۲۰۰۶فروری

فہرست مضامین

’باوردی جمہوریت‘ ___ ضرورت یا لعنت؟

پروفیسر خورشید احمد | ۲۰۰۶فروری | شذرات

Responsive image Responsive image

جنرل پرویز مشرف تضادبیانی میں اپنا جواب نہیں رکھتے۔ ان کا ہر انٹرویو اپنے جلو میں نئی گل افشانیاں لے کر آتا ہے اور انھیں شوق ہے کہ دنیا کے ہر مسئلے پر گوہرافشانی ضرور فرمائیں حالانکہ صاحبانِ عقل نے کم گوئی اور سوچ سمجھ کر حسب ِضرورت بات کرنے ہی کو اچھی اور مدبرانہ قیادت کا خاصّہ قراردیا ہے۔ اس مہینے جمہوریت کے تصور کے بارے میںپے در پے ان کے دو انٹرویو آئے ہیں جن کا نوٹس نہ لینا قومی جرم سے کم نہ ہوگا۔

پہلا انٹرویو ایک ترک خاتون صحافی کو دیا گیا ہے جو جیو پرائیویٹ ٹی وی چینل کے تعاون سے حاصل کیا گیا ہے اور دوسرا وہ خطاب ہے جو انھوںنے امریکا کے اسٹینفورڈ یونی ورسٹی گریجویٹ اسکول آف بزنس کے ۳۰ طلبا کے سامنے گورنر ہائوس کراچی میںفرمایا۔ ان دونوں مواقع پر جنرل صاحب نے اس بات کا اعتراف کیا کہ جمہوریت میں صدرمملکت کی وردی کی کوئی گنجایش نہیں اس لیے کہ یہ دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں لیکن اسی سانس میں انھوں نے یہ بھی ارشاد فرما دیا کہ پاکستان کے قومی مفاد میں ان کا وردی میں رہنا ضروری ہے‘ اگر ایسا نہ ہو تو پھر یہاں جمہوریت کی گاڑی پٹڑی سے اُتر جائے گی۔ اپنے اس متضاد دعوے کے حق میں انھوں نے دو دلائل بھی دینے کی جسارت کی۔

اوّلاً ان کا دعویٰ ہے کہ پاکستان میں قیادت کی وحدت (Unity of Command) ضروری ہے اور یہ اسی وقت ممکن ہے کہ جب وہ خود صدرمملکت کے ساتھ فوج کے سربراہ بھی رہیں۔ اس سے ان کے زعم میں فوج‘ سیاست اور بیورو کریسی میں یگانگت اور وحدت پیدا ہوتی ہے جس کی بنیاد پر انتظامیہ مکمل ہم آہنگی کے ساتھ کام کرسکتی ہے۔ بلکہ انھوں نے یہ دلیل بھی دی ہے کہ میرے صدر اور چیف آف اسٹاف ہونے ہی کا کرشمہ تھا کہ ایک اشارے پر فوج زلزلہ زدگان کی مدد کے لیے فی الفور سرگرم ہوگئی۔

دوسرا ارشاد عالی مقام یہ ہے کہ پاکستان کے دستور کے تحت قومی اسمبلی اور سینیٹ کی دوتہائی اکثریت نے انھیں خصوصی اختیار دیا ہے کہ وہ یہ دونوںعہدے اپنے پاس رکھیں اور اسے انھوں نے ایک بہت ہی اچھا فیصلہ قراردیا (I think the decision is very good)۔

جنرل صاحب کے یہ دونوں بے بنیاد دعوے کسی بھی ذی ہوش اور محب وطن پاکستانی کے لیے قابلِ قبول نہیں ہوسکتے‘ نہ خاموشی سے انھیں یوں ہی جانے دیا جاسکتا ہے۔ نہ ان پر خاموش رہنا ممکن ہے۔پہلا دعویٰ اصولی طور پر قابلِ گرفت ہے تو دوسرا واقعاتی طور پر۔ پہلے‘ دوسرے دعوے کو لیجیے جو صریح جھوٹ اور غلط بیانی پر مبنی ہے۔ جنرل صاحب نہایت دیدہ دلیری سے غلط بیانی کررہے ہیں۔ ۱۷ویں دستوری ترمیم میں جسے پارلیمنٹ نے دو تہائی اکثریت سے منظور کیا تھا‘واضح طور پر طے کردیا گیا تھا کہ ایک دستوری انحراف (deviation)کے طور پر ۳۱ دسمبر ۲۰۰۴ء تک انھیں  چیف آف اسٹاف کا عہدہ رکھنے کا موقع دیا گیا ہے جس کے بعد اس کا چھوڑنا لازمی ہوگا۔ خود جنرل صاحب نے ٹی وی پر آکر قوم سے عہد کیا تھا کہ گو مجھے قومی مفاد اور حالات کی ضرورت کی بنیاد پر دوعہدے رکھنے کا مشورہ دیا جا رہا تھا لیکن میں نے طے کرلیا ہے کہ ۳۱ دسمبر ۲۰۰۴ء سے پہلے فوج کی سربراہی سے فارغ ہوجائوں گا۔ انھوں نے دستور کے الفاظ اور سیاسی معاہدے کے علی الرغم‘    محض عام اکثریت (simple majority) سے ایک خصوصی قانون منظور کرا کر قوم اور پارلیمنٹ سے وعدہ خلافی کی اور اس طرح دستور کو مسخ کیا اور اب دعویٰ کر رہے ہیں کہ پارلیمنٹ نے دو تہائی اکثریت سے ان کو اس کی اجازت دی۔ یہ سراسر خلافِ واقعہ ہے۔

رہا مسئلہ جمہوریت کی گاڑی کو پٹڑی پر چلانے کے لیے جمہوریت کے مسلّمہ اصولوں کے خلاف فوج کی سربراہی پر براجمان رہنا‘ تو اس مضحکہ خیز دلیل کو کون بقائمی ہوش و حواس تسلیم کرسکتا ہے۔ یونٹی آف کمانڈ کی بات بھی ایک انتہائی خطرناک سوچ کی غمازی کرتی ہے۔ ان کا یہ کہنا بالکل لغو بات ہے کہ اگر میں صدر ہونے کے ساتھ چیف آف اسٹاف نہ ہوتا تو فوج سکھر بیراج کی تعمیر بروقت نہیں کرسکتی تھی اور نہ زلزلہ زدگان کی بروقت مدد ہوسکتی تھی۔ اگر ہم دلیل کی خاطر یہ نظرانداز بھی کردیں کہ عام شہری‘اسلامی تحریکات کے کارکن اور مجاہد تنظیموں کے سرفروش زلزلوں کے چند گھنٹے کے اندر ملبے میں دبے ہوئے اپنے بھائی بہنوں بلکہ مظفرآباد میں فوجی جوانوں کو ملبے سے نکالنے کے لیے پہنچ گئے تھے‘ جب کہ یونٹی آف کمانڈ کا طرہ زیب تن کیے ہوئے جرنیل صاحب کو خود اپنے بقول زلزلے کی تباہ کاریوں کا اندازہ زلزلے کے پورے سات گھنٹے کے بعد ہوا اور فوج متاثرہ مقامات میں دوسرے‘ تیسرے‘ حتیٰ کہ ساتویں دن پہنچی۔ اس کارکردگی پر پریس اور پارلیمنٹ میں سخت تنقید بھی ہوئی ہے۔

اگر اس پہلو کو نظرانداز کر دیا جائے تب بھی سب سے بنیادی اور اصولی بات یہ ہے کہ دستور کے تحت اور پوری جمہوری دنیا کی مسلّمہ روایت کے مطابق فوج سول حکومت کے تابع ہوتی ہے اور یہی اصول پاکستان کے دستور کی دفعہ ۱۴۵ میں واضح الفاظ میں موجود ہے۔ اسی کا برملا اعلان قائداعظم نے کوئٹہ میں فوج کے جوانوں کو خطاب کرتے ہوئے ۱۹۴۸ء کے اوائل میں کیا تھا۔ دنیابھر میں غیرمعمولی حادثات کے موقع پر خواہ ان کا تعلق سیلاب اورآسمانی آفات سے ہو یا سول نظام کے درہم برہم ہونے سے‘ سول حکومت کے ایک اشارے پر فوج حکم کی تعمیل میں اپنی ذمہ داری پوری کرنے پر کمربستہ ہوجاتی ہے۔ سونامی کے موقع پر تمام متاثرہ ممالک میں اس کا منظر دیکھا جاسکتا ہے۔ پاکستان میں بھی سیلاب کے موقع پر ہر دور میں فوج نے خدمات انجام دی ہیں۔ امریکا میں کترینا کے طوفان میں تباہ ہونے والوں کی مدد کے لیے فوج حرکت میں آگئی۔ کیا یہ سب یونٹی آف کمانڈ کا کرشمہ تھا یا دستوری اور قانونی نظام کے موجود ہونے اور فوج کے سول حکومت کے تابع ہونے کا۔ برطانیہ میں تو فوج کسی معمولی سی معمولی کارروائی کے لیے بھی وزیراعظم کی ہدایت کے بغیر حرکت نہیں کرسکتی۔

پھر جنرل صاحب کو اس حقیقت کو بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ فوج کے اندر کے نظام میں یونٹی آف کمانڈ ضروری ہے‘ لیکن سول حکومت اور فوج کے درمیان رشتہ‘ کمانڈ کی وحدت کا نہیں‘ فوج کا سول کمانڈ کے تحت ہونے کا ہے۔ غیرسیاسی نظام اپنا مخصوص مزاج رکھتا ہے اور یہاں یونٹی آف کمانڈ نہیں بلکہ اختیارات میں تفریق (separation of power) اور اختیارات کی تقسیم (distribution of power) کی بنیاد پر سارا نظام چلتا ہے۔ اصل حکمران قوت ملک کا دستور ہوتا ہے جو پورے نظامِ قیادت (command structure) کو دوٹوک الفاظ میں بیان کردیتا ہے۔ اور انتظامیہ‘ عدلیہ اور مقننہ کے درمیان بھی اختیارات کی تقسیم ہوتی ہے۔ مقننہ قانون سازی کرتی ہے‘ انتظامیہ ان قوانین اور فیصلوں کو نافذ کرتی اور عوام کی منتخب اسمبلی کے سامنے جواب دہ ہوتی ہے اور عدلیہ قانون کی تعبیر کا فریضہ انجام دیتی ہے۔ اس تقسیم اختیارات سے نظام میں توازن آتا ہے اور صحت مند کارکردگی ممکن ہوتی ہے۔ ارتکاز اختیارات مطلق العنانی اور کرپشن کا ذریعہ بنتا ہے جسے لارڈ ایکٹن (Acton) نے ایک جملے میں اس طرح ادا کیا تھا Power corrupts and absolute power corrupts absolutely (اقتدار بدعنوان بناتا ہے اور اقتدارِ مطلق مکمل پر بدعنوان بناتا ہے)۔ یہی وجہ ہے کہ خود پاکستان کے دستور میں صدرمملکت‘ بجز ان اختیارات کے جہاں اسے صواب دیدی اختیار حاصل ہے‘ وزیراعظم کے مشورے کا پابند ہے۔

اسٹینفورڈ کے طلبہ کے سامنے جو وعظ جنرل صاحب نے فرمایا ہے وہ اس سے محظوظ نہیں ہوسکتے بلکہ سرپیٹ رہے ہوں گے کہ یہ کون سا سیاسی فلسفہ ہے جو جمہوریت کے سر تھوپا جا رہا ہے۔ شاید وہ دل ہی دل میں مشہور امریکی مصنف لیوس منفورڈ (Lewis Munford) کے بیان کردہ تاریخ اور علم سیاست کے اس اصول کو تازہ کر رہے ہوں گے جو اس نے اپنی کتاب The Condition of Man میں اس طرح بیان کیا ہے اور جس سے ہر فوجی آمر سبق سیکھ سکتا ہے:

ایک سیاسی معاشرہ موٹے رسّے کی مانند ہے جس میں کئی رسیاں گندھی ہوئی ہیں۔ ان رسّیوں کے باہم ملاپ سے محض اس کی مضبوطی میں اضافہ نہیں ہوتا بلکہ اس کی لچک بھی بڑھ جاتی ہے۔ رسّا اپنی نوعیت میں پیچیدہ ہے۔ سیاسی گرہیں اس کو مزید پیچیدہ بنا دیتی ہیں‘ لیکن سیاسی زندگی میں ہمارا مقام ہمیشہ برقرار رہنا چاہیے۔ گرہ کھولنے کے بجاے ننگی تلوار سے رسّی کاٹنے کا سکندراعظم کا طریقہ اختیار نہیںکرنا چاہیے۔ سیاسی عمل کے مسائل کو کوئی بھی احمق مارشل لا سے حل کرسکتا ہے مگر کوئی احمق ہی اس کو حکومت کے مصداق سمجھ سکتا ہے۔ (دی کنڈنشن آف مین‘ ص ۱۷۵)

ہماری ساری سیاسی مشکلات کی جڑ یہی غلط ذہنیت ہے کہ فردِ واحد تمام سیاسی مسائل کو قوت کے ذریعے طے کرسکتا ہے۔ آج جو کچھ بلوچستان میں ہو رہا ہے‘ وزیرستان میں ہو رہا ہے‘ باجوڑ میں ہورہا ہے‘ اس پر عوام میں سخت غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ کالاباغ ڈیم بنانے کے یک طرفہ اور من مانے اعلانات کے خلاف پورا ملک جس طرح احتجاج کر رہا ہے ‘ پارلیمنٹ مفلوج ہوگئی ہے‘ عدلیہ      بے دست و پا ہے‘ حتیٰ کہ بیوروکریسی جس طرح غیرموثر بنا دی گئی ہے اور نظام اور قانون کے تحت کام کرنے کے بجاے اُوپر والوں کی مرضی کو قانون کا درجہ دے دیاگیا ہے___ یہ ہے جمہوریت کا زوال اور ہماری قومی زندگی کا المیہ۔ ہم اس دلدل سے اس وقت تک نکل نہیں سکتے جب تک دستور اور قانون کی بالادستی قائم نہ ہو۔ اداروں کے استحکام کے ذریعے قومی استحکام حاصل کیا جائے‘ مرکز اور صوبوں کے درمیان اعتماد‘ تعاون اور اشتراکِ اختیارات کا نظام بحال کیا جائے ‘ فوج کو دفاع کی ذمہ داری کے لیے مخصوص کیا جائے اور سول نظام منتخب اداروں اور سول حکومت کے ذریعے چلایا جائے اورفوج بھی اس نظام کے تابع اور اس کے سامنے جواب دہ ہو۔

’باوردی جمہوریت‘ ایک متضاد اصطلاح ہے اور اس کا جاری رہنا ملک کی سلامتی اور استحکام کے لیے ایک عظیم خطرہ اور قوم کے لیے ایک لعنت کی حیثیت رکھتا ہے اور خود فوج کی دفاعی صلاحیت کو تباہ کرنے اور اسے قوم کی نگاہوں میںمتنازع بنانے کا ذریعہ ہے۔ ملک کی فوج ملک کے دفاع کے لیے ہے‘ نظامِ حکومت کو چلانے یا آبی بند بنانے کے منصوبے طے کرنے کے لیے نہیں۔ فوج بھی کسی شخص کی ذاتی جاگیر نہیں بلکہ دستور کے تحت ایک اہم اور محترم قومی ادارہ ہے۔ جو ذہن ’باوردی جمہوریت‘ کی بات کرتا ہے‘ وہ فوج کو بھی ایک دستوری ادارے کے بجاے سرداری نظام کی طرح ذاتی وفاداری کے مقام پر دیکھنا چاہتا ہے جس کا بڑا ہی تکلیف دہ اظہار اس انٹرویو میں ہوا ہے جو بھارتی ٹی وی چینل CNN-ABN کو دیا گیا اور جس میں یہاں تک کہہ دیا گیا ہے:

یہ ایسی ویسی فوج نہیں ہے‘ یہ مکمل طور پر میری وفادار اور تابع ہے۔

جب سوال کیا گیا کہ آپ کشمیر کے جومختلف حل پیش کررہے ہیں‘ کیا فوج اس میں آپ کے ساتھ ہے‘ تو فرمایا:

۲۰۰ فی صد بلکہ ۱۰۰۰ فی صد۔ اگر ان خیالات کے برعکس کوئی رجحان یا اختلاف راے رکھتا ہوگا تو ان کو چشم زدن میںفوج سے نکال دیا جائے گا۔ اگر وہ ہوں تو اگلے ہی دن فوج سے باہر ہوں گے۔

سوال: آپ کا مطلب ہے کہ آپ انھیں نکال باہر پھینکیں گے؟

جواب: بالکل‘ آپ سمجھیں کہ (اگر میں یہ نہ کروں تو) میں فوج کا بے حیثیت سربراہ ہوں گا۔ یہ ایسی ویسی فوج نہیں ہے۔ میں یہاں ذمہ دار ہوں۔ جنرل اور کور کمانڈر ہیں جو کور کے ذمہ دار ہیں۔ کوئی سوال ہی نہیں کہ یہاں کوئی ایسی حرکتیں کر رہا ہو۔ اگر وہ کریں گے تو اگلے ہی روز نکال باہر کیے جائیں گے۔

بلاشبہہ آرمی میں ڈسپلن ہونا چاہیے لیکن سیاسی معاملات اور طریقوں کے بارے میں اختلاف راے اور چیز ہے اور آرمی ڈسپلن دوسری شے۔ لیکن جب دفاع میں ’یونٹی آف کمانڈ‘ کے نام پر شخصی آمریت کا بھوت سوارہو تو پھر نہ سیاست کے آداب اور اسلوب کا احترام باقی رہتا ہے اور نہ خود فوج میں اختلاف راے اور اطاعتِ احکام کی حدود کی نزاکتیں___

ہماری جدوجہد کا اصل ہدف یہی ہے کہ تقسیمِ اختیارات اور تقسیمِ کار کا جو نظام دستور میں طے کیا گیا ہے‘ سارا نظام اس کے مطابق چلے اور جس طرح اس انتظام کو درہم برہم کردیا گیا ہے اوراس میں فوج کی قیادت کے علاوہ دوسرے عناصر نے بھی بڑا مذموم کردار ادا کیا ہے بشمول عالمی طاقتیں‘ ایک بار یکسو ہوکر اس انتشار کو ختم کردیا جائے‘ اور ہمیشہ کے لیے یہ اصول طے ہوجائے کہ فوج کا دائرہ کار صرف اور صرف دفاع ہے اور وہ سول نظام کے تابع ہے‘ اس پر حکمران نہیں۔ جب تک یہ واضح ہدف حاصل نہیں ہوتا پاکستان اس دلدل سے نہیں نکل سکے گا جس میں پچھلے ۵۰ سال سے دھنسا ہوا ہے۔