انسان کی تخلیق کے حوالے سے قرآن کریم میں اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے ایک ایسی جامع اصطلاح بیان فرمائی ہے جو انسان کی پوری زندگی میں ہونے والے اعمال اور ان کے انجام کا احاطہ کرلیتی ہے۔فرمایا گیا: یاَیُّھَا الْاِنْسَانُ مَا غَرَّکَ بِرَبِّکَ الْکَرِیْمِ o الَّذِیْ خَلَقَکَ فَسَوّٰکَ فَعَدَلَکَ o فِیْٓ اَیِّ صُورَۃٍ مَّا شَآئَ رَکَّبَکَ o (الانفطار ۸۲:۶-۸) ’’اے انسان کس چیز نے تجھے اپنے اس ربِّ کریم کی طرف سے دھوکے میں ڈال دیا جس نے تجھے پیدا کیا، تجھے نِک سُک سے درست کیا، تجھے متناسب بنایا اور جس صورت میں چاہا تجھ کو جوڑ کر تیار کیا‘‘۔
ان آیاتِ مبارکہ میں جہاںانسان کو یاد دہانی کی جارہی ہے کہ وہ اپنی اصل کو نہ بھولے ، وہاں اسے اللہ تعالیٰ کے اس احسان سے بھی آگاہ کیا جارہا ہے کہ خالق کائنات جو عادل ہے، وہ نہ کسی پر زیادتی کرتا ہے اور نہ کسی معاملے میں بے جا گرفت کرتا ہے۔ انسان کو بناتے وقت نہ صرف ہرلحاظ سے بہترین شکل میں پیدا کیا، بلکہ پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی نوک پلک کا خیال رکھتے ہوئے اسے انتہائی متناسب بنایا، جیساکہ سورۃ التین میں کہا گیا: لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْٓ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ o (التین ۹۵:۴) ’’ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا‘‘۔
جس طرح ایک مصور تصویرکشی سے قبل اپنے ذہن میں ایک نقشہ بناتا ہے اور یہ بھی طے کرتا ہے کہ اس کی تخلیق کا استعمال کیا ہوگا، اسی طرح خالق کائنات نے انسان کو بہترین ساخت اور توازن کے ساتھ پیدا کرنے سے قبل ہی یہ بات فرشتوں کو سمجھا دی تھی کہ اس کا مقصد اور کردار کیا ہوگا، اسے کہاں زندگی بسر کرنی ہوگی، اور کیا اسے بے لگام چھوڑ دیا جائے گا یا جس طرح اس کی تخلیق میں نِک سُک کا خیال رکھا گیا اسی طرح انسان کو ایسی ہدایت سے نوازا جائے گا جو جامع اور کامل ہو، اور اس کی زندگی کے تمام معاملات میں ہدایت فراہم کرے۔ سورۃ الاعلیٰ میں اسی جانب اشارہ فرمایا گیا ہے: الَّذِیْ خَلَقَ فَسَوّٰی o وَالَّذِیْ قَدَّرَ فَہَدٰیo (الاعلٰی ۸۷:۲-۳) ’’جس نے پیدا کیا اور تناسب قائم کیا، جس نے تقدیر بنائی پھر راہ دکھائی‘‘۔
انسان کی یہ بہترین تخلیق جہاں خالق کے خود کمال کے اعلیٰ ترین درجے پر ہونے کی دلیل ہے، وہیں اس بات کی بھی شاہد ہے کہ اگر اس نے، جو عادل ہے اور انسان کو تعدیل کے ساتھ پیدا کیا ہے، تو انسان کا فرض ہے کہ وہ عدل کو اپنا وتیرا بنائے اور عدل و توازن کے قیام کے لیے اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کے خلیفہ کی حیثیت سے اس نظامِ عدل کو قائم کرے، جس کا مکمل نقشہ خالق کائنات نے اپنے کلام اور صاحب ِ کلام کے ذریعے انسانوں تک پہنچا دیا ہے، تاکہ زندگی کے ہر شعبے میں عدل قائم کیا جاسکے کہ کارِنبوت کا اصل ہدف یہی ہے: ’’ہم نے اپنے رسولوں کو صاف صاف نشانیوں اور ہدایات کے ساتھ بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں اور لوہا اُتارا جس میں بڑا زور ہے اور لوگوں کے لیے منافع ہے‘‘۔(الحدید ۵۷:۲۵)
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ’میزان‘ اور ’حدید‘ کی وضاحت ان تاریخی الفاظ میں کرتے ہیں: ’’میزان، یعنی وہ معیار حق و باطل جو ٹھیک ٹھیک ترازو کی طرح تول تول کر یہ بتا دے کہ افکار، اخلاق اور معاملات میں افراط و تفریط کی مختلف انتہائوں کے درمیان انصاف کی بات کیا ہے… انبیاے علیہم السلام کے مشن کو بیان کرنے کے معاً بعد یہ فرمانا[یعنی لوہے کا نازل کیا جانا] خود بخود اس امر کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ یہاں لوہے سے مراد سیاسی اور جنگی طاقت ہے اور کلام کا مدعا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کو قیامِ عدل کی محض ایک اسکیم پیش کردینے کے لیے مبعوث نہیں فرمایا تھا، بلکہ یہ بات بھی ان کے مشن میں شامل تھی کہ اس کو عملاً نافذ کرنے کی کوشش کی جائے اور وہ قوت فراہم کی جائے جس سے فی الواقع عدل قائم ہوسکے، اسے درہم برہم کرنے والوں کو سزا دی جاسکے اور اس کی مزاحمت کرنے والوں کا زور توڑا جاسکے‘‘۔ (تفہیم القرآن، پنجم، ص ۳۲۲)
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت اوراس سے قبل حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ دعا کہ رَّبِّ اَدْخِلْنِیْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَّ اَخْرِجْنِیْ مُخْرَجَ صِدْقٍ وَّ اجْعَلْ لِّیْ مِنْ لَّدُنْکَ سُلْطٰنًا نَّصِیْرًاo (بنی اسرائیل ۱۷:۸۰) ’’پروردگار، مجھ کو جہاں بھی تو لے جا سچائی کے ساتھ لے جا اور جہاں سے بھی نکال سچائی کے ساتھ نکال اور اپنی طرف سے ایک اقتدار کو میرا مددگار بنادے‘‘، اور پھر یہ بشارت کہ جَآئَ الْحَقُّ وَ زَھَقَ الْبَاطِلُ ط اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقًاo (بنی اسرائیل ۱۷:۸۱) ’’حق آگیا اور باطل مٹ گیا، باطل تو مٹنے ہی والا ہے‘‘، اس بات کا ثبوت ہے کہ عدل اور اس کا قیام ہی وہ محور ہے جس کے گرد زندگی کا پورا نظام گردش کرتا ہے اور کائنات کی تخلیق کا مرکزی نکتہ بھی میزان ہی کا قیام ہے۔
یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے انسان کو معتدل و متناسب بناکر جو مقصد اور مشن اس کے سپرد کیا وہ بھی اس ترکیب تخلیق سے گہری مناسبت رکھتا ہے، یعنی ایک ایسا متوازن، معتدل اور متناسب نظام کا قیام جس میں ظلم و استحصال،اللہ سے بغاوت، اخلاقی اصولوں کی خلاف ورزی، انسانی حقوق کی پامالی نہ پائی جاتی ہو، اور فرد، معاشرہ، معیشت، سیاست، ثقافت، قانون، تعلیم، غرض ہر شعبۂ حیات میں مکمل عدل پایا جائے۔ نظامِ عدل کے قیام کے لیے قرآن و سنت نے جو اصول، لوازمات اور لائحہ عمل بتایا ہے اسے جب اور جہاں کہیں اختیار کیا جائے گا معاشرے میں عدل و انصاف کے قیام کے راستے کشادہ ہوجائیں گے اور جب اور جہاں کہیں بھی ان اصولوں سے انحراف کیا جائے گا متضاد نتائج سامنے آئیں گے۔
قرآن کریم عدل کی جامع اور مثبت اصطلاح کو ظلم، فساد، عدوان اور طاغوت کی اصطلاحات کی مخالف اصطلاح کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ جو لوگ زمین میں فساد اور ظلم پھیلاتے ہیں اللہ تعالیٰ انھیں اپنے عادل، مطیع اور متقی بندوں کے ذریعے تبدیل کرتا ہے تاکہ زمین میں قیامِ عدل ہو اور انسان افراط و تفریط کی جگہ متوازن طرزِ حیات اختیار کرسکیں۔ فرمایا گیا: وَ لَوْلَا دَفْعُ اللّٰہِ النَّاسَ بَعْضَھُمْ بِبَعْضٍ لَّفَسَدَتِ الْاَرْضُ (البقرہ۲:۲۵۱) ’’اگر اس طرح اللہ انسانوں کے ایک گروہ کو دوسرے گروہ کے ذریعے سے ہٹاتا نہ رہتا تو زمین کا نظام بگڑ جاتا‘‘۔
عدل کے قیام اور عدل اختیار کرنے کا مفہوم عموماً یہ لیا جاتا ہے کہ دو افراد کے درمیان غیرجانب داری کے ساتھ کسی تنازعے کا فیصلہ کردیا جائے۔ قرآن کریم نے اس طرف واضح اشارہ کیا ہے: اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓی اَھْلِھَا وَ اِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْا بِالْعَدْلِ ط (النساء ۴:۵۸) ’’مسلمانو، اللہ تمھیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہلِ امانت کے سپرد کرو، اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو‘‘۔ اسی طرح گواہوں کے حوالے سے بھی عدل کا ذکر قرآن کریم نے کیا ہے کہ عادل افراد کو گواہ بنایا جائے: فَاِِذَا بَلَغْنَ اَجَلَہُنَّ فَاَمْسِکُوْہُنَّ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ فَارِقُوْہُنَّ بِمَعْرُوْفٍ وَّاَشْہِدُوْا ذَوَی عَدْلٍ مِّنْکُمْ (الطلاق ۶۵:۲) ’’پھر جب وہ اپنی (عدت کی) مدت کے خاتمے پر پہنچیں تو یا انھیں بھلے طریقے سے (اپنے نکاح میں) روک رکھو، یا بھلے طریقے سے اُن سے جدا ہوجائو اور دو ایسے آدمیوں کو گواہ بنا لو جو تم میں سے صاحب ِ عدل ہوں‘‘۔
اگر غور کیا جائے تو نظام عدالت ہو، عدالت میں گواہی ہو، یا خاندانی معاملات میں کسی دو افراد کا گواہ بنانا ہو، ان سب کا قریبی تعلق اُس مجموعی نظام کے ساتھ ہے جس کا قیام اور جس کے لیے جدوجہد کو انسان کا مقصد تخلیق قرار دیا گیا ہے، یعنی زمین پر اللہ کے حکم کا نفاذ اور زندگی کے تمام معاملات میں خالق کائنات کی رضا کو اختیار کرتے ہوئے اصلاحِ احوال، تزکیۂ مال، تزکیۂ وقت، تزکیۂ صلاحیت کرتے ہوئے خلافتِ الٰہیہ کا قیام۔
قرآن کریم نے زمین پر خلافتِ الٰہیہ کے قیام کو ان افراد سے وابستہ و مشروط کردیا ہے جو خود جادۂ عدل و توازن پر قائم ہوں۔ اسی بنا پر تخلیقِ انسان کے حوالے سے قرآن ہمیں یہ بتاتا ہے کہ انسان کو بنانے کے بعد اور صحیح شکل و صورت دینے کے بعد اسے ہرلحاظ سے متوازن و معتدل بنایا گیا ہے۔ اس میں ایک لطیف اشارہ اس جانب پایا جاتا ہے کہ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے اپنی عظیم صفت عدل کے تناظر میں انسان کو اپنا خلیفہ بنانے کے لیے اس توازن و عدل پر تخلیق فرمایا جو اس ذمہ داری کے ادا کرنے کے لیے لازمی شرط کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسی تناظر میں قرآن کریم نے اُمت مسلمہ اور اُمت مسلمہ میں ایک ایسے گروہ اور جماعت کی ضرورت پر زور دیا ہے جو نقطۂ اعتدال و توازن یا وسط کو اختیار کرلے اور یہی اس کی پہچان بنے۔ وہ غلو، شدت پسندی، اور انتہا کے رویے کے مقابلے میں توازن، عدل اور میانہ روی کو اختیار کرنے والی اُمت ہو: ’’اور اسی طرح تو ہم نے تم مسلمانوں کو ایک ’اُمت وسط‘ بنایا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور رسولؐ تم پر گواہ ہو‘‘۔(البقرہ ۲:۱۴۳)
اسلامی عدل اجتماعی کی بنیاد کسی قیاسی سوشل کنٹریکٹ پر نہیں ہے جس کی تعبیر ہر دور میں صاحب ِ اختیار افراد اپنے مفاد کے پیش نظرکرتے رہیں۔ اسلامی اخلاق و قانون کا ماخذ کسی فرد یا کسی گروہ کی اپنی پسند یا ناپسند نہیں، بلکہ خالق انسان کی جانب سے نازل کردہ وہ قوانین و اصول ہیں جو انسانوں کو دہرے اخلاقی معیار سے نجات دلاکر زندگی کے تمام معاملات کو توحیدی نقطۂ نظر سے دیکھ کر ایک وحدانیت میں لے آتے ہیں۔ جس انسانی معاشرے میں دہرے اخلاقی معیار پائے جاتے ہوں وہ عدلِ اجتماعی سے محروم رہتا ہے۔
آزادی کے مفہوم میں یہ بات بھی شامل ہے کہ ایک شخص کو شعور کی آزادی اور فیصلے کی آزادی حاصل ہو۔ اس پر ایسے تصورات اور ایسی ثقافت کو زبردستی مسلط نہ کردیا جائے جو اس کے بنیادی عقائد و تصورات سے ٹکراتی ہو۔ چنانچہ آج عالم گیریت کے سہارے یک قطبی سامراجیت اپنی ثقافت کو جس طرح دنیا بھر کی اقوام پرتعلیم، معاشی حکمت عملی، سیاسی دبائو کے ذریعے مسلط کرنے میں مصروفِ عمل ہے، یہ جارحیت کی ایک واضح شکل ہے۔ یہ آزادیِ راے کو معطل یا مقید کردینا ہے۔ یہ انسانوں کے ذہنوں کو ابلاغِ عامہ کے ذریعے اپنا محکوم بنا کر غیرمؤثر کردینا ہے۔ اسلامی عدلِ اجتماعی ہرفرد کو آزادیِ راے، آزادیِ اجتماع اور آزادیِ عمل دے کر شعور وآگہی اور معروف و منکر کی آفاقی بنیادوں کی روشنی میں کسی عمل کو اختیار کرنے یا رد کرنے کا پورا حق دیتا ہے۔ اس کے بالمقابل آمریت ہو یا بادشاہت، سرمایہ دارانہ نظام ہو یااشتراکیت زدہ نظام، اپنی معاشی اور سیاسی گرفت (grip) کی بنا پر عملاً انسانوںسے ان کی قوتِ فیصلہ چھین لیتا ہے اور انھیں اپنی سامراجیت کا غلام بنا لیتا ہے۔ اسلامی نظامِ عدل اس استحصال سے نجات کا نام ہے۔
کسی بھی انسانی معاشرے میں حادثات کے نتیجے میں کل تک جو صاحب ِ وسائل تھا وہ مفلوک الحال بن سکتا ہے۔ معاشی میدان میں قیمتی تجارتی سامان لے کر ایک بحری جہاز روانہ ہوتا ہے اورمنزل پر پہنچنے سے قبل غرق ہوکر تمام اثاثوں کی تباہی کا سبب بن جاتا ہے۔ ایسے مواقع زندگی میں کسی بھی وقت پیش آسکتے ہیں۔ اس لیے اسلامی عدلِ اجتماعی میں تکافل اجتماعی کا تصور اسلامی معاشرے کے قیام کے ساتھ ہی وجود میں آگیاتھا، اور ایسے مواقع پر انسانی ہمدردی اور تعاون کی بنیاد پر تکافلِ اجتماعی کا ادارہ جس میں معاشرے کے افراد اپنا حصہ ڈالتے ہیں، اس نقصان کو پورا کرتا ہے۔
اللہ کی زمین پر اس کا حکم اور نظام قائم کرنے کے لیے اہلِ ایمان میں ایک ایسی منظم جماعت ضروری ہے جو منزل اور مقصد کا واضح شعور رکھتی ہو اور جس کا ہدف صرف اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ہدایات کا نافذ کرنا ہو: ’’تم میں کچھ لوگ تو ایسے ضرور ہی ہونے چاہییں جو نیکی کی طرف بلائیں، بھلائی کا حکم دیں اور برائیوں سے روکتے رہیں۔ جو لوگ یہ کام کریں گے وہی فلاح پائیں گے‘‘ (اٰل عمرٰن۳:۱۰۴)۔ گویا نظامِ عدل اپنے آپ نافذ نہیں ہوجائے گا بلکہ اس کے لیے مسلسل جدوجہد، ایثاروقربانی اور جوش اور ولولہ کے ساتھ کوشش کرنی ہوگی۔ یہی وہ جماعت ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یوں کہا گیا ہے: وَ کَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُھَدَآئَ عَلَی النَّاسِ وَ یَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَھِیْدًا (البقرہ ۲:۱۴۳)’’اور اسی طرح تو ہم نے تم مسلمانوں کو ایک اُمت وسط بنایا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور رسول تم پر گواہ ہو‘‘۔
انسان پر شہادت کا یہ فریضہ مطالبہ کرتا ہے کہ اس صالح جماعت سے وابستہ ہر فرد اپنے نفس کا جائزہ لیتے ہوئے برابر احتساب کرتا رہے کہ اس کا طرزِعمل کہاں تک عدل سے مناسبت رکھتا ہے۔ کیا وہ اپنے نفس کو پال کر فربہ کر رہا ہے، یا نفس کشی کے ذریعے اپنے اُوپر ان سہولتوں کو حرام کررہا ہے جو اس کے رب نے اسے بطور انعام و فضل دی ہیں؟ کیا وہ اپنی غذا میں، اپنے لباس میں، اپنے رہن سہن میں، اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ تعلق و حقوق کی ادایگی میں یا اپنے ہمسایے کے حقوق کے حوالے سے عدل و توازن اور وسط کا رویہ اختیار کیے ہوئے ہے، یا اس کے اہلِ خانہ والدین، بیوی، بچے اس کی عدم توجہ کا شکار ہیں؟ جس دعوت کو لے کر وہ دنیا کو بدلنے کے لیے نکلا ہے اس دعوت کا کتنا حصہ خود اس کے اپنے گھر میں رائج ہوسکا ہے؟ جس نظامِ عدل کے قیام کے لیے اُس نے اپنی زندگی کا سودا اپنے رب سے کیا ہے، اُس عدل کا عکس اس کے اپنے معاملات اور کاروبار میں کتنا نظر آتا ہے؟ ایک جانب وہ دنیا سے استحصال، زیادتی اور باطل کو ختم کرنے کے لیے نکلا ہے، تو کیا دوسری جانب اپنے کاروبار میں بھی اُس نے عدل کے اس پہلو کو نافذ کیا ہے؟ کیا وہ خود اپنے ملازمین کے ساتھ عدل کررہا ہے؟ کیا وہ کارخانہ جو وہ بطور کاروبارچلا رہا ہے اس میں تمام معاملات میں توازن اور تناسب پایا جاتا ہے، یا وہ بھی اُس ردعمل کا شکار ہے جو آج مسلم معاشروں کی ایک بنیادی بیماری ہے؟ کیا سورۂ صف کی وہ آیت اس کے ذہن میں تازہ رہتی ہے کہ ’’تم وہ کہتے کیوں ہو جو کرتے نہیں، اللہ کے نزدیک یہ سخت ناپسندیدہ حرکت ہے کہ تم وہ کہو جو کرتے نہیں ‘‘ (الصف ۶۱: ۲-۴)۔ کیا اس کے کاروبار میں وہ شفافیت ہے جو وہ نظامِ عدل قائم ہونے کے بعد دیکھنا چاہتا ہے؟ کیا وہ اپنے عہد، اپنے وعدے جو وہ گاہکوں سے کرتا ہے پورے کر رہا ہے اور اشیا کا وہ معیار (quality) جس کی قیمت وہ لے رہا ہے گاہک کو مل رہی ہے؟ گویا عدل جب تک ایک کارکن کے گھر اور اس کے کاروبار میں داخل نہیں ہوگا اور قابلِ محسوس طور پر اس کا نفاذ نہیں ہوگا، اس وقت تک انسان کے مقصد اور خلافتِ الٰہیہ کے قیام کے مطالبات شرمندۂ تعبیر ہی رہیں گے۔
اس سے ایک قدم آگے چل کر دیکھا جائے تو یہ عدل اس بات کا مطالبہ کرتا ہے کہ معاشرے میں جہاں کہیں بھی ظلم و استحصال، زیادتی اور حقوق کی پامالی پائی جاتی ہے وہ اس کو دُور کرنے کے لیے عادلانہ رویے کے ساتھ کہاں تک اپنے ہاتھ، اپنی زبان اور اپنے دل کا وہ استعمال کررہا ہے جس کی طرف خاتم النبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ فرمایا ہے۔ یاد رکھنا چاہیے کہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامِ حق کے لیے جو ترجیح متعین فرما دی ہے وہ قیامت تک کے لیے ویسی ہی رہے گی، یعنی ہاتھ سے برائی کو مٹانے کے لیے ممکنہ وسائل کا استعمال ہمیشہ اوّلیت پر رہے گا۔ جو شخص جتنے وسائل رکھتا ہے اس کی جواب دہی اسی کے مطابق ہے۔ اس لیے اگر اس کے ہاتھ کا اختیار صرف اس کے دفتر تک ہے، گھر تک ہے، فیکٹری تک ہے اور وہ اس اختیار کا استعمال نہیں کرتا تو جادۂ عدل کے منافی کام کر رہا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ نے صلاحیت دی ہے کہ وہ باطل کو مٹانے کے لیے قلم کا استعمال کرے اور وہ ایسا نہیں کر رہا تو یہ عدل کے منافی ہے۔ اگر کسی کو اللہ نے یہ صلاحیت دی ہے کہ وہ اپنے قول سے حق کی دعوت پہنچا سکتا ہے اور برائی کو مٹانے کے لیے سچائی کا استعمال کرسکتا ہے اور وہ ایسا نہ کرے تو وہ ظلم کا مرتکب ہو رہا ہے۔ جہاں تک دل میں برائی کو بُرا سمجھنا ہے تو، وہ تو اضعف الایمان ہے اور نظامِ عدل قائم کرنے کی جدوجہد میں سرگرم کارکن سے یہ توقع نہیں کی جاتی کہ وہ اضعف الایمان پر کسی صورت میں مطمئن ہوجائے۔
گویا نظامِ عدل کے قیام کے لیے ایک ایسی اُمت وسط کی ضرورت ہے جس کا قول و فعل یکساں ہو اور جس نے اپنی ذات اور اپنے خاندان اور کاروبار میں عدل کو عملاً نافذ کر دیا ہو، یا نافذ کرنے کی کوشش میں لگی ہوئی ہو۔ شیطان، جو قرآن کے مطابق انسان کا کھلا دشمن ہے، دن کے ۲۴گھنٹوں میں کسی ایک لمحے کے لیے بھی اپنے مشن اور مقصد سے غافل نہیں ہوتا اور طاغوت، ظلم، فساد اور برائی کے لیے ہمہ وقت کارکن کے طور پر مصروف رہتا ہے، اسے بے شمار مواقع پر ناکامی کا سامنا ہوتا ہے اور اس کی کوششیں بارآور نہیں ہوتیں لیکن وہ کبھی مایوس نہیں ہوتا ___ کیا وہ نظامِ عدل قائم کرنے والوں کے دلوں میں بار بار یہ سوال اُبھارتا ہے کہ برسوں کی کوشش کے باوجود آخر نظامِ عدل قائم کیوں نہیں ہو پایا؟ بات بہت آسان ہے۔ اگر جائزہ لے کر دیکھا جائے تو جب تک اس نظام کے لیے صحیح افرادی قوت، صحیح وسائل اور صحیح فضا پیدا نہ ہوجائے نتائج کے بارے میں غور کرنا بہت قبل از وقت ہوگا۔ پھر کیا قرآن کریم ہمیں یہ نہیں سمجھاتا کہ بعض اوقات پورے خلوص، ہمت، توجہ، قربانی اور ہمہ وقت کام کرتے رہنے کے باوجود مشیت الٰہی اپنی کسی حکمت کی بنا پر نتائج کو مؤخر کردیتی ہے، اور رب کریم اپنے بندوں پر فضل و کرم کی بنا پر اس جہادِ خیر میں کچھ اور دیر مصروف رکھ کر اس تاخیر کو ان کے اجر اور درجات میں اضافے کا ایک سبب بنا دیتا ہے۔ اس جملۂ معترضہ سے قطع نظر جو بنیادی سوال ہمارے لیے اہمیت رکھتا ہے وہ یہ ہے کہ کیا انفرادی اور خاندانی سطح پر اپنے حقوق و فرائض ادا کرنے کے ساتھ ہماری کوششوں سے معاشرے سے برائی، ظلم و استحصال کو ختم کرنے اور نیکی، بھلائی، عدل اور حق کو قائم کرنے کی جدوجہد آگے بڑھی ہے؟ کیا لوگوں میں اس کا احساس پیدا ہوا ہے؟ کیا معاشرے میں کوئی حرکت اور آگہی نظر آرہی ہے یا ہماری ساری جدوجہد محض اپنے خاندان اور کاروبار تک ہی اثرات پیدا کر رہی ہے؟
عقل مطالبہ کرتی ہے کہ اگر بھلائی کے پودے کا بیج گھر میں لگا ہے یا کاروبار میں، تو یہ شجرطیبہ محض اُس مقام پر فائدہ نہیں پہنچائے گا جہاں اسے بویا گیا ہے۔ قرآن کریم اِس بلیغ مثال کے ذریعے نظامِ عدل کے لیے جدوجہد کرنے والوں کی مساعی اور قربانیوں کو اُس بیج سے تعبیر کرتا ہے جو کلمۂ طیبہ اور اسلام کے نظامِ عدل کی جڑ اور بنیاد ہے۔ ایک مرتبہ جب یہ پودا اپنا اکھوا نکالتا ہے تو پھر تندوتیز ہوائیں اس کا راستہ نہیں روک سکتیں اور نہ تمازتِ موسم۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ اپنے تنے کو مضبوط کرتا ہے، اس پر کھڑا ہوتا ہے، اس کی شاخیں فضائوں میں پھیل کر ہر راہ گزر کو سایہ اور اس کے پھل ہر مسافر کو غذا فراہم کرتے ہیں۔ یہ کڑوے کسیلے شجرخبیثہ کی طرح نہیں ہوتا کہ نہ سایہ، نہ ذائقہ، نہ فائدہ۔
اس پس منظر میں اگر غور کیا جائے تو پاکستان ہو یا عالمِ اسلام کا کوئی ملک، حتیٰ کہ نظامِ کفر پر چلنے والا کوئی بھی ملک، جب اس کے معاشرے سے عدل اُٹھ جاتا ہے تو پھر کوئی قوت اس کا دفاع اور تحفظ نہیں کرسکتی۔جو قوم معاشی معاملات میں عدل سے ہٹ جائے اور اس کے لینے کے پیمانے کچھ اور ہوں اور دینے کے کچھ دوسرے ہوجائیں، یا پھر وہ اللہ تعالیٰ کے انعامات کو بھول کر اس کی بندگی کی جگہ مالی منفعت کو اپنا خدا بنا لے تو پھر وہ اللہ کے عذاب کی مستحق ہوجاتی ہے۔ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ سزا دینے میں تاخیر کرتا ہے تو صرف اس بنا پر کہ وہ ارحم الراحمین ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ مجرموں کو ڈھیل دے کر انھیں سنبھلنے اور اپنی اصلاح کرنے کا زیادہ سے زیادہ موقع دے، اور جو لوگ نظامِ عدل قائم کرنے نکلے ہیں انھیں بھی موقع دے کہ وہ گمراہوں کو راہِ راست پر لانے میں کوئی کسر نہ اُٹھا رکھیں۔
نظامِ عدل کے علَم برداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ جہاں کہیں وسائل کے استعمال سے معاشی سرطان کی اصلاح کرسکتے ہوں اور جہاں زبان و قلم سے آواز اُٹھا سکتے ہوں، وہاں اس میںکسر نہ اُٹھا رکھیں تاکہ اتمام حجت ہوسکے اور اگر اللہ کی مشیت شاملِ حال ہو تو مفسدین کو ہدایت مل جائے اور عذاب سے بچائو بھی ہوجائے۔ کیونکہ جب عذاب آتا ہے تو پھر بستی کے سب لوگ اس کا نشانہ بنتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ بستیوں کے باغیوں کو تنگی کے بعد خوش حالی دے کر اصلاح کا موقع دیتے ہیں۔ لیکن اگر نہ تنگی میں نہ خوش حالی میں وہ جاگتے نہیں اور دعوتِ اصلاح کو رد کرتے رہتے ہیں تو پھر اچانک انھیں عذاب آپکڑتا ہے: فَاَخَذَتْھُمُ الرَّجْفَۃُ فَاَصْبَحُوْا فِیْ دَارِھِمْ جٰثِمِیْنَo (اعراف ۷:۹۱) ’’مگر ہوا یہ کہ ایک دہلا دینے والی آفت نے ان کو آلیا اور وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے کے پڑے رہ گئے‘‘۔
معاشی عدل کے ساتھ سیاسی عدل بھی یکساں اہمیت کا حامل ہے۔ اگر اقتدار کی باگ ڈور ایسے افراد کے ہاتھ میں ہو جو نہ وعدوں کے سچے ہوں، نہ ذمہ داری کے امین اور مستحق ہوں، جو قومی دولت کو اپنی خاندانی جاگیر اور ذاتی ملکیت تصور کرتے ہوں، جو لسانی، نسلی، علاقائی عصبیت میں سرتاپا ڈوبے ہوئے ہوں، جن کا عمل اور قول متضاد ہو اور جو اللہ کی حدود کو پامال کرنے میں پیش پیش ہوں، جو اللہ تعالیٰ کی مقرر کی ہوئی قرآنی سزائوں کو پارلیمنٹ میں اپنی اکثریت کے بل بوتے پر بدلنے پر فخر محسوس کرتے ہوں، جن کے بارے میں قرآن کریم صاف کہتا ہے کہ: ’’جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی کافر ہیں… وہی ظالم ہیں… وہی فاسق ہیں‘‘ (المائدہ ۵:۴۴-۴۷)۔ ایسے افراد اور ایسے نظام سے نجات حاصل کرنے اور اسلام کے عدلِ اجتماعی کے قیام کے لیے جدوجہد کرنا وہ دینی فریضہ ہے جس سے کسی بھی صاحب ِ ایمان کو بری نہیں کیا گیا۔
اہلِ ایمان کی ایک اہم خصوصیت ظلم کے نظام کی جگہ نظامِ عدل کے قیام کی جدوجہد ہے:
وَ اذْکُرُوْا نِعْمَۃَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ وَ مِیْثَاقَہُ الَّذِیْ وَاثَقَکُمْ بِہٖٓ اِذْ قُلْتُمْ سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا وَ اتَّقُوا اللّٰہَ ط اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌم بِذَاتِ الصُّدُوْرِ oیٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ لِلّٰہِ شُھَدَآئَ بِالْقِسْطِ وَلَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلَّا تَعْدِلُوْا ط اِعْدِلُوْا ھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی وَاتَّقُوْا اللّٰہَ ط اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌم بِمَا تَعْمَلُوْنَ o (المائدہ ۵:۷-۸) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو۔ کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کردے کہ انصاف سے پھر جائو۔ عدل کرو یہ خداترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔ اللہ سے ڈر کر کام کرتے رہو جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے۔
یہاں اہلِ ایمان کو متوجہ کرتے ہوئے پہلی بات یہ سمجھائی جارہی ہے کہ قیامِ نظامِ عدل کی جدوجہد کرتے ہوئے اولین چیز جو انھیں شعوری طور پر اختیار کرنی ہوگی وہ صرف اللہ کے لیے راہِ راست، صراطِ مستقیم اور سواء السبیل پر قائم ہونا ہے۔ اپنا رُخ مشرق و مغرب سے موڑ کر صرف اللہ کی رضا کو متاعِ عزیز بنانا ہے۔ یہ کام نہ تمغۂ کارکردگی کے لیے ہے، نہ کسی مجلس میں مقامِ تقرب کے لیے، نہ کسی جماعت میں مقامِ قیادت تک پہنچنے کے لیے ہے بلکہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے لیے اخلاصِ نیت کے ساتھ ہے۔ یہی مومن کے ہرعمل کی پہچان ہے۔
دوسری بات یہ سمجھائی جارہی ہے کہ ہمیشہ انصاف کی گواہی دی جائے، یعنی ایک تو گواہی دینے میں عدل برتا جائے اور دوسرے یہ کہ عدل و انصاف کی سربلندی کی جدوجہد میں شامل ہوکر عدل کے قیام کو روشن اور قریب تر بنایا جائے۔ اس عمل میں انتہاپسندی کی جگہ توازن، وسط اور قسط کو اختیار کیا جائے۔ ہرقسم کے غلو اور شدتِ پسندی سے چاہے وہ اپنی راے پر بے جا اصرار ہو یا ہرمعاملے میں انتہائی رویہ اختیار کرنا ہو، ہر دو سے اپنے آپ کو نکال کر توازن و اعتدال کو اختیار کیا جائے۔ اس روش کو تقویٰ سے قریب بیان کرنے کا مفہوم یہ ہے کہ تقویٰ خود ایک متوازن طرزِعمل کا نام ہے۔ تقویٰ انتہاپسندی کا نام نہیں ہے، حتیٰ کہ عبادات میں بھی تقویٰ کا مطلب وہ توازن ہے جس کی مثال خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ سے ملتی ہے۔
جلیل القدر صحابی حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاصؓ اپنے ذوقِ عبادت میں رات بھر نوافل اور دن بھر روزے سے رہتے تھے۔ ان کے والد حضرت عمرو بن عاصؓ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے بیٹے کی انتہاپسندی کی شکایت کی تو حضور نبی کریمؐ نے انھیں طلب کیا اور دریافت فرمایا: کیا تم نے دن میں روزہ اور رات بھر نماز پڑھنے کو اپنا معمول بنا رکھا ہے؟ انھوں نے کہا: جی ہاں، یارسولؐ اللہ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ طریقہ چھوڑ دو، روزے بھی رکھو اور ناغہ بھی کیا کرو۔ رات کو نماز بھی پڑھا کرو اور سویا بھی کرو، کیونکہ تمھارے جسم کا بھی تم پر حق ہے، تمھاری آنکھ کابھی تم پر حق ہے، تمھاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے، اور تمھارے مہمانوں، ملاقاتیوں کا بھی تم پر حق ہے۔ جو ہمیشہ بلاناغہ روزہ رکھے گا اس نے گویا روزہ رکھا ہی نہیں۔ ہر مہینے میں تین دن نفلی روزے رکھ لینا (رمضان کے فرض روزوں کے علاوہ)، ہمیشہ روزہ رکھنے کے حکم میں ہے۔ اس لیے تم ہر مہینے بس تین روزے رکھ لیا کرو اور مہینے میں ایک قرآن (تہجد میں) ختم کرلیاکرو۔
حضرت عبداللہؓ نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! میں اس سے زیادہ طاقت رکھتا ہوں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو پھر تم دائود علیہ السلام کی طرح ایک دن روزہ رکھو ، ایک دن افطار کرو اور اس کے علاوہ تہجد میں سات دنوں میں ایک مرتبہ قرآن ختم کرلیا کرو۔ (بخاری، مسلم، مسنداحمد)
گویا قرآن کریم سے محبت اور تعلق کی نوعیت کیا ہو، خود اپنے نفس کے حقوق نیند، آرام، خاندانی تعلق اور دیگر معاشی اور معاشرتی ذمہ داریوں کے ساتھ روزہ کا اہتمام کرنا ہو تو اس میں بھی توازن و اعتدال ہو۔ یہی صورت حال ہمیں اس حدیث مبارکہ میں ملتی ہے جس میں رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعض اصحاب کے بارے میں یہ اطلاع ملنے پر کہ کوئی تمام رات نوافل کا اہتمام کرنا چاہتا ہے اور کسی نے مسلسل روزے کا عہد کیا ہے اور کسی نے نکاح نہ کرنے کی قسم کھائی ہے، ان تینوں اصحاب کو طلب فرما کر یہ ارشاد فرمایا تھا کہ آپؐ ان سے زیادہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا تقویٰ اور خشیہ کرتے ہیں اور رات کے کچھ حصے میں عبادت اور کچھ میں آرام فرماتے ہیں۔ کبھی روزہ رکھتے ہیں، کبھی ناغہ کرتے ہیں اور نکاح آپؐ کی سنت ہے۔ یہاں بھی مقصود توازن و اعتدال کی تعلیم ہی تھی۔
بلاشبہہ انفرادی سطح پر عدل کا اختیار کرنا اسلام کے اوّلین مطالبات میں سے ایک اہم تعلیم ہے۔ قرآن و سنت جتنی شدت سے عدل کا رویہ اختیار کرنے کی تلقین کرتے ہی اسی شدت کے ساتھ عدل اجتماعی کے قیام کو اُمت مسلمہ کا مقصد اور ہدف قرار دیتے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو اسلام اور دیگر مذاہب اور نظاموں میں بنیادی فرق اسلام کا تصورِ اجتماعیت ہی ہے۔ دیگر مذاہب فرد کی نجات، فرد کی روحانیت اور فرد کے تزکیے پر زور دیتے ہیں، جب کہ اسلام عبادات کا معاملہ ہو یا معاشی اور معاشرتی مسائل، ہرشعبۂ حیات میں عدل اجتماعی کو اہمیت دیتا ہے۔ چنانچہ مصالح عامہ اور فلاحِ انسانیت کے پیش نظر قوانین کو مدون کرتا ہے۔
اسلام کے اتنے جامع عدلِ اجتماعی کی موجودگی میں کیا وجہ ہے کہ اُمت مسلمہ میں معاشی بدحالی، تعلیمی زبوں حالی اور فکری و عملی انتشار اور سیاسی عدم استحکام پایا جاتاہے؟ عالمِ اسلام کس طرح اپنی اصلاح کرسکتاہے، اور کیا اسلامی عدلِ اجتماعی ایک عالمی نظامِ عدل کے قیام کی بنیاد فراہم کرسکتا ہے؟
بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ دنیا پندرہ سو سال کی گردش کے بعد تاریخ کے جس موڑ پر پہنچ گئی ہے اس میں ساتویںصدی عیسوی میں پائے جانے والے رجحانات اور معاشی، معاشرتی اور اخلاقی زبوں حالی سے گہری مماثلت پائی جاتی ہے۔ اگر وہ قدیم جاہلیت تھی تو آج جدید جاہلیت ہے۔ اگر اس وقت انسان اپنی قبائلی عصبیت، نام و نسب پر فخر اور ذاتی مفاد کے لیے ہرکام کرنے پر تیار تھا، تو آج کا انسان بھی اپنے ذاتی مفاد کا بندہ اور خودساختہ عصبیتوں کا پرستار نظر آتا ہے۔ فوری فائدے کے حصول کے لیے وہ عظیم تر مفاد کو قربان کر دینے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کرتا۔ بے روزگاری، آمریت، معاشی اور سیاسی استحصال نے انسان کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ وہ گوناگوں مسائل و مشکلات میں اس حد تک گھرگیا ہے کہ اسے منزل کا شعور بھی نہیں رہا۔ اس کسمپرسی میں وہ اپنے مسائل کا حل دوسروں کے تجویز کردہ نسخوں میں تلاش کررہا ہے، جب کہ خود اس کے پاس ایسا نسخۂ کیمیا موجود ہے جو اُس کے تمام امراض کا تشفی بخش علاج کرسکتا ہے۔ اس بے خبری کی کیفیت میں اغیار کی بظاہر معاشی ترقی اور سیاسی تسلط نے اسے یہ بات باور کرا دی ہے کہ ترقی کا آسان نسخہ اغیار کی نقالی ہی میں ہے۔ لیکن کیا واقعی نقالی اُمت مسلمہ کو اس کے معاشی، سیاسی، فکری اور اخلاقی بحران سے نکال سکتی ہے؟ کیا مانگے کا اُجالا اس کے دل کے ویرانوں کو منور کرسکتا ہے، اور کیا اس مانگے کے اُجالے کے ذریعے اُمت مسلمہ اپنے آزاد وجود کو تسلیم کروا سکتی ہے؟ یہ بنیادی اور اہم سوالات اپنی عملی اہمیت کی بنا پر نظرانداز نہیں کیے جاسکتے۔
قیام نظامِ عدل کی ایک ایسی تحریک جسے آج سے پندرہ سو سال قبل خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے برپا کیا تھا، آج وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے۔ جس طرح اس تحریک کے قیام کے وقت آپؐ کے سامنے ہدف اور مقصد واضح تھا، اسی طرح آج بھی اس بات کی ضرورت ہے کہ جائزہ لے کر دیکھا جائے کہ تحریکاتِ اسلامی کی جدوجہد میں مقصد کا تصور (vision) کہاں تک واضح ہے۔ یہ کہیں دھندلا تو نہیں گیا اور مقصد اور ہدف کے پیشِ نظر جو حکمت عملی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وضع فرمائی تھی کیا اس میں تبدیلیِ حالات اور وقت کے لحاظ سے کسی تبدیلی کی ضرورت ہے۔
آج بھی تحریکِ اسلامی کو نظامِ عدل کے قیام کے لیے اس ترتیب کو پیش نظر رکھنا ہوگا لیکن مدینہ میں برپا ہونے والے اسلامی انقلاب سے سبق لیتے ہوئے تمام ذہنی مغالطوں سے آزاد ہوکر اپنے تصورِ تبدیلی و اصلاح کو محض اپنے معاشرے اور ملک تک محدود نہیں رکھنا ہوگا۔ مدینہ میں قائم ہونے والا نظامِ عدل ایک عالمی نظامِ عدل کے قیام کا پیش خیمہ تھا۔ مکہ کے راستے مدینے میں قائم ہونے والی اسلامی ریاست ایک عرب مملکت نہ تھی، بلکہ تمام دنیا سے ظلم، استحصال، کفر اور طاغوت کو ختم کرنے کی ایک تحریک تھی۔ اس کا ہدف عالم گیر عدل کا قیام اور تمام انسانوں کو سامراجیت، نسلی عصبیت، علاقائی محدودیت، لسانی قوم پرستی اور انسانوں کی انسانوں پر حاکمیت سے نجات دلاکر خالق کائنات کی حاکمیت اور العادل کے دیے ہوئے نظامِ عدل و توازن کو دنیا کے تمام گوشوں میں قائم کرنا تھا۔
یہ عالم گیر تحریک براے قیامِ عدل اُس تصور کی ضد ہے جو عالم گیریت (globalization) کے نام پر سامراجی نظام نافذ کرنے میں مصروفِ عمل ہے۔ آج دنیا جس چیز کو عالم گیریت کے نام سے پکارتی ہے وہ انسانوں کو انفرادی آزادی سے محروم کرنے، مغرب کی بزعمِ خود ’’اعلیٰ اور برتر تہذیب ومعاشرت‘‘ کو دیگر اقوام پر نافذ کرنے، اور ان کی معاشی، سیاسی اور ثقافتی آزادی کو چند عالمی اداروں کا غلام بنانے کادوسرا نام ہے۔ اسلام جس عالم گیر نظامِ عدل کی دعوت دیتا ہے وہ انفرادی آزادی، آزادیِ راے، آزادیِ عمل، آزادیِ دین اور انسانی حقوق کی فراہمی پر مبنی ہے۔
اس نظام کے قیام کے لیے ہرفرد کو خواہ مرد ہو یا عورت، بچہ ہو یا بوڑھا، اپنی ذمہ داری کو محسوس کرتے ہوئے اُٹھنا ہوگا، اور ظلم و استحصال اور غربت و بے روزگاری سے متاثر افراد کے حقوق کی بحالی کے لیے اپنے آپ کو منظم کرکے بھلائی کو غالب کرنے اور برائی کو مٹانے میں اپنا حصہ ادا کرنا ہوگا۔ یہ کام محض نظری باتوں سے نہیں ہوگا۔ اس کے لیے انسانی وسائل کو یک جا کرنا ہوگا، اور انسانوں کی قوت کو منظم کر کے نظامِ عدل کے قیام کے لیے اپنا سب کچھ قربان کرنا ہوگا۔