۲۰۰۴ء سے شروع ہونے والے ڈرون حملے پاکستان کے خلاف ایک قسم کے اعلانِ جنگ کے مترادف تھے۔ راے عامہ کے ہر جائزے میں ۹۰ فی صد سے زیادہ پاکستانیوں نے ان کی مخالفت کرتے ہوئے، انھیں اپنی حاکمیت پر حملہ اور ناقابلِ برداشت قرار دیا ہے۔ پارلیمنٹ نے اپنی ۲۲؍اکتوبر ۲۰۰۸ء اور ۱۴مئی ۲۰۱۱ء کی قراردادوں میں صاف الفاظ میں ان حملوں کی مذمّت کی ہے اور حکومت کو ان کو ناکام بنانے کی واضح ہدایت دی ہے لیکن حملوں کا یہ سلسلہ نہ صرف جاری ہے، بلکہ اس میں اضافہ ہوا ہے اور اب کھل کر امریکا یہ کہہ رہا ہے کہ یہ حملے ہرصورت میں جاری رہیں گے۔
لندن میں قائم ایک تحقیقی ادارے Bureau of Investigation Journalism نے اپنی رپورٹ (اگست ۲۰۱۱ء) میں پوری تحقیق، دستاویزات اور عینی شہادتوں کی بنیاد پر دعویٰ کیا ہے کہ ۲۰۰۴ء سے اب تک سی آئی اے نے ۲۹۱ ڈرون حملے کیے ہیں جن میں سے ۲۳۶ صدراوباما کے دورِ حکومت اور پاکستان میں زرداری گیلانی حکومت کے دور میں ہوئے ہیں،جب کہ بش اور جنرل پرویز مشرف کے دور میں حملوں کی تعداد ۵۵ تھی۔ تاحال ان حملوں کے نتیجے میں ۲ہزار۸ سو ۶۳ افراد ہلاک ہوئے ہیں جن میں سے اصل جنگ جوؤں (militant fighter ) کی تعداد ۱۶۴ تھی جن کے کوائف موجود ہیں۔ باقی سب یا عام شہری ہیں یا وہ افراد جنھیں low-ranking militant یا نیم فوجی دستے کہا گیا ہے، جب کہ متعین طور پر عینی شاہدوں اور متعلقہ افراد کے بارے میں حاصل شدہ کوائف کی روشنی میں ۷۷۵ عام شہری تھے جن کا کوئی دُور کا بھی رشتہ عسکریت پسندوں سے نہ تھا۔ ان میں واضح طور پر نابالغ بچوں کی تعداد ۱۶۸ تھی جن کے سارے کوائف اس ادارے کے پاس ہیں اور جن میں سے کچھ کی تصاویر لندن کے اخبار گارڈین نے شائع کی ہیں۔ (ملاحظہ ہو: گارڈین، ۱۱؍اگست ۲۰۱۱ء)
یہ رپورٹ اس حیثیت سے بہت اہم ہے کہ اس نے امریکی حکومت کے چوٹی کے ترجمان جان برے من کے اس دعوے کی قلعی کھول دی ہے کہ ڈرون حملوں سے کوئی عام شہری ہلاک نہیں ہوا، صرف عسکریت پسندوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ خود امریکا کے ایک سابق فوجی ایڈمرل بلیر نے ڈرون حملوں کی افادیت کو چیلنج کیا ہے اور امریکا کو اس سلسلے میں اپنی حکمت عملی بدلنے کا مشورہ دیا ہے۔ (ملاحظہ ہو، نیویارک ٹائمز، ۱۵؍اگست ۲۰۱۱ء)
ستم ظریفی ملاحظہ ہو کہ ایک طرف امریکی ترجمان یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ ڈرون حملوں سے کوئی عام شہری ہلاک نہیں ہو رہا لیکن جب امریکا کے قانون Freedom of Information Act کے تحت امریکی شہریوں اور اداروں نے اس سلسلے میں تمام معلومات فراہم کرنے کا مطالبہ کیا تو ’قومی سلامتی کو خطرے‘ کا بہانہ بناکر معلومات دینے سے انکار کر دیا گیا۔ اس وقت خود امریکا میں ان حملوں کے خلاف آوازیں اُٹھ رہی ہیں اور انھیں بین الاقوامی قانون اور انسانی حقوق کے خلاف ہی قرار نہیں دیا جا رہا بلکہ ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کی حکمت عملی سے بھی متصادم اور دنیابھر میں امریکا کے خلاف جذبات کو بھڑکانے کا ذریعہ قرار دیا جا رہا ہے۔ اس سلسلے میں ایک مؤثر محاذ Compaign for Innocent Victims of Conflict (CIVIC، تنازعات کی شکار معصوم جانوں کے بچائو کی تحریک)کے نام سے کام کر رہا ہے اور راے عامہ کو ہموار کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اسی طرح انگلستان میں تفتیشی صحافت کا برطانوی بیورو بھی خدمت انجام دے رہا ہے اور وکلا کی ایک تنظیم نے سی آئی اے کے خلاف اس کی ان سرگرمیوں کی بنیاد پر عدالتی چارہ جوئی بھی شروع کر دی ہے۔ اس وقت سی آئی اے چھے مسلمان ممالک (افغانستان، عراق، پاکستان، صومالیہ، یمن اور لیبیا) میں ڈرون حملوں کی شکل میں جنگی اقدام کر رہی ہے، اور اس حوالے سے اب مغرب کے دانش وروں کا ایک طبقہ بھی یہ سوال اُٹھا رہا ہے اور پاکستان کے حوالے سے صاف پوچھ رہا ہے (اور اس کا جواب سی آئی اے کو دینا چاہیے )کہ آخر یہ کیا تماشا ہے کہ امریکی حکومت پاکستان کے خلاف ایک غیر علانیہ جنگ لڑ رہی ہے، جو نام کی حد تک امریکا کا حلیف ہے۔ (گارڈین، ۱۱؍اگست ۲۰۱۱ء، سی آئی اے کی ڈرون جنگ کے سویلین شکار، مضمون اسٹفورڈ سمتھ)
شرم کا مقام ہے کہ ایک طرف غیر یہ سوال اُٹھا رہے ہیں مگر دوسری طرف پاکستانی عوام کے پُرزور مطالبے اور پارلیمنٹ کی واضح ہدایات کے باوجود پاکستانی حکومت اور اس کی فوجی قیادت، ڈرون حملوں کو روکنے کی صلاحیت رکھتے ہوئے بھی، اس سلسلے میں ’ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم‘ کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ بے غیرتی کی انتہا ہے کہ کچھ سیاسی قائدین اور نام نہاد دانش ور ان کی افادیت کی بات کر رہے ہیں، اور ایک فوجی ترجمان نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ سارے ڈرون حملے صرف دہشت گردوں کو نشانہ بنارہے ہیں اور عام شہریوں کی ہلاکتیں نہیں ہورہی ہیں___ یعنی سی آئی اے کے اس جھوٹے دعوے کی بازگشت فراہم کر رہے ہیںجس کے غلط ہونے کا اعتراف خود یورپی اور امریکی ذرائع کر رہے ہیں۔
ایک طرف امریکا کی یہ کھلی جارحیت ہے اور اس کے ساتھ پاکستانی فوجی امداد کی بندش اور نئی حقارت آمیز شرائط مسلط کرنے کا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ ’ڈو مور‘ کا منتر اپنی جگہ ہے اور شمالی وزیرستان میں فوج کشی اور دوسرے مطالبات کی بھرمار ہے، اور دوسری طرف حکومت کی بے حسی ملاحظہ ہو کہ وہ دوٹوک انداز میں امریکا سے تعلقات پر نظرثانی اور اس کی دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ سے ملک کو نکالنے کے لیے فوری اور مؤثر اقدام کرنے سے پہلوتہی کر رہی ہے۔ ان حالات میں اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ تمام محب وطن سیاسی قوتیں عوامی تحریک کے ذریعے حکومت سے نجات یا خارجہ پالیسی خصوصیت سے امریکا کے بارے میں پالیسی میں بنیادی تبدیلی کے لیے جمہوری قوت کو متحرک اور مؤثر کریں۔
اس سلسلے میں ہر دن ہم پر امریکی غلامی کی گرفت مضبوط تر کرنے کا سبب بن رہا ہے۔ اس وقت کراچی میں جو خونیں ڈراما رچایا جا رہا ہے، اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ہمیں امریکا کی غلامی کے خلاف جدوجہد سے توجہ ہٹا کر ایک اندرونی مسئلے میں الجھا دیا جائے، حالانکہ کراچی میں بھی بیرونی ہاتھ اسی طرح اپنی کارفرمائیاں دکھا رہا ہے جس طرح فاٹا اور بلوچستان میں۔ ان حالات میں ہم قوم کو اپنی آزادی اور حاکمیت کے تحفظ کے لیے اُٹھ کھڑے ہونے کا پیغام دینا اپنا دینی اور قومی فرض سمجھتے ہیں ؎
اُٹھو وگرنہ حشر نہ ہوگا پھر کبھی
دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا