مشرق وسطیٰ میں ۵۰ اور ۶۰ کے عشرے کے بعد یکایک جس ارتعاش، حرکت اور انقلاب کا ظہور ہوا ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اُمت مسلمہ کی مٹی نم بھی ہے اور زرخیز بھی۔ نگاہ ظاہربین چونکہ سطح پر جو کچھ نظر آئے اس کو دیکھنے کی عادی ہوتی ہے، اس لیے وہ پُرسکون لہروں میں چھپے ہوئے بہت سے طوفانوں کو بھانپنے میں ناکام رہتی ہے۔ بعض اوقات مسائل اور مصائب یکے بعددیگرے ایسی رفتار سے آتے ہیں کہ انسان انھی میں اُلجھ کر رہ جاتا ہے، اور ان سب کے مجموعی عمل سے، جو ان مسائل و مصائب کی انفرادی اثرانگیزی سے کئی سو گنا بلکہ ہزار گنا زیادہ ہوتا ہے، بالکل لاعلم رہتا ہے۔ صدیوں سے ایک مثل سنتے آرہے ہیں لیکن عقل ایسی کوتاہ نظر ہے کہ اس پر یقین کرنے پر تیار نہیں ہوتی بلکہ اسے مذاق سمجھتی ہے کہ اُونٹ جیسی قوی ہیکل مخلوق جس کا کوہان ۴۵ فی صد کا زاویہ بناتا ہے اس پر محض ایک تنکے کا رکھنا اس کی کمر کو کیسے توڑ سکتا ہے۔ حالیہ انقلابات کی بارات نے اس مقولے کو ۱۰۰ فی صد سے زیادہ درست ثابت کر دیا ہے کہ ہر زوال کی ایک حد ہے۔ جب ذلت، غربت،مصیبت حد سے گزرتی ہے تو پھر ایک تنکا بھی حالات میں مکمل تبدیلی کا باعث بن جاتا ہے۔
ایک تعلیم یافتہ مگر مفلوک الحال نوجوان بوعزیزی کا تیونس میں اپنی حمیت اور غیرت کے مجروح ہونے اور معاشی طور پر بدحالی کی انتہا کو پہنچنے کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ ایک طرف ایک طاغوتی قوت، بادشاہت وہ جسے فرانس و امریکا اور اسرائیل تینوں کی مکمل حمایت حاصل ہے، اور دوسری جانب ایک معاشی طور پر مفلوک الحال ٹھیلہ لگانے والا، جسے انجینیرنگ کی ڈگری کے باوجود ملازمت نہ ملی، اور جسے اپنے ہاتھ کی کمائی کی سنت پر عمل کرنے کی خواہش میں ایک خاتون پولیس افسر کے ہاتھوں اظہارِ حق کرنے پر برسرِعام ذلیل ہونا پڑا۔ اس ایک واقعے نے وہی کام کیا جو اُونٹ کی پیٹھ پر آخری تنکا کیا کرتا ہے۔ ایسے اُونٹ نہ صرف مشرق وسطیٰ بلکہ جنوب ایشیا اور افریقہ میں بھی کثرت سے پائے جاتے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ ان کی پیٹھ پر آخری تنکا کون اور کب رکھتا ہے؟
تیونس اور مصر کے انقلابی عمل نے کئی پڑوسی ممالک کے ایوان ہاے اقتدار میں بھونچال اور زلزلے کی کیفیت پیدا کر دی ہے۔ اس قطار میں لگے ہوئے منتظر ممالک میں سے اول لیبیا ہے جو انفرادی آمریت کے طاغوتی نظام کا پہلا چلّہ پورا کرچکا ہے اور اپنے ملک کے عوام پر تعذیب اور بندش و ابتلا میں کسی بدترین جابرانہ نظام سے کم نہیں ہے۔ بن غازی میںتو عوام نے اپنے اقتدار کا باقاعدہ اعلان کر دیا ہے۔ یہ لیبیا کا دوسرا بڑا شہر ہے۔ دیگر مقامات پر بھی انقلابی لہریں واضح نظر آرہی ہیں۔ ایسے ہی یمن تا بحرین اور الجزائر میں بھی انقلابی فضا عروج پر پہنچ رہی ہے۔ اس عالم گیر بیداری اور تبدیلی کی جدوجہد کو قوت و توانائی کہاں سے ملی؟ وہ کون سے عوامل ہیں جو نہ صرف تیونس اور مصر بلکہ پاکستان اور دیگر مسلم ممالک میں کارفرما ہوسکتے ہیں، اور بالخصوص ان حالات میں تحریکاتِ اسلامی کو کن پہلوئوں پر خاص توجہ کرنے کی ضرورت ہے؟ یہ اور اس سے متعلقہ مباحث ہر تحریکی کارکن کے ذہن کو پریشان کرتے ہیں اور ضرورت ہے کہ ان پر غیر جانب داری کے ساتھ غور کیا جائے۔
مندرجہ بالا معروضات اسی جانب اشارہ کرتی ہیں اور تیونس اور مصر کے انقلاب کے عمومی تجزیے کی روشنی میں ان ممکنہ زاویوں کی طرف متوجہ کرتی ہیں جن پر تحریکاتِ اسلامی کو چند لمحات کے لیے ٹھیر کر غور کرنا چاہیے۔ مغربی صحافت ہو یا ملکی وسائل و اخبارات اور برقی ابلاغ عامہ، گذشتہ دوہفتے سے ہر تجزیہ نگار مسلم ممالک کے سیاسی موسم پر اپنے نتائجِ فکر اور پیشین گوئیاں پیش کررہا ہے۔ ہماری کوشش ہوگی کہ تفصیلات میں جائے بغیر جو سبق ان حالات سے اخذ کیا جاسکتا ہے اس سے بات کا آغاز کیا جائے اور اس کی روشنی میں آیندہ کی شاہراہوں کی طرف اشارہ کیا جائے۔
تیونس اور مصر دونوں ممالک کو افریقہ اور مشرق وسطیٰ میں امریکا کا حلیف نہیں بلکہ امریکی سامراجیت اور یورپی تہذیب و فکر کا نمایندہ کہا جاسکتا ہے۔ حسنی مبارک کے دورِ آمریت میں امریکا نوازی اور مغربی لادینی فکر کا فروغ اپنے عروج پر رہا۔ اسی طرح تیونس میں یورپی کلچر اور اقدار کی اشاعت میں شاہی خاندان نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ دونوں ممالک نے مغرب کی نام نہاد ’دوستی‘ کو اپنی جان سے زیادہ عزیز سمجھا اور مغرب کو خوش کرنے کے لیے اسلامی قوتوں کو دبانے میں پیش پیش رہے۔ لیکن حالیہ انقلاب نے یہ بات ثابت کر دی کہ ع جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے۔ چنانچہ امریکی صدر کے بے ساختہ تاثرات حسنی مبارک کے نقشِ قدم پر چلنے والے آمروں کے لیے ایک کھلے پیغام کی حیثیت رکھتے ہیں کہ امریکا صرف اپنے مفاد کا دوست ہوسکتا ہے، کسی اور کا نہیں۔ اس لیے امریکا کی حمایت پر ناز اور فخر کرنا اور امریکا کے دورے کر کے یہ سمجھ لینا کہ چونکہ امریکی دربار میں رسائی حاصل ہے اس لیے امریکا ہمیشہ ایسے آمروں کی پشت پناہی کرتا رہے گا، ایک سراب اور دھوکے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔ اس انقلاب نے ایک جانب تو یہ ثابت کیا کہ جو شاہ کے مصاحب بن کر اِتراتے پھرتے تھے ان کی کیا قدروقیمت اور آبرو ہے، وہیں اس انقلاب نے چند دیگر حقائق بھی بے نقاب کیے ہیں۔
پہلی چیز جو واضح طور پر سامنے آئی ہے وہ عوامی طاقت کا مؤثر اور فیصلہ کن ہونا ہے۔ ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ یہ عوامی طاقت نظام میں مطلوبہ تبدیلی کے لیے کہاں تک کامیاب ہوتی ہے لیکن خود فرد یا آمر کا تبدیل ہونا اس قوت کے مؤثر ہونے کی علامت ہے۔ یہ عجیب صورت حال ہے، خصوصاً تحریکاتِ اسلامی کے لیے غور کرنے کا مقام ہے کہ جو عوام مصر اور تیونس دونوں ممالک میں آمریت کے خلاف صف آرا ہوئے ان کا تعلق کسی حزب اختلاف یا کسی سیاسی جماعت کے ساتھ نہیں تھا۔ گویا سیاسی جماعتوں کی فتح یا شکست کا اس انقلاب کے واقع ہونے سے کوئی منطقی تعلق نہیں ہے۔ پھر یہ بات بھی اُبھر کر سامنے آئی ہے کہ اسے کوئی نظریاتی انقلاب بھی نہیں کہا جاسکتا۔ یہاں معاملہ لادینیت اور دینی قوتوں کے درمیان کش مکش اور آخرکار ایک کا دوسرے پر غالب آنے کا معاملہ نہیں ہے، بلکہ وہ لوگ بھی جو خود کو فخریہ سیکولر کہتے ہیں، اور وہ بھی جو اپنی دین داری پر ناز کرتے ہیں، اور وہ بھی جو ان دونوں میں شامل نہ ہوں لیکن ملکی حالات پر معترض ہوں، ان سب نے مل کر اس انقلاب میں حصہ لیا اور سیاسی کارکنوں اور جماعتوں کو چند لمحات کے لیے حیرت میں ڈال دیا۔
اس انقلاب کا ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ یہ نوجوانوں کا انقلاب ہے۔ اس میں اکثریت ان نوجوانوں کی ہے جو ۲۶سال سے ۴۰ سال کی عمر کے دائرے میں ہیں۔ ہرشعبۂ حیات کے افراد اس تحریک کا حصہ رہے لیکن عمومی طور پر یہ نوجوانوں کا انقلاب ہے۔ یہ ان کا خون ہے جو رنگ لایا ہے۔ یہ ان کی جرأت اور بے باکی ہے جس نے یہ انقلاب برپا کیا ہے۔ آمریت اور استبداد کا ہوّا جو کئی قرنوں سے لوگوں کے ذہنوں پر سوار تھا، اس انقلاب نے تیونس اور مصر کے عوام کو اس ہوّے سے آزاد کر دیا ہے۔ اب وہ سیاہ و سفید کے فرق کو نہ صرف جان گئے ہیں بلکہ ان کی زبانوں نے بے باکی کے ساتھ حق کا اظہار کرنے میں کوئی کسر نہیں اُٹھا رکھی ہے۔
اس انقلاب کا ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ اس میں کسی بیرونی طاقت کا ہاتھ نہیں ہے بلکہ یہ مکمل طور پر مقامی انقلاب ہے۔ غیرملکی میڈیا ہو یا خفیہ ادارے، اب تک کی معلومات کی روشنی میں یہ ان سب کے اندازوں کے برخلاف ہوا ہے، اور اس بات کی دلیل ہے کہ اگر عوام الناس کے مسائل کا ادراک اور فہم رکھتے ہوئے کوئی تحریک چلائی جائے تووہ جنگل کی آگ کی طرح پھیل سکتی ہے۔
اس انقلاب کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ یہ نئی نسل کی جانب سے امریکا پر عدم اعتماد کے ’اجماع‘ کا اظہار ہے۔ جس آمریت اور بادشاہت کو رد کرنے کے لیے نوجوانوں نے یہ اقدام کیا ہے، وہ اتنی ہی شدت کے ساتھ امریکا کی سیاست کو رد کرنے کا اعلان بھی ہے۔ یہ انقلاب ہمیں اس جانب بھی متوجہ کرتا ہے کہ ذاتی مفاد کی سیاست، چند خاندانوں یا ایک خاندان کی ریاست پر اجارہ داری کا دور اَب رخصت ہورہا ہے۔ جب نوجوانوں میں عقابی روح بیدار ہوجاتی ہے تو ایوانِ اقتدار کو اپنی جاگیر سمجھنے والوں کا وقتِ آخر آن پہنچتا ہے۔ یہ انقلاب شخصی اور فوجی آمریت دونوں کے خلاف عدمِ اعتماد کے ووٹ کی حیثیت رکھتا ہے۔
اس انقلاب نے اس بات کو بھی پایۂ ثبوت تک پہنچا دیا ہے کہ اقتدار کی گرتی ہوئی دیوار کو اُس کے نام نہاد حمایتی اور پاسبان بھی سہارا دینے سے گریز کرتے ہیں۔ دوسری جانب آمروں اور بادشاہوں کے اس خیال کی بھی تردید کردی ہے کہ عوام نابالغ ہیں، ناسمجھ ہیں، انھیں چند انعامات کے کھلونے دے کر خاموش کیا جاسکتا ہے، جیساکہ بعض مسلم ممالک کے فرماں روائوں نے اپنی ’رعایا‘ کے لیے چند ہزار دینار تحائف دینے کا اعلان کیا ہے تاکہ عوام ان کے ممنون احسان ہوکر مظاہروں اور مطالبات سے باز آجائیں۔
حدیث شریف میں ’رعیت‘ کے حوالے سے جو ذمہ داری مسئول پر ڈالی گئی ہے وہ اچانک ان آمروں کو یاد آگئی ہے۔ بعض علما قرآن کریم کی اولی الامر سے متعلق آیت مبارکہ کے صرف ابتدائی حصے کی طرف عوام الناس کو متوجہ کر رہے ہیں کہ اللہ، اس کے رسولؐ اور اولی الامر کی اطاعت اختیار کی جائے۔ آیت مبارکہ کا بقیہ حصہ شاید ابھی تک نظروں سے اوجھل ہے کہ جب اولی الامر سے اختلاف اور نزاع یا تنازع ہوجائے تو پھر اطاعت صرف اللہ کی ہے، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے، اور اولی الامر کی حیثیت ایک عام شخص کی راے سے زائد نہیں، نہ ایسی حالت میں اطاعت کی فرضیت باقی رہتی ہے۔
اس انقلاب کی لہر سے تاریخ کے جس نئے دور کا آغاز ہورہا ہے اس میں بنیادی مسئلہ نظریاتی تقسیم کا نہیں ہے بلکہ اللہ کے بندوں کے حقوق کا ہے۔ آج ایک سیکولر شخص ہو یا دینی جماعت سے وابستہ، کسان ہو یا ڈاکٹر، مزدور ہو یا طالب علم، وہ ان حقوق کے لیے اُٹھ کھڑا ہوا ہے جو کل تک چند مخصوص طبقات تک محدود تھے۔ وہ تعلیم ہو، روزگار ہو، مہنگائی ہو، ذاتی تحفظ ہو، صحت ہو، یا اظہار راے کا حق، ان تمام حقوق کے حصول کے لیے ہر طبقۂ خیال کے افراد نے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر تَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَ التَّقْوٰی پر عمل کرتے ہوئے آمرانہ اور شاہانہ نظام کے علَم برداروں کو للکارا ہے۔ یہ عوامی قیادت کسی صلاح الدین کا انتظار کیے بغیر آگے بڑھی ہے اور اس کی متحدہ قوت نے طاغوت اور ظلم کے نمایندوں کو دُم دبا کر بھاگنے پر مجبور کر دیا ہے۔
ہمارے خیال میں یہ جمہوری اقدار کی فتح اور مغربی سامراجی سرمایہ دارانہ جمہوریت کی شکست کا اعلان ہے۔ روشنی کی اس کرن سے اُس صبحِ اُمید کے روشن ہونے کا امکان بہت قوی ہوگیا ہے جو اسلام کے دیے ہوئے عادلانہ نظام کو مشاورت پر مبنی سیاسی اصولوں اور عوام الناس کے مصالح پر مبنی حکمت عملی کی روشنی میں نافذ کرسکے۔ لیکن یہ سمجھنا بھول پن ہوگا کہ مغربی سامراجیت اتنی آسانی سے اپنی شکست مان لے گی۔ آخر مصر میں وقتی قیادت جن لوگوں کے ہاتھوں میں ہے وہ کل تک حسنی مبارک کے دست راست تھے اور محض ایک رات کے گزر جانے سے ان کی فکر، ان کی شخصیت،ان کی ترجیحات اور ان کا نقطۂ نظر انقلابی طور پر تبدیل نہیں ہوسکتا۔ گو، مصر کی حد تک فوجی قیادت نے جو کمیٹی دستوری سفارشات تیار کرنے کے لیے بنائی ہے اس میں اخوان المسلمون کے ایک نمایندے اور ایک عیسائی لیکن معروف جج کو بھی شامل کیا گیا ہے، لیکن یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ آیا یہ محض اپنے چہروں کو چھپانے کے لیے انھیں استعمال کرنا ہے یا خلوصِ نیت کے ساتھ سفارشات میں اخوان اور عیسائی آبادی کے خیالات کو اہمیت دینے کے لیے ایسا کیا گیا ہے۔
ہر آمرانہ نظام کے بعد آنے والے جانشین ہمیشہ جمہوریت کے علَم ہی کا سہارا لیتے ہیں اور بہت جلد سابقہ آمریت سے زیادہ ظالمانہ نظام کے کارندے بن جاتے ہیں۔ گو، قرائن بتاتے ہیں کہ موجودہ حالات میں ایسا کرنا آسان نہ ہوگا اور سامی عنان جو امریکی تربیت یافتہ اور امریکا کے اعتماد کے فوجی سربراہ ہیں، باوجود اپنی امریکا نوازی کے ماحول اور فضا کے پیش نظر،ایسی اصلاحات اور انتخابات کروانے پر آمادہ ہوجائیں گے جن میں عوامی خواہشات کی جھلک ہو۔
مغربی ذرائع ابلاغ بین السطور اور کھلے الفاظ میں جس بات کو بار بار دھرا رہے ہیں وہ مختصر طور پر یہ ہے کہ اب مصراور تیونس کے عوام کے سامنے جو انتخاب ہے، وہ بہت سخت ہے۔ ایک طرف گڑھا ہے تو دوسری طرف کھائی، یعنی ایک جانب سابقہ حکومت کے سیاہ اعمال ہیں تو دوسری جانب ’اسلامیان‘ جو فطرتاً ’انتہاپسند‘، ’شریعت پرست‘، ’مغرب دشمن‘ اور ’دہشت گردی‘ کا پس منظر لیے ہوئے ہیں۔ ان دو میں انتخاب آسان نہیں ہے۔ یہ سب کچھ کہنے کے بعد بڑے سلیقے سے یہ بات کہی جاتی ہے کہ اصل علاج تو ’مغربی لادینی جمہوریت‘ ہی ہے لیکن بااکراہ اگر کچھ اور نہ ہوسکے تو پھر ’اسلامیان‘ کو مشروط طور پر موقع دیا جاسکتا ہے مگر یہ خطرات اور خدشات سے بھرا ہوا راستہ ہوگا۔ اس لیے بہت غوروفکر کی ضرورت ہے۔
تیونس اور مصر کے انقلاب کی ایک خصوصیت اس کا معلوماتی انقلابی دور میں اتصالاتی ذرائع سے عوام کو آگاہ اور منظم کرنے کا عمل ہے۔ اس سے قبل معلومات کی ترسیل ایک بہت مشکل کام تھا۔ کبھی روٹیوں کے اندر پیغامات کو چھپا کر، کبھی ریشمی رومال کے ذریعے، اور اُس سے پہلے تربیت یافتہ کبوتروں کے ذریعے پیغامات بھیجے جاتے تھے۔ لیکن حالیہ انقلاب میں انٹرنیٹ اور سیل فون کے ذریعے لاکھوں افراد تک اپنی بات پہنچاکر انھیں متحرک کرنے اور منظم کرنے کا تجربہ کیا گیا۔ ایران کے انقلاب میں جو کام کیسٹ کے ذریعے مساجد میں امام خمینی کی تقاریر و پیغامات کو سناکر کیا گیا تھا، آج جدید آلات رسل و رسائل کا صحیح استعمال کرتے ہوئے وہی مقصد اس کم خرچ مگر مبنی برعقل طریقے سے حاصل کرلیا گیا۔ تیونس کے قومی پھول یاسمین کی مناسبت سے اسے ’انقلابِ یاسمین ‘ کا نام دیا گیا۔ گو، شاید زیادہ صحیح نام ’اتصالاتی انقلاب‘ ہوگا۔
یہ واقعہ ہمیں یہ بات باور کرانے کے لیے کافی ہے کہ وہ آلات جنھیں ہمارے ملک کے نوجوان اپنے دوستوں کو لطائف، فلمی گانے اور ملاقات کے لیے اطلاع کے لیے استعمال کرتے ہیں، اسی چھوٹے سے موبائل فون کے sms کے ذریعے کسی ملک کی قسمت بدلی جاسکتی ہے۔ شرط صرف یہ ہے کہ نوجوان نسل کو مسائل کی سنگینی اور اہمیت کا شعور ہو، اس آگہی کو دوسروں تک منتقل کرنے کی خواہش اور تڑپ ہو، اور سب سے بڑھ کر مقصد اور منزل نگاہوں کے سامنے واضح ہو۔
جدید ٹکنالوجی نے جہاں نوجوانوں کو ایسے بہت سے عبث کاموںمیں مشغول کر دیا ہے جن سے نہ ان کی تخلیقی صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے، نہ ملکی معاشرے میں کوئی تبدیلی، وہیں اس جدید ٹکنالوجی کا مثبت اور مفید استعمال کرکے ایسے بہت سے کام جو بظاہر مشکل اور عظیم مالی وسائل کے محتاج سمجھے جاتے ہیں، قابلِ برداشت مالی وسائل میں احسن طور پر سرانجام دیے جاسکتے ہیں۔
تحریکاتِ اسلامی پر عموماً یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ وہ جس دستوری انقلاب کی دعوت دیتی ہیں وہ محض ایک یوٹوپیا (خیالی تصور) ہے اور انقلاب صرف خونیں ہی ہوسکتا ہے۔ اس لیے جب تک ریاست کو قوت کے استعمال اور زورِ بازو سے حاصل نہیں کیا جائے گا اللہ کی زمین پر اللہ کی خلافت کا قیام ایک واہمہ ہے۔ موجودہ صورت حال اس کے برعکس یہ ثابت کرتی ہے کہ تیونس اور مصر میں ریاست کو عوام کے سامنے ہتھیار ڈالنے پڑے اور فوج بھی ان حالات میں آمریت سے کنارہ کش ہونے پر مجبور ہوئی۔
لیبیا میں آج جو کچھ ہو رہا ہے وہ ایک الگ تفصیلی تجزیے کا محتاج ہے۔ ہرملک کے حالات اور واقعات دوسرے ملک جیسے ہونا ضروری نہیں ہے، نہ ہر آمریت دوسری آمریت کی مماثل کہی جاسکتی ہے۔ اس لیے ہم اپنی گفتگو کو تیونس اور مصر کے تجزیے تک ہی محدود رکھنا چاہیں گے۔
دونوں ممالک کے واقعات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ سول اور فوجی آمریت ملکی معیشت، معاشرت، ثقافت، قانون اور تعلیم، غرض کسی بھی شعبۂ حیات میں اصل مسائل کا حل کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہی ہے۔ یہی شکل پاکستان میں آج پائی جاتی ہے اور موجودہ حکومت اپنے ’جمہوری‘ ہونے کے دعووں کے باوجود ایک ’سول آمریت‘ کا بہترین نقشہ پیش کررہی ہے۔
تحریکات اسلامی کے لیے ان حالات میں کئی اہم پہلو غوروفکر کے متقاضی ہیں۔ ایک چیز جو فوری توجہ چاہتی ہے اس کا تعلق موجودہ انقلابات کا آبادی (demography) کے لحاظ سے جائزہ ہے۔ یوں تو نوجوان ہر تحریک میں بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔ وہ معوذؓ اور معاذؓہوں، اسامہ بن زیدؓ ہوں، عبداللہ ابن مسعودؓ ہوں یا ابوہریرہؓ___ یا آج کے دور کے نوجوان، لیکن تحریک کے لیے قابلِ غور پہلو یہ ہے کہ اس کی افرادی قوت میں عمروں کا تناسب کیاہے۔ جن افراد کو دعوت دی گئی ہے ان میں سے کس عمر کے افراد نے جلد دعوت پر لبیک کہا؟ خود دعوت دینے والے افراد کا کس عمر سے تعلق ہے؟ کیا اُس فطری قوت کو، اُس جذبے کو، خطرات مول لینے کی عادت کو، چیلنج کا مقابلہ کرنے میں مسابقت کرنے کی تڑپ کو تحریک نے تجزیاتی نگاہ سے دیکھا ہے اور اس کی مناسبت سے اپنی حکمت عملی پر نظرثانی کی ہے؟
نوجوانوں کی نفسیات، دیگر افراد سے مختلف ہونا ایک فطری امر ہے۔ ایسے ہی عمر کے ڈھلنے کے ساتھ غیرمحسوس طور پر افراد کی کارکردگی، ردعمل، حالات کا تجزیہ کرنے اور حالات کو بدلنے کے لیے حکمت عملی کے حوالے سے طرزِعمل میں تبدیلی بھی کوئی غیرفطری بات نہیں۔ تحریکاتِ اسلامی کو خصوصاً حالیہ انقلابات کے demographic پہلو پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ان کی دعوت کا ہدف کس عمر کے طبقات ہیں، ان کے کارکنوں میں عمر کا تناسب کیا ہے، نیز خود ملک گیر پیمانے پر عمر کے لحاظ سے کس قسم کی سرگرمی کی ضرورت ہے۔ دو مختلف خطوں میں اُبھرنے والی تحریکات کا اگر صرف اس پہلو سے جائزہ لیا جائے، جس کا نہ یہ موقع ہے، تو بہت دل چسپ نتائج تک پہنچا جاسکتا ہے۔
اس وقت مسلم دنیا میں عمر کے لحاظ سے ایسے افراد کا دور نظر آتا ہے جو توانائی، حرکت اور مسلسل عمل کو پسند کرنے والے کہے جاسکتے ہیں۔ انھیں سنجیدہ سیمی نار یا نظریاتی مسائل پر مطالعے کے حلقے میں بٹھا کر چند لمحات کے لیے تو ان کی توجہ حاصل کی جاسکتی ہے لیکن پھر ان کا دل اُچاٹ ہوجانا، ان کی عمر کا تقاضا ہے۔ ایسے افراد کے لیے بھرپور سرگرمیوں کے پروگرام کی ضرورت ہے۔ یہ کام ہر تین ماہ بعد ایک ریلی، مظاہرے یا دھرنے سے نہیں ہوسکتا۔ ایک اندازے کے مطابق مراکش میں ۲۵سال یا اس سے کم عمر کے افراد کا تناسب ۴۷ فی صد، ماریتانیا میں ۵۹ فی صد، الجزائر میں ۴۷فی صد، تیونس میں ۴۲فی صد، لیبیا میں ۴۷فی صد، مصر میں ۵۲فی صد، عراق میں ۶۰فی صد، ایران میں ۴۵فی صد، یمن میں ۶۵فی صد اور کویت میں ۳۷فی صد، جب کہ متحدہ عرب امارات میں ۳۱فی صد ہے۔ گویا اُمت مسلمہ ایک جوان اُمت ہے۔ اس کے حوصلے بھی جوان ہونے چاہییں۔ اس کی منزلیں بلند اور اعلیٰ ہونی چاہییں۔ اس کی قیادت بھی اس عمر کے دائرے میں ہونی چاہیے۔
دوسرا اہم پہلو جس پر تحریکاتِ اسلامی کو غور کرنے کی ضروت ہے وہ جدید ذرائع ابلاغ، انٹرنیٹ، یوٹیوب اور blogs کا استعمال ہے۔ آج کا نوجوان اپنے وقت کا بڑا حصہ یہ جاننے کے لیے کہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے، اس کے ٹرم پیپر کے لیے تازہ ترین تحقیق کس رسالے یا کتاب میں پائی جاتی ہے، کون سی فلم یا گانا مقبول ہے، لباس کے نئے ڈیزائن کیا ہیں، غرض علمی مسائل ہوں یا دینی معلومات یا تحقیقی موضوعات وہ ہرلمحے انٹرنیٹ کی تیزرفتاری اور سہولت کی بنا پر اس طرف رجوع کرتا ہے۔ کیا تحریکاتِ اسلامی نے اپنی دعوت، اپنے پیغام، اپنے طریق کار اور خصوصاً طریق تبدیلیِ قیادت کے حوالے سے اس جدید سہولت کے استعمال پر غور کیا ہے، اور کیا غور کو عملی اقدامات میں تبدیل کیا ہے؟ اگر ایسا نہیں ہے تو تحریکاتِ اسلامی ابھی ماضی میں بس رہی ہیں۔ زمانہ قیامت کی چال چل گیا اور انھیں ابھی تک اس کی خبر بھی نہیں۔
تیسرا پہلو تحریکات اسلامی کے غور کرنے کا یہ ہے کہ کیا ان کی حکمت عملی میں اسلامی ریاست، اسلامی معیشت اور اسلامی معاشرت کے قیام کا مطالبہ عوام اور نوجوانوں تک ان کے پیغام کی صحیح ترجمانی کرتا ہے یا انھیں اپنے دائرے کو وسیع کرنے کے لیے، بغیر سیکولر ہوئے ان عمومی پہلوئوں کو دعوت کا مرکز بنانا ہوگا جو شریعت کے مقاصد ہیں اور جن کے قیام کے لیے تمام انبیاے کرام ؑنے جدوجہد کی___ معاشرے میں عدل کا قیام، محروم طبقات کو ان کے جائز حقوق دلانا، عورتوں پر ہونے والے روایتی معاشرے کے مظالم کو بند کروانا، مفلسی کو دُور کرنا، اظہارراے اور اظہارِ اجتماع کے حق کے حصول پر عوام میں اور نوجوانوں میں غیرشدت پسند ذرائع سے سیاسی اور معاشی انقلاب برپا کرنا۔ حالیہ انقلابات میں جن حضرات نے حصہ لیا، ان میں ’اسلامیان‘ بھی شامل ہیں اور بظاہر سیکولر افراد بھی۔ وجہ ظاہر ہے۔ ہدف نظامِ عدل کا قیام، استحصال، آمریت اور غیرجمہوری نظام کے خاتمے کی جدوجہد تھی جس میں مسلم، عیسائی، لادینی، ہرقسم کے افراد نے شمولیت کی۔ کیا تحریکاتِ اسلامی اس صورت حال سے سبق لیتے ہوئے بغیر اپنے اعلیٰ ترین مقصد، یعنی رضاے الٰہی کے حصول اور صالح قیادت کے قیام کے لیے اپنی حکمت عملی پر نئے سرے سے غور کرکے ان مسائل کو اوّلیت دے سکتی ہیں جو نوجوانوں اور ہرفکر کے افراد کو شمولیت پر آمادہ کرسکیں؟
ایک اور اہم پہلو جس پر غور کی ضرورت ہے، اس کا تعلق خدمتِ خلق کے تصور کے ساتھ ہے۔ جن لوگوں نے شہر کے چوراہوں پر مظاہرے کیے، رات دن اپنے جذبات کا اظہار کیا، ان کے کھانے پینے کے لیے کسی بیرونی ملک یا ادارے نے کوئی رقم خرچ نہیں کی بلکہ لوگوں نے خود آگے بڑھ کر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کیا۔ تحریکاتِ اسلامی کی تاریخ میں اس قسم کے تجربات کی کثرت ہے اور اپنے تجربات کی روشنی میں اگر وہ عوام تک پہنچنے اور انھیں ساتھ لے کر چلنے کے لیے خدمتِ خلق کو دیگر کاموں پر ترجیح دیں تو شاید حصولِ مقصد میں زیادہ آسانی پیدا ہوسکے۔ اس حوالے سے تفصیلی طور پر ترکی میں ہونے والی تبدیلی کے جائزے کی ضرورت ہے جو ایک الگ تحقیق کی مستحق ہے۔ پاکستان کے حوالے سے کراچی میں نظامت کراچی جب تحریکِ اسلامی کی متحرک قیادت کے زیراثر تھی تو شہر میں کیے جانے والے اقدامات کو جس کسی نے بھی دیکھا مخالف ہونے کے باوجود تحریکِ اسلامی کی قیادت پر اعتماد کا اظہار کیا اور آج تک اس کے اثرات پائے جاتے ہیں۔
تحریک کی حکمت عملی میں قریب المیعاد اور طویل المیعاد منصوبے کی ضرورت ہے تاکہ ملک کے مختلف شہروں کو منتخب کر کے ان پر نوجوانوں کی قوت کو مرتکز کیا جائے اور عوام کو اپنی آنکھوں سے مشاہدے کا موقع فراہم کیا جائے کہ مخلص قیادت ایمان دار ناظم اور اللہ کا خوف رکھنے والے مقامی رہنما اپنی ذات کے لیے نہیں بلکہ اپنے اہلِ ملک کے لیے کیا معجزے کرسکتے ہیں۔
تحریکِ اسلامی کو اس پہلو پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ملک گیر پیمانے پر رفاہی اور ترقیاتی کاموں، بے روزگاری کے خاتمے اور غربت کو دُور کرنے کے لیے کس طرح یوتھ فورس کو استعمال کیا جاسکتاہے۔ ہمارا ہدف چند جامعات کی یونین پر کامیابی سے زیادہ اپنی بے لوثی، خلوص، قربانی و ایثار پر ہونا چاہیے، جس کی اپنی زبان ہے، اپنا اثر ہے، اپنے نتائج ہیں۔
آمریت کے خلاف عوام کو متحد کرنے کے لیے اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ ’اصولی جمہوریت‘ کو ’سرمایہ دارانہ مغربی جمہوریت‘ کے مقابلے پر علمی، جذباتی، عوامی سطح پر پیش کیا جائے اور جو لوگ اپنے آپ کو عوامی جمہوریت کے علَم بردار کہتے ہیں، ذاتیات سے بلند ہوکر ہم ’اصولی جمہوریت‘ کے خدوخال واضح کریں جس میں مشاورت، صلاحیت، امانت اور صداقت کی بنیاد پر لوگوں کو یک جا کیا جائے اور آمریت کو اصل ہدف بنایا جائے۔
اس پورے عمل کے دوران میں یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ عوامی جدوجہد، قربانی اور کوشش کے نتیجے میں جب آمریت اپنا بوریا بستر لپیٹنے پر مجبور ہوجائے تو اس انقلاب کو کوئی اغوا نہ کرنے پائے اور نہ ’اسلامیان‘ کے خیالی خطرے ہی کو بار بار بیان کرکے بیرونی ابلاغِ عامہ صحت مند اور صالح قیادت کا راستہ روکنے میں کامیاب ہوں۔ مغربی صحافت کا جائزہ لیاجائے تو ہرتجزیہ یہ بات بیان کر رہا ہے کہ کرپٹ، غیرمخلص، لالچی، خودغرض قیادت جو مسلم دنیا پر قابض رہی ہے، اس کا اصل متبادل تو اسلام پسند ہی ہیں لیکن یہ کہنے کے ساتھ فوراً یہ بات کہی جاتی ہے کہ اس سب کے باوجود اگر ’اسلامیان‘ برسرِاقتدار آگئے توبنیاد پرستی، تشدد، انتہاپسندی وغیرہ کا امکان پیدا ہوجائے گا۔
اس بین السطور اور بعض اوقات واضح طور پر راے کا اظہار اتنی مرتبہ کیا جا رہا ہے کہ ہرسامع اور ناظر ’اسلامیان‘ کی جگہ سیکولر قیادت ہی کی طرف راغب ہوں۔ گویا آمریت جائے اور سیکولر قیادت اس خلا کو پُر کرے۔ تحریکاتِ اسلامی کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس چالاکی پر مبنی تصور کو بغیر کسی معذرت کے اپنی حکمت عملی اور طرزِعمل سے دُور کریں تاکہ ان پر لوگوں کے اعتماد میں اضافہ ہو۔ بہترین مثال ترکی کی قیادت ہے جس نے ’اصولی جمہوریت‘ کے لیے جدوجہد کی اور ملک میں دستوری اصلاحات کے ذریعے ریاست کے اصولاً سیکولر ہونے کے باوجود ملکی معیشت، خودانحصاری، دفاع اور اسلامی اقدار کے فروغ کے ساتھ ساتھ ملت اسلامیہ کے مسائل پر بھی جرأت مندانہ حکمت عملی اختیار کی۔
آج جو فضا ۶۰ اور ۷۰ کے عشرے کے بعدپیدا ہوئی ہے، یہ تاریخ کے ایک موڑ کا پتا دے رہی ہے۔ اسلام کی احیائی تحریکات نے جو بیج بیسویں صدی میں ڈالے تھے اب ان سے شجرطیبہ پیدا ہورہے ہیں جن کی جڑیں مضبوط اور سایہ گھنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی نصرت، دین پر اعتماد اور خلوصِ نیت کے ساتھ کی جانے والی جدوجہد ان شاء اللہ وہ تبدیلی لانے میں کامیاب ہوگی جس میں عدل و احسان کا دور دورہ ہو۔
ہر سال ربیع الاول کا مہینہ رحمتوں، برکتوں اور روحانی نعمتوںکا تحفہ لے کر آتا ہے اور ذکرِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اُمت کی زندگی میں نئی روح پھونکنے کا ذریعہ بنتا ہے، لیکن یہ حقیقت بھی ہر لمحے سامنے رکھنا ضروری ہے کہ حب ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا تعلق نہ کسی خاص مہینے سے ہے، نہ کسی خاص مقام اور موسم سے۔ یہ تو وہ سدابہار کیفیت ہے جو ایمان کے پہلے لمحے سے زندگی کے آخری سانس تک مومن کا سرمایۂ زیست ہے، شرط ایمان کی ہے۔
شعوری طور پر، حتیٰ کہ صرف رسمی طور پر بھی جب ایک شخص اپنے مسلمان ہونے کا اعلان یہ کہہ کر کرتا ہے کہ وہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کو اپنا وحدہٗ لاشریک رب مانتا ہے اور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کا سچا رسول اور بندہ تسلیم کرتا ہے (اشھد ان لا الٰہ الا اللّٰہ وحدہ لاشریک لہ واشھد ان محمداً عبدہٗ ورسولہٗ)، تو وہ اللہ اوررسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک پیمانِ محبت باندھتا ہے اور اپنے آپ کو اپنے رب، مالکِ حقیقی اور اپنے رہنما، قائد، محسن اور ہادی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک ایسے رشتے میں منسلک کرتا ہے جو اسے رنگ و نسل، خون اور مقام کی قید سے آزاد اُمت مسلمہ اور اُمت محمدیہ کا ایک جزولاینفک بنادیتا ہے۔ بلاشبہہ اس رشتے کا اصل لطف شعوری تعلق کی صورت میں ہے لیکن یہ بھی اللہ کا انعام ہے کہ جس شخص نے صرف زبان سے اظہار اور دل سے اقرار کیا ہو، اور اس نے اس رشتے سے وابستہ ہونے کے مطالبات اور شرائط و واجبات پر غور نہ بھی کیا ہو، تب بھی وہ اپنے قائد و رہنما محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کو دل کی ہر دھڑکن میں محسوس کرتا ہے اور یہ محبت ساری زندگی اس کی رگوں میں خون کی شکل میں گردش کرتی رہتی ہے۔ وہ ایک دیہاتی ہو، شہری ہو، کوہستانی ہو، صحرا نشین ہو، سمندر میں دن رات سفر کرنے والا مچھیرا ہو، ایک طالب علم ہو یا دانش ور، وہ اپنے آپ کو اس رشتے سے اس طرح وابستہ کردیتا ہے کہ دنیا کی بڑی سے بڑی قوت بھی، حتیٰ کہ جب موت سامنے نظر آرہی ہو، اس وقت بھی وہ نہیں چاہتا کہ اس کے رسولؐ اس کے محسن صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات و شخصیت کو ایک پھانس کے برابر بھی تکلیف پہنچے۔ حضرت خبیبؓ کا واقعہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ جب انھیں شہید کرتے وقت ان کے قاتل نے سوال کیا کہ اگر تمھاری جگہ یہ عمل تمھارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر کیا جاتا تو تم کیا محسوس کرتے، تو ان کا جواب قیامت تک کے لیے ہرمسلم و مومن کی طرف سے دیا جانے والا جواب تھا، یعنی میں تویہ بھی نہیں پسند کروں گا کہ اس ہستی کو ایک پھانس کے برابر بھی تکلیف پہنچے۔
یہ محبت، یہ تعلق، یہ وابستگی ربیع الاول میں کچھ زیادہ واضح شکل اس لیے اختیار کرلیتی ہے کہ اس ماہ میں اخبارات ہوں یا ریڈیو اور ٹیلی وژن کے اکثر چینل ۱۲ربیع الاول کو اپنی خصوصی نشریات کا اہتمام کرتے ہیں، میلاد النبیؐ کے جلسے منعقد ہوتے اور جلوس نکلتے ہیں، اسکولوں میں تقریبات منعقد ہوتی ہیں۔ بعض سرکاری ادارے سیرت پر کتابوں اور مضمون نویسی کے مقابلے منعقد کرا کے انعامات دیتے ہیں۔ یوں اس مہینے کے ۲۹ یا ۳۰ دنوں میں ایک دلی اظہارِ محبت و وابستگی کے بعد پاکستان میں بسنے والی اُمت مسلمہ مطمئن ہوجاتی ہے کہ اُس نے حب ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حق ادا کر دیا۔ بعض عاشقانِ رسولؐ بازاروں میں جھنڈیاں لگاکر پٹاخے چھوڑ کر بھی اپنی محبت کا اظہار کرتے ہیں۔
حضرت عبدالرحمن بن ابی قرادؓ فرماتے ہیں: ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا۔ آپؐ کے کچھ اصحاب آپؐ کے وضو کا پانی لے کر اپنے چہروں پر مَلنے لگے تو آپؐ نے پوچھا: تمھارے اس کام کا محرک کیا ہے؟ لوگوں نے کہا: اللہ اوررسولؐ کی محبت۔ آپؐ نے فرمایا: جن لوگوں کو اس بات کی خوشی ہو کہ وہ اللہ اور رسولؐ سے محبت کرتے ہیں تو انھیں چاہیے کہ جب بات کریں تو سچ بولیں، جب ان کے پاس کوئی امانت رکھی جائے تو اس کو (بہ حفاظت) مالک کے حوالے کریں، اور پڑوسیوں کے ساتھ اچھا سلوک کریں۔ (مشکوٰۃ)
حضرت انسؓ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اُس کی نگاہ میں اس کے باپ، اس کے بیٹے اور سارے انسانوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجائوں۔ (بخاری، مسلم)
اگر صرف ان دو احادیث پر غور کیا جائے تو آج ہم جن حالات سے گزر رہے ہیں ان کے حوالے سے ان میں بیش بہا ہدایات موجود ہیں۔
سب سے پہلی بات جس کا سمجھنا ضروری ہے وہ یہ ہے۔ بلاشبہہ محبت کے مظاہر ایک فطری عمل ہیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق کا منہ بولتا ثبوت ہیں لیکن اس کے ساتھ محبت کی اصل روح اور تقاضوں کو سمجھنا بھی ضروری ہے۔ محبت کی تعریف اور مفہوم یہ نہیں ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس پانی سے وضو فرمایا ہو اس کو تبرکاً اپنے چہرے پر مَل کر یہ سمجھ لیا جائے کہ اس برکت کے سہارے ربِ کریم ہم پر عنایت فرما دے گا، بلکہ محبت کا تعلق ’عمل‘ سے ہے۔ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کی قلبی کیفیت اور وابستگی کو حکمت ِ رسالت کے ذریعے تین ایسے اعمال میں بدل دینے کا حکم دیا جو ایک مسلمان کو صحیح معنوں میں مومن بنا سکتے ہیں، چنانچہ پہلی بات یہ ارشاد فرمائی کہ جب بات کریں تو سچ (صدق) کو اختیار کریں۔ یہ صدق محض زبان سے سچی بات کہنے تک محدود نہیں ہے، گو اس کی بھی غیرمعمولی اہمیت ہے، بلکہ اصل مقصد اور ہدف اپنے تمام معاملات میں صدق کو اختیار کرنا مطلوب ہے جس کی مثال حضرت اسماعیل علیہ السلام کے اسوہ میں ہے کہ اللہ کی کتاب میں ان کی زندگی کا مرکزی وصف ہی یہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ وعدے کا سچا تھا (سورئہ مریم ۱۹:۵۰)۔ یہی نکتہ اس ارشاد ربانی سے بھی ہمارے سامنے آتا ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے خاندانی زندگی کے آغاز کے موقع پر جو اصطلاح مہر کے حوالے سے پسند فرمائی وہ بھی اسی مادے سے تعلق رکھتی ہے: وَ ٰاتُوا النِّسَآئَ صَدُقٰتِھِنَّ نِحْلَۃً ط (النساء۴:۴) ’’اور عورتوں کے مہر خوش دلی کے ساتھ (فرض جانتے ہوئے) ادا کرو‘‘۔
اہلِ ایمان کی پہچان اسی صدق کو قرار دیا گیا: یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ ٰامَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ کُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ o (التوبہ ۹:۱۱۹) ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ سے ڈرو اور سچے لوگوں کا ساتھ دو‘‘۔ مدینہ منورہ میں اسلامی ریاست کے قیام، حق کے غالب آنے اور باطل کے مٹ جانے کے عمل کو بھی صدق کے ساتھ وابستہ کیا گیا اور ہجرتِ نبویؐ کے حوالے سے قرآن کریم نے ہادی اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کو جو دعا تعلیم فرمائی وہ صداقت اور شہادتِ حق کے ساتھ مشکلات و مصائب کا مقابلہ کرنے کے بعد صداقت اور شہادتِ حق دیتے ہوئے دارالاسلام اور مرکز اُمت کے قیام کی طرف اشارہ کرتی ہے:
وَ قُلْ رَّبِّ اَدْخِلْنِیْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَّ اَخْرِجْنِیْ مُخْرَجَ صِدْقٍ وَّ اجْعَلْ لِّیْ مِنْ لَّدُنْکَ سُلْطٰنًا نَّصِیْرًا o (بنی اسرائیل ۱۷:۸۰) اور دعا کرو کہ پروردگار، مجھ کو جہاں بھی تو لے جا سچائی کے ساتھ لے جا اور جہاں سے بھی نکال سچائی کے ساتھ نکال اور اپنی طرف سے ایک اقتدار کو میرا مددگار بنا دے۔
صدق جس کی طرف خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے حب ِ رسول کے حوالے سے متوجہ فرمایا اہلِ ایمان کی صفات کے حوالے سے بارہا قرآن کریم میں بیان کیا جاتا ہے۔ چنانچہ سورئہ احزاب میں اہلِ ایمان کی جن صفات کا ذکر ہے اس میں صدق کو اعلیٰ مقام حاصل ہے:
اِنَّ الْمُسْلِمِیْنَ وَ الْمُسْلِمٰتِ وَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ وَالْقٰنِتِیْنَ وَالْقٰنِتٰتِ وَالصّٰدِقِیْنَ وَالصّٰدِقٰتِ وَالصّٰبِرِیْنَ وَالصّٰبِرٰتِ وَالْخٰشِعِیْنَ وَالْخٰشِعٰتِ وَالْمُتَصَدِّقِیْنَ وَالْمُتَصَدِّقٰتِ وَالصَّآئِمِیْنَ وَالصّٰٓئِمٰتِ۔ٓ وَالْحٰفِظِیْنَ فُرُوْجَھُمْ وَ الْحٰفِظٰتِ وَ الذّٰکِرِیْنَ اللّٰہَ کَثِیْرًا وَّ الذّٰکِرٰتِ لا اَعَدَّاللّٰہُ لَھُمْ مَّغْفِرَۃً وَّ اَجْرًا عَظِیْمًاo (احزاب ۳۳:۳۵) بالیقین جو مرد اور جو عورتیں مسلم ہیں، مومن ہیں، مطیع فرمان ہیں، راست باز (صادق اور صادقات) ہیں، صابر ہیں، اللہ کے آگے جھکنے والے ہیں، صدقہ (بشمول زکوٰۃ) دینے والے ہیں، روزے رکھنے والے ہیں، اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں، اور اللہ کو کثرت سے یاد کرنے والے ہیں، اللہ نے ان کے لیے مغفرت اور بڑا اجر مہیا کررکھا ہے۔
صداقت، صالحیت اور شہادت میں ربط اور یگانگت پائی جاتی ہے۔ چنانچہ قولِ صادق عملِ صالح میں اور عملِ صالح اللہ کے حضور شہادت کا ذریعہ بنتا ہے، اور اس دنیا میں بھی ایک مردِصادق یا ایک صادقہ خاتون اپنے زبانی اعلان و اقرار کو اپنی صالحیت، بھلائی پر قائم رہنے کے ذریعے اپنے مومن یا مومنہ ہونے کی شہادت فراہم کرتے ہیں، حتیٰ کہ جان اور مال کے ذریعے تصدیق کرتے ہوئے شہادت کے اعلیٰ مقام تک پہنچتے ہیں۔
رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے جس دوسرے عملِ صالح کے ذریعے حب ِ رسولؐ کے لازمی مظہر کی حقیقت کو بیان فرمایا ہے وہ بھی قرآن و سنت کی بنیادی تعلیمات میں سے ایک اہم عمل ہے جس کے بغیر ہم موجودہ اخلاقی، سیاسی، معاشی اور معاشرتی انتشار سے نہیں نکل سکتے۔ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ویُؤَدِّ امانتہٗ اذائتُمِنَ ، یعنی امانت کو بہ حفاظت مالک کے حوالے کرے۔
قرآن کریم نے امانت کو اہلِ ایمان کی اوّلین صفات کے طور پر جگہ جگہ بیان کیا ہے۔ چنانچہ سورئہ مومنون میں فرمایا گیا: وَالَّذِیْنَ ھُمْ لِاَمَانٰتِھِمْ وَعَھْدِھِمْ رٰعُوْنَ o (المومنون ۲۳: ۸) ’’اپنی امانتوں اور اپنے عہدوپیمان کا پاس رکھتے ہیں‘‘۔ انبیاے کرام ؑکے حوالے سے بار بار یہ بات بیان کی گئی ہے کہ وہ امانت دار رسول (رسولٌ امین) یا قوی اور امین ہیں۔ (الشعراء ۲۶: ۱۰۷، ۱۶۳، ۱۹۳، النمل ۲۷:۳۹)
ذمہ داریوں اور قیادت کے حوالے سے یہ صفت شرط کی حیثیت رکھتی ہے، چنانچہ حضرت موسٰی ؑ کے حوالے سے اس طرف اشارہ ہوتا ہے (القصص ۲۸:۳۶)، اور حکومتی اورفنی امور کے حوالے سے قرآن کریم یہ حکم دیتا ہے: اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓی اَھْلِھَا لا (النساء ۴:۵۸) ’’مسلمانو، اللہ تمھیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہلِ امانت کے سپرد کرو‘‘۔
اس آیت مبارکہ میں رب کریم نے بطور مشورہ یا تجویز کے نہیں بلکہ بطورِ حکم یہ بات فرمائی ہے کہ اہلِ ایمان اپنے معاملات ایسے افراد کے ہاتھ میں دیں جو اُس ذمہ داری کے اہل ہوں۔ اس کے مضمرات معاشی، سیاسی، معاشرتی اور ثقافتی و ابلاغی شعبوں میں غیرمعمولی اہمیت رکھتے ہیں۔ اگر ایک ایسے شخص کو جو بذاتِ خود اور جس کا قبیلہ اپنی ماضی کی تاریخ کے لحاظ سے چور، بددیانت اور ڈاکو کے طور پر شہرت رکھتا ہو، ملک کی اعلیٰ ترین ذمہ داری سونپ دی جائے اور پھر کفِ افسوس مَلا جائے کہ ملک کے امیر امیر تر اور غریب، غریب تر ہو رہے ہیں، سرکاری خزانے کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا جا رہا ہے، پرائیویٹائزیشن کے نام پر اپنے ہم نوالہ افراد کو کوڑیوں کے مول قومی اثاثے فروخت کیے جارہے ہیں، سیاسی حلیفوں کو اپنے ساتھ رکھنے کے لیے ہزاروں ایکڑ زمین تقریباً مفت دی جارہی ہو، تو یہ قصور صرف چور ہی کا نہیں بلکہ چور کو امانت حوالے کرنے والوں کا بھی ہے۔
اگرابلاغی سطح پر صحافت اور برقی ابلاغِ عامہ کو ایسے افراد کے حوالے کر دیا جائے جو ذہناً یا تو مغرب کے غلام ہوں یا ہندوانہ ثقافت اورمفادات کی حمایت میں اپنی دانش وری کو استعمال کرنے کے لیے مشہور ہوں تو الزام کسے دیا جائے گا؟ اگر تعلیم گاہ میں ایک ایسے شخص کو استاد بنا دیا جائے جو نہ علم رکھتا ہو نہ کردار، تو جو نسل اُس کے زیرتربیت پیدا ہوگی کیا اس میں صداقت اور امانت پیدا ہوسکتی ہے؟ اقبال نے صداقت اور امانت کے حوالے ہی سے کہا تھا کہ ان دو اسلامی اقدار اور احکاماتِ نبویؐ کو جب تک اختیار نہیں کیا جائے گا اس وقت تک قوموں کی امامت کا فریضہ ادا نہیں ہوسکتا ؎
سبق پھر پڑھ صداقت کا، عدالت کا، شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا
تیسری اہم ہدایت جو حب ِ رسولؐ کے حوالے سے خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی وہ پڑوسی کے حقوق کے حوالے سے ہے۔ ہم عموماً اس سے یہ بات سمجھتے ہیں کہ عیدبقرعید کے موقع پر اگر پڑوسی کے ہاں گوشت کا حصہ یا سویاں بھیج دی گئیں تو اس کا حق ادا ہوگیا، حالانکہ اس کا مقصد وہ تمام افراد ہیں جن سے تعلق سکونت کے باب میں مستقل رفاقت کا ہو، یا جو عارضی طور پر رفیقِ سفر بن جائیں۔ اس کا اشارہ اس حدیث سے بھی ملتا ہے، جس میں یہ بات سمجھائی گئی ہے کہ پڑوسی سے مراد محض فوری پڑوسی نہیں ہے بلکہ ۴۰ گھر سیدھے ہاتھ کی طرف اور ۴۰ گھر بائیں ہاتھ کی طرف پڑوسی شمار کیے جائیں گے۔ ایسے ہی پڑوسی سے مراد وہ شخص بھی ہے جو ہمارا ہم سفر ہو، بس میں، جہاز میں، ٹرین میں،ویگن میں، کہیں بھی۔ گویا اتنے کم عرصے کے لیے بھی اس کے حقوق کا خیال رکھنا حب ِ رسولؐ کا تقاضا اور مطالبہ ہے۔
حب ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے قرآن کریم نے جو اصول طے کر دیا ہے وہ رسمی اظہارِ محبت سے عبارت نہیں۔ دل، زبان اور اعمال سے محبت کے اظہار کے ساتھ اس سے بھی کہیں بڑھ کر قرآن کریم کی تعلیم یہ ہے کہ:
قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ وَ یَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْط وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ o قُلْ اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَ الرَّسُوْلَ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْکٰفِرِیْنَo (اٰل عمران ۳:۳۱-۳۲) اے نبیؐ! لوگوں سے کہہ دو اگر تم حقیقت میں اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی اختیار کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمھاری خطائوں سے درگزر فرمائے گا۔ وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحیم ہے۔ ان سے کہو کہ اللہ اور رسولؐ کی اطاعت قبول کرو۔ پھر اگر وہ تمھاری یہ دعوت قبول نہ کریں تو یقینا یہ ممکن نہیں ہے کہ اللہ ایسے لوگوں سے محبت کرے جو اس کی اور اس کے رسولؐ کی اطاعت سے انکار کرتے ہوں۔
محبت ِ رسولؐ کا پہلا مطالبہ اطاعتِ رسولؐ ہے۔ شخصی زندگی میں بھی اور اجتماعی زندگی میں بھی۔ یہ پہلو بھی قابلِ غور ہے کہ جب معاملہ محض زبانی اظہار ہی کا نہیں بلکہ باقاعدہ دستورِ مملکت کے ذریعے بھی یہ اعلان کیا جائے کہ شریعت بالادست ہے اور حکومت اسلامی تعلیمات کے نفاذ کی ذمہ دار ہے اور اس کے باوجود کوئی حکومتی ہرکارہ ناموسِ رسولؐ کے حوالے سے غیرذمہ داری کی بات کرے، تو وہ دستورِ پاکستان کی خلاف ورزی اور قرآن کے واضح حکم کی مخالفت کا مرتکب ہوگا۔
قرآن کریم سے براہِ راست تعلق کی کمی اور سیرتِ رسولؐ سے محض جذباتی وابستگی کے نتیجے میں اکثر مغرب زدہ دانش ور یہ بات بظاہر بڑی معصومیت سے کہتے ہیں کہ قرآن کریم تو اللہ کا کلام ہے اور اللہ تعالیٰ نے خود اس کی حفاظت کا بندوبست کیا ہے۔ اس بنا پر اس کی تعلیمات و احکام کو ماننا فرض ہے لیکن حدیث اور سنتِ رسولؐ ان کے خیال میںایک انسانی عمل ہے جو وقت کی قید کی بنا پر ساتویں صدی میلادی میں تو قابلِ عمل تھا لیکن معاشرتی ارتقا اور حالات کی تبدیلی کے بعد اس کی حیثیت اخلاقی تعلیمات کی تو ہوسکتی ہے لیکن اسے قانون کا درجہ نہیں دیاجانا چاہیے۔ اس مفروضے کی بنیاد تین منطقی مغالطوں پر ہے:
اوّلاً یہ مفروضہ کہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل صرف ساتویں صدی کے عربوں اور عرب معاشرے کے لیے تھا۔ گویا نعوذباللہ آپؐ ایک عرب قبائلی مصلح (ریفارمر) تھے۔ دوسرا مفروضہ یہ ہے کہ حدیث یا سنت، خاتم النبیینؐ کا ذاتی عمل تھا اور اس کی پیروی بعد کے افراد پر واجب نہیں۔ تیسرا مفروضہ یہ ہے کہ آپؐ کا کام محض چند اخلاقی اصول سمجھانا تھا۔ آپؐ کوئی قانون و شریعت لے کر نہیں آئے۔
ان تینوں مفروضوں پر کسی فلسفیانہ، عقل و منطق پر مبنی گفتگو اور دلائل کی ضرورت اس لیے نہیں ہے کہ اگر وہ حضرات جو خود کو اہلِ قرآن کہتے ہیں یا یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہمارے لیے قرآن کافی ہے، قرآن کریم نے خود ان تینوں مفروضوں کا جواب دیا ہے اور جو بات خالق کائنات اور انسانوں کا مالک خود فرمائے اُس سے زیادہ وزنی اور قطعی ثبوت و دلیل اور کوئی نہیں ہوسکتی۔
پہلے اور دوسرے مفروضے کے حوالے سے قرآن کریم یہ فرماتا ہے کہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل میں تمام اہلِ ایمان کے لیے قیامت تک کے لیے بہترین قابلِ عمل نمونہ ہے:
لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ (احزاب ۳۳:۲۱) درحقیقت تم لوگوں کے لیے اللہ کے رسولؐ میں بہترین نمونہ ہے۔
یہ نمونہ اور اسوہ محض عبادات میں نہیں ہے بلکہ معاملات اور زندگی کے ہرہر عمل کے لیے رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ اس بات کا رد بھی قرآن کریم نے خود کردیا ہے کہ آپؐ محض عربوں کے لیے نہیں آئے بلکہ جس طرح قرآن تمام انسانوں کے لیے قیامت تک کے لیے ہدایت ہے (البقرہ ۲:۱۸۵) ،اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل تمام انسانوں کے لیے قابلِ عمل اور واجب العمل نمونہ ہے:
قُلْ یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعَانِ الَّذِیْ لَہٗ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ج لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ یُحْیٖ وَیُمِیْتُ ص فَاٰمِنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہِ النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ الَّذِیْ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَ کَلِمٰتِہٖ وَ اتَّبِعُوْہُ لَعَلَّکُمْ تَھْتَدُوْنَo (اعراف ۷:۱۵۸) اے محمدؐ! کہو کہ اے انسانو، میں تم سب کی طرف اس خدا کا پیغمبر ہوں جو زمین اور آسمانوں کی بادشاہی کا مالک ہے، اس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے،وہی زندگی بخشتا ہے اور وہی موت دیتا ہے، پس ایمان لائو اللہ پر اور اس کے بھیجے ہوئے نبی اُمّی پر جو اللہ اور اس کے ارشادات کو مانتا ہے، اور پیروی اختیار کرو اس کی، امید ہے کہ تم راہِ راست پا لوگے۔
یہاں یہ بات انتہائی واضح الفاظ میں فرما دی گئی کہ آپؐ کی نبوت اور رسالت تمام انسانوں کے لیے ہے اور تمام انسانوں کو آپؐ کی پیروی اختیار کرنا شرطِ کامیابی ہے۔
رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا مقصد کئی مقامات پر خود قرآن کریم نے واضح الفاظ میں یوں بیان کیا ہے کہ رسولؐ کا کام محض کتاب پہنچا دینا نہیں ہے، بلکہ وہ اس کتاب کو صحیح طور پر پڑھنے، اس کتاب کی تعلیمات کو سمجھانے، اس کتاب کی تشریح اور وضاحت کے ساتھ ساتھ خود حکمت سمجھانے اور اہلِ ایمان کو تزکیے کا طریقہ سکھانے پر مامور کیاگیا ہے۔ وہ نعوذباللہ محض ڈاکیا نہیں ہے کہ کتاب پہنچا کر اس کا کام ختم ہوگیا، بلکہ وہ نہ صرف شارح بلکہ شارع ہے۔ چنانچہ سورۂ اعراف میں یہ بات قرآن کریم نے واضح کر دی کہ آپؐ اہلِ ایمان پر سے بوجھ کو ہلکا کرتے ہیں، پاک اور طیب چیزوں کو ان کے لیے حلال کرتے ہیں اور خبائث و منکرات کو حرام قرار دیتے ہیں۔ اس آیت ِ مبارکہ میں تحلیل و تحریم کا اختیار نبیؐ سے وابستہ کیا گیا ہے۔ چنانچہ فرمایا:
اَلَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِیَّ الْاُمِّیَّ الَّذِیْ یَجِدُوْنَہٗ مَکْتُوْبًا عِنْدَھُمْ فِی التَّوْرٰۃِ وَ الْاِنْجِیْلِ ز یَاْمُرُھُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْھٰھُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ یُحِلُّ لَھُمُ الطَّیِّبٰتِ وَ یُحَرِّمُ عَلَیْھِمُ الْخَبٰٓئِثَ وَ یَضَعُ عَنْھُمْ اِصْرَھُمْ وَ الْاَغْلٰلَ الَّتِیْ کَانَتْ عَلَیْھِمْ ط فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِہٖ وَ عَزَّرُوْہُ وَ نَصَرُوْہُ وَ اتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ مَعَہٗٓ لا اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ o (اعراف ۷:۱۵۷) (پس آج یہ رحمت ان لوگوں کا حصہ ہے) جو اس پیغمبر، نبی اُمّی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی پیروی اختیار کریںجس کا ذکر انھیں اپنے ہاں تورات اور انجیل میں لکھا ہوا ملتا ہے۔ وہ انھیں نیکی کا حکم دیتا ہے، بدی سے روکتا ہے، ان کے لیے پاک چیزیں حلال اور ناپاک چیزیں حرام کرتا ہے، اور ان پر سے وہ بوجھ اُتارتا ہے جو ان پر لدے ہوئے تھے اور وہ بندشیں کھولتا ہے جن میں وہ جکڑے ہوئے تھے۔ لہٰذا جو لوگ اِس پر ایمان لائیں اور اس کی حمایت اور نصرت کریں اور اُس روشنی کی پیروی اختیار کریں جو اس کے ساتھ نازل کی گئی ہے، وہی فلاح پانے والے ہیں۔
اسی بات کو سورئہ حشر میں یوں فرمایا گیا:
وَمَآ اٰتٰکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ ق وَمَا نَہٰکُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوْا ج وَاتَّقُوا اللّٰہَ ط اِنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعِقَابo(الحشر ۵۹:۷) جو کچھ رسولؐ تمھیں دے وہ لے لو اور جس چیز سے وہ تم کوروک دے اس سے رُک جائو۔ اللہ سے ڈرو، اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔
رسولؐ کی اس اطاعت و فرماں برداری کو براہِ راست اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی طرف سے حمایت و توثیق حاصل ہے اور اللہ کے حکم کی بنا پر ہی یہ اطاعت کرنا فرض کی گئی ہے۔ چنانچہ اہلِ ایمان کا صحیح طرزِ عمل قرآن کریم نے رسولؐ کی بات کو سن کر سرتسلیم خم کرنے کوقراردیا ہے:
اِنَّمَا کَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذَا دُعُوْٓا اِلَی اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ لِیَحْکُمَ بَیْنَھُمْ اَنْ یَّقُوْلُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا ط وَاُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ o وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ وَیَخْشَ اللّٰہَ وَیَتَّقْہِ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْفَآئِزُوْنَo(النور ۲۴:۵۱-۵۲) ایمان لانے والوں کا کام تو یہ ہے کہ جب وہ اللہ اور رسولؐ کی طرف بلائے جائیں تاکہ رسولؐ ان کے مقدمے کا فیصلہ کرے تو وہ کہیں کہ ہم نے سنا اور اطاعت کی۔ ایسے ہی لوگ فلاح پانے والے ہیں، اور کامیاب وہی ہیں جو اللہ اور رسول کی فرماں برداری کریں اور اللہ سے ڈریں اور اس کی نافرمانی سے بچیں۔
یہاں یہ بات صراحت سے بیان کر دی گئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی مقدمے یا معاملے کا جو فیصلہ فرما دیں اسے سن کر فوری طور پر اطاعت کرنا ہی ایمان ہے۔ سورئہ نساء میں اس پہلو کو اس طرح بیان کیا گیا:
وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰہِط (النساء ۴:۶۴) ہم نے جو رسول بھی بھیجا ہے اسی لیے بھیجا ہے کہ اذنِ خداوندی کی بنا پر اس کی اطاعت کی جائے۔
گویا محض قرآن کے احکامات کی نہیں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر فیصلے، حکم اور عمل کی اطاعت کرنا ایمان کا تقاضا ہے۔ آگے چل کر اسی بات کی مزید تاکید کی گئی:
وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَ الرَّسُوْلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیْقِیْنَ وَ الشُّھَدَآئِ وَ الصّٰلِحِیْنَ وَ حَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیْقًاo (النساء ۴:۶۹) جو لوگ اللہ اور رسولؐ کی اطاعت کریں گے وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام فرمایا ہے، یعنی انبیاؑ اور صدیقین اور شہدا اور صالحین۔ کیسے اچھے ہیں یہ رفیق جو کسی کو میسر آئیں۔
قرآن کریم نے جگہ جگہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کو شامل کر کے ان تمام مفروضوں کو باطل قرار دیا ہے جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے تشریعی ہونے پر کسی شبہے کا اظہار کیا جاتا ہے۔ چنانچہ فرمایا گیا:
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَ الرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ ط ذٰلِکَ خَیْرٌ وَّ اَحْسَنُ تَاْوِیْلًا (النساء۴:۵۹) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسولؐ کی اور ان لوگوں کی جو تم میں سے صاحب ِ امر ہوں۔ پھر اگر تمھارے درمیان کسی معاملے میں نزاع ہوجائے تو اسے اللہ اور رسولؐ کی طرف پھیر دو اگر تم واقعی اللہ اور روزِ آخر پہ ایمان رکھتے ہو۔ یہی ایک صحیح طریق کار ہے اور انجام کے اعتبار سے بھی بہتر ہے۔
یہاں قرآن کریم نے اہلِ ایمان کا سنت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلہ کن ہونے کے حوالے سے رویہ واضح کرتے ہوئے اس بات کو اللہ اورآخرت پر ایمان سے مشروط کردیا ہے، یعنی اگر کوئی اللہ اور آخرت پر یقین رکھتا ہے تو وہ اپنے تمام معاملات میں آخری فیصلہ صرف اللہ اور رسولؐ کا مانے گا، حتیٰ کہ وہ لوگ بھی جو اصحابِ علم ہوں اور صاحب ِ مسند قضٰی ہوں۔ اگر ان سے اختلاف ہو تو حاکم، قاضی اور عالم کی بات کوقرآن و سنت پر جانچا جائے گا اور یہ دو غیر متغیر اُصول و مصادر جو فیصلہ کریں وہ عالم اور قاضی یا حاکم کو بھی ماننا ہوگا۔ حاکم اور امیر کی اطاعت صرف اس وقت تک کی جائے گی جب تک وہ اللہ اور رسولؐ دونوں کے احکامات کی پیروی کرتے ہوئے کسی بات کو کرنے کا فیصلہ کرے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے تشریعی ہونے کے حوالے سے قرآن کریم نے بڑی وضاحت سے یہ فیصلہ کیا ہے کہ چونکہ رسولؐ کی نگرانی ہمہ وقت کی جاتی ہے اور وہ اللہ کے حکم کے بغیر کوئی بات نہ کہتا ہے، نہ کرتا ہے، اس لیے اب تک تو یہ کہا گیا تھا کہ اللہ کی اطاعت کرو اور رسولؐ کی۔ اب انداز بدلتے ہوئے یہ کہا جا رہا ہے کہ:
مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَ وَ مَنْ تَوَلّٰی فَمَآ اَرْسَلْنٰکَ عَلَیْھِمْ حَفِیْظًا(النساء ۴:۸۰) جس نے رسولؐ کی اطاعت کی اس نے دراصل خدا کی اطاعت کی اور جو منہ موڑ گیا تو بہرحال ہم نے تمھیں ان لوگوں پر پاسبان بنا کر تو نہیں بھیجا ہے۔
اگر ایسا نہ کیا گیا تو قرآن وعید سناتا ہے کہ ایسے اہلِ ایمان کے تمام اعمال گویا ضائع ہوں گے، العیاذ باللّٰہ ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس سے محفوظ رکھے۔ چنانچہ فرمایا گیا:
یاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَلاَ تُبْطِلُوْٓا اَعْمَالَکُمْ o اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَصَدُّوْا عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ثُمَّ مَاتُوا وَھُمْ کُفَّارٌ فَلَنْ یَّغْفِرَ اللّٰہُ لَھُمْo(محمد ۴۷:۳۳-۳۴) اے لوگو جو ایمان لائے ہو تم اللہ کی اطاعت کرو اور رسولؐ کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال کو برباد نہ کرلو۔ کفر کرنے والوں، راہِ خدا سے روکنے والوں اور مرتے دم تک کفر پر جمے رہنے والوں کو تو اللہ ہرگز معاف نہ کرے گا۔
جس طرح اطاعت میں اللہ اور رسولؐ دونوں کو شامل کیا گیا، ایسے ہی نافرمانی کے حوالے سے بھی قرآن دونوں کی نافرمانی کو مساوی قرار دیتا ہے:
وَ مَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّ لَا مُؤْمِنَۃٍ اِذَا قَضَی اللّٰہُ وَ رَسُوْلُہٗٓ اَمْرًا اَنْ یَّکُوْنَ لَھُمُ الْخِیَرَۃُ مِنْ اَمْرِھِمْ ط وَمَنْ یَّعْصِ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِیْنًاo (احزاب ۳۳:۳۶) کسی مومن مرد اور کسی مومن عورت کو یہ حق نہیں کہ جب اللہ اور اس کا رسولؐ کسی معاملے کا فیصلہ کردے تو پھر اسے اپنے اُس معاملے میں خود فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل رہے۔ اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسولؐ کی نافرمانی کرے وہ صریح گمراہی میں پڑ گیا۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم اور فیصلے کے بارے میں دل میں معمولی سا بھی شبہہ ہو تو قرآن اسے نفاق سے تعبیر کرتا ہے:
وَ اِذَا قِیْلَ لَھُمْ تَعَالَوْا اِلٰی مَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ وَاِلَی الرَّسُوْلِ رَاَیْتَ الْمُنٰفِقِیْنَ یَصُدُّوْنَ عَنْکَ صُدُوْدًاo (النساء ۴:۶۱) اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آئو اس چیز کی طرف جو اللہ نے نازل کی ہے اور آئو رسولؐ کی طرف، تو ان منافقوں کو تم دیکھتے ہو کہ یہ تمھاری طرف آنے سے کتراتے ہیں۔
قرآن کریم کی اتنی واضح آیات کے بعد بھی اگر کوئی یہ کہنے کی جسارت کرتا ہے کہ صرف قرآن شریعت ہے اور سنت، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذاتی عمل ہے تو وہ خود قرآن کریم کے واضح احکامات کی خلاف ورزی کرتا ہے۔
حب ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم کا پہلا تقاضا یہی ہے کہ آپؐ کی دی ہوئی ہدایات، آپؐ کے احکامات اور عمل کو جوں کا توں تسلیم کرنے کے بعد اپنے طرزِعمل میں اسے اختیار کرلے۔ مسلمان کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہرہرعمل کو اختیار کرنے کی کوشش ہی میں نجات ہے۔
حدیث میں خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے محبت کے احساس اور قلبی کیفیت کو ایک مسلمان کے قابلِ محسوس عمل سے وابستہ کرنے کے ذریعے محبت کو عمل میں تبدیل کر دیا، اور عمل بھی وہ جو درود و سلام اور عبادات کے ساتھ صداقت، امانت اور حقوق العباد کی شکل میں معاشرے کی فلاح اور ایک ایسی حکومت کے قیام کی بنیاد فراہم کرے جو اسلام کے عادلانہ نظام کو نافذ کرنا چاہتی ہو۔
حب ِ الٰہی اور حب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ قرآن ہمارے زبانی دعووں کو عمل میں تبدیل کرنا چاہتا ہے۔ چنانچہ وہ بے شمار مقامات پر ہمیں متوجہ کرتا ہے کہ اہلِ ایمان اللہ سے کتنی محبت رکھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنے کن اور کیسے بندوں کو پسند کرتا ہے۔ چنانچہ فرمایا گیا:
وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِ ط(البقرہ ۲:۱۶۵) حالانکہ ایمان رکھنے والے سب سے بڑھ کر اللہ کو محبوب رکھتے ہیں۔
پھر یہ بات کہی گئی کہ: اللہ سے محبت کا تقاضا یہ ہے کہ مال کو اپنا رب نہ بنایا جائے نہ مال کی محبت میں ایسا گرفتار ہو کہ کروڑوں، اربوں کے اثاثوں کو ملک کے باہر اور ملک کے اندر اپنے قبضے میں کرنے کے بعد بھی ھل من مزید کی ہوس میں اتنا وارفتہ ہو کہ جیسے اسے شیطان نے ہاتھ لگاکر دولت کا باولا کردیا ہو:
وَ اَنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَ لَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلَی التَّھْلُکَۃِ وَ اَحْسِنُوْا اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَo (البقرہ ۲:۱۹۵) اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔ احسان کا طریقہ اختیار کرو کہ اللہ محسنوں کو پسند کرتا ہے۔
وہ اہلِ ایمان بھی جو اللہ کی راہ میں استقامت اور ثابت قدمی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور صبر کے ساتھ حق کی اشاعت اور شہادت میں لگ جاتے ہیں ان کے حوالے سے رب کریم اپنی پسند کا اظہار فرماتا ہے:
بَلٰی مَنْ اَوْفٰی بِعَھْدِہٖ وَ اتَّقٰی فَاِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُتَّقِیْنَo (اٰل عمران۳:۷۶) جو بھی اپنے عہد کو پورا کرے گا اور برائی سے بچ کر رہے گا وہ اللہ کا محبوب بنے گا۔
آگے چل کر اللہ کے ان محبوب بندوں میں ان کا ذکر آتا ہے جو پوری قوت کے ساتھ باطل، ظلم، کفر، طاغوت اور استحصال کا مقابلہ کرنے میں اپنے عمل سے مستقل مزاجی، مسلسل جدوجہد اور صبر کا مظاہرہ کرتے ہیں:
وَ کَاَیِّنْ مِّنْ نَّبِیٍّ قٰتَلَ مَعَہٗ رِبِّیُّوْنَ کَثِیْرٌ فَمَا وَ ھَنُوْا لِمَآ اَصَابَھُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَ مَا ضَعُفُوْا وَ مَا اسْتَکَانُوْا ط وَ اللّٰہُ یُحِبُّ الصّٰبِرِیْنَo (اٰل عمرٰن ۳:۱۴۶) اس سے پہلے کتنے ہی نبی ایسے گزر چکے ہیں جن کے ساتھ مل کر بہت سے خدا پرستوں نے جنگ کی۔ اللہ کی راہ میں جو مصیبتیں ان پر پڑیں، ان سے وہ دل شکستہ نہیں ہوئے، انھوں نے کمزوری نہیں دکھائی، وہ (باطل کے آگے) سر نگوں نہیں ہوئے۔ ایسے ہی صابروں کو اللہ پسند کرتا ہے۔
ہر مسلمان اور خصوصیت سے تحریکِ اسلامی کے کارکنوں کے لیے یہ بات قابلِ غور ہے کہ اکثر انسانی ذہن اپنے اندازے کے مطابق ایک وقت کا اندازہ (time frame) قائم کرتا ہے اور پھر سوچتا ہے کہ آخر کب تک نظامِ عدل اور نظامِ اسلامی کے قیام کے لیے کوششیں کی جائیں گی؟ منزل قریب کیوں نہیں آرہی؟ مشکلات میں اضافہ کیوں ہو رہا ہے؟ کیا ہماری عددی قوت میں مناسب اضافہ ہو رہا ہے؟ اور کیا یہ عددی قوت تناسب کے لحاظ سے کفر کی بڑھتی ہوئی تعداد کا مقابلہ کرسکے گی وغیرہ۔ ان تمام ممکنہ سوالات کا جواب قرآن نے اپنے منفرد انداز میں انبیا ماقبل کے تجربات کی طرف متوجہ کرتے ہوئے یہ کہہ کر دے دیا ہے کہ اللہ کے ان برگزیدہ نمایندوں کے ساتھ بھی اس طرح کے حالات پیش آئے ہیں لیکن انھوں نے صبرواستقامت سے وقت کی قید سے آزاد ہوکر اللہ کی راہ میں اپنا جہاد جاری رکھا اور وہی اللہ کے محبوب بندے ہیں۔ کیا اس سے بڑھ کر کوئی اور کامیابی بھی ہوسکتی ہے کہ ایک بندہ جس کی مخلوق ہو، جس نے اسے اپنے حکم سے پیدا کیا ہو، وہ اپنے بندے کے صبرواستقامت کو دیکھ کر اس کی طرف نگاہ محبت کو ملتفت کردے! کیا اس سے بڑھ کر کوئی کامیابی ہوسکتی ہے کہ ایسے بندوں کا نام وہ اپنے مقربین میں لکھ دے اور انھیں صدیقین، صلحا اور شہدا کی صف میں شامل کرلے!
اللہ کی راہ میں حُب ِ رسولؐ سے آراستہ تحریکِ اسلامی کے کارکن قیامِ عدل اور اسلامی نظام کے قیام کی جدوجہد میں اسی وقت کامیاب ہوسکتے ہیں جب وہ اپنی طرف سے کوشش میں کسی کمی کے شکار نہ ہوں اور ساتھ ہی وہ اپنے رب پر مکمل توکل رکھتے ہوں۔ ربِ کریم اپنے ایسے بندوں کو اپنے محبوب بندوں میں شامل کرلیتا ہے اور دعوتِ دین کی جدوجہد میں ہونے والی بعض لغزشوں کو معاف کردتیا ہے:
فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنْتَ لَھُمْ وَ لَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ فَاعْفُ عَنْھُمْ وَ اسْتَغْفِرْلَھُمْ وَ شَاوِرْھُمْ فِی الْاَمْرِ فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ ط اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُتَوَکِّلِیْنَo اِنْ یَّنْصُرْکُمُ اللّٰہُ فَلَا غَالِبَ لَکُمْ وَ اِنْ یَّخْذُلْکُمْ فَمَنْ ذَا الَّذِیْ یَنْصُرُکُمْ مِّنْم بَعْدِہٖ وَ عَلَی اللّٰہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ o (اٰل عمرٰن ۳:۱۵۹-۱۶۰) (اے محمدؐ!) یہ اللہ کی بڑی رحمت ہے کہ تم اِن لوگوں کے لیے بہت نرم مزاج واقع ہوئے ہو، ورنہ اگر کہیںتم تندخو اور سنگ دل ہوتے تو یہ سب تمھارے گردوپیش سے چھٹ جاتے۔ ان کے قصور معاف کر دو، ان کے حق میں دعاے مغفرت کرو اور دین کے کام میں ان کو بھی شریکِ مشورہ رکھو۔ پھر جب تمھارا عزم کسی راے پر مستحکم ہوجائے تو اللہ پر بھروسا کرو۔ اللہ کو وہ لوگ پسند ہیں جو اسی کے بھروسے پر کام کرتے ہیں۔ اللہ تمھاری مدد پر ہو تو کوئی طاقت تم پر غالب آنے والی نہیں، اور وہ تمھیں چھوڑ دے تو اس کے بعد کون ہے جو تمھاری مدد کرسکتا ہو؟ پس جو سچے مومن ہیں ان کو اللہ ہی پر بھروسا رکھنا چاہیے۔
اس حوالے سے ہمیں آج جو عملی مشکلات پیش آتی ہیں وہ کوئی آج کی پیداوار نہیں ہیں۔ دورِ نبویؐ ہو یا دورِ خلفاے راشدین، تمام کلیدی معاملات میں ایک سے زائد آرا کا وجود اسلامی ریاست میں ایک معروف عمل تھا۔ اس لیے شورائیت کا مطلب یہ قطعاً نہیں ہے کہ ایک راے پہلے سے قائم کرلی جائے اور پھر اس پر راے کو ہموار کر دیا جائے، بلکہ ہر راے کو پوری آزادی اور توجہ سے سنا جائے اور معاملے کے مثبت و منفی پہلو پر غور کرنے کے بعد اتفاق راے سے معاملات کو چلایا جائے۔ اس عمل سے گزرنے کے بعد، جو اہم بات سمجھائی جارہی ہے وہ توکل ہے، یعنی اپنی طرف سے مقدور بھر منصوبہ بندی، افرادی قوت اور دیگر وسائل کا جائزہ لینے کے بعد جب ایک معاملے میں یکسو ہوجائو تو پھر نتائج اللہ پر چھوڑ دو۔ توکل کا یہ مطلب نہیں کہ اپنی طرف سے کوئی حکمت عملی نہ بنائی جائے اور محض ردعمل کے طور پر وقتاً فوقتاً اپنے موقف کو بیان کردیا جائے۔
ظاہر ہے یہ فکر اسلام کی بنیاد توحیدِ خالص کے منافی اور ضد ہے لیکن اس کے ساتھ اگر اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کو رب ماننے کے ساتھ یہ تصور بھی پایا جاتا ہو کہ فلاں بڑی عالمی طاقت ہمیں غذا، اسلحہ اور حمایت و نصرت فراہم کرے گی تو ہم زندہ رہیں گے ورنہ ہمارا وجود خطرے میں پڑ جائے گا، تو یہ اُس شرک سے کسی طرح بھی مختلف نہیں ہے جسے ایک غیرتعلیم یافتہ مسلمان بھی غلط سمجھتا ہے۔
اگر کوئی قوم ہر نماز میں اور پھر ہر جمعہ کے دن مسجد میں جاکر یہ اعلان کرے کہ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ آپ اکبر، عظیم اور اعلیٰ ہیں، نہ کوئی آپ سے بڑا ہے نہ بلند، نہ طاقت ور، اور ابھی نماز مکمل ہی ہوئی ہو اور وہ باہر آکر اپنی معیشت کو کسی سرمایہ دارانہ طاقت سے وابستہ، اپنی معاشرت کو کسی یورپی یا ایشیائی ملک کی جاہلانہ اور مشرکانہ روایات سے متعلق کردے، اور اپنی سیاست کو لادینی جمہوریت سے منسلک کردے، تو مسجد میں اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کو وحدہٗ لاشریک ماننے کے باوجود یہ اس کی صفات میں ہی نہیں اس کی ذات میں بھی شرک کے مترادف ہے۔
گویا، اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا آسان سا مفہوم ان کی ہرمعاملے میں اطاعت کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوسکتا۔ ایسے ہی حب رسولؐ بھی صرف ایک مفہوم رکھتی ہے، یعنی صدق و سچائی کے ساتھ اور ایک امانت دار شخص کی طرح وہ تمام حقوق جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم پر واجب ہیں، ان کی ادایگی، ورنہ نہ ہم نے صدق کی پیروی کی نہ امانت کا رویہ اختیار کیا۔
حُبِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے شرطِ ایمان ہونے پر وہ حدیث بھی ہماری رہنمائی کرتی ہے جس میں یہ فرمایا گیا ہے کہ لا یومن احدکم حتّٰی اکون احب الیہ من والدہ و ولدہ والناس اجمعین (بخاری، مسلم)،یعنی تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اس کی نگاہ میں اس کے باپ، اس کے بیٹے اور سارے انسانوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجائوں۔
حب ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے غالب ہونے کا مفہوم اس کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے کہ اولاد کے لیے والدین اور والدین کے لیے اولاد کے مفاد سے زیادہ انھیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات اور اسوہ کی پیروی کرنے کی فکر ہو۔ وہ گھریلو معاملات ہوں یا ملکی سیاسی، معاشی مسائل، ہرہرفیصلہ کرتے وقت یہ دیکھیں کہ کیا ایسا کرنے سے اللہ کے رسولؐ کی اطاعت ہورہی ہے یا بغاوت کے مرتکب ہورہے ہیں۔
اس مختصر وضاحت کے بعد یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ موجودہ ملکی حالات میں وہ کون سے اقدامات ہیں جو حب ِ رسولؐ کے مظہر ہوسکتے ہیں:
___ صدق کا تقاضا ہے کہ سب سے پہلے تجدید ایمان کرتے ہوئے ہم اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ اور خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے مطیع و فرماں بردار ہونے کے عہد کو شعوری طور پر تازہ کریں اور ان تمام اداروں اور افراد کی غلامی و محکومیت سے اپنے آپ کو نکالیں جو اس تعلق پر اثرانداز ہورہے ہوں۔
___ دوسرا تقاضا یہ ہے کہ اس ملکِ عزیز کے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک قدر والی رات میں عطیہ اور میراث کو ایک امین کی طرح سے اصل مالک کی مرضی کے مطابق اور اس کی شریعت کے مطابق معاشی، معاشرتی، ثقافتی، تعلیمی، قانونی اور سیاسی معاملات کو ترتیب دیں۔
___ تیسرا تقاضا یہ ہے کہ اس ملک کی سربراہی اور قیادت ایسے افراد کے ہاتھ میں دیں جو امین اور صادق ہوں اور ایسے افراد سے نجات حاصل کریں جو خائن اور کاذب ہوں۔
___ چوتھا تقاضا یہ ہے کہ ایسے معاملات میں اور افرادِ کار کے انتخاب میں صلاحیت اور قابلیت کو معیار بنائیں، اور خاندانوں کی حکومت، مصاحبوں کی بادشاہ گری اور ذاتی مفادات کی غلامی سے نکل کر اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کے سامنے جواب دہی کا خوف رکھنے والے افراد کو ملک کی زمامِ کار سونپیں۔
___ پانچواں تقاضا یہ ہے کہ نظامِ اسلامی کے قیام کی جدوجہد میں اپنا وقت، صلاحیت، دولت، غرض جو کچھ ہمارے اختیار میں ہو، لگاتے وقت صبرواستقامت کے رویے کو اختیار کریں اور حالات کی نزاکت سے گھبرا کر یہ کبھی نہ سوچیں کہ اب تو یہ ملک ٹوٹنے کے قریب ہے۔ نااُمیدی کفر ہے اور رات کے بعد صبح کا نور اللہ کی سنت اور وعدہ ہے۔ ہماری ذمہ داری بس اتنی ہے کہ اپنی جانب سے کوششوں میں کوئی کسر نہ چھوڑیں اور سعی و جہد کے ساتھ اللہ پر توکل کریں اور یاد رکھیں کہ ہماری مساعی میں اضافہ ہی مسائل کا حل ہے ؎
کی محمدؐ سے وفا ُتو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا، لوح و قلم تیرے ہیں
(کتابچہ دستیاب ہے، قیمت: ۹ روپے۔ منشورات، منصورہ، ملتان روڈ، لاہور-۵۴۷۹۰)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
پاکستان کی داخلی سیاست میں ہر تھوڑے عرصے کے بعد، خصوصاً ایسے مواقع پر جب ملک کو سخت معاشی بحران اور سیاسی انتشار کا سامنا ہو، بعض ایسے معاملات کو جو غیرمتنازع اور اُمت کے اندر اجماع کی حیثیت رکھتے ہوں ،نئے سرے سے کھڑا کر دیا جاتا ہے تاکہ عوام کی توجہ کو معاشی اور سیاسی مسائل سے ہٹا کر ان معاملات میں اُلجھا دیا جائے اور غیرمتنازع امور کو متنازعہ بنا دیاجائے۔ اس سلسلے میں الیکٹرونک میڈیا باہمی مسابقت اور بعض دیگر وجوہ سے مسئلے کو اُلجھانے میں اور ان سوالات کو اُٹھانے میں سرگرم ہوجاتا ہے جو نام نہاد حقوق انسانی کے علَم بردار اور سیکولر لابی کے پسندیدہ موضوعات ہیں۔
ان موضوعات میں ایک قانونِ ناموس رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم ہے جس میں سیکولر لابی اور بیرونی امداد کے سہارے چلنے والی این جی اوز اور انسانی حقوق کے نام پر کام کرنے والے بعض ادارے نہ صرف خصوصی دل چسپی لیتے ہیں بلکہ منظم انداز میں سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے ملک کو تصادم کی طرف دھکیلنے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔
آج کل ایک مسیحی خاتون آسیہ بی بی کے حوالے سے ملکی صحافت اور ٹی وی چینل عوام الناس کو یہ باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ مروجہ قانون ایک انسانی قانون ہے۔ یہ کوئی الٰہی قانون نہیں ہے، اس لیے اسے تبدیل کرکے شاتمِ رسولؐ کے لیے جو سزا قانون میں موجود ہے، اسے ایسا بنادیا جائے جو ’مہذب دنیا‘ کے لیے قابلِ قبول ہوجائے (حالانکہ اس ’مہذب دنیا‘کے ہاتھوں دنیا کے گوشے گوشے میں معصوم انسانوں کے خون سے ہولی کھیلی جارہی ہے، اسی ’مہذب دنیا‘ نے ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے نام پر پوری دنیا میں دہشت گردی کا بازار گرم کررکھا ہے جس سے لاکھوں افراد لقمۂ اجل بن چکے ہیں اور اب بھی ہزاروں کو محض شبہے کی بنیاد پر گولیوں اور میزائل کا نشانہ بنایا جارہا ہے)۔ واضح رہے کہ موصوفہ کا معاملہ ابھی عدالت ِ عالیہ میں زیرسماعت ہے اور عوام کو گمراہ کرنے کے لیے ایک طوفان برپا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
گورنر پنجاب نے بھی اپنے اخباری بیان میں اسی بات پر زور دیا کہ یہ ایک انسان کا بنایا ہوا قانون (بلکہ العیاذ باللہ ان کے الفاظ میں: ’کالا قانون‘) ہے اور اسے تبدیل کیا جانا چاہیے۔ وہ اپنے منصب کے دستوری تقاضوں کو پامال کرتے ہوئے جیل میں پہنچ گئے اور ملزمہ کے ساتھ ایک پریس کانفرنس تک منعقد کرڈالی جو ملک میں نافذ دستور اور نظامِ قانون کی دھجیاں بکھیرنے کے مترادف تھی۔ ہم چاہیں گے کہ اس موضوع پر انتہائی اختصار کے ساتھ معاملے کے چند بنیادی پہلوئوں کی طرف صرف نکات کی شکل میں اشارتاً کچھ عرض کریں۔
مسئلے کا سب سے اہم اور بنیادی پہلو وہی ہے جسے ایک صوبائی گورنر نے متنازعہ بنانا چاہا ہے، یعنی شاتمِ رسولؐ کی سزا کیا انسانوں کی طے کی ہوئی شے ہے، یا یہ اللہ کا حکم ہے جس کی بنیاد قرآن و سنت کی واضح ہدایات اور نصوص ہیں، نیز کیا یہ حکم اسلام کے ساتھ خاص ہے یا یہ الٰہی قانون تمام مذاہب اور تہذیبوں کی مشترک میراث ہے۔ مناسب ہوگاکہ قرآن کریم یا سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف آنے سے قبل یہ دیکھ لیا جائے کہ کیا قبلِ اسلام اس نوعیت کا کوئی الہامی یا الٰہی حکم پایا جاتا تھا یا نہیں۔
یہودی اور عیسائی مذہب کی مقدس کتابوں عہدنامہ قدیم اور عہدنامہ جدید پر نظر ڈالی جائے تو عہدنامہ قدیم میں واضح طور پر یہ الفاظ ملتے ہیں:
you shall not revile God (Exodus 22: 28)
اس کا مفہوم یہ ہوگا: ’’تو خدا کو نہ کوسنا‘‘ اور بُرا بھلا نہ کہنا‘‘ (ملاحظہ ہو، کتاب مقدس پرانا اور نیا عہدنامہ، لاہور ۱۹۹۳ئ، بائبل سوسائٹی، ص ۷۵)۔ عہدنامہ قدیم میں آگے چل کر مزید وضاحت اور متعین الفاظ کے ساتھ یہ بات کہی گئی: اور جو خداوند کے نام پر کفر بکے ضرور جان سے مارا جائے۔ ساری جماعت اسے قطعی سنگسار کرے خواہ وہ دیسی ہو یا پردیسی جب وہ پاک نام پر کفر بکے تو وہ ضرور جان سے مارا جائے۔ (ایضاً احبار، باب ۲۴:۱۵-۱۷، ص ۱۱۸)
And he that blasphemeth the name of the Lord, he shall surely be put to death, and all the congregation shall certainly stone him: as well as the stranger, as he that is born in the Land, when he blashphemeth the name of the Lord, shall be put to death. (Leveticm 24: 11-16).
Wherefore I say unto you, all manner of sin and blasphemy shall be forgiven unto men: but to blasphemy against the Holy Christ, shall not be forgiven unto men. (Mathen 12:31)
اس کا مفہوم یہ ہوگا: ’’اس لیے میں تم سے کہتا ہوں کہ آدمیوں کا ہر گناہ اور کفر تو معاف کیا جائے گا مگر جو کفر روحِ مقدس کے بارے میں ہو، وہ معاف نہ کیا جائے گا‘‘ (متی باب ۱۲: ۳۱، کتاب مقدس، مطبوعہ بائبل سوسائٹی، انارکلی لاہور،۱۹۹۳ئ، میثاقِ جدید،ص ۱۵)
اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے جو شخص بغاوت (treason) کرتا ہے، قرآن کریم نے اس کی سزا کو واضح الفاظ میں بیان کیا ہے چنانچہ فرمایا گیا:
اِنَّمَا جَزٰٓؤُا الَّذِیْنَ یُحَارِبُوْنَ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ وَ یَسْعَوْنَ فِی الْاَرْضِ فَسَادًا اَنْ یُّقَتَّلُوْٓا اَوْ یُصَلَّبُوْٓا اَوْ تُقَطَّعَ اَیْدِیْھِمْ وَ اَرْجُلُھُمْ مِّنْ خِلَافٍ اَوْ یُنْفَوْا مِنَ الْاَرْضِ ط ذٰلِکَ لَھُمْ خِزْیٌ فِی الدُّنْیَا وَلَھُمْ فِی الْاٰخِرَۃِ عَذَابٌ عَظِیْمٌ o (المائدہ ۵:۳۳)جو لوگ اللہ سے اور اس کے رسولؐ سے لڑتے ہیں اور زمین میں اس لیے تگ و دو کرتے پھرتے ہیں کہ فساد برپا کریں ان کی سزا یہ ہے کہ قتل کیے جائیں، یا سولی پر چڑھائے جائیں، یا ان کے ہاتھ پائوں مخالف سمتوں سے کاٹ ڈالے جائیں، یا وہ جلاوطن کردیے جائیں۔
اِِنَّ الَّذِیْنَ یُحَآدُّوْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ کُبِتُوْا کَمَا کُبِتَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ وَقَدْ اَنْزَلْنَآ اٰیٰتٍم بَیِّنٰتٍ ط وَلِلْکٰفِرِیْنَ عَذَابٌ مُّہِیْنٌ o (المجادلہ ۵۸:۵) جو لوگ اللہ اور اس کے رسولؐ کی مخالفت کرتے ہیں وہ ذلیل کیے جائیں گے جس طرح ان سے پہلے لوگ ذلیل کیے گئے تھے اور ہم نے صاف اور کھلی آیتیں نازل کر دی ہیں جو نہیں مانتے ان کو ذلت کا عذاب ہوگا۔
گویا الٰہی قانون میں توہینِ رسالت (blasphemy )کی سزا بنی اسرائیل کے لیے، عیسائی مذہب کے پیروکاروں کے لیے، اور اُمت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے یکساں طور پر مجرم کا قتل کیا جانا ہے۔
ایک لمحے کے لیے اس پہلو پر بھی غور کرلینا مفید ہوگا کہ کیا ایسی سزا کا نفاذ ایک ایسی ہستیؐ کے مزاج، طبیعت اور شخصیت سے مناسبت رکھتا ہے جسے اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے تمام عالَموں کے لیے رحمت بناکر بھیجا ہو، جو خون کے پیاسوں کو قبائیں دینے کا حوصلہ رکھتا ہو، جو اپنے چچاؓ کے قاتلوں کو بھی معاف کردینے کا دل گردہ رکھتا ہو۔ بات بڑی آسان سی ہے۔ سیرتِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے تابناک ابواب میں سے فتح مکہ کے باب کا مطالعہ کیجیے تو معلوم ہوتا ہے کہ جن لوگوں نے ہرممکنہ ظلم مکّی دور میں آپؐ پر کیا، حضرت یوسف ؑ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے آپؐ نے ان سب کو معاف کر دیا، لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ___ لیکن بات یہاں رُک نہیں گئی ___ اس عظیم معافی کے باوجود وہ چار افراد جو ارتداد اور توہینِ رسالتؐ کے مرتکب ہوئے پیش کیے گئے تو ان کے قتل کا فیصلہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے خود فرمایا اور ان تین مردوں اور ایک خاتون کو موت کی سزا دی گئی۔ ان میں سے خاتون قریبہ جو ابن اخلی کی لونڈی تھی مکہ کی مغنیہ تھی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی اور ہجو پر مبنی گیت اس کا وتیرہ تھے۔ (ملاحظہ ہو: بخاری، فتح مکہ اور شبلی نعمانی کی سیرت النبیؐ، جلد اوّل، اعظم گڑھ، مطبع معارف، ۱۹۴۶ئ، ص ۵۲۵)
یہ محض ایک واقعے سے استدلال نہیں، نبی اکرمؐ کے ایک قانونی فیصلے کا معاملہ ہے جو اُمت کے لیے ہمیشہ کے لیے حجت ہے۔
قرآن و سنتِ رسولؐ کے ان نصوص کے بعد قرآن اور حدیث کو سند اور حجت ماننے والا کوئی شخص کس طرح یہ کہہ سکتا ہے کہ شاتمِ رسولؐ کی سزا قتل کے علاوہ کچھ اور ہوسکتی ہے۔ یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس پر اُمت مسلمہ کا اجماع ہے۔ چنانچہ وہ اہلِ سنت ہوں یا اہلِ تشیع، ۱۵ سو سال میں اس مسئلے پر کسی کا اختلاف نہیں پایا جاتا۔ اس سلسلے میں فقہاے اُمت میں علامہ ابن تیمیہ کی الصارم المسلول علی شاتم الرسولؐ، تقی الدین سبکی کی السیف المسلول علی من سب الرسولؐ، ابن عابدین شامی کی تنبیہ الولاۃ والحکام علی احکام شاتم خیرالانامؐ ان چند معروف کتب میں سے ہیں جو اس اجماعِ اُمت کو محکم دلائل اور شواہد کے ساتھ ثابت کرتی ہیں۔
پاکستان کے تناظر میں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ سیکولر لابی عموماً اس معاملے میں اپنا نزلہ مولویوں پر ہی گراتی ہے کہ یہ ان کا پیدا کردہ مسئلہ ہے ورنہ جو لوگ روشن خیال، وسیع القلب اور تعلیم یافتہ شمار کیے جاتے ہیں، وہ اس قسم کے معاملات میں نہ دل چسپی رکھتے ہیں اور نہ ایسے مسائل کی توثیق کرتے ہیں۔ مناسب ہوگا کہ اس حوالے سے صرف دو ایسی شخصیات کا تذکرہ کردیا جائے جنھیں سیکولر لابی کی نگاہ میں بھی ’روشن خیال‘، ’وسیع القلب‘ اور’ تعلیم یافتہ‘ تسلیم کیا جاتا ہے اور اس کے ساتھ مغربی قانون اور فلسفۂ قانون پر ان کی ماہرانہ حیثیت بھی مسلّم ہے۔ گویا کسی بھی زاویے سے انھیں مولویوں کے زمرے میں شمار نہیں کیا جاسکتا، یعنی بانیِ پاکستان قائداعظم محمدعلی جناح اور تصورِ پاکستان کے خالق اور شارح علامہ ڈاکٹر محمد اقبال۔
اس خطے میں جب غازی علم الدین شہید نے ایک شاتمِ رسولؐ کو قتل کیا تو ملزم کا وکیل کوئی ’مولوی‘ نہیں وہی ’روشن خیال‘ برطانیہ میں تعلیم پانے والا، اصول پرست اور کھرا انسان محمد علی جناح تھا جس نے کبھی کوئی جھوٹا یا مشتبہ مقدمہ لڑنا پسند نہیں کیا اور اپنے ملزم کے دفاع میں اور ناموسِ رسولؐ کے دفاع میں اپنی تمام تر صلاحیت کو استعمال کیا۔ اور جب غازی علم الدین کی تدفین کا مرحلہ آیا تو ’روشن دماغ‘ علامہ اقبال نے یہ کہہ کر اسے لحد میں اُتارا کہ’’ایک ترکھان کا بیٹا ہم پڑھے لکھوںپر بازی لے گیا‘‘۔
سوچنے کی بات صرف اتنی سی ہے کہ کیا یہ دو ماہر قانون دان ’حریت بیان‘، ’قلم کی آزادی‘ ، ’انسان کے پیدایشی حقِ اظہار‘ سے اتنے ناواقف تھے کہ ’جذبات‘ میں بہہ گئے۔
معاملے کا دوسرا پہلو حقوقِ انسانی سے تعلق رکھتا ہے۔ ہر انسان کو یہ حق ہے کہ وہ اپنی راے کا اظہار کرے اور اگر کوئی چیز قابلِ تنقید ہو تو اس پر تنقید بھی کرے، لیکن کسی بھی انسان کو آزادیِ قلم اور حریت بیان کے بہانے یہ آزادی نہیں دی جاسکتی کہ وہ کسی دوسرے فرد کی عزت، ساکھ، معاشرتی مقام اور کردار کو نشانہ بناکر نہ صرف اس کی بلکہ اُس سے وابستہ افراد کی دل آزاری کا ارتکاب کرے۔
اگر یورپ کے بعض ممالک میں (مثلاً ڈنمارک، اسپین، فن لینڈ، جرمنی، یونان، اٹلی، آئرلینڈ، ناروے، نیدرلینڈ، سوئٹزرلینڈ، آسٹریا وغیرہ) آج تک blasphemy یا مذہبی جذبات مجروح کرنے پر قانون پایا جاتا ہے اور برطانیہ جیسے رواداری والے ملک میں ملکہ کے خلاف توہین blasphemy کی تعریف میں آتی ہے، تو کیا کسی کارٹونسٹ یا کم تر درجے کے ادیب یا ادیبہ بلکہ کسی بھی فرد کو یہ حق دیا جاسکتا ہے کہ وہ گھٹیا ادب کے نام پر جو ہرزہ سرائی چاہے کرے۔ معاملہ تحریر کا ہو یا تقریر کا، ہر وہ لفظ اور ہر وہ بات جو ہتک آمیز ہو، اسے ’آزادیِ راے‘ کے نام پر جائز قرار نہیں دیا جاسکتا۔ یہ ایسی بدیہی حقیقت ہے جس کا انکار کوئی عقل کا اندھا ہی کرسکتا ہے۔ کسی بھی مہذب معاشرے میں آزادیِ راے کے نام پر کسی دوسرے کے حقِ شہرت، حقِ عزت کو پامال نہیں کیا جاسکتا۔ اگر ایسا کیا جائے گا تو یہ بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوگی۔
سیکولر اور آزاد خیال دنیا جس چیز کو اہم سمجھتی ہے، اس پر حرف گیری کو جرم قرار دیتی ہے اور عملاً اپنے پسندیدہ تصورات اور واقعات پر تنقید، محاسبے اور بحث و استدلال تک کو گوارا کرنے کے لیے تیار نہیں۔
آج جو لوگ اللہ کی مقدس کتابوں کی تحقیر و تذلیل اور اللہ کے پاک باز رسولوں کو سب و شتم کا نشانہ بنانے سے روکنے کو آزادیِ راے اور آزادیِ اظہار کے منافی قرار دیتے ہیں اور ان گھنائونے جرائم کے مرتکبین کو پناہ دینے میں شیر ہیں، ان کا اپنا حال یہ ہے کہ جرمنی میں ہٹلر کے دور میں یہودیوں پر جو مظالم ڈھائے گئے اور جنھیں بین الاقوامی قانون اور سیاست کی اصطلاح میں ’ہولوکاسٹ‘ کہا جاتا ہے محض یہودیوں اور صہیونیت کے علَم برداروں کو خوش کرنے کے لیے ان پر تنقید کو اپنے دستور یا قانون میں جرم قرار دیتے ہیں۔ ایسے محققین، مؤرخین اور اہلِ علم کو جو دلیل اور تاریخی شہادتوں کی بنا پر ’ہولوکاسٹ‘ کا انکار نہیں صرف اس کے بارے میں غیرحقیقی دعووں پر تنقید و احتساب کرتے ہیں، نہ صرف انھیں مجرم قرار دیتے ہیں بلکہ عملاً انھیں طویل مدت کی سزائیں دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر آسٹریا کا قانون National Socialism Prohibition Law 1947 amended 1992کی رُو سے جو مندرجہ ذیل جرم کا ارتکاب کرے گا:
Whoever denies, grossly plays down, approves, or tries to excuse the National Socialist genocide or other National Socialist crimes against humanity in print publication, in broadcast or other media....will be punished with imprisonment from one to ten years, and in cases of particularly dangerous suspects or activity be punished with upto twenty years imprisonment.
جو کوئی طباعتی، نشری یا کسی اور میڈیا میں انسانیت کے خلاف قومی سوشلسٹ جرائم یا قومی سوشلسٹ نسل کشی کا انکار کرتا ہے، یا اسے بہت زیادہ کم کر کے بیان کرتا ہے یا اس کے لیے عذر فراہم کرتا ہے، اسے ایک تا ۱۰ سال کی سزاے قید اور خصوصی طور پر خطرناک مجرموں کو یا سرگرمیوں پر ۲۰سال تک کی سزاے قید دی جاسکے گی۔
آسٹریا میں یہ قانون کتابِ قانون کی صرف زینت ہی نہیں ہے بلکہ عملاً دسیوں محققین، اہلِ علم، صحافیوں اور سیاسی شخصیات کو سزا دی گئی ہے اور برسوں وہ جیل میں محبوس رہے ہیں۔ اس سلسلے کے مشہور مقدمات میں مارچ ۲۰۰۶ء میں برطانوی مؤرخ ڈیوڈ ارونگ کو ایک سال کی سزا اور جنوری ۲۰۰۸ء میں وولف گینگ فرولچ کو ساڑھے چھے سال کی سزا دی گئی اور عالمی احتجاج کے باوجود انھیںاپنی سزا بھگتنی پڑی۔ حقوقِ انسانی کے کسی علَم بردار ادارے یا ملک نے ان کی رہائی کے لیے احتجاج نہیں کیا اور نہ سیاسی پناہ دے کر ہی انھیں اس سزا سے نجات دلائی۔ یورپ کے جن ممالک میں محض ایک تاریخی واقعے کے بارے میں اظہار یا تخفیف کے اظہار کو جرم قرار دیا گیا ان میں آسٹریا کے علاوہ بلجیم۱؎ ، چیک ری پبلک ۲؎، فرانس ۳؎، جرمنی۴؎، ہنگری۵؎ ،سوئٹزرلینڈ۶؎،لکسمبرگ۷؎ ، ہالینڈ۸؎ اور پولینڈ۹؎میں قوانین موجود ہیں۔ اسی طرح اسپین،پرتگال اور رومانیہ میں بھی قوانین موجود ہیں۔
سوال یہ ہے کہ اگر ایک عام آدمی کی عزت کی حفاظت کے لیے Law of Libel and Slander آزادیِ اظہار کے خلاف نہیں اور ہولوکاسٹ کے انکار یا بیان میں تحقیر یا تخفیف کو جرم قابلِ سزا تسلیم کیا جاتا ہے تو اللہ کے رسولوں اور انسانیت کے محسنوں اور رہنمائوں کی عزت و ناموس کی حفاظت کے قوانین نعوذ باللہ ’کالے قوانین‘ کیسے قرار دیے جاسکتے ہیں۔
رہی آج کی مہذب دنیا جو انسانی جان، آزادی اور اظہار راے کی محافظ اور علَم بردار بن کر دوسرے ممالک اور تہذیبوں پر اپنی راے مسلط کرنے کی جارحانہ کارروائیاں کررہی ہے، وہ کس منہ سے یہ دعویٰ کر رہی ہے جب اس کا اپنا حال یہ ہے کہ محض شبہے کی بنیاد پر دوچار اور دس بیس نہیں لاکھوں انسانوں کو اپنی فوج کشی اور مہلک ہتھیاروں سے موت کے گھاٹ اُتار رہی ہے۔ بیسویں صدی انسانی تاریخ کی سب سے خوں آشام صدی رہی ہے۔ جس میں صرف ایک صدی میں دنیا کی کُل آبادی کا ۳ئ۷ فی صد استعماری جنگوں اور مہم جوئی کی کارروائیوں میں لقمۂ اجل بنا دیا گیا ہے اور اکیسویں صدی کا آغاز ہی افغانستان اور پاکستان میں بلاامتیاز شہریوں کو ہلاک کرنے سے کیا گیا ہے ؎
اتنی نہ بڑھا پاکیِ داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ، ذرا بند قبا دیکھ
قانون توھینِ رسالتؐ کی ضرورت
تیسرا قابلِ غور پہلو اس قانون کا اجماعی قانون ہونا ہے۔ یہ کسی آمر کا دیا ہوا قانون ہے یا پارلیمنٹ کا پاس کردہ، اس پر تو ہم آگے چل کر بات کریں گے۔ یہاں صرف یہ بتانا ہے کہ اس قانون کی ضرورت کم از کم چار وجوہات کی بنا پر تھی:
اوّل، یہ قانون ملزم کو عوام کے رحم و کرم سے نکال کر قانون کے دائرے میں لاتا ہے۔ اس طرح اسے عدلیہ کے فاضل ججوں کے بے لاگ اور عادلانہ تحقیق کے دائرے میں پہنچا دیتا ہے۔ اب کسی کے شاتم ہونے کا فیصلہ کوئی فرد یا عوامی عدالت نہیں کرسکتی۔ عوام کے جذبات اور دخل اندازی کی گنجایش ختم ہوجاتی ہے۔ جب تک فاضل عدالت پوری تحقیقات نہ کرلے، ملزم کو صفائی کا موقع فراہم نہ کرے، کوئی اقدام نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے یہ قانون سب سے زیادہ تحفظ ملزم ہی کو فراہم کرتا ہے اور یہی اس کے نفاذ کا سب سے اہم پہلو ہے۔
دوم، یہ قانون دستورِ پاکستان کا تقاضا ہے کیونکہ دستورِ پاکستان ریاست کو اس بات کا ذمہ دار ٹھیراتا ہے کہ وہ اسلامی شعائر کا احترام و تحفظ کرے اور ساتھ ہی مسلمان اور غیرمسلم شہریوں کے حقوق کو پامال ہونے سے بچائے۔
سوم، یہ قانون پاکستان کی ۹۵ فی صد آبادی کے جذبات کا ترجمان ہے جس کا ہر فرد قرآن کریم اور حدیثِ رسولؐ کے ارشادات کی رُو سے اس وقت تک مسلمان نہیں ہوسکتا جب تک حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ اپنی جان، اپنے والدین، دنیا کی ہرچیز والد والدہ اور تمام انسانوں سے زیادہ محبوب نہ رکھے۔ (بخاری ، مسلم)
یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ National Commission for Justice & Peace کی رپورٹ یہ بتاتی ہے کہ ۱۹۸۶ء سے ۲۰۰۹ء تک اس قانون کے حوالے سے پاکستان میں کُل ۹۶۴ مقدمات زیرسماعت آئے جن میں ۴۷۹ کا تعلق مسلمانوں سے، ۳۴۰ کا احمدیوں سے، ۱۱۹ کا عیسائیوں سے، ۱۴ کا ہندوئوں سے اور ۱۲ کا دیگر مسالک کے پیروکاروں سے تھا۔ ان تمام مقدمات میں سے کسی ایک میں بھی اس قانون کے تحت عملاً کسی کو سزاے موت نہیں دی گئی۔ عدالتیں قانون کے مطابق انصاف کرانے کے عمل کے تمام تقاضے پورا کرتی ہیں، جب کہ سیکولر لابی ہر ملزم کو مظلوم بناکر پیش کرتی ہے۔ انصاف کے عمل کو سبوتاژ کیا جاتا ہے۔ میڈیاوار اور بیرونی حکومتوں، اداروں اور این جی اوز کا واویلا قانون کی آنکھوں میں دھول جھونکنے، قانون کی عمل داری اور انصاف کی فراہمی کے عمل کو ناکام کرنے میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ یہ عجیب بات ہے کہ ایک شخص اگر نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں ہتک، توہین، سب و شتم کا ارتکاب کرتا ہے تو عدالت کو حقیقت کو جاننے اور اس کے مطابق مقدمے کا فیصلہ کرنے سے روک دیا جاتا ہے۔ صحافت اور الیکٹرونک میڈیا اور این جی اوز اس کی ہمدردی اور ’مظلومیت‘ میں رطب اللسان ہوجاتے ہیں، حالانکہ مسئلہ ایک عظیم شخصیت انسانِ کامل اور ہادیِ اعظم کو نشانہ بنانے کا اور کروڑوں مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنے کا ہے۔ کیا اہانت اور استہزا کو محض ’آزادیِ قلم و لسان‘ قرار دیا جاسکتا ہے؟ کیا اسی کا نام عدل و رواداری ہے؟ حقیقی مظلوم کون ہے؟
جو کھیل ہمارے یہ آزادی کے علَم بردار کھیل رہے ہیں وہ نہ اخلاق کے مسلّمہ اصولوں سے مطابقت رکھتا ہے اور نہ انصاف کے تقاضوں سے ان کا کوئی تعلق ہے۔ یہ محض جانب داری اور من مانی کا رویہ ہے۔ اسلام ہر فرد سے انصاف کا معاملہ کرنے کا حکم دیتا ہے اور ایک شخص اس وقت تک صرف ملزم ہے مجرم نہیں جب تک الزام عدالتی عمل کے ذریعے ثابت نہیں ہوجاتا۔ لیکن جس طرح عام انسانوں کا جذبات کی رو میں بہہ کر ایسے ملزم کو ہلاک کردینا ایک ناقابلِ معافی جرم ہے، اسی طرح ایسے فرد کو الزام سے عدالتی عمل کے ذریعے بری ہوئے بغیر مظلوم قرار دے کر اور سیاسی اور بین الاقوامی دبائو کو استعمال کر کے عدالتی عمل سے نکالنا بلکہ ملک ہی سے باہر لے جانا بھی انصاف کا خون کرنا ہے اور لاقانونیت کی بدترین مثال ہے۔
آسیہ کیس کے بارے میں دی نیوز کی وہ رپورٹ بڑی اہمیت کی حامل ہے جو ۲۶نومبر کے شمارے میں شائع کی گئی ہے اور جس میں اس امر کی نشان دہی کی گئی ہے کہ یہ واقعہ جون ۲۰۰۹ء کا ہے جس کو ایس پی پولیس کی سطح پر واقعے کے فوراً بعد شکایت کرنے والے ۲۷ گواہوں اور ملزمہ کی طرف سے پانچ گواہوں سے تفتیش کے بعد سیشن عدالت میں دائر کیا گیا۔ ملزمہ نے ایک جرگے کے سامنے اپنے جرم کا اعتراف کیا اور معافی کی درخواست کی۔ مقدمے کے دوران کسی ایسے دوسرے تنازعے کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا جسے اب وجہِ تنازع بنایا جا رہا ہے۔ جس جج نے فیصلہ دیا ہے وہ اچھی شہرت کا حامل ہے اور ننکانہ بار ایسوسی ایشن کے صدر راے ولایت کھرل نے جج موصوف کی دیانت اور integrity کا برملا اعتراف کیا ہے۔ رپورٹ میں یہ بات بھی صاف الفاظ میں درج ہے کہ:
علاقے کی بار ایسوسی ایشن کا دعویٰ ہے کہ اصل فیصلے کو پڑھے بغیر شوروغوغا کیا جا رہا ہے، حالانکہ عدالت میں ملزمہ کے بیان میں کسی دشمنی یا کسی سیاسی زاویے کا ذکر نہیں جس کا اظہار اب کچھ سیاست دانوں یا حقوقِ انسانی کے چیمپئن اور این جی اوز کی طرف سے کیا جا رہا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اصل فیصلے کے مندرجات کو یکسر نظرانداز کر کے اس کیس کو سیاسی انداز میں اُچھالا جارہا ہے اور قانون ناموسِ رسالتؐ کو ہدف بنایا جا رہا ہے۔ ہم اس رپورٹ کے باوجود یہ سمجھتے ہیں کہ ابھی عدالتی عمل کے اہم مراحل موجود ہیں۔ ہائی کورٹ میں اپیل اور سپریم کورٹ سے استغاثہ وہ قانونی عمل ہے جس کے ذریعے انصاف کا حصول ممکن ہے اور دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوسکتا ہے۔ لیکن اس عمل کو آگے بڑھانے کے بجاے ایک گروہ اسے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کر رہا ہے، اور اس سے بھی زیادہ قابلِ مذمت بات یہ ہے کہ تحفظ ناموس رسالتؐ کے قانون ہی کی تنسیخ یا ترمیم کا کو رَس برپا کیا جا رہا ہے جو ایک خالص سیکولر اور دین دشمن ایجنڈے کا حصہ ہے۔ پاکستان کی حکومت اور قوم کو اس کھیل کو آگے بڑھنے کی اجازت نہیں دینا چاہیے۔
آزادیِ اظہار کے نام پر جرم کی تحلیل اور مجرموں کی توقیر کا دروازہ کھلنے کا نتیجہ بڑی تباہی کی شکل میں رونما ہوسکتا ہے۔ جیساکہ ہم نے عرض کیا یہ قانون ایک حصار ہے اور ایک طرف دین اور شعائر دین کے تحفظ کا ذریعہ ہے تو دوسری طرف سوسائٹی میں رونما ہونے والے کسی ناخوش گوار واقعے کو قانون کی گرفت میں لانے اور انصاف کے عمل کا حصہ بنانے کا ذریعہ ہے ورنہ معاشرے میں تصادم، فساد اور خون خرابے کا خطرہ ہوسکتا ہے جس کا یہ سدباب کرتا ہے۔ قانون اپنی جگہ صحیح، محکم اور ضروری ہے۔ قانون کے تحت پورے عدالتی عمل ہی کے راستے کو ہر کسی کو اختیار کرنا چاہیے، نہ عوام کے لیے جائز ہے کہ قانون اپنے ہاتھ میں لیں اور نہ ان طاقت ور لابیز کو یہ زیب دیتا ہے کہ وہ قانون کا مذاق اُڑائیں اور عدالتی عمل کی دھجیاں بکھیرنے کا کھیل کھیلیں۔ معاشرے میں رواداری، برداشت اور قانون کے احترام کی روایت کا قیام ازبس ضروری ہے اور آج ہر دو طرف سے قانون کی حکمرانی ہی کو خطرہ ہے۔
حق تو یہ ہے کہ یہ قانون نہ صرف اہلِ ایمان بلکہ ہر ایسے انسان کے لیے اہمیت رکھتا ہے جو رواداری، عدل و انصاف اور معاشرے میں افراد کی عزت کے تحفظ پر یقین رکھتا ہو۔ یہ معاملہ محض خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس کا نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کے لیے ہر نبی اور ہر رسول کی عزت و ناموس محترم ہے۔ اس لیے اس قانون کو نہ تو اختلافی مسئلہ بنایا جاسکتا ہے اور نہ اسے یہ کہہ کر کہ یہ محض ایک انسانی قانون ہے، تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ ہاں، اگر کہیں اس کے نفاذ کے حوالے سے انتظامی امور یا کارروائی کو زیادہ عادلانہ بنانے کے لیے طریق کار میں بہتری پیدا کرنے کی ضرورت ہو، تو دلیل اور تجربے کی بنیاد پر اس پر غور کیا جاسکتا ہے اور قانون کے احترام اور اس کی روح کے مطابق اطلاق کو مؤثر بنانے کے لیے ضروری اقدام ہوسکتے ہیں تاکہ عدالت جلد اور معقول تحقیق کرنے کے بعد فیصلے تک پہنچ سکے۔ بیرونی دبائو اور عالمی استعمار اور سیکولر لابی کی ریشہ دوانیوں کے تحت قانون کی تنسیخ یا ترمیم کا مطالبہ تو ہمارے ایمان، ہماری آزادی، ہماری عزت اور ہماری تہذیب کے خلاف ایک گھنائونی سازش ہی نہیں ان کے خلاف اعلانِ جنگ ہے جن کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے۔ معذرت خواہانہ رویہ دراصل کفر کی یلغار اور دشمنوں کی سازشوں کے آگے ہتھیار ڈالنے کے مترادف ہوگا۔
میڈیا،این جی اوز، عیسائی اور احمدی لابی اور پیپلزپارٹی کے گورنر اور ترجمانوں کی ہائو ہو کو ناکافی سمجھتے ہوئے اور استعماری قوتوں کی ہاں میں ہاں ملانے کے لیے پیپلزپارٹی کی ایک رکن پارلیمنٹ نے عملاً قومی اسمبلی میں توہینِ رسالتؐ کے قانون میں ترامیم کی نام پر ایک شرانگیز مسودہ قانون جمع کروا دیا ہے، جو اَب قوم کے سامنے ہے اور اس کے ایمان اور غیرت کا امتحان ہے۔ اس قانون کے دیباچے میں قائداعظم کی ۱۱؍اگست ۱۹۴۷ء کی تقریر کو ایک بار پھر اس کے اصل پس منظر اور مقصد سے کاٹ کر اپنے مخصوص نظریات کی تائید میں استعمال کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور سارا کھیل یہ ہے کہ دین و مذہب کا ریاست اور قانون سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ قانون سازی کو شریعت کی گرفت سے باہر ہونا چاہیے حالانکہ یہ اس بنیادی تصور کی ضد ہے جس پر تحریکِ پاکستان برپا ہوئی اور جس کے نتیجے میں پاکستان قائم ہوا ہے اور جسے قرارداد مقاصد میں تسلیم کیا گیا، وہ قراردادِ مقاصد جسے سیکولر لابی کی تمام ریشہ دوانیوں کے باوجود پاکستان کے دستور کی بنیاد اور اساسی قانون (grundnorm) تسلیم کیا گیا ہے۔
قائداعظم کی اس تقریر کو قائداعظم کی دوسری تمام متعلقہ تقاریر کے ساتھ ہی سمجھا جاسکتا ہے۔ اس تقریر کی اس سے زیادہ کوئی اہمیت نہیں کہ تقسیمِ ملک کے خوں آشام حالات میں قائداعظم نے اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت دی جو وہ اس سے پہلے ہی بارہا دے چکے تھے اور جو پوری پاکستانی قوم کا عہد ہے۔ لیکن اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ مذہب کا اور شریعت کا قانون سے کوئی تعلق نہیں اور ریاست پاکستان قانون سازی کے باب میں اسی طرح آزاد ہے جس طرح ایک لادین ملک ہوتا ہے تو یہ حقیقت کے خلاف اور اقبال اور قائداعظم پر ایک بہتان ہے۔
۲۴ نومبر ۲۰۱۰ء کو پارلیمنٹ میں جو بل داخل کیا گیا ہے اس میں محرک نے یہ درخواست کی ہے کہ مروجہ قانونِ توہینِ رسالتؐ 295-C اور اس سے متعلقہ دیگر دفعات میں بنیادی تبدیلیاں کی جائیں۔ بل میں جو تبدیلیاں تجویز کی گئی ہیں ان کا مقصد ترمیم نہیں، بلکہ اس قانون کی عملی تنسیخ ہے۔
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ترمیم کی ضرورت پر غور کرلیا جائے۔ ترمیم کا عمومی مقصد قانون کی روح کو برقرار رکھتے ہوئے کسی ایسے پہلو کا دُور کرنا ہوتا ہے جو قانون کے نفاذ میں رکاوٹ پیدا کر رہا ہو یا کسی ایسے پہلو کی تکمیل مقصود ہو جو مروجہ قانون میں رہ گیا ہو۔ اس حیثیت سے اگر حالیہ قانون کی دفعہ 295-C اور مجوزہ ترمیم کے الفاظ کا مقابلہ کیا جائے تو صورت حال کچھ مختلف نظر آتی ہے۔ مروجہ قانون میں 295-B میں ارتکاب جرم کرنے والے کے لیے سزا عمرقید ہے، shall be punishable with imprisonment to life۔ 295 میں الفاظ ہیں: shall be punished with deathجب کہ مجوزہ بل میں 295-B کے لیے جو متبادل الفاظ تجویز کیے گئے ہیں وہ ہیں: shall be punishable with imprisonment of either description for a term which may extend to five years or with fine or both.۔ اسی طرح 295-C کے لیے جو متبادل الفاظ تجویز کیے گئے ہیں وہ یہ ہیں: shall be punishable with imprisonment of either description for a term
which may extend to ten years or with fine or with both.
گویا دونوں مجوزہ دفعات میں اگر کوئی فرق ہے تو صرف قید کی مدت، یعنی 295-B میں حد سے حد پانچ سال ، 295-CV میں حد سے حد ۱۰ سال! جو بھلا انسان بھی باہوش و حواس اس تقابل کو دیکھے گا وہ یہی کہے گا کہ اس تجویز کا اصل کام ’تنسیخ‘ ہے ترمیم نہیں۔ واضح رہے کہ اس میں قید اور جرمانہ کے درمیان’یا‘ کا رشتہ قائم کیا گیا ہے۔ گویا سزا کے بغیر صرف جرمانہ، جس کا بھی تعین نہیں کیا گیا ادا کرکے کوئی بھی شاتمِ رسولؐ اُمت مسلمہ کے جذبات کا خون اور اُن کی آنکھوں میں دھول جھونک سکتا ہے۔
اس تجویز میں ناموسِ رسالتؐ کو پامال کرنے والے کے لیے قرآن و سنت اور اجماعِ اُمت کے فیصلے کی جگہ ملزم کو معصوم اور بے گناہ تصور کرتے ہوئے ساری ہمدردی اسی کے پلڑے میں ڈال دی گئی ہے۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ناموسِ رسالتؐ یا قرآن کریم کی بے حُرمتی کرنا ایک اتنا ہلکا سا جرم ہے کہ اگر حد سے حد پانچ سال یا ۱۰ سال کی قید دے دی جائے یا صرف چند روپے جرمانہ کردیا جائے تو اس گھنائونے جرم کی قرارواقعی سزا ہوجائے۔ یہ بھی نہ بھولیے کہ اس سزا کو چندلمحات بعد کوئی نام نہاد صدرِ مملکت معاف بھی کر دے تو اُمت مسلمہ بری الذمہ ہوجائے گی!
ہمارے خیال میں کسی مسلمان سے یہ توقع نہیں رکھی جاتی کہ اگر اس کے نسب کے بارے میں ایک بُرا لفظ منہ سے نکالا جائے تو وہ کہنے والے کی زبان کھینچنے کو اپنا حق نہ سمجھے لیکن اگر قرآنِ کریم یا خاتم النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی حملہ ہو اور کھلی بغاوت ہو تو ’رواداری‘ اور ’عفوودرگزر‘ میں پناہ دی جائے۔
معلوم ہوتا ہے کہ یہ تجویز پیش کرنے والوں کے خیال میں کسی کی عزت، جذبات، شخصیت اور مقام پر حملہ کرنا تو ’انسانی حق‘، ’آزادی راے‘ اور ’اقلیتی حقوق‘ کی بنا پر ایک نادانستہ غلطی مان لیا جائے، اور جس پر یہ حملہ کیا جا رہا ہے، جس کی شخصیت کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اس کے ساتھ اس زیادتی کو نہ ظلم کہا جائے، نہ اسے انسانی حقوق کی پامالی سمجھا جائے، بلکہ الزام تراشی کرنے والے کو معصوم ثابت کرنے اور جرم کی سنگینی اور گھنائونے ہونے کو کم سے کم کیا جائے اور عملاً اس جرم پر گرفت ایک سنگین جرم بنا دیا جائے۔ گویا ع
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
یہ بل ملت اسلامیہ کے ایمان، حب ِ رسولؐ اور عظمتِ قرآن کے ساتھ ایک ہتک آمیز مذاق کی حیثیت رکھتا ہے ،اور اقلیتوں کے ’تحفظ‘ کے نعرے کے زور سے اُمت مسلمہ کی اکثریت کو بے معنی قرار دیتے ہوئے اس کی روایات اور قرآن و سنت کے واضح فیصلوں کی تردید بلکہ تنسیخ کرتا ہے۔
اس موقع پر یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ پاکستان ہی میں نہیں، پوری دنیا میں جہاں کہیں بھی مسلمان مسلم ممالک میں غالب اکثریت رکھتے ہیں غیرمسلموں کا تحفظ ان کا دینی فریضہ ہے۔ اللہ اور اس کے رسولؐ نے ان کا ذمہ لیا ہے، اس لیے کوئی مسلمان ان کی جان، مال اور عزت کو اپنے لیے حلال نہیں کرسکتا لیکن کوئی شخص مسلمان ہو یا غیرمسلم، اسے یہ حق نہیں دیا جاسکتا کہ وہ برسرِعام جب چاہے قرآن اور صاحب ِ قرآن علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بے حُرمتی کا مرتکب بھی ہو اور اس پر کوئی قانونی کارروائی بھی نہ کی جائے کہ ایسا کرنے سے بعض پڑوسی ناراض ہوجائیں گے۔
Anyone making a false or frivolous accusation under any of the sections 295-A, 295 B and 295-c, of the Pakistan Penal Code shall be punished in accordance with similar punishment prescribed in the Section under which the false or frivolous accusation was made.
حیرت ہوتی ہے کہ ہمارے ملک میں ایسے افراد قانون کی پاسبانی کا دعویٰ کرتے ہیں جو قانون کے بنیادی تصورات کو کھلے عام پامال کرنے پر آمادہ ہیں۔ ملزم کے ساتھ تمام تر ہمدردی کے باوجود کیا ۱۵ سو سال میں ایک واقعہ بھی ایسا پیش کیا جاسکتا ہے کہ ایک شخص نے کسی پر بدکاری کا الزام لگایا جس کے ثابت ہونے کی شکل میں بدکار کو سنگسار کیا جانا تھا لیکن الزام ثابت نہ ہوسکا تو الزام لگانے والے کو سنگسار کر دیا گیا ہو۔ قذف کا قانون اسلامی قانون کا حصہ ہے لیکن وہ نصوص پر مبنی ہے اور صرف زنا کے ایک جرم کے ساتھ خاص ہے۔ البتہ اتہام، جھوٹی شہادت وغیرہ تعزیری جرم ہوسکتے ہیں اور ان پر ضرورت اور حالات کے مطابق غور کیا جاسکتا ہے مگر جھوٹے گواہ کو ہمیشہ کے لیے ناقابلِ قبول گواہ قرار دینا اسلام کے تعزیری قانون کا حصہ ہے۔ لیکن جس طرح یہاں ان نامساوی چیزوں کو برابر برابر (juxtapose) کیا گیا ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ قانون کا صحیح نفاذ نہیں بلکہ قانون سے جان چھڑانے کا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ جو تصور اس ترمیم میں پیش کیا گیا ہے کیا تمام تعزیری قوانین پر اس کا اطلاق ہوگا؟ اس کا اصولِ قانون و انصاف سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ تو جنگل کے قانون کی طرف مراجعت کا نسخہ معلوم ہوتا ہے! کیا اس سے یہ نتیجہ نکالنا غلط ہوگا کہ ہمارا حکمران طبقہ اس معاملے میں شاید اُس مقامِ زوال تک پہنچ گیا ہے جہاں عقل کا استعمال قابلِ دست اندازی پولیس جرم تصور کر لیا جائے گا؟
اسلامی قانون میں قذف کی سزا کی موجودگی میں نہ تو حد میں اضافہ ہوسکتا ہے اور نہ قذف کے ملزم پر زنا کی حد جاری کی جاسکتی ہے۔ ایک پارلیمنٹ کے رکن کی جانب سے ردعمل کی بنیاد پر یہ تجویز بنیادی انسانی حقوق اور قانون کے فطری اصولوں کے ساتھ گھنائونا مذاق ہے۔ اللہ تعالیٰ ہماری قوم کو سمجھ بوجھ سے نوازے تاکہ وہ اپنی فکری غلطیوں کو محسوس کرسکے۔
ایک ایسے قانون کو جسے ملک کی وفاقی شرعی عدالت نے تجویز کیا ہو، جسے پارلیمنٹ اور سینیٹ کے اجلاس نے متفقہ طور پر قانون کا درجہ دیا ہو، محض یہ کہہ کر ایک طرف رکھ دینا کہ یہ فلاں فوجی آمر کے دور میں پارلیمنٹ نے بنایا، ہرگز قابلِ قبول نہیں ہوسکتا۔ نیز یہ دستورِ پاکستان کے ساتھ ایک مذاق کے مترادف ہے۔
۱۸۶۰ء سے ۱۹۹۲ء تک جو قانون عوامی ضرورت کی بنا پر وجود میں آیا جس میں ناموسِ رسولؐ کے تحفظ کے لیے اضافی قانون شامل کیا گیا وہ ایک غیر متنازع اور متفق علیہ معاملہ ہے۔ اسے ایسے وقت میں ایک اختلافی مسئلہ بنا کر پیش کرنا جب ملک کو شدید معاشی زبوں حالی اور سیاسی انتشار کا سامنا ہے، ملک کے باشندوں کے ساتھ بے وفائی اور ان کے جذبات کو مجروح کرنے کی ایک ناپاک کوشش ہے۔
اس امر کی ضرورت ہے کہ یک طرفہ پروپیگنڈے بلکہ ایک نوعیت سے کروسیڈ کا بھرپور انداز میں مقابلہ کیا جائے۔ اس موقع پر اہلِ حق کی خاموشی ایک جرم کا درجہ رکھتی ہے۔ اور اس بات کا خطرہ ہے کہ اس سے ان عناصر کو شہ ملے گی جو دلیل، قانون اور سیاسی عمل کے ذریعے اصلاح سے مایوس ہوکر تشدد کے راستے کو ترجیح دینے لگتے ہیں۔ جہاں قانون کا منصفانہ نفاذ وقت کی ضرورت ہے اور عوام و خواص سب کی تعلیم اور راے عامہ کی استواری ضروری ہے، وہیں اس بات کی ضرورت ہے کہ ایک مبنی برحق قانون کو جھوٹے سہاروں اور نفاذ کے باب میں مبینہ بدعنوانیوں کے نام پر قانون کو مسخ کرنے کی کوشش کا دلیل اور عوامی تائید کے ذریعے مقابلہ کیا جائے ۔ میڈیا پر ناموسِ رسالتؐ کے قانون کا مؤثر دفاع اوراس کی ضرورت اور افادیت کے تمام پہلوئوں کو اُجاگر کیا جائے، وہیں عمومی تعلیم اور انتظامیہ، پولیس اور عدالت سب کے تعاون سے اس قانون کے غلط استعمال کو جہاں کہیں بھی ہو، قانون اور عدل و انصاف کے معروف ضابطوں کے مطابق روکا جائے، اور جو عناصر مسلمانوں کے ایمان اور ان کے جذبات سے کھیلنے پر تلے ہوئے ہیں اور جو کردار ان کے آلۂ کار بننے کو تیار ہوں ان کی سرپرستی اور بیرونِ ملک آبادکاری کے مذموم کھیل میں مصروف ہیں، ان کی ہر شرارت کا دروازہ بند کیا جائے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ایک طرف اہلِ علم اور اہلِ قلم اپنی ذمہ داری ادا کریں تو اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے وہیں مسجد اور منبر سے بھی پورے توازن اور ذمہ داری کے ساتھ اس آواز کو اُٹھایا جائے۔ نیز پارلیمنٹ کے ارکان تک حق کی آواز کو مؤثر انداز میں پہنچایا جائے اور ہرہرحلقے میں اہلِ علم اور سیاسی کارکن اپنے امیدواروں کو پاکستان کے دستور اور اسلام کے شعائر کی حفاظت کے لیے مضبوطی سے سرگرم عمل ہونے کی دعوت دیں۔
قائداعظم کی ۱۱؍اگست ۱۹۴۷ء کی تقریر کو بددیانتی اور دیدہ دلیری سے استعمال کیا جارہا ہے۔ قراردادِ مقاصد کے خلاف جو فکری جنگ برپا ہے اس کا بھرپور مقابلہ کیا جائے اور قائداعظم کے بیان کو آج جس طرح اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کیا جارہا ہے اس کا پردہ چاک کیا جائے۔ اس لیے کہ قائداعظم نے قیامِ پاکستان کی ساری جنگ دو قومی نظریے، مسلمانوں کی نظریاتی قومیت، دین پر مبنی ان کی شناخت اور اسلامی نظریے کے لیے پاکستان کو تجربہ گاہ بنانے کے مسلسل وعدوں پر لڑی تھی۔ آج سیکولر لابی اس عظیم تاریخی تحریک کو جس کے دوران ملّت اسلامیہ ہند نے بیش بہا قربانیاں دی ہیں، ہائی جیک کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور اسے محض معاشی مفادات کا کھیل بنا کر پیش کیا جا رہا ہے جو تاریخ کے ساتھ مذاق، قائداعظم سے بے وفائی اور اُمت مسلمہ اور پاکستان کے لیے قربانی دینے والوں کے خون سے غداری کے مترادف ہے۔
قائداعظم نے پاکستان کس مقصد اور کس عہدوپیمان پر قائم کیا تھا وہ بار بار سامنے لانا ضروری ہے۔ ہم قائداعظم ہی کے چند زریں اقوال پر ان گزارشات کا خاتمہ کرتے ہیں تاکہ ناموسِ رسولؐ کی حفاظت کے قانون پر ان تازہ حملوں کے لیے قائداعظم کے نام کو استعمال کرنے والوں کی بدباطنی سب پر آشکارا ہوجائے۔ کاش! وہ خود بھی اس آئینے میں اپنا چہرہ دیکھ لیں اور قائداعظم کا سہارا لے کر اپنے اس شیطانی کھیل سے اجتناب کریں۔
قائداعظم نے ۱۱؍اگست ۱۹۴۷ء کی تقریر کے بعد اکتوبر ۱۹۴۷ء میں ان تمام غلط فہمیوں کو خود دور کر دیا تھا جو مخالفین پیدا کر رہے تھے بلکہ واضح الفاظ میں پاکستان کے قیام کے مقاصد اور اس عمرانی معاہدے کا برملا اعلان کیا تھا جو انھوں نے ملّت اسلامیہ پاک و ہند سے کیا تھا:
پاکستان کا قیام جس کے لیے ہم ۱۰ سال سے کوشاں تھے بفضلہ تعالیٰ اب ایک زندہ حقیقت ہے لیکن خود اپنی آزاد مملکت کا قیام ہمارے اصل مقصد کا صرف ایک ذریعہ تھا، اصل مقصد نہ تھا۔ ہمارا اصل منشا و مقصود یہ تھا کہ ایک ایسی مملکت قائم ہو جس میں ہم آزاد انسانوں کی طرح رہیں، جس کو ہم اپنے مخصوص مزاج اور اپنی ثقافت کے مطابق ترقی دیں اور جس میں اسلامی عدل اجتماعی کے اصولِ آزادی کے ساتھ برتے جائیں۔
قائداعظم اچھی طرح جانتے تھے کہ اسلام محض عقائد اور عبادات کا نام نہیں بلکہ وہ ایک مکمل نظامِ حیات ہے جو تطہیر افکار اور تعمیر اخلاق کے ساتھ اجتماعی زندگی کی نئی صورت گری کا تقاضا کرتا ہے اور جس میں قانون، معاشرت اور معیشت سب کی تشکیل کو قرآن و سنت کے مطابق ہونا ہی اصل مطلوب ہے۔ معاملہ حدود قوانین کا ہو یا تحفظ ناموسِ رسالتؐ کے قانون کا، زکوٰۃ و عشر کے قوانین ہوں یا اسلام کا قانونِ شہادت، یہ سب پاکستان کے مقصدِ وجود کا تقاضا ہیں اور قائداعظم کو اس بارے میں کوئی ابہام نہیں تھا۔ ان کا ارشاد ہے:
ان لوگوں کو چھوڑ کر جو بالکل ہی ناواقف ہیں ہر شخص جانتا ہے کہ قرآن مسلمانوں کا ہمہ گیر ضابطۂ حیات ہے۔ مذہبی، معاشرتی، دیوانی، معاشی، عدالتی، غرض یہ کہ ہماری مذہبی رسومات سے لے کر روز مرہ زندگی کے معاملات تک، روح کی نجات سے جسم کی صحت تک، اجتماعی حقوق سے انفرادی حقوق تک، اخلاقیات سے جرائم تک کو دنیاوی سزائوں سے لے کر آنے والی زندگی کی جزا وسزا تک کے تمام معاملات پر اس کی عمل داری ہے اور ہمارے پیغمبرؐ نے ہمیں ہدایت کی ہے کہ ہرشخص اپنے پاس قرآن رکھے اور خود رہنمائی حاصل کرے۔ اس لیے اسلام صرف روحانی احکام اور تعلیمات اور مراسم تک ہی محدود نہیں ہے۔ یہ ایک کامل ضابطہ ہے جو مسلم معاشرے کو مرتب کرتا ہے۔
۱۱؍اگست ۱۹۴۷ء کی تقریر سے قبل دہلی میں پاکستان کے لیے روانہ ہونے سے پہلے قائداعظم نے بہت صاف الفاظ میں اس وقت کے صوبہ سرحد میں استصواب کے موقع پر جو عہدوپیمان قوم سے کیا تھا خود اس کو بھی ذہن میں تازہ کرلیں۔ یہ کوئی عام تقریر نہیں بلکہ سرحد کے مسلمانوں کے ساتھ ایک عہد (covenant)ہے جس کے مطابق انھوں نے خان عبدالغفار خان کے موقف کو رد کیا اور قائداعظم کے موقف پر اعتماد کرکے پاکستان کے حق میں ووٹ دیا:
خان برادران نے اخبارات میں ایک اور زہریلا نعرہ بلند کیا ہے کہ مجلس دستور ساز پاکستان، شریعت کے بنیادی اصولوں اور قرآنی قوانین کو نظرانداز کردے گی۔ یہ بھی ایک بالکل نادرست بات ہے۔ ۱۳ سے زیادہ صدیاں بیت گئیں،اچھے اور بُرے موسموں کا سامنا کرنے کے باوجود، ہم مسلمان نہ صرف اپنی عظیم اور مقدس کتاب قرآن کریم پر فخر کرتے رہے، بلکہ ان تمام ادوار میں جملہ مبادیات کو حرزِ جاں بنائے رکھا… معلوم نہیں کہ خان برادران کو اچانک اسلام اور قرآنی قوانین کی علَم برداری کا دورہ کیسے پڑا ہے، اور انھیں اُس ہند مجلس دستور ساز پر اعتبار ہے کہ جس میں ہندوئوں کی ظالمانہ اکثریت ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ صوبہ سرحد کے مسلمان واضح طور پر یہ سمجھ لیں کہ وہ پہلے مسلمان ہیں اور بعد میں پٹھان۔ (قائداعظم: تقاریر و بیانات، ج۴، ترجمہ اقبال احمد صدیقی، بزمِ اقبال، لاہور، ص ۳۴۶-۳۴۷)
دیکھیے بات بہت واضح ہے، پاکستان کے قیام کا مقصد قرآن و سنت کے مطابق قانون سازی اور زندگی کے پورے نظام کو ان اصولوں اور ہدایات کے مطابق منظم اور مرتب کرنا تھا۔ اس لیے آج ایشو یہ ہے کہ کیا ناموسِ رسالتؐ کی حفاظت اور توہینِ رسالتؐ کے خلاف قانون قرآن و سنت کا حکم اور اقتضا ہے یا نہیں۔ اور اگر ہے تو پھر اس سلسلے میں کسی معذرت کی ضرورت نہیں۔ قانون کی تنسیخ اللہ اور اس کے رسولؐ کے خلاف بغاوت ہوگی اور قانون میں ایسی ترمیم جس سے وہ محض ایک نمایشی چیز بن کر رہ جائے قرآن و سنت سے مذاق اور ذاتِ رسالت مآبؐ سے بے وفائی ہوگی۔ بلاشبہہ قانون کا نفاذ اس طرح ہونا چاہیے کہ کوئی شاتمِ رسولؐ اپنے جرم کی سزا سے بچ نہ سکے اور کوئی معصوم فرد ذاتی، گروہی ، معاشی مفادات کے تنازعے کی وجہ سے اس کی زد میں نہ آسکے۔ انصاف سب سے پہلے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ضروری ہے اور وہ یہ کہ آپؐ کی ذاتِ مبارک کے بارے میں کسی کو بھی تضحیک اور توہین کی جرأت نہ ہو۔ پھر انصاف معاشرے کے ہر فرد کے ساتھ ضروری ہے خواہ وہ مسلمان ہو یا غیرمسلم، مرد ہو یا عورت، امیر ہو یا غریب، تعلیم یافتہ ہو یا ناخواندہ کہ مجرم اور صرف مجرم قانون کے شکنجے میں آئے۔ نہ عام انسان قانون کو اپنے ہاتھ میں لیں اور نہ کسی کو قانون کی گرفت سے نکلوانے کے لیے سیاسی وڈیروں، دولت مند مفاد پرستوں، سیکولر دہشت گردوں یا بین الاقوامی شاطروں کو اپنا کھیل کھیلنے کا موقع مل سکے۔ اس سلسلے میں جن انتظامی اصلاحات یا انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے جن تدابیر کی ضرورت ہے، ان کے بارے میں نہ ماضی میں کوئی مشکل حائل تھی اور نہ آج ہونی چاہیے۔ لیکن ترمیم کے نام سے قانون کو بے اثر کرنے اور امریکا و یورپ اور عالمی سیکولر اور سامراج کے کارندوں کو کھل کھیلنے کا موقع دینا ہمارے ایمان، آزادی، عزت اور حمیت کے خلاف ہے اور اس کی یہ قوم کبھی اور کسی کو بھی اجازت نہیں دے گی۔ اس لیے کہ ؎
کی محمدؐ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا، لوح و قلم تیرے ہیں
(کتابچہ تقسیم عام کے لیے دستیاب ہے، -/۹ روپے۔ سیکڑے پر خصوصی رعایت۔ منشورات، منصورہ، لاہور۔ فون: ۳۵۴۳۴۹۰۹)
کُلُّ مَنْ عَلَیْھَا فَانٍ o وَّیَبْقٰی وَجْہُ رَبِّکَ ذُو الْجَلٰالِ وَالْاِِکْرَامِ o (الرحمٰن ۵۵: ۲۶-۲۷) ہر چیزجو اس زمین پر ہے فنا ہوجانے والی ہے اور صرف تیرے رب کی جلیل و کریم ذات ہی باقی رہنے والی ہے۔
قرآن کریم کی اس آیت مبارکہ میں جو صداقت بیان کی گئی ہے بارہا مطالعہ کے باوجود ہم اسے اکثر بھول جاتے ہیں، لیکن بعض حادثات ہمیں جھنجھوڑ کر رکھ دیتے ہیں اور اس وقت اس آیت کا مفہوم ذہن میں تازہ ہوتا ہے کہ ہرچیز جو اس دنیا میں ہے، فنا ہوجانے والی ہے اور صرف اللہ ذوالجلال والاکرام کی ذات باقی رہنے والی ہے۔ کل تک یہ بات وہم و گمان میں بھی نہ تھی کہ آج ڈاکٹر محمود احمد غازی ہمارے ساتھ نہ ہوں گے۔
میں کراچی میں تھا جب ڈاکٹر محمود احمد غازی کے انتقال کی خبر ملی (۲۶ستمبر ۲۰۱۰ئ)۔ یہ خبر میرے لیے ناقابلِ یقین تھی۔ ابھی چند ہفتے قبل ہم نے رابطہ عالم اسلامی کے پچاسویں یومِ تاسیس کی تقریب میں مکہ مکرمہ میں شرکت کی، ایک ساتھ جہاز میں سفر کیا اور حرم شریف میں نمازوں میں شرکت کی تھی۔ مکہ مکرمہ جاتے وقت میں اور میری اہلیہ جہاز میں بیٹھے تھے کہ غازی صاحب جہاز میں داخل ہوئے اور مجھے دیکھ کر انتہائی گرم جوشی کے ساتھ جھک کر میری پیشانی پر بوسہ دیا اور پھر یہ کہا کہ میں قطر میں تھا تو ڈاکٹر منذر قحف صاحب نے بااصرار کہا تھا کہ جب آپ ڈاکٹر انیس سے ملیں تو میری طرف سے ان کی پیشانی پر بوسہ دیں___ اللہ اکبر! کل کی بات ہے اور آج ہم ایک ایسے صاحب ِ علم سے محروم ہوگئے جو نہ صرف اپنے علم و تقویٰ بلکہ برادرانہ تعلق کی بنا پر ہمارے گھر کا ایک فرد تھا۔
۱۹۸۰ء میں جب بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی اسلام آباد نے تصورسے نکل کر ایک قابل محسوس شکل اختیار کی تو ادارہ تحقیقاتِ اسلامی کو، جو اس سے قبل مختلف سرپرستیوں میں رہا تھا، یونی ورسٹی کا حصہ بنا دیا گیا اور مرحوم ڈاکٹر عبدالواحد ہالے پوتا صاحب، جو ادارے کے سربراہ تھے اور ڈاکٹر محمود غازی جو ادارے میں ریڈر تھے مع دیگر محققین کے یونی ورسٹی سے وابستہ ہوگئے۔ اس زمانے میں شاید ہی کوئی دن ایسا ہو جب ان سے ملاقات نہ ہوئی ہو۔ اکثر حسین حامد حسان صاحب جو اس وقت کلیہ شریعہ کے ڈین تھے اور بعد میں یونی ورسٹی کے صدر بنے، سرشام ہی مجھے ڈاکٹر حسن محمود الشافعی اور اکثر ڈاکٹر غازی کو اپنے گھر بلا لیتے اور رات گئے تک یونی ورسٹی کے بہت سے مسائل پر ہم سب مصروفِ مشورہ رہتے۔ دعوۃ اکیڈمی کا قیام ۱۹۸۳ء میں عمل میں آیا اور مجھے اس کا ڈائرکٹر جنرل مقرر کیا گیا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے جن افراد نے ہر مرحلے میں میرے ساتھ تعاون کیا ان میں ڈاکٹر حسن شافعی اور محمود غازی پیش پیش تھے۔ بعض وجوہ کی بنا پر میں دعوۃ اکیڈمی سے الگ ہوا تو ڈاکٹرغازی نے یہ ذمہ داری سنبھالی اور جب میں دوبارہ اکیڈمی کا ڈائرکٹر جنرل بنا تو وہ اکثر یہ کہتے کہ میں آپ کا خلیفہ ہوں اور آپ میرے خلیفہ ہیں۔
ڈاکٹر غازی کی یادداشت غضب کی تھی اور برس ہا برس گزرنے کے بعد بھی واقعات کی ترتیب و تفصیل بیان کرنے میں انھیں یدِطولیٰ حاصل تھا۔ ڈاکٹر صاحب اثرانگیز خطیب اور پُرفکر تحریر کی بنا پر اس دور کے چند معروف اصحابِ علم میں سے تھے۔ ان کے قرآن کریم، حدیث، سیرت پاک، فقہ، شریعت اور معیشت و تجارت کے موضوع پر خطابات کتابی شکل میں طبع ہوچکے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی دیگر کتب میں قانون بین المالک، اسلام اور مغرب تعلقات، مسلمانوں کا دینی و عصری نظام تعلیم، اسلامی بنک کاری: ایک تعارف، ادب القاضی اور قرآن مجید، ایک تعارف شامل ہیں۔ وہ ایک دردمند دل رکھنے والے محقق، عالم، مفکر اور فقیہہ تھے۔
پاکستان میں سودی بنکاری سے نجات کے لیے جن لوگوں نے کام کیا اور خصوصاً جب معاملہ سپریم کورٹ کے اپیلٹ بنچ میں گیا اور پھر سپریم کورٹ کے فل بنچ نے اس مسئلے کا جائزہ لیا تو اس میں غازی صاحب نے نمایاں کردار ادا کیا۔ فیڈرل شریعہ کورٹ میں جس طرح ڈاکٹر فدا محمدخان صاحب نے فیصلے کی تحریر میں کردار ادا کیا ایسے ہی سپریم کورٹ کے فیصلے میں جسٹس خلیل الرحمن صاحب اور ڈاکٹر غازی کا اہم کردار رہا۔
۸۰ کے عشرے میں جنوبی افریقہ میں قادیانیوں کے حوالے سے عدالتی کارروائی میں پاکستان کے جن اصحابِ علم نے عدالت ِ عالیہ کو اس مسئلے پر رہنمائی فراہم کی ان میں مولانا ظفراحمد انصاری، پروفیسر خورشید احمد صاحب، جسٹس افضل چیمہ صاحب مرحوم اور ڈاکٹر غازی کے نام قابلِ ذکر ہیں۔ دعوۃ اکیڈمی کے ساتھ میرے طویل تعلق میں شاید ہی کوئی پروگرام ایسا ہو جس میں ملک کے اندر یا ملک سے باہر کوئی تربیتی کورس ہو اور اس میں ڈاکٹر غازی نے شرکت نہ کی ہو۔
ڈاکٹر غازی کو اُردو، عربی اور انگریزی میں خطاب کرنے میں عبور حاصل تھا۔ وہ فرانسیسی زبان بھی جانتے تھے۔ ڈاکٹر غازی نے صدر جنرل پرویز مشرف کی کابینہ میں مذہبی امور کے وزیر کے فرائض بھی انجام دیے اور بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی کے صدر اور نائب صدر کے علاوہ یونی ورسٹی کی شریعہ اکیڈمی کے ڈائرکٹر جنرل کی حیثیت سے بھی کام کیا۔ ان کی علمی خدمات کی بنا پر انھیں ملک اور ملک سے باہر ایک معروف اسکالر کی حیثیت سے پہچانا جاتا تھا۔
ڈاکٹر غازی ایک حلیم الطبع انسان تھے۔ اکثر اپنے چھوٹے بھائی ڈاکٹر محمد الغزالی کی چھیڑچھاڑ سے خود بھی محظوظ ہوتے اور کبھی اپنے بڑے ہونے کے حق کو استعمال نہ کرتے۔ نجی محفلوں میں ان کی حاضر جوابی اور ذہانت ہمیشہ انھیں دیگر حاضرین سے ممتاز کرتی۔ مہمانوں کی تواضع میں ہمیشہ پیش پیش رہتے۔ ان کی وفات نے جو خلا پاکستان بلکہ عالمِ اسلام کی علمی صفوں میں پیدا کیا ہے وہ عرصے تک ان کی یاد کو تازہ رکھے گا۔ اللہ تعالیٰ ان کے قرآن کریم سے تعلق اور دین کی اشاعت کے لیے خدمات کو قبول فرمائے اور جنت الفردوس میں جگہ دے۔ آمین!
تاریخ انسانی میں دعوتِ فکروعمل دینے والی ہر تحریک جب تک اپنے مقصد اور ہدف کے بارے میں واضح تصور نہ رکھتی ہو، اپنی منزل کی طرف اعتماد سے سفر نہیں کرسکتی۔ مقصد اور منزل کے تعین کے ساتھ حکمت عملی اور نقشۂ عمل بھی یکساں اہمیت کا حامل ہے۔ اگر منزل واضح ہو لیکن اُس تک پہنچنے کے ذرائع مناسبت نہ رکھتے ہوں تو خلوصِ نیت اور دعائوں کے باوجود وہ تحریک اپنی مراد کو نہیں پہنچ سکتی۔
قرآن کی دعوت پر جو تحریک روزِ اوّل میں برپا ہوئی اس میں داعی اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے مقصد و منزل، حکمت عملی اور مدارجِ دعوت، ہر چیز واضح تھی اور آپؐ کے رفقاے کار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین آپؐ کے ساتھ مکمل ذہنی، قلبی اور عملی یگانگت رکھتے تھے۔ یہ قرآن کریم کی زبان میں سیسہ پلائی ہوئی ایک دیوار اور کلامِ الٰہی کو تھامے ہوئے ایک ایسی جماعت تھی جس میں جذباتِ اتفاق و محبت و اخوت ہر ہرشریکِ سفر کے خون میں گردش کر رہے تھے۔
ایک لمحے کے لیے دیگر تحریکات پر نظر ڈالی جائے تو وہ تحریکات بھی جو اسلام مخالف ہوں جب تک ان میں بھی اپنے مقصد کا شعور، منزل کا تعین، حکمت عملی پر اتفاق نہ پایا جائے کبھی کامیاب نہیں ہوسکیں۔ معروف مثال اشتراکی تحریک کی ہے جس نے مادیت کو اپنا ایمان قراردیتے ہوئے اشتراکی معاشرے کے تصور کو سامنے رکھتے ہوئے ایثار و قربانی اور اخلاص کے ساتھ مادی اور الحادی تحریک کے لیے اپنا سب کچھ لگایا اور کچھ عرصے کے لیے اپنے مقاصد میں کامیاب ہوسکی۔
اقامت ِ دین کے لیے جدوجہد کرنے والوں کے لیے مقصد و منزل کا نگاہوں کے سامنے بالکل واقع ہونا اور پھر اس کی مناسبت سے حکمت عملی پر وثوق ہونا کامیابی کی بنیادی شرائط میں سے ہے۔ تحریک اسلامی کا مقصد و منزل خود قرآن کریم نے وضاحت سے مختصرترین الفاظ میں بیان کردیا اور صرف ایک لفظ میں تمام فکر کے خلاصے کو عبودیۃ کی اصطلاح میں سمو دیا ہے، یعنی اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کے عبد اور بندے کی حیثیت سے بندگی اور عبودیت کے ذریعے اس بندگی اور عبدیت کو اللہ کی زمین پر قائم کرنا، اسی کا نام اقامت ِ دین ہے۔ سورئہ حج میں اس مقصد کو چار نکات کی شکل میں تعلیم کیا گیا ہے:
اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّکَّنّٰھُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَوُا الزَّکٰوۃَ وَ اَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَ نَھَوْا عَنِ الْمُنْکَرِ ط وَ لِلّٰہِ عَاقِبَۃُ الْاُمُوْرِ o (الحج ۲۲:۴۱) یہ وہ لوگ ہیں جنھیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، نیکی کا حکم دیں گے اور برائی سے منع کریں گے۔ اور تمام معاملات کا انجامِ کار اللہ کے ہاتھ میں ہے۔
یہاں اقامت دین کے حوالے سے جن چار امور کا ذکر کیا گیا ہے وہ ایک جامع نظام کے اجزاے ترکیبی ہیں۔ یہاں اقامت ِ دین کے پہلے جزو، یعنی اقامت ِ صلوٰۃ سے بات کا آغاز کیا گیا کہ جب تبدیلیِ اقتدار کے ذریعے اللہ کے بندوں کو اختیار و حکومت حاصل ہو تو پہلا کام نظامِ صلوٰۃ کا قائم کرنا ہے۔ یہ محض نماز پڑھ لینے کا نام نہیں ہے۔ اقامت صلوٰۃ کے لیے اوّلاً اللہ کی عظمت و کبریائی کے لیے اذان کے ذریعے جہاں تک انسان کی قدرت ہو، آواز بلند کر کے اللہ کے بندوں کو یہ دعوت دینا مقصود ہے کہ جو کائنات اور انسان کا خالق و حاکم ہے اس کے انعام و اکرام کا شکر ادا کرنے کے لیے اس کے گھر کی طرف آئو، اور قطار اندر قطار کھڑے ہوکر اس کے سامنے عاجزی کے ساتھ سرنگوں اور سربسجود ہوکر اپنی بندگی اور اس کی حاکمیت کا اقرار کرو کہ یہی نفس کی گمراہی، فحاشی و برائی سے بچنے کا بہترین طریقہ ہے۔ نماز محض مسجد میں صف بندی کے بعد رب کے حضور اظہاربندگی نہیں ہے بلکہ یہ اجتماعیت، اخوت، اتحاد، غیرطبقاتی معاشرے کے قیام کی حکمت عملی اور ذریعہ ہے۔ اس لیے پہلی بات یہ سمجھائی گئی کہ حصولِ اقتدار کے ساتھ ہی اللہ کے شکرواحسان اور اپنی اطاعت و فرماں برداری کے اظہار کے لیے نظامِ صلوٰۃ کو اس کے تمام لوازمات کے ساتھ نافذ کیا جائے۔ یہ اقامت دین کا پہلا مطالبہ ہے۔
اس کے ساتھ مالی عبادت کو بھی لازم کر دیا گیا کہ اگر ایک بندہ واقعی اللہ کے لیے مخلص ہوجائے تو پھر اس کی عبادت نماز کی حد تک محددو نہیں رہ سکتی۔ اس کی معیشت اور مالی معاملات کو بھی بندگیِ رب کے اظہار کا ذریعہ بننا ہوگا۔ چنانچہ ادایگی زکوٰۃ کے نظام کے قیام کو دوسری ذمہ داری قرار دیا گیا۔ ظاہر ہے جس طرح قیامِ صلوٰۃ کے لیے ایک باصلاحیت فرد کا انتخاب و تعین بطور قائد و امام ضروری ہے، ایسے ہی زکوٰۃ کے جمع کرنے کے لیے محصولین زکوٰۃ کا تقرر اور پھر زکوٰۃ کی تقسیم کے لیے نظام بیت المال کا قیام لازم کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ بات بھی کسی تعارف کی محتاج نہیں کہ زکوٰۃ جس مال پر لی جائے گی اس کا خود حلال ہونا اور حلال ذریعے سے حاصل کیا جانا اولین شرط ہے۔ گویا زکوٰۃ محض ایک مقررہ شرح سے رقوم و اجناس کی وصولی کا نام نہیں بلکہ پورے معاشی نظام کے اللہ تعالیٰ کے دیے ہوئے احکاماتِ حلال و حرام کے تابع ہونے کا نام ہے۔
اقامت دین کے ان دو بنیادی کاموں کے ساتھ دعوت کا تیسرا اور چوتھا نکتہ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا ہے، یعنی ہاتھ، زبان اور قلب تینوں کو بہ یک وقت استعمال کرتے ہوئے اچھائی اور بھلائی کو پھیلانے اور قائم کرنے اور برائی، بغاوت اور گمراہی کو مٹانا۔ قرآن کریم اور سنت ِ مطہرہ نے اِس سلسلے میں جو اصول دیا ہے وہ بہت سادہ سا ہے، یعنی بھلائی، اچھائی اور نیکی کے ذریعے برائی، گمراہی اور بدی کا مٹانا۔ نیکی، برحق اور صداقت کی اشاعت جوں جوں ہوگی گمراہی، برائی اور بغاوت کم سے کم تر ہوتی چلی جائے گی، کیوں کہ حق کے آنے کے بعد باطل کو جانا ہی پڑتا ہے اور باطل جانے کے لیے ہی بنا ہے۔
قرآن کریم کی اس آیت مبارکہ کی روشنی میں یہ بات کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ اقامت دین اُس نظام کے قیام کا نام ہے جس میں نہ صرف مراسمِ عبودیت بلکہ مال و دولت، معاشرت و سیاست اور زندگی کی ہر سرگرمی کو صرف اور صرف اللہ رب العالمین کی خوشی اور رضا کا تابع کر دیا جائے۔ یہی اقامت دین کا مقصود ہے۔
دوسری بات جو سورئہ اخلاص میں سمجھائی جارہی ہے وہ اللہ تعالیٰ کا الصمد ہونا ہے نہ کہ کسی کا محتاج ہونا، جب کہ ہر ایک اس کا محتاج ہے اور اس کے حکم کے بغیر کوئی کام سرانجام نہیں دے سکتا۔ تیسری بات جو انسان کو تعلیم کی گئی ہے، یہ ہے کہ رب کریم وہ ہے جو اپنے وجود کے لیے کسی کا مرہونِ منت نہیں ہے۔ چوتھی بات یہ کہی جارہی ہے کہ نہ وہ کسی اور کو اپنی ذات میں شریک کرتا ہے اور آخری بات یہ کہ وہ اپنی اس انفرادیت کی بنا پر ہرلحاظ اور ہرپیمانے سے یکتا (احد) ہے۔
اس سورئہ مبارکہ کا نام ’الاخلاص‘ یہ ظاہر کرتا ہے کہ توحید خالص (اللہ کی ذات و صفات کے حوالے سے) کو زندگی میں نافذ کرنا اس کا علم حاصل کرنا اوراس کے مطالبات پر عمل کرنا گویا دین کا ایک تہائی اثاثہ ہے، جب کہ بقیہ دو تہائی کا تعلق نبوت اور آخرت کے ساتھ ہے۔ اس سورئہ مبارکہ کے مضمون پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اپنے تمام معاملات کو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے لیے خالص کر دینا ہی توحید کی روح ہے۔
اخلاص کو سمجھنے کے لیے نہ صرف قرآن کی اس مختصر لیکن جامع سورت کے مضامین پر غور کرنا ضروری ہے بلکہ یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ دیگر مقامات پر قرآن کریم اخلاص پر آمادہ کرنے اور اخلاص کے اختیار کرنے کا تذکرہ کس طرح کرتا ہے، مثلاً قرآن کا یہ کہنا کہ: ’’(اے نبیؐ) کہو میرے رب نے بالیقین مجھے سیدھا راستہ دکھا دیا ہے بالکل ٹھیک دین جس میں کوئی ٹیڑھ نہیں۔ ابراہیم کا طریقہ جسے یکسو ہوکر اُس نے اختیار کیا تھا اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھا۔ کہو، میری نماز، میرے تمام مراسمِ عبودیت، میرا جینا اور میرا مرنا سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے جس کا کوئی شریک نہیں۔ اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور سب سے پہلے سرِاطاعت جھکانے والا میں ہوں‘‘۔ (الانعام ۶: ۱۶۱-۱۶۲)
یہاں بھی قرآن کریم اپنے تمام اعمال کو اللہ رب العالمین جل جلالہ کے لیے خالص کردینے کو اخلاص کا ثبوت قرار دیا ہے۔ یہی اخلاصِ عمل ہے جو انسان کو آخرکار دنیا اور آخرت میں کامیابی سے ہم کنار کرتا ہے۔ اخلاص نیت میں یہ بات بھی شامل ہے، جو کام بھی کیا جارہا ہے اس کا محرک اور سبب کیا ہے۔ مشہور حدیث جس کے راوی حصرت عمر بن خطابؓ ہیں اور جو اکثر افراد کی زبانوں پر رہتی ہے، اس بات کو دو مثالوں کی مدد سے واضح کرتی ہے۔
یہاں یہ بات واضح طور پر سمجھا دی گئی کہ اگر ایک شخص ہجرت جیسے عظیم کام کو کرتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے آبائی گھر کو، اپنے دوستوں اور اعزہ کو، اپنے کاروبارِ حیات کو، اپنی جاے پیدایش کو، ان تمام یادوں کو جو اس کی زندگی سے وابستہ ہیں، ترک کر کے ایک دوسرے مقام پر نقل مکانی کرتا ہے اور اس کا مقصد اللہ کے دین کی سربلندی، اس کی اور صرف اس کی بندگی اور اس کے دین پر مکمل آزادی سے عمل کرنا ہے، تو یہ ہجرت اللہ کے لیے ہے اور اس کا بڑااجر ہے۔ لیکن اگر بظاہر تو وہ ایسی ہجرت کر رہا ہو لیکن دل میں نیت یہ ہو کہ اس طرح اسے کسی مومنہ سے شادی کا موقع بھی مل جائیگا تو پھر یہ ہجرت اس خاتون کے لیے ہے، اللہ کے لیے نہیں ہے۔ اخلاص نیت سے ہجرت وہی ہوگی جس میں صرف رضاے الٰہی مقصود ہو، چاہے ہجرت کے بعد اللہ کی طرف سے ایک فضل و انعام کے طور پر اسے کسی مومنہ سے شادی کا موقع مل جائے۔
ایک دوسری حدیث میں اسی بات کو چار ایسے نیک کاموں کے حوالے سے بیان کیا گیا ہے جن میں سے ہر ایک بجاے خود ایک نیکی کا کام ہے، عظمت کا کام ہے لیکن اگر اس کام کی نیت جو سب سے مخفی ہے لیکن عالم الغیب والشہادہ سے مخفی نہیں کچھ اور ہو تو پھر بعض قابلِ تعریف عظیم کام بھی نہ صرف اپنا اجر کھو بیٹھتے ہیں بلکہ شدید سزا کی جانب لے جاتے ہیں۔
خدا اس سے کہے گا: ’’تو نے یہ بات غلط کہی کہ میری خاطر جنگ کی، تو نے تو صرف اس لیے جنگ کی (اور جاں بازی دکھائی) کہ لوگ تجھے جری اور بہادر کہیں۔ سو دُنیا میں تجھے اس کا صلہ مل گیا۔ پھر حکم ہوگا کہ اس کو منہ کے بَل گھسیٹتے لے جائو اور جہنم میں ڈال دو‘‘۔ چنانچہ اُسے جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔
پھر ایک دوسرا شخص خدا کی عدالت میں پیش کیا جائے گا جو دین کا عالم و معلّم ہوگا۔ اُسے خدا اپنی نعمتیں یاد دلائے گا اور وہ انھیں تسلیم کرے گا۔ تب اس سے کہے گا: ’’ان نعمتوں کو پاکر تو نے کیا عمل کیے؟‘‘ وہ عرض کرے گا: ’’خدایا میں نے تیری خاطر تیرا دین سیکھا اور تیری خاطر دوسروں کو اس کی تعلیم دی، اور تیری خاطر قرآن مجید پڑھا‘‘۔
اللہ تعالیٰ فرمائے گا: ’’تم نے جھوٹ کہا، تم نے تو اس لیے علم سیکھا تھا کہ لوگ تمھیں عالم کہیں، اور قرآن اس غرض سے تم نے پڑھا تھا کہ لوگ تمھیں قرآن کا جاننے والا کہیں، سو تمھیں دنیا میں اس کا صلہ مل گیا۔پھر حکم ہوگا کہ اس کو چہرے کے بل گھسیٹتے ہوئے لے جائو اور جہنم میں پھینک دو۔ چنانچہ اسے گھسیٹتے ہوئے لے جاکر جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔
تیسرا آدمی وہ ہوگا جس کو اللہ نے دنیا میں کشادگی بخشی تھی اور ہرقسم کی دولت سے نوازا تھا۔ ایسے شخص کو خدا کی جانب میں پیش کیا جائے گا اور وہ اسے اپنی سب نعمتیں بتائے گا اور وہ ساری نعمتوں کا اقرار کرے گا کہ ہاں، یہ سب نعمتیں اسے دی گئی تھیں۔ تب اس سے اس کا رب پوچھے گا: ’’میری نعمتوں کو پاکر تو نے کیا کام کیے؟‘‘ وہ جواب میں عرض کرے گا: ’’جن جن راستوں میں خرچ کرنا تیرے نزدیک پسندیدہ تھا، ان سب راستوں میں مَیں نے تیری خوشنودی کے لیے خرچ کیا‘‘۔
اللہ تعالیٰ فرمائے گا: ’’جھوٹ کہا، تو نے یہ سارا مال اس لیے لٹایا تھا کہ لوگ تجھے سخی کہیں، سو یہ لقب دُنیا میں مل گیا۔ پھر حکم ہوگا کہ اس کو چہرے کے بَل گھسیٹتے ہوئے لے جائو اور آگ میں ڈال دو‘‘۔ چنانچہ اسے لے جاکر آگ میں ڈال دیا جائے گا۔ (مسلم)
ہجرت اور جہاد کا تحریکِ اسلامی کی دعوت کے ساتھ ایک اندرونی اور قلبی تعلق ہے۔ اقامت ِ دین کی دعوت انفرادی اور اجتماعی معاملات میں جاہلی رسم و رواج سے اسلام کی آفاقی تعلیمات کی طرف ہجرت کی دعوت ہے۔ یہ وطنیت، لسانیت، علاقائیت، نفس پرستی کی برائیوں سے اخوت اسلامی، یک جہتی اور مکمل طور پر بندگیِ رب کی طرف ہجرت کی دعوت ہے۔ ایک کارکن کے ذاتی معاملات ہوں یا معاشرتی اور معاشی معاملات، اسے ہرہرعمل کو یہ دیکھ کر جانچنا ہوتا ہے کہ اس کام میں مقصود اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی رضا ہے یا کسی فرد کی خوشی کا دخل ہے۔ کیا اطاعتِ الٰہی مقصود ہے یا کسی ذمہ دار کو اپنی وفاداری کا یقین دلانا مقصود ہے۔ گویا یہ ایک مسلسل ہجرت کی دعوت ہے جس میں فکری طور پر اور عملی طور پر ہرعمل کے لیے رضاے الٰہی کو معیار بناکر یہ طے کرنا ہوتا ہے کہ جو کام بھی کیا جا رہا ہے اس کا رُخ اور سمت کس طرف ہے، جاہلی روایات کی طرف یا اسلام کی تعلیمات کی طرف۔
وہ عمل جو ہجرت کے طور پر کیا جاتا ہے بیک وقت ایک جہادی عمل بھی ہے۔ یہ جہاد فکری ہے، شعوری ہے، عملی ہے اور ہرلمحہ واقع ہوتا ہے۔ یہاں معمولی سے معمولی بات ہو یا بڑے سے بڑا مسئلہ، نفس، مفاد اور تعلقات سے بلند ہوکر یہ طے کرنا ہوتا ہے کہ رب کو خوش کرنے کے لیے ایک کام کو کس طرح کیا جائے۔ اس عمل میں اگر رفقاے کار اور ذمہ داران سے اختلاف کرنا ہو تو اس میں بغیر کسی مداہنت کے قرآن و سنت کے اصولوں کی بنیاد پر ایک موقف اختیار کرنا پڑتا ہے۔ یہ جہاد تنگ نظری کے خلاف، خود رائی کے خلاف اور ان تمام تصورات کے خلاف عمل میں آتا ہے جو تحریک کے مقابلے میں فرد کو اپنے فائدے کی طرف بلاتے ہیں۔
ان احادیث کی روشنی میں اخلاص نیت کا مفہوم یہ نظر آتا ہے کہ ایک کارکن اپنے تمام رشتوں، تعلقات اور معاملات کو جب صرف اور صرف رب العالمین کے لیے خالص کرلے، صرف اُس سے جڑ جائے تووہ اللہ کا مخلص بندہ ہے جسے قرآن مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ (البینہ ۹۸:۵) سے تعبیر کرتا ہے، اور جن کے بارے میں یہ وعدہ کرتا ہے کہ اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی۔
جس نے یہ اخلاص نیت اختیار کیا اس کی وضع قطع اور شکل جیسی بھی ہو، اللہ سبحانہ وتعالیٰ اس کے قلب اور خلوص کو دیکھ کر بہترین اجر سے نوازتا ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے انھوں نے کہا: فرمایا رسولؐ اللہ نے: ’’اللہ تمھاری شکل و صورت اور تمھارے مال کو نہ دیکھے گا بلکہ تمھارے دلوں کو اور تمھارے اعمال کو دیکھے گا، (مسلم، کتاب البر والصلہ والادب باب ۱۰، حدیث ۲۵۶۴)۔ اخلاص نیت کے حوالے سے ایک اور حدیث یہ واضح کرتی ہے کہ اگر ایک کام صرف اللہ کے لیے کیا گیا اور اس میں کہیں آس پاس بھی یہ خیال ذہن میں نہ تھا کہ اس کا کوئی فائدہ کام کرنے والے کے کسی عزیز کو پہنچے اور اتفاقاً اس عمل کے نتیجے میں اس کے اپنے کسی عزیز حتیٰ کہ اپنی اولاد کو اس کا فائدہ پہنچ جائے، جب بھی اس عمل کی صداقت، قبولیت اور خلوص میں فرق واقع نہ ہوگا کیونکہ صدقِ دل سے کیا گیا عمل اللہ تعالیٰ کے ہاں مطلوب و مقصود ہے۔
حضرت معنؓ بیان کرتے ہیں کہ میرے والد ابی زید نے صدقے کے لیے چند دینار نکالے اور انھیں مسجد میں بیٹھے ایک فرد کے پاس رکھ دیا۔ میں نے آکر ان دیناروں کو اُٹھا لیا، لے کر (گھر) کے پاس آیا تو انھوں نے کہا: اللہ کی قسم! میں نے تجھے دینے کا ارادہ کیا تو نہیں تھا۔ میں اس باہمی چپقلش کا مقدمہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گیا تو فرمایا: اے یزید جس کی تو نے نیت کی تجھے اس کا اجر مل گیا اور اے معن! تو نے لیا وہ تیرا ہوگیا۔ (بخاری، کتاب الزکوٰۃ، باب ۱۵، حدیث ۱۴۲۲، عن معن)
یہ حدیث قرآن کریم کی اُس آیت کی تصدیق کرتی ہے جس میں قربانی کے گوشت کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ اللہ کو نیت پہنچتی ہے نہ کہ گوشت۔ اخلاصِ نیت کا اجر نہ صرف اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے ہاں محفوظ ہے بلکہ بعض اوقات اس دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ اخلاصِ نیت کے اجر سے نواز دیتا ہے۔ بخاری میں کتاب الجہاد میں ایک حدیث (۲۸۳۹) میں یہ بات کہی گئی ہے کہ ایک غزوہ کے موقع پر بعض ایسے اصحاب جو خلوصِ نیت سے جہاد میں شامل ہونا چاہتے تھے کسی بنا پر شریک نہ ہوسکے تو خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’ہم نے جو بھی گھاٹی یا وادی عبور کی ہے اس میں وہ بھی ہمارے ساتھ ہیں، یعنی انھیں بھی جہاد کا اجر ملے گا‘‘۔
ان احادیث میں غور کرنے اور اپنا احتساب کرنے کے لیے انتہائی قیمتی رہنمائی ہے۔ ہمیں اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ہمارا تنظیمی کاموں میں شامل ہونا کیا اللہ، اس کے رسولؐ اور ان دونوں کی پیروی کرنے والے اولی الامر کی اطاعت کے جذبے کی بنا پر ہے، یا اس میں دیگر جذبات شامل ہیں؟ اگر ہمارا کسی ریلی میں آنا، کسی اجتماع میں شرکت کرنا، کسی کام کی ذمہ داری کو ادا کرنا محض نمود ونمایش کی غرض سے ہوا تو پھر اس سے زیادہ گھاٹے کا سودا اور کوئی نہیں ہوسکتا۔ ہاں، اگر ہماری نماز، ہماری قربانی، ہمارا وقت، ہماری صلاحیت، ہماری تمام قوتوں کا استعمال صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے لیے خالص ہے اور اسی کی رضا اسی کے دین کی اقامت کے لیے ہے تو پھر اس کا وعدہ ازل سے ابد تک صرف سچائی کے سوا اور کچھ نہیں۔ وہ اپنا وعدہ ہمیشہ پورا کرتا ہے اور جب بھی کوئی اللہ کا بندہ یہ کہتا ہے کہ اللہ اس کا رب ہے اور پھر وہ اس پر استقامت اختیار کرلیتا ہے تو رب کریم اَن دیکھی غیبی قوتوں سے اس کی تائید و توثیق کرتا ہے اور اس کے لیے اجرونجات کو لازم کردیتا ہے۔ وہ بلاشبہہ دلوں کے حال کو جاننے والا، دلوں پر گرفت رکھنے والا اور دلوں کے اخلاص کی بنا پر اپنے بندوں کو اپنی وسیع رحمت میں لے لینے والا ہے۔
اسلامی تاریخ اور سیرتِ طیبہ صلی اللہ علیہ وسلم کو زمانی تقسیم کے لحاظ سے مکّی اور مدنی ادوار میں تقسیم کیا جاتا ہے اور عموماً یہ خیال پایا جاتا ہے کہ مکّی دورِ عقیدہ سے متعلق تعلیمات و ہدایت سے تعلق رکھتا ہے اور مدنی دور میں معاشرتی، معاشی اور سیاسی تعلیمات نازل ہوئیں۔ یہ تصور نہ صرف عام افراد میں بلکہ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور اہلِ علم میں بھی بڑی حد تک ایک حتمی شکل اختیار کرگیا ہے اور سمجھ لیا گیا ہے کہ مکّی دور عبادت، تزکیۂ نفس اور تعمیرِ شخصیت و کردار سے تعلق رکھتا ہے، جب کہ مدنی دور میں سماجی معاشرتی، سیاسی اور بین الاقوامی معاملات کے حوالے سے ہدایات دی گئیں، بالخصوص حدود و تعزیرات کے بارے میں یہ تصور پایا جاتا ہے کہ ان کی تعلیم و نفاذ صرف مدنی دور ہی میں ہوا۔
دیکھا جائے تو اسلام کی دعوت کا نقطۂ آغاز توحید ہے اور توحید نہ صرف توحید ذات ہے بلکہ توحید صفات اس کا لازمی حصہ ہے اور یہی مفہوم توحید تمام انبیاے کرام کی دعوت کی بنیاد تھا کہ ’’اللہ کے بندے بنو اور ہرقسم کے طاغوت سے کنارہ کش ہوجائو‘‘۔ اگر مسئلہ عقیدہ و عبادت کے حوالے سے چند مختلف تصورات کا ہوتا تو اہلِ مکہ کو اسلام سے کوئی شکایت نہ ہوتی۔ انھوں نے جہاں ۳۶۵ خدائوں کے لیے اپنے دل میں جگہ بنا رکھی تھی وہاں ایک اللہ کے اضافے سے کون سی تنگی ٔ داماں پیدا ہوجاتی۔ جس حرمِ کعبہ میں عرب کے گوشے گوشے سے آئے ہوئے افراد اپنی اپنی سمجھ کے مطابق عبادت ادا کر رہے تھے، اس میں مسلمانوں کے طرز کی عبادت وہ صلوٰۃ ہو یا اعتکاف اور قیام و قعود، اس کی ادایگی سے ان کے خدائوں کی ریاست میں کوئی انقلاب برپا نہ ہوتا۔
اہلِ مکہ، قریش اور مشرکینِ قبائل کو اچھی طرح علم تھا کہ اگر اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی توحید ذات اور توحید صفات کو تسلیم کرلیا گیا تو پھر ان کی معاشرت، معیشت اور سیاست کی جاہلی بنیادیں، عصبیتیں، تعصبات و ترجیحات میں بنیادی تبدیلی آجائے گی۔ وہ جو سود پر تجارت کرتے تھے، جن کی اخلاقیات جنسی اباحیت پر مبنی تھیں اور جو قبائلی برتری کی بناپر کم تر قبائل کو اعلیٰ مناصب کے لیے نااہل سمجھتے تھے، بخوبی جانتے تھے کہ اسلامی اخوت و عدالت کے پیش نظر اپنی ماضی کی روایات اور آباو اجداد کے طریقوں، تبرجاتِ جاہلیہ کو چھوڑنے پر مجبور ہوجائیں گے۔ یہ سودا ان کے لیے بہت آسان نہ تھا۔
اس لیے مکّی دور میں دعوتِ اسلامی کے آغاز ہی سے اہلِ مکہ اور اہلِ عرب کے سامنے یہ بات واضح تھی کہ یہ ایک دعوتِ انقلاب ہے۔ ماضی کی روایات، تصورات اور تعصبات کی جگہ ایک نئے تصورِ حیات کے اپنانے کا شعوری فیصلہ ہے،اور اس بنا پر انھوں نے خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کو حق و صداقت پر مبنی ماننے کے باوجود اس کا کفر و انکار کیا اور اپنے بہت سے خدائوں سے اپنا رشتہ توڑ کر اللہ وحدہٗ لاشریک کی حاکمیت اعلیٰ کے اختیار کرنے میں تذبذب اور تجاہل سے کام لیا۔
اس حوالے سے غور کرنے کا ایک اہم زاویہ یہ بھی ہے کہ اگر اسلام مجموعی تبدیلی اور اللہ کی بندگی میں کُلّی طور پر داخل ہونے کا نام ہے تو کیا ۱۳ سال کے عرصے میں محض عبادات کی حد تک اللہ کی بندگی ہونی چاہیے تھی، یا عبادات کے ذریعے جس عبدیت کا حصول مطلوب تھا، اُس عبدیت کا اظہار معاملات میں بھی ہونا چاہیے تھا۔ کیا مکّی دور محض نظری تعلیم کا دور تھا اور مدنی دور میں وہ تجربہ گاہ حاصل ہوئی جہاں اس نظری سرمایے کو آزمایا جائے، یا جن جن معاملات میں مکّہ کی تجربہ گاہ میں گنجایش تھی ان کو بلاتفریق نافذ کرنے کی کوشش کی گئی، اور آخرکار مدنی دور میں وہ مکمل معاشرہ وجود میں آیا، جس کی ابتدا اور بنیاد مکّی دور میں رکھی جاچکی تھی۔
زیرنظر کتاب اس لحاظ سے اہمیت رکھتی ہے کہ ہم نے جس تصورِ تاریخ کا ذکر اُوپر کیا ہے، یہ بڑی حد تک اس کی تائید میں اہم تاریخی جواز فراہم کرتی ہے۔ گو کتاب خالص علمی زاویے سے لکھی گئی ہے لیکن تحریکی ذہن اور تحریکی فکر رکھنے والے افراد کے لیے اس میں غور کرنے کے لیے بہت اہم مواد ہے۔ تحریکاتِ اسلامی جو انقلابی تبدیلی لانا چاہتی ہیں اور جس میں نظریاتی طور پر بعض اوقات یہ بات کہی جاتی ہے کہ ابھی تو مکّی دور سے گزرنے کی ضرورت ہے، اس کے بعد مدنی دور کا مرحلہ آئے گا___ کتاب میں فراہم کردہ مواد اس مفروضے پر نئے سرے سے غور کرنے کی دعوت دیتا ہے۔
میرے مطالعہ تاریخ میں آغاز سے اس فکر کا بڑا دخل رہا ہے اور میں تاریخ کے ایک طالب علم کی حیثیت سے کسی ایسی مضبوط حدبندی کا قائل کبھی نہیں رہا جس میں مکّی دور مدنی دور سے مکمل طور پر مختلف ہو۔ بعض خصوصیات میں فرق کے باوجود دونوں اَدور میں ایک منطقی تسلسل اور اندرونی ربط پایا جاتا ہے۔ حتیٰ کہ قرآن کریم کی مکّی اور مدنی سورتوں میں بھی ایسی حدِفاصل کھینچنا جو ان کو مکمل طور پر دو الگ انواع بنا دے، درست طرزِفکر نہیں ہے۔ سورۂ بنی اسرائیل کے مکّی ہونے کے باوجود اس میں اسلامی ریاست کے وجود کی دلیل واضح الفاظ میں پائی جاتی ہے۔ جب خاتم النبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ دعا تعلیم کی جاتی ہے کہ: اے میرے رب! مجھے سچائی کے ساتھ اس شہر سے نکال اور سچائی کے ساتھ داخل کر اور سُلطہ (اقتدار) کو میرا مددگار بنادے۔ یہاں مقصود کسی تفصیل میں جانا نہیں ہے صرف اتنا عرض کرنا ہے کہ مکہ اور مدینہ دو قطعی منقسم حوالے نہیں ہیں۔ ان میں ایک فکری اور عملی ربط ہے، کیونکہ اسلام روزِ اوّل سے جامع و شامل نظام بن کر آیا۔ عملاً ایسا نہیں ہوا کہ پہلے فلسفہ اور فکری نقشہ بناکر پیش کیا گیا ہو اور پھر اسے عملاً نافذ کیا گیا ہو۔ بہت سے عملی مسائل مکّی دور میں حل کیے جا چکے تھے اور بہت سی اصلاحات کا آغاز مکّی دور میں ہوچکا تھا، جن کی تکمیل مدنی دور میں ہوئی۔
اس حوالے سے ڈاکٹر یاسین مظہرصدیقی نے جو تحقیقی مواد یک جا کیا ہے، وہ غوروفکر کی دعوت دیتا ہے۔ معاملاتِ تجارت و معیشت کے باب میں (ص ۳۸۱-۴۱۰) مصنف نے اصول و احکام تجارت میں بیع، شراکت و ندیمی (دو حضرات کا ایک دوسرے کا تجارتی ساتھی ہونا)، اور مضاربت کے حوالے سے حیاتِ مبارکہ صلی اللہ علیہ وسلم اور عرب میں مروجہ طریقوں سے بحث کی ہے، جس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ مکّی اور مدنی دور میں مضاربت اور مشارکت کے اسلامی اصولوں میں عدل و انصاف کے اصول کس طرح اختیار کیے گئے۔ تجارتی معاہدوں اور دارالاسلام اور دارالحرب میں تجارتی روابط کا قاعدہ و کلیہ بھی مکّی دور میں وجود میں آچکا تھا (ص ۳۹۹)۔ اُجرت اور اجیر کے احکام کے حوالے سے مکّی دور سے اس بات کا ثبوت ملتا ہے کہ بکریوں کے چرانے کا معاوضہ کس طرح متعین کیا جائے (ص ۴۰۶)۔
اسلام معاشرت و معیشت و سیاست کی بنیاد جن اصولوں پر ہے ان میں عدل کو بنیادی اہمیت حاصل ہے، چنانچہ وَ اِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوْا (الانعام ۶:۱۵۲) کا اصول سورئہ نحل میں مزید واضح کر دیا گیا کہ اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ (۱۶:۹۰)، یعنی اللہ تعالیٰ عدل کا حکم دیتا ہے۔ اس عدل کی عملی شکل ناپ تول میں کمی نہ کرنا اور پیمانوں کا صحیح طور پر استعمال کرنا مکّی آیات میں واضح طور پر نظر آتا ہے۔ چنانچہ سورئہ انعام میں وَ اَوْفُوا الْکَیْلَ وَ الْمِیْزَانَ بِالْقِسْطِ (۶:۱۵۲) اور سورئہ اعراف (۷:۸۵) میں فَاَوْفُوا الْکَیْلَ وَ الْمِیْزَانَ… یا سورئہ بنی اسرائیل (۱۷:۳۵) میں وَاَوْفُوا الْکَیْلَ اِذَا کِلْتُمْ وَزِنُوْا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِیْمِ…یا سورئہ ہود (۱۱:۸۴-۸۵) میں ’’اور نہ گھٹائو ماپ اور تول… اے قوم پورا کرو ماپ اور تول انصاف سے‘‘___ان آیاتِ مبارکہ میں مکّی دور میں ہی مسلمانوں اور غیرمسلموں کو اسلامی معیشت سے آداب و احکام سے آگاہ کرنے کے ساتھ حُرمت بیان کر دی گئی۔ احسان کا حکم بھی مکّی دور ہی میں نازل ہوگیا۔ ھَلْ جَزَآئُ الْاِِحْسَانِ اِِلَّا الْاِِحْسَانُ (الرحمٰن ۵۵:۶۰)
معاشرتی معاملات میں عفو و درگزر سے کام لینا (الاعراف ۷:۱۹۹) یا (تغابن ۶۴:۱۴) بھلائی کے ذریعے برائی کو دُور کرنا۔ الاعراف:۹۵اور الشوریٰ:۴۰، عہد کا پورا کرنا (نحل ۱۶:۹۱) امانت کی اہمیت اور احکام الاعراف:۱۸، الشعرائ: ۱۰۷، ۱۲۵، ۱۴۳، ۱۶۲، ۱۷۸، یا الدخان:۱۸ وغیرہ میں ان پہلوئوں کو واضح اور قطعی شکل دے دی گئی۔ والدین کے ساتھ حُسنِ سلوک بھی مکّی آیات میں بہت اُبھر کر سامنے آتا ہے۔ چنانچہ الانعام (۶:۱۵۲)، بنی اسرائیل (۱۷:۲۳)، الاحقاف (۴۶:۱۵) اس کی واضح مثالیں ہیں۔ مساکین کے حقوق الماعون میں کھول کر بیان کردیے گئے۔ یتیموں کے ساتھ بھلائی کے برتائو کے حوالے سے الفجر (۸۹:۱۷-۱۸) میں تاکید کی گئی کہ اہلِ مکّہ اور قریش یتیم کی عزت نہیں کرتے اور محتاج کو کھانا نہیں کھلاتے۔
خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے الضحیٰ میں اشارہ کیا گیا کہ صاحب ِ وحی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے ماننے والے کس طرح یتیم کے ساتھ پیش آئیں۔ سورئہ دہر (۷۶:۵) میں محتاج اور بن باپ کے لڑکے کو کھانا کھلانے کی ترغیب و تعلیم دی گئی۔ سائل و محروم کے حقوق کا تعین بھی کر دیا گیا۔ چنانچہ سورئہ ذاریات (۵۱:۱۹) میں اموال میں سائل و محروم کا حق رکھ دیا گیا۔ المعارج (۷۰:۲۴-۲۵) میں اسی بات کی توثیق و تائید کی گئی۔ مہمانوں کے حقوق کے حوالے سے سورئہ ذاریات میں حضرت ابراہیم ؑ کی ایمان داری کا واقعہ اور الحجر کی آیت۳ میں اس طرف تعلیم مکّی دور سے تعلق رکھتی ہے۔ ایسے ہی سورئہ مزمل ، آیت ۲۰ میں بیمار کی عیادت کا اصول بیان کر دیا گیا۔ شوریٰ جو اسلامی ریاست اور اصولِ حکومت کا بنیادی رکن ہے اس کی طرف بھی مکی وحی میں الشوریٰ:۳۷ میں متوجہ کر دیا گیا۔
یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ گو آیات جہاد و قتال کی اکثریت مدنی ہے، لیکن جہاد بمعنی دفاع و مدافعت کے اصول کو مکّی دور کی شکل میں بدلہ لینے کی اجازت بلکہ حق کو تسلیم کرتے ہوئے بیان کردیا گیا۔
معاشی معاملات میں خصوصاً سود (ربو.ٰ) کے حوالے سے سورئہ روم کی آیت۳۹ میں یہ ارشاد فرماکر وَمَآ اٰتَیْتُمْ مِّنْ رِّبًا لِّیَرْبُوَاْ فِیْٓ اَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا یَرْبُوْا عِنْدَ اللّٰہِ ج (جو سود تم دیتے ہو تاکہ لوگوں کے اموال میں شامل ہوکر وہ بڑھ جائے، اللہ کے نزدیک وہ نہیں بڑھتا) اہلِ ایمان کو مکمل طور پر تحریم کے آنے سے قبل ہی ذہناً اور عملاًیہ بات سمجھا دی کہ سود سے مکمل اجتناب کرنا توحید کے مطالبات میں سے ہے، نہ صرف یہ بلکہ اس سے یہ بات بھی واضح کر دی گئی کہ سود سابقہ شرایع میں بھی حرام ہی تھا۔ اس لیے بعد میں اس کی حُرمت اس سلسلۂ تعلیم و تشریع کی تکمیل کی حیثیت رکھتی ہے۔
حدیث پہ غورکیا جائے تو حدیث معراج میں جن مشاہدات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ ہے ان میں سود، زنا، غیبت، حرام مال کھانے والوں، مال غصب کرنے والوں، سب کا تذکرہ یہ ثابت کرتا ہے کہ مکّی دور میں ہی میں ان کی حُرمت کی طرف واضح اشارہ کر دیا گیا تھا۔
بے حیائی کے کام بالخصوص زنا کے حوالے سے سورئہ فرقان (۲۵:۶۸) اور بنی اسرائیل (۱۷:۳۲) میں کہا گیا کہ اہلِ ایمان ان سے بچتے ہیں۔ گویا حدِ زنا سے قبل بھی زنا کو حرام قرار دیا جاچکا تھا۔ ہجرت سے قبل جن اہلِ یثرب سے بیعت لی گئی اس میں بھی سرقہ، افترا، قتل، شرک کے علاوہ زنا سے اجتناب کی شرط بھی شامل تھی۔ گویا احکامِ تحریم مکی دور ہی میں آچکے تھے۔ (تفصیلات کے لیے دیکھیے: بخاری، کتاب مناقب الانصار، باب وفود الانصار)
زنا جسے قرآن کریم نے فواحش میں شامل کرتے ہوئے کبیرہ گناہ قرار دیا ہے، مکّی آیات میں بصراحت اس کی حُرمت کا ذکر پایا جاتا ہے۔ سورئہ انعام میں ہے: وَ لَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَھَرَ مِنْھَا وَ مَا بَطَنَ(۶:۱۵۱) ۔ ایسے ہی الاعراف میں قُلْ اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّیَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَھَرَ مِنْھَا وَ مَا بَطَنَ وَ الْاِثْمَ وَ الْبَغْیَ بِغَیْرِ الْحَقِّ (۷:۳۳) ، یا الشوریٰ میں ہے وَالَّذِیْنَ یَجْتَنِبُوْنَ کَبٰٓئِرَ الْاِِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ (۴۲:۳۷)، اسی طرح النجم میں اَلَّذِیْنَ یَجْتَنِبُوْنَ کَبٰٓئِرَ الْاِِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ (۵۳:۳۲) کا واضح بیان یہ ظاہر کرتا ہے کہ حدِ زنا سے قبل ہی تحریم کے احکام آچکے تھے۔ لیکن چونکہ حد کے اجرا کے لیے حکومتی ادارے کی ضرورت تھی اس لیے حدود کا نفاذ مکّہ میں نہیں کیا گیا بلکہ ریاست کے قیام مدینہ منورہ میں عمل میں آیا۔
’فحشائ‘ کی اصطلاح اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ مکّی دور ہی میں بڑی برائیوں کی حُرمت کا حکم آچکا تھا۔ چنانچہ سورئہ یوسف (۱۲:۲۴) میں یا النحل (۱۶:۹۰) میں یا العنکبوت (۲۹:۴۵) میں بصراحت فحش سے اجتناب کے حکم کی موجودگی یہ ظاہر کرتی ہے کہ احکام یکایک مدینہ میں نازل نہیں ہوئے، گو ان کی تکمیل مدینہ ہی میں ہوئی۔
قتلِ نفس کے حوالے سے بھی جو اسلام اور ماقبل کی شریعتوں میں حرام تھا مکّی آیات میں واضح احکام ملتے ہیں۔ بنی اسرائیل (۱۷:۳۳) میں ’’اور نہ مارو جان سے، حرام کیا ہے اللہ نے مگر حق پر‘‘۔ ایسے میں الفرقان (۲۵:۶۸) میں یا الانعام (۶:۱۵۲) میں واضح احکام کا نزول ہوا۔
مندرجہ بالا مثالوں سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ گو اسلامی شریعت میں سزائوں بالخصوص حدود کے حوالے سے احکام مدینہ منورہ میں آئے، لیکن ان جرائم کا جرم ہونا اور ان سے اجتناب کرنے کا حکم مکّی دور ہی میں آچکا تھا۔ حتیٰ کہ شراب کے حوالے سے گو آیت تحریم الخمر سورئہ مائدہ میں آئی لیکن جو اشارے پہلے کیے جا چکے تھے ان کی بنا پر اس سے اجتناب مکّی دور ہی میں شروع ہوچکا تھا۔
اسلام جس تہذیب و اخلاق کا علَم بردار ہے وہ ایک کلّی اور ہمہ گیر تہذیب و اخلاق کا علَم بردار ہے وہ ایک کُلی اور ہمہ گیر تہذیب ہے جس میں اصل قوتِ محرکہ قانون کی گرفت نہیں ہے بلکہ انسان کے اندر کا وہ ضمیر ہے جسے حدیث نبویؐ نے ’مفتی‘ سے تعبیر کیا ہے۔ جب دل اپنی صحیح حالت میں ہو اور پتھر کی وہ سنگلاخ شکل اختیار نہ کر گیا ہو جو نہ لرزے نہ خوفِ الٰہی سے پھٹے تو انسان کا دل اسے کسی فحش کے ارتکاب پر نہ آمادہ کرسکتا ہے، نہ اس کی ترغیب دے سکتا ہے۔ ہاں، جب قلب یکے بعد دیگرے گناہوں کی کثرت سے ان کا عادی بن جائے تو پھر وہ اسے صحیح فتویٰ نہیں دے سکتا۔
الغرض مکّی اور مدنی ادوار کو ایک دوسرے سے مکمل طور پر الگ کر کے دیکھنا حقیقت ِ واقعہ سے زیادہ مناسبت نہیں رکھتا۔ احکام کا نزول و اجرا ایک مسلسل عمل ہے جو مدینہ میں اپنی تکمیل کو پہنچا لیکن اصلاً احکام کا علم اور اسلام قبول کرنے کے عملی نتائج کا شعور و ادراک مکّی دور میں ہی ہوچکا تھا۔ یہی سبب ہے کہ اہلِ مکّہ نے اپنی پوری قوت کے ساتھ اسلام کی انقلابی تحریک کو روکنے کی پوری کوشش کی۔ انھیں علم تھا کہ یہ چند نظری اصولوں یا عبادات کا نام نہیں ہے بلکہ ایک دعوتِ انقلاب اور دعوت ماہیت قلبی ہے جس میں سیاسی، معاشرتی، معاشی طرزِعمل کو بدلنا ہوگا۔ اسلامی حدود کے اجرا سے قبل ان کی حُرمت اور اہلِ ایمان کے حقوق و فرائض کی وضاحت مکّی دور ہی میں ہوچکی تھی۔
کتاب میں جو مواد تحقیق کے ساتھ جمع کیا گیا ہے وہ اہلِ علم کے لیے فکری غذا فراہم کرتا ہے اور سیرت و تاریخ کے طلبہ کے لیے غیرمعمولی طور پر اہم معلومات کا حامل ہے۔ ڈاکٹر محمد یاسین مظہر صدیقی صاحب اس علمی کام پر شکریے کے مستحق ہیں۔
(مکّی عھدِ نبویؐ میں اسلامی احکام کا ارتقا، ڈاکٹر محمد یاسین مظہرصدیقی، ناشر: نشریات، ۴۰-اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۳۷۳۲۰۳۱۸۔ صفحات: ۵۹۸۔ قیمت: درج نہیں۔)
اسلامی فکروثقافت کو اُس شعوری طرزِعمل اور رویّے سے تعبیر کیا جاسکتا ہے جو توحید کے نتیجے میں وحدتِ انسانیت، وحدتِ کائنات اور کائنات پر اللہ رب العزت کی مکمل حاکمیت وربوبیت کے اقرار کے ساتھ فرد اور معاشرے کے درمیان تعلق کی اصل بنیاد بِّر، تقویٰ، امربالمعروف اور نہی عن المنکر کو قرار دیتا ہو۔ اس شعوری طرزِعمل کا اظہار، اس پر یقین رکھنے والے کی فکری تخلیق، ادب، شعر، فلسفہ اور اس کے ہنرمندی کے ہر عمل میں ہوتا ہے۔ چنانچہ وہ سمرقند کا ماہر معمار ہو یا ٹھٹھہ میں کاشی کار ٹائل اور ہندسی نقوش بنانے والا یا ریگستانِ تھر یا چولستان کا اُونٹ کی کھال سے لیمپ بنانے والا دست کار ہو، ان میں سے ہر ہرفرد کی مصنوعات میں اسلامی فکروثقافت کی روح کسی نہ کسی شکل میں جلوہ گر ہوتی ہے۔
اسلامی فکروثقافت جس روایت ِذکر، تفقہ، شعور و فکر اور الہامی ہدایت کی نمایندہ ہے اگر بہ نظرِعمیق دیکھا جائے تو اس کی ہرسرگرمی مقاصد ِشریعت کی تکمیل کے پیشِ نظر سرانجام پاتی ہے۔ یہ مقاصد کیا ہیں اور کس طرح اسلامی فکروثقافت ان کے حصول میں مددگار ہوتی ہے، یہی اس مختصر تحریر کا موضوع ہے۔
فلسفۂ شریعت میں مقاصد ایک اہم اور مرکزی مضمون کی حیثیت رکھتے ہیں۔ چنانچہ امام غزالیؒ (۱۰۵۹ء-۱۱۱۱ء ) ہوں یا امام شاطبی (۷۹۰ھ/۱۲۸۸ء) یا محمد الطاہر ابن عاشور (۱۸۷۹ء-۱۹۷۳ء)، مقاصدالشریعہ کی اہمیت کے پیش نظر ان میں سے ہر فقیہہ نے اس موضوع کا حق ادا کیا ہے۔
حقیقت ِ واقعہ یہ ہے کہ مقاصد ِ شریعت کا تعلق نہ صرف فلسفۂ شریعت ِاسلامی بلکہ ہرہرعلمی کاوش کے ساتھ پایا جاتا ہے۔ چونکہ روایتی طور پر جن دینی درس گاہوں اور جامعات میں اسلامیات کے مضامین پڑھائے جاتے ہیں اس علم پر بہت کم توجہ دی جاتی ہے، اس لیے وہ حضرات بھی جو فقہ کا مطالعہ کرتے ہیں، ان مقاصد سے سرسری طور پر گزر جاتے ہیں۔ معروف یہ ہے کہ یہ مقاصد پانچ ہیں لیکن ہم اس تحریر میں ان مقاصد پر غور کا آغاز اُس بنیاد سے کرنا چاہتے ہیں جو ہرانسانی فکر وعمل کے لیے اساس فراہم کرتی ہے، یعنی توحید۔
توحید وہ پہلا اصول، اساس اور مقصد ِشریعت ہے جو انسانی زندگی کے لیے ایک واضح لائحہ عمل اور انسانی کاوش و عمل کے لیے ہدف اور منزل کا تعین کرتا ہے۔ روایتی طور پر یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ توحید اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کو وحدہ لاشریک ماننے کے عقیدے کا نام ہے، جب کہ وہ عقیدہ سے بہت آگے جاکر اس بات کی تصدیق کا نام ہے کہ کائنات میں اگر کوئی ابدی حقیقت ہے تو وہ صرف اور صرف اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی ذات اور اس کی حاکمیت ہے۔ اس حاکمیت کو شعوری طور پر تسلیم کرنے کے بعد ایک شاعر ہو یا ادیب، ایک صنعت کار ہو یا کاشت کار، ایک معلّم ہو یا ایک انجینیر اور طبیب، اس کی ہر ہر کاوش کا ہدف اور مقصد اس اصول کی پیروی سے وابستہ ہو جاتا ہے۔ وہ بہترین شعر کہنے کے بعد بھی یہی کہتا ہے کہ یہ میرا نہیں، میرے مالک کا کمال اور کرم ہے کہ اُس نے مجھ سے یہ بات کہلوا دی، حتیٰ کہ شعر کے سامعین بھی سبحان اللہ یا ماشا اللہ کہہ کر اصولِ توحید کی پیروی کرتے ہوئے برملا یہ اعلان کرتے ہیں کہ گو شعر عمدہ ہے لیکن تعریف کے قابل شاعر نہیں بلکہ اس کا خالقِ حقیقی اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ ہے۔ ایسے ہی ایک شخص ماہر معمار ہونے کے باوجود اپنے فنِ تعمیر میں کسی لمحے بھی توحید کے منافی کوئی پہلو نہیں آنے دیتا۔ چنانچہ مسجد کی تعمیر ہو یا کسی قلعہ، محل یا گھر کی تعمیر، جو اصول اس کی تعمیر کو دیگر عقائد کے معماروں سے ممتاز کرتا ہے وہ توحید کی تطبیق ہے۔ چنانچہ نقش و نگار اور بیل بوٹے زبانِ حال سے یہ گواہی دیتے ہیں کہ ان کی تزئین کرنے والا توحید پر یقین کے سبب نہ حیوانات کی، نہ انسانوں کی شبیہہ بناتا ہے، نہ ایسے مناظر اپنے فن میں لاتا ہے جو اللہ تعالیٰ کو ناراض کرنے والے ہوں۔ چنانچہ اسپین میں مسلمانوں کا فنِ تعمیر ہو یا شام، عراق، ترکی، وسط ایشیا اور جنوب ایشیا کے اعلیٰ تعمیراتی فن کے مظاہر، ہر عمارت انجینیر اور معمار کے ذہن، فکر اور عقیدے کا پتا دیتی ہے۔
شریعت یا الہامی قانون کا مقصد اولاً تمام قوانین پر اللہ کی بھیجی ہوئی شریعت کو حاوی کرنے کے ساتھ ساتھ تمام انسانیت کو وحدت کے رشتے میں پرو دینا بھی ہے۔ چنانچہ جہاں ایک مسلمان کے لیے توحید کا مفہوم اللہ وحدہٗ لاشریک کی حاکمیت و ربوبیت کا اقرار اور اپنے عمل سے اس کی تصدیق ہے، اس طرح ایک مشرک اور غیرمسلم کے لیے توحید کے مفہوم کا تقاضا اور مطالبہ اپنی زندگی سے تضادات کو دُور کرکے زندگی میں وحدانیت کا پیدا کرنا ہے۔ ایک غیرمسلم کے لیے بھی توحید میں یہ پیغام ہے کہ وہ دوہرے اخلاقی معیار کی جگہ زندگی میں وحدت قائم کرتے ہوئے سچائی، عدل، وفاداری اور پاکیزگی کو اپنا شعار بنائے اور جس طرح پوری کائنات نے تکوینی طور پر اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے اخلاقی اصولوں کی پیروی اختیار کرلی ہے اور ہوائیں ہوں یا تیزرفتار دریا، سمندر ہوں یا پہاڑ اور درخت یا چرندپرند سب اللہ کے بنائے ہوئے ضابطے کی پیروی کر رہے ہیں اور اس طرح تضاد اور ٹکرائو سے بچے ہوئے ہیں، بالکل اسی طرح کائنات میں وحدانیت کے پیش نظر وہ اپنی گھریلو زندگی اور سیاسی، معاشی، قانونی اور ثقافتی سرگرمیوں میں تضاد کو چھوڑ کر یک جہتی کے اصول کی پیروی اختیار کرلے۔ شریعت کی اصطلاح میں اسی کو توحید کہا جاتا ہے۔
اگر ایک تہذیب و ثقافت اس اصول کو مان لے تو وہ شعوری طور پر اپنے اندر کے تضادات کو دُور کرنے پر آمادہ ہوجاتی ہے اور بیک وقت بہت سے خدائوں کی بندگی سے نکل کر صرف ایک اصل کو اپنی بنیاد مان لیتی ہے۔ ان بہت سے خدائوں میں عصبیت کا خدا، ذات اور برادری کا خدا، عریانیت اور تکبر کا خدا ہی نہیں بلکہ وہ سب خدا بھی شامل ہیں جنھیں ہم روزگار، اقتدار اور دیگر مفادات کے خدا کہہ سکتے ہیں۔ زندگی میں وحدانیت کے قیام سے ان سب محدود، نمایشی اور زمینی خدائوں کے بجاے ایک فرد کی معاشی، سیاسی، معاشرتی، قانونی سرگرمیوں کا مقصد صرف ایک مالک اور آقا کے دیے ہوئے احکامات و تعلیمات کو زندگی اور معاشرے میں نافذ کرنا قرار پاتا ہے۔
اگر غور کیا جائے تو جن اصولوں اور اقدار کو ہم مقصد ِ شریعت قرار دیتے ہیں وہ مقصد ِ انسانیت بھی ہیں۔ انسانیت رنگ، نسل، عمر، جغرافیائی حدود سے ماورا وہ بنیاد ہے جو تمام انسانوں کو ایک ماں باپ کی اولاد سمجھتے ہوئے یکساں بنیادی انسانی حقوق سے نوازتی ہے۔ اسی انسانیت کو اگر جغرافیائی سرحدوں، رنگ، نسل، ذات اور زبان کی تقسیم میں بانٹ دیا جائے تو ہرلمحے تضادات، ٹکرائو اور توڑ پھوڑ کا شکار ہونا اس کی قسمت بن جاتا ہے۔ گویا پہلا اصول (توحید) نہ صرف اہلِ ایمان بلکہ بشمول غیرمسلمین، تمام انسانوں کے لیے، وجۂ اتحاد فراہم کرتے ہوئے، وحدتِ انسانیت کے قیام کا سبب بنتا ہے اور اس طرح بیک وقت مقصد ِ شریعت، مقصد ِ انسانیت کے لیے پہلی بنیاد اور اساس کی حیثیت رکھتا ہے۔
دوسرا بنیادی اصول جو شریعت کا مقصد بھی ہے اور جو انسانیت کے لیے بھی ایک رہنما اصول کی حیثیت رکھتا ہے۔ قرآن کریم کی وہ قدر ہے جسے ہم ’عدل‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔ محدود انسانی عقل و نظر کی بنا پر ہم نے بالعموم اس سے وہ انصاف مراد لیا ہے جو عدالتوں، پنچایتوں یا جرگوں کے ذریعے حاصل کیا جاتا ہے جب کہ عدل ایک انتہائی وسیع، جامع اور عملی اصطلاح ہے جو معاشرتی، معاشی، سیاسی،مذہبی، اخلاقی اور ثقافتی و تہذیبی سرگرمیوں کو معنویت عطا کرتی ہے۔
اگر گہری نگاہ سے دیکھا جائے تو انفرادی سطح پر اگر ایک شخص اپنے نفس کا حق ادا نہیں کرتا، اپنی غذا، روحانی ضروریات، آرام اور کارکردگی میں عدم توازن کا شکار رہتا ہے تو اسلام اسے نفس پر ظلم قرار دیتا ہے۔ اگر وہ اپنے اہلِ خانہ کا حق ادا نہیں کرتا یا اپنے اعزہ و اقارب کو ان کا حصہ نہیں دیتا تو ان پر اور اپنے اُوپر ظلم کا مرتکب ہوتا ہے۔ ایسے ہی اگر وہ اپنے اہلِ محلہ کا حق ادا نہیں کرتا تو ان پر ظلم کا مجرم ٹھیرتا ہے۔ گویا عدل انفرادی اور معاشرتی سطح پر ایک مسلمان اور غیرمسلم دونوں کے لیے یکساں اہمیت رکھتا ہے اور صحت مند معاشرے کے قیام کے لیے مذہب، نسل، لون و لسان کی قید سے ماورا ہوکر شریعت تمام انسانوں کے لیے عدل کا قیام چاہتی ہے۔ چنانچہ اگر یہ کہا جائے کہ بقیہ تمام مقاصد ِشریعت اور مقاصد ِ انسانیت ان اولین دو ناقابلِ تغیر اصولوں کی پیروی اور اتباع کرتے ہیں تو مبالغہ نہ ہوگا۔
اگر غور کیا جائے تو تیسرا اہم مقصد ِشریعت جو مقصد ِ انسانیت بھی ہے یعنی انسانی جان کا تحفظ و بقا، دونوں اوّلین اصولوں سے وابستہ ہے اور اسلامی ثقافت و فکر میں بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے۔ قرآن کریم نے مختلف مقامات پر اس اصول کو واضح الفاظ میں بیان کیا ہے۔ چنانچہ ارشاد ربانی ہے: ’’قتلِ نفس کا ارتکاب نہ کرو جسے اللہ نے حرام کیا ہے مگر حق کے ساتھ‘‘ (بنی اسرائیل ۱۷:۳۳)۔مزید ’’جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اوروجہ سے قتل کیا اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کردیا اور جس نے کسی کو زندگی بخشی اس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخش دی‘‘۔ (المائدہ ۵:۳۲)
گویا قتلِ ناحق اولین تینوں مقاصد سے متصادم عمل ہے۔ یہ ایک جانب اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی حرام کی ہوئی جان کا ضائع کرنا اور اس کی صریح حکم عدولی کی بنا پر توحید کی نفی کرتا ہے۔ دوسری جانب حق کے منافی ہونے کی بناپر عدل کے اصول سے ٹکراتا ہے۔ تیسری جانب انسانیت کی بقا وتحفظ کی جگہ انسانیت کی تباہی و بربادی کا باعث بنتا ہے۔ نتیجتاً جو تہذیب و ثقافت توحید، عدل اور حرمت ِ نفس کے مثبت اصولوں پر قائم ہوگی اس میں نہ صرف حاکمیت الٰہی اور ربوبیت ِ خداوندی کی بنا پر انسانوں کے طرزِعمل میں بغاوت و تکبر کی جگہ اطاعت و بندگیِ رب ہوگی بلکہ انسان اپنے ساتھ، اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ، اپنے اہلِ وطن کے ساتھ، اپنے سیاسی، معاشی اور ثقافتی معاملات میں عدل سے کام لیں گے اور انسانی جان کی حرمت کے سبب زمین میں فساد، دہشت گردی اور بے گناہوں کا خون بہانے سے احتراز کریں گے۔ ایسی تہذیب و ثقافت میں تشدد، درندگی، حقوق کی پامالی اور ناانصافی کے بجاے امن، سکون، تحفظ اور انسانیت پائی جائے گی۔
یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ دوسرے بنیادی اصول یامقصد (عدل) کے وسیع تر مفہوم پر غور کیا جائے تو سیاسی میدان میں افراد کا حق خود ارادیت، حقِ اجتماع، اظہار راے کی آزادی، تمام مناصب تک یکساں پہنچ، ملکی معاملات میں مشاورت میں شمولیت، سیاسی مسائل میں حق تنقید اور سیاسی رہنمائوں کا احتساب وہ بنیادی پہلو ہیں جن کے بغیر سیاسی عدل کا قیام نہیں ہوسکتا۔ ایسے ہی معاشی معاملات میں ایک فرد کا دولت پیدا کرنے کا حق، وراثت اور ہبہ کے ذریعے حصولِ مال، بازار میں مال کی افادیت کے پیش نظر معاشی دوڑ میں حصے کا حق، محنت کا جائز معاوضہ، ذخیرہ اندوزی کی ممانعت، دولت کی مصنفانہ تقسیم وہ بنیادی پہلو ہیں جو معاشی عدل کے قیام کے لیے شرط کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ایسے ہی قانونی نقطۂ نظر سے ایک شہری کا دوسرے کے مقابلے میں بغیر تفریق مذہب و ملّت انصاف کا حصول، قوانین کا شفاف ہونا، نفاذ قانون میں اصول پرستی، حکام اور قاضیوں کا اہل، غیر جانب دار اور عدلیہ کا مکمل طور پر آزاد ہونا عدل کے قیام کے لیے ضروری ہیں۔ عدل کے ثقافتی پہلو بھی کچھ کم اہم نہیں۔ اگر کسی قوم پر بیرونی ثقافت مسلط کردی جائے، اس پر غیرملکی زبان، روایات، رہن سہن لباس، حتیٰ کہ شعروادب بلکہ لطائف بھی کسی دوسری ثقافت و تہذیب سے مستعار لے کر ذرائع ابلاغ کے ذریعے اس کے دل و دماغ میں اُتارنے کی کوشش کی جائے تو یہ عدل کے منافی ہے۔ اس وسیع تر تناظر میں توحید اور عدل دو ایسی بنیادیں اور اصول معلوم ہوتے ہیں جو بقیہ مقاصد کے ساتھ جوہری تعلق اور وابستگی رکھتے ہیں۔
توحید، عدل اور حرمت نفس کے اہم اور بنیادی مقاصد کے بعد اسلامی تہذیب و ثقافت کی چوتھی بنیاد اور مقصد ِ شریعت عقل و تمیز کی حریت ہے، یعنی شریعت ایسی تہذیب و ثقافت کا وجود چاہتی ہے جس میں انسان آزادیِ راے کا استعمال، دانش اور ہوش کی بنیاد پر کریں، جذبات میں اندھے ہوکر یا نشے میں مدہوش ہوکر نہ کریں۔ یہی وجہ ہے خمر (جو عقل کو ڈھانپ لے) یا سکر کو حرام قرار دیا گیا کہ شراب یا دیگر منشیات کا استعمال انسان کی عقل کو مائوف کردیتا ہے اور وہ سلامتیِ فکر اور آزادیِ راے کے ساتھ کوئی فیصلہ نہیں کرپاتا۔ ایک ایسی تہذیب و ثقافت کو جس کی بنیاد ہی شراب پر ہو اور جو شام ڈھلنے کا مقصد ہی یہ قرار دے کہ لوگ شراب خانوں، ناچ گھروں اور بُرائی کے اڈوں میں جاکر مدہوش ہوکر شام منائیں، ایک عقل دشمن اور فسق و فجور کی شائق تہذیب ہی کہا جاسکتا ہے۔
ایسی تہذیب و ثقافت عقل و دانش کے احیا و ترقی کی جگہ جذباتیت اور نفسانیت ہی کو فروغ دے سکتی ہے۔ اسلامی تہذیب و ثقافت میں اس قسم کے طرزِعمل اور رویے کی کوئی گنجایش نہیں۔ اسلامی ثقافت و تہذیب ایک پاکیزہ، ہوش مند اور عقل ودانش پر مبنی ثقافت ہے جہاں علم، معرفت، ذکروفکر، بھلائی اور معروف کی اشاعت کی بنیاد پر اخلاقی رویوں کا تعین ہوتا ہے۔
پانچواں اہم مقصد شریعت اہلِ ایمان کے دین کا تحفظ و ترقی ہے۔ چنانچہ قرآن کریم دین کی اصطلاح کو عبادات، مثلاً صلوٰۃ و زکوٰۃ، صیام اور عمرہ اور حج کے حوالے سے استعمال کرتا ہے اور ان کے متعین وقت پر توجہ اور شعور کے ساتھ ادا کرنے کو، نہ کہ میکانکی طور پر ان کی ادایگی کو، اسلامی تہذیب و ثقافت کی پہچان قرار دیتا ہے۔ قرآن کریم میں دین کی اصطلاح کو نہ صرف عبادت بلکہ اسلامی قوانین کے نفاذ کے لیے بھی استعمال کیا گیا ہے۔ چنانچہ سورئہ نور میں فرمایا گیا کہ بداخلاقی کے مرتکب مرد اور عورت پر حد کا اجرا کیا جائے اور اس طرح دین کے قیام میں تکلف، تردّد یا معذرت نہ کی جائے۔ چنانچہ حدود کے اجرا کو دین قرار دے کر قرآن کریم نے اصطلاح کے اس پہلو کو اجاگر کردیا (النور ۲۴:۲)۔ دین کے قیام اور تحفظ کے حوالے سے یہ بات بھی قرآن کریم نے سمجھائی ہے کہ انسانوں پر انسانوں کی حاکمیت کی جگہ اللہ رب العزت کی حاکمیت کو قائم کرنا اور اس کے نام کو بلند کرتے ہوئے تمام سیاسی اختیارات میں اسے حرفِ آخر قرار دینا ہی درحقیقت دین ہے۔ چنانچہ سورئہ یوسف میں فرمایا گیا: ’’اے زنداں کے ساتھیو! تم خود ہی سوچو کہ بہت سے متفرق رب بہتر ہیں یا وہ ایک اللہ جو سب پر غالب ہے، اس کو چھوڑ کر تم جس کی بندگی کر رہے ہو وہ اس کے سوا کچھ نہیںہیں کہ بس چند نام ہیںجو تم نے اور تمھارے آباو اجداد نے رکھ لیے ہیں، اللہ نے اُن کے لیے کوئی سند نازل نہیں کی۔ حاکمیت و اقتدار اللہ کے سوا کسی کے لیے نہیں ہے۔ اس کا حکم ہے کہ خود اس کے سوا تم کسی کی بندگی نہ کرو، یہی صحیح اور مستحکم دین ہے‘‘۔ (یوسف ۱۲:۴۰)
گویا دین سیاسی اقتدار کو اللہ کی مرضی کے تابع کرنے کا نام ہے جو شریعت کا ایک بنیادی مقصد ہے۔ یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ جہاں دین کا تحفظ و بقا دین اسلام کی برتری اور الحق ہونے سے تعبیر ہے وہیں اسلام یہ بھی چاہتا ہے کہ دیگر مذاہب کے ماننے والوں کو ان کے مراسمِ عبودیت کی مکمل آزادی اور تحفظ حاصل ہو۔ چنانچہ ان کے عبادت خانوں کا تحفظ اور ان کی مذہبی آزادی کا حق بھی شریعت کے مقاصد میں شامل ہے۔ یہ بات محتاجِ دلیل نہیں کہ غیرمسلم شہریوں کے حقوق بطور ایک شہری کے وہی ہیں جو مسلمانوں کے ہیں۔
کسی بھی مسلم ریاست کے غیرمسلم شہری ان تمام ریاستی حقوق کے مستحق ہیں جو عام حالات میں مسلمانوں کو ملتے ہیں۔ قرآن کریم یہ وضاحت کرنے کے بعد کہ دین، اللہ کے نزدیک صرف اسلام ہی ہے، اہلِ کتاب حتیٰ کہ مشرکوں کو بھی اسلامی ریاست میں ان کے مراسمِ عبودیت سے محروم نہیں کرتا اور انھیں مکمل تحفظ فراہم کرتا ہے۔ اس حیثیت سے اسلام وہ واحد دین ہے جو اپنی حقانیت، کاملیت اور جامعیت کے باوجود دیگر مذاہب کے ساتھ ایک مسلسل مکالمے کی شکل اختیار کرتا ہے اور ان پر اسلام کو زبردستی نافذ نہیں کرنا چاہتا۔ صحیح معنوں میں اس طرزِعمل کو مذہبی کثرتیت (religious pluralism) بھی کہا جاسکتا ہے اور یہ پہلو بھی اسلامی تہذیب و ثقافت کی ایک منفرد مثبت خصوصیت یعنی رواداری کی نشان دہی کرتا ہے۔
چھٹا مقصد شریعت انسانی نسل کی بقا اور انسانی عزت و وقار کا تحفظ ہے۔ اسلام چاہتا ہے کہ انسانی برادری میں تعلقات کی بنیاد اخلاقی اور قانونی رشتوں پر استوار ہو۔ چنانچہ شریعت کا ایک مقصد ان رشتوں کے احترام یا حُرمت کو برقرار رکھنا ہے۔ اس غرض کے لیے نکاح کا ادارہ قائم کرنا اور زنا کو حرام قرار دیا جانا آنے والی نسلوں کے تشخص و انفرادیت کو تحفظ دیتا ہے اور خاندان کے ادارے کو تہذیب و ثقافت کی بنیاد قرار دیتا ہے۔ اگر انسانی جین (Gene) کا احترام نہ کیا جائے اور آزاد جنسی تعلقات کو ’انسانی حق‘ تسلیم کرلیا جائے تو معاشرے میں ایسے افراد کی کثرت ہوسکتی ہے جو بظاہر تو اعلیٰ تعلیم سے آراستہ ہوں لیکن خود اپنے نقطۂ آغاز اور اپنی آفرینش کے مقصد تک سے واقف نہ ہوں اور نتیجتاً معاشرتی اور خاندانی رشتوں کے قائم نہ ہونے کے نتیجے میں معاشرے کی بنیادی اکائی یعنی خاندان کا وجود معدوم ہوجائے اور بنیاد کے تباہ ہونے کے سبب خود تہذیب و ثقافت فطری موت سے ہمکنار ہوجائے۔ تہذیب و ثقافت معاشرے کی بنیاد پر قائم ہوتی ہے اور اگر انسانی معاشرہ ہی باقی نہ رہے تو ثقافت بھی برقرار نہیں رہ سکتی۔
ساتواں مقصد شریعت احترامِ مال ہے یعنی شریعت یہ چاہتی ہے کہ انسانی معاشرے میں معاشی عدل ہو، معاشی اخلاقیات پر عمل کے نتیجے میں ہر فرد کی ملکیت ظلم و استحصال سے محفوظ ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ منصفانہ تقسیم دولت، وسائلِ فطرت سے استفادے کی آزادی اور معاشی لوٹ کھسوٹ سے تحفظ کا نظام پایا جائے۔ اس سے یہ مراد نہیں لی جاسکتی کہ اسلام اگر انفرادی حق ملکیت کو تسلیم کرتا ہے تو شریعت کا جھکائو سرمایہ دارانہ استحصالی نظام کی طرف ہے۔ اسلام جہاں انفرادی ملکیت کے حق کو بعض شرائط کے ساتھ تسلیم کرتا ہے وہاں ہر صاحب ِحیثیت فرد پر معاشرتی ذمہ داریاں بھی عائد کرتا ہے تاکہ دولت کی گردش، تقسیمِ دولت اور ضرورت مندوں کی ضروریات کی تسکین میں کوئی فرق نہ آنے پائے۔
ان سات مقاصد کے علاوہ بھی دیگر مقاصد پر علماے فقہ نے بحث کی ہے اور تفصیلات سے آگاہ کیا ہے لیکن ہم یہاں صرف ان معروف مقاصد کے حوالے سے یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ یہ مقاصد نہ صرف شریعت کے مقاصد ہیں جن کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ہمیں دین اسلام جیسی نعمت سے نوازا اور ہم سے قبل بنی اسرائیل کو ان ہی مقاصد کے حصول کے لیے تورات کی شکل میں شریعت دی، بلکہ اگر دیکھا جائے تو یہی مقاصد، مقاصدِ انسانیت بھی ہیں یعنی انسانیت کے اہداف اور اس کی منزلِ مقصود اور اس کے مطلوبہ انسان، معاشرہ، سیاسی نظام، معاشی نظام اور قانونی نظام کی بنیاد ہیں۔ یہی وہ اصول اور اہداف ہیں جن کو اگر پیش نظر رکھا جائے تو اسلامی تہذیب و ثقافت وجود میں آتی ہے اور اس کی فکری، عملی سرگرمیاں ان مقاصد کے حصول کے لیے اپنی تمام قوتوں کے ساتھ سرگرمِ عمل رہتی ہیں۔ جہاں یہ مقاصد اہلِ ایمان کو ایمان کے تقاضوں سے آگاہ کرتے ہیں وہیں یہی مقاصد غیرمسلموں کو انسانیت کے مقصد کے حوالے سے زندگی گزارنے کے لیے ایک عالم گیر اخلاقی ضابطے سے روشناس کراتے ہیں تاکہ غیرمسلم رہتے ہوئے بھی وہ اپنی زندگی میں وحدانیت پیدا کرسکیں۔ جادئہ عدل سے نہ ہٹیں اور اپنے معاملات میں انسانی زندگی بلکہ حیوانی اور ماحولیاتی زندگی کا بھی احترام کرنا سیکھیں۔
یہ مقاصد ِ شریعت ایک مسلمان کی زندگی کی تمام سرگرمیوں کے مقصد و منزل کا تعین کرتے ہیں۔ اپنی عالم گیریت اور مقاصد ِ انسانیت ہونے کے سبب یہ مقاصد غیرمسلموں کو بھی زندگی کے اہم معاملات میں رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔ ان مقاصد کے حصول کے لیے جو تہذیب جہاں کہیں بھی قائم ہوگی وہ اسلامی تہذیب و ثقافت کہلائے گی اور اس کے پھل نہ صرف مسلمانوں کے لیے بلکہ غیرمسلموں کے لیے بھی مفید ثابت ہوں گے۔
مقاصد کی اس مختصر گفتگو سے یہ بات واضح ہوکر سامنے آتی ہے کہ اسلامی فکروثقافت دراصل الہامی ہدایت، شریعت اور اس کے مقاصد کی تکمیل کے لیے ہی وجود میں آتی ہے۔ دین کی سرفرازی ہی ایک مومن کا مقصد ِ حیات ہے اور شریعت کا جامع اور مکمل طور پر نفاذ انسانیت کی فلاح اور ترقی کے لیے ایک لازمے کی حیثیت رکھتا ہے۔ جبر اور زبردستی کے ساتھ محض چند سزائوں کے نفاذ سے نفاذِ شریعت کا کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ یہ عمل ایک ثمربار تہذیب و ثقافت کی بنیاد اور نشوو ارتقا کے لیے قوتِ محرکہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ واللّٰہ اعلم بالصواب!
(ڈاکٹر انیس احمد کے سلسلہ وار مقالے ’اسلامی فکروثقافت کی قرآنی بنیادیں‘ کی یہ چھٹی اور آخری قسط ہے۔)
اُمت مسلمہ کے حال اور مستقبل کے بارے میں جب کبھی گفتگو کی جاتی ہے تو ایک سوال یہ اٹھایا جاتا ہے کہ ہم کس اُمت مسلمہ کی بات کر رہے ہیں؟ کیا اُس اُمت مسلمہ کی جس کے جسم سے گذشتہ ۶۰ سالوں سے کشمیر اور فلسطین میں مسلسل خون بہہ رہا ہے مگر اپنے زخموں کی کسک اور درد اسے ابھی تک بیدار نہیں کرسکی، نہ زخموں کے علاج کے لیے وہ اُٹھ کر پیش قدمی کرنے پر آمادہ ہوسکی ہے۔ کیا اس اُمت مسلمہ کی بات کی جا رہی ہے جو ۵۷ نام نہاد آزاد ممالک کے ہونے کے باوجود اسلامی تنظیم او آئی سی نامی کاغذی ادارے میں کوئی متحدہ و مشترکہ حکمت عملی وضع نہ کرسکی، یا اُس اُمت مسلمہ کی بات کی جا رہی ہے جسے قرآن کریم نے ’خیراُمت‘ قرار دیتے ہوئے عالمی مشن اور ذمہ داری کے ساتھ برپا کیا اور جس نے تاریخ کے مختلف ادوار میں انسانی تہذیب و ثقافت میں ایسے گراںقدر اضافے کیے جن کے اثرات آج تک پائے جاتے ہیں۔
اسلامی فکر یاس و مایوسی کو کفر قرار دیتی ہے اور حالات کے نامساعد ہونے کے باوجود ہرمسلمان سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ پُرامید رہے اور مثبت طرزِفکر کے ساتھ اپنا اور گردوپیش کا جائزہ لے کر اپنی جدوجہد اللہ کے بھروسے پر جاری رکھے اور مایوسی کو اپنے پاس بھی پھٹکنے نہ دے۔
اس پہلو سے اگر دیکھا جائے تو جس شدت اور تسلسل کے ساتھ اُمت مسلمہ کے دشمن اس پر ہر زاویے سے یلغار کر رہے ہیں وہ خود اس بات کی دلیل ہے کہ اُمت مسلمہ نہ مُردہ ہے، نہ ایک غیرمحسوس وجود (non-entity) ہے بلکہ ان جابر اور ظالم قوتوں کے لیے جو بہ زعمِ خود یک قطبی طاقت ہونے کے دعوے کرتی ہیں، ایک لپکتا ہوا شعلہ ہے جس کی تپش اور خطرناکی نے طاغوت کی نیند حرام کردی ہے۔ مزید غور کیا جائے تواپنے شکست خوردگی کے احساس کے باوجود، آج جو اُمت مسلمہ ہمارے اردگرد پائی جاتی ہے اس میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ یک قطبی طاقت کے لاڈلے اسرائیل کو۳۳ دن تک لبنان کے سرحدی علاقے میں مقابلے کے بعد پسپا کردے۔ یہ وہی اُمت مسلمہ ہے جو ۷۰ سال تک ترکی میں لادینیت کو سرکاری مذہب کے طور پر بہ اکراہ برداشت کرنے کے بعد پُرامن اور جمہوری ذرائع سے ملک کی سمت اور ملکی پالیسی کے رُخ کو دین کی طرف موڑ سکی ہے۔ جہاں ۷۰سال پہلے نقاب اور حجاب کو ممنوع قرار دیا گیا تھا، آج وہاں اُمت کی لاکھوں بیٹیاں بازاروں میں، جامعات میں اور صنعتی اداروں میں فخر کے ساتھ اسکارف کو اپنی پہچان کے طور پر استعمال کررہی ہیں۔ یہ وہی اُمت مسلمہ ہے جسے اس کے دشمن بھی مجبوراً نیوکلیر قوت کے طور پر تسلیم کرتے ہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ چند لمحات کے لیے اُمت کے بارے میں اپنے ذہنوں میں بنائے ہوئے نقشوں کو محو کر کے معروضی طور پر اور تنقیدی نگاہ کے ساتھ جائزہ لے کر دیکھا جائے کہ اصل زمینی حقائق کیا ہیں، اور اُمت مسلمہ کی اصل قوت کس چیز میں ہے۔ اس کی کون سی کمزوریاں ایسی ہیں جو خود پیدا کردہ ہیں اور کون سی ایسی ہیں جو اس پر مسلط ہوگئی ہیں۔ اس کے سامنے کون سے خطرات سر اُٹھائے کھڑے ہیں اور ان خطرات و مطالبات کے علی الرغم، اس میں ان کے مقابلے اور ایک روشن مستقبل تعمیر کرنے کی صلاحیت کہاں پائی جاتی ہے۔ جدید ادارتی علوم (Management Sciences) میں اس قسم کے جائزے کے لیے SWOT کی اصطلاح عرصۂ دراز سے استعمال کی جاتی ہے جس میں قوتوں(strengths)، کمزوریوں (weaknesses)، مواقع (opportunities) اور خطرات (threats) کے تفصیلی جائزے کے بعد کوئی ادارہ اپنے لیے حکمت عملی وضع کرتا ہے۔مسلمان اہلِ علم کو بھی وقتاً فوقتاً نہ صرف اسلامی تحریکات بلکہ اُمت مسلمہ کے حوالے سے اس قسم کا جائزہ لینا چاہیے تاکہ ہم تجزیے اور تحلیل و تنقید کی روشنی میں اپنا لائحہ عمل طے کرسکیں اور مروجہ حکمت عملی میں مناسب اضافے اور تبدیلیاں کی جاسکیں۔ زندہ تحریکات کی پہچان ہی یہ ہے کہ وہ دن بھر کی مشقت کے بعد استراحت سے قبل احتسابِ نفس کر کے دیکھیں کہ آج کیا پایا اور کیا کھویا؟ دین اسلام نے جس جائزے، تجزیے اور تحلیل کو احتساب کی اصطلاح سے متعارف کرایا تھا، اسی قسم کا ایک تجربہ SWOT کی جدید اصطلاح کے سہارے بہت سے دانش وَر دنیا میں کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ انھوں نے پہیہ ایجاد کیا ہے۔ اس بحث سے قطع نظر کہ پہیہ کس نے ایجاد کیا، تجزیاتی اور تحلیلی عمل تحریکاتِ اسلامی اور اُمت مسلمہ کے لیے بہت مفید ہے۔ آج جو بات اُمت مسلمہ کے حوالے سے کی جارہی ہے، ضرورت یہ ہے کہ خصوصاً تحریک اسلامی ہر ۱۰سال کے بعد اس قسم کا تجزیہ کرے، چاہے اس کے نتیجے میں اپنی حکمت عملی پر اس کے اعتماد میں اضافہ ہو یا وہ اس پر نظرثانی کرے۔
اُمت مسلمہ آج بادی النظر میں جس انتشار کا شکار نظر آتی ہے اسے دُور کرنے اور اس میں فکری اتحاد اور نظری و عملی یگانگت پیدا کرنے کے لیے لازمی ہے کہ پہلے تجزیہ کرکے دیکھا جائے کہ اس میں کون سے پہلو اس کی قوت کا مظہر ہیں، کمزوری کہاں پائی جاتی ہے، اسے کون سے چیلنج درپیش ہیں اور کون سے مواقع ایسے ہیں جن کے لیے مناسب حکمت عملی وضع کرنے کے نتیجے میں اُمت مسلمہ دوبارہ قائدانہ منصب پر فائز ہوسکتی ہے۔
ہماری راے میں حسب ذیل سات خوبیاں، اُمت کی قوت کا مظہر ہیں:
۱- قوتِ ایمانی: حقیقت یہ ہے کہ اُمت مسلمہ کی اصل قوت اس کی قوتِ ایمانی ہے جس سے وہ خود کم آگاہ ہے اور جس سے دشمن لرزاں رہتا ہے۔ یہی اس کی وحدت کا راز ہے اور اسی بنا پر اس قوت کو زائل کرنے کے لیے ابلیس اور اس کی ذُریت تخلیق انسان سے آج تک برسرِپیکار ہے۔ دورِ جدید کے بے شمار نظریات ہوں، منصوبے اور حکمت عملی ہوں، ان سب کا اصل ہدف اُمت کا ایمان ہے۔ جس وقت تک مسلمان اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کو اپنا حامی و ناصر، محافظ و حاکم سمجھتا ہے، بڑی سے بڑی فرعونی اور طاغوتی قوت اسے سر جھکانے پر آمادہ نہیں کرسکتی لیکن جس لمحے وہ صرف مادی اور انسانی ذرائع کو اپنی کامیابی کا ضامن سمجھتا ہے، وہ طاغوت اور باطل کے لیے ایک نرم نوالہ بن جاتا ہے۔ اسی ایمانی قوت کو سورئہ انفال میں رب کریم نے یوں بیان فرمایا ہے: ’’اے نبیؐ! مومنوں کو جنگ پر اُبھارو۔ اگر تم میں سے ۲۰ افراد صابر ہوں تو وہ دو سو پر غالب آئیں گے اور اگر ۱۰۰ آدمی ایسے ہوں تو منکرین حق میں سے ہزار آدمیوں پر بھاری ہوں گے‘‘۔ (الانفال ۸:۶۴)
یہ قوتِ ایمانی روزِ اول سے اُمت مسلمہ کا اثاثہ ہے اور آج بھی یہی وہ قوت ہے جو یک قطبی طاقت کے دل و دماغ، اسرائیل کو اس سے خائف رکھتی ہے اور ان شاء اللہ کفروظلم کو شکست دینے کے لیے سب سے مؤثر اسلحے کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس قوت کے ہوتے ہوئے اُمت مسلمہ کو کسی سے خائف اور لرزہ براندام ہونے کی ضرورت نہیں۔
۲- عالمی بیداری کی لھر: اُمت مسلمہ کی قوت کا دوسرا مظہر دورِ جدید میں پائی جانے والی عالمی بیداری کی لہر ہے۔ مغربی سامراج سے سیاسی آزادی کے حصول کے ساتھ اُمت مسلمہ میں انڈونیشیا، ترکی، پاکستان، شمالی افریقہ، وسط ایشیا، غرض ہر اُس خطے میں جہاں مسلمان پائے جاتے ہیں، دوسری عالمی جنگ کے فوری بعد عالمی بیداری کی ایک لہر تیزی کے ساتھ ظہور میں آئی اور ۷۰ کے عشرے تک یہ عالمی بیداری یورپ، امریکا، جنوب مشرقی ایشیا اور آسٹریلیا تک پہنچ گئی۔ نوجوان مسلم دانش وَر ہوں یا انجینیر،طبیب ہوں یا علومِ عمرانی کے ماہر (سوشل سائنٹسٹ)، اسلامی نظام کے قیام کی جدوجہد میں شامل ہوگئے۔ یہ عالمی بیداری بعض اوقات اپنی انتہا پر رہی اور بعض اوقات غیرمحسوس طور پر اُمت مسلمہ کے اندر سرایت کرتی رہی۔ آج اس کی جھلک مغرب و مشرق میں، نہ صرف مسلم اداروں کی شکل میں بلکہ مغربی سرمایہ داروں کے اداروں میں غیر سودی کھڑکیوں کی شکل میں نظر آتی ہے۔ یہ عالمی بیداری اُمت مسلمہ کا ایک قوی پہلو پیش کرتی ہے کہ اُمت مسلمہ نہ بے جان ہے نہ مُردہ بلکہ ایک قابلِ لحاظ قوت رکھنے والی اُمت ہے۔
اُمت مسلمہ کی اس بیداری کو اسلام دشمن قوتیں اپنا اصل حریف سمجھتی ہیں اور انھیں قدامت پرست، بنیاد پرست، انتہا پسند غرض مختلف ناموں سے یاد کرتی ہیں۔ امریکا اور اس کے اتحادیوں کا حرکاتِ اسلامی سے خوف اور ان کے راستے مسدود کرنے اور انھیں برسرِ اقتدار نہ آنے دینے کی کوشش اُمت مسلمہ کے ایک قوت ہونے کی مزید تصدیق کرتی ہیں۔ اگر واقعی اُمت مسلمہ ایک بے جان شے ہوتی تو کفروظلم کی قوتیں اپنی تمام طاقت اس کے خلاف صرف نہ کرتیں۔ اُمت کی اس قوت کا خوف ہرلمحہ طاغوت کو وسوسوں اور خدشوں میں غلطاں و پیچاں رکھے ہوئے ہے۔ اللہ تعالیٰ کا قانون ہے کہ وہ حق کو، چاہے وہ عددی لحاظ سے کم ہو، اس کے خلوص اور صبر کی بنا پر طاغوت کے عظیم لشکروں کے باوجود فتح دیتا ہے۔ تعداد میں کم ہونے کے باوجود آج اُمت مسلمہ کے نوجوان دنیا کے ہر گوشے میں اسلامی نظامِ حیات کے قیام کے لیے سرگرم اور کوشاں ہیں۔ وہ سرمایہ دارانہ معیشت اور آمرانہ سیاست کی جگہ ایک عادلانہ نظام لانا چاہتے ہیں۔
۳- دین کا جامع تصور : اُمت مسلمہ کی تیسری بڑی قوت اور پہچان ۲۰ویںصدی میں دین کی جامع تعبیر ہے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ اسلام کی تاریخ کے مختلف ادوار میں اللہ تعالیٰ نے ایسے افراد پیدا کیے جو دین کی جامع تعلیمات کے ذریعے احیائی تحریکات کے قیام کا سبب بنے۔ ان افراد میں علامہ اقبال، سید مودودی، حسن البنا شہید، سید قطب شہید وغیرہ شامل ہیں۔ ۲۰ویں صدی میں مصر میں حسن البنا شہید نے اور برعظیم میں سید مودودیؒ نے جن تحریکوں کا آغاز کیا ان کے اثرات یورپ و امریکا، جنوب مشرقی ایشیا، وسط ایشیا اور افریقہ و آسٹریلیا تک پہنچے اور اسلام کی رسمی تعبیر کی جگہ اسلام کی جامع تعبیر، بطور ایک مکمل اور قابلِ عمل نظامِ حیات کے وقت کی زبان بن گئی۔ یہ تحریک تعمیر ِقیادت اور تبدیلی ٔ قیادت کو ہدف بناتے ہوئے آگے بڑھیں اور آج مسلم دنیا میں ان کے مخالفین بھی انھیں ایک اہم قوت ماننے پر مجبور ہیں۔ آج یہ تحریکیں اُمت مسلمہ کے جسم میں تازہ خون بن کر گردش کر رہی ہیں اوردشمنانِ اسلام کے لیے ایک مسلسل چیلنج کی حیثیت اختیار کرگئی ہیں۔ نتیجتاً ایک طویل عمل کی شکل میں ان تحریکوں کے زیراثر ایک ایسی تعمیری افرادی قوت وجود میں آرہی ہے جو نہ صرف ان کی فکری قیادت کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے بلکہ مناسب وقت پر سیاسی، معاشی، تعلیمی اور معاشرتی محاذ پر اسلامی متبادل کے طور پر اپنا کردار ادا کرنے کے لیے نشوونما پا رہی ہے۔
۴- جوھری قوت کی استعداد : مندرجہ بالا تین قوی پہلوئوں کے ساتھ اُمت مسلمہ کو یہ امتیاز بھی حاصل ہے کہ اسے ایک نیوکلیر قوت کی حیثیت سے بادل نخواستہ اس کے دشمن بھی ماننے پر مجبور ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ طویل المیعاد اور قلیل المیعاد منصوبوں کے ذریعے پاکستان کو متزلزل کرنے اور طالبان کے خوف کے نام پر پاکستان کے نیوکلیر اثاثوں کو کسی نہ کسی طرح ناکارہ بنا دینے کی سازش میں لگے ہوئے ہیں۔ ان کی سازش تو ایک منطقی عمل ہے، دشمن کو یہ کرنا ہی چاہیے لیکن بیرونی دشمن سے زیادہ خطرناک وہ اندرونی دشمن ہیں جو اس گھنائونے کھیل میں دشمن کی مرضی کے مطابق ملک کو کمزور کرنے اور دشمن کے لیے موقع فراہم کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ دوسری طرف قرآن کریم نے واضح اشارہ کیا ہے کہ اہلِ ایمان کے دشمن کی منصوبہ بندی اور چال کو اللہ تعالیٰ ناکام کردے گا، اس کی حکمت عملی سب سے کارگر حکمت عملی ہے۔ وَاللّٰہُ خَیْرُ الْمٰکِرِیْنَ (۳:۵۴)
۵- وسائل کی فراوانی: اُمت مسلمہ کا پانچواں قوی پہلو ، جس کی اہمیت سے وہ شاید خود بھی آگاہ نہیں ہے، اللہ سبحانہٗ تعالیٰ کی طرف سے اس کی زمینوں اور فضائوں میں ان قدرتی وسائل کی دولت کا فراہم کردینا ہے جس کے حصول اور اس پر قوت کے ذریعے قبضہ کرنے کے لیے، تمام مسلمان دشمن طاقتیں اپنی اپنی سازشوں میں لگی ہوئی ہیں۔ افغانستان اور عراق پر امریکی جارحیت کا بنیادی مقصد ان ذخائر پر قابض ہونا تھا جن کے بغیر اس کی معیشت تباہ ہوجائے گی لیکن یہ امر انتہائی افسوس ناک ہے کہ دشمن کو تو ملت اسلامیہ کے وسائل کی اہمیت کا پورا اندازہ ہے اور وہ اسی بنا پر ان وسائل پر قوت کے ذریعے قابض ہونے میں لگا ہوا ہے لیکن مسلم ممالک کے سربراہان خود اس قوت کے صحیح استعمال سے ناآشنا ہیں اور بغیر کسی تامل کے دشمن کی سازش میں ساجھی بننے میں فخر محسوس کر رہے ہیں۔
۶- افرادی قوت کی بالادستی: اُمت مسلمہ کی چھٹی قوت اس کا انسانی اثاثہ (Human Resource) ہے جس کے بغیر جدید ٹکنالوجی بھی اپنے آپ کو بے بس پاتی ہے۔ یورپ اور امریکا کے معاشرتی جائزے یہ بتاتے ہیں کہ ۲۰۱۰ء تک یورپ اور امریکا میں ۴۵ فی صد افراد عمر کے اس مرحلے میں ہوں گے جب انھیں معاشی طور پر عضو معطل سمجھا جاتا ہے اور سرمایہ دارانہ نظام میں وہ معیشت پر ایک بوجھ (liability ) بن جاتے ہیں۔ اس فطری خلا کو کون پُر کرے گا؟ اُمت مسلمہ میں اس وقت ۱۸، ۲۰ سال کے نوجوانوں کا تناسب ۳۳ فی صد ہے، اگر اُمت ان نوجوانوں کی صحیح تعلیم و تربیت کرتی ہے تو یہی افرادی قوت اس کی دولت بن کر دنیا میں انقلاب برپا کرسکتی ہے۔ اس راز سے آگاہ ہونے کے سبب یورپ و امریکا مختلف عالمی اداروں کے ذریعے کثیر رقم خرچ کر کے یہ چاہتے ہیں کہ اُمت مسلمہ میں آبادی پر قابو رہے اور ۲۰۱۰ء میں ہونے والا فطری آبادی کا وہ سفر (population movment) جو تاریخ کے ہر دور میں کارفرما رہا ہے، منجمد ہوجائے اور یورپ و امریکا میں نسلی بنیادوں پر آبادی کے تناسب میں بڑی تبدیلی نہ ہو۔ اسی بنا پر امیگریشن قوانین کو مسلسل تبدیل کیا جا رہا ہے تاکہ وہ نسلی فوقیت جو یورپی اور امریکی تہذیب کا خاصا ہے، غیرسفیدفام افراد کے آنے سے تبدیل نہ ہو۔
اس سب کے باوجود افرادی قوت ایک ناقابلِ انکار قوت ہے اور اگر انتقالِ آبادی نہ بھی ہو جب بھی یہ افرادی قوت اپنے ملک میں بیٹھ کر ٹکنالوجی کی مدد سے ایسے بے شمار کام انجام دے سکتی ہے جس کے لیے یورپ اور امریکا دوسروں کی مدد کے محتاج ہوں گے۔ اس افرادی قوت کو صحیح منصوبہ بندی کے ذریعے مؤثر اور فنی طور پر اعلیٰ و ارفع بنانے کی ضرورت ہے تاکہ اُمت مسلمہ اپنا مثبت کردار مستقبل میں ادا کرسکے۔
۷- اُمت کا عالمی تصور: اُمت مسلمہ کا ساتواں قوی پہلو اس کا جغرافیائی قیود و حدود سے نکل کر دنیا کے ہر خطے میں اپنی پہچان کے ساتھ پایا جانا ہے۔ اب مسلمان کا مطلب یہ نہیں لیا جاسکتا کہ وہ بغداد یا قاہرہ، استنبول یا دمشق کا باشندہ ہے۔ آج اُمت مسلمہ مغرب و مشرق میں اس طرح پھیل چکی ہے کہ صحیح معنی میں اگر کوئی اُمت بین الاقوامی انٹرنیشنل کہی جاسکتی ہے تووہ صرف اُمت مسلمہ ہے۔ اس طرح چپے چپے پر اپنے قدم جما دینے کے بعد اب اُمت مسلمہ کو نشانہ بنانا دشمنانِ اسلام کے لیے ناممکن ہوگیا ہے۔ اُمت کے افراد کسی ایک مسلک یا خطے میں مرتکز نہیں ہیں۔ ان کا یہ پھیلائو ان کی قوت ہے۔ ایک سیاہ فام امریکی ہو یا سفیدفام فرانسیسی، جب دولت ِ اسلام سے فیض یاب ہوتا ہے تو وہ اُمت مسلمہ کے جسم کا حصہ بن جاتا ہے۔ اس کی پسند ناپسند، اس کا مرنا، اس کا جینا، اس کی عبادت، اس کی قربانی پر ہر چیز صرف اور صرف ایک رب العالمین کے لیے ہوجاتی ہے۔ وہ نہ نسل کا بندہ رہتا ہے نہ رنگ کا، نہ زبان کا نہ رسوم و رواج کا، نہ سیاسی مفادات اور معاشی مقاصد کا، بلکہ صرف اور صرف اللہ کا بندہ بن کر اُمت کی عالمی برادری میں شامل ہوجاتا ہے۔ اس انقلابی قوت کو اگر صحیح طور پر متحرک (mobilize) کیا جائے تو دنیا کی کوئی طاقت اسے زیر نہیں کرسکتی۔
ان ۷ نکات سے یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ یہ قنوطیت پسند رویہ کہ اُمت مسلمہ صفروں کا مجموعہ ہے، زمینی حقائق کی روشنی میں درست نہیں۔ یہ بات بھی بے بنیاد ہے کہ اُمت مسلمہ میں کوئی قوت نہیں ہے، یہ لاچار و بے بس ہے، اس کی ناک کو جو چاہے جب چاہے اور جہاں چاہے گھما سکتا ہے۔ الحمدللہ اُمت مسلمہ ایک ناقابلِ انکار قوت ہے اور یہ قوت آج تاریخ کی روشنی میں موجود ہے۔ یہ کسی فلسفیانہ بحث اور تصوراتی شاکلہ (ہیئت)کا نام نہیں ہے۔ اس کا ٹھوس ناقابلِ تردید وجود پایا جاتا ہے۔
پھر کیا وجہ ہے کہ تین ہفتوں میں ۱۳۰۰ سے زیادہ بے گناہ بچے، عورتیں، جوان اور بوڑھے فلسطین میں شہید کردیے جائیں اور ۵ہزار سے زیادہ زخموں سے چور طبّی خدمات سے محروم رہیں، اور اس پر مستزاد یہ کہ اسلام آباد، استنبول، قاہرہ، ریاض، جکارتا اور کوالالمپور کے اقتدار کے ایوانوں میں پائے جانے والے حکمران خوابِ خرگوش میں مست ہوں؟ پھر کیا وجہ ہے کہ جس دوم درجے کے امریکی سرکاری ملازم کے حکم اور تعاون سے افغانستان سے امریکی ہوائی جہاز پاکستان کی حدود میں آکر یہاں کے بے گناہ شہریوں اور مدرسے کے ۲۰۰ بچوں کو نشانہ بنا کر بہ خیریت واپس چلے جائیں، اسی دشمنِ پاکستان کو ہلالِ قائداعظم دیا جائے؟ ایسا کیوں ہے؟ ہم اتنے کمزور کیوں ہیں؟
اگر جائزہ لیا جائے تو اُمت کی کمزوریوں کو بھی سات نکات کے تحت اختصار سے بیان کیا جاسکتا ہے:
۱- علاقائی، نسلی اور لسانی تقسیم: پہلی کمزوری اُمت مسلمہ کے بعض گروہوں کا خود اپنے بارے میں یہ تصور ہے کہ ان کے تشخص کی بنیاد نسلی، علاقائی اور لسانی خصوصیات پر ہے۔ چنانچہ وہ اپنے آپ کو بنگلہ دیشی، افغانی، عراقی، مصری، شامی، انڈونیشی، ملیشن کہنے میں فخر محسوس کرتی ہے، اسے اپنی قومی زبان سے زیادہ علاقائی زبان پر ناز ہوتا ہے حتیٰ کہ بعض ناعاقبت اندیش اور دشمنانِ عقل و خرد اُردو جیسی اسلامی روایات کی علَم بردار زبان کو اس کے اعلیٰ و ارفع مقام سے گراکر ایک غیرمحسوس اور محدود افراد کے گروہ کی زبان بناکر پیش کرتے ہیں کہ اُردو بولنے والے ان افراد کے پوتے اور نواسے ہیں جوتقسیم ملک سے قبل اُردو بولا کرتے تھے۔
یہ نسلی، لسانی اور علاقائی تصور جو سامراجی طاقتوں کے دیے ہوئے نظامِ تعلیم اور ہندوازم اور دیگر نظاموں سے مستعار لیے گئے تصورات کے نتیجے میں اُمت مسلمہ میں سرایت کرگیا ہے، اس کی سب سے بڑی کمزوری ہے جسے دشمن بہ کمالِ فن اُمت میں مزید انتشار اور فرقے پیدا کرنے کے لیے دن کی روشنی میں استعمال کر رہا ہے اور اُمت مسلمہ اس کے جال میں پھنس جانے کے باوجود اپنے محبوس کیے جانے سے لاعلم ہے۔ اس کمزوری کے سبب عراق ہو یا ایران، ترکی ہو یا پاکستان یا افغانستان، ایک مسلک کو دوسرے کے ساتھ اور ایک لسانی گروہ کو دوسرے کے ساتھ لڑاکر اپنا اُلو سیدھا کرنے کا عمل جاری ہے۔ بیرونی سامراج کے اس شاطرانہ عمل میں بہت سے مقامی افراد بھی ان کے شریکِ کار ہیں۔
۲- استحصالی معاشی قوتوں پر انحصار: اُمت مسلمہ کی دوسری کمزوری اس کا استحصالی معاشی قوتوں پر انحصار ہے۔ وہی معاشی قوتیں جو اُمت مسلمہ کے عضوعضو پر چوٹ لگا کر قرضوں کے ذرعیے اسے معاشی طور پر اپنا غلام بنانے میں لگی ہوئی ہیں، اُمت مسلمہ انھی پر انحصارواعتماد کو اپنے لیے ذریعۂ نجات سمجھتی ہے۔ عقل کے اس طرح مارے جانے کی ذمہ داری استحصالی طاقتوں پر نہیں رکھی جاسکتی۔ یہ صریحاً اُمت مسلمہ کی اپنی حماقت، عاقبت نااندیشی ہے اور جہالت ہے کہ وہ اپنے مفادات دوسروں کے حوالے کرنے کے بعد ان سے بھلائی کی اُمید رکھے۔
دوسروں بلکہ دشمنوں پر معاشی انحصار کے چنگل سے نکلے بغیر اُمت مسلمہ مستقبل میں اپنا کوئی کردار ادا نہیں کرسکتی۔ یہ بات کسی تعارف کی محتاج نہیں کہ جو ممالک معاشی طور پر محکوم ہوں، وہ سیاسی اور عسکری طور پر بھی آزاد نہیں رہ سکتے۔ اس لیے اس کمزوری کو دُور کیے بغیر اُمت مسلمہ کی نشاتِ ثانیہ آسان نہیں ہوگی۔
۳- عسکری قوت کے لیے دشمن پر انحصار: اُمت مسلمہ کی تیسری کمزوری اس کا عسکری میدان میں اپنے دشمن کی امداد پر انحصار کرنا ہے۔ بلاشبہہ جدید ٹکنالوجی غیرمعمولی طور پر مہنگی ہے لیکن جب تک اُمت مسلمہ عسکری میدان میں اپنے وسائل پر بھروسا نہیں کرے گی، وہ سامراجی طاقتوں کی محتاج و محکوم رہے گی۔ آج مسلم ممالک کے بارے میں مطبوعہ اعداد و شمار یہ بتاتے ہیں کہ اگر کسی بنا پر وہ جنگ کرنے پر مجبور ہوجائیں تو دس بارہ دن سے زیادہ کا اسلحہ ان کے پاس نہیں ہے۔ جنگی اسلحے کے پرزے عموماً مغربی ممالک سے حاصل کیے جاتے ہیں اور ان کے حصول کے بغیر جدید آلاتِ حرب کام نہیں کرسکتے۔ عسکری طاقت ہونے کے باوجود غیروں پر اس طرح کا انحصار اُمت کی عسکری طاقت اور ایٹمی قوت ہونے کی حیثیت کو ختم یا معطل کردیتا ہے۔ اس کمزوری کو دُور کیے بغیرترقی کا سفر ناہموار ہی رہے گا۔
۴- حکمرانوں کی ذھنی غلامی: چوتھی اور ایک اہم کمزوری اُمت مسلمہ میں برسرِاقتدار طبقے کی ذہنی، فکری اور روحانی غلامی ہے۔ فرماں روا طبقات نہ صرف فکری طور پر مغربی طاقتوں اور مغربی فکر کی برتری پر ایمان بالغیب لاچکے ہیں بلکہ ان کے خیال میں جو ان کی روش سے اختلاف کرتا ہے، وہ اس دنیا کا باشندہ نہیں ہے اور نہ اسے اس دنیا میں رہنا چاہیے۔ ان کی یہ غلامی محض فکر اور نظام کی حد تک نہیں ہے بلکہ وہ مغرب کے تصورِ مذہب اور روحانیت پر بھی ایمان لاکر اس کی تصدیق اپنے عمل سے کرتے رہتے ہیں۔ چنانچہ مخصوص دنوں میں بعض تہوار منانے اور عیدین یا جمعے کے موقع پر دو رکعتیں ادا کرنے کے بعدوہ سمجھتے ہیں کہ بے چارہ اسلام آزاد ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام کا دائرۂ کار مسجد ہے۔ حتیٰ کہ مسجد سے وابستہ مدرسہ کو بھی مغربی خواہش اور حکم کی تعمیل میں لادین بنانا (سیکولرائز) کرنا چاہتے ہیں تاکہ وہاں سے بھی پریشان خیال افراد نکلیں اور اس طرح نہ سرکاری تعلیم کے ذریعے اور نہ دینی تعلیم کے واسطے سے، باہمت، باوقار، خوددار اور ایمان دار افرادی قوت پیدا ہوسکے۔
یہ ذہنی غلامی محض سیاسی وفاداری تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ فکر کے ہر ہرشعبے میں پائی جاتی ہے چاہے وہ معیشت ہو، معاشرت و ثقافت ہو یا تعلیم اور ابلاغِ عامہ۔ ہرشعبۂ حیات میں جب تک مغرب کی مکمل نقالی نہ کرلی جائے، ان کے خیال میں ترقی نہیں ہوسکتی۔ ترقی دراصل مکمل نقالی کے مترادف سمجھ لی گئی ہے۔ چنانچہ جب تک (ممالکِ اسلامیہ کی) ایک نیوزکاسٹر خاتون، بی بی سی یا سی این این کی نیوزکاسٹر کے سے چہرے، بال، لباس اور آواز کے ساتھ ایک نوپاکستانی برطانوی یا امریکی نژاد کے سے لہجے میں خبریں نہ پڑھے انھیں تسکین نہیں ہوتی۔
اس ذہنی و فکری اور روحانی غلامی سے نجات اور اپنی اقدارِ حیات،اپنی ثقافت اور اپنی فکر کا احیا کیے بغیر اُمت مسلمہ ایک انچ بھی ترقی نہیں کرسکتی۔ اس کمزوری سے آگاہی اور اس کا سدباب اور اس کے اثرات کو جڑ بنیاد سے اکھاڑے بغیر نجات ناممکن ہے۔
۵- مفاد پرست طبقے کا تسلط: اُمت مسلمہ کی پانچویں کمزوری نااہل اور مفادپرست سیاسی شاطروں کا اس پر بالجبر تسلط ہے۔ اسلام کے سیاسی نظام کی بنیادی خصوصیت اس کا انتخابی، شورائی، اہلیت کی بنیاد پر آزادیِ راے کے ساتھ عوامی انتخاب کے ذریعے امانت دار، تفقہ فی الدین رکھنے والے، متقی افراد کا انتخاب ہے۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اُمت مسلمہ کے کسی ایک ملک میں بھی، الا ماشاء اللہ، قیادت ایسے افراد کے ہاتھوں میں نہیں ہے جو اسلامی اصولوں پر پورے اترتے ہوں، (ترکی اور ایران ایسی مثالیں ہیں جہاں ایک حد تک بے لوث اور ملک کی خیرخواہ قیادت پائی جاتی ہے)۔
اس کمزوری کا بڑا سبب خود ہمارے عوام کی بے خبری، جہالت، سادہ لوحی یا بے حسی، مفاد پرستی، اور نااہل افراد کو ووٹ دے کر، یا کسی اور طریقے سے اس عمل میں حصہ بن کر اقتدار حاصل کرنے دینا ہے۔ بلاشبہہ ووٹ کے لیے دولت اور دھوکے کا استعمال ایک حرام ذریعہ ہے اور اقتدار کے طالب عناصر اس جرم کے مرتکب ہو رہے ہیں لیکن عوام بھی بری الذمہ نہیں۔ اس لیے کہ اس حرام ذریعے سے جو لوگ برسرِاقتدار آئے ہیں آخر عوام نے ان کو دولت کے عوض ووٹ دیا ہے، دھاندلی میں برابر کی شرکت کی ہے، یا وقتی مفادات اور تعلقات کی وجہ سے ووٹ کی اپنی قوت کو غلط استعمال کیا ہے اور نتیجتاً اپنے اُوپر جان بوجھ کر فقروفاقہ، ذلت اور محکومی کو مسلط کیا ہے، بلاشبہہ بڑے ملزم تو سیاسی شاطر ہی ہیں مگر سو فی صد انھی کو موردِ الزام نہیں ٹھیرایا جاسکتا۔
ایک طویل صبرآزما عمل کے ذریعے اس کمزوری کو دُور کرنا ہوگا اور ووٹ کی قوت کو چند سکّوں کے عوض فروخت کرنے کے کلچر کو تبدیل کرنے کے بعد ایسے افراد کو قیادت میں لانا ہوگا جو اللہ کا خوف رکھتے ہوں، بکائو مال نہ ہوں،جنھیں اُمت کا مفاد عزیز ہو، جو صلاحیت رکھتے ہوں، جو امین ہوں، جن کا کردار ماضی کی مالی، اخلاقی اور سیاسی بے ضابطگیوں اور جرائم سے پاک ہو۔ ہرکمزوری دُور کی جاسکتی ہے لیکن اسے دُور کرنے کے لیے عزم کے ساتھ ساتھ قربانی اور مسلسل جدوجہد بھی ناگزیر ہے۔
۶- تعلیمی انحطاط: اُمت کی چھٹی کمزوری اس کا تعلیمی اضمحلال ہے۔ دنیا کے ممالک کا جائزہ لیا جائے تو تعلیم کے میدان میں اُمت مسلمہ بہت پیچھے نظر آتی ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کو ایک طرف رکھتے ہوئے حقیقت ِ واقعہ یہ ہے کہ نہ صرف اعلیٰ تعلیم بلکہ بنیادی تعلیم میں بھی اُمت مسلمہ تمام اقوامِ عالم سے پیچھے ہے۔ اس کمزوری کو فوری طور پر دُور کرنے کی ضرورت ہے اور حل بہت آسان ہے۔ کُل قومی پیداوار کا ۷ یا ۸ فی صد اگر تعلیم کے لیے مختص کردیا جائے، اسے ایمان داری سے استعمال کیا جائے تو دس سال میں اُمت مسلمہ تعلیم کے میدان میں دنیا کی قیادت کرسکتی ہے۔
اس تعلیمی پس ماندگی میں بڑا دخل یکساں تعلیمی نظام کا نہ ہونا بھی ہے۔ اس وقت کئی متوازی نظامِ تعلیم مسلم دنیا میں چل رہے ہیں۔ خود پاکستان میں کم از کم تین نظامِ تعلیم ہر گلی میں رائج ہیں۔ ایک طرف سرکاری تعلیم کا نظام ہے جو ناکافی ہے، ناقص ہے، اور ملک و قوم کی تعلیمی ضروریات کو پورا کرنے کی اہلیت سے عاری ہے۔ دوسری طرف روایتی مذہبی تعلیمی نظام ہے جو غریب طبقہ کی کچھ ضرورتیں اور معاشرے کی روایتی مذہبی خدمات کے لیے مردان کار جیسے تیسے تیار کردیتا ہے مگر ملک و قوم کی ہمہ جہتی ضروریات کی فراہمی اور اُمت کو نئی قیادت فراہم کرنے میں بے بس اور ناکام ہے۔
ایک تیسری مصیبت وہ نجی تعلیمی نظام ہے جس کے تحت بیرونی تعلیمی ادارے ایک ایسی نئی نسل تیار کر رہے ہیں جس کی سوچ اور کردار اُمت کے جذبات و عزائم کی آئینہ دار نہیں اور جس کے نتیجے میں معاشرے کی قیادت اور زندگی کے مختلف شعبوں میں زمامِ کار ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں آرہی ہے جو مغربی تہذیب کے گماشتے ہیں۔ اس پورے نظام میں اسلامی شخصیت اور اسلامی تہذیب و ثقافت کا رنگ غائب ہے۔یہ ایک ایسی کمزوری ہے جسے دور کیے بغیر اور صحیح اسلامی نظام کو نافذ کیے بغیر اُمت مسلمہ ترقی کا سفر طے نہیں کرسکتی۔
۷- اداراتی زوال: اُمت مسلمہ کی ساتویں کمزوری اس کا ادارتی زوال ہے۔ ہمارے وہ ادارے جو پندرہ سو سال سے اُمت مسلمہ کے وجود کو برقرار رکھنے اور اسے آگے سفر کرنے میں آسانی فراہم کرتے رہے ہیں، ہم نے ان میں سے ہر ایک کو یکے بعد دیگرے کمزور کرنے کے بعد معاشرہ بدر کردیا۔ قانون، قضا اور ریاست تو سب سے پہلے نشانہ بنائے گئے لیکن بات وہاں رُکی نہیں۔ سول سوسائٹی کے دوسرے اداروں کی حالت بھی دگرگوں ہے۔ وہ ادارہ اوقاف کا ہو یا مدرسہ کا، جو ریاست کی ذمہ داریوں کے ساتھ عوامی بہبود اور فلاح کے کاموں میں اپنا کردار ادا کرتا تھا یا خاندان کا ادارہ ہو، ہم نے کسی کو بھی تحفظ دینے میں دل چسپی نہیں لی۔ آج خاندان جس طرح منتشر ہو رہا ہے اور خواتین کے حقوق کے نام پر جس طرح اسلامی تعلیمات کے بجاے مغربی تصورات کو اپناتا جا رہا ہے، وہ اداروں کے زوال کی واضح مثال ہے۔ ہم نے حسبہ اور عدلیہ کے ادارے کو اپنے معاشرے سے بے دخل کردیا اور اس طرح ہراخلاقی قید سے آزاد ہوکر بے راہ روی کا شکار ہوگئے۔ مسجد کا ادارہ ہو یا شوریٰ،قضا اور فقہ کا ادارہ، ہرہراسلامی ادارے کو نظرانداز کرتے ہوئے ہم سول سوسائٹی کے نام پر ایک مغرب زدہ سیکولر معاشرے کی تعمیر میں لگے ہوئے ہیں۔ اس کمزوری کو دُور کیے بغیر ترقی کا عمل آگے نہیں بڑھ سکتا۔
ان ۷ نمایاں کمزوریوں کے علاوہ اور بہت سے پہلو ایسے ہیں جن پر بات کرنے کی ضرورت ہے لیکن فی الوقت ہم صرف متذکرہ بالا نکات ہی پر اکتفا کرتے ہوئے یہ دیکھتے ہیں کہ قوتوں اور کمزوریوں کے بعد وہ مواقع کون سے ہیں جن کے صحیح استعمال سے اُمت مسلمہ عالمی طور پر ایک تعمیری کردار ادا کرسکتی ہے۔
۱- عالمی معاشی منظرنامہ: مواقع کے سلسلے میں سرفہرست عالمی معاشی منظرنامہ ہے۔ آج دنیا جس معاشی اور مالی انتشار کا شکار ہے اُس نے سرمایہ دارانہ نظام کے کھوکھلے ہونے اور اس کے دعووں کے باطل ہونے کو بزبانِ خود ثابت کردیا ہے۔ سود کی بنیاد پر کاروبار کرنے والے بنک بھی اسلامی بنک کاری اور اسلامی فنانس کو مجبوراً تسلیم کرتے ہوئے اپنے اداروں میں ’اسلامی کھڑکیاں‘ کھولنے پر آمادہ ہیں۔ مسلمان اہلِ علم و دانش کے لیے یہ بہترین موقع ہے کہ اسلامی نظامِ معیشت کو بطور ایک قابلِ عمل متبادل کے مسلم دنیا میں متعارف کرائیں اور اس کے لیے ایک مہم کے ذریعے فضا کو ہموار کرنے کے ساتھ ساتھ مسلم کاروباری افراد کے تعاون سے ایسے ادارے قائم کریں جو سودی لعنت سے نجات اور اسلام کے عادلانہ معاشی اصولوں کو عملاً نافذ کرکے دنیا کے سامنے ایک عملی مثال پیش کریں۔ اگر معروف معاشی اصول یعنی طلب (demand) میں کوئی صداقت ہے تو آج سرمایہ دارانہ نظام کی منڈیاں بھی اس تلاش میں ہیں کہ کس طرح ایک نئے معاشی نظام کے ذریعے اپنا تحفظ کرسکیں۔ اُمت مسلمہ کے لیے یہ قیمتی موقع ہے کہ وہ خود اپنے گھر میں اصلاح کر کے اپنے عمل کو دوسروں کے لیے رہنما بناکر پیش کرسکے۔
۲- ٹکنالوجی کے میدان میں ترقی: ٹکنالوجی کی ترقی کی بنا پر اُمت مسلمہ اپنے علمی اور عملی وسائل کو نیٹ ورکنگ (net working) کے ذریعے یک جا کرکے ایسے بہت سے کام کرسکتی ہے جو تنہا کسی ایک ملک کے لیے ممکن نہیں ہوسکتے۔ آج بڑی سے بڑی تحقیق اور ایجادات کے لیے جو وسائل درکار ہیں وہ چاہے انفرادی طور پر سب کے پاس موجود نہ ہوں لیکن نیٹ ورکنگ کے ذریعے اس مقصد کو حاصل کیا جاسکتا ہے۔ اس موقع کو ضائع کرنا اُمت مسلمہ کے ساتھ بے وفائی ہے۔
۳- ذرائع ابلاغ کے دُور رس اثرات: تیسرا اہم پہلو مواقع کے لحاظ سے دورِ حاضر میں جدید ذرائع ابلاغ کا غیرمعمولی اسٹرے ٹیجک اہمیت حاصل کرلینا ہے جس کی بنا پر اُمت مسلمہ جب چاہے چند لمحات میں دنیا کے کروڑوں افراد تک اپنا پیغام، اپنی دعوت اور فکر پہنچاسکتی ہے۔ لیکن یہ اسی وقت ممکن ہے جب اُمت ابلاغ عامہ کی طاقت اور مناہج سے آگاہ ہونے کے ساتھ انسانی وسائل کو تربیت دے کر فنی مہارت کے ساتھ اپنی دعوت و پیغام کو دل چسپ انداز میں پیش کرسکے۔ ’اسلامی ٹی وی‘ کے نام پر لمبے لمبے خطابات، مناظرے اور جھاڑ پھونک کے عمل اور فوری استخاروں سے یہ مقصد حاصل نہیں ہوسکتا۔ تحریکاتِ اسلامی کے لیے خصوصاً یہ لمحۂ فکریہ ہے کہ اپنی تمام نیک خواہشوں کے باوجود اور اپنے قائدین کی بعض تقاریر کی سی ڈی پیش کرنے کے علاوہ کیا وہ اس موقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے تیار ہیں؟ کیا شخصیات کو پیش کرنا ہی دعوت ہے؟ یا دعوتی مقاصد کے پیش نظر انسانی قوت کی تیاری اور اس کا صحیح استعمال وقت کا تقاضا ہے۔ ابلاغِ عامہ اس صدی کا ایک انتہائی اہم شعبہ ہے۔ اس کا فنی طور پر فہم اور پھر اس کا ایک حکمت عملی کے ذریعے مہارت کے ساتھ استعمال حالات میں انقلاب برپا کرسکتا ہے۔
۴- نوجوان اور افرادی قوت: اُمت مسلمہ کو دستیاب مواقع میں اس کی افرادی قوت کو اہم مقام حاصل ہے جس کی اکثریت نوجوانوں پر مبنی ہے۔ ان نوجوانوں کو ان کی زبان میں اسلام کی دعوت سمجھانے اور قوت کے اس سرچشمہ کا تعمیری استعمال کرنے سے تحریکاتِ اسلامی کو غیرمعمولی کامیابی حاصل ہوسکتی ہے۔ یہ نوجوان نہ صرف سیاسی، بلکہ معاشی اور معاشرتی میدانوں میں اہم اثاثے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ تحریکِ اسلامی کے انسانی وسائل کا تنقیدی جائزہ لے کر یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ مستقبل کے مطالبوں کے پیش نظر کیا وہ قیادت جو ۵۰سال کی عمر سے تجاوز کرچکی ہو، واقعتا آیندہ ۲۰ سال کے لیے ایک قوتِ محرکہ (motivating force) ہوسکتی ہے یا اسے ہرہرسطح پر ایسے افراد کو آگے لانا ہوگا جو نہ صرف فکروفہم کے لحاظ سے بلکہ اپنی قوتِ کار کی بنا پر معاشرے میں قائدانہ کردار ادا کرسکیں۔ افرادی سرمایے کی صحیح نشوونما، اس کی صحیح تربیت اور اس کا صحیح استعمال ہی مستقبل میں کامیابی کی کلید ہے۔ جو تحریکات ان زمینی حقائق کو اپنی سادہ لوحی کی بنا پر نظرانداز کریں گی، وہ اپنی نیک خواہشات کے باوجود اپنے اہداف کے حصول میں پیچھے رہیں گی اور جو اس کا صحیح استعمال کریں گی وہ بادِ مخالف کے باوجود کامیابی کے سفر میں آگے بڑھتی جائیں گی۔
۵- ایٹمی استعداد: عالمی تناظر میں اُمت مسلمہ کے لیے اپنی نیوکلیر صلاحیت کا صحیح استعمال بھی ایک اہم موقعے کی حیثیت رکھتا ہے۔ پاکستان اور ایران کے ساتھ ساتھ اس عمل میں ترکی کو بھی شامل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہاں کے سائنس دانوں کے تعاون سے نیوکلیر قوت کے پُرامن اور عسکری استعمال کے نئے نئے محاذوں پر اُمت مسلمہ آگے بڑھ سکے اور یک قطبی طاقت یایورپی یونین کے دبائو سے اپنے آپ کو آزاد کرسکے۔ اس سلسلے میں بعض غیرمسلم ممالک سے بھی تعاون پر غور کرنے کی ضرورت ہے خصوصاً چین جو اس خطہ میں ایک اہم مرکز قوت ہے، اُس کے ساتھ تعاون کی راہوں پر غور ہونا چاہیے۔
دنیا کے تیل اور گیس کے ذخائر کا نصف سے زیادہ اُمت مسلمہ کے ہاتھوں میں ہے۔ صرف اس ایک قدرتی وسیلے کے ذریعے حاصل ہونے والی آمدنی پوری مسلم اُمت کی معاشی ترقی کے لیے کافی ہے لیکن یہ وسائل اُمت کی ترقی کے بجاے، مغربی اقوام اور مغربی مالیاتی نظام کی چاکری میں لگے ہوئے ہیں۔ فقط اسی ایک وسیلے کے صحیح استعمال سے مسلم دنیا کا نقشہ بدلا جاسکتا ہے اور عالمی سطح پر اُمت کے کردار کو ایک نیا آہنگ دیا جاسکتا ہے۔
اس مختصر جائزے کا اگلا حصہ اختصار کے ساتھ ان اندرونی اور بیرونی خدشات و خطرات پر ایک نظر ڈالنا بھی ہے جو نہ صرف دعوتِ مقابلہ دیتے ہیں بلکہ ایسے مواقع بھی فراہم کرتے ہیں جن کا مناسب اور صحیح استعمال اُمت مسلمہ کے مستقبل کی تعمیر میںاہمیت کا حامل ہے۔ اس سلسلے میں اندرونی طور پر جو خدشات و خطرات پائے جاتے ہیں ان میں اولاً وہ فکری چیلنج ہے جسے ہم صرف ایک اصطلاح یعنی فہم دین کی لغزش سے تعبیر کرسکتے ہیں، جو صدیوں کے دورِ غلامی اور سیاسی آزادی کے بعد بھی ماضی کی روایت سے وابستگی کے نتیجے میں ہمارے حلقوں میں پائی جاتی ہے۔
۱- دین دنیا کی تفریق: اس میں اولاً ذہنی طور پر دین اور دنیا کی تفریق کا تصور ہے جو ہماری سرگرمیوں اور معمولات کو دو اقسام میں بانٹ دیتا ہے اور ان میں سے ہر ایک اپنے دائرۂ کار میں بڑی حد تک آزادی کے ساتھ مصروفِ عمل ہوجاتا ہے۔ ’دین‘ کا دائرہ عملاً مذہب بن جاتا ہے اور عبادات اور چند رسومات ادا کرنے کے بعد ایک شخص حتیٰ کہ ایسے افراد بھی جو فکری طور پر خود کوتحریکِ اسلامی سے وابستہ سمجھتے ہوں ’دنیا‘ کے پیش نظر شادی بیاہ کی تقریبات ہوں یا دیگر معاشرتی معاملات، ان میں جو کچھ ’دنیاداری‘ کے تقاضے ہیں، وہ پورے کرتے ہیں اور ساتھ میں نماز روزے کی پابندی کے ذریعے اپنے خیال میں دونوں کے مطالبات کو پورا کرلیتے ہیں۔
اس میں مزید غور کیا جائے تو ایک واضح تفریق ذاتی اور معاشرتی مطالبات کی پائی جاتی ہے۔ ایک شخص ذاتی طور پر ممکن ہے کہ نہ صرف عبادات پر عامل ہو بلکہ اپنی بیوی کے ساتھ بھلے انداز میں پیش آتا ہو لیکن معاشرتی معاملات میں جب اسے اپنی بیٹی یا بیٹے کے لیے رشتہ درکار ہوتا ہے تواس کی ذاتی عبادات اور تحریکیت ان معاملات پر کوئی بڑا اثر نہیں ڈالتی اور وہ معاشرتی رواجوں کا غلام بن کر اور ان پر عمل کرکے بہت خوش ہوتا ہے۔ وہ یہ چاہتا ہے کہ اس کی اپنی بیٹی تو جس گھر میں جائے، وہاں اپنے شوہر کے ساتھ آزادانہ طور پر رہے لیکن جو لڑکی اس کے گھر میں آئے، وہ سارے گھر کی ’خادمہ‘ بن کر رہے اور اپنے ساتھ وہ سب سازوسامان لے کر آئے جس کے خلاف وہ عوامی سطح پر خطابات کرتا رہا ہے۔ یہ تفریق اور دوعملی ایک مرض ہے اور اس کا جتنا جلد سدباب ہوسکے ،اتنا ہی اُمت مسلمہ کے لیے مفید ہوگا۔
اُمت کو ایک اور تفریق کا بھی سامنا ہے جس کا تعلق معاشی معاملات سے ہے۔ وہ افراد بھی جو اپنی عبادات اور ’مذہبی‘ معاملات میں قرآن و سنت کی پیروی کا اہتمام کرتے ہیں، جب تجارت اور لین دین کا معاملہ ہوتا ہے، عملاً غیر ذمہ داری کے مرتکب ہوتے ہیں۔ عموماً شراکت کے کام مالی بدمعاملگی کے سبب غیرعادلانہ نتائج تک پہنچ جاتے ہیں اور وہی شخص جو ذاتی طور پر بہت دین دار تھا، اجتماعی تجارت و شراکت میں غیرذمہ دار ثابت ہوتا ہے۔ یہ اندرونی مرض اُمت کی معاشی ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔ قرآن نے جو ہدایات تجارت و شراکت کے بارے میں دی ہیں، انھیں سمجھ کر اور مکمل طور پر نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔
اس تفریقی عمل کو آگے بڑھایا جائے تو یہ تفریق سیاست، ثقافت اور مسالک میں بھی پائی جاتی ہے۔ چنانچہ ایک بظاہر مذہبی فرد سیاست میں ایسے افراد کے ساتھ اتحاد کرنے میں کوئی تکلف محسوس نہیں کرتا جو اپنے کردار و عمل کے لیے دھوکا،دھاندلی اور بدکرداری کے لیے معروف ہوں۔ ایسے تمام مواقع پر اپنے عمل کو یہ کہہ کر پاک صاف کرلیا جاتا ہے کہ سیاست میں تو یہ کرنا ہی پڑتا ہے۔ یہی معاملہ ثقافت کے بارے میں پایا جاتا ہے۔ اسلام کے تمام دعووں کے باوجود ایسی تقریبات میں شرکت اور ان کا انعقاد جو اسلامی اصولوں کے منافی ہوں، اس تفریق کا ثبوت ہیں۔
دین و دنیا میں تفریق کے تصور کے نتیجے میں نہ صرف بیرونی سامراج کے دورِ غلامی میں بلکہ سیاسی آزادی کے بعد بھی اُمت میں ایک بڑی تعداد ایسے افراد کی پائی جاتی ہے جو سیاست میں حصہ لینے کو دین کے منافی سمجھتے ہیں اور اس طرح سیاسی معاملات کو ان افراد کے حوالے کرنے میں کوئی تکلیف محسوس نہیں کرتے جو اسلامی نظامِ حیات کے قیام اور ملک میں اللہ کی حاکمیت کے قیام کی کھلم کھلا مخالفت کرتے ہیں۔ اس کا بنیادی مفروضہ یہ ہوتا ہے کہ چونکہ ’جمہوریت‘ ایک غیر اسلامی تصور ہے اس لیے جمہوری اداروں سے عدمِ تعلق اور انھیں لادین افراد کے حوالے کر دینا ہی مدعاے شریعت ہے، اُمت کا ایک باشعور طبقہ اس کے برعکس یہ سمجھتا ہے کہ جمہوریت کو وقتی طور پر وسیلہ بناکر افرادی قوت کے ذریعے بتدریج اسلامی نظام کو نافذ کیا جاسکتا ہے۔ اس لیے مکمل اسلامی نظام کے قیام کا ہدف سامنے رکھتے ہوئے ضرورت کی حد تک جمہوری سیاسی عمل میں شرکت دین کے مقاصد کے منافی نہیں ہے۔
بظاہر اسلام دوستی رکھنے کے باوجود اس اندرونی تقسیم کا تمام تر فائدہ سیکولر اور اسلام دشمن قوتوں کو پہنچتا ہے اور ملکی عوام کی اکثریت کے اسلام سے وابستگی کے باوجود اس تقسیم کی بنا پر وہ انتخابات میں اسلام پسندوں پر سبقت لے جاتے ہیں اس خطرے کا حل خود اسلام پسند افراد کو نکالنا ہوگا۔
۲- احساس لاچاری وضعف: ایک متعدی اور مہلک مرض جو اُمت مسلمہ نے اپنے اُوپر نفسیاتی طور پر طاری کرلیا ہے، وہ اس کا احساسِ لاچاری اور ضعف ہے۔ قیادت پر فائز افراد ہوں یا عام انسان، یہی بات کہتا ہے کہ ہم کیا کرسکتے ہیں؟ جب تک ’چچا سام‘ اجازت نہیں دے گا فلاں کام کیسے ہوگا۔ یا یہ بات بار بار کہی جاتی ہے کہ پاکستان یا مصر یا ترکی میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ صہیونی سازش ہے اور اس میں ہم کیا کرسکتے ہیں۔ نتیجتاً ایک احساسِ لاچاری، بے بسی اور سپردگی اُمت کی نفسیات پر مسلط ہے۔ گویا دراصل دشمن کا جو اصل مقصد تھا یعنی اُمت مسلمہ کو مسحور کردینا وہ اسے حاصل ہوجاتا ہے اور اُمت کے قائدین خود زور شور سے ’غیرملی یا صہیونی و امریکی سازشوں‘ کی تصدیق کر کے اپنے آپ کو بے بسی، ضعف اور لاچاری کی کیفیت میں مبتلا کرلیتے ہیں۔ اس احساسِ شکست اور پسپائی سے نکلے بغیر اُمت مسلمہ آگے نہیں بڑھ سکتی۔
۳- فکری یلغار: ان چند اندرونی خطرات کے ساتھ بعض بیرونی خطرات بھی غور طلب ہیں۔ ان میں سب سے اول وہ فکری یلغار ہے جو ایک طویل عرصہ سے اُمت مسلمہ پر اثرانداز ہوتی رہی ہے اور اس وقت اپنے عروج پر ہے۔ اس فکری یلغار کے لیے جو حربہ استعمال کیا گیا، وہ تعلیم کا بھی ہے اور ابلاغِ عامہ کا ہے۔ دونوں کا مشترک نکتہ یہ ہے کہ مغرب کی ترقی کا راز مذہب سے آزادی اور مادی، تجرباتی، سیکولر علم کی بنیاد پر فکر کی تدوین و تعمیر ہے، اس لیے مسلم دنیا کو بھی ترقی کے حصول کے لیے سیکولرازم کا راستہ اختیار کرنا ہوگا، چنانچہ اس غرض کے لیے نصاب میں تبدیلی، ایسی کتب کا لکھا جانا جو ایک سیکولر ذہن پیدا کریں، اسلامیات کو دس مختصر قرآنی سورتوں اور دس احادیث کے سرسری طور پر پڑھنے تک محدود کردینا اور ابلاغ عامہ خصوصاً برقی ابلاغ عامہ میں مذہب کا مذاق یا اسے تضادات اور انتشار اور الجھائو پیدا کرنے والا دکھانا یہاں تک کہ ایک دیکھنے والا یہ کہنے پر آمادہ ہوجائے کہ واقعی مذہب مسائل کا گھر ہے، اور اس سے نجات حاصل کیے بغیر ہم ترقی نہیں کرسکتے۔ یہ وہ فتنہ ہے جو آیا تو باہر سے ہے لیکن اب یہ مقامی طور پر قدم جما رہا ہے اور اس کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک واضح اور جامع حکمت کی ضرورت ہے۔
۴- ثقافتی یلغار: دوسرا بڑا بیرونی خطرہ ثقافتی یلغار ہے جس کے تحت اُمت مسلمہ کی اپنی اقدارِ حیات، اخلاقی اصولوں اور ان کی روشنی میں زبان، لباس، طعام اور تفریح ہرچیز کو نشانہ بناتے ہوئے یہ کوشش کی جارہی ہے کہ اُمت مسلمہ مغربی اور ہندوانہ ثقافت کی بصری اور سمعی طور پر عادی ہوجائے۔ آج عرب دنیا خصوصاً خلیج کے علاقے میں لباس ہو، کھاناہو، گانا ہو، یا فلم، ہندو ثقافت مغربی ثقافت کے دوش بدوش اپنے اثرات گہرے کررہی ہے۔
پاکستان میں اکثر نجی ٹی وی چینل مغربی تہذیب و ثقافت کے ساتھ ہندوانہ ثقافت کو پاکستان میں رائج کرنے میں مصروفِ عمل ہیں اور مسلسل یہ بات باور کرانا چاہتے ہیں کہ پاکستانی اور بھارتی ثقافت میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اس سے زیادہ غلط بیانی شاید ہی کوئی ہو لیکن اسے سچ بناکر پیش کیا جا رہا ہے۔ ۹۰ فی صد کھانے پکانے کے پروگرام ان کھانوں کی ترکیب بتاتے ہیں جن کا نام بھی ایک عام پاکستانی شہری نے نہ سنا ہو اور تھائی لینڈ، چین اور امریکا میں مرغوب کھانے سمجھے جاتے ہیں لیکن جو ایک عام شہری خواب میں بھی نہ پکا سکتا ہے نہ کھا سکتا ہے۔ یہی شکل لباس کی ہے کہ فیشن شو کے نام پر ہر وہ لباس جو حیا کو تار تار کرنے والا ہو بہت پُرکشش انداز میں پیش کیا جاتا ہے۔ یہ ثقافتی یلغار محض استغفار پڑھنے اور بددعا کرنے سے نہیں رُکے گی، اس کے لیے متبادل ثقافتی مہم اور عوامی سطح پر راے عامہ کی تیاری کی ضرورت ہے۔
۵- معاشی یلغار: تیسرا اہم بیرونی خطرہ وہ معاشی یلغار ہے جس میں اُمت مسلمہ کی قیادت کو خصوصاً یہ باور کرا دیا گیا ہے کہ ترقی کا راستہ صرف اور صرف ورلڈبنک اور آئی ایم ایف سے ہوکر گزرتا ہے۔ اگر اُمت مسلمہ نے اس کے علاوہ کوئی اور راستہ اختیار کیا تو وہ تباہ ہوجائے گی۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ورلڈبنک ہو یا آئی ایم ایف، دونوں کے زیراثر آنے والے کسی ملک نے آج تک خودانحصاری کا مزہ نہیں چکھا۔
اس کے اثرات دینی حلقوں میں بھی دیکھے جاسکتے ہیں اور بعض حضرات اپنی سادہ لوحی یا گروہی عصبیت کے زیراثر اسلامی بنکاری اور تجارت و تکافل کے اداروں پر یہ کہہ کر تنقید کر رہے ہیں کہ ان میں اور سودی اداروں میں محض نام کا فرق ہے۔ گویا عوام الناس کے لیے بہتر ہے کہ سودی نظام ہی میں پھنسے رہیں اور ان اداروں کی طرف نہ جائیں۔ اس سادہ لوحی کی اصلاح کی فوری ضرورت ہے تاکہ جلد یا بہ دیر اسلامی معاشی ادارے سودی اداروں کے متبادل کے طور پر اپنے وجود کوتسلیم کراسکیں۔
۵- خواتین کو صاحبِ اختیار بنانے کا فتنہ: کچھ عرصہ سے ایک پانچواں خطرہ بلکہ فتنہ، خواتین کو بااختیار بنانے (empowerment) کے نام سے بیرونی اداروں کی طرف سے امت پر مسلط کیا جارہا ہے۔ اس امر کو ’حقوقِ انسانی‘ کے ساتھ منسلک کر کے یہ کہا جا رہا ہے کہ اب خواتین کو یکساں انسانی حقوق کی بنا پر فوج اور انتظامیہ میں اپنا کردار ادا کرنے کا موقع ملنا چاہیے تاکہ ملک ترقی کرسکے۔ مغرب اور خصوصاً امریکا اور یورپی ممالک اس مہم کی پشت پناہی میں سب سے آگے ہیں۔ ابھی حال ہی میں امریکی جریدے نیوزویک نے اپنی خصوصی اشاعت براے دسمبر ۲۰۰۸-فروری ۲۰۰۹ء میں ایک مضمون شائع کیا ہے جو مغرب کے اس منصوبے کو واضح اور واشگاف الفاظ میں پیش کرتا ہے:
مسلمانوں کے بارے میں امریکی پالیسی کامحرک صرف دہشت گردی کی مخالفت نہ ہو بلکہ حقوقِ انسانی کی عالمی تحریک کو اس کی تکمیل کرنا چاہیے۔ اس طرح ایک باہمی تعاون کی حکمت عملی تشکیل پاجائے جو یہ تسلیم کرے کہ عام مسلمان، خاص طور پر مسلمان خواتین، جہادی تحریکوں کا ہدف ہونے کے ساتھ ساتھ ان کے خلاف لڑائی میں لازمی شریکِ کار ہیں۔ (ص ۴۳)
اس مقدمے کے بعد یہ حل پیش کیا جا رہا ہے کہ امریکی صدر خواتین کے انسانی حقوق کے بہانے انھیں معاشی دوڑ میں مرد سے آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کرے۔
تجارت پیشہ مسلم خواتین اپنے اہلِ خاندان اور ہمسایوں سے آگے بڑھ کر وسیع تر حلقے میں خدمات انجام دے سکتی ہیں۔ کاروباری صلاحیت رکھنے والی مائیں اپنے بچوں کے لیے تجارت___ اور مستقبل کے منصوبوں___ کے لیے مواقع فراہم کرسکتی ہیں___ اس لیے مسلم خواتین کے لیے کم رقم کے قرضوں کی فراہمی، ایک ایسی خارجہ پالیسی کا جزو بن جائے گا جو دہشت گردی کے مخالف اقدامات اور انسانی حقوق میں توازن رکھتی ہو۔ (ص ۴۴)
اس حکمت عملی میں جو بات واضح ہوکر سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ مسلمان عورت کی اولیں دل چسپی اور کارکردگی کا مرکز گھر اور خاندان نہ رہے اور وہ بجاے گھر کے مرد کو معاشی استحکام دینے کے، خود محنت کشی میں لگ جائے جس کا مقصد عورت کو معاشی خودمختاری فراہم کرنا ہے جس کے لیے اسے آسان شرط پر قرضہ دیا جائے۔ یہ تجربہ بنگلہ دیش میں گرامن بنک کرچکا ہے اور معاشی ماہرین نے اس کا جو تجزیہ کیا ہے وہ یہ بتاتا ہے کہ ان کم رقوم کے قرضوں (micro-credit) کے نتیجے میں بحیثیت مجموعی خواتین کو معاشی استحکام تو نہیں مل سکا البتہ وہ قرضوں کے بوجھ میں پہلے سے زیادہ دب گئیں۔ نتیجتاً گھریلو جھگڑے اور طلاق کی کثرت سے معاشرتی نظام شدت سے متاثر ہوا۔ رپورٹیں یہ بتاتی ہیں کہ آسان شرط پر قرضہ کی شرح سود ۳۰ فی صد ہونے کے سبب عموماً ایک خاتون کو قرضے کی ادایگی کے لیے کسی دوسری این جی او سے قرض لینا پڑا اور اس عمل میں مردوں کے ساتھ اختلاط کے نتیجے میںخاندانی نظام اور اس کے استحکام کو شدید جھٹکا لگا۔
اس جملہ معترضہ سے قطع نظر ’جنسی مساوات‘ کا مغربی تصور ایک ناسور بن کر اُمت مسلمہ کے جسم کو زخم آلود اور خون خون کر رہا ہے۔ اس کی بروقت اصلاح کی ضرورت ہے۔ اسلام جنسی مساوات کی جگہ عدل اور تمام اصناف میں حقوق و فرائض کی عادلانہ تقسیم کا قائل ہے۔ اس پہلو پر علمی اور عوامی سطح پر راے عامہ کو ہموار کرنے کی ضرورت ہے۔
جن خطرات اور خدشات کا ذکر اختصار کے ساتھ کیا گیا ان میں سے اکثر اُمت مسلمہ کے لیے دعوتِ عمل اور چیلنج کی حیثیت بھی رکھتے ہیں لیکن گفتگو کو آگے بڑھانے سے قبل مناسب ہوگا کہ گذشتہ پانچ دہائیوں میں پاکستان، بنگلہ دیش، سری لنکا، مصر، ایران، سوڈان ، الجزائر ، ترکی اور خود یورپ و امریکا میں جس سُرعت کے ساتھ اسلامی فکروثقافت کا احیا ہوا ہے اور خصوصاً سید مودودی اور امام حسن البنا شہید کی برپا کردہ اسلامی تحریکات کے زیراثر نئی نسل نے اعتماد و یقین کے ساتھ اسلام کے مطالعہ اور اپنی زندگی میں اس کے نفاذ پر توجہ دی ہے اس پر اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے اس بات کا اعتراف کیا جائے کہ آج اسلامی حرکات سے متاثر افراد زندگی کے ہر شعبے میں قائدانہ صلاحیت کے ساتھ سرگرمِ عمل ہیں۔ اسلامی مالی اداروں کا قیام، اسلامی تکافل کمپنیاں اور بنک، اسلامی جامعات میں معاشرتی اور طبی و دیگر علوم کی تدوین جدید کی کوششیں اور اس غرض سے اداروں کا قیام اس بات کا ثبوت ہے کہ اسلامی معاشی، معاشرتی اور ثقافتی نظام اکیسویں صدی میں بھی قابلِ عمل ہے۔
اس عرصے میں اسلامی تحریکات نے تحریکاتِ حریت کی کھل کر حمایت کی ہے۔ لیکن مغرب اور مغرب زدہ افراد اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود تحریکاتِ اسلامی کو دہشت گردی میں ملوث ثابت نہیں کرسکے۔ امریکا اور برطانیہ میں تحقیقاتی اداروں نے پوری چھان بین کی لیکن ان تحریکات پر کوئی قابلِ اعتراض سرگرمی ثابت نہ کی جاسکی لیکن اس قسم کی کارروائیوں نے تحریکاتِ اسلامی کے فروغ کی رفتار کو متاثر کیا ہے اور یہ تحریکاتِ اسلامی کے لیے ایک لمحۂ فکریہ ہے۔
ان حالات میں جب کہ اُمت مسلمہ کے اندر غیرمعمولی قوی پہلو موجود ہیں، بعض کمزوریاں بھی ہیں اور ساتھ ہی مختلف خطرات و مطالبات کا سامنا بھی ہے، اہلِ دانش اور کارکنوں کی کیا ذمہ داریاں ہیں اور وہ کس طرح ان حالات کو بہتر بنا سکتے ہیں؟ ایک تفصیل طلب موضوع ہے۔ اختصار کے پیشِ نظر سات نکات پر غور کیا جاسکتا ہے۔
۱- دین کا صحیح فھم: اوّلین کرنے کا کام دین کے صحیح فہم کا حصول ہے یعنی قرآن و سنت سے براہِ راست تعلق اور غوروفکر اور تفقہ کے بعد اسلام کے نظامِ حیات اور اس کے عملاً نافذ کرنے کے ذرائع و حکمت عملی کو براہِ راست قرآن و سنت سے اخذ کر کے نہ صرف خود سمجھنا بلکہ جدید ذرائع کے استعمال کے ذریعے انسانیت کو اس سے متعارف کرانا۔ یہ ایک صبرآزما اور طویل عمل ہے جو مغرب و مشرق میں پائی جانے والی مسلمانوں کی تصویر (image)کی اصلاح کے لیے ایک شرط کی حیثیت رکھتا ہے۔
۲- مغربی فکر کا تنقیدی مطالعہ: دوسرا اہم کام مغربی فکر کا تنقیدی مطالعہ، جائزہ اور تجزیہ ہے تاکہ یہ بات سمجھی جاسکے کہ کیا مغربی فکر کی تقلید ہی ترقی کا زینہ ہے یا مغربی فکر خود اپنی ناکامی کی نشان دہی کرتی ہے اور ظاہر ہے جو خود گمراہ ہو وہ کسی اور کو کیا راستہ دکھائے گا۔ اس جائزے میں جذبات سے بلندہوکر معروضیت کے ساتھ یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ مغرب میںوہ کون سی خوبیاں ہیں جو اس کی ترقی کا راز ہیں اور وہ کون سی خامیاں ہیں جن سے ہوشیار ہونے اور دامن بچانے کی ضرورت ہے۔ مغرب کے ذہن اور فکر کو سمجھے بغیر ہم مغرب کو اسلام کی دعوت نہیں دے سکتے۔
۳- تحقیقی کلچر: تیسرا اہم کرنے کا کام پیشہ ورانہ تنظیموں اور اداروں میں تحقیقی کلچر کا پیدا کرنا ہے۔ وہ طبیبوں کی اسلامی تنظیم ہو یا انجینیروں اور علومِ عمرانی کے ماہرین کی، ہر خصوصی شعبے میں تحقیق کے عمل کو آگے بڑھانے کے لیے ایسی فضا پیدا کرنا ہوگی کہ لوگ جدید ترین علوم میں مہارت کے ساتھ اسلامی اصولوں کی روشنی میں مسائل کا حل تلاش کرسکیں۔
۴- گہر کا محاذ: چوتھی اہم توجہ طلب چیز گھر کے محاذکا صحیح طور پر مرتب کرنا ہے۔ تہذیبوں کا ارتقا اور زوال براہِ راست گھروں کے تحفظ سے وابستہ ہے۔ اگر گھر میں انتشار ہوگا، تضاد ہوگا، یک جہتی نہ ہوگی تو تمام سائنسی ترقی کے باوجود تہذیب و تمدن پر زوال آکر رہے گا۔ اس لیے گھر کے ادارے کوصحیح اسلامی خطوط پر قائم رکھنے کے لیے غیرمعمولی اقدامات کی ضرورت ہوگی۔
۵- افراد کا تعمیر کردار: پانچویں اہم چیز اُمت مسلمہ میں افراد کار کی تعمیر و تربیت اور نئے خون کو شامل کرنے کے لیے ایک ایسی حکمت عملی وضع کرنی ہوگی جو اندرونی طور پر افراد سازی اور بیرونی طور پر اسلام اور مسلمانوں کے تصور کے لحاظ سے یکساں طور پر نتائج پیدا کرسکے۔ اس میں ایک انتہائی سادہ حکمت عملی اندرونی طور پر انسانی وسائل کی تیاری کے لیے یہ ہے کہ ہر وہ فرد جو تحریک سے وابستہ ہو وہ ایک ذاتی ہدف یہ بنائے کہ ۶ ماہ کے عرصے میں اپنے اردگرد سے تین ایسے افراد کو جو خواہ اسلام کا مذاق اڑاتے ہوں اور تحریکاتِ اسلامی پر تنقید ہی کرتے ہوں، منتخب کرکے ان سے روابط بڑھائے گا اور اس عرصے میں ان کی غلط فہمیاں دُور کرکے، اپنے طرزِعمل کی قوت سے انھیں مخالف نہ رہنے دے گا۔ اپنے اردگرد کے ایسے ہی تین افراد کو منتخب کر کے جو بظاہر نہ مخالف ہوں نہ مواقف، انھیں اپنی فکر کا ہمدرد بنا لے گا۔ اور اسی طرح اپنے اردگرد سے ۳افراد کا انتخاب کرکے جو بظاہر اس کی فکر سے ہمدردی رکھتے ہوں انھیں اپنے اندرونی حلقے میں شامل ہونے پر آمادہ کرلے گا۔ اس طرح ایک فرد ۶ ماہ میں ۹ افراد پر کام کر کے انسانی وسائل کی تعمیر میں لگ جائے گا۔ اُمت مسلمہ کو محض ایک فرد کی مخلصانہ جدوجہد سے ۹ گناقوت اور نیا سرچشمہ قوت (resource) میسر آسکے گا۔
۶- عالمی سطح پر افھام و تفھیم کے عمل کا آغاز: چھٹی چیز عالمی سطح پر بھی یہ ہدف طے کیا جائے کہ چند منتخب ممالک یا اداروں کو جو اسلام دشمن ہیں تبادلۂ خیال سے ان کی جانب داری کو ختم (neutralize) کیا جائے، تین ایسے ممالک یا اداروں کو جو دشمن نہ ہوں، دوست بنایا جائے اور کچھ ایسے ممالک یا اداروں کو جو ہمدردی رکھتے ہوں اپنے منصوبوں میں شامل کرکے ان سے استفادے اور مشترک کوششوں سے دونوں ممالک کے افراد میں قربت پیدا کی جائے۔
ظاہر ہے یہ کام اصلاً کو مسلمان حکومتوں کا ہے لیکن جس قسم کے افراد حکومتوں پر قابض اور مسلط ہیں ان سے اس کی امید کم ہی رکھی جاسکتی ہے۔ ان حالات میں مسلم NGO اداروں کا کردار بہت اہم ہوجاتا ہے جہاں جہاں فکری ادارے پائے جاتے ہیں، مثلاً انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک تھاٹ، انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز، اسلامک فائونڈیشن وغیرہ علمی سیمی نار، مکالمے، اہلِ علم کے دوروں اور معلومات کے تبادلے کے ذریعے ان ممالک کے اداروں کے ساتھ قریبی رابطے پید کرسکتے ہیں جو کھل کر اسلام دشمنی کا اظہار نہیں کرتے۔ عالمی تناظر میں ایسے ممالک کے علمی ادارے خود بھی چاہتے ہیں کہ مسلمانوں سے رابطے کے ذریعے ان کے مسائل کو سمجھیں۔ یہ صورت حال دعوتی اور اصلاحی عمل کے لیے بہت سازگار ماحول فراہم کررہی ہے اور اسلامی تحقیقی اداروں کو آگے بڑھ کر عوام اور دانش وروں کی سطح پر اسلام کے مثبت اور قرآن وسنت پر مبنی تصور کو بغیر کسی مداہنت کے پیش کر کے باہمی اعتماد کی فضا پیدا کرنے میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔
۷- تبدیلیِ قیادت:ساتویں چیز ان تمام وسائل کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے ذریعے اجتماعی تبدیلی کے لیے استعمال کرنا ہے جس میں کلیدی کردار اجتماعی قیادت کی تبدیلی کا ہے جو انقلابِ نو کا پیامبر بن سکے۔ انقلابِ قیادت میں سرفہرست سیاسی قیادت کی تبدیلی اور اُمت کے وسائل کو اُمت اور انسانیت کی بھلائی کے لیے استعمال کرنے کی راہ پر ڈالنا ہے۔ تبدیلیِ قیادت کا یہ عمل صرف سیاسی قیادت تک محدود نہیں، یہ کہیں زیادہ وسیع اور ہمہ جہتی ہے۔ اس کے لیے فکری قیادت، معاشی قیادت، سماجی ادارے اور سول سوسائٹی کی قیادت، طلبہ اور مزدوروں کی قیادت، غرض زندگی کے ہرہرشعبے میں ایسے افراد کوقیادت کے مقام پر لانا ہے جو اپنے اپنے دائرے میں زندگی کا رخ اسلام اور اسلام پر مبنی حیاتِ نو کی طرف پھیر سکیں اور قوم کو اس منزل کی طرف آگے بڑھانے میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔
تبدیلیِ قیادت کی قرآنی اور نبوی حکمت عملی میں فرد، معاشرہ اور اداروں میں اصلاحی عمل کے ذریعے زمامِ اقتدار میں تبدیلی ایک معروف چیز ہے لیکن اس غرض کے لیے تحریکاتِ اسلامی کو ایسے ادارے قائم کرنے ہوںگے جو نوجوان قیادت کو قرآن و سنت کے جہنم کے ساتھ قائدانہ صلاحیت، ابلاغی طریقوں اور صورت حال کو قابو میں لانے کے ذریعے سے مکمل آگاہی اور عملی تجربہ رکھتے ہوں۔ تحریکِ اسلامی کی اصل دولت اس کی وہ افرادی قوت ہے جو متحرک، بالیقین اور باوقار ہوچکا ہے جس کا ہرعمل دوسروں کو دعوتِ عمل وفکر دینے والا ہو۔ جو پہلے سے موجود فکر کے استعمال کے ساتھ جدید مسائل کے حل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں اور فکر کی نئی راہیں دکھانے پر قادر ہوں وہ فکر کو محض استعمال (consume) نہ کریں بلکہ فکر کو پیدا (produce) کریں۔
ان تمام سرگرمیوں کی بنیاد جس چیز پر ہے وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہی کا احساس اور اس دنیا میں اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کے دیے ہوئے دین پر عمل کے ذریعے نجاتِ اخروی ہے۔ اس لیے احتسابِ نفس اور خوفِ آخرت ہی وہ قوتِ محرکہ ہے جو اُمت مسلمہ کو دوبارہ اس کی کھوئی ہوئی عظمت دلا سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس اُمت میں غیرمعمولی طور پر برکات، وسائل اور قوتیں رکھ دی ہیں، صرف انھیں جگانے، جلابخشنے اور میدانِ عمل میں لانے کی ضرورت ہے۔ اللہ کی توفیق اور ہدایت اگر ساتھ ہے تو راہ کی ہرمشکل راحت بن جائے گی اور ہر رکاوٹ آسانی میں تبدیل ہوجائے گی،وما توفیقی الا باللّٰہ۔
اسلامی فکروثقافت کی سب سے نمایاں اور مرکزی پہچان اور خصوصیت اس کا مبنی بر وحی ہونا ہے۔ یہ وہ جوہری پہلو ہے جو اس ثقافت کو انفرادیت بخشتا ہے۔ دنیا کی اکثر ثقافتیں اور افکار اپنے آپ کو کسی فرد، خطے یا دَور سے وابستہ و منسلک کرتے ہیں چنانچہ نوافلاطونیت ہو یا یونانی فکر، بازنطینی فنِ تعمیر ہو یا ویدائوں اور مہابھارت کا دور، ساسانی ثقافت ہو یا نوبیائی قبائل کے رسوم ورواج، یہ سب اپنی فکر وثقافت کو خطۂ زمین یافرد اور تاریخ کے ایک مخصوص دور سے اپنی وابستگی کی بناپر پہچانی اور پکاری جاتی ہیں۔ انسانی فکر کو مطلق اور حقیقی ماننے والی تمام تہذیبوں میں خطّے اور وقت کو بنیادی حیثیت حاصل رہی ہے۔ چنانچہ تہذیب و ثقافت کی پیدایش کسی صحرا میں ہوئی ہو یا کسی شہری آبادی میں، اس کی جڑیں ہمیشہ مقامی رسوم و رواج، فکر اور بودوباش میں پائی جاتی ہیں چنانچہ کسی بھی قوم یا گروہ کے رسوم و رواج عرصۂ دراز تک عمل کرنے کے نتیجے میں ایک قدر (vaule) اور ایک اصول (norm) کا مرتبہ حاصل کرلیتے ہیں۔ اسی بنا پر ہم جس ثقافت و تہذیب کو مغربی کہتے ہیں وہ یورپی اقوام کے بودوباش، لباس، غذا اور طرزِحیات کے نتیجے میں رواج پاجانے والے طرزِعمل کا نام ہے۔ اسی طرح ہندستانی کلچر اُن رسوم و رواج کے جو مقامی طور پر ہندستان میں بسنے والے دراوڑ، برہمن اور دیگر ذاتوں کے افراد نے اختیار کیے اور ایک عرصے تک ان پر عمل کے نتیجے میں وجود میں آیا اوران رسوم و رواج نے آہستہ آہستہ ایک قدر اور اصول کا مقام حاصل کرلیا۔ مغرب ہو یا مشرق، اقدار و قانون کو ہمیشہ زمان و مکان کی پیداوار اور ’انسانی ارتقا‘ ہی سے وابستہ کیا جاتاہے اور اس بنا پر یہ بات بطور ایک کلیہ کے تسلیم کرلی گئی ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ اقدار (value) اور ثقافت بھی تبدیل ہونی چاہیے۔ اس تصور کو اتنے وثوق سے بیان کیا جاتا ہے کہ بعض بظاہر معقول افراد بھی اس پر ایمان بالغیب لے آتے ہیں اور جدیدیت کے نعرے کی لَے میں لَے ملاتے ہوئے اسلامی فکروثقافت کو یا تو قدامت قرار دے کر رد کرنا چاہتے ہیں یا اسلامی فکروثقافت کو بنیادی طور پر عربی ثقافت قرار دینے کے بعد یہ کوشش کرتے ہیں کہ اس کی ’عربیت‘ سے نجات حاصل کرنے کے لیے قرآن و سنت میں موجود قوانین و ضوابط کو عرب قبائلی معاشرہ کا ثمر قرار دیتے ہوئے اور ان کی ’روح‘ کو برقرار رکھتے ہوئے اپنی پسند کی ایسی شریعت وضع کرلیں جس میں حدود کے قرآنی قوانین اور وراثت اورمناکحت کے احکام کو ساتویں صدی کے قوانین قرار دے کر ’دورِ جدید‘ کے مغربی قوانین و ضوابط کی روشنی میں نظرثانی کرنے کے بعد جدید شکل دی جائے اور اس طرح اپنے خیال میں اسلام کے جدید (modern) اور بے ضرر ہونے کو ثابت کیا جاسکے۔
اس جذبے کے قابلِ احترام ہونے اور ایسے افراد کی تمام نیک نیتی کے باوجود فکر کی یہ غلطی مغرب کی ذہنی غلامی اور مغرب کو اپنا قبلہ سمجھنے کا پتا دیتی ہے کیونکہ اصولی طور پر اسلامی فکروثقافت کی جڑیں نہ عرب قبائل کی تہذیب میں پائی جاتی ہیں نہ ایرانی، افریقی یا ترک یا پاکستانی رسوم و رواج میں۔ اسلام کسی وطن یا قوم کو اپنا ماخذ نہیں مانتا۔ اسلامی فکروثقافت زمان و مکان اور وطنیت اور علاقائیت کی قید سے آزاد ہوکر اپنی جڑیں بجاے زمین میں پیوست کرنے کے وحیِ الٰہی کو اپنا ماخذ قرار دیتی ہے۔ چنانچہ اس کی جڑیں فضا کی گہرائیوں میں مستحکم ہیں اور تنا، شاخیں اور پھل زمین پر پھیلے ہوئے ہیں۔
ایک سادہ نقشہ اسلامی فکروثقافت اور دیگر فکروثقافت کے نشوونما کے فرق کو زیادہ آسانی سے واضح کرسکتا ہے۔ غیر اسلامی فکر وہ اخلاق میں ہو، معیشت و معاشرت میں ہو یا سیاست و قانون میں اس کی ارتقائی شکل یوں نظر آتی ہے:
اس نقشے میں غیراسلامی ماڈل میں اخلاقی اقدار ایک معاشرتی ارتقائی عمل کے نتیجے میں وجود میں آتی ہیں اور عقلی طور پر وقت کے ساتھ تبدیل ہوتی رہتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یورپ میں جو اخلاقی اقدار اٹھارہویں صدی میں باعث ِ فخر سمجھی جاتی ہے، وہ ۲۰ویں صدی میں متروک اور ناقابلِ عمل سمجھی جانے لگیں۔ اخلاق کو ارتقائی عمل کے تابع کرنے کے نتیجے میں اخلاق ایک اضافی قدر بن گیا اور موقع اور محل کے لحاظ سے اس میں رد و بدل اور تبدیلی کو فطری سمجھ لیا گیا۔ اسلامی ماڈل اس تصور کی ضد ہے اور وہ وحیِ الٰہی کی بنیاد پر نازل کردہ اخلاقی اقدار کو ابدی، فطری اور مطلق قرار دیتا ہے۔
گویا علومِ عمران، نفسیات، معیشت، سیاست و قانون کے مطالعے میں جو معاشرتی و ثقافتی ارتقا مشرق و مغرب کی درس گاہوں میں ذہن نشین کیا جاتا ہے اور جس کی بنا پر لادینی ذہن کے دانش ور ہوں یا دینی ہمدردی رکھنے والے ’عوامی علامہ‘ اس بنیادی فرق کو نہ سمجھنے کی وجہ سے ہمیشہ اس فکر میں رہتے ہیں کہ دوسروں کو مطمئن اور خوش کرنے کے لیے کسی طرح اسلامی شریعت کے ان احکام کو جو ان کی دانست میں عربوں کے قبائلی رسوم و رواج کا حصہ تھے اور خالقِ کائنات نے شاید ’مروتاً‘ قرآن کی محکم آیات میں شامل کر دیے تھے، ان پر نظرثانی کر کے انھیں کسی نہ کسی طرح اقوامِ متحدہ کی کسی ذیلی کمیٹی کے مجوزہ معیار کے مطابق کردیا جائے۔
اگر قرآن کریم غیرمحرف، مطلق ، کلامِ الٰہی منزل من اللہ اور اللہ تعالیٰ کی اپنی ضمانت پر دنیا میں اور لوحِ محفوظ پر اپنی اصل شکل میں محفوظ ہے اور اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ عزیزو علیم ہے تو کیا جس معاشرتی ارتقا، تکنیکی ترقی کی بنا پر یہ حضرات یہ سمجھتے ہیں کہ حدود، وراثت، تعدّد ازواج وغیرہ کے قرآنی نظام پر نظرثانی ہونی چاہیے، یہ ترقی اور تبدیلیِ زمانہ و حالات اُس علیم ہستی کے احاطۂ علم میں نہ تھا جس نے اس قرآن کریم اور صاحب ِ قرآن کو قیامت تک کے لیے آخری شریعت قرار دیا؟ اس جملۂ معترضہ سے قطع نظر، اصل بات جو یہاں بیان کرنا مطلوب ہے یہ ہے کہ اسلامی فکر و ثقافت وحی کی بنا پر وجود میں آتی ہے نہ کہ معاشرتی ارتقا کے نتیجے میں۔ وحی اس کی بنیاد ہے، وحی اس کا ماخذ ہے اور وحی اس کا مصدر ہے۔
وحی کے مصدر مطلق ہونے کو قرآن کریم نے مختلف مثالوں سے سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہم بعض بدیہات پر سے بھی سرسری طور پر گزر جائیں۔ قرآن کریم میں شہد کی مکھی کے حوالے سے فرمایا گیا ’’اور دیکھو تمھارے رب نے شہد کی مکھی پر یہ بات وحی کردی کہ پہاڑوں میں اوردرختوں میں اور ٹیلوں پر چڑھائی ہوئی بیلوں میں اپنے چھتے بنا اور ہر طرح کے پھلوں کا رس چوس اور اپنے رب کی ہموار کی ہوئی راہوں پر چلتی رہ۔ اس مکھی کے اندر سے رنگ برنگ کا شربت نکلتا ہے جس میں شفا ہے لوگوں کے لیے۔ یقینا اس میں بھی ایک نشانی ہے ان لوگوں کے لیے جو غوروفکر کرتے ہیں‘‘۔(النحل ۱۶: ۶۸-۶۹)
شہد کی مکھی کو جو کام وحی کے ذریعے کرنے کا حکم دیا گیا وہ اس پر کاربند ہے۔ اسے جو شریعت دی گئی اور ’’جسے رب کی ہموار کی ہوئی راہ‘‘ کہا گیا وہ اس پر استقامت سے کام کر رہی ہے۔ حضرت آدم ؑسے لے کر آج تک دنیا کے ہرخطے میں منوں ٹنوں شہد جس شریعت پر عمل کرنے کے نتیجے میں انسانوں کو شفا دینے اور لذت کام و دہن کے لیے مل رہا ہے۔ جدید ترین ٹکنالوجی کے میسر آجانے کے بعد بھی اُس شریعت میں کوئی تبدیلی نہ واقع ہوئی نہ واقع کی جاسکی۔ حالات بدلتے رہے۔ سنگلاخ پہاڑ ہوں یا لہلہاتے کھیت، میدانی علاقے ہوں یا شہر، شہد کی مکھی ایک ماہر سول انجینیر کی طرح موم کے چھتے یکساں پیمایش اور یکساں زاویوں کی شکل میں ہزارہا سال سے بنارہی ہے۔ کسی مکان کی چھت کا اندرونی حصہ ہو یا کسی درخت کی شاخ یا پہاڑی کا غار، وہ فنی جائزے کے بعد طے کرتی ہے کہ کہاں پر شہد زیادہ محفوظ رہے گا۔ بعض اوقات وہ صرف ایک قسم کے پھولوں سے رس لے کر آتی ہے اور بعض اوقات مختلف رنگوں کے پھولوں سے اور یہ سب کچھ ایک شریعت اور ضابطے کے تحت کر رہی ہے۔ شہد کی اِس ثقافت کی بنیاد صرف وحی پر ہے۔ شہد کی مکھی کی اپنی اپج، ارتقائی فکر یا ماحول سے سیکھنے کے بعد ایک فنی صلاحیت پیدا کرنے پر نہیں ہے۔
اسی طرح دیگر مخلوقات اپنے اپنے دائرۂ کار میں وحیِ الٰہی کی بنیاد پر مقرر کردہ نظام پر عمل پیرا ہیں۔ آسٹریلیا میں پائے جانے والے بعض پرندے انڈے دینے کے بعد آسٹریلیا سے امریکا کا رُخ کرتے ہیں۔ ان کے نومولود بچے جیسے ہی اڑنے کے قابل ہوتے ہیں فطری طور پر اپنے ماں باپ کی طرح کسی رہنما اور گائیڈ کی مدد کے بغیر وحی کی بنا پر امریکا کا رُخ کرتے ہیں۔ انسانوں کے لیے وحی کلامِ الٰہی کی صورت میںکتاب میں تحریری صورت میں آتی ہے۔
اسلامی فکروثقافت کے وحی پر مبنی ہونے کی وجہ سے اس کی چار بنیادی خصوصیات اُبھر کر سامنے آتی ہیں جو براہِ راست وحی سے وابستہ ہیں۔ پہلی خصوصیت یہ کہ یہ فکروثقافت کسی دیومالائی ماضی (mythological past) کی مرہونِ منت نہیں بلکہ روشن تاریخی سیاق میں وجود میں آئی ہے کیونکہ خود الکتاب اپنے بارے میں یہ بتاتی ہے کہ اسے ایک مبارک قوت و قدرت رکھنے والی رات (لیلۃ القدر) میں نازل کیا گیا جس کی تقویم یہ بتاتی ہے کہ یہ رمضان کی آخری ۱۰راتوں میں سے ایک طاق رات تھی۔ محدثین کا غالب گمان یہی ہے کہ یہ ستائیسویں شب تھی لیکن بعض حکمتوں کی بنا پر قرآن کریم اور صاحب ِ قرآن نے اس کے نزول کو کسی ایک رات میں محدود کرنے کی جگہ ۲۱،۲۳، ۲۵، ۲۷ یا ۲۹ویں شب میں سے کسی ایک میں قرار دیا تاکہ آخری عشرے میں تمام طاق راتوں میں اہلِ ایمان قرآن کریم سے اپنے رشتے کو تازہ اور مستحکم کرسکیں۔
اسی بات کو عموم کے ساتھ سورۃ الدخان میں ’مبارک رات‘ کے حوالے سے کہا گیا اور اس کو البقرہ میں رمضان کے روزے کی فرضیت کے سیاق میں بیان کیا گیا۔ وحیِ الٰہی اور دیگر معروف صحفِ سماوی کا تقابلی مطالعہ کیا جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ وہ ہندوازم کی مقدس کتابیں ہوں یا انجیل و تورات، اوسیتا یابدھ ازم میں بدھا سے منسوب کلمات،ان کی تدوین و تسوید ان مذاہب کے بانیان کے وصال کے بہت عرصہ بعد اکثر ان افراد نے کی جو کم از کم دوسری نسل سے تعلق رکھتے تھے وگرنہ صدیوں بعد ان تعلیمات کو قید تحریر میں لایا گیا۔ بدھا کی تعلیمات ان کی وفات کے ۴۰۰ سال بعد پہلی مرتبہ پالی زبان میں مرتب ہوئیں اور پھر ترجمہ در ترجمہ دیگر زبانوں میں منتقل ہوئیں۔ ہندوازم کی مقدس کتب صدیوں تک گردش کرنے کے بعد تحریر میں محفوظ کی گئیں۔ قطعیت کے ساتھ یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ ان کا صحیح سنہ نزول کون سا ہے۔ اس کے مقابلے میں وحی جس لمحے سے نازل ہوئی قرآن کریم کی شکل میں نہ صرف تحریر بلکہ حافظوں میں اس کا ایک ایک حرف و صوت صحابہ کرامؓ اور خود شارعِ اعظمؐ کے سینۂ اقدس میں محفوظ ہوگیا اور ہر سال رمضان المبارک میں ہزاروں لاکھوں افراد کے مجمع میں مسلسل پندرہ سو سال سے اس کی اجتماعی تلاوت، اس کی حفاظت اور نشرواشاعت کا ایک فطری عمل بن گئی۔گویا اسلامی فکروثقافت کی یہ بنیاد ایک تاریخی حقیقت ہے۔ یہ فضول دیومالائی کہانیوں کی طرح غیرمعتبر نہیں۔ یہ فکروثقافت اپنی جوہری شکل میں اسی وقت وجود میں آگئی جب وحیِ الٰہی نے پڑھنے اور قرأت کرنے کے حکم کے ساتھ انسانیت کی ہدایت، تعلیم اور تربیت کے لیے ایک جامع اور مکمل ہدایت نامہ انسانوں کے حوالے کیا۔
اسلامی فکروثقافت کی دوسری اہم خصوصیت اس کی عالم گیریت ہے۔ انسانوں کے ساختہ نظام، فلسفے اور قوانین وقت اور مکان کی قید سے آزاد نہیں ہوسکتے۔ یہی وجہ ہے کہ یونانی فلسفہ ہو یا جدیدیت پر مبنی فکر، وقت گزرنے کے ساتھ اس میں تبدیلی، نظرثانی، حذف و اضافے کی ضرورت پیش آجاتی ہے۔ وحی الٰہی وقت و مکان کی قید سے آزاد وہ جامع اصول اور محکم ہدایات دیتی ہے جو وقت کے گزرنے اور معاشرتی تبدیلیوں کے باوجود انسان کے مسائل کا حل پیش کرتی ہیں۔ یہ عالم گیریت جو وحی کی پہچان ہے، یہی عالم گیریت اسلامی فکروثقافت کو قوم و وطن، جغرافیائی خطے اور وقت کی قید سے نکال کر ایک عالمی ثقافت کا مقام دیتی ہے۔ چنانچہ مراکش سے انڈونیشیا اور ویانا سے سڈنی تک جہاں کہیں بھی مسلمان پہنچے ان کے بودوباش، لباس، غذا، معاشرتی تعلقات، تجارتی معاملات، ہر پہلو سے ان کی سرگرمیوں میں مماثلت پائی جاتی ہے۔ ایک مسلمان دنیا کے کسی بھی خطے میں چلا جائے اس کا تعارف اسلامی ثقافت ہی ہوتی ہے۔ چنانچہ چاہے وہ تاجک زبان نہ جانتا ہو، اس کا پہلا تعارفی کلمہ ’السلام علیکم ورحمۃ اللہ‘ ایک تاجک کو بتا دیتا ہے کہ یہ اس کا دینی بھائی ہے اور جواباً اہلاً وسہلاً یا خوش آمدید سے اس بات کی تصدیق ہوجاتی ہے۔ عالم گیر اسلامی فکروثقافت کے اثرات، وقت اور مکان کی قید سے بلند دنیا کے ہرخطے میں یکساں پائے جاتے ہیں۔
اسلامی فکروثقافت کی تیسری اہم خصوصیت اس کی جامعیت ہے۔ یہ کوئی نمایشی ثقافت نہیں ہے جو چہروں پر رنگ برنگے غازے مل کر اور مخصوص لباس پہن کر اپنی انفرادیت کا اعلان کرے جیساکہ بالعموم افریقی قبائل کی ثقافت کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے۔ یہ ثقافت ایک مسلمان کو مہد سے لحد تک زندگی گزارنے کا طریقہ سکھاتی ہے۔ مالی معاملات ہوں یا تعمیراتی منصوبے، اس کا لباس ہو یا کاشت کاری اور صنعت و حرفت، شادی بیاہ کی تقریبات ہوں یا مراسمِ عبودیت حتیٰ کہ شوہر اور بیوی کے انتہائی ذاتی معاملات ہوں یا سیاست اور عالمی تناظر میں کیے گئے معاہدے، ہر سرگرمی کے لیے ایک فکر، ایک طریقہ اور ایک طرزِعمل کی تعلیم دیتی ہے۔ یہ ہمہ گیر ثقافت زندگی کے تمام معاملات کا احاطہ کرتی ہے اور اسی ثقافت کی جھلک اس کے فن تعمیر، ادب و شعر، تعلیمی اور رفاہی سرگرمیوں میں نظر آتی ہے۔
یہ فکروثقافت مختلف ثقافتوں کا ملغوبا نہیں ہے لیکن ہر وہ انسانی عمل جو اس فکروثقافت کے بنیادی مقاصد اور اصولوں سے مطابقت رکھتا ہے، یہ ثقافت اسے جذب کرنے اور جذب کرنے کے عمل میں اس میں (qualitative) تبدیلی یا ماہیت ِقلبی کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک مسجد کا مینارہ کہیں سنگِ مرمر سے مزین ہوتا ہے، کہیں کاشی ٹائلوں سے، کہیں سرخ پتھر سے، کہیں glazed اینٹوں سے، کہیں اس کی بنیاد چوکور ہوتی ہیں، کہیں ہشت پہلو اور کہیں گول لیکن دنیا کے ہر گوشے میں اس کا مقصد فضائوں میں اللہ تعالیٰ کی عظمت و کبریائی کا اعلان ہی رہتا ہے۔
اسلامی فکر اور ثقافت کی چوتھی پہچان اس کا زندگی کے معاملات میں آسانی پیدا کرنا (یسر) ہے۔ یہ انسانوں کو غیرضروری رسوم و رواج، عبادات کے پیچیدہ اور پُراسرار طریقوں سے نجات دلاکر سادگی اور آسانی کے ساتھ اپنے رب کی بندگی کی تعلیم دیتی ہے اور زندگی کے معاملات میں زینت اختیار کرنے کے ساتھ اسراف و تبذیر سے بچانے کی کوشش کرتی ہے۔ مسلم معاشرے کی پندرہ سو سال کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ جب اہلِ ایمان نے وحیِ الٰہی پر مبنی فکروثقافت سے اپنا رشتہ توڑا، وہ نمایشی زندگی، اسراف وتعیش کا شکار ہوئے اور جب ان کا رشتہ وحیِ الٰہی پر مبنی فکروثقافت سے جڑا، ان کی زندگی عملیت، ترقی اور حقیقت پسندی کی مثال بنی۔
وحی پر مبنی اسلامی فکروثقافت درحقیقت مقاصدِ شریعت کے حصول اور مصلحت عامہ کے پیشِ نظر معاشرتی، معاشی، سیاسی، قانونی اور تعلیمی سرگرمیوں کی تہذیب کرتی ہے۔ اسلامی فکروثقافت کا یہ پہلو نگاہوں سے اوجھل رہے تو اسلامی ثقافت کو محض چند علاماتی افعال سے تعبیر کردیا جاتا ہے یا یہ تصور کرلیاجاتا ہے کہ چونکہ یہ ایک ’مذہبی‘ ثقافت ہے اس لیے اس کے اصل مخاطب جماعتِ علما و صوفیہ کے افراد ہیں اور یہ انھی کے لیے مناسب ہے۔ دیگر افراد نہ ان کی طرح ’مذہبیت‘ اور ’روحانیت‘ اختیار کرسکتے ہیں اور نہ اس ثقافت پر عمل کرسکتے ہیں۔ ایک عام مسلمان جو یہ سمجھتا ہے کہ اس کا ’مذہب‘ نماز، روزے، حج اور زکوٰۃ کی حد تک ہے، جب اُس سے کہا جائے کہ اسلامی فکروثقافت میں مخلوط تعلیم، مخلوط کاروباری ادارے جہاں پر بنک میں، انجینیرنگ کمپنی میں اور عدالت میں ایک ہی نشست پر شانہ بہ شانہ مرد اور عورتیں بیٹھی ہوں یہ اسلامی فکروثقافت کے منافی ہے تو اسے حیرت ہوتی ہے کہ دنیا کے معاملات میں مذہب کے دخل کی کیا ضرورت؟ یہی وجہ ہے کہ ایک بظاہر دینی رجحان اور شخصیت رکھنے والے فرد کے گھر میں بھی جب شادی کی تقریب ہوتی ہے تو مردوزن بنائوسنگھار کرنے کے بعد بلاتکلف خلط ملط ہوتے رہتے ہیں اور ایسے افراد کی ’مذہبیت‘ کو اس سے کوئی تکلیف نہیں پہنچتی۔
حقیقت یہ ہے کہ اسلامی فکروثقافت کو جب تاریخ کا ایک باب سمجھتے ہوئے ماضی کے واقعات میں دفن کردیا جاتا ہے تونظامِ تعلیم میں بھی اسلامی فکروثقافت کی بنیادوں پر گفتگو بند ہوجاتی ہے۔ اُمت مسلمہ نے اپنے دورِ زوال میں عیسائیوں اور ہندوئوں کی طرح مذہب اور ثقافت میں ایک خیالی خطِ فاصل کھینچ دیا۔ چنانچہ مذہبی مراسم کے پورے اہتمام کے ساتھ شام کے اوقات میں کسی محفل موسیقی یا شامِ غزل میں مخلوط محفلوں میں بیٹھ کر فن کاروں کی زبانی کلاسیکل شعرا کا کلام کلاسیکل گائکوں سے سننا ثقافت ٹھیرا اور اس عمل اور اسلامی عقیدے میں انھیں کوئی تضاد نظر نہیں آیا۔
وحی پر مبنی اسلامی فکروثقافت انسان کو ہرہر دائرے میں تخلیق و ایجاد کی دعوت دیتی ہے لیکن ہرشعبۂ حیات کو قرآن کریم کے دیے ہوئے مقاصد ِ شریعت کی روشنی میں جو مقاصدِ حیات سے آگاہ کرتے ہیں، سرگرمیوں کی دعوت دیتی ہے۔ یہ ثقافت اپنے ماننے والوں کو ندرت، حصولِ کمال اور انفرادیت کے ساتھ زندگی کے تعمیری سفر میں آگے بڑھنے کی طرف اُبھارتی ہے۔ ایک عملی ثقافت ہونے کے سبب یہ اُمت کے ہر دور کے مسائل کو مقاصدِ شریعت کی روشنی میں حل کرنے کی کوشش کرتی ہے۔(جاری)
اسلامی فکروثقافت کی سب سے نمایاں پہچان اور خصوصیت اس کی روایت ِ علم ہے جس کا اوّلین اعلان پہلی وحی میں یوںکیا گیا: ’’پڑھو (اے نبیؐ) اپنے رب کے نام کے ساتھ جس نے پیداکیا، جمے ہوئے خون کے ایک لوتھڑے سے انسان کی تخلیق کی، پڑھو اور تمھارا رب بڑا کریم ہے، جس نے قلم کے ذریعے علم سکھایا‘‘ (العلق ۹۶: ۱-۵)۔ ان پانچ انقلابی آیات میں قرآنِ کریم کے بھیجنے والے خالقِ کائنات نے اسلام اور دیگر مذاہب کے بنیادی فرق کو سمجھاتے ہوئے یہ اعلان فرما دیا کہ انسان کے بنیادی وظائف اور فرائض میں علم، پڑھنا اور تلاوت کرنا اولین حیثیت رکھتا ہے، جب کہ مذہب کو بالعموم مشرق و مغرب میں اندھی تقلید، مافوق الفطرت کرشماتی امور اور رسوم و رواج اور مخصوص مراسمِ عبودیت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ آج بھی علمی ذہن کو مذہبی ذہن کی ضد سمجھا جاتا ہے اور اگر کسی کے بارے میں کہا جائے کہ وہ مذہبی انسان ہے تو لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ وہ اندھی پیروی کرنے والا اور سائنسی اور علمی معاملات سے غیرآگاہ شخص ہے۔
اس ثقافت ِ علم میں وحی الٰہی کو بنیاد قرار دیتے ہوئے اس کی اشاعت اور توسیع کے لیے قلم کو ذریعہ قرار دیا گیا تاکہ قبلِ اسلام عرب میں جس قولی روایت (oral tradition) کا چرچا تھا، اس سے آگے نکل کر اب کتاب اور قلم کے ذریعے علم کی ترویج و اشاعت کی روایت کو متعارف کرایا جائے۔ یہاں یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ قرآنِ کریم نے عربوں کے اُس غرور و ناز کو بھی دعوتِ مبارزت دی جو انھیں اپنی لسانی مہارت پر تھا اور انھی کی زبان میں ایک ایسی تقریر و تحریر پیش کر دی جس کے مقابل تمام شعرا اور ادیب مل کر بھی دس آیات بلکہ ایک آیت حتیٰ کہ ایک آیت جیسی ایک بات بنانے سے بھی قاصر رہے اور اس علمی اعجاز کو تاریخ کی قید سے آزاد کر کے قرآنِ کریم نے نہ صرف نازاں عربوں کو بلکہ بعد کے آنے والے تمام لسانی ماہرین کو یہ دعوتِ عام دے دی کہ وہ اس جیسا کلام اور پیغام اگر بنا سکتے ہوں تو بناکر دکھائیں۔ یہ علمی چیلنج ہر دور میں بہ شمول دورِحاضر قرآنِ کریم کے وحی من اللہ ہونے کی ایک بولتی ہوئی دلیل کے ساتھ ساتھ قرآنِ کریم پر غور کرنے اور تدبروتفکر کے ذریعے اس کے پیغام کو سمجھنے کی ایک عالمی دعوت بھی ہے۔
اس روایت ِ علم کی طرف البقرہ میں بھی اشارہ کیا گیا تھا جب فرشتوں سے تبادلۂ خیالات کے دوران ان سے کہا گیا کہ ذرا ان چیزوں کے نام تو بتائو، جو انسان کو پہلے سے تعلیم کردیے گئے تھے، فرشتوں کا جواب یہی تھا کہ وہ اپنے محدود علم سے زیادہ کچھ نہیں جانتے۔ چنانچہ ان سے کہا گیا کہ اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ علم کے احترام میں صاحب ِ علم انسان کو سجدہ کریں (البقرہ ۲:۳۴)۔ یہ علم نہ تو تجربی تھا نہ قلبی واردات کا نتیجہ، اور نہ ظن و گمان پر مبنی بلکہ وہ معروضی علم تھا جسے وحی کا نام دیا گیا اور جو اوامر و نواہی کو جاننے کا مطلق ذریعہ قرار پایا۔
قرآنِ کریم میں سوا آٹھ سو سے زائد مقامات پر علم کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے۔ ان مختلف مقامات کا جائزہ لے کر دیکھا جائے تو پہلی بات یہ نظر آتی ہے کہ حقیقی اور مطلق علم کا مصدر و منبع وحی ہے۔ چنانچہ سورۃ الرحمن میں فرمایا گیا: ’’انتہائی مہربان اسی نے قرآن کی تعلیم دی ہے‘‘ (۵۵:۱-۲) اس علم وتعلّم کو جگہ جگہ حکمت کے ساتھ وابستہ کیا گیا ہے۔ گویا تعلیم و حکمت انسانیت کی دو اہم بنیادی ضرورتیں ہیں۔ انبیاے کرام ؑ کی بعثت کا مقصد بھی علم و حکمت کی روایت کو فروغ دینا بیان کیا گیا: ’’درحقیقت اہلِ ایمان پر تو اللہ نے یہ بہت بڑا احسان کیا ہے کہ ان کے درمیان خود انھی میں سے ایک ایسا پیغمبر اٹھایا جو اس کی آیات انھیں سناتا ہے، ان کی زندگیوں کو سنوارتا ہے، اور ان کو کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے‘‘۔(اٰل عمرٰن ۳:۱۶۴)
ذریعۂ علم کو وحی سے وابستہ کردینے کے نتیجے میں قرآنِ کریم نے علم کے ان دیگر ذرائع کی محدودیت کو بربناے دلیل کھول کر رکھ دیا جن کی بنیاد پر قبلِ اسلام اور بعد کی غیرالہامی ثقافتیں وجود میں آئیں۔ یہ بات کسی تعارف کی محتاج نہیں کہ دورِ جدید کی تہذیب اپنا ماخذ مادیت، ٹکنالوجی اور تجربی علم کو بتاتی ہے چنانچہ ہر وہ شے جو تجربے اور مادی پیمانے پر پوری نہ اُترتی ہو سیکولر تہذیب کی نگاہ میں شک و شبہے کی تہذیب بن جاتی ہے۔
قرآنِ کریم نے وحی کو اس کی معروضیت (objectivity) اور خود خالقِ کائنات کا کلام ہونے کی بنا پر علم کے اعلیٰ ترین مقام پر رکھا ہے اور علم کی تمام دیگر اقسام کو وحی کا تابع قرار دیا ہے۔ یہاں یہ گمان نہ کیا جائے کہ اس بنا پر آیات کون اور آیاتِ قرآنی میں کوئی تضاد ہوسکتا ہے کیونکہ کائنات کی ہرشے بجاے خود برضا و رغبت یا بغیر رضامندی اللہ وحدہٗ لاشریک کو اپنا رب مانتے ہوئے اپنے مسلم ہونے کا اعلان کرتی ہے: ’’اب کیا یہ لوگ اللہ کا دین چھوڑ کر کوئی اور طریقِاطاعت چاہتے ہیں حالانکہ آسمان اور زمین کی ساری چیزیں چار و ناچار اللہ ہی کی تابع فرمان (مسلم) ہیں‘‘۔ (اٰل عمرٰن ۳:۸۳)
قرآن وضاحت کے ساتھ یہ بات بیان کرتا ہے کہ رب کریم نے ہردور کے لحاظ سے اپنے منتخب کردہ انبیاء و رسل کو علم و حکمت سے نوازا، کسی کو پرندوں اور حشرات الارض کی زبانیں سمجھنے کا علم دیا اور کسی کو مادر زاد اندھے اور کوڑھی کو اللہ کے حکم سے صحت یاب کرنے کی صلاحیت دی (المائدہ ۵:۱۱۰) خاتم الانبیا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں خصوصاً خطۂ عرب میں ادبی روایت اپنے عروج پر تھی اور ادیب، قصہ گو اور شعرا معاشرے میں اعلیٰ مقام رکھتے تھے۔ اس دور کا ایک عالمی چیلنج ادبی کمال تھا لیکن قرآنِ کریم نے اس ادبی چیلنج سے آگے جاکر نہ صرف حکایت ِبلیغ بلکہ ایسی ہدایت انسانوں کے سامنے کھول کر رکھ دی جو اپنی عالم گیریت، ہمہ گیریت اور جامعیت کے لحاظ سے تاحیات اپنی نظیر آپ رہے۔
اس روایت ِعلم کے اثرات براہِ راست انسانی شخصیت اور طرزِعمل میں ظاہر ہوئے۔ چنانچہ قرآن اس طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ’’حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے بندوں میں سے صرف علم رکھنے والے لوگ ہی اُس سے خشیت کرتے ہیں‘‘ (فاطر۳۵:۲۸)۔ علم کی درجہ بندی اور مراحل کا تعین آسان کام نہیں ہے لیکن قرآن روایت ِعلم کو مستحکم کرنے کی تلقین کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی سمجھاتا ہے کہ انسان جتنا چاہے علم میں اضافہ کرتا چلا جائے لیکن علم کے تمام مدارج و منازل سے گزرنے کے باوجود انسان خالقِ علم سے زیادہ علیم نہیں ہوسکتا۔ سورئہ یوسف (۱۲:۷۶) میں کہا گیا: ’’ہم جس کے درجے چاہتے ہیں، بلند کردیتے ہیں۔ اور ایک علم رکھنے والا ایسا ہے جو ہر صاحبِ علم سے بالاتر ہے‘‘۔
گویا علم کی ہر نوع اور قسم میں درجہ کمال تک پہنچ جانے کے بعد بھی انسان اُس صاحب ِ علم ہستی کے قریب نہیں پہنچ سکتا، جسے پہاڑ کی تہوں میں پوشیدہ کیڑے کی ضروریات اور انسان کی خوابیدہ خواہشوں تک کا مکمل علم ہے۔
یہ روایت ِعلم کسی ایک نقطۂ عروج پر پہنچ کر سانس نہیں لیتی بلکہ مسلسل ترقی کی طرف مائل رہتی ہے۔ اہلِ ایمان اپنے رب سے ہرلمحہ یہ درخواست کرتے ہیں کہ ’’اور دعا کرو کہ اے رب مجھے مزید علم عطا کر‘‘(طٰہٰ ۲۰:۱۱۴)۔ قرآنِ کریم جس علمی روایت کو قائم کرنا چاہتا ہے اس کی بنیاد الہامی ہدایت ہے۔ یہ ہدایت ایک جانب انسان کے لیے ایک منطقی اور علمی ضرورت ہے تو دوسری جانب یہ عقل کی پہنچ اور حدود کا بھی تعین کرتی ہے۔ چنانچہ انسانی عقل وحی کی ضرورت، اہمیت اور کردار کو تسلیم کرتی ہے اور اپنی داخلی کیفیت کی بنا پر وحی کو وصول تو کرسکتی ہے، تخلیق نہیں کرسکتی۔ نتیجتاً رسوخ علمِ وحی کی صداقت کا شعور پیدا کرتا ہے مگر ’’ان میں جو راسخون فی العلم (پختہ علم رکھنے والے) ہیں اور ایمان دار ہیں وہ سب اُس تعلیم پر ایمان لاتے ہیں جو اے نبیؐ! تمھاری طرف نازل کی گئی ہے اور جو تم سے پہلے نازل کی گئی تھی‘‘ (النساء ۴:۱۶۲)۔ فکر، ذکر، علم اور شعور کے بار بار بیان کرنے کا مقصد یہی نظر آتا ہے کہ قرآن انسان کو توہمات، ظن وگمان اور آبائی رسوم و رواج سے آزاد کر کے عقل و عدل کی بنیاد پر اپنے معاملات پر غور کرنے اور نتائج اخذ کرنے پر اُبھارنا چاہتا ہے، چنانچہ قرآنِ کریم آیاتِ کائنات کا تذکرہ ہو یا انسان کے لیے مقرر کردہ حدود وقوانین کا بیان گفتگو کا خاتمہ بالعموم اس نکتے پر کرتا ہے کہ یہ جو باتیں تمھیں سمجھائی جارہی ہیں، یہ اس لیے ہیں کہ تم عقلی رویہ اختیار کرسکو۔ بیوہ اور مطلقہ کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے؟ اس کی وضاحت کرنے کے بعد فرمایا گیا: ’’اس طرح اللہ اپنے احکام تمھیں صاف صاف بتاتا ہے، امید ہے کہ تم سمجھ بوجھ کر کام کرو گے (لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَ) (البقرہ ۲:۲۴۲) ’’گویا سمجھ بوجھ کا رویہ، تعقل کا طریقہ اختیار کرنا مطلوب و مرغوب ہے اور ایسا نہ کرنا، غیرعقلی رویہ اختیار کرنا اللہ تعالیٰ کوناپسند ہے۔ یہی وجہ ہے جب تک اُمت مسلمہ کا قلبی اور فکری تعلق قرآنِ کریم کے ساتھ قریبی رہا، وہ نہ صرف قرآنِ کریم کے مفہوم و مدعا کو سمجھنے میں کامیاب ہوئی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ کائنات اور ماحول میں پائی جانے والی اللہ تعالیٰ کی آیات اور نشانیوں کا اِدراک کرنے اور اعلیٰ سائنسی ایجادات کرنے میں دوسروں سے آگے نکل سکی۔ ’’جو لوگ عقل سے کام لیتے ہیں ان کے لیے آسمانوں اور زمین، زمین کی ساخت میں، رات اور دن کے پیہم ایک دوسرے کے بعد آنے میں، اُن کشتیوں میں جو انسان کے نفع کی چیزیں لیے ہوئے دریائوں اور سمندروں میں رواں رہتی ہیں، بارش کے اُس پانی میں جسے اللہ اُوپر سے برساتا ہے، پھر اس کے ذریعے مُردہ زمین کو زندگی بخشتا ہے اور زمین میں ہرقسم کی جان دار مخلوق کو پھیلاتا ہے، ہوائوں کی گردش میں اور ان بادلوں میں جو آسمان اور زمین کے درمیان تابع فرمان بناکر رکھے گئے ہیں، بے شمار نشانیاں ہیں‘‘۔ (البقرہ ۲:۱۶۴)
اسی بات کو ذرا مختلف پیرایے میں یوں کہا گیا: ’’وہی زندگی بخشتا ہے، وہی موت دیتا ہے، گردشِ لیل ونہار اسی کے قبضۂ قدرت میں ہے۔ کیا تمھاری سمجھ میں بات نہیں آتی (اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ) (المومنون ۲۳:۸۰)۔ اسی بات کو سورئہ نور (۲۴:۶۱)، سورئہ مائدہ (۵:۵۸) اور سورئہ نحل (۱۶:۶۷) میں سیاق و سباق کے کچھ فرق کے ساتھ بیان کیا گیا۔ مجموعی طور پر ان آیات پر غور کیا جائے تو واضح طور پر قرآن کا مدّعا یہی نظر آتا ہے کہ وہ انسان کو سوچ سمجھ اور عقل کے مناسب استعمال کی طرف پکار پکار کر بلا رہا ہے۔ سورئہ نحل میں اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ کتابِ ہدایت کو بطور ایک نشانی کے بیان کرتے ہوئے آسمان اور زمین میں موجود نشانیوں، حیوانات کے ذریعے انسان کو ملنے والے فوائد کے تذکرے میں لقومٍ یومنون ، لقومٍ یسمعون، لقومٍ یعقلون اور لقومٍ یتفکرون کے الفاظ کا استعمال یہ ظاہر کرتا ہے کہ ہر قابلِ مشاہدہ نعمت پر انفرادی اور اجتماعی طور پر عقل، سماعت اور فکر کا استعمال کرتے ہوئے دعوتِ فکر دی جارہی ہے۔ فکر، قلب اور عقل کا یوں بار بار دہرایا جانا ایک جانب ان کے درمیان بنائی ہوئی نظری دیواروں کو شعور سے خارج کرتا ہے اور دوسری جانب ان تمام وسائل و ذرائع کا استعمال انسان کو متحرک، productive اور pro-active بننے کی دعوت دیتا ہے۔ عقل وفکر کا یہ استعمال حیاتِ انسانی میں تقلید اور میکانکی طرزِعمل کے دخل کو کم سے کم تر کرتے ہوئے شعوری، عقلی اور علمی رویّے کو رواج دیتا ہے۔ یہ طرزِعمل مذہب کے روایتی تصور یعنی بربناے عقیدہ کسی چیز کو مان لینے کی ضد ہے۔ دینِ اسلام کا ایک امتیاز اس کی علمی روایت میں عقل، شعور، تجربے کا سرگرمی کے ساتھ استعمال کرنا اور علمی کاوشوں کے نتائج کے ذریعے انسانیت کے مسائل کا حل تلاش کرنا ہے۔ اس سلسلے میں صحت، تعلیم، ثقافت، دفاع، معیشت، سیاست غرض ہرہرشعبۂ حیات میں علمِ وحی اور عقل و شعور کے ساتھ اجتہاد کے ذریعے نئے اورقابلِ عمل حل تلاش کرنا، اسلامی علمی روایت کا ایک اہم کارنامہ ہے۔
اسلامی ثقافت و تہذیب کے نشوونما میں ذکروفکر کے بعد علم اور عقل کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ ان تمام عناصر میں ایک قریبی اندرونی ربط وتسلسل پایا جاتا ہے۔ یہ ایک دوسرے کی توثیق و تصدیق اور تکمیل کرتے ہیں اور ایک کلیت پسند (holistic) ثقافت کو وجود میں لاتے ہیں۔ قرآنِ کریم ان تمام عناصر کو تفقّہ کی اصطلاح میں یک جا کردیتا ہے۔ چنانچہ تفقّہ یا گہرے فکری تجزیاتی تحقیقی عمل میں علم و فکر، ذکر و شعور اپنا اپنا کردار ادا کرتے ہیں اور نتیجتاً نئی فکر اور علم وجود میں آتے ہیں۔
تفقّہ میں عموماً سمجھنے اور رمزآشنائی کا مفہوم پایا جاتاہے۔ چنانچہ سورئہ بنی اسرائیل میں اللہ تعالیٰ کی تسبیح اور پاکی کے تذکرے جو سات آسمانوں میں پائے جاتے ہیں۔ بیان کرنے کے بعد، فرمایا گیا: ’’کوئی چیز ایسی نہیں جو اس کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح نہ کر رہی ہو، مگر تم ان کی تسبیح سمجھتے نہیں ہو‘‘ (بنی اسرائیل ۱۷:۴۴)۔ فاسقین اور منافقین کے غیرعقلی طرزِعمل پر تنقید کرتے ہوئے قرآنِ کریم فرماتا ہے: ’’اگر انھیں کوئی فائدہ پہنچتا ہے تو کہتے ہیں یہ اللہ کی طرف سے ہے، اور اگر کوئی نقصان پہنچتا ہے تو کہتے ہیں: اے نبیؐ! یہ آپؐ کی طرف سے ہے۔ کہو، سب کچھ اللہ ہی کی طرف سے ہے۔ آخر ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ کوئی بات ان کی سمجھ میں نہیں آتی‘‘ (النساء ۴: ۷۸)۔ سیاق و سباق کے اختلاف کے ساتھ یہی مفہوم سورئہ انعام کی آیت ۶۵ میں نظر آتاہے۔ چنانچہ یعلمون اور یفقھون کا مفہوم کسی شے کی حقیقت تک پہنچنے اور کسی معاملے کے مختلف پہلوئوں کا احاطہ کرنے کا نظر آتا ہے۔
قرآن میں دین میں گہری تحقیق، سوچ اور فکر کے عمل کو کسی خاص طبقے یا جماعت سے مخصوص نہیں کیا گیا ہے، جب کہ اسلام سے قبل ہندوازم میں اسے نسلی اور طبقاتی طور پر برہمن کے لیے مخصوص کردیا گیا تھا۔ یہودیت نے گو اسے نسلی استحقاق قرار نہیں دیا، لیکن ربی کو معاشرے میں عملاً وہ مقامِ تقدس حاصل ہوگیا جس میں وہ صرف تورات سمجھنے اور سمجھانے والا قرار پائے۔ اسلامی ثقافت و تہذیب میں تفقّہ یعنی انسان کے معاشی، سیاسی،معاشرتی مسائل بشمول عبادات و فرائض پر غور کرنے کے بعد ان کے مقصد، حکمت اور زمانے کے لحاظ سے مناسب انداز میں سرانجام دینے کے عمل کو تفقّہ قرار دیا گیا۔ قرآنِ کریم لقومٍ یفقھون کی اصطلاح استعمال کرتا ہے تو اس سے کوئی نسلی، طبقاتی گروہ مراد نہیں لیتا بلکہ اُمت ِمسلمہ کے ہرفرد کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ دین کی گہری فکر اور سمجھ پیداکرنے کے لیے قرآن و حدیث اور دیگر علوم و مسائل پر غور کر کے نتائجِ فکر اخذ کرسکے۔ چنانچہ سورئہ انعام میں اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ نعمتوں، ستاروں کے ذریعے سمندر اور صحرائوں کی تاریکی میں راستے معلوم کرنے، انسان کو ایک جان سے پیدا کرنے اور اعلیٰ ترین ساخت کے ساتھ بنانے کا تذکرہ کرنے کے بعد اسے لقومٍ یفقھون ’’سمجھ بوجھ رکھنے والے لوگوں‘‘ کے لیے نشانیاں قرار دیتا ہے (الانعام ۶:۹۸)۔ قرآنِ کریم میں تفقّہ اور غوروفکر کی یہ دعوت فکری جمود اور تقلید کا رد اور تنقیدی ذہن پیدا کرنے کی ترغیب دیتی ہے۔
جو لوگ ماخذ دین پر غوروفکر نہیں کرتے اور اندھی پیروی میں لگے رہتے ہیں ان پر سخت تنقید کرتے ہوئے قرآنِ کریم خبردار کرتا ہے کہ: ’’انسانوں اور ِجنوں میں سے بہت سے ایسے ہیں جن کے سینوں میں دل ہیں، مگر وہ ان سے سوچتے نہیں، ان کے پاس آنکھیں ہیں مگر وہ ان سے دیکھتے نہیں، ان کے اس کان ہیں مگر وہ ان سے سنتے نہیں، وہ جانور ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گئے گزرے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو کھوئے ہوئے ہیں‘‘۔ (الاعراف ۷:۱۷۹)
یہاں قرآنِ کریم نے انسان کے ذرائع علم و فکر میں بصارت، سماعت اور فواد کے تذکرہ کے ذریعے تفقّہ کے عمل کی وضاحت کرتے ہوئے غوروفکر کے مراحل کو بتانے کے بعد یہ بات سمجھائی کہ اگر بصارت، سماعت اور قلب یا دماغ کا صحیح استعمال نہ کیا جائے تو انسان اور حیوان میں کوئی وصفی فرق باقی نہیں رہتا بلکہ انسان حیوان کی سطح سے بھی گر جاتا ہے کیونکہ بہت سے حیوان ایسے ہیں جو محض بصارت کی بنیاد پر خطرات سے بچ جاتے ہیں اور بعض سماعت کی بنیاد پر خطرات کا شکار نہیں ہوتے جب کہ عقل و شعور اور فکر سے عاری انسان اللہ کی طرف سے دی گئی سماعت و بصارت اور تجزیاتی و عقلی صلاحیت کو استعمال نہ کرنے کے نتیجے میں خود کو حیوانات کی سطح سے بھی نیچے لے جاکر آنکھ دیکھی مکھی کھانے سے بھی نہیں شرماتا اور فواحش و منکرات کی من مانی تاویلات کر کے وہ طریقے اختیار کرتا ہے جن سے حیوانات بھی احتراز کرتے ہیں۔ عام مشاہدے کی بات ہے کہ جو تعذیب کے طریقے انسان انسانوں کے لیے اختیار کرتا ہے، جنسی لذت کے وہ انداز جو نہ صرف غیرفطری ہوں بلکہ ہرتہذیب میں ناپسند کیے جاتے ہوں دھڑلے سے استعمال کرتا ہے، مسکرات اور مخدرات کا استعمال کبھی شیشے کے نام سے کبھی کسی اور نام سے ایجاد کر کے کھلے عام فخر کے ساتھ کرتا ہے، یہ وہ سب انداز ہیں جنھیں قرآن کی ثقافت و تہذیب، اخلاقی بنیاد پر رّد کرتی ہے اور انسان کو تفقّہ، غوروفکر، تنقیدی ذہن کے ساتھ مطالعہ و مشاہدہ کی دعوت دیتی ہے۔
قرآنی ثقافت و تہذیب تفقّہ، منظم غوروفکر کرنے کے عمل کو نہ ایک ذہنی تفریح یا ذہنی شطرنج سمجھتی ہے اور نہ اسے کسی خاص طبقے تک محدود کرتی ہے۔ گویا اس ثقافت کا مزاج ہی تحقیق و جستجو کے ذریعے تلاشِ حق ہے۔ یہ ذہنوں کو روایت پرستی سے آزاد کرتی اور منظم طور پر ذکروفکر کے ذریعے ایسی تربیت فراہم کرتی ہے جس کے بعد مسائل کا منہ دیکھتے رہنے کے بجاے مسائل کے مناسب اخلاقی اور عملی حل خود چلتے ہوئے سامنے آجائیں۔
سورئہ توبہ میں اہلِ ایمان کو دعوتِ جہاد دینے کے بعد یہ بات سمجھائی جارہی ہے کہ گو جہاد افضل ترین عبادت ہے، لیکن جس مقصد کے لیے جہاد کیا جا رہا ہے یعنی قیامِ عدل، طاغوت اور ظلم و شرک کو مٹاکر خالقِ کائنات کی دنیا میں اس کے قانون کا نفاذ، اُس کو سمجھنے اور اس کے نفاذ کے لیے کارکن تیار کرنے کی غرض سے اہلِ ایمان کی ایک جماعت شہر میں دین کا شعور، مسائل سے آگاہی اور مشکلات کو دُور کرنے کے لیے الہامی ہدایت کو سمجھنے کی غرض سے تفقّہ، تحقیق،تذکیر و تفکیر میں مصروفِ عمل ہو اور جب مجاہدین جہاد سے واپس لوٹیں تو ان کی تعلیم و تربیت کے ذریعے انھیں نظامِ اسلامی کے نفاذ کے لیے تیار کریں۔ گویا یہاں معاملہ اہلِ سیف اور اہلِ قلم میں انتخاب کا نہیں ہے بلکہ ایک اجتماعی ذمہ داری کے طور پر ان اہلِ سیف کو رموزِ قلم سے آگاہ کرنا ہے جو علمِ حقیقی کی بنیاد پر اللہ تعالیٰ کی بخشی ہوئی قیادت کی ذمہ داری کے حقوق ادا کرسکیں اور اللہ کی زمین پر اُس کی مرضی کے مطابق نظام رائج کرسکیں۔ قرآنی تہذیب و ثقافت کا یہ پہلو منفرد ہے کہ وہ زندگی کے ہرہرعمل میں غوروفکر کے بعد لائحہ عمل اختیار کرنے پر زور دیتی ہے اور اس غرض کے لیے ادارتی مدد اور ایسی تنصیبات (institutions) قائم کرنا چاہتی ہے جو اس عمل کو تواتر کے ساتھ جاری رکھ سکیں، چنانچہ قرآنِ کریم میں ارشاد ہوتا ہے: ’’اور کچھ ضروری نہ تھا کہ اہلِ ایمان سارے کے سارے ہی نکل کھڑے ہوتے، مگر ایسا کیوں نہ ہوا کہ ان کی آبادی کے ہرحصے میں سے کچھ لوگ نکل کر آتے اور دین کی سمجھ (تفقّہ فی الدین) پیدا کرتے اور واپس جاکر اپنے علاقے کے باشندوں کو خبردار کرتے تاکہ وہ (غیرمسلمانہ روش سے) پرہیز کرتے۔ (التوبہ ۹:۱۲۲)
قرآنِ کریم مسلسل یہ اصرار کرتا ہے کہ اہلِ ایمان فکر کریں، علم حاصل بھی کریں اور اس پر عمل بھی کریں۔ تحقیق و تنقید اور تجسسِعلمی کو اختیار کریں۔ شاید ہی کوئی صفحہ ایسا ہو جس پر یہ نہ کہا گیا ہو کہ تم ایسی قوم کیوں بن رہے ہو جو عقل کا استعمال نہیں کرتی، علم کی طرف راغب نہیں ہوتی، شعوروآگہی سے کام نہیں لیتی اور اس پر متواتر زور نہ دیا گیا ہو۔ اس حقیقت ِ واقعہ سے یہ بات بلاخوف تردید ثابت ہوتی ہے کہ اگر قرآن و حدیث کے احکامات، تعلیمات اور ترغیبات کواختیار کیا جائے یعنی ان کی لفظی اور معنوی اطاعت کی جائے تو مسلم ذہن میں نہ تو غلو پیدا ہوگا نہ اندھی تقلید، نہ تحقیق و جستجو سے بھاگ کر ماضی میں پناہ لینے کی خواہش۔ بلکہ ہر وہ فرد جو مسلم ہو یا غیرمسلم قرآنی تعلیم پر عمل کرنے کے نتیجے میں ایک علم کا شیدائی، تحقیق کا مردِ میدان اور غوروفکر کرنے والا حسّاس، باشعور، اللہ کا بندہ بنے گا۔
بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اُمت ِمسلمہ کی قرآن و سنت سے دُوری اور قرآن وسنت کے اس pro-active پہلو کو نگاہ سے اوجھل کردینے کی بنا پر وہ فکری زوال رونما ہوا جس سے مسلمانوں کی تہذیب و ثقافت کی رفتار سُست ہوکر ترقی ٔ معکوس میں تبدیل ہوگئی۔ قرآنی ثقافت و تہذیب اپنے اس حرکی اور جوہری پہلو کی بنا پر دنیا کی وہ واحد تہذیب ہے جو روایت علم و تحقیق کو بربناے وحی اپنے ہر ماننے والے کے لیے انفرادی اور اجتماعی طور پر ایک فریضہ قرار دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تفقّہ فی الدین فرضِ کفایہ کی حیثیت سے ایک متفق علیہ کے طور پر ۱۵ سو سال سے اُمت مسلمہ کے شعور کا حصہ ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ اپنے شعور کا استعمال نہ کرے اور جان بوجھ کر روایت پرستی کا لبادہ اوڑھ کر اپنی مسلکی شخصیت پر فخر کرتے ہوئے اپنے مسلک کے خول میں بند رہنے اور صرف اپنے مسلک کو ’الحق‘ سمجھنے کے خواب میں مگن رہے۔ اسلامی ثقافت و تہذیب کی بنیاد جن الہامی اصولوں پر ہے، اگر انھیں نظرانداز کیا جائے گا تو اُمت ِمسلمہ لازمی طور پر اندھی تقلید کا شکار ہوگی۔
قرآنی ثقافت و تہذیب کے فکری اور علمی پہلوئوں پر غور کیا جائے تواس ثقافت کی معروضی بنیاد زیادہ روشن ہوتی جاتی ہے۔ بالعموم دنیا کی تہذیبوں اور ثقافتوں کو ان کے مخصوص خطوں، تاریخی ادوار یا اقوام سے وابستہ کیا جاتا ہے۔ ہم کہتے ہیں یہ رومیوں کی تہذیب ہے، یہ ماوراء النہر کی تہذیب ہے، یہ چین کی ثقافت ہے، یہ ہندو دیومالائیں ہیں، یہ Judia میں پروان چڑھنے والی ثقافت ہے، یہ بازنطینی تہذیب ہے وغیرہ۔ لیکن قرآنی ثقافت وہ واحد تہذیب ہے جس کی جڑیں زمین میں نہیں، کہیں اور ہیں اور اتنی پایدار اور مضبوط ہیں کہ ہردم شجرطیبہ کے بڑھنے، تناور ہونے اور رحمت بننے میں اپنا کردار ادا کرتی ہیں۔ وحی الٰہی کایہ کردار قرآنی تہذیب، ثقافت کو ایک منفرد مقام سے نوازتا ہے جس پر مزید غوروفکر کی ضرورت ہے۔ (جاری)
قرآن کریم انسان کو دعوتِ فکر دیتے وقت یہ بات واضح کردیتا ہے کہ انسان کو مکمل آزادیِ فکر کے ساتھ ایک سے زائد راستے اور طرق اپنانے کا اختیار عطا کیا گیا ہے (وَھَدَیْنٰـہُ النَّجْدَیْنِ o البلد ۹۰:۱۰ ’’دونوں نمایاں راستے اسے دکھا دیے‘‘) لیکن یہ فیصلہ وہ کس طرح کرے؟ کیا محض اپنے آباواجداد کی اندھی پیروی کو رہنما اصول بنائے یا محض منطق اور مشاہدے کو، یا مشاہدے کے ساتھ اس بات پر بھی غور کرے کہ عقل کی وسعت و محدودیت کتنی ہے؟ مشاہدے کی حدود کہاں تک ہیں؟ رہوارِ فکر کہاں تک جاسکتا ہے؟ اور اس پورے فکری عمل میں کسی معروضی معیارِ حق و باطل کا کیا مقام ہے؟ اسلامی فکروثقافت کا یہی پہلو، جسے ہم کلیت پسند تصور کہہ سکتے ہیں، اسے دیگر فکری اور ثقافتی روایتوں سے ممتاز کرتا ہے۔
چنانچہ دعوتِ فکر کو تذکرہ و تذکیر کے ساتھ یک جا کرتے ہوئے قرآن کریم انسان کو ایک تیسری بنیاد کی طرف متوجہ کرتا ہے اور خود ہی اس کی تعریف بھی فراہم کردیتا ہے۔ فکروذکر کا عمل انسان کی عقل اور قلب کو ایک ایسے طرزِ عمل اور رویے (attitude) کی طرف لے جاتا ہے جس میں عقل و قلب ایک دوسرے کی ضد بن کر نہیں، بلکہ ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر جائزہ، تنقید، تفکر اور تصفیہ کا عمل اختیار کرتے ہیں، چنانچہ تزکیہ نہ محض قلب کی صفائی تک محدود رہتا ہے اور نہ تدبر محض ہی منطقی اور کلامی بحثوں میں مقیّد ہوتا ہے بلکہ دونوں مل کر ثقافت کی بنیاد بن جاتے ہیں اور ذکروفکر فطری طور پر ایک شخص کو اپنے مشاہدات، احساسات، آرزوئوں، خواہشات، وقت، مال، صحت، صلاحیت غرض ہرہرانسانی عمل کے تزکیے اور مطلوبہ اعمال کے مقاصد و اہداف پر غوروتدبر کرنے کی طرف آمادہ کردیتے ہیں۔ یہ ثقافت چند ظاہری، بصری اور صوتی اعمال کا نام نہیں ہے بلکہ ہر وہ شے جس کا تعلق بصری، صوتی، احساساتی معاملات سے ہو، ثقافت اسے ایک معنی دینے کے بعد فکروذکر کی بنیاد توحید سے وابستہ وپیوستہ کردیتی ہے اور ایک شاعر ہو یا ادیب، مصور ہو یا صاحبِ فن نقاش، حرفت کار ہو یا معمار، اس کے تیشے کی ہر ضرب اور قلم کی ہر جنبش توحید کی بنیاد پر فکروذکر اور تزکیے کے عمل سے گزرنے کے بعد عالمِ شہود میں آتی ہے۔
قرآن کریم نے تزکیے کو ایک شعوری اور ارادی عمل کی حیثیت سے پیش کیا ہے۔ سورئہ شمس اور الاعلیٰ میں واضح الفاظ میں غیرمبہم طور پر یہ بات فرمائی گئی ہے کہ قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَاo (الشمس ۹۱:۹) ’’یقینا فلاح پا گیا وہ جس نے نفس کا تزکیہ کیا‘‘۔ اسی بات کو سورۃ الاعلیٰ میں تزکیے کے ظاہری اور عملی پہلو کے ساتھ وابستہ کرتے ہوئے یوں فرمایا گیا: ’’فلاح پاگیا وہ جس نے تزکیہ کیا اور اپنے رب کا نام یاد کیا۔ پھر صلوٰۃ ادا کی‘‘ (الاعلٰی ۸۷: ۱۴-۱۵)۔ قرآن کریم نے یہاں تزکیے کے عمل کو آزاد نہیں چھوڑ دیا بلکہ اسے اللہ کے نام کی یاد اور اس ذکر کی بہترین شکل قیام، رکوع و سجود کا بیان کرنے کے ذریعے قرآن کے طالب علم کے ان سوالات کا جواب بھی فراہم کردیا جو تزکیے کی اصطلاح پڑھنے اور سننے کے بعد ذہن میں اُبھر سکتے ہیں، یعنی کیا یہ آنکھیں بند کر کے کسی گوشے میں ہفتوں اور برسوں بیٹھنے کا نام ہے یا کسی جنگل بیابان میں معاشرتی زندگی سے دُور جاکر اپنے قلب و نظر کو مجلا و مصفّا کرنے کا نام ہے۔ یا زندگی کے ہنگاموں، بازار کی معاشی سرگرمیوں اور سیاست کی شطرنج میں الجھنے کے باوجود سیاسی، معاشی،معاشرتی معاملات میں رب کریم کی رضا و خوشنودی کے کام اختیار کرنے اور اپنے سر اور جسم کو نہیں بلکہ عقلی وجود کو، قلبی خواہشات کو، نظر کی حسرتوں اور تڑپتی خواہشوں کو ربِ کریم کی رضا کا پابند کردینے، اس کے حضور اپنے پورے وجود کو عاجزی اور طلب کے ساتھ ساتھ اُس ایک سجدے میں گرا دینے کا نام ہے جواسے تمام غلامیوں سے آزاد کر کے نفس کو اُس کے اعلیٰ مقام سے آگاہ کردے۔
تزکیے کا یہ وہ عملی اور محسوس پہلو ہے جو اس کے معیار کا تعین کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ وہ تزکیہ اور خشیت اور تقویٰ جو فرائض واجبات، سنن اور نوافل کی شکل میں اپنے آپ کو نہ ڈھال سکے ایک فکرِآوارہ تو ہوسکتا ہے، قرآن کا مطلوب تزکیہ نہیں ہوسکتا۔ قرآن جس تزکیے کے ذریعے ایک ثقافت و تہذیب پیدا کرنا چاہتاہے، اس میں اللہ کی خشیت، اس کی توحید، بہترین ناموں کے ساتھ اس کا ذکر، جو تسبیح کے دانوں کی محدودیت سے نکل کر اس کی بارگاہ میں قیام و قعود اور رکوع و سجود میں ڈھل جاتا ہے۔ یہ رکوع و سجود چند خاص اوقات میں نہیں بلکہ زندگی کے ہرفیصلہ کن معاملے میں ہوتے ہیں۔ جب ایک فرد یا ایک سربراہ یا ایک قوم اپنے مالی معاملات میں سودی نظام کے آگے سجدہ کرتی ہے اور اس سے نرم یا گرم سودی کاروبار کے لیے قدم آگے بڑھاتی ہے توتسبیح کے دانوں پر اسماے حسنیٰ کی گردش اپنا مفہوم کھو دیتی ہے۔ جب ایک سربراہِ مملکت مسلمانوں کی نرم شبیہہ کی تمنّا میں مسلمانوں کو نرم نوالہ بناکر پیش کرنے میں فخر محسوس کرتا ہے تو یہ عمل اس کے قولی دعووں کی تردید کردیتا ہے اور اعلان کرتا ہے کہ وہ اللہ کی خشیت سے نہیں، کسی نام نہاد یک قطبی قوت کی ہیبت و رعونت سے لرزہ براندام ہے۔
تزکیہ کوئی غیرمحسوس و غیرمرئی عمل نہیں ہے بلکہ قرآن اسے ان تمام اعمال سے وابستہ کرتا ہے جو انسان کی انتہائی ذاتی کیفیات سے وابستہ ہوں مثلاً قیام اللیل، یا اس کے معاشرتی وظائف سے تعلق رکھتے ہوں مثلاً والدین کے حقوق، بیوی بچوں کے حقوق، اولاد کی صحیح اسلامی تربیت یا بین الاقوامی معاملات میں معاہدوں اور پالیسیوں کا تعین۔
یہی وجہ ہے کہ تزکیے کی اصطلاح کوقرآن کریم نے تزکیۂ مال کے ساتھ بیان کرنے کے بعد ان تمام شکوک و شبہات کا ازالہ کردیا جو دین و دنیا، عالمِ قلب اور مادی عالم کے درمیان مصنوعی طور پر ذہنوں اور قوموں کے خون میں سرایت کر گئے ہیں۔ ارشاد خداوندی ہے: خُذْ مِنْ اَمْوَالِھِمْ صَدَقَۃً تُطَھِّرُھُمْ وَ تُزَکِّیْھِمْ بِھَا وَصَلِّ عَلَیْھِمْ اِنَّ صَلٰوتَکَ سَکَنٌ لَّھُمْ وَاللّٰہُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ(التوبۃ ۹:۱۰۳)’’اے نبیؐ! تم ان کے اموال میں سے صدقہ [زکوٰۃ] لے کر انھیں پاک کرو اور (نیکی کی راہ میں) انھیں بڑھائو اور ان کے حق میں دعاے رحمت کرو کیوں کہ تمھاری دعا ان کے لیے وجۂ تسکین ہوگی، اللہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے‘‘۔
قرآن کریم یہاں جس ثقافت و تہذیب کی بات کر رہا ہے اس میں تین پہلو انتہائی قابلِ غور ہیں۔ پہلی بات یہ کہ نبی اللہ کے رسول اور مسلمانوں کے فرماں روا ہونے کی حیثیت سے لوگوں کے اموال میں سے زکوٰۃ وصول کرنے کے لیے ذمہ دار ہے۔ یہ کوئی رضاکارانہ کام نہیں ہے کہ جب چاہا کرلیا بلکہ یہ اس کے فرائض میں شامل ہے اور اس بنا پر مسلم ثقافت میں جو افراد بھی صاحب ِ اختیار ہوں گے یہ ان کی ذمہ داری ہوگی۔
دوسری بات یہ واضح ہوکر سامنے آتی ہے کہ حلال کمائی بھی اس وقت تک پاک نہ ہوگی اور نہ بڑھے گی جب تک اس کا تزکیہ نہ کیا جائے۔ گویا قرآنی ثقافت و تہذیب میں غیراخلاقی ذریعے سے حاصل کردہ مال و دولت کے دروازے پر ایک بھاری اور مضبوط قفل لگا دیا جاتا ہے اور ہرشہری کو صرف اخلاقی ذریعے سے مال حاصل کرنے کی اجازت ہوتی ہے۔ یہ سرمایہ دارانہ نظام کی طرح نہ تو سود پر مبنی ہے، نہ اس میں محض منافع کی بنیاد پر عوام کا خون چوسنے یا انھیں ایسے حرام کاموں میں خرچ کرنے کا امکان ہی ہے جو اسلام کے آفاقی اصولِ اخلاق سے متصادم ہوں، مثلاً جواخانے، ناچ گھر، شراب خانے، ٹی وی کے پردے پر فحاشی کے ذریعے اور فحش اشتہارات کے ذریعے روپے کمانے یا بنکوں میں سودی کاروبار کے ذریعے مال و دولت میں اضافہ۔ جس مال میں سے زکوٰۃ دے کر اس کا تزکیہ کیا جائے گا اس کے خود پاک اور اخلاقی ذریعے سے حاصل کیے جانے کو ایک طرح سے انفرادی، اجتماعی اور سرکاری طور پر ایک شرط قرار دے کر تزکیۂ مال کوقابلِ پیمایش تقویٰ کی شکل دے دی گئی ہے۔
تیسری بات جو وضاحت سے کہی جارہی ہے وہ یہ ہے کہ رسولؐ اور اس کے بعد ریاست اپنے اس فرض کو ادا کرے گی لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایسے افراد کے لیے جو مال کا تزکیہ کرنے اور کروانے پر شعوری طور پر آمادہ ہوں، اللہ کے رسولؐ سے کہا جا رہا ہے کہ وہ ان کے لیے دعاے رحمت و مغفرت بھی کریں کیونکہ محض اپنے فریضے (زکوٰۃ) کا ادا کردینا شرطِ مغفرت نہیں ہوسکتا۔ اس کے ساتھ اور بہت سے پہلو ایسے ہوسکتے ہیں جو ناقص ہوں لیکن زکوٰۃ کی ادایگی کے ساتھ دعاے مغفرت کے بعد اس کا امکان زیادہ ہوگا کہ رب کریم جو اپنے بندوں سے بے حساب محبت کرتا ہے وہ ان کے تزکیے کے عمل کو قبول کرلے۔ یہ وہ ثقافت ہے جس میں مال کی حرص اور ہوس کی جگہ مال کے جائز طور پر بڑھانے اور اللہ کی راہ میں خرچ کے ذریعے اضافے کی خواہش پروان چڑھتی ہے جس کی نظیر نہ مادہ پرست تہذیب میں ملتی ہے نہ روحانیت پرست تہذیب میں۔ اسلامی تہذیب و ثقافت وہ واحد ثقافت ہے جو تزکیے کے اس پہلو کو نہاں خانۂ دل سے نکال کر نرم و گرم بازارِ معیشت و سیاست و معاشرت میں لاکر ایک قابلِ عمل اور قابلِ پیمایش (quantifiable) شعوری اور ارادی طرزِعمل بنا دیتی ہے۔
تزکیے کے اس عمل میں تین ایسے عناصر شامل ہیں جن کی طرف قرآن کریم بار بار متوجہ کرتا ہے۔ چنانچہ فرمایا گیا کہ: ھُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰـتِہٖ وَیُزَکِّیْھِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَاِِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍo (الجمعۃ ۶۲:۲) ’’وہی ہے جس نے اُمیّوں کے اندر ایک رسولؐ خود انھی میں سے اٹھایا ،جو انھیں اُس کی آیات سناتا ہے، ان کی زندگی سنوارتا ہے اور ان کو کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے‘‘۔
اس آیت مبارکہ میں بھی تزکیے کے عمل کو تلاوتِ آیات، تعلیمِ کتاب اور تعلیم معرفت وحکمت کے ساتھ بیان کرتے ہوئے قرآن کریم نے اپنی ثقافت کو وحی اور علم و حکمت کے ساتھ یکجا کرکے اُسے ایک خصوصی اور ممتاز روایت بنا دیا ہے۔ گویا یہ وہ ثقافت ہے جس میں انسان خود اپنا رہنما اور ہادی نہیں ہے بلکہ وحی (الکتاب) اُسے رہنمائی فراہم کرتی ہے۔ یہ رہنمائی تفکر و تذکیر اور تزکیے کے عمل کے ذریعے تعلیمی طریق کار پر دی جاتی ہے۔ رسولؐ خود معلم ہونے کی حیثیت سے ایک ثقافتِ علم کی بنیاد رکھتا ہے جس پر ثقافت و تہذیب کی عمارت تعمیر ہوتی ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ رسولؐ اپنے اسوہ اور قابلِ اتباع مثال کے ذریعے ثقافتی اور تہذیبی سرگرمی کے لیے اصول و ضوابط اور خود ایک ایسی زندہ مثال چھوڑ جاتا ہے جو قیامت تک انسانی تہذیب کے لیے قابلِ عمل نمونہ ہو اور جو رفتارِ زمانہ اور روز افزوں معاشرتی ترقی کے باوجود ایک دمکتی ہوئی مثال ہو جس میں اتنی وسعت اور یُسر ہو کہ ہردور کی مشکلات اور عُسر کو دُور کرسکے۔
تزکیۂ نفس، تزکیۂ وقت، تزکیۂ صلاحیت، تزکیۂ مال، تزکیۂ فکرونظر کا یہ سفرِ علم و حکمت جس قوتِ محرکہ کی بنا پر ہوتا ہے وہ محض اس دنیا میں ثقافتی اور تہذیبی کمال کا حصول نہیں ہے بلکہ اس کی اصل منزل تہذیبی و ثقافتی ترقی کے ذریعے آخرت کی کامیابی کا حصول ہے۔ ارشاد ہوتا ہے: وَمَنْ یَّاْتِـہٖ مُؤْمِنًا قَدْ عَمِلَ الصّٰلِحٰتِ فَاُولٰٓئِکَ لَھُمُ الدَّرَجٰتُ الْعُلٰی o جَنّٰتُ عَدْنٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْھَا وَ ذٰلِکَ جَزٰٓؤُا مَنْ تَزَکّٰی o (طٰہٰ ۲۰: ۷۵-۷۶) ’’اور جو اُس کے حضور مومن کی حیثیت سے حاضر ہوگا، جس نے نیک عمل کیے ہوں گے، ایسے سب لوگوں کے لیے بلند درجے ہیں، سدابہار باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی، ان میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ یہ جزا ہے اُس شخص کی جو پاکیزگی (تزکیہ) اختیار کرے‘‘۔
تزکیہ اور اخلاقی عمل گو بذاتِ خود مطلوب عمل ہے لیکن قرآن کریم انسان کے ہرہرعمل کو آخرت میں اچھے یا بُرے نتائج کے ساتھ وابستہ کردیتا ہے تاکہ اس دنیا میں بعض اوقات مطلوبہ نتائج کے حاصل نہ ہونے کے باوجود معاشرہ اور تہذیب متحرک رہے اور کبھی جمود اور پژمُردگی کا شکار نہ ہو اور دنیا میں تہذیبی و ثقافتی جدوجہد ہی انسان کا حقیقی مقصود نہ ہو بلکہ انسان کی ہر ہر کاوش کا آخری نقطہ آخرت میں کامیابی ہی رہے۔
جس طرح قرآن تزکیے کے عمل کو عبادات و معاملات کے ساتھ وابستہ کردیتا ہے، ایسے ہی فکروذکر اور تزکیہ میں الکتاب اور کتابِ فطرت و کائنات سے تعلق کو اسلامی تہذیب و ثقافت کی پہچان قرار دیتا ہے: کِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ اِِلَیْکَ مُبٰرَکٌ لِّیَدَّبَّرُوْٓا اٰیٰتِہٖ وَلِیَتَذَکَّرَ اُوْلُوا الْاَلْبَابِ (صٓ ۳۸:۲۹) ’’یہ ایک بڑی برکت والی کتاب ہے جو (اے نبیؐ) ہم نے تمھاری طرف نازل کی ہے تاکہ یہ لوگ اس کی آیات پر غور کریں اور عقل وفکر رکھنے والے اس سے سبق لیں‘‘۔ آیاتِ کتاب پر تدبر کیا جانا اس لیے ضروری ہے تاکہ انسان ان سے اپنے معاملات میں رہنمائی لے سکے۔ انھیںمحض ثواب کے لیے تلاوت کرلینا اور مفہوم سے بے خبر رہنا ان کے نزول کا مقصد پورا نہیں کرتا، بلکہ رب العالمین چاہتا ہے کہ اس کتاب کے ایک ایک حرف پر تدبر کیا جائے اور تدبر کے نتیجے میں ایک ایسی تہذیب و ثقافت وجود میں آئے جس کا ہر ہرمظہر اللہ تعالیٰ کی بندگی اور اطاعت کا زبانِ حال سے اظہار کرے۔
تہذیب و ثقافت میں تضادات سے محفوظ رہنے اور صحیح سمت میں آگے بڑھنے کے لیے ضروری ہے کہ الکتاب کی بنیاد پر علوم و فنون کی ترقی کے نئے راستے تلاش کیے جائیں۔ چنانچہ سورہ نساء میں ارشاد ہوتا ہے: اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ وَ لَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللّٰہِ لَوَجَدُوْا فِیْہِ اخْتِلَافًا کَثِیْرًاo (النساء ۴:۸۲) ’’کیا یہ لوگ قرآن پر غور نہیں کرتے؟ اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اس میں بہت کچھ اختلاف بیانی پائی جاتی‘‘۔ صرف قرآن کریم کا اعجاز ہے کہ ۲۳سال کے عرصے میں جو کچھ نازل ہوا اس کی ہرآیت دوسری آیت کے ساتھ معنوی حیثیت سے مربوط ہے اورکسی مقام پر تضاد نہیں پایاجاتا۔
جب اس الکتاب کو معاملات کی بنیاد بنایا جائے گا تووہ معاشی معاملات ہوں یا سیاسی، معاشرتی اور ثقافتی، ان میں آپس میں ٹکرائو اور تضاد کبھی نہ ہوگا بلکہ منزل و مقصد اور طریق کار کی یک جہتی کے نتیجے میںترقی کا عمل صحیح سمت اختیار کرے گا۔ مسلم دنیا کا ایک المیہ یہ ہے کہ دیگر مذاہب کی کتب اور مذہبی تعلیمات کے زمان و مکان میں محدود ہونے کے سبب قدامت پرستی اور سائنسی تحقیقات کے ساتھ ٹکرائو کی بنا پر مشرق و مغرب میں مذہب اور جدیدیت میں جو کش مکش پائی جاتی ہے، اسے اسلام میں تلاش کرتے ہوئے یہ قیاس کرلیا جاتا ہے کہ اسلام بھی مشرقی اور مغربی مذاہب کی طرح ایک ’مذہب‘ ہے اور چونکہ ’مذہب ‘ مغرب میں ترقی کی راہ میں رکاوٹ رہا ہے اور مشرقی اقوام بھی، چاہے وہ ہندو ہوں یا بدھ پرست ہوں، مذہبی قیود سے نکلے بغیر ترقی نہیں کرسکتیں۔ اس لیے مسلمانوں کو بھی اسلام کو نظرانداز کرتے ہوئے جدیدیت کو اختیار کرنا ہوگا۔ یہ ایک بنیادی فکری غلطی ہے جس کی تردید قرآن کریم کے ہرصفحے پر بار بار تفکر، تعقل، تدبر، تزکیہ اور تفقہ کی متحرک اصطلاحات کے ذریعے کی گئی ہے۔
چنانچہ قرآنی تہذیب و ثقافت میں ماضی کی مفید روایات کی جگہ تبدیلیِ زمانہ کے لحاظ سے اجتہاد کی بنیاد پر مسائل کا حل تلاش کرنے کی تعلیم دی گئی ہے۔ چونکہ قرآن کریم کے ساتھ مسلمانوں کا تعلق روایتی نوعیت کا بن گیا ہے اس لیے قرآن کریم سے براہِ راست رہنمائی حاصل کیے بغیر سنی سنائی باتوں اور ٹی وی چینلوں کے دریافت کردہ تجدد پسند ’عالم‘، ’علامہ‘ اور ’دانش ور‘ ایک ایسے اسلام کی تدوین کرنے میں لگ جاتے ہیں جو مغربی ذہن اور مغرب زدہ افراد کے لیے بے ضرر ہو۔
قرآن کریم جس ثقافت و تہذیب کی بنیادیں فکر، ذکر، تزکیے اور تدبر پررکھتا ہے وہ اپنی جگہ خود ایک مستقل ثقافت اور تہذیب ہے۔ یہ ایک فطری عمل ہے۔ قرآنی ثقافت جہاں کہیں بھی زمین میں اپنی جڑیں پیوستہ کرے گی، وہاں اس زمین میں نمو تو حاصل کرے گی لیکن اس کے بنیادی خدوخال اور شجرطیبہ کی طرح جہاںبھی وہ قائم ہوگی اس کے ثمرات (products)ایک ہی ہوں گے۔ یہ ثمرات روحانی بھی ہیں اور مادی بھی، معاشی بھی ہیں اور ثقافتی بھی۔ قرآن کریم کے زیرسایہ پرورش پانے والی تہذیب و ثقافت بنیادی طور پر توحیدی ثقافت ہے جو زمان و مکاں کی قیود سے ماورا لیکن زمان و مکاں کی ضروریات ومطالبات سے مکمل طور پر آگاہ ثقافت ہے۔ وہ نیل کے ساحل سے جبل الطارق تک اور مراکش سے انڈونیشیا تک تنوع کے باوجود عنصری طور پر ایک وحدانی ثقافت ہے۔
لیکن اگر انسان انجان بن کر یا جان بوجھ کر اپنے قلب پر قفل چڑھا لے تو پھر پہاڑوں کو لرزا دینے والا یہ کلامِ برحق کہ جسے سُن کر بعض پتھر لڑھک کر سجدہ ریز ہوجاتے ہیں اور بعض کا سینہ شق ہوکر ان سے پانی اُبل پڑتا ہے، ایسا کلام بھی ایسے انسانوں کو ہدایت یاب نہیں کرسکتا۔ انھی کو مخاطب کرکے قرآن کہتا ہے: اَفَلاَ یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ اَمْ عَلٰی قُلُوْبٍ اَقْفَالُھَاo (محمد ۴۷:۲۴) ’’کیا ان لوگوں نے قرآن پر تدبر نہیں کیا یا دلوں پر ان کے قفل چڑھے ہوئے ہیں‘‘۔ دلوں کے غلاف ہوں یا کانوں اور آنکھوں پر پڑے ہوئے پردے، جس لمحے بھی انسان تلاشِ حق اور راہِ ہدایت کی طرف ایک قدم بڑھاتا ہے، خالقِ کائنات اس کی طرف دس قدم بڑھتا ہے اور وہی دل جو کل تک شقاوتِ قلبی کی مثال تھے خشیت و رقّت سے پُر ہوکر نورِ ہدایت سے معمور ہوجاتے ہیں اور ان کی ہر دھڑکن قرآنی ثقافت و تہذیب کے قیام کے لیے تازہ اور پاک خون فراہم کرنا شروع کردیتی ہے۔ بَلِ اللّٰہُ یُزَکِّیْ مَنْ یَّشَآئُ (النساء ۴:۴۹) ’’مگر اللہ جسے چاہتا ہے پاک کردیتا ہے‘‘۔
قرآنی ثقافت و تہذیب کی فکری بنیادیں آفاقی ہونے کے ساتھ ساتھ یہ صلاحیت بھی رکھتی ہیں کہ وہ ہر دور میں انقلاباتِ زمانہ کے مطالبات کا عملاً جواب فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ایک تعلیمی عمل کے ذریعے انسانوں کو اس ثقافت کے فروغ کے لیے صحیح شعور، قوتِ عمل، قوتِ محرکہ (incentive) اور اعتماد فراہم کرسکیں۔ اس تدریجی عمل میں تعلیم و تعلّم، عقل و تعقل اور گہری طبیعی فکر (تفقّہ) وہ عناصر ہیں جن کے ایک مناسب امتزاج سے یہ ثقافت و تہذیب اپنا صحیح مقام حاصل کرتی ہے۔ (جاری)
قرآن کی نگاہ میں فکری عمل کے مسلمان ہونے کی بنیادی شرط فکر کا وحی کو حتمی، حقیقی اور قطعی ذریعۂ علم مانتے ہوئے عقل و مشاہدے اور تجربے کے سہارے مسائل کا حل تلاش کرنا ہے۔ غیرالہامی تہذیب و ثقافت میں مسائل کے تجزیے اور حل کے لیے مجرد عقلی، تجربی، وجدانی یا شخصی روحانی ذرائع کو اختیار کیا جاتا ہے۔ اس بنا پر مسائل کا تجزیہ، تحلیل اور حل یا تو انسان کی محدود عقلی پہنچ کی بنا پر خوش نما عقلی تعبیرات کی شکل میں سامنے آتا ہے یا عملی تجربات کی روشنی میں ایک زمینی حقائق پر مبنی pragmatic حل کی شکل میں یا پھر وجدانی (intuitive) اور روحانی (spiritual) تجربے کے انتہائی ذاتی (personal) اور انفرادی زاویے سے تجویز کردہ راے کی شکل میں حاصل ہوتا ہے۔ ان چاروں زاویوں سے کی جانے والی فکر، انسانی فکر اور تجربے کی محدودیت کی بناپر کلیت سے عاری اور ایک خطہ، دور یا ایک نسل کے ساتھ اختیاری یا غیر اختیاری طور پر مخصوص رہتی ہے اور باوجود ایک ظاہر عقلی اور منطقی ربط کے حیاتِ انسانی اور تہذیب ِانسانی کی ہمہ گیریت سے پیدا ہونے والے مسائل کا جامع حل تلاش کرنے سے قاصر رہتی ہے۔
چنانچہ مغربی مادیت ہو یا مارکسی معیشت، یا عالمی استعماریت اگر ان کا تجزیہ کیا جائے تو ہرایک کی فکری بنیاد محدود اور کسی خطے، تاریخ کے دور یا مخصوص معاشرتی و معاشی مسائل کی پیداوار نظر آتی ہے۔ ایک انسانی تہذیب و ثقافت کی تعبیر اگر ایک محدود علاقائی یا لسانی یا قومی روایات پر رکھی جائے تو وہ باوجود انتہائی مخلصانہ خواہش کے علاقائی اور محدود و مخصوص ہی رہے گی۔ اسلام عالمی انسانی برادری کے لیے ہدایت ہونے کی بناپر اسلامی فکروثقافت کو انسانی فکر کی محدودیت اور عجز سے نکال کر ایک آفاقی مقام دیتا ہے، شَھْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ ھُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنٰتٍ مِّنَ الْھُدٰی وَ الْفُرْقَانِ(البقرہ ۲:۱۸۵)’’رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہِ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں‘‘، اور اس بنا پر فکروثقافت کے لیے وحی کو جو اپنی وسعت، زمان و مکان سے ماورا اور انسانی فکر کی محدودیت اور قید سے آزاد قطعی ذریعۂ علم ہونے کی بنا پر اساس قرار دیتے ہوئے فکری زاویوں میں حرکیت، جدیدیت اور حالات کی مناسبت سے تبدیلیِ زمانہ کے باوجود انسانی مسائل کا غیرمتعصبانہ حل تلاش کرنے کی صلاحیت پیدا کرتا ہے۔ اسلام کا فکروثقافت کو علاقائیت اور زمان و مکاں کی قید سے آزاد کرانے کا عمل اسے ایک ’مذہب‘ کی جگہ دین بنادیتا ہے جو انسان کی زندگی کے ہرممکنہ پہلو پر آفاقی اخلاقی اصولوں کی روشنی میں تفکر کرنے اور مسائل کے حل تلاش کرنے کے سبب ایک متحرک اور مسلسل ترقی پذیر روایتِ علم کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔
فکر کو جس مفہوم میں قرآن کریم نے استعمال کیا ہے وہ انسانی تہذیب و ثقافت کی ترقی کے عمل میں پہلی بنیاد ہے۔ یہ تلاش حق کی طرف لے جانے کا وہ متحرک عمل ہے جس میں انسان اپنی عقل کی وسعتوں کی محدودیت کا اندازہ کرتے ہوئے وحی الٰہی کی قطعیت، صداقت و حقیقت کا ادراک کرتا ہے۔ اسی عمل کو قرآنِ کریم ذکر کی اصطلاح کے ذریعے مزید آگے بڑھاتا ہے۔
ذکر کا عمومی مفہوم لسان یا قلب کا یاد میں مشغول ہونا ہے۔ ایسے ہی ذہن میں کسی بات کے محفوظ کرلینے کو الذِّکرُ سے بیان کیا جاتا ہے۔ قرآن کریم نے فکر کے ساتھ ذکر کو بھی اسلامی فکروثقافت کی پہچان اور بنیاد قرار دیا ہے، یعنی وہ ثقافت اور فکر جو اللہ تعالیٰ کی تذکیر سے معمور ہو۔
یہ تذکیر تاریخی عمل سے آگے بڑھتے ہوئے ایک شعوری اور تجزیاتی تجربے کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ اللہ کے جو بندے اس شعوری عمل سے گزرتے ہیں قرآن کریم انھیں اُولی الالباب، دانش مند یا ہوش مند کہہ کر پکارتا ہے: اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ اخْتِلَافِ الَّیْلِ وَالنَّھَارِ لَاٰیٰتِ لِّاُولِی الْاَلْبَابِ o الَّذِیْنَ یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ قِیٰمًا وَّ قُعُوْدًا وَّ عَلٰی جُنُوْبِھِمْ وَ یَتَفَکَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ھٰذَا بَاطِلًا ج (اٰل عمرٰن ۳:۱۹۰-۱۹۱) ’’زمین اور آسمان کی پیدایش میں اور رات اور دن کے باری باری سے آنے میں اُن ہوش مندوں کے لیے بہت نشانیاں ہیں جو اُٹھتے، بیٹھتے اور لیٹے ہر حال میں اللہ کو یاد کرتے ہیں۔ اور زمین و آسمان کی ساخت پر غوروفکر کرتے ہیں (وہ بے اختیار بول اُٹھتے ہیں) پروردگار، یہ سب کچھ تو نے فضول اور بے مقصد نہیں بنایا ہے۔ تو پاک ہے اس سے کہ عبث کام کرے‘‘۔ گویا ذکرِالٰہی نوعیت کے لحاظ سے فکر سے بنیادی طور پر کوئی زیادہ مختلف چیز نہیں ہے۔ یہ انسان کو کائنات اور اُس کے اپنے وجود میں ظاہر اور مخفی اللہ کی آیات پر غور کرنے اور کاروبارِ حیات کے ہرمرحلے میں شعوری عمل پر اُبھارتا ہے۔ ذکر محض زبان سے بڑائی بیان کرنے یا دل میں خفیہ طور پر یاد کرلینے تک محدود نہیں ہے (وَ اذْکُرْ رَّبَّکَ فِیْ نَفْسِکَ تَضَرُّعًا وَّ خِیْفَۃً وَّ دُوْنَ الْجَھْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَ الْاٰصَالِ وَ لَا تَکُنْ مِّنَ الْغٰفِلِیْنَo (الاعراف ۷:۲۰۵)’’اے نبیؐ! اپنے رب کو صبح و شام یاد کیا کرو دل ہی دل میں زاری اور خوف کے ساتھ اور زبان سے بھی ہلکی آواز کے ساتھ۔ تم ان لوگوں میں سے نہ ہوجائو جو غفلت میں پڑے ہوئے ہیں‘‘۔ گویا ذکر کا عمل بیٹھنے، لیٹنے یا کھڑے ہونے کا پابند نہیں بلکہ ہرآنے والے سانس اور قلب کی ہردھڑکن کے ساتھ احساسِ شکر کو عملِ عبدیت میں تبدیل کردینے کا نام ہے۔
منافق کی ایک پہچان یہ بتائی گئی ہے کہ وہ اللہ کے ذکر کی ایک افضل شکل یعنی صلوٰۃ کی ادایگی میں کسمساتا ہے اور اللہ کا ذکر عموماً دکھاوے کے لیے کرتا ہے، جب کہ اس کے دل و دماغ کی دنیا ذکروفکر کے شعوری عمل سے اکثر خالی رہتی ہے۔ اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ یُخٰدِعُوْنَ اللّٰہَ وَ ھُوَ خَادِعُھُمْ وَ اِذَا قَامُوْٓا اِلَی الصَّلٰوۃِ قَامُوْا کُسَالٰی یُرَآئُ وْنَ النَّاسَ وَ لَا یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ اِلَّا قَلِیْلًاo (النساء ۴:۱۴۲)’’یہ منافق اللہ کے ساتھ دھوکا بازی کر رہے ہیں حالانکہ درحقیقت اللہ ہی نے انھیں دھوکے میں ڈال رکھا ہے۔ جب یہ نماز کے لیے اُٹھتے ہیں تو کسمساتے ہوئے محض لوگوں کو دکھانے کی خاطر اُٹھتے ہیں اور اللہ کو کم ہی یاد کرتے ہیں‘‘۔
تہذیبی اور ثقافتی ترقی اپنی اقدار کی انفرادیت کے باوجود ایک تاریخی روایت سے پیوستہ ہوتی ہے اور عموماً اپنے تشخص کو برقرار رکھتے ہوئے اور ماضی کے آثار سے سبق لیتے ہوئے اپنی راہ اور طریق کار کا تعین کرتی ہے۔ اسلامی فکر سے وابستہ ذکر کی اصطلاح میں زمان و مکاں اور رفتارِ زمانہ کے حوالے سے یہ مفہوم بھی پایا جاتا ہے کہ ثقافتی اور تہذیبی سفر میں آگے کی طرف بڑھتے ہوئے ایک نظر ماضی پر ڈال کر یہ دیکھا جائے کہ جن اقوام نے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور فضل و کرم پر اپنے رویوں اور طرزِعمل میں شکر کا رویّہ اختیار نہ کیا ان کا انجام کیا ہوا۔ یٰبَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ اذْکُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیْٓ اَنْعَمْتُ عَلَیْکُمْ وَ اَنِّیْ فَضَّلْتُکُمْ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ o (البقرہ ۲:۱۲۲)’’اے بنی اسرائیل یاد کرو (اذکرُوْا) میری وہ نعمت جس سے میں نے تمھیں نوازا تھا اور یہ کہ میں نے تمھیں دنیا کی تمام قوموں پر فضیلت دی تھی‘‘۔ یہاں یہ پہلو اُجاگر ہوکر آتا ہے کہ یاد کرنے کا عمل تزکیہ اور احتساب کا شعوری عمل ہے جس میں ایک قوم اللہ تعالیٰ کی طرف سے کیے گئے انعامات اور فضل و کرم، یعنی قیادتِ اُمم کے حوالے سے جائزہ لے کہ کیا اُس نے ایک خطے میں ایک منصب اور فکری برتری ملنے کے باوجود اپنے طرزِعمل سے شکر کا رویّہ اختیار کیا یا کفر، ظلم، طغیان اور تکبر کا؟
تاریخ نام ہی عبرت کا ہے کہ تنقیدی نگاہ سے جائزہ لیا جائے کہ کون سے عوامل ایسے ہیں جو ایک قوم کو شاکر ہونے کی بنا پر عروج و کامیابی کی طرف لے جاتے ہیں اور کون سے عوامل ہیں جو کفرانِ نعمت کے نتیجے میں اس کی مادی چمک دمک کے باوجود اس کی بنیادوں کو کھوکھلا، اس کی ساکھ کو تباہ اور اس کے اقتدار کو محرومی، غلامی اور ادبار میں بدل دیتے ہیں۔ ذکر کا یہ تنقیدی اور احتسابی پہلو اسے دیگر تہذبوں سے ممتاز کرتا ہے اور قرآن کریم کو دستورِ حیات ماننے والوں کو دعوتِ فکر دیتے ہوئے شاکر بننے کی ترغیب دیتا ہے۔
ذکروفکر کے اسی پہلو سے خصوصاً مسلمانوں کو متوجہ کرتے ہوئے یاد دہانی کے طور پر کہا جاتا ہے۔ وَ اعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوْا وَ اذْکُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ اِذْ کُنْتُمْ اَعْدَآئً فَاَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِکُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہٖٓ اِخْوَانًا (اٰل عمرٰن ۳:۱۰۳) ’’سب مل کر اللہ کی رسی (القرآن) کو مضبوط پکڑ لو اور تفرقے میں نہ پڑو۔ اللہ کے اُس احسان کو یاد رکھو جو اس نے تم پر کیا ہے۔ تم ایک دوسرے کے دشمن تھے اُس نے تمھارے دل جوڑ دیے اور اُس کے فضل و کرم سے تم بھائی بھائی بن گئے‘‘۔ یہاں اخوت و مودّت کی آفاقی قدر کے ذریعے قلوب کو جوڑ دینے کی نعمت کا تذکرہ کرتے ہوئے متوجہ کیا گیا ہے کہ عصبی جاہلیت کی جگہ اُلفت و اخوت دو ایسی نعمتیں ہیں جن پر صرف اُمتِ مسلمہ ہی نہیں بلکہ پوری انسانیت اپنے خالق و مالک کا جتنا بھی شکر ادا کرے وہ کم ہوگا۔ جامع اور کامل ہدایت ربانی کا نزول اور انسانوں کو رنگ و خون، زبان اور نسل کے بتوں کی غلامی سے نکال کر رشتۂ اخوت و مودّت و اُلفت میں جوڑ دینا اسلام کے انسانیت پر دو ایسے احسانات ہیں جن کا بڑے سے بڑا بدل اور معاوضہ بھی صحیح معنی میں حق ادا کرنے سے قاصر رہے گا۔ یہ دعوت ذکر سے طرزِعمل اور رویّے میں تبدیلی کا مطالبہ کرتی ہے۔ یہ کسی گوشے میں بیٹھ کر صبح سے رات تک اور رات سے صبح تک محض چند مخصوص اذکار و ادعیہ کی تکرار سے نہیں ہوسکتی۔ بلاشبہہ ذکرِخفی ایک نیکی کا عمل ہے لیکن امربالمعروف اور جہاد کے ذریعے کلمۂ حق بلند کرنے، منکر، طاغوت، ظلم اور فتنہ و فساد کو دُور کرنے کے مقابلے میں ایک کم تر عمل ہے جسے خود قرآن کریم نے سورئہ نسا میں قیامت تک کے لیے اپنے قولِ فیصل سے طے کردیا ہے: لَا یَسْتَوِی الْقٰعِدُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ غَیْرُ اُولِی الضَّرَرِ وَالْمُجٰھِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ بِاَمْوَالِھِمْ وَ اَنْفُسِھِمْ فَضَّلَ اللّٰہُ الْمُجٰھِدِیْنَ بِاَمْوَالِھِمْ وَ اَنْفُسِھِمْ عَلَی الْقٰعِدِیْنَ دَرَجَۃً وَ کُلًّا وَّعَدَ اللّٰہُ الْحُسْنٰی وَفَضَّلَ اللّٰہُ الْمُجٰھِدِیْنَ عَلَی الْقٰعِدِیْنَ اَجْرًا عَظِیْمًاo (النساء ۴:۹۵) ’’مسلمانوں میں سے وہ لوگ جو کسی معذوری کے بغیر گھربیٹھے رہتے ہیں اور وہ جو اللہ کی راہ میں جان و مال سے جہاد کرتے ہیں، دونوں کی حیثیت یکساں نہیں ہے۔ اللہ نے بیٹھنے والوں کی بہ نسبت جان و مال سے جہاد کرنے والوں کا درجہ بڑا رکھا ہے۔ اگرچہ ہر ایک کے لیے اللہ نے بھلائی ہی کا وعدہ فرمایا ہے مگر اس کے ہاں مجاہدوں کی خدمات کا معاوضہ بیٹھنے والوں سے بہت زیادہ ہے‘‘۔
ذکر الٰہی کا افضل ترین طریقہ جہاد فی سبیل اللہ کے ذریعے طاغوت، کفر، ظلم اور باطل کو مٹا کر حق، عدل اور دین کو غالب کرنا ہے۔ قرآن اہلِ ذکر اور اہلِ سیف کو الگ الگ نہیں بلکہ یک جا اور یک جان دیکھنا چاہتا ہے۔ کتابِ ہدایت میں اہلِ دل اور مجاہدین فی سبیل اللہ ایک ہی سکّے کے دو رُخ نظر آتے ہیں۔ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا لَقِیْتُمْ فِئَۃً فَاثْبُتُوْا وَ اذْکُرُوا اللّٰہَ کَثِیْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَo (الانفال ۸: ۴۵) ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جب کسی گروہ سے تمھارا مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو اور اللہ کو کثرت سے یاد کرو، توقع ہے کہ تمھیں کامیابی نصیب ہوگی‘‘۔
ذکر کو قلبی کیفیات سے آگے بڑھاتے ہوئے قرآن کریم اسے رویّے، طرزِعمل اور ان مظاہر سے وابستہ کردیتا ہے جو ذکر کے تکملہ کی حیثیت رکھتے ہیں: اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ وَجِلَتْ قُلُوْبُھُمْ وَ اِذَا تُلِیَتْ عَلَیْھِمْ اٰیٰتُہٗ زَادَتْھُمْ اِیْمَانًا وَّعَلٰی رَبِّھِمْ یَتَوَکَّلُوْنَo الَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَمِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَo اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّا لَھُمْ دَرَجٰتٌ عِنْدَ رَبِّھِمْ وَ مَغْفِرَۃٌ وَّ رِزْقٌ کَرِیْمٌo (الانفال ۸: ۲-۴) ’’سچے اہلِ ایمان تو وہ لوگ ہیں جن کے دل اللہ کا ذکر سن کر لرز جاتے ہیں اور جب اللہ کی آیات ان کے سامنے پڑھی جاتی ہیں تو ان کا ایمان بڑھ جاتا ہے اور وہ اپنے رب پر اعتماد رکھتے ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ ایسے ہی لوگ حقیقی مومن ہیں ان کے لیے ان کے رب کے پاس بڑے درجے ہیں، قصوروں سے درگزر ہے اور بہترین رزق ہے‘‘۔
یہاں قرآن کریم نے ذکریٰ اور ذکر کے قلب پر اثرات کو چار اہم اعمال سے وابستہ کردیا ہے، یعنی اللہ کے کلامِ عزیز کی آیات سن کر دل کا خشیت سے لرز جانا، ایمان کا بڑھ جانا اور نماز اور انفاق کے ذریعے اللہ کے ذکر کا کیا جانا۔ قلبی کیفیت سے عموماً ایک ذاتی روحانی تجربہ مراد لیا جاتا ہے لیکن یہاں قرآن اس تجربے کو ان اعمال سے وابستہ کرتا ہے جن کا ادا کیا جانا قلب کے خشوع اور ایمان کے اضافے کا پتا دیتا ہے۔ یہاں ذکر ایک measureable طرزِعمل اور رویّہ بن کر اُبھرتا ہے اور نماز، خشیت اور مالی ایثار اس کے پیمانے ہیں۔ یہ ایک موہوم اور غلافوں میں چھپے ہوئے احساس یا واردات کا نام نہیں ہے بلکہ طرزِعمل اور رویّے کی اُس تبدیلی کا نام ہے جسے قرآن میں دیگر مقامات پر تقویٰ کا نام دیا گیا ہے۔
اوّلاً: اہلِ ایمان کا ہر حال میں، چاہے وہ اپنے ملک میں ہوں یا غریب الدیار ہوں، زبان سے اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنا، اسے اس کے بہترین ناموں سے یاد کرنا اور ذکریٰ کی تلاوت کے ذریعے ذکرِ باللسان کرنا۔ انسان اپنی زبان میں جو الفاظ چاہے استعمال کرلے لیکن جو عظمت کلامِ الٰہی، یا ذکریٰ کے اپنے الفاظ کے ادا کرنے میں ہے، ہر زبان اس کے آگے عاجز ہے۔
دوسرا پہلو یہ سامنے آتا ہے کہ یہ ذکر لسان سے آگے جاکر حلق میں اٹک کر نہ رہ جائے بلکہ قلب کی ہر دھڑکن میں سما جائے اور دل اللہ کی یاد سے اور اس کے ذکر سے معمور رہے۔
تیسرا اہم پہلو ذکر کا عبادات کی شکل میں ظاہر ہونا ہے یعنی ایمان کی تصدیق عمل کے ذریعے یا ذکر بالعمل۔ چنانچہ صلوٰۃ، زکوٰۃ، قیام اور حج کے علاوہ نوافل و انفاق اوردیگر اعمال کے ذریعے اللہ کا ذکر کرنا۔
اس حوالے سے چوتھا پہلو یہ ہے کہ اللہ کا ذکر جس عمل کے ذریعے سے سب سے زیادہ بلندمرتبہ قرار پایا ہے وہ ذکر بالجہاد ہے۔ اسی لیے فرمایا گیا کہ جب تم کسی گروہ سے مقابلہ کرو تو دورانِ جہاد اللہ کے ذکر کی کثرت کرو۔ یہ کثرت نہ صرف تکبیرات کے ذریعے بلکہ تلوار کے ہروار اور بندوق کی ہر گولی کے ذریعے اللہ کے نام کو بلند کرنے، عدل کے قیام اور ظلم و کفر کو مٹانے کے لیے ہاتھ کی ہرجنبش سے کی جائے گی۔
سورۂ حج میں ارشاد ہوتا ہے: اِنَّ اللّٰہَ یُدٰفِعُ عَنِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ کُلَّ خَوَّانٍ کَفُوْرٍ o اُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّھُمْ ظُلِمُوْا وَ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی نَصْرِھِمْ لَقَدِیْرُنِ o الَّذِیْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِھِمْ بِغَیْرِ حَقٍّ اِلَّآ اَنْ یَّقُوْلُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ وَ لَوْ لَا دَفْعُ اللّٰہِ النَّاسَ بَعْضَھُمْ بِبَعْضٍ لَّھُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَ بِیَعٌ وَّ صَلَوٰتٌ وَّ مَسٰجِدُ یُذْکَرُ فِیْھَا اسْمُ اللّٰہِ کَثِیْرًا وَ لَیَنْصُرَنَّ اللّٰہُ مَنْ یَّنْصُرُہٗ اِنَّ اللّٰہَ لَقَوِیٌّ عَزِیْزٌ o اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّکَّنّٰھُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَوُا الزَّکٰوۃَ وَ اَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَ نَھَوْا عَنِ الْمُنْکَرِ وَ لِلّٰہِ عَاقِبَۃُ الْاُمُوْرِ o (الحج ۲۲:۳۸-۴۱) ’’یقینا اللہ مدافعت کرتا ہے اُن لوگوں کی طرف سے جو ایمان لائے ہیں، یقینا اللہ کسی خائن کافرِ نعمت کو پسند نہیں کرتا۔ اجازت دے دی گئی ان لوگوں کو جن کے خلاف جنگ کی جارہی ہے، کیونکہ وہ مظلوم ہیں، اور اللہ یقینا ان کی مدد پر قادر ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جواپنے گھروں سے ناحق نکال دیے گئے صرف اس قصور پر کہ وہ کہتے تھے ’’ہمارا رب اللہ ہے‘‘۔ اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے دفع نہ کرتا رہے تو خانقاہیں اور گرجا اور معبد اور مسجدیں، جن میں اللہ کا کثرت سے نام لیا جاتا ہے، سب مسمار کر ڈالی جائیں۔ اللہ ضرور اُن لوگوں کی مدد کرے گا جو اس کی مدد کریں گے۔ اللہ بڑا طاقت ور اور زبردست ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنھیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، نیکی کا حکم دیں گے اور بُرائی سے منع کریں گے اور تمام معاملات کاانجامِ کار اللہ کے ہاتھ میں ہے‘‘۔
یہاں اہلِ ایمان کی ایک پہچان یہ بتائی گئی ہے کہ وہ ظلم، کفر اور طاغوت سے خائف ہوکر اپنے آپ کو معاشرے سے کاٹ کر اور خود اپنے خول میں بند ہوکر نہیں بیٹھ جاتے بلکہ اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں۔ نہ صرف یہ کہ وہ اپنے دین و ثقافت کی بقا واشاعت کے لیے صف آرا ہوتے ہیں بلکہ دیگر اقوام کے مراکز عبادات کو بھی تحفظ فراہم کرتے ہیں، اور جب اللہ انھیں زمین میں اقتدارواختیار دیتا ہے تو پھر نظامِ عبادت (صلوٰۃ) اور نظامِ معیشت (زکوٰۃ) کو نافذ کرتے ہیں اور معاشرے سے برائی کو مٹانے اور بھلائی کو پھیلانے میں اپنی قوت و اختیار کا استعمال کرتے ہیں، اور ساتھ ہی اللہ کے راستے کی تلاش کرتے ہوئے اس کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ ایسے ہی لوگوں کے بارے میں قرآن کہتا ہے: اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ تَطْمَئِنُّ قُلُوْبُھُمْ بِذِکْرِ اللّٰہِ اَلَا بِذِکْرِ اللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُo (الرعد۱۳:۲۸)’’ایسے ہی لوگ ہیں وہ جنھوں نے (اس نبی ؐکی دعوت کو) مان لیا ہے اور ان کے دلوں کو اللہ کی یاد سے اطمینان نصیب ہوتا ہے۔ خبردار رہو اللہ کی یاد ہی وہ چیز ہے جس سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوا کرتا ہے‘‘۔ قلب کے اطمینان کے لیے قرآن جو نسخہ تجویز کرتا ہے وہ آسان، عملی اور مؤثر ہے یعنی صبر اور صلاۃ سے استعانت کے ذریعے قلب کا سکون حاصل کرنا۔ قرآن کامیابی اور فلاح کو اُس ذکر سے وابستہ کرتا ہے جو صلاۃ کی شکل میں فحشاء و منکر کے خلاف جہاد اور معروف و عدل کے قیام کے لیے اجتماعیت کے ساتھ صف بندی کرکے اللہ کی حاکمیت اعلیٰ کے اعلان اور دیگر تمام نام نہاد خدائوں کی خدائی کا انکار کرتے ہوئے اختیار کی جائے۔ قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰی o وَذَکَرَ اسْمَ رَبِّہٖ فَصَلّٰیo (الاعلٰی ۸۷: ۱۴-۱۵)’’فلاح پا گیا وہ جس نے پاکیزگی اختیار کی اور اپنے رب کا نام یاد کیا پھر نماز ادا کی‘‘۔
جس طرح اللہ کے ذکر کا صلاۃ کے ساتھ وابستہ اور متعلق ہونا دونوں مصادر شریعہ سے ثابت ہے اسی طرح یہ بات بھی کسی تعارف کی محتاج نہیں کہ قرآن مجید کی تلاوت اور ٹھیرٹھیر کر غوروفکر کے ساتھ اس کا پڑھا جانا ہی نماز کی روح ہے۔ اسی طرح اسلامی فکر، اللہ کے ذکر، ذکر کی عظمت اور ذکریٰ یا وحیِ الٰہی کی ہدایات کو زندگی میں سمونے اور اس کی روشنی میں تہذیبی عمل کو آگے بڑھانے کا نام ہے۔ چنانچہ جو اہلِ دانش اللہ تعالیٰ کی حاکمیت ِاعلیٰ، وحی کے مطابق اور وحی کے علم کے اعلیٰ ترین مصدر ہونے پر غوروفکر کے بعد یکسو ہوجاتے ہیں، ایسے ہی اربابِ بصیرت اور انھی اہلِ دانش کو قرآن کریم اھل الذکر سے تعبیر کرتا ہے۔ وَ مَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِیْٓ اِلَیْھِمْ فَسْئَلُوْٓا اَھْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَo (النحل ۱۶:۴۳)’’اے نبیؐ! ہم نے تم سے پہلے بھی جب کبھی رسول بھیجے ہیں آدمی ہی بھیجے ہیں جن کی طرف ہم اپنے پیغامات وحی کیا کرتے تھے۔ اہلِ ذکر سے پوچھ لو اگر تم لوگ خود نہیں جانتے‘‘۔
سورئہ انبیا (۲۱:۷) میں اسی مضمون کو بیان کرنے کے بعد مزید وضاحت کردی گئی ہے کہ جو انبیا خاتم النبیینؐ سے قبل بھیجے گئے وہ کھانا بھی کھاتے تھے اور حیات و ممات کے لحاظ سے دوسرے انسانوں سے مختلف نہیں تھے۔ لیکن جو چیز انھیں ممتاز کرنے والی تھی وہ اللہ کی طرف سے براہِ راست وحی یا ہدایت کا وصول کرنا تھا، یعنی وہ اپنے ذہن، تجربے یا وارداتِ قلبی کی بنا پر کوئی ہدایت نہیں دیتے تھے بلکہ جو وحی ان پر کی جاتی اسے جو.ُں کا تو.ُں بغیر کسی اضافے یا حذف کے اللہ کے بندوں تک پہنچانے کے ساتھ ساتھ اسے اپنی عملی زندگی میں نافذ کر کے انسانوں کے لیے قابلِ تقلید اسوہ فراہم کرتے تھے۔ اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا جا رہا ہے کہ اگر تم ایسی بدیہی بات کو بھی نہیں جانتے تو جو اس کا علم رکھتے ہیں (اہلِ الذکر) ان سے پوچھ لو وہ اس کی تصدیق کر دیں گے۔
مذاہب ِ عالم میں ’ذکر‘ کی مختلف شکلیں رائج ہیں۔ کہیں یہ اشلوک کی شکل اختیار کرتا ہے اور کہیں صنم کدہ میں مذہبی رقص بن جاتا ہے۔ یہودیت نے سبت کا دن اپنے خدا کی عبادت اور ذکر کے لیے مخصوص کردیا ہے جس میں تورات کا پڑھا جانا خدا کے ذکر کا ذریعہ ہے۔ عیسائیت نے اس ذکر کے لیے اتوار کے دن سازوں کے ساتھ مل کر نغمے گانے کو ذکر کی ایک اعلیٰ شکل تصور کیا ہے، جب کہ ہندوازم میں دنیا کو چھوڑ کر جنگل بیابان میں نفس کُشی اور خدائوں کو مختلف ناموں سے پکارنے، مثلاً اُوم (om) کو ایک خاص انداز سے ادا کرنے کو ذکر تصورکیا ہے۔ ان میں سے اکثر طریقے کسی خاص وقت، کسی خاص مقام اور کسی خاص تہوار یا رسم سے وابستہ ہیں اور اکثر دعائیہ کلمات پر مشتمل ہیں۔ اگر ان تمام مذاہب کا تقابلی مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم میں ذکر ایک جامع اور ہمہ گیر عمل ہے۔ یہ کسی خاص وقت، جگہ یا تہوار سے وابستہ نہیں ہے۔ یہ گفتگو نامکمل رہے گی، اگر اس میں قرآن کریم میں بیان ہونے والے بعض اہم مضامین کا تذکرہ اختصار سے نہ کردیا جائے۔ ان مضامین میں تدبر، تعقُّل، شعور، تزکیہ، تعلیم اور تفقہ زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔ (جاری)