دے رہا ہوں جو زندگی کے ظاہری پہلوئوں کی اصلاح و درستی کے متعلق دیے گئے ہیں۔ درحقیقت میں تو اس کا قائل ہوں کہ بندۂ مومن کو ہر اس حکم کی تعمیل کرنی چاہیے جو خدا اور رسولؐ نے دیا ہو‘ اور یہ بھی مانتا ہوں کہ دین انسان کے باطن اور ظاہر دونوں کو درست کرنا چاہتا ہے لیکن جو چیز میں آپ کے ذہن نشین کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ مقدم چیز باطن ہے نہ کہ ظاہر۔ پہلے باطن میں حقیقت کا جوہر پیدا کرنے کی فکر کیجیے‘ پھر ظاہر کو حقیقت کے مطابق ڈھالیے۔ آپ کو سب سے بڑھ کر اور سب سے پہلے ان اوصاف کی طرف توجہ کرنی چاہیے جو اللہ کے ہاں اصلی قدر کے مستحق ہیں اور جنھیں نشوونما دینا انبیا علیہم السلام کی بعثت کا اصلی مقصود تھا۔ ظاہر کی آراستگی اوّل تو ان اوصاف کے نتیجے میں فطرتاً خود ہی ہوتی چلی جائے گی اور اگر اس میں کچھ کسر رہ جائے تو تکمیلی مراحل میں اس کا اہتمام بھی کیا جا سکتا ہے‘‘۔ (روداد جماعت اسلامی‘ سوم‘ ص ۲۵۴-۲۵۵)
تزکیے کی راہ میں بڑی رکاوٹ
تزکیہ چاہے نفس کا ہو‘ یعنی عقل و قلب کا یا جوارح کا‘ یا یہ تزکیہ خاندان‘ گھر‘ معاشرے‘ معیشت یا سیاست کا ہو‘ ہر محاذ پر اس راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ وہی ہے جس کا قرآن نے جابجا ذکر کیا ہے۔ اسی سورۂ اعلیٰ میں فرمایا:
بَلْ تُـؤْثِرُوْنَ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا o (الاعلٰی ۸۷:۱۶)
مگر تم لوگ دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو۔
ایک اور جگہ فرمایا:
کَلاَّ بَلْ تُحِبُّوْنَ الْعَاجِلَۃَ o وَتَذَرُوْنَ الْاٰخِرَۃَ o (القیامہ ۷۵:۲۰-۲۱)
ہرگز نہیں‘ اصل بات یہ ہے کہ تم لوگ جلدی حاصل ہونے والی چیز (دنیا) سے محبت رکھتے ہو اور آخرت کو چھوڑ دیتے ہو۔
یہ انسان کا عمومی رویہ ہے جس کی نشان دہی کی گئی ہے۔ انسان جلدباز‘ ظاہربین ہے‘ دنیا کے نفع کا طالب اور اسی سے خوش ہونے والا ہے‘ جب کہ آخرت کا معاملہ آنکھوں سے اوجھل ہے۔ صلہ نقد کے بجاے اُدھار ہے (یہ اور بات ہے کہ آخرت کا صلہ بجاے خود بہتر اور دینے والا سب سے زیادہ بااعتماد اور سچا ہے)۔
اسی لیے انسان اِس طرف زیادہ راغب نہیں ہوتا۔ اس لحاظ سے اگر قرآن پاک کا مطالعہ کیا جائے تو کم از کم ایک تہائی قرآن آخرت کے ذکر پر مشتمل ہے۔ گویا جب تک یہ عقیدہ بندۂ مومن کے قلب و ذہن میں اچھی طرح راسخ نہیں ہوتا اس کے لیے دین کی راہ پر ایک قدم بھی چلنا دشوار ہے اور دین کا کوئی ایک مطالبہ بھی پورا کرنا اس کے لیے مشکل ہے۔ اسی حقیقت کی طرف قرآن پاک میں یوں اشارہ کیا گیا:
وَاسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ ط وَاِنَّھَا لَکَبِیْرَۃٌ اِلاَّ عَلَی الْخٰشِعِیْنَ o الَّذِیْنَ یَظُنُّوْنَ اَنَّھُمْ مُّلٰقُوْا رَبِّھِمْ وَاَنَّھُمْ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَo (البقرہ ۲:۴۵-۴۶)
صبر اور نماز سے مدد لو‘ بے شک نماز ایک سخت مشکل کام ہے‘ مگر اُن فرماں بردار بندوں کے لیے مشکل نہیں ہے جو سمجھتے ہیں کہ آخرکار انھیں اپنے رب سے ملنا اور اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔
المیہ یہ ہے کہ بعض اوقات دین دار افراد بھی فکرِآخرت کا تصور پختہ نہ ہونے کی وجہ سے دنیاپرستی کا شکار ہوجاتے ہیں اور اپنے نیک اعمال دنیا کے سستے بھائو بیچنا شروع کر دیتے ہیں۔ بعض اوقات نیک اعمال صرف اسی غرض سے کیے جاتے ہیں کہ اُن کے ذریعے ذرا سا دنیاوی فائدہ مل سکے۔ کسی کو چند روپے خیرات دے کر مقصد میںکامیاب ہونے کی دُعا کرائی جاتی ہے۔ کہیں قرآن پڑھ کر مقدمہ میں کامیابی کی تمنا کی جاتی ہے حالانکہ مومن نیک اعمال آخرت میں ثواب کے حصول اور رب کی رضا اور خوشنودی کی نیت سے کرتا ہے۔ ہاں البتہ اس دنیا میں پیش آنے والے مسائل و مشکلات پر اُس سے رجوع کرتا ہے۔ اُسی سے مدد طلب کرتا ہے اور سخت وقت میں صبر کا دامن ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔
شیطان بار بار انسان کو دنیا کے فریب میں اُلجھانے کی کوشش کرتا ہے اسی وجہ سے مشرکینِ مکہ سب سے زیادہ اعتراض موت کے بعد زندگی اور آخرت کے دیگر مراحل پر کیا کرتے تھے۔ طرح طرح کی کٹ حجتیاں کرتے‘ کج بحثیاں کرتے‘ ٹھٹھہ اور مذاق کرتے کہ جو ہڈیاں بوسیدہ ہوکر چورہ چورہ ہوجائیں گی اُنھیں کیسے دوبارہ زندہ کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اُتنے ہی زور سے بار بار قرآن انسان کو آفاق و انفس سے دلائل دے کر یہ بات باور کراتا ہے کہ یہ دنیا کی زندگی عارضی ہے۔ سب انسانوں کوکیا ‘جان داروں کو مرنا ہے۔ پھر وہ جنات اور انسانوں کو دوبارہ اٹھائے گا اور اُن سے اُن کے اعمال کا حساب لے گا۔
فلاح کا تصور
تزکیے کا یہ عمل مسلسل جاری نہیں رہ سکتا جب تک انسان کی نظر میں کامیابی اور فلاح کا تصور درست نہ ہو۔ ہر شخص اپنے ذہن میں کامیابی کا کوئی نہ کوئی تصور ضرور رکھتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ تصور محدود اور مبہم ہو یا واضح اور مکمل۔ کسی کی نگاہ میں دو وقت کی روٹی کا حصول بڑی کامیابی ہے۔ کسی کی نظر میں وزارت اور صدارت معیار ہے اور کسی کے ہاں ڈگریاں اور تعلیمی اسناد وہ حد ہے جہاں تک پہنچنا کامیابی ہے۔ جب ہم یہ سوال لے کر قرآن وسنت کی طرف رجوع کرتے ہیں تو وہاں کامیابی اور ناکامی کا ایک الگ مگر واضح تصور موجود ہے۔ ہر مومن کے دل و دماغ میں یہ تصور جب تک راسخ نہ ہوگا تزکیے کی منزل ہاتھ آنا مشکل ہے۔
ایک طرف تو اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے قرآن پاک میں جگہ جگہ دنیا کی حقیقت کھول کر بیان فرما دی‘ فرمایا:لَا یَغُرَّنَّکَ تَقَلُّبُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فِی الْبِلَادِ o مَتَاعٌ قَلِیْلٌ قف ثُمَّ مَاْوٰھُمْ جَھَنَّمُ وَبِئْسَ الْمِھَادُ o (اٰل عمرٰن ۳:۱۹۶-۱۹۷) ’’اے نبی! (صلی اللہ علیہ وسلم) دنیا کے ملکوں میں خدا کے نافرمان لوگوں کی چلت پھرت تمھیں کسی دھوکے میں نہ ڈالے۔ یہ محض چند روزہ زندگی کا تھوڑا سا لطف ہے‘ پھر یہ سب جہنم میں جائیں گے جو بدترین جاے قرار ہے‘‘۔ اور دوسری طرف فرمایا: فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَاُدْخِلَ الْجَنَّۃَ فَقَدْ فَازَ ط (اٰل عمرٰن۳:۱۸۵) ’’کامیاب دراصل وہ ہے جو وہاںآتشِ دوزخ سے بچ جائے اور جنت میں داخل کردیا جائے‘‘۔ چنانچہ اس کامیابی کے تصور میں ایک جہدِمسلسل بھی ہے‘ لگن اور چاہت بھی ہے اور اچھا انجام بھی۔ یہی وہ کامیابی ہے جس کے لیے انسان کو اپنے جان اور مال کی بازی لگادینی چاہیے۔
_____________