۲۰۰۶فروری

فہرست مضامین

مدیر کے نام

| ۲۰۰۶فروری | مدیر کے نام

Responsive image Responsive image

عقیل امین احمد لون‘ جہلم

محترم شاہنواز فاروقی نے ’اخوان المسلمون کی شان دار کامیابی‘(جنوری ۲۰۰۶ئ) میں جو کچھ لکھا ہے علامہ اقبال بھی بہت عرصہ قبل یہ لکھ چکے ہیں     ؎

رنگ گردُوں کا ذرا دیکھ تو عُنّابی ہے

یہ نکلتے ہوئے سورج کی اُفق تابی ہے

علامہ اقبال نے مجملاً یہ بات کہی تھی لیکن شاہنواز فاروقی نے اس بات کو کھول کر بیان کیا ہے کہ عراق میں امریکا کو ہزیمت سے دوچار کرنے والے کوئی تنخواہ دار بریگیڈیئر‘ کرنل‘ جنرل یا فیلڈمارشل نہیں‘ اور نہ کوئی بکتربند فوج ہے بلکہ صرف اور صرف چند افراد کی قوتِ ایمانی اس کے مدِّمقابل ہے___ اور وہ بھی غیرمنظم۔ اگر اسلام منظم ہوکر مدِّمقابل آجائے تو …


احمد علی محمودی‘ بہاول پور

لبیک اللھم لبیک (جنوری ۲۰۰۶ئ) قلب کی گہرائی سے نکلے ہوئے یہ کلمات بہت پُراثر اور  ضیوف الرحمن کے لیے نادر تحفہ ہیں۔ اس سے بہتر‘ جامع اور مدلل تشریح اس سے قبل نظر سے نہیں گزری۔ اسے باربار پڑھنے کو جی چاہتا ہے۔ اس کا خوب صورت پہلو اس کا دعوتی رنگ ہے۔ تاہم‘ تلبیہ میں ان الحمد والنعمۃ کے بعد لک والملک کو علیحدہ کرکے عنوان بنا دینے کے بجاے متصل ہی دینا مناسب تھا۔


عتیق الرحمٰن صدیقی ‘ہری پور

’قربانی اور فلسفۂ قربانی‘ (جنوری ۲۰۰۶ئ) ایک خوب صورت اور دل کش تحریرہے۔ سید مودودیؒ نے تسلیم و رضا اور فدویت کے فلسفے کو ایسے کیف زا اسلوب میں پیش کیا ہے کہ بار بار مطالعے کو جی چاہتا ہے۔ اسلام کی اصل روح یہی ہے کہ بندئہ مومن اپنی تمام محبتوں کو حق کی محبت پر قربان کرنے کے لیے آمادہ رہے۔ آیت الکرسی کا مطالعہ اچھی کاوش ہے مگر اس کی براہِ راست تشریح و توضیح بھی مقصود تھی جس سے صرفِ نظر کیا گیا ہے۔ کشمیر واقعی خطرناک سیاسی زلزلوں کی زد میں ہے۔ ’پیرانِ پارسا‘ اسے جھٹکوں پہ جھٹکے دیے چلے جارہے ہیں۔ پروفیسرخورشیداحمد کا تجزیہ اور نقد یقینا فکرافروزہے اور چراغِ راہ کی حیثیت رکھتا ہے۔


ڈاکٹر شفیق الرحمٰن انجم ‘قصور

’امدادی سرگرمیوں کی آڑ میں‘ (جنوری ۲۰۰۶ئ) مرزا محمد الیاس کی مختصر مگر جامع تحریر ہے اور اس میں چونکا دینے والے حقائق کا انکشاف کیا گیا ہے۔ آج اُمتِ محمدیہ کو محوِ خواب دیکھ کر مسیحی مشنریوں اور صہیونی تنظیموں نے امدادی سرگرمیوں کی آڑ میں مجبور اور بے کس لوگوں کو منظم طریقے سے بہلانا پھسلانا شروع کر دیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان تنظیموں پر کڑی نظر رکھی جائے۔ متاثرہ علاقوں میں زخمی اور بے سہارا کم سن بچوں کو گود لینے پر مکمل پابندی عائد کی جائے۔ قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے اداروں اور تنظیموں کو تشکیل دیا جائے جو متاثرہ علاقوں میں ریلیف اور بحالی کا کام کریں تاکہ اہلِ ایمان اور معصوم بچے مسیحی وصہیونی تنظیموں کے ناپاک مقاصد سے محفوظ رہ سکیں۔


رفیع الدین ہاشمی ‘ لاہور

مولانا امیرالدین مہر کے خط (جنوری ۲۰۰۶ئ) کے حوالے سے خوشی کی بات ہے کہ قارئین‘ ترجمان میں لفظوں اور املا کی چھوٹی بڑی غلطی کو بھی نوٹ کرتے ہیں۔ ذال اور زے کی بحث کے سلسلے میں ایک بنیادی حقیقت پیشِ نظر رہنی چاہیے کہ جب الفاظ‘ اصل زبان سے کسی دوسری زبان میں جاتے ہیں تو بعض اوقات جوں کے توں برقرار نہیں رہتے بلکہ املا اور تلفظ حتیٰ کہ کبھی کبھی معانی کے اعتبار سے بھی وہ لفظ تبدیل ہوجاتے ہیں۔ عربی‘ فارسی‘ انگریزی اور دیگر زبانوں کے صدہا الفاظ ایسے ہیں جنھوں نے اُردو میں آکر اپنا املا اور تلفظ بدل لیا۔ اور اُردو والوں‘ بشمول ماہرین لغت و املا‘ نے اُنھیں قبول کرلیا۔ اب اُردو میں ان کی یہی تبدیل شدہ صورت ہی صحیح ہے (طوالت کے خوف سے مثالوں سے احتراز کرتا ہوں)۔ اس لیے یہ اصرار بے جا ہے کہ فارسی میں ذال نہیں ہے‘ اس لیے ہم اُردو میں بھی فارسی الاصل لفظوں کو ذال سے نہ لکھیں۔

پھر یہ بھی ایک مفروضہ ہے کہ فارسی میں ذال نہیں ہے۔ متعدد نام ور اورمسلّمہ ماہرین لغت و املا‘ مثلاً ڈاکٹر شوکت سبزواری‘ جناب رشید حسن خاں‘ پروفیسر نذیراحمد‘ سید قدرت نقوی اور بہت پہلے خان آرزو ثابت کرچکے ہیں کہ فارسی میں ذال ہے۔ ایرانیوں کے ہاں‘ خصوصاً لغت نامہ دہخدامیں اس کی مثالیں مل جاتی ہیں۔ قاضی عبدالودود مرحوم اور ڈاکٹر عبدالستار صدیقی بھی ذالِ فارسی کے قائل تھے۔ بھارت میں اُردو کے سب سے بڑے اشاعتی ادارے ترقی اُردو بیورو دہلی کی املاکمیٹی (مشتمل بر: مالک رام‘ پروفیسر نثاراحمد فاروقی‘ ڈاکٹر سیدعابد حسین ‘ پروفیسر مسعودحسین خاں‘ پروفیسر خواجہ احمد فاروقی‘ پروفیسر گیان چندجین‘ پروفیسر گوپی چند نارنگ‘ وغیرہ) کی مطبوعہ سفارشات میں ’دل پذیر‘ ، ’اثر پذیر‘ وغیرہ کو صحیح قرار دیاگیا ہے۔ افسوس کہ یہاں اس سے زیادہ بحث و تفصیل کی گنجایش نہیں۔ مولانا امیرالدین مہر نے آخر میں لکھا ہے کہ’ ’ع س مسلم صاحب کو داد دینا چاہیے کہ انھوں نے ایک صحیح تلفظ اور رسم الخط کو باقی رکھنے کی کوشش کی ہے‘‘۔ عرض ہے کہ ذال اور زے کے استعمال کا مسئلہ املا کا ہے‘ نہ کہ تلفظ یا رسم الخط کا۔


عثمان پیرزادہ ‘ حیدر آباد

آپ کے مضامین ایک کوشش ہیں امر بالمعروف اور نہی عن المنکرکی۔ دراصل ہماری سیاست اور صحافت کا طریقہ امربالمعروف کے سوا اور کچھ نہیں ہونا چاہیے۔ مگر صورت حال اس کے برعکس ہے۔اس وقت عدل و انصاف کی اتنی شدید ضرورت ہے جیسے زندگی کی بقا کے لیے ہوا اور پانی کی۔ ظالم اور بااثر مجرم لوگ ایسے طاقت ور ہوچکے ہیں کہ ان کا کچھ نہیں بگاڑا جا سکتا۔ پولیس کے مظالم کی داستانیں ہر روز عالم آشکار ہیں۔ انصاف مانگنے سے بھی نہیں ملتا۔ لہٰذا یہ ناگزیر ہے کہ امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے فریضے سے غفلت کی طرف بھرپور توجہ دلائی جائے‘ بلکہ ایک بڑی تحریک کی ضرورت ہے کہ منکرات دب جائیں‘ معروف عام ہو اور عدل قائم ہو۔


محمد آصف اسماعیل‘ دوحہ‘قطر

الحمدللہ دسمبر ۲۰۰۵ء کا شمارہ بہت متوازن تھا۔ ’حکمتِ مصائب‘ میں ملک عطا محمد نے بڑے دل نشیں انداز میں قرآن وسنت کی روشنی میں ایک اہم موضوع کی وضاحت کی ہے۔ اگر ’اشارات‘ کو عموماً ۱۰‘۱۲ صفحات دیے جائیں اور باقی صفحات میں دوسرا مواد‘ مثلاًمولانا مودودی کے لٹریچر سے اقتباس‘ فہم قرآن و حدیث‘ نومسلموں کے حالات یا دوسرے معاشرتی یا نفسیاتی مسائل وغیرہ میں رہنمائی‘ حتیٰ کہ اشتہارات کو دیے جائیں‘ تو یہ تبدیلی اشاعت میں اضافے اور مالی معاونت کا باعث ہوسکتی ہے۔


نثار عباس، عرفان احمد بھٹی ‘ بہاول نگر

ہم کچھ دوست ’خیرخواہ‘ اور ’سنابل العلم‘ اور مختصر مضامین فوٹوکاپی کروا کے تقسیم کرتے ہیں‘ جب کہ کچھ کو بذریعہ ڈاک ارسال کرتے ہیں۔ ہمارا مقصد شہادتِ حق کی ذمہ داری کو کسی نہ کسی طرح ادا کرنا ہے اور یہ ایک آسان ذریعہ بھی ہے۔ کوشش یہی ہے کہ اس طرح یہ لوگ اچھے اور سنجیدہ علمی جرائد پڑھنے لگیں اور ان کے معاون بنیں۔  ع  صلاے عام ہے یارانِ نکتہ داں کے لیے !


خالدہ مسلم‘ لاہور

آج کل ایرانی صدر اور نمایندوں کے بیانات پڑھ کر اور سن کر دل میں خیال گزرتا ہے کہ کاش! میں ایرانی قوم کی ایک فرد ہوتی تو سر اُٹھا کر تو چلتی۔ محمود احمدی نژاد آج ملّت کا ترجمان بن کر اُبھرا ہے جو امریکی استعمار کی دھمکیوں اور بلیک میلنگ کے سامنے مردانہ وار کھڑا ہے۔ انڈونیشیا کے کسی دُور دراز جزیرے سے لے کر افریقہ کے کسی کونے میں بسنے والے مسلمان تک‘ سب کی دعائیں اُس کے ساتھ ہیں۔ ایک دفعہ اس حقیقت کو سمجھ لیا جائے کہ یہ چند روزہ زندگی ہی سب کچھ نہیں ہے تو سچ کے لیے کھڑا ہوا جاسکتا ہے۔ ایک پاکستانی کی حیثیت سے تو میرا سر جھکا ہوا ہے۔ کہنے کو تو ہم ایٹمی طاقت ہیں لیکن آج ساری دنیاکے مسلمان گھرانوں میں ہم پر لعنت بھیجی جاتی ہے۔ خیال آتا ہے کہ کیا ہم اتنے بُرے ہیں‘ کیا ہمارے گناہ اتنے بڑھ گئے ہیں کہ ہمیں ذلت کی سزا دینے کے لیے مشرف جیسا شخص ہم پر مسلط کیا گیا ہے!


نعیم شیروانی ، سید عاصم علی ‘کراچی

مطالعہ روح کی غذا ہے‘ اسے محدود نہ کیجیے۔ تحریکی رسائل و جرائد حصول علم کا مفید ذریعہ ہیں۔ ترجمان القرآن‘ جسارت اور فرائیڈے اسپیشل کا پیغام اپنے تک محدود رکھنے کے لیے نہیں ہے۔ پڑھنے کے بعد ردی کی ٹوکری کی نظر نہ کیجیے۔ اللہ نے استطاعت دی ہے تو محلے میں دفتراور کاروبار کے ساتھیوں‘ رشتہ داروں کو دیجیے‘ ان کو باقاعدہ خریدار بنائیے۔ خود بھی اجر سمیٹیں گے‘ آپ کے لیے بھی صدقہ جاریہ بنیں گے۔ وقت تیزی سے گزر رہا ہے۔ وقت اور سرمائے کا اس سے بہتر مصرف اور کوئی نہیں!