پروفیسر خورشید احمد | ۲۰۰۶فروری | اشارات
بسم اللہ الرحمن الرحیم
جمہوریت اپنی تمام کمزوریوں کے باوجود دور حاضر کے دوسرے سب سیاسی نظاموں کے مقابلے میں ایک فوقیت رکھتی ہے۔ اس میں دستور اور قانون کی حکمرانی‘ عوام کی مرضی سے حکومتوں کی تشکیل اور تبدیلی‘ حکمرانوں کی جواب دہی‘ انسانی حقوق کی ضمانت‘ عدلیہ کی آزادی اور معاشرے میں آزادانہ بحث و احتساب بشمول پریس اور میڈیا کی آزادی کو سیاسی نظام کا بنیادی ڈھانچا تصورکیا جاتا ہے اور کسی نہ کسی حد تک اس کا احترام بھی کیا جاتا ہے ۔ اگر کہیں اس سے انحراف ہوتا ہے تو بالآخر وہ طشت ازبام ہوکر رہتا ہے اور اجتماعی محاسبے کا نظام حرکت میں آجاتا ہے۔ یہی وہ عمل ہے جس سے نام نہاد جمہوری قیادتوں کا پول بالآخر کھلتا ہے۔
امریکا کومغربی دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا دعویٰ ہے اور صدربش نے دوسری بار صدارت کا انتخاب جیتنے کے بعد تو پوری دنیا میں ’جمہوریت‘ اور آزادی کے فروغ کے لیے ’کروسیڈ‘ کو اپنی خارجہ پالیسی کا مرکزی نکتہ قرار دیا ہے اور خود عراق کے خلاف فوج کشی اور وہاں برپا ہونے والے قتل و غارت گری کے لیے اب اسی دعوے کو بطور ’جواز‘ پیش کر رہے ہیں۔ اب لے دے کے اُن کے اور اُن کے ہم نوا حکمرانوں کے‘ بالخصوص برطانیہ کے وزیراعظم ٹونی بلیر کے پاس کہنے کے لیے بس یہی کچھ رہ گیا ہے کہ ہم نے عراق کو صدام کی آمریت سے نجات دلائی ہے اور ’جمہوری نظام‘ کو فروغ حاصل ہو رہا ہے۔
امریکا کے موجو دہ حکمرانوں کی پوری سفارتی اور پروپیگنڈا مہم کے باوجود‘ امریکی سفارت کاری کا یہ سال ان کی تاریخ کا ناکام ترین سال رہا ہے اور ’پبلک ڈپلومیسی‘ جس پر اربوں ڈالر خرچ کیے جا رہے ہیں‘ اس کے غبارے سے ہوا نکل گئی ہے۔ دنیا صدر بش اور امریکی قیادت کے بلندبانگ دعووں کو کوئی وقعت نہیں دے رہی بلکہ وہ ان کی پالیسیوں اور عملی اقدامات کو دیکھ رہی ہے۔ دعوے اور حقیقت میں جو تضاد اور بُعدالمشرقین پایا جاتا ہے‘ اس نے امریکا کی ساکھ کوایسا سخت نقصان پہنچایا ہے کہ اس کی تلافی ممکن نہیں___ افسوس تو امریکا کے ان حواریوں پرہے جو مسلم دنیا میں اب بھی امریکا کی کٹھ پتلیاں بنے ہوئے ہیں اور اپنے ہی عوام کے خلاف صف آرا ہیں۔ امریکا کی پالیسی کی ناکامی کا تازہ ترین اعتراف خود بش صاحب کا وہ ارشاد ہے جو ۶جنوری ۲۰۰۶ء کو واشنگٹن میںقومی زبانوں کے تحفظ کے ادارے کا افتتاح کرتے ہوئے انھوں نے فرمایا ہے کہ امریکا کے امیج کو جس چیز نے بگاڑا ہے‘ وہ وہ پروپیگنڈا ہے جو دوسرے ممالک کا میڈیا کر رہا ہے۔ خصوصیت سے عرب ممالک کے ریڈیو اور ٹی وی کو نشانہ بناتے ہوئے فرماتے ہیں:
جب آپ ان میں سے کچھ ٹی وی اسٹیشن دیکھ رہے ہوتے ہیں تو آپ کے سامنے امریکا نہیں آتا۔ عرب ٹی وی ہمارے ملک کے ساتھ انصاف نہیں کرتے۔ بعض اوقات وہ ایسا پروپیگنڈا کرتے ہیں جوکسی بھی طرح درست نہیں ہوتا۔ یہ انصاف کی بات نہیں ہے اور یہ لوگوں کو‘ ہم جو کچھ ہیں‘اس کا صحیح تاثر نہیں دیتا۔
اس خطاب میں انگریزی کے علاوہ دنیا کی دوسری زبانوں ‘ خصوصیت سے مسلم ممالک کی زبانوں (عربی‘ فارسی اور اردو) میں بھی امریکی پروپیگنڈے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے اور ان کروڑوں ڈالر پر مستزاد جو اس وقت ’پبلک ڈپلومیسی‘ کے نام پر خرچ کیے جا رہے ہیں‘ مزید ۱۴ ملین ڈالر کا ایک نیا منصوبہ بروے کار لانے کا اعلان کیا گیا ہے۔
امریکا کو حق ہے کہ وہ اپنے پروپیگنڈے پر جتنی رقم جب اور جس طرح چاہے خرچ کرے لیکن ایک بنیادی حقیقت نہ صرف امریکا بلکہ سب کے سامنے رہنی چاہیے کہ حقائق پر پروپیگنڈے کے ذریعے لمبے عرصے تک پردہ نہیں ڈالا جا سکتا۔ اب دنیا کے ایک ’گلوبل ویلج‘ بن جانے کا کم از کم یہ فائدہ ضرور ہوا ہے کہ بہت کم وقت میں ایک مقام کی خبریں دنیا کے گوشے گوشے تک پہنچ جاتی ہیں اور اس طرح محض حقائق کو چھپانے یا پروپیگنڈے کے بل بوتے پر اپنے موقف کو پیش (project)کرنے کی گنجایش بہت کم رہ گئی ہے۔ امریکا کی قیادت کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ اب ہٹلر کے وزیر ابلاغیات جوزف گوئبلز کی وہ پالیسی نہیں چل سکتی جس میں جھوٹ کو اتنی بار نشرکیا جاتا تھا کہ لوگ اسے سچ سمجھنے لگتے تھے۔ اب سچ بہت جلد ظاہر ہوکر رہتا ہے۔ اب اصل مسئلہ پروپیگنڈے اور ابلاغ کا نہیں‘ امریکا کی حکومت‘ اس کی پالیسیوں‘ افواج اور ذمہ دار حکام کے کارناموں کا ہے۔ جب تک پالیسی اور اس کے اہداف‘ مقاصد اور اسلوب نہیں بدلتے اور وہ تضادات جو دعوے اور عمل میں موجود ہیں‘ ان کی اصلاح نہیں ہوتی‘ محض چرب زبانی‘ جدید ترین ابلاغی وسائل اور سیاسی ملمع سازی سے استعماری پالیسیوں اور دوسروں کو غلام اور محکوم بنانے والے اقدامات پر پردہ نہیں ڈالا جا سکتا۔ ایک امریکی کالم نگار ولیم فشر (William Fisher)نے اس دوعملی اور تضاد کو بڑے نرم اور ہمدردانہ انداز میں لیکن برملا طور پر یوں ادا کردیا ہے :
عراق اورشرق اوسط میں راے عامہ کے مختلف جائزوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ لوگ امریکی محرکات اور حکمت عملی کے بارے میں شک و شبہے میں مبتلا ہیں کیونکہ امریکا جو کچھ کہتا ہے اور جو کچھ کرتا ہے اس میں تضادات پاتے ہیں۔ ( `US State Department's Mixed Messages'، دی نیوز‘ ۸جنوری ۲۰۰۶ئ‘ بحوالہ دی عرب نیوز)
امریکا جس طرح اپنا ایک خاص امیج بنانے کے لیے پانی کی طرح ڈالر بہا رہا ہے‘ صحافیوں کو خرید رہا ہے‘ تعلقات عامہ کی فرموں کو استعمال کر رہا ہے اور سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ بنانے کی کوشش کر رہا ہے‘ اس کا پردہ یونی ورسٹی آف کیلی فورنیا ایٹ چیکو (University of California et Chico) کے پروفیسر بِین گروس کپ (Bean Grosscup) نے اس طرح چاک کیا ہے:
وہی لوگ جو آزادیِ صحافت کو فروغ دینے کے لیے پروگرام ترتیب دیتے ہیں‘ وہی تعلقات عامہ کی فرموں‘ شور مچانے والے لوگوں اور خریدے ہوئے صحافیوں سے وابستہ تھنک ٹینکوں کو ’آزاد میڈیا‘ کے طور پر رقوم فراہم کرنے کا دفاع کرتے ہیں۔ ساری بات تعلقات عامہ اور میڈیا کو کنٹرول کرنے کی ہے۔ اس پر جوزف گوئبلز بھی فخر کرے گا۔(دی نیوز‘ ۴ جنوری ۲۰۰۶ئ)
امریکا کے موجودہ حکمران‘ خصوصیت سے صدر جارج بش‘ نائب صدر ڈک چینی‘ وزیردفاع رمزفیلڈ اور ان کے تمام خفیہ اداروں کے کارپرداز جس دیدہ دلیری اور سینہ زوری کے ساتھ امریکی دستور‘ قانون‘ کانگریس کے طے شدہ ضابطوں اور بین الاقوامی قانون اور جنیوا کنونشن کی خلاف ورزی کر رہے ہیں‘ اس نے مشرق سے مغرب تک ہر طرف ایک تہلکہ سا مچا دیا ہے۔ مسلم ممالک کے عوام تو ایک مدت سے چیخ ہی رہے تھے‘ اب یورپی اقوام بھی پکار اُٹھی ہیں اور خود امریکا میں بھی صدربش اور ان کی پالیسیوں سے عمومی بے زاری کے اظہار کے لیے بغاوت کی ایک لہر اُٹھ رہی ہے جس کا سب سے نمایاں مظہر امریکی کانگریس کا یہ اہم اقدام ہے کہ حب الوطنی کے قانون (Patriot Act)کی غیرمعینہ عرصے کے لیے صدر بش کی درخواست رد کرتے ہوئے صرف پانچ ہفتوں کے لیے اس کی منظوری دی ہے۔
یاد رہے کہ متذکرہ قانون کو صدر بش نے نائن الیون کے بعد کانگریس سے منظور کرایا تھا اور جسے پہلے سال مکمل اتفاق راے سے منظور کیا گیا تھا۔ اس کے تحت صدر کو اور نیشنل سیکورٹی اتھارٹی کو ایسے غیرمعمولی اختیارات دے دیے گئے تھے جن کو استعمال کر کے وہ دہشت گردی کے شبہے پر لوگوں کو گرفتار کرسکتے ہیں‘ لمبی مدت تک مقدمہ چلائے بغیر زیرحراست رکھ سکتے ہیں‘ اور اگر مقدمہ چلانے کی نوبت آئے تو ناگزیر قانونی تقاضے (due process of law) کے بہت سے معروف ضابطوں کو نظرانداز بلکہ پامال بھی کرسکتے ہیں۔ مشہور امریکی رسالےNation کے مضمون نگار جوناتھن شیل (Jonathan Schell) کے بقول اس قانون نے امریکی صدر کو آج کا ایسا ایڈمنسٹریٹر بنادیا ہے کہ اگر وہ آمریت کی مکمل تصویر نہ بھی ہو تو بھی اس میں وہ ساری خصوصیات پیدا ہوگئی ہیں جن سے آمریت کا آغاز ہوتا ہے۔ اس کے نزدیک یہ حکومت بظاہر آمریت نہیں ہے مگر اس میں آمریت کی سب ابتدائی خصوصیات صاف نظر آتی ہیں۔
امریکی تاریخ میں صدارتی اختیارات کو سب سے زیادہ وسیع پیمانے پر غلط استعمال کرنے والاشخص صدر بش ہے۔ (دی اکانومسٹ‘ لندن‘ ۷ جنوری ۲۰۰۶ئ‘ ص ۴۰)
امریکی جریدے ٹائم (۹ جنوری ۲۰۰۶ئ)میں کیرن ٹوملٹی (Karen Tumulty) اور مائیک ایلیو (Mike Allew) اپنے مضمون میں سینیٹ کی جوڈیشری کمیٹی کے رکن سینیٹر پیٹرک لی ہی (Patrick Leahy)کا یہ جملہ نقل کرتے ہیں کہ:
صدر نکسن کے بعد جس حکومت نے عدالتوں اورقانونی ضابطوں کو نظرانداز کرنے کی سب سے زیادہ کوشش کی ہے‘ وہ یہی حکومت ہے۔
یہ ہے وہ پس منظر جس میں صدر بش کے لیے کانگریس کی اس سرزنش (rebuke) کی اہمیت کو سمجھا جاسکتا ہے کہ حب الوطنی کے جس قانون کی سال بہ سال تجدید (renewal) سے بچنے کے لیے صدربش نے کانگریس سے اس کی غیرمعین مدت کے لیے تجدید کی قانونی تجویز پیش کی تھی بلکہ یہاں تک کہہ دیا تھا کہ we cannot afford to be without this law for a single moment(ہم اس قانون کے بغیر ایک لمحے کے لیے بھی نہیں چل سکتے)‘ اسے عظیم اکثریت نے رد کر دیا اور صرف ۵ ہفتے کے لیے اس کی تجدید کی___ یعنی ۵فروری ۲۰۰۶ء تک۔ ساتھ ہی تفتیش کے دوران تعذیب‘ یعنی ٹارچر (torture) کا دروازہ بند کرنے کے لیے جو ترمیم سینیٹر میک کین (Mc Cain) نے پیش کی تھی اور جسے بش نے ویٹو کرنے کی دھمکی دی تھی‘ اسے بھی سینیٹ نے ۹ کے مقابلے میں ۹۰ ووٹ سے منظور کرکے یہ پابندی لگا دی کہ تمام امریکی ایجنسیوں کے لیے نہ صرف امریکا کی سرزمین پر‘ بلکہ دنیا میں کہیں بھی زیرحراست دشمنوں کو ایسے تمام ہتھکنڈوں کا نشانہ بنانا خلافِ قانون ہوگا جو ظالمانہ‘ غیرانسانی اور ذلت آمیزہوں۔ واضح رہے کہ آخری وقت میں ڈک چینی نے پوری کوشش کی کہ کم از کم سی آئی اے کو اس سے مستثنیٰ قرار دیا جائے مگر سینیٹ نے یہ ماننے سے انکار کردیا اور امریکا کی موجودہ حکمران ٹیم جو کھیل کم از کم چار سال سے کھیل رہی ہے‘ عالمی احتجاج کے تحت اسے اس سے روکنے کا عندیہ دیا۔ آیندہ امریکی انتظامیہ اس کا کتنا احترام کرتی ہے یہ تو مستقبل ہی بتائے گا لیکن کانگریس کے یہ دونوں اقدام بش انتظامیہ پر اس چارج شیٹ کی تصدیق کرتے ہیں جو حقوقِ انسانی کی تنظیمیں اور عالمِ اسلام اور تیسری دنیا کے دانش ور لگا رہے تھے۔
اس سلسلے میں ہم صرف چند اہم اور نمایاں حقائق ریکارڈ پر لانا ضروری سمجھتے ہیں تاکہ صدربش کے تحت امریکی جمہوریت کا اصل چہرہ سب کے سامنے آجائے اور اس آئینے میں خود ان مسلمان ممالک کی قیادتوں کی شکل بھی دیکھی جا سکے جو صرف امریکا کی خوش نودی کے لیے اپنے اپنے ملکوں میں نام نہاد دہشت گردی کی جنگ میں شرکت کے نام پر انسانی حقوق اور آزادیوں کا خون کررہے ہیں۔
جمہوریت کا ایک بنیادی اصول دستور اور قانون کی پاسداری ہے۔ مطلق العنان بادشاہت اور آمریت میں حکمران دستور اور قانون سے بالا رہتے ہیں اور اپنی من مانی کرتے ہیں‘ جب کہ جمہوریت میں ہر صاحبِ اقتدار اپنے لیے جواز حکمرانی دستور اور قانون سے پاتاہے اور اس کا پابند ہوتا ہے۔ صدربش اور ان کی انتظامیہ نے خود کو دستور سے بالاتر کرلیا ہے اور وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر دستور کی ان تمام ضمانتوں کو پامال کر رہے ہیں جو قانون کی حکمرانی‘ نجی زندگی (privacy) کی حفاظت‘ عدالت کی اجازت کے بغیر کسی شہری کی ڈاک‘ ٹیلی فون‘ انٹرنیٹ وغیرہ کی جاسوسی کی مکمل ممانعت کے بارے میں تھیں۔
یہ انتظامیہ اس سلسلے میں ایک عظیم جرم کی مرتکب ہوئی ہے۔ اس نے ہزاروں انسانوں کی نجی زندگی کو پوری بے دردی سے مجروح کیا ہے اور چار سال سے کروڑوں کی تعداد میں ان کے پیغامات کو درمیان میں روکا (intercept کیا)ہے۔ اور اس سلسلے میں غیرمعمولی حالات کے لیے جو گنجایش پیدا کی گئی تھی کہ ایسے معاملات میں خود نیشنل سیکورٹی اتھارٹی اپنی ۱۲رکنی سرکاری جوڈیشل کمیٹی سے رجوع کرے‘ اس کی پابندی نہیں کی گئی‘ محض القاعدہ کی بو سونگھنے کے لیے بے دریغ لاکھوں ٹیلی فون کالوں اور ای میل کو سی آئی اے اور دوسری ایجنسیاں درمیان میں روکتی رہیں۔ یہ اقدام دستور‘ قانون‘ بنیادی حقوق اور شایستگی ہر چیز کی کھلی خلاف ورزی تھی جس کا پوری بے باکی سے ارتکاب کیا گیا۔ اس پر مستزاد یہ کہ جب اس کی سن گن لوگوں کو ملنا شروع ہوئی اور کچھ اخبارات نے اس راز کو فاش کرنے کی کوشش کی تو ان کو روکا گیاحتیٰ کہ نیویارک ٹائمز کو خود صدر بش نے ذاتی طور پر اس رپورٹ کے انکشاف سے روکا اور اس سرکاری مداخلت کے نتیجے میں جمہوری امریکا کے جمہوری پریس نے اس خبر کو ایک سال تک دبائے رکھا مگر بالآخر دسمبر۲۰۰۵ء کے وسط میں یہ خبر اخبارات میں شائع ہوگئی۔ نیویارک ٹائمز نے اپنی ۱۵دسمبر ۲۰۰۵ء کی اشاعت میں جیمز رائزر (James Riser) اور لچ بلان (Lichtblan) کی تہلکہ مچا دینے والی رپورٹ شائع کی۔ جیمزرائزر کی کتاب State of War: The Secret History of the CIA and Bush Administration کے نام سے شائع ہوگئی ہے۔ اس کی اشاعت کے بعد اب یہ تفتیش ہورہی ہے کہ یہ راز فاش کیسے ہوگیا؟ حالانکہ بش انتظامیہ کا یہ جرم تو ایسی سنگین نوعیت کا ہے کہ وہ امریکی صدر کو مواخذے (impeachment) کا سزاوار بناتاہے۔ اب دبے الفاظ میں یہ بات کہی جانے لگی ہے اور یہ امریکی جمہوریت کا امتحان ہے کہ کیا بش یہ سب کچھ کرنے کے بعد بچ نکلتا ہے یا کیفرکردار کو پہنچتا ہے؟ سینیٹر رابرٹ بائرڈ (Robert Byrd)کہتے ہیں کہ بش نے وہ لامحدود اختیارات ہتھیالیے ہیں جو بادشاہوں اور مہاراجوں کے لیے مخصوص ہوا کرتے تھے۔ اور امریکی کانگریس کے دو ارکان جان لیوس (John Lewis) اور جان ڈین (John Deen) نے کہا ہے کہ بش نے جس طرح دستور‘ قانون‘ عدالتی نظام کو پامال کیا ہے‘ اس کی پاداش میں اس کا مواخذہ ہونا چاہیے۔
بات صرف امریکی شہریوں کی آزادیوں کی پامالی کی نہیں‘ دسمبرہی کے مہینے میں ایک دوسرا بڑا اسیکنڈل وہ اطلاعات ہیں جن کا ماخذ ایک اطالوی دستاویزی فلم ہے جس سے یہ ہوش ربا انکشاف ہوا کہ امریکا دہشت گردی کے شبہے میں پکڑے جانے والے قیدیوں کوتعذیب کا نشانہ بنانے کے لیے‘ یورپ میں کم از کم آٹھ خفیہ تعذیب خانے چلا رہا ہے۔ علاوہ ازیں یورپ کے دسیوں ممالک کے ہوائی اڈوں اور فضائی حدود کو ان قیدیوں کو ایک مقام سے دوسرے مقام تک منتقل کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے اور گذشتہ دوسال میں ایک ایک ملک میں ایسی دو دو سو پروازیں کی گئی ہیں۔ جرمنی‘ آئرلینڈ‘ پولینڈ‘ رومانیا‘ اسپین وغیرہ اس راز کے فاش ہونے پر سخت آتش زیرپا ہوئے اور امریکا کی طرف سے ان کی اجازت کے بغیر ان کی فضائی حدود اور ہوائی اڈوں کے استعمال اور تعذیب کے لیے قیدیوں کی کھلی منتقلی پر سخت احتجاج ہوا۔ برطانیہ میں بھی ایسی ۲۰۰ پروازوں کا ریکارڈ گارڈین اخبارنے فاش کیا لیکن حکومت نہ تصدیق کرتی ہے اور نہ تردید۔ سب سے شرمناک پہلو یہ ہے کہ بہت سے عرب اور مسلمان ممالک کو اس تعذیب کے لیے استعمال کیا گیا اور خصوصیت سے مصر‘ افغانستان‘ الجزائر اور مراکش کا کردار بڑا گھنائونا اور شرمناک ہے۔ اس اسیکنڈل کے اثرات امریکا اور یورپ کے تعلقات پر بھی بڑے دُور رس ہوسکتے ہیں۔ انھیں ٹھنڈا کرنے کے لیے امریکی وزیرخارجہ کونڈولیزا رائس نے فوری طور پر یورپی ممالک کا دورہ کیا مگر آگ بظاہر سرد ہوتی نظر نہیں آتی۔
امریکا جمہوریت اور انسانی حقوق کا علم بردار بنتا ہے مگر اس کا جو کردار سامنے آیا‘ وہ یہ ہے کہ اس نے اپنے دستور کی کھلی کھلی خلاف ورزی کی‘ اپنی عدالتوں سے رجوع کرنے سے گریز کیا‘ اپنے زیرانتظام دنیا کے مختلف ممالک میں قیدخانے اور عقوبت خانے قائم کیے اور خود اپنے دوست ممالک کے قانون اور حاکمیت (sovereignty)کی کھلی کھلی خلاف ورزی کی۔ نیز ٹارچر سے احتراز کے اپنے تمام دعووں کے باوجود‘ بلاواسطہ اور بالواسطہ معصوم انسانوں کو‘ جو سب ہی مسلمان تھے‘ مسلسل چار سال تک غیرقانونی اور غیرانسانی تعذیب (torture) کا نشانہ بنایا۔ اس کی کہیں کوئی دادرسی نہ ہوئی بلکہ کچھ مسلمان حکمران ظلم کے اس کھیل میں امریکا کے آلہ کار بنے اور ابھی تک وہ ہر احتساب سے بالاتر ہیں۔
ابوغریب کی جیلوں میں جو کچھ امریکا نے کیا تھا اور جس کے ۶۰۰ واقعات اتنے ہولناک تھے کہ عالمی دبائو میں امریکا کو بظاہر ان کا نوٹس لینا پڑا‘ جب کہ ہزاروں واقعات پر پردہ پڑا رہا۔ اس نے ساری دنیا میں امریکا کے دہرے معیار کا بھانڈا پھوڑ دیا اور وہ استبدادی ہتھکنڈے سب کے سامنے آگئے جو جمہوریت کے یہ علم بردار بے دریغ استعمال کر رہے تھے اور دنیا کو تہذیب کا درس دے رہے تھے‘ بلکہ کہہ رہے تھے کہ دہشت گردی اس لیے فروغ پارہی ہے کہ ان لوگوں کو ہماری آزادی اور جمہوریت بری لگتی ہے۔
پھر اسی زمانے میں اس خبر نے امریکا کے امیج کو بُری طرح مجروح کیا کہ امریکی افواج نے فلوجہ کے محاذ پر ۲۰۰۴ء میں سفید فاسفورس کا بے دریغ استعمال کیا ہے جو ایک کیمیائی ہتھیار ہے اور بین الاقوامی قانون کے مطابق اس کا استعمال انسانیت کے خلاف ایک جرم ہے۔
لاس اینجلس ٹائمز کا مضمون نگار جوناتھن بی ٹکر (Jonathan B. Tucker) کیمیاوی ہتھیاروں پر سند کا درجہ رکھتا ہے‘ اور کئی کتب کا مصنف اور Monterary Institute's Center for Non-Proliferationکا سینیرفیلو ہے۔ وہ ان نام ور اہلِ قلم میں سے ہے جو اس کا کھلا اعتراف کر رہے ہیں کہ عراق میں امریکا نے کیمیاوی بم استعمال کرکے اپنا منہ کالا کیا ہے اور اس پر جو عالمی ردعمل رونما ہوا ہے وہ بالکل جائز اور امریکا کے لیے باعثِ شرم ہے:
ویت نام کی جنگ کا ایک اَن مٹ نقش بری طرح جلی ہوئی اس بے لباس ویت نامی لڑکی کِم فِک کا تھا جو سڑک پر دوڑتی ہوئی درد اور وحشت سے چیخ رہی تھی۔ یہ ۱۹۷۲ء کا واقعہ ہے۔ کِم فِک کے گھر پر ویت نام کے ہوائی جہاز نے غلطی سے نیپام بم گرا دیا تھا۔ وہ اور تو کچھ نہ کرسکی‘اس نے بے بسی کے عالم میں اپنے کپڑے پھاڑ لیے۔ معصوم شہریوں کے خلاف اس ہولناک ہتھیار کے حادثاتی استعمال نے‘ جسے اس تصویر نے لافانی بنا دیا تھا‘ عالمی راے عامہ کو جنگ کے خلاف منظم کرنے میں مدد دی۔
اب تین عشروں کے بعد نومبر ۲۰۰۴ء میں عراقی مزاحمت کاروں کے خلاف فلوجہ کی جنگ میں امریکا نے ایک دوسرا آتشیں ہتھیار‘ سفید فاسفورس استعمال کیا ہے۔ اس پر امریکا کو خصوصاً باہر کی دنیا میں تنقید کے طوفان کا سامنا ہے۔ سفیدفاسفورس جسے عرف عام میں ڈبلیوپی (wp)کہا جاتا ہے‘ ہوا میں تحلیل ہونے پر اپنے آپ بھڑک اُٹھتا ہے اور اس وقت تک خوفناک طریقے سے جلتا رہتا ہے جب تک کہ آکسیجن ختم نہ ہوجائے۔ اس کے آتشیں ذرات بیرونی کھال پر جم جاتے ہیں‘ گوشت کو ہڈیوں تک گلا دیتے ہیں اور انتہائی گہرے کیمیائی زخم پیدا کرتے ہیں جو ہلاکت خیز نہ بھی ہوں مگر شدید تکلیف دہ ہوتے ہیں اور مندمل ہونے میں بڑا وقت لیتے ہیں۔
فلوجہ میں جہاں صرف جنگجو ہی نہیں تھے‘ عام شہری بھی موجود تھے‘ آتشیں اسلحے کا استعمال تین وجوہات سے شدید غلطی تھا۔ اوّل‘یہ اخلاقی طور پر غلط تھا‘ دوسرے یہ عراق میں امریکی پالیسی کے مقاصد کے خلاف تھا‘ اور تیسرے یہ ایک منافقانہ طرزعمل تھا جو امریکا کے خلاف عالمی غم وغصے کوایندھن فراہم کرتا تھا جس سے جہادی دہشت گردوں کی بھرتی کے لیے واضح جواز فراہم ہوتا تھا۔
جوناتھن ٹکر جس نتیجے پر پہنچا ہے وہ پوری دنیا کے عوام کے جذبات کی ترجمانی کرتا ہے اور یہی وہ چیز ہے جس نے امریکا کے خلاف دنیا بھر میں نفرت کی آگ کو بھڑکایا ہے:
ابوغریب میں قیدیوں سے شرمناک سلوک‘ سمندرپار ممالک میں سی آئی اے کے قیدخانوں کا اسکینڈل اور فلوجہ میں سفید فاسفورس کا استعمال درحقیقت ایک ہی تصویر کے مختلف رخ ہیں۔ یہ اس حکومت کی اخلاقی حِس کے فقدان کی عکاسی کرتے ہیں جس نے امریکا کو دنیا کی نظروں میں ایک بدمعاش ریاست بنا دیا ہے۔
اسی بات کو نوم چومسکی نے نیوزویک کے مائیکل ہیسٹنگ (Michael Hasting)کو دیے گئے انٹرویو میں اس طرح بیان کیا ہے:
بش انتظامیہ امریکا کودنیا میں سب سے زیادہ خوفناک اور قابلِ نفرت ملک بنانے میں کامیاب ہوگئی ہے۔ اس باب میں ان لوگوں کی صلاحیت ناقابلِ یقین ہے۔ (نیوزویک‘ ۹ جنوری ۲۰۰۶ئ‘ ص ۵۲)
ہم یہاں اتنا اضافہ ضروری سمجھتے ہیں کہ ٹارچر کے استعمال کے علاوہ ظالم اور مطلق العنان حکمرانوں اور خصوصیت سے فوجی آمروں کی پشت پناہی کے سلسلے میں امریکا کی پالیسی نئی نہیں ہے۔ بلاشبہہ بش انتظامیہ نے اسے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کیا ہے لیکن بدقسمتی سے یہ امریکا کی تاریخی پالیسی کا شرمناک حصہ رہی ہے اور اندرونِ ملک جمہوریت اور آزادی کا اگر کچھ نہ کچھ پاس کیا گیا ہے‘ تب بھی اس سے انکار مشکل ہے کہ بین الاقوامی سطح پر جنوبی امریکا سے لے کر ایشیا اور افریقہ کے تمام ہی علاقوں تک ٹارچر اور آمریت دونوں کے فروغ میں امریکا کا بڑا اہم کردار ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ۱۹۴۶ء سے ۱۹۸۴ء تک پانامہ اور بعد میں Fort Benning, Georgiaکے مقام پر امریکی فوج کے زیراہتمام School of the Americas کے نام سے ایک ادارہ قائم تھا جس میں امریکا اور دوسرے ممالک کے فوجیوں اور ایجنسیوں کے لوگوں کو ٹارچر اور ظالمانہ تفتیش کے طور طریقوں اور اس سلسلے میں جدید ترین آلاتِ تعذیب کے استعمال کی باقاعدہ تربیت دی جاتی تھی۔ اسی اسکول کے تربیت یافتہ عملے نے جنوبی امریکا اور دنیا کے دوسرے ممالک بشمول عرب ممالک میں ٹارچر کے ایک سیاسی آلے کے طورپر استعمال کو رواج دیا۔ اس سلسلے کے سارے حقائق‘ اخبارات اور رسائل میں تو آتے رہے لیکن پورے دستاویزی ثبوت کے ساتھ یہ ایک تازہ ترین کتاب کی شکل میں بھی شائع ہوگئے ہیں جسے الفرڈ میکائے (Alfred McCoy) نے مرتب کیا ہے اور جو A Question of Torture کے نام سے شائع ہوگئی ہے۔ (ملاحظہ ہو‘ گارڈین‘ لندن میں نوم کلین (Noam Klein) کا مقالہ ’US has been using Torture for Decades‘ ڈان/گارڈین سروس‘ ۱۱دسمبر ۲۰۰۵ئ)
آج گوانتاناموبے کے سیکڑوں قیدیوں کے ساتھ جو وحشیانہ سلوک کیا جا رہا ہے‘ اور اب تک یورپ اور عرب ممالک کے تعذیب خانوں میں امریکا کے ایما پر جو کچھ کیا جاتا رہا‘ جس طرح قیدیوں کو ملک ملک بھیج کر ٹارچر کا نشانہ بنوایا گیا اور ابوغریب عراق کے دیگر قیدخانوں اور افغانستان کے متعدد قیدخانوں میں جو کچھ کیا جاتا رہا ہے وہ کوئی نئی چیز نہیں۔ امریکی وزیردفاع رمزفیلڈ نے تو صاف کہا ہے کہ تفتیش کے لیے غیرمعمولی ذرائع کا استعمال ضروری ہے۔ بات صرف رمزفیلڈ کی نہیں‘ سارے قرائن ظاہر کرتے ہیں کہ ٹارچر کی نہ صرف اجازت بلکہ اس کے کھلے استعمال کی ہدایت یا حکم کا رشتہ صدربش تک پہنچتا ہے۔ نوم کلین لکھتا ہے:
ہمیں اس بارے میں واضح ہونا چاہیے کہ کیا چیز ہے جس کی پہلے مثال نہیں ملتی: ٹارچر نہیں‘ بلکہ اس کا کھلا کھلا ذکر۔ ماضی کی حکومتیں اپنے ان سیاہ کرتوتوں کو خفیہ رکھتی تھیں‘ جرائم کی اجازت ہوتی تھی لیکن ان کا ارتکاب چھپ چھپا کر کیا جاتا تھا‘ سرکاری سطح پر اس کی تردید اور مذمت ہی کی جاتی تھی۔ بش انتظامیہ نے یہ تکلف ختم کر دیا ہے۔ نائن الیون کے بعد اس نے بلاکسی جھجک اور شرم و حجاب کے ٹارچر کرنے کے حق کا مطالبہ کیا‘ جس کو نئی تعریفوں اور نئے قوانین سے جواز فراہم کیا۔
ٹارچر‘ امریکا اگر اپنے ملک کی حدود سے باہر کر رہا ہے‘ تب بھی اس کا جواز کسی صورت فراہم نہیں ہوتا لیکن اصل اعتراض تو ٹارچر کے ارتکاب پر ہے‘ خواہ کہیں ہو۔ امریکی انتظام میں چلنے والے قیدخانوں میں‘ امریکی شہری قیدیوں کو ٹارچر کرتے ہیں اور انھیں امریکی جہازوں میں ہی دوسرے ممالک میں منتقل کیا جاتاہے۔ خفیہ کاموں کے لیے ضروری طور طریقوں کوبالاے طاق رکھنے کے عمل نے فوجی اور خفیہ سروس کی برادری کو مخالفت میں کھڑا کردیا ہے۔ بش نے یہ صورت پیدا کر دی ہے کہ کوئی بھی ایسی تردید نہیں کرسکتا جس پر یقین کیا جاسکے۔ یہ تبدیلی بے حد اہمیت کی حامل ہے۔ جب ٹارچر خفیہ طور پر کیا جائے لیکن سرکاری اور قانونی طور پر انکار کیا جائے تو امید ہوتی ہے کہ جب ظلم بے نقاب ہوگا تو انصاف میسر آئے گا۔ لیکن جب یہ قانون کے پردے میں ہو اور جو ذمہ دار ہوں وہ انکار کریں کہ یہ ٹارچر ہے تو انسان کے اندر وہ مر جاتا ہے جسے ہنّا آرنڈٹ (Hannah Arendt) نے انسان کے اندر کا منصف قرار دیا ہے۔ جلد ہی متاثرہ لوگ انصاف کے حصول سے مایوس ہوکر اور اس کی کوشش میں خطرات کا یقین ہونے کی بنا پر اس کی کوشش ہی ترک کردیتے ہیں۔ یہ بڑے پیمانے پر وہی کچھ ہے جو کسی عقوبت خانے میں ہوتا ہے جہاں قیدیوں کو بتایا جاتا ہے کہ وہ جتنا چاہیں چیخ لیں‘ کوئی ان کے چیخنے چلّانے کو نہیں سن سکتا اور نہ کوئی انھیں بچانے کے لیے آئے گا۔ (ڈان بحوالہ دی گارڈین نیوز سروس‘ ۱۱دسمبر ۲۰۰۵ئ‘ ص۱۲)
الفریڈ میک کوائے نے ٹارچر کے سلسلے میں امریکا کے تاریخی جرائم کے دستاویزی ریکارڈ کو پیش کرکے دنیا کے اور خود امریکا کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کی کوشش کی ہے اور کہا ہے: بات اِکا دکا واقعات یا چند قانونی ترامیم کی نہیں‘ اگر حالات کو بدلنا ہے تو ظلم کے اس پورے نظام کو بدلنا ہوگا۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر آپ اداروں اور حکومت کی شرکت کی تاریخ اور گہرائی کو نہیں سمجھیں گے تو آپ بامعنی اصلاحات کا آغاز نہیں کرسکتے۔ (ایضاً)
ان سنگین الزامات کے ساتھ امریکی جمہوریت پر ایک اور بدنما داغ بلکہ اس کے ایک مہلک ناسور کے بارے میں بھی انکشاف ہوا ہے جس کا تعلق صحافت کی آزادی سے ہے۔ بلاشبہہ امریکا میں صحافت اور میڈیا کو بڑی آزادی میسر ہے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ امریکا کے میڈیا پر چند گروہوں کا قبضہ ہے جو اسے اپنے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں سرفہرست صہیونی لابی ہے جس کے اثرات پر ایک نہیں دسیوں کتب شائع ہوچکی ہیں۔ ایڈورڈسعید اور نوم چومسکی نے اس موضوع پر خاصا تحقیقی کام کیا ہے۔ دوسری بڑی لابی اب نیوکونز (Neo-Cons) کی ہے۔ لیکن اس سے بھی زیادہ چشم کشا انکشافات وہ ہیں جو خود امریکی حکومت کے کردار کے بارے میں سامنے آرہے ہیں۔
صدربش‘ ڈک چینی اور حکومت کے اہم کارپرداز بلاواسطہ پریس کو ’مشورے‘ (advice) دیتے رہے ہیں۔ اب یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ صحافت اور میڈیا میں سرکاری ایجنسیوں کے تنخواہ دار بڑی تعداد میں کام کرتے ہیں۔ حکومت کی ہدایات پر بڑے بڑے اخبارات نے نہایت اہم خبریں دبا (kill کر)دی ہیں یا ان کی اشاعت کو مہینوں موخرکیا‘ اور پھر اسی وقت شائع کیا جب ان کے کسی نہ کسی صورت باہر آنے کا امکان صاف نظر آنے لگا۔ یہ بھی اب دستاویزی شہادتوں کے ساتھ ثابت ہوچکا ہے کہ امریکی فوج کے ساتھ جو صحافی ہوتے ہیں اور جن کو embedded journalists کہا جاتا ہے‘ وہ اپنے چشم دید حقائق کو بیان نہیں کرتے بلکہ دراصل فوج کے نقطۂ نظر کی ترجمانی کرتے ہیں۔ اس طرح صحافت کو بھی فوج کی مہم کا ایک حصہ بنادیا گیا ہے۔ پھر اس کی شہادتیں بھی سامنے آگئی ہیں کہ فوج نے خطیر رقم دے کر عراق ہی میں نہیں‘ہر جگہ اپنے مفیدمطلب مضامین لکھوائے ہیں اور خبروں کو خاص رنگ دلوایا ہے۔ امریکا اور برطانیہ دونوں جگہ صحافیوں کو ایک خاص انداز میں واقعات کے بیان پر آمادہ کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں رابرٹ فسک (Robert Fisk)نے لندن کے اخبار انڈی پنڈنٹ میں بڑا تفصیلی اور حقائق سے بھرپور مواد شائع کیا ہے۔ اب تو یہ واقعہ بھی طشت ازبام ہوچکا ہے کہ خود بش نے الجزیرہ ٹی وی پر بم باری کرنے کی بات کی تھی مگر ٹونی بلیر نے اسے روکنے کی کوشش کی۔ جب یہ خبرشائع ہوگئی تو ٹونی بلیر اور برطانیہ اور امریکا کی ایجنسیوں کو یہ پریشانی لاحق ہوئی کہ یہ بات باہر کیسے نکل گئی۔ آزادیِ صحافت کے دعوے داروں کے ان کرتوتوں نے دنیا کی نگاہوں میں ان کی ہی نہیں‘ بڑے بڑے اخبارات کی ساکھ (credibility) کو بھی مجروح کیا ہے۔
امریکا کا یہی وہ دوغلا رویہ ہے جس نے دنیا کے عوام کو مایوس کیا ہے اور جمہوریت‘ آزادی اور حقوق انسانی کے امریکی دعووں کی کوئی وقعت باقی نہیں رہی ہے۔ امریکا کے مجرم ضمیر کی بہترین ترجمانی خود اس کے سابق صدر جمی کارٹر نے اپنے ایک حالیہ مضمون میں کی ہے جس کا حسبِ ذیل اقتباس سنجیدہ غوروفکر کا متقاضی ہے اور خود امریکا کی موجودہ قیادت کے لیے لمحہ فکریہ ہے:
حالیہ برسوں میں میری اس تشویش میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے کہ حکومت کی انتہاپسندانہ پالیسیوں نے ہمارے ان بنیادی اصولوں کو زبردست نقصان پہنچایا ہے جن کا ماضی کی ساری ڈیموکریٹ اور ری پبلکن حکومتوں نے سختی سے تحفظ کیا تھا۔ ان میں امن‘ معاشی و سماجی انصاف‘ شہری آزادیوں اور بنیادی انسانی حقوق جیسے اصول شامل ہیں۔ موجودہ حکومتی طرزعمل نے شہریوں کو مبنی برصداقت اطلاعات فراہم کرنے‘ اختلافی آوازوں اور دوسروں کے نظریات کے ساتھ عزت و احترام سے پیش آنے جیسے پختہ امریکی تصورات کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔ امریکی قیادت‘ یہ اندازہ کیے بغیر ساری دنیا پر سامراجی بالادستی قائم کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے کہ ہمیں اس کی کیا قیمت ادا کرنی پڑی ہے یا آیندہ ادا کرنی ہوگی۔ دہشت گردی کے خطرے سمیت ‘ باہمی مفادات کے مختلف امور پر دوسرے ممالک سے خوش دلانہ اتفاق رائے اور اتحاد قائم کرنے کے بجاے ہم نے اس شاہی فرمان کا سہارا لیا کہ ’’تم ہمارے ساتھ ہو یا ہمارے خلاف؟‘‘ انسانی حقوق کے عظیم چیمپین کے طور پر اپنے تصورات کی سربلندی کے لیے کوشش کرنے کے بجاے ہم شخصی اور شہری آزادیوں کی کھلی خلاف ورزیاں کر رہے ہیں۔ کس قدر شرم کی بات ہے کہ صدر اور نائب صدر اس بات پر اصرار کر رہے ہیں کہ سی آئی اے کو زیرحراست افراد سے ظالمانہ‘ غیرانسانی اور توہین آمیز برتائو کی اجازت ہونی چاہیے۔ دنیا کی واحد سوپر پاور کی حیثیت سے امریکا کو امن‘ آزادی اور انسانی حقوق کا پرعزم چیمپین اور انسانی ہمدردی کے کاموں کا ہراول دستہ ہونا چاہیے۔ وقت آگیا ہے کہ سیاسی تقسیم سے قطع نظر‘ سارے امریکی اپنے اس مشترکہ عہد کو تازہ کریں کہ ہم پھر سے ان سیاسی واخلاقی اقدار کا احیا کریں گے جنھیں ہم نے ۲۳۰ سالوں سے سینے سے لگا رکھا تھا۔ (نوائے وقت‘ ۱۸ نومبر ۲۰۰۵ئ)
آخیر میں ہم ہرالڈ پنٹر (Harold Pinter) کی اس ویڈیو تقریر کے چند اقتباس دینا چاہتے ہیں جو اس نے اس سال کا نوبل پرائز وصول کرتے وقت کی اور اس نے امریکا کے حقیقی کردار کو اس عالمی فورم پر بڑے دو ٹوک انداز میں پیش کرکے پوری دنیا کے انسانوں کے جذبات کی ترجمانی کی۔ اس نے کہا:
کسی خودمختار ریاست پر براہ راست حملہ کبھی بھی امریکا کا پسندیدہ طریقہ نہیں رہا۔ اس نے ہمیشہ عام طور پر اس طریقے کو ترجیح دی ہے جسے کم شدت کا (low intensity) تصادم کہا جاتاہے۔ اس میں اگرچہ ہزاروں معصوم اور بے گناہ آدمی مرتے ہیں لیکن ان پر ایک ہی دفعہ بم برسا کر انھیں موت کے گھاٹ اُتارنے کے مقابلے میں‘ اس طرح اموات سُست رفتاری سے ہوتی ہیں۔ اس صورت میں آپ اس ملک کے قلب کو مبتلاے مرض (infect)کرتے ہیں‘ آپ ایک سرطانی پھوڑا پیدا کرتے ہیں اور گینگرین کوبڑھتا ہوا دیکھتے ہیں۔ جب آبادی شکست خوردہ ہوجائے___ یا مار دی جائے ایک ہی بات ہے___ اور آپ کے اپنے دوست‘ فوج اور بڑی کارپوریشنیں‘ آرام سے اقتدار پر بیٹھ جائیں تو آپ کیمرے کے سامنے جاکر کہتے ہیں کہ ’’جمہوریت قائم ہوگئی ہے‘‘۔ یہ امریکی خارجہ پالیسی میں ان برسوں میں عام بات تھی جن کا میں ذکر کر رہا ہوں…دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد امریکا نے دنیا میں دائیں بازو کی ہر فوجی آمریت کی حمایت کی اور اکثر صورتوں میں اسے قائم کیا۔ میرا مطلب انڈونیشیا‘ یونان‘ یوراگوئے‘ برازیل‘ پیراگوئے ‘ ہیٹی‘ ترکی‘ فلپائن‘ گواٹے مالا‘ سلواڈوار اور یقینا چلّی سے ہے۔ ۱۹۷۳ء میں امریکا نے صرف چلّی میں جو خوفناک زخم لگائے ان کا ازالہ ممکن نہیں اور اسے ہرگز معاف نہیں کیا جاسکتا۔ ان تمام ممالک میں لاکھوں آدمی مارے گئے۔ کیا ان سب اموات کو امریکی خارجہ پالیسی کا نتیجہ قرار دیا جاسکتا ہے؟ جواب ہے: ہاں۔ ان سب اموات کا سبب امریکی خارجہ پالیسی ہی تھی…
امریکا کے جرائم منظم‘ فاسقانہ‘ بے رحمانہ اور کسی قسم کی پشیمانی کے بغیر عمل میں آتے رہے ہیں مگر بہت کم لوگوں نے ان کے بارے میں کھل کر بات کی ہے۔ اس نے ’نیکی کے لیے ایک طاقت‘ کا بہروپ بھرکر، اسے نہایت کمالِ فن سے پوری دنیا میں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا ہے۔ آپ کو امریکا کو داد دینی پڑتی ہے۔ یہ ہپناٹزم کا ایک شان دار‘ ذہانت سے بھرپور اور غیرمعمولی کھیل ہے۔
میں آپ سے کہتا ہوں کہ امریکا سب کی آنکھوں کے سامنے یہ کھیل کھیل رہا ہے۔ امریکا کا یہ ڈراما بے حد ظالمانہ‘ وحشیانہ اور نفرت انگیزہے۔ اس سے امریکا کی مکاری بھی ظاہر ہوتی ہے…
ہماری اخلاقی حِس کو کیا ہوگیا ہے۔ کیا کبھی ہماری یہ حِس تھی بھی؟ کیا ان الفاظ کے کوئی معنی ہیں؟ کیا یہ ایک ایسے لفظ کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو آج کل بہت کم استعمال کیا جاتا ہے‘ یعنی ضمیر؟ صرف ہمارے اپنے افعال کے ساتھ نہیں‘بلکہ دوسرے کے افعال میں جو ہماری مشترکہ ذمہ داری ہے اس میں بھی۔ کیاہماراضمیر مُردہ ہو چکا ہے؟
گوانتاناموبے کو دیکھیے‘ سیکڑوں افراد کسی الزام کے بغیر تین سال سے زائدعرصے سے قید ہیں۔ انھیں قانونی چارہ جوئی کا کوئی حق نہیں۔ ان پر کوئی مقدمہ نہیں چلایا جا رہا۔ عملی طور پر وہ عمرقید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ جنیوا کنونشن کے علی الرغم کلی طور پر ناجائز یہ کارروائی جاری ہے۔ نہ صرف یہ کہ اسے ٹھنڈے پیٹوں برداشت کیا جا رہا ہے بلکہ جسے ہم ’عالمی برادری‘ کہتے ہیں، اسے بھی اس کی کوئی فکر نہیں۔ یہ مجرمانہ کارروائی ایک ایسا ملک کررہا ہے جو اپنے آپ کو آزاد دنیا کا قائد قرار دیتا ہے…
عراق پر حملہ ایک قزاقانہ اقدام تھا۔ یہ بین الاقوامی قانون کی حددرجے کی توہین تھی اور کھلی کھلی ریاستی دہشت گردی۔ یہ حملہ ایک فوجی حملہ تھا‘ اس کے لیے جھوٹ پر جھوٹ گھڑا گیا۔ اس حملے کا مقصد مشرق وسطیٰ میں امریکا کے فوجی اور معاشی کنٹرول کو مستحکم کرنا تھا۔ ہر طرح کی وجوہ ثابت کرنے میں ناکامی کے بعد آخری چارئہ کار کے طور پر آزادی دلانے کا بہانہ بنایا گیا۔ فوجی طاقت کے اس مظاہرے سے ہزاروں لاکھوں معصوم لوگوں کی موت اورتباہی واقع ہوئی ہے۔
ہم نے عراقی عوام کو کیا دیا ہے؟ ٹارچر‘ کلسٹربم‘ ڈپلیٹڈ یورینیم‘ بلالحاظ قتل و غارت کے لاتعداد واقعات‘ اور ان کی توہین اور تذلیل‘ مگر اس کے باوجود کہتے ہیں کہ ہم مشرق وسطیٰ کے لیے آزادی اور جمہوریت لائے ہیں۔
ایک شخص کو جنگی مجرم اور قتلِ عام کا مرتکب قرار دینے کے لیے آخر آپ کو کتنے آدمی مارنا ہوتے ہیں۔ ایک لاکھ؟ میرے خیال میں یہ کافی ہیں۔ اس لیے یہ انصاف کا تقاضا ہے کہ بش اور بلیر کو عالمی عدالت کے سامنے لایا جائے۔ لیکن بش چالاک ہے۔اس نے انٹرنیشنل کریمنل کورٹ آف جسٹس کی توثیق نہیں کی ہے۔ اب اگر کوئی امریکی فوجی یا سیاست دان ہی سہی‘ کٹہرے میں لایا جائے گا تو بش نے دھمکی دے رکھی ہے کہ وہ اپنی فوجیں بھیج دے گا۔ لیکن ٹونی بلیر نے اس عالمی عدالت کی توثیق کی ہے‘ اس لیے بلیر پر تو مقدمہ چلایا جاسکتا ہے۔ اگر عدالت کو دل چسپی ہے تو ہم اس کا پتا بتائے دیتے ہیں: مسمّی ٹونی بلیر‘ ساکن ۱۰-ڈاؤننگ اسٹریٹ‘ لندن۔
عراق میں مزاحمت کے شروع ہونے سے پہلے ہی امریکی بموں اور میزائلوں سے کم سے کم ایک لاکھ عراقی ہلاک ہوچکے تھے۔ کیا ان لوگوں کی کوئی حیثیت نہیں؟ ان کی اموات کوئی معنی نہیں رکھتیں؟ ان اموات کا کوئی ریکارڈ بھی نہیں‘ اور ضرورت بھی کیا ہے۔ اس لیے امریکی جنرل ٹونی فرانکس نے کہا ہے کہ ہم لاشیں نہیں گنتے۔ (دی گارڈین‘ ۸ دسمبر ۲۰۰۵ئ‘ ص ۱۰-۱۲)
ہرالڈ پنٹر نے بسترعلالت سے مظلوم انسانیت اور امریکا کے ہاتھوں زخم خوردہ اور ستم زدہ افراد و اقوام کی طرف سے کلمۂ حق کہہ کر فرض کفایہ ادا کیا ہے۔ یہ انسانیت کے ضمیر کی آواز ہے جسے کوئی آج سنے یا نہ سنے ‘کل ان شاء اللہ اسی آواز سے پوری دنیا کے دروبام گونجیں گے۔
امریکا کے جمہوری نظام کے لیے آج صدر بش‘ ان کی انتظامیہ اور نیوکون کا پورا طائفہ ایک خطرہ بن گئے ہیں۔ صدربش نے دستور کے الفاظ اور روح دونوں کی خلاف ورزی کی ہے اور اپنی راج ہٹ پر قائم ہیں۔ انھوں نے تقرریوں کے نام پر دستور کے متعین طریقے کو ترک کر کے اعلیٰ مناصب پر چور دروازوں سے اپنے پسندیدہ افراد کو مسلط کیا ہے اور اس ضمن میں کانگریس اور سینیٹ کو بھی نظرانداز کرنے میں کوئی تردد محسوس نہیں کیا۔ عام شہریوں کی جاسوسی اور ان کی نجی زندگی کی تقدیس کو پامال کیا اور اس پر عوامی احتساب کو حقارت کے ساتھ نظرانداز کردیا ہے۔ فوج اور سی آئی اے کے ذریعے انسانیت سوز مظالم کو روا رکھا ہے بلکہ عملاً اسے سندجواز فراہم کی ہے اور اب جب دفاعی بل میں سینیٹر میک کین کی ترمیم کے ذریعے ٹارچر پر کھلی پابندی لگائی گئی ہے‘تب بھی نئے قانون پر دستخط کرنے کے بعد ایک سرکاری اعلامیے میں صدر کے امتیازی اور صوابدیدی اختیار کا اعادہ کیا گیا ہے‘ جب کہ سینیٹ نے نائب صدر ڈک چینی کی ساری کوشش کے باوجود ‘صدر کو استثنا کرنے کا اختیار دینے سے انکار کردیا تھا جس سے قانون سازوں کی نیت کسی ابہام کے بغیر واضح ہوگئی تھی۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اس وقت امریکا کے ’جمہوری ڈھانچے‘ پر جو گروہ مسلط ہے وہ شہنشاہی (imperial) فکر کا حامل ہے۔ نیوزویک بالعموم صدر بش کی حمایت کی روایت پر قائم ہے‘ لیکن اس کا مدیر بھی اس ذہنیت پر گرفت کیے بغیر نہیں رہ سکا۔ امریکا کی قیادت جمہوریت کے پہلے اصول‘ یعنی قانون کی پاسداری کی خلاف ورزی تو کرہی رہی ہے لیکن جمہوریت کی روح‘ یعنی دوسرے کی بات سننے کے لیے بھی تیار نہیں۔ فرید زکریا An Imperial Presidencyکے عنوان سے نیوزویک کے ۱۹دسمبر ۲۰۰۵ء کے شمارے میں لکھتا ہے کہ صدربش کے دور میں:
امریکا نے جمہوریت کا ایک شہنشاہی انداز اختیار کیا ہے۔ بیرونی ممالک کے لیڈروں سے کافی ربط و ضبط ہے مگر یک طرفہ ہے۔ جن بیرونی لیڈروں سے مشورہ کیا جاتا ہے‘ دراصل انھیں امریکی پالیسی کی فقط اطلاع دی جاتی ہے۔ ’’جب ہم امریکی افسروں سے ملتے ہیں‘ وہ بولتے ہیں‘ہم سنتے ہیں۔ ہم شاذ ہی اختلاف کرتے ہیں یا کھل کر بولتے ہیں۔ اس لیے کہ وہ اسے برداشت نہیں کرسکتے‘‘۔ یہ بات ایک سینیرافسرخارجہ نے اپنے مقابل امریکی افسروں کو ناراض کرنے کے خوف سے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتائی۔ شہنشاہی انداز جو ناراضی پیدا کرتا ہے‘ اس سے قطع نظر بے نیازانہ رویے کا مطلب یہ بھی ہے کہ امریکی افسران غیرملکیوں کے تجربے اور مہارت سے مستفید نہیں ہوپاتے… غیرملکیوں کو امریکی افسر اُس دنیا کے بارے میں جو وہ چلا رہے ہیں بڑی حد تک بے خبر نظر آتے ہیں… شہنشاہی انداز کی اپنی خوبیاں بھی ہیں۔ یہ خوف زدہ کرتا ہے‘ فیصلہ کن اقدام کے لیے جواز فراہم کرتا ہے اور دوسرے ممالک کو اپنے پیچھے آنے پر مجبور کرتا ہے لیکن یہ قیمتوں کو بہت زیادہ بڑھا دیتا ہے۔ اس لیے جس دنیا میں ہم داخل ہورہے ہیں‘اس کے لیے تو خاص طور پر نامناسب ہے۔ (نیوز ویک‘ ۱۹دسمبر ۲۰۰۵ئ)
اور یہی وہ انداز ’جمہوریت‘ ہے جو بش کی قیادت میں امریکا نے رائج کیا ہے لیکن اس کا نتیجہ ہے کہ خود امریکا میں آج جمہوریت کو اصل خطرہ ان نام نہاد دہشت گردوں سے نہیں جن کے سایوں (shadows) کا تعاقب کیا جارہا ہے بلکہ ان جلادوں سے ہے جو جمہوریت کے نام پر جمہوریت کے ہر اصول‘ روایت اور قدر کا خون کر رہے ہیں۔
ہمیں اس سے انکار نہیں کہ امریکی دستور میں بڑی اچھی باتیں لکھی گئی ہیں۔ ہمیں اس سے بھی انکار نہیں کہ امریکی نظامِ حکومت میں بہت سی اچھی چیزیں بھی ہیں اور عام امریکیوں میں بہت سی وہ انسانی خوبیاں موجود ہیں جو شرفِ انسانیت کا حصہ ہیں۔ امریکا میں آج بھی بڑی تعداد میں ایسے لوگ موجود ہیں جو موجودہ امریکی قیادت کی پالیسیوں اور اقدامات پر ناخوش ہیں یا ماضی کی اُن پالیسیوں پر جو امریکا کی مختلف قیادتیں اپنے اپنے دورِاقتدار میں کرتی رہی ہیں۔ ان مثبت پہلوئوں کے کھلے دل سے اعتراف کے ساتھ ہم یہ بھی کہنا چاہتے ہیں کہ امریکی حکمران خصوصیت سے نائن الیون کے بعد جس راستے پر چل پڑے ہیں‘ وہ جمہوریت کے بنیادی اصولوں کی نفی ہے اور عالمی امن و سلامتی کے لیے یہ راستہ بڑا خطرناک ہے۔ امریکا کی ان پالیسیوں نے دہشت گردی میں اضافہ کیا ہے اور دنیا کی مختلف اقوام ‘ خصوصیت سے مسلمان اقوام کے چین اور سکون و اطمینان کو پارہ پارہ کر دیا ہے اور امریکا اور دنیا بھر کے مسلمانوں کو ایک دوسرے کے خلاف عملاً صف آرا کردیا ہے‘ نیز دنیا کی تمام کمزور قوموں اور ان کے عوام کو ظلم اور محرومی کی آگ میں دھکیل دیا ہے۔ طاقت کی عدم مساوات نے عالمی سطح پر ایک ایسے نئے قسم کے عدمِ تحفظ کو جنم دیا ہے جو کمزور انسانوں کو ایسا راستہ اختیار کرنے کی طرف دھکیل رہا ہے جس سے دنیا میں تشدد‘ خون ریزی اور دہشت گردی میں اضافہ ہورہا ہے۔
یہ حالات سب کے لیے بڑے خطرناک ہیں اور امریکا کو اس زعم میں نہیں رہنا چاہیے کہ وہ محض قوت اور پروپیگنڈے کے بل بوتے پر اقوامِ عالم پر قبضہ کرسکتا ہے اور ان کو اپنی گرفت میں لے سکتا ہے۔ یہ فطرت کے قانون کے خلاف ہے۔ ہوش مندی کا راستہ یہ ہے کہ امریکا سے بے زاری اور نفرت کے اسباب کا بے لاگ جائزہ لیا جائے اور وہ اسباب جو دُوری اور نفرت پیدا کررہے ہیں‘ ان کو دُور کیا جائے۔ ظلم اور ناانصافی کا خاتمہ کیا جائے اور بقاے باہمی کے اصول پر انصاف اور ایک دوسرے کی آزادی‘ حقوق اور تہذیب و روایات کے احترام کی بنیاد پر عالمی امن کے حصول کی کوشش کی جائے۔ اس کے سوا جو بھی راستہ ہے‘ وہ تباہی کا راستہ ہے اور یہ تباہی وہ ہے جس کی آگ صرف کمزوروں کو اپنی گرفت میں نہیں لیتی بلکہ طاقت ور بھی اسی طرح اس کا نشانہ بنتے ہیں جس طرح کمزور۔ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ طاقت کی بنیاد پر انسانی مسائل و معاملات کو حل کرنے کی حماقت نہ کی جائے بلکہ عقل و انصاف اور افہام و تفہیم کا راستہ اختیار کیا جائے کیوں کہ یہی وہ راستہ ہے جس میں سب کی فتح ہے اور شکست کسی کی بھی نہیں۔