ستمبر ۲۰۱۱

فہرست مضامین

کتاب نما

| ستمبر ۲۰۱۱ | کتاب نما

Responsive image Responsive image

ماہ نامہ تعمیر افکار (قرآن کریم نمبر اوّل و دوم)، مدیر: سید عزیز الرحمن۔ ناشر: زوار اکیڈمی پبلی کیشنز، ۴/۱۷- اے، ناظم آباد نمبر۴، کراچی-۷۴۶۰۰۔ فون: ۳۶۶۸۴۷۹۰-۰۲۱۔ صفحات اوّل:۷۱۴، دوم:۷۴۶۔ قیمت: ۵۹۵ روپے فی جلد۔

اُردو زبان اس اعتبار سے بھی دنیا کی ایک بڑی زبان ہے کہ قرآنِ حکیم، سیرتِ رسولؐ اور علومِ اسلامیہ سے متعلق جتنا بڑا، متنوع اور مختلف الجہات ذخیرۂ مطبوعات اُردو زبان میں موجود ہے (باستثناے عربی) کسی اور زبان میں موجود نہیں ہوگا۔ قرآن حکیم کے تعلق سے اُردو مطبوعات میں رسائل و جرائد کے ایک سو سے زائد قرآن نمبر خاص اہمیت رکھتے ہیں۔ اس سلسلے کی تازہ کڑی دو جِلدوں پر مشتمل تعمیرافکار کا زیرنظر خصوصی شمارہ ہے۔

اسے دیکھتے ہوئے ہمیں ۴۱ سال قبل کا سیارہ ڈائجسٹ کاقرآن نمبر یاد آگیا جو ۱۹۷۰ء میں تین خوب صورت جِلدوں میں غیرمعمولی اہتمام سے شائع کیا گیا تھا جس میں کثیرتعداد میں علمی اور تحقیقی مضامین کے ساتھ، متعدد مشاہیر کے مصاحبے (انٹرویو)، سچی کہانیاں اور لکھنے والوں کے ذاتی مشاہدات بھی شامل تھے۔ بلامبالغہ کہا جاسکتا ہے کہ ویسی تحقیق، محنت، اہتمام، تیاری اور دل چسپ لوازمے کے اعتبار سے شاید ہی کوئی اور قرآن نمبر اس سے لگا کھاتا ہو۔ اسے کراچی سے پروفیسر خورشید احمد کی نگرانی و کاوش سے اور لاہور سے جناب نعیم صدیقی کی زرخیز ذہنی و قلبی آبیاری سے مرتّب کیا گیا تھا۔ [پروفیسر اقبال جاوید صاحب نے خورشیدعالم کو اس کا ’مدیر‘ لکھا ہے (زیرتبصرہ تعمیرافکار کا قرآن نمبر، ص ۶۸۴) مگر مذکورہ بالا قرآن نمبر کی تیاری میں خورشیدعالم کی کسی کاوش کا دخل نہ تھا، وہ فقط سیّارہ ڈائجسٹ کے عام شماروں کے مدیر تھے ]

تعمیرافکار کے زیرتبصرہ قرآن نمبر کی مجلسِ ادارت نے بھی خاصی محنت اور کوشش سے نئے پرانے مطبوعہ اور غیرمطبوعہ، طبع زاد اور ترجمہ شدہ ہر نوع کے مضامین جمع کیے ہیں۔ بلاشبہہ بقول مدیر: ’’قرآن کریم کے موضوعات، مضامین و مباحث اور اس کے علمی نکات کبھی نہ ختم ہونے والا سلسلہ‘‘ ہے۔ چنانچہ زیرنظر اشاعت کو مدیرمحترم نے ’’ایک عاجزانہ کاوش کے طور پر پیش کیا ہے‘‘۔ لکھنے والوں میں نام ور علماے کرام کے ساتھ واجب الاحترام اور معروف مفسرین عظام،  اُردو ادب اور علومِ اسلامیہ کے بلندپایہ محقق، نقاد، اور بعض نسبتاً نئے لکھنے والے اہلِ قلم شامل ہیں۔ کوشش کی گئی ہے کہ قرآنی موضوعات کے علاوہ اس ضمن میں بعض اکابر کی خدماتِ قرآنی کا تجزیہ اور مختلف زبانوں (ہندی، فارسی، انگریزی، سندھی اور پشتو) میں قرآن حکیم کے تراجم و تفاسیر کا جائزہ بھی پیش کیا جائے۔ بعض مستشرقین کے تراجم قرآن پر نقد کرتے ہوئے، ان کی دانستہ تحریفات اور نادانستہ کوتاہیوں کی نشان دہی کی گئی ہے۔

آخر میں ایک تو پروفیسر اقبال جاوید صاحب کا مرتّبہ اشاریہ شامل ہے، اوّل: رسائل و جرائد کے ۹۹ قرآن نمبروں کا (بہ ترتیبِ زمانی) اشاریہ، جو ایک قابلِ قدر تحقیق ہے۔ دوسرا ادارے کا تیار کردہ اشاریہ: ’مضامینِ اشاریہ قرآن‘ ہے، مگر یہ مضامینِ قرآن کا اشاریہ نہیں ہے بلکہ قرآن کے تعلق سے مختلف رسائل میں مطبوعہ مقالات، مضامین، تفاسیر اور تبصروں وغیرہ کی مصنف وار فہارس ہیں اور وہ بھی ناتمام اور اس اعتبار سے ناقص ہے کہ خود مرتّبین کے بقول: ’’اس میں بھی بعض رسائل کو شامل نہیں کیا جاسکا‘‘ (ص ۶۸۹)۔ (رفیع الدین ہاشمی)


عہد نبویؐ کا نظامِ تعلیم، غلام عابد خان۔ ناشر: زاویہ پبلشرز، داتا دربارمارکیٹ، لاہور۔ صفحات: ۲۷۲۔ قیمت: درج نہیں۔

کتاب میں عہدنبویؐ کے مبارک دور میں تعلیم سے متعلق مختلف پہلوئوں کااحاطہ کیا گیا ہے۔ نصابِ تعلیم کا باب بہت دل چسپ ہے۔ اس میں سورئہ بقرہ کی آیات ۱۱-۱۵ سے نصاب اخذ کیا گیا ہے۔یہ نصاب قراء ت قرآن، تزکیہ، تعلیمِ کتاب، تعلیمِحکمت، علومِ نو کی تعلیم، عسکری تربیت پر مشتمل تھا۔علومِ نو کے حوالے سے عبرانی اور دوسری غیرملکی زبانیں سیکھنا، خوش نویسی، تقسیمِ ترکہ کی ریاضی، بیماری و طب، علمِ ہیئت، علم الانساب وغیرہ شامل تھے اور عسکری تربیت میں تیراندازی، گھڑسواری، اُونٹ سواری، تیراکی وغیرہ شامل تھی۔

انسان کے مختلف نظام ہاے زندگی، مثلاً اخلاقی، معاشرتی، معاشی، سیاسی، تعلیمی وغیرہ   اس وقت تک اسلامی نہیں ہوسکتے جب تک کہ یہ اسلامی عقائد، یعنی توحید، رسالت اور آخرت کے تصورات پر استوار نہ ہوں۔ یہ بات بڑی وضاحت سے باب دوم میں اسلامی نظام تعلیم کے تحت بیان کی گئی ہے۔ بعض بوجھ بجھکڑوں کا خیال ہے کہ تعلیم کے ساتھ صرف دینیات کا دم چھلّا لگادینے سے تعلیمی نظام اسلامی بن جاتاہے، اور اب تو صورت یہ ہے کہ اگر جہاد کی قرآنی آیات اور    ارشاداتِ نبویؐ کو نصابی کتب سے نکال دیاجائے اور توحید، آخرت اور رسالت کو نظرانداز کردیا جائے تو پھر بھی تعلیم اسلامی ہی رہتی ہے۔

رسول کریمؐ نے یقینا ایک ایسے تعلیمی نظام کی بنیاد رکھی تھی جس کی بنیاد پر ایک تعلیمی انقلاب برپا ہوا۔ مصنف کے بقول: رسول کریمؐ نے جس تعلیمی انقلاب کی بنیاد رکھی وہ بتدریج ارتقا پذیر تھا۔ ۲۳سال کی قلیل مدت میں ان باتوں کی اساس رکھ دینا کیا کچھ کم تھا؟ جس کے دُور رس نتائج سے ساری دنیانے رہنمائی لی اور آج کا ترقی یافتہ دور اسی کا مرہونِ منت ہے۔ (ص ۱۲۳)

رسول کریمؐ کو ربِ رحیم نے اقراء کی تعلیم سے نوازا۔ پھر دو سال بعد حکم دیا کہ عوام النّاس کو اس تعلیم سے بہرہ ور کیا جائے، لہٰذا آپؐ ہر ہرشخص کے پاس خود تشریف لے گئے، مجمعِ عام میں تعلیم پہنچائی، بااثر لوگوں کی مجالس میں تعلیم کا انتظام کیا۔ اس طرح آپؐ نے ایک سفری تعلیمی ادارے کی ذمہ داری بڑی خوبی سے نبھائی اور اس میںمنہمک رہے۔ آپؐ کی تعلیمی پالیسی کا یہ ایک اہم نکتہ ہے۔

اس کتاب میں طول طویل اقتباسات بہت زیادہ ہیں جو گراں گزرتے ہیں۔ پھر کئی مقامات پر قرآنی آیات میں اغلاط ہیں، جب کہ انگریزی ہندسے طبیعت پر شاق گزرتے ہیں۔ تاہم، کتاب ایک اچھی، سلجھی ہوئی تحریر، قابلِ اعتماد، علمی معلومات کے ساتھ پیش کی گئی ہے۔ (شہزادالحسن چشتی)


Medical Education and Professional Ethics: Islamic Insight  [میڈیکل تعلیم اور پروفیشنل اخلاقیات: اسلامی نقطۂ نظر]، مرتب:  ڈاکٹر حسّام فاضل۔ اہتمام: فیڈریشن آف اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشنز۔ ناشر: جورڈن سوسائٹی فار اسلامک میڈیکل سائنسز، عمان، اُردن[fimaweb.net]۔ صفحات: ۱۷۴۔ قیمت: درج نہیں۔

علاج معالجہ انسانی زندگی کی ناگزیر ضرورت ہے۔ مریض معالج کے پاس آتا ہے، تو گویا اپنی زندگی اس کے سپرد کر دیتا ہے۔ اس لیے معالج کو ایک مونس، بے لوث، ہمدرد اور امین شخص کا کردار ادا کرنا چاہیے، مگر بے رحم مادہ پرستی کی فضا نے بیش تر معالجین کو دولت پرستی اور سنگ دلی کی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ ایک مسلمان معالج کا اس صورت حال پر رنجیدہ اور حالات کی بہتری کے لیے فکرمند ہونا فطری امر ہے، مگر اس اُلجھی ڈور کا سرا پکڑنے والے خال خال نظر آتے ہیں۔

اس پس منظر میں امام حسن البنا، علامہ محمد اقبال، سیدابوالاعلیٰ مودودی اور سید قطب شہید کی دینی و ملّی فکر سے فیض یافتہ ڈاکٹروں نے اپنے اپنے خطۂ زمین میں، یا جہاں جہاں وہ پہنچے، اس افسوس ناک صورت حال کو بہتر بنانے کی کوشش کی۔ اجتماعی جدوجہد کرتے ہوئے ڈاکٹروں کی تنظیمیں اور انجمنیں بنائیں، جن کا مطمحِ نظر گریڈوں کی دوڑ اور تنخواہوں کے فراز کے پیچھے لپکنا نہیں، بلکہ اسلام کے مطلوب معالج کی فکری، دینی اور عملی تربیت ہے۔ انھی تنظیموں نے مل کر دسمبر ۱۹۸۱ء میں اورلینڈ، فلوریڈا (امریکا) میں فیڈریشن آف اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشنز (FIMA) قائم کی جس نے دنیا کے مختلف گوشوں میں پھیلی راست فکر اسلامی میڈیکل تنظیمات کو ایک لڑی میں پرو دیا۔

زیرنظر کتاب درحقیقت اسی قابلِ قدر تنظیم کی تعمیری سوچ اور علمی رہبری کا مظہر ہے۔ اگرچہ کتاب کے عنوان سے نفسِ مضمون کی وضاحت ہوجاتی ہے، تاہم مندرجات کے تعارف کے لیے مختلف ابواب کے موضوعات اس طرح ہیں: lجنوب مشرقی ایشیا کے میڈیکل نصاب میں اسلامی اقدار کو سمونے کا تجربہ lعلاج معالجے سے قبل بنیادی میڈیکل تدریس اور میڈیکل نصاب میں اسلامی فکر کی ترویج lمیڈیکل نصاب کی تدریس میں مسائل و مشکلات کا اسلامی تناظر میں حل lمیڈیکل کی پیشہ ورانہ تدریس، اسلامی نقطۂ نظر سے lاسلامی یونی ورسٹی ملایشیا میں میڈیکل کی تدریس پر آموزگار lاسلامی تصورِ طبی تعلیم اور حیاتی اخلاقیات lاسلامی اصولوں کی روشنی میں میڈیکل تعلیم سے متعلق اخلاقی امور lمسلمانوں کا تحقیق میں حصہ: ماضی، حال اور مستقبل lمعالجین بطور مؤثر تحقیق کار lکلینیکل تحقیق اسلامی تناظر میں lمیڈیکل تعلیم میں معیار کا مسئلہ ، اسلامی مناسبت سے۔

سائنس دان لفظوں کے استعمال میں خاصے کفایت شعار اور ہدف کی براہِ راست وضاحت پر توجہ مرکوز رکھتے ہیں۔ چنانچہ اتنے اہم اور وسیع موضوعات کو ڈاکٹر صاحبان نے کم سے کم الفاظ میں سمونے کی کوشش کی ہے۔ مقصدیت، خدمت اور دین و دنیا میں کامیابی کے لیے فکرمندی پر مبنی، پیشہ ورانہ رہنمائی سے موسوم یہ کتاب تقاضا کرتی ہے کہ میڈیکل کی تعلیم و تدریس سے وابستہ ہراستاد کے زیرمطالعہ آئے۔ اگر اسے اُردو میں ترجمہ کرلیا جائے تو اس خطۂ ارضی میں استفادے کا دائرہ زیادہ وسیع ہوجاتا ہے۔ کتاب کی جاذبِ نظر پیش کش پر ’فیما‘ اور پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (PIMA) تحسین کے مستحق ہیں۔ (سلیم منصور خالد)


حرفِ تمنا، عبدالرحمن بزمی مرحوم (مرتب: حفیظ الرحمن احسن)۔ ملنے کا پتا: منشورات، منصورہ، ملتان روڈ، لاہور-۵۴۷۹۰۔ صفحات: ۲۵۶۔ قیمت: ۲۶۰ روپے۔

کتاب کا نام عبدالرحمن بزمی (۱۹۳۰ء-۲۰۰۵ء) کے ایک شعر    ؎

نہیں ہے انتہاے شوق بزمی
مگر حرفِ تمنا مختصر ہے

سے ماخوذ ہے۔ یہ مجموعہ شاعر کی وفات کے چھے برس بعد ان کے احباب (رفیع الدین ہاشمی،  جاوید اقبال خواجہ، حفیظ الرحمن احسن) کی کوششوں سے منظرعام پر آیا ہے۔ برنی صاحب کی ولادت کینیا میں ہوئی اور عمر کا بیش تر حصہ انگلستان میں گزرا مگر وہ اُردو زبان اور پاکستان و پاکستانیوں سے  بے حد انس رکھتے تھے۔ برطانیہ میں رہتے ہوئے بھی بزمی صاحب کے تعلقات اُردو دان طبقے اور پاکستانی احباب سے استوار رہے۔ اس کی ایک مثال حفیظ جالندھری سے ان کے دوستانہ مراسم کی استواری ہے۔ اسی طرح وہ ماہرالقادری، حفیظ تائب، جعفر بلوچ، پروفیسر محمد منور، ڈاکٹر وحید قریشی، ضمیرجعفری، مشفق خواجہ اور صلاح الدین شہید سے بھی ذاتی مراسم رکھتے تھے۔

حرفِ تمنّا بزمی صاحب کی قادرالکلامی کا بھرپور اظہار ہے۔ بیش تر اصنافِ شاعری (نعت، سلام، غزل، نظم، قطعہ، مرثیہ) حرفِ تمنّا کا حصہ ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف اوقات میں معروف دینی، علمی، سیاسی و ادبی شخصیات کی نذر کی گئی منظومات بھی اس مجموعے میں شامل ہیں۔ متفرق موضوعات اور مختلف تہنیتی مواقع پر کہی جانے والی شعری تخلیقات، اساتذہ کی زمینوں میں غزلیات بھی اس مجموعے میں موجود ہیں۔ بیش تر منظومات و غزلیات کے بعد تاریخِ تخلیق بھی درج ہے، اور وہ موقع محل بھی بیان کیا گیا ہے جہاں یہ تخلیق پیش کی گئی۔ غرض اس شعری مجموعے میں ہرصاحب ِ ذوق کے لیے شعر کے مذاق کا کچھ نہ کچھ سامان موجود ہے۔ بزمی صاحب کی شاعری پر سب سے زیادہ اثر علامہ اقبال کا نظر آتا ہے۔ وہ اقبال کے فکری قافلے میں شامل تھے۔ اس تعلق سے حرفِ تمنّا میں ۱۰، ۱۲ نظمیں موجود ہیں۔

کتاب کے آغاز میں جاوید اقبال خواجہ کا ایک مضمون ’بزمی صاحب: باتیں اور یادیں‘ شامل ہے۔ حفیظ الرحمن احسن نے دیباچے میں ان کی شاعری کا بھرپور تنقیدی تجزیہ پیش کیا ہے۔ دونوں مضمون صاحب ِ مجموعہ کی شخصیت اور شاعری کی تفہیم میں معاون ہیں۔ کتاب کے آخر میں رفیع الدین ہاشمی کا مختصر اختتامیہ بھی شامل ہے۔ (ساجد صدیق نظامی)


سفرِآخرت ، نجیب کیلانی، ترجمہ: عبدالحمیداختر ندوی۔ ناشر: مکتبہ المصباح، ۱-اے، ذیلدار پارک، اچھرہ، لاہور۔ فون: ۳۷۵۸۶۸۴۶-۰۴۲۔ صفحات: ۳۳۶۔ قیمت: درج نہیں۔

مصری ادیب نجیب کیلانی کے بارے میں پڑھا تو تھا کہ عرب دنیا کے ممتاز ناول نگار ہیں لیکن ان کی اخوان المسلمون سے وابستگی کا اندازہ اس ناول کو پڑھ کر ہی ہوا۔ ناول کا موضوع کچھ بھی ہو، اس کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ قاری کو اپنی گرفت میں لے لے اور شروع کرے تو ختم کیے بغیر نہ رہے۔ یہ خوبی اس میں بدرجۂ اتم موجود ہے۔

ناول کا عنوان رحلت الی اللّٰہ (ترجمہ: سفرِآخرت) میںکوئی گہری معنویت ضرور ہوگی لیکن کوئی ناول کاشوقین اس جیسے عنوان کی کتاب کو کیوں ہاتھ میں لے! یہ ناول مصر میں جمال عبدالناصر کے عہدصدارت میں اخوان المسلمون پر کیے گئے ظلم و ستم کی داستان ہے۔ عطوہ ملوانی مصر کی جیل کا سربراہ ہے، ۳۵ سال کا ہے، اس کی شادی نبیلہ سے طے ہے۔ عطوہ چاہتا ہے کہ نبیلہ شادی سے پہلے ہی اپنے کو اس کے حوالے کر دے۔ پورے ناول کی کہانی یہ ہے کہ وہ کس طرح اپنے کو اس سے بچاتی ہے۔ اور اس کے دوران ہی جیل کے بے قصوروں کی پکڑدھکڑ، نت نئے ٹارچر کے مناظر اور وہ سب کچھ جو انسان دیکھ سکتا ہے اور سن سکتا ہے بیان کیے گئے ہیں۔

قیدیوں کے ساتھ جو غیرانسانی سلوک ہوتا ہے،اخوان کس صبروتوکل سے اسے سہتے ہیں، عجب عجب مناظر ہیں۔ عطوہ کا محبوب کتا بیمار ہوجاتا ہے تو اخوان ڈاکٹر اس کا علاج کرتا ہے اور قیدیوں میں کسی شاعر کو اس کتے کا قصیدہ لکھنے پر مجبور کیا جاتا ہے، جو سب کو کورس میں گانا پڑتا ہے___ نجیب کیلانی نے کہانی تو بیان کر دی ہے لیکن تبصرہ نگار اس کی جھلک بھی نہیں دکھا سکتا۔

۶۳برس کے بعد اخوان کو مصر میں آزادی سے سانس لینے کا موقع ملا ہے۔ نجیب کیلانی نے مختلف ممالک کے دورے کیے اور مختلف تہذیبوں اور معاشرتوں کا مطالعہ کیا۔ نائیجیریا کے انقلاب کے بعد اور ایتھوپیا کے دورے کے بعد فلسطین کے قیام کے دوران خصوصی ناول لکھے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی اُن کی بہت سی تصانیف ہیں اور کئی ادبی انعامات بھی ان کو ملے ہیں۔ یقینا وہ اسلامی ادب کے میدان کی منفرد شخصیت ہیں۔ نجیب کیلانی کے دوسرے ناولوں کے ترجمے بھی پیش کرنے چاہییں۔ اس وقت جب کہ ’عرب بہار‘ کے بعد اخوان المسلمون توجہ کا مرکز ہے، اس ناول کو ہرپڑھے لکھے فرد تک پہنچاناچاہیے۔(مسلم سجاد)


سیّد مودودیؒ، ایک مشاہدہ، ایک موازنہ، ڈاکٹر مالک بدری۔ ناشر: اسلامک ریسرچ اکیڈمی، اکیڈمی بُک سنٹر، ڈی-۲۵، بلاک ۸، فیڈرل بی ایریا، کراچی- ۷۵۹۵۰۔ صفحات: ۴۸۔ قیمت: ۴۰ روپے۔

سوڈان کے عالم ڈاکٹر مالک بدری نے مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ سے اپنے تعلق کے آغاز و ارتقا پر کئی سال پہلے انگریزی میں ایک مضمون لکھا تھا۔ سید مودودیؒ کی کرشماتی شخصیت اور ان کی پُرتاثیر کلامی نگارشات پر یہ ایک عمدہ تحریر ہے۔ اس کا اُردو ترجمہ ماہنامہ ترجمان القرآن کی سیدمودودیؒ پر اشاعتِ خاص میں شائع ہوا (مئی ۲۰۰۴ء)۔ اب ادارہ معارف اسلامی کراچی نے کسی اظہارِ تشکر کے بغیر زیرنظر کتابچے کی شکل میں شائع کیا ہے۔

مصنف پہلے پہل ۵۰ کے عشرے میں امریکن یونی ورسٹی بیروت کے زمانۂ طالب علمی میں سید مودودی سے آشنا ہوئے تھے۔ ان دنوں وہ اخوان المسلمون سے متاثر تھے مگر اخوان کی بعض پالیسیوں کے بارے میں شدید بے اطمینانی کا شکار تھے۔ اتفاقاً رسالہ دینیات (کا انگریزی ترجمہ) ان کے ہاتھ لگا، بس اسی تحریر نے انھیں سید مودودیؒ کا گرویدہ بنا دیا۔ کہتے ہیں: ’’سید مودودیؒ نے میرے اس تمام ذہنی اور روحانی خلجان کو دُور کر دیا جس کا شکار میں امریکی یونی ورسٹی کے نام نہاد اسلامی فلسفہ کورس پڑھنے کے دوران ہوچکا تھا‘‘۔

مالک بدری نے مولانا مودودی سے خط کتابت کی اور پھر اُن سے ملاقات کے لیے، اپنے ایک دوست کے ساتھ کویت سے بذریعہ پاکستان کا مشقت بھرا سفر کیا ۔ یہاں کچھ عرصہ رہ کر مولانا کے شب و روز اور اس کے ساتھ جماعت اسلامی کے طریقۂ کار کا مطالعہ کیا۔ مولانا سے ملاقاتیں رہیں۔ اس مضمون میں وہ ہر جگہ ان کا ذکر اپنے ایک محسن اور اپنی محبوب شخصیت کے طور پر کرتے ہیں۔ مالک بدری نے سید مودودی کو ایک نابغۂ روزگار شخصیت کے طور پر پیش کیا ہے اور ان کی  بعض خوبیوں کا ذکر کیا۔ مضمون پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ برعظیم پاک و ہندکی اُمتِ مسلمہ نے   سید مودودیؒ کی قدر نہیں پہچانی۔ (ر- ہ )

تعارف کتب

  •  حرمین شریفین ، فضائل و آداب ،مولانا محمد عابد ندوی۔ ناشر: زم زم پبلشرز، شاہ زیب سنٹر نزد مقدس مسجد، اُردوبازار، کراچی۔ صفحات:۳۶۴۔قیمت: ۵۰۰ روپے۔[ندوۃ العلما لکھنؤ کے ناظم مولانا رابع حسنی ندوی کے مطابق مصنف عرصے سے جدہ میں مقیم ہیں اور پاک و ہند کے اُردو دان حضرات خصوصاً حجاج کی دینی اور    فقہی مسائل میں رہنمائی کا بڑا عالمانہ کام کررہے ہیں۔ یہ کتاب مکہ اور مدینہ (بشمول حرمین) کی تاریخ ہے۔  نیز اس میں حرمین کے فضائل و برکات اور جملہ متعلقات کے بارے میں احادیث و تاریخ کی مدد سے مفید لوازمہ جمع کیا گیا ہے۔ آخر میں قرآن، حدیث، فقہ، فتاویٰ، سیرت،مناسک وغیرہ جیسے موضوعات پر ۱۰۰ سے زائد مآخذ کی فہرست شامل ہے۔ کاغذ عمدہ اور طباعت معیاری ہے۔]
  •  تقریر ختم صحیح بخاری، مولانا محمد رمضان پھلپوٹو۔ ناشر: مدرسہ عربیہ مظہرالعلوم حمادیہ، کھوڑا، ضلع خیرپور میرس، سندھ۔ فون: ۳۶۰۴۰۶۱-۰۳۰۷۔ صفحات:۱۱۹۔ قیمت: ۶۰ روپے۔ [امام بخاریؒ کے اوصاف و خدمات،  صحیح بخاری کے اہم مضامین کے ساتھ ساتھ کتاب کی انفرادیت سندھی علماے کرام کی دینی خدمات کا تذکرہ ہے۔ مصنف کا کہنا ہے کہ امام بخاریؒ کے اساتذہ میں دو جلیل القدر سندھی محدثین کرام بھی شامل ہیں۔ ایک امام عبدبن حمید بن نصرالکشی اوردوسرے وکیع بن الجراح ہیں (ص ۳۰)۔ اس کے علاوہ ممتاز سندھی محدثین کا مختصر تعارف بھی دیا گیا ہے۔ کتاب کا نام حسب موضوع نہیں۔]