حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’جس نے میرے کسی دوست (ولی) سے دشمنی کی‘ میری طرف سے اس کے خلاف اعلانِ جنگ ہے۔ مجھے اپنے بندے کی محبوب ترین چیز اس کا وہ فعل ہے جو میں نے اس کے اُوپر فرض کیا ہے اور نوافل کے ذریعے میرا بندہ برابر مجھ سے قریب ہوتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں۔ حتیٰ کہ میں اس کی سماعت بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے‘ میں اس کی بصارت بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے‘ میں اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ کام انجام دیتا ہے اور اس کا پائوں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا پھرتا ہے۔ اگر وہ مجھ سے کچھ مانگے گا تو میں اس کو دوں گا اور اگر وہ مجھ سے پناہ مانگے گا تو میں اس کو پناہ دوں گا۔ مجھے کوئی کام کرتے ہوئے ذرہ برابر تردد نہیں ہوتا سوائے مومن کو موت دیتے ہوئے‘ جب کہ موت سے اس کو تکلیف ہو رہی ہو اور میں اس کو تکلیف دینا پسند نہیں کرتا‘‘۔(بخاری)
حضرت ابوہریرہؓ ایک حدیث قدسی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ جس نے میرے کسی دوست سے دشمنی کی میری طرف سے اس کے خلاف اعلانِ جنگ ہے۔ یہ پہلی بات فرمائی گئی ہے۔ ولی یا دوست سے کیا مراد ہے؟ یہ سمجھ لیجیے۔ اس غلط فہمی میں نہ رہیے کہ ولی کے معنی کسی صاحبِ کرامت ہستی کے ہوتے ہیں۔ ولی بس وہ ہے کہ جو آپ کے دل کی بات آپ کو بتا دے اور ہوا میں اڑے۔ اس کا کوئی کام فطری طریقے سے ہوتا ہی نہ ہو۔ ہر وقت اس سے کرامتیں صادر ہوتی رہیں۔ ولی کے یہ معنی نہیں ہیں۔ قرآن مجید کو آپ پڑھیے تو معلوم ہوتا ہے کہ ایک مخلص مومن جو اللہ تعالیٰ کی ٹھیک ٹھیک بندگی کرتا ہے اور صالح زندگی بسر کرتا ہے‘ وہ خدا کا ولی ہے۔ ہر صالح آدمی جو اخلاص کے ساتھ مومن ہے اور پاک زندگی بسر کرتا ہے‘ وہ ولی ہے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ کے ارشاد کہ جو شخص میرے کسی ولی کے ساتھ دشمنی کرے‘ میری طرف سے اعلانِ جنگ ہے کا مطلب یہ ہے کہ میرے دوست کا دشمن میرا دشمن ہے۔ دوسرے لفظوں میں وہ محض میرے دوست کا دشمن نہیں ہے بلکہ میرے ساتھ دشمنی ہے۔
اللہ کے ولی کے ساتھ دشمنی کی دو شکلیں ہوسکتی ہیں۔ ایک شکل یہ کہ ایک آدمی اس کے دین اور اس کی فلاح اور اس کی پاکیزگی کی وجہ سے اس کا دشمن ہے۔ اس وجہ سے اس کا دشمن ہے کہ یہ کم بخت سچا مومن کیوں ہے۔ یہ صالح زندگی کیوں بسر کرتا ہے اور تقویٰ سے کیوں کام لیتا ہے۔ یہ میری خاطر جھوٹی شہادت دینے کیوں نہیں جا رہا۔ یہ میری خاطر بے ایمانی کیوں نہیں کرتا۔ یہ میری سازشوں میں کیوں شریک نہیں ہوتا۔ جس جس طرح سے میں اپنا ایمان بیچتا ہوں یہ بھی کیوں نہیں بیچتا۔ ایک تو دشمنی اس بنا پر ہے‘ یعنی اس کے ایمان‘ اس کی فلاح اور تقویٰ کی بنا پر اس سے دشمنی۔ دشمنی کی دوسری شکل اس کے ساتھ یہ ہوسکتی ہے کہ کوئی شخص اپنی ذاتی اغراض کے لیے کسی مومن کو تکلیف دینا چاہتا ہو اور اس کے حقوق مارنا چاہتا ہو‘ اس وجہ سے اس کا دشمن ہوگیا ہو۔ دونوں شکلوں میں جو شخص بھی اللہ کے کسی دوست‘ یعنی ایک سچے اور صالح مسلمان کے ساتھ دشمنی کرتا ہے تو وہ دشمنی صرف اس شخص کے ساتھ ہی نہیں کرتا بلکہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ بھی دشمنی کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے خلاف اعلانِ جنگ ہے۔ یہ اصولی اور سیدھی بات ہے کہ اگر آپ کسی کے واقعی مخلص دوست ہیں تو جو آپ کے دوست کا دشمن ہے‘ اس سے آپ کی بھی دشمنی ہوگی۔
پھر فرمایا مجھے اگر کوئی چیز محبوب ہے تو میرے بندے کا وہ فعل ہے جو میں نے اس کے اُوپر فرض کیا ہے۔ اس سے بڑھ کر میرے ساتھ تقرب کا ذریعہ اور کوئی نہیں‘ یعنی بندہ میرے ساتھ تقرب حاصل کرنے کے لیے جتنے نیک کام کرتا ہے ان میں سب سے زیادہ محبوب مجھے وہ کام ہیں کہ جو میں نے اس پر فرض کر دیے ہیں۔ اب یہاں بعض لوگ غلطی سے فرض کو محض فرض نماز کے معنی میں لے لیتے ہیں حالانکہ فرض نماز بھی ان فرائض میں سے ہے جو اللہ تعالیٰ نے انسان پر عاید کیے ہیں۔ روزہ بھی فرض ہے‘ زکوٰۃ بھی فرض ہے‘ حج بھی فرض ہے۔ (تفہیم الحدیث، کتاب الدعوات‘ جلدہفتم‘ ص ۵۲۱-۵۲۲)
ان چاروں ارکانِ اسلام سے پہلے اسلام کے پہلے رکن‘ کلمۂ شہادت کا زبان سے ادا کرنا اور عملاً اس کے تقاضے پورے کرنا سب سے اہم فرض ہے۔ اور اس کا سب سے بڑا اور بھاری تقاضا یہ ہے کہ ہم تمام دنیا کے سامنے اس حق کے گواہ بن کر کھڑے ہوں جس پر ہم ایمان لائے ہیں۔
یہ گواہی دو طرح سے دینا ہوگی۔ ایک قولی جس کی صورت یہ ہے کہ ہم دنیا کو اس دین کی تعلیم سے روشناس کرائیں جو خدا نے انسانوں کے لیے مقرر کیا ہے۔ فکرواعتقاد میں‘ اخلاق و سیرت میں‘ تمدن و معاشرت میں‘ کسب معاش اور لین دین میں‘ قانون اور نظمِ عدالت میں‘ سیاست‘ تدبیرِمملکت‘ بین الاقوامی تعلقات میں اور انسانی معاملات کے تمام پہلوئوں میں اس دین نے انسان کی رہنمائی کے لیے جو کچھ پیش کیا ہے اسے ہم خوب کھول کھول کر بیان کریں اور اس کا حق ہونا ثابت کردیں۔
دوسرے‘ عملی گواہی یاشہادت۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنی زندگی میں ان اصولوں کا مظاہرہ کریں جن کو ہم حق کہتے ہیں۔ دنیا صرف ہماری زبان سے ان کی صداقت کا ذکر نہ سنے بلکہ اپنی آنکھوں سے ہماری زندگی میں ان کی خوبیوں اور برکتوں کا مشاہدہ کرلے۔ اس شہادت کا حق صرف اس طرح ادا ہوسکتا ہے کہ ہم فرداً فرداً بھی اور قومی حیثیت سے بھی اپنے دین کی حقانیت پر مجسم شہادت بن جائیں اور دنیا ہمارے شخصی اور قومی کردار میں اس بات کا ثبوت پالے کہ جن اصولوں کو ہم حق کہتے ہیں وہ واقعی حق ہیں اور ان سے فی الواقع انسانی زندگی اصلح اور اعلیٰ و ارفع ہوجاتی ہے۔ (شہادتِ حق، ص ۶-۷)
اس طرح ہر وہ چیز جس کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ‘ تم یہ کرو‘ وہ فرض ہے اور جن چیزوں کو اللہ تعالیٰ نے انسان پر فرض کردیا ہے ان سے بڑھ کر اس سے قریب ہونے کا اور کوئی ذریعہ نہیں‘ یعنی آپ نوافل چاہے کتنے ہی ادا کرتے رہیں لیکن فرائض سے اگر آپ غافل ہیں تو اللہ سے قرب کا امکان نہیں۔ گویاپہلی چیز فرائض کی ادایگی ہے۔ اگر بندہ فرائض ہی ادا نہ کر رہا ہو تو پھر اللہ تعالیٰ سے نوافل کے ذریعے تقرب کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ مجھے سب سے زیادہ محبوب فرائض ہیں۔ ظاہر بات ہے اگر فرائض سب سے اہم نہ ہوتے تو اللہ تعالیٰ ان کو فرض ہی کیوں کرتا‘ اور جو بندہ فرض ادا نہیں کر رہا ہے اس کے معنی یہ ہیں کہ اس کے اندر حقیقت میں بندگی موجود نہیں ہے‘ اور اگر صرف نوافل ادا کر رہا ہے تو وہ اپنی مرضی کا بندہ ہے۔ اگر خدا کا بندہ ہوتا تو جس چیز کو اس نے فرض کیا ہے اس کو سب سے پہلے ادا کرتا۔
پھر فرمایا ہے کہ نوافل کے ذریعے سے میرا بندہ برابر مجھ سے قریب ہوتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں۔ نوافل کو بھی لوگ غلطی سے صرف نفل نمازوں کے معنی میں لیتے ہیں اور عام طور پر نوافل سے قرب کا مفہوم بھی یہ لیا جاتا ہے کہ نفل نمازیں پڑھ کر قرب حاصل کرنا۔ حالانکہ نوافل اصل میں ان تمام نیکیوں کو کہتے ہیں جوفرض سے زائد ہیں اور جنھیںبندہ اپنی رضامندی اور رضا و رغبت سے ازخود کرے‘ مثلاً زکوٰۃ۔ زکوٰۃ جو آپ پر فرض ہے اگر وہ آپ باقاعدگی سے نکال دیتے ہیں‘ گویا آپ نے فرض ادا کردیا۔ اس کے بعد اگر دین کے کام کے لیے کوئی ضرورت پیش آجائے یا کوئی مصیبت زدہ بندہ سامنے آجائے‘ کوئی رشتے دار یا محلے کا آدمی غریب اور حاجت مند ہو اور اس وقت بھی اگر آپ اپنا روپیہ نکال کر دے دیں تو یہ نوافل ہیں۔ فرض ‘یعنی زکوٰۃ ادا کرچکنے کے بعد آپ جو بھی خیرات کریں گے‘ سب نوافل ہیں۔ اسی طرح فرض روزے رمضان میں رکھ لیے اس کے بعد جو روزے بھی آپ رکھیں گے‘ سب نوافل ہیں۔ تو فرمایا کہ فرض تو وہ چیز ہے جو مجھے سب سے زیادہ محبوب ہے اسی لیے میں نے اس کو فرض کیا۔ اس کے بعد بندہ جب اپنی رضا و رغبت سے فرض سے زائد نیکی کرتا ہے تو جتنی زیادہ وہ یہ نیکی کرتا جاتا ہے اتنا ہی مجھ سے قریب ہوتا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ میرا محبوب بن جاتا ہے۔
پھر فرمایا کہ جب میں اپنے بندے سے محبت کرنے لگتا ہوں تو نوبت یہ آجاتی ہے کہ میں ہی اس کی سماعت بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے‘ اور میں ہی اس کی بینائی بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے‘ اور میں ہی اس کا وہ ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ سارے کام انجام دیتا ہے‘ اور میں ہی اس کا وہ پائوں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا پھرتا ہے۔ اس کا کیا مطلب ہے؟ یہ وہی چیز ہے جس کے لیے صوفیا ’فنا فی اللہ‘ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے اتنا گہرا اور اتنا قوی جذبہ آدمی کے دل میں پیدا ہوجاتا ہے کہ جن جن چیزوں کو بھی اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے ان کو وہ بغیر اس کے کہ فرض ہوں اپنے دل کی رضا و رغبت سے انجام دیتا ہے تو اللہ تعالیٰ سے اس کا تعلق ایسا گہرا اور قریبی ہوجاتا ہے کہ اب اللہ ہی اس کی سماعت اور اللہ ہی اس کی بینائی بن جاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس کے بعد اس کے کان وہی چیزیں سنتے ہیںجو اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ وہ سنیں۔ کوئی ایسی چیز جو اسے ناپسند ہے اس کے کان وہ سننے کے لیے تیار نہیں۔ اسے گانا ناپسند ہے تو وہ گانا سننے نہیں جائے گا۔ اسے گالیاں ناپسند ہیں تو وہ گالیاں رغبت سے نہیں سنے گا۔ اگر گالی کان میں پڑ بھی جائے تو اس کے دل میں اس سے اس قدر شدید نفرت پیدا ہوگی کہ یہ کیا میرے کان میں پڑ رہا ہے۔ اسی طرح بندہ وہی سننا پسند کرے گا جو اللہ کو پسند ہے اور جو چیز اللہ کو ناپسند ہے اس کو وہ سننا پسند نہیں کرے گا۔ اسی طرح فرمایا کہ میں اس کی بینائی بن جائوں گا‘ یعنی میری نگاہوں سے وہ ہر چیز دیکھے گا۔ اللہ کی نگاہ میں اگر کوئی چیز بری ہے تو اس کی نگاہ میں بھی وہ بری ہوگی۔ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں کوئی چیز اچھی ہے تو اس کی نگاہ میں بھی وہ اچھی ہوگی۔ جس آدمی کو وہ چیز مرغوب ہے جو اللہ کو ناپسند ہے‘اس کے معنی یہ ہیں کہ اس کی اللہ تعالیٰ سے ضد ہے۔ جسے اللہ پسند کرتا ہے وہ اسے ناپسند کرتاہے۔ جسے اللہ ناپسند کرتا ہے اسے وہ پسند کرتا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اس کی نگاہ اور اللہ کی نگاہ یکساں نہیں ہے۔ اسی طرح ہاتھ اور پائوں بننے کا معاملہ ہے کہ یہ وہی کریں گے اور اسی راہ پر چلیں گے جس میں اللہ تعالیٰ کی رضا ہوگی۔
اس کے بعد فرمایا کہ بندہ مجھ سے مانگے گا تو میں اس کو دوں گا‘ وہ مجھ سے پناہ مانگے گا تو میں اس کو پناہ دوں گا۔ پھر فرمایا کہ اور کوئی کام کرتے ہوئے مجھے تردد نہیں ہوتا مگر مومن کو موت دیتے ہوئے‘ جب کہ موت سے اس کو تکلیف ہو رہی ہو‘ مگر موت دیے بغیر چارہ نہیں چونکہ اس دنیا میں کوئی بھی ہمیشہ کے لیے پیدا نہیں کیا گیا۔ مومن کے لیے ہمیشہ کی زندگی آخرت میں ہے اور وہاں اس کا جانا ضروری ہے۔ اس وجہ سے موت تو میں اسے دیتا ہوں‘ مگر مجھے اپنے مومن بندے کی یہ تکلیف پسند نہیں ہے۔ یہ گویا اللہ تعالیٰ کی محبت کی انتہا ہے جو ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے۔
اس حدیث میں یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے قریب ہونے کے ذرائع کیا ہیں اور قریب ہونے کے ذرائع‘ یعنی فرائض اور نوافل کے ذریعے کس طرح قرب الٰہی حاصل ہوتا ہے اور اس کے نتیجے میں جب بندہ اللہ کا محبوب بن جاتا ہے تو پھر اس کی کیا کیفیت ہوتی ہے۔
(تفہیم الحدیث، ج ۷‘ ص ۵۲۲-۵۲۴۔اخذ و ترتیب: اسامہ مراد)