پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد


قیامِ پاکستان کے ۷۰ سال ایک اہم سنگ ِ میل ہیں۔ جہاں ایک لمحے کے لیے رُک کر یہ سوچنا کہ کیا کھویا، کیا پایا؟ قوموں کی زندگی میں ایک فطری اور عقلی مطا لبہ ہے۔ عربی کا مشہور مقولہ ہے کہ حَاسِبُوْا أَنْفُسَكُمْ قَبْلَ أَنْ تُحَاسَبُوْا  [اپنا احتساب کرلو قبل اس کے کہ تمھارا حساب کیا جائے] لیکن احتساب نفس کا یہ عمل اس شعور کے ساتھ ہونا چاہیے کہ نشانِ منزل تک پہنچنے کے لیے کتنی قوت، صلاحیت اور کوشش کی ضرورت ہے، تاکہ یہ احتسابی عمل اُمید ، یقین اور حرکت میں اضافے کا باعث ہو ۔ کفِ افسوس ملتے رہنا زندہ قوموں کی صفت نہیں۔ اسی طرح ایک فرد کی ۷۰سالہ عمر کو ایک قوم کی عمر پر قیاس کرنا بھی تاریخ کا صحیح مطالعہ نہیں کہا جاسکتا۔ ۲۷رمضان المبارک ۱۹۴۷ء کو آزادی کا سانس لینے والی اس پہلی اسلامی نظریاتی مملکت کے قیام سے بہت پہلے قا ئد اعظم محمد علی جناح نے مملکت کے مقصد وجود کو ۱۲جون ۱۹۴۵ءکو سرحد مسلم اسٹوڈٹنس ایسوسی ایشن کے نام اپنے پیغام میں واضح الفاظ میں یوں کہا تھا:

Pakistan not only means freedom and independence but the Muslim Ideology which has to be preserved, which has come to us as a precious gift and treasure and which, we hope others will share with us (S.M. Zaman , Quaid -e-Azam and Education, National Institute of Historical and Cultural Research, Islamabad,  1995,  p384(.

پاکستان کا مطلب نہ صرف آزادی اور خودمختاری ہے، بلکہ ’مسلم نظریہ‘ بھی ہے، جسے ہمیں محفوظ رکھنا ہے، جو ایک بیش قیمت تحفے اور سرمایے کے طور پر ہم تک پہنچا ہے، اور ہم اُمید کرتے ہیں اور لوگ بھی اس میں ہمارے ساتھ ہیں۔

اسی پیغام اور عزم کی توثیق قائدنے پاکستان میں ہونے والی پہلی تعلیمی کانفرنس منعقدہ ۲۷نومبر تا یکم دسمبر۱۹۴۷ء ، کراچی کے نام اپنے پیغام میں ان الفاظ میں فرمائی :

In short, we have to build up the character of our future generations which means highest sense of honour, integrity, selfless service to the nation, and sense of responsibility, and we have to see that they are fully qualified or equipped to play their part in the various branches of economic life in a manner which will do honour to Pakistan.

الغرض ہمیں اپنی آنے والی نسلوں کے کردار کی تعمیر کرنی ہوگی، جس کا مطلب ہے کہ ان میں وقار، راست بازی اور قوم کی بے لوث خدمت کا بے پناہ جذبہ اور احساسِ ذمہ داری پیدا کر دیا جائے، اور اس بات کا بھی خیال رکھنا ہوگا کہ ان میں معاشی زندگی کے مختلف شعبوں میں کام کرنے کی اہلیت اور صلاحیت بدرجۂ اَتم موجود ہو، اور وہ اس طرح کام کریں جو پاکستان کے لیے نیک نامی کا باعث بن جائے۔(کتاب مذکورہ بالا، ص ۴۳۲)

تعلیمی پالیسی پر قائد کی اتنی واضح ہدایات کے بعد مستقبل کا سفر بہت آسان ہو جاتا ہے:

  •  اول :ہمارے تعلیمی نظام کو اسلامی تہذیبی اور ثقافتی ورثہ یا اسلام کے نظامِ حیات ہونے کے بنیادی تصور کو علم کے ہر شعبے میں اختیار کرنا ہوگا۔ اسلام کو اسلامیات کے مضمون تک قید نہیں کیا جائے گابلکہ معاشرتی اور طبیعیاتی علوم میں بہ الفاظِ دیگر ہرہرشعبۂ علم میں اسلام کے تصورِ علم (وحی الٰہی اور سنت کی مرکزیت ) کی روشنی میں اسلامی اقدار کو مکمل طور پر سمو کر یا integrate کرکے نصاب، درسی کتب اور طریق تدریس میں اختیار کرنا ہو گا۔ یہ کام ۷۰سال گزرنے کے باوجود انجام نہیں دیا جاسکا۔ جہاں ہمارے لیے ضروری ہے کہ تعلیم کو عام کریں اور ہرفرد کو بلاامتیاز علم و تحقیق اور صلاحیت ِ کار کے زیور سے آراستہ کریں، اور ہرشعبۂ علم میں قائدانہ حیثیت حاصل کریں، وہیں یہ بھی ضروری ہے کہ تعلیم کے اخلاقی اور نظریاتی پہلو کو مدنظر رکھیں، نیز تعلیم کے ساتھ تربیت اور کردار سازی کو مساوی اہمیت دیں۔ یہ ہماری اوّلین قومی ضرورت اور خود قائداعظم کے تصورِ علم اور تصورِ پاکستان کا بھی مطالبہ ہے۔
  • دوم :اپنے پیغام میں قائد نے اس بات کو واضح کر دیا ہے کہ اسلامی نظریۂ حیات (Muslim Ideology ) کو معیشت اور معاشرتی ترقی میں مکمل طور پر ظاہر ہونا چاہیے ۔ مُسلم آئیڈیالوجی کی اصطلاح خود استعمال کر کے قائد نے ان تمام ممکنہ گمراہیوں کا خاتمہ کر دیا جو تعلیم کو اقدار سے بے نیاز ( Value Free) اور معیشت کو محض ایک مادی سرگرمی سمجھنے کی شکل میں ہو سکتی ہیں ۔ قائد کے دونوں پیغامات، ایک قیام مملکت سے قبل اور ایک اس کے فوری بعد سےقائد کی فکری ہم آہنگی اور مقصد کے واضح شعور کا پتا چلتا ہے ۔ اس کے باوجود اگر کوئی عقل ، اور مشاہدہ اور تاریخی حقائق کو نظرانداز کر ے تو وہ قائد اور اپنے اُوپر ظلم کرتا ہے ۔
  • سوم : تعلیمی پالیسی میں آزادی اور خود انحصاری کو بنیادی اہمیت ہونی چاہیے ۔ جس کا واضح مفہوم یہ ہے کہ وہ نہ تو لارڈ میکالے کی غلامانہ سامراجیت کو مستحکم کرے اور نہ آج کی جدید مغربی درس گاہوں میں مروجہ نظام اور ذخیرہ علم کو حق اور صداقت سمجھتے ہوئے اس کی غلام ہو۔ ہم اس وقت بلکہ ۷۰سال سے دوسروں کے علم کے صارف (Consumer) رہے ہیں ۔ ہم نے اپنی اقدار اور نظام حیات پر مبنی علم کے پیدا کرنے کو جو ایک اجتہادی عمل ہے ، جان بوجھ کر پس پشت ڈال رکھا ہے ۔ پاکستان میں آج بھی ایسے اہلِ علم موجود ہیں جو نصاب اور کتب کی تشکیل قائد کے تصور کی بنیاد پر کر سکتے ہیں ۔ اس سلسلے میں اب تک جو مطالبوں کی سیاست اختیار کی گئی ، اس کی جگہ آگے بڑھ کر اس تعلیمی مواد اور ان تعلیمی سفارشات کو یک جا کر کے پھیلانے کی ضرورت ہے، جو آخر کار عوامی اور معاشرتی دباؤ کی شکل میں قانون سازی کرنے والے افراد کو اپنی فکر تبدیل کرنے پر مجبور کر سکے ۔ یہ ایک تعمیری عمل ہے اور تحریک اسلامی اور دردِ دل رکھنے والے اصحابِ علم و عمل اس میں قیادت کا فریضہ ادا کرسکتے ہیں۔ ہمارے خیال میں تعلیمی حکمت عملی اور تعلیم سے وابستہ شعبوں میں تحقیق پر مبنی مواد کی فراہمی تحریک کی اوّلیات میں سر فہرست ہونی چاہیے ۔ یہ طویل المیعاد لیکن یقینی تبدیلی کی طرف ایک مثبت اقدام ہو گا۔ اس میں اور عمومی سیاسی جدوجہد میں کوئی تضاد نہیں پایا جاتا۔
  • چہارم: ملک گیر پیمانے پر اہل علم کو چاہے وہ کتنے ہی نظریاتی اختلاف رکھتے ہوں، اس بات پر دعوت فکر دینے کی ضرورت ہے کہ اگر کوریا ، چین ، روس ، جرمنی ، فرانس ، اپنی قومی زبان میں تعلیم و تحقیق کر سکتے ہیں تو ہم اپنی قومی زبان میں ایسا کیوں نہیں کر سکتے؟ زبان کسی خطے کے افراد کی مقامی بولی کا نام نہیں ہے ، یہ اقدار حیات ، تصور زمان و مکان ، قومی تشخص اور قومی ورثے کی امین ہوتی ہے ۔ یہ افراد میں خود اعتمادی اور مستقبل کی تعمیر میں اینٹ اور گارے کا کام کرتی ہے۔ یہ ملک کی یک جہتی کا ذریعہ اور صو بائیت اور قبائلی عصبیت کو ختم کرتی ہے ۔ یہ اُمت مُسلمہ کو جسدِ واحد میں جوڑ دیتی ہے ۔ اس لیے تعلیمی حکمت عملی میں اس کی بنیادی اہمیت ہونی چاہیے ۔ اگر ہم نے اس  طرف توجہ نہ کی جو نوجوان نسل آج موبائل فون کے ذریعے اردو رسم الخط کی جگہ رومن میں پیغامات بھیجنے کی عادی ہوتی جا رہی ہے ، اس نسل اور اس کے بعد کی نسل کے لیے غالب، شبلی، حالی، اقبال اور مودودی ہی نہیں اُردو کاتمام ادبی سرمایہ ناقابل فہم بن جائے گا اور اسے محض میوزیم کی زینت بنادیا جائے گا ۔ جن قوموں کا ماضی نہیں ہوتا ان کا کوئی مستقبل بھی نہیں ہوتا ۔ زبان مستقبل کی تعمیر و بقا کے لیے بنیادی اہمیت رکھتی ہے ۔

اس تحریر کا حاصل یہ ہے کہ تعلیمی پالیسی کو ہمارے ملک کے دستور کی نہ صرف شق 2-A بلکہ آرٹیکل نمبر۱اور ۲ (جس میں ریاست کے مذہب کو متعین کر دیا گیا ہے کہ یہ صرف اسلام ہو گا)، باب دوم میں ان انسانی حقوق کا  ذکر جو اسلام دیتا ہے ، آرٹیکل۲۹ تا ۴۰ میں ریاست کے راہنما اُصولوں کی شکل میں جو واضح ہدایات ہیں ، ان سب کا مکمل اظہار تعلیمی پالیسی میں ہونا ایک دستوری تقاضا ہے ۔ اس کے خلاف پالیسی بنانا دستور پاکستان کی خلاف ورزی ہے ۔ دستور کے آرٹیکل ۶۲ اور ۶۳ میں جن صفات کا ذکر کیا گیا ہے، انھیں کون پیدا کرے گا ؟ اگر تعلیم اس کا ذریعہ نہیں ہو گی اور قائد کے قول، یعنی ’ تعمیر کردار‘ پر عمل نہیں کیا جائے گا تو کیا سو سال بعد بھی آرٹیکل۶۲ اور ۶۳پر عمل ہو سکتا ہے؟

 مختصر یہ کہ دستو ر اسلامی جمہوریہ پاکستان اور قائداعظم دونوں کی واضح ہدایات کو تعلیمی پالیسی کی بنیاد بنا لیا جائے، تو ہمارے ہاں کے وہ تضادات جو بیک وقت تین یا چار قسم کے انسان پیدا کررہے ہیں، ان کی جگہ یکساں نظام تعلیم ملکی وحدت ، اسلامی تشخص، پاکستانی ثقافت اور ایک باہمت، غیور ، آزاد ذہن رکھنے والی ، خود انحصاری پر عمل پیرا نوجوان نسل پیدا کرے گا جو وہ کام کرسکتی ہے، جس کو ۷۰ سال اس کے بزرگوں نے نظر انداز کیا ۔

اپریل ۲۰۱۷ء میں پیش آنے والے دو انتہائی تکلیف دہ اور اسلامی تصور عدل اور انسانی اخلاقی اقدار کے منافی واقعات نے انتہا پسندی اور دینی مدارس سے اس کے تعلق کے حوالے سے غوروفکر کے لیے بعض نئے زاویوں کو نمایاں کر دیا ہے ۔

اب تک اخباری اطلاعات کے مطابق ناموسِ رسولؐ کے حوالے سے مردان کی ولی خان یونی ورسٹی میں رُونما ہونے والے افسوس ناک واقعے میں زدوکوب کرنے اور آخر کار سفاکانہ طور پر قتل کا ارتکاب کرنے والوں میں سے کوئی ایک فرد بھی کسی مذہبی فرقے سے تعلق نہیں رکھتا تھا اور   نہ مقتول کسی مسلکی گروہ کا حصہ تھا۔

اسی طرح سندھ کے میڈیکل کالج میں تعلیم پانے والی طالبہ یا اس کے بھائی یا والدین کا کوئی تعلق کسی مذہبی یا انتہا پسند گروہ سے نہیں تھا، بلکہ اخباری اطلاعات کے مطابق لڑکی کا گھرانا لبرل شمار کیا جاتا تھا۔ زمینی حقائق کچھ بھی ہوں، ملک کے میڈیا اور لبرل حلقوں کا وتیرا ہے کہ گذشتہ دوعشروں سے ہرتخریبی واقعہ اور خصوصیت سے ناموسِ رسولؐ کے حوالے سے ہر واقعے کا رشتہ ـ ’مذہبی شدت پسندوں‘ سے جوڑا جاتا رہا ہے اور تان اس پر ٹوٹتی ہے کہ ’’ناموسِ رسالتؐ کے قانون کو تبدیل کیا جائے، تعلیمی  نصاب سے اسلام کو خارج کیا جائے اور ریاست اور دین کے رشتے پر نظرثانی کرکے پاکستان کو ایک سیکولر قومی ریاست بنایا جائے‘‘۔

معاشرے میں بڑھتی ہوئی تشدد پسندی

ان حالیہ واقعات پر برقی ذرائع ابلاغ اور اخبارات میں صحافیانہ نگارشات میں جن خیالات کا اظہار کیا گیا اگر ان کا تجزیہ کیا جائے، تو مختلف زاویۂ ہاے نگاہ اُبھر کر سامنے آتے ہیں۔

اولاً: اس بات کو اُجاگر کیا گیا ہے کہ ملک میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کا اصل ذمہ دار ’مذہب‘ اور مسلکی فرقہ پرستی ہے۔ چنانچہ جب تک اسلام کو یورپی تجربے کی روشنی کے مطابق ایک ’ذاتی مذہب‘ قرار دے کر زندگی کے تمام شعبوں سے خارج نہیں کیا جائے گا ’ـمذہبی انتہا پسندی‘ اور’شدت پسندی‘ کا خاتمہ نہیں ہو سکتا۔ یعنی جس طر ح بھی ہو ’مذہب‘ سے نجات حاصل کی جائے۔ گویا ان دانش وروں کے خیال میں اس وقت جو معاشرتی اور ثقافتی ماحول پاکستان میں پایا جاتا ہے اس میں اسلام ہماری معیشت، معاشرت، ابلاغ عامہ ، تعلیم ، عدلیہ ہر جگہ چھایا ہوا ہے اور یہـ ’مذہبیت‘ ہی ہے جو انتہا پسندی پیدا کرتی ہے۔

تجزیہ اور تحقیق کا دوسرا بیانیہ ان صحافیانہ کالموں میں ملتا ہے، جو جملہ واقعات کو یکجا کرنے کے بعد یہ کہتے ہیں کہ انتہا پسندی ، اور شدت پسندی محض ’مذہبی طبقے‘ میں نہیں ہے ، یہ ہر جگہ ہے۔  اعلیٰ تعلیم گاہوں میں ان طلبہ و طالبات کا جن کا کوئی آس پاس کا تعلق بھی’مذہب‘سے نہیں پایا جاتا، اپنے اساتذہ کے ساتھ رویہ ، اپنے والدین کے ساتھ رویہ ،آپس میں گفتگو،سوشل میڈیا پر استعمال کی جانے والی زبان ،ابلاغ عامہ پر ہر لمحہ ’ خبر توڑ‘ (بریکنگ نیوز) سر خیوں میں مسلسل اور بار بار تشدد کو دکھا یا جاتا ہے اور اس طرح انتہا پسندی ذہن اور شخصیت کا حصہ بن جاتی ہے۔ موجودہ زمانے میں ابلاغِ عامہ کے بیش تر ادارے کسی مثبت رویےکی ترویج اور صحت مندانہ سوچ کی آب یاری سے لاتعلق نظر آتے ہیں، اس لیے محض ’مذہبی‘ فکر کے افراد کو الزام دینا درست نہیں ہے ۔ ہمارا پورا معاشرہ ہی گھر سے لے کر پارلیمنٹ تک تشدد پسندی کا بدترین نمونہ فراہم کرتا ہے ۔

یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ کسی بھی انسانی معاشرے میں صرف عبرت ناک سزاؤں کے نفاذ سے آج تک اصلاح نہیں ہو سکی اور نہ ہو سکتی ہے۔ اسلام خصوصاً اس فکر کے برعکس جو حل پیش کرتا ہے، اس میں سزا کا بھی ایک مقام ہے، لیکن اصلاحِ احوال کے لیے جو حکمت عملی اسلام نے دی ہے، اس میں مرکزی اہمیت جرم اور اس کے اسباب کے انسداد کو حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے وہ اس کے لیے اولیں اہمیت فکری اصلاح کو دیتا ہے، جس کے ذریعے وہ انسان کے کردار،رویے اور طرزِ عمل کو ایک نئی شکل دیتا ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ ایسے افراد جو کل تک بیٹیوں کو زندہ دفن کرتے، اپنی خواتین کو اپنی ملکیت سمجھتے ، اور انتقام کے نام پر مخالف کی لاش تک کی بے حُرمتی کرنے پر فخر کیا کرتے تھے ، وہی لوگ اسلامی اخلاق کے زیر اثر خواتین کی عزت و عصمت کی حفاظت ، عورت اور لڑکی کے عزت و احترام اور قبائلی عصبیت کی جگہ عالمی اخوت و بھائی چارے کے پیغام بر بن گئے۔

یہاں ہمارا مقصود محض یہ نہیں ہے کہ اسلام کی حقیقی عظمت کی طرف اشارہ کیا جائے بلکہ  یہ بتانا بھی ہے کہ اسلام، قانون اور سزا کے مقابلے میں تادیب اور تہذیب کے ذریعے تشدد کا انسداد کرتاہے۔یہ قانون اپنے ضوابط کو سدّراہ (deterrence) کے طور پر استعمال کرتا ہے اور بعض حالات میں سخت سزائیں بھی تجویز کرتا ہے ۔ بہرصورت محض سخت سزا دینا یا قوت کا  بے مہابا استعمال مسئلے کا حل نہیں ہے۔کیا امریکا کی ان بیس سے زیادہ ریاستوں میں جہاں آج بھی قتل کی سزا پھانسی ہے اور زہریلی گیس یا برقی کرسی پر بٹھا کر موت کے گھاٹ اتارنے کی سزا قانون کا حصہ ہے ، تنہا اس قانون نے قتل کے واقعات کو ختم کردیا ؟ کیا سخت سزاؤںنے شکاگو،ڈیٹرائیٹ، نیویارک ، واشنگٹن اور لاس اینجلس جیسے شہروں میں قتل کے روزانہ بیسیوں واقعات کو روک دیا؟ جس کا مطلب یہ ہے کہ تنہاسخت سے سخت سزا بھی کسی جرم سے نہیں روک سکتی،اس کے لیے کچھ اور عوامل درکار ہیں۔

تجزیے کا تیسرا زاویہ بجا طور پر یہ بات کہتا ہے کہ: سرکاری یونی ورسٹیوں میں تعلیم پانے والے طلبہ میں تشدد پسندی اور دہشت گردی کے ذمہ دار دینی مدارس کے فارغ علما یا ان کے بعض ’فتاویٰ‘نہیں ہو سکتے بلکہ دراصل یہ ہمارے درآمد کردہ نظام تعلیم کی ناکامی کی علامتیں ہیں۔ اس نظام میں تعلیم پانے والے اپنی اصل شخصیت گم کر بیٹھے ہیں۔اخلاقی اقدار سے خالی تعلیم اور بالخصوص گذشتہ تین عشروں میں لبرل ازم کی تحریک نے انھیں اپنی معاشرتی شنا خت سے محروم کردیا ہے۔ مروجہ تعلیم انھیں حصولِ روزگار کے علاوہ زندگی کا کوئی اور مقصد نہیں بتاتی۔ دینی تشخص ہی نہیں وہ قومی تشخص کو بھی صوبائی عصبیتوں کی نذر کر بیٹھے ہیں ۔ وہ عملاًفضا میں معلق ہیں اور کوئی بھی پُرکشش شے انھیں اپنی طرف کھینچ سکتی ہے ۔ یہ بآسانی اپنے نفسیاتی دباؤ سے نجات کے لیے منشیات کے عادی بن سکتے ہیں۔ یہ لبرل معاشرے میں جنسی بے راہ روی اور نشے کے کاروبارمیں پھنس سکتے ہیں۔ یہ عصبیت کا جنون اور صوبائی آزادی اور قومیت کے زیر عنوان ہر سرکاری کیمپس میں طلبہ کی جماعتیں بنا سکتے ہیں۔ یہ زبان کے نام پر قومیت پرست بن سکتے ہیں۔ غرض اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد اگر اپنی اخلاقی اور نظریاتی شناخت سے محروم ہوجائیں اور معاشرتی پہچان کھو بیٹھیں تو انھیں کوئی بھی، کسی قسم کا لالچ دے کر اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔ سرکاری تعلیم انھیں اندر سے کھوکھلا کر دیتی ہے اور انھیں کسی بھی متاثر کن نعرے کے زیر اثر گھناؤنے سے گھناؤنے کام کرنے پر  آمادہ کیا جاسکتا ہے۔

اس بات میں وزن ہے لیکن ہمارے خیال میں مسئلہ محض ’ثقافتی شناخت‘کا نہیں ہے۔ اصل مسئلہ تصورِ حیات ، مقصدِحیات ، طرزِ حیات ، طرزِ عمل اور رویے کو اخلاقی ضابطے کی روشنی میں پروان چڑھانے کا ہے ۔ ہم اس پر آگے بات کریں گے۔

 ان تینوں زاویہ ہاے نظر کا جائزہ لیا جائے تو ان میں کچھ نہ کچھ حقائق کا عکس نظر آتا ہے۔  لیکن ہماری نگاہ میں جو بات واضح ہو کر سامنے آرہی ہے، وہ یہ ہے کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کا تعلق کسی مخصوص طبقے یا افراد سے جوڑنا نا انصافی ہے ۔ سیکولر افراد میں بھی اتنی ہی شدت پسندی پائی جاتی ہے، جتنی شدت پسندی کا دعویٰ فرقہ پرست گروہوں کے بارے میں کیا جاتا ہے۔ گویا   یہ ایک ملک گیر مرض ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ یہ ایک عالم گیر متعدی مرض کی شکل اختیار کر گیا ہے ۔  نام نہاد ترقی یافتہ ممالک ہوں یا ترقی پذیر ممالک ، سرکاری تعلیم گاہیں ہوں یا کسی خاص مسلک سے تعلق رکھنے والے غیر مسلم یا مسلم افراد، یہ مرض عالمی طور پر سرایت کر گیا ہے ۔ اس کے اسباب محض معاشی نہیں ہیں ، محض غربت نہیں ہے کیوں کہ اعلیٰ تعلیم گاہوں میں طلبہ صرف غریب خاندان سے نہیں آتے۔ اس کے باوجود ان میں بغاوت، سرکشی اور شدت پسندی یکساں طور پر نظر آتی ہے ۔

جہاں تک ناموسِ رسالتؐ کا سوال ہے، یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس میں ایک باعمل مسلمان ہو یا بے عمل، اقبال جیسا فلسفی ہو، عالم دین اور قانون کا سمجھنے والا ہو، یا محض نسلی مسلمان ہو ، ہر فرد کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے وابستگی ایک حقیقت ہے ۔ اقبال نے صحیح کہا تھا  ع

خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِؐ ہاشمی

علامہ اقبال کو جب غازی علم الدین شہید کی پھانسی کی خبر ملی تو ان کا بے ساختہ تبصرہ یہ تھا کہ ’ایک ترکھان کا بیٹا بازی لے گیا اور ہم باتیں کرتے رہ گئے‘۔ جس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ ایک ایسے ملک میں جہاں پارلیمنٹ اور سینیٹ نے متفقہ طور پر ایک قانون بنایا ہو ، اس قانون کو نظرانداز کرکے کوئی قانون اپنے ہاتھ میں لے لے۔ اس لیے کہ قانون سے باہر کسی بھی اقدام کو درست قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اسلام عدل اور قانونی کی حکمرانی کا قائل ہے۔ ایک ملزم کو قانونی ضابطے ( due process of law) کے عمل سے گزار کر ہی اس کے جرم کا تعین کیا جاسکتا ہے، اور جب قانون خود تحقیق کے بعد سزا تجویز کرتا ہو، تو کسی شہری کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپنے طور پر بغیر تحقیق کے جس پر چاہے ہاتھ اٹھا لے ۔ اس لیے قانون کا احترام پیدا کرنا تعلیم اور نظامِ عدل کا ایک اہم مقصد ہونا چاہیے۔ 

اصل مسئلہ ہماری نگاہ میں نہ صرف پورے ملک بلکہ ہر طبقۂ خیال میں انتہا پسندی کا پایا جانا ہے ۔ جس کے اسباب کا تعین کرنا ہوگا اور ان اسباب کو دور کر کے مسئلے کا حل اسلام اور عدل کے دائرے میں رہتے ہوئے نکالنا ہو گا۔ اب ہم اس تناظرمیں مختصراًاس انتہا پسند ذہنیت کے عمومی محرکات و اسباب کا ایک جائزہ لینے کی کوشش کریں گے، جس کی گرفت میں آج معاشرہ آچکا ہے۔

انتہا پسندانہ ذہنیت کے محرکات و اسباب

انتہاپسندی پر ابھارنے والے عوامل یوں تو بہت ہیں، لیکن ذیل میں صرف زیادہ اہم عوامل کا اختصار کے ساتھ تذکرہ کیا جارہاہے، جو تعلیم گاہوں اور معاشرے میں اس رجحان اور رویے کے بڑھنے کے پیچھے پائے جاتے ہیں۔ ان میں ایک منطقی ترتیب بھی پائی جاتی ہے۔

  • lمروت و مقصد سے خالی تعلیم :تعلیم کا بنیادی مقصد تربیت اخلاق، یعنی طرز عمل ، طرز حیات ، طرزِ فکر اور رویے کو اخلاقی اقدار کے ساتھ ہم آہنگ کرنا اور عملی مثال پیش کرنے کے ذریعے غیر محسوس طور پر رویوں کو تبدیل کرنا ہوتا ہے۔ بہترین تعلیم زبان کے بجاے اپنے عمل سے دی جاتی ہے ۔ اگر ایک استاد طالب علم کے ساتھ نرمی ، توجہ، اور کسی بھی مالی فائدے سے بے نیاز ہوکر رہنمائی فراہم کرتا ہے تو طالب علم میں بھی بے غرضی ، طلب علم و تحقیق ، تنقیدی فکر اور جذبۂ عمل پیدا ہوتا ہے ۔ اسی طرح والدین اگر اپنے بچّوں کو پیدا ہونے کے بعد شخصیت کے تعمیری دور، (یعنی اولین چار سال) پنگوڑے سے لے کر پاؤں پاؤں چلنے کی عمر تک مسلسل ٹی وی سکرین پر آنے والے کارٹونوں میں مصروف رکھتے ہیں تو بچے کے ذہن پر یہ اوّلین تاثرات ہی اس کے آیندہ طرزِ عمل کو متعین کرتے ہیں ۔ اس کے بولنے ، ہنسنے ، لوگوں کو تنگ کرنے کے انداز اور خاص طور پر کارٹونوں کے کرداروں سے بے رحمی ، چالاکی اور دوسروںکو تکلیف پہنچا کر خوش ہونے کی عادت فروغ پاتی ہے۔ آپ کسی بھی سلسلہ وار کارٹون کا جائزہ لیں تو یہ بات عیاں ہو جائے گی کہ کارٹون کے کردار رحم دلی ، نرمی ، محبت، خاکساری کی جگہ دوسروںکو چکر دے دے کر بے قوف بنانا اور تکلیف پہنچاکر خوش ہونا سکھاتے ہیں ۔تشدد کی یہ اوّلین تربیت اکثروالدین تعمیر شخصیت کے پہلے چار سال میں اپنی اولاد کو دینے کے بعد کسی پری سکول میں ڈال دیتے ہیں، جہاں بچہ اپنی حقیقی ماں کی ہمہ وقت محبت ، توجہ اور فکر سے محروم، فی گھنٹہ اُجرت پر کام کرنے والی ایک نگران خاتون کے رحم و کرم پر ہوتا ہے ۔کیا ا س طرح بچہ کسی مقصد زندگی ، کسی اخلاقی طرزِ عمل ، کسی قربانی کے جذبے یا کسی احترام و محبت کے تصور سے آگاہ ہو سکتا ہے ؟ جس نے پیدا ہو کر ماں کی محبت کا مزا نہ چکھا ہو، کیا وہ دوسروں کے ساتھ امن، رحم دلی،محبت اور بے لوثی سے پیش آسکتا ہے ؟ کیا وہ بڑا ہوکر امن پسند بن سکتا ہے؟ کیااس کا  دین کا علم، قومی زبان پر عبور اور اسلامی تہذیبی روایت سے واقفیت اس درجے کی ہوسکتی ہے کہ وہ دہشت گردی کا مقابلہ کرنے والا صالح، صابر ، مستقل مزاج نوجوان بن سکے؟
  • اخلاقی مفلسی اور قرآن و سنّت سے لاعلمی :اس سے منطقی طور پر وابستہ سوال  یہ ہے کہ کیا یہ سکول یا کالج یا بعد میں یونی ورسٹی جانے والا طالب علم، اس پورے عرصے میں کبھی کسی ایسے اخلاقی نظام سے گزرتا ہے جس میں قرآن کریم جس پر اس ملک کی ۹۷ فی صد آبادی ایمان رکھتی ہے، اور حیاتِ طیبہؐ جس کے لیے ہر مسلمان چاہے وہ کبھی عید کی نماز تک نہ پڑھتا ہو ، جان دینے بلکہ جان لینے کے لیے تیار رہتا ہے ، کیا علم وتربیت کے ان دو اصل اور ابدی گہواروں سے اس کی کوئی واقفیت ہوتی ہے ؟کیا اس نے یا اس کے اسلامیات پڑھانے والے اساتذہ نے زندگی میں صرف ایک مرتبہ ہی قرآن کریم کا اوّل تاآخر ترجمے کے ساتھ مطالعہ کیا ہوتا ہے؟ اور کیا کبھی اسے یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ بلاشبہہ یہ کتاب، جہاد کو سب سے افضل عمل قرار دیتی ہے۔ کیا اسے جہاد کے مجموعی تصور سے کبھی آگاہ کیا گیا کہ اس کا مقصد انسانوں کو ان کے چھینے گئے حقوق واپس دلانا ہے، انھیں ظلم سے نجات دلانا ہے ، فتنہ وفساد کو دُور کرنا ہے، اور اللہ کی زمین پر عدل ، ہمدردی اور محبت کا ماحول پروان چڑھانا ہے ۔ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں جہاد کا حکم دیا ہے، وہیں اس کے فی سبیل اللہ ہونے کی شرط بھی لگائی ہے اور وضاحت کے ساتھ اس کے مقاصد، اسلوب اور آداب کو بھی تفصیل سے بیان فرما دیا ہے۔ نیز یہ رہنمائی بھی فراہم کردی ہے کہ بحیثیت مجموعی مسلمان فرد اور قوم کے لیے زندگی کی ترجیحات کیا ہیں اور ان کے درمیان ہم آہنگی کا قیام بھی ضروری ہے۔ ہمارے تعلیم و تربیت کے نظام نے کیا ان تمام پہلوئوں سے ہماری نئی نسلوں کو آشنا کیا ہے؟ کیا ہماری نوجوان نسل کو کسی نے بتایا کہ قرآن کریم کی غالب تعلیمات کا تعلق معاملات، معاشرت ، حقوق و فرائض کی تعلیم اوراحکام سے ہے ، جب کہ تعزیری اور قانونی آیات انتہائی محدود ہیں؟ کیا انھیں رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ کے ہر دور میں تفصیلی طور پر تجزیے کے ساتھ یہ سمجھایا گیا کہ آپؐ تمام جہانوں کے لیے کس طرح رحمت ہیں ؟

یہ ہے وہ اخلاقی افلاس،جس کی موجودگی میں اگر وہ بچہ یا بچی سائنسی یا سماجی مضمون میں ایک نہیں تین ڈاکٹریٹ بھی کر لے ، تب بھی اس میں اخلاق ، محبت ، عدل ، تواضع ، انکسار ، سچائی ، امانت، دیانت ، قیادت، کبھی پیدا نہیں ہو سکتی۔ وہ ہوا کے ساتھ اپنا رخ بدلتا رہے گا اور مرغ باد نما بن کر سیاسی اور مادی فائدوں کا بندہ بن کر اپنے آپ کو کامیاب بندہ سمجھے گا۔ اس صورت حال میں وہ کیوں نہ دہشت گرد بنے؟ کیوں نہ ا س میں شدت پرستی آئے؟ جب اسے کوئی مثبت نمو نہ اور   وہ نمونہ جسے قرآن خود ’خلق عظیم‘کہتا ہے، کبھی واقفیت ہوئی، نہ اس نے کبھی شعوری طور پر اس  عظیم ترین ہستی ، جن پر میرے ماں باپ فدا ہوں،سے فکری ملاقات کی ہو، نہ ان کے عظیم طرزِ عمل سے چند پھول چنے ہوں، اسے تو لازماً دہشت گرد اور شدت پسند ہی بننا چاہیے ،پھر شکوہ کس بات کا !

اس اخلاقی خلا کا ذمہ دار کون ہے ؟والدین ، اساتذہ ، وزرات تعلیم سے وابستہ ہر ہر فرد ، اسکول کے نظام کو چلانے والا ہر بابو، ملک کا ہر وزیر اعظم ، ملک کا ہر صدر جو اپنا حلف اٹھاتے وقت اس ملک میں قرآن و سنت کے نفاذ کا عہد کرتا ہے اور ہر وہ صحافی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لے کر کالم تو لکھتا ہے، لیکن اس مسئلے کے حل کے لیے حیاتِ مبار کہ کی روشنی میں کوئی حل تجویز نہیں کرتا۔ 

حل اگر کوئی ہے تو وہ صرف آپؐ کے اسوہ میں، آپؐ کے دامن محبت میں، آپ ؐ کے گوشۂ عافیت میں اور آپؐ کے عفو و درگزر کرنے والے کردار میں ہے۔ آپؐ کے ان دشمنوں کو جنھوں نے پتھر برسائے، پھولوں سے نوازنے میں ہے ۔ جب تک وہ اخلاق جو قرآن کریم کے مکمل ترجمے کے ساتھ مطالعے اور مطالعۂ سیرت پاکؐ کے مکمل طور پر جسم میں خون بن کر گردش کرنے کی شکل میں نہ ہو جائے، یہ مسئلہ حل نہیں ہوسکتا۔ اس کا حل صرف اور صرف ہدایت کے ان دو میناروں سے وابستگی میں ہے۔ جب تک ہر ہر پاکستانی بچہ اور بچی قرآن کریم کو اوّل تا آخر ترجمے کے ساتھ (وہ ترجمہ جو تمام مسالک میںمتفقہ ہے اور ریڈیو پاکستان سے نشر ہوتا ہے، مثلاً مولانا فتح محمد جالندھری کا ترجمۂ قرآن)سمجھ کر نہ پڑھ لے، اور سیر ت پاک کی کم از کم ایک مشہور کتاب (مثلاً محمد سلمان منصور پوری کی رحمتہً للعِلمین) کا مطالعہ نہ کرلے۔ اس وقت تک وہ ذہن نہیں بن سکتا، جو اپنے جذبات و تاثرات کو تحمل کے دائرے میں رکھتے ہوئے ایک پُرامن مسلمان پاکستانی شہری بن سکے۔

  • معاشرتی استحصال: جس معاشرے میں ظلم و استحصال ، صوبہ پرستی ، فرقہ پرستی ، برادری پرستی ، زبان پرستی، غرض شرک کی وہ بے شمار شکلیں جنھیں قرآن و سنت سے رد کیا گیا ہے ، موجود ہوںگی،نوجوانوں میں فطری طورپر رد عمل پیدا ہو گا اور استحصالی نظام میں جتنا اضافہ ہوگا، وہ غیردستوری اور غیر قانونی ذرائع استعمال کرنے پر بآسانی آمادہ کر لیے جائیں گے۔اس منفی رد عمل کا علاج سخت سزائیں اور جرمانے نہیں نظام عدل کا قیام ہے، جو قرآن و سنت کا ایک اہم مطالبہ ہے۔ جن معاشروں کو ہمارے بعض دانش وَر مثال بنا کر پیش کرتے ہیں ، ان میں بھی جہاں کہیں ظلم پایا جاتا ہے، وہاں بھی قتل، چوری، ڈکیتی، عزت پر حملے اور بوڑھوں کے ساتھ ظلم کم نہیں ہوتاہے۔ وہ امریکا ہو یا یورپ، کہیں بھی جا کر دیکھ لیں ، جرائم کے ارتکاب میں زیادہ تر وہ لوگ ملوث ہیں جو استحصال کا شکار ہیں ، اور جن کا مذہب کے ساتھ تعلق بہت کمزور ہے ۔ شکاگو ، لاس اینجلس اور نیویارک میں  فی گھنٹہ جرائم کے ارتکاب کاتناسب پاکستان سے کئی گنا زیادہ ہے ۔ اگرچہ وہاں کوئی ٹی وی ہر ہر واقعے کو ’خبر توڑ‘ سرخی کی شکل میں بڑھا چڑھا کر پیش نہیں کرتا ۔ ہمارے دانش ور ہماری صدیوں کی ذہنی مرعوبیت کے سبب یہ سمجھتے ہیں کہ یورپ اور امریکا وغیرہ میں سُکھ چین ہی ہے اور نوجوان اس معاشرے کو جنت سمجھتے ہوئے وہاں کی شہریت کے لیے بے تاب رہتے ہیں، لیکن زمینی حقائق بالکل مختلف ہیں۔ ان کو وہی آنکھ دیکھ سکتی ہے جسے حق کی جستجو ہو ، جو سیاسی آزادی ملنے کے بعد نوآبادیاتی نظام کی ذہنی و فکری غلام نہ ہو۔

معاشرتی عدل کا فقدان وہ اہم سبب ہے جو معاشرے میں انتہا پسندی ااور تشدد کا رجحان پیدا کرتا ہے ۔ جو معاشرہ بھی طبقاتی تقسیم پر قائم ہو تا ہے، اس میںانتقام اور ظالم سے بدلہ لینے کی خواہش کسی نہ کسی وقت ضرور ابھرتی ہے۔ پاکستان میں جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ نظام ظلم، جبر اور محنت کش کے ساتھ ناانصافی کے سبب معاشرے میں محرومی ، ناامیدی اور نفرت و انتقام کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ ایسے معاشرے میں انتہا پسندی اگر نہ ہوتوحیرت کی بات ہے۔ ایک شخص جو ہزاروں اور سیکڑوں ایکڑ زمین کا مالک ہو ، جو پجیرو یا مرسیڈیز سے کم کسی کار پر سفر کرنا اپنی بے عزتی سمجھتا ہو، اور دوسری جانب سیکڑوں مفلوک الحال افرادہوں، جو اس کے زیر تسلط بنیادی ضروریاتِ زندگی سے محروم ہوں، تو رد عمل کا پایا جانا فطری امر ہے۔ وہ مظلوم جس کو حق سے محروم کیا گیا ہے ، وہ کسی بھی تبدیلی لانے کے وعدے کے زیر اثر غیر قانونی اور غیر دستوری ذرائع کو اپنے لیے حلال سمجھ لے گا یا اسے سمجھا دیا جائے گا۔ جب معاشرے میں کثرت ایسے افراد کی ہو جائے تو شدت پسندی اور غیر دستوری ذرائع سے اقتدار حاصل کرنے کی خواہش بآسانی پیدا کی جاسکتی ہے۔

  •  انسانی حقوق کی پامالی : اسلام انسانی حقوق کا علم بردار بن کر اس وقت آیا جب دنیا انسانی حقوق کی عظمت کو فراموش کر چکی تھی اور یورپ اور امریکا تاریکی میں ڈوبے ہوئے تھے۔ اسلام نے حقوق انسانی کو محض ایک قرارداد کی شکل نہیں دی بلکہ قانون کا درجہ دیتے ہوئے حقوق و فرائض میں شامل کیا ۔دوسری جانب تقریباً ہزار سال بعد یورپ اور امریکا نے عالمی جنگ کے تناظر میں صرف قراداد کی حد تک ، جس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ، انسانی حقوق پر ایک دستاویز ’جمعیت اقوام‘ میں منظور کی،جو آج تک عالمی مسائل بشمول انتہا پسندی کے حل میں ناکام رہی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ بعض مسلمان جو نہ اپنے دین کو سمجھتے ہوں ، نہ قرآن کامطالعہ کریں ، نہ سنت مطہرہ سے واقفیت حاصل کریں اور جو ذاتی مفاد کے حصول کے لیے دوسرے انسانوں، خصوصیت سے کمزور طبقات کے حقوق پامال کریں، تو ان کے سیاسی و سماجی کردار کی ذمہ داری نہ کتابِ ہدایت پر ہے اور نہ کتابِ دستور پر اور نہ دین و ریاست کے تعلق پر___ اس کی ذمہ داری مؤثر نظام تربیت کے فقدان کے ساتھ ظلم پر مبنی اجتماعی نظام اور مفاد پرستی سے عبارت اُس طرزِ حکمرانی پر ہے جو ملک و قوم پر مسلط ہے۔

جب کسی معاشرے میں انسانی جان ، مال، عزت اور نسل کا احترام باقی نہیں رہتااور کمزور اور طاقت ور کے لیے دو پیمانے بن جاتے ہیں ، حقوق انسانی کو پامال کیا جاتا ہے تو فطری طور پر ردعمل اور انتقام کے جذبات پیدا ہوتے ہیں اور مظلوم اور استحصال کا شکار فرد ظالم کو نقصان پہنچانے پر آمادہ ہو جاتا ہے ۔دنیا میں جہاں کہیں بھی اس طرح کی صورت حال پائی جاتی ہے ، یکساں نتائج سامنے آتے ہیں۔ظلم اور استحصال کے شکار فرد کو جو ظلم کا شکار رہا ہو ،اپنی جان پر کھیل کر کسی بھی دہشت گردی کے کام کے لیے آمادہ کیا جاسکتا ہے۔زمان و مکان کی قید سے قطع نظر ہمارے اپنے معاشرے میں معاشرتی ظلم کے شکار افراد کثرت سے پائے جاتے ہیں اور نہ صرف وہ بلکہ ایسے نوجوان بھی جو تعلیم حاصل کرنے کے بعد ملازمتوں کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں، انھیں بآسانی بھاری رقوم کا لالچ دے کر دہشت گردی پر آمادہ کر لیا جاتا ہے ۔ بعض کو جزوی طور پر دینی حوالے سے اس کام پر آمادہ کر لیا جاتا ہے۔ مسئلے کا حل صرف اور صرف اسلامی تصور عدل اور فلاح کا نفاذ ہے ۔ محض قوت کے ذریعے ذہنوں کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا ۔

  •  لادینیت  :لادینیت یا سیکولر ازم کی بنیاد دین و دنیا کی تفریق پر ہے۔ اس کا اصل ہدف الہامی ہدایت کو معاشرتی، سیاسی اور معاشی زندگی سے خارج کرکے دنیا کے معاملات محض دُنیاوی مفادات کی بنیاد پر استوار کرنا ہے۔ اس کا فطری نتیجہ معاشرت،معیشت اور سیاست میں اخلاقی اقدار کے خاتمے اور محض ذاتی ،گروہی یا پارٹی کے مفاد کو خدا بنا لینا ہے ۔خودغرضی امیر کو امیر تر بناتی ہے اور معاشرے میں ٹکراؤ پیدا کرتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں جن ممالک میں لا دینیت کو اختیارکیا گیا وہاں طبقاتی کش مکش رُونما ہوئی ہے اور غربت کا خاتمہ نہیں ہو سکا۔مزید یہ کہ سیکولرازم یا لادینیت جہاں کہیں بھی رائج ہو گی ، معاشرے کی بنیاد نسل پرستی ، عصبیت اور لسانیت بن جائے گی۔

خود پاکستان کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ یہاں کے بعض فوجی اور سیاسی فرماں رواؤں نے ملک کی اصل بنیاد اور مقصد وجود کو نظر انداز کر کے، ملک میں عصبیت، فرقہ پرستی اور زبان کے نام پر تفریق کے نعرے بلند کیے اور ملکی یک جہتی کو نقصان پہنچایا۔ قرآن و سنت نے جو تصور دین دیا ہے وہ ملّی یک جہتی کا ضامن اور نفرتوں کو دُور کرنے والا ہے، جب کہ لادینیت اتحاد کو کمزور کرنے کا ذریعہ ہے ۔ملک میں امن اور میانہ روی اسی وقت پیدا ہو سکتی ہے جب دینی اقدار کو فروغ دیا جائے اور لادینیت کو ختم کیا جائے۔

  •  ثقافتی غلامی  : ایک الجزائری مسلمان مفکر نے بڑی قیمتی بات کہی ہے کہ: ’’جو لوگ ثقافتی طور پر غلام ہونا قبول کر لیتے ہیں ، انھیں سیاسی آزادی بھی آزاد نہیں کر سکتی‘‘۔ انھی کے ایک  ہم عصر الجزائر ی ماہر نفسیات فرانتس عمر فانن (م: ۱۹۶۱ء) نے نفسیاتی زاویے سے الجزائر میں فرانسیسی تسلط اور پھر اس سے آزادی کے حوالے سے اپنا تجزیہWretched of the Earth [زمین کے بدبخت] کے زیر عنوان کتاب میں پیش کیا ہے۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ: ’’جب بھی کوئی سامراجی ثقافت مسلط کی جاتی ہے ، اس کا ردعمل جذباتی اورنفسیاتی طور پر بڑھنا شروع ہوتا ہے اور اگر اسے کوئی مناسب ذریعہ نہ ملے تو وہ جوابی ثقافتی انقلاب( Counter Cultural Revolution) کی شکل اختیار کر تا ہے‘‘۔ بعض وہ نوجوان جو نجی تعلیمی اداروں میں مستعار فکر اور مغربی مرعوبیت کے ماحول میں پرورش پارہے ہیں، ان میں ثقافتی انقلاب کا جذبہ بطور رد عمل کے پیدا ہوتا ہے اور    وہ بآسانی جذبات میںبہہ کر غیردستوری ذرائع کے استعمال پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔ یہ شکل خصوصاً یورپ اور امریکا میں زیادہ نظر آرہی ہے ۔اور اس کی بنا پر وہاں کے مراکزِ دانش واضح طور پر اس کے حل کے لیے تجاویز پیش کررہے ہیں۔

ایک تجویز پاکستان کے حوالے سے بھی رینڈ کارپوریشن کی ایک رپورٹ میں پیش کی گئی تھی کہ صوفی ازم کو فروغ دیا جائے تاکہ تحریکات مزاحمت اور نام نہاد سیاسی اسلام(Political Islam ) کا مقابلہ اندر سے کیا جاسکے۔ اسی بناپر ایک سابقہ فوجی آمر کے دور میں ایک مشہور سیاسی لیڈر کی سرکردگی میں ’قومی صوفی کونسل‘ قائم کی گئی تھی اور صوفیانہ کلام اور موسیقی کے ذریعے روحِ جہاد کو ختم کرنے کی مہم کا آغاز کیا گیا تھا ۔ ہماری نگاہ میں مسئلے کا حل اسلام کو صوفی ازم بنا کر پیش کرنے سے نہیں ہوگا، نہ اس طرح ہو گاکہ نصابی کتب سے اقبال کے انقلابی کلام کو خارج کردیا جائے کیوں کہ جب بھی عقابی روح نوجوانوں میں بیدار ہوتی ہے وہ ارد گرد کی زنجیروں کی پروا کیے بغیر اپنے  مقصد کے لیے سب کچھ قربان کرنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اسلامی تہذیب و ثقافت کو مسخ کرنے کے بجاے اس کو صحیح خدو خال کے ساتھ پیش کیا جائے تا کہ فحاشی اور نوجوانوں اور ملک کو ہندووانے کی مہم کے ردعمل کے طور پر تشدد کو پیدا ہونے سے روکا جاسکے ۔

  •  جھنجھلاہٹ اور نفسیاتی اضطراب : جب بھی کسی معاشرے میں مظلوم طبقات کے حقوق پر مسلسل ڈاکا پڑتا ہے اور ان کی آواز کو نہیں سنا جاتا، نہ انھیں جائز حقوق دیے جاتے ہیں، تو ایک اجتماعی اضطراب اور جھنجھلا ہٹ کی فضا پیدا ہوتی ہے اور مناسب راستہ نہ ملنے پر یہ تشدد کی تحریک میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ اس کا جواب قوت سے نہیں دیا جا سکتا۔ قوت کا استعمال اس کو مزید بڑھاتا ہے کم نہیں کر سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ دفاعی ماہرین اور سیاسی مفکر دہشت گردی (Terrorism ) اور سیاسی مزاحمت اور بغاوت (Insurgency  ) میںبنیادی فرق کرتے ہیں۔

دہشت گردی کے مسئلے کو شاید زیادہ قوت کے استعمال سے کم کیا جاسکتا ہے ا ور ممکن ہے کچھ عرصے کے لیے سطح آب پر سکون محسوس کیا جا سکے لیکن اندرونی ارتعاش اور لہریں موقع ملتے ہی اُبھر آتی ہیں۔ تحریکاتِ آزادی اس سے بہت مختلف نوعیت کی حامل ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد ڈیڑھ سو کے قریب ممالک آزادی کی تحریکات ہی کے نتیجے میں وجود میں آئے ہیں اور یہ تحریکات بنیادی طورپر سیاسی تھیں مگر ان میں سے ایک بڑی تعداد کو ایک مرحلے میں ریاست کی قوت کے مقابلے میں عسکری مزاحمت بھی کرنا پڑی۔ یہی وجہ ہے کہ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایسی تحریکاتِ مزاحمت کو کبھی دہشت گردی قرار نہیں دیا گیا۔

آج کے حالات میں اس کی بہترین مثالیں فلسطین اور کشمیر کی تحریکات آزادی ہیں جو مقامی جڑوں پر قائم ہیں ۔ یہ بیرونی سازش یا امداد کی بنا پر پیدا نہیں ہوئیں۔ فلسطین میں مزاحمتی تحریک عرب ممالک کی غیر ذمہ داری اور عدم دل چسپی کے باوجود مختلف مراحل سے گزرتی رہی۔ کبھی قومیت پرست سیکولر قیادت کے زیر اثر ،کبھی شیعہ ملیشا کے زیر اثر ، کبھی صرف مقامی افراد مثلاًشیخ احمد یاسین کی مزاحمتی تحریک (حماس)کی شکل میں جو مٹھی بھرافراد اور گولی کے جواب میں پتھر سے شروع ہوئی، لیکن اس تحریک نے اہل فلسطین میں ایک نئی سوچ اور اسلام سے وابستگی میں تازگی پیدا کر دی۔

 یہی شکل مقبوضہ کشمیر کی تحریک مزاحمت کی ہے۔ سید علی گیلانی کی قیادت میں یہ تحریک آج بغیر کسی بیرونی سہارے اسی رُخ پر چل رہی ہے ، جس رُخ پر تیونس میں انقلاب پبا ہوا۔ اس کے مقابلے میں دہشت گرد تحریکات عموماً بیرونی طاقتوں کی امداد سے اُبھرتی ہیں، جیسا کہ ہم بلو چستان میں دیکھتے ہیں،مگر ایسی تحریکات کا مستقل حل بھی محض قوت کا استعمال نہیں ہے ۔ مقامی مسائل کو مقامی افراد کو اعتماد میں لے کر حل کرنے سے ہی دہشت گردی ختم ہو سکتی ہے۔ پاکستان کے تناظر میں انتہا پسندی، شدت پسندی اوردہشت گردی کے خاتمے کا آسان طریقہ تمام اہم فریقوں کو   یک جا کر کے ایک قومی تعمیری اور اصلاحی منصوبے کے ذریعے کیا جاسکتا ہے ۔ البتہ اس کا پہلا اور مؤثر ترین اقدام طویل المیعاد ہو گا، یعنی تعلیمی حکمت عملی کی تشکیل اور نفاذ ۔

نئی تعلیمی حکمت عملی

اس حکمت عملی کی کامیابی کے لیے حکومت وقت کو متفرق نظام ہاے تعلیم کی جگہ ملک میں یکساں نظامِ تعلیم نافذ کرنا ہوگا، جس کے لیے ایک مشترکہ قومی تعلیمی نصاب کو سرکاری اور نجی دونوں شعبوں میں نافذ کرنا ہو گا۔ چاہے یہ نجی اسکولوں کو ناگوار ہی کیوں نہ ہو۔ یہ مسئلہ محض وسیع البنیاد تعلیم سے حل نہیں ہو سکتا کیوں کہ اس کا نقطۂ آغاز ہی دینی اثرات کو زائل کرنے کے لیے جدید ترین یورپی اور امریکی نصابات کا پاکستان کے مدارس اور جامعات میں نافذ کرنا ہے۔ ہمیں ان نصابات کا جائزہ لے کر یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ جن یورپی ممالک اور امریکا کے لیے یہ نصاب بنائے گئے ہیں، کیا ان کی قومی ترجیحات ، مقاصد، ثقافتی، دینی اور معاشرتی ضروریات اور ہماری ثقافت،  نظریۂ حیات اور اہداف میں کوئی قدرمشترک ہے؟کیا یہ نام نہاد ’وسیع بنیادوں والی تعلیم‘ نظریۂ پاکستان پر اعتماد کو بڑھائے گی یا مزید کمزور کرے گی؟کیا یہ درآمد کی ہوئی فکر پر مبنی تعلیم ہماری نسل کو اسلامی اقدار ، اسلامی کردار اور خصوصاً سیرتِ پاکؐ کے رحمت ، درگزر، امانت ، سچائی ، شہادت حق ،ظلم کے خلاف استقامت کے ساتھ جہاد کرنے ، علم کی اشاعت اور عدل کے قیام کی کوششوں کو نوجونوں کے دل و دماغ میں جاگزیں کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے ؟

 مسئلے کا حل یہ ہے کہ تعلیمی نصاب میں براہِ راست علامہ محمد اقبال ، قائد اعظم اور اُمت کے معتبر اہلِ علم کے خیالات کو قوم کے نوجوانوں کے ذہنوں میں راسخ کیا جائے، تاکہ آج سے ۱۰سال بعد جو نسل تعلیم گاہوںمیں اعلیٰ تعلیم کے لیے آئے، پاکستان کے حوالے سے اس کی    نظریاتی بنیاد مضبوط ہو اور وہ کسی انتہا پسندی کا شکار نہ ہو۔ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ لا دینیت سے زیادہ انتہا پسند فکر آج تک وجود میں نہیں آئی۔ کیوںکہ لادینیت خود کو اعلیٰ ترین سچائی قرار دے کر صرف اپنی ہی سچائی کی ڈفلی بجاتی ہے اور نقار خانے میں کسی اورکی آواز کو سننے کی روادا ر نظر نہیں آتی ۔

 تعلیمی حکمت عملی میں قرآن کریم کی اخلاقی ، معاشرتی ، معاشی ، ثقافتی اور سیاسی تعلیمات پر خصوصی توجہ دی جانی چاہیے۔ سیرتِ پاکؐ کے ہر پہلو پر ذہن سازی کی جائے ۔ عالم اسلام سے نوجوانوں کی وابستگی کو بڑھایا جائے ۔ انھیں اس ملک کے عوام کی قربانیوں سے جو انھوں نے اسے حاصل کرنے کے لیے دیں، ان سے آگاہ کیا جائے۔ اور پھر پڑوسی ملک کے جارحانہ اقدامات کے جواب میں افواج پاکستان کے جوانوں نے جو قربانیاں دیں اور عوام نے اپنا سب کچھ بازی پر لگایا، اس تاریخی اثاثے سے نوجوانوں کو آگاہ کیا جائے، تاکہ وہ قومی تشخص کو نہ صرف سمجھیں بلکہ پاکستانی ہونے پر فخر کریں۔

ہمہ گیر معاشرتی حکمت عملی

 ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ اصلاح کا آغاز ہمیشہ گھر کی تربیت گاہ سے ہوتا ہے، جہاں خاندان کا ادارہ بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ آج خاندان برقی اوراخباری صحافت دونوں کے ذریعے تباہ کیا جارہا ہے۔ خاندان کا تحفظ اور اسلامی خاندانی اخلاقیات کو آنے والی نسل کے ذہن میں بٹھانے کی ضرورت ہے ۔یہ کام تعلیم گاہ ، خود گھر کے افراد ، اساتذہ، سب کو مل کر کرنا ہو گا۔جتنا گھر مضبوط ہو گا اتنا ہی ملک اور قوم مضبوط ہو گی ۔ اس وقت ابلاغ عامہ اور درسی کتب نوجوانوں کوجو تعلیم دے رہے ہیں، اس میں تاخیر سے شادی کرنا ،خاندان کو مغرب کے زیر اثر صرف شوہر ، بیوی اور ایک دو بچوں تک محدود سمجھنا اور باقی سارا وقت کاروبار،گھومناپھرنا ، کھانے کا لطف اٹھانا اور لوگوں سے گپ بازی کرنا وغیرہ شامل ہے۔ہمیں زندگی کے مقصد اور معاشرتی یکسوئی اور یک جہتی کے لیے بنیادی تصورات کی اصلاح کرنی ہو گی۔ ہمیں استاد کی عزت اور مرتبے کو بلند کرنا ہو گا۔ایک اجتماعی حکمت عملی کے بغیر یہ کام نہیں ہو سکتا۔ایک ہمہ گیر حکمت عملی ہی مسئلے کا صحیح حل کر سکتی ہے۔

ابلاغ عامہ کے لیے اخلاقی ضابطے کا نفاذ

بدقسمتی سے آج ہمارے ابلاغ عامہ کا اہم کام بے حیائی کو معاشرے میں عام کرنا بن گیا ہے۔ یہ نہ صرف شدید رد عمل کو دعوت دے رہا ہے، بلکہ ہمارے قومی اخلاق کو تباہ کر نے میں مصروف ہے۔ اس لیے انتہا پسندی کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے ابلاغِ عامہ کے لیے اخلاقی ضابطے کو پوری قوت سے نافذکرنا ہو گا۔ اس وقت ایک ا یسے ملک میں جہاںغیر مسلموں کی تعداد محض ۳فی صد ہے،  ابلاغِ عامہ کی آزادی کے نام پر ۲۰نجی چینل صرف ہندو ازم ، عیسائیت اور قادیانیت کی تبلیغ پاکستان کے غیر تعلیم یافتہ عوام میں کر رہے ہیں۔بھارت سے فحاشی ، پاکستان دشمنی  اور ’مہا بھارتی‘ تصور کو فروغ دینے والے پروگرام کثرت سے نشر ہو رہے ہیں ۔  یہ پروگرام صوبائی عصبیت اور خود مختاری کو اُجاگر کر رہے ہیں۔ہمارے ہاں کے چارمسلک پرست طبقے اپنے اپنے مسلک کے لیے برقی ابلاغ عامہ کااستعمال کر رہے ہیں ۔ صرف ایک مسلک کے آٹھ سے زائد چینل پاکستان میں دیکھے جارہے ہیں ۔ کیا اس طرح ہم ملکی امن ، رواداری ، محبت اور یک جہتی پیدا کر سکتے ہیں؟ یہ’ابلاغی آزادی‘ ملک کو کس سمت میں لے کر جا رہی ہے؟ کیا اس طرح رواداری، برداشت اور محبت پیدا ہو سکتی ہے؟

۴- قرآنی تصور :میانہ روی و اعتدال

حقیقت یہ ہے کہ انتہا پسندی اسلام کے بنیادی اصولوں سے متصادم ایک تصور ہے ۔ قرآن کریم نے کسی اور کو نہیں خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم کو، انسان کامل کو،کسی اور معاملے میں نہیں عبادت کے معاملے میں، یہ ہدایت فرمائی کہ وہ عبادت میں بھی اعتدال اختیار کریں ۔ آج اگر ہم کسی اللہ کے بندے کے بارے میں یہ سنتے ہیں کہ وہ تمام رات عبادت کرتا ہے تو ہم اسے اللہ کا ولی قرار دیتے ہیں ۔ قرآن اپنے رسولؐ سے کہتا ہے آپ تمام رات قیام نہ فرمائیں بلکہ رات کا نصف حصہ یا اس سے کم یاکہیں اس سے زیادہ وقت نماز میں صرف کریں۔ قرآن کسی اور معاملے میں نہیں اللہ تعالیٰ کی راہ میں انفاق اور خرچ کرنے کے بارے میں فرماتا ہے کہ نہ ہاتھ گردن سے باندھو،  نہ اسے بالکل کھلا چھوڑ دو۔ وہ گفتگو میں توازن کے لیے کہتا ہے کہ نہ آواز زیادہ بلند ہو نہ محض سرگوشی ہو۔ وہ کھانے پینے کے بارے میں ، لباس کے کے بارے میں ، غرض زندگی کے ہرہرعمل کے بارے میں انتہا پسندی کو شدت سے منع کرتا ہے ۔ اگراللہ کے کلام کے مفہوم اور معانی کو ایک بچہ بچپن سے اپنے دل ودماغ میں جاگزیں کر لے تو کیا وہ دہشت گرد بن سکے گا؟

قرآن جس اعتدال،توازن اور میانہ روی کی تعلیم دیتا ہے اس کی ایک مثال اس واقعے میں ہے جس میں تین اصحابِ رسولؐ نے اُمہات المومنینؓ سے جا کر یہ پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معاملات کیا ہیں؟انھیں بتایا گیا کہ آپؐ کس طرح زندگی گزارتے ہیںلیکن جب وہ یہ سن کر واپس لوٹے تو انھوں نے سوچا کہ آپؐ تو اللہ کے رسول ہیں ، اس لیے شاید اللہ نے آپ کو رخصت دی ہے کہ تمام رات عبادت نہ کریں لیکن ہم تمام رات نماز پڑھیں گے۔ مزید یہ بھی سوچا کہ وہ کبھی نفلی روزے کا ناغہ نہیں کریں گے،اور نیکی کے حصول کے لیے شادی سے بچیں گے۔آپ ؐکو جب ان کے ان ارادوں کا علم ہوا تو انھیںطلب فرمایا اوران سے پوچھا کہ کیا تم نے یہ کچھ کہا ہے؟ انھوں نے کہا کہ ہاں، توآپؐ بات کا آغاز یو ں فرماتے ہیں کہ آپؐ اللہ کے رسول ہیں اور ان سے زیادہ اللہ کا تقویٰ اور خشیت کرتے ہیں۔ وہ عام دنوں میں کبھی روزہ رکھتے ہیںاور کبھی ناغہ بھی کرتے ہیں۔ کبھی رات کو قیام بھی کرتے ہیں اور کبھی آرام بھی کرتے ہیں اور نکاح بھی آپ کی سنت ہے اور جو اس کو ناپسند کرتا ہے، وہ ہم میں سے نہیں ہے ۔ گویا جو شخص جان کر اس لیے نکاح نہ کرے کہ یہ دنیاوی چیز اور تقویٰ کے خلاف ہے ،وہ نبیؐ کی امت میں سے نہیں ہے۔

ان واضح ارشادات کو جو بھی غور سے پڑھے گا، کیا وہ رہبانیت کا راستہ اختیار کرکے کسی خانقاہ میں بیٹھ کر، گھر بار اور معاشرت کو چھوڑ کر اللہ سے قریب ہوناچاہے گا؟___ یہ وہ متوازن ، عادلانہ اور میانہ روی کا رویہ ہے جو سیرت پاک ؐسے اُجاگر ہوتاہے ۔ اگر یہ پہلو تعلیم کے ذریعے ذہن میں جاگزیں ہوتو کیا دہشت گردی، انتہا پسندی پیدا ہو سکتی ہے ؟مسئلے کا حل سزائیں نہیں اخلاق کی تعلیم و تر بیت ہے اورسیرتِ پاکؐ کی لازمی تعلیم ہے جس کے نتیجے میں پایدار امن اور عدل کے نظام کاراستہ ہموار ہوسکتا ہے ۔

دنیا کی تمام اصلاحی تحریکیں حصولِ مقصد کے لیے ایک لائحہ عمل تجویز کرتی ہیں۔ پھر اہداف کے حصول یا ان کے حصول میں مزاحمت، مسائل اور مشکلات کے پیش نظر وقتاً فوقتاً،  ہدفِ منزل کو  نگاہ سے اوجھل کیے بغیر ،حکمتِ عملی میں مناسب تبدیلی کرتی ہیں۔ حکمتِ عملی کی تبدیلی نہ تو مقصد سے انحراف کی علامت ہوتی ہے اور نہ حصولِ مقصد کے عزم میں کمی یا مایوسی کا مظہر۔

مکہ مکرمہ کو دوبارہ تمام انسانیت کا قلب اور مرکز اور اہلِ ایمان کا قبلہ بنانے کا ہدف    مکہ مکرمہ سے ہجرت کرنے کے بعد، مدینہ منورہ میں ایک اسلامی معاشرے اور ریاست قائم کرنے کے آٹھ سال بعد حاصل کیا گیا۔ اس دوران جو وقت لگا، اس کا ایک ایک لمحہ اصحابِ رسولؐ کے لیے ایک ایک دور سے کم نہ تھا۔

چنانچہ بار بار متٰی نصراللّٰہ کے الفاظ دل و زبان سے ادا ہوتے تھے، حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ کی نصرت آن پہنچی اور فتح مکہ نے تکمیل رسالت اور حصولِ مقصد کا دروازہ کھول دیا۔ لوگ جوق در جوق قافلۂ حق میں داخل ہونے لگے۔ وہ دین جسے اس کے روحانی مرکز سے قوت کے بل پر بے دخل کرنے کی طاغوتی کوشش کی گئی تھی، قیامت تک کے لیے دوبارہ مرکزِ ابراہیمی کا دستور بن گیا۔ اس آٹھ دس سال کے عرصے میں، دین متین کے پیغام بَر کے دل و دماغ میں جو تلاطم بپا رہا ہوگا، اس کا اندازہ صرف رب کریم ہی کو ہوسکتا ہے، لیکن جس استقامت اور صبر کے ساتھ ہادی اعظم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکمتِ عملی کے ہرمرحلے کی تکمیل فرمائی، وہ آیندہ ہرعہد کی تحریکاتِ اسلامی کی قیادت اور کارکنوں کے لیے بہترین نمونہ اور اسوہ فراہم کرتی ہے۔ اس طویل اور صبر آزما حکمتِ عملی میں بدروحنین بھی ہیں، حدیبیہ جیسے نازک مراحل بھی ہیں، اُحد و اَحزاب جیسی آزمایش بھی ہے اور  خیبر اور مکہ کی فتوحات بھی۔ اس تمام دورانیے میں نبی خاتم سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا غیرمتزلزل عزم، مقصد و ہدف کا واضح ہونا، اور مناسب حال حکمتِ عملی کا وضع کرتے رہنا بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔

نبی اکرمؐ کی انقلابی حکمتِ عملی

انبیاے کرام ؑ کو یہ امتیاز اور اعزاز حاصل ہے کہ وہ جو حکمتِ عملی وضع کرتے ہیں ، اسے براہِ راست اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی تائید و نصرت حاصل ہوتی ہے، اور اگر کسی موقعے پر اس میں کسی نظرثانی یا اصلاح کی ضرورت ہو تو وحی کے ذریعے اسے استوار کردیا جاتا ہے۔ چنانچہ فتحِ بدر کے بعد مفتوح کے ساتھ کیا رویہ اختیار کیا جائے؟ یا حدیبیہ کے موقعے پر معاہدے کی نوعیت کیا ہو؟  یا مکہ کو فتح کرنے کے لیے کس طرح لشکر کو ترتیب دیا جائے؟ فتح کے بعد کیا شکل اختیار کی جائے؟ ان تمام معاملات میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو براہِ راست وحی کے ذریعے اپنی حکمتِ عملی میں مناسب تبدیلی کرنے کا اعزاز حاصل رہا۔ یہ شکل بعد کی اسلامی تحریکات میں نہیں ہوسکتی۔ انھیں تو اپنے تجربات کی روشنی میں اپنی محدود عقل کو جہاں تک وہ پہنچ سکے، استعمال کرکے ہی وقتاً فوقتاً اپنی حکمتِ عملی پر نظرثانی کرنی ہوگی۔ لیکن لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا کی یقین دہانی تو موجود ہے، بس شرط جَاھَدُوْا فِیْنَا کی ہے،جس میں جدوجہد کا حق ادا کرنا اس کی اصل اور روح ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی انقلابی حکمتِ عملی کو تین دائروں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔  اوّلاً: اصلاحِ قلب اور روحانی حکمتِ عملی، ثانیاً:تعلیمی اور دعوتی حکمتِ عملی، اور ثالثاً: رفاہی اور اجتماعی زندگی کی تبدیلی کی حکمتِ عملی۔

  •  روحانی حکمتِ عملی: روحانی حکمت عملی کا نقطۂ آغاز اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ سے براہِ راست تعلق کو قائم کرنا اور اس کی بندگی کے وہ طریقے اختیار کرنا ہے جو خود وحی الٰہی نے تعلیم کیے ہوں۔   یہ فرمانے کے ساتھ کہ اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ تَطْمَئِنُّ قُلُوْبُھُمْ بِذِکْرِ اللّٰہِ ط اَلَا بِذِکْرِ اللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ o (الرعد ۱۳:۲۸) ’’ایسے ہی لوگ ہیں وہ جنھوں نے (اس نبیؐ کی دعوت کو) مان لیا ہے اور ان کے دلوں کو اللہ کی یاد سے اطمینانِ نصیب ہوتا ہے‘‘___ اللہ کے ذکر کرنے کو مبہم نہیں چھوڑا گیا، ورنہ عقلِ انسانی اپنی بساط کے مطابق اپنی پسند کے طریقے نکال لیتی۔ یہی وجہ ہے کہ  اللہ کو الٰہ اور رب تسلیم کرنے اور اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے عقدِ اطاعت کا رشتہ قائم کرنے کے بعد صلوٰۃ، زکوٰۃ، صیام، حج اور جہاد کی شکل میں اللہ کے ذکر کے طریقے مقرر فرما دیے گئے اور ان پر عمل کے لیے سنتِ رسولؐ کی شکل میں ایک مکمل نقشۂ کار متعین فرما دیا گیا۔ اللہ کا ذکر اس سے بہتر شکل میں اور کیا ہوسکتا ہے کہ دنیا کے ہرگوشے میں دن میں پانچ مرتبہ بلند میناروں سے اس کی عظمت، کبریائی، حاکمیت اور دیگر تمام خدائیوں کا انکار ہو اور صرف اسی سے فلاح کا رشتۂ اُمید قائم کیا جائے، اور اس بات کا تذکرہ ہو کہ انسانوں کے لیے اگر کوئی مثال قابلِ عمل و تقلید ہوسکتی ہے، تو وہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ ہے۔ اس کی صداقت کی شہادت ہر ہر اذان میں دنیا کے ہرگوشے میں دن میں پانچ مرتبہ دی جاتی ہے۔

تعلق باللہ کی ایک دوسری عملی شکل صیامِ رمضان میں پائی جاتی ہے۔ جس طرح نماز میں مکمل بندگی و اطاعت کا اظہار، زبان کی ہرہر جنش اور جسم کی ہر ہر حرکت سے ہوتا ہے، ایسے ہی روزے کے دوران ایک نوعمر ہو یا بوڑھا، جوان ہو یا بچہ، تنہائی میں ہو یا محفل میں، پورے ایک ماہ اللہ تعالیٰ کے ہمہ وقت موجود ہونے کے احساس کے ساتھ، دن اور رات کے ہرلمحے میں اللہ کی خوش نودی کے لیے نماز، تلاوتِ قرآن، قرآن پر غوروفکر، انفاق و صدقات میں کثرت، دوستوں اور غیروں کی ضیافت میں اضافہ، غرض عبادات ہوں یا معاملات، ہر معاملے میں اللہ کی بندگی ہی پیش نظر رہتی ہے۔ ایک ماہ کی مسلسل تربیت ِروحانی ایک مسلم مرد اور عورت کو اپنے لیل و نہار کو پابندیِ وقت کے ساتھ اپنے رب کی بندگی اور اللہ کے بندوں کی خدمت کا عادی بنا دیتی ہے اور اس تربیت کے اثرات سال کے بقیہ مہینوں تک برقرار رہتے ہیں۔ یہ تعلق ربانی تصورِ حیات میں انقلابی تبدیلی  لاتا ہے اور تزکیۂ نفس کے ان آداب سے آگاہ کرتا ہے جو سنت ِمطہرہ میں پائے جاتے ہیں۔

پھر حج اس کا ایک مجرب نسخہ ہے۔ اللہ سے تعلق اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگا کہ اس کے لاکھوں بندے اس کے بتائے ہوئے مہینے اور دنوں میں اپنے قومی لباس اور زبانوں کو خیرباد کہہ کر یک زبان ہوکر لبیک اللھم لبیک اور  اللّٰہ اکبر اللّٰہ اکبر لا الٰہ الا اللّٰہ کا نغمہ بلندکرتے ہیں، حتیٰ کہ وہ اپنی آنکھوں سے حرمِ کعبہ کو دیکھ لیں۔ بات یہاں آکر نہیں رُک جاتی۔ اب تک اللہ سے قرب اور تعلق کا اظہار زبان سے اس کی تکبیرات سے ہو رہا تھا، اب نگاہ ہو یا قلب، قدم ہوں یا پیشانی اور ہاتھ، ہر ہر عضو جسم اللہ کے گھر میں اس کی عظمت و احسانات کے پیش نظر فرش گیر ہوجاتا ہے۔

اللہ سے تعلق و قربت، نہ صرف عمرہ اور حج کی شکل میں، بلکہ پیداوارِ دولت کے ذریعے بھی اختیار کی جاتی ہے۔ ایک تاجر ہو یا کسان، اس کی ہرمعاشی کوشش کا مرکزی نکتہ یہ ہوتا ہے کہ     وہ کس طرح اپنے مال کو حلال اور مباح طریقے سے پیدا کرے اور اللہ کی رضا اور خوش نودی کے لیے اس کا بہترین حصہ اس کی راہ میں خرچ کر کے عاجزی سے اس کی قبولیت کی درخواست کرے۔

 یہ تعلق باللہ رات کی تاریکی میں ان تنہائیوں میں بھی ہوتا ہے جب بندہ اپنے رب کے حضور سجدہ ریز ہوکر اپنی بندگی کا اظہار کرتا ہے۔ یہی تعلق باللہ اسے مجبور کرتا ہے کہ وہ ظلم و جبراور ناانصافی کے خلاف، طاغوتی نظام سے نجات اور حق کے نظام کے قیام کے لیے اپنے مال اور نفس کو اللہ کے حضور پیش کردے۔ بالکل اسی طرح معاشرے میں بڑھتی ہوئی اباحیت کو روکنے کے لیے اس کا اپنے مال اور صلاحیت اور وقت کا استعمال بھی رب کریم کے ذکر کی ایک شکل ہے۔ تعلق باللہ اور روحانی ترقی کا ایک اور مؤثر ترین ذریعہ قرآن کریم کی رفاقت ہے۔ جب قرآن کریم ایک صاحب ِ ایمان کا رفیق بن جاتا ہے تو پھر اسے کسی اور کی رفاقت کی ضرورت نہیں رہتی ہے۔ یہ پُراز حکمت خزینہ اس کے تمام مسائل اور مشکلات کا جامع حل بدلتے حالات میں فراہم کرتا ہے۔

روحانی حکمتِ عملی کے بغیر دیگر مراحل، منزلِ مقصود تک پہنچنے میں کوئی امداد فراہم نہیں کرسکتے۔ روحانی حکمتِ عملی محض چلّوں اور مراقبوں کا نہیں، میدانِ کارزار میں جان و مال کے جہاد کا مطالبہ کرتی ہے۔ یہ روح و جسم اور قلب و ذہن کی دوئی کو ختم کر کے اللہ کے بندے کے مکمل وجود کو توحید کے رنگ میں رنگ دیتی ہے۔ یہ اللہ کی مشیت اختیار کرنے کا نام ہے۔ یہ اپنی زندگی اور موت اور تمام معاملات کو صرف اور صرف اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی بندگی میں دے دینے سے حاصل ہوتی ہے: قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَo (انعام ۶:۱۶۲) ’’کہو میری نماز، میرے تمام مراسمِ عبودیت، میرا جینا اور میرا مرنا، سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے‘‘۔

روحانی حکمتِ عملی ایک شخص کو تمام غلامیوں سے نکال کر ایک ایسا مردِ حُر بنادیتی ہے کہ وہ نہ کسی سے ڈرتا ہے نہ دبتا ہے، بلکہ مکمل طور پر اللہ کا عبد بن جاتا ہے۔ اللہ کی عبدیت کا حصول ہی اگلے دائرے کی طرف پیش قدمی کرنے والا پہلا قدم ہے جس کی طرف قرآن کریم نے یوں اشارہ کیا ہے : یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیْھِمْ وَ یُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَ الْحِکْمَۃَ (اٰل عمرٰن۳: ۱۶۴) ’’جو اس کی آیات انھیں سناتا ہے، ان کی زندگیوں کو سنوارتا ہے اور ان کو کتاب اور دانائی کی تعلیم دیتا ہے‘‘۔

انبیاے کرام ؑاور خصوصاً خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا مشن ایک دعوتی، تعلیمی اور تربیتی حکمتِ عملی کے ذریعے معاشرتی انقلاب تھا۔ اسلام میں روحانیت، معاشرے سے کٹ کر تجرد میں نہیں بلکہ معاشرے کی سرگرمیوں میں شریک ہوتے ہوئے ضبط نفس اور استقامت کے ساتھ قیامِ حق کی جدوجہد سے حاصل ہوتی ہے۔ تقویٰ اور نیکی محض مشرق یا مغرب کی طرف رُخ کرلینے کا نام نہیں ہے بلکہ شعوری طور پر اللہ سبحانہ وتعالیٰ کو اپنا رب، رسولؐ کو اپنا قائد، اللہ کی نازل کردہ شریعت کو ضابطہ حیات، اور اس کے ساتھ معاشرے کے ضرورت مند افراد کی خبرگیری اور امداد، انھیں قرضوں سے نجات دلاکر، بھوک اور افلاس سے نکال کر ایک باوقار اور باعزت زندگی گزارنے کے قابل بنانے کا نام ہے۔ یہ معاشرے سے برائی کو مٹانے اور حق و صداقت کو غالب کرنے کی پیہم کوشش کا نام ہے۔ سورئہ بقرہ کی آیت البر اس پہلو کی وضاحت کرتی ہے:

لَیْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْھَکُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَ لٰکِنَّ الْبِرَّمَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ الْمَلٰٓئِکَۃِ وَ الْکِتٰبِ وَالنَّبِیّٖنَ ج وَ اٰتَی الْمَالَ عَلٰی حُبِّہٖ ذَوِی الْقُرْبٰی وَ الْیَتٰمٰی وَ الْمَسٰکِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِ وَ السَّآئِلِیْنَ وَ فِی الرِّقَابِ ج وَ اَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَی الزَّکٰوۃَ ج وَ الْمُوْفُوْنَ بِعَھْدِھِمْ اِذَا عٰھَدُوْا ج وَ الصّٰبِرِیْنَ فِی الْبَاْسَآئِ وَ الضَّرَّآئِ وَ حِیْنَ الْبَاْسِ ط اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا ط وَ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُتَّقُوْنَo  (البقرہ۲: ۱۷۷) نیکی یہ نہیں ہے کہ تم نے اپنے چہرے مشرق کی طرف کرلیے یا مغرب کی طرف، بلکہ نیکی یہ ہے کہ آدمی اللہ اور یومِ آخر اور ملائکہ کو اور اللہ کی نازل کی ہوئی کتاب اور اس کے پیغمبروں کودل سے مانے اور اللہ کی محبت میں اپنا دل پسند مال رشتہ داروں اور یتیموں پر، مسکینوں اور مسافروں پر، مدد کے لیے ہاتھ پھیلانے والوں پر اور غلاموں کی رہائی پر خرچ کرے۔ اور نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے۔ اور نیک لوگ وہ ہیں کہ جب عہد کریں تو اُسے وفا کریں اور تنگی و مصیبت کے وقت میں اور حق و باطل کی جنگ میں صبر کریں۔ یہ ہیں راست باز لوگ اور یہی لوگ متقی ہیں۔

  •  تعلیمی و دعوتی حکمتِ عملی: ایک معلم اسی وقت کامیاب ہوسکتا ہے جب وہ خود اپنی تعلیم کا مرقع ہو۔ تعلیم اسی وقت مؤثر ہوسکتی ہے جب وہ حکمت و دانائی سے پُر ہو۔ مکی دور میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو تعلیمی حکمتِ عملی اختیار کی، اس نے نہ صرف فکری تربیت کی بلکہ اُنھیں سیرت سازی کے عمل سے بھی گزارا۔ اس عمل میں اُنھیں دائرۂ اسلام میں داخل ہونے والوں کی    ابتلا و آزمایش کی بھٹی سے بھی گزرنا پڑا، لیکن وہ کندن بن کر نکلے۔ یہ تربیت نظری کے ساتھ ساتھ بلکہ اس سے بھی کچھ زیادہ عملی تھی۔ جو اس تربیت کے نظام سے گزر گیا وہ اپنا گوہرِ مقصود پا گیا، اللہ اُس سے خوش اور وہ اللہ سے خوش ہوگیا۔

اس نظامِ تعلیم و تربیت میں وقت کی اہمیت اور پابندی کی صفت پیدا کرنے کے لیے نظامِ صلوٰۃ کو ذریعہ بنایاگیا۔ چنانچہ ہر موسم میں دن ہو یا رات، صبح ہو یا شام، نماز کو مقرر اوقات پر قائم کرنے کے نتیجے میں تحریک کا ہرکارکن ایک آواز پر مقررہ وقت پر حاضر ہونے کا عادی بن گیا۔ اس نظامِ تعلیم میں بے غرضی، خلوص، ایثار و قربانی، اپنے مال اور جان کو اللہ کے لیے حاضر کردینے کی تمنا ہرہرکارکن کی شخصیت کا حصہ بن گئی۔ اس نظامِ تربیت میں سمع و طاعت کے ساتھ ساتھ ہرمعاملے میں مشاورت کو اختیار کیا گیا اور اس طرح کارکنوں میں وابستگی کا احساس پیدا کیا گیا۔ اب وہ بکھرے ہوئے موتیوں کے مانند نہ تھے بلکہ ایک تسبیح کے دانوں اور ایک ہار کے موتیوں کی طرح ایک دوسرے سے منسلک ہوکر ایک دوسرے کے لیے قوت اور سہارا بن گئے تھے۔ ان کی گفتگو نصیحت کی گفتگو تھی کہ تمام معاملات میں دوٹوک راے کے ذریعے ایک مجموعی راے تک پہنچا جاسکے۔ جب تک مسلم معاشرے میں تعلیم و تربیت کا یہ نظام برقرار رہا، مسلم معاشرہ ترقی کرتا رہا۔ مسلمانوں کی سیاسی، معاشی اور عسکری قوت بڑھتی رہی لیکن جب شورائیت کی جگہ خودرائی، تنہا ایک شخص کا اپنی راے کا دوسروں پر مسلط کرنا عام ہو گیا، اور جن سے مشورہ کیا جاتا، وہ بھی یہ دیکھ کر مشورہ دینے لگے کہ کہیں مشورے سے ان پر کوئی زد نہ آئے، تو پھر معاشرے کا زوال شروع ہوگیا۔ اس تبدیلی کو خلافت سے ملوکیت اور شخصی حکمرانی کی طرف رجعتِ قہقری کے تناظر میں بھی پورے طور پر سمجھا جاسکتا ہے۔

تعلیمی حکمتِ عملی اس لیے ضروری ہے کہ یہ ایک خاموش اور دیرپا انقلاب لے کر آتی ہے۔ اس کی پہچان کارکنوں اور قیادت میں اسلامی شخصیت کا پایا جانا ہے۔ جس طرح ایک پھل والے بیج کی شخصیت اُس پھل کے درخت میں ظاہر ہوتی ہے، بالکل اسی طرح اسلامی تعلیمی حکمتِ عملی کے زیراثر تربیت پانے والی ہرشخصیت ایک پھل دار درخت کی طرح مستحکم و مستقیم ہوتی ہے۔تعمیرِ کردار اور تربیتِ سیرت سے وہ افرادِ کار تیار ہوتے ہیں جو سخت سے سخت آزمایش کا مقابلہ مسکراتے ہوئے اپنے رب پر اعتماد کے ساتھ کرتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جو صلحا، شہدا اور انبیا ؑکے ساتھ اپنے رب کے سامنے پیش ہوں گے۔ تعلیمی حکمتِ عملی وہ مردانِ کار تیار کرتی ہے جو اقامت دین کی جدوجہد  نہ صرف سیاسی میدان میں بلکہ اپنے گھر میں، محلے میں،مسجد میں، کاروبار میں، معاشرتی تعلقات میں، غرض ہرممکنہ انسانی شعبۂ حیات میں اختیار کرتے ہیں اور زبان سے زیادہ ان کا طرزِعمل دوسروں کے لیے تربیت و تعلیم کا ذریعہ بنتا ہے۔ تعلیم دعوت کا ایک حصہ ہے اور دعوت تعلیم کا ثمرہ اور مقصد و مطلوب۔ دونوں میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔

  • رفاھی اور اجتماعی تبدیلی کی حکمتِ عملی:رفاہی حکمت عملی اولین دو اجزا کا لازمی اور منطقی نتیجہ ہے۔ جب ایک تحریکی کارکن یا تحریکی قیادت تعلق باللہ کی بنیاد پر اپنے روحانی تعلق کو تعلیمی اور تربیتی حکمتِ عملی میں ڈھالتی ہے، تو پھر دعوت کا دائرہ خدمت خلق میں داخل ہوجاتا ہے اور اللہ کی بندگی اور اس کے حقوق کی ادایگی کے ساتھ تحریک کو اپنی توجہ اللہ کے بندوں پر مرتکز کرنی پڑتی ہے۔ اسلامی انقلاب اور تبدیلیِ قیادت کی راہ میں یہ ایک لازمی قدم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حدیث قدسی میں اللہ رب العزت ہمیں اس طرف متوجہ کرتے ہیں کہ یوم الحساب وہ خود اپنے ایک بندے سے پوچھیں گے: مَیں بھوکا تھا اور تو نے مجھے کھانا نہیں کھلایا۔ اور جب بندہ حیرت سے یہ بات کہے گا کہ رب کریم آپ تو دنیا کو کھلانے والے ، کائنات کی ہرشے کے مالک ہیں، مَیں کیسے آپ کو کھانا کھلاتا؟ تو جواب دیا جائے گا: میرا فلاں بندہ تیرے پاس بھوکا آیا، تو نے اسے کھانا نہیں کھلایا۔ اسی طرح یوم الحساب میں بندے سے جو اگلا سوال کیا جائے گا اس کا تعلق اللہ کے بندوں کی عیادت سے ہوگا، اور ایسے ہی ایک سوال اللہ کے بندوں کو پانی فراہم کرنے سے متعلق ہوگا۔ گویا اگر ہمیں اپنے رب کو اپنے قریب دیکھنے کی تمنا ہے تو حدیث قدسی اس بات کا اعلان کرتی ہے کہ جو شخص کسی کی عیادت کرنے جائے گا ، جو کسی بھوکے کو کھانا کھلائے گا اور جو کسی کو پانی فراہم کرے گا، وہ اللہ تعالیٰ کو اپنے نزدیک پائے گا۔

تعلق باللہ، تعلیم و دعوت اور رفاہ و خدمت ہی دراصل وہ تعمیراتی اینٹیں ہیں، جن سے وہ تعمیر وجود میں آتی ہے جسے اسلامی معاشرہ اور اسلامی ریاست کہا جاتا ہے۔ جس کا نقطۂ فراز، انقلابِ قیادت ہے، جیساکہ مدینہ کی ریاست کی شکل میں ہوا اور اس نے تاریخ کے دھارے کو تبدیل کردیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں تحریک اسلامی کے مکّی دور کے ۱۳سال اور   مدنی دور کے ۱۰سال اور خلافت راشدہ کا روشن دور اسلام، اس کی دعوت، پیغام، مشن اور انقلابی تبدیلی کے لیے نمونے (model) کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس حکمتِ عملی کا ہر حصہ دوسرے سے مربوط اور ایک وسیع تر دعوت کا حصہ ہے۔

اسلامی تحریکوں نے مشرق وسطیٰ اور جنوب مشرقی ایشیا میں اعلیٰ پیمانے کے شفاخانے،اور فلاحی کاموں کے ادارے قائم کر کے اس جواب دہی سے بچنے کے لیے محدود سطح پر کام تو کیا ہے، لیکن اسے تحریکی انقلابی حکمتِ عملی کے ایک بنیادی مرحلے کے طور پر اختیار کرنے کا خواب ادھورا ہے۔ پاکستان میں جس کام کا آغاز ۱۹۵۰ء کے عشرے میں کراچی میں مرحوم چودھری غلام محمد امیرجماعت اسلامی کراچی نے کیا تھا، اسے وہ وسعت نہ دی جاسکی جس کا وہ متقاضی تھا۔ اگر تنقیدی نگاہ سے دیکھا جائے تو ترکی میں تحریکِ اسلامی کی فکر رکھنے والے افراد کا ۳۰سالہ جدوجہد کے بعد اختیار و اقتدار میں آنا جہاں اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی خاص عنایت و رحمت ہے، وہاں اس میں بڑا دخل اس تیسرے مرحلے کا بھی ہے، یعنی فلاحی حکمتِ عملی۔

اگر سیلاب زدگان کے لیے مکانات تعمیر کیے جائیں، اگر بھوکے افراد کو کھانا فراہم کیا جائے اور وہ بھی کیسے؟ یعنی ایک مٹھی بھر گندم یا چاول گھر گھر سے جمع کر کے، تو نہ صرف عوامی شرکت کے ذریعے بلکہ ذاتی اور انفرادی سطح پر کارکنوں کی ایسی لگن کے ذریعے، جس میں معاشرے کی دست گیری، دُکھ درد میں شرکت اور جائز مدد کا ہر پیمانہ شامل ہو۔ اس کے نتیجے میں ایک جانب فرد کی حسنات میں اضافہ ہوگا، دوسری جانب لوگوں کے دُکھ درد کم ہوں گے، اور تیسری جانب خود تحریک کا تاثر محض ایک سیاسی یا انتخابی تحریک کی حد تک محدود نہ رہے گا۔ یہ تاثر ایک دینی، اصلاحی، فلاحی اور سیاسی تحریک کی مجسم تصویر میں ڈھل جائے گا۔

 فلاحی حکمتِ عملی میں بیوائوں کے لیے امداد، یتیموں کی تعلیم و تربیت، بیماروں کی تیمارداری اور صحت کے ایسے مراکز کا قیام شامل ہے جہاں تحریک سے وابستہ ڈاکٹر انھیں مفت مشورہ اور    کم قیمت پر دوائیں فراہم کرسکیں۔ محلوں اور بستیوں میں صفائی مہم، عدم تحفظ کے شکار عوام کو قانونی مشورہ فراہم کرنا یا  ان کے محلے میں کمیٹی بنا کر اپنی حفاظت کے لیے چوکیدار، سڑک کے ناکے پر پوچھ گچھ کا انتظام وغیرہ، ایسے کام ہیں، جن میں کسی بھاری مالی صرفے کے بغیر انتظامی اقدامات اور افرادی قوت کو منظم کر کے نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ یہ وہ چند مثالیں ہیں جن کو سامنے رکھتے ہوئے ہرعلاقے میں تحریک کے افراد خود سوچ کر اپنے لیے ترجیحات مقرر کرسکتے ہیں۔ اس کے لیے مرکز سے کسی ہدایت کی ضرورت نہیں، کہ تحریک نے روزِ اوّل سے ہدایت دے رکھی ہے۔

فلاحی حکمتِ عملی دراصل اسلامی تحریکوں کے اجتہادی ہونے کی دلیل ہے۔ یہ ان کا     ایک امتیاز ہے۔ ان کا اجتہادی ہونا، یعنی مسائل سے گھبرائے بغیر، مایوسی کو پاس نہ آنے دینا اور بصیرت و بصارت کے استعمال سے نئے راستے نکالنا ان کا طرئہ امتیاز ہے۔ سید مودودیؒنے ۱۹۶۳ء میں جماعت کے اجتماع میں جو بات ایک مثال دے کر سمجھائی تھی، اس کا تعلق صرف اس وقت کی صورت حال سے نہ تھا، بلکہ وہ ایک تاریخی حقیقت اور تحریک کے لیے ابدی ہدایت کی حیثیت رکھتی ہے۔ آج کی صورت حال میں اس کی اہمیت اور افادیت کچھ اور بھی دوبالا ہوجاتی ہے۔ انھوں نے فرمایا تھا کہ جب حیات بخش پانی کا ایک چشمہ یا دریا یہ دیکھتا ہے کہ اس کا راستہ پہاڑ نے روک لیا ہے تو وہ پہلو بچا کر نیا راستہ نکال لیتا ہے اور پہاڑ اس کا منہ دیکھتا رہ جاتا ہے۔   نہ صرف یہ بلکہ پہاڑ سے کنارہ کرتا ہوا پانی کا ریلا اسے غیرمحسوس طور پر گھستا رہتا ہے، حتیٰ کہ پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجاتا ہے اور پانی کا ہر نرم و نازک قطرہ شاداں و کامیاب رہتا ہے۔

تبدیلیِ قیادت کا مرحلہ

آج جب ملک میں بار بار یہ بات ابلاغِ عام میں دہرائی جارہی ہے کہ حالیہ بدعنوان حکومتی جماعت کو عوام رد کرچکے ہیں اور سابقہ حکومتی جماعت کے بے اصولی پن نے اسے متبادل کے مقام سے گرا دیا ہے، اور نگاہیں کسی بڑی تبدیلی لانے والی قوت کی طرف اُٹھنے لگی ہیں خواہ    وہ اس کٹھالی سے گزری ہی نہ ہو جو لوہے کو فولاد بناتی ہے۔ زمینی اور سیاسی حقائق جس طرف اشارہ کررہے ہیں، وہ تبدیلی کی ضرورت ہے لیکن یہ بھی اللہ کا قانون اور تاریخ کا سبق ہے کہ ایسے حالات میں تبدیلی کے لیے انقلابی لہروں کا فروزاں ہونا ضروری ہے۔ہمارے لیے یہ بات سنجیدگی سے سوچنے کی ہے کہ ابلاغِ عامہ سے قطع نظر ،کیا سڑک پر چلنے والا ایک عام شہری یا گائوں کا ایک   سادہ لوح انسان، جو موجودہ اور سابقہ حکمرانوں سے یکساں نالاں ہے، مستقبل کی جماعت کی حیثیت سے تحریکِ اسلامی کی طرف دیکھتا ہے؟ اگر معروضی طور پر یہ بات ہے تو ہمیں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے اور اپنی رفتار کا ر میں سو گنا بلکہ ہزار گنا اضافہ کرنے کی فکر کرنی چاہیے تاکہ اللہ کی نصرت سے ہم تبدیلیِ قیادت کی خدمت انجام دے سکیں۔لیکن اگر ایک سرِراہ چلنے والا راہی بھی ابلاغِ عامہ کی طرح یہ سمجھتا ہے کہ اسلامی تحریک اور اصلاحی قوتیں ایسی تیسری ترجیح نہیں بن سکے ہیں، تو پھر ہمیں تجزیہ کرنا ہوگا کہ اس تاثر کو کن ٹھوس، قابلِ حصول، متعین اقدامات کے ذریعے کم سے کم وقت میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔

ممکن ہے اس خود احتسابی کے عمل میں ہمیں کچھ وقت لگے لیکن کم از کم ایک ایسی حکمتِ عملی فوری طور پر اختیار کرنے کی ضرورت ہے جو تعلیمی، دعوتی اور فلاحی کاموں کو بنیاد بناتے ہوئے ایک عام شہری کو یہ پیغام دے سکے کہ تحریکِ اسلامی اس کی فلاح چاہتی ہے اور ملک کو تباہی سے بچانے میں ایک فیصلہ کن کردار ادا کرسکتی ہے۔

یہاں یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ اصل اور آخری ہدف، یعنی رضاے الٰہی کا حصول جو تحریک اسلامی کا ہدف ہے، اور قریب المیعاد حکمتِ عملی میں ربط اور تسلسل کا ہونا بہت ضروری ہے۔ فلاحی کاموں کو صرف اللہ کی رضا کے لیے انجام دینا اس بات سے نہیں روکتا کہ ان کے بارے میں نہ جاننے والوں کو بغیر کسی تعلّی کے معلومات فراہم کی جائیں اور وہ یہ بات سمجھ سکیں کہ اگر پاکستان کو ایک فلاحی اسلامی ریاست بنانا ہے تو اسے کون لوگ یہ مقام دلا سکتے ہیں۔ وہ جو خودغرض، جھوٹ کا کاروبار کرنے والے ہیں، یا وہ جو اللہ کے بندوں کے حقوق کی ادایگی کے لیے اپنا وقت، اپنی صلاحیت، اپنا مال لگانے میں مصروف ہیں۔

’نیکی کر دریا میں ڈال‘ کی اخلاقی کیفیت اپنی جگہ لیکن رنگ و بو کی اس دنیا میں نیکی ہی  نہیں، نیکوکاروں کی خدمات کا ابلاغ (projection) بھی تعلیم، دعوت، خدمت اور انقلاب کی  حکمتِ عملی کا اہم حصہ ہے۔ یہ دنیا ظاہر (image) اور تصور (perception) کی دنیا ہے اور   اچھے لوگوں اور نیک خدمات کا صحیح ابلاغ خودپسندی یا خودنمائی کے زمرے میں نہیں آتا، بلکہ   دعوتی حکمتِ عملی کا ایک نہایت اہم حصہ ہے۔ تحریکِ اسلامی کی قیادت اور کارکنوں کو اس امر پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے کہ ان کا پیغام اور ان کی خدمات کا صحیح صحیح اِدراک ہر خاص و عام میں کس طرح پیدا کیا جاسکتا ہے۔

اس نکتے پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اسلامی تحریکوں نے مصر ، تیونس اور مراکش میں کیا صرف منفی نعروں، یعنی سامراجی قوتوں کو ماربھگانے کے تذکرے سے یا مثبت نعروں، یعنی عوام کی فلاح، معیشت، تحفظ، صحت، تعلیم، روزگار اور حصولِ عدل کو اپنی حکمتِ عملی کے بنیادی نکات بنایا، اور پھر ایک عرصہ اس حوالے سے عوامی سطح پر کام کرکے لوگوں کو یقین دلایا کہ وہ جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔

ایک ایسے دور میں جب ہم اعتماد کے فقدان، خلوص کے افلاس اور اُمید سے محرومی کا شکار بنادیے گئے ہیں، ہم عوام الناس کو ان ذہنی اور روحانی امراض سے کس طرح اور کتنی جلد نجات دلا سکتے ہیں؟ نجات اور رہنمائی کے اس عمل کے لیے ہمیں اسلوبِ بیان اور تکنیک میں کس تبدیلی کی ضرورت محسوس ہوتی ہے؟ کیا آج تک اختیار کی گئی سیاسی زبان اور دعوتی اسلوب اس مقصد کے حصول کے لیے کافی ہے؟ ہمیں اس کے لیے اجتماعی طور پر غور کرنا ہوگا، تاکہ اُس برکت کے نتیجے میں جو اجتماعی مشورے کا خاصا ہے، ہم ایسی فلاحی حکمتِ عملی وضع کرسکیں جو یوم الحساب سرخروئی اور اس دنیا میں عادلانہ نظام کے قیام اور عوام الناس کو مایوسی سے نجات دلانے کا ذریعہ بن سکے۔

تحریکاتِ اسلامی کا نصب العین معاشرتی تبدیلی اور انقلاب کا برپا کرنا ہے ۔ اس نصب العین کے حصول کا ایک اہم ذریعہ تعلیم ہے۔ اس لیے منصب رسالت پر فائز کرتے وقت داعی اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے معلمانہ کردار سے آگا ہ کیا گیا تھا اور اولین ہدایت یہ دی گئی تھی کہ:

اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ o خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ o اِقْرَاْ وَرَبُّکَ الْاَکْرَمُ o الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ o عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ o (العلق ۹۶:۱-۵) (اے نبیؐ) پڑھو اپنے رب کے نام کے ساتھ جس نے پیدا کیا، جمے ہوئے خون کے ایک لوتھڑے سے انسان کی تخلیق کی۔ پڑھو، اور تمھارا رب بڑا کریم ہے  جس نے قلم کے ذریعے سے علم سکھایا ، انسان کو وہ علم دیا جسے وہ نہ جانتا تھا۔

ان اولین نازل ہونے والی پانچ مختصر آیات میں ربِّ کریم نے جہاں اُمیّون میں سے منتخب کیے جانے والے سراجاً منیراً  صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ تلقین کی کہ وہ اپنے رب کے نام سے تلاوت آیات کریں، وہیں یہ بات بھی سمجھا دی کہ یہ وہ علم نہیں ہے جو انسانی عقل تشکیل کرتی ہے۔ یہ وہ علم ہے جو وحیِ الٰہی کے ذریعے انھیں دیا جارہا ہے اور ان کے ذریعے ان تمام انسانوں تک اسے پہنچانے کا آغاز کیا جا رہا ہے، جنھیں آغاز میں خالق کائنات نے جمے ہوئے خون کی ایک پھٹکی سے پیدا کیا اور پھر شعور و آگہی سے نوازا ۔ ایک اور مقام پر تعلیم کی اس بنیادی اہمیت کو یوں بیان کیا گیا کہ وہ جو علم رکھتے ہیں اور وہ جو علم نہیںرکھتے، وہ برابر نہیں ہو سکتے ہیں:

قُلْ ہَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَالَّذِیْنَ لاَ یَعْلَمُوْنَ ط (الزمر ۳۹:۹) اِن سے پوچھو، کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے دونوں کبھی یکساں ہوسکتے ہیں؟

مزیدیہ بات بھی فرما دی گئی کہ جو لوگ علم رکھتے ہیں، وہ ایسے عباد(بندے) ہیں جو اپنے رب کے شاکر بندے ہونے کے ساتھ اپنے رب کاخَشیَہ یا تقویٰ اختیار کرتے ہیں:  اِنَّمَا یَخْشَی اللّٰہَ  مِنْ عِبَادِہِ  الْعُلَمٰٓؤُا ط (الفاطر۳۵:۲۸) ’’حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے بندوں میں سے صرف علم رکھنے والے لوگ ہی اس سے ڈرتے ہیں‘‘۔جو شعوری طور پر اس کی بندگی اختیار کرتے ہیں اور بندگیِ رب کے پیغام کو ہمہ وقت اپنی بنیادی ذمہ داری سمجھتے ہوئے ادا کرتے ہیں ۔    داعیِ اعظمؐ نے خود اپنے بارے میں یہی بات فرمائی کہ مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے (اِنَّمَا بُعِثْتُ مُعَلِّمًا -  مشکٰوۃ)۔ چنانچہ پہلے دن سے دعوتِ دین کی اشاعت کے لیے مکہ مکرمہ میں دارِ ارقم اور مدینہ منورہ میں صُفہ کے تعلیمی اور تربیتی ادارے قائم فرمائے ۔

 گویا تحریکاتِ اسلامی کے لیے مکہ اور مدینہ ہر دو مقامات سے جو راہ نما اسوہ ملتا ہے،    وہ اداراتی بنیاد پر تعلیم کی اشاعت ہے، یعنی یہ معاملہ محض انفرادی طور پر کرنے کا نہیں ہے۔اس لیے تحریکاتِ اسلامی کی ایک اہم ترجیح، تعلیم بطور ایک ادارہ ہونی چاہیے۔ چنانچہ توقع کی جاتی ہے کہ اس غرض سے تحریکاتِ اسلامی اپنے کارکنوں کی علمی تربیت کے لیے مطالعاتی حلقہ جات،  اُسرے ، تربیت و تعلیم گاہوں ، خصوصی خطابات اور دیگر سرگرمیوں کا اہتمام کریں گی، تاکہ کارکنوں کے علم میں اضافے کے ذریعے ان میں خشیت اور تقویٰ پیدا ہو اور ضروری استعداد و آگہی کے ساتھ وہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دے سکیں ۔

 دعوت کے تناظر میںتحریکاتِ اسلامی کا د ائرۂ عمل ہمارے ہاں مروّجہ روایتی تصور تبلیغ سے بہت مختلف ہے ۔وہ علم کو اس کی ایک جہت تک محدود تصور نہیں کرتیں۔جہاں جہاں ان کے   تصور میں نکھار ہے، وہاں اسلامی تحریکیں علم کے وسیع تر تصور کو پیش نظر رکھتی ہیں۔ اس ضمن میں معاملہ فرد کی اصلاح کا ہو یا فکر کی تطہیر کا، معاشرے کی تشکیلِ نو کا ہو یا سیاست کی تدوینِ جدیدکا ، ثقافت و تہذیب کے تصور کا تزکیہ ہو یا مذہبی منافرت دُور کرنے کا، مسلکی اختلافات میں اعتدال کی راہ تلاش کرنی ہو یا ملکی اور عالمی معیشت کا تنقیدی جائزہ لینے کا، اور نئے اسلامی عالمی نظام معیشت کا تعارف کا معاملہ ہو، اسلامی تحریکات ان اُمور سے آنکھیں بند نہیں کرسکتیں۔ اسی طرح گھرمیں اہل خانہ کے درمیان محبت و رحمت کے تعلق کی پرورش سے لے کر معاشرے سے تضادات دُور کرنے تک یا افراد ،خاندان اور معاشرے میں برداشت ، قبولیت (acceptability) اور تعاون کی مضبوط بنیادیں استوار کرنے کے کام ہوں، تحریکاتِ اسلامی کا تصور دعوت و ابلاغ ان تمام اور دیگر ممکنہ انسانی مسائل کا احاطہ کرتا ہے۔ تعلیم و تعلم کے ذریعے وہ اپنے اصلاحی اور انقلابی عمل کو اس کے منطقی انجام تک پہچانا چاہتی ہیں۔

عالمی تناظر میں دیکھا جائے تو نہ صرف تحریکاتِ اسلامی بلکہ معاشرتی تبدیلی کی جو حکمتِ عملی بھی وضع کی جاتی ہے ، اس میں تعلیم بنیادی کردار ادا کرتی ہے ۔ سامراجی طاقتیں چاہتی ہیں کہ سیاسی طور پر غلامی و بے اختیاری کے شکنجے میں کسی گئی اقوام کو محکومیت کے زنجیروں میں اس طرح جکڑے رکھیں کہ وہ زنجیروں کو ’زیور‘ سمجھنا شروع کر دیں۔ اس خود سپردگی کو ’حسن و دانش‘  باور کرانے کے لیے مؤثر ترین ہتھیار کو وہ تعلیم ہی کا نظام سمجھتی ہیں اور اسی کو ذریعہ بناتی ہیں۔  برعظیم پاک و ہند ، انڈونیشیا ، ملایشیا، الجزائر، تیونس ، مصر، شام ، سوڈان، فلپائن، غرض کہ جہاں جہاں یہ مغربی سامراج گیا، اس نے تعلیم کے ذریعے ہی معاشرتی تبدیلی پیدا کی اور سیاسی غلامی کو گہرا کیا۔

تعلیمی منصوبہ بندی اور تقاضے

پاکستان کے پس منظر میں تحریکِ اسلامی سے وابستہ افراد کی اگر مناسب تعلیمی منصوبہ بندی کی جائے تو دستورِ پاکستان کی روشنی میں بغیر کسی غیرجمہوری ذریعے کے،معاشرتی انقلاب کی راہ   ہموار کی جاسکتی ہے جو کلی انقلاب کے لیے ممد و معاون ہو گی۔ یہ تعلیمی معاشرتی انقلاب تحریک کی حکمت و دعوت اور طریق کار سے پوری مناسبت رکھتا ہے ، اور قلیل المیعاد اور طویل المیعاد   منصوبہ بندی کے ذریعے تحریک کے نصب العین کے حصول کا ذریعہ فراہم کرسکتا ہے ۔

یہ بات کسی تعارف کی محتاج نہیں کہ اسکول، کالج اور یونی ورسٹی وہ مراکز ہیں، جہاں سے  وہ افراد کار فراہم ہوتے ہیں جو سامراج کی چھوڑی ہوئی روایت کا حصہ بن جائیں تو نوکر شاہی میں  بابو بن کر خوش و خرم رہتے ہیں ۔یہی افراد کار اگر اُس تعلیم سے گزریں جو سیر ت وکردار کی تعمیر اور عقل ود انش کی تہذیب کے ذریعے انھیں اپنے دین و روایات پر فخر کرنا سکھائے اور اسلام کو زندگی کا مقصد اور مشن بنانے کا داعیہ پیدا کرے، تو یہ افراد کار دنیا کے بڑے سے بڑے طاغوتی نظام کو اپنی حکمت عملی سے ایک عادلانہ معاشرے میں تبدیل کرنے میں کردار ادا کر سکتے ہیں ۔

 تحریکِ اسلامی کویہ امتیاز حاصل ہے کہ آج پاکستان کے تمام صوبوں میں ایسے تعلیمی ادارے موجود ہیں جو اس کی فکر سے نظری اتفاق رکھتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس  زمینی حقیقت سے ذہانت اور حکمت کے ساتھ فائدہ اٹھایا جائے اورایک جامع حکمت عملی اس موجود سہولت کو ایک قیمتی افرادی اثاثے میں تبدیل کر دے اور یہ افرادی اثاثہ تحریک اسلامی کے  نصب العین کے حصول کا ذریعہ بن جائے۔

تعلیم وتربیت معاشرتی تبدیلی کی شاہراہ ہے، لیکن یہ اسی وقت صحیح نتائج پیدا کر سکتی ہے جب نہ صرف نصاب ، تدریسی کتب ، ادارے کا ماحول بلکہ معلمین و معلمات کاذاتی کردار سیرت اور اخلاق کی اعلیٰ مثال پیش کرتا ہو۔انبیاےکرام کا مقصدمحض کتاب کا پہنچا دینا نہیں تھا، ان کا اصل کارنامہ وہ اسوۂ حسنہ پیش کرنا تھا، جو ان کی تعلیمات کا مرقع اور ہر پیروکار کے لیے قابلِ عمل مثال ہو۔ اسی بنا پر داعی اعظم صلی اللہ علیہ وسلم  کے بارے میں فرمایا گیا:

لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنْ کَانَ یَرْجُوا اللّٰہَ وَ الْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَ ذَکَرَ اللّٰہَ کَثِیْرًا o (احزاب ۳۳:۲۱) درحقیقت تم لوگوں کے لیے اللہ کے رسولؐ میں ایک بہترین نمونہ ہے ، ہر اس شخص کے لیے جو اللہ اور یوم آخر کا امیدوار ہو اور کثرت سے اللہ کو یاد کرے۔

 یہ اسی وقت ممکن ہے جب تعلیمی ادارے نظریاتی تربیت گاہوں میں تبدیل ہو جائیں۔ ملک گیر پیمانے پر ان کا نصاب ، اساتذہ کی صلاحیت ، تجربہ و کردار و سیرت اور نصابی کتب اور راہ نما کتب کے انتخاب میں بنیاد محض تعلیمی کمال نہ ہو بلکہ تربیتِ اخلاق ہو۔ اسی راستے پر چلتے ہوئے ان تعلیمی اداروں سے روشن دماغ قائد ، اخلاقِ حسنہ کے نمونے ، جرأت و خود اعتمادی کے امین،  حلم و بُردباری اوربرداشت  (tolerance ) اور استقامت کے نمایندے ،روحانی بالیدگی اور باہمی رحمت و مودت کے علَم بردار نوجوان پیدا ہو سکیں گے۔

یہ کام نہ تو مشکل ہے اور نہ کوئی خام خیالی۔ آج بھی جہاں کہیں صحیح اخلاقی تربیت، سائنسی علوم کی اعلیٰ تعلیم ، صبر و استقامت اور سچائی اور خود داری کی تربیت د ی جائے گی، وہاں سے ایسے افراد پیدا ہوں گے جو عصر حاضر کے نام نہاد سامراجی اجارہ دارقوتوں کا ایمان و اعتماد کے ساتھ مقابلہ کر سکیں گے۔

اسلام کی شورائی اور جمہوری اقدارکے ساتھ، خودانحصاری ، سچائی ، امانت، دیانت اور للہیت رکھنے والی شخصیت پیدا کرنے کے لیے تعلیم ہی کے ذریعے اپنے نصب العین کے واضح شعور کے ساتھ ایک جامع حکمت عملی اور صبر وتوکل کے سہارے یہ کام کرنا ہو گا ۔ تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ مدینہ کا راستہ مکہ اور حبشہ سے ہو کر گزرتا ہے۔ مکہ کا صبر آزما دور اور حبشہ کی غریب الوطنی وہ مراحل ہیں جن سے گزرے بغیر عدل واحسان پر مبنی معاشرہ قائم نہیں ہو سکتا ۔ وہ چاہے مٹھی بھر افراد ہو ں لیکن ان مراحل سے گزر چکے ہوں تو وہ وقت کے جباروں کا فکری اور عملی سطح پر مقابلہ کرسکتے ہیں، جب کہ افراد کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ہو، لیکن ان تمام مراحل سے نہ گزراہو تو وہ سمندر کے جھاگ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔

الحمدللہ، آج تحریک اسلامی کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ تعلیم کے شعبے میں اس سے وابستہ افراد کے تعلیمی ادارے تقریباً پورے ملک میں کام کر رہے ہیں۔ اس حوالے سے قابلِ غور سوال یہ ہے کہ کیا وہ ایسی معیاری اخلاقی تعلیم دینے میں کامیاب ہوئے ہیں،جو نئی نسل میں ذہنی انقلاب برپا کر دے اور انھیں مستقبل کی تعمیری اور اصلاحی قیادت کے لیے تیار کر دے؟

حکمتِ دعوت اور ابلاغ

 اس تعلیمی جہاد کے ساتھ دوسرا لازمی میدان وہ ہے، جسے قرآن کریم نے حکمتِ دعوت و ابلاغ سے تعبیر کیا ہے جو ہدایتِ الٰہی کو آسان اور ہر خاص و عام کے لیے قابل فہم بنا کر پیش کرنا ہے۔    آج ہم جسے ابلاغِ عامہ کہتے ہیں، یہ چاہے طبع شدہ الفاظ کی شکل میں ہو یا برقی پیغامات کی شکل میں،  اس کا بنیادی مقصد مطلوبہ پیغام کو جاذبِ نظر بنا کر دل و دماغ میں اتار دینا ہے ۔ غالباً اسی بنا پر قرآن کریم کی آیات میں اثر انگیزی اور معرفت کو اس طرح سمو دیا گیا ہے کہ ہر آیت جامع اور مختصر ہونے کے ساتھ ساتھ لامتناہی مفہوم کی امین ہے، اور ایک طائرانہ نظر سے دیکھنے والے اور ایک تفقہ والی نگاہ رکھنے والے ، ہر دو کے لیے معانی و مفہوم کے خزانے فراہم کردیتی ہے۔

 اس دور کا المیہ یہ ہے کہ کہ آج اولین تعلیم گاہ آغوشِ مادر اور اسکول اور مدرسے کے کردار کو برقی ابلا غ عامہ نے فنی مہارت کے ساتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے۔ دُکھ کی بات یہ ہے کہ اچھے خاصے پڑھے لکھے افراد بھی اس مجرمانہ تہذیبی ڈاکے پر بے چین نظر نہیں آتے۔

تحریکِ اسلامی کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ وہ اولاً اس اہم معاشرتی اور تہذیبی مسئلے سے قوم کو دلائل اور شواہد کی بنیاد پر آگاہ کرے ۔ ماں کی تربیت اورخاندان کی مرکزیت و عظمت کی تجدید اور حیاتِ نو کے لیے منظم جدوجہد کرے۔ ساتھ ہی اپنی دعوت کو پہنچانے کے لیے اس مؤثر ذریعے کو اخلاق کی پابندیوں اور تہذیبی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے اختیار کرے۔ تعلیم گاہوں سے وہ نوجوان نکلیں جو نہ صرف سیرت و کردار بلکہ عصر حاضرکے مسائل سے آگاہی کے ساتھ ساتھ ایک تنقیدی نگاہ کے ساتھ مغرب کی لادینی فکر کا رد ، عقلی دلائل سے اور اسلام کے جامع نظامِ عدلِ اجتماعی کی وضاحت اپنے علم و تجربے کی مدد سے کر سکیں ۔

 اس حوالے سے اس بات کی فوری ضرورت ہے کہ صحافیوں، ابلاغِ عامہ سے وابستہ ماہرین اور مصنّفین کے لیے ایک مستقل ادارہ ایسا قائم کیا جائے، جہاں تبادلۂ خیالات ،علمی تحقیق  اور نوجوان نسل کی تربیت اس طر ح ہوسکے کہ نہ صرف ابلاغِ عامہ اور اجتماعی ابلاغ( Mass Communication) کی اعلیٰ ترین تربیت ہو، بلکہ انھیں اسلام کے نظام عدل اور پاکستان کی نظریاتی اساس و تاریخ پر پورا عبور حاصل ہو۔ یہی نوجوان تحریک کے نصب العین کے حصول کے لیے افرادی سرمایہ فراہم کریں گے اور تحریک کی تحریکیت کو قائم رکھنے میں مددگار ثابت ہوںگے ۔ ہر تحریک اسی وقت تک اپنا وزن اور اثر رکھتی ہے جب تک اس میں نیاخون ، فکری یک جہتی، اجتہادی صلاحیت اور نظم و ضبط قائم رکھنے کی صلاحیت موجود ہو۔ نیا خون اگر تحریکی فکر میں سطحی معلومات کے ساتھ شامل ہوگا، تو جلد یا بدیر جذبات کا شکار ہوجائے گا، اور اگر وہ تحریکی فکر کے رنگ میں رنگ گیا تو صبر و استقامت اور کامیابی کی علامت بن جائے گا۔

اداراتی نظم کی ضرورت

 تعلیمی اور ابلاغی جہاد کا آغاز کرنے کے لیے وسائل اور خام مواد پہلے سے موجود ہے ۔ تحریکی فکر سے وابستہ افراد کے بہت سے ادارے اس میدان میں کام کر رہے ہیں، لیکن تاحال ایسی کوئی تنظیمی شکل اور انتظام موجود نہیں ہے جس کے ذریعے ایک فطری انداز میںانھیں باہمی تعارف و راہ نمائی فراہم کی جا سکے۔ یہ کام ان کی آزادی کو متاثر کیے بغیر سر انجام دیا جانا چاہیے۔ علمی، نصابی اور تربیتی حوالے سے ایسے راہ نما خطوط (Guide lines) باہمی مشورے سے باآسانی تیار کیے جاسکتے ہیں ، جن کی پابندی کا اہتمام سب ادارے بہ حسن وخوبی کر سکیں۔

تعلیمی اداروں کی صوبائی اور مرکزی سطح پر اداراتی تنظیم سے ہماری مراد یہ نہیں ہے کہ وہ کسی ایک مرکزی نظم کے تحت آجائیں اور اپنی ترقی ، خودمختاری اور تنوع سے محروم ہو جائیں۔ قطعاً ایسا نہیں ہے، بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ ان میں نصب العین اور حکمت عملی پر اتفاق ہو، وژن اور منزل واضح ہو او ر ہر طالب علم اتالیق کی نگرانی و سرپرستی میں اپنی شخصیت اور فکرکی صورت گری کر سکے، اور ایک مشاورتی عمل کے نتیجے میں اپنے مستقبل کانقشہ ذہن میں لے کر تعلیمی ادارے سے نکلے ۔ جس سے معلوم ہوسکے کہ طالب علم کو تعلیم مکمل کرنے کے بعد زندگی کے کس شعبے میںممتاز مقام حاصل کرنا ہے۔تجارت میں ، سرکاری ملازمت میں ، قانون نافذ کرنے والے اداروں میں، عدلیہ اور دفاع کے نظام میں یا ذاتی کاروبار کرناہے، ہنریا جو شعبہ بھی اسے پسند ہے ا س میں کس مقام تک اور کتنے وقت میں وہاں پہنچنا ہے ۔ جب تک یہ عملی زندگی کا منصوبہ، تعلیمی مراحل کے دوران میں واضح نہیں ہوگا، تعلیم مکمل ہونے کے بعد بھی وہ اپنے  اہداف حاصل نہیں کر سکے گا۔

تحریک اسلامی کی کامیابی کا راز اس منصوبہ بندی میں ہے، جو زمینی حقائق کے پیش نظر، مطلوبہ اہداف کا حصول ایک مقررہ وقت کی میعاد میں کر سکے ۔ یہ تعلیمی حکمت عملی نابغہ (genius) افرادپیدا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے ۔ اس لیے اس کی اہمیت کے پیش نظر ترجیحات کی فہرست میں اسے سب سے اول ہونا چاہیے ۔ ابلاغِ عامہ کو ہم نے اس بنا پر اس کے ساتھ وابستہ کر دیا ہے کہ تعلیمی مقاصد ابلاغ کی مناسب حکمت عملی کے بغیرحاصل نہیں ہو سکتے ۔

اس مہم میں نہ کسی بڑی مالی امداد کی ضرورت ہے اور نہ نئے سرے سے پہیہ ایجاد کرنے کی حاجت ہے ۔ صرف ترجیحات کی ترتیب پر غور اور موجودہ آزاد اداروں کی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے ان کی فکری تنظیم بندی ، اہداف پر یکسوئی اور اساتذہ کی تربیتی حکمت ِ کار، نصابی کتب اور نصاب پر نظر ثانی کرنا ہے۔ پھر ان تمام مصادر کو اس طرح استعمال کرنا ہے، جو تحریک کے    نصب العین سے مطابقت رکھتے ہوں ۔ تحریک کا نصب العین، در حقیقت پاکستان کا نصب العین ہے۔ اس لیے نصب العین کے اس اتحاد کی بنا پر تحریک کو اپنے کام کے لیے مکمل اخلاقی جواز حاصل ہے شرط صرف یہ ہے کہ اس کام کو ذمہ داری سے کیا جائے، تاکہ یہ محض رسمیت (formality) کا شکار نہ ہو اور اپنی اصل روح کے ساتھ ملک گیر بنیادوں پر زیر عمل لایا جاسکے ۔ ہر اس انسانی کوشش اور سعی کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے جو خلوصِ نیت سے اور کسی دنیاوی اجر ، تمغے اور اعزاز کے حصول کی طمع کے بغیر صرف اللہ کی رضا کے لیے کی جائے گی تووہ اس میں کامیابی دے گا ۔ یہ ابدی اصول ہے۔ اس میں کسی قوم اور زمانے کی قید نہیں۔تعلیمی حکمت عملی ہی کامیابی کا راستہ اور اسوۂ حسنہ کی پیروی ہے۔

قرآن کریم نے بے شمار مقامات پر اس بات کو دہرایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے مقررکردہ  انبیاے کرام ؑ اپنی دعوتی سرگرمی میں دن رات تمام قوتوں کے ساتھ مصروف رہنے کے باوجود، لوگوں سے کسی اجر کی توقع نہیں رکھتے تھے۔تحریک اسلامی سے وابستہ افراد کی دعوتی سرگرمی بھی اگر خلوصِ نیت کے ساتھ اللہ کی رضا کے لیے ہے، تو وہ خود اپنے فضل و کرم سے تحریک کے لیے مشکلات کو دور کرے گا ، آسانیاں پیدا کرے گا،لیکن اگر نیت محض شہرت یا مادی ہدف ہو تو پھر ممکن ہے کہ دنیاوی ہدف تو حاصل ہو جائے، لیکن آخرت کا معاملہ مشکوک ہو جائے گا ۔ دوسری جانب اگر تمام تر کوشش ، خلوصِ نیت سے رضاے الٰہی کے لیے ہے، تو پھر چاہے فور ی نتائج حاصل نہ ہوں لیکن وہ جو پہاڑوں کو ریزہ ریزہ کرنے کی قوت رکھتا ہے، اس کا فرمان ہے: وَلَا تَھِنُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ  مُّؤْمِنِیْنَo (اٰل  عمرٰن۳:۱۳۹) ’’ دل شکستہ نہ ہو، غم نہ کرو، تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو‘‘۔

 تحریکِ اسلامی سے وابستہ کسی قائد یا کارکن کے لیے ذہن میں اس تذبذب کا پیدا ہونا کہ: اللہ کی مدد کب آئے گی؟ ہم کب تک یونہی جدو جہد کرتے رہیں گے؟ اسلامی تبدیلی اور انقلاب آکیوں نہیں جاتا؟ ایک عاجلانہ نفسیات کا پتا دیتا ہے۔ تحریکی نفسیات اُخروی زندگی کی کامیابی سے منسوب ہوتی ہے، جس میں یہاں کی ہر ناکامی اس کے جوش اور ولولے میں غیر محدود   عزم و ارادے کا اضافہ کرتی ہے۔تحریکی نقطۂ نظر کی اصل کامیابی رضاے الٰہی کا حصول ہے اور اِس دنیا میں کامیابی اس کی طرف سے اضافی انعام ہے ۔

علوم کی تدوینِ جدید

 تعلیمی حکمتِ عملی کا ایک اہم مقصد اور ہدف علوم کی تدوینِ جدید ہے ۔ علوم چاہے معاشرتی علوم ہوں یااطلاقی (applied) جب تک ان کے بنیادی تصورات کودرست نہ کیاجائے، وہ ذہن اور معاشرہ پیدا نہیں کر سکتے، جو صرف اللہ کو رب مانتا ہو اور اصلاحِ احوال پر منتج ہو۔ غورو فکر اس بات پر ہونا چاہیے کہ ہم نے اب تک کن علوم کو اسلامی بنیادوں پر نئے سرے سے مدون کیا ہے اور بقیہ علوم کی اسلامی تشکیل جدید کا بنیادی کام کتنے عرصہ میں کر لیا جائے گا ۔ یہ وہی عمل ہے جس کے لیے قائد تحریک اسلامی نے خود بیش قیمت کام کیا۔ زندگی کے مختلف شعبوں کے لیے فکر اسلامی کی روشنی اور تشکیلِ نو کے خطوط کی نشان دہی کی اور فکر کو ایک نئے رخ سے آشنا کیا ۔  علومِ اسلامی کی تشکیلِ نو کے لیے واضح خطوطِ کار بھی متعین کیے ، اس کام کو مختلف میدانوں میں کرکے دکھایا اور نئے چراغ روشن کیے ۔ اس کے لیے ملک اور ملک سے باہر اداروں کے قیام کی فکر بھی کی لیکن اس کام کو جاری رکھنے اور نئی رفعتوں سے روشناس کرانے کے لیے کیا کیا جارہا ہے ؟ اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے اور جو کمی کوتاہی ہے اس کی تلافی کی فکر بلا تاخیر کرنا چاہیے ۔

اس وقت وطنِ عزیز میں مروجہ تعلیمی نظام کی بنیاد، زندگی میں تقسیم کے اصول پر ہے۔ چنانچہ اس طرح جو ذہن پیدا ہوتا ہے وہ انسانی زندگی کو دنیاوی اور روحانی خانوں میں تقسیم کرتا ہے۔ ایک کا تعلق اس کے ذاتی روحانی سکون سے ہے اور دوسرے کا تعلق مادی ترقی ، قوت اور دولت سے ۔ اسلام اس تقسیم کو شرک سے تعبیر کرتا ہے اور تمام علوم کو وحیِ الٰہی کی روشنی میں مادی اور تجرباتی معیار کی جگہ ابدی اخلاقی اصولوں کے ساتھ ہم آہنگ کرنا چاہتا ہے۔ معاشرے میں عدلِ اجتماعی کے قیام کے لیے تمام اطلاقی علوم (Applied Sciences) کی تدوینِ جدید کے ذریعے ایک ہمہ گیر فکری انقلاب کو ضروری قرار دیتا ہے ۔ اسلام رنگ و نسل، جنس اور زبان کی قید سے بلند ہو کر معاشرے کے ہر فرد پر کم از کم اتنی تعلیم کا حصول فرض قرار دیتا ہے، جس سے وہ شعوری طور پر ہرعمل کے اخلاقی یا غیر اخلاقی ہونے کا فیصلہ کر سکے اور حلال و حرام میں تمیز کے قابل ہو ، اسے طہارت اور نجاست کا فرق معلوم ہو۔ یہ طہارت محض جسمانی نہیں، فکری بھی ہے اور معاملات کی بھی ۔

خدمتِ خلق کا وسیع تر معاشرتی تناظر

تعلیم کے ذریعے معاشرتی اصلاح اور انقلاب کے عمل میں قرآن کریم، اللہ کے بندوں کی معاشی،معاشرتی،سیاسی، ثقافتی ضروریات کو پورا کرنا بھی ایک فرض قرار دیتا ہے ۔ جس طرح انسانوںپر اللہ کا حق ہے کہ رب العالمین کو وحدہٗ لا شریک مانتے ہوئے اپنا سر اطاعت اس کے سامنے جھکا دیا جائے، اسی طرح اللہ کے بندوں کا حق یہ ہے کہ ہر ضرورت مند ، مسکین ، فقیر، غریب کی اس حد تک امداد ہو جائے کہ وہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہوسکے۔ یہی زکوٰۃ کا فلسفہ ہے اور اسی بنا پر صدقات ہوں یا انفاق، ان کے بارے میں فرما دیا گیا کہ جو کچھ ایک فرد کی اپنی ضروریات سے زائد ہو، وہ اسے اللہ کی خوشنودی کے لیے ضرورت مندوں پر خرچ کردے، تاکہ اس مال کے بدلے اسے ۷۰گنا یا اس سے بھی زیادہ اجر آخرت میں مل جائے۔

اسلام خدمت خلق اور حقوق العباد کو ایک وسیع تر معاشرتی تناظر میں دیکھتا ہے ۔خصوصاً اسلامی تحریکات، بنیادی دعوتی مقصد کے حصول کے لیے اس پہلو کو اپنی سرگرمیوں میں خصوصی ترجیحی مقام دیں ۔ اس حوالے سے سب سےپہلے صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے اللہ کے بندوں کو طبی سہولیات فراہم کرنے کی طرف توجہ کی جائے ۔

یہ اللہ تعالیٰ کی مہربانی ہے کہ ’الخدمت‘ کے زیر انتظام شفا خانے اور طبی مراکز ملک کے بعض حصوں میں خدمت ِ خلق کے لیے موجود ہیں ۔یہاں پھر ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان کو مریضوں کی فکری اور روحانی صحت کے لیے بھی استعمال کیا جارہا ہے ؟ ملک گیر منصوبہ بندی کے ذریعےہر مریض کے احوال کا تجزیہ اور حاصل شدہ معلومات کی بنا پر اس تک دعوتی معلومات  پہنچانے کے لیے کاوشوں کا میدان کھلا ہے؟ یہی شکل تعلیم گاہوں میں اختیار کی جانی چاہیے، کہ والدین کے ساتھ کس درجے کا رابطہ رکھا گیا ہے؟ تعلیم اور خدمت خلق دراصل دعوت کے وسیلے ہیں۔ ان کا مقصد نہ صرف اللہ کے بندوں کی جسمانی صحت ہے بلکہ ان کی اخلاقی و روحانی ترقی اور فکری اصلاح بھی اس کا ایک اہم مقصد ہے ۔

طبی سہولیات مختلف شکلوںمیں فراہم کی جاسکتی ہیں ۔ بہترین شکل تو مفت طبی امداد کے مراکز کا قیام ہے۔ تاہم، کام کے آغاز کے لیے ایسے علاقوں میں جہاں دور دور تک ہسپتال کا وجود نہیں ہے، مقامی افراد سے مشورہ کر کے بآسانی انتظام کیا جا سکتا ہے کہ کوئی صاحبِ خیر اپنے گھر کا کوئی ایک کمرہ جس کا دروازہ باہر کھلتا ہو ،اس میں طبی معائنے کی میز رکھنے اور طبیب کے بیٹھنے کی جگہ نکل سکتی ہو،رضاکارانہ طور پر استعمال کر نے کی اجازت دے سکتا ہے۔ اس طرح بغیر کسی مالی بوجھ کے جگہ کا مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔ ایسے ہی ایک دو مستند ڈاکٹروں سے رضاکارانہ طور پر ہفتہ میں ایک یا دو دن کا وقت مانگا جا سکتا ہے۔ علاقے کے میڈیکل اسٹوروں سے بات کی جاسکتی ہے۔ ایسے افراد جو قیمتی ادویات نہیں خرید سکتے،خصوصی رعایت کرکے اور بعض ادویات اس طبی مرکز کو عطیے کے طور پر بھی دینے کی تدبیر کریں ۔ یہ سارا کام قیاسی نہیں ہے بلکہ ذاتی تجربے پر مبنی ہے ۔ تعلیم کے میدان میں گھر، اسکول اور بیٹھک سکول کا تجربہ بھی اس سلسلے میں مشعلِ راہ بن سکتا ہے۔

طبی امدا د کے لیے سوزوکی کیری میں ایک پورا سفری شفاخانہ بنایا جا سکتا ہے، جو مقررہ دنوں میں کم آمدنی والوں کی بستیوں میں جا کر دو یا تین گھنٹے صرف کرے اور خصوصاً بچوں میں امراض کے تدارک کے لیے عوام کو تعلیم و تربیت دے اور ساتھ ہی بچوں کے مفت معائنے کے بعد انھیں ادویات بھی تجویز کرے ۔ ایسے معاملات، جن میں علاج کے لیے ہسپتا ل میں داخلہ ضروری ہو، انھیں کسی قریب کے ہسپتال تک پہنچایا جائے اور ادویات کے حصول میں ان کی امداد کی جائے۔

ملکی یونی ورسٹیوں میں تعلیم پانے والے طلبہ وطالبات کو رضاکارانہ طور پر الگ الگ وفود کی شکل میں قریبی ہسپتالوں کا دورہ کرایا جائے اور طلبہ مردوں کے وارڈ میں اورطالبات خواتین کے وارڈ میں جا کر ان کی عیادت کریں اور انھیں کوئی تحفہ دیں، چاہے وہ کوئی پھل یا ایک پھول ہی کیوں نہ ہو۔اس معمولی عملِ خیر کے نتیجے میںطلبہ وطالبات کو زندگی کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملے گا۔ جب وہ اپنی جیب سے پھل خرید کر مریضوں میں تقسیم کریں گے توجذبۂ انفاق پیدا ہو گا اور باہمی اخوت کو تقویت ملے گی ۔ اس پوری مشق کا مقصد طلبہ اور طالبات کو عملی دعوت سے روشناس کرانا اور خدمتِ خلق کے ذریعے متحرک کرنا ہے ۔ تعلیم بالغاں بھی کرنے کا ایک اہم کام ہے ۔ مناسب منصوبہ بندی کی جائے تو رضاکارانہ طور پر طلبہ کے ذریعے خصوصاً گرمیوں کی تعطیلات میں تعلیم بالغاں کے مراکز قائم کیے جاسکتے ہیں ۔

ملک میں معاشی عدم استحکام نے ہر شخص کو کرب ناک معاشی دوڑمیں لگا دیا ہے ۔ معاشی ضروریات کو تسلیم کرتے ہوئے تحریک ایسے اداروں کے قیام کی حوصلہ افزائی کر سکتی ہے جو چھوٹے کاروباروں کے لیے غربت اور بے روزگاری میں کمی لاسکیں، اور جو لوگ اس طرح ان کے رابطے میں آئیں، ان کی فکری تربیت کے ذریعے تحریک کی قوت میں اضافہ کر سکتے ہیں ۔

اداروں کی تعمیرِنو

 ہمارے ابلاغِ عامہ کے اداروں نے گذشتہ ۲۰سال کے عرصے میں جس طرح قوم کو بداخلاقی ، بد اطواری اور بد معاملگی کی تعلیم دی ہے، اس سے قوم کو نجات دلانے کے لیے تعمیری اور مثبت کام کی ضرورت ہے، محض تنقید اور احتجاج سے کام نہیں چل سکتا۔ بغیر کسی مزید تاخیر کے  دعوتِ دین کے حوالے سے یہ چیز اب واجب کا مقام رکھتی ہے کہ تحریک سے وابستہ افراد کم از کم ایک میڈیا ہاؤس قائم کریں ، جو تعلیمی ، اصلاحی اور معاشرتی موضوعات پر ایسے پروگرام بنائے،   جو فنی طور پر اعلیٰ معیار کے ہوں اور تحریک کی دعوت کو پیش کرتے ہوں۔

جب تک ابلاغِ عامہ کے ہم خیال ادارے نہیں قائم ہوتے، کم ازکم جو روایتی ادارے موجود ہیں انھیں شعوری طور پر توسیعِ دعوت ، تعمیر فکر و کردار کے لیے استعمال کیا جائے۔ اس غرض کے لیے خصوصی تربیتی پروگراموں کا ایک سلسلہ شروع کرنا ہو گا ۔اس کے لیے مساجد اور کمیونٹی کے مراکز [چوپال] کو استعمال کرنا ہو گاکہ عوام میں مسائل کا شعور اور ان کے حل کے لیے آگاہی پیدا ہوسکے۔ مفت مشاورت فراہم کرنے والے مراکز ہرگاؤں اور شہر میں قائم کیے جائیں، جن میں مقررہ اوقات میں رضاکارلوگوں کے مسائل سنیں اور انھیں قرآن و سنت کی روشنی میں حل سے آگاہ کریں۔

موجودہ معاشرتی مسائل کچھ اس رُخ سے اُلجھتے جارہے ہیں کہ خاندان میں معمولی معمولی اختلاف کے نتیجے میں طلاق کو ایک کھیل بنا لیا گیا ہے ۔ قرآن و سنتِ رسولؐ کی روشنی میں جو چیزسخت ناپسندیدہ ہے اسے ڈراموں ، فلموں اور ٹی وی شوز میں مضحکہ خیز شکل دے کر لوگوں کو دین سے  دُور کیا جار ہاہے ۔نہ صرف طلاق بلکہ سگریٹ نوشی نے بھی صحت کے مسائل کھڑے کر دیے ہیں۔ اس نوعیت کے معاشرتی مسائل کا مقابلہ کرنے کے لیے عوام کی آگاہی کے لیے وقتاً فوقتاً کسی ایک مسئلے پر ملک گیر مہم چلانے کی ضرورت ہے ۔ جس میں علمی بحث بھی ہو، اور جمہوری ذرائع سے عوام کی تعلیم بھی ۔ جب تک ہم مقامی مسائل کو سمجھنے کے بعدحل پیش نہیں کریں گے،ہماری دعوت نامکمل رہے گی اور تحریک کی متوقع دعوتی کا میابی کی منزل قریب نہیں آسکے گی۔

 مختلف شعبہ ہاے زندگی سے وابستہ افراد کے لیے ایسی تنظیمیں قائم کرنی ہوں گی، جن میں ماہرین فن اپنی پیشہ ورانہ ضرورت کے طور پر ان اداروں سے وابستہ ہوں اور معاشرتی تعلیم و انقلاب کے عمل میں ہمارے ساتھ شامل ہو جائیں ۔ اس حوالے سے پہلے سے قائم شدہ تنظیموں کا جائزہ اور ان کے کام کی رفتار ، اہداف کا تعین اور حکمتِ عملی پر غور کرنا ہو گا کہ انھیں کس طرح مزید مؤثر بنایا جائے۔ مختلف پیشہ ورانہ تنظیموں کا مقصد بھی غیر سیاسی انداز میں تربیت اور اصلاحِ اخلاق ہو نا چاہیے تاکہ خلوص اور بے غرضی کا احساس ان اداروں سے وابستہ افراد میں راسخ کیا جاسکے ۔ دعوت کے کام کے غیر سیاسی پہلو سے قطعاً یہ مراد نہیں کہ سیاسی کام دعوتی کام سے مختلف ہے ۔

خواتین کی فکری تطہیر و تنظیم

تعلیمی اور معاشرتی انقلاب اور اصلاح کے کام کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ خواتین کے مسائل کے، صحیح شعور کے ساتھ، قرآن و سنت کی روشنی میں ایسے حل تجویز کیے جائیں جو جدید تعلیم یافتہ خواتین کو مطمئن کر سکیں ۔ بیرونی امداد پر چلنے والے بے شمار رفاہی اداروں نے حقوق نسواں کے نام پرخواتین میں اشتعال اور اسلام سے دُوری پیدا کرنے کو اپنا نصب العین بنا لیا ہے۔ تحریک اسلامی کو ان موضوعات پر اپنا موقف اور زیادہ واضح انداز سے پیش کرنا ہو گااور بلاکسی معذرت کے اسلامی تعلیمات کو جدید زبان میں اس طرح پیش کرنا ہو گا کہ عقلی دلائل اور تاریخی شواہد کی بنیاد پر اسلام کے صحیح خدوخال کا فہم عام کیا جاسکے۔ موجودہ صورتِ حال میں خواتین میں ملک گیر بنیادوں پر ایک واضح تبدیلی کا آغاز ہو چکا ہے ۔ ایک جانب بہت سی وہ خواتین ہیں، جو کل تک اسلام کے بارے میں مخصوص پروپیگنڈے کے زیراثر ہچکچاہٹ کا شکار تھیں، اب اسلام سے قریب آئی ہیں۔ دوسری طرف این جی اوز کلچر نے بہت سی نوجوان خواتین کو اسلام سے دُور بھی کیا ہے ۔ اس پہلو سے بھی مناسب حکمت عملی کے ساتھ اس طرف خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ خواتین کی فکری تطہیر اور تنظیم غیر معمولی اہمیت کی حامل ہے ۔

اللہ تعالیٰ نے انسان کو مشاہدہ کرنے والی آنکھ اور سوچنے سمجھنے والا دماغ عطا کیا ہے، جن کی مدد سے وہ کائنات اور خود اپنے وجود میںیاد دہانی کروانے والی آیات (نشانیوں) کا اِدراک کرسکتا ہے۔ اگر ایک غیر متعصب ذہن کے ساتھ وہ صرف اپنے وجود کا جائزہ لے، تو اس کا فطری رویہ اپنے خالق و مالک کے حوالے سے شکر اور حمد کے علاوہ نہیں ہو سکتا۔بہت سے اہل نظر کے لیے طلوعِ صبح اورغروبِ آفتاب کا منظر ہی قبول حق کے لیے کافی ہوتا ہے اور ان کا پورا وجود انسانوں اور کائنات پر احسانات کرنے والے رب ، الرحمٰن اورالرحیم کے اعتراف عظمت میںروبہ سجود ہو جاتا ہے اور وہ  بے اختیار پکار اُٹھتے ہیں کہ ھَلْ جَزَآئُ الْاِحْسَانِ اِلَّا  الْاِحْسَانُ۔

دوسری جانب ایسے انسان بھی پائے جاتے ہیں جو تابناک سورج کی روشنی میں بھی بصیرت اور قلب کی روشنی سے محروم رہتے ہیں۔ وہ جانتے بوجھتے حق کا اعتراف نہیں کرتے اور یوںوہ اپنے نفس پر کھلا ظلم کرتے ہیں۔ اسلام اور ایمان کا بنیادی تقاضا یہ ہے کہ ایک صحت مند جسم ، روشن دماغ اور دردمند دل رکھنے والا شخص ان تینوں صلاحیتوں پر اپنے رب کا شکر ادا کرتے ہوئے ایک جانب ہرقسم کے شرک سے بے زاری اور دوسری جانب توحید خالص کے اقرار و اعتراف کے ساتھ اپنے سارے وجود کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی بندگی میں دے کر اسلام میں پورے کا پورا داخل ہوجائے (اُدْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَـآفَّۃً)۔

اسی احسانِ الٰہی کے حوالے سے انسان کو شعورِ حیات دیا گیا اور اسی احسانِ الٰہی کی بنا پر انسان کے لیے ایک عالم گیر اخلاقی ضابطہ مرتب کر کے وحی الٰہی کے ذریعے اس کے حوالے کر دیا گیا، تاکہ وہ آنکھ ، کان ، دل و دماغ رکھنے کے باوجود اندھوں اور بہروں کی طرح زندگی نہ گزارے، بلکہ احساسِ جواب دہی کے ساتھ اپنے مشاہدے ، بصارت و بصیر ت اور قلب و ذہن کی ہم آہنگی (synergy) کے ذریعے اپنے بنیادی انسانی فرائض کو پورا کر سکے ۔یہ ادایگی فرض رنگ و نسل کی تفریق سے بلند ہے۔ اس میں جغرافیائی قومیت یا مذہبی اور مسلکی اختلاف کا کوئی دخل نہیں ہے ۔یہ ہر ذی حیات انسان کے لیے، وہ مرد ہو یا عورت، اللہ تعالیٰ کی طرف سے بصارت، سماعت اور شعور کی صلاحیت کی اخلاقی جواب دہی ہے: اِنَّ السَّمْعَ وَ الْبَصَرَ وَ الْفُؤَادَ کُلُّ اُولٰٓئِکَ کَانَ عَنْہُ مَسْئُوْلًا o (بنی اسرائیل ۱۷:۳۶) ’’یقینا آنکھ، کان اور دل سب ہی کی بازپُرس ہونی ہے‘‘۔

اسلامی تحریکات اس بنیادی شعور اور جواب دہی اور احتساب کے احساس کی بنیاد پر یہ سمجھتی ہیں کہ اس دور میں اقامتِ دین ان پر ایک فریضہ ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ اقامتِ  دین کی جدوجہد: تحریکات اسلامی کا باطن بھی ہے اور ظاہر بھی اور ان دونوں کے درمیان میں کوئی حدِّ فاصل نہیں کھینچی جاسکتی ۔ ان کی حیات، نمو اور ارتقا کا براہِ راست تعلق اقامتِ  دین کے ایک جامع اور کلی تصور کے ساتھ وابستہ ہے ۔ یہ تصورخودمتحرک ہے، حتیٰ کہ اگر وقتی طور پر ایک اسلامی تحریک سکڑتی بھی نظر آرہی ہو، تب بھی یہ تصور متحرک رہتا ہے ۔ یہ حرکی تصور، تحریک اسلامی کے ضمیر کو بار بار جھنجوڑتا ہے اور اپنی منزل، طریق کار اور حکمت عملی کے حوالے سے بار بار یہ سوچنے پر آمادہ کرتا ہے کہ اگر مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو رہے تو دیکھا جائے کہ کمی یا نقص کہاں پر ہے ؟

اسی بنا پر ان تحریکاتِ اسلامی میں، جو بظاہر تیزی کے ساتھ منزلیں سر کرتی نظر نہ آرہی ہوں، کارکنوں کی سطح پر اضطراب کا اظہار ایک فطری امر ہے۔ ان کے ہاں یہ احساس کہ اصل کرنے کا کام نہیں ہو رہا ، تربیت میں کمی آرہی ہے ،ترقی نہیں ہو رہی ہے، ایثار و قربانی کا جذبہ کم ہو رہا ہے ، قیادت میں فیصلوں کے ساتھ چلنے کے بجاے فیصلے نافذ کرنے کا سا انداز پیدا ہو رہا ہے، یا پھر یہ شکایت کہ ضرورت سے زیادہ فروتنی اور اپنے آپ کو کم تر سمجھا جارہا ہے۔ یا پھر اپنی قوت کے بارے میں یہ  غلط احساس پیدا ہو گیا ہو کہ ہم جب چاہیں شاہراہیں روک کر اپنی قوت کو منوا سکتے ہیں ۔ اسی طرح دوسروںکے مقابلے میں خود کو زیادہ صاحب تقویٰ اور صاحب علم سمجھنا وغیرہ وغیرہ۔ غرض یہ کہ بے شمار اچھے پہلو ہوں یا بعض کمزوریاں ، ان کا پایا جانا، ان پر باہمی مکالمہ کرنا درحقیقت زندگی کی علامت ہے۔ان تمام احساسات و جذ بات کا وجود بنیادی طور پر تحریک اسلامی کے متحرک ہونے کی دلیل ہے۔ اگر تحریک جامد اور ساکت ہوتی تو کارکن ہوں یا قیادت یا دعوت کے مخاطب ، ان میں یہ اضطراب نہ پایا جاتا۔ اضطراب کا پایا جانا ہی حیات کا ثبوت ہے۔ یہی وہ احساس ہے جو حضرت ابوبکرؓ اور حضرت حنظلہ ؓ کے دل میں تھا کہ جب ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہوتے ہیں تو جو دل کی کفیت ہوتی ہے وہ اس سے مختلف ہوتی ہے جو گھر پر یا بازار میں پائی جاتی ہے اور جسے دونوں اصحابِ رسولؐ نے نفاق سے تعبیر کیا تھا ۔

                تحریک اسلامی ہر دور میں اس کیفیت سے دوچار رہی ہے اور رہے گی، کیونکہ اس کے تحریک ہونے کا مطلب ہی یہ ہے کہ اس کا ہر آنے والا دن پہلے دن سے بہتر ہو۔ اگر ایسا نہ ہو تو پھر اس کا قلبِ مضطرب ، سوتے جاگتے اسے پکار پکار کر کہتا کہ کہیں اس میں نفاق تو نہیں آگیا ۔ یہ احساس اسے اپنے رب سے تعلق مضبوط کرنے ، اپنے احتساب اور اپنی ترجیحات کے جائزے کی طرف متوجہ کرتا ہے ۔

یہ خیال کہ بعض تحریکات پر سیاست غالب آگئی ہے اور تعلق باللہ ، للہیت ، تقویٰ و احسان مفقود ہو گئے ہیں، ایک قابل قدر احساس ہونے کے باوجوداس حقیقت کو نظر انداز کرنا ہے کہ سیاسی سرگرمی اور سیاسی تبدیلی کا مقصد کیا ہے؟ یہ جدوجہد اقامتِ دین اور حاکمیت الٰہیہ کے لیے کی جاری ہے یا محض سیاسی سرگرمی؟ کیااس کا مقصد سینٹ یا پارلیمنٹ میں علامتی وجود کو برقرار رکھنا ہے یا اقامتِ دین کے لیے ان ایوانوںمیں مؤثر کردار ادا کرنا ہے، جو قوم و ملک کی قسمت سے انصاف بھی کرسکے اور عوام پر ظلم اور ان کے استحصال کے مرتکب عناصر سے پنجہ آزمائی بھی کرسکے؟ کسی بھی اسلامی تحریک کو اس نوعیت کے سوالات پر باربارغور کرنا چاہیے اور جذبات سے بلند ہو کر، نفع ونقصان کا بے لاگ جائزہ لینا چاہیے اور تحریکی سفر کے مراحل کو منزل سمجھنے کی غلطی نہ کرنی چاہیے۔

ہمارے لیے اصل میزان قرآن وسنت ہیں۔ ان کی رہنمائی اور روشنی میں ہماری ذمہ داری ہے کہ ذاتی اور اجتماعی احتساب اور اپنی حکمت عملی پر مسلسل غور وفکر کا عمل جاری رکھیں اور ظن و گمان سے بچتے ہوئے یہ کام انجام دیں کہ بہت سے گمان اور ظن گناہ کے دائرہ میں آتے ہیں (اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ (الحجرات۴۹:۱۲)۔ یاد رہے تحریکی کارکنوں اور قیادت کے درمیان شفافیت اور احتساب کا مسلسل عمل اور باہمی اعتماد ہی سفر کے جاری رہنے کی ضمانت ہے۔تحریک اسلامی کا ارتقائی سفر (Progressive Process ) کسی ایک مرحلے کے پیمانے سے نہیں ناپا جاسکتا۔ یہ اسلامی تحریک  مکہ مکرمہ سے حبشہ اور مدینہ پہنچی اور مدینہ منورہ سے پوری دنیا کے لیے ایک عالم گیرتحریک کی شکل اختیار کر گئی ۔ اس کے تاریخی مراحل میں مکی دور ہو یا حبشہ کی ہجرت کا دور یا آخر کار ہجرت مدینہ منورہ اور قیام حاکمیت الٰہی، یا وہ فکری، اخلاقی، سیاسی اور ہمہ پہلو انقلاب جو دین کی تکمیل کے اعلان کا باعث بنا۔ ان تمام تاریخی مراحل میں قیامت تک کے لیے وہ راہنما اصول موجود ہیں ، جن کا صحیح شعور و ادراک تحریکات اسلامی کو صراط مستقیم پر رکھنے کی ضمانت فراہم کرتا ہے ۔

منزل اور اس کے تقاضے

تحریکات اسلامی کی سفر کی منزل صرف اور صرف ایک ہے ، اللہ سبحانہ تعالیٰ کی زمین پر اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کے قیام کے ذریعے اس کی رضا کا حصول ـ :

 اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ ط اَمَرَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِیَّاہُ ط ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ (یوسف۱۲:۴۰) فرماں روائی کا اقتدار اللہ کے سوا کسی کے لیے نہیں ہے ۔ اس کا حکم ہے کہ خود اس کے سوا تم کسی کی بندگی نہ کرو۔ یہی ٹھیٹھ سیدھا طریق زندگی ہے ۔

یہ حاکمیت سب سے پہلے ایک فرد اپنے چندفٹ لمبے جسم پر قائم کرتا ہے۔ چنانچہ قران کریم نے جہاں کہیں بھی اسلام لانے کے بعد ایمان کا تذکرہ کیا ہے، فوری طور پر ایمان کو ناپنے، تولنے اورجانچنے کا پیمانہ بھی ساتھ ہی بیان کر دیاہے۔ البقرہ کی ابتدائی آیات پر غور کریں تو یوں نظر آتا ہے کہ جو شخص بھی وہ مرد ہو یا عورت ، بچہ ہویا جوان ، بوڑھا ہو یا توانا اور صحت مند یا معذور جب ایمان لاتا ہے، تو اس کاعملی اظہار کرنے کے لیے ایمان کے پہلے تقاضے، یعنی اقامتِ صلوۃ اور انفاق فی سبیل اللہ کو اپنے عمل کا حصہ بنالے۔

 انسانوں کی جو بڑی اقسام قرآن کریم نے بیان کی ہیں، ان میں ایک یہ ہے کہ : وہ جو ایمان لاکر مسلم بن جاتے ہیں۔ ان کے اسلام اور ایمان کی پہچان اقامتِ صلوٰۃ (صرف نماز پڑھ لینا یا ادا کردینا نہیں بلکہ نماز کے ذریعے تزکیۂ نفس اور پھر نیکی اور عدل کا قیام اور فواحش کا ابطال) اور مالی معاملات میں ’انفاق‘ (اللہ کی راہ میں بے دریغ خرچ کرنا )ہے۔

’انفاق‘ کی اصطلاح زکوٰۃ اور صدقات سب کا احاطہ کرتی ہے ۔زکوٰۃ بطور فریضہ لازم ہے۔ لیکن زکوٰۃ کی ادایگی ایک شخص کو صدقات اور انفاق سے بری نہیں کر دیتی ۔ گویا ایمان کا پہلا پیمانہ اور تقاضا نظامِ صلوٰۃ اور نظام انفاق کا قیام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مکی دور میں ان دونوںہتھیاروں سے لیس اہل ایمان نے وہ مجاہدہ کیا ، جس نے ایک ایسی قوت کو وجود بخشا جو عددی لحاظ سے چاہے کم تھی، لیکن اپنی اثر نگیزی میں دنیا کے بڑے سے بڑے لشکر سے زیادہ قوی اور حقیقی معنی میں ایک بُنیانٌ مَرصوصٌ بن کر طاغوت ،ظلم ، شرک و کفر کے خلاف ایک انقلابی اور اصلاحی تحریک بن کر ابھری اور کفر، جہالت اورظلم کی تاریک فضا کو اس نے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی مدد اور نصرت کے سہارے، اپنے سے کئی گنا زیادہ بڑی طاغوتی قوتوں پر فتح حاصل کرتے اور دیکھتے ہی دیکھتے کفر و ظلم کے بادلوںکو اللہ کی رحمت اور فضل و کرم سے سبک ہواؤں میں تبدیل کر دیا :

کَمْ مِّنْ فِئَۃٍ قَلِیْلَۃٍ غَلَبَتْ فِئَۃً کَثِیْرَۃًم بِاِذْنِ اللّٰہِ ط وَاللّٰہُ مَعَ الصّٰبِرِیْنَo (البقرہ ۲:۲۴۹)بارہا ایسا ہوا ہے کہ ایک قلیل گروہ اللہ کے اذن سے ایک بڑے گروہ پر غالب آگیا ہے ۔ اللہ صبر کرنے والوں کا ساتھی ہے۔

مکی و مدنی اَدوار:  تحریک کا ارتقائی سفر

 یہ تصور کہ مکی اور مدنی ادوار مکمل طو ر پردو الگ اکائیاں ہیں ، تحریک اسلامی کے ارتقائی سفر کے تناظر میں غیر عقلی نظر آتا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ مدینہ منورہ میں حاکمیت الٰہی کے قیام کے بعد یہ فاصلے ہمیشہ کے لیے ختم ہوگئے۔اب دین کی حکمت: یُّؤْتِی الْحِکْمَۃَ مَنْ یَّشَآئُ ج وَ مَنْ یُّؤْتَ الْحِکْمَۃَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْرًا کَثِیْرًا ط وَ مَا یَذَّکَّرُ اِلَّآ اُولُوا الْاَلْبَابِ o (البقرہ ۲:۲۶۹) ’’جس کو چاہتا ہے حکمت عطا کرتا ہے، اور جس کو حکمت ملی اسے حقیقت میں بڑی دولت مل گئی۔ ان باتوں سے صرف وہی لوگ سبق لیتے ہیں جو دانش مند ہیں‘‘___ جسے رب کریم نے بارہا اپنے ایک انعام کے طور پر قرآن کریم میں دُہرایا ہے، کے پیش نظر تحریکی قیادت کی ذمہ داری یہ قرار پاتی ہے کہ عین مدنی دور کے دوران مکی حکمت عملی کو کس طرح استعمال کیاجائے اورعین مکی دور سے گزرتے ہوئے مدنی دور کی کسی حکمت عملی پر کیسے عمل کیا جائے؟ گویا ایک مرتبہ نظام اسلامی کے قیام کے بعد تاریخی زاویے سے یہ دونوں اَدوار الگ الگ خانوں میں تقسیم نہیں کیے جا سکتے۔

دورِ حاضر میں تحریک اسلامی کی حکمت عملی اور اسٹرے ٹیجی بناتے وقت دونوں ادوار میں اختیار کی گئی حکمت عملی اور نظام تربیت سے بیک وقت مدد لینی ہو گی۔ اب دعوت اسلامی کے وسیع تر تناظر میں اقامتِ دین کے جامع مقاصد کے پیش نظر حکمت عملی وضع کی جائے گی، جس کے لیے دونوں ادوار سے مناسب حد تک استفادہ کرنا ہو گا۔اس نکتے کو سمجھنے میں اللہ رب العزت کی اس حکمت عملی میںبھی بڑی رہنمائی ہے کہ قرآن پاک میں جہاں مکی اور مدنی سورتوں کی نشان دہی کردی گئی ہے، وہیں قرآن کی ترتیب نزول قرآن کے مطابق نہیںبلکہ اللہ کی ہدایت کے تحت اس ابدی اور آفاقی ہدایت کو اس طرح مرتب فرمایا گیا ہے کہ مدنی آیات کے ساتھ ساتھ مکی دور کی آیات کوپیوست کر دیا ہے۔

 اس پس منظر میں تحریک اسلامی پر ایک ارتقائی سفرکے زاویے سے غور کیا جائے: تو چاہے اس نے اپنے کارکنوں اور قیادت کوفکری طور پر اقامتِ دین کے وسیع تر تصور سے آگاہ کر دیا ہو اور قرآن و سنت ، فقہ ، تفسیر اور اعلیٰ اسلامی ادب سے پوری طرح واقف کرا دیا ہو، اس کے باوجود ہرکارکن اور قائد کو ہر لمحے جائزہ لینا ہو گا کہ اگر مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو رہے، تو اس کا سبب کیا ہے ؟

ہم نے آغا ز میں سوال اٹھایا ہے کہ کمی، کوتاہی یا نقص کہاں ہے ؟ اس کا سراغ لگانے کے لیے ہمیں خود اپنے کردار اور ترجیحات کاجائزہ لینا ہوگا۔ نیز یہ دیکھنا ہو گاکہ جو افرادی قوت پیش نظر تھی اس میںمطلوبہ خصوصیات پیدا ہوئیں یا نہیں؟ اس بات کو یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ: کیا افرادی قوت اسی معیار پر تیار ہورہی ہے جو ہم چاہتے تھے اور کیا ہماری حکمت عملی اور حصول مقصد کے ذرائع، مطلوبہ نتائج ( Outcome) کے لیے مفید ثابت ہوئے؟ یا جو ذرائع ، حکمت عملی اور طریقے اختیار کیے گئے ہیں ان سے وہ معیارِ مطلوب (End Product) حاصل نہیں ہواجس کی خواہش اور طلب دل و دماغ میں پائی جاتی تھی ۔ اگرہماری خواہش یہ ہو کہ ہم فصل آنے پر اعلیٰ قسم کے آم کا مزا لیں جبکہ ہم نے درختوں میں نہ قلم لگایا ہو، نہ ارد گرد پھیلے ہوئے کیڑوں ، مکوڑوں کو دور کیا ہو اور محض تخمی پودا لگا کر اعلیٰ آموں کے خواب دیکھتے رہیں تو اس کے نتیجے میں ہمارے تصور اور نتائج میں کبھی بھی یگانگت نہیں ہو سکتی۔

تحریکاتِ اسلامی کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ ان کا مکی دور کبھی ختم نہیں ہوتا (بنگلہ دیش کی حالیہ صورت حال اور مصر میں گذشتہ ۷۰سال کا جائزہ اس جانب اشارہ کرتا ہے)۔ یہ مکی دور دراصل تحریک کا تعمیری دور ہے ۔ اس میں افراد سازی ، ذہن سازی ، کردار میں تبدیلی ، رویوں کی تبدیلی، انسانی تعلقات کی نئی تعبیر ، تصور حیات میں بنیادی اصلاح ، اپنی ذات، گھر اور معاشرے میں اپنے کردار پر غور، اور سب سے بڑھ کر طاغوت اور کفر کی طرف سے مزاحمت اور ہر قدم پر رکاوٹوں اور آزمایشوں کے پہاڑوں کا پایا جانا شامل ہے ۔ قرآن کریم نے اس اصول کو واضح فرما دیا کہ جب حق کی بے لاگ دعوت پیش کی جائے گی تو کفر و شرک کا رد عمل صرف یہ ہو گا کہ یا تو ہم سے قدم ملاکر تعاون کرو اور وہی راستہ اختیار کرو، ورنہ ہم تمھیں اس سرزمین سے نکال باہر کریں گے:

آخر کار منکرین نے اپنے رسولوں سے کہہ دیا کہ ’’یاتو تمھیں ہماری ملت میں واپس آنا ہو گا ورنہ ہم تمھیں اپنے ملک سے نکال دیں گے‘‘۔ تب ان کے رب نے ان پر وحی بھیجی کہ’’ہم ان ظالموں کو ہلاک کر دیں گے‘‘۔ (ابراہیم ۱۴:۱۳)

گویا مکی دور مدینہ پہنچ جانے کے بعد بھی ختم نہیں ہوتا ۔ فکری بنیادوں کی آبیاری پر ہی تحریک کی اٹھان کا انحصار ہوتا ہے ۔چنانچہ مدنی دور کے مطالبات میں: چاہے سیاسی محاذ پر بین الاقوامی قانون کی تدوینِ جدید ہو یا مسلمانوں میں باہمی تعلق و اخوت کا قیام ، یا مدینہ کے دفاعی نظام کا مستحکم کرنا شامل ہو۔ اسی طرح ان تمام ریاستی مطالبات کے ساتھ ، تعمیر سیرت ، فکری بلوغت ، تعلق باللہ، توحید کا صحیح شعور ، عدلِ اجتماعی کا فہم ، اقامتِ دین کی بنیادوں ، عبادات، انفاق فی سبیل اللہ وغیرہ  وہ پہلو ہیں جو تحریک کا قلب و روح ہوتے ہیں۔ ان پر اگر شعوری طور پر کام نہ کیا جائے تو ممکن ہے کہ تحریک عوام کا ایک ہجوم اپنے گرد جمع کر لے اور ایوانِ نمایندگان میں اچھی خاصی تعداد میں کامیاب ہو کر بھی آجائے ، لیکن وہ اپنا اصل مقصد حاصل نہیں کر سکے گی ۔ اس کی کامیابی تعداد پرمنحصر نہیں ہے بلکہ ان باشعور افراد کی تیاری ، اس معاشرتی تبدیلی پر منحصر ہے جو وقت کے ہر امتحان میں پوری اُترے اور تحریک ہوا کے رخ سے بے پروا ہو کر شاہین کی طرح اپنے ہدف کی طرف سفر کو جاری رکھ سکے۔

قرآن کریم کا دیا ہوااٹل اصول ہے کہ وہ بنی اسرائیل کے صالح افراد کی جماعت ہو یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تربیت یافتہ صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کی جماعت جو چاہے تعداد میں مختصر ہو ،اگر اس کا کردار اور تربیت معیاری ہو گی تو اسے ایک کثیر جماعت پر غالب آنا چاہیے ۔ اصل ضرورت ان افراد کی ہے جو منزل کا واضح تصور رکھتے ہوں، ان کی سیرت اُسوہ نبویؐ کی عکاسی کرتی ہو اور وہ اللہ تعالیٰ کی امداد پر بھروسا کرتے ہوئے اپنی جان ، مال، علم ہر چیز کو صرف اللہ کی رضا کے لیے بازی پر لگانے کے لیے آمادہ ہوں:  قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ o لَا شَرِیْکَ لَہٗ  ج (انعام۶:۱۶۲-۱۶۳)

یہی قرآنی اصول بنی اسرائیل کے لیے تھا ، یہی امت مسلمہ کے لیے ہے ۔تحریک اسلامی کی قیادت اور کارکنوں کو ہر لمحے اپنا جائزہ لینا ہو گا کہ وہ ان دونوں پہلوؤں میں کس حد تک توازن و اعتدال برقرار رکھ سکی ہے اور کہاں پر زیادہ توجہ کی ضرورت ہے۔

دورِ جدید اور فکری تقاضے

 فکری غذاکے سلسلے میں یہ جاننا ضروری ہے کہ جب تک تحریکی فکر میں نئے سوتے پھوٹتے رہیں گے ، تحریک کی اثر انگیزی اور وسعت میں اضافہ ہو گا ۔ اس کی فکر طاغوتی مادہ پرستانہ فکر کے مقابلے میں اپنی برتری تسلیم کرائے گی ۔لیکن اگر یہ فکری سوتے خشک ہونے لگیں تو تحریک بھی ایک سوکھے درخت کی طرح اپنی جگہ قائم تو رہے گی، لیکن امت مسلمہ اس کی گھنی چھاؤں اور اس کے میٹھے پھل سے محروم رہے گی۔اس لیے تحریک کو علمی اور فکری میدان میں مسلسل ترقی کی فکر کرنی ہو گی۔

 یہ خیال بھی بے بنیاد ہے کہ دور جدید میں تحریک اسلامی کے فکری رہنماؤں نے جن خیالات کا اظہار کیااور جو حل تجویز کیے وہ وقت اور جغرافیائی سرحدوں میں محدودہیں۔ اگر امام حسن البنا بالاکوٹ یا لاہور میں پیدا ہوتے تو ان کی دعوتی زبان اُردو ہی ہوتی ، اسی کے محاورے ان کی     نوک زبان پر ہوتے ، ایسے ہی اگر مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودی ترکی میں پیدا ہوتے تو ان کی تحریری زبان ترکی ہی ہوتی۔ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ امام غزالی نے بغداد میں یا قاہرہ میں بیٹھ کر عربی زبان میں جن خیالات کا اظہار کیا اورشاہ ولی اللہ دہلوی نے دہلی میـں بیٹھ کر عربی اور فارسی میں جو کچھ تحریر کیا  ان کے مخاطب نہ صرف عربی سمجھنے والے افراد تھے بلکہ آج تک ان کی فکر کی تازگی اور دینی حکمت سوچنے سمجھنے والے افراد کو متاثرکرتی ہے ۔ کیا اقبال محض پاکستانیوں کے لیے پیدا ہوئے تھے یا اقبال کی قدر اس کی جاے پیدائش والوں سے زیادہ وسط ایشیا کے افراد نے کی اور کر رہے ہیں ۔

پھر یہ بنیادی مقدمہ کہ کیا فکر (thought) وقت کے ساتھ ساتھ ماضی کا حصہ بن جاتی ہے ؟ قرآن وحدیث کو زمان و مکان کی محدودیت اور کسی علاقے یا وقت میں قید کر دینا ایک انتہائی مریضانہ ذہنیت ہے، جو غیر شعوری طور پر مغرب کی لادینی اور استشراقی فکرسے متاثر بعض مسلمان دانش ور پیش کررہے ہیں۔یہ بالکل اُسی طرح ہے، جس طرح مغرب میں ہر تھوڑے عرصے میں ایک ’دانش وارانہ ‘نعرہ بلند ہوتا ہے کہ: ’’ماضی کے تصورات اب پرانے ہو گئے ہیں اس لیے نئے نظریات کی ضرورت ہے‘‘۔

جس طرح مغرب میں جدیدیت کے بطن سے نو جدیدیت (Post Modernism) کی ولادت ہوئی اور جس طرح مغرب نے تاریک دور (Dark Ages) سے دور عقلیت (Rationalism) میں قدم رکھا، اور بالخصوص آگسٹ کومے، ہیگل اور کانٹ کے تصورات کی روشنی میںعیسائیت کی جگہ عقلیت ، اباحیت، آزاد روی، مادیت پرستی اور دیگر تصورات کو ’روشن خیالی‘ کے زیرعنوان فخریہ طور پر اختیار کیا گیا، بالکل ایسے ہی ان مغربی فکر سے متاثر ’دانش وروں‘ کے خیال میںمسلم اہل فکر کو بھی قرآن و حدیث کو جدیدیت کی چھلنی سے گزارناچاہیے ۔ یہ وہ سادہ لوحی پر مبنی گمراہی ہے جو آج بعض مسلم دانش ور شعوری یا غیر شعوری طور پر اسلام اور تحریکات اسلامی کے قائدین کی فکرکے حوالے سے وقتاً فوقتاً دُہراتے رہتے ہیں۔

یہ ’مسلم دانش ور‘ سمجھتے ہیں کہ حق و صداقت کے معیارات کو بھی وقت کے ساتھ تبدیل ہونا چاہیے اور ہر دور میں ایک ’من پسند نو تراشیدہ اور شتر بے مہار اسلام‘ وجود میں آنا چاہیے ۔اپنی اس خواہش کے باوجود یہ لوگ اگر سنجیدگی سے اسلامی قانون سمجھانا چاہتے ہیںتوائمہ اربعہ کے حوالے کے بغیر بات مکمل نہیںکر سکتے۔ دوسری طرف دورِ جدید کے تحریکات اسلامی کے مؤسسین کے حوالے سے پائی جاتی ہے کہ ان کی فکر آج بھی ویسی ہی تازہ، کارآمد اور relevant ہے جیسے ۸۰برس قبل تھی۔

 یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ مغربی جامعات یا مغربی نظام تعلیم میں تربیت پانے والے اکثر مسلمان مصنفین یہ نعرہ بلند کرنے لگے ہیں کہ:’’ چونکہ وہ Postmodernism  [مابعد دورِ جدیدیت]  عہد میںبس رہے ہیں، اس لیے تحریکات اسلامی کو بھی ایک بالکل نئی فکری بنیاد کی ضرورت ہے‘‘۔      بہ ظاہریہ بات بہت دل پسند معلوم ہوتی ہے اور اسے اور بھی معتبر بنانے کے لیے یہ لوگ کہتے ہیں کہ قرآن کریم میں بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر قوم میں اس کی لسان /زبان میں انبیاؑ کے ذریعے اپنا پیغام اور ہدایت بھیجی۔ اس کا واضح مفہوم یہی نظرآتا ہے کہ ہر دور کے حالات کی رو شنی میں، وہ اسلوب جو اس دور میں زیادہ مؤثر ہو استعمال کیا جائے۔ لیکن اس کا یہ مطلب کیسے لیا جاسکتا ہے کہ ہر نئے دور کے لحاظ سے نبی کی دعوت بھی مختلف ہویاہر دور میں توحید ، رسالت اور آخرت کا ایک نیا تصور پیش کیا جائے ؟ قرآن نے یہ بات قیامت تک کے لیے طے کر دی ہے کہ تمام انبیا ؑکی دعوت دو نکات ہی پر مبنی تھی، اللہ کی مکمل بندگی اور طاغوت کا مکمل رداور مخالفت:

وَ لَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَ اجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ ج (النحل ۱۶:۳۶ ) ہم نے ہرامت میں ایک رسول بھیج دیا، اور اس کے ذریعے سے سب کو خبردار کر دیا کہ ’’اللہ کی بندگی کرو اور طاغوت کی بندگی سے بچو‘‘۔(مزیدملاحظہ ہو:الزمر ۳۹:۱۷)

تحریکاتِ اسلامی کی دعوت انبیا ؑ کی دعوت ہے ۔ یہ اللہ کی مکمل حاکمیت اور نظامِ عدل کے قیام کی دعوت ہے، جس میں کسی نظر ثانی کی ضرورت نہیں۔ تاہم، حکمت عملی اور ترجیحات ہر دور کے لحاظ سے متعین کی جائیں گی۔جہاں تک دعوت کا تعلق ہے اسے قرآن اور سنت رسولؐ کی شکل میں مکمل کر دیا گیا:

اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا ط ( المائدہ۵:۳)آج میں نے تمھارے دین کو تمھارے لیے مکمل کردیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمھارے لیے اسلام کو تمھارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے ۔

جیساکہ پہلے کہا گیا کہ لازمی طور پر تحریکات کی زندگی کا تعلق فکر کی تازگی کے ساتھ ہے۔ لیکن بعض افکار صدیا ںگزر جانے کے باوجود تازہ رہتے ہیں۔آج غالب گو انتقال کیے ڈیڑھ سوبرس گزر چکے ہیں۔ کیا اس کے باوجود اردو شعر و ادب کا کوئی طالب علم یہ کہہ سکتا ہے کہ غالب کا دور گزر گیا ہے، اس لیے اب غالب کا مطالعہ کرنے کے بجاے نو آموز شعرا کے کلام پر اکتفا کیا جائے اور ادبی سفر اور ادبی نقد کا آغازصرف جدید شعرا کے کلام سے کیا جائے ؟اس تخیل کو وزن دینا تو دُور کی بات، ایسی بات کہنے والے کی عقل کو ناقص سمجھا جائے گا۔

یہاں جس بات کی ضرورت ہے وہ یہ کہ فکر مودودی ہو یا فکر اقبال یا فکر امام حسن البنا اس کو مصادر کی روشنی میں سمجھ کر آگے بڑھانے کے لیے وہ زاویے اور وہ راستے تلاش کیے جائیں، جن کی طرف ان فکری قائدین نے اشارے کیے ہیں اور جن کی تفاصیل وہ بیان نہ کر سکے یا ایسے پہلو جو کسی بنا پر ان کی نگاہ سے اوجھل رہ گئے۔ لیکن یہ اسی وقت ہو گا جب ان کی فکر کو ہضم کر کے حکمت دعوت کے ہر پہلو کو سامنے رکھتے ہوئے تحریک کے ارتقائی سفر کے مطالبات کی روشنی میں حل تلاش کیے جائیں۔

عصرحاضر کی حکمت عملی: بنیادی خطوط

غور سے دیکھا جائے تو مکی دور کے نمایاں پہلوؤں میں سب سے واضح پیغام توحید خالص کا تعارف ہے (سورۂ ا خلاص اور الفاتحہ توحید کا ایک جامع تصور پیش کرتی ہیں)۔ اس کے ساتھ ہی شرک کا رد اور دلیل کی بنیاد پر اس بات کی وضاحت کہ اسلام جس دین کا نام ہے، وہ شرک کی کسی قسم کو برداشت نہیں کر سکتا (الکافرون میں اس سے مکمل براء ت کا اعلان کر دیاگیا۔(مزید دیکھیے: سورۂ یوسف۱۲:۴۰)

مکی معاشرے میں ’شرک‘ جس طرح سرایت کرگیا تھا، آج بالکل وہی شکل پائی جاتی ہے ۔   یہ ’شرک‘ فکر میں ، معاش میں، اخلاق میں ، معاشرت میں ، سیاست میں، غرض زندگی کے ہر شعبے میں رچ بس گیا تھا اور مشرکانہ معاشرہ شرک و نفاق کا اس طرح عادی ہو چکا تھا،جس طرح ایک متعفن نالے کے کنارے بسنے والے لوگ فضا کے تعفن کے عادی ہوجاتے ہیں۔

آج شرک کے روپ اور شکلیں مختلف ہیں، لیکن ان سب کی خاصیت ایک ہی ہے۔ کہیں یہ سود کی شکل میں ، کہیںسیاست میں برادری اور دولت کی بنیاد پر ووٹ دینے کی شکل میں، یامعاشرت میں اسلام کے دعوے کے باوجود ایسی بہت سی رسوم رواج کی شکل میں موجود ہے، جو خالصتاً ہندو ازم سے اخذ کی گئی ہیں۔ کہیں ایشائی تہذیب اور معاشرت کے نام پرا پنی مختلف شکلوں میں پائی جاتی ہیںاور ہمارے گھر وں ، بازاروں ،اقتدار کے ایوانوں، حتیٰ کہ مذہبی حلقوں تک میں پائی جاتی ہیں۔ کسی کا خدا دولت ہے، کسی کا شہرت ، کسی کا اخلاقی اباحیت ، کسی کا عسکری قوت اور کسی کا بیرون ملک فرماں رواؤں سے ذاتی دوستی کا فخر۔

ایسے حالات میں سوچنا ہو گا کہ مکہ میںکیاحکمت عملی اختیار کی گئی تھی اورآج ہمیں کیا کرنا ہوگا؟ کیا توحید پر ایک مدلل درس اور شرک پر ایک بھرپور تقریر یا کسی جلسے میں اعلان جہاد مسئلہ حل کرسکے گا ؟ مکی دور کا مطالعہ یہ بات واضح کر دیتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاںایوانِ اقتدار پر بیٹھے قریش کے سر داروں کومخاطب کیا، وہیں معاشرے کے ہر ہر طبقے کے افراد کو اقامتِ دین کی دعوت دی ۔ جہاںآپ عتبہ ، ابو طالب ، ابوجہل ، ابو سفیان ، کو براہِ راست دعوتِ دین دینے میں مصروف عمل رہے ، وہیں آپ نے حضرت بلال ، آل یاسر اورمعاشرے کے ان افراد کو، جو طبقاتی سطح پر محرومیوں کا شکار تھے، اپنی دعوت کا ہدف بنایا اور ان سے بڑے قیمتی ساتھی حاصل کیے۔

اسلام صرف ایک نظری دعوت بن کر نہیں آیا بلکہ معاشی استحصال، اخلاقی فساد اور سیاسی خلفشار کو ایک ہمہ گیر الہامی اور فطری ہدایت کے ذریعے مکہ کے محروم طبقات کی نجات کے لیے    ان کے مسائل کو حل کرنے کا عزم بھی لے کر آیا۔ مکّہ کی مذہبی، سیاسی اور معاشی مقتدرہ نے ۳۶۵بتوں کی ڈھال کی آڑ میں ہر آنے والے دن کی قسمت پہلے سے طے کررکھی تھی۔ یہاں معاشی سطح پر دولت پرستی نے آقاؤں اور غلاموں کے دو طبقات پیدا کر دیے تھے۔ (آج کے ’روشن خیال‘ زمانے میں یہ تقسیم نام نہاد ترقی یافتہ ممالک اور ان کی معاشی و فکری غلام اقوام میں پائی جاتی ہے)۔ مسلم دنیا اپنی معیشت، تحفظ، دفاع،تعلیم اور سیاست، غرض ہرشعبۂ حیات میں مغرب کی لادینی فکری اور علمی روایت کی اندھی تقلید میں مبتلا ہے۔ یہ ’جدید شرک‘ جوہری اعتبار سے اس شرک سے مختلف نہیں ہے،جس میں ہر خواہش کے لیے ایک بت تراش لیا گیا تھا۔ ہوش کی نگاہ سے دیکھا جائے تو یہ مکی دورِجاہلیت ہی کی ایک جدید شکل ہے ۔ اس لیے ہمیں مکی دور کی حکمتِ عملی کو سمجھ کر آج کے حالات کے لحاظ سے مناسب شکل دینی ہو گی۔

مکہ میں توحید خالص کا عملی مطالبہ یہ تھا کہ تمام جاہلی روایات سے تعلق توڑ کر صرف اللہ  رب العالمین اور اس کی نازل کرد ہ ہدایت کو معیشت ،معاشرت، سیاست ، ثقافت اور علم، قانون، غرض ہرشعبۂ حیات میں نافذو قائم کرنے کے لیے مجاہدہ کیا جائے۔یہ اقامتِ دین کا جامع تصور ہے،  جس نے مکی دورِ ظلمت کوایک تابناک دور میں میں تبدیل کر دیا  ۔ حق آگیا اور حق آنے ہی کے لیے تھا اور باطل چلا گیا اور باطل جانے کے لیے ہی تھا۔(انفال ۸:۸، بنی اسرائیل ۱۷:۸۱)

 اس دور کی حکمت عملی جو ہمارے ارتقائی سفر کے لیے غیر معمولی اہمیت رکھتی ہے، مکی سورتوں میں بڑی وضاحت کے ساتھ موجود ہے اور یہ آیات آج بھی اسی طرح عملیت پسندانہ (pragmatic) سوچ اور حکمت عملی لیے ہوئے ہیں ، جس طرح اپنے نزول کے وقت تھیں ۔ قران کریم اور سنتِ مطہرہ کا ایک ایک لفظ وہ ابدیت لیے ہوئے ہے، جو کسی انسانی فکرمیں نہیں پائی جاسکتی۔ مکی دور کی یہ آیات وقت اور مقام کی قید سے بلند آج بھی تحریکات اسلامی کے ارتقائی سفر میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہیں۔

 قرآن کریم عالم گیر انسانیت کے اولین مرکز ، ایک بے آب و گیاہ وادی کو قیامت تک کے لیے مرکز نگاہ بنا دینے والے شہر مکہ معظمہ کی قسم کھا کر جس حکمت عملی کا ذکرکرتاہے وہ آج بھی ہر اسلامی تحریک کے لیے کے لیے ایک منشور کی حیثیت رکھتی ہے ۔ فرمایا گیا:

نہیں، میں قسم کھاتا ہوں اس شہر (مکہ) کی، اور حال یہ ہے کہ (اے نبیؐ) اس شہر میں تم کو حلال کر لیا گیا ہے، اور قسم کھاتا ہوں باپ (یعنی) آدمؑ کی اور اس اولاد کی جو اس سے پیدا ہوئی، درحقیقت ہم نے انسان کو مشقت میں پیدا کیا ہے۔ کیا اس نے یہ  سمجھ رکھا ہے کہ اس پر کوئی قابو نہ پا سکے گا؟کہتا ہے کہ میں نے ڈھیروں مال اڑادیا۔کیا وہ سمجھتا ہے کہ کسی نے اس کو نہیں دیکھا ؟ کیا ہم نے اسے دو آنکھیں اور ایک زبان   اور دوہونٹ نہیں دیے؟ اور ( نیکی اور بدی کے) دونوں نمایاں راستے اسے (نہیں) دکھا دیے؟ مگر اس نے دشوا رگزار گھاٹی سے گزرنے کی ہمت نہ کی۔ اور تم کیا جانو کہ کیا ہے وہ دشوار گزارگھاٹی؟کسی کی گردن کو غلامی سے چھڑانا، یا فاقے کے دن کسی قریبی یتیم یا خاک نشین مسکین کو کھانا کھلانا۔پھر (اس کے ساتھ یہ کہ) آدمی ان لوگوں میں شامل ہو جو ایمان لائے اور جنھوں نے ایک دوسرے کوصبر اور (خلقِ خدا پر) رحم کی تلقین کی۔ یہ لوگ ہیں دائیں بازو والے۔ (البلد ۹۰: ۱-۱۸)

آغاز جس بات سے کیا جارہا ہے وہ بہت چونکا دینے والی ہے، یعنی کیا انسان کو قوت مشاہدہ اور قوت بیان سے نہیں نوازا گیا کہ وہ جو کچھ دیکھتا ہے اور ذہن وقلب سے جو اس کا تجزیہ کرتا ہے  اس پر خاموش تماشائی بن کر نہ بیٹھا رہے، بلکہ کم از کم اپنے ہونٹوں اور زبان کا استعمال کر کے     حق وباطل میں فرق اور تمیز کرتے ہوئے نیکی اور بدی کے فرق کو سمجھتے ہوئے ، حق کے قیام کی جدوجہد میں شامل ہو۔ اس سفر کی دشوار گزار گھاٹی کے راستے کی رکاوٹوں کو دور کرتا آگے بڑھتا چلا جائے۔

اقامتِ دین کی جدوجہد کی سربلندی کے لیے جن رکاوٹوں کو دور کرنا ہو گا، ان میں ’’کسی کی گردن کو غلامی سے چھڑانا ہے‘‘، یا ’’کسی فاقہ کش کو فاقے سے بچانے کے لیے پیٹ بھر کر کھانا کھلانا ہے‘‘، یا کسی ’’قریبی یتیم رشتہ دار کو‘حالت محرومی سے نکال کر مقام قیادت تک پہنچا دینا‘‘ بھی شامل ہے ۔

جب تحریک سے وابستہ فرد یہ کرے گا تو وہ ان لوگوں میں شامل ہو جائے گا:’’جو ایمان لائے اور جنھوں نے ایک دوسرے کو صبر اور(مخلوق پر)رحم کی تلقین کی‘‘۔ یہ افراد اس سورۂ مبارکہ کی روشنی میں کامیاب ہونے والے ہیں ، دائیں ہاتھ میں اعمال نامے والے ۔ اور جو ایسا نہیں کرتے وہ بائیں ہاتھ میں اعمال نامے والے (ناکام لوگ) ہیں ۔ اس سورۂ مبارکہ میں جو منشور تحریک اسلامی کو دیا گیا ہے وہ ایک لفظ میں ’خدمت خلق‘کے ذریعے خالق کی رضا کا حصول ہے ۔

جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا ، گردن کا چھڑوانا یا آزاد کرانا اس غلامی تک محدود نہیں ہے جو روم ، یونان ، ایران اور ہندستان میں ظہورِ اسلام سے قبل پائی جاتی تھی۔ بلاشبہہ وہ بھی اس میں شامل ہے، لیکن اس سے آگے بڑھ کر یہ فکری غلامی ، ثقافتی غلامی ، معاشی غلامی ، سیاسی غلامی ، علمی غلامی ، غرض غلامی کی تمام اقسام کا احاطہ کرتی ہے، اور تحریکات اسلامی کو یہ بات سمجھاتی ہے کہ مادیت کا دور ہو یا بادشاہتوں کا، فوجی آمریتوں کا دور ہو یا لادینی جمہوریتوں کا زمانہ، یہ غلامی ہی کی شکلیں ہیں۔ تحریکاتِ اسلامی جب تک ان بتوں کی جگہ حاکمیت الٰہی کا قیام عمل میں نہیں لاتیں، اس وقت تک ان کا ارتقائی سفر صحیح سمت میں نہیں ہو گا۔ یاد رہے مکی دور کی حکمت عملی مکہ تک نہ محدود ہے اور نہ اسے اُس حد میں محدود تصور کرنا چاہیے۔ یہ مدنی دور میں بھی اتنی ہی بنیادی اور مؤثر رہے گی، جتنی مکہ میں تھی۔

 اگلی بات جو وضاحت سے بیان فرمائی گئی ہے وہ بھوکے کو کھانا کھلانے سے متعلق ہے ۔  آج دنیا کی آبادی کاایک بڑاحصہ بھوک کا شکار ہے۔ یہ بھوک اس سودی استحصالی نظام کی عطا کردہ ہے جس کی بنیاد معاشی ظلم پر ہے، جو غریب کو غریب تر اور امیر کو امیر تر کرنے میں فخر محسوس کرتا ہے ۔ تحریکات اسلامی کو اس معاشی استحصال کو ختم کرنے کے لیے مو جودہ نئے عالمی معاشی نظام (New Ecnomic World Order)  کی جگہ ایک اخلاقی معاشی عالمی نظام کو متعارف کرانا ہو گا ۔ جس کا آغاز محدود پیمانے پرغیر سودی قرضوں سے کیا جا سکتا ہے۔ جن لوگوں نے ایسا کیا ہے انھیں اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی کامیابی سے نوازاہے(پاکستان میں ’الخدمت‘ اور ’اخوت‘ نامی اداروںنے اس کو کامیابی سے کیا ہے ، کچھ دیگر ادارے بھی غیر سودی بنیاد پر یہ کام کر رہے ہیں، گویا یہ محض ایک خیال نہیں ہے ایک عملی شکل ہے)۔بھوک کو دور کرنے کی ایک شکل بھوکوں کو مچھلی کھلانے کی جگہ مچھلی پکڑنے کی تربیت دینا ہے۔

 مکی دعوتی حکمت عملی میں یتیموں کا ذکر غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے ۔ بہت سے قیمتی جواہر جو یتیم ہونے کے سبب کسی تاج کی زینت نہیں بن پاتے، اگر انھیں صیح تربیت مل جائے تو یہ انسانی سرمایہ معاشروں میں انقلاب پرپا کر سکتا ہے ۔

ان قرآنی ہدایات کی روشنی میں جو عملی اقدامات اقامتِ دین کی جدوجہد کے لیے اور تحریک اسلامی کے دعوتی ارتقا ئی سفر کے دوران کیے جاسکتے ہیں،ہم نے ان میں سے صرف تین کی طرف نشان دہی کریں گے ۔ ان کو سامنے رکھتے ہوئے مزید اہداف کا تعین کیا جاسکتا ہے اور کیا جانا چاہیے۔ کیونکہ تحریکی وسعت کا مطلب یہ ہے کہ ہر مجوزہ عمل ہمیں مزید ایسے پہلوؤں کی طرف    لے جائے، جن کے تجزیے اور حل کے ذریعے ہم اپنی دعوت کو مزید وسعت دے سکیں اور اپنی منزل سے مزید قربت حاصل کر سکیں ۔

تعلیم کا میدان

اولاً،مستقبل کی حکمت عملی ہی میںنہیں آج کی حکمت عملی میں بھی تعلیم اور علم کو اولین اہمیت حاصل ہونی چاہیے۔مکہ مکرمہ میں دعوت اسلامی کے قیام اورفروغ کے لیے دار ارقم کو مرکز بنایا گیا ۔ یہ تعلیم و تربیت کا پہلا مرکز تھا ۔ہم نے شعوری یا غیر شعوری طور پر تعلیم کے شعبے میں کام کیا ہے اور تحریک سے وابستہ افراد نے بہت سے نجی ادارے بھی قائم کیے ہیں، جو ایک بھلائی کا کام ہے۔ تاہم، اس بات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ تعلیم گاہ میں (جو دار ارقم کے تاریخی کردار سے وابستہ خیال کرلی گئی ہے ،نصاب ، تعلیمی و تربیتی ماحول ، کردار سازی کے لیے نفسیاتی اور تحقیقی بنیادوں پر کام کرنے کی حکمت عملی، اساتذہ کی ایسی تربیت کہ ان کا ہر عمل طلبہ کے لیے نمونہ ہو) کا اہتمام کیا گیا ہے؟ یا عملا ً کاروباری بنیاد ہی پر توسیع ہورہی ہے؟ کیا ان مطلوبہ مقاصد اور دعوت کا پورا شعور رکھتے ہوئے اس کا انعکاس ہورہا ہے؟ ایک تعلیمی ادارے کے نصاب، اساتذہ کے کردار، ، امتحانی معیار ، کامیابی کے تناسب اور کامیابی کی درجہ بندی میں کیا وہ تصورات موج زن ہیں؟ کیا طالب علموں کے اخلاق و کردار میں مسلسل ترقی ہورہی ہے؟ غرض یہ کہ جب تک تعلیم میں فنی مہارت اور تعمیر سیرت و کردار کو یک جا نہیں کیا جائے گا وہ انسان تیار نہیں ہو سکتے جو اسلامی انقلاب برپاکرنے کا ذریعہ بنیں۔

ترکی کی کالعدم تحریک ’حزمت‘کی حکمت عملی میں کئی سبق ہیں۔ ’حزمت‘ نے اپنے لیے ایک۳۰ سالہ منصوبہ تیار کیا، جس میں تعلیم کے ذریعے دعوت کا فروغ مقصد قرار دیا اور اس مقصد کے حصول کے لیے امام بدیع الزماں سعید نورسی کے رسائل و تعلیمات کو ایک ذریعہ بنایا۔ چنانچہ اسکولوں، کالجوں اور یونی ورسٹیوں کا ایک جال پورے ملک میں۳۰سال کے عرصے میں آہستہ آہستہ پھیل گیا۔ ان اسکولوں سے نکلنے والے نوجوان ملک کے عام کالجوں اور یونی ورسٹیوں میں بھی گئے اور بعض ان کی اپنی جامعات میں داخل ہوئے ۔ ان کو تعلیمی مشاورت کے ذریعے عدلیہ ، فوج، انتظامیہ اور کاروباری دنیا میں متعارف کروایا گیا، حتیٰ کہ پورے ملک میں ایک اچھی خاصی تعداد ان کے   فارغ طلبہ کی فیصلہ کن مقامات تک پہنچ گئی ۔ یہ کام کاروباری انداز میں نہیں بلکہ مشن اور مقصد کے ساتھ کیا گیا اور سوچ سمجھ کر علامہ سعید نورسی کے رسائل کو اس لیے استعمال کیا گیا کہ ملک کے دین دار طبقات میں ان کا خیر مقدم ہو سکے ۔ اور وہ اس میں کامیاب بھی رہے ۔

یہ ایک بالکل الگ موضوع ہے کہ ان کے اور طیب اردگان کے درمیان پچھلے انتخابات میں اتحاد کس طرح ہوا اور حالیہ صورت حال میں دونوں میں ٹکراؤ کیوں اور کیسے ہوا؟ پھر یہ بھی اس وقت زیر بحث نہیں کہ’حزمت‘ کو اس کی قیادت نے کن وجوہ اور کن قوتوں کی ایما پر غلط سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا؟اس وقت ہمارے لیے جو پہلو قابل غور ہے، وہ ان کی تعلیمی حکمت عملی میں باہمی ربط اور مواصلاتی نظام کے ذریعے حصول مقصد ہے۔ طویل المیعاد تعلیمی حکمت عملی کے ذریعے آیندہ ۲۵سال میں مختلف شعبہ ہاے زندگی میں قیادت کے قابل افراد کو تعلیم و تربیت کے ایک معیاری نظام سے گزار کر تیار کیا جاسکتا ہے، جن کی سیرت و کردار پر تحریکی مزاج غالب ہو۔ فر ض کیجیے کہ یہ سب کچھ کرنے کے باوجود، وہ سیاسی ہدف جو دعوت کا ایک لازمی حصہ ہے حاصل نہ ہو سکا، جب بھی اقامتِ دین کاایک اہم ہدف، یعنی افراد کار کی تیاری ، اور ان کے ذریعے خاندان اور معاشرے پر اثرانداز ہونا تو ہاتھ سے نہیں جا سکتا ۔ لیکن ہمیں یقین ہے کہ اس کوشش کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کی مدد سے بالآخر اجتماعی تبدیلی رونما ہو کر رہے گی۔ یہ مسلسل جدوجہد تحریک کے ارتقائی سفرکو منز ل کی جانب رواںرکھے گی۔

کیا آج اعتماد کے ساتھ یہ کہا جاسکتا ہے کہ اب تک کی کوششوں کے نتیجے میں باہر کے حلقے میں نہیں، خود تحریکی حلقوں میں فرد، خاندان ، معاشی سرگرمی اور معاشرتی تبدیلی کے مطلوبہ اہداف حاصل کیے جاسکے ہیں؟ تحریکی فکر کا ایک لازمی حصہ مسلسل احتساب کا عمل ہے کہ ہم اپنے اہداف سے کتنے قریب ہیں؟ اس لیے اگر اس میں کوئی کمی بھی ہوتو ہمیں اسے تحمل مزاجی کے ساتھ دیکھنا ہو گا اور جو کمی رہ گئی اسے دُور کرکے شعور اور جذبے سے آگے بڑھنا ہو گا ۔کسی ایک مقام پر رک جانا اور   محض ماضی کے تذکروں سے عظمتیں گنتے رہنے اور محض طاغوت کی برائیاں بیان کرتے رہنے سے پیش آمدہ مسائل حل نہیںہو سکتے۔

 تعلیمی حکمت عملی کا مطلب یہ ہے، جیسا کہ اوپر صرف ایک مثال دے کر وضاحت کی گئی ہے۔ اسی طرح تعلیمی میدان میں قومی سطح پر حکمت عملی وضع کر کے اس کے نفاذ کے لیے جدو جہد کی ضرورت ہے۔ صرف حکومت وقت سے اسلامی نظام تعلیم کے نفاذ کا مطالبہ اس مسئلے کا حل نہیں ہے۔ یہ مطالبہ ضرور ہونا چاہیے، لیکن خود تحریک کے پاس جتنے کچھ انسانی وسائل موجود ہیں، انھیں اعلیٰ معیار پر تعلیم و تربیت کے نظام کے قیام کے لیے استعمال کرنا ہو گا ۔ آج غیر سرکاری تعلیم ، سرکاری تعلیم سے زیادہ انقلابی نتائج دکھا سکتی ہے۔ جو ادارے خود کو تحریکی پہچان سے منسوب کرتے ہیں، اگر وہ تحریکی اہداف کو حاصل نہ کر سکیں تو یہ امر تحریک سے وابستہ ہر فرد کے لیے تشویش کا باعث ہے اور اصلاح کی ضرورت اور اقدام کا تقاضا کرتا ہے۔

تعلیمی اداروں، خصوصاً اسکول سسٹم کو دعوتی نقطۂ نظر سے غیر معمولی مرکزیت حاصل ہے۔ انھیں ایک یا دو شفٹ میں چلا کر ایک اچھی آمدن پیدا کرنا مقصد نہیں ہونا چاہیے بلکہ ان کے ذریعے طلبہ و طالبات کے والدین تک پہنچ کر، ان کی فکری تربیت ایک اہم مقصد اور ہدف ہونا چاہیے۔ اس کے ساتھ ہی سکول کے احاطے کو محض اسکول کے لیے نہیں، بلکہ ہر ہفتہ کسی ایسی دعوتی سرگرمی کے لیے جو نہ صرف والدین اور طلبہ بلکہ پورے معاشرے کے لیے مفید ہو، استعمال نہ کرنا کفران نعمت کے مترادف ہے۔یہ درس قرآن سے لے کر صحت کے اصو لوں پر گفتگو ، قومی دنوں پر تحریکی نقطۂ نظر سے تقریبات کے انعقاد، اسلامی نقطۂ نظر سے معاشرتی اصلاح کے لیے مطلوب سرگرمیوں کے مرکز بن سکتے ہیں۔ یہ کام غیر سیاسی ہونا چاہیے تاکہ ہم خیال اور اختلاف رکھنے والے لوگ بھی اس میںشرکت کرنے میں تنگی محسوس نہ کریں، اور یوں وہ تحریک کی فکر اور دعوت کو سمجھ سکیںگے۔ اس سرگرمی کا مقصد محض ووٹ حاصل کرنا نہیں ہے۔ یہ با ت ذہن میں رہے کہ جس طرح پہلا دعوتی مرکز دار ارقم تھا، ایسے ہی مدینہ منورہ میں بھی دعوتی مرکز صفہ تھا اور دونوں کا ہدف فکر و عمل کو یکجا کر کے علم اور تقویٰ و احسان کے ذریعے اسلام کی مطلوب شخصیت کی تعمیر تھا۔ یہی ہمارا مقصد ہونا چاہیے ۔

معاشی میدان

دوسرا اہم میدان معاشی طور پہ پریشان افراد کی خدمت ہے ۔ اس میں مائیکرو فنانس (یاچھوٹے قرضوں کی فراہمی) جس کا تذکرہ اشارتاً پہلے آچکا ہے، تحریک کی توجہ کا مستحق ہے ۔   تحریک کے پاس ایسے افراد موجود ہیں جو اس شعبے کا فنی تجربہ رکھتے ہیں اور خالص اسلامی بنیادوں پر اسے چلا سکتے ہیں ۔ ضرورت ہے آیندہ ۲۵سالہ حکمت عملی کے طور پر اس شعبے کو ترجیح دی جائے۔ یہ کام پورے پاکستان میں پھیلانے کے بجاے مختلف اضلاع کو متعین کر کے شروع کیا جائے اور پھر     بہ تدریج اس کے دائرے کو بڑھایا جائے لیکن فیصلے سے پہلے غیر جانب دارانہ میدانی جائزہ ضروری ہے۔

تحریکی ترجیحات میں ہمیںتعلیمی اور معاشی اداروں میں بلوچستان اور سندھ کو اولیت دینی چاہیے۔ اس کے بعد پختوانخواہ پر توجہ دی جائے ، اس وقت ان دونوں مقامات پر نظریاتی خلا اپنے عروج پر ہے۔ اگر اس وقت تحریک یہ کام نہیں کرے گی تو اسے بعد میں زیادہ مشکلات پیش آ سکتی ہیں۔

صحت کا میدان

 تیسرا شعبہ صحت کا ہے۔ اس میں مفت طبی امداد کے مراکز ، فری شفا خانے کاتصور اور ایسے طبی مراکز کا قیام ضروری ہے جو گاؤں ، قصبے اورضلعے میں تشخیص کے بعد ایک مریض کوصحیح مشورہ دے سکیں کہ مریض مقامی طور پر علاج کرائے یا کسی دوسرے مرکز میںجا کر مزید تشخیص کے بعد اس کا علاج ہو ۔ اس سلسلے میں دُور دراز مقامات کو ترجیح دی جائے۔ یہ اہم کام بآسانی ملک گیر بنیاد پر کیا جاسکتا ہے ۔ اس کے لیے بھی جائزے کی بنیاد پر فیصلہ ہونا چاہیے۔ عقل یہ کہتی ہے بلوچستان کو اولین اہمیت دی جائے ، اس کے بعد سند ھ اور خبیر پختونخوا ترجیحی بنیاد پر ہو۔

 ان گزارشات میں صرف تین عملی میدانوں کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ اگر اس رخ پر غور کیا جائے تو کئی اور اہم شعبے ہیں، جن میں ترجیحی بنیاد پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔

یہاں پر یہ یاد دہانی کرانا مقصود ہے کہ تحریکی نگارشات خصوصاً مولانا مودودی کی تحریرات میں وہی تازگی اور مطابقت (relvance) موجود ہے جو اب سے ۵۰سال پہلے تھی۔ضرورت اس امر کی ہے کہ انھیں سمجھتے ہوئے ان کی روشنی میں آیندہ کی حکمت عملی کا تعین کیا جائے ۔ماچھی گوٹ کے اجتماع میں مولانا محترم کی تقریر اور اس میں منظور کی جانے والی قرارداد ان تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتی ہے اور آج بھی روشنی کا مینار ہے۔

آج کے حالات میں تحریک اسلامی کا لائحہ عمل Action Planیا حکمت عملی کیا ہونی چاہیے ، اس پر تبصرہ کرتے ہوئے جماعت اسلامی کے بانی نے جو ترجیحات مقرر کیں ، ان سے ہم میں سے اکثر حضرات واقفیت رکھتے ہیں یعنی تطہیر افکار و تعمیر افکار، صالح افراد کی تیاری ، اجتماعی اصلاح اور آخر کار نظام حکومت کی اصلاح۔ بلاشبہہ چوتھا مرحلہ بھی اہم اور فیصلہ کن ہے اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنا تحریک کے لیے بڑا اہم چیلنج ہے لیکن اولین تینوں نکات بھی بے حد اہم ہیں اور چوتھے مرحلے کی کامیابی کے لیے ان پر قرار واقعی توجہ بھی وقت کی ضرورت ہے۔ اس سلسلہ کے تیسرے مرحلے کے بارے میں ہماری خاص توجہ کی جرورت ہے یہ اس لیے بھی کہ خود بانی تحریک نے تیسرے مرحلہ کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ: ’’اس کا تیسرا جز ہے اجتماعی اصلاح کی سعی۔ اس میں سوسائٹی کے ہر طبقہ کی اس کے حالات کے لحاظ سے اصلاح  شامل ہے اور اس کا دائرہ اتنا ہی وسیع ہو سکتا ہے جتنے کام کرنے والوں کے ذرائع ہوں۔اس غرض کے لیے کارکنوں کو ان کی صلاحیتوں کے لحاظ سے مختلف حلقوں میں تقسیم کرنا چاہیے اورہر ایک کے سپرد وہ کام کرنا چاہیے جس کے لیے وہ اہل تر ہو۔ان میں سے کوئی شہری عوام میں کام کرے اور کوئی دیہاتی عوام میں ، کوئی کسانوں کی طرف متوجہ ہو اور کوئی مزدوروں کی طرف، کوئی متوسط طبقے کو خطاب کرے اور کوئی اونچے طبقے کو ، کوئی ملازمین کی اصلاح کے لیے کوشاں ہو اور کوئی تجارت پیشہ اور صنعت پیشہ لوگوں کی اصلاح کے لیے ہو، کسی کی توجہ پرانی درس گاہوں کی طرف ہو ، کسی کی نئے کالجوں کی طرف۔ کوئی شعر و ادب کے میدان میں کام کرے اور کوئی علم وتحقیق کے میدان میں ۔ اگرچہ ان سب کے حلقہ ہاے کار الگ الگ ہوں مگر سب کے سامنے ایک ہی مقصد اور ایک ہی اسکیم ہو جس کی طرف وہ قوم کے سارے طبقوں کو گھیر کر لانے کی کوشش کریں۔یہ کام صرف وعظ ہو تلقین ، نشرو اشاعت اور شخصی ربط و مکالمہ ہی سے نہیں ہونا چاہیے بلکہ باقاعدہ تعمیری پروگرام بنا کر پیش قدمی کرنی چاہیے مثلاً یہ اصلاح کرنے والے جہاں کہیں اپنی تبلغ سے چند آدمیوں کو ہم خیال بنانے میں کامیاب ہو جائیں وہاں انھیں ملا کر ایک مقامی تنظیم قائم کریں اور ان کی مدد سے ایک پروگرام کو عمل میں لانے کی کوشش شروع کریں ، جس کے چند اجزا یہ ہیں : بستی میں مسجدوں کی اصلاح احوال، عام باشندوں کو اسلام کی بنیادی تعلیمات سے روشناس کروانا ، تعلیم بالغان کا نظام ، کم از کم ایک دارالمطالعہ کا قیام ، لوگوں کو ظلم  و ستم سے بچانے کے لیے اجتماعی جدو جہد ، باشندوں کے تعاون سے صفائی اور حفظان صحت کی کوشش، بستی کے یتیموں، بیواؤں اور غریب طالب علموں کی فہرستیں مرتب کرنا اور جن جن طریقوں سے ممکن ہو ان کی مدد کا انتظام کرنا اور اگر ذرائع فراہم ہو جائیں تو کوئی پرائمری اسکول، مذہبی تعلیم کاا یسا مدرسہ قائم کرنا جس میں تعلیم کے ساتھ اخلاقی تربیت کاانتظام ہو‘‘۔ (مسلمانوں کا ماضی ، حال ،اور مستقبل، ۱۱نومبر، ۱۹۵۱ءکراچی، اسلامی نظام زندگی اور اس کے بنیادی تصورات ، ص ۳۳۱-۳۳۲، مطبوعہ ۱۹۹۸ء)

ہم جس ارتقائی سفر Progressive Process  سے گزر رہے ہیں ،اس میں یہ جائزہ لینا ضروری ہے کہ کیا ہم نے اس تیسرے مرحلہ کے تقاضوں کو مطلوبہ اہمیت اور توجہ دی ہے؟ کیا ا س سے قبل کے دو مراحل ضروری حد تک سر کیے جا چکے ہیں، یہ اس لیے ضروری ہے کہ ان چاروں میدانوں کو بیک وقت مخاطب کرنا ہو گا اور مکی اور مدنی تقسیم کی جامد تعبیر سے نکل کر ایک چومکھی جہاد کو اپنی حکمت عملی کا لازمی حصہ بنانا ہو گا ۔اس امر پر بھی غور وفکر کی ضرورت ہے کہ کیااس حکمت عملی میں اصلاحِ معاشرہ کے حوالے سے ہم نے اپنی ترجیحات میں غیر مسلموں کو دعوت، ماحولیاتی مسائل ، معاشرتی مسائل ، خاندان کا تحفظ، بچوں پر ہونے والی زیادتیوں،خواتین کے جائز حقوق، معاشی و تعلیمی حیثیت سے کمزور افراد کے مسائل کا حل اور اسلام کے معاشرتی عدل کے قیام کے لیے معاشرتی، معاشی اور تعلیمی اداروںکے قیام کی فکر کہاں تک کی ہے ۔ ہمارے ارتقائی سفر کے لیے ان تمام پہلو ؤں کا شعور اور ان پر ایک واضح حکمت عملی اور اس حکمت عملی کے حصول کے لیے مناسب اور مؤثر پروگرام اور اقدامات کی ضرورت ہے۔

 ترجمہ: احمد حاطب صدیقی

 مغرب میںاسلام اور مسلمانوں سے علمی دل چسپی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ مستشرقین، مؤرخین، ماہرین علوم انسانی اور ماہرین عمرانیات ڈیڑھ سو سال سے زائدمدت سے دنیا کے مختلف خطوں کے اسلامی معاشروں کے اندرونی محرکات کا فہم حاصل کرنے کے لیے کوشاں رہے ہیں۔البتہ کچھ حالیہ بلکہ نا خوش گوار واقعات نے اہل مغرب کومسلم ذہن پر ایک تازہ نظر ڈالنے   اور مسلم دُنیا میں پیش آنے والی تبدیلیوں کے عمل سے اسلامی روایات کا تعلق دریافت کرنے کی ضرورت اور طلب میں مزید شدت پیدا کر دی ہے۔

برطانیہ اور یورپ میں ’اسلامو فوبیا‘ کے ظہور کے بعد سے اور امریکا میں ’دہشت گردی کا خبط‘ پیدا ہوجانے کے نتیجے میں ریڈیکل اسلام (انقلابی اسلام)، خانہ ساز دہشت گرد،مسلم بنیاد پرست، قدامت پسند سلفی اورجہادیوں جیسے موضوعات پر تصنیفات کا ایک سیلاب اُمڈ آیاہے۔ اس امر کی حقیقی ضرورت محسوس کی جارہی تھی کہ نہ صرف مسلم دنیاکی تازہ ترین تبدیلیوں پر، بلکہ اسلام اور سیاست، اسلام اور خواتین اور اسلام اور سماجی تغیرات وغیرہ کے باہمی تعلق پر بھی علمی، معروضی اور مستند مآخذ سے استفادہ کرتے ہوئے کام کیا جائے۔

 دو جلدوں پر مشتمل زیر نظر تحقیقی کام’اسلام اور سیاست‘ جس میں ۴۱۲ مقالات ہیں، اس ضرورت کی تکمیل کی طرف ایک سنجیدہ کوشش ہے۔اس میں ۲۰۰ سے زائدمقالات نئے ہیں،جب کہ بقیہ تمام مقالات اوکسفرڈ انسائی کلو پیڈیا آف دی اسلامک ورلڈ ۲۰۰۹ء (مدیر:جان ایل ایسپوزیٹو) سے ماخوذ ہیں، جن پر مزید تنقیح کرکے انکی ترتیب نو کی گئی ہے۔مدیر اعلیٰ عماد الدین شاہین نے تمام معلومات کو جس پُرمعنی انداز سے باہم مربوط کرنے کابھاری بھرکم اور کٹھن کام کیا ہے اس پر  وہ داد وتحسین کے مستحق ہیں۔

مضمون نگاروں میں مغربی اور مسلم دُنیا کے معروف محققین شامل ہیں۔اس قسم کے منصوبوں میں جس بڑے مسئلے کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ یہ ہے کہ کسی ایسے صاحبِ علم کو تلاش کیا جائے جو مطلوبہ معلومات تک راست رسائی رکھتا ہو۔ مستشرقین کا ایک بڑا کمال یہ رہاہے کہ وہ اپنے زیرتحقیق افراد کی زبان و تہذیب کا علم رکھتے تھے۔ آج کے دور میں اسلام اور مسلمانوں پر کیے جانے والے جدید علمی کاموں میں بالعموم اس بنیادی شرط کا فقدان پایا جاتاہے۔حتیٰ کہ اِس قابل توجہ کاوش میں بھی بیش تر انگریزی اور دیگر یورپی زبانوں ہی کے مآخذ پرانحصار کیا گیا ہے۔ صرف چند مصنّفین نے اُردو، عربی، فارسی،ملائی، انڈونیشی، ترکی، سواحلی اور مسلم دنیا کی دیگر زبانوں میں پائے جانے والے اصل مآخذ پر نظر ڈالی ہے۔ یہ پہلوخاص توجہ کا مستحق ہے۔ اِس مفید کام کی آیندہ طباعتوں کی تیاری کے وقت،اس کا خیال رکھنا چاہیے۔

موضوعات کا تنوع باعث دل چسپی ہے اورنظریات کے وسیع سلسلے کا احاطہ کرتاہے۔   چند روایتی موضوعات، مثلاً خلافت، فقہ، اُصولِ فقہ، اجتہاد اورمتعدد جدید مسائل، جیسے اقتدار اور قانونی جواز، آئین اور اُصولِ آئین،تعلیم، حکمرانی،علم کی اسلامی تشکیل اور القاعدہ جیسے موضوعات پر ان دونوں جلدوں میں پیش کیا جانے والا تحقیقی کام اہلِ مغرب کے لیے ایک حوالہ بن گیا ہے، اور اس کا مطالعہ اسلام اور موجودہ اسلامی دنیا کا علم حاصل کرنے والے ہر مغربی طالب علم کے لیے مفید ہے۔ گو، مضامین عموماً اسلام اور سیاست ہی کے گرد گھومتے ہیں۔

انسانی کوشش ہونے کے سبب ہرانسانی کام کی طرح اس تحقیقی کام میں بھی مزید بہتری اورتازہ ترین معلومات شامل کرنے کی گنجایش موجود ہے۔ بے شمار اعلیٰ درجے کی تصنیفات میں بھی تحقیقِ مزیدکا دریچہ کھلا رکھا جاتا رہا ہے۔ چناں چہ چند ایسے گوشے نشان دہی کے لایق ہیں، جن میں مزید بہتری لانے کی ضرورت ہے۔

پہلے خلیفۂ راشد سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہٗ(م: ۶۳۴ئ) پر مضمون میں’رِدّہ‘(ارتداد) کو ’سیاسی بغاوت‘ کے طور پر پیش کیا گیا ہے (جلد:۱، ص:۱۶)۔ لفظ’رِدّہ‘ایک دینی اصطلاح ہے، سیاسی نہیں۔اس کا سادہ مطلب ہے مرتد ہو جانا،یعنی کچھ قبائل کی طرف سے اسلام کے پانچ  بنیادی عقاید میں سے ایک کا انکار کر دینا۔ زکوٰۃ دینے سے انکار کردینا جو فرض ہے، اسلام کے پانچ ستونوں میں سے ایک ستون اور عبادت ہے۔ عبادت کو مسئلہ کہنا نفس مضمون سے گمراہ کن حد تک ناواقفیت کا نتیجہ ہے ۔

احمدیت پر مضمون اگرچہ خوش اسلوبی سے لکھا گیا ہے، مگر نقائص اور سنگین اغلاط نے اس کا ناس مار دیا ہے۔مصنف کی یہ حجت کہ یہ معاملہ …’احمدیت اور سوادِ اعظم کے سنی اسلام کے مابین تنازع‘ … تھا، یا …’مذہبی مقتدرین سے تنازع‘… تھا(ص ۵۰-۵۱)۔ یا علماے دین سے تنازع تھا___ حقیقی صورتِ حال کی عکاسی نہیں کرتا۔

 یہ بھی درست نہیں کہ …’’تنازع میں اشتعال انگیزی اس حقیقت کا نتیجہ تھی کہ علما نے احمدیت کی مخالفت میں محمد[صلی اللہ علیہ وسلّم] کے ناموس کے جذباتی مسئلے پر ساری توجہ مرکوز کردی‘‘(ص۵۱)۔مزید برآں یہ تبصرہ بھی گمراہ کن اور بعید از حقیقت ہے کہ …’’احمدیت اُن علما سے تصادُم پر مجبور تھی، جو محسوس کرنے لگے تھے کہ اسلام کے متولی کی حیثیت سے اوراسلامی تعلیمات اور اسلامی قوانین کے شارح و ترجمان کی حیثیت سے انھیں جو مقام اور منصب حاصل ہے اُس کی جڑیں کھودی جارہی ہیں‘‘-(ص۵۱)

حقیقت میںتنازع احمدیت اور ’سنی سوادِ اعظم کے اسلام‘ میں نہیں ہے، جیسا کہ خیال ظاہر کیا گیا ہے۔احمدیت کو اسلام کے تمام مکاتب فکر شیعہ، سنی ، سلفی، ہر ایک دائرۂ اسلام سے خارج تسلیم کرتا ہے۔ اس کی وجہ سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلّم کی ختم نبوت کے معاملے میں احمدیوںکا ایسامؤقف ہے۔یہ ایسا مسئلہ ہے جس پر تمام مسلم علما اور پوری امت مسلمہ کا اجماع ہے۔    دعواے نبوت کرنے والا ، خواہ اس کے دعوے کی کوئی بھی شکل ہواور ایسے کسی شخص کے دعوے کی تصدیق کرنے والا،خواہ وہ کوئی بھی ہو، خود بخود دائرئہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔اس مسئلے کا تعلق نہ کبھی علماکے کردار سے رہا ہے، نہ اس میں کسی ایک آیت یا کسی حکم کی تعبیر و تشریح کا سوال پیدا ہوتا ہے۔ یہ موقف مسلم اُمہ کا غیر مبہم اجماعی مؤقف ہے اور متفق علیہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر کی  ۱۰۰فی صد مسلم آبادی احمدیوں کو مسلمان تسلیم کرنے سے انکار کرتی ہے۔

اپنے طور پر وہ جو بھی تعبیر پیش کرتے ہوںاس سے سنیوں یا شیعوں کی قانونی تعبیر پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ شاید اس پہلو کو سب سے زیادہ نظر انداز کیا گیا ہے کہ خود احمدی اُس ۱۰۰فی صدمسلم آبادی کے متعلق، جو دنیا بھر میں ۶ئ۱؍ارب سے زائد ہے، کیا نقطۂ نگاہ رکھتے ہیں؟احمدیت کے حقیقی نمایندے، یعنی اُن کے خلیفہ سے پاکستان کی پارلیمان میں سوال کیا گیا کہ احمدیوں کے نزدیک غیر احمدی کیا ہیں؟ اُس کا جواب بڑا سادہ ساتھا: ’غیر مسلم‘۔ بہ الفاظ دیگر احمدیوں کو اسلام کا ایک ’فرقہ‘ کہنا  اس لیے مضحکہ خیز بات ہے کہ وہ دنیا کی پوری غیر احمدی آبادی کو جس میں دنیاکے تمام مسلمان شامل ہیں’غیر مسلم‘ گردانتے ہیں۔احمدیوں کے نزدیک پوری مسلم اُمہ ہی ’غیر مسلم‘ ہے۔انھیں امت مسلمہ کا ایک ’فرقہ‘ کیسے تصور کیا جا سکتا ہے؟

یہ بات بھی صاف طور پر سمجھ لینی چاہیے کہ علما کی بالادستی کبھی اصل مسئلہ نہیں رہی ۔ یہ بنیادی مسئلہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کی ختم نبوت پر ایمان کا مسئلہ ہے اور اصل تنازع مرزا غلام احمد کا یہ باطل دعویٰ ہے کہ وہ مسیح ہے، مصلح ہے اور غیر قانون ساز (غیر تشریعی) نبی ہے، جس کی بنا پر   مرزا نے جہاد کو منسوخ کرنے کا اعلان کیا تھا۔ان دو بنیادی مختلف فیہ عقاید کے سبب دنیا بھر کے تمام شیعہ اور سنی علما نے احمدیت کو ایک نیا مذہب قراردیا جس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔

دیوبند تحریک پر مضمون (جلد اوّل، ص:۲۶۱-۲۶۴) میں اس تعلیمی تحریک اور مسلک کی تعریف یوں بیان کی گئی ہے …’’برصغیر کے علما کے مسالک میں سے ایک بڑا مسلک جو دیگر فرقہ وارانہ مسالک شیعہ، احمدی،جماعت اسلامی،علی گڑھ اوردوسرے معتدل حریف سنی گروہوں، مثلاً بریلوی (اہل سنت و الجماعت) اور اہل حدیث سمیت متعدد مسالک کی صف میں ایک نمایاں مقام رکھتا ہے‘‘ (ص:۲۶۲)۔یہاں ’مسلکی تقسیم‘ کی اصطلاح نے بات کو الجھا دیا ہے اور مسالک اور غیراسلام میں کوئی فرق نہیں کیا گیا ہے۔ اس میں وہ بھی شامل کر دیے گئے ہیںجو اپنے آپ کو’فرقہ‘ قرار دیتے ہیں نہ انھیں ’فرقہ‘ کہا جاسکتا ہے۔علی گڑھ سے مراد علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی ہے جو ایک تعلیمی ادارہ ہے، مسلک نہیں۔جماعت اسلامی ایک سماجی-سیاسی تحریکِ احیاے دین ہے۔ اس  میں شمولیت کے دروازے تمام مسالک پرکھلے ہوئے ہیں اوراس کے ارکان میں مختلف مسالک کے لوگ شامل ہیں۔یہ جماعت کسی خاص مسلک سے وابستہ ہے نہ اس کا اپنا کوئی فقہی مسلک ہے۔دوسری طرف احمدیت کوئی مسلک یا فرقہ نہیں ہے۔ یہ ایک مذہب ہے جس کا اپنا الگ پیغمبر ہے اور اس کے الگ پیروکار ہیںجو اسے ایک علاحدہ مذہب اور ایک جداگانہ اُمت بناتے ہیں۔یہ غلط مبحث مقالات کے علمی مقام کو بہت گرا دیتا ہے۔

جماعت اسلامی پر مضمون (جلد اوّل، ص۶۲۷- ۶۲۹) میں اس جماعت کی تاریخ کا خلاصہ پیش کیا گیا ہے۔ تاہم، مصنف نے کسی ایک بھی اصل اُردو ماخذ کا حوالہ نہیں دیا۔ مزیدبرآںمصنف کے کچھ بیانات متضاد ہیںاور کچھ بے بنیاد۔مثلاً یہ کہا گیا ہے کہ: ’’پاکستانی حکام نے جماعت پر بھارت نواز جذبات رکھنے اور پاکستان دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا‘‘(ص۶۲۷)۔ ایک نام نہاد اعلیٰ تعلیمی ادارے کے اشاعتی مرکز سے طبع ہونے والے دائرۃ المعارف میں یہ بے بنیاد الزام، اور ایک نیک نام تحریک کو بدنام کرنے والے غیر مصدقہ بیان پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔ جماعت اسلامی ۱۹۴۱ء میں اپنی ابتدا ہی سے ایک نظریاتی تحریک کے طور پر کام کر رہی ہے اوراس نے برطانوی حکومت کے دور میں سیاست میں حصہ نہیں لیا۔پاکستان میں جب ۱۹۴۹ء میں قراردادِ مقاصد منظور کر لی گئی تو جماعت نے ایک دینی سیاسی جماعت کی حیثیت سے اپنی تنظیم نو کی، فرقہ وارانہ فکر سے اس کی وابستگی کبھی نہیں رہی۔ برعظیم پاک و ہند کے باقی حصوں میں جماعت اسلامی کے نام سے چار قطعاً آزاد جماعتیں بھارت، بنگلہ دیش،نیپال اور  سری لنکا میں کام کر رہی ہیں، مگر ان میں سے ہر ایک کا اپنا الگ الگ دستور ہے، علاحدہ قیادت ہے، اور جداگانہ نظریاتی، سماجی اور معاشی لائحہ عمل ہے۔

لشکر جہاد پر مضمون(جلد دوم، ص ۱)ہمیں قیمتی معلومات فراہم کرتاہے، اگرچہ درست املا Laskar Jihad نہیں Lashkar-i-Jihad  ہے۔ مصنف اس کے بانی جعفر عمر طالب کے حوالے سے کہتا ہے:’’اس کی تعلیم سلفی/ وہابی فکر رکھنے والے تعلیمی ادارے میں ہوئی ۔پھراس نے سید مودودی انسٹیٹیوٹ لاہور، پاکستان جاکراپنی تعلیم جاری رکھی جہاں سلفی فکر سے اُس کی وابستگی برقرار رہی‘‘(جلد دوم، ص ۱)۔مضمون نگار نے ان دو متضاد باتوں کو خلط ملط کرکے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے سنگین غلطی کی ہے۔ سلفی مکتبۂ فکرمحمد بن عبدالوہاب کے افکار پر مبنی ایک مذہبی اور عملی تشکیل ہے۔سید مودودی انسٹی ٹیوٹ، لاہور کا کسی طرح سے بھی اس مکتبۂ فکر سے کوئی تعلق نہیں۔دونوں کو ایک دوسرے سے نتھی کرنا بالکل گمراہ کن ہے۔

ایک اور سازشی قسم کا تضاد مولانا مودودی پر مضمون (جلد دوم، ص:۴۳-۴۷) میں پایا جاتا ہے۔اس میں بیان کیا گیا ہے کہ: ’’مودودی کا مجددانہ مؤقف جامد فرقہ واریت تھا۔ مسلمانوں کے حقوق پر زور دیتا تھا،ان کی سلامتی اور ترقی کے لیے لائحہ عمل تجویز کرتا تھا، اوراسلام کو خالص رکھنے کے مفاد میں ہندوؤں سے ہرقسم کے تہذیبی، سماجی اور سیاسی تعلقات کے مقاطعہ کا مطالبہ کرتا تھا۔ یہاں تک کہ ہندستانی مسلمانوں کے لیے ایک علاحدہ تہذیبی وطن کی وکالت بھی وہ بہت بڑھ چڑھ کر کرتا رہا‘‘۔(جلد دوم،ص۴۵، خط کشیدگی از مبصر)

اس بیان کے بعد اسی مضمون میںاس امر کی نشان دہی بھی کی گئی ہے کہ:’’جلد ہی اُسے ریاست کے دشمن کی حیثیت سے شناخت کر لیا گیا۔ اُس پر پاکستان کی مخالفت کرنے کا اوربھارت کا تخریبی آلۂ کار ہونے کا الزام لگایا گیا‘‘(جلد دوم، ص ۴۶)۔ یہاں مولانا مودودی کے نقطۂ نظر کو خطرناک حدتک الجھاکر اورسراسر غلط پیش کیا گیا ہے۔ مولانا مودودی نے اس نظریے کی تشریح کی تھی کہ مسلمان اپنے عقیدے، اپنے دین اور اپنی ثقافت کی بنیاد پرایک قوم کی تشکیل کرتے ہیں۔علاحدہ وطن کا سوال اسی دینی اور ثقافتی شناخت کے تناظر میں اُٹھا تھاتاکہ ہندستان کے اُن خطوں میں جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے، انھیں سیاسی اقتدار حاصل ہو سکے۔ہندوؤں کے ساتھ سماجی و سیاسی تعلقات کا سوال اصل مسئلہ ہی نہیں تھا،کیوں کہ یہ دونوں فریق بڑے دوستانہ اور  پُرامن طریقے سے ایک ہزار سال تک مسلم دورِ حکمرانی میں دو جداگانہ تہذیبی دھاروں کی حیثیت سے ساتھ رہ چکے تھے، اور توقع تھی کہ دو آزاد ریاستوں کی حیثیت سے بھی پُرامن بقاے باہمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اور اقلیتوں کے حقوق کا احترام کرتے ہوئے ساتھ رہیں گے۔ بدقسمتی سے مصنف اصل صورتِ حال کو اس کے درست ، نظریاتی اور تاریخی پس منظرمیں پیش کرنے میں ناکام رہا ہے۔اس مضمون کے تضادات کو دیکھ کر اس کا قاری الجھ کر رہ جانے کے سوا کچھ نہیں کرسکتا۔ پاکستان میں جماعت اسلامی کی حیثیت کو بھی درست طریقے سے پیش نہیں کیا گیا۔حقیقت یہ ہے کہ جماعت اسلامی ایک دینی تحریک ہونے کے سبب سیاسی جماعت ہے۔ملک کی پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں اس کی نمایندگی ہے اوراس کے ارکان وفاقی اور صوبائی حکومتوں میں اہم وزارتی مناصب پر فائز رہے ہیں۔

پاکستان پر مضمون (جلد دوم، ص: ۲۲۵-۲۳۲) میں ۱۹۴۷ء سے ۲۰۰۹ء تک پاکستان میں ہونے والی سیاسی پیش رفت کا ایک جائزہ لیا گیا ہے۔تاہم، یہ موضوع مزید عمیق تجزیہ پیش کرنے کا متقاضی تھا۔اس میں اُن اسباب پر روشنی ڈالنے کی ضرورت تھی، جنھوں نے برعظیم کے مسلمانوں کو اقبال اور قائد اعظم کے تصورات سے تحریک حاصل کرکے قیام پاکستان کا مطالبہ کرنے پر مجبور کیا۔پاکستان کی انفرادیت اس دعوے میں مضمر ہے کہ یہ ملک ایک ایسے نظریے کی بنیاد پر وجود میں آیا ہے، جس نے قومیت کا ایک نیا تصور پیش کیا ہے۔ اس تصور قومیت کی بنیاد دین اور ملت اسلامیہ کے تصور پر ہے ،یہ محض کسی خطۂ ارضی پر نہیں بلکہ نظریے اور اجتماعیت پر،رنگ، نسل،اور زبان کا امتیاز کیے بغیر تمام شہریوں کے حقوق کے تحفظ پر ہے۔

پاکستان میں رہنے والے چھوٹے فرقوں کا حوالہ دیتے ہوئے مصنف نے اسماعیلیوں کا ذکر کیا ہے… ’جو اثناعشری فرقے کا ایک ذیلی فرقہ ہیں‘ (جلد دوم، ص:۲۲۵)۔ان معلومات کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔اسماعیلی اپنا روحانی تعلق امام جعفر کے بعد امام اسماعیل سے جوڑتے ہیں،جب کہ ۱۲؍ اماموں کو ماننے والے یا اثناعشری یہ پختہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ امام موسیٰ الکاظم    بن جعفر الصادق امامت کے جائز حق دار ہیںاور اُن کی پیروی اُس وقت تک کی جاتی رہے گی جب تک کہ بارھویں امام محمد (قائم آلِ محمدؐ) کا انتظار باقی ہے۔ (دیکھیے: محمد بن عبدالکریم شہرستانی، کتاب الملل و النحل، ترجمہ:A.K.  Kazi and J.G. Flynn, London, Kegan Paul International, 1984, pp.144-145)۔ اسماعیلی اور اثناعشری دو علاحدہ وجود ہیں اور  اوّل الذکرکواثنا عشریوں کا ذیلی فرقہ نہیں کہا جاسکتا۔

دو جلدوں پر مشتمل یہ تحقیقی کام مسلم دنیا پر عصری محققین کے سیاسی جائزوں پر مبنی معلومات کا  ایک ذخیرہ ہے لیکن واضح طور پر مضامین مغربی زاویۂ نظر کی نمایندگی کرتے ہیں ۔مصنّفین نے بیش تر مغربی ذرائع علم پر بھروسا کیا ہے،جب کہ ان موضوعات پر عربی ،فارسی، ترکی،اُردو اور دیگر مسلم زبانوں میں اعلیٰ تصنیفات موجود ہیں۔

(اوکسفرڈ انسائی کلوپیڈیا آف اسلام اینڈ پالیٹکس، مدیر اعلیٰ: عماد الدین شاہین۔ ناشر: اوکسفرڈ، اوکسفرڈ یونی ورسٹی پریس، ۲۰۱۴ئ۔ صفحات: جلد اوّل: ۷۱۴،جلد دوم:۶۹۵۔)

اسلام کے نظامِ عبادت کا بنیادی مقصد بندے اور رب کے تعلق کو مستحکم کرنا اور للہیت پر مبنی اجتماعیت پیدا کرنا ہے۔ چنانچہ وہ عبادات بھی جو انفرادی طور پر ادا کی جا سکتی ہیں، ان کی روح بھی اجتماعیت ہی میں ہے۔ حج کو چھوڑتے ہوئے، کیوںکہ وہ تو ہوتا ہی اجتماعی سطح پر ہے نماز روزہ اور زکوٰۃ اجتماعیت اور للہیت پیدا کرنے کے عملی ذرائع ہیں۔ رمضان الکریم ہر سال اہل ایمان کو ایک نادر موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ نہ صرف اپنے رب کے ساتھ تعلق کو مستحکم کریں، بلکہ اللہ کے بندوں کو روزہ افطار کراکے ، اللہ کے بندوں کو لباس پہنا کر، اور اللہ کے بندوں پر سے کام کی مشقت کم کرکے رب کی قربت حاصل کر لیں۔

رمضان اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی صفت رحمت کا ایک مظہر ہے کہ وہ اپنی فیاضی اور کرم سے اپنے بندوں کو روزہ رکھنے کی توفیق دیتا ہے اور پھر اپنے لیے کیے گئے اس عمل کو قبول فرما کر اپنے گناہ گار بندوں کی مغفرت اور جہنم کی آگ سے نجات کا بندوبست کر دیتا ہے۔ یہ کرم بالاے کرم ہی تو ہے جسے ایک حدیث میں رحمت کے اس بادل سے تعبیر کیا گیا ہے جو مومن بندوں پر رمضان میں سایہ فگن ہوتا ہے اور اس مہینے کی ایک رات ہزار مہینوں کی عبادت کے مثل ہو جاتی ہے۔ اس ماہ میں ایک نیکی عام دنوں کے مقابلے میں ستّر گنا بلکہ سات سو گنا اجر کا سبب بن جاتی ہے۔

اس مہینے کا اول عشرہ رحمت، وسط کا عشرہ مغفرت اور آخری عشرہ آگ سے نجات کا سامان کرتا ہے۔اگر اس مہینے میں کسی روزہ دار کا روزہ عمدہ لذیذ کھانوں سے نہیں،محض دودھ کے ایک گلاس یا ایک کھجور سے افطار کرا دیا جائے اور پیٹ بھر کھانا کھلا دیا جائے تو رب کریم اپنے بندے کو حوضِ کوثر سے پانی پلوانے کا وعدہ فرماتا ہے جس کے بعد اس خوش نصیب کو میدانِ حشر میں بھی پیاس محسوس نہیں ہوگی۔

یہ مہینہ ایمان کی بہار اور انفرادی اور اجتماعی اصلاح و تزکیہ کی تربیت گاہ ہے۔ یہ وہ عبادت ہے جس کا علم صرف بندے اور رب کریم کو ہوتا ہے۔ اس لیے اس کا فرمان ہے کہ میں ہی اس کا اجر دوں گا۔ روزہ ایک ایسی عبادت ہے جو جسمانی طور پر ظاہر نہیں ہوتی لیکن روزہ جس طرز عمل کا مطالبہ کرتا ہے وہ ایمان کی کیفیت اور قوت کا اظہار کرتا ہے روزہ دار کی گفتگو ہو یا معاملات میں طرزِعمل، روزہ کے دوران باآسانی محسوس کیا جا سکتا ہے۔ یہ مہینہ قرآن کریم کے نزول اور اس کی عظمت و فضیلت کا مہینہ ہے۔ لہٰذا اس ماہ میں قرآن کریم سے خصوصی تعلق قائم کرنے، اس کا حق  ادا کرنے، اور اس سے ہدایت و رہنمائی حاصل کرنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی خصوصی کوشش کی جانی چاہیے۔

دنیا کے ہر خطے میں بسنے والا مسلمان عموماً دن میں پانچ مرتبہ قرآنِ کریم کی پُراز حکمت آیات کی تلاوت سورئہ فاتحہ کے علاوہ کسی مختصر سورہ کی شکل میں کرتا ہے لیکن غوروفکر کی عادت سے محرومی کے سبب ان آیات کے انتہائی واضح مفہوم پر غور کرنے سے قاصر رہتا ہے۔ قرآنِ کریم کا یادداشت یا کتابِ عزیز کو سامنے رکھ کر پڑھنا بلاشبہہ اجروثواب کا کام ہے لیکن کیا قرآنِ کریم خود اپنے بارے میں اور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم اس عظیم ترین ہدایت نامے کے بارے میں کہیں یہ ارشاد فرماتے ہیں کہ اسے صرف اجروثواب کے لیے نازل کیا گیا ہے یا بار بار اللہ سبحانہ وتعالیٰ اپنے کلام پر غور، فکر، تدبر، تعقل، تحقیق اور تفقہ کی دعوت دیتے ہیں۔

ہم اکثر اُمت مسلمہ کی زبوں حالی پر اظہار افسوس کرتے ہوئے یہ کہتے تو ہیں کہ اس کا سبب قرآنِ کریم سے دُوری ہے۔ لیکن کیا بیماری کا سبب جاننے کے بعد نسخہ اور مشکلات کا حل کرنے والی چابی کی طرف متوجہ ہوکر مرض کے علاج اور شفا کے لیے اس اکسیر کا استعمال کرنے کے لیے اپنے وقت میں سے کوئی حصہ نکالتے ہیں؟

ایمان کی کسوٹی

انسانی تاریخ میں آج تک مسائل و مشکلات کا حل نہ خواہشات سے ہوا ہے نہ محض اُمید سے۔ عملی اقدامات کے بغیر کسی بھی مسئلے کا حل نہ عقل مان سکتی ہے اور نہ تجربہ۔ اس عظیم کتابِ ہدایت کا ایک ایک کلمہ اور ایک ایک حرف حکمت و دانائی سے لبریز ہے اور بغیر اس کی فلسفیانہ تعبیرات کے، صرف خلوصِ نیت کے ساتھ اس کے معانی پر غور ہمارے مسائل کا بہترین حل فراہم کرسکتا ہے۔

تمام اہلِ ایمان کو مخاطب کرتے ہوئے ربِ کریم نے محض ایک کلمے میں ہمارے طرزِعمل، معاملات، ذاتی، خاندانی، معاشرتی، معاشی، سیاسی اور ثقافتی مسائل کے حل کی طرف نشان دہی فرما دی ہے۔ سورئہ نساء میں ایک آیت پر اگر غور کیا جائے تو اس میں انسانیت کا پورا منشور رقم کر دیا گیا ہے:

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا ٰامِنُوْا بِاللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ وَ الْکِتٰبِ الَّذِیْ نَزَّلَ عَلٰی رَسُوْلِہٖ وَ الْکِتٰبِ الَّذِیْٓ اَنْزَلَ مِنْ قَبْلُ ط وَ مَنْ یَّکْفُرْ بِاللّٰہِ وَ مَلٰٓئِکَتِہٖ وَ کُتُبِہٖ وَ رُسُلِہٖ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًام بَعِیْدًا o(النساء ۴:۱۳۶) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، ایمان لائو اللہ پر اور اُس کے رسولؐ پر اور اُس کی کتاب پر جو اللہ نے اپنے رسولؐ پر نازل کی ہے، اور ہر اُس کتاب پر جو اس سے پہلے وہ نازل کرچکا ہے۔ جس نے اللہ اور اس کے ملائکہ اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں اور روزِ آخرت سے کفر کیا وہ گمراہی میں بھٹک کر بہت دُور نکل گیا۔

اہلِ ایمان کو ’اے ایمان والو‘ کہنے کے بعد یہ فرمانا کہ ’ایمان لائو‘ ہر صاحب ِ فہم کو یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ اس میں کیا پیغام دیا جا رہا ہے۔ کیا یہ محض ایک ادبی اسلوب ہے یا ان لوگوں کو جو ایمان لاچکے ہیں دوبارہ ایمان لانے پر متوجہ کرنے کا مفہوم کچھ اور ہے؟آیت ِ مبارکہ کابقیہ حصہ اُس ایمان کی وضاحت کرتا ہے جو ہم ہرمسلمان بچے، جوان اور معمر فرد کو زبانی یاد کراتے ہیں کہ  اللہ سبحانہ وتعالیٰ، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم، اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپؐ پر نازل کردہ اس کتاب، اور ہر اُس کتاب پر جو آپ کی شریعت سے پہلے نازل کی گئی، فرشتوں اور آخرت پر یقین رکھنے کا نام ایمان ہے۔ اور جو اس کا منکر ہے وہ گمراہ ہے جسے ہدایت سے آگاہ کرنے اور ہدایت کی طرف لانے کی ذمہ داری اُمت مسلمہ پر ڈال دی گئی ہے۔

اگر غور کیا جائے تو ارشاد ربانی کہ ’ایمان لائو‘ کی وضاحت خود کلامِ عزیز تفصیل کے ساتھ ہرصفحۂ کتاب پر کرتا ہے تاکہ ایمان کسی مخفی کیفیت تک محدود تصور نہ کیا جائے ،بلکہ ایمان کا واضح اظہار طرزِعمل (behaviour) اور قابلِ محسوس رویے میں ہو، اور جسے انسانی نگاہ اور ذہن عقلی پیمانوں کے ذریعے پیمایش کرکے اور ناپ تول کر یہ طے کرسکے کہ ایمان، ترقی کی جانب رواں دواں ہے یا تنزل کی طرف جارہا ہے۔ ایک حدیث اس بات کی وضاحت کرتی ہے کہ جب کوئی مومن کسی غلطی کا ارتکاب کر رہا ہوتا ہے تو ایمان اس کے دل میں کم سے کم تر ہوجاتا ہے، حتیٰ کہ ایک لمحے کے لیے بالکل غائب ہوجاتا ہے۔

گویا جدید علوم انتظامی میں جس چیز کو کارکردگی کے قابلِ پیمایش پیمانے KPI (Key Performance Indicators) کہا جاتا ہے، قرآن کریم میں جہاں بھی ایمان کا ذکر آتا ہے، اس کے ساتھ ہیKPI بھی بیان کردیا جاتا ہے، تاکہ ایمان ایک طرزِعمل کی شکل اختیار کرجائے اور ایک مخفی کیفیت تک محدود نہ رہے۔

کاملیت و جامعیت

اس پس منظر میں پہلا پیمانہ یا KPI دین کو جامع نظامِ حیات ماننا ہے۔ اس صداقت پر یقین کا آسان مفہوم یہ ہے کہ ایک شخص زندگی کے کاروبار میں روایتی تقسیم کرتا ہے یا توحید ِ خالص اور اطاعت ِ رسولؐ کی بنا پر اپنے ذاتی، گھریلو، سیاسی، معاشی، ثقافتی، عسکری اور دفاعی، تعلیمی معاملات کو قرآن و سنت کا تابع بناتا ہے۔ اگر اس کا ایمان تو اللہ اور رسولؐ پر ہے لیکن اس کی ذاتی پسند اور ناپسند کا معیار اس کی برادری یا حلقۂ احباب کا کسی کام کو اچھا یا بُرا سمجھنا ہے۔ حتیٰ کہ وہ اپنی برادری یا دوستوں یا اہلِ خانہ کا عبد یا بندہ بن جاتا ہے اور بعض اوقات اپنی پارٹی (حزب) کو اپنا خدا    بنالیتا ہے۔ اگرچہ وہ کلمۂ شہادت  پڑھ کر اعلان تو یہی کرتا ہے کہ وہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لایا لیکن اس کی اَنا، نفس، ذاتی مفاد، اس کے تمام فیصلوں کی بنیاد ہیں تو وہ ایمان لانے کے باوجود ایمان نہیں لایا۔ خاتم النیینؐ نے اس عملی صورتِ حال کو، جو ہم میں سے ہر فرد کو دن میں بارہا پیش آتی ہے، اپنے ایک قولِ بلیغ میں یوں ارشاد فرما دیا:

مَن اَحبَّ لِلّٰہِ وَاَبْغَضَ لِلّٰہِ وَاعْطٰی لِلّٰہِ  وَمَنَعَ  لِلّٰہِ  فَقَدِ اسْتَکْمَلَ الْاِیْمَانَ (بخاری، عن ابوامامہؓ) جس نے اللہ کے لیے دوستی کی اور اللہ کے لیے دشمنی کی اور اللہ کے لیے دیا اور اللہ کے لیے روک رکھا ، اس نے ایمان کو مکمل کرلیا۔

گویا ایمان کوئی غیرمرئی چیز نہیں ہے بلکہ اس کا احساس و اظہار طرزِعمل میں ہونا چاہیے۔ قرآن کریم کی اصطلاحات ایمان، فسق، نفاق، کفر اور ظلم طرزِعمل پر مبنی اصطلاحات ہیں۔ یہ فلسفیانہ پیچیدگیوں سے آزاد واضح اور آسان خطوط پر مبنی ہیں۔

جو شخص روایتی تقسیم کی بنیاد پر زندگی بسر کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ بعض معاملات ’دینی‘ ہیں اور بعض ’دنیاوی‘ ہیں، وہ دین کی کاملیت اور جامعیت کا عملاً انکار کرتا ہے، اور یہ سمجھتا ہے کہ دین محض نماز اور روزے کا اہتمام کرنے سے مکمل ہوجاتا ہے، جب کہ اس کی پسند و ناپسند کا پیمانہ کبھی مغرب، کبھی مشرق، کبھی اپنا نفس، کبھی اس کی جماعت اور پارٹی ہو اور کبھی برادری اور معاشرے کا خوف ہو۔  یہ وہ پہلا پیمانہ ہے جو ہمیں آئینے میں اپنا صحیح چہرہ دکھا سکتا ہے کہ ہم کس حد تک صاحب ِ ایمان ہونے کے باوجود حاملِ ایمان ہیں اور ہمارا عمل کس بات کی شہادت دے رہا ہے۔

اس تمام تفصیل کو کلامِ عزیز نے محض ایک آیت ِ مبارکہ میں یوں بیان فرما دیا:

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَـآفَّۃً ص وَلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِط اِنَّہٗ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ o (البقرہ ۲:۲۰۸) اے ایمان لانے والو! تم پورے کے پورے اسلام میں آجائو اور شیطان کی پیروی نہ کرو کہ وہ تمھارا کھلا دشمن ہے۔

مزید وضاحت کرتے ہوئے اس مرکزی مضمون کو یوں بیان فرمایا گیا:

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْٓا اٰبَآئَ کُمْ وَ اِخْوَانَکُمْ اَوْلِیَآئَ اِنِ اسْتَحَبُّوا الْکُفْرَ عَلَی الْاِیْمَانِط وَمَنْ یَّتَوَلَّھُمْ مِّنْکُمْ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَo (التوبہ ۹:۲۳) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اپنے باپوں اور بھائیوں کو بھی اپنا رفیق نہ بنائو اگر وہ   ایمان پر کفر کو ترجیح دیں ۔ تم میں سے جو ان کو رفیق بنائیں گے وہی ظالم ہوں گے۔

صداقت

دوسر ا اہم پیمانہ کسی فرد کا ایمان لانے کے بعد صداقت، سچائی اور بھلائی اور خیر کا بغیر کسی خوف و خطر کے اپنی زندگی کے معاملات میں رائج کرنا ہے۔ یہ صداقت اور سچائی محض اس چیز کا نام نہیں ہے کہ ایک شخص جب بات کرتا ہے تو وہ سیدھی ، سچی اور کھری ہو، یا اس میں کوئی لگاوٹ،  اخفا یا ذومعنی الفاظ کا استعمال یا کسی حیلہ کا استعمال کیا جا رہا ہو، بلکہ اس کا واضح مفہوم یہ ہے کہ جب بات کی جائے تو خیرخواہی کی ہو۔ اس میں اپنے بھائی کو چکّر دینے اور اپنے فائدے کے لیے اسے صرف اتنی بات بتانا جس سے خود اپنا فائدہ اُٹھایا جاسکے یا پورے حقائق، اور پورے حق کا اظہار نہ کرنا بھی شامل ہے۔

قرآنِ کریم اس رویے اور طرزِعمل کو قولاً سدیداً سے تعبیر کرتا ہے۔ قولِ حق و صداقت کا تعلق محض ایک سیدھی بات کہہ دینے سے نہیں ہے بلکہ حق کو پہچاننا اور باطل، ظلم، طاغوت کے ساتھ فرق کو سمجھنا، مداہنت سے بچنا اور اپنے ذاتی فائدے سے بلند ہوکر حق کا ساتھ دینا ہے۔   اسی پہلو کو قرآنِ عظیم نے یوں واضح فرمایا ہے:

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ کُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ o(التوبہ ۹:۱۱۹)  اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ سے ڈرو اور سچے لوگوں کا ساتھ دو۔

سچ اور صداقت ایک اجتماعی فریضہ ہے۔ باطل اور ناحق کو ہاتھ اور زبان سے دُور کرنا اور حق و صداقت کو بغیر کسی ملاوٹ کے مشکل ترین حالات میں حکمت دین کے ساتھ واضح کرنا دین کا مطالبہ ہے۔ یہ وہ بنیادی صفت ہے جس کے بغیر کارِ نبوت مکمل نہیں ہوتا۔ ابھی نزولِ وحی کا آغاز نہیں ہوا تھا لیکن صاحب ِ قرآن کے طرزِعمل اور رویے نے اہلِ مکہ کو آپؐ کی صداقت اور سچائی اور امانت کے برملا اقرار پر مجبور کر دیا۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ آپؐ  کو سچا اور صادق ماننے کے باوجود اپنے عملی تضاد کی بنا پر آپؐ کے لائے ہوئے حق اور صداقت کو ماننے پر آمادہ نہ ہوئے۔

اکیسویں صدی کے تناظر میں بھی صورتِ حال کچھ مختلف نظر نہیں آتی۔ مغرب ہو یا مشرق، انسان کے خودساختہ نظام انسانیت کو فلاح، سعادت اور سکون دینے میں ناکام رہے ہیں۔ اللہ کی مخلوق تک قولِ حق اور قولِ سدید کو پہنچانے کی ضرورت شدید سے شدید تر ہوچکی ہے۔ اب یہ تحریکاتِ اسلامی کی ذمہ داری ہے کہ وہ دعوتِ حق کو بغیر کسی مداہنت اور قولِ حق کو بغیر کسی مفاہمت کے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عطا کردہ حکمت ِ دعوت کے ساتھ تمام موجود وسائل کو استعمال میں لاتے ہوئے قائدانہ کردار ادا کرے۔ اور یہ کام کرتے ہوئے ایمان کے ایک اور مطالبے، یعنی ربِ کریم کی حمد، شکر اور ذکر کو زیادہ سے زیادہ اختیار کرے۔

للہیت اور اللہ کا ذکر کرتے ہوئے قدم آگے بڑھانا ہی کامیابی کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔ محض اپنی عددی طاقت پر بھروسا، عوامی مقبولیت اور عوامی نعروں پر اعتماد ایک ناپایدار تصور ہے۔  دعوتِ دین اپنا الگ مزاج رکھتی ہے۔ یہاں ۱۰ تربیت یافتہ ، اللہ کی رضا کے لیے سب کچھ قربان کرنے والے کارکن اپنے سے ۱۰ گنا زیادہ باطل کی قوت کا مقابلہ اللہ تعالیٰ کی استعانت سے کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:’’ (اے نبیؐ) مومنوں کو جنگ پر اُبھارو۔ اگر تم میں سے ۲۰آدمی صابر ہوں تو وہ ۲۰۰ پر غالب آئیں گے‘‘ (انفال ۸:۶۵)۔ قرآنی تصورِ قوت ایک نرالا تصور ہے۔ وہ یہ نہیں کہتا کہ پہلے ۶۰لاکھ لوگ جمع کرو، تب تم street power بن کر انقلاب لائو گے، بلکہ وہ واضح طور پر کم تعداد میں وہ قوت مجتمع کردیتا ہے جو بڑے بڑے طوفانوں اور کفر کے سیلاب کو اپنی قوتِ ایمانی سے انگیز کرسکے اور اللہ تعالیٰ کی نصرت سے کفروظلم کی کثیرطاقت پر کامیابی حاصل کرسکے۔ بدر کا معرکہ ماضی کا قصہ نہیں ہے۔ یہ قیامت تک کے لیے تحریکاتِ اسلامی کے لیے لمحۂ فکریہ فراہم کرتا ہے۔

یہاں مطالبہ تزکیۂ نفس کا، قرآن سے تعلق کا، سیرتِ پاک کے رنگ میں رنگ جانے کا ہے۔ یہاں صبرواستقامت پر اُبھارا جا رہا ہے۔ صابرون  سے مراد وہ مجاہد فی سبیل اللہ ہیں جو ہرمیدان میں ایمانی بصیرت کے ساتھ مہارت رکھتے ہوں۔ وہ میدان معیشت کا ہو، تعلیم کا ہو، سیاست کا ہو یا فکر کا ہو یا عسکری جہاد، یہ صابرون ان تمام شعبوں میں قیادت کی صلاحیت کے ساتھ اپنے رب پر مکمل بھروسا کرتے ہوئے جب اس کی راہ میں نکلتے ہیں تو پھر راستے کی رکاوٹیں خس و خاشاک کی طرح معدوم ہوجاتی ہیں۔ اہلِ ایمان کے ایمان کو ناپنے کا ایک پیمانہ اللہ کی یاد، ذکر اور تذکرہ ہے جو قلت تعداد کے باوجود باطل قوتوں کی کثرت کو لرزہ براندام کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے:

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اذْکُرُوا اللّٰہَ ذِکْرًا کَثِیْرًاo وَّ سَبِّحُوْہُ بُکْرَۃً وَّ اَصِیْلًاo

(احزاب ۳۳:۴۱-۴۲) اے ایمان لانے والو! اللہ کو کثرت سے یاد کرو اور صبح و شام اس کی تسبیح کرتے رہو۔

اللہ کا ذکر اپنی مکمل شکل میں نماز میں پایا جاتا ہے۔ وَذَکَرَ اسْمَ رَبِّہٖ فَصَلّٰیo (الاعلٰی ۸۷:۱۵)’’اور اپنے رب کا نام یاد کیاپھر نماز پڑھی‘‘۔ لیکن یہ ذکر اور یاددہانی محض صلوٰۃ فجر اور عشاء تک محدود نہیں۔ ایک مومن کا ہرلمحہ، ہر سانس، ہرعمل بندگیِ رب میں کیا جا رہا ہو تو اس کا ہرعمل عبادت اور ذکر شمار کیا جاتا ہے اور ارحم الراحمین مزید فضل فرماتے ہوئے اپنے بندے کی خامیوں اور کمزوریوں کو قوتوں اور حسنات سے بدل دیتا ہے۔

تزکیہ نفس

ایمان کی کیفیت کا تیسرا پیمانہ یا KPIایک فرد کا مسلسل تزکیہ میں مصروف رہنا ہے۔ تزکیہ ایام بیض کے روزوں یا قیام لیل تک محدود نہیں ہے۔ اس کا پہلا میدان گھر اور خاندان ہے کہ ایک فرد کہاں تک اپنے اہل خانہ کے ساتھ ایسا طرز عمل اختیار کررہا ہے جو محبت، ہمدردی اور نصیحت کا ہے۔ وہ اپنے اہل خانہ کے لیے جو روزی کما رہا ہے، وہ حلال ذرائع سے حاصل کی جا رہی ہے۔  وہ اپنے گھر والوں پر جو خرچ کر رہا ہے، اس میں کہاں تک اعتدال ہے، وہ اسراف سے کتنا محفوظ ہے۔ وہ اپنے والدین اپنے اقربا اور اپنے احباب کے حقوق کس حد تک ادا کر رہا ہے۔ یہ تمام اعمال ایمان کے پیمانے ہیں۔ ایک حدیث صلہ رحمی کے حوالے سے ہمیں یہ بتاتی ہے کہ اگر ایک شخص اپنے اقربا کی طرف سے ناشکرگزاری کے باوجود ان کے ساتھ بھلائی کرتا ہے تو وہ آخرت میں کامیاب ہوگا۔ فرد کا تزکیہ اس کے مال کا بھی ہے، صلاحیت کا بھی، وقت کا بھی اور سنن اور نوافل کے اہتمام کا بھی۔ تزکیہ بھلائی اور خیر کے مسلسل بڑھنے کے عمل کا نام ہے۔ یہ ایک جامع ذاتی ترقی کے عمل کا نام ہے جس کے نتیجے میں شخصیت و کردار میں نمایاں تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں۔

جادۂ عدل

چوتھا پیمانہ جو یہ طے کرتا ہے کہ ایک فرد کا طرزِعمل ایمان کا پتا دیتا یا تقویٰ سے دُوری کی نشان دہی کرتا ہے، جادئہ عدل کو اختیار کرنا ہے۔عدل قرآنِ کریم کی بنیادی اصطلاحات میں سے ایک اہم تعلیم اور اصول ہے۔ اس کا ایک واضح مفہوم وہ ہے جو ہم میں سے ہرایک بخوبی جانتا ہے، یعنی کسی تعصب، لاگ لپیٹ، ذاتی پسند ناپسند، نفرت یا محبت، قبائلی نسبت، خونی اور خاندانی تعلق، نظریاتی اتحاد، غرض ہر تعلق سے آزاد ہوکر اللہ کی خاطر، سچائی اور حق کی گواہی دیتے ہوئے ایک مشرک کے ساتھ بھی عدل کا رویّہ اختیار کرنا۔ اسی کا نام تقویٰ اور اسی کا نام توحید ہے۔

عدل کا مطالبہ ہے کہ تمام مراسمِ عبودیت ، اطاعت ، فرماں برداری، محبت صرف اللہ کے لیے ہو۔ اگر ایسا نہیں ہے اور اس میں کسی کو شریک کرلیا گیا تو اسی کا نام ظلم عظیم، یعنی شرک ہے۔ بالکل اسی طرح کسی گروہ کی دشمنی یا دوستی سے بلند ہوکر شہادتِ حق دیتے ہوئے وہ فیصلہ کرنا جو عدل کا مطالبہ ہو تقویٰ ہے۔ گویا عادلانہ رویہ وہ پیمانہ یا KPIہے جو یہ بتلاتا ہے کہ ایک شخص ایمان اور تقویٰ سے کتنا قریب ہے۔ یہاں بھی ایمان کسی مخفی کیفیت کا نام نہیں ہے بلکہ ایک واضح طرزِعمل اور قابلِ محسوس رویّہ ہے جیسے ہر دیکھنے والی آنکھ اور سوچنے والا ذہن بغیر کسی الجھائو کے محسوس کرسکتا ہے۔ ایمان کے اس پہلو کو کتابِ حکمت و رُشد و ہدایت یوں بیان کرتی ہے:

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ لِلّٰہِ شُھَدَآئَ بِالْقِسْطِ ز وَ لَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلَّا تَعْدِلُوْا ط اِعْدِلُوْا قف ھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی ز وَ اتَّقُوْا اللّٰہَ ط

اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌم بِمَا تَعْمَلُوْنَo(المائدہ ۵:۸) اے لوگو، جو ایمان لائے ہو، اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو۔ کسی گروہ کی دشمنی  تم کو اتنا مشتعل نہ کردے کہ انصاف سے پھر جائو۔ عدل کرو، یہ تقویٰ سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔ اللہ سے ڈر کر کام کرتے رہو، جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے۔

یہاں تحریکی کارکنوں کے لیے اہم دعوتی پہلو واضح کیا گیا ہے کہ کسی گروہ کی دشمنی یا مخالفت مستقل نہیں ہوسکتی۔ اپنی تمام خامیوں کے باوجود ہر مشرک، فاسق اور ظالم ایک ممکنہ مومن ہے۔ فرعون کی فرعونیت کے باوجود اسے نظرانداز نہیں کیا گیا بلکہ حضرت موسٰی ؑ اور حضرت ہارون ؑ سے فرمایا گیا کہ تم دونوں جائو اور اسے نرم اور دل نشین انداز میں دعوتِ حق دو شاید وہ بھلائی کی طرف آمادہ ہوجائے۔ گویا سیاسی مخالفین ہوں یا نظریاتی دشمن، اُن تک دعوت کا پہنچانا ہر تحریکی کارکن کا ہدف ہونا چاہیے۔

نظم و اطاعت

ایمان کے وجود اور قوتِ ایمانی کا ایک پیمانہ اللہ اور اس کے رسولؐ سے اطاعت کا وہ   رشتہ ہے جس میں ایک مرتبہ منسلک ہونے کے بعد ایک صاحب ِ ایمان تمام غلامیوں اور ہرقسم کے خوف و ہراس سے آزاد ہوجاتا ہے۔ یہ وہ طوقِ اطاعت ہے جو ایک شخص کو تمام غلامیوں سے آزاد کر دیتا ہے۔ وہ اپنے رب کے احکام چاہے وہ مشکل نظر آئیں یا آسان، دل کی خوشی کے ساتھ قبول کرتا ہے۔ وہ اپنے نفس کے طاغوت، اپنے زمانے کے معاشی طاغوت، سیاسی طاغوت، ثقافتی طاغوت اور سیاسی برتری اور قوت کے طاغوت سے آزاد ہوکر اپنی تمام صلاحیتوں کو، اپنے تمام معاملات کو، اپنے تمام مفادات کو صرف اور صرف اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے تابع بناتے ہوئے سرِتسلیم خم کردیتا ہے۔ حتیٰ کہ وہ فرماں روا اور اولی الامر جن سے اس کا روز واسطہ پڑتا ہے، اگر وہ اللہ اور رسولؐ کے نظام پر عمل نہ کر رہے ہوں تو وہ ان سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے اپنا رُخ صرف اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف موڑ دیتا ہے۔

یہ ایمان کا وہ پیمانہ ہے جو روزِ روشن ہو یا شام کی دھندلاہٹ، ہر صورتِ حال میں ہمیں یہ بتلاتا ہے کہ ایک فرد کہاں تک اللہ کا عبد ہے اور کہاں تک مصلحت ِ وقت کا۔ یہ ایمان کو بے حجاب کردیتا ہے۔ ایمان اپنی ماہیت کے لحاظ سے چھپنے اور دبنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ اس کا جوش اور ولولہ اسے ہرسطح پر واضح طور پر نمایاں کردیتا ہے۔ یہ ایک قابلِ محسوس، قابلِ پیمایش رویہ اور طرزِعمل کا نام ہے۔ اسی کو قرآنِ کریم نے خَیْرٌ وَّاحْسَنُ تَاْوِیْلًا  سے تعبیر کیا ہے:

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ ج  فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَ الرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ ط ذٰلِکَ خَیْرٌ وَّ اَحْسَنُ تَاْوِیْلًاo(النساء ۴:۵۹) اے لوگو جو ایمان لائے ہو،اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسولؐ کی اور اُن لوگوں کی جو تم میں سے صاحب ِ امر ہوں، پھر اگر تمھارے درمیان کسی معاملے میں نزاع ہوجائے تو اسے اللہ اور رسولؐ کی طرف پھیر دو اگر تم واقعی اللہ اور روزِ آخر پر ایمان رکھتے ہو۔ یہی ایک صحیح طریق کار ہے اور انجام کے اعتبار سے بھی بہتر ہے۔

اس آیت مبارکہ نے اللہ اور آخرت پر ایمان کو جس طرزِعمل اور رویے سے منسلک کر دیا ہے وہ ہرلحاظ سے قابلِ محسوس ہے۔ تین پیمانے ہمیں بتا دیے گئے ہیں یہ جانچنے کے لیے کہ ایمان کی سطح کیا ہے:

اوّل: ایک کارکن یا ذمہ دار فرد کہاں تک فیصلے کرنے میں اور فیصلوں پر عمل کرنے میں بنیادی طور پر یہ دیکھتا ہے کہ وہ فیصلہ کسی اتحاد میں شامل ہونا ہو یا کسی عوامی ریلی میں شرکت، اس میں بنیاد رضاے الٰہی اور اطاعت ِ رسولؐ ہے یا کوئی قریب المیعاد سیاسی مفاد۔ اپنی شہرت و مقبولیت ہے یا ہر مفاد سے بلند ہوکر صرف اور صرف رضاے الٰہی۔ اور جب ایک فیصلہ اللہ اور رسولؐ کے حکم کی بنا پر کرلیا گیا تو پھر اس فیصلے پر کس شدت سے عمل کیا جا رہا ہے۔

دوم: اُولی الامر اور نظم کی اطاعت کرتے وقت کہاں تک نظم کی رضا مقصود ہے اور کہاں تک صرف اور صرف اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشی بنیاد ہے۔ جب اولی الامر کے حکم اور  اللہ اور رسولؐ کے حکم میں انتخاب ہو تو پھر ایمان کا تقاضا اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی غیرمشروط اطاعت ہے۔ اگر ایسا نہیں ہوگا تو اللہ اور آخرت پر ایمان خطرے میں پڑجائے گا۔

سوم: اگر کسی مسئلے میں تنازع کھڑا ہوجائے تو ایسے آزمایشی مواقع پر حق پر قائم رہنا، موقع پرستی اور مداہنت کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے قولِ سدید اور شہادتِ حق دینا ایمان کا وہ پیمانہ ہے جسے اُمت مسلمہ کی تاریخ کے ہر دور میں دیکھا جاسکتا ہے۔

ثابت قدمی

ایمان کو جانچنے کا ایک پیمانہ وہ رویّہ اور طرزِعمل ہے جو افراد کو ایک دوسرے کے ساتھ سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح رشتۂ اخوت میں جوڑ دے اور وہ محض ایک جماعت کے کاغذی ممبر نہ رہیں۔ وہ ایک دوسرے کے لیے سہارا اور قوت بن جائیں۔ وہ ایک دوسرے کی خوشی اور تکلیف میں برابر کے شریک ہوں۔ اگر تحریک کے ایک حصے میں جو سیکڑوں ہزاروں میل کے فاصلے پر ہو، کوئی آزمایش ہو تو وہ اس میں خاموش تماشائی نہ ہوں بلکہ ان کا دل و دماغ اور جسم اس تعلق کی وجہ سے بے چین ہو۔ وہ نہ صرف مظاہروں کے ذریعے بلکہ بین الاقوامی دبائو اور ابلاغِ عامہ کے ذرائع استعمال کریں اور ربِ کریم کے حضور شب و روز دعائوں کا ایسا سلسلہ شروع کریں کہ اس کی رحمت جوش میں آجائے اور وہ تحریکِ اسلامی کی آزمایش کو ان کے لیے رحمت کا ذریعہ بنا دے۔

فلاح، کامیابی اور کامرانی کو قرآنِ کریم نے اس اخوت کی قوت کے ساتھ وابستہ کر دیا ہے۔ یہ ایمان کا وہ پیمانہ ہے جس پر ہر تحریکی کارکن اور قائد اپنی جانچ خود کرسکتا ہے۔ فرمایا گیا:

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اصْبِرُوْا وَ صَابِرُوْا وَ رَابِطُوْا قف وَ اتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَo (اٰل عمرٰن ۳:۲۰۰) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، صبر سے کام لو،    باطل پرستوں کے مقابلے میں پامردی دکھائو، حق کی خدمت کے لیے کمربستہ رہو، اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو، اُمید ہے کہ فلاح پائو گے۔

ایک حدیث میں یہ فرمایا گیا ہے: ’’ایمان نام ہی صبروسماحت کا ہے۔ حضرت عمرو بن عتبہؓ کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: ایمان کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ایمان نام ہے صبر اور سماحت کا(مسلم)۔ گویا راہ کٹھن ہو یا آرام دہ، عزم، جدوجہد اور جہد مسلسل پوری استقامت کے ساتھ جاری رہے۔ اور اللہ کے راستے میں کام کرتے ہوئے کبھی اپنی ذات، اپنی قوت، اپنی حکمت عملی، اپنی سیاسی مقبولیت اور ذہانت، غرض ہر اُس طرزِعمل سے بچا جائے جو عالی ظرفی کے منافی ہو اور ہر وہ بات اختیار کی جائے جس سے خاکساری اور نرم خوئی میں اضافہ ہو۔

جب ایک مرتبہ سوچ سمجھ کر تحریک کی دعوت کو قبول کرلیا ہو تو پھر اپنی اَنا، ذاتی رنجش، اختلاف راے اور نظرانداز کیے جانے کے باوجود تحریک سے وابستگی، اپنی ذاتی راے کو اجتماعی راے کا تابع بنانا اور جماعت سے وابستگی اور دین کی دعوت کے لیے ہر سرگرمی میں جوش و جذبے کے ساتھ حصہ لینا، کسی لمحے بھی مایوس اور شاکی نہ ہونا ثابت قدمی و استقامت کا تقاضا ہے۔ اس سے بڑھ کر اللہ کا فضل کیا ہوسکتا ہے کہ وہ ایک بندے کو ایسی اجتماعیت سے وابستہ ہونے کی توفیق دے جو معروف کے قیام اور منکر کے مٹانے کی بنیاد پر قائم ہوئی ہو۔ یہ تو شکر کے رویے کا مطالبہ کرتی ہے۔ اس میں شکایت، برہمی، مایوسی اور پیچھے ہٹنے کی کوئی گنجایش نہیں پائی جاتی۔

جھاد فی سبیل اللّٰہ

اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ ہدایت کو شعوری طور پر تسلیم کرنے کے ساتھ ایمان کا ایک تقاضا   یہ بھی ہے کہ اپنی جان، اپنے مال اور اپنی صلاحیت کو اللہ تعالیٰ کی بھیجی ہوئی شریعت کے قیام کی جدوجہد میں مکمل طور پر لگا دیا جائے۔

یہ جدوجہد جزوقتی نہیں ہے کہ ’دنیا‘ کے بہت سے کاموں کے ساتھ، چاہے وہ ذاتی معاش کے لیے ہوں یا اپنے شعبے میں مہارت حاصل کرکے شہرت کے لیے ہوں، یا اپنے اہلِ خانہ کو خوش کرنے کے لیے وسائل پیدا کرنے کے لیے ہوں۔ غرض ہر وہ کام جسے عام طور پر دنیاوی کہا جاتا ہے، اس میں اپنی تمام تعمیری صلاحیت اور قوت کو صرف کرنے کے بعد ہفتہ کے آخر میں دو دن جب ’دنیاوی کاموں‘ سے فرصت حاصل ہوتو اس وقت کو دعوتی کام میں لگا دیا جائے اور سمجھا جائے کہ اقامت دین کا فریضہ ادا کر دیا۔ درحقیقت دن رات کے ہرلمحے میں حضرت نوح ؑ کے عزم اور جذبے کے ساتھ اس فریضے کو انجام دینے کا نام جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ یہ وہ انقلابی عمل ہے جس میں ایک فرد کا رویہ اور طرزِعمل، قرآن و سنت سے مطابقت پیدا کرتا ہے۔ وہ اپنی دوستی کا معیار دعوتِ حق کو بناتا ہے۔ ان سے جڑتا ہے جو حق کی طرف راغب ہوں، ان سے محتاط ہوتا ہے، جو  بے مقصد زندگی میں گم ہوں۔ ہاں، انھیں ا س سراب سے نکالنے کے لیے لازماً کوشاں رہتا ہے۔ اس کی محبت اور دوستی کا پیمانہ صرف اور صرف اللہ کی رضا حاصل کرنے والوں سے قربت، اور نمایش اور چمک دمک کی طرف لپکنے والوں سے فاصلہ ہوتا ہے۔ وہ ہرلمحہ اپنے رب سے اچھی اُمید اور اپنی کوتاہیوں پر مغفرت کا طلب گار ہوتا ہے۔وہ اپنے رب کے فضل کو اس کی مغفرت میں تلاش کرتا ہے:

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تَتَّقُوا اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّکُمْ فُرْقَانًا وَّ یُکَفِّرْ عَنْکُمْ سَیِّاٰتِکُمْ وَ یَغْفِرْلَکُمْ ط وَ اللّٰہُ ذُوالْفَضْلِ الْعَظِیْمِo (انفال ۸:۲۹) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اگر تم خدا ترسی اختیار کرو گے تو اللہ تمھارے لیے کسوٹی [بھلائی اور بُرائی میں تمیز کی صلاحیت] بہم پہنچا دے گا اور تمھاری بُرائیوں کو تم سے دُور کردے گا اور تمھارے قصور معاف کرے گا۔ اللہ بڑا فضل فرمانے والا ہے۔

قرآنِ کریم نے اس طرزِعمل کو دوسرے مقام پر ایک ایسی تجارت سے تعبیر کیا ہے جس میں صرف کرنے والے کے لیے نفع ہی نفع اور خسارے اور عذاب سے تحفظ کی ضمانت دی گئی ہے۔ یہاں بھی ایمان کی کسوٹی اور پیمانہ ایک قابلِ محسوس طرزِعمل اور رویہ ہے، یعنی اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جو ہدایت انسانوں کے لیے بھیجی ہے، اسے اللہ کی زمین پر نافذ کرنے اور نظامِ عدل اور حق و صداقت کو غالب کرنے کے لیے اپنی تمام صلاحیتوں، اثاثے اور دولت کو لگادینا،کلمۂ حق کو بلند کرنے کے لیے کسی مداہنت سے کام نہ لینا، اور قولِ سدید کے لیے اپنا تن من دھن اللہ کے راستے میں لگا دینا۔ اس سے زیادہ قابلِ اعتبار سودا اور کیا ہوسکتا ہے کہ اس سایے کے مانند پائی جانے والی دنیا میں، زندگی کے لمحات کو اللہ کے راستے میں لگانے کے بدلے ہمیشہ رہنے والی زندگی میں نجات اور عذاب سے نجات مل جائے۔ یہ سودا نہیں، یہ تو رب کریم کی ایک عظیم بخشش ہے، ایک انعام ہے جو مالکِ کائنات ہی دے سکتا ہے۔ کتنے خوش نصیب ہیں وہ راہ رو جو اس راہِ مستقیم پر رواں دواں ہوں جن کی آبلہ پائی انھیں یومِ حساب کی شرمندگی سے محفوظ کردے، اور وہ ان میں شامل ہوجائیں جن سے ہلکا حساب لیا جائے گا:

یٰٓاََیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ہَلْ اَدُلُّکُمْ عَلٰی تِجَارَۃٍ تُنْجِیْکُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍ o تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَتُجَاہِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ بِاَمْوَالِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْ ط ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَکُمْ اِِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَo (الصف ۶۱:۱۰-۱۱) اے لوگو، جو ایمان لائے ہو، میں بتائوں تم کو وہ تجارت جو تمھیں عذابِ الیم سے بچادے؟ ایمان لائو اللہ اور اس کے رسولؐ پر، اور جہاد کرو اللہ کی راہ میں اپنے مالوں سے اور اپنی جانوں سے۔ یہی تمھارے لیے بہتر ہے اگر تم جانو۔

اللہ کے دین کی دعوت دینا اور اس بابرکت سرگرمی میں اپنی جان، اپنا مال اپنا وقت اپنی صلاحیت کو لگا دینا وہ تجارت ہے جس میں نقصان آس پاس بھی نہیں آسکتا۔ اس میں فائدہ ہی فائدہ ہے۔ یہ نہ صرف عذابِ الیم سے بچانے کا ذریعہ ہے بلکہ وہ مومن جو خلوص نیت کے ساتھ شہادتِ حق کا فریضہ ادا کرتا ہے، رب کریم اسے ان جنتوں سے نوازتا ہے جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں اور جہاں اس بندۂ مومن کے لیے ہر ممکنہ آسایش اس کا انتظار کر رہی ہے۔ ایمان و عمل کا رشتہ انتہائی قریبی ہے۔ اسے مزید مستحکم کرنے کے لیے قرآن سے تعلق کو مضبوط کرنا ہوگا، خاندان اور محلے کے دعوتی حقوق ادا کرنے ہوں گے اور اجتماعیت کو اختیار کرنا ہوگا۔ حقیقی کامیابی کا راز اجتماعیت ہی میں ہے۔ اجتماعی جدوجہد اور اللہ کی راہ میں جہاد دین حق کے لیے اپنا تن من دھن لگا دینا۔ ایسی سعادت ہے جو خوش نصیبوں ہی کو ملتی ہے۔ قابل مبارک باد ہیں اللہ کے وہ انصار جو بادِ مخالف کی پروا کیے بغیر اپنا تمام اثاثہ اس جدوجہد میں لگاتے ہیں، جن کی نماز اور جن کا جینا اور مرنا صرف اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے لیے ہے۔

 

(کتابچہ دستیاب ہے، منشورات، منصورہ،لاہور۔ قیمت:۱۳ روپے،سیکڑے پر خصوصی رعایت)

عصر حاضر میں اسلام اورمسلمانوں کے حوالے سے پائے جانے والے تاثرات میں مسلم معاشروں میں عورت کا مقام و کردار ایک مرکزی موضوع کا مقام اختیار کرگیا ہے اوربعض غلط العام تاثرات کی تکرار نے بہت سے مسلم اہل قلم کو مدافعانہ انداز میں اسلامی تعلیمات کو پیش کرنے پر آمادہ کردیا ہے۔ کسی بھی عصری مسئلے کا علمی جائزہ یہ مطالبہ کرتا ہے کہ پہلے اس مسئلے کی نوعیت، اس کے اسباب اوراس سے نکلنے والے نتائج کو سامنے رکھتے ہوئے معروضی طورپر یہ دیکھا جائے کہ جس بنیادپر دلائل کی عمارت تعمیر کی گئی ہے، کیا وہ درست ہے یا اس کی ٹیڑھ پوری عمار ت کے ایک جانب جھک جانے کاسبب ہے اورکیا واقعی مقصود ایک ٹیڑھی عمارت ہے یا سیدھی تعمیر۔

تقابلی مطالعوں میں عموماً ایک محقق کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اس مواد کو یک جا کردے جو تحقیقی مفروضے سے مطابقت رکھتاہو اور منطقی طور پر وہ نتیجہ حاصل کرلے جو پہلے قیاس کی حیثیت رکھتا تھا۔ چنانچہ اکثر مغربی تجزیوں کا آغاز مسلم دنیا میں پائی جانے والی چند بے ضابطگیوں سے ہوتا ہے جنھیں عموم کا مقام دے کر وہ نتیجہ حاصل کرلیا جاتاہے جس کو مستحکم کرنے کے لیے مواد جمع کیا گیا تھا۔مجھے اس امر کا پورا احساس ہے کہ کوئی انسان جو کسی معاشرے اورکسی علمی روایت سے وابستہ ہو مکمل طورپر اپنے آپ کو اپنے ثقافتی ماحول سے آزاد نہیں کرسکتا، لیکن اگرایک محقق کو اپنی محدودیت اوراپنے تصورات کا پورا اِدراک ہو اورساتھ ہی وہ دیگر نظریات کو عادلانہ نظر سے دیکھے جس کا حکم قرآن کریم نے شہادت کے حوالے سے دیا ہے کہ چاہے وہ شہادت ایک فرد کے خونی رشتہ دار ہی سے تعلق رکھتی ہو، شہادت حق ہی ہو اوراس میں رشتے کا تعصب نہ آنے پائے۔ چنانچہ علمی جائزے میں بھی اس حقیقت کو جاننے کے باوجود کہ ایک مسلمان محقق اسلامی نظام حیات کی حقانیت پر ایمان رکھتاہے، اس کا فرض ہے کہ وہ اسلامی تعلیمات اور دیگر تصورات کو معروضی طورپر ایک کھلے ذہن کے ساتھ اورپہلے سے تصورکردہ مفروضوں سے نکل کر جائزہ لینے کے بعدایک قول ِفیصل تک پہنچے۔

اس بنیادی اصول کی روشنی میں دیکھا جائے تو عصرحاضرمیںمغربی فکر اورمغرب زدہ مفکرین جن امور پر اپنی توجہ مرتکز کرتے ہیں انھیںاسلام میں خواتین کے حقوق خصوصی دل چسپی کا باعث نظر آتے ہیں۔ہمارے خیال میں ایسا ہونا کوئی تعجب کی بات بھی نہیں کیونکہ خود مسلم اہل فکر نے اس موضوع پر یا توفقہی نقطۂ نظر سے فقہی احکام کی تشریح کرتے ہوئے عورت اورمرد یا شوہر اوربیوی کے حقوق پر سیر حاصل بحث کی ہے، یا بعض اختلافی مسائل میں اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے قانون اورفقہی آرا کا دفاع کیا ہے۔ چنانچہ حدود اورقصاص ودیت کے معاملات میں ایک عورت کی شہادت کی حیثیت کیا ہوگی، وراثت میں تقسیم کا جو تناسب اللہ تعالیٰ نے مقرر کردیا ہے اس پر کوئی ’نظرثانی‘ ہوگی یا نہیں، ایک شادی شدہ شخص کو دوسری شادی کرنے کا اختیار ہے یا نہیں، اورریاست اس سلسلے میں کیا قدغن لگا سکتی ہے___ وہ موضوعات ہیں جو توجہ کا مرکز رہے ہیں۔

اسلامی قانون کے حوالے سے بحث کرتے وقت عموماً جو رویہ اختیار کیا جاتاہے وہ بھی قابلِ غور ہے۔ اکثر مغربی جامعات سے فارغ التحصیل مسلم مفکرین، مغربی فلسفۂ قانون کے مطالعے اور اس کے بنیادی مفروضوں پر ایمان لانے کے بعد اسلامی فقہ اورقانون کے بارے میں اپنا تجزیہ پیش کرتے ہیں۔ چونکہ فکری بنیاد مغربی فلسفۂ قانون ہوتا ہے، اس لیے بار بار وہ سوالات اٹھائے جاتے ہیں جو نہ تو نئے ہیں اورنہ منطقی طورپر صحت رکھتے ہیں۔ مثلاً یہ کہا جاتا ہے کہ وہ قانون جو ساتویں صدی عیسوی میں یا نویں صدی عیسوی میں وجود میں آیا، آخر کس طرح اکیسویں صدی کے تغیر شدہ ماحول و حالات میں قابل عمل ہو سکتاہے، یا یہ کہ قرآن کے احکامات جو خواتین سے متعلق ہوں یا مردوں سے یا معاشرے کے مسائل سے ، آج کس طرح نافذ ہوسکتے ہیں، جب کہ ہم ’بدوی‘ معاشرے سے آگے نکل چکے ہیں!

خواتین کی قانونی شہادت ، وراثت میں تناسب، تعلیم کا حصول ، گھرمیں فیصلہ کن معاملات میں مقام، سیاسی کردار، معاشی میدان میں عمل دخل، فوج اورپولیس میں یکساں نمایندگی، نکاح میں مرد کی طرح ایک سے زائد شوہروں سے زواج قائم کرنا، نماز میں امامت اورجمعہ کا خطبہ دینا وغیرہ وہ مسائل ہیں جن پر اس انداز سے بات کی جاتی ہے گویا یہ مسائل اچانک دریافت کرلیے گئے ہیں اللہ سبحانہ وتعالیٰ اورشارع اعظم کے علم میں ان کا کہیں آس پاس بھی سراغ نہیں پایا جاتا تھا۔ ان مسائل سے لاعلمی پر مبنی ایک شریعت ہمارے حوالے کردی گئی، اوراب چونکہ یہ مسائل یکایک دریافت ہوگئے ہیں اس لیے وہ شریعت جو ان سے لاعلمی کی بناپربنی تھی خود بخوداپنی قانونی قوت کھوبیٹھی ہے!

علمی اورمعروضی تحقیقی حکمت عملی کا بنیادی مطالبہ ہے کہ پہلے یہ بات طے کرلی جائے کہ شریعت ہے کیا؟کیا یہ ایک مردانہ ذہن کے پیداکردہ تصورات اورحدود و قیود پر مبنی ہے، یا اسے خالق کائنات اورصانعِ انسان نے انسان اورانسانی معاشرے کی ضروریات، مستقبل کے مطالبات اورضروریات کے پیش نظر نازل کیا ہے؟ اگر شریعت زمان و مکان کی قید میں ہے تو لازماً اسے   تغیر و تبدیلی سے گزرنا ہوگا لیکن اگر شریعت زمان و مکان کی قید سے آزاد اُن آفاقی اصولوں پر مبنی ہے جن پر انسانی خمیر کی تعمیر کی گئی ہے، تو اس میں آفاقیت ہوگی اورتبدیلیِ زمان و مکان سے اس کی قانونی قوت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوسکتی۔

مرد اورعورت سے متعلق جو ہدایت نامہ قرآن کریم کی شکل میں اور اس کا عملی نمونہ حیاتِ مبارکہ سید الانبیا خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود میں ہمارے سامنے رکھا گیا ہے، ان دونوں میں  عدم تغیر، آفاقیت اورعالم گیریت کو اپنی مکمل شکل میں رکھ دیا گیا ہے ۔اس بنا پر قرآن کریم نے سنت کو تشریعی مقام دیا ہے۔ سنت، مدینہ اورمکہ کی زمانی و مکانی قید سے آزاد ہے۔ یہ اسوۂ حسنہ محض اخلاقی نصائح تک محدود نہیں ہے۔ یہ حدود کے اجرا، بین الاقوامی معاہدات، سفرا کے تقرر، قاضیوں اورمفتیوں کی نامزدگی، زکوٰۃ کے نصاب، مرتدین کے خلاف قتال، معاندین زکوٰۃ کی سرکوبی، غرض ان تمام معاشرتی ، معاشی ،سیاسی اورقانونی معاملات سے تعلق رکھتا ہے جو منصب ِنبوت کے فرائض میں شامل تھے۔

بعض سادہ لوح افراد قرآن فہمی کے دعووں کے ساتھ جب یہ بات کہتے ہیں کہ قرآن میں تو ’رجم‘ کا ذکر نہیں پایا جاتاتو یہ بھول جاتے ہیں کہ قرآن کریم شارع اعظم کو حکماً یہ اختیاردیتاہے کہ وہ تحلیل و تحریم کریں۔ نتیجتاً ان کے تحکیم کردہ معاملات کو حتمی مقام حاصل ہوجاتاہے:’’(پس آج   یہ رحمت ان لوگوں کا حصہ ہے) جو اس رسول نبی امّی (صلی اللہ علیہ وسلم)کی پیروی اختیار کریں جس کا ذکر انھیں اپنے ہاں تورات اورانجیل میں لکھا ہوا ملتاہے۔ وہ انھیں نیکی کاحکم دیتا ہے بدی سے روکتاہے۔ ان کے لیے پاک چیزیں حلال اورناپاک چیزیں حرام کرتاہے، اوران پرسے وہ بوجھ اتارتا ہے جو ان پر لدے ہوئے تھے اوروہ بندشیں کھولتا ہے جن میںوہ جکڑے ہوئے تھے‘‘ (اعراف ۷:۱۵۷)۔ یہاں پر براہِ راست رسولؐ کو تحریم و تحلیل کا اختیار دیا گیا ہے۔

اس بنا پر کہا گیا ہے کہ آپؐ کافیصلہ اللہ کے فیصلے کی طرح ہے اورجو اس فیصلے کو قرآن کے احکامات سے الگ سمجھتا ہے اس کا مقام و مرتبہ ایمان سے گرا ہوا ہے۔ایمان کی شرائط میں سے یہ شرط قرآن کریم خود بیان کرتاہے کہ جب تک رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم اورفیصلے کو کشادہ دلی کے ساتھ، بلا کسی تردد کے نہ مانا جائے، اس وقت تک کوئی مومن نہیں ہوسکتاہے: ’’ نہیں، (اے محمدؐ) تمھارے رب کی قسم یہ کبھی مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ اپنے باہمی اختلافات میں یہ تم کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں، پھر جو کچھ تم فیصلہ کرو اس پر اپنے دلوں میں بھی کوئی تنگی نہ محسوس کریں، بلکہ سر بہ سر تسلیم کرلیں‘‘(النساء ۴:۶۵)۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کو اللہ سبحانہ کی اطاعت قرار دیتے ہوئے فرقانِ حکیم فرماتا ہے: ’’جس نے رسولؐ کی اطاعت کی ،اس نے دراصل اللہ کی اطاعت کی اورجو منہ موڑ گیا، تو بہر حال ہم نے تمھیں ان لوگوں پر پاسبان بنا کر تو نہیں بھیجا ہے‘‘(النسائ۴:۸۰)۔ اس سلسلے میںحرف ِآخر وہ فرامین ہیں جو یہ کہتے ہیں:’’مومنو! اللہ کی اطاعت کرو اوررسولؐ کی اطاعت کرو اوراپنے اعمال کو ضائع نہ ہونے دو‘‘ (محمد۴۷:۳۳)۔ مزید یہ کہ ’’اورجب ان سے کہا جاتاہے کہ آئو اس چیزکی طرف جو اللہ نے نازل کی ہے تو ان منافقوں کو    تم دیکھتے ہو کہ یہ تمھاری طرف آنے سے کتراتے ہیں‘‘۔ (النساء ۴:۶۱)

اس ضمنی توضیح سے قطع نظر، جو بات بلاجھجک کہنے کی ضرورت ہے وہ بہت آسان ہے۔    وہ یہ کہ اسلام اپنے تصورِ عدل کی بناپر مرد اورعورت دونوں کے حوالے سے جوہدایات دیتا ہے ان کی بنیاد جنسی تفریق نہیں ہے، جب کہ مغربی اورمشرقی فکر چاہے وہ مذہبی مصادر میں ہو یا معاشرتی علوم میںاس کی بنیاد جنس(gender)کی تفریق (discrimination)پرہے۔ چنانچہ اسلام نے جو حق خواتین کو ساتویں صدی عیسوی میں دیا کہ وہ ریاستی امور میں اپنی راے خلیفہ کے انتخاب کے موقعے پر دیں (حضرت عثمانؓ کی خلافت کے انتخاب کے موقعے پر مدینہ کے ہر گھر کی خواتین سے ان کی راے سرکاری طور پر لی گئی )، وہ حق یورپ میں ۱۸۹۲ء میںصرف اصولی طور پر تسلیم کیاگیا، جب کہ اس پر عمل بیسویں صدی میں ہوا۔

آج بھی مغرب اورمشرق میں خواتین کاغذی حد تک تو بعض حقوق رکھتی ہیں لیکن زمینی حقائق اس سے متضاد صورتِ حال پیش کرتے ہیں۔

اسلامی نظام حیات کا بنیادی نکتہ ’عدل‘ ہے۔ عدل اس بات کا مطالبہ کرتا ہے کہ ایک فرد پر اس کی برداشت اوراستعداد سے زیادہ بوجھ نہ ڈالا جائے، اس کی وسعت کے لحاظ سے اس کی  جواب دہی ہو۔ یہ قرآنی اصول کسی تعارف کا محتاج نہیں کہ لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَاط (البقرہ ۲:۲۸۶)، ’’اللہ کسی نفس پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا‘‘۔

چونکہ اسلام ایک مہذب معاشرے کے قیام کے لیے خاندان کو بنیادی ادارہ قرار دیتا ہے اورمذاہب عالم کے تمام تصوراتِ ’تقویٰ و پاک بازی‘ کے بر خلاف رشتۂ ازدواج اورشوہر اوربیوی کے صحت مندانہ اخلاقی تعلق کو تقویٰ اورایمان کی علامت سمجھتا ہے، اس بنا پر عدل کا مطالبہ ہے کہ خواتین کی سیاسی، معاشی، معاشرتی سرگرمیوں کو خاندان کے تناظر میں دیکھتے ہوئے شریعت کے بنیادی مقاصد اور ’مصلحت‘ کو سامنے رکھتے ہوئے ایک عادلانہ رویہ اختیار کیا جائے۔ اسلام میں شادی کا مقصد ایک ’کمائو بیوی‘کا حصول نہیںہے بلکہ آنے والی نسلوں کی معمار اورگھر کے اندر سکون، رحمت اورموّدت کا ماحول فراہم کرنے والی بیوی کا حصول ہے۔

اسلام کا تصورِ اجتماعیت اس کے عدلِ اجتماعی سے منطقی طور پر وابستہ و پیوستہ ہے اور یہ تصور مغربی اور مشرقی تصورِ انفرادیت کی مکمل ضد ہے۔ اس میں فرد کو جائز قانونی، معاشرتی، معاشی اور سیاسی مقام کا تحفظ دیتے ہوئے معاشرتی رشتے میں جوڑا گیا ہے، جب کہ دیگر نظاموں میں، وہ مشرق کے ہوں یا مغرب کے، فرد کو عبادات میں محض اپنے خدا سے رشتہ جوڑنے کا تصور اختیار کیا گیا ہے۔ چنانچہ مشرقی اور مغربی تصورِ عبادت یہ مطالبہ کرتا ہے کہ مذہب اللہ اور بندے کے درمیان ایک نجی (private)اور ذاتی(personal) رشتہ ہے۔ اسلام اس کی تردید کرتے ہوئے حکم دیتا ہے کہ نماز جماعت کی شکل میں قائم کرو اور اجتماعی طورپر نہ صرف نماز بلکہ صیام ،حج اور زکوٰۃ کو ادا کرو۔ قرآن کریم ان عبادات کے لیے ریاست کو ذمہ دار بناتا ہے کہ وہ ان کے قیام اور تحفظ کے لیے اپنی قوت نافذ ہ کا استعمال کرے۔ یہ بنیادی نظریاتی فرق اگر سامنے نہ رکھا جائے تو پھر اہلِ علم بھی اس دوڑ میں لگ جاتے ہیں کہ مغرب یا مشرق عورت کو کون سے ’انفرادی حقوق‘ دیتا ہے اور مقابلتاً اسلام کون سے ایسے حقوق دیتا ہے۔

مسئلہ یہ نہیںہے کہ انفرادی حقوق کی دوڑ میں کون کس سے آگے ہے، مسئلہ یہ ہے کہ عدل کس بات کا مطالبہ کرتا ہے۔ کیا یہ عدل ہوگا کہ ایک خاتون سے یہ کہا جائے کہ وہ اعلیٰ ترین تعلیم حاصل کرے،ایمان کی تکمیل کے لیے شادی کرے اور اپنی خاندانی ذمہ داریوں کو جو وہ ایک سماجی معاہدے کے ذریعے اختیار کرتی ہے، پوری ذمہ داری سے ادا کرنے کے ساتھ ساتھ صبح سے شام تک کم از کم ۸گھنٹے ایک معاشی کارکن کے طور پر کام کرے، اور جب گھر واپس آئے تو پھر اپنے خاندانی وظائف میں مصروف ہوجائے اور اس بات پر فخر کرے کہ وہ ’مرد کے شانہ بہ شانہ‘ ، ’معاشی دوڑ‘ میں اپنا کردار ادا کررہی ہے! چاہے اسے اس دوڑ کے لیے اپنے اعصابی تنائو کو قابو میں رکھنے کے لیے صبح شام ادویات کا استعمال کرنا پڑے، ہر روز کام پر جانے کے لیے دو گھنٹے سخت ہجوم میں ٹیکسی،بس یااپنی ذاتی گاڑی میں سفر کرنا پڑے اور دفتر میں جنسی استحصال کا نشانہ بننا پڑے، لیکن وہ یہ سب کچھ اس لیے کرے کہ مغربی اور مشرقی تہذیب ایک کارکن خاتون کو زیادہ پیداآور (productive) کہتی ہے ! اگر معروضی طور پر صرف اس آمدنی اور اس خرچ کا ایک میزانیہ تیار  کرلیا جائے جو ایک ’کارکن عورت‘ اپنی ’دفتری ضرورت‘ کے طور پر ذاتی تزئین پر خرچ کرتی ہے تو ـ’معاشی ترقی‘ کے غبارے سے ہوا نکل جائے گی۔ اندازہ ہو جائے گا کہ جو آمدنی گھر لائی جا رہی ہے اور جس کا تذکرہ بطور ’دو تنخواہوں‘ کے ہر صحافیانہ تحریر میں پایا جاتا ہے وہ اصلاً کتنی آمدنی ہے۔

مسئلہ آسان ہے۔ مغرب و مشرق کا ذہنی سانچہ جنسی تقسیم اور استحصال پر مبنی ہے۔ مغرب کی پوری تہذیب میں، جواب مشرق میں بھی عام ہے، عورت ایک ’شے‘ (commodity)سے زیادہ مقام نہیں رکھتی اور وہ بھی ایسی شے جس کااستحصال کر کے ایک مرد انہ معاشرہ اپنے مقاصد حاصل کرے ۔ اس کے بر خلاف اسلامی شریعت کی بنیاد عدل کے اصول پر ہے جو یہ مطالبہ کرتا ہے کہ  کسی فرد پر اس کی برداشت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالا جائے، اوراسے اس کی ذاتی حیثیت میں اور اجتماعی حیثیت میں یکساں حقوق حاصل ہوں۔

مسلم اہل علم کی ذمہ داری ہے کہ اسلامی شریعت کے آفاقی پہلو کو اور اس کے نتیجے میں ایک ایسے انسانی معاشرے کے وجود میں آنے کو، جو عدل اجتماعی پر مبنی ہو، مرکزِگفتگو بناتے ہوئے یہ جائزہ لیں کہ اطلاقی سطح پریہ اصول کہاں تک مسلم معاشروں میں پایا جاتا ہے۔ بلاشبہہ مغربی معاشرے میں عورت کا استحصال، اس کی عصمت وعفت پر حملے، اس کے حقوق کی پامالی کی داستان ایک اذیت ناک کہانی ہے لیکن مسئلے کا حل محض یہ کہہ کر نہیں ہوسکتا کہ مغرب خواتین کے ساتھ ظلم کر رہا ہے۔ ہمیں خود اپنے معاشروں میں ہونے والے مظالم کو ختم کرنا ہوگاجن کی بنیاد وہ جاگیر دارانہ ذہن ہے، جس کے لیے یہ شرط نہیںہے کہ کوئی فرد جاگیردار ہی ہو۔ یہ ایک ذہنیت ہے جو ایک مزدور میں بھی اتنی ہی شدت سے پائی جاسکتی ہے جتنی ایک لاکھوں ایکڑکے مالک وڈیرے یا سردار میں پائی جاتی ہے۔

ہمارے معاشرے میں دین سے ناواقفیت اوردین کے نام پر دوانتہائوں کا پایا جانا بھی ایک بڑا مسئلہ ہے کہ ایک جانب یہ ایسی شدت پیدا کرتی ہے کہ ایک خاتون اپنے گھر میں اجنبی اور ایک کمرے میں مقید ہو کررہ جائے اور وہ صرف شوہر اور حقیقی اولاد کے ساتھ تو بات چیت کر سکے، بلاتکلف کھانے میں شریک ہو سکے لیکن ان کے علاوہ اقربا اور رشتہ داروں سے مکمل قطع رحمی پر مجبور کرد ی جائے۔ دوسری طرف وہ انتہا بھی ہے کہ حجاب کو محض نگاہ تک محدود کردیاجائے اور جسم کی عریانی کو معاشرتی ضرورت قرار دے دیا جائے۔ ہمیں ان دونوں انتہائوں سے نکلنا ہوگا اور    مدینہ منورہ کے معاشرے میں صحابیاتؓ کے طرز عمل کو سامنے رکھتے ہوئے اسلامی اور اجتماعی اخلاقیات کے اصولوں کی روشنی میں ایک نیا معاشرہ تعمیر کرنا ہوگا۔ وہ معاشرہ جو قرآن و سنت کے بنیادی اصولوں، شرم و حیا، عفت و عصمت، پاک بازی اور تقویٰ کو عملی زندگی میں ڈھال کر پیش کرسکے۔

اس سلسلے میں تعلیمی حکمت ِعملی ، معاشرتی رسوم و رواج کی تبدیلی، اور سب سے بڑھ کر افراط و تفریط والے ذہن کو بالاے طاق رکھتے ہوئے پوری دیانت اور نفس کے تجزیے و احتساب کے ساتھ اپنے معاملات کو شریعت کے دائرے میں لانا ہوگا۔

شریعت کادائرہ نہ قیدو بند پر مبنی ہے نہ مادرپدر آزادی پر۔ یہ وہ حد و دہیں جو معروف پر مبنی ہیں۔ یہ معروف وہ ہے جو خالق کائنات نے خود متعین کیا ہے۔ یہ معاشرتی تبدیلی و ارتقا کے ساتھ تبدیل نہیں ہوتا۔ یہ قرآن و سنت کی طرح سے آفاقیت اور عالم گیریت کا حامل ہے۔ اگر گفتگو معروف ہو، اگر معاشرت معروف ہو، اگرمہر معروف ہو، اگر رخصتی بھی معروف ہو، اگر معیشت معروف ہو تو پھر عدل کا قائم ہونا ایک منطقی عمل ہے۔

اس قیامِ عدل کے لیے راستہ صرف ایک ہے: قرآن و سنت سے براہِ راست تعلق، اس کی تعلیمات و احکامات کا کسی حیل و حجت کے بغیر اور مغرب و مشرق کی فکری غلامی سے آزادی کے ساتھ اس کا نفاذ۔

اسلامی شریعت کی بنیاد نہ جنس کی تفریق ہے نہ رنگ و نسل اور زبان کی تفریق ۔ یہ آفاقی اور عالمی حیثیت کے اصولوں پر مبنی وہ شریعت ہے جو قیامت تک کے لیے اصولِ حکمرانی فراہم کرتی ہے اور وعدہ کرتی ہے کہ کسی متنفس کے ساتھ ذرہ برابر بھی ظلم روا نہیں رکھا جائے گا۔ یہ تمام انسانوں کے لیے یکساں حقوق کی علَم بردار اور ان کے عملی نفاذ کی مثال پیش کرتی ہے۔ یہ انسان کو وقار، عزت، اکرام اور معاشرتی وجود سے نوازتی ہے۔ یہ محض مسلم معاشرے میں نہیں بلکہ دنیا میں جہاں کہیں بھی اس پر عمل کیا جائے گا ایک صحت مند معاشرے کو وجود میں لائے گی۔ یہی سبب ہے کہ یورپ و امریکا کے وہ بے شمار متلاشیانِ حق جو اپنے معاشروں کے ظلم و استحصال سے بے زار ہیں   یہ جاننے کے باوجود کہ یہ زریں اصولِ شریعت بہت سے مسلم ممالک میں بھی ابھی تک اجنبی ہیں اور مسلم ممالک کے غلام ذہن رکھنے والے فرماںرواان اصولوں کے مفید اور قابل عمل ہونے کا شعور نہیں رکھتے۔ یہ متلاشیِ حق بادِ مخالف کے باوجود اسلام کے سچا اور برحق دین ہونے اور اس دور میں قابلِ عمل ہونے کو دل سے تسلیم کرتے ہوئے دائرہ اسلام میں داخل ہو جاتے ہیں۔ یہ کامیابی اسلام کی کامیابی ہے۔ اس میں مسلمانوں کی اپنی معاشرتی مثال کا کوئی دخل نہیں۔ اگر مسلمانوں کے معاشرے میں بھی اسلام کو وہ مقام حاصل ہو جائے جو ان متلاشیانِ حق کے دلوں میں اسلام کو حاصل ہے، تو پھر پوری انسانیت کو اس عدل کو دیکھنے کا موقع مل سکتا ہے جوقیامت تک کے لیے صرف اورصرف حق و صداقت ہے اور انسانیت کو معراج پر لے جانے کا واحدراستہ ہے۔

اسلامی معاشرے کی ایک پہچان اس میں پرورش پانے والی روایت ِعلم ہے۔ اسلام چاہتا ہے کہ اس کا ہر پیرو اپنے عقائد، تعلقات اور معاملات کو علمِ صحیح کی بنیاد پر استوار کرے۔ ایمان کی شہادت خود اس بات کا اعلان ہے کہ ایک شخص ہوش و حواس کے ساتھ، سمجھ بوجھ کر ایک صداقت کی گواہی دیتا ہے کہ وہ صرف اللہ کا بندہ ہے اور اس کے لیے اگر کوئی مثال قابلِ عمل ہے تو وہ صرف اسوئہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ علم کی بنیاد پر عمل ایمان کی پہچان ہے ۔ اس کے برخلاف اگر   قول و عمل میں تضاد پایا جائے اور وہ کچھ کہے جو وہ خود نہ کرے تو قرآن کریم اس کو سخت ناپسندیدہ عمل قرار دیتا ہے: لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لاَ تَفْعَلُوْنَ o کَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللّٰہِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا لاَ تَفْعَلُوْنَo (الصف ۶۱: ۲-۳) ’’تم کیوں وہ بات کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو؟ اللہ کے نزدیک یہ سخت ناپسندیدہ حرکت ہے کہ تم کہو وہ بات جو کرتے نہیں‘‘۔

اس قول وعمل کے تضاد کو ایک دوسرے تناظر میں نفاق سے تعبیر کیا گیا ہے۔ چار خصلتیں جس شخص میں ہوں گی وہ پکا منافق ہوگا اور جس شخص میں ان میں سے کوئی ایک خصلت ہوگی تو اس کے اندر نفاق کی ایک خصلت ہوگی، یہاں تک کہ وہ اس کو ترک کردے۔ وہ چار خصلتیں یہ ہیں: جب اس کے پاس کوئی امانت رکھی جائے تو خیانت کرے، جب گفتگو کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو پورا نہ کرے، اور جب کسی سے جھگڑا ہوجائے تو گالی پر اُتر آئے(عبداللہ بن عمرؓ، بخاری ، مسلم)۔ قول و عمل میں یکسانیت اور عمل سے قولی شہادت کا اظہار، ایک قابل محسوس اور قابلِ پیمایش پیمانۂ ایمان ہے۔ اس لیے یہ کہنا بے بنیاد ہے کہ ہم کس طرح کسی کے ایمان کو جانچیں۔ جدید اسلوب میں ایمان کی پیمایش اعمال (outcomes) سے ہی کی جاسکتی ہے۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ایک صاحب ِ ایمان کو پکارا جائے کہ فلاح و کامرانی کی طرف آئو اور وہ تجارتی کاموں میں لگا رہے اور دن میں پانچ مرتبہ بلند ہونے والی اللہ کی کبریائی اور عظمت کی پکار سننے کے بعد بھی اس کے قدم مسجد کی طرف نہ اُٹھیں۔ فلاح و کامرانی کی پکار کو رد کرنے کے باوجود بھی وہ سمجھتا رہے کہ اس کا ایمان محفوظ ہے۔ ایمان کا مطلب ہی یہ ہے کہ بندگیِ رب کو صدقِ دل و جان سے مانتا ہے اور اس کی شہادت اس کا ہرہر عمل پیش کرے۔

اسلامی معاشرے میں وہ فرد قابلِ تحسین ہے جو فروغ علم میں لگا ہو: ’’تم میں سب سے بہتر لوگ وہ ہیں جو قرآن کا علم حاصل کریں اور (دوسروں کو) اس کی تعلیم دیں‘‘ (عن عثمان ابن عفانؓ، بخاری)۔ قرآنِ کریم علم کو انسانوں میں وجۂ امتیاز قرار دیتا ہے۔ اسلام نہ مال و دولت کو،      نہ عہدہ اور منصب کو، اور نہ ذات برادری سے وابستگی کو امتیازی مقام دیتا ہے، یہ ان اہلِ ایمان کو جو زیادہ علم و تقویٰ رکھتے ہیں دوسروں سے افضل قرار دیتا ہے۔ فرمایا گیا: ’’ان سے پوچھو کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے دونوں یکساں ہوسکتے ہیں؟ نصیحت تو عقل رکھنے والے ہی قبول کرتے ہیں‘‘ (الزمر ۳۹:۹)۔ قرآن کریم بغیر علم بحث و مکالمہ کو ناپسند کرتا ہے: ’’اور بعض لوگ جو اللہ     (کے بارے) میں بغیر علم کے اور بغیر ہدایت اور بغیر کتاب روشن کے جھگڑتے ہیں‘‘۔ (الحج ۲۲:۸)

قرآنِ کریم نے بے شمار مقامات پر علم اور علم سے وابستہ پہلوئوں کی طرف اشارے کیے ہیں اور عملاً ہر اہم مضمون کے ساتھ اس جملے کا اضافہ کردیا ہے کہ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ (البقرہ ۲:۴۴)’’کیا تم عقل نہیں رکھتے؟‘‘ اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ (النسائ۴:۸۲) ’’کیا وہ سوچتے نہیں؟ ‘‘ اَفَلاَ یَنْظُرُوْنَ(الغاشیہ ۸۸:۱۷)’’کیا وہ دیکھتے نہیں؟ ‘‘ اَفَلَا یَسْمَعُوْنَ (السجدۃ ۳۲:۲۶)’’کیا وہ سماعت نہیں رکھتے؟ ‘‘اَمْ عَلٰی قُلُوْبٍ اَقْفَالُھَا(محمد۴۷:۲۴)’’کیا انھوں نے اپنے قلوب پر تالے ڈال لیے ہیں؟ ‘‘کیا تم گہرائی میں جاکر تلاش نہیں کرتے؟ کیا تم ایسی قوم ہو جو عقل سے عاری ہے؟ کیا تم نے آنکھیں موند لی ہیں؟ کیا تمھارے کان بہرے ہوگئے ہیں؟ کیا تم کائنات پر غور نہیں کرتے؟ کیا تم نے کبھی اپنے اندر چھپی ہوئی کائنات پر غور کیا؟ پھر تم کدھر چلے جارہے ہو؟ تم نے کس کو راہ نما بنا رکھا ہے؟ ان کو جو خود بینائی سے، فہم سے، شعور سے،     آگہی سے محروم ہیں؟ جو خود اپنے نفع و نقصان پر قابو نہیں رکھتے؟

یہ وہ ثقافت ِعلم ہے جو قرآن کریم اپنے ہر پیروکار کے اندر جگانا چاہتا ہے اور ہرذہن کو جھنجھوڑ کر یہ مطالبہ کرتا ہے کہ وہ غوروفکر کرے۔ وہ عقل کی آنکھ کھول کر زمین کو، فلک کو، جہان کو دیکھ کر، مشرق سے اُبھرتے سورج کے اُفق، مغرب میں ڈوبتے سورج کی شفق اور فضائوں کی نیرنگی کو تحقیق اور تجسس کی نگاہ سے دیکھ کر، خالق و مالک کی آیات پر غوروفکر کرتے ہوئے یہ عقلی فیصلہ کرے، کہ کیا اصل حاکم، شارع، مالک اور فرماں روا کوئی انسان، کوئی انسانی فکر یا انسانوں کے کسی گروہ کا  مل کر کسی بات کو کہنا ہوسکتا ہے، یا ہر صاحب ِ علم کے اُوپر وہ العلیم ہے جو نہ صرف علم بلکہ قوتِ عمل کی تمام ممکنہ صلاحیتوں سے زیادہ قوت رکھنے والا العزیز، القدیر، القوی، العلیم اور اکبر اور اعلٰی ہے!

علم کے عمومی ذرائع

اسلام جس روایت اور ثقافت ِ علم کو قائم کرنا چاہتا ہے، اس کا مآخذ اور بنیاد اُن تمام بنیادوں سے مختلف ہے جو انسان نے اپنی محدود عقل، تجربے اور مشاہدے کی بنیاد پر دریافت کی ہیں۔ ان بنیادوں میں سب سے پہلے انسانی فکر اور تعقل کو شمار کیا جاتا ہے۔ قدیم ترین تہذیبوں میں انسان نے کسی نہ کسی شکل میں اپنی عقل کا استعمال کرتے ہوئے بعض باتوں کو درست تسلیم کیا اور بعض کو ردکیا۔ عقل کو حاکم بناتے ہوئے وہ جو فلسفی کہلائے، اس بات پر مُصر رہے کہ انسانی فکر کا  منبع اور مآخذ قوتِ فکر ہے جسے تفلسف (philosophization) سے تعبیر کیا گیا، یعنی انسانی ذہن کا فکری زاویے تعمیر کرتے ہوئے اپنے فکری مفروضوں کی بنیاد پر کسی شے کی حقیقت کا دریافت کرنا۔ ظاہر ہے فکری طور پر جب سارا انحصار ایک مفروضے (hypothesis) پر ہوگا اور اگر وہ مفروضہ  خود زمان و مکان کی قید سے آزاد نہ ہو، اور بالفرض حقائق پر مبنی نہ ہو تو جو فکر یا دیوار بنے گی وہ   کجی سے نہیں بچ سکتی۔ یہی سبب ہے مغربی فکر میں جن فلاسفہ کو ارسطو اور افلاطون سے لے کر ہیگل اور کارل مارکس تک آئیڈیلزم کے مدرسے سے تعبیر کیا جاتا ہے، وہ انسانی سوچ کو اپنارہنما بناتے ہیں اور اگر انسانی سوچ انھیں یہ بتائے کہ اصل حقیقت مادہ یا matter ہے تو پھر وہ مادیت پرستی کا فلسفہ تعمیر کرتے ہیں، اور اگر عقل یہ کہے کہ تصور یا idea ہر شے کی بنیاد ہے تو وہ idealism کے داعی بن جاتے ہیں اور ظن و گمان کی وادیوں میں گم رہتے ہیں۔

علم کی دوسری بنیاد حواس کے تجربے کو سمجھا جاتا ہے۔ چنانچہ وہ علم حقیقی اور یقینی سمجھا جاتا ہے جس کی تصدیق انسانی حواس سے کی جاسکتی ہو۔ اس کو مشاہداتی حقیقت ( empirical reality) قرار دیا جاتا ہے اور جو چیز مشاہداتی طور پر تجربے میں نہ آسکتی ہو اسے عموماً رد کردیا جاتا ہے۔

علم کا ایک تیسرا ذریعہ اُس ذاتی ، روحانی یامابعد الطبیعیاتی تجربے کو قرار دیا جاتا ہے جو انسان اپنی کوشش اور توجہ سے حاصل کرتا ہے اور جس کے نتیجے میں اسے بعض مخفی حقائق کا اِدراک ہوتا ہے اور جسے وہ روحانیت سے تعبیر کرتاہے۔ چنانچہ باطنی (esoteric) علم وہ سمجھا جاتا ہے جو پردوں میں چھپا ہوا ہو، اور وارداتِ قلبی کے نتیجے میں آشکارا ہو اور اس ذریعے سے حاصل ہونے والا علم معتبر اور صداقت پر مبنی سمجھا جاتا ہے، کیوںکہ اس طرح وہ جو محدود ہے غیرمحدود کے ساتھ رابطے میں آجاتا ہے۔ اس رابطے کو علم و تجربے کا نقطۂ کمال سمجھاجاتا ہے۔

وحی بحیثیت علمِ حقیقی

قیاسی، تجربی اور روحانی تجرباتی ذرائع علم سے آگے نکل کر قرآنِ کریم نے علم کے جس سب سے بلند اور حقیقی ذریعے سے تمام انسانوں کو روشناس کرایا اس کا نام وحی الٰہی ہے، جو کسی انسانی کاوش کے نتیجے میں روحانی تجربے کی شکل میں واقع نہیں ہوتی اور نہ اس کا تعلق انسان کی اپنی ذاتی فکر سے ہے کہ جب انسان خواہش کرے تو وجود میں آجائے اور جب خواہش نہ کرے تو معطل ہوجائے۔ یہ وہ معروضی (objective) حقیقت ہے جس کا مشاہدہ روزِ روشن میں انبیاے کرام ؑ پر نزولِ وحی کے دوران ان کے ہم عصر سیکڑوں افراد نے خود کیا، اور جس کا واضح ثبوت اپنی اصل یا تحریف شدہ شکل میں، ماضی میں آنے والی کتب ِ سماوی میں انسانی تاریخ میں پایا جاتا ہے۔

وحی الٰہی کے علم کے سب سے زیادہ یقینی، حقیقی اور حتمی ذریعہ ہونے کی مثال انبیاے کرام ؑ کا لایا ہوا وہ کلامِ الٰہی ہے جسے انھوں نے کبھی اپنے آپ سے منسوب نہیں کیا بلکہ ہمیشہ یہ کہا کہ یہ وہ امانت ہے جو ہمیں دی گئی ہے۔ ہمارا کام اس امانت کو جوں کا توں انسانوں تک یا بعض حالات میں مخصوص اقوام تک پہنچانا ہے۔ ہم اس میں نہ اضافہ کرسکتے ہیں نہ کمی۔ اگر ہم ایسا کریں گے تو اپنے اُوپر ظلم کریں گے اور اللہ تعالیٰ ہمیں ہماری شہ رگ سے پکڑ لے گا۔ گویا وحی کا ایک ایک لفظ، ایک ایک نقطہ اور حرکت اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر ہے۔ نبی ؑ اس میں زیر، زبر کی بھی کمی یا زیادتی نہیں کرسکتا۔ یہ نہ تجربی ہے، نہ قیاسی، نہ وارداتی بلکہ اپنی نوعیت کا الگ اور منفرد کلام، علم، نور اور ہدایت ہے۔ یہ اس ہستی کی طرف سے آتی ہے جس کے علم کی کوئی حد نہیں ہے۔

اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰہَ یَعْلَمُ مَا فِی السَّمَآئِ وَ الْاَرْضِ ط اِنَّ ذٰلِکَ فِیْ کِتٰبٍ  ط اِنَّ ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیْرٌ o(الحج ۲۲:۷۰) کیا تم نہیں جانتے کہ آسمان و زمین کی ہر چیز اللہ کے علم میں ہے؟ سب کچھ ایک کتاب میں درج ہے۔ اللہ کے لیے یہ کچھ بھی مشکل نہیں ہے۔

چوںکہ اُس نے ہی انسان کو وحی کے ذریعے علم دیا، اس لیے کہ وہ نہ صرف پوری کائنات بلکہ جتنی کائناتیں آج تک وجود میں آئیں اور آیندہ وجود میں آئیں گی، ان سب کا علم رکھتا ہے۔ اس لیے وہ انسان کے مبلغ علم سے بھی مکمل واقفیت رکھتا ہے۔ وَ اللّٰہُ یَعْلَمُ مَا تُسِرُّوْنَ وَ مَا تُعْلِنُوْنَ  o (النحل ۱۶:۱۹)’’ حالاںکہ وہ تمھارے کھلے سے بھی واقف ہے اور چھپے سے بھی‘‘۔

اس علمِ حقیقی کی اشاعت اور اس پر عمل کرنے کی دعوت کا آغاز ان پانچ آیات سے ہوا، جو پہلی وحی کی شکل میں نازل ہوئیں:

اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ o خَلَقَ الْاِِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ o اِقْرَاْ وَرَبُّکَ الْاَکْرَمُ o الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ o عَلَّمَ الْاِِنْسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ o (العلق ۹۶:۱-۵) پڑھو (اے نبیؐ) اپنے رب کے نام کے ساتھ جس نے پیدا کیا ، جمے ہوئے خون کے ایک لوتھڑے سے انسان کی تخلیق کی۔ پڑھو اور تمھارا رب بڑا کریم ہے جس نے قلم کے ذریعے سے علم سکھایا، انسان کو وہ علم دیا جسے وہ نہ جانتا تھا۔

اس علم کے رکھنے والے، سمجھنے والے، اس پر عمل کرنے والے اور اس کی اشاعت کرنے والے اور وہ جو اس سے آگاہ نہ ہوں، کس طرح برابر ہوسکتے ہیں۔ اس لیے قرآن کریم نے انسانوں کے مراتب و درجات کا تعین ان کے رنگ، نسل، لسان، قومیت، صوبائیت سے نہیں بلکہ علم کی بنیاد پر کیا:

اَمَّنْ ھُوَ قَانِتٌ اٰنَـآئَ الَّیْلِ سَاجِدًا وَّقَآئِمًا یَحْذَرُ الْاٰخِرَۃَ وَیَرْجُوْا رَحْمَۃَ رَبِّہٖ ط  قُلْ ہَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَالَّذِیْنَ لاَ یَعْلَمُوْنَ ط اِِنَّمَا یَتَذَکَّرُ اُولُوا الْاَلْبَابِ o (الزمر ۳۹:۹) (کیا اِس شخص کی روش بہتر ہے یا اُس شخص کی) جو مطیعِ فرمان ہے، رات کی گھڑیوں میں کھڑا رہتا اور سجدے کرتا ہے۔ آخرت سے ڈرتا اور اپنے رب کی رحمت سے اُمید لگاتا ہے؟ اِن سے پوچھو کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے دونوں کبھی یکساں ہوسکتے ہیں؟ نصیحت تو عقل رکھنے والے ہی قبول کرتے ہیں۔

اسی بات کو دوسرے مقام پر یوں بیان فرمایا گیا:

ٰٓیاََیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِِذَا قِیْلَ لَکُمْ تَفَسَّحُوْا فِی الْمَجٰلِسِ فَافْسَحُوْا یَفْسَحِ اللّٰہُ لَکُمْ ج وَاِِذَا قِیْلَ انْشُزُوْا فَانْشُزُوْا یَرْفَعِ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَالَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ دَرَجٰتٍ ط وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ  o (المجادلہ ۵۸:۱۱) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جب تم سے کہا جائے کہ اپنی مجلسوں میں کشادگی پیدا کرو تو جگہ کشادہ کردیا کرو، اللہ تمھیں کشادگی بخشے گا۔ اور جب تم سے کہا جائے کہ اُٹھ جائو تو اُٹھ جایا کرو۔ تم میں سے جو لوگ ایمان رکھنے والے ہیں اور جن کو علم بخشا گیا ہے، اللہ ان کو بلند درجے عطا فرمائے گا، اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کو اس کی خبر ہے۔

وحی کے ذریعے انسانوں کو جس علم سے نوازا گیا قرآنِ کریم اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے بندوں پر ایک فضل، نعمت اور رحمت سے تعبیر کرتا ہے کیوںکہ اسی علم کی بناپر روشنی رکھنے والی آنکھ میں بینائی اور سوچنے والے دماغ میں جلا ہوتی ہے۔ اگر اس علم کو نکال دیا جائے تو دماغ نامی چیز رکھنے اور ذہن نامی غیرمادی شے کے دعوے کے باوجود ایک انسان، حیوان بلکہ اس سے بدتر بن سکتا ہے۔

وَ لَقَدْ ذَرَاْنَا لِجَھَنَّمَ کَثِیْرًا مِّنَ الْجِنِّ وَ الْاِنْسِ لَھُمْ قُلُوْبٌ لَّا یَفْقَھُوْنَ بِھَا وَ لَھُمْ اَعْیُنٌ لَّا یُبْصِرُوْنَ بِھَا وَ لَھُمْ اٰذَانٌ لَّا یَسْمَعُوْنَ بِھَا ط اُولٰٓئِکَ کَالْاَنْعَامِ بَلْ ھُمْ اَضَلُّ ط اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْغٰفِلُوْنَo (اعراف ۷:۱۷۹) اور یہ حقیقت ہے کہ بہت سے جِن اور انسان ایسے ہیں جن کو ہم نے جہنم ہی کے لیے پیدا کیا ہے۔ ان کے پاس دل و دماغ ہیں مگر وہ ان سے سوچتے نہیں۔ ان کے پاس آنکھیں ہیں مگر وہ ان سے دیکھتے نہیں۔ ان کے پاس کان ہیں مگر وہ ان سے سنتے نہیں۔ وہ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گئے گزرے، یہ وہ لوگ ہیں جو غفلت میں کھوئے گئے ہیں۔

اسلامی روایتِ علم میںکتاب کا مقام

قرآن کریم نے اپنے لیے جس مختصر نام کا انتخاب کیا وہ ’’الکتاب‘‘ یعنی The Book ہے جو معرفہ ہونے کی بناپر قیامت تک کے لیے اصل کتاب کی حیثیت رکھتی ہے، اور اپنے سے قبل آنے والی تمام کتابوں میں جو حق نازل کیا گیا تھا اس کی تصدیق، اور جو اضافے اور تحریف کی گئی اس کی اصلاح کرکے احسن الحدیث کو انسانوں کے سامنے کھول کر رکھ دیتی ہے۔

قرآن کی دوسری عظیم سورت کا آغاز ہی الکتاب کے تذکرے سے ہوتا ہے جو بیک وقت کم از کم تین اہم پہلوئوں کی طرف متوجہ کرتی ہے ۔

اوّلاً: ہدایت، رہنمائی، حکمت، دانائی، نور اور صراطِ مستقیم اس کتاب میں متعین (definite) کردی گئی ہے۔ اس میں نہ کوئی ظنی بات ہے، نہ گمان نہ شبہہ بلکہ اعلیٰ ترین علم یقینی اور علم حقیقی اگر کوئی ہوسکتا ہے تو وہ الکتاب ہے۔

دوسری جانب یہ کتاب ہے، جسے قیامت تک غور اور تحقیق کے ساتھ پڑھا [قَرَائَ یَقرئُ] جاتا رہے گا۔ الکتاب کو نازل کرنے کا واضح مفہوم ہی یہ ہے کہ آئو اس علم و نور کی طرف ، اسے نہ صرف پڑھو بلکہ اس کے ایک ایک لفظ پر ایک مرتبہ نہیں سیکڑوں مرتبہ غور کرو تاکہ اس کے اندر چھپے ہوئے علم کے خزانے کی چند کرنوں سے فیض یاب ہوسکو۔ قرآنِ کریم کا نزول اور الکتاب کا آنا ایک کتابی ثقافت کا احیا تھا کہ وہ جنھیں آج تک اُمّی کہہ کر خطاب کیا جاتا تھا، وہ اس عظیم کتاب کے حامل بن کر دنیا میں اس کتاب کے ذریعے علمی، فکری، ثقافتی، معاشی، سیاسی، معاشرتی، قانونی، تعلیمی اور اخلاقی انقلاب برپا کرسکیں۔ اس الکتاب نے باربار متوجہ کیا کہ اس کے بھیجنے والے نے اسے انتہائی آسان بنا دیا ہے۔ تو کوئی ہے جو اسے پڑھے، بار بار پڑھے اور اس پر غور کرے۔

ایک تیسرا پہلو جو الکتاب سے وابستہ ہے، وہ اس آفاقی کتاب اور تحریر کے ذریعے اس کے ماننے والوں کو خود ایک تحریری روایت کی طرف متوجہ کرنا ہے تاکہ علم محض سماعی نہ رہے بلکہ تحریری شکل میں آگے سے آگے بڑھتا جائے۔ جن خوش نصیبوں نے اس پیغام کو پڑھا اور سنا انھوں نے ایک نہیں بلکہ اس الکتاب میں اجمالی علم کی سیکڑوں تشریحات اور تفصیلات تلاش کر کے انسانی تحریری سرمایے میں گراں قدر اضافے کیے اور آج تک کیے جارہے ہیں۔

الکتاب کی اس عظمت اور اہمیت کے علی الرغم آج کا نوجوان اپنے اردگرد کے ماحول سے اپنی وابستگی کی بنا پر سوچتا ہے کہ کتب بینی کی جگہ اگر وہ برقی ذرائع علم کو اختیار کرے تو نہ صرف   برق رفتاری کے ساتھ بلکہ وسعت کے ساتھ وہ بہت سی معلومات کو حاصل کرسکتا ہے۔ سوشل میڈیا آج ایک ناقابلِ تردید ابلاغی انقلابی قوت ہے۔ اس کے صحیح استعمال سے سیاسی انقلابات واقع ہوسکتے ہیں۔ یہ توسیع علم کا ایک اہم انقلابی ذریعہ بن چکا ہے۔ لیکن اس تمام فائدے کے باوجود سوشل میڈیا ایک ذریعہ (means) تو ہے، ایک ماخذ (origin) نہیں ہے۔ اس کا ماخذ افراد کے تاثرات، احساسات، تعبیرات، تجزیے اور تجربے ہیں، جو تمام تر دعوئوں کے باوجود محدود، وقتی،  قیاسی اور ظنی رہیں گے، جب کہ الکتاب علم کے حقیقی اور جامع مآخذ کا مقام رکھتی ہے اور جس کی بنیاد پر انسانی علم وجود میں لایا جاسکتا ہے۔

سوشل میڈیا لازمی طور پر ایک جدید ذریعہ ہے جو علم کے نشرو ابلاغ میں غیرمعمولی طور پر مددگار ہے لیکن اس کا یہ مطلب لینا کہ اب کتاب اور الکتاب کی ضرورت میں کمی ہوسکتی ہے کسی بھی لحاظ سے درست نہیں ہوسکتا۔ ہاں، الکتاب پر مبنی علم کو آج نہ صرف تحریر بلکہ برقی ذرائع سے کم سے کم وقت میں تمام انسانوں تک پہنچایا جاسکتا ہے اور اس کا یہ استعمال ایک دعوتی مطالبے کی حیثیت رکھتا ہے۔

کتاب سے رشتہ اور کتاب کی طرف رجوع بہرصورت ایک دینی، تحریکی اور علمی مطالبہ ہے۔ قرآن کریم نے اپنے بارے میں ’مبین‘ کے لفظ کا استعمال اس لیے کیا ہے کہ اس کی ہر بات بیّن، مبنی بردلیل آسان اور واضح ہونے کے ساتھ غوروفکر کی دعوت دیتی ہے۔ نہ صرف خود یہ الکتاب بلکہ اس کے زیرسایہ وجود میں آنے والا علمی ورثہ اور روایت بھی اس بات کی متقاضی ہے کہ اس سے استفادہ ایک بار نہیں بار بار کیا جائے۔ شاید بعض نوجوان اس بات کو مبالغہ سمجھیں لیکن    یہ حقیقت ہے کہ قرآن کریم کے زیرسایہ جو علمی روایت خود دورِحاضر میں وجود میں آئی خصوصاً مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے ہرقسم کی مدافعانہ فکر سے آزاد ہوکر، فکری اعتماد اور دلیل کی قوت کے ساتھ مثبت طور پر قرآن کی فکر کو اپنی سلیس تحریر میں بیان کیا ، وہ بھی اس بات کی مستحق ہے کہ اسے باربار پڑھا جائے۔ وہ تفہیم القرآن کے حواشی ہوں یا قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں، اسلامی عبادات پر تحقیقی نظر ہو یا خطبات اور دینیات یا دعوتِ اسلامی کا مقصد اور طریق کار، ان میں سے ہرہرتحریر کو جتنی مرتبہ بھی پڑھا جائے گا دعوتِ دین اور فہم قرآن کا کوئی نہ کوئی نیا زاویہ ہی علم میں آئے گا۔ الکتاب کا یہ معجزہ ہے کہ اس کے زیرسایہ ہر زمانے میں جو تحریر دل کی گہرائیوں سے نکلتی ہے وہ خود زندگی کی حامل بن جاتی ہے۔

الکتاب کے تصورِ علم کی اوّلین بنیاد العلیم کی جانب سے بھیجی ہوئی وہ صداقت ہے جو زندگی کے ہر شعبے کا احاطہ کرتی ہے۔ اگر صرف ان پانچ آیات پر غور کیا جائے جو پہلی وحی کی شکل میں نازل ہوئیں تو جہاں علمی سفر کا آغاز اس حقیقت سے ہوتا ہے وہاں ’پڑھنے‘ کا ادب کیا ہوگا۔     کیا انسان صرف اپنی بصارت اور سماعت پر بھروسا کرکے پڑھنے کا عمل کرے یا وہ العلیم اور علم کے خالق کے نام سے مطالعہ کرنے اور غوروفکر کرنے کا آغاز کرے۔

فرمایا گیا: اللہ کے نام سے پڑھو۔ ساتھ ہی یہ بات بھی سمجھا دی گئی کہ اس پڑھنے والے کی اپنی تخلیق اور حیثیت کیا ہے اور نہ صرف وہ بلکہ تمام حیاتیاتی دنیا ( biological world) کس طرح وجود میں آئی ہے۔ وہ انسانی پیدایش کا نقطۂ آغاز ہو یا نباتات و حیوانات اور آبی حیات کا وجود، خالقِ حقیقی نے ہی اسے پیدا کیا ہے اور تمام طبیعیاتی دنیا (physical world) کا خالق بھی وہی ہے جس نے نہ صرف قلم سے انسان کو علم سے فیض یاب کیا بلکہ قلم ہی انسانی تہذیب کی نشوونما، سائنسی تحقیقات، ٹکنالوجی اور ابلاغی ذرائع کے وجود میں آنے کا ذریعہ بنا۔الکتاب سے مسلسل طالب علمانہ تعلق ہی ایک انسان میں حق و باطل میں فرق، اخلاقی اور غیراخلاقی عمل میں تمیز اور عدل اور ظلم میں تفریق پیدا کرسکتا ہے۔

علم کی اصل بنیاد العلیم کا دیا ہوا علم ہے جس کا کچھ ضروری حصہ تخلیقِ آدم ؑ کے وقت انسانیت کو دیا گیا اور پھر وقتاً فوقتاً کتابوں کے ذریعے اس میں اضافہ کیا جاتا رہا ، حتیٰ کہ الکتاب نے آکر علم کو حتمی شکل دے دی۔ اس قطعی اور حتمی علم کے لانے والے اللہ تعالیٰ کے اپنے منتخب کردہ انبیاے کرام ؑتھے۔

انبیا ؑبطورِ معلمین

اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی بے شمار رحمتوں میں سے ایک عظیم رحمت انبیاے کرام ؑ کو حاملینِ وحی بناکر بھیجنا اور وحی کے علمِ حقیقی کے ذریعے انسانوں کی فکروعمل کی تطہیر ہے۔ قرآنِ کریم نے اس حقیقت کو چار مختلف مقامات پر معمولی تبدیلیِ ترتیب کے ساتھ ہمیں سمجھایا ہے۔ اختصار کی بناپر   ہم صرف ایک مقام کا تذکرہ کرنا کافی سمجھتے ہیں۔ فرمایا گیا:

لَقَدْ مَنَّ اللّٰہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِھِمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیْھِمْ وَ یُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَ الْحِکْمَۃَ ج وَ اِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ o(اٰل عمرٰن ۳:۱۶۴) درحقیقت اہلِ ایمان پر تو اللہ نے یہ بہت بڑا احسان کیا ہے کہ ان کے درمیان خود انھی میں سے ایک ایسا پیغمبر اُٹھایا جو اُس کی آیات انھیں سناتا ہے، اُن کی زندگیوں کو سنوارتا ہے اور ان کو کتاب اور دانائی کی تعلیم دیتا ہے، حالانکہ اس سے پہلے یہی لوگ صریح گمراہیوں میں پڑے ہوئے تھے۔

قرآن کریم اس آیت مبارکہ اور سورئہ بقرہ (۲:۱۲۹و ۱۵۱) اور سورئہ جمعہ(۶۲:۲) میں بھی اسی پہلو کی طرف متوجہ کرتا ہے کہ انبیاے کرام ؑ بطور داعی جس مقصد کے لیے بھیجے جاتے ہیں وہ جامع شکل میں چار وظائف ہیں۔

  •   تلاوتِ آیات: اول یہ کہ اللہ کے کلام کو وہ جس شکل میں، جن الفاظ میں، اور الفاظ کی جس ادایگی و صحت کے ساتھ ان پر نازل ہوا ہے، اس میں بال برابر تبدیلی کے بغیر جوں کا توں  بطورِ امانت انسانوں تک پہنچا دیں۔ جو بھی اِس امانت کو وصول کرے گا اب یہ اس کا فرض ہوگا کہ ایک سچے امین کی طرح وہ بھی اس کلامِ عزیز کو آگے پہنچانے کا فریضہ ادا کرے۔

گویا تحریکی کارکن ہو یا قیادت، جب تک وہ اس کلامِ عزیز کے امین کی حیثیت سے اس کے الفاظ کو صحیح طور پر ادا نہیں کرتے وہ اس بارِ امانت کو صحیح طور پر نہ سمجھے ہیں نہ اس کے اہل قرار دیے جاسکتے ہیں۔ انبیاے کرام بطورِ معلم اور داعی پہلا کام یہی کرتے ہیں کہ اپنے ماننے والوں کو اس عظیم کلام کو صحیح طور پر ٹھیرٹھیر کر پڑھنے، تلاوت کرنے اور اس پر غور کرنے کی تربیت دیں۔ یہ علمی اور فکری تطہیر کا مقدمہ ہے۔

  •   تعلیمِ کتاب: دوسرا کام اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ اس عظیم کتاب کی تعلیم ہے۔ یہ کام پہلے کام کا تسلسل ہے اور بنیادی فریضۂ دعوت ہے۔ یعنی ہر تحریکی کارکن اور قائد کا قرآن کریم کی تعلیمات کا براہِ راست سمجھنا، احکام کی حلّت و حُرمت، ترجیح، تطبیق، تخصیص، تدبیر سے نہ صرف آگاہی بلکہ اپنے قول و فعل میں اس کو اس طرح سمو دینا کہ جو بات کہی جائے اس کے لیے قرآن و سنت سے ایک دلیل دماغ میں موجود ہو۔ جو عمل کیا جائے، اس کے لیے فیصلے کی بنیاد قرآنِ کریم کی کوئی آیت یا شارع اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی عمل یا ارشاد ہو۔ تعلیمِ کتاب سے مراد محض کتاب میں درج آیات کا لغوی مفہوم اور گرامر کے قواعد کی روشنی میں کسی لفظ کا مصدر اور اس کے مختلف استعمالات کو بیان کردینا نہیں ہے، بلکہ ہرہرلفظ کی آج کے حالات میں مناسبت اور تطبیق کرتے ہوئے اپنے ظن و گمان پر نہیں بلکہ خود قرآنِ کریم کے دیگر مقامات سے دلیل اور سیرتِ پاکؐ سے شہادت فراہم کرنا ہے۔
  •  تزکیہ و تربیت:تیسری اہم ذمہ داری جو انبیاے کرام ؑ اور خصوصاً خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم پر ڈالی گئی وہ تزکیہ ہے۔ ہر وہ فرد جو ایک عام کارکن ہو یا قائد، اس پر یہ ذمہ داری قبولِ اسلام سے شعوری طور پر خود بخود عائد ہوجاتی ہے کہ وہ تزکیہ کے عمل کو سمجھے اور اس پر عمل کرے۔ صحیح تزکیہ وہی ہوگا جس کا ذکر قرآن کریم ان چار مقامات پر کرکے پھر پوری کتاب میں اس کے مختلف پہلوئوں کو بیان کردیتا ہے۔

تزکیے کے عمل کو قرآن کریم نے خود بہت وضاحت سے مختلف مقامات پر بیان کردیا ہے کہ اسے کس طرح کیا جائے اور اس کی سب سے مکمل اور عملی شکل خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ کی شکل میں، رہتی دنیا تک ہمارے سامنے قابلِ عمل نمونے کے طور پر رکھ دی ہے۔   قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰی o وَذَکَرَ اسْمَ رَبِّہٖ فَصَلّٰی o (الاعلٰی ۸۷: ۱۴-۱۵) ’’فلاح پا گیا جس نے تزکیہ اختیار کیا اور اپنے رب کا نام یاد کیا پھر نماز پڑھی‘‘۔

اس کی وضاحت یوں کردی: یٰٓاََیُّھَا الْمُزَّمِّلُ o قُمِ الَّیْلَ اِِلَّا قَلِیْلًا o نِّصْفَہٗٓ اَوِ انْقُصْ مِنْہُ قَلِیْلًا o اَوْ زِدْ عَلَیْہِ وَرَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلًاo (المزمل ۷۳:۱-۴) ’’اے اُوڑھ لپیٹ کر سونے والے، رات کو نماز میں کھڑے رہا کرو مگر کم، آدھی رات، یا اس سے کچھ کم کرلو، یا  اس سے کچھ بڑھا دو، اور قرآن کو خوب ٹھیر ٹھیر کر پڑھو‘‘۔

نماز، تہجد اور قرآن کا رشتہ انتہائی قریبی اور حقیقی ہے۔ اللہ کا ذکر اور اس کی یاد نماز کی شکل میں اور قیام میں رکوع میں، حتیٰ کہ پہلو پر لیٹے ہوئے بھی، اللہ کا ذکر اختیار کرنا تزکیۂ نفس اور تزکیۂ ذات کی اعلیٰ شکل، خود کلامِ عزیز نے متعین فرما دی اور اسوئہ پاکؐ نے اسے تاریخ کی روشن مثال بنادیا۔

مال کے تزکیے کے لیے زکوٰۃ فرض کی گئی اور وقت اور تعلقات کے تزکیے کے لیے روزے کی سنت، لیکن اس میں بھی تزکیہ، نفس کشی کا نام نہیں بلکہ توازن و اعتدال سے سنت پاک کے دائرے میں رہتے ہوئے روزے رکھنا تجویز کیا گیا۔

مشہور حدیث کے مطابق، جب آپؐ کے تین اصحابؓ نے اُمہات المومنینؓ سے یہ سمجھنا چاہا کہ آپؐ کے لیل و نہار کیسے گزرتے ہیں، جب انھیں بتایا گیا تو انھوں نے آپؐ کی عبادت کی مقدار کو کم تصور کیا۔ کہنے لگے: نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہمارا کیا مقابلہ، ان سے نہ تو پہلے گناہ ہوئے نہ بعد میں ہوں گے۔ ہم معصوم نہیں، ہم تو عام انسان ہیں۔ اس لیے ہمیں عبادت میں کثرت کے ذریعے تزکیۂ نفس کرنا چاہیے۔ چنانچہ ایک نے قصد کیا کہ تمام رات نماز میں مصروف رہے گا۔ دوسرے نے عزم کیا کہ مستقل روزہ رکھے گا اور تیسرے نے طے کیا کہ میں عورتوں سے الگ تھلگ رہوں گا، کبھی شادی نہ کروں گا۔ تزکیے کی ان تینوں شکلوں کو خاتم النبیین نے یک قلم منسوخ کرتے ہوئے توازن و عدل کے ساتھ تزکیے کی تعلیم فرمائی اور یہ اصول طے فرما دیا کہ نیکی سمجھ کر جو کام آپؐ  کی سنت کے علی الرغم کیا جائے گا وہ ایسے فرد کو آپؐ کی اُمت سے خارج کردے گا۔ اس طرح دنیا کے تمام مذاہب کے تصور تزکیۂ نفس اور ریاضت ِ باطنی کو ردفرماتے ہوئے آپؐ  نے ایک صالح شخصیت، صالح معاشرہ اور عادلانہ تہذیب کی تعمیر کے لیے اپنی سنت پر عمل کو شرطِ اوّل قرار دے کر انحراف کے تمام راستے بند کردیے۔

یہ تزکیہ ایوانِ اقتدار اور خود اقتدار کا بھی کیا جائے گا۔ چنانچہ حضرت موسٰی ؑاور حضرت ہارون ؑ کو فرعون کے اقتدارِ اعلیٰ کو چیلنج کرنے کے لیے بھیجتے وقت وصیت کی گئی: ’’جائو تم دونوں فرعون کے پاس کہ وہ سرکش ہوگیا ہے [حد سے بڑھ گیا ہے] اس سے نرمی کے ساتھ بات کرنا شاید کہ وہ نصیحت قبول کرے یا ڈر جائے‘‘۔([طٰہٰ ۲۰: ۴۳-۴۴)

یہ تزکیہ میدانِ جہاد میں بھی ہے کہ اپنی جان اور مال کو اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کے حکم کو سربلند کرنے کے لیے لگا دیا جائے۔ یہ غیراخلاقی ثقافتی معاملات کا بھی ہے کہ ان سے پاک دامن رہتے ہوئے ان کی جانب کسی رجحان کے بغیر گزر جایا جائے۔ وَالَّذِیْنَ ھُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ o (المومنون ۲۳:۳) ’’اور لغویات سے اعراض کرتے ہیں (دُور رہتے ہیں)‘‘۔

مزیدفرمایا گیا کہ اللہ کے بندے کس طرح اپنے اُوپر مکمل قابو کرکے اپنا تزکیہ کرتے ہیں:

رحمن کے (اصلی) بندے وہ ہیں جو زمین پر نرم چال چلتے ہیں اور جاہل اُن کے منہ آئیں تو کہہ دیتے ہیں کہ تم کو سلام۔ جو اپنے رب کے حضور سجدے اور قیام میں راتیں گزارتے ہیں، جو دعائیں کرتے ہیں کہ ’’اے ہمارے رب، جہنم کے عذاب سے ہم کو بچا لے، اُس کا عذاب تو جان کا لاگو ہے، وہ تو بڑا ہی بُرا مستقر اور مقام ہے‘‘۔ جو خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں نہ بُخل، بلکہ اُن کا خرچ دونوں انتہائوں کے درمیان اعتدال پر قائم رہتا ہے۔ جو اللہ کے سوا کسی اور معبود کو نہیں پکارتے، اللہ کی حرام کی ہوئی کسی جان کو ناحق ہلاک نہیں کرتے، اور نہ زنا کے مرتکب ہوتے ہیں۔ یہ کام جو کوئی کرے وہ اپنے گناہ کا بدلہ پائے گا، قیامت کے روز اس کو مکرّر عذاب دیا جائے گا اور اسی میں وہ ہمیشہ ذلّت کے ساتھ پڑا رہے گا۔ اِلا یہ کہ کوئی (ان گناہوں کے بعد) توبہ کرچکا ہو اور ایمان لاکر عملِ صالح کرنے لگا ہو۔ ایسے لوگوں کی بُرائیوں کو اللہ بھلائیوں سے بدل دے گا اور وہ بڑا غفور و رحیم ہے۔ جو شخص توبہ کر کے نیک عملی اختیار کرتا ہے وہ تو اللہ کی طرف پلٹ آتا ہے جیساکہ پلٹنے کا حق ہے__ (اور رحمن کے بندے وہ ہیں) جو جھوٹ کے گواہ نہیں بنتے اور کسی لغو چیز پر اُن کا گزر ہو جائے تو شریف آدمیوں کی طرح گزر جاتے ہیں۔ (الفرقان ۲۵: ۶۳-۷۲)

اللہ تعالیٰ نے تزکیے کا کام بعد میں آنے والے کسی فرد یا افراد کی جگہ، خود خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی ذمہ داری قرار دے کر، ہمیشہ ہمیشہ کے لیے وہ دروازے بند کردیے جن میں کوئی اور یہ تعلیم دے کہ میرے تجربے میں فلاں عمل سے یہ بات آئی ہے، اس لیے اس طریقے سے تزکیہ کیا جائے۔ شارع اعظم صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ تزکیے کی تربیت دینے والا نہ آج تک کوئی پیدا ہوا ہے نہ ہوگا۔ اس لیے تحریک کے ہر کارکن کا فرض ہے کہ وہ قرآنِ کریم اور سیرتِ پاک میں تلاش کرے کہ سچائی کے ان دو سرچشموں نے کن کاموں کے ذریعے نفس کا تزکیہ، عقل کا تزکیہ، مال کا تزکیہ، وقت کا تزکیہ، خاندان کا تزکیہ، ثقافت کا تزکیہ، سیاست کا تزکیہ، باہمی تعلقات کا تزکیہ اور عالمی سطح پر فکر اور عمل کا تزکیہ کرنے کی تعلیم اور عملی مثال ہمارے سامنے رکھ دی ہے، تاکہ اہلِ ایمان ظن و گمان اور قیاس کی جگہ سنت ِ پاک کی پیروی کرتے ہوئے اپنے مال، اپنے جسم و روح، اپنی صلاحیت، اپنی فکر، اپنے اختیارات، انسانی تعلقات اور معاملات، غرض پوری زندگی کا تزکیہ کرسکیں۔ اس کام میں قائد اور کارکن میں کوئی فرق نہیں۔ جو حکم قائد صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا گیا کہ وہ رات کے کچھ حصے کو اللہ کے حضور سرگوشی کرنے کے لیے مخصوص فرما لیں وہی حکم ایک عام کارکن   کا ہے تاکہ وہ سیّدہ عائشہؓ کی روایت کردہ حدیث کی روشنی میں کم از کم دو رکعت جیسے مختصر عمل کو    اپنا ذریعۂ تزکیہ بنالے۔ یہاں یہ بات ذہن میں رہے کہ اس بظاہر چھوٹے عمل کو حدیث میں بڑے عمل سے تعبیر کیا گیا ہے کیوںکہ اس چھوٹے سے عمل سے اگر اللہ اور رسولؐ خوش ہوتے ہیں تو یہ دورکعت ایک بہت بڑی ریاضت ہے۔ اُس سے بھی زیادہ جس کے لیے بعض مذاہب میں سنیاسی اور روحانیت کے متوالے ۳۰،۳۰ سال جنگلوں اور بیابانوں میں سرگرداں رہتے ہیں۔

  •  تعلیم حکمت:انبیاے کرام ؑ کا چوتھا اہم مشن اور مقصد ِ نبوت تعلیم حکمت ہے۔ مفسرین کا اس پر اتفاق ہے کہ حکمت سے مراد خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے، یعنی آپؐ کا کسی کام کا کرنا، کسی بات کا حکم زبانی طور پر دینا، یا کسی بات کے واقع ہونے پر خاموشی کے ذریعے اس کی توثیق فرمانا۔ یہ حکمت اور سنت بھی قرآنِ کریم کی طرح آفاقی ہے اور جس طرح قرآن کریم پر غور اور تحقیق کرنے کے بعد تعین کیا جاتا ہے کہ شارع کا مقصد اور حکم کیا ہے، اسی طرح سنت اور حکمت پر بھی غور کرنے کے بعد اس کی تطبیق کی جائے گی۔ حیاتِ طیبہؐ نے جس طرح عبادات اور معاملات میں رہنمائی فراہم کی ہے ویسے ہی عقود (المائدہ ۵:۱) اور معاہدات میں، قانون صلح و جنگ میں، بین الاقوامی تعلقات میں، تجارت و تہذیب و معاشرت میں مستند رہنمائی فراہم کی ہے۔

تحریکی قیادت اور کارکنوں پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ غوروفکر کرکے یہ دیکھیں کہ کس طرح آج کے حالات میں سنت اور حکمت کی تطبیق کی جائے گی۔ وہ وقتی سیاسی مفاہمت ہو یا  طویل المیعاد دعوتی، فلاحی، سیاسی اور فکری حکمت عملی، ہرہرمعاملے میں یہ دیکھنا ہوگا کہ سنت پاکؐ ہمیں اس حوالے سے کیا بنیاد اور دلیل فراہم کرتی ہے۔ نہ صرف خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ بلکہ دیگر انبیاے کرام ؑ کا اسوہ آج کے سیاسی معاملات میں کن مصالح کو تقویت دیتا ہے اور کن باتوں سے روکتا ہے۔ الکتاب نے اسی بنا پر ہمیں احسن القصص سے نوازا ہے کہ حضرت یوسف ؑ کا اسوہ   ہو یا حضرت ابراہیم ؑ ، حضرت اسماعیل ؑ ، حضرت موسٰی ؑ، حضرت سلیمان ؑ اور حضرت دائود ؑ اور دیگر  انبیاے کرام ؑ کا اسوہ، ان سب روشن مثالوں کو سامنے رکھ کر، ہم کس طرح نصوص پر مبنی سیاسی اور  دعوتی حکمت عملی وضع کریں۔

عدلِ اجتماعی کا قیام

ان چار جامع اصولوں کے ساتھ الکتاب نے خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم اوردیگر انبیا ؑ کی دعوت اور اسوہ کے دو اہم پہلوئوں کی طرف بھی متوجہ کیا ہے، یعنی ان کا انسانوں کے معاشرے سے ظلم، حقوق کی پامالی، فتنہ و فساد، عناد و عداوت کو دُور کرتے ہوئے عادلانہ معاشرے کا قیام، لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ(حدید ۵۷:۲۵) ’’تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں‘‘۔

دعوتِ دین کا بنیادی مقصد ایک ایسے معاشرے اور ریاست کا قیام ہے، جس میں نہ صرف انسانوں بلکہ حیوانوں اور نباتات تک کے حقوق کی ادایگی کو فریضہ قرار دے دیا گیا۔ عدل کا قیام انبیا کے مشن کا ایک اہم پہلو ہے۔ یہ عدل انسان کے اپنے نفس سے شروع ہوتا ہے اور بتدریج     اہلِ خانہ، والدین اور بیوی بچے ہوں یا پڑوسی اور محلے دار، ضرورت مند ہوں یا بے کس، یا وہ حیوانات بھی جنھیں وہ باربرداری کے لیے استعمال کرتا ہو، وہ ملازم جن سے وہ کام لیتا ہے، حتیٰ کہ وہ پانی کا ایک قطرہ جو و ہ بلاضرورت بہاتا ہے، یا وہ ایک ننھی سی چڑیا ہے جسے وہ بلاوجہ مار دیتا ہے___ عدل ان تمام اُمور کا احاطہ کرتا ہے۔ غرض یہ عدلِ اجتماعی اسلامی دعوت کا وہ اہم پہلو ہے جس کے بغیر کوئی تحریکِ اسلامی اپنا مشن پورا نہیں کرسکتی۔ تحریکات اسلامی دراصل معاشرتی سیاسی، معاشی عدل کے قیام اور ظلم و استحصال کے خاتمے کے لیے برپا ہوتی ہیں۔ یہ کُلّی معاشرتی تبدیلی کی علَم بردار عادلانہ تحریکات ہوتی ہیں۔

اس کے ساتھ ایک اور اہم پہلو دعوتِ دین اور نظامِ اسلامی کا مکمل طور پر قائم کرنا [لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ (التوبہ ۹:۳۳) ’’تاکہ اسے پوری جنسِ دین پر غالب کردے‘‘] ہے۔ گویا الکتاب جس روایت ِعلم کی طرف بلاتی ہے، وہ دین کی مکمل تعلیمات کو بغیر اس میں کوئی کمی بیشی کیے جوں کا توں، بغیر کسی مداہنت اور معذرت کے، ہر دور کی زبان میں کھل کر پیش کرنے کی تعلیم دیتی ہے، اور دوسری جانب مکمل دین کے نظام کو دنیا میں نافذ اور رائج کر کے انسانیت کی فلاح، عدل کے قیام اور اخوت کے فروغ کا سبب بن جاتی ہے۔ اسلام دین و دنیا کی تفریق کو   رد کرتا ہے جیساکہ ایک حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اہلِ ایمان کے لیے تمام زمین کو مسجد بنادیا ہے۔ تحریکاتِ اسلامی کا اصل مقصد اللہ کی زمین پر اللہ کی مکمل بندگی کے نظام کا قیام ہے۔

ثقافت علم کا اھم تقاضا

تحریکِ اسلامی کا ایک بنیادی کام تطہیر افکار اسی بنا پر ہے کہ وہ انبیاے کرام اور خاتم النبیینؐ کے اسوہ کی پیروی کرتے ہوئے ان چھے بنیادی فرائض کو جیسا ان کا حق ہے ادا کرسکے۔ اس فرض کی ادایگی میں سب سے پہلے تحریک کو اپنی صفوں میں ثقافتِ علم کو تازہ کرنا ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ قرآنِ کریم بار بار کہتا ہے کہ اسے ٹھیرٹھیر کر، سمجھ کر پڑھا جائے۔

کیا تحریک میں شامل ہوتے وقت بطور ایک شرط کے چند کتب کا مطالعہ بقیہ تمام زندگی کے دوران ایک شخص کو طلب ِ علم سے بے نیاز کرسکتا ہے؟ کیا تحریکی لٹریچر کا ایک مرتبہ پڑھ لینا مقصد ِ دعوت ، طریقِ دعوت، ہدفِ دعوت، حکمت ِ دعوت، ترجیحاتِ دعوت اور تنظیمِ دعوت کے حوالے سے کافی ہوسکتا ہے؟ کیا کسی کا محض ۲۰سال سے ایک تحریک سے وابستہ ہونا اس بات کی دلیل ہوسکتا ہے کہ وہ مقصد ِ دعوت، حکمت ِ دعوت، طریق دعوت اور تنظیمِ دعوت سے پوری واقفیت رکھتا ہے اور ان میں فرق کو سمجھتا ہے اور ان کے حوالے سے قرآن وسنت سے دلیل پیش کرسکتا ہے؟ یہ جاننے کے لیے کسی اعلیٰ درجے کی سائنس کی ضرورت نہیں، صرف دو لمحات کے لیے تنہا بیٹھ کر اپنے احتساب کی ضرورت ہے اور ہرکارکن اور قائد جان سکتا ہے کہ وہ کس حد تک علم کے حسن کی خوبیوں سے آراستہ ہے اور اسے کس حد تک تطہیرفکر کے عمل کو دہرانے کی ضرورت ہے۔

تحریکی لٹریچر کے حوالے سے ایک عام غلط فہمی یہ پائی جاتی ہے کہ مولانا مودودیؒ اور    ان کے رفقاے کار نے ایک خاص دور کی مخصوص ضروریات کے پیش نظر دین کی تشریح کی، جب کہ اب حالات بدل چکے ہیں ، اس لیے وہ لٹریچر اب تاریخ کا حصہ ہے۔ اس سلسلے میں پہلی بات یہ ذہن میں رکھنے کی ہے کہ مولانا مودودیؒ نے دین کی جو جامع تشریح کی اور دین کے اجتماعیت کے پہلو کو اُجاگر کیا وہ تنہا ان کی تعبیر نہیں، بلکہ ان سے قبل حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کی فکر کا رُخ بھی یہی تھا۔ اسی پہلو کو علامہ اقبالؒ نے اپنی شاعری میں پیش کیا اور سیرت النبیؐ پر جو علمی کتب تحریر ہوئیں  ان سب کا مطمح نظر یہی رہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کسی خاص دور کے لیے اور دین کے کسی خاص پہلو پر مرتکز نہیں تھی بلکہ مکمل دین کی دعوت تھی۔ اس لیے سیّدمودودیؒ کا اس دور میں انتہائی عقلی اور نصوص پر مبنی دلائل سے یہ بات پیش کرنا ہر دور کے لیے ایک اصول کی حیثیت رکھتا ہے۔

دین کے اصول وقت کے ساتھ نہ بدلتے ہیں اور نہ ان میں کوئی قدامت ہوتی ہے۔   اگر دین کے اجتماعیت کے پہلو کو اب سے ۷۰سال پہلے اُجاگر کرنا ضروری تھا تو کیا آج اس کی ضرورت نہیں ہے؟ کیا کل جس اسلامی نظامِ معیشت کا قیام ضروری تھا آج اُس کی ضرورت نہیں ہے؟ کل جس طرح سیاسی اقتدار ان لوگوں کے پاس ہونا چاہیے تھا جو امین اور صادق ہوں تو کیا آج یہ اصول بدل جائے گا؟ کیا کل جس شوریٰ کی ضرورت اور فرضیت تھی آج وہ باقی نہیں رہے گی؟ اس لیے یہ خیال کہ اب کسی اور دعوت کی ضرورت ہے، نہ عقل کا مطالبہ ہے اور نہ دین کے صحیح فہم کا پتا دیتا ہے۔ دین کے اصول چوںکہ عالم گیر اور آفاقی ہیں اس لیے وہ پاکستان سے باہر بھی یکساں قابلِ عمل رہیں گے۔ یہاں یہ بات پیش نظر رہے کہ فقہ کا ایک قاعدہ یہ ہے کہ حالت کی تبدیلی سے حکم بھی تبدیل ہوجاتا ہے۔ مولانا مودودی بھی اس سے اچھی طرح واقف تھے لیکن اس قاعدے کا مطلب یہ ہے کہ حالات کے لحاظ سے حکمت عملی وضع کی جائے گی۔ یہ مطلب نہیں کہ کل جو حرام تھا وہ آج حلال ہوجائے گا۔ شراب جیسے حرام تھی ویسی ہی رہے گی۔ اگر شراب کی جگہ کسی نشہ آور شے نے لے لی ہو تو وہی حکم اُس کے لیے ہوگا۔

حکمت عملی میں بھی قرآن کریم نے انبیاے کرام کی خصوصی مثالوں سے جن پہلوئوں کی طرف ہمیں متوجہ کیا ہے وہ مستقل اصولوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ فرعون کے پاس بھیجتے ہوئے یہ حکم دینا کہ اُس جابر، ظالم، دعواے خدائی کرنے والے سے بھی ’قول لیّن‘ (نرمی سے بات کرنا)کا استعمال کیا جائے۔ آج بھی وہی حکم ہے چاہے دعوت کا مخاطب دنیا کا سب سے زیادہ طاقت کا دعویٰ کرنے والا ملک ہی کیوں نہ ہو۔ قولِ لیّن، موعظہ حسنہ، شہادتِ حق، استقامت، صبر، ایثار و قربانی، اجتہادی طرزِفکر اور جہدِ مسلسل میں لگے رہنا، وہ اصولِ دعوت ہیں جو تحریکی لٹریچر کی جان، اور قرآن و سنت سے براہِ راست ماخوذ ہونے کی بنا پر، ان میں کوئی تغیر واقع نہیں ہوسکتا۔ ہاں، شہادتِ حق کے لیے دعوت کے کس مرحلے میں ترجیحات کیا ہوں گی، وقت اور حالات کے لحاظ سے توسیع دعوت کے نئے طریقے کیا ہوسکتے ہیں؟ اس کا تعلق اُس فقہی اصول سے ہے جس کا ذکر اُوپر کیا گیا ہے اور    یہ فیصلہ کرتے وقت نہ مداہنت ہوگی اور نہ باطل کے ساتھ وفاداری۔

جب تک اپنی صفوں میں روایت ِعلم کو تازہ نہ کرلیا جائے ایک تعلیمی انقلاب کے عمل کو  ملک گیر کرنے کا کام دینی صحت کے ساتھ نہیں کیا جاسکتا۔ روایت ِعلم کے قیام کے لیے یہ شرط نہیں ہے کہ جب تک ہر کارکن اور ذمہ دار مجتہدانہ مقام تک نہ پہنچ جائے صرف تطہیر فکر ہی کی جاتی رہے۔ اسلام میں پورے داخل ہونے کا آسان مفہوم یہی ہے کہ زمان و مکان کی قید سے آزاد ہوکر، اس نیت سے آغاز ہو کہ زیادہ سے زیادہ قرآن و سنت کی پیروی کی جاسکے۔ اس عمل کے آغاز کے ساتھ ہی سیاسی، معاشی اور معاشرتی تبدیلی اور فلاح کے لیے دیگر کاموں کا کرتے رہنا ضروری ہے۔   یہ نہیں ہوسکتا کہ تطہیرفکر کے عمل کے لیے سات سال مخصوص کردیے جائیں، جب تک یہ سات سال نہ گزر جائیں کوئی اور کام نہ کیا جائے۔ ایسا کرنا قرآن و سنت کی ہدایت کے منافی ہوگا۔ ہرآنے والا دن یہ مطالبہ کرتا ہے کہ جو کچھ ایک انسان کے بس میں ہو وہ اس پر عمل کرے، اور اس انتظار میں    نہ رہے کہ جب تک وہ ایک ایسے مقام پر نہ پہنچ جائے جو اُس کے خیال میں ایک عالم کا ہے وہ دین کی دعوت نہ دے۔ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان کہ بلِّغوا عنّی ولو آیۃ کا واضح مفہوم ہے کہ ۲۳سال تک انتظار نہ کیا جائے کہ جب تک مکمل قرآن سمجھ کر اور عملاً زندگی میں نافذ نہ ہوجائے گا، ایک داعی باہر نکل کر اپنا کام شروع نہیں کرے گا۔ انسان کی جواب دہی بھی جو وہ جانتا ہے اور جو وہ جان سکتا ہے اس پر ہے، جو وہ نہ جان سکتا ہو اور نہ جانتا ہو اس پر نہیں ہے۔

تحریکاتِ اسلامی کا نقطۂ آغاز وہ بنیادی اصول ہیں جن کی طرف قرآنِ عظیم ہمیں متوجہ کرتا ہے۔ اسلامی دعوت کے ان فکری ستونوں کو شعوری طور پر سمجھ لیا جائے تو پھر تعمیرِعمارت، تعمیرِحیات اور تعمیرِوطن کا نقشہ خود بخود واضح ہوجاتا ہے، اہداف کا تعین ہوجاتا ہے ،اور اللہ تعالیٰ اپنی جانب سے روایت ِعلم کی حکمت عملی وضع کرنے میں آسانیاں پیدا کردیتا ہے۔

اُمت مسلمہ کے حقیقی نصب العین کو قرآن کریم نے پانچ بڑی اہم اور واضح اصطلاحات میں بیان فرمایا ہے، یعنی شہادتِ حق، اقامت دین، دعوت الی الخیر، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر۔ اگر ان تمام اصطلاحات اور ان پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عملی اظہار پر غور کیا جائے تو صاف نظرآتا ہے کہ یہ سب اللہ کے دین کو زندگی کے ہر شعبے میں نافذ اور قائم کرنے کے لیے ایک ہمہ گیر جدوجہد کا تقاضا کرتے ہیں۔ ان سب کا مفہوم اور اقتضاء ایک ہی ہے، یعنی خود اپنے کو اور اللہ کے تمام بندوں کو نیکی کی طرف دعوت دینا، اس کے غلبے کی کوشش کرنا، اور نہ صرف خود برائی سے اجتناب کرنا اور اس کو مٹانا بلکہ اس کے شر سے انسانوں کو محفوظ رکھنے کی جدوجہد کرنا ہے۔ یہی دنیا اور آخرت میں کامیابی کا واحد راستہ ہے۔

یہ نصب العین وقت اور زمان و مکان کی قید سے آزاد اور رنگ، نسل، لسان اور جغرافیائی حدود سے ماورا ہے۔ اس کا قیام اُمت پر انفرادی اور اجتماعی دونوں صورتوں میں فرض ہے، یعنی  مسلم اکثریتی صورت حال میں بھی اور کم تعداد کی صورت میں بھی۔ احوال و ظروف اور زمینی حقائق کی روشنی میں اس ذمہ داری کو ادا کیا جائے گا مگر ہردوصورتوں میں یہ یکساں طور پر فرض ہے۔ اس سے ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے عالمی تناظر میں اس ذمہ داری کی ادایگی صرف مسلم معاشرے تک محدود نہیں۔ اس کا تعلق پوری انسانیت سے ہے۔ حق و صداقت، قیام عدل و انصاف، تحفظ جان و مال، تحفظ عزت اور دینی و مذہبی آزادی کے لیے یہ پابندی نہیں ہے کہ اس پر صرف مسلم اکثریتی تناظر میں عمل ہوگا۔ یہ وہ بنیادی انسانی حقوق ہیں جو اسلام نے ہر انسان کو بلا تفریق عطا کیے ہیں۔

قرآن کی دعوت کا مرکزی نکتہ انسانوں کو انسانوں کی غلامی (طاغوت، ظلم، عدوان) سے نجات دلانا اور انسانوں اور کائنات کے رب کی اطاعت پر آمادہ کرنا ہے۔ اطاعت میں یہ پہلو مضمر ہے کہ یہ شعوری اور ارادی ہے، جبر اور لاچاری کی بنا پر نہیں۔ اس اطاعت اور زندگی میں مرکزیت پیدا کرنے کا دوسرا نام معروف، بھلائی، نیکی، حسنِ عمل، اچھائی اور حق کی دعوت اور قیام ہے۔ اس اخلاقی فریضے کی اہمیت اور مرکزیت کے پیش نظر قرآن کریم بار بار معروف کے قیام کے حوالے سے تمام انسانوں کو دعوت دیتا ہے کہ ان کا بولنا معروف پر مبنی ہے (قَوْلٌ مَّعْرُوْفٌ، البقرہ ۲: ۲۶۳)۔ ان کی معاشرت معروف طریقے پر ہو (عَاشِرُوْھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ، النساء ۴:۱۹) ، حتیٰ کہ ان کی مفارقت بھی معروف کے ساتھ ہو (سَرِّحُوْھُنَّ بِمَعْرُوْفٍ، البقرہ ۲:۲۳۱)۔ چنانچہ ریاست کے فرائض میں بھی معروف کو مرکزی مقام دیا گیا کہ جب اللہ تعالیٰ کسی جماعت کو اقتدار دے تو وہ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے لیے تمام ریاستی اختیارات کو استعمال کرے۔ (الحج ۲۲:۴۱)

اسلام جس معاشرے اور ریاست کے قیام میں تمام انسانوں کی فلاح و کامیابی کی خوش خبری دیتا ہے، اس کی بنیاد معروف کے اخلاقی اور قانونی اصول پر ہے۔ اس اصول پر جب بھی اور جہاں بھی عمل کیا جائے گا ظلم و استحصال، بے روزگاری، ناخواندگی، بیماری، بدامنی اور خوف کا خاتمہ ہوگا اور معاشرے میں عدل، اخوت، بھائی چارہ، حقوق انسانی کا احترام، نسلی، گروہی، لسانی، علاقائی نفرتوں کا خاتمہ اور انسانوں کے احترام کا باعث ہوگا۔

اس اخلاقی جدوجہد اور معروف کو غالب کرنے کا دوسرا نام اقامتِ دین ہے جو تمام انبیاے کرام ؑکا مشن اور مقصدِحیات رہا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ انبیاے کرام نے تمام انسانوں کو جو دعوت دی وہ صرف ایک قرآنی آیت میں بطور خلاصہ بیان کردی گئی ہے، یعنی اَنِ اعْبُدُوا اللّٰہَ    وَ اجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ ج (النحل ۱۶:۳۶) ’’اللہ کی بندگی کرو اور طاغوت کی بندگی سے بچو‘‘۔ انسانی معاشرہ مسلم اکثریتی ہو یا نہ ہو، طاغوت کی حکمرانی میں زیادہ عرصہ برقرار نہیں رہ سکتا۔ اس لیے ایسے معاشرے اور ریاست کا قیام جس میں طاغوت کی جگہ انسانوں کے خالق و مالک کی بالاتری اور بالادستی ہو، یہی انسانی عقل و تجربے کا مطالبہ ہے۔ معروف کا قیام اور طاغوت کے خاتمے کی جدوجہد ہی اقامت دین کی جدوجہد ہے۔

اگر کسی معاشرے میں ’حقوقِ انسانی‘ کے نام پر غیرفطری جنسی تعلق کو اخلاقاً اور قانوناً درست کہا جا رہا ہو تو ایسے معاشرے کو طاغوتی معاشرہ ہی کہا جائے گا، کیوں کہ جو عمل فطرتِ انسانی اور ہدایت ربانی دونوں کو پامال کرتا ہو اس کو قرآن کریم نے حد سے نکل جانا، اخلاق و قانون کے کناروں کوتوڑ کر معاشرے کو برائی کی لپیٹ میں لے لینے سے تعبیر کیا ہے۔ اگر کسی معاشرے میں رشوت لینے کو ’حقِ خدمت‘ تصور کرلیا جائے تو یہ معاشرہ بھی طاغوتی معاشرہ ہے کہ اس میں ایک عام انسان اپنا جائز حق بھی بغیر حرام اور ناجائز کام کے حاصل نہیں کرسکتا۔ اگر کسی معاشرے میں فرد یا کسی جماعت کی آمریت عوام الناس کی پسند کے منافی اور اخلاق و قانون کے خلاف قانون سازی کرتی ہے تو یہ بھی اس نظام کے طاغوتی ہونے کی دلیل ہے۔

اس طاغوتی، منکر، برائی اور اخلاق و قانون کے منافی معاشرے کی اصلاح اور معاشرہ و ریاست میں قانون کی بالادستی، حقوق انسانی کے قیام اور امن، بھائی چارہ، فروغِ علم، اور جان و مال اور عزت کے تحفظ کی جدوجہد ہی کا دوسرا نام اقامت دین کی جدوجہد ہے۔ گویا انسانی زندگی کے تمام شعبوں میں الہامی اخلاقی اقدار کا نفاذ اور محدود عقل وتجربہ رکھنے والے انسان یا انسانوں کے بنائے ہوئے خودغرضی پر مبنی طریقوں کی جگہ عالم گیر اخلاقی ضابطوں کا نفاذ۔

یہی وہ نصب العین کا شعور اور مقصدِحیات کا صحیح ادراک تھا جس کی بنا پر انبیاے کرام علیہم السلام نے اپنی دعوت کو چند نصائح اور تبلیغی کلمات تک محدود نہ رکھا بلکہ اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ انھیں ایسی سلطنت عطا ہو جس کی مثال نہ ہو۔ قرآن کریم میں حضرت سلیمان ؑ کی یہ دعا بیان کرنے کا مقصد واضح ہے کہ اسلام امر بالمعروف کے قیام کے لیے جہاں فرد، خاندان اورمعاشرے کو    ذمہ دارقرار دیتا ہے، وہاں یکساں طور پر ریاستی قوت و اختیار کو بھی اس مقصد کے لیے استعمال کرنے کو ایک اخلاقی اور قانونی ذمہ داری تصور کرتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ حضرت یوسف ؑنے مصر کی حکومت کو معاشرتی عدل، امن اور انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے نکالنے، اور خالقِ کائنات کی اطاعت میں لانے کے لیے استعمال کیا، اور اسی بنا پر قرآن کریم حضرت دائود ؑکے حوالے سے ہمیں بتلاتا ہے کہ وہ زمین پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے خلیفہ مقرر کیے گئے تھے۔ یہی وہ پہلو ہے جس کی طرف ہجرت سے پہلے اور طائف کے سفر کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے اس دعا کی شکل میں اظہار کردیا گیا کہ وَقُلْ رَّبِّ اَدْخِلْنِیْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَّ اَخْرِجْنِیْ مُخْرَجَ صِدْقٍ وَّاجْعَلْ لِّیْ مِنْ لَّدُنْکَ سُلْطٰنًا نَّصِیْرًاo (بنی اسرائیل ۱۷: ۸۰) ’’اور دعا کرو کہ پروردگار، مجھ کو جہاں بھی تو لے جا سچائی کے ساتھ لے جا اور جہاں سے بھی نکال سچائی کے ساتھ نکال اور اپنی طرف سے ایک اقتدار کو میرا مددگار بنا دے‘‘۔

یہ خلافت، نیابت یا امارت صرف اور صرف اللہ کی زمین پر اس کی ہدایات و احکامات کا اجرا کرنے والی قوتِ نافذہ ہے۔ اس کا کوئی تعلق نہ شخصی آمریت سے ہے نہ موروثی بادشاہت سے، نہ امارتِ استیلاء [جبری حکومت] سے۔ ایک حدیث صحیح نے اس خلافت و امارت کو مسئولیت کے حوالے سے بیان کرتے ہوئے اس بات کی وضاحت کردی ہے کہ یہ امارت صفاتی ہے نہ کہ موروثی۔ چنانچہ ایک امیر کو ریاست کے امور میں جواب دہ اور ذمہ دار بنایا گیا اور ایسے ہی ایک صاحب ِ خاندان کو خاندان کے اُمور پر جواب دہ، ذمہ دار اور قابلِ گرفت قرار دیا گیا ۔ گویا جو فرد بھی کسی فرضِ منصبی پر مامور ہوگا، وہ ریاست ہو یا گھر یا کوئی اور ادارہ، اس کی گرفت جواب دہی اور ذمہ داری اس ادارے میں معروف کے قیام اور منکر کے مٹانے کی ہوگی۔ اس میں جنس، رنگ، قد اور حیثیت کی قید نہیں ہے۔ شرط صرف کسی منصب پر فائز ہونے کی ہے۔

معروف کے قیام کا نصب العین کماحقہٗ اسی وقت حاصل کیا جاسکتا ہے جب اس کے قیام کی جدوجہد ان تمام پہلوئوں سے کی جائے جن میں فرد، خاندان، معاشی اور ریاستی ادارہ شامل ہیں۔ ریاست کی قوتِ نافذہ اس لحاظ سے غیرمعمولی اہمیت رکھتی ہے کہ کسی مقام پر ملکی معیشت، تعلیم، ثقافت، معاشرت، حتیٰ کہ بین الاقوامی مسائل و معاملات کا فیصلہ اگر معروف کی بنا پر ہوگا تو متوازن ترقی اور قیامِ عدل عمل میں آئے گا، اور اگر مسائل و معاملات کو ذاتی پسندو ناپسند، پارٹی کے مفاد کا پابند کیا جائے گا تو معاشرے اور ریاست میں انتشار اور نفسا نفسی کا پیدا ہونا ایک فطری امر ہوگا۔ اسی بنا پر معروف کی بنیاد پر قائم ہونے والی ریاست اور معاشرے میں جو خصوصیات پائی جاتی ہیں اگر ان پر غور کیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ ان پر مبنی نظام کا قیام انسانیت کی بقا کے لیے ناگزیر تقاضا ہے۔

معروف پر مبنی ریاست و معاشرے کی پہلی خصوصیت زندگی کے تضادات اور نفاق و شرک کا خاتمہ ہے۔ اسلامی ریاست کی اصل بنیاد توحید ہے، یعنی ذاتی، خاندانی، معاشرتی، معاشی، سیاسی اور بین الاقوامی معاملات کا فیصلہ کرتے وقت یہ دیکھنا کہ کیا اس کام سے خالقِ کائنات خوش ہوگا یا ناراض۔

قرآن و سنت انسانی جان کی حرمت پر بار بار زور دیتے ہیں، یعنی نہ صرف جان کا تحفظ بلکہ ان ذرائع کا دُور کرنا جو انسان کی زندگی کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ اگر کسی ملک میں فیکٹریوں کا فضلہ دریائوں میں یا ان سے نکلنے والے غبار شہروں پر ایک دبیز تہہ کی شکل اختیار کرجائیں، اگر گاڑیاں زہریلا دھواں پھیلاتی رہیں تو ایک عام شہری کی زندگی پر اس کا اثر پڑنا ایک یقینی بات ہے۔ توحید کے اطلاق کا مطلب یہ ہوگا کہ معاشرہ اور ریاست اللہ تعالیٰ کے حکم کہ خود کو اپنے ہاتھ سے ہلاک نہ کرو (البقرہ ۲:۱۹۵) کی روشنی میں ایسے قوانین کا وضع کرنا اور نافذ کرنا مسلم معاشرے اور ریاست کا فریضہ ہوگا جو انسانوں کو پاکیزہ فضا فراہم کریں اور وہ دھوئیں اور پانی کی کثافت کی بناپر انجانی بیماریوں کا شکار نہ ہوں، اور نہ اس بنا پر ان کی قوت مدافعت کمزور ہونے کے نتیجے میں  ان کی زندگی مسائل کی آماجگاہ بنے۔ توحید کے اس اطلاق کا اثر ایک مسلمان اور غیرمسلم دونوں پر یکساں ہوگا۔ دونوں کے معیارِ زندگی کو بہتر بنانا اُمت مسلمہ کے نصب العین کا حصہ ہے۔

اسلامی ریاست اور معاشرے کے توحید (Allah's sovereignty) پر قائم ہونے کا واضح مفہوم یہ ہے کہ گو، اسلامی معاشرہ اور ریاست اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی حاکمیت کے قیام کے لیے مامور ہے لیکن اللہ کی شریعت میں دی گئی ضمانتیں صرف مسلمانوں کے لیے نہیں ہیں بلکہ ریاست یکساں طور پر مسلم و غیرمسلم کی جان، مال، عزت، شہرت، نسبی پہچان اور معقول رویے کے لیے ذمہ دار ہوگی۔ اللہ کے تمام بندے اس معاشرے کے عدل، امن اور متوازن و بابرکت نظام سے مستفید ہوں گے۔ اسلامی ریاست اور معاشرے کی اصل پہچان معروف کی حکمرانی ہے۔

معروف کی حکمرانی اسی وقت قائم ہوسکتی ہے جب نظم مملکت تنہا کسی فرد کی خواہش، راے، اور فیصلہ کا پابند نہ ہو۔ گویا نہ فوجی آمریت میں نہ بادشاہت اور نہ جمہوری آمریت جس میں کسی  نام نہاد جمہوری ملک کا صدر اپنے چار سالہ دورِ حکومت میں ۹۷۰ مرتبہ ویٹو کے حق کا استعمال کرسکے۔ ایسے ہی ریاست کسی خاندان کا اجارہ نہ ہو کہ برسہا برس تک باپ کے بعد بیٹی اور پوتا یا بہو یا داماد، اپنے تعلق کی بنیاد پر حکومت کرنے کو اپنا آبائی حق سمجھ بیٹھے۔ ایسے ہی اسلامی ریاست میں کسی ’مذہبی‘ گروہ کی اجارہ داری کہ اسے الہامی طور پر اس منصب پر مامور کیا گیا ہے اور وہ منزہ عن الخطاء ہے، ناممکن ہے، جب کہ عام غلط فہمی برپا کی جاتی ہے کہ اسلامی نظامِ حکومت ایک theocracy ہے۔ اچھے خاصے تعلیم یافتہ افراد بھی یہ سمجھتے ہیں کہ اسلامی نظام کا مطلب طالبانائزیشن ہے۔ گو، لغوی طور پر اگر غور کیا جائے تو کسی طالب علم کا بربناے علم و صلاحیت و تجربہ کسی منصب پر فائز ہونا نہ اخلاقی طور پر نہ قانونی طور پر کوئی غلطی کہا جاسکتا ہے، لیکن جو پیغام اس اصطلاح کے استعمال سے دیا جاتا ہے وہ انتہائی منفی اور اسلام کی روح کے منافی ہے، یعنی  حقوقِ نسواں کی پامالی، کوڑوں کا کثرت سے استعمال، ڈاڑھیوں کی پیمایش، تعلیم نسواں کا خاتمہ وغیرہ۔

حقیقت ِ واقعہ یہ ہے ان تمام اتہامات میں سے کسی میں بھی ذرّہ برابر صداقت نہیں ہے۔ اسلامی نظام ریاست و معاشرے کی بنیاد ہی لازمی تعلیم و تربیت پر ہے۔ چنانچہ اسلام نے جس معاشرے کو قائم کیا اور جس ریاست کی بنیاد رکھی اس کے سربراہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی زوجہ محترمہؓ مدینہ منورہ کے مشہور سات فقہا کی معلّمہ تھیں اور اُمت مسلمہ کی اس ماںؓ کی شاگرد خاتون حدیث اور علمِ حدیث میں محدثین کی معلّمہ تھی۔ اسلامی معاشرے اور ریاست کی بنیاد اصولِ عدل پر ہے۔ یہاں کوئی فرماں بردار معصوم نہیں ہے۔ ایک خلیفۂ وقت اور ایک عام شہری قانون کی نگاہ میں مساوی ہیں۔

اگر اختصار کے ساتھ اس معاشرے اور ریاست کے خدوخال یا خصوصیات پر نظر ڈالی جائے تو اس کی اصل توحید اور عدل ہے۔ ان دو آفاقی اصولوں کی بنا پر یہ تمام انسانوں کی بھلائی، معروف کے قیام اور منکر کے خاتمے کے لیے جو نظام تجویز کرتی ہے اس میں حاکمیت صرف اللہ کے لیے ہے اور نظامِ مملکت کی بنیاد مشاورت یا شوریٰ پر ہے۔ گویا اسلامی نظام نہ صرف اہلِ دانش بلکہ عوام الناس بشمول خواتین کو اپنی راے آزادی کے ساتھ دینے کا بنیادی حق فراہم کرتا ہے۔ دورِخلافت راشدہ میں جب حضرت عمرؓ کی شہادت کے بعد خلیفہ کا انتخاب کا مرحلہ درپیش ہوا تو ان کے مقرر کردہ ’الیکشن کمیشن‘ کے ممبران نے مدینہ منورہ کی خواتین سے گھروں پر جاکر ان کی راے دریافت کی اور آخرکار اکثریتی راے کی بنیاد پر نئے خلیفہ کا انتخاب عمل میں آیا۔

اس معاشرے اور ریاست کی بنیاد امانت پر ہے، یعنی ذمہ داریاں ایسے افراد کے حوالے کی جائیں جو امانت اُٹھانے کے مستحق ہوں:

اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓی اَھْلِھَا وَ اِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْا بِالْعَدْلِ(النساء ۴:۵۸) ،مسلمانو! اللہ تمھیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں   اہلِ امانت کے سپرد کرو، اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو۔

اس آیتِ مبارکہ کی روشنی میں تین نکات واضح طور پر اُبھر کر سامنے آتے ہیں۔ اوّلاً کسی منصب کے لیے انتخاب کرتے وقت ایسے فرد کو منتخب کیا جائے جو اپنے کردار اور صلاحیت و تجربے کی بنیاد پر امین شمار کیا جاتا ہو، یعنی اس میں اس منصب کی صلاحیت بھی ہو اور تجربہ بھی رکھتا ہو۔ ایک شخص اگر تمام عمر بندوق، توپ، ٹینک، لڑاکا جہاز چلاتا رہا ہو اور اسے اس کے قد، شکل و صورت یا عسکری کامیابی کی بنا پر کسی ملک کی عدلیہ کا یا پارلیمنٹ کا یا صدارت کا منصب دے دیا جائے تو وہ اپنی صلاحیت اور تجربے کا اس منصب پر فائز ہوکر جو استعمال کرے گا وہ کسی تعارف کا محتاج نہیں ہوگا۔ ایسے ہی اگر ایک یونی ورسٹی کے پروفیسر کو جو جدید و قدیم ادب، فلسفہ یا معاشیات و سیاسیات سے گہری واقفیت رکھتا ہو اور تمام عمر تدریس کے اعلیٰ فرائض ادا کرتا رہا ہو، اس کی اپنے شعبے میں علمی برتری کی بنا پر اسے فوج کا سربراہ بنا دیا جائے تو فوج، جنگی حکمت عملی اور ملک کے تحفظ و امن کا جو حال ہوگا وہ کسی پیشین گوئی کا محتاج نہیں ہوسکتا۔

دوسرا نکتہ جو یہاں سمجھایا گیا ہے وہ یہ کہ اگر بالفرض عوام الناس اندھے بھی ہوجائیں اور وہ خود درخواست کریں کہ ایک فوجی ان کا صدر یا عدلیہ کا سربراہ بن جائے، تو وہ شخص کم از کم خود اندھا نہ بنے اور اس فرمایش کو قبول نہ کرے کیونکہ یہ بھی امانت کے اصول کے منافی ہے۔

تیسری بات یہاں یہ سمجھائی جارہی ہے کہ کسی ذمہ داری کو دینے یا نہ دینے کی بنیاد نہ  خونی رشتہ ہوگا نہ سسرالی بلکہ صرف اور صرف صلاحیت اور تقویٰ ہوگا۔

اسلامی معاشرہ اوریاست کی ایک اور بنیادی خصوصیت اس کا عصبیتوں سے پاک، قانون کی بالادستی اور روح جمہوریت پر عمل کرنا ہے۔ اسلام جس روح جمہوریت کو قائم کرنا چاہتا ہے وہ  نہ لادینی اباحیت پسند جمہوریت ہے نہ آمرانہ جمہوریت بلکہ یہ ہرشہری کو بنیادی انسانی حقوق فراہم کرتی ہے۔ اس میں حاکمیت رب کریم کی اور قوتِ نافذہ اللہ کے اطاعت گزار بندوں کی ہے جو امانت، سچائی، عدل اور انصاف کے اصولوں کو تمام انسانوں کی بھلائی کے لیے اپنی پالیسی کے ستون بناتے ہیں۔ یہ نظام وہ ہے جس کی بابت قرآن کہتا ہے کہ اگر اسے قائم کیا جائے تو زمین اپنی نعمتیں اُگل دیتی ہے اور آسمان اپنی برکتیں نازل کرتا ہے:

وَلَوْ اَنَّ اَھْلَ الْکِتٰبِ اٰمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَکَفَّرْنَا عَنْھُمْ سَیِّاٰتِھِمْ وَ لَاَدْخَلْنٰھُمْ جَنّٰتِ النَّعِیْمِ o وَلَوْ اَنَّھُمْ اَقَامُوا التَّوْرٰۃَ وَ الْاِنْجِیْلَ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَیْھِمْ مِّنْ رَّبِّھِمْ لَاَکَلُوْا مِنْ فَوْقِھِمْ وَمِنْ تَحْتِ اَرْجُلِھِمْ طمِنْھُمْ اُمَّۃٌ مُّقْتَصِدَۃٌ ط وَ کَثِیْرٌ مِّنْھُمْ سَآئَ مَا یَعْمَلُوْنَo (المائدہ ۵: ۶۵-۶۶) اگر (اس سرکشی کے بجاے)یہ اہلِ کتاب ایمان لے آتے اور خداترسی کی رَوش اختیار کرتے تو ہم ان کی بُرائیاں اِن سے دُور کردیتے اور اِن کو نعمت بھری جنتوں میں پہنچاتے۔ کاش انھوں نے تورات اور انجیل اور اُن دوسری کتابوں کو قائم کیا ہوتا جو اِن کے رب کی طرف سے اِن کے پاس بھیجی گئی تھیں۔ ایسا کرتے تو ان کے لیے اُوپر سے رزق برستا اور نیچے سے اُبلتا۔ اگرچہ ان میں کچھ لوگ راست رَو بھی ہیں، لیکن ان کی اکثریت سخت بدعمل ہے۔

اُمت مسلمہ کے نصب العین، یعنی امربالمعروف کے لیے فرد، خاندان، معاشرہ اور ریاست بیک وقت اپنے اپنے فرائض ادا کرتے ہیں۔ یہ کوئی استثنائی عمل نہیں ہے کہ ہر ایک   اپنے دائرے میں کام کر رہا ہو بلکہ یہ ایک متوازی عمل ہے جس میں یہ سب بیک وقت اور باہمی مشاورت و تعاون سے نصب العین کے حصول کے لیے شعوری طور پر ایک ہی سمت میں سفر کرتے ہیں۔ اگر منزل دُور بھی ہو جب بھی اضمحلال، مایوسی اور تھکن کا شکار نہیں ہوتے بلکہ صبروحکمت کے ساتھ اپنے مقصد کے حصول میں سرگرم رہتے ہیں۔ یہ قلت تعداد سے اس لیے پریشان نہیں ہوتے کہ رب کریم نے خود یہ اعلان فرما دیا ہے کہ تم میں اگر ۲۰باہمت، باشعور، مستقیم اور صابر افراد ہوں گے تو ۲۰۰ مخالفین پر غالب آئیںگے۔(الانفال ۸:۶۷)۔ چنانچہ برسہا برس کی محنت کے بعد بھی اگر اقامتِ دین کی جدوجہد کرنے والوں کی تعداد بظاہر کم نظر آتی ہو تو یہ کوئی حیرت کی بات نہیں ہے۔ حق ہمیشہ باطل، طاغوت اور ظلم کی کثرت پر بالآخر غالب آتا ہے، البتہ غالب آنے کے لیے بنیادی شرط صبر، یعنی استقامت، عزم و یقین، منزل اور نصب العین کا مکمل شعور ہے۔ اگر اس میں کوئی کمی ہو تو پھر تعداد کی کثرت بھی مطلوبہ نتائج نہیں پیدا کرسکتی۔ سمندر کا جھاگ کتنا ہی عظیم    نظر آئے کمزور رہتا ہے، اور حق کتنا ہی محدود نظر آئے غالب آکر رہتا ہے۔

حج کی اہمیت اور افادیت کے لیے اس کا ایک رکنِ اسلام ہونا بجاے خود کافی ہے لیکن اگر غور کیا جائے تو اس کا سب سے نمایاں پہلو انبیاکرام علیہم السلام کی دعوت کے مرکزی اور کلیدی پیغام کو انسانوں کے لیے ایک قابلِ عمل عبادت اور مظہر اطاعت بنا دینا ہے۔ قرآنِ کریم نے تمام انبیا کرام ؑ کی دعوت کو محض دو الفاظ میں بیان فرما دیا ہے کہ اللہ کے بندے بن جائو اور ہرباغیانہ سرکشی سے باز آجائو، اَنِ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَ اجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ ج (النحل ۱۶:۳۶)۔ چنانچہ میدانِ دعوت مکہ کی وادیِ غیر ذی زرع ہو یا ماوراالنہر کی عراق و شام کی سرسبز و شاداب سرزمین، ہر نبی برحق نے انسانوں کے خودساختہ معبودوں کو وہ پتھر اور لکڑی سے بنے ہوں یا وہم وگمان کی پیداوار ہوں، وہ مندر اور کلیسا میں ہوں یا نہاں خانۂ دل میں محفل جمائے ہوں، وہ معاشرتی رسوم کے خدا ہوں، یا معاشی استحکام اور سیاسی اقتدار کے حریص بادشاہ ہوں، ان تمام بے اصل سرچشمۂ ہوا و ہوس کو  جہل خرد کی باطل پیداوار قرار دیتے ہوئے انسانیت کو صرف اور صرف ایک رب العالمین، احکم الحاکمین اور خالق کائنات کی بندگی اور اطاعت کی طرف متوجہ کیا۔

حج کا عظیم مقصد زندگی کے ہر عمل کو توحید ِخالص میں رنگ کر ایک کلّی انقلاب کا برپا کردینا ہے تاکہ انسان کے انفرادی معاملات ہوں، عقیدہ و عمل ہو، مرنا اور جینا ہو، ہرممکنہ عمل صرف     اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی رضا کا پابند ہوجائے:

قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ o لَا شَرِیْکَ لَـہٗ ج وَبِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَo (الانعام ۶:۱۶۲-۱۶۳) کہو ، میری نماز، میرے تمام مراسمِ عبودیت، میرا جینا اور میرا مرنا، سب کچھ اللہ    رب العالمین کے لیے ہے جس کا کوئی شریک نہیں۔اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور سب سے پہلے سرِاطاعت جھکانے والا میں ہوں۔

اس توحید ِ خالص کی پکار کو قرآن کریم نداے حج کے زیرعنوان یوں بیان فرماتا ہے:  ’’اور لوگوں کو حج کے لیے اذنِ عام دے دو کہ وہ تمھارے پاس ہر دُور دراز مقام سے پیدل اور اُونٹوں پر سوار آئیں تاکہ وہ فائدے دیکھیں جو یہاں رکھے گئے ہیں‘‘ (الحج ۲۲:۲۶-۲۸)۔ یہ توحید خالص کی دعوت تمام انسانیت کے لیے ہے کیونکہ اسلام تمام انسانیت کے لیے اللہ کی طرف سے آخری اور مکمل دین بنا کر بھیجا گیا ہے:

اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا ط (المائدہ ۵:۳) آج میں نے تمھارے دین کو تمھارے لیے مکمل کردیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کردی ہے اور تمھارے لیے اسلام کو تمھارے دین کی حیثیت سے قبول کرلیا ہے۔

حج زندگی کی بے شمار شاہراہوں کا تزکیہ کرتے ہوئے تمام انسانوں کو صراطِ مستقیم، سواء السبیل، سراجِ منیر اور الہدیٰ کی طرف بلاتا ہے تاکہ انسان خود کو ہرنوعیت کے شرک سے نکال کر ان کلمات کی تکرار کرے جو توحید ِ خالص کے پیغامبر ابوالانبیا کی زبانِ مبارک سے نکلے تھے: اِنَّنِیْ بَرِیْٓئٌ مِّمَّا تُشْرِکُوْنَo (الانعام ۶:۱۹)’’جن کو تم شریک ٹھیراتے ہو، میں ان سب سے براء ت کا اعلان کرتا ہوں‘‘۔ گویا میں نے تمام معاشی، سیاسی، ثقافتی اور معاشرتی خدائوں سے نجات حاصل کرتے ہوئے مقصد ِ حیات کو پالیا ہے۔ اپنی سمت کو درست کرلیا ہے، زاویۂ نظر کی اصلاح کرلی ہے اور یکسو ہوکر صرف اور صرف اللہ کو اپنا حاکم اور مولا تسلیم کرلیا ہے۔ ’’میں نے تو یکسو ہوکر اپنا رُخ اُس ہستی کی  طرف کرلیا جس نے زمین اور آسمانوں کو پیدا کیا ہے اور میں ہرگز شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں‘‘۔(الانعام ۶:۷۹)

اس شعوری فیصلے کا اعلان وہ تلبیہ کے ہر ہر لفظ کے ذریعے سرگوشی میں نہیں بلکہ بلندآواز سے کرتا ہے کہ کائنات کی ہر شے جس تک اس کی آواز پہنچ سکے اس راستی اور شہادتِ حق کی گواہ بن جائے۔ ہاں، ہاں، میں حاضر ہوں۔ مالک تمام عظمت، تقدس، ثنائ، حمد، تعریف صرف اور صرف آپ کے لیے ہے۔ آپ ہی ہر حمدوعظمت کے مستحق ہیں۔ آپ کے سوا کوئی حاکمیت و اقتدار میں ذرہ برابر شریک نہیں ہوسکتا اور نہ کسی تعریف و توصیف کا مستحق ہوسکتا ہے۔ میں نے اپنی مادری زبان، اپنے ملکی لباس کو، اپنے گھر کو، اپنے کاروبار کو، اپنے دوست اور اقربا کو، غرض ہر واسطے کو چھوڑ کر صرف دامنِ توحید میں پناہ لے لی ہے۔ میں آپ کی بندگی میں آکر تمام بندگیوں سے آزاد ہوکر اپنی متاعِ حیات کو آپ کے قدموں میں پیش کرتے ہوئے عہد کرتا ہوں کہ آج سے میرا سر کسی کے سامنے نہیں جھکے گا۔ اس عظمت والے گھر میں کیا جانے والا ایک سجدہ مجھے ان تمام بندگیوں سے نجات دے گا جن میں مَیں آج تک پڑا ہوا تھا۔

یہ توحیدی اجتماع ہر فرد کو آغاز سے تکمیل تک کلمۂ حق بلند کرنے اور بلاخوف و خطر خالقِ حقیقی کی عظمت و جلال کو ہر ایوان میں بلندکرنے ، اور بلاخوف و ہراس وقت کے جباروں کو  للکار کر ان کی آمریت اور اللہ سے بغاوت کرنے کی روش کو رد کرتے ہوئے، زندگی کے تمام معاملات کو اللہ کی بندگی میں لانے اور اپنے قبلے کی درستی کے ساتھ اپنی ترجیحات میں بنیادی تبدیلی کا مطالبہ کرتا ہے۔

کل تک ایک شخص کا گھنٹوں نیند کے مزے لینا اس کی ترجیح تھی تاکہ وہ تروتازہ ہوسکے۔ اب وہ یہی تازگی چند لمحات کے لیے آنکھ بند کر کے حاصل کرلیتا ہے اور وقت کا بڑا حصہ اللہ تعالیٰ کی حمدوعظمت کے بیان میں صرف کرتاہے۔ کل تک اس کی ترجیح اپنی ذات اور اپنے خاندان کے لیے زیادہ سے زیادہ دولت، آسایش کا حصول تھا۔ اب وہ اپنے دینی بھائی کے لیے اپنے حق کو قربان کرنے پر آمادہ ہوجاتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ صبروتحمل کے ساتھ اُس سچے وعدے کے پیش نظر جو  رب کریم نے اپنے بندوں سے کرلیا ہے کہ وہ اپنے بندوں کو فردوس کا وارث بنا دے گا، اس دنیا میں پیش آنے والی ہر آزمایش و امتحان کو خوشی کے ساتھ برداشت کرتا ہے۔ وہ حج کے ظاہری فوائد اخوت، رواداری، باہمی تعارف، تجارتی فروغ، مرکز توحید اور مرکز رسالتؐ سے وابستگی، اتحادِ اُمت، تعاون باہمی، سنت ِ ابراہیمی کے احیا اور ماضی کے تمام گناہوں سے نجات کے ساتھ ایک نئے   عزم و ارادے سے مسلح ہوکر واپس ہوتا ہے۔

اب عصبیت، فرقہ واریت، علاقائیت، قبائلی اور برادری کے فخر اسے اپنی طرف متوجہ نہیں کرتے۔ اس نے اللہ کے رنگ کو اختیار کرلیا ہے۔ تمام لبادوں کو اُتار کر اللہ کی بندگی کی قبا کو پہن لیا ہے۔ اب چاہے وہ دوبارہ اپنے ملک کی زبان میں بات کر رہا ہو لیکن اب سوچ کا انداز، دل کی دھڑکن، ذہن کا رجحان صرف ایک مرکز کی طرف ہے کہ کس طرح اللہ کی زمین میں اللہ کی حاکمیت کو قائم کرسکے، کس طرح ظلم و استحصال کے خدائوں سے نجات حاصل کرکے عدل و رواداری اور  محبت و اخوت کو رواج دے سکے۔ جس اجتماعیت کا تجربہ اسے حج کے دوران ہوا ہے وہ اس کے اعتماد اور اللہ پر توکّل میں اضافہ کرتا ہے کہ وہ ایک ایسی اُمت سے وابستہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے خیرامۃ قرار دے کر تمام اقوامِ عالم کی سربراہی کے فریضے پر فائز کیا ہے۔ اپنے تن من دھن کو صرف اللہ تعالیٰ کی بندگی میں دینے کے عمل کے ساتھ اب اس کا اصل کردار توحید ِ خالص کو اپنے ملک میں، اپنے معاشرے میں، اپنے گھر میں اور خود اپنی شخصیت میں ہرہرسطح پر نافذ کرنا ہے۔

حج اسے عالمی تحریک اسلامی سے وابستہ ہوکر کلمۂ حق کے بلند کرنے اور حاکمیت ِ الٰہیہ کے قیام کی جدوجہد میں شامل ہونے کی ترغیب دیتا ہے۔ حج کا انقلابی عمل معاشرے میں نیکی اور بھلائی کے فروغ اور بدی اور فحش کے خاتمے کے لیے اجتماعی جدوجہدکا مطالبہ کرتا ہے۔ یہ معاشرے کو وہ تازہ خون فراہم کرتا ہے جو معاشرے کی صحت کی ضمانت دیتا ہے۔ ہر سال لاکھوں افرا اس نظامِ تربیت سے گزرتے ہیں۔ یہ ایک عظیم سرمایہ ہے جسے صحیح طور پر استعمال کیا جائے تو دعوت الی اللہ اور حکومت ِ الٰہیہ کے قیام کی منزل جلد قریب آسکتی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہرشہر اور ہرگائوں میں اللہ کے ان بندوں تک پہنچا جائے جو اس عظیم فریضے کی تکمیل کے بعد اپنے گھر واپس لوٹے ہوں اور انھیں حج کے عظیم مقصد کی تکمیل کے لیے منظم ہونے اور اس تربیت میں حاصل کی گئی بھلائی کو اصلاحِ معاشرہ، اصلاحِ گھر اور اصلاحِ اقتدار کے لیے استعمال کرنے کی طرف متوجہ کیا جائے۔

قرآن کریم نہ صرف مسلمانوں بلکہ تمام انسانوں کے لیے دستورِحیات اور اصلاح و تربیت کا ہدایت نامہ (manual) ہے۔ اس کا ایک اعجاز یہ ہے کہ انتہائی بلیغ انداز میں، مختصر ترین کلمات میں اپنی ہدایات کو ایک عام فہم طریقے سے دلوں اور دماغوں میں اُتار دیتا ہے، تاکہ دماغ اور دل جس معاملے میں بھی فیصلہ کرنا چاہتے ہوں تو ان کے فتویٰ کی بنیاد یہ ہدایت، یہ نور اور یہ دستور ہی ہو۔

قیامت تک پیدا ہونے والے تمام انسانوں کی ضرورت کا احاطہ کرتے ہوئے محض چار مختصر جملوں میں یہ کتابِ ہدایت ہمیں جو یاد دہانی کراتی ہے اس کی اعلیٰ ترین مثال سورئہ عصر ہے۔ یہ ان سورتوں میں سے ہے جسے ایک بچے سے لے کر ایک ۹۰سال کے معمر شخص نے بھی حافظے میں محفوظ کر رکھاہے لیکن المیہ یہ ہے ذہن میں محفوظ رکھنے کے باوجود ہم اکثر اس کے معنی اور مفہوم اور اس میں دی گئی ہدایات پر غور نہیں کرسکے۔

وَالْعَصْرِ o اِِنَّ الْاِِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ o اِِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ o ( العصر ۱۰۳:۱-۳) زمانے کی قسم، انسان درحقیقت خسارے میں ہے، سوائے اُن لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک اعمال کرتے رہے، اور ایک دوسرے کو حق کی نصیحت اور صبر کی تلقین کرتے رہے۔

پہلی بات جو سمجھائی جارہی ہے وہ اسلام کی دعوتِ انقلاب پر ایمان ہے۔ توحید جو اسلام کا نقطۂ آغاز بھی ہے اور نقطۂ کمال بھی، مطالبہ یہ ہے کہ ہر وہ فرد جو اپنے آپ کو اسلامی تحریک سے وابستہ خیال کرتا ہے، اپنا جائزہ لے کر دیکھے کہ اس کے فکرو عمل میں توحید کتنی موجود ہے یا اسلام پر ایمان کے دعوے کے باوجود اس نے بے شمار خدائوں کو گوارا کیا ہوا ہے؟ کیا اس کے وقت کا ایک ایک لمحہ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی بندگی میں صرف ہو رہا ہے یا معاشرے میں رائج رسوم و رواج، طورطریقوں اور لادینی تہذیب کی خدمت میں صرف ہو رہا ہے؟ اس کا اپنا گھر کہاں تک توحید کا نمونہ پیش کرتا ہے؟ اگر وہ ایک تاجر ہے تو جو مال وہ فروخت کر رہا ہے وہ اسی معیار کا ہے جس کی قیمت لے رہا ہے یا جلد نفع کے حصول کی خواہش نے اسے معیار پر سمجھوتا کرنے پر آمادہ کردیا ہے؟ کہیں وہ اپنے معاشی معاملات میں خسارے کا حامل انسان تو نہیں بن گیا، جس کا ذکر سورئہ عصر میں کیا گیا ہے؟

حقیقت یہ ہے کہ جو انسان بھی اُن چار اُمور کی پروا نہیں کر رہا وہ خسارے میں ہے۔ یہ چار اُمور ہیں: ایمان، عملِ صالح، تلقینِ حق اور مستقل مزاجی کے ساتھ دعوتِ دین۔تحریکِ اسلامی کی دعوت کا پہلا نکتہ اللہ تعالیٰ پرشعوری طور پر ایمان لانا ہے: اِِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ ثُمَّ لَمْ یَرْتَابُوْا (الحجرات ۴۹:۱۵) ’’مومن تو حقیقت میں وہ ہیں جو اللہ اور اس کے رسولؐ پر ایمان لائے اور پھر شک میں نہ پڑے‘‘۔ اس ایمان لانے کو دوسرے مقام پر یوں کہا گیا کہ ’’جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے اور پھر اس پر استقامت اختیار کرلی‘‘ (حم السجدہ ۳۰:۴۱)۔ ان کی محبت اور وابستگی صرف اور صرف اللہ رب العزت کے ساتھ ہوتی ہے۔ ’’اور جو لوگ ایمان لائے ہیں وہ سب سے بڑھ کر اللہ سے محبت رکھتے ہیں‘‘۔(البقرہ ۲:۱۶۵)

اس تعلق کا مطالبہ ہے کہ وہ جھکیں تو صرف اللہ کے سامنے، توکّل کریں تو صرف اللہ پر اور ان کی کثرت ِ تعداد اور ان کے ہمراہ چلنے والے لاکھوں افراد کا آجانا انھیں اپنی طاقت پر ناز کرنے پر آمادہ نہ کردے۔ وہ افراد کے ہجوم (street power) پر بھروسا کرنے یا اپنی قلت تعداد کے باوجود اپنے رب کی نصرت اور فرشتوں کے ذریعے ان کی حمایت پر زیادہ توکّل رکھتے ہوں۔ اور  اگر اللہ انھیں بڑی تعداد میں رضاکار اور کارکن فراہم کردیتا ہے تو شکر میں اور زیادہ بڑھ جاتے ہیں۔

یہ ایمان اسی وقت پیدا ہوتا ہے جب وہ اللہ کی کتاب سے اپنا تعلق جوڑتے ہیں اور کھڑے اور بیٹھے اور لیٹے اس کی تلاوت، غوروفکر کے ساتھ کرتے ہیں۔ تلاوت کے آداب اور  حق کو ادا کرنے کے ساتھ ساتھ اس کلامِ عزیز کی ایک ایک آیت ٹھیرٹھیر کر نمناک آنکھوں اور خشیتِ قلب کے ساتھ پڑھتے ہیں۔ اگر اس کیفیت میں کمی ہے تو پھر بعد کے مراحل بھی کمزور ہوں گے۔ یہ دعوت کا پہلا زینہ ہے۔ دوسروں کی اصلاح سے قبل اپنے نفس کی تربیت بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔

دعوتِ دین دینے اور خصوصاً ان کے قائدین کو ہر وقت سورئہ صف کی دوسری آیت کو ذہن میں تازہ رکھنا چاہیے۔ فرمایا گیا: ٰٓیاََیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا  تَفْعَلُوْنَ o(الصف ۶۱:۲) ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم کیوں وہ بات کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو‘‘۔قرآن کے نزدیک ایمان ایک قابلِ محسوس حقیقت ہے۔ یہ کسی مخفی روحانی کیفیت کا نام نہیں جس کا اظہار اللہ کی بندگی کی شکل میں نہ ہورہا ہو۔ خصوصاً جو زمانے کا رُخ بدلنے اور باطل نظام کی جگہ حق و صداقت اور عدل و رواداری کے نظام کو قائم کرنے نکلے ہوں، ان کے لیے ایمان کے اس مفہوم کو سمجھنا انتہائی اہم ہے۔ کیونکہ تغیر وتبدیلی کا آغاز اندر سے ہوتا ہے: ’’حقیقت یہ ہے کہ اللہ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے اوصاف (نفس) کو نہیں بدل دیتی‘‘۔(الرعد ۱۳:۱۱)

ایمان اس داخلی تبدیلی کا نام ہے ،جو عمل صالح کی شکل میں اپنا اظہارکرتا ہے۔ اللہ پر ایمان لانے کا پہلا تقاضا نظامِ صلوٰۃ کا قیام ہے، جس کا تذکرہ مسلسل قرآنِ کریم میں آتا ہے:  ’’یہ اللہ کی کتاب ہے، اس میں کوئی شک نہیں، ہدایت ہے ان اہلِ ایمان کے لیے جو غیب پر ایمان لاتے ہیں، نظامِ صلوٰۃ قائم کرتے ہیں اور جو رزق ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں‘‘ (البقرہ ۲:۲-۳)۔گویا ایمان کا فوری تقاضا انفرادی اور اجتماعی طور پر نظامِ صلوٰۃ قائم کرنا ہے، صف بندی کر کے طاغوت، ظلم، جہالت، قتل و غارت کے خلاف جہاد کرنا ہے اور ساتھ ہی اپنے آپ کو مال کی غلامی سے نکال کر اُس مال کو جو اخلاقی ضابطے کے تحت پیدا کیا ہے، اس کے نام پر اسے خوش کرنے کے لیے خرچ کرنا ہے جس نے دیا ہے۔ جس نے ایمان کے ان دو اوّلین مطالبات کو سمجھ لیا اور پا لیا، اس نے ایک بیش بہا دولت حاصل کرلی۔ اسے آخرت میں سفارش کرنے والے دو اعمال مل گئے جو روزِ محشر ربِ کریم سے سفارش کریں گے کہ آپ کے اس بندے نے آپ کی زمین پر نماز کے نظام کو قائم کیا اور آپ کی راہ میں اپنے مال کو دل میں تنگی لائے بغیر خرچ کیا۔

العصر میں جس ایمان اور عملِ صالح کا تذکرہ آیا ہے قرآن کریم کا ہرصفحہ اس کی تفسیر پیش کرتا ہے۔ یہ چار آیات دعوتِ دین کے ہر داعی کو بطور ایک انعام الٰہی نازل فرما کر یہ تاکید بھی کردی کہ اپنی ذات کی اصلاح کے ساتھ حق کی دعوت کو اپنی ذات تک محدود نہ رکھو۔ اسے لے کر  گلی گلی اور کوچے کوچے میں پہنچ جائو۔ حق کی تواصی، خود اپنے آپ کو اور تمام انسانوں کو کرنا ایمان کا تقاضا اور انسانی معاشرے کو تبدیل کرنے اور اس کی اصلاح کرنے کا الہامی طریقہ ہے۔

مکی سورتوں میں ۱۳سال تک مکہ مکرمہ میں ایمان اور عملِ صالح پر اسی لیے زور دیا گیا کہ آگے چل کر جس نظامِ حق کو نافذ کرنا مقصود ہے، وہ اندر کی اصلاح کے بغیر ناممکن ہے۔ یہ امرواضح ہے کہ معاشرے اور نظام کی تبدیلی محض عوام کے ہجوم سے نہیں ہوسکتی۔ سمندر او ردریا میں جب طغیانی آتی ہے تو سطحِ آب جھاگ سے بھر جاتی ہے اور ساتھ ہی خس و خاشاک بھی ہر جانب   پھیل جاتے ہیں لیکن قرآن کریم ظاہری شدت کو کوئی وقعت نہیں دیتا۔ وہ اُس تعداد کو زیادہ قوی قرار دیتا ہے جو بندگیِ رب سے سرشار ہوکر صرف اپنے مالک پر توکّل کرکے راہِ حق میں نکلتی ہے۔

ہاں، کامیابی کی اوّلین شرط ایمان کا دل و نگاہ کی گہرائی میں بس جانا اور عملِ صالح کی شکل میں ظاہر ہونا ہے: ’’کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ بس اتنا کہنے پر چھوڑ دیے جائیں گے کہ ہم ایمان لائے اور ان کو آزمایا نہ جائے گا؟ حالانکہ ہم ان سب لوگوں کی آزمایش کرچکے ہیں جو ان سے پہلے گزرے ہیں۔ اللہ کو ضرور یہ دیکھنا ہے کہ سچے کون ہیں اور جھوٹے کون؟‘‘(العنکبوت ۲۹:۲)

جدوجہد کے دوران کارکن اور قیادت اکثر اس سوال کا سامنا کرتی ہے کہ ہم کو کام کرتے ہوئے اتنے سال ہوگئے، مگر منزل اب بھی قریب نظر نہیں آتی۔ ہم اپنا وقت، اپنی صلاحیت، اپنا مال ہر چیز مقدور بھر اللہ کی راہ میں لگا رہے ہیں، لیکن نتائج وہ نہیں ہیں جو ہونے چاہییں۔ ان سوالات کے اُبھرنے کے ساتھ ہی اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہماری نظر سے اوجھل ہوجاتی ہے کہ کیا واقعی ہمارے وقت کا بڑا حصہ اس دعوت کے لیے استعمال ہو رہا ہے یا اپنی تجارتی، انتظامی اور پیشہ ورانہ مصروفیات کے بعد چھٹی کے دن چند گھنٹوں کے لیے دعوتی کام میں لگانے کو ہم اپنے وقت کی قربانی تصور کرلیتے ہیں۔ کیا ہم نے اپنی قرآن فہمی، سیرت پاکؐ سے قربت و تعلق، علومِ فقہ، حدیث، اصول تاریخ میں اتنا درک حاصل کرلیا ہے کہ ہم دین کی دعوت کے لیے ہر نکتے کو قرآن و حدیث اور فقہ کے اصولوں کو ذہن میں تازہ کرتے ہوئے عوام الناس کے سامنے پیش کرسکیں؟ کیا ہم نے اپنے مال کے حوالے سے وہ اصول اختیار کیا ہے جس میں ایک تہائی اپنے لیے، ایک تہائی اپنی اولاد اور حادثاتی مواقع کے لیے، اور ایک تہائی اللہ کے لیے صرف کیا ہے؟ اگر ایمان کے یہ بنیادی تقاضے ابھی مکمل نہیں ہوسکے ہیں اور ساتھ ہی منزل کے قریب نہ ہونے کا احساس ہو رہا ہے تو کیا ان دونوں میں واقعی کوئی منطقی ربط ہے؟

اگراہلِ ایمان ، دعوتِ دین کی تحریک کے کارکن اور قائدین،ایمان کے بنیادی تقاضوں کو جیساکہ ان کا حق ہے اختیار کرلیں تو پھر قرآن کریم کا وعدہ ہے: ’’جن لوگوں نے کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے اور پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے یقینا ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ نہ ڈرو نہ غم کرو اور خوش ہوجائو اس جنت کی بشارت سے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے۔ ہم اس دنیا کی زندگی میں بھی تمھارے ساتھی ہیں اور آخرت میں بھی۔ وہاں جو کچھ تم چاہو گے تمھیں ملے گا اور ہر چیز جس کی تمنا کرو گے وہ تمھاری ہوگی۔ (حم السجدہ ۴۱:۳۱-۳۲)

تواصی بالحق فرضِ عین ہے، کیونکہ سورۂ عصر کے آغاز ہی میں یہ صراحت کردی گئی کہ خسارے سے بچنے کے لیے اہلِ ایمان کے کرنے کے چار کاموں میں سے ایک یہ ہے۔ لیکن اس تواصی بالحق کے لیے حق کا جاننا اور براہِ راست قرآن و سنت سے جاننے کے ساتھ عملِ صالح کا اختیار کرنا شرط ہے۔ ایمان، عمل صالح، تواصی بالحق اور جادہ صبرواستقامت ان میں گہرا اندرونی رشتہ ہے۔ یہ جڑواں اُمور ہیں انھیں الگ نہیں کیا جاسکتا۔ تواصی بالحق کیا صرف نماز کے لیے ہوگی، صرف زکوٰۃ کے لیے ہوگی، صرف روزے کے لیے ہوگی، صرف حج کی ترغیب کی شکل میں ہوگی یا مکمل دین اور دین کے مکمل نفاذ کے لیے؟ بات واضح ہے قرآن کریم نہ نماز اور زکوٰۃ میں تفریق کرتا ہے اور نہ امربالمعروف اور نہی عن المنکر میں۔

حق کی شہادت،پورے دین کے نظام کے قیام کے بغیر ممکن نہیں۔ اس عمل میں ترجیحات تو ہوسکتی ہیں ، تفریق نہیں ہوسکتی۔ عین ممکن ہے کہ ایک دعوتی مرحلے میں زیادہ ضرورت معاشرتی فلاحی کاموں کی ہو۔ چنانچہ قرآن کریم اہلِ ایمان کے حقوق کے حوالے سے ہدایت کرتا ہے کہ نہ صرف خونی رشتوں کا احترام ہو بلکہ جارالجنب ، یعنی تھوڑی دیر کے لیے ہم نشین یا پڑوسی کے حق کو بھی ادا کیا جائے۔

حق کی دعوت ایک جزوقتی (part-time) کام نہیں ہے کہ جب آدمی کو کرنے کا کوئی کام نہ ہو، فرصت ہو، عمر کے ایسے مرحلے میں آگیا ہو کہ اب وقت اپنی حد کو چھوتا نظر آرہا ہو، تو وہ اللہ کے دین کے کام کے لیے پائوں گردآلود کرنا شروع کر دے۔ یہ فریضہ ہمہ وقتی فریضہ ہے۔ اس میں کوئی رخصت اور کوئی تعطیل نہیں ہے۔ یہ وہ کام ہے جسے انبیاے کرام نے لیلاً ونہارًا کیا اور ایک دو سال یا ۷۰،۸۰سال نہیں کیا، بلکہ ۹۰۰ سال کیا۔ یہ کرنے کے بعد بھی شکوہ نہیں کیا کہ لوگ ہی ایسے ہیں کہ ایک کشتی بھر تعداد کے علاوہ دعوت قبول کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے، بلکہ آخر وقت تک، حتیٰ کہ جب طوفانِ نوحؑ کا آغاز ہوچکا تھا، اس وقت بھی مستقل مزاجی، لگن اور تڑپ کے ساتھ اس کام کو جاری رکھا۔ دعوتِ حق کا کام تعداد کی قلت و کثرت سے بلند کام ہے۔ یہاں ایک فرد کو صحیح انداز سے دعوت پہنچا دینا بھی ایسے ہی نجات کا باعث بن سکتا ہے جیسے ایک پوری قوم کو ہدایت سے آشنا کردینا۔ صبرواستقامت کی کمی کا اظہار اُس پریشانی سے ہوتا ہے جو آہستہ آہستہ بے اعتمادی میں تبدیل ہوجاتی ہے کہ ہم کام کر رہے ہیں پھر نتائج کیوں نہیں نکل رہے۔ کیا کسان فصل اچھی نہ ہونے پر زمین کو طعنہ دیتا ہے یا اپنی سعی اور کوشش کو ذمہ دار ٹھیراتا ہے؟ قرآن کریم نے جو قولِ فصیل دیا ہے وہ حق اور قیامت تک صداقت کا حامل ہے کہ اگر واقعی صبروحکمت کے ساتھ دعوت دی جائے تو نہ صرف کارکن بلکہ قائدین کی جماعت پیدا ہوسکتی ہے: ’’اور جب انھوں نے صبر کیا اور ہماری آیات پر یقین لاتے رہے تو ان کے اندر ہم نے قائدین (ائمہ و پیشوا) پیدا کیے جو ہمارے حکم سے رہنمائی کرتے تھے‘‘۔(السجدہ ۳۲:۲۴)

حق کی نصیحت نہ صرف زبان سے بلکہ اپنے خاموش اور بے لوث طرزِعمل سے کرنا فی الواقع ایک صبرآزما کام ہے۔ عوامی تحریکات میں بظاہر ہزاروں افراد جمع ہوجاتے ہیں اور لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ ان کی دعوت اور شخصیت کا کمال ہے۔ وقت آنے پر حقیقت کچھ اور ہی نکلتی ہے۔ دعوتِ اسلامی کا مزاج عوامی ہنگاموں سے مختلف ہے۔ یہ محض جذباتی نعروں کا مجموعہ نہیں ہے ،بلکہ فکروسوچ کو ہلادینے والی فکر اور انسان کی شخصیت کو سرتاپا تبدیل کر دینے والی تربیت کا نام ہے۔ شخصیت کی تبدیلی کے لیے ایک فرد کے ذہن اور ترجیحات کو نئے سانچے میں ڈھالنا ہوتا ہے۔ یہ اصلاحی عمل غیرمعمولی صبروحکمت کا مطالبہ کرتا ہے۔ اس کی بہترین مثال مکی دور کے وہ ۱۳سال ہیں جو اپنی اثرانگیزی کے لحاظ سے ۱۳قرنوں سے کم نہیں کہے جاسکتے۔ ان ۱۳سالوں میں شخصیت وکردار کے جوہر کو ایسی جلا بخشی گئی کہ خاک کا ہر ذرّہ ایک چمکتا ہوا چاند بن کر توحید کے محور کے گرد گردش میں آگیا۔

یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ اصلاحی تحریکات بیک وقت کئی محاذوں پر کام کرتی ہیں، جب کہ سیاسی تحریکات صرف سیاسی اقتدار کے حصول میں اپنی ساری قوت صرف کردیتی ہیں۔ اصلاحی تحریکات فرد، خاندان اور معاشرے میں اصلاح و تبدیلی کی جدوجہد کے ساتھ اپنے دور کے فکری نظریات اور معتقدات کا تنقیدی جائزہ اور اسلامی نقطۂ نظر سے ان مسائل کا حل پیش کرنے پر بھی مامور ہوتی ہیں۔ اس ہمہ جہت جہاد میں ان کی قوتیں مختلف محاذوں پر تقسیم ہوجاتی ہیں۔ گو ہدف تبدیلیِ نظام ہی رہتا ہے لیکن بیک وقت فکری محاذ پر معاشی، سیاسی، معاشرتی اور ثقافتی مسائل پر توجہ دینے کے نتیجے میں سیاسی تبدیلی کا عمل قدرے طویل ہوجاتا ہے۔ اس لیے ان حالات میں یہ کام قیادت کا ہے کہ وہ معاشرے کے دبائو کو سمجھتے ہوئے زمینی حقائق کے پیش نظر کامیابی کی رفتار کا تعین کرتی رہے۔

قرآن کریم نے اس نوعیت کی صورتِ حال کا تذکرہ حضرت موسٰیؑ اور حضرت عیسٰی ؑ کے تناظر میں بار بار کیا ہے کہ مَتٰی نَصْرُ اللّٰہِ  ’’آخر اللہ کی مدد کب آئے گی‘‘۔ جواب ظاہر ہے جو لوگ اپنے رب پر مکمل ایمان کے ساتھ اس کے دین کی سربلندی کے لیے، اس کے بتائے ہوئے طریقے سے ہلکے اور بھاری نکل کھڑے ہوتے ہیں، ان کی امداد کے لیے فرشتوں کے پَرے کے پَرے اُترتے ہیں اور دشمن کے جوڑ جوڑ پر چوٹ لگا کر اسے پسپا کردیتے ہیں۔ ہاں،یہاں پھر  شرط اوّل اللہ پر مکمل ایمان اور صبرواستقامت کا رویہ ہے۔

کامیابی کی کنجی احتساب کے عمل میں ہے کہ ہرہرفرد اپنا احتساب کر کے دیکھے کہ وہ کس حدتک ان مطالبات پر پورا اُترتا ہے جو تحریک اپنے کارکنوں سے کرتی ہے۔ وہ منصبی ذمہ داریوں کی ادایگی اور طلب کیے جانے پر بروقت حاضر ہو یا مالی اعانت یا نمازوں اور دیگر عبادات کا اہتمام، قرآن کریم کی تلاوت و فہم ہو یا اللہ کے بندوں کی خدمت کے لیے گائوں، گلی کوچے میں جاکر ان کی امداد کرنا یا اپنے گھر میں اہلِ خانہ او ر رشتہ داروں کو دعوتِ حق پہنچانا، احتساب کا عمل ہی ہمیں صحیح جواب فراہم کرسکتا ہے کہ کمی کہاں پائی جاتی ہے۔

العصر کا پیغام بہت آسان ہے ۔ اپنی سیرت و کردار کو مثالی داعی کی شکل دی جائے تاکہ ہمارا ہرعمل دعوت کی پکار بن جائے اور ربِ کریم کے ہاں مقبول ہوجائے۔ تبدیلیِ زمامِ اقتدار کو اپنی تمام اہمیت کے باوجود انتہائی منزل و مقصد نہیں کہا جاسکتا۔ انتہائی مقصد تو صرف اللہ کی رضا کا حصول ہے جس کے لیے معاشرے اور نظام کو تبدیل کرنے کی جدوجہد کی جاتی ہے۔