ہر مسلمان کامقصدِ زندگی یہ ہے کہ اس کا رب اس سے راضی ہوجائے اور وہ اپنے رب کا سامنا ایسی صورت میں کرے کہ وہ اس سے راضی ہو اور اپنے رب کی جنت میں داخل ہوجائے۔ رب کی رضا کا راستہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اتباع اور اسوۂ حسنہ پر عمل ہے۔
لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنْ کَانَ یَرْجُوا اللّٰہَ وَالْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَ ذَکَرَ اللّٰہَ کَـثِیْرًا o (الاحزاب ۳۳:۲۱)
درحقیقت تم لوگوں کے لیے اللہ کے رسولؐ میں ایک بہترین نمونہ ہے‘ ہر اس شخص کے لیے جو اللہ اور یومِ آخر کا امیدوار ہو اور کثرت سے اللہ کو یاد کرے۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا بھر کے تمام لوگوں کو اللہ کی طرف بلایا۔ یہ ان کی دعوت کا اصل اور بنیادی نکتہ ہے۔
قُلْ ھٰذِہٖ سَبِیْلِیْٓ اَدْعُوْٓا اِلَی اللّٰہِ قف عَلٰی بَصِیْرَۃٍ اَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِیْ ط (یوسف ۱۲:۱۰۸)
تم ان سے صاف کہہ دو کہ میرا راستہ تو یہ ہے‘ میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں‘ میں خود بھی پوری روشنی میں اپنا راستہ دیکھ رہا ہوں اور میرے ساتھی بھی۔
جن لوگوں نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت قبول کی اور ایمان لے آئے‘ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا اور انھیں ایک منظم اُمت بنایا جسے اللہ نے خیراُمت قرار دیا۔
ھُوَ الَّذِیْ بَعَـثَ فِی الْاُمِّیّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰـتِہٖ وَیُزَکِّیْھِمْ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ ق وَ اِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ o (الجمعہ ۶۲:۲)
وہی ہے جس نے امیوں کے اندر ایک رسولؐ خود انھی میں سے اٹھایا‘ جو انھیں اس کی آیات سناتا ہے‘ ان کی زندگی سنوارتا ہے‘ اور ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے‘ حالانکہ اس سے پہلے وہ کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے تھے۔
اس خیر اُمت کے تمام افراد کے ذمے یہ کام لگایا گیا کہ یہ لوگوں کو اللہ کی طرف بلائیں‘ نیکی کا حکم کریں اور بدی سے روکیں۔
کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَـاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ ط (اٰل عمرٰن ۳:۱۱۰)
اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو‘ بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔
ان کو یہ ذمہ داری بھی سونپی گئی کہ یہ پوری دنیا میں عدل و انصاف کے علم بردار بن جائیں۔
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بِالْقِسْطِ شُھَدَآئَ لِلّٰہِ وَلَوْ عَلٰٓی اَنْفُسِکُمْ اَوِ الْوَالِدَیْنِ وَالْاَقْرَبِیْنَ ج (النساء ۴:۱۳۵)
اے لوگو جو ایمان لائے ہو‘ انصاف کے علَم بردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو‘ اگرچہ تمھارے انصاف اور تمھاری گواہی کی زد خود تمھاری اپنی ذات پر یا تمھارے والدین اور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو۔
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ لِلّٰہِ شُھَدَآئَ بِالْقِسْطِ ز وَلَا یَجْرِ مَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلَّا تَعْدِلُوْا ط اِعْدِلُوْا قف ھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰیز (المائدہ ۵:۸)
اے لوگو جو ایمان لائے ہو‘ اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو۔ کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کردے کہ انصاف سے پھر جائو۔ عدل کرو یہ خدا ترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔
۱- تطھیر و تعمیر افکار ‘یعنی عقیدہ لا الٰہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ کو پوری طرح ذہن نشین کرنا۔
۲- تعمیر سیرت اور تنظیم‘ یعنی دعوت قبول کرنے والے تمام لوگوں کی تربیت کا اہتمام کرنا اور انھیں ایک قوی اور منظم جماعت کی شکل دینا۔
۳- اس منظم جماعت کو اصلاح معاشرہ ‘یعنی امر بالمعروف ونہی عن المنکر اور مخلوق خدا کی خدمت میں ہمہ تن مصروف رکھنا۔
۴- اس منظم جماعت کے ذریعے عام مسلمانوں کو ساتھ ملانا تاکہ انقلاب قیادت کے ذریعے معاشرے کی زمام کار ان لوگوں کے ہاتھ میں آجائے جو فساد پھیلانے والے نہ ہوں بلکہ اصلاح کرنے والے ہوں۔
جماعت اسلامی کے کارکنوں کا فرض ہے کہ اپنی یہ دعوت ملک کے ہر فرد تک پہنچائیں۔ اس کے لیے صرف زبانی تلقین کافی نہیں بلکہ کارکنوں کا خود اس دعوت کا عملی نمونہ بن جانا‘ اس دعوت کو عام کرنے کا سب سے مؤثر ذریعہ ہے۔
جماعت اسلامی کی مرکزی مجلس شوریٰ نے اپنے سالانہ اجلاس میں اس سال کا جو منصوبہ بنایا ہے اس کا بنیادی اور اہم کام یہ ہے کہ قوم کے ہر گھر تک جماعت اسلامی کی یہ بنیادی چار نکاتی دعوت پہنچائی جائے۔ سالانہ منصوبۂ عمل کو ہر کارکن اور ذمہ دار غور سے پڑھ لے اور دیکھ لے کہ اس منصوبۂ عمل میںاس کے کرنے کا کام کیا ہے۔ اگر ہر کارکن اور ہر ذمہ دار اپنے حصے کا کام کرے تو گویا اس نے اپنی ذمہ داری پوری کرلی اور سمجھ لے کہ سالانہ منصوبے پر اس نے اپنی حد تک کام مکمل کرلیا۔ مرکزی‘ صوبائی ‘ ضلعی اور مقامی ذمہ داران پر خصوصی فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ اپنے اپنے دائرہ ہاے کار کے کام پورے سال پر پھیلا کر اپنی ڈائریوں میں لکھ لیں۔ اسی طرح تمام شعبوں کے ذمہ داران بھی اپنے اپنے شعبے کے کام پورے سال پر پھیلا دیں۔
منصوبۂ عمل بناکر اس کو نظرانداز کردینے سے خدانخواستہ کہیں ہم اس آیت کے مصداق نہ ٹھیرجائیں جس کے مخاطب مومنین ہی کا گروہ ہے۔
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَالَا تَفْعَلُوْنَ o کَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللّٰہِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَالَا تَفْعَلُوْنَ o (الصف ۶۱:۲-۳)
اے لوگو جو ایمان لائے ہو‘ تم کیوں وہ بات کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو؟ اللہ کے نزدیک یہ سخت ناپسندیدہ حرکت ہے کہ تم کہو وہ بات جو کرتے نہیں۔
مجھے امید ہے کہ جماعت اسلامی کی ہر سطح کی قیادت اور اس کے تمام کارکن اس منصوبۂ عمل کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے اور اس سال کو دعوتِ اسلامی کا سال بنانے کے لیے تن من دھن کی قربانی کے لیے تیار ہوجائیں گے۔
اللہ تعالیٰ ہمارا حامی و ناصر ہو۔
دعوت ہمارے پیارے رسولؐ کی سب سے بڑی سنت ہے
انھوں نے ساری زندگی دعوت میں لگا دی‘ ہم بھی لگا دیں
آپ کا وقت‘ آپ کا مال‘ آپ کی صلاحیت‘ آپ کے روابط‘ رشتے و تعلقات‘ سب میں اس سال سب سے بڑا حصہ دعوت کے لیے نکالیں
نقطۂ نظر درست کرلیں‘ تجاویز خود سامنے آئیں گی‘ اللہ تعالیٰ رہنمائی فرمائے گا۔