جماعت اسلامی ہند کی مرکزی قیادت کے ایک گلِ سرسبد اور عالمی اسلامی معاشی تحریک کے سرگرم رہنما برادر محترم ڈاکٹر فضل الرحمن فریدی طویل علالت کے بعد ۲۵ جولائی ۲۰۱۱ء کو علی گڑھ میں انتقال کر گئے___ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ۔
ڈاکٹر فریدی ان لوگوں میں سے تھے جنھوں نے اسلام کو اپنی زندگی کا مشن بنایا اور پورے خلوص، دیانت اور مکمل سپردگی کے ساتھ اپنی تمام صلاحیتیں اسی مشن کی تکمیل کے لیے وقف کر دیں اور پھر آخری لمحے تک وفاداری کے اس رشتے کو نبھایا۔ اس میں ان کے پیشِ نظر صرف اپنے رب کی خوشنودی تھی۔ ان شاء اللہ ان کا شمار ان سعید روحوں میں ہوگا جن کے بارے میں خود زمین و آسمان کے مالک نے فرمایا ہے:
مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاھَدُوا اللّٰہَ عَلَیْہِ فَمِنْھُمْ مَّنْ قَضٰی نَحْبَہٗ وَ مِنْھُمْ مَّنْ یَّنْتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوْا تَبْدِیْـلًا o (الاحزاب ۳۳:۲۳) ایمان لانے والوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جنھوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو سچ کر دکھایا ہے۔ ان میں سے کوئی اپنی نذر پوری کرچکا اور کوئی وقت آنے کا منتظر ہے۔ انھوں نے اپنے رویّے میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔
اللہ تعالیٰ ان کی خدمات کو قبول فرمائے اور انھیں جنت کے بہترین مقامات و انعامات سے نوازے___ انھوں نے ہم سب کے لیے ایک اچھی مثال چھوڑی ہے اور جو چراغ ان کے قلم اور تحریکی مساعی نے روشن کیے ہیں، وہ ان کے رخصت ہوجانے کے بعد بھی ضوفشاں رہیں گے___ ان شاء اللہ تعالیٰ!
برادرم فضل الرحمن فریدی ۴؍اپریل ۱۹۳۲ء کو مچھلی شہر جون پور، یوپی میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم جون پور میں اور اعلیٰ تعلیم الٰہ آباد یونی ورسٹی اور علی گڑھ یونی ورسٹی سے حاصل کی۔ لیکن ان کی علمی زندگی اور تحریکی جدوجہد کا رُخ متعین کرنے میں مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی کے افکار اور جماعت اسلامی ہند کے نظم سے وابستگی نے بنیادی کردار ادا کیا۔ ثانوی درس گاہ رام پور میں شرکت نے اس وابستگی کو اور پختہ کردیا۔ اس زمانے میں اصحابِ کہف کی طرح جن چند نوجوانوں نے باہر کی دنیا سے منہ موڑ کر ثانوی درس گاہ کو اپنی آماج گاہ بنایا، ان میں فضل الرحمن فریدی بھی شامل تھے۔ ان سب نے اپنے اپنے انداز میں اسلام اور تحریکِ اسلامی کی گراں قدر خدمات انجام دی ہیں اور ان کے اثرات صدقۂ جاریہ کی شکل میں تادیر جاری و ساری رہیں گے۔
فریدی صاحب سے میری پہلی ملاقات ۱۹۵۶ء میں دہلی میں ہوئی۔ میں خرم [خرم مراد] بھائی کی شادی میں شرکت کے لیے بھوپال گیا تھا۔ وہاں ہم دونوں نے دہلی اور آگرے کا سفر کیا اور فریدی صاحب، برادرم نجات اللہ صدیقی اور برادرم عرفان احمد خاں دہلی تشریف لائے اور وہاں ان سے ملاقات ہوئی۔ اس کے نتیجے میں ان سے زندگی بھر کے لیے تعلقات استوار ہوگئے۔ فریدی صاحب اور نجات اللہ صاحب نے میری طرح معاشیات کے میدان کو اختیار کیا اور اس طرح ان دونوں بھائیوں کے ساتھ مجھے بھی گذشتہ نصف صدی میں علمی اور دعوتی میدانوں میں تھوڑی بہت خدمت کی سعادت حاصل ہوئی۔ فریدی صاحب سے دوسری ملاقات ۱۹۷۶ء میں پہلی عالمی کانفرنس براے اسلامی معاشیات کے موقعے پر مکہ مکرمہ میں ہوئی۔ بعدازاں اُن کے سعودی عرب کے قیام کے دوران میں، ان سے مسلسل ملنے اور گھنٹوں تحریکی امور اور اسلامی معاشیات کے مختلف پہلوئوں پر تبادلۂ خیال کا موقع ملتا رہا۔ آخری ملاقات بحرین میں اسلامی معاشیات پر منعقد ہونے والی پانچویں کانفرنس میں ہوئی۔ اس کے بعد فقط ٹیلی فون پر رابطہ رہا۔ ۲۰۰۵ء میں دہلی میں اسلامک فنانس پر ایک کانفرنس منعقد ہونے والی تھی۔ فریدی صاحب کا بے حد اصرار تھا کہ میں اس میں کلیدی خطاب کروں لیکن ویزا نہ ملنے کے باعث مَیں دہلی نہ جاسکا اور ملاقات سے محروم رہا۔ زندگیِ نو کے وہ مدیر تھے اور اس رشتے سے ترجمان القرآن اور زندگیِ نو میں بڑا قریبی علمی تعاون رہا اور ہم ایک دوسرے کے علمی کام سے برابر استفادہ کرتے رہے۔
برادرم فضل الرحمن فریدی اُردو اور انگریزی میں ۳۰ سے زائد کتابوں کے مصنف ہیں اور ان کے سارے کام کا محور دو ہی موضوعات رہے___ اوّل: اسلامی معاشیات، دوم: تحریکِ اسلامی کی دعوت کے فکری اور عملی پہلو۔ ان کی نگاہ قدیم اور جدید دونوں علوم پر تھی اور اللہ تعالیٰ نے ان کو تجزیے اور تعبیر کی بہترین صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ معاشی تجزیے اور خصوصیت سے زری معاشیات (fiscal economics) میں ان کی خدمات بڑی گراں قدر ہیں۔ وہ اسلامی معاشیات کے اصل تصور کو نکھارنے والے لوگوں میں سے ہیں۔
میری اور نجات اللہ صدیقی بھائی کی طرح وہ ہرلمحے اس پہلو سے متفکر رہتے تھے کہ اسلامی معاشیات اپنے اصل وِژن کے ساتھ، جو اقامت ِدین کا ایک حصہ ہے، ترقی اور تنفیذ کے مراحل سے گزرے اور محض روایتی معاشیات کا ایک حصہ بن کر نہ رہ جائے۔ اسی طرح تحریکِ اسلامی اور فکرِ اسلامی کی تعبیر کا ہر وہ پہلو ان کی دل چسپی کا موضوع رہا جس کا تعلق اُمت ِمسلمہ کے اس کردار سے ہے جو اسے خصوصیت سے مسلم اقلیت والے ممالک میں ادا کرنا ہے، اور اصل مقصد سے وفاداری کے ساتھ اپنے مخصوص حالات میں اسلام کے کردار کو واضح اور متعین کرنا ہے۔
ان کی زندگی بڑی سادہ اور صاف ستھری تھی۔ فکری اعتبار سے میں نے ان کو فہم دین اور عصری مسائل کی تعبیر کے سلسلے میں بڑا بالغ نظر اور محتاط پایا۔ وہ اپنے فکری تجزیوں میں، اصل مقاصدِ شریعت سے مکمل وفاداری کے ساتھ جدید علوم سے استفادہ کرتے تھے اور اس نازک ذمہ داری کو میرے علم کی حد تک انھوں نے بڑی خوش اسلوبی سے ادا کیا۔
اللہ تعالیٰ ان کی خدمات کو شرفِ قبولیت سے نوازے اور نئی نسل کے اہلِ علم و تحقیق کو اس راستے پر چلنے کی توفیق دے جس کے نقوش علمی دنیا کے فضل الرحمن فریدی ایسے سچے خادموں نے روشن کیے ہیں، آمین ثم آمین!